Ahle Bait-eRasool

Ahle Bait-eRasool

اہلِ بیتِ رسول ﷺ

ازواجِ مطہرات ؓ اور اولاد النبیﷺ کی سیرت و سوانح کا ایمان افروز تذکرہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کے خونی رشتہ دار، اور خدمات اسلام میں پیش پیش رہنے والے ان مقدس وجودوں کے حالات زندگی پر مشتمل یہ کتاب بہت محنت، تحقیق و تدقیق کے بعد مرتب کی گئی ہے۔ اس میں اہل بیت کی تعریف ، ان کا اعلیٰ مقام، ازواج مطہرات کا مختصر تعارف، بنات اور دیگر اہل بیت کے تفصیلی تذکرہ، ان مقدس وجودوں پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات اور دیگر متعلقہ ضروری مواد پر مشتمل یہ کتاب وقت کی ضرورت بن کر سامنے آئی اور سلسلہ کے لٹریچر میں اس موضوع پر یکجائی صورت میں ضروری تفصیلات کے ساتھ آنے والا قابل قدر اضافہ ہے۔ زیر نظر کتاب کے حصہ اول میں 13 ازواج مطہرات کا جبکہ دوسرے حصہ میں 4 بنات النبی ﷺ کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح حضرت امام حسن او رحسین رضی اللہ عنھما کا تعارف بھی شامل کردیا گیا ہے۔ افادیت بڑھانے کے لئے کتاب میں مذکور مقدس ہستیوں کے تذکرہ اور حالات زندگی بتانے  سے قبل ان کے فضائل کا مختصراً ذکر ہے۔ نیز اہل علم و محقق حضرات کے لئے تمام واقعات و احادیث کے مفصل حوالہ جات ہر مضمون کے آخر پر درج کئے گئے ہیں۔ ضروری نقشوں اور خاکوں اور تعارفی چارٹس شامل کرکے اس کتاب کی افادیت میں خاطرخواہ اضافہ کیاگیاہے۔


Book Content

Page 1

اہل بیت رسول عليه

Page 2

إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (الاحزاب:34) اے اہل بیت! یقینا اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کر دے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے.اہل بیتِ رسول ازواج مطہرات اور اولاد النبی کی سیرت و سوانح کا ایمان افروز تذکرہ

Page 3

نام کتاب سن اشاعت اول تعداد طبع دوم اہل بیت رسول می کنیم $2013 ایک ہزار $2015

Page 4

اہل بیت رسول بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ (طبع اوّل) پیش لفظ اللہ تعالی نے ہمارے نبی حضرت محمد علی کریم کو اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ قرار دے کر تمام مسلمانوں کو ان کی پیروی کا حکم دیا.(الاحزاب : 22) کہ خدا کی محبت پانے (اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے کے اسلوب سیکھ کر) اس کا محبوب بن جانے کے لئے آپ کی اطاعت لازم ہے.(آل عمران : 32) حقوق العباد کے دائرے میں والدین، ازواج اور اولاد کی ذمہ داریاں نہایت اہم ہیں.ہمارے نبی کریم نے یہ تمام حق خوب ادا کئے.آپ نے کیا خوب فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنے اہل خانہ کے لئے بہترین ہیں اور میں تم میں سے اپنے اہل کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرنے والا ہوں.(ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی اور یہ محض آپ کی اپنی گواہی نہ تھی.آپ کی ازواج نے بھی یہی شہادت دی.پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجہ نے رسول اللہ صلی علی کریم کے ساتھ مکی دور کی اپنی پندرہ سالہ رفاقت کا یہ خلاصہ بیان کیا کہ آنحضرت علی کریم صلہ رحمی کرنے والے ، غریبوں کے بوجھ اٹھانے والے، مٹی ہوئی نیکیوں کو قائم کرنے والے، مہمان نواز اور مصائب میں لوگوں کے مددگار ہیں اس لئے اللہ تعالی آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.حضرت عائشہ نے رسول اللہ لی یم کے مدنی دور کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد آپ کے اخلاق عین قرآن کے مطابق قرار دیئے.(مسند احمد جلد 6 ص 91) اور یوں آپ اہلی زندگی کی کٹھن آزمائش میں بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے.حالانکہ آپ کا یہ امتحان اس لئے سخت تر تھا کہ آپ نے الہی منشاء کے مطابق بیک وقت نو ازواج سے بھی نباہ کیا اور نہایت عمدگی سے سب کے حقوق ادا کر کے اہلی زندگی میں امت کو ایک بہترین نمونہ عطا فرمایا.آپ کی بہترین تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کی ازواج نے اہلی زندگی میں تقویٰ و طہارت کے ایسے اعلیٰ نمونے قائم کر دکھائے کہ رسول اللہ صلی علی سکیم کے دینی مقاصد میں وہ کبھی روک نہیں

Page 5

اہل بیت رسول پیش لفظ بنیں بلکہ ہمیشہ آپ کی محدد معاون رہیں کیونکہ رسول اللہ میم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں خوب متنبہ فرما دیا تھا کہ "اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مالی فائدہ پہنچاؤں اور عمدگی کے ساتھ تمہیں رخصت کروں اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو تو یقیناً اللہ نے تم میں سے حسن عمل کرنے والیوں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے." (الاحزاب : 29تا31) پھر تمام ازواج نے دنیا کو لات مار کر ہمیشہ کے لئے خدا اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لیا اور بلند دینی وروحانی مقام کی وارث ٹھہر ہیں.اہل بیت سے مراد سورۃ احزاب میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی یتیم کی ازواج کو خطاب کرتے ہوئے اہل بیت کے لقب سے یاد فرمایا ہے.(الاحزاب : 34) بیوی یاز وجہ کیلئے یہی عربی اور قرآنی محاورہ ہے.چنانچہ سورۃ ہود میں حضرت ابراہیم کے پاس بڑھاپے کی عمر میں اولاد کی خوشخبری لانیوالے فرشتوں کے بیان میں ہے کہ حضرت ابراہیم کی عمر رسیدہ بیوی نے اس خوشخبری پر تعجب کیا.فرشتوں نے حضرت ابراہیم کی اس زوجہ کو مخاطب کر کے کہا.اے اہل بیت ! کیا اللہ کے فیصلہ پر آپ تعجب کرتی ہیں.اللہ کی رحمتیں اور برکتیں آپ پر ہوں.(ہود:74) گویا قرآنی محاورہ کے مطابق اہل بیت کا خطاب اوّل طور پر ازواج مطہرات کے لئے ہی ہوتا ہے.تاہم وسعت دے کر اس میں اولاد کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ احزاب کی آیت 34 کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم نے حضرت فاطمہ ، حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ، حسین کو اپنی چادر میں لیکر فرمایا کہ اے اللہ ! یہ (بھی) میرے اہل بیت ہیں.(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل اہل بیت النبی) گویا آپ نے ازواج کے علاوہ اولاد کیلئے بھی اللہ تعالی سے وہی برکات طلب کیں جو آپ کو عطا ہوئیں.زیر نظر کتاب میں ازواج مطہرات کے ذکر خیر کے ساتھ حضرت خدیجہ کے بطن سے ہونے والی رسول اللہ صلی علی کی کمی کی چاروں صاحبزادیوں کا ذکر بھی اہل بیت میں شامل کر دیا گیا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ائمہ اثناعشر کے نزدیک بھی رسول اللہ صلی یا تم ان سب) بیٹیوں کے باپ تھے.فروع الکافی لابی جعفر جلد 6 ص 6، 7 بیروت)

Page 6

اہل بیت رسول اہل بیت کا مقام پیش لفظ سورۂ احزاب میں ازواج مطہرات کو اللہ اور اس کے رسول کو مقدم کرنے کے بعد ان کی کامل اطاعت اور اعمال صالحہ پر دوام اختیار کرنے کی صورت میں دوہرے اجر کا وعدہ فرما کر انہیں ان کا مقام یاد کروایا ہے کہ ”وہ عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں اگر وہ تقویٰ اختیار کریں.پس انہیں اپنی آواز میں بھی لوچ پیدا کر کے بات نہ کرنی چاہیے تاکہ جس کے دل میں بیماری ہے وہ کوئی بُرا خیال دل میں نہ لا سکے.“ (الاحزاب : 33،32) پھر ان ازواج کو ”اہل بیت“ کے لقب سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اور (اے ازواج النبیؐ) اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کر و اور نماز کو قائم کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.اے اہل بیت ! یقینا اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کر دے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے.اور یادر کھو اللہ کی آیات اور حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے.یقینا اللہ بہت باریک بین (اور ) باخبر ہے.“ (الاحزاب : 35،34) آنحضور علی ایم کی ازواج کو اہل بیت کا خطاب دے کر اسی سورۃ احزاب میں انہیں امت کی مائیں قرار دیا.(الاحزاب : 7 ) اور ان کے احترام کے لحاظ سے یہ ہدایت فرمائی کہ نبی کی ازواج سے رسول اللہ ایم کی وفات کے بعد نکاح جائز نہیں.(الاحزاب : 54) ازواج کے تقاضہ ادب کے ماتحت پر دے کے خصوصی آداب کا ذکر کیا.انہیں گھروں میں رہنے کی ہدایت کی، نبی کے گھر بلا اجازت داخل ہونے سے منع کیا اور ان سے ضرورت کی چیز بھی پردہ کے پیچھے سے مانگنے کی ہدایت فرمائی.( الاحزاب : 54،34) رسول الله علیم کی ازواج نے ان ارشادات پر عمل کر کے دین ودنیا میں اپنا عظیم مقام پیدا کر لیا.ازواج کا مختصر تعارف رسول الله علی تعلیم کے عقد میں آنیوالی کل تیرہ ازواج تھیں.ان میں سے تین غیر عربی تھیں جو بنی اسرائیل میں سے تھیں.حضرت صفیہ بنت حیسی یہودی قبیلہ بنو نضیر سے، حضرت ریحانہ یہودی قبیلہ بنو قریظہ سے تھیں اور مصر کی حضرت ماریہ قبطیہ عیسائی تھیں.باقی دس ازواج کا تعلق عرب قبائل سے تھا.جن میں سے چھ قبیلہ

