Ahmadiyya National Assembly Pakistan 1974

Ahmadiyya National Assembly Pakistan 1974

احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

اللہ وسایا کی کتاب "پارلیمنٹ میں قادیانی شکست" پر تبصرہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

منکرین فیضان ختم نبوت ،جو عوام الناس میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے معروف ہیں، کے طائفہ کے ایک رکن اللہ وسایا نے ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں احمدیہ مسئلہ کے تعلق میں پہلے ۱۹۹۴ء میں ’’قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ ۔ ۱۳روزہ کا رروائی ‘‘ اور پھر ۲۰۰۰ء میں ’’پارلیمنٹ میں قادیانی شکست‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے ۔ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اس طائفہ کی فطری روش کے مطابق یہ کتاب بھی کتمان حق ،تلبیس و تحریف ،قطع وبرید اور دجل و فریب کا ایک پلندہ ہے۔ مکرم مجیب الرحمان صاحب نے، ان بے شمار سعید روحوں کے لئے جو ہر دور میں ہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہتی ہیں،ذاتی حیثیت میں، اپنی ذمہ داری پر اس کتاب پر ایک مختصرمگربھرپور تبصرہ لکھا ہے جو ان کے شکریہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہے۔ جناب مجیب الرحمان ایک معروف قانون دان ، پاکستان سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ او ربار کے سینئر رکن ہیں۔ بالخصوص بنیادی انسانی حقوق کے حوالہ سے آپ کی مساعی قابل ذکر ہیں۔ آپ متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ مل کرکام کرچکے ہیں۔ آرڈیننس (xx) کے خلاف قانونی جہد میں فیڈرل شریعت کورٹ ، عدالت ہائے عالیہ او ر سپریم کورٹ آف پاکستان میں آپ کی پیروی اسلامی فقہی لٹریچر اور عصری قوانین میں آپ کی گہری نظر اور وسیع مطالعہ کی آئینہ دار ہے۔ (مدیر)


Book Content

Page 1

احمدیه مسئله قومی اسمبلی میں اللہ وسایا کی کتاب ”پارلیمنٹ میں قادیانی شکست پر تبصرہ ▬▬▬▬▬▬▬▬ (مجیب الرحمان ایڈوکیٹ) منکرین فیضان ختم نبوت، جو عوام الناس میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے معروف ہیں، کے طائفہ کے ایک رکن اللہ وسایا نے ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں احمد یہ مسئلہ کے تعلق میں پہلے ۱۹۹۴ء میں قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ.۱۳ روزہ کارروائی“ اور پھر ۲۰۰۰ء میں پارلیمنٹ میں قادیانی شکست کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے.جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اس طائفہ کی فطری روش کے مطابق یہ کتاب بھی کتمان حق تلبیس و تحریف : قطع و برید اور دجل و فریب کا ایک پلندہ ہے.مکرم مجیب الرحمان صاحب نے ، ان بے شمار سعید روحوں کے لئے جو ہر دور میں ہمیشہ سچائی کی تلاش میں رہتی ہیں، ذاتی حیثیت میں، اپنی ذمہ داری پر اس کتاب پر ایک مختصر مگر بھر پور تبصرہ لکھا ہے جو ان کے شکریہ کے ساتھ ہدیہ قارئین ہے.جناب مجیب الرحمان ایک معروف قانون دان ، پاکستان سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ اور بار کے سینئر رکن ہیں.بالخصوص بنیادی انسانی حقوق کے حوالہ سے آپ کی مساعی قابل ذکر ہیں.آپ متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کرچکے ہیں.آرڈینینس (XX) کے خلاف قانونی جہد میں فیڈرل شریعت کورٹ عدالت ہائے عالیہ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں آپ کی پیروی اسلامی فقہی لٹریچر اور عصری قوانین میں آپ کی گہری نظر اور وسیع مطالعہ کی آئینہ دار ہے.(مدیر) 6 عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان کی طرف سے شائع کردہ جناب اللہ وسایا کی مرتبہ کتاب بعنوان ” پارلیمنٹ میں قادیانی شکست“ اس وقت ہمارے سامنے ہے.قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی اس مبینہ کارروائی کی اشاعت غیر قانونی اور بدوں اختیار و بلا اجازت افسران مجاز ہونے کی وجہ سے کسی طرح بھی ایک مستند حوالہ قرار نہیں دی جاسکتی اس قسم کی جعلسازیوں اور گمراہ کن کارروائیوں کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کی مستند کارروائی جو قانون کے مطابق لفظ بہ لفظ ریکارڈ کی گئی تھی سرکاری طور پر شائع کر دی جائے.قومی اسمبلی نے خود تو کارروائی شائع نہیں کی اور نہ ہی مجلس تحفظ ختم نبوت کی اس دیدہ دلیری اور غیر قانونی اشاعت کو قابل اعتناء سمجھا ہے.لہذا تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر ہم نے اس مبینہ کارروائی پر تبصرہ کی اشاعت کو ضروری سمجھا ہے تا کہ سند رہے.آئندہ صفحات میں اللہ وسایا کی کتاب پر ایک تبصرہ پیش خدمت ہے جس میں ان کو اپنی ہی کتاب کا آئینہ دکھایا گیا ہے.اللہ وسایا کی یہ کتاب کیوں مستند حوالہ کے طور پر استعمال نہیں کی جاسکتی، یہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے.اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق خصوصی کمیٹی احمد یہ مسئلہ پر غور کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی.لہذا ہم نے اس مضمون کے لئے اسی عنوان کا انتخاب کیا ہے.(1)....حافظہ نہ باشد جو لوگ قرآن حکیم کو غور اور تدبر سے پڑھتے ہیں ان پر یہ امرخوب روشن ہے کہ تاریخ مذاہب کے ہر دور میں جب دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بن پڑا تو ہمیشہ ہی مذہب کے ٹھیکیداروں نے سیاسی اقتدار کو اپنا حلیف و ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی مامورین کی تاریخ سے مختلف نہیں.اللہ وسایا اس بات کو تاریخ اور دنیا کی نظر سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے

Page 2

کہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی بھی ایک سیاسی طالع آزما اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے مابین ایک سازش اور گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھی.اللہ وسایا جس بت کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور وہ پارلیمنٹ جس کی قرارداد کو وہ فرمان الہی اور فرمودات رسول سے بڑھ کر کوئی چیز سمجھ بیٹھے ہیں اس کا اپنا یہ عالم ہے کہ اسے کسی پہلو را نصیب نہیں.آئے دن بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہے ، چشم بینا کیلئے پارلیمنٹ کے اس حشر میں کافی سامان عبرت موجود ہے.مگر جناب اللہ وسایا ان لوگوں میں سے ہیں جو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور کوئی تازیانہ عبرت ان کی آنکھیں نہیں کھولتا.اس اسمبلی کے نمائندوں کے بارہ میں اللہ وسایا کے ممدوح ” خادمِ اسلام“ جناب ضیاء الحق کی حکومت نے قرطاس ابیض شائع کیا.اس سے خوب ظاہر ہے کہ وہ کس کردار کے حامل، کیسے لوگ تھے اور دینی امور میں اجتہاد یا رائے دینے کے کتنے اہل تھے جنہوں نے ایک مہتم بالشان معاملہ میں مداخلت فی الدین کی جرات کی.رہ گئے جناب اللہ وسایا کے اکابرین علماء حضرات تو انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس دینی مسئلہ میں جو امداد کی وہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے.مسئلہ ختم جبوت سے متعلق تحریک کا سامنا کرنے کا تو حوصلہ ہی علماء حضرات کو نہ ہوا.ان کی علمی بے بسی اور عجز کا اعتراف تو پہلے ہی دن ہو گیا جب انہوں نے وزیر قانون کی طرف سے پیش کردہ، ختم نبوت سے متعلق قرارداد سے جان چھڑانے کی خاطر اپنی ایک الگ قرار داد پیش کر دی.قادیانیت کی جس شکست اور اپنی جس فتح کا اعلان اللہ وسایا موصوف کر رہے ہیں اس پر خود ان کے اپنے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ خدمت اسلام کی مہم میں وہ دروغگو ئی اور تلبیس اور اخفاء حق کے مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ لئے بغیر اپنی کاروائی پر اعتماد نہیں کر پا رہے.قریب نصف درجن جھوٹ تو اللہ وسایا کے رقم کردہ دیباچہ ہی سے جھانکتے نظر آتے ہیں.قطع و برید اور تحریف کا شاہکار زیر نظر کتاب کی اشاعت اول جولائی ۲۰۰۰ء ظاہر کی گئی ہے مگر اللہ وسایا صاحب کی طرف سے رقم کردہ دیباچہ کے آخر میں اس کتاب کو جدید اور خوبصورت ایڈیشن“ قرار دیا گیا ہے.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب کی اشاعتِ اول نہیں ہے.امر واقع یہی ہے کہ اس سے پہلے 1998ء میں اللہ وسایا صاحب کی طرف سے ایک کتاب ” قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ ۱۳ روزہ کارروائی کے نام سے شائع ہو چکی ہے.اس وقت اللہ وسایا صاحب نے جو مقد مہ تحریر کیا اس میں یہ لکھا:.اس وقت اسمبلی کے اراکین مفکر الاسلام مولانا مفتی محمود، شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اور دوسرے اکابر سے اسمبلی کی کارروائی کے متعلق زبانی اور تحریری جو معلومات حاصل ہوتی رہیں.ممبران اسمبلی سے سوالات و جوابات کی تفصیل قلمبند ہوتی رہی.مولانا محمد شریف جالندھری اور مولانا محمد حیات فاتح قادیان کی یادداشتوں سمیت جو کچھ بن پڑا حاضر خدمت ہے.“ گویا اس بات کے تو اللہ وسایا صاحب خود اقبالی ہیں کہ قومی اسمبلی کی تیرہ دن کی جو مبینہ کارروائی انہوں نے شائع کی تھی اسے اسمبلی کے ریکارڈ سے مرتب نہیں کیا تھا.بلکہ یہ بھان متی کا کنبہ انہوں نے زبانی اور تحریری معلومات اور مختلف اراکین سے حاصل کردہ یادداشتوں سے جوڑا تھا.حالانکہ اسمبلی کے قواعد کی رو سے موصوف کے اکابرین اللہ وسایا صاحب کو یہ معلومات مہیا کرنے کے مجاز ہی نہیں تھے.لہذا اللہ وسایا صاحب نے یا تو ان مرحوم اکابرین پر قواعد کی خلاف ورزی کا داغ لگایا ، یا خود جھوٹ کے مرتکب ہوئے.۱۹۹۴ ء کی اشاعت کے مقدمہ میں اللہ وسایا صاحب نے مزید لکھا: میں یہ تو عرض کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں کہ تحریک ختم نبوت 74 کی یہ دوسری جلد قومی اسمبلی کی مکمل کارروائی پر مشتمل ہے تاہم اگر کسی دن قدرت کو منظور ہوا اور یہ کاروائی حکومت نے شائع کر دی تو انشاء اللہ العزیز ہمیں اپنی دیانت پر اتنا اعتماد ہے کہ آپ کو سوائے تفصیل اور اجمال کے اور کوئی فرق نظر نہیں آئیگا.“ یہ ان کا دوسرا اقرار تھا کہ کارروائی مکمل نہیں بلکہ بقول انکے صرف ” اجمال“ ہے.حالانکہ در اصل جسے وہ اجمال قرار دے رہے تھے وہ اجمال نہیں قطع و برید اور تحریف کا شاہکار تھا.اب اسی کارروائی کو، جسے اجمال“ کے پردے میں شائع کیا گیا تھا بڑی ڈھٹائی سے مکمل روداد کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے.چنانچہ زیر نظر کتاب میں اللہ وسایا کا یہ دعویٰ ہے کہ: آج سے سالہا سال پہلے جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے بارہ میں ایک کیس تھا.اس کیس کی پیروی کے لئے رابطہ عالم

Page 3

اسلامی مکہ مکرمہ نے صدر پاکستان جناب محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم سے وفد بھجوانے کی درخواست کی.پاکستانی حکومت نے مولانا تقی عثمانی، جناب محمد افضل چیمہ سید ریاض الحسن گیلانی، مولانا مفتی زین العابدین جناب پروفیسر غازی محمود احمد کو افریقہ بھجوا دیا.عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ختم نبوت حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر اور عبدالرحمن یعقوب باوا کیس کی پیروی کیلئے افریقہ گئے.قومی اسمبلی میں قادیانی اور لاہوری مرزائیوں پر جو جرح ہوئی تھی جناب جنرل ضیاء الحق صاحب نے اپنے خصوصی آرڈر سے پاکستانی وفد کو اس کی مکمل کاپی فراہم کر دی.حضرت مولانا مفتی محمود مرحوم حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم مولانا عبد الحق صاحب مرحوم کی یادداشتوں اور ان کو بحیثیت ایک ممبر قومی اسمبلی جو کارروائی کی کا پیاں ملتی تھیں اس مواد سے زیر نظر کتاب کو جنوبی افریقہ بھیجی جانے والی اصل کا رروائی کے ساتھ ملا کر کتاب کو فائنل کر دیا گیا ہے.“ گویا اب بھی موصوف واضح طور پر یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ اصل کارروائی کا مکمل ریکارڈ ہے.بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ یادداشتوں کو ضیاء الحق صاحب کی فراہم کردہ ” مکمل کاپی اور جنوبی افریقہ بھیجی جانے والی ” اصل کارروائی کے ساتھ ملا کر کتاب کو فائنل کر دیا گیا ہے.مگر یہ بات بھی جھوٹ سے خالی نہیں.جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں تین مقدمات زیر سماعت آئے جن کی تفصیل یہ ہے.ا.مقدمہ نمبر : 10058/82 عنوان : اسمعیل پیک بنام مسلم جوڈیشل کونسل.عدالت: سپریم کورٹ جنوبی افریقہ Cape of Good Hope پراونشل ڈویژن ۲- مقدمہ نمبر : 1438/86 عنوان : محمد عباس جسیم بنام شیخ ناظم محمد وغیرہ عدالت: سپریم کورٹ جنوبی افریقہ Cape of Good Hope پراونشل ڈویژن ۳.مقدمہ نمبر : 201/92 عنوان : شیخ ناظم محمد وغیرہ بنام محمد عباس جسیم عدالت سپریم کورٹ جنوبی افریقہ اپیل ڈویژن اللہ وسایا صاحب کا کہنا یہ ہے کہ آج سے سالہا سال پہلے جنرل ضیاء الحق نے اپنے خصوصی آرڈر سے پاکستانی وفد کو اس کارروائی کی مکمل کاپی فراہم کر دی.جناب اللہ وسایا نہ تو پاکستانی وفد میں شریک تھے اور نہ ہی ان علماء میں ان کا نام دکھائی دیتا ہے جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے جنوبی افریقہ گئے اور نہ ہی وہ یہ بتاتے ہیں کہ وفد کے کس رکن سے انہوں نے جنوبی افریقہ بھیجی جانے والی کارروائی حاصل کی.جنوبی افریقہ والے مقدمات 1994 ء سے بہت پہلے سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستانی وفد بہت پہلے جنوبی افریقہ جا چکا تھا لہذا اگر جنوبی افریقہ والے مقدمہ کی پیروی کے دوران کا رروائی کی نقل حاصل ہو چکی تھی تو اللہ وسایا صاحب نے اس وقت یہ ذکر کیوں نہ کیا؟ اس وقت مکمل “روداد دستیاب تھی تو اجمال “ کا نقاب اوڑھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور ضیاء الحق صاحب نے کسی اختیار کے تحت چپکے چپکے اسمبلی کی کاروائی ان کے حوالہ کر دی ؟ اور کی بھی یا نہیں اس کی سند کیا ہے؟ وزیر قانون کا ریزولیوشن اور حزب اختلاف کی تحریک ۳۰ جون ۱۹۷۴ء کو پیش کئے گئے تھے.اللہ وسایا صاحب نے کارروائی کا آغاز ” ۵ اگست ۱۹۷۴ ء کی کارروائی سے کیا ہے.۵ اگست سے تو جرح کا آغاز ہوا.۳۰/ جون اور ۵ /اگست کے درمیانی عرصہ کی کارروائی بھی غائب ہے.وہ بیان جس پر جرح کی گئی وہ بھی غائب ہے.الغرض یہ بات تو واضح ہے کہ اللہ وسایا کی شائع کردہ کتاب قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی ” مکمل کارروائی ہرگز نہیں.اسے مکمل کارروائی قرار دینا جھوٹ اور تلیس کے سوا کچھ نہیں.

Page 4

۱۳ دن کی کارروائی کی جو نا مکمل رپورٹ ممبران اسمبلی کو مہیا کی جاتی رہی اس کا حجم بھی دو اڑھائی ہزار صفحات سے کم نہیں تھا.جرح کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحب آیات قرآنی احادیث اور عربی حوالہ جات پڑھتے رہے جو کارروائی قلمبند کرنے والا عملہ قلمبند نہیں کر پاتا تھا اور کارروائی میں وہ حصے درج نہیں ہوتے تھے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے طویل اقتباسات اسمبلی میں پڑھ کر سنائے تھے جن میں سے کسی کا بھی اللہ وسایا کی شائع کردہ کارروائی میں پتہ نہیں ملتا.بسا اوقات سوالات انگریزی زبان میں ہوتے تھے اور وہ انگریزی ہی میں درج تھے ان کا کوئی ذکر اس کارروائی میں نہیں ملتا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے بعض سوالات کے جواب میں تحریری بیان بھی داخل کئے تھے وہ تحریری بیان کیا تھے، وہ کہاں ہیں؟ ان کا بھی یہاں کوئی ذکر نہیں ملتا.وہ تفصیل سے اپنی بات سمجھانے کے لئے بیان دیتے رہے اور اراکین اسمبلی ان کے جوابات سے اتنے متاثر تھے کہ جناب مفتی محمود کی نیند اڑ گئی.اس بارہ میں مفتی محمود صاحب کا شائع شدہ اقرار موجود ہے.قومی اسمبلی کے روبرو کارروائی کے دوران اپنے محضر نامہ میں بھی اور جرح کے دوران سوالات کے جواب میں بھی امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے دیوبندی مسلک کے بزرگ مولانا قاسم نانوتوی، بریلوی مسلک کے بزرگ مولانا احمد رضا خان بریلوی، اہلِ حدیث مسلک کے بزرگ نواب صدیق الحسن خان صاحب کے حوالہ جات اور دیگر بزرگان کے طویل حوالہ جات پیش کئے اور پڑھ کر سنائے تھے، جن کا ان دنوں قومی اسمبلی کے اراکین میں بڑا چر چا تھا.اللہ وسایا کی شائع کردہ مبینہ کارروائی میں ان حوالہ جات کا کہیں ذکر نہیں ملتا.اگر واقعی ان کے پاس مکمل کارروائی موجود ہے تو ان حصوں کو شائع نہ کرنا صریح بد دیانتی ہے.آخر قومی اسمبلی میں بلانے کا مبینہ مقصد یہی تھا کہ جماعت احمدیہ کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے.جو وضاحتیں دی گئیں اگر وہ غائب کر دی جائیں تو سمجھا یہی جائے گا کہ ان وضاحتوں سے احمدیوں کے خلاف گمراہ کن پراپیگینڈے کا تار پود بکھر کر رہ گیا تھا.ورنہ وہ وضاحتیں جو بقول انکے مکمل کارروائی میں ان کے پاس موجود ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں شائع کیوں نہیں کیں.اور اگر مکمل ریکارڈ موجود نہیں ہے تو اپنی کتاب کو مکمل ریکارڈ کا نام کیوں دیا ؟ ختم نبوت کے مقدس نام پر دین کی خدمت کے لئے نکلے ہیں تو یہ دھوکہ دہی اور فریب کیوں؟ بدقسمتی سے وطن عزیز ان دنوں مذہبی منافرت اور عدم رواداری کی گرفت میں ہے.رواداری ، برداشت اور صبر تحتمل عنقاء ہیں.منافرت کی فتنہ سامانیاں آزاد اور بے لگام ہیں.معقولیت اور اعتدال پسندی تشدد کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں.احمدیوں پر پابندیاں، مقدمات کی بھر مار تبلیغ پر پابندی، اخبارات و جرائد پر پابندی، اللہ وسایا صاحب سیاسی اقتدار کی ساز باز سے ان سب زنجیروں کا بندوبست کر کے احمدیوں کو للکارتے پھرتے ہیں.اگر واقعی خود پر بھروسہ ہے تو احمدیوں کے ساتھ مل کر یہ مطالبہ کریں کہ احمدیوں کے جرائد اور رسائل پر پابندیاں ختم کی جائیں اور تبلیغ پر پابندی ختم کی جائے تو خوب کھل جائے گا کہ کس کے نصیب میں شکست اور کس کے مقدر میں آسمان نے فتح لکھ دی ہے.اس طرح کی جعلسازی اور مفسدانہ کاروائیوں سے حق نہ کبھی چھپا ہے اور نہ بھی چھپے گا.(۲) قانونی حیثیت دنیا جانتی ہے یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی خفیہ تھی.خفیہ کیوں رکھی گئی ؟ آیا خفیہ رکھا جانا مناسب تھا یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ بار ہا یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ یہ کارروائی شائع ہونی چاہیے، مگر امر واقع یہ ہے کہ اسمبلی کی کارروائی شائع نہیں کی گئی.ایسی کارروائی جو اسمبلی کے قواعد کی رو سے خفیہ رکھی جائے اس کا رروائی کا ریکارڈ رکھنا یا اس کی رپورٹ تیار کرنا صرف قومی اسمبلی کے سپیکر کے اختیار میں ہے اور قواعد کی رو سے کسی دیگر شخص کو یہ اختیار اور اجازت نہیں کہ وہ کوئی نوٹ رکھے یا اس کو گلی یا جزوی طور پر ریکارڈ کرے یا اس کی رپورٹ کا کوئی حصہ اشاعت کے لئے جاری کرے یا اس کو ظاہر کرے یا اس کی کارروائی کی کوئی ایسی رپورٹ جاری کرے جو مزعومہ طور پر اسمبلی کی کارروائی سمجھی جائے.ایسی خفیہ کارروائی پر سے پابندی اٹھانے کا اختیار صرف اسمبلی کو ہے اور اس پابندی اٹھانے کا تحرک قائد ایوان کی طرف سے ہونا ضروری ہے.قائد ایوان کی تحریک جب منظور ہو جائے تو بھی کارروائی کی رپورٹ سپیکر کی زیر ہدایت سیکرٹری جنرل ہی تیار کر واسکتا.قومی اسمبلی کے متعلقہ قواعد درج ذیل ہیں.ہے.

Page 5

قاعدہ نمبر ۲۰۷: خفیہ اجلاس کسی کمیٹی کے خفیہ اجلاس منعقد کئے جا سکتے ہیں اگر کمیٹی اس طرح فیصلہ کرے.قاعدہ نمبر ۲۰۸ : شہادت قلمبند کرنے یا کاغذات، ریکار ڈ یا دستاویزات طلب کرنے کا اختیار (۴) کمیٹی کوکسی شخص کی حاضری کی تعمیل کرانے اور دستاویزات کو جبراً پیش کرانے کیلئے وہی اختیار حاصل ہوں گے جود یوانی عدالت کو مجموعہ ضابطہ دیوانی (ایکٹ نمبر 5 بابت (1908ء) کے تحت حاصل ہیں.قاعدہ نمبر ۲۱۰: گواہوں کا بیان (۵) جب کسی گواہ کو شہادت کے لئے طلب کیا جائے تو کمیٹی کی کارروائی کا لفظ بلفظ ریکارڈ رکھا جائے گا.(1) کمیٹی کے سامنے دی گئی شہادت کمیٹی کے تمام اراکین کوفراہم کی جاسکے گی.قاعدہ نمبر ۲۷۴: کارروائی کی رپورٹ سپیکر کسی خفیہ اجلاس کی کارروائی کی ایک رپورٹ ایسے طریقے سے مرتب کر سکتا ہے جو وہ مناسب سمجھے لیکن کوئی دوسرا شخص کسی خفیہ اجلاس کی کسی کاروائی یا فیصلوں کا کوئی نوٹ یار ریکارڈ، خواہ جزوی یاکلی طور پر نہیں رکے گایا ایسی کاروائی کی کوئی رپورٹ جاری یا افشاء نہیں کرے گا یا کوئی ایسا بیان نہیں دے گا جس سے ایسی کارروائی مترشح ہو.قاعدہ نمبر ۲۷۵: دیگر امور کے بارے میں طریق کار.ان قواعد کے تابع کسی خفیہ اجلاس کے سلسلے میں تمام دیگر امور کا طریق کار ایسی ہدایت کے مطابق ہوگا جو اسپیکر جاری کرے گا.قاعدہ نمبر ۲۷۶: اخفائے راز کی پابندی ختم کرنا جب یہ خیال کیا جائے کہ کسی خفیہ اجلاس کی کارروائی کے بارے میں اخفائے راز کی ضرورت باقی نہیں رہی تو اسپیکر کی رضامندی کے تابع، قائد ایوان یا اس بارے میں اس کی جانب سے مجاز کردہ کوئی رکن تحریک کر سکتا ہے کہ وہ آئندہ راز تصور نہ کی جائے.(۲) ذیلی قاعدہ (۱) کے تحت کسی تحریک کے منظور کئے جانے پر سیکرٹری جنرل اس خفیہ اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ مرتب کروائے گا اور جتنی جلدی ممکن العمل ہوا سے ایسی شکل میں اور ایسے طریقے سے شائع کرائے گا جس کی اسپیکر ہدایت دے.قاعدہ نمبر ۷۷ ۲: کارروائی یا فیصلوں کا افشاء ماسوائے جیسا کہ قاعدہ 276 میں قرار دیا گیا ہے کسی شخص کی جانب سے کسی بھی طریقے سے کسی خفیہ اجلاس کی کاروائی یا فیصلہ کا افشاء اسمبلی کے استحقاق کی سنگین خلاف ورزی تصور کیا جائے گا.قواعد کی اس صورت حال کے پیش نظر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ یا پارلیمنٹ میں قادیانی شکست کے زیر عنوان کتاب کی اشاعت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں.قانوناً یہ فرضی اور جعلی کارروائی متصور ہوگی اور اسے کسی حوالے کے طور پر ہر گز استعمال نہیں کیا جا سکتا.ہاں البتہ جیسا کہ ہم آگے چل کر واضح کریں گے کہ یہ کتاب ہر منصف مزاج محقق کے لئے اس بات کی نشاندہی ضرور کرتی رہے گی کہ مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک سیاسی تنظیم نے کس کس حربے سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی.یہ کتاب جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کی ہے ان کی عملی بددیانتی اور فریب اور جعلسازی کی ایک بدنما مثال کے طور پر تاریخ میں محفوظ رہے گی.(۳) دوسری آئینی ترمیم سال ۱۹۷۴ء میں تاریخ کا ایک انوکھا واقع رونما ہوا یعنی پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ سے احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دے دیا.اس غرض کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی.خصوصی کمیٹی کی تشکیل اور اس کے دائرہ کار کے بارے میں وزیر قانون نے مندرجہ ذیل تحریکات پیش کیں.رولز آف بزنس کے قاعدہ نمبر ۲۰۵ کے تحت مندرجہ ذیل تحریک پیش کرنے کا نوٹس دیتا ہوں.