Page 7

اہل بیت رسول پیش لفظ قریش سے تھیں.ان میں حضرت خدیجہ، حضرت سودہ ، حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ، حضرت زینب بنت اور زینب ، ام ، جحش اور حضرت ام حبیبہ شامل ہیں.باقی چار ازواج حضرت زینب بنت خزیمہ ، حضرت ام سلمہ ، حضرت جویریہ اور حضرت میمونہ دیگر قبائل عرب سے تھیں.حضرت خدیجہ متکمی دور میں اور حضرت زینب بنت خزیمہ اور حضرت ریحانہ مدنی دور میں رسول اللہ علیم کی زندگی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں.رض آنحضور علی کم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت ماریہ قبطیہ کی وفات ہوئی.اس کے بعد حضرت زینب بنت جحش رسول الله علیم سے جاملیں اور رسول اللہ لی ایم کی وہ پیشگوئی پوری کرنے والی بنیں جس میں آپ نے ایک موقع پر گھر میں موجود بعض ازواج کو (جن میں حضرت زینب بنت جحش بھی تھیں) مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ تم میں سے سب سے جلد لمبے ہاتھوں والی بیوی مجھے آملے گی اور ان کے لمبے ہاتھوں سے مراد صدقہ دینا تھا.اس کی مزید تفصیل ام المومنین حضرت ماریہ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے.ان کے بعد بالترتیب حضرت سودہ ، حضرت ام حبیبہ، حضرت حفصہ، حضرت صفیہ، حضرت جویریہ، حضرت عائشہ، حضرت میمونہ اور سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ نے وفات پائی.آنحضور منیم نے مکہ میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ سے عقد فرمایا.ان کی وفات کے بعد مکی دور میں ہی حضرت سودہ سے شادی ہوئی.جبکہ مدنی دور میں غزوہ بدر سے پہلے 2ھ میں آپ نے حضرت عائشہ سے شادی کی، غزوہ بدر کے بعد 3ھ میں حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ سے ،4ھ میں حضرت ام سلمہ سے، 5 ہجری میں حضرت زینب بنت جحش اور حضرت جویریہ سے، 6ھ میں حضرت ریحانہ سے، 7ھ میں حضرت ام حبیبہ ، حضرت صفیہ، حضرت ماریہ اور حضرت میمونہ سے شادی ہوئی.ان کے علاوہ بعض اور قبائل کی جن خواتین سے عقد ہوایا تو ان کی رخصتی ہی نہیں ہوئی یا رخصتی کے بعد طلاق ہو گئی.آنحضور می یام کی تمام ازواج میں صرف دو بیویاں حضرت عائشہ ، اور حضرت ماریہ ہی کنواری تھیں.باقی تمام ازواج میں سے نو بیوہ اور دو مطلقہ تھیں.حضرت خدیجہ اور حضرت سودہ رسول اللہ علیم سے عمر میں بڑی تھیں جبکہ چار ازواج کی پہلے خاوند سے اولاد بھی تھی.حضرت خدیجہ کے پہلے شوہر سے ایک بیٹی ہند ، دوسرے خاوند سے ایک بیٹاہند اور ایک بیٹی ہالہ تھی.حضرت سودہ کا اپنے پہلے خاوند سے ایک بیٹا عبدالرحمان نامی تھا.حضرت ام سلمہ کے اپنے پہلے شوہر ย

Page 8

اہل بیت رسول پیش لفظ ابو سلمہ سے دو بیٹے سلمہ اور عمر اور دو بیٹیاں ڈرہ اور زینب تھیں، جبکہ حضرت ام حبیبہ کی پہلی شادی سے ایک بیٹی حبیبہ تھی.وجہ تصنیف اس کتاب کی تیاری ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ ا فة المسموع الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توجہ خاص کی مرہون منت ہے.گزشتہ سال حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ازواج مطہرات کی سیرت و سوانح کے بارہ میں ریویو آف ریلیجنز انگریزی کے لئے مضامین لکھنے کا ارشاد موصول ہوا.چنانچہ تعمیل ارشاد میں قریباً ہر ماہ ایک زوجہ مطہرہ کی سیرت و سوانح کے بارہ میں مضمون بھجوایا جاتارہا، یوں سال بھر میں سیرت و سوانح ازواج مطہرات کا عمدہ مجموعہ اکٹھا ہو گیا.جسے ایسے موقع پر شائع کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے جب رسول اللہ علیم کے خلاف ایک گستاخانہ فلم سے اہلِ اسلام کی دل آزاری ہونے پر طبعاً ایسے مثبت رد عمل کی اشد ضرورت تھی.اس کتاب کے بارہ میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوب بھی شامل کتاب ہے.جس میں آپ نے بھی اس کتاب کی ضرورت قرار دیا ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے از راہ شفقت مجلس شوریٰ انصار اللہ 2012ء کی سفارش پر اس سال کو سیرت النبی کے طور پر منانے کی منظوری عطا فرمائی ہے.اس دوران کی نمائندگی میں جہاں یہ ایک علمی کاوش ہے وہاں خلیفہ وقت کی خدمت میں ایک ہدیہ تبریک بھی ہے.گر قبول افتد زہے عزو شرف! زیر نظر کتاب اہل بیت رسول کے پہلے حصہ میں تیرہ ازواج النبی، جبکہ دوسرے حصہ میں چار بنات النبی کا تذکرہ ہے.کتاب کے شروع میں تعدد ازدواج کے موضوع پر ایک اصولی نوٹ میں عیسائی مستشرقین وغیرہ کے اعتراضات کے جواب بھی دیئے گئے ہیں.کتاب میں مذکور ازواج النبی اور بنات النبی پر مشتمل ہر مضمون کے شروع میں مختصر فضائل کا ذکر ہے جن کے تفصیلی حوالے مضمون میں اپنی جگہ موجود ہیں.اہل علم و محقق حضرات کیلئے تمام واقعات واحادیث کے مفصل حوالہ جات ہر مضمون کے آخر میں دیئے گئے ہیں.

Page 9

اہل بیت رسول و اس کتاب کے حوالہ جات کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ سلسلہ نے خصوصی سعی کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے.پیش لفظ ہیں.اللہ تعالی سب کو اس حدمت کی بہترین حراء عطا فرمائے اور ہماری یہ حقیر کو شش عند اللہ مقبول اور مافع الناس ہو.آمین 16/ اپریل 2013ء

Page 10

اہل بیت رسول ز بسم الله الرّحمن الرّحيم نقش ثانی نقش ثانی الحمد للہ کہ مجلس انصار الله کو زیر نظر کتاب اہل بیت رسول کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن اضافہ کے ساتھ شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.جیسا کہ پیش لفظ ایڈیشن اوّل میں ذکر ہے یہ کتاب سید نا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی توجہ خاص کی مرہون منت ہے اور آپ ہی کی بابرکت تحریک اور منظوری سے طبع ہوئی جسے آپ نے اپنے مکتوب گرامی میں " وقت کی ضرورت " قرار دیا.ہوئے تحریر فرمایا ” بلاشبہ اس کی اساعت، لٹریچر میں ایک مفید اضافہ ہے اور غالباً اس سے قبل یکجائی صورت میں جماعت کی طرف سے اتنی تفصیل کے ساتھ ایسی کتاب بھی شائع نہیں ہوئی ہو گی.اللہ تعالی اس کی اشاعت کو نافع الناس بنائے.اور اہل بیت رسول صلی علیم سے محبت اور ان کے نیک نمونوں پر چلنے کی ترغیب و تحریص دلانے والا بنائے.آمین“ ریویو آف ریلیجنز انگریزی میں امہات المؤمنین کے بارہ میں ان مضامین کے یکے بعد دیگرے شائع ہونے اور کتاب ہذا کی اشاعت کے بعد بعض علمی تحقیقی سوال پیدا ہوئے.حضور انور ایدہ اللہ نے ریسرچ سیل ربوہ کو ہدایت فرمائی کہ اس کتاب کے جملہ حوالہ جات اور مضامین کا دوبارہ اچھی طرح جائزہ لے لیں.جس پر انہوں نے نہایت باریک بینی سے مفید تفصیلی مشورے دیئے.حسب ارشاد حضور انور ، ان کی تحقیق و تدقیق اور اصلاح واضافہ کے بعد اب دوباره بعد منظوری نظارت اشاعت اس کتاب کا تحفہ مجلس انصار اللہ کے ڈائمنڈ جوبلی سال میں احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے مطابق رسول اللہ صلی علی ایم کے نواسے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین بھی اہل بیت کے زمرہ میں داخل ہیں.یہ مضامین کتاب کے پہلے ایڈیشن کے وقت تیار نہ تھے اور شامل اشاعت نہ کئے جاسکے.یہ اہم اور مفید معلوماتی مضامین بھی اب زیر نظر

Page 11

اہل بیت رسول نقش ثانی ایڈیشن کی زینت ہیں.جبکہ اہل بیت کے ایک اور فرد اور خلیفہ راشد حضرت علیؓ کی سیرت و سوانح کا مفصل مضمون خاکسار کی تصنیف سیرت صحابہ رسول میں خلفائے راشدین کے ساتھ پہلے ہی شائع ہو چکا ہے.در اصل اہل بیت رسول کا مقام اور شان، رسول اللہ صلی علیم سے خونی رشتہ کے علاوہ ان کی دینی خدمات، قربانیوں نیز روحانی مناسبت و تعلق کی وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے جو ان جیسے ہر سچے محب رسول اور اطاعت شعار کو روحانی اہل بیت میں داخل کر کے درود شریف کی برکات کا وارث بناتا ہے.جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اپنے ایک فرزند کے نام مقام اہل بیت کے بارہ میں ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:.اہل بیت نبوی کو جو عزت آج حاصل ہے وہ رسول کریم " کی اولاد کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر جو قربانیاں کی ہیں اُن کی وجہ سے ہے " منظوری عطا فرمائی اور مفید مشوروں سے نوازا.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء خدا کرے یہ اضافہ شدہ ایڈیشن افادہ عام کا موجب ہو اور ہم سب اہل بیت نبوی کی برکات کا فیض پانے والے ہوں.آمین 27/مئی 2015ء

Page 12

اہل بیت رسول اللہ تعالی جزاء دے ط بسم الله الرّحمن الرّحيم عرض ناشر عرض ناشر جنہوں نے سیرت و سوانح اہل بیت رسول پر قلم اٹھا کر ایک تاریخی، روحانی، اخلاقی اور علمی مائدہ احباب جماعت کے لئے تیار کیا ہے.مجلس انصار اللہ کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے جولائی 2013 ء میں شائع ہونے والی کتاب ”اہل بیت رسول کا یہ دراصل اضافہ و ترمیم شدہ ایڈیشن ہے.خاکسار کو ہر دو اشاعتوں سے قبل مسودہ کتاب کو پڑھنے کا موقع ملا ہے.یہ کتاب دنیا کے سب سے ع نبی اور منجی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مبارکہ کی سیرت کا خوبصورت گلدستہ ہے اور جہاں مرد حضرات کے لئے ایک بہترین لائحہ عمل ہے کہ بیویوں سے حسن معاشرت اور سلوک کیسا ہونا چاہئے وہاں عورتوں کے لئے عمدہ منشور ہے کہ شوہر کی اطاعت و احترام اور ادائیگی حقوق کے کیا قرینے ہیں اور کس طرح شوہر سے وفا کرتے ہوئے گھر کے ماحول میں باہم پیار و محبت کی خوشبو بکھیرنی ہے.یہ کتاب اس بزرگ رسول طی تم کا بہترین اسوہ پیش کرتی ہے جو خدائے ذوالعرش کے فرمان کے مطابق خلق عظیم پر فائز ہیں اور جنہوں نے خود فرمایا کہ ” اپنے اہل وعیال کے ساتھ میرا حسن سلوک تم سب سے بہتر ہے.“ آپ نے ایک سے زائد شادیوں کے باوجود اپنی ذات کی قربانی دیکر اپنی بیویوں کے ما بین انصاف کا حق ادا کر دکھایا.ہزاروں درود اور سلام آپ پر.پس یہ کتاب صرف علمی و فقہی مسائل ہی بیان نہیں کرتی بلکہ ان کے ساتھ پاکیزہ نمونے بھی پیش کرتی ہے اور علم کے ساتھ ایمان بھی بڑھاتی اور اخلاقیات کا درس دیتی ہے.یہ ایمان افروز واقعات پڑھ کر انسان چشم تصور میں قرون اولی کے زمانہ میں چلا جاتا اور معرفت ویقین کی لذت پاتا ہے.امہات المومنین کی سیرت کے مطالعہ میں مشترکہ خاندانی نظام میں بسنے والے تمام عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ الفت و محبت سے رہنے کا درس بھی ہے اور اولاد کی تعلیم و تربیت کا سبق بھی کہ کس

Page 13

اہل بیت رسول عرض ناشر طرح ان سے مشفقانہ اور عادلانہ سلوک کے ساتھ دعائیں بھی کرنی ہیں پھر اس کتاب کے مطالعہ سے یہ اسلوب بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں، عورتوں کی تعلیم و تربیت کیسے کر سکتی ہیں.امہات المومنین نے اپنے شوہر نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کے ساتھ عقیدت و اطاعت کے وہ عمدہ نمونے دکھائے جو مقام خلافت کی عظمت واحترام کا حقیقی تقاضا تھا.مزید بر آن مصنف نے اس کتاب میں مستشرقین کی طرف سے امہات المومنین پر ہونے والے اعتراضات کے ٹھوس دلائل سے جواب دیئے ہیں.نیز زیر نظر ایڈیشن میں حضرت امام حسن و حسین کے سیرت و سوانح پر مشتمل مفید مضامین کا اضافہ بھی شامل ہے.مجلس انصار اللہ اپنی 75 سالہ ڈائمنڈ جوبلی منارہی ہے اس کتاب کو مفید اضافوں کے ساتھ ایک بار پھر سائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.جس کے نتیجہ میں یہ کتاب جہاں جماعتی سطح پر ہونے والی مجلس شوری 2015ء کے فیصلہ جات کی تعمیل کا موجب ہو گی کہ اس میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض ، بدر سوم کے خلاف جہاد اور تربیت اولاد کے مضامین کا ذکر ہے.وہاں سفارشات شوری مجلس انصار اللہ 2014ء بابت تربیت کی تعمیل میں بھی یہ مد و معاون ہو گی.انشاء اللہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو بہتوں کے لئے مفید بنائے اور حضرت رسول کریم تم، امہات المومنین کی پاکیزہ سیرت کی روشنی میں ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن جائے.آمین ย

Page 14

اہل بیت رسول انڈیکس صفحہ نمبر انڈیکس ز 1 3 5 29 47 61 98 115 119 137 155 167 184 عناوین پیش لفظ نقش خانی سوانحی خاکہ ازواج النبی ارشادات حضرت بانی جماعت احمد یہ دربارہ اہل بیت سے مراد اور ان کی شان و متقام تعدد ازدواج ام المؤمنین حضرت خدیجه ام المؤمنین حضرت سودہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ام المؤمنین حضرت حفصہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ام المؤمنین حضرت جویریہ رض رض ام المؤمنین حضرت ام حبيبة ام المؤمنین حضرت صفیہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15

Page 15

انڈیکس 206 227 239 249 251 252 37 211 255 265 270 276 297 321 339 340 341 350 *** !! اہل بیت رسول 16 رض ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ ام المؤمنین حضرت میمونہ 17 18 19 20 21 22 22 ام المؤمنین حضرت ریحانہ رض ازواج النبی کے حجرات نقشہ حجرات النبی تصاویر قبور ازواج النبی رسول الله ملی دم کی اولاد آنحضرت علی علی ایم کی اولاد صاحبزادہ ابراہیم بن محمد حضرت زینب بنت محمد صل علی الت تم حضرت رقیہ بنت محمد علی علی القلم حضرت ام کلثوم بنت محمد علیه السلام حضرت فاطمہ بنت محمد طلع علي السالم حضرت امام حسن مین علی حضرت امام حسین بن علی تصاویر قبور بنات الرسول صل علي القلم رض تصاویر قبور حضرت امام حسن و حسین المراجع المصادر اشاریہ 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 ***

Page 16

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (الاحزاب : 7) نبی مومنوں پر اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں.ازواج النبی ازواج النبی میم کی سیرت و سوانح کا ایمان افروز تذکره

Page 17

ازواج النبی 1 سوانحی حنا که ازواج النبی سوانحی خاکہ 1 2 3 5 6 وفات بوقت نام سن نکاح بوقت کے سن مدفن صحبت نکاح نکاح وقت وفات رسول المحضور عمر کی عمر حضرت خدیجہ ย سن نبوی بنت خویلد بن اسد بن سے 15 عبد العزی بن قصی سال قبل ย حضرت سوده (+595) 10 سن بنت زمعہ بن قیس بن نبوی میں عبد شمس) (619) حضرت عائشہ 10 نبوی ( بنت ابو بکر بن ابی (619) قحافه) رخصتی 2 (624) حضرت حفصہ 3 ہجری بنت عمر بن خطاب بن (625ء) نفيل) حضرت زینب 3 ہجری بنت خزیمہ بن حارث) (625ء) 65 40 40 رمضان (جون) 25 25 سال تقریباً 9 یا 10 تم نبوی 75 50 11213 تقرياً 25ھ جنت 50 13 50 البقيع) سال مدینہ جنت 8 سال 50 البقيع بوقت مار پیشہ رخصتانه 058 68 12 21 221 30 30 حضرت ام سلمہ 4 ہجری اندازاً ( بنت ابو امیہ سہیل بن (626ء) 36 المغيرة) تقريباً 63 تقریباً 55 45ھ جنت 7 سال 56 04 30 تقريباً 063 95 البقیع) 56 56 803 مدینہ مار پیشہ છે છે? جنت البقيع ماه جنت 6 سال تقریباً کے آخر البقیع) میں مدینہ 57 ST

Page 18

سوانحی خاکہ 2 ازواج النبی وفات بوقت نمبر نام سن نکاح بوقت کے سن مدفن صحبتِ نکاح نکاح وقت وفات رسول آنحضور 7 ย حضرت زینب 5 ہجری بنت جحش بن رئاب بن (626ء) لعمر) 36 36 1 2 کی عمر 52 20ھ (جنت 5 سال 57 تقریباً البقيع) مل بینہ 8 00 حضرت جویریہ 5 ہجری بنت حارث بن ابی ضرار) 256 165 20 جنت 5 سال 57 (626) 70 البقيع) 0 حضرت ریحانه 6 ہجری تقريباً مدینہ 1 10ه (جنت 59 4 بنت زید بن عمرو بن (626) البقیع) سال 10 خنافه) حضرت ام حبیبہ ( بنت ابی سفیان بن مدینہ ย 7ہجری 44 73 30 (628) جنت 3 سال 59 تقریباً البقيع 11 حرب) حضرت صفیہ مار بینہ ย 7 ہجری 250 60 18 جنت 3 سال 59 بنت حیی بن اخطب بن (628ء) تقریباً البقیع) 60 60 12 سعید) حضرت ماریہ قبطیہ (بنت 7 ہجری شمعون القبطي) (+628) حضرت میمونه 7 ہجری بنت الحارث بن حزن (629) بن بجیر) 26 17 26 26 تقریباً مدینہ 16ھ جنت 3 سال البقيع 263 82 تقریباً مدینہ سرف 3 سال م) 60 60 13