Page 6

یہ کہ ایوان ایک ایسی خصوصی کمیٹی تشکیل کرے جو کہ پورے ایوان پر مشتمل ہو، اس کمیٹی میں وہ اشخاص شامل ہوں جو ایوان کو خطاب کرنے کا حق رکھتے ہوں.نیز ایوان کی کاروائی میں حصہ کا استحقاق رکھتے ہوں.سپیکر صاحب اس خصوصی کمیٹی کے چیئر مین ہوں اور یہ کمیٹی مندرجہ ذیل امور سرانجام دے.(1) دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو.(2) کمیٹی کی جانب سے متعین کردہ میعاد کے اندر اراکین سے تجاویز،مشورے، ریز ولیشن وصول کرنا اور ان پر غور کرنا.(3) مندرج بالا متنازعہ امور کے بارے میں شہادت لینے کے بعد اور ضروری دستاویزات پر غور کرنے کے بعد سفارشات پیش کرنا.کمیٹی کیلئے ” کورم چالیس افراد پر مشتمل ہوگا، جن میں سے دس کا تعلق ان پارٹیوں سے ہوگا جو کہ قومی اسمبلی کے اندر حکومت کی مخالف ہیں یعنی حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہوں“.30 جون 1974ء کوقومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بھی احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے ایک قرارداد پیش کی جس کا متن درج ذیل ہے.” جناب سپیکر قومی اسمبلی پاکستان.محترمی! ہم حسب ذیل تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ! ہرگاہ کے یہ ایک مکمل مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعلومی کیا، نیز ہرگاہ کہ نبی ہونے کا اسکا جھوٹا اعلان بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں، اسلام کے بڑے احکام سے غداری تھی.نیز ہرگاہ کے وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اسلام کو جھٹلانا ہے.نیز ہرگاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد مذکور کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اُسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں.نیز ہر گاہ کہ ان کے پیروکار، چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے ، مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا ایک بہانہ کر کے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں.نیز ہرگاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں، جو مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی کے زیر اہتمام 6 اور 10 اپریل 1974 ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دُنیا بھر کے تمام حصوں سے 140 مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی ، متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے، جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعوی کرتی ہے.اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنا چاہئے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار، انہیں کوئی بھی نام دیا جائے ،مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر انکے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں“.قومی اسمبلی نے پورے ایوان کو ایک خصوصی کمیٹی کی شکل دے کر جماعت احمدیہ کے نمائندگان کو اسمبلی میں پیش ہونے کا پابند کیا.جماعت احمدیہ نے اپنا موقف ایک محضر نامہ کی شکل میں پیش کر دیا جس میں ایوان کی اس حیثیت اور اختیار کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ کسی کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کرے.چنانچہ محضر نامہ کے آغاز ہی میں لکھا کہ:.پیشتر اس کے کہ ان دونوں قرار دادوں میں اُٹھائے جانے والے سوالات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے ہم نہایت ادب سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ اصولی سوال طے کیا جائے کہ کیا دُنیا کی کوئی اسمبلی بھی فی ذاتہ اس بات کی مجاز ہے کہ:.اول: کسی شخص سے یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو؟

Page 7

دوم :.یابند ہی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا کیا مذ ہب ہے؟ جماعت احمدیہ کا مؤقف یہ تھا کہ: ” ہم ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں دیتے ہیں.ہمارے نزدیک رنگ ونسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطع نظر ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور دُنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے.اقوام متحدہ کے دستور العمل میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر انسان کا یہ حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو“.چنانچہ کم وبیش دس صفحات پر پھیلے ہوئے دلائل اور وجوہات بیان کرنے کے بعد محضر نامہ میں اسمبلی سے یہ اپیل کی گئی کہ:.پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے معاملات پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرے جن کے متعلق فیصلہ کرنا اور غور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے.اقوام متحدہ کے منشور اور پاکستان کے دستور اساسی کے خلاف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم اور ارشادات نبویگے بھی سراسر منافی ہے اور بہت سی خرابیوں اور فساد کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے.“ اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے امام اور ان کے ساتھ ایک وفد پیش ہوا جن پر گیارہ روز تک جرح کے رنگ میں مختلف سوالات کئے جاتے رہے.وہ سوالات کیا تھے، ان کے جوابات کس انداز میں دیئے گئے ، ان جوابات کی علمی حیثیت اور مقام و مرتبہ اور اثر آفرینی ایک الگ مضمون ہے.لیکن بالآخرے استمبر ۱۹۷۴ ء کو ایک قرار داد منظور کر لی گئی اور اس کی روشنی میں آئین میں ترمیم کر دی گئی جس کی رو سے یہ قرار دیا گیا کہ:.حضرت محمد ، جو کہ آخری نبی ہیں ، کے آخری نبی ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے.ترمیم سے واضح ہے کہ مجددین، امام مہدی اور عیسی کے ظہور سے متعلق امت مسلمہ کے ۱۴۰۰ سالہ مسلمہ عقیدہ سے انحراف کیا گیا ہے.ترمیم میں قطعی اور غیر مشروط “ اور ” کسی بھی مفہوم کے الفاظ اس بات کی بھی غمازی کر رہے ہیں کہ احمدی آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین تو ضرور مانتے ہیں.ترمیم پر احمدیوں کو تو دکھ ہونا ہی تھا وطن عزیز کے سنجیدہ طبقہ نے بھی اس ترمیم پر ڈکھ محسوس کیا.البتہ تنگ نظر ملاؤں نے جشن منائے اور تحریک ختم نبوت نے اس ساری کارروائی کا سہرہ اپنے سر باندھا اور اس بات کو 1953 ء سے لیکر 1974 ء تک اپنی مساعی کا نتیجہ قرار دے کر فتح و کامرانی کے ڈنکے بجائے.دوسری طرف ایک سیاسی طالع آزما نے، جسے مذہب سے کوئی سروکار نہیں تھا، اپنے خیال میں ۹۰ سالہ مسئلہ حل کر دیا اور بزعم خود ایک تیر سے کئی شکار کئے.ترمیم تو منظور ہوگئی، مگر کیسے منظور ہوئی ، اس بارہ میں جناب الطاف حسن قریشی مدیر اُردو ڈائجسٹ نے ” عوامی حقوق کی جنگ کے زیر عنوان تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: - اس امر واقع سے انکار کی گنجائش نہیں کہ پہلی ترمیم اور دوسری ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی اور دوسری ترمیم میں بالخصوص تمام قوائد وضوابط ایک طرف رکھ دیئے گئے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ترمیم کا تعلق قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے تھا.ہم نے اس خطرناک پہلو کی پہلے ہی نشان دہی کی تھی کہ وزیر اعظم ایک پتھر سے دوشکار کرنا چاہتے تھے.ایک طرف دستور میں ترمیم کر کے عوامی جذبات پر فتح حاصل کر لی جائے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کو دستوری ترمیم عجلت میں پاس کرنے کا خوگر بنا دیا جائے.مسٹر بھٹو نے قادیانی مسئلے کے بارے میں آخری اقدام کے لئے ۷ ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی مگر ایسے حالات بھی پیدا کئے جن میں آخری وقت تک کوئی بات فیصلہ کن نظر نہ آتی تھی.قومی اسمبلی میں کئی روز سے قادیانی مسئلے کے سلسلے میں خفیہ کارروائی ہو رہی تھی اور قادیانی جماعت کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا.یہ بحث ۶ ستمبر تک چلتی رہی اور کچھ طے نہ پایا کہ دستوری ترمیم کے الفاظ کیا ہوں گے.ستمبر کو چار بجے شام تک ایک غیر سرکاری مسودے پر مختلف پارلیمانی قائدین کے مابین گفت و شنید ہوتی رہی.ہونا یہ چاہئے تھا کہ خفیہ کارروائی کے نتیجہ میں ایک بل تیار ہوتا اور اس پر قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں غور ہوتا اور اس کے بعد اسے بحث و تمحیص کیلئے ایوان میں پیش کر دیا جاتا.جناب بھٹو اس پورے طریق کار کو ختم کر دینے کے در پے تھے تا کہ آئندہ کے لئے ایک مثال قائم ہو جائے.چنانچہ وہ آخری وقت تک طرح دیتے رہے اور پانچ بجے کے قریب بل پڑھ کر سنایا گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر سے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی رات سینٹ کا اجلاس طلب ہوا اور اس ایوان میں بھی کچھ زیادہ وقت نہ لگا.اس رواروی اور گہما گہمی میں کچھ بھی غور و فکر

Page 8

یا نہ ہوا اور دوسری آئینی ترمیم میں چند بنیادی خامیاں رہ گئیں جن پر اب صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے“.(اردو ڈائجسٹ لاہور.دسمبرء ۱۹۷۵ء صفحه۵۷) تحریک ختم نبوت والوں نے جشن تو خوب منایا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جماعت احمد یہ عقائد کے اعتبار سے مسلمان نہیں اور اس بات پر گویا قومی اسمبلی نے مہر ثبت کر دی ہے.مگر مجلس تحفظ ختم نبوت اور مولوی حضرات کو اپنی کامیابی پر دل سے یقین بھی نہیں آیا اور وہ ہمیشہ ہی اپنے دل کو تسلی دلانے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ نکالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.پہلے تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ایک صاحب، فقیر اللہ وسایا کی مرتبہ ایک کتاب ” قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ کے نام سے شائع کی گئی ، جسے حضوری باغ روڈ ملتان سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کیا، اور اب اسی کا رروائی کو پارلیمنٹ میں قادیانی شکست کے نام سے شائع کر دیا ہے.( مطبوعه : الفضل انٹر نیشنل ۲۹ / مارچ ۲۰۰۲ تا ۵ را پریل ۲۰۰۲) (دوسری قسط) (۴) مجلس تحفظ ختم نبوت مولوی اللہ وسایا کی مرتب کردہ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے شائع کردہ کتاب کے پایۂ استناد اور پس پردہ محرکات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے مجلس تحفظ ختم نبوت کے حقیقی خدوخال کا علم ضروری ہے.عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت در اصل مجلس احرار کا دوسرا جنم ہے.مجلس احرار ایک سیاسی جماعت تھی اور تحریک پاکستان کے دوران اس کا گھناؤنا کردار کسی ذی علم پاکستانی سے مخفی نہیں.تحریک پاکستان اور جد وجہد آزادی کے دوران مجلس احرار نے کانگرس کی بھر پور حمائت کی اور مسلم لیگ، قائد اعظم اور پاکستان کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا.سیاسی میدان میں مسلمانوں کے مفادات کے خلاف بھر پور کردار ادا کرنے کے بعد مجلس احرار کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں تھی اور سیاسی طور پر پذیرائی کا کوئی امکان نہیں تھا.چنانچہ مجلس احرار نے مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا اور خود کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا نام دے دیا.اس بات کی تاریخی اور دستاویزی شہادت خود ان کی کی شائع کردہ کتاب ”تحریک ختم نبوت جلد دوم کے باب چہارم میں مہیا کر دی گئی ہے.(صفحه (۳۸۳ صفحہ ۳۸۷ میں ۴ ستمبر ۱۹۵۴ء کے مرکزی شوری کے اجلاس کی کارروائی درج ہے جس میں یہ فقرہ تحریر ہے.ہدایات نمبر 1.مجلس احرار نے جب سیاسیات سے علیحدگی اختیار کی تو مقصد الیکشن سے علیحدگی تھا.لیکن ملکی اور شہری حقوق سے دستبرداری یا حکومت پر جائز نکتہ چینی سے دستبرداری مراد نہ تھی.اب مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد یہ ہے کہ یہ جماعت صرف تبلیغی جماعت ہے اس کو دینی باتیں صرف وعظ و پند کے طور پر کہنی ہوں گی.تنقید اور نکتہ چینی کا رنگ نہ ہوگا.جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی مندرجہ بالا ہدایت فی الواقعہ ایک ہدایت تھی یا ایک پردہ تھا اور مجلس تحفظ ختم نبوت کہاں تک اپنی اس ہدایت پر قائم رہ سکی یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.تاریخی ریکارڈ کے مطابق ۱۳ دسمبر ۱۹۵۴ء کو امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر اول قرار پائے اور پھر تادم حیات اس کے امیر رہے.ان کے بعد دوسرے امیر قاضی حسین احمد شجاع آبادی ہوئے وہ بھی مجلس احرار کے رکن تھے.تیسرے امیر مولانا محمد علی جالندھری، چوتھے امیر لال حسین اختر، پانچویں مولانا یوسف بنوری مقرر ہوئے.مجلس کی اس ساخت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار ہی کا تسلسل ہے.اور مجلس احرار کے بارہ میں منیر انکوائری رپورٹ میں عدالت نے لکھا: احرار کے رویہ کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں.ان کا طرز عمل بطورِ خاص مکر وہ اور قابل نفرین تھا.اس لئے کہ انہوں نے ایک دنیاوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلے کو استعمال کر کے اس مسئلہ کی توہین کی.(رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، صفحه ۲۷۷)

Page 9

اسی طرح عدالت نے لکھا:.مولوی محمد علی جالندھری نے ۱۵ فروری ۱۹۵۳ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ احرار پاکستان کے مخالف تھے.اس مقرر نے تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد بھی پاکستان کے لئے پلیدستان کا لفظ استعمال کیا اورسید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی تقریر میں کہا.پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کر لیا ہے.“ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، صفحه ۲۷۴) اسی طرح رپورٹ کے صفحہ ۱۵۰٬۱۴۹ پر لکھا:.ان (احراریوں) کے ماضی سے ظاہر ہے کہ وہ تقسیم سے پیشتر کانگرس اور ان دوسری جماعتوں سے مل کر کام کرتے تھے جو قائد اعظم کی جدوجہد کے خلاف صف آراء ہو رہی تھیں..اس جماعت نے دوبارہ اب تک پاکستان کے قیام کو دل سے گوارہ نہیں کیا.“ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور مجلس احرار کے تاریخی رشتوں اور پاکستان کے بارہ میں ان کے رویوں کی مختصر طور پر نشاندہی کے بعد اب ہم اس کتاب کا جائزہ لیتے ہیں جو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی کے طور پر شائع کی گئی ہے.(۵) اڑنے سے پیشتر بھی ترا رنگ زرد تھا بات دراصل یہ ہے کہ موصوف اور ان کی قبیل کے دوسرے حضرات اس بات کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے کہ جماعت احمدیہ کا مؤقف یا جماعت احمدیہ کے ایمان و اعتقاد کے بارے میں جماعت احمدیہ کا اپنا بیان اور ان کی اپنی وضاحت عوام الناس تک پہنچے.یہ حضرات سیاق و سباق سے کاٹ کر عبارت پیش کر کے عوام کو گمراہ کرتے رہتے ہیں، کبھی پوری تحریر پیش نہیں کرتے اور اس بات کی تاب نہیں لا سکتے کہ کوئی اُن کی پیش کردہ کسی گمراہ کن عبارت کو اس کے سیاق وسباق میں پیش کر کے ان کے فریب کا طلسم توڑ دے.اس لئے ان کی ساری کوشش اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی ہو، لٹریچر پر پابندی ہو اور ان سے معاشرتی تعلقات پر پابندی ہو تا کہ لوگ نام نہاد علماء کی فریب دہی کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں.اپنی ” قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ کی کارروائی میں بھی اللہ وسایا موصوف کو اجمال کی ضرورت اس لئے ہی پیش آئی کہ جو وضاحتیں امام جماعت احمدیہ نے پیش کیں وہ عوام کے سامنے نہ آجائیں.یہ حضرات عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ احمدیوں کو پورا موقع دیا گیا اور مولوی حضرات نے گویا قادیانیت جیسے کفر کو چاروں شانے چت کیا مگر اس کارروائی کی تفصیلات جوان کی عظیم فتح کی آئینہ دار ہیں عوام کے سامنے لانے کو تیار نہیں.خود ان کی کتاب سے ظاہر ہے کہ ان کی پوری کوشش یہ رہی کہ قومی اسمبلی میں بھی جماعت احمدیہ کا پورا موقف سامنے نہ آنے پائے.ان کی کوششوں کی راہ میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی شخصیت، ان کا علم اور ان کی فراست ایک نور کی دیوار بن کر حائل ہو گئی تھی جو ان کی پیدا کردہ شرارتوں اور ظلمتوں کو پاش پاش کر رہی تھی.ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیسے امام جماعت احمدیہ کے بیان کو اور اس کی تا ثیرات کو ماند کر سکیں.ان کی اس کوشش کی جھلک اللہ وسایا موصوف کی مرتب کردہ کتاب میں جگہ جگہ نظر آتی ہے.اللہ وسایا موصوف نے اپنی گمراہ کن کارروائی کے ذریعہ جو کچھ انصاف پسند قارئین کی نظر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی ہے اس کا جائزہ تو ہم آگے چل کر لیں گے.فی الحال کچھ مختصر نشاندہی اُن امور کی بھی ہو جائے جو ان کی کتاب میں گو یا سطح پر ہی تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جنہیں وہ تہ دامن چھپا نہیں سکے گو اس کی کوشش بہت کی.جو باتیں اس کتاب سے ظاہر ہیں وہ یہ ہیں:.(۱) کارروائی کے دوران اسمبلی میں علماء میں سے مفتی محمود صاحب، غلام غوث ہزاروی صاحب، مصطفیٰ الا زہری صاحب، ظفر احمد انصاری صاحب اور شاہ احمد نورانی صاحب گویا دیو بندی، بریلوی، از ہری ہر طبقہ فکر کے علماء موجود تھے جو اٹارنی جنرل جناب حي بختیار کو سوالات تیار کر کے دیتے تھے.(۲) ارکانِ اسمبلی کو جماعت احمدیہ کا پیش کردہ محضر نامہ مل چکا تھا اور وہ اس کے مندرجات سے بخوبی واقف تھے.(۳) اللہ وسایا کی شائع کردہ کارروائی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ محضر نا مے اور بحث کا جو اصل موضوع تھا اس پر علماء کو سانپ سونگھ گیا تھا.گیارہ دنوں کی جرح کے دوران ان علماء حضرات نے کوئی ایک سوال بھی محضر نامے میں اٹھائے گئے علمی سوالات کے بارے میں نہیں کیا.کسی ایک حوالے کی نشاندہی بھی علماء نے اٹارنی جنرل کے ذریعہ نہیں کروائی کہ آئمہ سلف کے جو

Page 10

حوالے ختم نبوت کے مفہوم کے بارہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دیئے گئے ، ان میں سے کوئی حوالہ غلط ہے.ختم نبوت کا عقیدہ بحث میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا تھا مگر آیت خاتم النبین ﷺ کے سلسلے میں جو حوالے جماعت احمدیہ کے محضر نامے میں دیئے گئے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی بحث نہیں کی گئی.یہ علماء حضرات موجود نہ ہوتے تو یہ وہم گزرسکتا تھا کہ اٹارنی جنرل اس میدان کے شناور نہیں لہذا وہ سوالات رہ گئے ہوں.مگر یہاں تو نہ صرف یہ کہ علماء موجود تھے بلکہ وہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے واضح طور پر موئے آتش دیدہ کی طرح بل کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں.ادھر مرزا ناصر احمد ہیں کہ وہ نہایت تحمل اور بردباری سے پورے ٹھہراؤ کے ساتھ حوالوں کی جانچ پڑتال کر کے پوری وضاحتوں کے ساتھ حوالے دیتے ہوئے دکھائی ہیں.ممکن نہیں ہے کہ مولوی حضرات نے آیت خاتم النبین ﷺ کے بارے میں مرزا ناصر احمد سے کوئی سوال پوچھے ہوں اور ان کو لا جواب کر دیا ہو تواللہ وسایا اس حصے کو شائع نہ کریں.دیتے (۴) اللہ وسایا کی کتاب سے یہ بھی ظاہر ہے کہ وضاحتیں اور تفصیلات غائب کر دی گئی ہیں مثلاً :.(i) صفحہ ۱۳۹ پر اٹارنی جنرل کے اس سوال کے جواب میں کہ کلمتہ الفصل کے اقتباس کے حوالہ سے حقیقی مسلمان کی تعریف کیا ہے، مرزا ناصر احمد صاحب کا مختصر جواب ایک فقرہ میں درج ہے مگر جو حوالہ وہ دے رہے ہیں وہ غائب ہے.(ii) صفحہ ۵۸ پر منیر انکوائری رپورٹ میں آئینہ صداقت کے حوالہ سے، مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے جواب کا ذکر ملتا ہے اور اس بارہ میں جرح بھی کی گئی ہے مگر مرزا ناصر احمد صاحب کا جواب ایک فقرہ میں درج کر کے منیر انکوائری رپورٹ میں دیئے گئے جواب کو غائب کر دیا گیا ہے تاکہ زیر بحث مسئلہ پر جماعت احمدیہ کا موقف واضح نہ ہو سکے.(ii) صفحہ ۲۸۷ پر اٹارنی جنرل کا بیان ہے کہ مرزا ناصر احمد صاحب نے زیر اعتراض ایک شعر کی وضاحت اسی نظم کے ایک دوسرے شعر سے کرنے کی کوشش کی مگر وہ وضاحتی شعر کارروائی اور جرح کے دوران کہیں نظر نہیں آتا.آخر کیوں ؟ پھر یہ کمل ریکا رڈیا اکمل کا رروائی کیسے ہوئی.(iv) اللہ وسایا کی شائع شدہ کارروائی میں بار بار یہ اعتراض نظر آتا ہے کہ جواب لمبا ہے، مختصر کرنے کی ہدایت کی جائے مگر کوئی ایک لمبا جواب بھی کارروائی میں نظر نہیں آتا سب غائب کر دئیے گئے.کوئی ایک جواب تو درج ہوتا جس سے پتہ لگ سکتا که غیر ضروری طوالت سے کام لیا جارہا ہے.(۷) ان مولوی حضرات کا تلملانا کہ جواب مختصر دیا جائے ہم خطبہ سنے نہیں آئے ، وضاحتوں سے روکا جائے ، ہاں یا نہ میں جواب دیں، ان کو پابند کیا جائے کہ جواب ہاں یا نہ تک محدود رکھیں.یہ بیٹھ کر کیوں جواب دے رہے ہیں، یہ بھی کھڑے ر ہیں اور جواب دیں.یہ سب باتیں ان مولوی حضرات کی پریشانی اور اضطراب کی آئینہ دار ہیں جو اللہ وسایا کی کتاب سے جھلکتے انہی دنوں جناب مفتی محمود صاحب نے کراچی کے ایک استقبالیہ میں قومی اسمبلی کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا اسمبلی میں قرار داد پیش ہوئی اور اس پر بحث کے لئے پوری اسمبلی کو کمیٹی کی شکل دے دی گئی.کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کی دونوں جماعتیں خواہ لاہوری ہوں یا قادیانی ان کو اسمبلی میں بلایا جائے اور ان کا موقف سنا جائے تاکہ کل اگران کے خلاف فیصلہ کر دیا جائے تو وہ دنیا میں اور بیرونی ممالک میں یہ نہ کہیں کہ ہم کو بلائے بغیر اور موقف سنے بغیر ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا گیا ہے.بطور اتمام حجت کے ان کا موقف سننا ہمارے لئے ضروری تھا اس لئے ان کو بلایا گیا.جب انہوں نے اپنے بیانات پڑھے تو ان پر تیرہ دن بحث ہوئی گیارہ دن مرز اناصر پر اور دودن صدر الدین پر جرح ہوئی.اس میں شبہ نہیں کہ جب انہوں نے اپنا بیان پڑھا تو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اُٹھایا اور یہ ثابت کیا کہ فلاں فرقے نے فلاں پر کفر کا فتوی دیا ہے اور فلاں نے فلاں کی تکفیر کی ہے.مسلمانوں کے باہمی اختلاف کولے کر اسمبلیوں کے ممبران کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ مولویوں کا کام ہی صرف یہی ہے کہ وہ کفر کے فتوے دیتے ہیں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کہ صرف قادیانیوں سے متعلق ہو.یہ انہیں تا ثر دیا.اس میں شک نہیں کہ ممبران اسمبلی کا ذہن ہمارے موافق نہیں تھا، بلکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا تو ہم بڑے پریشان تھے چونکہ ارکان اسمبلی کا ذہن بھی متاثر ہو چکا تھا اور ہمارے ارکان اسمبلی دینی مزاج سے بھی واقف نہ تھے اور خصوصاً جب اسمبلی ہال