Page 19

ازواج النبی 3 اہل بیت سے مراد اور شان و مقام ارشادات حضرت باقی جماعت احمد یہ دربارہ اہل بیت سے مراد اور ان کی شان و مقام حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود و مہدی موعود سے سوال ہوا کہ قرآنی آیت إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَكُمْ تَطْهِيرًا (الاحزاب :34) کس کی شان میں ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:."اگر قرآن شریف کو دیکھا جاوے تو جہاں یہ آیت ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کا ذکر ہے.سارے مفسر اس پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی اُمہات المومنین کی صفت اس جگہ بیان فرماتا ہے دوسری جگہ فرمایا ہے.الطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ (نور : 27) یہ آیت چاہتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے طیبات ہوں.ہاں اس میں صرف بیبیاں ہی شامل نہیں بلکہ آپ کے گھر کی رہنے والی ساری عورتیں شامل ہیں اور اس لیے اس میں بنت بھی داخل ہو سکتی ہے بلکہ ہے اور جب فاطمہ رضی اللہ عنہا داخل ہوئیں تو حسنین بھی داخل ہوئے.پس اس سے زیادہ یہ آیت وسیع نہیں ہو سکتی جتنی وسیع ہو سکتی تھی.ہم نے کر دی.کیونکہ قرآن شریف ازواج کو مخاطب کرتا ہے اور بعض احادیث نے حضرت فاطمہ اور حسنین کو مطہرین میں داخل کیا ہے پس ہم نے دونو کو یکجا جمع کر لیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.اہل بیت جو ایک پاک گروہ اور بڑا عظیم الشان گھرانا تھا.اس کے پاک کرنے کے واسطے بھی اللہ تعالی نے خود فرمایا إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (الاحزاب :34) یعنی میں ہی ناپاکی اور نجاست کو دور کروں گا اور خود ہی ان کو پاک کیا تو بھلا اور کون ہے جو خود بخود پاک صاف ہونے کی توفیق رکھتا ہے" ( ملفوظات جلد سوم ص 250)

Page 20

ازواج النبی 4 اہل بیت سے مراد اور شان و مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم فارسی کلام میں فرماتے ہیں :.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آلِ محمد است (در ثمین فارسی.صفحہ 89) ترجمہ :.میری جان اور دل محمد مصطفی میشیم کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.نهالیست از باغ قدس و کمال ہمہ آلِ اُو، ہمچو گلہائے آل (در ثمین فارسی.صفحہ 20) ترجمہ :.وہ (حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) پاکیزگی اور کمال کے باغ کا ایک درخت ہے اور اس کی سب آل گلاب کے پھولوں کی طرح (معظر) ہے..حضرت مسیح موعود آنحضرت علی سلم اور آپ کی آل پر درود بھیجتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.اور اس کی آل پر درود جو نبوت کے درخت کی شاخیں اور نبی طی نیم کی قوت شامہ کے لیے ریحان کی طرح (معظر) ہیں " ( ترجمه از عربی نور الحق الجزء الثانی.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 188).محبت اہل بیت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا.افاضہ انوار الی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ( براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 حاشیہ در حاشیہ 3) اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *** ****:

Page 21

ازواج النبی 5 تعددازدواج تعدد ازدواج قانون فطرت اور انسان کے معاشرتی حالات کے پیش نظر تعدد ازدواج ایک اہم ضرورت ہے.اسلام جو دین فطرت ہے اس نے اس انسانی ضرورت کو بھی نظر انداز نہیں کیا.اور حسب حالات و ضرورت ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار بیویوں کی اجازت دی ہے.چنانچہ اگر اسلام سے قبل کسی کی چار سے زائد بیویاں تھیں بھی تو قبول اسلام کے بعد اسے صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی گئی.اس طرح سے پہلے کثرت ازواج کی جو بے اعتدالی تھی اسلام نے اسے چار تک محدود کیا اور ان میں برابری اور انصاف کی شرط کا حکم دیگر اعتدال قائم کیا.تاہم اگر کوئی شخص ایک سے زائد بیویوں میں عدل و مساوات قائم نہ رکھ سکتا ہو تو اسے ایک بیوی پر ہی اکتفا کرنے کی ہدایت ہے.جیسا کہ فرمایا:.فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاء مَثْنى وَثُلثَ وَرُبعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (النساء:4) یعنی عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو.دو دو اور تین تین اور چار چار.لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک (کافی ہے) یاوہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یہ (طریق ) قریب تر ہے کہ تم نا انصافی سے بچو.پس اسلام میں تعدد ازدواج کا انتظام یا سہولت کسی حکم یا قاعدہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک استثناء ہے.جس کی اجازت نکاح کے اغراض کے حصول اور نسل انسانی کی جائز ضروریات پورا کرنے کیلئے ان حالات میں دی گئی جب عربوں میں تعدد ازدواج کی کوئی حد بندی نہیں تھی.ہر شخص جتنی مرضی بیویاں رکھ سکتا تھا.اسلام نے اس کو ضرورت کی بنیاد پر اور عدل کی شرط کے ساتھ صرف چار تک محدود کر دیا.

Page 22

ازواج النبی 6 تعددازدواج دیگر مذاہب کی موجودہ ناقص اور محرف و مبدل تعلیم میں انسان کی اس فطری ضرورت کا کوئی مداوا نہیں.اگرچہ بائبل کے بیان کے مطابق بعض بزرگ انبیاء علیهم السلام نے بھی اس فطری تقاضا کے تحت ایک سے زائد شادیاں کیں.عہد نامہ قدیم میں تعدد ازدواج کا ذکر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم جن کو یہود بھی واجب الاحترام اور لائق تقلید جانتے ہیں ان کی تین بیویاں ثابت ہیں.سارہ ہاجرہ اور قطورہ.اسی طرح بنی اسرائیل کے نبی حضرت یعقوب کی بھی دو بیویاں لیاہ اور راخل تھیں.2 اس زمانہ میں بنی اسرائیل میں تعدد ازواج کا تصور موجود تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ ”اگر کسی مرد کی دو بیویاں ہوں 3 166 ایک محبوبہ اور دوسری غیر محبوبہ ہو تو محبوبہ کے بیٹے کو غیر محبوبہ کے بیٹے پر فوقیت نہ دے.پھر اگر وہ دوسری عورت کرلے تو بھی وہ اس کے کھانے کپڑے اور شادی کے فرض میں قاصر نہ ہو.چنانچہ یہودی مذہب کے بانی حضرت موسی کی بیویوں میں صفورہ اور کوشی عورت کا ذکر ملتا ہے.6 (466 5 لکھا ہے اسی طرح حضرت داؤد کی سات بیویوں کا ہو نا واضح طور پر بیان ہے.حضرت سلیمان کے حرم میں فرعون کی بیٹی کے علاوہ مختلف اقوام موآبی، علمونی، ارومی، صیدانی اور حتی سے سات سو بیویاں شاہی خاندان سے تھیں اور تین سو کنیزیں تھیں.نئے عہد نامہ میں بھی محض کلیسیا کے نگہبان کیلئے ایک بیوی کی شرط ہے.جیسا کہ لکھا ہے ” پس نگہبان کو بے الزام ایک بیوی کا شوہر پرہیز گار متقی ہونا چاہیے.جبکہ عام عیسائیوں کیلئے کسی پابندی کا صریحاً کا ذکر نہیں.یہی حال ہندو مذہب کا ہے.حضرت کرشن کی کثیر التعداد بیویاں مشہور ہیں.لیکن تعدد ازدواج پر اس مذہب میں بھی پابندی ہے.بہر حال ان مذاہب کی تعلیم میں یہ سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہودی، عیسائی، ہندو وغیرہ بے راہ روی اور بد کاری کے مختلف طریق میں ملوث ہو کر تسکین پانے کی کوشش کرتے ہیں.اور ان میں کوئی بھی ایک شادی پر قانع ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور اپنی بیویوں کے حقوق غصب کرتے ہوئے گرل فرینڈ

Page 23

ازواج النبی 7 تعددازدواج (girlfriend) اور بوائے فرینڈ (boyfriend) کے طور پر ناجائز تعلقات استوار کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جبکہ اسلام ایسی مخفی یا ظاہری دوستیوں سے روکتا ہے اور فطرت کے مطابق جائز طور پر جملہ حقوق کی ادائیگی اور عدل و انصاف کے ساتھ حسب ضرورت ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دیتا ہے.انیسویں صدی کے آخر میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اسلام کے دفاع اور احیاء کا بیڑا اٹھایا.اس وقت ہندوستان پر خصوصا عیسائی مذہب کی حکومت تھی ان کی طرف سے اسلام اور بانی اسلام ہمارے نبی کریم پر ہونے والا ایک بڑا اعتراض تعدد ازدواج کا تھا.اس زمانہ میں پادریوں اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے " امہات المؤمنین " جیسی قابل اعتراض اور بد نام زمانہ کتابیں شائع کر کے اسلام کو اس نقطہ نظر سے بھی ہدف تنقید بنایا گیا تھا.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس محاذ پر بھی اسلام کا ز بر دست دفاع کیا اور اس مضمون کو اپنی کتابوں میں تفصیلاً بیان فرمایا.تعدد ازدواج کی حکمت اور سابقہ مذاهب چنانچہ حضرت مسیح موعود تعدد ازدواج کی حکمتیں اور سابقہ مذاہب میں اس کے دستور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوں کے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک ہی وقت میں رکھی ہیں وہ دو یا تین بیویاں کا جمع کرنا ایک کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں بلکہ اس فعل کو زنا یا حرامکاری خیال کرتے ہیں.کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کیلئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ وقت آپڑتی ہے کہ ایک جور و عقیمہ اور نا قابل اولاد نکلتی ہے.اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے.اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی.تحقیق سے ظاہر ہو گا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کر دیا ہے اور انسان کے تقویٰ کیلئے یہ فعل کیسا ز بر دست ممد و معین ہے.خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض، نفاس میں یہ طریق بابرکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رو سے کر سکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے.ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور

Page 24

ازواج النبی 8 تعددازدواج موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بد شکل ہو جائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کارروائی کا ہے بے کار اور معطل ہو جاتی ہے.لیکن اگر مرد بد شکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کارروائی کی کل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کر نامرد کے ہاتھ میں ہے.ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے.اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے.کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہو سکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کیلئے قائم رہتا ہے.جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پار سا طبع ہیں ان کیلئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے بعض اسلام کے مخالف نفس امارہ کی پیروی سے سب کچھ کرتے ہیں مگر اس پاک طریق سے سخت نفرت رکھتے ہیں کیونکہ بوجہ اندرونی بے قیدی کے جو ان میں پھیل رہی ہے ان کو اس پاک طریق کی کچھ پر وا اور حاجت نہیں.اس مقام میں عیسائیوں پر سب سے بڑھ کر افسوس ہے کیونکہ وہ اپنے مسلم النبوت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کر کے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں.شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑھ اپنی ماں کی جہت سے وہی کثرت ازدواج ہے جس کی حضرت داؤد ( مسیح کے باپ) نے نہ دونہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کرناز نا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں اور اس پُر خبث کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم صدیقہ کی طرف عائد ہوتا ہے اس سے ذرا پر ہیز نہیں کرتے اور باوجود اس تمام بے ادبی کے دعویٰ محبت مسیح رکھتے ہیں.جانا چاہیئے کہ بیل کے رو سے تعدد نکاح نہ صرف قولاً ثابت ہے بلکہ بنی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح کے دادا صاحب بھی شامل ہیں عملاً اس فعل کے جواز بلکہ استحباب پر مہر لگادی ہے.اے ناخدا ترس عیسائیو ؟ اگر مہم کیلئے ایک ہی جور و ہو ناضروری ہے تو پھر کیا تم داؤد جیسے راست باز نبی کو نبی اللہ نہیں مانو گے یا سلیمان جیسے مقبول الٹی کو ملہم ہونے سے خارج کر دو گے.کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل ان انبیاء کا جن کے دلوں پر گویا ہر دم الہام الہی کی تار لگی ہوئی تھی اور ہر آن خوشنودی یا ناخوشنودی کی تفصیل کے بارے میں احکام وارد ہو رہے تھے ایک دائمی گناہ نہیں ہے جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا اور اس کے حکموں کی کچھ پروانہ کی.وہ غیرت مند اور نہایت درجہ کا غیور خدا جس نے نافرمانی کی وجہ سے شمود اور عاد کو

Page 25

ازواج النبی 9 تعددازدواج ہلاک کیا.لوط کی قوم پر پتھر برسائے.فرعون کو معہ تمام شریر جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کر دیا.کیا اس کی شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس نے ابراہیمؑ اور یعقوب اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نافرمان پاکر اور پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیا بلکہ انہیں سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی " 0 10 تعدد ازدواج کی تمدنی ضرورت اور کثرت نسل حضرت بانی جماعت احمدیہ نے واضح فرمایا کہ اسلام نے تعدد ازدواج کو کم کیا ہے نہ کہ زیادہ نیز اس رخصت کی حکمت اور تمدنی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرمایا :." عرب میں صدہا بیویوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے.قرآن کریم نے ان صدہا نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچادیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا.فَإِن خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً یعنی اگر تم ان میں اعتدال نرکھو تو پھر ایک ہی رکھو.پس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتاؤ ہوتا تھا تو اسے اقرار کر نا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہر گز نا ممکن ہے جیسی بعض صورتیں خروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں.اور یا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے فطر تاد وسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس قدر تعدد کے لئے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگادی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت اللی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس

Page 26

ازواج النبی 10 تعددازدواج بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا پس جس نے تعدد ازدواج کی رسم کو گھٹایا اور نہایت ہی کم کر دیا اور صرف اس اندازہ پر جواز کے طور پر رہنے دیا جس کو انسان کی تمدن کی ضرورتیں کبھی نہ کبھی چاہتی ہیں کیا اس کو کہہ سکتے ہیں کہ اس نے شہوت رانی کی تعلیم سکھائی ہے ؟" O تعدد ازدواج کی ایک حکمت کثرت نسل بیان کرتے ہوئے حضرت بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا:.چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے.اس سے یہ لازم تو نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنالے.قرآن کا منشاء تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چار تک اجازت دیدی ہے " 12 اسی طرح آپ فرماتے ہیں:."قرآن شریف میں انسانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے تعدد ازدواج کو روا رکھا ہے اور منجملہ ان ضرورتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ تا بعض صورتوں میں تعددِ ازدواج نسل قائم رہ جانے کا موجب ہو جائے کیونکہ جس طرح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح نسل سے بھی قو میں بنتی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ کثرت نسل کے لئے نہایت عمدہ طریق تعدد ازدواج ہے' بے اعتدالی کے اعتراض کا جواب 13 11 تعدد ازواج میں بے اعتدالی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازدواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا.اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہو مگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خواہ نخواہ مداخلت کرتے ہیں جب کہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ اُن کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بیشک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مر تکب ہو گا.لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اور حکم شرع پر راضی ہووے تواس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہو گا "

Page 27

ازواج النبی 11 تعددازدواج رسول کریم ملی یا یتیم کے تعدد ازواج کی کتیں رسول الله علیم کی شادیاں بحیثیت ایک مذہبی رہنما اور بادشاہ بھی کئی حکمتیں اپنے اندر رکھتی ہیں.اور یہ شادیاں دراصل اللی منشاء کے تابع تھیں چنانچہ اس خدائی تقدیر کے واضح اشارے کئی شادیوں سے قبل رسول اللہ لی تم کو یا آپ کی ازواج کو بذریعہ رویا ہوئے.چنانچہ حضرت سودہ ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ اور حضرت جویریہ نے رسول اللہ علیم کے ساتھ شادی سے پہلے ایسی خواہیں دیکھیں جن کی تعبیر ย رض رسول الله صل علی کریم کے ساتھ عقد ہونا تھا.ان رؤیا کی تفاصیل ازواج النبی کے حالات میں آرہی ہیں.ان شادیوں میں نفس پرستی کو ہر گزد خل نہ تھا بلکہ یہ انسانی طبعی جذ بہ کی تکمیل کا کامیاب امتحان تھا.ایک انسان کی فطرت میں اپنے جوڑے کیلئے محبت رکھی گئی ہے جیسا کہ فرمایا وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً (الروم : 22) اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف تسکین ( حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.دیگر مذاہب کے لوگوں میں یہ افراط و تفریط نظر آتی ہے کہ انہوں نے دنیا سے راہ فرار اختیار کر کے رہبانیت کے ذریعہ خدا اور روحانیت کو حاصل کرنا چاہا مگر پھر اس خلاف فطرت طریق کی رعایت نہ رکھ سکے.اس کے بر عکس رسول اللہ صلی و یا تم نے دین و دنیا میں کمال اعتدال کا نمونہ دکھایا.اللہ کے حق بھی ادا کئے اور مخلوق کے حق بھی.آپ نے فرمایا کہ تمہاری دنیا کی جن تین چیزوں کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی ہے 15 ان میں عور تیں ( یعنی بیویاں) اور خوشبو ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور عبادت الہی میں ہے.0 پس رسول اللہ لی تعلیم کے اخلاق فاضلہ کی شان یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں شاندار اور قابل تقلید نمونہ قائم کر کے دکھایا جیسا کہ حضرت مسیح موعود بیان فرماتے ہیں :.اگر ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے تو ہمیں کیونکر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جاں فشانی کے موقع پر آپ ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لاکر صدہا امتحانوں کے موقعہ پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو جسمانی لذات سے کچھ

Page 28

ازواج النبی 12 تعددازدواج بھی غرض نہیں اور آپ کی ایسی مجردانہ زندگی ہے کہ کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی.تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اور خدا کی طرف جاؤں گا.ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خداہر ایک چیز پر میں تجھے مقدم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں.کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دُنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر ہتھیلی پر رکھتے تھے.ایک مرتبہ ایک جنگ کے موقعہ پر آپ کی اُنگلی پر تلوار لگی اور خون جاری ہو گیا.تب آپ نے اپنی انگلی کو مخاطب کر کے کہا کہ اے انگلی تو کیا چیز ہے صرف ایک انگلی ہے جو خدا کی راہ میں زخمی ہو گئی.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا.آپ نے فرمایا کہ اے عمر تو کیوں روتا ہے.حضرت عمر نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آگیا.قیصر اور کسریٰ جو کا فر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں.تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اس دُنیا سے کیا کام! میری مثال اُس سوار کی ہے کہ جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جارہا ہے اور جب دو پہر کی شدت نے اُس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھیر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اُسی گرمی میں اپنی راہ لی.اور آپ کی بیویاں بھی بجز حضرت عائشہ کے سب سن رسیدہ تھیں بعض کی عمر ساٹھ 60 برس تک پہنچ چکی تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعدد ازدواج سے یہی اہم اور مقدم مقصود تھا کہ عورتوں میں مقاصد دین شائع کئے جائیں اور اپنی صحبت میں رکھ کر علم دین اُن کو سکھایا جائے تاوہ دوسری عورتوں کو اپنے نمونہ اور تعلیم سے ہدایت دے سکیں." 16 11 بیویوں سے رسول اللہ علیم کے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:."رسول اللہ فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آئے.....ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلعم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے."

Page 29

ازواج النبی اسی طرح فرمایا:.13 تعددازدواج رسول الله ل م م ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت لی نیم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے." آنحضرت ملی یا یتیم کی چار سے زیادہ شادیاں یہاں ایک اہم سوال آنحضور طی یکم کی بیک وقت چار سے زیادہ شادیوں کے بارہ میں اٹھتا ہے کہ جب عام مومنوں کے لئے چار تک نکاح کرنے کی اجازت ہے.(النساء : 4) تو نبی کریم کے حرم میں اس سے زائد بیویاں کیوں رہیں؟ دراصل چار شادیوں کی حد بندی والی سورہ النساء کی آیات کا نزول 7ھ میں ہوا.جس کے بعد آنحضرت علیم نے کوئی اور شادی نہیں کی اور نہ کسی بیوی سے علیحدگی اختیار کی اور یوں آپ کو اس وقت موجود نو ازواج کے رکھنے کی خصوصی رخصت بوجوہ عطا ہوئی.اس کی وضاحت قرآن شریف کی اس آیت میں موجود ہے لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاء مِنْ بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ.یعنی اس کے بعد تیرے لئے (اور) عور تیں جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان (بیویوں) کے بدلے میں تو اور بیویاں کر لے خواہ ان کا حسن تجھے پسند ہی کیوں نہ آئے.مگر وہ مستثنیٰ ہیں جو تیرے زیر نگیں ہیں.(الاحزاب : 53) حضرت مولانانور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ابن عباس اور مجاہد اور ضحاک اور قتادہ اور حسن اور ابن سیرین کا قول ہے کہ جس وقت یہ آیت اتری اس وقت حضرت کے نکاح میں نو بیبیاں....موجود تھیں....اور یہ ازواج سورۂ نساء کے نزول کے پہلے سے ہو چکی تھیں جس میں چار بیبیوں کی حد قائم ہوئی تو یہ کہنا غلط العام بات ہے کہ حضرت نے چار کی حد کو اپنے واسطے توڑ دیا کیونکہ سورہ نساء مدنی ہے اور اس سورۃ کے نو سال بعد نازل ہوئی ہے اس لئے جن مسلمانوں کے پاس چار سے زیادہ عور تیں تھیں انہوں نے چار کے سوا باقی چھوڑ دیں مگر آنحضرت کی بیبیاں چونکہ دوسرا نکاح نہیں کر سکتی تھیں اور نہ کوئی دوسرا مسلمان آداب و تعظیم کے لحاظ سے جب انہیں ماں سمجھتا تھا تو ان کو اپنے نکاح میں لا سکتا تھا.اس لئے آپ کی بیبیاں بمصلحت بحال رہیں اور ساتھ ہی دوسری عورتوں سے نکاح کرنا منع

Page 30

ازواج النبی 14 تعددازدواج ہو گیا جیسا کہ اس آیت شریف سے ظاہر ہوا.1966 اسلامی تعلیم سے تعددازدواج کی حسب ذیل سات عمومی اغراض کا پتہ چلتا ہے.(1) جسمانی اور روحانی بیماریوں سے حفاظت (2) بقائے نسل (3) رفاقت حیات اور تسکین قلب (4) محبت ورحمت کے تعلقات کی توسیع (5) انتظام بیتامی (6) انتظام بیوگان (7) ترقی نسل.ان وجوہات میں سے بطور خاص حفاظت بیتامی ، انتظام بیوگان اور تکثیر نسل اہم ہیں.تا ہم آنحضرت کے مخصوص حالات کے ماتحت آپ کی شادیوں کی خاص وجوہات میں اول تو تعد داز واج کی صورت میں آپ کا عادلانہ ذاتی نمونہ قائم کرنا تھا.جو امت مسلمہ کیلئے بالخصوص لائق تقلید ہے.دوسرے اس اسوہ حسنہ سے خاص طور پر بعض جاہلانہ رسوم اور غلط عقائد کی عملی تردید بھی مقصود تھی.تیسرے بعض مناسب عورتوں کو آپ کی تربیت میں رکھ کر ان کے ذریعہ اسلامی شریعت کے اس حصہ کا استحکام جو مستورات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت بڑی غرض تھی.یہ وہ اہم اغراض ہیں جن میں غالب طور پر فرائض نبوت کی ادائیگی مد نظر تھی جن کا کسی قدر تفصیل سے ذکر مناسب ہے.رسوم جاہلیت کا خاتمہ بحیثیت ایک مذہبی رہنما اور لیڈر رسول کریم میں یا یتیم کی شادیوں کی ایک اور بڑی غرض رسوم جاہلیت کا خاتمہ بھی تھا.چنانچہ حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کے ذریعے متبنی کی بیوی سے نکاح نہ کرنے کی قبیح رسم کا خاتمہ ہوا.جس کے بعد رسول اللہ صلی علی کریم نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے الہی حکم کے مطابق شادی 20 کر کے یہ نمونہ بھی قائم فرمایا کہ کسی طلاق شدہ عورت کے ساتھ شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے.مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت 21 باتی اسلام کی تعدد ازدواج سے ایک اور بڑی غرض مسلمان خواتین کی تربیت تھی.مکی دور میں آپ کی زوجہ حضرت خدیجہ نے یہ ذمہ داری ادا کی تو مدنی دور میں نوبت بنوبت دیگر ازواج نے.حضرت عائشہ سے تو شادی کرنے کا سب سے بڑا مقصد ہی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت تھا.اسی لئے آپ نے نصف علم حضرت عائشہ سے سیکھنے کی ہدایت فرمائی.یہی وجہ ہے کہ صحابہ اکثر آپ سے اور دیگر از واج سے بھی مسائل و دینی امور کے متعلق آگاہی طلب کرتے تھے.اور وہ پردہ کی رعایت سے انہیں تعلیم دیتی تھیں.حضرت ام سلمہ کی 22

Page 31

ازواج النبی 15 تعددازدواج 23 امامت میں آنحضور نے عورتوں کو باجماعت نماز پڑھنے کا نمونہ قائم کرایا.اسی طرح آپ کی زوجہ حضرت عائشہ بھی عورتوں کو نماز میں امامت کروایا کرتی تھیں.آنحضور علم کی تمام ازواج نے اپنی بیان کردہ احادیث اور مختلف اخلاق فاضلہ میں نمونہ کے ذریعہ بھی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا سبب بھی بنیں ، حضرت خدیجہ نے مالی قربانی اور تربیت اولاد کا نمونہ دیا.حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ کو خاص علمی اور روحانی مقام حاصل تھا.حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زینب بنت خزیمہ صدقہ اور عبادات میں نمایاں تھیں.حضرت حفصہ صوم و صلوۃ میں خاص رنگ رکھتی تھیں.حضرت جویریہ اور حضرت ام حبیبہ کو دعاؤں میں ایک شغف تھا.بیوگان کی سرپرستی رسول الله علیم کی شادیوں میں ایک بڑا مقصد دیگر مصالح کے ساتھ بیوگان کی سر پرستی بھی تھا.جو اپنی ذات میں نفسانی اغراض کے اعتراض کارڈ ہے.ورنہ آنحضرت علی کنیم ادھیٹر عمر، بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح نہ کرتے.چنانچہ آپ نے نو خواتین سے بیوہ ہونے کی حالت میں نکاح کیا.پہلی شادی حضرت خدیجہ سے بھی بیوگی کی حالت میں ہوئی.دوسری زوجہ حضرت سودہ تھیں جنکے شوہر سکر ان اور حضرت ام حبیبہ کے شوہر عبید اللہ بن جحش بھی ہجرت حبشہ کے دوران وفات پاگئے اور وہ بیوہ ہو ئیں تو ان سے رسول اللہ لی لی تم نے نکاح فرمایا.تیسری زوجہ ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ غزوہ بدر میں اپنے شوہر عبیدہ کی شہادت کے بعد بیوہ ہوئیں تو ان سے آپ کا نکاح ہوا.یہی صورت حضرت ام سلمہ اور حضرت حفصہ سے نکاح کی تھی.چوتھی زوجہ حضرت ام سلمہ تھیں.جن کے شوہر حضرت ابو سلمہ کے احد میں زخمی ہونے کے کچھ عرصہ بعد شہادت پر ان سے نکاح کر کے قومی ضرورت کے تقاضے پورے کئے.جو عمر کی اس حد تک پہنچ چکی تھیں کہ اولاد پیدا نہ کر سکتی تھیں جس کا انہوں نے عذر بھی کیا.0 25 پانچویں زوجہ حضرت حفصہ تھیں جن کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ نے احد میں زخمی ہونے کے بعد مدینہ میں وفات پائی.رسول اللہ صلی علی کریم نے اپنے عزیز صحابی کی بیوہ اور حضرت عمرؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ کو عقد میں لے کر ان کی پریشانی بھی دور فرمائی.26

Page 32

ازواج النبی 16 تعدد ازدواج چھٹی زوجہ ام المومنین حضرت میمونہ حضرت عباس کی نسبتی بہن تھیں.حضرت عباس نے ہی رسول اللہ کی خدمت میں ان کی بیوگی کا ذکر کر کے شادی کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول فرمایا.ساتویں زوجہ حضرت رض ام حبیبہ تھیں جو دیارِ غیر میں بیوگی کے بعد آپ کے عقد میں آئیں.ان کے علاوہ اگرچہ حضرت جویریہ، حضرت صفیہ اور حضرت ریحانہ بھی بیوگی کی حالت میں رسول اللہ صل تعلیم کے عقد میں آئیں لیکن ان کے ساتھ عقد کی وجوہات دیگر قومی مصالح بھی رکھتی تھیں.جہاں تک حضرت ام حبیبہ کے بارہ میں مستشرق کینن سیل کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اگر نبی کریم کی شادیوں کے دفاع میں یہ وضاحت درست ہے کہ وہ بیوگان اور عمر رسیدہ خواتین کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے کیلئے تھیں، تو پھر بہت سی اور بیوگان بھی کیوں حرم نبی میں شامل نہ کی گئیں ؟ اس کے نزدیک کم از کم ام حبیبہ کے بارہ میں یہ وضاحت درست نہیں.کیونکہ انہیں تو ایسی کوئی دشواری نہ تھی وہ آرام و آسائش سے حبشہ میں آباد تھیں اور مکہ واپسی کی صورت میں بھی ان کے والد ابو سفیان (جو ایک رئیس تھے ) بخوبی ان کی کفالت کے قابل تھے.چنانچہ وہ لکھتا ہے.It is sometimes argued in defence of the Prophet's matrimonial alliances that they were made with the object of supporting widows and old women and that in this case a natural protector was needed.If this is so there seems no reason why many more were not admitted into the Prophet's harem.Umm Habiba, however, does not appear to have been in any difficulty, she was comfortably settled in Abyssinia, and, in the case of her return to Arabia, Abu Sufyan was well able to look after her.قبل ازیں بھی اس اعتراض کا عمومی جواب دیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ علیم کی تمام شادیاں مختلف وقتی و قومی مصالح کے تحت تھیں جن میں سے ایک اہم مصلحت بیوگان کا تحفظ بھی تھا.اس حوالہ سے مزید بیوگان کو حرم میں شامل نہ کرنے کا اعتراض نہایت بودا ہے.کیونکہ اسلامی شریعت میں نکاح کے احکام کے مطابق آنحضرت اور آپ کے صحابہ کو بیوگان سے نکاح کرنے اور کروانے کی ہدایت تھی (النور : 33) جس پر