Page 11

میں مرزا ناصر آیا تو قمیض پہنے ہوئے اور شلوار دوشیروانی میں ملبوس بڑی پگڑی طرہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی.تو ممبران نے دیکھ کر کہا کیا یہ شکل کا فرکی ہے؟ اور جب وہ بیان پڑھتا تھا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب حضور اکرم ﷺ کا نام لیتا تو درود شریف بھی پڑھتا تھا اور تم اسے کافر کہتے ہو، اور دشمن کہتے ہو اور پروپیگنڈے کے لحاظ سے یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلمان ہے تو جب وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو تمہیں کیا حق ہے کہ آپ ان کو کا فرکہیں ؟ تو ہم اللہ سے دست بدعا تھے کہ اے مقلب القلوب ان دلوں کو پھیر دے اگر تم نے بھی ہماری امداد نہ فرمائی تو یہ مسئلہ قیامت تک اسی مرحلہ میں رہ جائے گا اور ملنہیں ہوگا حتی کے میں اتنا پریشان تھا کہ بعض اوقات مجھے رات کے تین یا چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی.(ہفت روزه لولاک لائلپور ۲۸/ دسمبر ۱۹۷۵ء صفحه ۱۸.۱۷) (۵) پانچویں بات جو اس کا رروائی سے ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ مولانا مفتی محمود صاحب کی پریشانی کا حل یہ نکالا گیا کہ اصل مسئلہ کو زیر بحث لانے کی بجائے ایسے سوالات چنے گئے جو ہمیشہ سے عامۃ الناس کو اشتعال دلانے کی خاطر مولوی حضرات بیان کیا کرتے ہیں.ایک متفقہ آئین میں ایک نہائت متنازعہ اور ایسی ترمیم زیر غور تھی جس کے نتیجہ میں مداخلت فی الدین کے ایسے نازک مسائل زیر بحث آنے تھے جس کی نظیر قوموں کی آئینی تاریخ میں ملنی مشکل ہے.خیال تو یہ تھا کہ بڑے سنجیدہ ماحول میں گمبیر مسائل زیر بحث آئیں گے علمی مباحث ہوں گے قرآن وحدیث سے دلائل کا ایک انبار علماء کی طرف سے لگا دیا جائے گا مگر ساری کارروائی میں تیرہ روز کی جرح اور اٹارنی جنرل کی بحث میں جو سوال اٹھائے گئے ، وہ کیا تھے؟ چند پیٹے ہوئے اعتراضات یعنی:.ا.احمدی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں.۲- احمدی مسلمانوں کا جنازہ نہیں پڑھتے.۳.احمدی مسلمانوں میں رشتہ ناطہ نہیں کرتے.۴.بانی جماعت احمدیہ کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.۵.احمدیوں کا تصور جہا د عام مسلمانوں سے مختلف ہے.۶.احمدیوں نے باؤنڈری کمیشن میں علیحدہ میمورینڈم کیوں داخل کیا.وغیرہ وغیرہ.کوئی پوچھے کیا یہ آئینی اہمیت کے سوال تھے ؟ یہ سوالات بار بار فریقین کی کتب میں زیر بحث نہیں آچکے تھے ؟ کیا اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اسی غرض کے لئے قائم کی گئی تھی ؟ اگر ایسا تھا تو ان امور کا ذکر وزیر قانون کی تحریک میں کیوں نہیں تھا ؟ اور اگر یہی بنیاد تھی تو ترمیم یوں ہونی چاہئے تھی کہ :.جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے یا کسی مسلمان کا جنازہ نہ پڑھے یا رشتہ نہ دے یا تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کی مخالفت کر چکا ہو وہ آئین وقانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم ہوگا.“ بہر حال اللہ وسایا کی کتاب جو کہانی سنا رہی ہے اس کے مطابق تو یہی سوالات ایک سٹینڈ نگ کمیٹی کے ذریعے ترتیب پا کر اٹارنی جنرل کو مہیا کر دئے گئے.اٹارنی جنرل بے چارے کیا کرتے انہی علماء پر بھروسہ کرتے ہوئے وہی سوال پوچھتے رہے.جو لوگ ان معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں اور انہیں ان کی حقیقت معلوم ہے وہ انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے.اللہ وسایا موصوف نے امام جماعت احمدیہ کے جوابات کو قطع و برید یا بقول ان کے اجمال کی آڑ میں کتنا بھی مسخ کر دیا ہو جب سوال سامنے آ گیا تو جواب کے لئے اگر اسمبلی کی کارروائی مہیانہ بھی ہو تو جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے رجوع کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے میں کوئی امر مانع نہیں.ہم اصلاح احوال اور ازالہ اشتعال انگیزی کی خاطر ان میں سے چند سوالات کے جوابات اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں.جوابات کا اکثر حصہ اللہ وسایا کی کتاب ہی کے حوالہ سے ہے اور کچھ ان کی کتاب میں درج حوالوں کے تعلق میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر اور دیگر مستند تاریخی کتب پر مبنی ہے.مگر ان اعتراضات اور جزئیات کی طرف توجہ کرنے سے پہلے چند بنیادی سوال ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں کچھ ان کا ذکر ہو جائے.

Page 12

(1) پہلاسوال: چارا ہم سوال اللہ وسایا صاحب کی مرتبہ کتاب پارلیمنٹ میں قادیانی شکست میں صفحہ ۳۳ پر ۵ راگست ۱۹۷۴ء کی کارروائی سے آغاز کیا گیا ہے اور اس کے مطابق حضرت امام جماعت پر اس دن جرح کا آغاز ہوا.سب جانتے ہیں کہ گواہ پر جرح اسکے بیان پر کی جاتی ہے.جرح سے پہلے حضرت امام جماعت احمدیہ نے کوئی بیان بھی دیا ہوگا اٹارنی جنرل کے بیان اور خودموصوف کی کتاب سے ظاہر ہے کہ تحریری بیان بھی داخل کیا گیا اور اسے حلف لینے کے بعد پڑھ کر سنایا بھی گیا.اس بیان کا ایک دوسری جگہ اٹارنی جنرل نے محضر نامے کے طور پر بھی ذکر کیا ہے.قانون شہادت کے مطابق گواہ کا بنیادی اظہار اور جرح دونوں مل کر گواہ کی شہادت کہلاتے ہیں ، لہذا اللہ وسایا موصوف سے ہمارا پہلا سوال تو یہ ہے کہ جرح کی کارروائی تحریر کرنے سے پہلے انہوں نے وہ ابتدائی، بنیادی مفصل بیان کیوں درج نہ کیا ؟ موصوف کے وہ بزرگان اور قائدین جنہوں نے اتنی محنت سے بقول اللہ وسایا صاحب زبانی اور تحریری یادداشتیں تیار کر رکھی تھیں، کیا ان کے پاس یہ محضرنامہ موجود نہیں تھا ؟ اس محضر نامے کی نقول تو تمام ممبران اسمبلی کو مہیا کی گئی تھیں.اس کی تیاری کے بارے میں تو وہ مشکلات اسمبلی کی طرف سے درپیش نہیں تھیں جن کا اللہ وسایا کی شائع کردہ کارروائی کے دوران جگہ جگہ ذکر ملتا ہے.پوری کا رروائی میں کسی ایک ممبر نے بھی یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ انہیں جماعت احمدیہ کے محضر نامے کی نقل نہیں ملی.تو پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ وسایا نے اس بنیادی مفصل بیان کو چھوڑ کر جرح سے اپنی کتاب کا آغاز کیا ؟ کیا ان کے بزرگان نے یہ محضر نامہ ان سے چھپا لیا اور ان کو اسکی ہوا تک نہیں لگنے دی.یا پھر یہ کارستانی اللہ وسایا کی اپنی ہے کہ وہ اس کو گول کر گئے اور خود یوں نقاب پوش ہو گئے کہ گویا یہ بھی اجمال ہی کا حصہ ہے.پورے بیان کو حذف کر دینا تو اجمال نہیں ہوتا.تو پھر آخرکیوں یہ کارروائی کی گئی ؟ کیا صرف اس لئے کہ کہیں جماعت احمدیہ کا موقف ان کے اپنے الفاظ میں، عوام کے پاس نہ پہنچے اور کوئی بالغ نظر منصف مزاج قاری ان سے یہ نہ پوچھ بیٹھے کہ کارروائی کیا تھی اور نتیجہ کیا نکلا؟ یا اس لئے کہ اپنے بیان میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے واضح طور پر ایسے سوال اٹھائے تھے اور نمایاں طور پر تنقیحات وضع کر کے اسمبلی کو توجہ دلائی تھی کہ کوئی بھی فیصلہ ان تنقیحات کے جواب کے بغیر ممکن نہیں.یا اس لئے کہ اللہ وسایا صاحب میں قوم کو یہ بتانے کا حوصلہ نہیں کہ ان حضرات کے پاس ان تنقیحات کا کوئی جواب نہیں اور انہوں نے ان تنقیحات کو نظر انداز کر کے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے.دوسراسوال: خصوصی کمیٹی کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا کہ :.دینِ اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو عقیدہ ختم نبوت اور شان خاتم النبین ہے کے بارہ میں امام جماعت احمدیہ نے اپنے مفصل اور مدلل تحریری بیان میں کہا تھا کہ :.جماعت احمدیہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ اصولی اور بنیادی طور پر ختم نبوت کی ان تمام تفاسیر کو بدل و جان تسلیم کرتی ہے جن سے آنحضرت ﷺ کی ارفع اور منفرد شان دوبالا ہوتی ہے اور جو بزرگان اُمت نے گزشتہ تیرہ صدیوں میں وقتاً فوقتاً بیان فرمائیں.اور اسکے ساتھ ضمیمہ کے طور پر تیرہ صدیوں کے بزرگانِ امت کے اسماء گرامی اور حوالہ جات بھی پیش کئے تھے.اللہ وسایا صاحب سے ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ موصوف کی شائع کردہ کا رروائی میں کوئی ایک سوال بھی ایسا کیوں نہیں جس میں اس بارے میں جرح کی گئی ہو.اگر اس بیان پر جرح نہیں کی گئی تو قانون کے مطابق سمجھا جائے گا کہ بیان تسلیم کر لیا گیا ہے.کیا اس لئے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ حوالہ جات جن بزرگان اور صلحائے امت سے منسوب تھے وہ تمام نام اتنے معزز اور محترم ہیں کہ ان کے فرمودات رد نہیں کئے جاسکتے.اور مولوی حضرات میں سے کسی کی یہ مجال نہیں کہ ان بزرگوں

Page 13

کی حیثیت متعین کر کے انہیں خارج از دائرہ اسلام قرار دے.تیسر اسوال: موصوف کی کتاب ” تحریک ختم نبوت جلد دوئم کے باب چہارم میں جو مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کی کارروائیاں درج کی گئی ہیں اس میں ۱۹۵۶ء کی مرکزی مجلس کے اجلاس مورخہ ۱۲ فروری کی کارروائی میں جو قرار داد منظور کی گئی اس میں مطالبہ یہ تھا کہ.یہ اجلاس مجلس دستور ساز سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کی روشنی میں مسلمان کی تعریف کرے.“ اللہ وسایا صاحب سے ہمارا تیسرا سوال یہ ہے کہ ۳۰ /جون ۱۹۷۴ ء کو جو قرارداد حزب اختلاف کی طرف سے ۳۷ را فراد کے دستخطوں سے پیش کی گئی اس میں آئین میں مسلمان کی تعریف کرنے کا مطالبہ کیوں ترک کر دیا گیا ؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس بارے میں امام جماعت احمدیہ نے جو سات عدد تنقیحات وضع فرما دی تھیں ان کی روشنی میں ایسا کرنا ناممکن تھا اور انہوں نے آپ کے لئے کوئی راہ فرار نہیں چھوڑی تھی.اور یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ ان سوالات پر کوئی غور کرے اور مسلمان کی تعریف کے بارہ میں وہ رویہ نہ اپنائے جو جماعت احمدیہ نے تحریری بیان میں اختیار کیا، جو یہ تھا:.دنیا بھر میں یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی نوع معین کرنے سے قبل اس نوع کی جامع و مانع تعریف کر دی جاتی ہے جو ایک کسوٹی کا کام دیتی ہے اور جب تک وہ تعریف قائم رہے اس بات کا فیصلہ آسان ہو جاتا ہے کہ کوئی فرد یا گر وہ اس نوع میں داخل شمار کیا جا سکتا ہے یا نہیں.اس لحاظ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس مسئلے پر مزید غور سے قبل مسلمان کی ایک جامع و مانع متفق علیہ تعریف کی جائے جس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے متفق ہوں بلکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اس تعریف پر اتفاق ہو.اس ضمن میں مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا ضروری ہوگا.(الف) کیا کتاب اللہ یا آنحضرت ﷺ سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرت کے زمانے میں بلا استثناء کیا گیا ہو؟ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟ (ب).....کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اللہ اور آنحضرت نے فرمائی ہو اور خود آنحضور کے زمانہ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو، کسی زمانہ میں بھی کوئی اور تعریف کرنا کسی کے لئے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ (ج) مذکورہ بالا تعریف کے علاوہ مختلف زمانوں میں مختلف علماء یا فرقوں کی طرف سے اگر مسلمان کی کچھ دوسری تعریفات کی گئی ہیں تو وہ کونسی ہیں؟ اور اول الذکر شق میں بیان کردہ تعریف کے مقابل پر ان کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟ (د)...حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں فتنہ ارتداد کے وقت کیا حضرت ابوبکر صدیق یا آپ کے صحابہ نے یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ آنحضور کے زمانے میں رائج شدہ تعریف میں کوئی ترمیم کریں.) کیا زمانہ تبوی یا زمانہ خلافت راشدہ میں کوئی ایسی مثال نظر آتی ہے کہ کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّه کے اقرار کے اور دیگر چار ارکانِ اسلام یعنی نماز زکوۃ روزہ اور حج پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو؟ (س)......اگر اس بات کی اجازت ہے کہ پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تشریح کرنے کی وجہ سے جو بعض دیگر فرقوں کے علماء کو قابل قبول نہ ہو، دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے جو بعض دیگر فرقوں کے نزدیک اسلام کے منافی ہے تو ایسی تشریحات اور عقائد کی تعیین بھی ضروری ہوگی تاکہ مسلمان کی مثبت تعریف میں یہ شق داخل کر دی جائے کہ پانچ ارکانِ اسلام کے باوجوداگر کسی فرقہ کے عقائد میں یہ یہ امور داخل ہوں تو وہ دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا.“ اس کے بعد محضر نامہ میں پرزور اپیل کی گئی تھی کہ :.اگر حقیقتا عقل اور انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام میں جماعت احمدیہ کی حیثیت پر غور فرما نا مقصود ہے یا اسلام میں آیت خاتم النبیین کی کسی تشریح کے قائل ہونے والے کسی فرد یا فرقہ کی حیثیت کا تعین کرنا مقصود ہے تو پھر ایسا پیمانہ تجویز کیا جائے جس میں ہر منافی اسلام عقیدہ رکھنے والے کے کفر کو ماپا جاسکتا ہو اور اس پیمانہ میں جماعت احمدیہ کے لئے بہر حال کوئی گنجائش نہیں.اور مزید یہ کہا گیا تھا کہ:.

Page 14

جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہے جو قرآن عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت ﷺ سے قطعی طور پر مروی ہوا اور آنحضرت ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اُس پر عمل ثابت ہو.اس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرابیوں سے مبرا نہیں ہوگی بالخصوص بعد کے زمانوں (جبکہ اسلام بٹتے بٹتے بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گیا) میں کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی رڈ کرنے کے قابل ہیں کہ اُن میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رُو سے غیر مسلم قرار دیا جائے گا اور اس دلدل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا.“ کیا یہ درست نہیں کہ ان تنقیحات اور بنیادی سوالات کا کوئی جواب بن نہیں پڑا تو ” مسلمان“ کی تعریف کے مطالبے سے ہی دستبردار ہو گئے؟ چوتھا سوال : ہمارا چوتھا سوال یہ ہے کہ اللہ وسایا صاحب کی کتاب میں مسلمان کی تعریف کے بارے میں ان تنقیحات پر کوئی بحث یا جرح کیوں نہیں ؟ کیا ان پر جرح کی ہی نہیں گئی؟ اگر جرح کی گئی تو اسے شائع کیوں نہیں کیا گیا ؟ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان پر جرح کر کے، بقول اللہ وسایا صاحب، مرزا ناصر احمد صاحب کو ” چاروں شانے چت گرایا ہو اور اللہ وسایا صاحب یہ کارنامہ عوام کے سامنے نہ لائیں.انہوں نے راہ فرار اختیار کر کے خدا اور اس کے رسول کے ارشادات سے روگردانی کی ہے.اس سوال پر جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کا متعلقہ حصہ اہل نظر کے لیئے ایک پڑھنے کی چیز ہے.مطبوعه الفضل انٹر نیشنل ۵ را پریل ۲۰۰۲ تا ۱۱ را پریل ۶۲۰۰۲) (تیسری قسط) (۷) اٹارنی جنرل کی مشکل " کفر کم تر از کفر" مولوی حضرات ہمیشہ یہ کہ کر مسلمانوں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ احمدی مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام اور امت مسلمہ سے خارج تصور کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کا موقف بڑا واضح ہے اور اُمت کے سابقہ بزرگوں کے مؤقف سے مطابقت رکھتا ہے.اس موضوع پر ساری کارروائی میں سے تفصیلات کو حذف کر دینا ایک بہت بڑی بددیانتی ہے.مگر جو کارروائی جناب اللہ وسایا نے شائع کی اس کے مطالعہ سے بھی احمدیوں کا موقف بڑی آسانی سے سمجھ آ سکتا ہے.امام جماعت کا موقف کیا تھا، اٹارنی جنرل کیا کہ رہے تھے، امام جماعت کے موقف کی بنیاد کی تھی ، یہ سب اس کارروائی سے کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے اور یہ سمجھنے میں قطعاً کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ اللہ وسایا کو اس اجمال اور قطع و برید کی ضرورت کیوں پیش آئی.جرح کے بعد اپنی بحث کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا:.جناب والا! اب میں دوسرے موضوع کی طرف آتا ہوں جو زیادہ اہم ہے میں نکات ۴، ۵ کو اکٹھا لوں گا.یہ نکات یہ ہیں ” مرزا صاحب کے نبوت کے دعوی کو نہ ماننے کے اثرات اور اس دعوئی کے مسلمانوں پر اثرات اور ان کا رد عمل.اس موضوع پر معروضات پیش کرنے سے قبل میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مرزا ناصر احمد کے ساتھ مجھے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا.“ (صفحه ۳۰۵) حضرت امام جماعت احمدیہ کے بارے میں اٹارنی جنرل نے کہا:.مرزا ناصر احمد نے اپنے والد بشیر الدین محمود احمد کی جگہ بطور خلیفہ سوئم جماعت احمدیہ، ۱۹۶۵ء میں عہدہ سنبھالا اور وہ قادیانی (ربوہ) گروپ کے سر براہ ہیں.وہ 1909 ء میں پیدا ہوئے.وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے انسان ہیں.مؤثر شخصیت کے مالک ہیں.ایم.اے.(آکسفورڈ ) عربی، فارسی اور اُردو کے بہت بڑے عالم ہیں.دینی معاملات پر گہری دسترس رکھتے ہیں.(صفحہ ۳۰۶)

Page 15

آگے چل کر اسی تسلسل میں کہا:.” جناب والا! جب یہ مقدس ہستی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئی تو سوال پیدا ہوا، بہر حال میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ جو مرزا صاحب کی نبوت کو نہیں مانتے ، ان کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے.مرزا صاحب نے کہا کہ ایسے لوگ کافر ہیں.اس کا مطلب کیا ہے؟ اس (مرزا ناصر احمد) نے جواب دیا ” کافر سے مراد ایسا شخص نہیں جسے منحرف یا مرتد قرار دیا جائے یا ایسا تارک الدین شخص جسے اسلام کے دائرے سے خارج کرنا پڑے، بلکہ ایسے کافر سے مراد ایک قسم کا گنہگار ہے یا ثانوی درجے کا کا فر.وہ پیغمبر اسلام ﷺ پر تو ایمان رکھتا ہے اس لئے مرزا ناصر احمد کے بقول ایسا شخص (جومرزا غلام احمد کی نبوت کا انکار کرتا ہے ) ملت محمدیہ کے اندر تو رہے گا مگر وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا.یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا.میں نے یہ بات سمجھنے کی انتہائی کوشش کی، جب ایک شخص کا فر ہو جاتا ہے تو وہ کیسے دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر ملت محمد یہ سے باہر نہیں آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کئی روز تک ہم اس مشکل میں مبتلا رہے.“ (صفحہ ۳۰۷۳۰۱) فاضل اٹارنی جنرل کو جس دشواری کا سامنا تھا اس کی وجہ بڑی واضح ہے.اسمبلی کی کارروائی کی ، جو صورت بھی شائع کی گئی ہے، کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب دو تین دن تک بار بار گھما پھرا کر ہر پہلو سے ، ہر انداز سے امام جماعت احمدیہ سے یہ کہلوانے کی کوشش کرتے رہے کہ جملہ مسلمان مطلقاً کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اٹارنی جنرل کی اس کوشش کو ہر لحاظ سے نا کام کیا.یہ وہ مشکل ہے جس کا سامنا اٹارنی جنرل کو کرنا پڑا.ملاحظہ ہو : - اٹارنی جنرل : قرآن وحدیث کی رُو سے کا فردائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے.مرزا ناصر : قرآن وحدیث میں دائرہ اسلام کا محاورہ نہیں ہے.اٹارنی جنرل : مسلمان رہتا ہے یا نہیں.اگر مسلمان نہیں رہتا تو وہ اسلام کے دائرہ میں نہ رہا.ایک حدیث میں ہے اور اگر حدیث کو نہیں مانتے تو آپ کے والد نے کہا ہے اسے تو مان لیں.یہ میرے ہاتھ میں ان کی کتاب ہے آپ کے والد کی ، وہ کہتے ہیں کہ جو مرزا کو نہیں مانتے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟ مرزا ناصر : کفر کفر میں فرق ہے.ایک کفر وہ ہے جو ملت سے خارج کر دیتا ہے.ایک وہ کفر ہے جوملت سے خارج نہیں کرتا.جو کلمہ کا انکار کرے وہ ملت سے خارج ہوتا ہے.اٹارنی جنرل : اور جو مرزا کی نبوت کا انکار کرتا ہے، وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا.مرزا ناصر : نہیں ہوتا.اٹارنی جنرل: ایک آپ کی یہ شہادت ہے، ایک آپ کے والد کی منیر کمیشن میں شہادت تھی.دونوں میں فرق ہے تو کون صحیح ہوگا ؟ مرزا ناصر : منیر کمیشن میں میرے والد نے کہا مگر اور جگہ بھی تو کہا، سب کو دیکھنا ہے.اٹارنی جنرل: ایک عدالت کے سامنے جو ریکارڈ ، شہادتیں اور دلائل ہوتے ہیں؟ مرزا ناصر: مجھے نہیں معلوم کہ میرے باپ نے کیا کہا، مگر میں ملت سے خارج نہیں مانتا.اٹارنی جنرل : اور جو مرزا کو نہیں مانتا؟ مرزا ناصر : وہ قابل مواخذہ.اٹارنی جنرل : ملت اسلامیہ سے نکل گیا ؟ مرزا ناصر : سیاسی معنوں میں نہیں نکلا.اٹارنی جنرل: حقیقی معنوں میں نکل گیا ؟ مرزا ناصر : جی.اٹارنی جنرل : صرف جی نہیں ، بلکہ صاف فرمائیں کہ نکل گیا ؟ مرزا ناصر : کہہ تو دیا ہے کہ ایک معنی میں کافر ہے، دوسرے میں مسلمان‘.(صفحہ ۵۶.۵۷) اٹارنی جنرل : آپ کے باپ کی کتاب ہے آئینہ صداقت صفحہ ۳۵ ہے.مسٹر چیئر مین : کیا کہا اس کتاب میں.