Page 33

ازواج النبی 17 تعددازدواج ย صرف آپ نے ہی نہیں آپ کے اصحاب نے بھی حتی الوسع قربانی کرتے ہوئے عمل کر کے دکھایا.باقی تمام بیوگان کو اکیلے آنحضرت کا اپنے حرم میں لانا اصول شریعت کے مطابق جائز ہی نہیں تھا.(الاحزاب : 53) جہاں تک حضرت ام حبیبہ سے شادی پر مسٹر کینن کے اعتراض کا تعلق ہے تو یہ بات نہ صرف دیانتداری پر مبنی نہیں بلکہ تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ بھی ہے.تاریخ کا مطالعہ کرنیوالا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ اکثر کفار مکه مسلمان رشتہ داروں کے اسلام قبول کرنے کے بعد بالعموم ان سے رشتے ناطے منقطع کر چکے تھے اور ان کے دلوں میں مسلمان اولاد ، والدین یا بہن بھائیوں کے لئے کوئی خاص نرم گوشہ باقی نہ رہا تھا کجا یہ کہ معاند اسلام ابو سفیان سے اپنی مسلمان بیٹی کی کفالت کی توقع کی جائے.اگر وہ اتنا ہی ہمدرد ہوتا تو حضرت ام حبیبہ کو مکہ سے حبشہ ہجرت کی نوبت ہی کیوں پیش آتی.دوسرے ام حبیبہ جو دین کی خاطر وطن اور ماں باپ کو چھوڑ چکی تھیں یہ بات خود انکی غیرت ایمانی کے خلاف تھی وطن اور شوہر کی قربانی دینے کے بعد حالتِ بیوگی میں دین اسلام چھوڑ کر پھر اپنے والد کی کفالت میں جانے کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں.اور اگر ایسا کوئی ادنی ساخد شہ تھا بھی تو رسول اللہ سلیم کی ان کے ساتھ رشتہ کی بر محل تجویز سے دور ہو گیا.کیونکہ مسلمان ہونے کے بعد ہر لحاظ سے ان کی کفالت کے اصل ذمہ دار رسول اللہ صل عالم تھے.پس جب حضرت ام حبیبہ نے رئیس مکہ کی بیٹی ہو کر تنعم کی زندگی چھوڑتے ہوئے خدا اور اس کے رسول کی خاطر اپنے وطن اور گھر بار کو قربان کر دیا اور دیارِ غیر میں تنہا رہ گئیں تو رسول اللہ سلیم نے حضرت ام حبیبہ کی رضامندی سے انہیں اپنے عقد میں لینے کا ارادہ فرمایا تو اس سے بڑھ کر ان کیلئے کوئی خوشی کی خبر نہ ہو سکتی تھی.تبھی تو انہوں نے رشتہ کا پیغام لانے والی خادمہ کو خوش ہو کر حسب توفیق انعامات سے نوازا.عورتوں کے حقوق کا قیام رسول کریم ملی تیم کی شادیوں کی ایک غرض عورت کے مقام اور حقوق کا قیام تھا.قرآن شریف میں رسول الله علم کو مسلمانوں کیلئے ایک بہترین نمونہ قرار دے کر آپ کی اتباع کو ضروری قرار دیا گیا ہے.اس لحاظ سے تعدد ازدواج کی ایک اہم حکمت آنحضرت علی عید کریم کے ذریعہ ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں عدل و انصاف کا بہترین نمونہ قائم کرنا تھا.خصوصاً اس زمانہ میں جب عورتوں کے حقوق تلف کئے جار ہے تھے.اور عرب کے معاشرہ میں خواتین کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.آج تک دنیا کی تاریخ میں عور توں

Page 34

ازواج النبی 18 تعددازدواج 28 کے حقوق کے لئے خود انکی طرف سے مختلف تحریکوں کا ذکر تو ملتا ہے.لیکن وہ پہلا مر د جس نے عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور ان کے حق قائم کر دکھائے وہ ہمارے نبی سلیم ہی تھے.آپ نے عورتوں کی عزت و احترام قائم کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹی کو زندہ در گور نہ کرنے والا اور اس کے ساتھ انصاف کر کے اچھی پرورش کرنے والا جنتی ہو گا.ایک سفر میں رسول کریم ملی یتیم کے ساتھ آپ کی بیویاں اور کچھ عور تیں اونٹوں پر سوار تھیں.ایک صحابی نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کر دیا تو آپ نے فرمایا آہستہ ہانکو کہ شیشے جیسی نازک عور تیں ہمارے ساتھ ہیں.حضرت ابو قلابہ کہتے تھے کہ اگر تم میں سے کوئی یہ بات کہتا تو تم اس فقرے پر اس کا مذاق اڑاتے.پھر رسول الله علی کریم نے عورت کی ملکیت کا حق قائم کیا.اور اپنی بیویوں کے معقول حق مہر مقرر کر کے انہیں ادا کرنے کا ایسا اہتمام کیا جن پر انکا مکمل اختیار تھا.بیوہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی شادی کے فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے.آپ نے نو بیوہ عورتوں سے ان کی مرضی معلوم کر کے شادی کی اور عملی رنگ میں ان کا یہ حق قائم کر دکھایا.آنحضرت علی یا تم نے والدین اور شوہر کے ورثہ میں بھی عورت کا حق قائم فرمایا کہ جائیداد میں مرد سے نصف اس کا حق ہے.اور وہ بطور ماں، بیٹی اور بیوی جائیداد کی وارث ہو گی.آپ نے ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے در میان عدل وانصاف کا بے نظیر نمونہ قائم فرمایا اور ان کے درمیان وقت کے لحاظ سے باریاں مقرر کر کے اور اخراجات کی برابر تقسیم کے لحاظ سے ایسا عادلانہ نمونہ قائم کر دکھایا جس کی مثال نہیں ملتی.مگر اس کے باوجود قیام عدل کا ایسا پاس تھا کہ ہمیشہ یہ دعا کرتے تھے اللهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ يَعْنِي الْقَلْبَ کہ "اے اللہ ! یہ میری وہ تقسیم ہے جس میں مجھے اختیار ہے پس اس میں مجھے ملامت نہ کرنا جس میں تجھے اختیار ہے اور مجھے نہیں یعنی دل پر." اسلام سے پہلے عورتوں کو جنگ میں رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور ناچ گانے کے لئے شریک کیا جاتا تھا.تاریخ میں پہلی دفعہ رسول اللہ صلی علیم نے عورت کا تقدس بحال کرتے ہوئے زخمیوں کی مرہم پٹی ، تیمار داری اور نرسنگ کے لئے خواتین کو جنگ میں شریک کیا.آپ قرعہ اندازی کے ذریعے اپنی ازواج کو شریک سفر کرتے.غزوہ احد میں آپ کی زوجہ حضرت عائشہ اور صاحبزادی حضرت فاطمہ نے بھی زخمیوں کو 29

Page 35

ازواج النبی 19 تعددازدواج پانی پلانے اور مرہم پٹی کی خدمات سر انجام دیں.حدیبیہ اور سفر فتح مکہ میں حضرت ام سلمہ آپ کے ساتھ 30 عرب لوگ گھر کے معاملات میں عورت کی رائے کو کوئی وقعت نہ دیتے تھے.آنحضرت علی ہم نے عورت کو گھر کی نگران قرار دے کر اسے گویا حکومت کے تخت پر بٹھا دیا.آپ ذاتی اور قومی معاملات میں بھی اپنی ازواج سے مشورہ لیتے تھے جیسا کہ غزوہ حدیبیہ میں حضرت ام سلمہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آپ نے اپنی قربانی ذبح کرنے کا نمونہ اپنے اصحاب کو دیا تو صحابہ نے بھی دھڑادھڑ قربانیاں ذبح کر دیں.دیگر قوموں سے تعلقات رسول کریم اینم کی شادیوں کی تیسری بڑی غرض بحیثیت بادشاہ دیگر اقوام سے تعلقات قائم کرنا تھا.چنانچہ فتح خیبر کے موقع پر یہود کی شہزادی حضرت صفیہ سے آپ کے عقد کی وجہ یہود سے تالیف قلبی تھی کہ یہ بات انہیں اسلام کے قریب لانے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے.حضور علی علی کریم نے قومی مفاد میں اپنے اصحاب کا یہ مشورہ قبول کرتے ہوئے حضرت صفیہ کو آزاد کر کے اپنے حرم میں شامل فرمایا.اور غلامی سے آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا.اسی طرح سر دار مکہ ابوسفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ اور بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہ اور مصر کی شہزادی حضرت ماریہ قبطیہ کے ساتھ عقد ہوا تھا.اسی دستور کے مطابق قدیم زمانے سے شادیوں کا رواج تھا.بائبل کے مطابق حضرت سلیمان نے بھی اس مقصد کی خاطر فرعون مصر کی بیٹی سے شادی کی تھی جس کے باعث بنی اسرائیلوں کو مصر سے حملہ کا خطرہ نہ رہا.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح الاول غزوہ خیبر میں یہودی سردار کی اٹھارہ 18 سالہ بیٹی حضرت صفیہ کو قیدیوں میں پاکر اس سے خود شادی کر لینے کے ولیم میور کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے 31 32 فرماتے ہیں:."مسٹر میور (Muir) نے اعتراض کیا مگر وہ جانتانہ تھا کہ ملک عرب میں دستور تھا کہ مفتوحہ ملک کے سردار کی بیٹی یا بیوی سے ملک میں امن و امان قائم کرنے اور اس ملک کے مقتدر لوگوں سے محبت پیدا کرنے کے لئے شادیاں کیا کرتے تھے.تمام رعایا اور شاہی کنبہ والے مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ اب کوئی کھٹکا نہیں.