Page 16

اٹارنی جنرل کل مسلمان جو مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے مسیح موعود کا نام نہ سُنا ہو، وہ بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.مرزا ناصر : کفر کے دو ستم بتائے ہیں، ایک یہ بھی ہے.یہی بات انہوں نے منیر کمیشن میں کہی تھی کہ وہ سیاسی کا فر ہوں گئے.( صفحہ ۵۸) آگے چل کر اٹارنی جنرل پھر اسی موضوع کی طرف لوٹتے ہیں: اٹارنی جنرل : جو شخص ملت اسلامیہ میں ہے آپ کے اعتقاد کے مطابق وہ دائرہ اسلام میں بھی ہے.لیکن جو دائرہ اسلام میں ہے، وہ ہر شخص ملت اسلامیہ میں نہیں ، گویا ایک شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر اس کے باوجود وہ مسلمان ہے؟ مرزا ناصر : اس کے باوجود مسلمان ہے.اٹارنی جنرل : گویا کافر بھی ہے اور مسلمان بھی؟ مرزا ناصر : بعض جہت سے کا فر اور بعض سے مسلمان‘.(صفحہ) ۲۹ پھر اسی مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے اٹارنی جنرل کہتے ہیں.” اٹارنی جنرل: رابطہ عالم اسلامی میں دُنیا بھر کے نمائندے ہیں.انہوں نے آپ کو کا فرکہا.مرزا ناصر : وہ تو نامزدلوگ ہوں گے.میں کہتا ہوں کہ اقوام متحدہ یا کوئی دُنیا کا منتخب ادارہ بھی ہمارے گھر پر متفق ہو جائے تو پھر بھی میں سمجھوں گا کہ اس معاملہ کو خدا پر چھوڑتے ہیں.اٹارنی جنرل: دیکھئے اقوام متحدہ یا کسی اور کے فیصلہ پر تو صاد کر کے صرف خدا کی عدالت میں اپیل کا کہتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا ادارہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی یا رابطہ، فیصلہ کریں تو آپ اسے صاد نہیں کرتے ؟ مرزا ناصر : میں نے کہا کہ میں اقوام متحدہ کے فیصلہ پر بھی معاملہ خدا پر چھوڑوں گا، یہ کہ اسے بھی صحیح نہیں سمجھتا.اٹارنی جنرل : پھر اگر آپ پوری دنیا کے فیصلہ کو بھی نہیں مانتے تو ان کے فیصلہ کرنے کا کیا فائدہ.نیز یہ کہ آپ پوری دُنیا کے کسی بھی متفقہ فیصلہ کو، جو آپ کے خلاف ہو نہیں مانتے.پھر تو بات ہی ختم ہوگئی.آپ صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ پوری دُنیا سے الگ ہیں ان معنوں میں؟ مرزا ناصر : میرا دل نہیں مانتا تو وہ میں کیسے کروں گا“.(صفحہ ۷۲) یہ اقتباسات جو جناب اللہ وسایا کی شائع شدہ کارروائی سے نقل کئے گئے ہیں ان کے بارے میں ہم ہرگز تسلیم نہیں کر رہے کہ یہ مکالمہ اس طرح سے ہوا.اس کا رروائی میں خود ایسے اشارے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری تفصیلات کو حذف کر دیا گیا ہے، مثلاً منیر انکوائری کمیشن میں اسی مسئلہ پر دیئے گئے جواب کا ذکر ہے مگر وہ جواب کا رروائی میں نہیں.امام جماعت کے جواب ایک ایک فقرے میں ظاہر کئے گئے ہیں، کارروائی کے کئی حصے ایسے بھی ہیں جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کارروائی میں سے جواب کا اصل اور مؤثر حصہ حذف کر دیا گیا ہے.مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب سارا زور اس بات پر لگارہے ہیں اور اپنی ساری صلاحیتیں امام جماعت سے یہ کہلوانے کی خاطر بروئے کارلارہے ہیں کہ سارے مسلمان دائر کا اسلام سے خارج ہیں اور امام جماعت احمد یہ کسی صورت بھی یہ نہیں کہہ رہے.اٹارنی جنرل بار بار اسی مضمون کو چھیڑتے ہیں اور اس بات پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کوئی شخص گویا کا فر بھی ہے مسلمان بھی ہے اور مرزا ناصر احمد پھر یہی فرماتے ہیں کہ بعض جہات سے کا فر اور بعض سے مسلمان.اور مرزا ناصر احمد صاحب بار بار دائرہ اسلام اور ملتِ اسلامیہ میں سے خارج ہونے کے فرق کو نمایاں کرتے ہیں.منیر انکوائری کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں آئینہ صداقت صفحہ ۳۵ کے حوالہ سے کوئی سوال پوچھا گیا، مگر اس سوال اور نخوا جمال کی تفصیل پرڈالی ویا یا صاد مہ و تفصیل منیر انکوائری کمیشن کے حوالہ سے پیش کر رہے ہیں.منیر انکوائری میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے پوچھا گیا.سوال:.کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب ” آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ ۳۵ پر ظاہر کیا تھا.یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سُنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج؟

Page 17

جواب :.یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں.پس جب میں ” کا فر“ کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں.جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ ۲۴۰ پر کیا گیا ہے.جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں.ایک دُونَ الْاِیمان اور دوسرے فَوقَ الْإِيمان.دُوْنَ الْإِیمان میں وہ مسلمان شامل ہیں، جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے.فَوقَ الْإِيمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں.اس لئے جب میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو دُونَ الْإِیمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں.مشکوۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور اس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے.امام راغب کے جس قول کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے.(تحقیقاتی عدالت میں جماعت احمدیہ کا بیان) وَالإسلام فى الشرع على ضَرْبَيْنِ : - احَدُهُما دُونَ الايمان وَهُوَ الاعتراف باللسان و به يُحقَنُ الدَّمُ حَصَلَ معه الاعتِقَادُ أولم يُحصل وايَّاهُ قُصِدَ بقوله قالتِ الاعرابُ آمَنَّاقُلُ لَم تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولوا أَسْلَمْنَا.والثاني فَوقَ الايمان وهو أنْ يَكُون مَعَ الاِعْتَرَافِ اعتقاد بِالقَلبِ ووفاء" بالفعل.واستسلام للهِ فِي جَميعِ ما قَضَىٰ وَقدَرَ كَمَاذُكِرَ عَنْ ابراهيم عليه السلام فى قوله اذ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لَرَبِّ العالمين - المفردات في غريب القرآن از علامه راغب اصفهانی، مطبوعه 1961 اصح المطابع، آرام باغ فريئر روڈ ، کراچی.صفحه ۲۴۰) یعنی ایک زبانی اقرار کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اصطلاحاً دائرہ اسلام میں آجاتا ہے اور اس کے بارے میں امام راغب یہ کہتے ہیں کہ اس اقرار زبانی کے ساتھ اعتقاد شامل ہو یا نہ ہو ایسا اقرار زبانی کرنے والا ” دُونَ الْإِيمان “دائرہ اسلام میں شامل ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کا خون محفوظ ہو جاتا ہے.اور اس بات کی تائید میں امام راغب سورۃ الحجرات کی قرآنی آیت لائے ہیں اپنی طرف سے بات نہیں کی.سورۃ الحجرات کی آیت کا ترجمہ یوں ہے.”بد و کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے آپ ان سے کہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو لیکن یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں.اس کو دُونَ الْإِیمان “اسلام کہا گیا.یعنی دائرہ اسلام میں تو ہے مگر اسلام کی حقیقی معرفت کو نہیں پہنچا.اور جسے امام راغب ” فَوقَ الْإِيمَان “ کہتے ہیں.جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ اقرار زبانی کے علاوہ قلبی اعتقاد اور فعلی و فامکمل طور پر خدا کے قضا و قدر میں خود سپردگی کا نام ہے.یہ اصل اسلام ہے جس کو فوق الایمان “ کہا اور یہ بات بھی امام راغب نے خود نہیں کہہ دی اس کے لئے بھی حضرت ابراھیم کے قول کی مثال قرآن شریف سے دی اور پھر متعدد آیات قرآن شریف کی اس تائید میں لائے کہ ” فَوقَ الْاِیمان“ والے مسلمان تو وہ ہیں جو شیطان کے چنگل سے آزاد ہوں، مکمل طور پر راضی بہ رضا ہوں اور یہ ایک ایسی واضح اور بد یہی بات ہے کہ اس کو اصطلاحات کی باریکیوں سے الگ کر کے بھی با آسانی سمجھا جا سکتا ہے.یہ کون نہیں جانتا کہ ہر مسلمان اپنے ادعا اور خواہش کے باوجود حقیقی اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتا.قدم لڑکھڑاتے بھی ہیں اور سنبھل بھی جاتے ہیں.گناہ سرزد بھی ہو جاتے ہیں.عرق انفعال اور ندامت بھی دامنگیر ہوتی ہے.اسلام کے حقیقی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا ہوتا لیکن یہ تو نہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا.ہر چند کہ شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے.ایسے افعال کر بیٹھتا ہے جو کفر کے مترادف ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ہی رہتا ہے.یہ دائرہ اسلام دُونَ الْإِیمان ہے.ایسا شخص مسلمان ہے، امت کا فرد ہے.گناہگار ہے، ایسے افعال کر بیٹھتا ہے جن سے شرک یا کفر لازم آجاتا ہے، غیر اللہ کے آگے حقیقی یا معنوی رنگ میں سجدہ ریز بھی ہو جاتا ہے، قبروں پر ماتھا جانیکتا ہے مگر خود کو مسلمان کہتا ہے.دائرہ اسلام میں تو ہے مگر دُونَ الْإِیمان ہے، حقیقی اسلام تو نہیں.فَوقَ الایمان کی کیفیات کا تو کیا کہنا.یہ ایسی بات تو نہیں جو سمجھ میں نہ آتی ہو.ہر مسلمان اس بات کو جانتا ہے کہ وہ مسلمان تو ہے لیکن اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پارہا.مگر ایسا شخص دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں.فقہاء کی اصطلاح میں دُونَ الْاِیمان اسلام ہے.لہذا احمد یہ ٹیچر میں جہاں بھی مسلمانوں کو کافر کہا گیا وہ اس ” کفر کم تر از کفر“ کے معنوں میں کہا گیا اور اس بات کو امام جماعت احمدیہ نے تفصیل سے بیان کیا اور جناب اللہ وسایا ان تفصیلات کو حذف کر کے اجمال“ کی نقاب اوڑھے ہوئے یہ

Page 18

اشتعال انگیزی کرنا ج نا چاہتے ہیں کہ احمدی تمام مسلمانوں کو مطلقاً کا فرسمجھتے ہیں.مگر اہل انصاف کیلئے یہ نقطہ نظر سمجھنے میں کوئی وقت نہیں کہ جو خود کو مسلمان کہتا ہو اور پانچ ارکان اسلام پر ایمان کا زبانی اقرار کرتا ہو وہ مسلمان ہی رہتا ہے، اُمت مسلمہ سے خارج نہیں ہوتا.جو شخص بھی دیانتداری سے اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں، گناہوں، نافرمانیوں پر نظر ڈالے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ خدا کے رسول نے اس پر بہت بڑا احسان کیا کہ ان تمام کوتاہیوں کے باوجود اس کے مسلمان ہونے کو ایسا تسلیم کیا کہ خدا اور اس کے رسول کا ذمہ قرار دے دیا.یہی بات جب منیر انکوائری میں امام راغب کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی نے کہی یا قومی اسمبلی میں جماعت کے خلیفہ ثالث نے کہی تو اُن لوگوں کی سمجھ میں نہ آئی ہو جو سیاست کے نام پر ووٹ لے کر آئے تھے، جنہیں ایمانیات پر رائے دینے کا بھی حق نہ تھا مگران چند حضرات کی سمجھ میں تو ضرور آجانی چاہیے تھی جن کے مدارس میں انہی حوالوں سے ایمان اور اسلام کی بحثیں پڑھائی جاتی ہیں.جماعت احمدیہ کا نقطہ نظر چونکہ ان وضاحتوں کے ساتھ عوام کو با آسانی سمجھ آ سکتا تھا.ان حضرات پر یہی دھن سوار تھی کہ ” ہاں یا نہ میں جواب دو.وضاحت نہ کرو.مضمون کوکھول کر نہ بیان کرو.آخر کیا مقصد تھا ؟ کہ کہیں عوام اصل بات کو سمجھ نہ لیں.اور جب امام جماعت احمدیہ، اس مرد خدا نے اس شور وغوغا کے باوجود مسئلہ کھول کر بیان کر دیا تو اٹارنی جنرل صاحب کہتے ہیں کہ:.یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا.میں نے یہ مجھنے کی انتہائی کوشش کی کہ جب ایک شخص کا فر ہو جاتا ہے تو شخص کیسے دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر ملت محمدیہ سے نہیں.“ (صفحہ ۳۰۷) مگر جب ان فتاوی کفر کا سامنا کرنا پڑا جو سب فرقے ایک دوسرے پر لگا چکے ہیں تو اٹارنی جنرل خود علامہ اقبال کا یہ وہ اقتباس نقل کرتے ہیں:.فقہ کا طالب علم جانتا ہے کہ ائمہ فقہ اس قسم کے کفر کو کفر کم تر از کفر سے موسوم کرتے ہیں یعنی اس طرح کا کفر مجرم کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا“.(صفحہ ۲۸۳) اتنی بات تو اٹارنی جنرل صاحب کی سمجھ میں بھی آگئی کہ ثانوی درجہ کا کفر بھی ہوتا ہے.وہی بات جو امام راغب نے کہی ، جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی نے کہی ، اب وہی بات مرزا ناصر احمد صاحب کہہ رہے ہیں، وہی بات خود اٹارنی جنرل صاحب علامہ اقبال کے حوالہ سے دہرا بھی رہے ہیں، مگر پھر بھی اصرار ہے کہ آپ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے.(V) ے کہ دانم مشکلات لا اله بات واضح ہو چکی ہے مگر اٹارنی جنرل کلمۃ الفصل“ کے حوالہ سے پھر اسی مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے کہتے ہیں:.اس موقع پر میں نے مرزا ناصر احمد سے پوچھا کہ ”حقیقی مسلمان سے کیا مراد ہے؟ اس نے اپنے محضر نامے سے بھی سچے مسلمان کی تعریف میں کافی زیادہ تفصیلات بیان کی ہیں.مرزا ناصر احمد نے کہا کہ ”حقیقی مسلمان کئی ایک ہیں.میں نے پوچھا: کیا آج بھی ایسے ( حقیقی مسلمان ) موجود ہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی مشکل تعریف ہے.مسلمان کی تعریف میں مرزا غلام احمد کو نبی ماننے یا نہ ماننے کا کوئی ذکر نہیں.اس لئے یہ خاصی مشکل تعریف ہے.مرزا ناصر احمد اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:.مرزا ناصر احمد : محضر نامے میں اس کا جواب صفحہ ۲۳ پر ہے.اٹارنی جنرل : ایک پٹھان ایک مولوی کے پاس گیا.میں بھی پٹھان ہوں.اس نے مولوی سے پوچھا کہ جنت میں جانے کا کیا طریقہ ہے.اس نے پہلے تو اسے کہا کہ جنت میں جانے کے لئے نمازیں پڑھیں ، روزے رکھیں، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں.تو اس نے کہا کہ یہ سب کچھ کیا تو جنت میں جاسکوں گا، تو مولوی نے کہا کہ پل صراط ہوگا، جو تلوار سے تیز ، بال سے باریک ہے.پٹھان نے کہا آپ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ جنت میں جانے کا کوئی راستہ نہیں.میں نے مولوی ا ور پٹھان کی بات کی ہے، آپ نے حقیقی مسلمان کی Definition دی ہے، آپ کو دنیا میں کتنے مسلمان نظر آتے ہیں.“ جس مشکل تعریف کا ذکر اٹارنی جنرل کر رہے ہیں وہ محضر نامہ سمیت اللہ وسایا صاحب نے کارروائی سے غائب کردی ہے.وہ تعریف اٹارنی جنرل نے اپنے خطاب میں بانی جماعت احمدیہ کے الفاظ میں بیان نہیں کی.اس کا ایک حصہ ہم پیش

Page 19

کرتے ہیں.اس تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اُس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اسکےنفسا مارہ کا نقش ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن اللہ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اُس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اُس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے طیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اُس کے احکام کی عظمت کا پیارا اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلا وے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا کھسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کیلئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے.اور خلق کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قستام ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض اللہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہوسکتی ہے ان کو نفع پہنچا وے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دے اور اُن کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے.عظیم الشان لہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حنفیت تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اسلام کی حقیقت اور اسلام کا لب لباب ہے جونفس اور خلق اور ہوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے.(آئینه کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد ۵، مطبوعه نظارت اصلاح و ارشاد ، ربوه صفحه ۲۰.۶۲) اب اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بہت مشکل تعریف نظر آتی ہے.یحییٰ بختیار، خود کو علامہ اقبال کا شیدائی کہتے تھے، اُردوادب میں دلچسپی رکھتے ہیں اور عدالتی کارروائی میں انگریزی بحث کے دوران بھی بسا اوقات علامہ کے شعر پڑھتے سنا گیا ہے.انکو علامہ کی زبان میں ہی سنا دوں.؎ کہا..بلرزم اگر گوئم مسلمانم مشکلات لا الله اصل بات تو یہی ہے کہ کوئی اسلام کی حقیقت کو سمجھے اور خود پر غور کرے تو لرزہ ہی طاری ہو جاتا ہے.علامہ نے یہ بھی تو الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ شہادت آسان سمجھتے ہیں ہونا مسلماں اٹارنی جنرل صاحب بلا وجہ خشک ملاؤں کی راہ پر چل نکلے ورنہ علامہ اقبال موصوف تو ملاں کے مذہب کے بارے میں یہ فرما چکے ہیں.رفعت افلاک میں یا خاک کی آغوش میں وہ تبج مسلسل مناجات مست و و خدا نباتات و جمادات مذهب مردان خود آگاه ملا مذہب , اور اقبال تو حقیقی مسلمان کے بارے میں کہتے ہیں: ”ہمسایہ جبریل امیں بندہ مومن“.یہ ہمسایہ جبریل امین ہونا آسان بات تو نہیں مگر حقیقی اسلام تو یہی ہے.حقیقی اسلام کے بارے جماعت احمدیہ کے بیان پر جناب اٹارنی جنرل کی طنز یہ حیرت خود باعث حیرت ہے.جناب اٹارنی جنرل صاحب کو تو نہ مسلمان کی آسان اور عام فہم تعریف پسند آئی ہے جس کی رو سے ہر وہ شخص جو زبانی اقرار

Page 20

کر کے خود کو مسلمان کہے اسے قبول کر لیا جائے اور جس کی تعریف آنحضرت ﷺ نے خود بیان کر دی.یہ آسان تعریف ایک معاشرتی اور سیاسی تعریف ہے اس میں حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا، ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنایا یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ظاہر یہ بنا کر کے معاشرتی شناخت کے لئے یہ مسلمان کی تعریف کی جارہی ہے اور حضور ﷺے کا یہ فرمانا کہ یہی وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اسکے رسول کا ذمہ ہے، پس تم اللہ کے دیئے ہوئے ذمہ میں اسکے ساتھ دغا بازی نہ کرو.مگر اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ایک آدمی حقیقی معنوں میں مسلمان نہ ہونے کے باوجود کیسے مسلمان کہلا سکتا ہے.حالانکہ موصوف کو علامہ اقبال کے الفاظ میں ” کفر کم تر از کفر کی اصطلاح دستیاب ہوگئی.یہی بات امام جماعت احمدیہ فرما رہے تھے کہ بعض معنوں میں کفریہ اعتقادیا اعمال سرزد ہو جانے پر اسلام کی حقیقت سے دور جا پڑتا ہے مگر چونکہ وہ زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے اس لئے اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا.جماعت احمدیہ نے اپنے تحریری بیان میں یہ موقف بیان کیا ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اور آئینی تعریف اختیار کی جائے جو حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمائی اور جو اسلامی مملکت کے لئے ایک شاندار چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے.جماعت احمدیہ نے اپنے تحریری بیان میں کہا: ”ہمارے مقدس آقا ﷺ کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ آنحضور نے نہایت جامع و مانع الفاظ میں عالم اسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بنیاد رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ اس بنیاد کو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ اُمتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرا رہے گا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو سکے گا.قرونِ اولیٰ کے بعد گزشتہ چودہ صدیوں میں مختلف زمانوں میں مختلف علماء نے اپنی من گھڑت تعریفوں کی رُو سے جو فتاوی صادر فرمائے ہیں ان سے ایسی بھیانک صورتِ حال پیدا ہوئی ہے کہ کسی صدی کے بزرگان دین، علمائے کرام،صوفیاء اور اولیاء اللہ کا اسلام بھی ان تعریفوں کی رُو سے بیچ نہیں سکا اور کوئی ایک فرقہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جس کا کفر بعض دیگر فرقوں کے نزدیک مسلّمہ نہ ہو.“ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات جاننے کے لئے محضر نامہ کا متعلقہ حصہ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا.} اٹارنی جنرل کی اصل مشکل یہ تھی کہ وہ مولوی حضرات کے نرغے میں تھے، سوالات پر سوالات ان کو دئیے جارہے تھے اور وہ بے چارے وہی سوالات پوچھتے چلے جارہے تھے.ان کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملی کہ اصل مسئلہ زیر بحث کیا تھا.اور مولوی حضرات مسلمان کی تعریف قرآن وسنت کی رو سے متعین کرنے سے فرار اختیار کر رہے تھے اور محض اشتعال انگیزی اور ارکانِ اسمبلی کو متنفر کرنے کے لئے یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ احمدی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں.حضرت امام جماعت احمد یہ بڑے وقار سے بغیر کسی مداہنت کے کفر و اسلام کا مسئلہ بیان کر رہے تھے کہ:.جماعت احمدیہ کے نزدیک فتاوی کفر کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اللہ کا فرقرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوگا.اس لحاظ سے ان فتاوی کو اس دنیا میں محض ایک اختباہ کی حیثیت حاصل ہے.جہاں تک دُنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو امت مسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا مجاز قرار نہیں دیا جا سکتا.یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے“.الہذا کسی فرقہ کے فتویٰ کے باوجود کوئی دوسرا فرقہ حقیقت اسلام سے کتنا بھی دور سمجھا جائے ، ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا.امام جماعت احمدیہ نے تو آنحضرت ﷺ کے اقوال کی روشنی میں ایک روشن اور درخشندہ شاہراہ اتحاد ملت کی نشاندہی کر دی تھی جس پر چل کر ساری امت وحدت کی لڑی میں پروئی جائے مگر یہ مذہب کے اجارہ دار اپنے فتووں کی مدت میں کوئی کمی کرنے کو تیار نہیں اور یہ تسلیم کرنے پر راضی نہیں کہ ان کے جاری کردہ فتویٰ کے باوجود بھی کوئی مسلمان رہ سکتا ہے.(مطبوعہ: الفضل انٹر نیشنل ۱۲ را پریل ۲۰۰۲ ۶ تا ۱۸ را پریل ۶۲۰۰۲)

Page 21

(چوتھی قسط) (۹) غیرت ناموس محمد مالی حضرت بانی جماعت احمد یہ زندگی بھر آریوں اور عیسائیوں سے چو کبھی لڑائی لڑتے رہے.عیسائی پادریوں نے ایک اوردھم مچا رکھا تھا اور آنحضرت ﷺ کی شان میں بے لگام گستاخیوں کے مرتکب ہو رہے تھے، اور بے جا اور دل آزار اعتراضات کر رہے تھے اور باوجود بار بار کی فہمائش کے باز نہ آئے تو حضور ﷺ سے محبت اور غیرت کا تقاضہ یہ تھا کہ پادریوں کو منہ توڑ جواب دیا جاتا.اور حضرت مرز اصاحب نے نام محمد ﷺ کی غیرت میں پادریوں کو ان کے اپنے اعتقادات کا آئینہ دکھایا.حیرت در حیرت اس امر پر ہے کہ ریفرنس تو یہ تھا کہ جو لوگ حضور ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے.جو ریفرنس خصوصی کمیٹی کے سامنے تھا یا جو قرار داد حزب اختلاف نے پیش کی اس میں سے کسی میں بھی یہ سوال شامل نہیں تھا کہ مرزا صاحب نے اپنی کتب میں حضرت عیسی کی توہین کی ہے.لیکن محض معاملے کو طول دینے ، الجھانے اور عوام کے ذہنوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے یہ سوال بھی اُٹھایا گیا اور طویل جرح کی گئی.اللہ وسایا نے اپنی مرتب کردہ کتاب کے صفحہ ۸۶،۸۵ پر اس مضمون پر کئے گئے سوالات اور جوابات نقل کئے ہیں اور جوابات بالبداہت مکمل نقل نہیں کئے ، ان میں قطع و برید کی گئی ہے.اصل جواب جود یا گیا وہ تو اسمبلی کی کاروائی شائع ہونے پر ہی سامنے آئے گا مگر یہ اعتراض جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا تھا ، نہ ہی علماء حضرات سے اصل صورتِ حال پوشیدہ تھی.اس قسم کی باتیں دہرا کر، گو یا اراکین اسمبلی کو متاثر کیا جارہا تھا اور جناب مفتی محمود صاحب کی اُس پر یشانی کا، جس کا اوپر ذکر آچکا ہے، یہ حل نکالا گیا تھا کہ ممبران کو مشتعل کر کے مرزا ناصر احمد صاحب کے بیان کا اثر زائل کیا جائے.چونکہ اللہ وسایا نے اپنی کتاب میں گمراہ کن سوال شائع کیا ہے اس لئے مناسب ہے کہ اصل صورت حال جماعت کے لٹریچر اور اس دور کے پس منظر میں پیش کر دی جائے.حضرت مرزا صاحب پر حضرت عیسی کی توہین کا الزام نہ صرف غلط بلکہ خلاف عقل ہے کیونکہ مرزا صاحب خود مثیل مسیح ہونے کے مدعی تھے.حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں :." جس حالت میں مجھے دعوی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسی علیہ السلام سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باللہ حضرت عیسی کو برا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتا تا.(اشتہار ۲۷ دسمبر ۱۸۹۷ء حاشیه مندرجه تبلیغ رسالت جلد 4 صفحه ۷۰) چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے بار بار اس الزام کی تردید کی اور فرمایا:.” ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو.اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکا کھانے والا اور جھوٹا ہے“.(ایام الصلح.ٹائٹل پیج صفحه ۲ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۲۸) حضرت عیسی کے بارے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے تصورات جدا جدا ہیں.عیسی ابن مریم اور یسوع تاریخی طور پر ایک ہی وجود ہیں.ناصرہ کے مقام پر حضرت مریم کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ جس کو قرآن کریم عیسی ابن مریم کہتا ہے وہ اللہ کے ایک برگزیدہ رسول تھے.انکی عظمت قرآن شریف میں بیان ہوئی ہے.انہوں نے کبھی خدائی یا خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.وہ موحد تھے، کبھی تثلیث کی تعلیم نہیں دی.یہ عیسی ابن مریم کے بارے میں مسلمانوں کا تصور ہے.قرآن حکیم نے ابن مریم ہونے کے علاوہ حضرت عیسی کا شجرہ نسب بیان نہیں کیا.مگر عیسائیوں کے ہاں یسوع کا شجرہ نسب ملتا ہے اور جو کچھ رطب و یا بس عیسائیوں کی بائبل میں درج ہے اسکے مطابق یسوع کی دونانیاں نعوذ باللہ کسبیاں تھیں.یہ آیات آج تک کسی نے بائیبل سے حذف نہیں کیں.یسوع کی جو شخصیت بائبل سے ظاہر ہوتی ہے اسکے مطابق یسوع شراب بھی پیا کرتے تھے اور بھی بہت سی لغویات لیسوع کے بارے میں بائبل میں ملتی ہیں.اس فرضی مسیح کے بارے میں خود مولانا مودودی لکھتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ( یعنی عیسائی) اس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالم واقع میں ظاہر ہوا تھا، بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم و گمان سے ایک خیالی مسیح تصنیف کر کے اس کو خدا بنالیا ہے.“

Page 22

(تفہیم القرآن جلد ا صفحه ۴۹۱ اسورة النساء) حضرت مرزا صاحب نے پادریوں کو انہی کے اعتقادات دکھائے.مگر ساتھ ساتھ ہمیشہ اس امر کی وضاحت فرماتے رہے کہ ان کا روئے سخن اس فرضی یسوع کی طرف ہے جو عیسائیوں کے مسلمہ صحیفوں سے نظر آتا ہے.اور اس فرضی مسیح کا نقشہ جو بائبل سے ابھرتا ہے وہ عیسائیوں کو بطور آئینہ کے دکھایا.چنانچہ فرماتے ہیں:.بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ اُن کے یسوع کا تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.66 (ضمیمه انجام آتھم صفحه ۱۸.۱۹ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۱ صفحه ۲۹۲.۲۹۳) اور اس طرز خطاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:.چونکہ پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفے ﷺ پر تہمت لگائی اور سوا اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب و شتم استعمال کئے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جاوے.لہذا یہ رسالہ لکھا گیا.امید ہے کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرا یہ میاں فتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے.تاہم ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کی شانِ مقدس کا بہر حال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری ہے.کیونکہ اس نادان (فتح مسیح.ناقل ) نے بہت ہی مھمدت سے گالیاں آنحضرت کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دکھایا ہے.(نور القرآن“ نمبر ۲ صفحه ۱ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه ۳۷۶) یہ وضاحت مرزا صاحب کی تحریرات میں جگہ جگہ موجود ہے کہ:.” پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اُس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں نام و نشان نہیں“.( تبلیغ رسالت " جلد ۵ صفحه ۸۰) پھر فرماتے ہیں:.سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں.اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صد ہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوئے“.(اشتہار ” ناظرین کے لئے ضروری اطلاع “،۲۰ /دسمبر ۱۸۹۵ء نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه ۳۷۵) پھر فرماتے ہیں:.ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا ہے جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولی نبی ﷺ کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطیبین و سید المطہرین پر سراسر افتراء سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے لہذا محض ایسے یاوہ گو لوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولی محمد مصطفے ﷺ پر دل جان سے ایمان لائے تھے، اور حضرت موسیٰ کی شریعت کے صد ہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں.لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعوی کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سز العنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں.ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی بن مریم جو نبی تھا اور جس کا ذکر قرآن میں ہے.وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن

Page 23

کر اختیار کیا ہے.( نور القرآن نمبر ۲ بعنوان ناظرین کیلئے ضروری اطلاع، روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه ۳۷۵.۳۷۴) ان تحریرات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر عیسی کی تو ہین قرار دینا کسی مسلمان کیلئے اپنی غیرت کا جنازہ نکالنے والی بات ہے.جب آنحضرت ﷺ پر گندے الزام لگائے گئے تو غیرت کا تقاضہ یہ تھا کہ عیسائیوں کو یسوع کے بارے میں آئینہ دکھایا جا تا.طرز تحریر اور زور بیان سمجھنے کی چیزیں ہیں.در اصل اہل علم اور اہلِ کلام میں یہ ایک معروف طریق ہے کہ بعض اوقات فریق مخالف کو اس کے اپنے معتقدات یا بیانات کا آئینہ دکھا کر اسے لا جواب کیا جاتا ہے.اس طریق کو الزامی جواب بھی کہتے ہیں.الزامی جواب کے بھی کئی طریق ہوتے ہیں.خود مرزا صاحب کے اپنے زمانے میں بعض دیگر علماء نے یہ طریق اختیار کیا.یہ طرز استدلال اُس زمانے کے اہل علم کے دستور کے مطابق تھا.بریلوی فرقہ کے لوگ مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو چودہویں صدی کا مجد د مانتے ہیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت بریلوی ہے.وہ لکھتے ہیں :.نصاری ایسے کو خدا مانتے ہیں جو مسیح کا باپ ہے ایسے کو جو یقیناً دغا باز ہے، پچھتاتا بھی ہے تھک بھی جاتا...- (العطايا النبويه في الرضویہ صفحه ۷۴۰، ۱ ۷۴ ) اور یہ انداز دیگر علماء نے بھی اختیار کیا ہے.اہل حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب ایک واقعہ یوں لکھتے ہے.ہیں:.66 ایک بار ا یک اینچی روم پاس بادشاہ انگلستان کے گیا تھا.اس مجلس میں ایک عیسائی نے اس کو مسلمان دیکھ کر یہ طعن کیا کہ تم کو کچھ خبر ہے کہ تمہارے پیغمبر کی بی بی کولوگوں نے کیا کہا تھا.اس نے جواب دیا ہاں مجھ کو یہ خبر ہے کہ اس طرح کی دو بیبیاں تھیں جن پر تہمت زنا کی لگائی گئی تھی مگر اتنا فرق ہوا کہ ایک بی بی پر فقط اتہام ہوا، دوسری بی بی ایک بچہ جن لائیں.وہ نصرانی مبہوت ہوکر رہ گیا“.(ترجمان القرآن جلد اول صفحه ۴۳۰، نواب صدیق حسن خان صاحب سورة آل عمران زير آيت اذ قالت الملئكة يمريم ان الله يبشرك بكلمة منه ، مطبوعه مطبع احمدی لاہور) مولوی آل حسن صاحب اپنی کتاب ” استفسار میں جو ازالتہ الا وہام مؤلفہ مولوی رحمت اللہ صاحب کرانوی مہاجرمکی کے حاشیہ پر چھپی ہے، تحریر فرماتے ہیں:.ارے ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسی کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو“.(صفحه )۳۷ ان (پادری صاحبان ) کا اصل دین و ایمان آکر یہ ٹھہرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علاقہ سے مضغہ بنا اور مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگتا ہو تا رہا.یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے تجلی کا مرید ہوا اور آخر کو ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا.(صفحه۳۵۱،۳۵۰ ) پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسی کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہیں تو ویسی ہی ہونگی جیسی مسیح دجال کی ہونے والی ہیں“.(صفحہ ۳۷۱) جس دور کا ذکر ہے اُس دور میں پادریوں نے ہندوستان میں طوفان اٹھا رکھا تھا.مسلمان مسجدوں کے علماء عیسائیت قبول کر کے پادری بن رہے تھے.آگرہ کی جامع مسجد کے خطیب مولا نا عماد الدین، پادری عمادالدین بن گئے.اس ماحول میں جو اسلام کا در در کتے تھے اور جنہیں آنحضرت ﷺ کی غیرت تھی انہوں نے پادریوں کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر بے جا حملوں کے جواب کے لئے وہی انداز اختیار کیا.یہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی غیرت کا سوال تھا.انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا.(متی ۲۲:۱، مرقس ۱۴:۳، يوحنا ۱۲:۲ ، اہل حدیث امرتسر ۳۱ مارچ ۱۹۳۹ء) الزامی جواب کی یہ چند مثالیں دیگر بزرگوں کی کتب سے پیش کی گئی ہیں جن میں وہی انداز اختیار کیا گیا ہے.جو مبینہ سخت الفاظ حضرت مسیح کے بارے میں بیان کئے جاتے ہیں وہ دراصل اُس فرضی یسوع کے بارے میں ہیں جس کو عیسائی بطور خدا پیش کرتے تھے.ظلم و تعدی کرنے والے بد زبان معترضین کے لئے الزامی جواب کا یہ انداز جو مرزا صاحب نے اختیار کیا وہ قرآن حکیم کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا.وَلَا تُجَادِلُوْا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن إِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُم} -

Page 24

اسمبلی میں موجود علماء حضرات یہ سب باتیں جانتے تھے، حضرت مرزا صاحب کی کتب ان کے پاس موجود تھیں ، حوالوں اور اقتباسات کے پس منظر سے بھی واقف تھے، علم کلام اور مناظرہ کے معروف طریقوں سے بھی وہ واقف تھے اور مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دیگر بزرگان کی طرف سے اسی انداز میں بائبل کے انہیں حوالوں سے اسی انداز میں دیئے گئے الزامی جوابات بھی علماء حضرات سے پوشیدہ نہیں تھے.اس کے باوجود یہ اعتراض کہ حضرت مرزا صاحب نے نعوذ باللہ حضرت عیسی کی توہین کی، نا قابلِ فہم ہے اور تضیع اوقات اور اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں.بالخصوص جب کہ یہ امر نہ وزیر قانون کی تحریک میں مذکور تھا، نہ حزب اختلاف کی قرارداد میں.اصل مقصد یہی تھا کہ بنیادی سوال سے گریز کیا جائے اور عوام کو الجھادیا جائے.(مطبوعہ: الفضل انٹر نیشنل ۱۹ را پریل ۲۰۰۲ تا ۲۵ را پریل ۶۲۰۰۲) (پانچویں قسط) (1+) باؤنڈری کمیشن اللہ وسایا کی کتاب کے مطابق اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سامنے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ:.بوقت آزادی اور سرحدوں کی حد بندی کے وقت قادیانیوں نے ایک عرضداشت پیش کی کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک جماعت ہیں.اس کا اثر یہ ہوا کہ پنجاب کے کنارے کے علاقوں میں مسلمان آبادی کا تناسب گھٹ گیا اور بالآخر ( ایوارڈ ) فیصلے میں گورداسپور ہندوستان کو دے دیا گیا تا کہ وہ کشمیر سے تعلق رکھ سکے.(صفحه ۸۳) اور پھر جماعت احمدیہ کے امام جب ایک دوسرے سوال کی وضاحت میں جواب ریکارڈ کروارہے تھے تو انہوں نے خلیفہ ثانی کے ۱۳ نومبر ۱۹۴۶ء کے خطبہ کی وضاحت کرنا چاہی تو اٹارنی جنرل نے طنزاً کہا:- اٹارنی جنرل: ” ہندوؤں نے کہا کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ہیں.آپ نے واقعہ میں مسلم لیگ سے علیحدہ میمورینڈم پیش کر دیا اور یوں مسلمانوں کی تعداد ۵۱ سے ۴۹ رہ گئی.آپ کا خیال ہے کہ آپ اس سے مسلم لیگ کو مضبوط کر رہے تھے.ٹھیک ہے فائل کرا دیں اور آگے چلیں.“ (صفحہ ۱۴۷) جناب اٹارنی جنرل نے جس انداز سے اس سوال سے جان چھڑائی اس سے اٹارنی جنرل کی یا تو دیانت مشتبہ ہو جاتی ہے یا ان کی ذہانت پر زد پڑتی ہے.مجلس احرار اور کانگریسی علماء بلکہ بعض مسلم لیگی علماء بھی اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں.مسلم لیگ میں جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر نہ بنائے جائیں تو قائد اعظم نے سختی سے اس بات کو دبا دیا.لیکن مجلس احرار اور کانگریس کے ڈھنڈھور چی بدستور شور مچا رہے تھے اور اس صورت حال سے کانگریس بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی تھی ، اور یہ بات سمجھنے کے لئے بہت باریک بینی اور غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں ، اس وجہ سے مسلم لیگ ہائی کمان نے بٹالہ مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کو علیحدہ میمورنڈم داخل کرنے کی اجازت دی.گورداسپور کے ضلع میں مسلم اکثریت بہت معمولی تھی اور کانگریس احمد یوں کو مسلمان شمار نہ کئے جانے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ معمولی اکثریت بھی ختم ہو جاتی.اس لئے اس بات کا ہر طرح سے یقینی بنایا جانا ضروری تھا تا کہ کوئی دور کا شائبہ بھی اس بات کا نہ رہ جائے کہ احمدیوں کو مسلمان شمار نہ کیا جائے.چنانچہ احمدیوں نے قادیان کے لئے اپنا کلیم اس بنیاد پر داخل کیا کہ احمدی مسلمان ہیں اور قادیان مسلمانوں کی ایک فعال جماعت کا روحانی مرکز ہے اور دنیا بھر سے آنے والوں کا مرجع خلائق ہے.اس کے علاوہ سکھوں کی طرف سے ننکانہ صاحب کی وجہ سے شیخو پورہ کا دعویٰ کیا جار ہا تھا.بٹالہ مسلم لیگ کی طرف سے جو میمورنڈم داخل کیا گیا اس میں بٹالہ کی تاریخی اہمیت، بٹالہ کی مسلمان آبادی، بٹالہ کی مسلمان انڈسٹری اور بٹالہ تحصیل میں واقع قادیان کے ذکر میں لکھا.اگر مذہبی مقامات اور زیارتوں کو زیر غور لانا ہے تو بٹالہ صدر پولیس سٹیشن میں واقع قادیان کا قصبہ خاص توجہ کا مستحق ہے.6 مسلمانوں میں سے احمدی مرزا غلام احمد کو نبی تصور کرتے ہیں.

Page 25

احمدیوں نے اپنے میمورنڈم کے شروع ہی میں آٹھ اہم نکات قادیان کو پاکستان میں شامل کئے جانے کی بنیاد کے طور پر درج کئے.جس میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ قادیان اسلام میں عالمگیر جماعت احمدیہ کا فعال مرکز ہے.اور سا تواں نکتہ یہ تھا کہ قادیان جس ضلع میں واقع ہے اس میں واضح مسلمان اکثریت ہے.جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں اہم نکات بیان کرنے کے بعد پہلے ہی پیرے میں لکھا کہ جماعت احمد یہ جو مسلمانوں کا اہم مذہبی حصہ ہے اور جس کی دنیا بھر میں شاخیں ہیں اس کا مرکز ضلع گورداسپور میں ہے.مغربی اور مشرقی پنجاب کی عبوری تقسیم میں یہ ضلع دونوں حصوں کی سرحد پر واقع ہے اور باؤنڈری پر فریقین کے تنازع میں اس ضلع پر دونوں فریق نے دعوی کیا ہے.الہذا جماعت احمد یہ اپنے جائز حقوق کے تحفظ کے لئے ضروری سمجھتی ہے کہ اپنا نقطہ نظر باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرے.چنانچہ میمورنڈم کے آغاز ہی میں میمورینڈم کے پیش کئے جانے کی اغراض بیان کرتے ہوئے تین مرتبہ اس بات کا اظہار موجود ہے کہ احمدی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس لئے ضلع گورداسپور پاکستان میں شامل ہونا چاہئے.(Partition Of Punjab Vol.I; P:428-429) جب اس میمورینڈم پر بحث کا وقت آیا تو بحث کے پہلے فقرہ ہی میں کہا گیا کہ قادیان کو مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے.اور دورانِ بحث اس بات پر زور دیا گیا کہ قادیان جو تحصیل بٹالہ میں ہے مسلم اکثریت کا علاقہ ہے.“ جماعت احمدیہ کے میمورینڈم اور بحث کے علاوہ باؤنڈری کمیشن کی کارروائی میں یہ بات بار بار سامنے آئی کہ احمدی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ہیں.بحث کے دوران احراری اور کانگریسی علماء کے پھیلائے ہوئے زہر کا اثر جسٹس نتیجہ سنگھ کے ایک سوال سے بھی ظاہر ہوا.مسٹر جسٹس نتیجہ سنگھ : احمد یہ جماعت کی اسلام کے حوالہ سے کیا پوزیشن ہے؟ شیخ بشیر احمد : وہ اول و آخر مسلمان ہونے کے مدعی ہیں.وہ اسلام کا حصہ ہیں.(Partition Of Punjab Vol.II; P:213) اس طرح سے خود کانگریس کے وکیل نے اپنی بحث میں ضلع گورداسپور کو غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت صرف اس وجہ سے ہے کہ تین چھوٹے چھوٹے حصوں یعنی قادیان، فتح گڑھ چوڑیاں اور بٹالہ میں ان کی اکثریت بہت زیادہ ہے.اور ان تین علاقوں کے مسلمانوں کی تعدا د نکال دی جائے تو ضلع غیر مسلم اکثریت کا نظر آتا ہے.گویا سیل واڈ نے بھی قادیان کو مسلم اکثریت کے علاقہ کے طور پر شمار کیا اور اپنی بحث کو ایک نیا موڑ دے دیا.سیتل واڈ کی بحث کے دوران جسٹس منیر نے کہا :- مسٹر جسٹس منیر احمد : میں سمجھ گیا ہوں بٹالہ کے یہ چھوٹے چھوٹے دو نقطے دیکھیں.آپ ان کے بارہ میں کیا کہتے ہیں مسٹر سیل واڈ: تیسرا قادیان کا قصبہ ہے.مسٹر جسٹس منیر: اس کی آبادی کیا ہے؟ مسٹر سیتل واڈ: اعداد وشمارا بھی آپ کو دیتا ہوں.مسٹر جسٹس منیر : کیا میں سمجھوں کہ اس پوری تحصیل میں قادیان کے علاوہ کوئی مسلم اکثریت کا علاقہ نہیں.مسٹر سیل واڈ نہیں جہاں تک میں نقشہ کو دیکھتا ہوں ایسا ہی ہے.ہم نے مسلم اکثریت کے بڑے بڑے علاقے چنے ہیں اور ہمیں اس سائز کے اور علاقے نہیں ملتے.لہذا ہم نے ان کو نقشے پر علیحدہ ظاہر نہیں کیا.ہوں.اسی طرح اپنی جوابی بحث میں مسٹر سیل واڈ نے کہا: (Partition Of Punjab Vol.II; P:214) ” اب اگلے نقطے پر آئیے جو بٹالہ ہے اس میں آپ تین سفید حصے دیکھیں گے.میں آپ کو اس تحصیل کے اعداد و شمار دیتا مسلمان غیر مسلم: 209277 177776 31501 کا فرق ہے اور یہاں میں نے تینوں pockets کو اکٹھا لے لیا ہے.پہلا فتح گڑھ چوڑیاں ہے جہاں

Page 26

مسلمان 18055 اور غیر مسلم 4641.دوسرا بٹالہ کا شہر اور مضافاتی گاؤں ہیں جہاں مسلمان 45181 اور غیر مسلم 4664.تیسرا حصہ قادیان ہے جہاں مسلمان 10226 اور غیر مسلمان 1135 ہیں.اگر ہم تینوں کو اکٹھالے لیں تو مسلمانوں کی مجموعی تعداد 73462 اور غیر مسلموں کی 22227 ہے“.(Partition Of Punjab Vol.II;P:528) گویا ساری کارروائی کے دوران قادیان اور احمدیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شامل کیا جاتا رہا.لہذا یہ کہنا کہ احمدی الگ ہو گئے اور مسلمانوں کی اکثریت گھٹ گئی ، ایک بیہودہ ، نامعقول اور شرمناک جھوٹ ہے اور سرکاری ریکارڈ اس جھوٹ کی تردید کر رہا ہے.شیخ بشیر احمد کی بحث کے دوران جب احمدیوں کی تعداد 5,00,000 بتائی گئی تو جسٹس تیجہ سنگھ نے پوچھا: مسٹر جسٹس تیجہ سنگھ: کیا انہیں گزشتہ مردم شماری کے دوران علیحدہ شمار کیا گیا تھا.شیخ بشیر احمد : گزشتہ مردم شماری میں احمدیوں کا کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا.جو فرق تسلیم کیا گیا وہ یہ تھا کہ اگر کوئی خود کوشید ظاہر کرے تو اس کو شیعہ درج کیا جائے اور اگر کوئی شخص کوئی اور تفصیل بتائے تو اس کو سنی درج کیا جائے“.مگر اٹارنی جنرل با اصرار اس بات کو پیش کرتے رہے کہ احمدیوں نے باؤنڈری کمیشن میں الگ میمورینڈم پیش کر کے خود کو مسلمانوں سے علیحدہ ظاہر کیا جس سے مسلمانوں کی تعداد گھٹ گئی اور گورداسپور، ہندوستان کو چلا گیا.اٹارنی جنرل صاحب مسلم لیگی تھے اور سیاسی کارکن رہے ہیں.اگر پہلے احراری لیڈروں کے مسلسل جھوٹ کے زیر اثر وہ کوئی غلط تاثر قائم کر بھی چکے تھے تو باؤنڈری کمیشن کی پوری کارروائی شائع ہو چکی ہے، اس سے استفادہ کر سکتے تھے.یقیناً جناب سکی بختیار پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھتے ہوں گے اور ان تاریخی دستاویزات کا مطالعہ تو انکا محبوب مشغلہ رہا ہو گا.ان کے علم میں ہونا چاہئے تھا کہ یہ اعتراض مجلس احرار کی طرف سے اٹھایا گیا، کبھی مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا.مذہبی امور میں مولوی حضرات کے مہیا کردہ سوالات کے بارہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی مجبوری سمجھ میں آسکتی ہے مگر اس سیاسی سوال پر اٹارنی جنرل صاحب کی لاعلمی نا قابل فہم ہے.اللہ وسایا کی کتاب سے ظاہر ہے کہ اٹارنی جنرل باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے میمورینڈم کا مطالعہ کر چکے تھے، کیونکہ احمدیوں کی تعداد کے بارے میں اُسی میمورینڈم کے حوالہ سے دوسری جگہ سوال و جواب موجود ہے.یہ اب تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ریڈ کلف کا ایوارڈ غیر منصفانہ تھا.ایوارڈ کا اعلان کرنے میں تاخیر ہورہی تھی.طرح طرح کی خبریں سننے میں آرہی تھیں.جنکی وجہ سے چوہدری محمد علی صاحب جو مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے وہ قائد اعظم کے ارشاد پر قائد اعظم کی تشویش کا اظہار کرنے کے لئے دہلی تشریف لے گئے اور یہ تشویش ضلع گورداسپور کے بارے میں تھی.اس بارے میں چوہدری محمد علی کا بیان یہ ہے:.When I reached Delhi, I went straight from the airport to the Viceroy's house where Lord Ismay was working.I was told that Lord Ismay was closeted with Sir Cyril Radcliffe.I decided to wait until he was free.When, after about an hour, I saw him, I conveyed to him the Quaid-e-Azam's message.In reply Ismay professed complete ignorance of Radcliffe's ideas about the boundry and stated categorically that neither Mountbatten nor he himself had ever discussed the question with him.It was entirely for Radcliffe to decide and no suggestion of any kind had been or would ever be made to him.When I plied Ismay with details of what had been reported to us, he said he could not follow me.There was a map hanging in the room and I beckoned him to the map so that I could explain the position to him with its help.There was a pencil line drawn across the map of the Punjab.The line followed the boundary that had been reported to the Quaid-e-Azam.I said that it was unneccessary for me to explain further since the line, already drawn on the map, indicated the boundary I had been talking about.Ismay turned pale and asked in confusion who has been fooling with his map.This line differed from the final boundary in only one respect that the Muslim majoraty Tehseels of Ferozupr and Zera in the Ferozpur district were still on the side of Pakistan as in the sketch-map.

Page 27

(Ch.Muhammad Ali, Emergence of Pakistan; Published by Research Society of Pakistan ; Page 218) ترجمہ:.” جب میں دہلی پہنچا تو میں ائر پورٹ سے سیدھا وائسرائے ہاؤس گیا جہاں لارڈ ایز مے کام کیا کرتے تھے.مجھے بتایا گیا کہ لارڈ ایز مے سر سیرل ریڈ کلف کے ساتھ بند کمرے میں مصروف ہیں.میں نے فیصلہ کیا کہ ان کے فارغ ہونے تک میں انتظار کروں گا.تقریبا ایک گھنٹے بعد جب میں ان سے ملا تو میں نے انہیں قائد اعظم کا پیغام دیا.جوابا لارڈ ایز مے نے باؤنڈری کمیشن سے متعلق ریڈ کلف کے خیالات کے بارہ میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ نہ تو انہوں نے خودا اور نہ ماؤنٹ بیٹن نے اس مسئلہ پر ان سے کوئی گفتگو کی ہے.فیصلہ کرنا کلیڈ ریڈ کلف کا کام ہے اور کسی قسم کی کوئی تجویز نہ انہیں دی گئی ہے اور نہ دی جائے گی.جب میں نے ایز مے کو ان اطلاعات کی تفصیلات سے آگاہ کیا جو ہمیں مل رہی تھیں تو انہوں نے کہا کہ وہ میری بات سمجھ نہیں سکے.کمرے میں ایک نقشہ لٹکا ہوا تھا میں نے انہیں اس نقشہ کی طرف بلایا تا کہ نقشہ کی مدد سے صورتحال واضح کرسکوں.پنجاب کے نقشہ کے بیچوں بیچ پنسل سے ایک لائن کھینچی ہوئی تھی اور یہ لائن اس باؤنڈری کے مطابق تھی جس کی اطلاعات قائد اعظم کو مل رہی تھیں.میں نے کہا کہ اب مزید وضاحت ضروری نہیں ہے.کیونکہ نقشہ پر موجود لائن اس باؤنڈری کو ظاہر کر رہی ہے جس کے بارہ میں میں بات کر رہا ہوں.ایز مے کا رنگ پیلا پڑ گیا اور گھبراہٹ میں کہنے لگے ان کے نقشہ کو کون چھیڑتا رہا ہے.یہ لائن حتمی باؤنڈری سے صرف ایک لحاظ سے مختلف تھی یعنی فیروز پور اور زیرہ کی مسلمان اکثریت والی تحصیلیں اس وقت تک بھی اس نقشہ میں پاکستان کی طرف تھیں“.جسٹس منیرا اپنی کتاب From Jinah to Zia میں لکھتے ہیں.Another occasion for us to resign arose when after an interview with Sir Cyril at Simla Mr.Justice Din Muhammad came out with the impression that practically the whole of Gurdaspur with a link to Kashmir was going to India, but we were again (From Jinah to Zia;2nd Edition, Page 12) asked to proceed with our work.ترجمہ:.” ہمارے استعفیٰ دینے کا ایک اور موقعہ اس وقت پیدا ہوا جب شملہ میں سر سیرل سے ایک انٹرویو کے بعد جسٹس دین محمد یہ تاثر لے کر باہر آئے کہ گورداسپور کا سارا ضلع کشمیر کو ایک رابطہ کے ساتھ ہندوستان کو جا رہا ہے.لیکن ہمیں پھر یہ کہا گیا کہ ہم اپنا کام جاری رکھیں.“ پھر آگے چل کر گورداسپور کے بارہ میں لکھتے :.One of the moot points was Gurdaspur, a Muslim majority district and it became predominantly Muslim area if Pathankot was adjoined to the adjacent Hindu areas to the east.But Pathankot being not exclusively Hindu, the adhopur Headworks, which would mostly irrigate Muslim majority areas, with the area to the west of it, should be awarded to Pakistan, But the argument had no effect on him and he gave both Gurdapur and Batala, which had a Muslim majority, to India.Ajnala Tehsil in Ameritsar also, which was Muslim area (59.04) he refused to join with the district of Lahore and (From Jinah to Zia; 2nd Edition, Page 13) Igave it to India.ترجمہ : ” زیر بحث سوالات میں سے ایک گورداسپور تھا جو مسلم اکثریت کا ضلع تھا اور اگر اس میں سے پٹھان کوٹ مشرقی جانب ہندو اکثریت کے حصہ کے ساتھ شامل کر دیا جاتا تو گورداسپور میں غالب اکثریت مسلم اکثریت ہو جاتی.لیکن پٹھان کوٹ چونکہ کلیۂ ہند و علاقہ میں تھا اور مادھو اور ہیڈ ورک سے زیادہ تر مسلم اکثریت کے علاقوں کی آب پاشی ہوئی تھی اس لئے یہ اس کی مغربی جانب کا حصہ پاکستان کو جانا چاہئے.لیکن اس دلیل کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے گورداسپور اور بٹالہ دونوں مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کو دے دیئے.امرتسر کی تحصیل اجنالہ جو مسلمان علاقہ تھا (59.04) کو اس نے لاہور کے ساتھ شامل کرنے سے انکار کر دیا اور وہ بھی ہندوستان کو دے دیا.“ جسٹس منیر مزید لکھتے ہیں:.There is conclusive proof, oral as well as documentary, that the award was altered in respect of the Ferozepure Tehsils and the areas that lie between the angle of the (From Jinah to Zia; 2nd Edition, Page Beas and the Satluj.

Page 28

14) ترجمہ: '' اس بات کے زبانی اور تحریری طور پر قطعی ثبوت موجود ہیں کہ فیروز پور کی تحصیل اور ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقوں کے بارے میں ایوارڈ میں ردو بدل کیا گیا.“ قائد اعظم جو ایسے معاملوں میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے خود انہوں نے فرمایا:.The division of India has now been finally and irrevocably effected.No doubts, we feel the carving out of this great independent sovereign Muslim state has suffered injustices.We have been squeezed in as uch as it was possible in the latest blow that we have an unjust, It is the Award of the boundary commmission.received was incomprehensible and even perverse Award.It may be wrong unjust and perverse and it may not be a judicial but political Award, but we had agreed to abide by it and it is binding upon us.As honorable people, wemust abide by it.(Speeches and Statements of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinah(Lahore: Research Society of Pakistan; 1976) Page; 432) ترجمہ:.ہندوستان کی تقسیم اب حتمی اور ناقابل تنسیخ طور پر عمل میں آچکی ہے.اس میں بلاشبہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس عظیم خود مختار مسلم ریاست کے قیام میں نا انصافیاں ہوئی ہیں اور باؤنڈری کمیشن کے ہاتھ جو ہمیں آخری ضرب پہنچی ہے اس کے ذریعہ ہمیں جہاں تک ہو سکا ہے سکیٹر دیا گیا ہے.یہ ایک غیر منصفانہ نا قابل فہم بلکہ غلط ایوارڈ ہے.گو یہ غیر منصفانہ اور غلط ایوارڈ ہے اور یہ انصاف کی بجائے سیاست پر مبنی ایوارڈ ہے لیکن ہم نے اسے تسلیم کرنے کا اقرار کیا تھا اور اب ہم اس کے پابند ہیں.ایک با وقار قوم کی حیثیت سے ہمیں اسے قبول کرنا ہو گا.“ دنیا بھر کے محققین ریڈ کلف کی شرمناک بد دیانتی پرمتفق ہیں.مگر مجلس احرار، کانگریسی علماءاور مجلس ختم نبوت کا ساراز وراس بات پر ہے کہ ریڈ کلف بیچارہ کیا کرتا، احمدیوں نے اعداد و شمار ہی ایسے دے دیئے.گویا ریڈکلف تو نہایت صاف ستھرا، دیانتدار اور منصف مزاج آدمی تھا، ایوارڈ بالکل درست ہورہا تھا، احمدیوں نے الگ میمورینڈم داخل کر کے یا اعداد و شمار داخل کر کے گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کرنے کا راستہ صاف کر دیا.یہ ریڈ کلف کے گماشتے اتنا بھی نہیں جانتے کہ گورداسپور اور زیرہ وغیرہ اعداد و شمار کی بنا پر ہندوستان کو نہیں دیئے گئے ، Other Factors کی بنیاد پر دیئے گئے.اس بارے میں بددیانت اور ظالم ریڈ کلف کو خود بھی شرم آئی اور وہ جو کسی بات کی توجیہ پیش کرنے کا پابند نہیں تھا اسے تو جیہ پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی.چونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کھلی کھلی بددیانتی کا مرتکب ہورہا تھا، اس لئے اس نے ایک لولا لنگڑا عذر پیش کر دیا.The Partition of Punjab کے شروع میں پیش لفظ کے بعد شریف الدین پیرزادہ کا ایک مضمون ریڈ کلف ایوارڈ کے بارہ میں شامل کیا گیا ہے.اس مضمون میں شریف الدین پیرزادہ جسٹس منیر کے مضمون Days to Remember کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گورداسپور کے بارہ میں ریڈ کلف سے گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس منیر نے لکھا ہے: It was a Muslim majority area and, therefore if a district was to be taken as a unit, the whole of it had to go to Pakistan.But if.....the district had to be partitioned, the Pathankot Tehsil could...be separated from it and joined with the contiguous non-Muslim area.Shakargarh was not only a Muslim majority area but also a physical entity, with the Ravi as its eastern boundary, and could not conceivably be split up.(27e) ترجمہ:.” یہ مسلمان اکثریت کا علاقہ تھا لہذا اگر ضلع کوا کائی سمجھا جاتا تو یہ سارا ضلع پاکستان کو جانا چاہئے تھا لیکن اگر ضلع کو تقسیم کرنا تھا تو پھر پٹھانکوٹ کو اس سے الگ کیا جاسکتا تھا.شکر گڑھ نہ صرف مسلم اکثریتی علاقہ تھا بلکہ طبعی طور پر کائی تھا کیونکہ راوی اس کی مشرقی سرحد بنتا تھا اور یوں اسے توڑنے کا کوئی تصور نہیں تھا“.یہ اسی مضمون کا حوالہ ہے جس کا ذکر اٹارنی جنرل کر رہے ہیں.گویا جسٹس منیر واضح طور پر لکھ رہے ہیں کہ گورداسپور مسلمان اکثریتی علاقہ ہی تھا.کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ اس کی مسلم اکثریت احمدیوں کی وجہ سے گھٹ گئی تھی.جسٹس منیر مزید لکھتے ہیں:.

Page 29

Further, there is intrinsic evidence in the award itself to show that this part of the award was not the result of an honest endevour to arrive at a just decision.I have already said that Sir Cyril gave no reasons for the award but for these two Tehsil's remaining in India he did give a reason and that reason is nothing but convincing.The reason is as follwos: I have hesitated long over those not inconsiderable areas east of the Satluj river and in the angle of the Beas and Satluj River in which Muslim majorities are found but on the whole I have come to the conclusion that it would be in the interest of neither state to extend the territories of the west Punjab to a strip on the far side of the Satluj and that there are factors such as the disruption of railway communication and water systems that ought in this instance to displace the priary claims of contiguous majorities.But I must call attention to the fact that the Depalpur canal, which serves areas in the west Punjab, takes off from the Ferozpure headworks and I find it difficult to envisage a satisfactory demarcation of boundary at this point that is not accompanied by control of the intake some arrangement for joint the different canals dependent on these headworks." (Notes on the Radcliffe Award by S Sharif-ud-Din Pirzada; The Partition of The Punjab, Vol 1; -- National Documentation Center, 1983, Page xxxvi) of ترجمه: مزید برآں ایوارڈ میں اس بات کے اندرونی شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایوارڈ کسی منصفانہ نتیجہ پر پہنچنے کیلئے کسی دیانتدارانہ کوشش کا نتیجہ نہیں ہے.میں بتا چکا ہوں کہ سر سیرل نے اس ایوارڈ کی کوئی وجوہات یا دلائل بیان نہیں کئے.لیکن بایں ہمہ ان دو تحصیلوں کے ہندوستان میں شامل کرنے کی دلیل ضرور دی گئی ہے.اور وہ دلیل معقول ( قائل کرنے والی) نہیں ہے.وہ دلیل یوں ہے، دریائے ستلج کے مشرق کی جانب معتد بہ علاقے جو تھوڑے بھی نہیں ہیں اور ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقہ کے بارہ میں جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں.میں طویل تذبذب کا شکار رہا ہوں لیکن بحیثیت مجموعی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ دونوں ریاستوں میں سے کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا کہ مغربی پنجاب کی حدود کو تلج دریا کے بیرونی طرف تک بڑھا دیا جائے اور ریلوے کے رسل و رسائل اور آبپاشی کا نظام ایسے عوامل ہیں جو اس موقعہ پر ملحقہ اکثریتی آبادیوں کی دلیل پر حاوی ہیں.مجھے اس جانب توجہ دلانی ہے کہ دیپال پور نہر جو کہ مغربی پنجاب کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے وہ فیروز پور ہیڈ ورکس سے نکلتی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نقطہ پر باؤنڈری کی ایسی نشاندہی بہت مشکل ہے جس میں اس ہیڈ ورکس سے نکلنے والی مختلف نہروں کے مشترکہ کنٹرول کا نظام شامل نہ ہو.“ شریف الدین پیرزادہ نے اپنے مضمون میں Aloys A.Michel کی کتاب The Indus River کا حوالہ بھی درج کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :.But in Gurdaspur "other factors" came into consideration as they had in Ferozpur, and irrigation was one of them.Thus the argument form the irrigation standpoint would appear to have reinforced that from the population standpoint: if the principal of "contiguous majority" applied to districts as a whole, then it would have been quite logical and quite consistent to award Ferozpure, Amritsur, and Jullundur to India and Gurdaspur to Pakistan; if irrigation considerations were to take precedence, why not give Madhopur headworks to Pakistan, since the area served was mainly in the Lahore District, since Pakistan could not supply Lahore without supplying Amritsur on the way, and since - if Pakistan were to interfere with the supplies on two southern branches- India could retaliate by cutting of supplies from Ferozpure headworks to the Depalpur Canal?...Yet straight forward logic of irrigation consideration in Gurdaspur was apparently vitiated by still further "other factors" Gurdaspur included the only road linking the Eastern Punjab, and hence India, with Jammu and Kashmir, and the only bridge (on the Madhopur Barrage) over the Ravi above Lahore.The railways from Amritsur and Jullundur met at Pathankot, with a branch to Madhopur, although there

Page 30

was no rail connection across the river here (one was under construction in1965).Had Radcliffe awarded Gurdaspur to Pakistan, there would have been no land commmunication between India and Jammu-Kashmir (Notes on the Radcliffe Award by S Sharif-ud-Din Pirzada; The Partition of The Punjab, Vol 1; -- National Documentation Center, 1983, Page xxxix) ترجمہ:.لیکن گورداسپور کے معاملہ میں "Other Factors" زیر غور آگئے ، جیسا کہ فیروز پور کے بارہ میں آئے تھے اور آبپاشی کا نظام ان میں سے ایک تھا.یوں نظام آبپاشی کی دلیل آبادی کی دلیل کو تقویت پہنچاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اگر ” ملحقہ اکثریتی آبادی کا اصول ضلعوں پر مجموعی طور پر لاگو کیا جاتا تو منطقی طور پر فیروز پور ، امرتسر اور جالندھر ہندوستان کو دئے جاتے اور گورداسپور پاکستان کو.اور اگر نظام آبپاشی کی دلیل کو فوقیت دی جاتی تو پھر مادھو پور ہیڈ ورکس ، جس سے لا ہور کا ضلع سیراب ہوتا تھا اور پاکستان کو پانی دئے بغیر لاہور کو پانی مہیا نہیں کر سکتا تھا، پاکستان کو کیوں نہ دیا جاتا.پاکستان دو جنوبی لہروں کا پانی روک لیتا تو ہندوستان فیروز پور ہیڈ ورکس سے دیپالپور کی نہر کا پانی روک سکتا تھا.مگر آبپاشی کی سیدھی سادی منطق گورداسپور کے معاملہ میں بظاہر مزید "Other Factors" کی زد میں آگئی.مشرقی پنجاب، اور یوں ہندوستان کو جموں اور کشمیر سے ملانے والی واحد سڑک گورداسپور میں واقع تھی اور راوی پر مادھو پور ہیڈ ورکس کا پل لاہور کے بالائی علاقہ میں واحد پل تھا.امرتسر اور جالندھر سے ریل پٹھانکوٹ پر ملتی تھی، جس کی ایک شاخ مادھو پور کو جاتی تھی.اگر چہ دریا کے اس پار، اس وقت ریل کا کوئی راستہ نہیں تھا ( جو ۱۹۶۵ء میں زیرتعمیر تھا.اگر ریڈ کلف گورداسپور پاکستان کو دے دیتا تو ہندوستان اور جموں کشمیر کے درمیان کوئی زمینی رابطہ ند رہتا.الغرض باؤنڈری کمیشن کے رکن جسٹس محمد منیر ، قومی اور بین الاقوامی محققین سب اس بات پر متفق ہیں کہ گورداسپور بددیانتی سے ہندوستان کو دے دیا گیا اور اس بارہ میں اکثریت کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا.یہ ساری تفصیلات پاکستان کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی بیدار مغز علم دوست اور سیاسی وقائع سے دلچسپی رکھنے والے شہری کو معلوم ہونی چاہئیں.کم از کم مسلم لیگی کارکنان اور سب سے بڑھ کر مسٹر یحیی بختیار اٹارنی جنرل کے علم میں ہونی چاہئے تھیں.مگر اٹارنی جنرل تو مولویوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے.سچائی سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا اور جھوٹ کو اچھا ل رہے تھے.کیا.(مطبوعہ: الفضل انٹر نیشنل ۲۶ را پریل ۲۰۰۲ تا ۲ رمئی ۶۲۰۰۲) (چھٹی قسط) اٹارنی جنرل نے آگے چل کر پھر جسٹس منیر کے ایک اخباری مضمون کے حوالہ سے غلط اور نامکمل معلومات کی بنا پر یہ سوال اٹارنی جنرل : آزادی کی جدو جہد میں باؤنڈری کمیشن کا مرحلہ آتا ہے.جسٹس منیر صاحب کے حوالے سے ظفر اللہ خان کی بڑی خدمات ہیں.وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے.مسلم لیگ کے وکیل تھے.لیکن جسٹس منیر صاحب جو باؤنڈری کمیشن کے رکن تھے انہوں نے پاکستان ٹائمز.میں ۲۴ جون ۱۹۶۴ء آرٹیکل لکھے.ان میں یہ بھی تھا.” پاکستان ٹائمنز ۲۱ جون ۱۹۶۴ ” میرے یادگار دن.معاملہ کے اس حصے کے متعلق میں ایک نہائت ہی نا خوشگوار واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا.مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ احمدیوں نے علیحدہ عرضداشت کیوں دی تھی اس قسم کی عرضداشت کی ضرور تبھی ہوسکتی تھی جب احمدی مسلم لیگ کے نقطۂ نظر سے متفق نہ ہوتے ، جو کہ بذاتِ خود ایک افسوسناک صورت حال ہوتی.ہو سکتا ہے کہ اس طرح احمدی مسلم لیگ کے نقطہ نظر کی تائید کرنا چاہتے ہوں مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے گڑھ شنکر کے مختلف حصوں کے بارے میں اعداد و شمار دیے جن سے یہ بات نمایاں ہوئی کہ بین دریا اور بستر دریا کے مابین کا علاقہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور یہ بات

Page 31

اس تنازعہ کی دلیل بنتی تھی کہ اگر اچ دریا اور بین دریا کا درمیانی علاقہ ہندوستان کومل جائے تو بین دریا اور بستر دریا کا درمیانی علاقہ خود بخودہندوستان کو چلا جاتا ہے، جیسا کہ ہوا.احمدیوں نے جو رویہ اختیار کیا تھا، وہ ہمارے لئے گورداسپور کے بارے میں خاصا پریشان کن ثابت ہوا.مسلمان ۵۱ فیصد تھے ہند و۴۹ فیصد احمدی ۲ فیصد.جب یہ مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے تو مسلمان ۵۱ کی بجائے ۴۹ فیصد ہو گئے.اس سے گورداسپور جاتا رہا اور کشمیر کا مسئلہ پیدا ہو گیا.آپ کہتے ہیں کہ ہم نے لیگ سے تعاون کیا مگر یہ قضیہ تو عجیب سا لگتا ہے.مرزا ناصر احمد : جسٹس منیر صاحب نے اپنی رپورٹ میں ظفر اللہ خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ، اب اس کے ۱۷ سال بعد جب بوڑھے ہو گئے تو یہ بیان دے دیا.وہ بوڑھے ہو چکے تھے، باؤنڈری کمیشن کے یہ جج تھے.پہلے خراج تحسین اور اب یہ شکوک.۱۷ سال کی خاموشی کے بعد جب وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے ، شاید ممکن ہے بڑھاپے کی وجہ سے جو بات جوانی سے سمجھ آئی ہو، وہ بڑھاپے میں نہ سمجھ آئی ہو.اٹارنی جنرل : یا اچھا جواب ہے.خیر میں صرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا تھا مگر علیحدہ یاد داشت کیوں پیش کی.” میرے یادگار دن“ کے عنوان سے جسٹس محمد منیر کے جس مضمون کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جسٹس منیر کی عبارت نقل کرنے کے بعد جو نتیجہ اٹارنی جنرل کے سوال میں نکالا گیا ہے وہ اس بیان سے ہرگز نہیں نکلتا.یہ بات که ” مسلمان ۵۱ فیصد تھے ہند و ۴۹ فیصد اور احمدی ۲ فیصد.جب یہ مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئے تو مسلمان ۵۱ فیصد کی بجائے ۴۹ فیصد ہو گئے اس سے گورداسپور جاتا رہا اور کشمیر کا مسئلہ پیدا ہو گیا.آپ کہتے ہیں کہ ہم نے لیگ سے تعاون کیا مگر یہ قضیہ تو عجیب سا لگتا ہے.یہ ساری بات جسٹس منیر کے مضمون میں نہیں.(۱) یہ بات بھی موجود نہیں کہ مسلمان ۵۱ فیصد اور ہند و۴۹ فیصد تھے.(۲) یہ بھی نہیں کہ احمدی ۲ فیصد تھے.(۳) یہ بات بھی جسٹس منیر کے مضمون میں موجود نہیں کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئے تو مسلمان ۴۹ فیصد رہ گئے.یہ سارا اعداد و شمار کا افسانہ جسٹس منیر کے مضمون میں موجود نہیں، از خود تراش لیا گیا ہے.جسٹس منیر نے اپنے بیان میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ گورداسپور اس وجہ سے جاتا رہا کہ ” احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئے.یہ سارا قصہ ہی ایک شرانگیز افسانہ ہے.البتہ جسٹس منیر نے اپنے مضمون میں یہ لکھا:.انہوں نے گڑھ شنکر کے مختلف حصوں کے بارے میں اعداد و شمار دیئے.اعدادو شمار کیا تھے ؟ ان کا ذکر نہیں.اس بیان کے بارے میں جو جواب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف منسوب اللہ وسایا کی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اس کو اٹارنی جنرل صاحب نظر انداز کر کے آگے چل پڑے.اس سوال جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ تفصیلات ضرور حذف کر دی گئی ہیں اور قارئین سے پوشیدہ رکھی گئی ہیں.مگر اس سوال کے اندرا یسے شواہد موجود ہیں اور جسٹس منیر کے پورے مضمون کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ مرزا ناصر احمد صاحب کا جواب جیسا بھی درج کیا گیا ہے وہ درست تھا.جسٹس منیر نے جب یہ مضمون لکھا تو ضعیف العمری کی وجہ سے انکی یاد داشت ماند پڑ چکی تھی اور ان کے حافظہ نے ساتھ نہیں دیا.اس بات کی اندرونی شہادت اس مضمون کے اندر موجود ہے اور بیرونی شہادت ریکارڈ پر موجود ہے.اندرونی شہادت جسٹس منیر نے اپنے مضمون کے آغاز میں ہی خود لکھا:.حافظے کی مثال ایک ایسے باکس کی ہے جس کی گنجائش محدود ہو جو بچپن سے اس ترتیب سے بھرنا شروع ہو جاتا ہے جس ترتیب سے واقعات رونما ہوتے ہیں تا وقتیکہ میری عمر میں پہنچ کر اوپر تک بھر جاتا ہے.فزیالوجی کے اسی اصول کے تحت پہلے رونما ہونے والے تازہ واقعات کی نسبت بہتر محفوظ رہتے ہیں.چونکہ باکس بھر چکا ہوتا ہے اور واقعات رونما ہونے کے جلد بعد ہی دوسرے رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے چھلک جاتے ہیں لیکن بعض تازہ واقعات اپنی اثر پذیری کی وجہ سے اتنے ٹھوس ہوتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں بھولتے اور یاد داشت تازہ کرنے کی معمولی کوشش سے با آسانی اپنی شکل میں سامنے آجاتے ہیں.جو میں کہنے والا ہوں وہ مؤخر الذکر سے تعلق رکھتے ہیں“.

Page 32

(1) پہلی بات تو واضح ہے جسٹس منیر کو خود اپنے حافظہ پر اسوقت پورا بھروسہ نہیں اور یادداشت تازہ کرنے کی جس کوشش کا ذکر کیا ہے وہ کوشش جگہ جگہ دھوکہ دے گئی ہے.لہذا بعض باتیں جن کی دوسرے ذرائع سے تصدیق ہو سکتی ہو، یقینا ہم ہیں.(۲) مضمون کی پہلی قسط کے کالم نمبر ۳ میں انہوں نے لکھا:.” مسٹرشیل وارڈ کانگرس کی طرف سے پیش ہوئے.مسٹر ہرنام سنگھ سکھوں کی طرف سے اور سر محمد ظفر اللہ خان مسلم لیگ اور احمدیوں کی طرف سے“.یہاں ان کے حافظہ نے واضح طور پر ٹھوکر کھائی ہے.ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ ظفر اللہ خان مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہوئے تھے، احمدیوں کی طرف سے نہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے تھے.حافظے نے جو یہاں ٹھو کر کھائی ہے اسکی اہمیت صرف یہ نہیں کہ انہوں نے احمدیوں کی طرف سے سر ظفر اللہ کے پیش ہونے کا کہا بلکہ اصل اہمیت یہ ہے که شیخ بشیر احمد جسٹس منیر کے ذہن سے بالکل غائب ہیں.لہذا انکی طرف سے پیش کردہ دلائل بھی انکے ذہن سے محو ہو چکے ہیں اور موجود نہیں.(۳) اپنے مضمون کی تیسری قسط میں جہاں سے اٹارنی جنرل کا متصلہ سوال لیا گیا ہے جسٹس منیر نے یہ لکھا:.احمدیوں نے گڑھ شنکر کے ایک حصے کے بارے میں ایسے اعداد و شمار دیئے جس سے یہ بات نمایاں ہوگئی کہ دریائے بین اور دریائے ہنستر کا درمیانی علاقہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے“.اول تو گڑھ شکر کےنام کی کوئی تحصیل گورداسپور میں تھی ہ نہیں.گڑھ شکرضلع ہوشیار پور کی تحصیل تھی.ظاہر ہے کہ وہ تحصیل شکر گڑھ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں.یہاں پر بھی ان کے حافظہ نے واضح ٹھوکر کھائی ہے.(۴) دریائے بین دریائے بستر کا ذکر جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں سرے سے موجود ہی نہیں.یہ بحث کانگرس کے وکیل مسٹر سیل وارڈ نے اٹھائی تھی کہ تقسیم تحصیل اور ضلعوں کی بجائے دریاؤں کے درمیان دوآبوں کی بنیاد پر کی جائے اور دریاؤں اور نہروں کو سرحد بنایا جائے.تحصیل شکر گڑھ راوی کے اس پار واقع تھی اور واضح مسلم اکثریت کی تحصیل تھی لہذا کانگرس اسے دریاؤں کے درمیانی علاقوں کی بنیاد پر مشرقی پنجاب میں شامل کروانا چاہتی تھی.جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں یا بحث میں کہیں بھی دریائے بین یا دریائے بستر کا ذکر موجود نہیں.جماعت احمدیہ کا میمورنڈم پارٹیشن آف پنجاب کے صفحہ ۴۲۸ تا صفحه ۴۴۹ پر سرکاری طور پر شائع شدہ موجود ہے جو دیکھا جاسکتا ہے.جماعت احمدیہ نے دریاؤں کو سرحد بنانے کے اصول کی مخالفت کی تھی اور ایک دلیل یہ دی تھی کہ دریا اپنے رخ بدلتے رہتے ہیں.بہر حال اس بارے میں جسٹس منیر کے حافظہ نے ٹھوکر کھائی ہے.اس سے پہلے جسٹس منیر اپنے ایک عدالتی فیصلے میں واضح طور پر لکھ چکے تھے.احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس نے ہندوستان میں شامل کر دیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا.“ جو الزامات ۱۹۶۴ء کی تحریر کی بنیاد پر لگائے جارہے ہیں انہیں ۱۹۵۴ ء میں جسٹس منیر معاندانہ اور بے بنیاد قرار دے چکے ہیں.یہ ایک عدالتی فیصلے کا حصہ ہے.عدالتی فیصلے حقائق و واقعات سامنے رکھ کر احتیاط کے ساتھ لکھے جاتے ہیں.۱۹۶۴ء کا بیان یادداشتوں پر مبنی ہے اور اس میں اندرونی تضاد موجود ہیں.گورداسپور ایک سازش کے ماتحت ہندوستان میں شامل کیا گیا اور اس بارے میں ناقابل تردید تاریخی شہادت موجود.دو ہے جواد پر پیش کی جاچکی ہے.رہی یہ بات کہ تقسیم کے وقت جماعت احمدیہ نے ایک علیحدہ میمورینڈم کیوں داخل کیا ؟ اٹارنی جنرل کو معلوم ہونا چاہئے تھا اور اگر نہیں معلوم تھا تو انہیں متعلقہ محکمہ یا ریکارڈ سے اس بات کی تسلی کر لینی چاہئے تھی.اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ تقسیم پنجاب کے بارے میں سرکاری طور پر شائع کردہ ریکارڈ کے مطابق ۱۸ جولائی ۱۹۴۷ ء تک ۴۹ میمورینڈم مختلف تنظیموں کی طرف سے داخل کئے گئے تھے جن کی فہرست ریکارڈ میں دستاویز ۲۴۳ کے طور پر مذکورہ کتاب کے صفحہ ۴۷۴ پر درج ہے.جن میں:.(1) پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈ ریشن.(۲) سٹی مسلم لیگ، منٹگمری.(۳) بٹالہ مسلم لیگ ، بٹالہ.

Page 33

(۴) ڈسٹرکٹ مسلم لیگ، لدھیانہ.(۵).ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن سٹی اینڈ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ، جالندھر.(1) انجمن مغلیاں لوہاراں ، تر کھاناں پنجاب.(۷)....انجمن بھٹی راجپوتاں پنجاب.(۸) انجمن رائیاں جالندھر تحصیل جالندھر.(9)...مسلم راجپوت ایسوسی ایشن.(۱۰) مسلم راجپوت کمیٹی تحصیل گڑھ منکر اینڈ نواں شہر.(۱۱)...مسلم لیدر مرچنٹ ایسوسی ایشن.(۱۲) انجمن مدرسة البنات جالندھر.(۱۳).....مزنگ منڈی سرکل.کی طرف سے میمورینڈم داخل کئے گئے تھے اور یہ سارے میمورینڈم مسلم لیگ کی تائید میں تھے.اسی طرح بہت سی ہندؤ سکھ تنظیموں نے کانگریس کی تائید میں اپنے میمورینڈم داخل کئے.عیسائیوں اور اینگلو انڈینز کی طرف سے مسلم لیگ کی تائید میں، پاکستان کے حق میں اور کچھ کانگریس کی تائید میں ، ہندوستان کی تائید میں داخل کئے گئے.اصل بات جو نمایاں طور پر واضح تھی وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا میمورینڈم دوسری بہت سی مسلم تنظیموں کے ساتھ مسلم لیگ کی تائید میں داخل کیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ تقسیم پنجاب کے وقت پارٹیشن پلان کے ساتھ ایک فہرست اور ایک جدول بھی شامل کئے گئے تھے جس میں ۱۹۴۱ ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں مسلم اکثریت کے ضلعوں کی تفصیل دی گئی تھی.گورداسپور کا ضلع جو کہ مسلم اکثریت کا ضلع تھا اسے عارضی اور عبوری طور پر پاکستان میں شامل کیا گیا تھا.مگر وائسرائے نے اپنی پریس کانفرنس میں ضلع گورداسپور کے بارہ میں یہ اظہار کیا تھا کہ اس ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت صرف ۸۶۰ فیصد ہے اس لئے ضلع گورداسپور کے بعض حصے لازماً غیر مسلم اکثریت کے ہوں گے.چوہدری محمد علی اپنی کتاب Emergence of Pakistan میں لکھتے ہیں: ہے "at his press confrence of June 4 1947 Mount Batten was asked why he had, in the broad cast of previous evening on the June 3 Partition Plan, catagorcally stated that," the ultimate boundries will be settled by a boundary commission and will almost certainly not be identical with those which have been provisionally adopted." Mount Batten immidiately replied," I put that in for the simple reason that in the district of Gurdaspur in the Punjab the population is 50.4 % Muslim, I think and 49.6 % non muslims.With a differance of 0.8 % You will see at once that it is unlikely that the boundary commission will throw the whole of the district into the Muslim majority areas." (Ch.Muhammad Ali, Emergence of Pakistan; Published by Research Society of Pakistan; Page 215) ترجمہ :.۴ جون ۱۹۴۷ء کی پریس کانفرنس میں ماؤنٹ بیٹن سے یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے ۳ جون کے منصوبہ کے بارہ میں خون بہانہ شب کا پنی تقریری تقریر میں کمیشن کے انداے گا نہیں یہ کیوں نہا یہ یقینی ہے کہ حتمی باؤنڈری عبوری باؤنڈری کے ہو بہو مطابق نہیں ہو گی“ ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیا ، ”میرے ایسا کرنے کی سیدھی سی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے ضلع گورداسپور میں مسلمان آبادی میرے خیال میں ۴۶۵۰ فیصد.مد ہے اور غیر مسلم آبادی ۴۹ ۶ فیصد ہے.آپ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات غیر اغلب ہے کہ صرف ۸۶۰ فیصد کے فرق کی وجہ سے باؤنڈری کمشن پورا ضلع ہی مسلم اکثریت کے حصہ میں ڈال دے.چونکہ گورداسپور جالندھر اور فیروز پور کے بعض علاقے اس عارضی اور عبوری سرحد (Notional Boundary) کے قریب تھے.اس لئے اس عبوری سرحد کے قریب قریب واقع دونوں طرف کے علاقے گویا فریقین کے درمیان زیر بحث تھے.کانگریس لاہور اور منٹگمری کے ضلعوں میں سے بھی کچھ علاقوں کا مطالبہ کر رہی تھی اور مسلم لیگ امرتسر اور فیروز پور کے علاقوں کا مطالبہ کر رہی تھی.لہذا ان علاقوں کے لوگوں کی طرف سے اس امر کا اظہار کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے مطالبات کے قطع نظریہ سوال کہ ان علاقوں کے لوگ کسی طرف شامل ہونے کے خواہش مند ہیں بھی اہمیت اختیار کر گیا تھا.چنانچہ اس علاقے کی بعض عیسائی تنظیموں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے بارے میں میمورنڈم داخل کئے.باؤنڈری کمیشن کے Terms OfReference یہ تھے:-

Page 34

"For the Punjab: The boundary commission is instructed to demarcate the boundaries of the two parts of the Punjab on the basis of ascertaining the contiguous majorities areas will it So doing In Non-muslims.and Muslims of take into account other factors." also دونوں فریق Terms of Reference میں Other Factors کی شق کی وجہ سے اپنے اپنے حق میں استدلال کرنا چاہتے تھے.جماعت احمدیہ کا میمورینڈم کوئی علیحدہ یا انوکھی چیز نہیں تھی.اس دستاویز میں سارا زور اس بات پر ہے کہ تقسیم پنجاب کے لئے خواہ کوئی طریقہ اپنایا جائے، قادیان کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیئے.اس کی تائید میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ نے بحث کی جو جلد دوم کے صفحہ ۲۴۰ سے شروع ہوتی ہے اور بحث کا آغاز ہی اس فقرے سے ہوتا ہے.میں اپنی معروضات کو ایک محدود سوال تک محدود رکھنا چاہتا ہوں یعنی مغربی پنجاب میں شامل کئے جانے کے لئے قادیان کا کلیم کیا ہے“.صفحہ ۲۵۱ پر ان کا یہ بیان درج ہے کہ قادیان کے تقسیم کے Reference میں مسلمانوں کو یکجا رکھنا مقصود ہے اور آپس میں ملحقہ مسلم علاقوں کو یکجا رکھنا مقصد ہے.“ انہوں نے کہا:.تقسیم کی بنیا د مذہب ہے ، قادیان اسلامی دنیا کا ایک بین الاقوامی زنده مرکز بن چکا ہے.لہذا اس اکائی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوستان میں شامل ہوں یا پاکستان میں اور ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم پاکستان میں داخل ہوں گے.میمورنڈم میں صفحہ ۴۳۷ پر جو نکات پیش کئے گئے ہیں ان میں سے نمبر ایک پر یوں درج ہے:.قادیان ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے تھانہ بٹالہ میں واقع ہے.ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ گورداسپور ضلع کو مغربی پنجاب میں شامل کئے جانے کا کلیم اتنا واضح اور متحکم بنیادوں پر قائم ہے کہ عملاً اس بارے میں کوئی بحث بھی باؤنڈری کمیشن کے دائرہ سے باہر ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وائسرائے نے اپنی پریس کا نفرنس میں یہ کہا تھا کہ اس ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت صرف زیرو پوائنٹ آٹھ فی صد ہے.اس لئے ضلع گورداسپور کے بعض حصے لازماً غیر مسلم اکثریت کے ہوں گے.ہماری گزارش یہ ہے کہ اس بارے میں وائسرائے کی معلومات درست نہیں تھیں.۱۹۴۷ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلمان آبادی کل آبادی کا ۶۴۹ ۱۴ فی صد ہے.اس طرح سے مسلمانوں کی آبادی دوسروں کی نسبت ۸۶۲ فی صد زیادہ ہے.۸۰۰ فی صد نہیں.اس میمورنڈم میں مزید وضاحت یہ کی گئی کہ اگر اچھوت اقوام اور ہندوستانی عیسائی ہندوؤں اور سکھوں کا ساتھ دیں تب بھی مسلمان آبادی ۸۶۲ فیصد زائد ہے.مگر عیسائی راہنما ایس پی سنگھا، جو بٹالہ ضلع گورداسپور سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا..کہ وہ پاکستان میں رہنا پسند کریں گے.عیسائیوں کی آبادی ضلع گورداسپور میں ۴۶۶۴ فیصد ہے.اگر اس کو مسلمان آبادی کے ساتھ شامل کر لیا جائے تو پھر ضلع گورداسپور میں پاکستان میں شمولیت اختیا ر کرنے والوں کا تناسب ۶۰۶۵۵ فیصد ہو جاتا ہے.اور یہ معتد بہ تفاوت ہے.میمورنڈم میں دوسری ص (۱) تحصیل بٹالہ ۰۷۶۵۵ تحصیلوں کے بارے میں یہ اعداد و شمار دیئے گئے.(۲) تحصیل گورداسپور ۱۵۶۵۲ (۳) تحصیل شکر گڑھ ۱۴۶۵۳ (۴) تحصیل پٹھانکوٹ ۸۸۶۳۸ اور اس میمورنڈم میں یہ واضح کیا گیا کہ تحصیل بٹالہ میں مسلمانوں کی آبادی ۴۶۱۰ فی صد زیادہ ہے.تحصیل گورداسپور میں ۳۰۶۴ شکرگڑھ میں ۲۸۶۶ فی صد اور اگر ان عیسائیوں کو شامل کر لیا جائے جو پاکستان میں شمولیت کے خواہاں ہیں تو پھر تحصیل بٹالہ میں اکثریت ۶۶۰ ۵۳ فی صد اور تحصیل شکر گڑھ میں ۸۸۶۵۴ فی صد ہو جاتی ہے.وو تحصیل پٹھانکوٹ کے بارے میں جماعت احمدیہ نے یہ کہا کہ اس کو بھی پاکستان میں شامل ہونا چاہئے.کیونکہ اس میں OTHER FACTORS “ کی شق کے تحت پاکستان میں شامل کئے جانے کے قومی دلائل موجود ہیں.جو یہ ہیں کہ دریائے را وی اس تحصیل میں سے گزرتا ہے اور پھر مغربی پنجاب میں داخل ہوتا ہے اس میں سے جو نہریں نکالی گئی ہیں ان کا ھیڈ ورکس مادھو پور ہے.اور یہ نہریں مغربی پاکستان کے علاقے کو سیراب کرتی ہیں اور اس کو مشرقی پنجاب میں شامل کئے جانے کے نتائج

Page 35

بڑے بھیا نک ہو سکتے ہیں.جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ اگر تحصیل بہ تحصیل آبادی کا جائزہ لیا جائے تو بھی ضلع گورداسپور اور اسکی تمام تحصیلوں کو پاکستان میں آنا چاہئے اور اگر ذیل کو اکائی قرار دیا جائے یا تھانہ کو کائی قرار دیا جائے تو بھی قادیان کو پاکستان میں آنا چاہئے.کیونکہ ذیل جو کہ پچاس ساٹھ دیہات پر مشتمل اکائی ہوتی ہے اگر اس کو بنیاد بنایا جائے تو قادیان جو کہ دلہ کی ذیل میں آتا ہے اس میں مسلمان اکثریت ۶۱ء ۱۰ فی صد ہے اور قادیان سے مشرق کی جانب دریائے بیاس تک اور مغرب کی جانب بٹالہ تک سارے کے سارے ذیل مسلم اکثریت کے ذیل ہیں اس لئے قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا.یہ میمورینڈم کتاب کی جلد اول کے صفحہ ۴۲۸ سے لے کر ۴۵۹ ہے.اس ا لفظ ریکارڈ پر موجود رینڈم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت مدلل اور قومی دستاویز ہے جس کا مطالعہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا.غرضیکہ حقائق اتنے واضح روشن اور واشگاف ہیں کہ اس بارہ میں اٹارنی جنرل کی طرف سے سوال اٹھایا جانا نا قابل فہم ہے.تاریخ میں جن لوگوں کی وابستگیاں کانگریس کے ساتھ رہی ہوں اور جوستی شہرت حاصل کرنے کے لئے پبلک سٹیج پر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے من گھڑت غیر مستند بے سروپا الزامات دہرانے کے عادی ہوں ان کی بات اور ہے مگر قومی اسمبلی ہر شہری کے نزدیک متانت، وقار اور ثقہ بحث کی آئینہ دار ہونی چاہئے تھی.خصوصی کمیٹی میں یہ سوال اٹھا کر کمیٹی کی پوری کاروائی کو مسند اعتبار سے گرا کر مشتبہ بنادیا گیا.کمیٹی کے سامنے جو بات زیر غور تھی وہ عقیدہ ختم نبوت سے تعلق رکھتی تھی.اگر اس سوال کا مقصد تحریک پاکستان سے سیاسی وابستگی یا عدم وابستگی ظاہر کرنا تھا تو ترمیم ان الفاظ میں ہونی چاہئے تھی :.” جو شخص تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے مفاد کے خلاف کام کر چکا ہو وہ آئین اور قانون کی اغراض سے غیر مسلم ہوگا اور پاکستانی شہریت کا حقدار نہ ہوگا.“ اگر یہ مقصد ہوتا تو جماعت احمد یہ تو اپنے علیحدہ میمورینڈم کے باوجود اس تعریف میں نہ آتی مگر یہ ختم نبوت والے احراری اور کانگریسی علماء ضرور اس تعریف میں آجاتے.عقل دنگ ہے کہ اٹارنی جنرل ان مولویوں کے ہاتھوں ایسے بے بس ہو گئے کہ ان کو اپنا بنیادی ریفرینس ہی بھول گیا.مگر کیا کیجئے اللہ وسایا کی کتاب سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے.( مطبوعه : الفضل انٹر نیشنل سرمئی ۲۰۰۲ تا ۹ رمئی ۲۰۰۲) (ساتویں اور آخری قسط) (11) اٹارنی جنرل کی آخری بحث ( دلچسپ انکشاف ) اللہ وسایا کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے بعض ایسے انکشافات بھی ہوئے ہیں جو سنجیدہ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہونگے.اللہ وسایا کی مرتبہ کتاب کے صفحہ ۲۵۶ سے لے کر ۳۱۷ تک اٹارنی جنرل کا وہ مفصل بیان درج ہے جو گویا انہوں نے تمام کارروائی کے اختتام پر بحث کو سمیٹتے ہوئے دیا.غالب گمان یہ ہے کہ اٹارنی جنرل کے اس بیان میں اللہ وسایا موصوف نے کوئی اختصار" یا " اجمال" کی کارروائی نہیں کی ہوگی اور بالخصوص کوئی ایسی ٹھوس اور مؤثر بات جو جماعت احمدیہ کے موقف کا توڑ اور نفی کرتی ہو اٹارنی جنرل کے بیان میں سے یقیناً حذف نہیں کی ہوگی.حکومتی پارٹی کی طرف سے جو ریفرنس یعنی مسئلہ خصوصی کمیٹی کے سپر د ہوا تھا اس کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں.یہ بات حیرت اور دلچپسی کا موجب ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی آخری بحث میں یوں تو وزیر قانون کی تحریک اور حزب اختلاف کی قرار داد دونوں ہی پر تنقید کی، مگر وزیر قانون کی تحریک کو تو ایک ہی فقرے میں نمٹا دیا.اٹارنی جنرل نے کہا:.آغاز میں پہلے وہ تحریک جو کہ عزت ماب وزیر قانون نے پیش کی تھی ، جناب والا تحریک کے الفاظ یہ ہیں :.” دینِ اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ

Page 36

رکھتا ہو.آئیے پہلے اس جملہ کی ترکیب کو لیں.اسلام کے اندر حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا.اگر ایوان کی یہ رائے ہو کہ جو لوگ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ مسلمان نہیں ہیں ، تو پھر ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے.تحریک بذات خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہے.اگر یہ کہا جاتا کہ اسلام میں یا اسلام کے حوالہ سے بحث کرنا تو پھر بات سمجھ میں آسکتی تھی.لیکن یہ کہنا کہ اسلام میں حیثیت یا مقام‘ اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تضاد ہے جو زیادہ اہم نہ بھی ہو لیکن یہ تضاد ایوان کے نوٹس میں لانا میرا فرض تھا.یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے.ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے ان کی حیثیت کیا ہے“.گویا اٹارنی جنرل خود ہی مفتی بھی بن گئے ، عالم دین بھی بن گئے اور یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ تحریک اپنے اندر تضاد رکھتی ہے.جب کوئی ختم نبوت کے ایک مخصوص مفہوم کا انکاری ہو گیا تو اس کی حیثیت اسلام میں متعین کرنے کا کیا سوال ہے؟ وہ اس بحث میں نہیں پڑے کہ آخر کوئی تصفیہ طلب اختلاف تھا تو معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا گیا.اور وہ اختلاف ایسا تھا کہ اس وقت کے سیاسی اقتدار کی سوچ کے مطابق اس مسئلہ پر قومی اسمبلی کا غور کرنا ضروری تھا ورنہ وہ مسئلہ قومی اسمبلی میں نہ اٹھایا جاتا.جماعت احمدیہ کے امام اور وفد کو قومی اسمبلی میں طلب کرنے کا مبینہ مقصد ہی یہ تھا کہ اس مسئلہ پر ان کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقعہ دیا جائے اور پھر یہ غور ہو کہ ختم نبوت کے بارہ میں ایسا مئوقف رکھنے والوں کی اسلام میں کیا حیثیت ہے.بات اسلام کے حوالہ سے ہی ہونی تھی اور اسی حوالہ سے غور بھی ہونا تھا.یہ بات کہ اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے اور اسلام کے حوالہ سے ان کی حیثیت کیا ہے نفس مضمون کے لحاظ سے ایک ہی بات تھی مگر اٹارنی جنرل نے اسلام کے حوالہ سے بھی اس سوال پر بحث کرنا ضروری نہ سمجھا اور مجھ لیا کہ اس بات پر امت مسلمہ مبینہ طور پر متفق ہے.اور اس بات پر کوئی بحث نہیں کی کہ امت کا اتفاق موجود تھا بھی یا نہیں.امام جماعت احمد یہ اپنے تفصیلی بیان میں کہہ چکے تھے کہ امت کے آئمہ سلف کا اتفاق اس مفہوم پر تھا جو جماعت احمدیہ کے عقیدہ سے مطابقت رکھتا ہے.جناب اٹارنی جنرل گیارہ دن تک حضرت امام جماعت احمدیہ پر جرح کرتے رہے.اللہ وسایا کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملہ پر علماء دین نے ، جو اسمبلی میں موجود تھے، کوئی مواد اٹارنی جنرل کو مہیا نہیں کیا جو اٹارنی جنرل بیان کریں کہ ایسے شخص کی اسلام میں کیا حیثیت ہے.اس مسئلہ پر مکمل خاموشی رہی کوئی قرآن و سنت کا حوالہ، کوئی آئمہ سلف کے اقوال پیش نہیں کئے گئے اور کوئی ایک سوال بھی اس بارے میں نہیں کیا گیا کہ دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت کیا ہے جو حضرت محمد مے کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو.اور نہ ہی اللہ وسایا کی مرتبہ کتاب کے مطابق اٹارنی جنرل نے اپنی آخری بحث میں قرآن وحدیث کے حوالے سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی.حالانکہ جماعت احمدیہ اپنے محضر نامے میں اس بارے میں مفصل بیان داخل کر چکی تھی جس میں قرآن وحدیث کے علاوہ تیرہ صدیوں کے بزرگانِ سلف کی تحریرات و تفاسیر اس سوال کے جواب میں پیش کی تھیں.علماء دین میں سے کوئی بھی اٹارنی جنرل کی مددکو نہ پہنچے اور یوں.رہروی میں پرده کھلا رہبر اٹارنی جنرل صاحب خود تو عالم دین ( روایتی مفہوم میں ) تھے نہیں، نہ ان کو اس بارہ میں کوئی دعوی تھا.بلکہ وہ خود اقراری ہیں کہ ان کے لئے زبان کا مسئلہ ہے.مراد ان کی غالبا عربی زبان سے تھی، ورنہ اردو اور انگریزی پر تو انہیں عبور حاصل تھا.علماء دین نے ان کو جماعت احمدیہ کے اٹھائے گئے سوالات اور حوالوں کا جواب مہیا نہیں کیا اور بیچارے اٹارنی جنرل صاحب کو علامہ اقبال پر انحصار کرنا پڑا.انہوں نے علامہ اقبال کے متعدد حوالے دئے.علامہ اقبال نے عصر جدید میں پڑھے لکھے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑا ہے.علامہ کے فکر میں جدت پسندی ، کسی حد تک روایت سے بغاوت ، خانقاہوں اور تصوف اور ملائیت کی مخالفت اور فلسفہ اور منطقی مباحث شامل ہیں.علامہ اقبال نے اسلام کا مطالعہ بھی فلسفہ کی نظر سے کیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے اسلامی فکر کو ایک نئی زبان عطا کی ہے.گو اس بارہ میں اختلاف ہو سکتا ہے، اور موجود ہے کہ ایسا کرنے میں اقبال کا فلسفیانہ نقطۂ نظر کہاں تک اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے.علامہ اقبال خود اپنے بارے میں فرما چکے ہیں:.

Page 37

” میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہائت محدود ہے.میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے.دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں“.(اقبال نامه حصه اول صفحه ۴۷.۴۶ ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور) مگر اٹارنی جنرل نے اپنے استدلال کی بنیا دا قبال کے خیالات پر رکھی اور کہا:.علامہ اقبال فرماتے ہیں:.فتحیت کے نظریہ سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ زندگی کے نوشتہ تقدیر کا انجام استدلال کے ہاتھوں جذباتیت کا مکمل انخلاء ہے.ایسا وقوع پذیر ہونانہ تو ممکن ہی ہے اور نہ پسندیدہ ہے.کسی بھی نظریہ کی دینی قدر و منزلت اس میں ہے کہ کہاں تک وہ نظریہ عارفانہ واردات کے لئے ایک خود مختارانہ اور نافذ نہ نوعیت کے تحقیقی نقطہ نگاہ کو جنم دینے میں معاون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر اس اعتقاد کی تخلیق بھی کرے کہ اگر کوئی مقتدر شخص ان واردات کی وجوہ پراپنے اندر کوئی مافوق الفطرت بنیاد کا داعیہ پاتا ہے تو وہ سمجھ لے کہ اس نوعیت کا داعیہ تاریخ انسانی کے لئے اب ختم ہو چکا ہے.اس طرح پر یہ اعتقاد ایک نفسیاتی طاقت بن جاتا ہے جو مقتدر شخص کے اختیاری دعوی کو نشو و نما پانے سے روکتا ہے.ساتھ ہی اس تصور کا نعل یہ ہے کہ انسان کے لئے اس کے واردات قلبیہ کے میدان میں اس کے لئے علم کے نئے مناظر کھول دے.“ پھر حضرت مرزا غلام احمد کے حوالے سے علامہ اقبال فرماتے ہیں:.اختتامیہ جملے سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ولی اور اولیاء حضرات نفسیاتی طریقے سے دنیا میں ہمیشہ ظہور پذیر ہوتے رہیں گے.اب اس زمرہ میں مرزا صاحب شامل ہیں یا نہیں، یہ علیحدہ سوال ہے.مگر بات اصل یہی ہے کہ بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے، ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کر کے لوگوں کی رہنمائی کے لئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے.اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے روگردانی کی.فرق صرف یہ ہے کہ آدمی کو فی زمانہ یہ حق ہے کہ ان حضرات کے واردات قلبیہ کا ناقدانہ طور پر تجزیہ کرے.ختمیت انبیاء کا مطلب یہ ہے جہاں اور بھی کئی باتیں ہیں کہ دینی زندگی میں جس کا انکار عذاب اخروی کا ابتلاء ہے، اس زندگی میں ذاتی نوعیت کا تحکم و اقتدار اب معدوم ہو چکا ہے.“ اقبال کے مندرجہ بالا اقتباس کا نتیجہ اٹارنی جنرل نے یہ نکالا کہ:.اس لئے جناب والا ! آئندہ کوئی فرد یہ نہیں کہے گا کہ مجھے وحی الہی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا پیغام ہے جس کا ماننا تم پر لازم ہے.لازم صرف وہی ہے جو قرآن پاک میں پہلے سے آچکا ہے.“ اقبال کی اس عبارت پر ذرا غور کریں تو اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو اٹارنی جنرل نے اخذ کیا ہے.اٹارنی جنرل نے ختم نبوت کا جو یہ اجتماعی مفہوم گو یا بیان کر دیا کہ بس اب وحی بند ہے.اس پر علامہ اقبال کا مئوقف وہی ہے جو حضرت محی الدین ابنِ عربی (۵۶۰ هجری - ۶۳۸ هجری) کا ہے، صرف زبان اور اصطلاحات کا فرق ہے.اقبال فلسفہ کی زبان میں وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو حضرت محی الدین ابن عربی الہیات اور تصوف کی زبان میں فرما رہے ہیں.ملاحظہ ہو :- فَالنِّبُوَّةِ سَارِيَةٌ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ فِى الْخَلْقِ وإِنْ كَانَ التَّشْرِيعُ قَدْ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيْعِ جُزْءٌ مِن أَجْزَاءِ النَّبِوَّة فَإِنَّهُ يَسْتَحِيْلُ أَنْ يَنْقَطِعَ خَبَرُ الله وأخباره مِنَ الْعَالم إِذ لَوِ انْقَطَع وَلَمْ يَبْقَ لِلْعَالَمَ عَذَاءِ يَتَغذِى بِهِ فِي بِقَاءِ وجودہ.(الفتوحات المكية الجزء الثالث - صفحه ۱۵۹ ، سوال نمبر ۸۲ - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع الطبعة ١٩٩٤ء) ترجمہ: نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوت منقطع ہوگئی ہے.پس شریعت، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.اور یہ محال ہے کہ اللہ کی طرف سے خبریں آنی منقطع ہو جائیں اور دنیا کے لئے غذا باقی نہ رہے، جس سے اس کے وجود کو بقا حاصل ہو.گویا محی الدین ابن عربی ” نبوت“ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں.اقبال اسے عارفانہ واردات“ کہتے ہیں.محی الدین ابنِ عربی، اخبار الہی کا منقطع ہونا محال قرار دیتے ہیں تو اقبال یہ کہتے ہیں، ” مگر بات اصل یہی ہے بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے، ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کر کے لوگوں کی رہنمائی کے لئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے.اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے روگردانی کی.“

Page 38

طور.ان بشری وقوعات کو اقبال اولیاء کی نفسیاتی واردات قلب کے طور پر بیان کرتے ہیں اور محی الدین ابن عربی اخبار الہی کے جناب اٹارنی جنرل نے تو اقبال کی فلسفیانہ تو جیہات پر انحصار کر لیا جبکہ اقبال خود کہتے ہیں کہ مغربی فلسفہ کا نقطۂ خیال ایک حد تک ان کی طبیعت ثانیہ بن گیا ہے اور وہ دانستہ یا نا دانستہ اسی نقطۂ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں.اور علماء حضرات نے اٹارنی جنرل کی کوئی راہنمائی نہ کی کہ جماعت احمدیہ نے محی الدین ابن عربی کا جو حوالہ پیش کیا ہے اس کا مفہوم کیا ہے.غیر مشروط آخری نبی کا تصور جس پر کوئی جرح اور بحث نہیں ہوئی اور جسے متفق علیہ مان کر برآمد کرلیا گیا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ اسے نہ دیو بندی حضرات کے مسلمہ بزرگوں کی تائید حاصل ہے ، نہ بریلوی حضرات کے بزرگوں کی ، نہ آئمہ سلف کی.مولانا محمد قاسم نانوتوی کہتے ہیں: عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاتر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں { ولکن رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ » فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت با اعتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.(تحذیر الناس صفحہ ۳) دیوبندی حضرات میں سے کسی نے نہ جرح میں کوئی سوال اٹھایا ، نہ ہی اٹارنی جنرل کو توجہ دلائی کہ بانی دیو بند تو آ نحضرت کو غیر مشروط طور پر آخری نبی نہیں مانتے.ان کے نزدیک تو خاتمیت باعتبار زمانہ نہیں.بریلوی بزرگوں میں سے مولوی ابوالحسنات محمد عبد الحئی صاحب لکھنوی فرنگی محلی اپنی کتاب ” دافع الوسواس کے صفحہ ۱۶ پر اپنامذہب ختم نبوت کے بارہ میں یوں پیش کرتے ہیں:.بعد آنحضرت ﷺ کے زمانے کے یا زمانے میں آنحضرت ﷺ کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ منع ہے.پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ میرا عقیدہ ہی نہیں بلکہ علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے چلے آئے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں: علمائے اہلِ سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہوسکتا.اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہوگا وہ متبع شریعت محمدیہ کا ہوگا.“ (مجموعه فتاوى مولوى عبدالحئی صاحب جلد اصفحه ۱۴۴) گویا مولوی ابوالحسنات محمد عبد ائی صاحب لکھنوی فرنگی محلی بھی آنحضرت ﷺ کو غیر مشروط آخری نبی نہیں مانتے.ان کے نزدیک آخری نبی سے مراد یہ ہے کہ آپ آخری شرعی نبی ہیں اور آپ کے بعد صاحب شریع جدید کوئی نہ ہوگا.مگر اسمبلی میں موجود کسی بریلوی عالم نے جرح میں سوال نہیں اٹھایا ، نہ ہی اٹارنی جنرل کو توجہ دلائی.یہ تو گویا ماضی قریب کے بزرگان کا ذکر تھا.پرانے بزرگوں میں سے حضرت امام عبدالوہاب شعرانی کا ایک قول سنئے.یہ معروف مشہور صوفی بزرگ جن کی کتاب ”الیواقیت والجواہر “ کو ایک خاص سند حاصل ہے اس میں آپ فرماتے ہیں:." اعْلَمْ أَنَّ النبوة لم ترتفع مطلقاً بعد مُحَمَّدٍ الله وانما ارتفع نبوة التشريع فقط (اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الاكابر.الامام عبع الوهاب الشعرانی.الجزء الثانی، صفحه ۳۵ ـ دار المعرفة للطباعة و النشر بيروت لبنان.الطبعة الثانيه.١٩٠٠) وو ترجمہ : جان او مطلق نبوت نہیں اٹھی.صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے.انکشاف یہ ہوا کہ جو ترمیم پیش ہو کر منظور ہوئی وہ کبھی زیر غور ہی نہیں آئی اور جس صورت میں منظور ہوئی اس پر کسی کا اتفاق نہیں." غیر مشروط آخری نبی کا تصور امت میں موجود ہی نہیں.سب کے سب حضور کے آخری نبی ہونے کو کسی نہ کسی رنگ میں مشروط مانتے ہیں.کچھ بزرگ شرعی اور غیر شرعی کی بنیاد پر مشروط قرار دیتے ہیں، کچھ زمانے اور مرتبہ کی بنیاد پر اور کچھ پرانے اور نئے کی بنیاد پر.جو ترمیم کی گئی ہے اس کے مطابق مندرجہ ذیل حضرات اور بزرگان غیر مسلم ٹھہرا دئے

Page 39

گئے ہیں اور ان کو کان وکان خبر نہیں ہوئی.کیونکہ یہ سب بزرگان آخری نبی ہونے کو کسی نہ کسی رنگ میں مشروط مانتے ہیں.شرط کی نوعیت میں اختلاف ہے مشروط ہونے میں اختلاف نہیں.ا.مولانا سید محمد قاسم نانوتوی.یہ آنحضرت ﷺ کو شرعی نبی ہونے کے لحاظ سے آخری نبی مانتے ہیں اور آخری نبی ہونا تشریع سے مشروط ہے.ان کے نزدیک حضور زمانے کے لحاظ سے آخری نہیں، مقام ومرتبہ کے لحاظ سے آخری ہیں.غیر مشروط بہر حال نہیں.۲.مولانا مفتی محمود.کیونکہ وہ بانی دیو بند سید قاسم نانوتوی کے ہم مسلک ہیں.۳.مولانا سید عبدالحی فرنگی محلی.۴.مولانا شاہ احمد نورانی، کیونکہ وہ بھی غیر مشروط آخری نبی نہیں مانتے.ملاحظہ ہو اللہ وسایا کی کتاب میں مولانا شاہ احمد نورانی کہتے ہیں.جناب خاتم النبیین کا معانی ای لاينبأ احد بعده واما عيسى عليه السلام ممن نبی قبله حضور علیہ السلام کے بعد کوئی شخص نبی نہیں بنایا جائے گا اور مگر حضرت عیسی علیہ السلام وہ نبی ہیں جو حضور علیہ السلام سے پہلے نبی بنائے جاچکے.“ (صفحه ۱۲۹) گویا مولانا شاہ احمد نورانی اس شرط کے ساتھ حضور ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں کہ جسے آپ ﷺ سے پہلے نبوت مل چکی وہ آپ ﷺ کے بعد آ سکتا ہے.یعنی آپ کی خاتمیت زمانے سے مشروط نہیں ، بعثت سے مشروط ہے.جو ترمیم منظور کی گئی اس کی رو سے جو شخص کسی مصلح کا ظہور بھی تسلیم کرے، غیر مسلم ٹھہرا دیا گیا ہے جبکہ علامہ اقبال اس بات کے قائل ہیں کہ :.بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے، ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کر کے لوگوں کی رہنمائی کے لیئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے.اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے روگردانی کی.“ تو گویا علامہ اقبال بھی غیر مسلم ٹھہرے.اٹارنی جنرل کا سارا استدلال اقبال کے حوالہ سے تھا وہ تو باطل ہو گیا اور قرآن و حدیث اور آئمہ سلف کے اقوال علماء نے پیش نہ کئے.جماعت احمدیہ نے پیش کئے تو ان پر جرح نہ کی گئی.یہ خصوصی کمیٹی کی کارروائی کی تصویر ہے جو اللہ وسایا کی کتاب سے ابھرتی ہے.علماء حضرات کی موجودگی میں کھلی آنکھوں اور سنتے کانوں ان کی رہبری میں یہ ترمیم منظور ہوئی اور یوں سے رہروی میں پرده رہبر کھلا (۱۲) اے اہلِ وطن ! پاکستان کی قومی اسمبلی نے مسلمان کی تعریف تو متعین نہ کی مگر آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعہ احمد یوں کو آئین وقانون کی اغراض سے غیر مسلم قرار دے دیا.احمدیوں کے لئے یہ صورت کتنی بھی ناگوار کیوں نہ ہو، مگر قانونی پوزیشن یہی ہے ، کہ پاکستان کے آئین کی رو سے احمدی غیر مسلم ٹھہرا دیئے گئے ہیں.احمدی حضرات اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ خدا کے حضور مسلمان ٹھہریں اور روز حشر آنحضرت ﷺ کی امت میں ان کا شمار ہو، آنحضرت ﷺ کی شفاعت ان کو حاصل ہو اور حضور ﷺ کا دامن انہیں میسر رہے.ان کی اس خواہش کو ان سے چھینا نہیں جا سکتا.اپوزیشن کا ریزولیوشن اور وزیر قانون کی تحریک، جو ہماری اس کتاب کے پہلے باب میں پس منظر کے عنوان کے تحت درج کر دی گئی ہے، ان کا جائزہ لیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے اپنی بحث کے دوران یہ کہا کہ:.لیکن میرا فرض ہے کہ میں معزز اراکین کی توجہ اس امر کی طرف دلاؤں کہ اگر آپ شہری آبادی کے کسی حصہ کو ایک الگ مذہبی جماعت قرار دیتے ہیں، تو پھر نہ صرف ملک کا آئین بلکہ آپ کا مذہب تقاضا کرتا ہے کہ آپ ان کے حقوق کی حفاظت کریں.ان کو اپنے مذہب کے پر چار اور عمل کا حق دیں.(صفحہ ۲۲۱)

Page 40

پھر اپنی بحث کے آخری حصہ میں اس بات کا اعادہ کیا اور کہا:.اب میں دستور کے مطابق احمدیوں کی حیثیت کے بارہ میں گزارشات کروں گا، فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، اراکین جو بھی راستہ اختیار کریں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ وہ پاکستانی ہیں اور شہریت کا پورا پورا حق رکھتے ہیں.” ذمی یا دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یادرکھئے کہ پاکستان لڑ کر حاصل نہیں کیا گیا بلکہ یہ مصالحت اور رضامندی سے حاصل کیا گیا تھا.یہ ایک معاہدہ تھا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی.ہندوستان میں ایک مسلمان قوم تھی اور دوسری ہند و قوم ، اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ذیلی قومی گروہ تھے.پاکستان کی تخلیق کے ساتھ مسلمان قوم بھی تقسیم ہوگئی اور اس کا ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا.ہم ان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے لئے قربانیاں دی تھیں.چنانچہ یہ قرار پایا کہ ان کے شہری اور سیاسی حقوق ہندوؤں کے حقوق کے برابر ہوں گے.اسی طرح ہم پاکستان میں ہندؤوں اور دیگر اقلیتوں کو مساوی شہری اور سیاسی حقوق دیں گے.اس بات کا ذکر آپ کو چوہدری محمد علی کی لکھی ہوئی کتاب، Emergence of Pakistan( ایمر جینس آف پاکستان) میں ملے گا.پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا تھا جسے قائد اعظم نے خطاب کیا تھا.وہ ایک نہائت مشکل دور تھا.بے شمار مسلمان شہید ہو گئے تھے.قربانیاں دی گئی تھیں.اس معاہدہ کے باوجود ہندو مسلمانوں کو ذبح کر رہے تھے جس کا قدرتی طور پر پاکستان میں رد عمل ہوا.قائد اعظم نے مسلمانوں سے پر امن رہنے کی پر سوز اپیل کی.وہ ہمیں اپنے وعدے کا احساس دلا رہے تھے.وہ حکومتِ پاکستان کو اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کی یاد دہانی کرارہے تھے.انہوں نے فرمایا تھا:.” آپ اپنے مندروں میں جانے کو آزاد ہیں، اپنی مسجد وں میں جانے کو آزاد ہیں.“ اور مزید فرمایا:.وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہے گا.مذہبی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر یعنی یہ کہ سب کے لئے سیاسی آزادی برابر ہوگی“.(صفحه ۳۱۷.۳۱۶) اس طرح آئینی ترمیم سے قبل عوام اور عالمی رائے عامہ کو اطمینان دلانے کے لئے اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ احمدیوں کے شہری حقوق محفوظ ہوں گے اور ان تحفظات کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کی جا رہی ہے.آئین کی ترمیم کے ذریعہ مذہب میں دخل اندازی کو سنجیدہ طبقہ نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا مگر پھر بھی یہ سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی کہ شائد روز روز کے جھگڑوں، تشدد پسند مولویوں اور ان کے نت نئے مطالبوں سے نجات مل جائے گی.لیکن احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ احمدیوں کے حقوق سلب کر لینے کے مطالبات شروع ہو گئے اور بالآخر ۱۹۸۴ء میں ایک فوجی آمر نے اپنے ناجائز اقتدار کو سہارا دینے کے لئے ایک ایسا قانون نافذ کر دیا جس سے مذہبی اذیت پسندوں کی مراد بر آئی اور احمدیوں کے لئے اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کے نام سے پکارنا اور نماز کے لئے اذان دینا، قابل تعزیر جرم ٹھہرا اور تین سال قید با مشقت اور غیر معین جرمانہ کی سزا مقرر کر دی گئی.ان کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی گئی اور قانون کی دفعات میں ایسی راہیں کھول دی گئیں کہ احمدیوں کے لئے اپنے مذہبی اعتقاد اور ضمیر کے مطابق نہ صرف خدا کے حضور عبادات بجالا نا محال کر دیا گیا بلکہ ان کی روز مرہ زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی.اسلام علیکم کہنے پر ماہ رمضان میں اپنے ہی گھر میں اعتکاف بیٹھنے پر، عزیزوں دوستوں کو افطار کے لیے مدعو کر نے پر ، دعوتی کارڈ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر مقدمات قائم ہوئے اور سزائیں دی گئیں.ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ یہ مطالبے شروع ہو گئے کہ تین سال کی سزا نا کافی ہے.نت نئی صورتیں احمدیوں کو اذیت پہنچانے کی پیدا کی جانے لگیں.اور تو اور ربوہ کا نام بھی تبدیل کرنے کے مطالبے ہونے لگے اور بالآ خر نام تبدیل کر دیا گیا.تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ہر ممکن حملہ احمدیوں کی مذہبی آزادی پر کیا گیا.ان کی تبلیغ پر پابندی لگا کر یکطرفہ زہریلا پر ا پیکینیڈا ان کے خلاف کیا جا رہا ہے.احمدیوں کے سالانہ جلسہ اور معمول کے اجتماعات پر سرکاری احکام کے تحت پابندیاں عائد کی گئیں.ان کے جرائد ورسائل پر لاتعداد مقدمات قائم کئے گئے.غرضیکہ احمدیوں کے لئے نہ مذہبی آزادی میسر رہی، نہ آزادی اظہار، نہ آزادی اجتماع.اس ارضِ پاک میں کلمہ کلیہ مثانے کی مہم بھی چلائی گئی اور اس غرض کے لئے انتظامیہ اور پولیس کو استعمال کیا گیا.اہلِ وطن اپنے احمدی ہم وطنوں کی مذہبی آزادی سلب ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہے.مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ احساس بالکل ہی اٹھ گیا ہوتا.ایسا بھی ہوا کہ ایک موقعہ پر ایک مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ آئی ہوئی پولیس فورس کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ (احمدی )

Page 41

بغیر یونیفارم کے تو کسی کو کلمہ نہیں مٹانے دیں گے یہ تو سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے ہیں، لیکن اگر حکومت مٹائے تو احمدی کہتے ہیں کہ ہم مزاحمت نہیں کریں گے.اس صورت میں اللہ جانے اور حکومت.جب وہ مجسٹریٹ اتنی بات کہہ رہا تھا، تو ایس ایچ او نے کہا کہ جناب یہ باتیں تو بعد میں طے ہونگی پہلے یہ بتائیں کہ مٹائے گا کون؟ اس نے کہا کہ لاز ما تم ہی مٹاؤ گے تمہیں اسی لئے ساتھ لایا ہوں.اس پر ایس ایچ او نے کہا یہ میری بیٹی ہے اور یہ میرا STAR ہے جہاں مرضی لے جائیں مگر خدا کی قسم میں کلمہ نہیں مٹاؤں گا اور نہ ہی میری فورس کا کوئی آدمی کلمہ مٹائے گا.اس لئے جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ کلمہ کون مٹائے گا اس وقت تک یہ ساری باتیں فضول ہیں کہ کس طرح مٹایا جائے.اس قسم کا ایک واقعہ نہیں ہوا، پاکستان کے طول و عرض میں ایسے کئی واقعات رونما ہورہے ہیں کہ پولیس جو پاکستان میں سب سے بد نام انتظامیہ مشہور ہے اور جسے ظالم سفاک بے دین اور بے غیرت کہا جاتا ہے اور ہر قسم کے گندے نام دیئے جاتے ہیں کلمہ کی محبت ایسی عظیم ہے، کلمہ کی طاقت اتنی عجیب ہے کہ ایک جگہ نہیں متعدد جگہوں سے بار ہا یہ اطلاعات ملی ہیں کہ پولیس نے کلمہ مثانے سے صاف انکار کر دیا ہے اور یہ کہا کہ کوئی اور آدمی پکڑو جو کلمہ مٹائے ، ہم اس کے لئے تیار نہیں.اسی طرح بعض مجسٹریٹس کے متعلق اطلاعیں مل رہی ہیں کہ وہ بڑے ہی مغموم حال میں سر جھکائے ہوئے آئے ، معذرتیں کیں اور عرض کیا کہ ہم تو مجبور ہیں ، ہم حکومت کے کارندے ہیں، ہماری خاطر کلمہ مٹادو.احمدیوں نے کہا کہ ہم تو دنیا کی کسی حکومت کی خاطر کلمہ مثانے کو تیار نہیں ہیں، اگر تم جبر امٹانا چاہتے ہو تو مٹاؤ.پھر مجسٹریٹ نے کہا اچھا سیڑھی لاؤ تو جواب میں کہا گیا کہ ہمارے ہاتھ سیڑھی بھی لے کر نہیں آئیں گے.پھر انہوں نے کسی اور سے سیڑھی منگوائی اور ایک آدمی کلمہ مٹانے کے لئے اوپر چڑھایا.اس وقت احمد یہ مسجد سے ایسی درد ناک چھینیں بلند ہوئیں کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کا سب کچھ برباد ہو چکا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہا.اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ خود مجسٹریٹ کی بھی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں اور ابھی کلمہ پر ایک ہی ہتھوڑی پڑی تھی کہ مجسٹریٹ نے آواز دی کہ واپس آجاؤ ہم یہ کلمہ نہیں منائیں گے.حکومت جو چاہتی ہے ہم سے سلوک کرے، ہم اس کے لئے تیار ہیں.(زهق الباطل صفحه ۷۸ ۱ تا ۱۷۹) ایک اور انتہائی دردناک واقعہ جو ہمارے علم میں آیا وہ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ ہے کہ ایک موقعہ پر جب پولیس نے بھی کلمہ مثانے سے انکار کر دیا اور گاؤں کے سب مسلمانوں نے بھی صاف انکار کر دیا کہ ہم ہرگز یہ کلمہ نہیں مٹائیں گے تو اس بد بخت مجسٹریٹ نے سوچا کہ میں ایک عیسائی کو پکڑتا ہوں کہ وہ کلمہ منائے.چنانچہ اس نے ایک عیسائی کو کہا کہ وہ کلمہ منائے.اس نے کہا کہ میں اپنے پادری صاحب سے پوچھ لوں.پادری نے یہ فتویٰ دیا کہ دیکھو! اللہ سے تو ہمیں کوئی دشمنی نہیں ہے خدا کی وحدانیت کا تو ہم بھی اقرار کرتے ہیں اور وہ بھی.اس لئے کسی عیسائی کا ہاتھ لا اله الا اللہ کو نہیں مٹائے گا ہاں جاؤ اور (نعوذ باللہ من ذلک ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام کو مٹا دو.اس بد بخت اور لعنتی نے یہ گوارہ کر لیا کہ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ کا نام ایک عیسائی کے ہاتھ سے مٹوادے“.(زهق الباطل صفحه ۱۸۰.۱۸۱) امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ نے متنبہ کیا:.مگر میں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہمارے خدا کو جس طرح اپنے نام کی غیرت ہے اسی طرح ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ کے نام کی بھی غیرت ہے.محمد مصطفی ﷺے خود مٹنے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر خدا کے نام کو مٹنے نہیں دیتے تھے.ہمارا خدا نہ خود مٹ سکتا ہے اور نہ محمد کے پاک نام کو کبھی مٹنے دے گا.اس لئے اے اہل پاکستان ! میں تمہیں خبر دارا اور متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تم میں کوئی غیرت اور حیا باقی ہے تو آؤ اور اس پاک تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.کلمہ، اس کی عزت اور اس کی حرمت کو قائم کرو.اور فرمایا:.پس اے اہلِ پاکستان !اگر تم اپنی بقا چاہتے ہو تو اپنی جان، اپنی روح ، اپنے کلمہ کی حفاظت کرو.میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اس کلمہ میں جس طرح بنانے کی طاقت ہے اس طرح مثانے کی بھی طاقت موجود ہے.یہ جوڑنے والا کلمہ بھی ہے اور توڑنے والا بھی مگر ان ہاتھوں کو توڑنے والا ہے جو اس کی طرف توڑنے کے لئے اٹھیں.اللہ تمہیں عقل دے اور تمہیں ہدایت نصیب ہو.( زهق الباطل صفحه ۱۸۱ ، خطبه جمعه فرموده یکم مارچ ۱۹۸۵ مسجد فضل لندن) آخر میں ہم اہل وطن اور دانشورانِ قوم سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایک کھلی کھلی نا انصافی

Page 42

کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی جائے اور تشدد، منافرت اور عدم رواداری کے دہکتے ہوئے الاؤ سے قوم کو نجات دلائی جائے.(مطبوعہ: الفضل انٹر نیشنل ۱۰ مئی ۲۰۰۲ تا ۱۶ مئی ۲۰۰۲ )

Page 42