Page 36

ازواج النبی 20 تعددازدواج چنانچہ خیبر کی فتح کے بعد تمام یہود نے وہیں رہنا پسند کیا " 33 11 عیاشی کے اعتراض کا جواب اور ازواج کی رسول اللہ ٹی ایم سے گہری محبت و فدائیت ! تعدد ازدواج کے بارہ میں رسول کریم ی ی ی نیم پر ایک اعتراض عیاشی اور نفس پرستی کا کیا جاتا ہے.خصوصاً جو لوگ حضرت عائشہ کی کم سنی میں شادی پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں انہیں خیال کرنا چاہئے کہ وہ نو عمر اور چہیتی بیوی جن کے پاس نویں دن رسول اللہ علیم کی باری آتی ہے اور آپ ان سے پوچھ کر وہ رات بھی عبادت میں بسر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ کے مضمون میں تفصیل سے مذکور ہے.پھر کیا یہ شادی محض نفس پرستی کیلئے قرار دی جاسکتی ہے؟ سید نا حضرت مصلح موعود اس غیر معقول اعتراض کو ر ڈ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :."رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نعوذ باللہ من ذالک عیاشی پر مبنی تھا.مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق ایسا پاکیزہ ، ایسا بے لوث اور ایسار وحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا.اگر رسول اللہ ی ی ی یتیم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متاثر نہ ہوتے.مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھاوہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہیں.مثلاً یہی واقعہ کتنا چھوٹا سا تھا کہ میمونہ رسول کریم ملی تم سے پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمہ میں ملیں.اگر رسول اللہ صلی لا یتیم کا ان سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا اور اگر آپ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہ اس واقعہ کو اپنی زندگی کا کوئی اچھا واقعہ نہ سمجھتیں بلکہ کوشش کرتیں کہ یہ واقعہ ان کی یاد سے بھول جائے.لیکن میمونہ رسول کریم ایم کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں اور اسی سال کی ہو کر فوت ہوئیں.مگر اس برکت والے تعلق کو وہ ساری عمر بھلا نہ سکیں.اتنی سال کی عمر میں جب جوانی کے جذبات سب سرد ہو چکے ہوتے ہیں رسول اللہ علی ایم کی وفات کے پچاس سال بعد جو عرصہ ایک مستقل عمر کہلانے کا مستحق ہے میمونہ فوت ہوئیں.اور اس وقت انہوں نے اپنے گرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مر جاؤں تو مکہ کے باہر

Page 37

ازواج النبی 21 تعددازدواج ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریم علیم کا خیمہ تھا اور جس جگہ پہلی دفعہ مجھے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا میری قبر بنائی جائے اور اس میں مجھے دفن کیا جائے.دنیا میں سچے نوادر بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی.مگر بچے نوادر میں سے بھی اور قصے کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس گہری محبت سے زیادہ پُر تاثیر پیش کیا جاسکتا ہے ؟" یہی حال حضرت ام حبیبہ کی فدائیت کا تھا.جو رئیس مگہ ابوسفیان کی بیٹی تھیں اور حبشہ میں بیوہ ہونے پر رسول اللہ لی لی سکیم کے عقد میں آئیں.6ھ میں حدیبیہ کے معاہدہ کے بعد جب اہل مکہ عہد شکنی کے مر تکب ہوئے تو ابوسفیان اس معاہدہ کی توثیق کی خاطر مدینہ آیا اور اپنی بیٹی حضرت ام حبیبہ کے گھر گیا.جب وہ آنحضرت ملی یکم کے بچھے ہوئے بستر پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہ نے فوراً آگے بڑھ کر اس بستر کو لپیٹ دیا.سردار مکہ ابوسفیان لمبے عرصہ بعد اپنی بیٹی کے گھر آیا تھا.وہ سخت حیران ہوا کہ میری بیٹی بجائے میرے اکرام اور عزت کے لئے بستر بچھانے کے الٹا اپنا بستر لپیٹ رہی ہے.اس نے بڑے تعجب سے سوال کیا کہ بیٹی کیا یہ بستر میرے قابل نہیں یا مجھے تم نے اس کے قابل نہیں سمجھا.حضرت ام حبیبہ نے عرض کیا ابا ! یہ بستر میرے شوہر نامدار ہی کا نہیں میرے آقا حضرت محمد مصطفی ملی لی ایم کا ہے اور آپ کو مشرک ہوتے ہوئے پاکیزگی نصیب نہیں.اس لئے میں نے حضور می یی ستم کا بستر لپیٹ کر آپ سے جدا کر دیا ہے.ابوسفیان نے کہا کہ اے میری بیٹی ! لگتا ہے جب سے تم مجھ سے جدا ہوئی ہو تمہارے حالات کچھ بگڑ گئے ہیں.اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ علیم کے اخلاق فاضلہ کے باعث آپ کی ازواج آپ کو صدق دل سے چاہتی تھیں اور اپنے والدین پر بھی ترجیح دیتی تھیں.کسی عیاشی کرنے والے کائیوں صدق دل سے احترام اور تقدس کا خیال نہیں رکھا جا سکتا.35 یہودیوں میں سے رسول اللہ صلی علی السلام کے عقد میں آنیوالی حضرت صفیہ کو حضور صلی علی ایم کے ساتھ جو محبت تھی اس کا ایک اندازہ آنحضرت میم کی آخری بیماری میں ہوا.ازواج مطہرات آنحضور کے پاس بیٹھی حضور کی تیمار داری اور عیادت میں مصروف تھیں.اس دوران حضرت صفیہ نے بے اختیار کہا اے اللہ کے نبی ! میرادل کرتا ہے کہ آپ کی یہ بیماری مجھے مل جائے اور آپ کو اللہ تعالیٰ شفاء دے دے.حضرت صفیہ کی یہ

Page 38

ازواج النبی 22 تعددازدواج بات سن کر کسی زوجہ نے دوسری کو طنزیہ اشارہ کیا.آنحضرت می نام حضرت صفیہ کے صفائے قلب کو 36 جانتے تھے.آپ نے فرمایا " خدا کی قسم ! یہ اپنی بات میں سچی ہے گو یا صدق دل سے مجھے چاہتی ہے " حضرت جویریہ جو ایک مشرک اور دشمن قبیلہ سے رسول اللہ سلیم کے عقد میں آئیں اور آپ کے اخلاق فاضلہ اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر آپ کی ایسی گرویدہ ہو ئیں اور ایسی سچی محبت آپ کے دل میں آغاز میں ہی پیدا ہو گئی جو ایک مومن کی حقیقی شان ہے.چنانچہ جب آپ کے والد نے اپنی بیٹی کی اسیری کا سنا اور ان 37 کو آزاد کروانے کیلئے فدیہ لے کر آیا اور درخواست کی کہ اسے آزاد کر دیا جائے.رسول اللہ لی تم نے حضرت جویریہ کو اختیار دیا کہ وہ والدین کے ساتھ جانا چاہیں تو جاسکتی ہیں.والد نے خوشی خوشی جا کر اپنی بیٹی کو یہ بات بتائی اور کہا کہ خدا کیلئے مجھے رسوا نہ کرنا.مگر قربان جائیں حضرت جویریہ پر انہوں نے کیا خوب جواب دیا کہ قَدْ اخْتَرْتُ رَسُولَ اللہ کہ اب تو میں خدا کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں.اپنے ماں باپ کو تو چھوڑ سکتی ہوں مگر ان سے جدا نہیں ہو سکتی.اگر رسول الله علیم کی شادی محض عیاشی کی خاطر ہوتی تو غیر مذہب سے آنے والی خواتین کا یہ رد عمل نہ ہوتا.امر واقعہ یہ ہے کہ تمام ازواج ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کے باعث آپ پر دل و جان سے فدا تھیں.آنحضرت علیم نے آخری عمر میں ایک موقع پر گھر میں موجود اپنی ازواج سے فرمایا کہ أَسْرَعُكُنَّ لَخَوْفًا في أَطْوَلُكُنَّ يَدًا یعنی میری وفات کے بعد تم میں سے بہت جلد جو بیوی مجھے آکر ملے گی وہ لمبے ہاتھوں والی ہو گی.ازواج مطہرات ظاہری ہاتھوں کی لمبائی مراد لیتے ہوئے حضور علی لی ایم کے سامنے ہی سرکنڈے سے ہاتھ ماپنے لگیں کہ وہ کون خوش قسمت ہے جو پہلے وفات پاکر رسول اللہ یتیم سے جاملنے کی سعادت پائے 38 گی_® یہ غور کا مقام ہے کہ کسی عیاشی کرنیوالے پر کوئی یوں بھی جان فدا کر سکتا ہے.بلاشبہ یہ رسول اللہ علیم کے اخلاق فاضلہ کا کمال ہے کہ ازواج آپ پر جان چھڑکتی تھیں اور خیال کرتی تھیں کہ ایسے وجود کے بعد زندہ رہنے سے کیا حاصل؟ تعدد ازواج پر شہوت پرستی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.

Page 39

ازواج النبی 23 تعددازدواج یہ کہنا کہ تعدد ازدواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اور متعصبانہ خیال ہے ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعدد ازدواج کی مبارک رسم کے پابند ہو جائیں تب تو وہ فسق و فجور اور زناکاری اور بدکاری سے رک جاتے ہیں اور یہ طریق اُن کو متقی اور پر ہیز گار بنادیتا ہے ورنہ نفسانی شہوات کا تند اور تیز سیلاب بازاری عورتوں کے دروازہ تک اُن کو پہنچا دیتا ہے" 39 11 آنحضرت لیلی می ریم کے تعدد ازدواج سے متعلق بیان کردہ ان حقائق کے باوجود بعض مستشرق ظلم کی راہ سے ناحق اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے.تاہم انصاف کی نظر سے دیکھنے والے مخالفین کے لئے حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہا.چنانچہ مسٹر مار گولیس جیسا مستشرق بھی آنحضرت میم کے تعدد ازدواج کے بارہ میں اصل حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہے.وہ اپنی کتاب "محمد " میں لکھتے ہیں.محمد ) کی بہت سی شادیاں جو خدیجہ کے بعد وقوع میں آئیں بیشتر یورپین مصنفین کی نظر میں نفسانی خواہشات پر مبنی قرار دی گئی ہیں.لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اس جذ بہ پر مبنی نہیں تھیں.محمد (ع) کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمد (م) یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعے سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کر لیں.ابو بکر و عمر کی لڑکیوں کی شادیاں یقیناً اسی خیال کے ماتحت کی گئی تھیں.اسی طرح سر بر آوردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمد ( تم ) کی شادیاں سیاسی اغراض کے ماتحت و قوع 40 میں آئی تھیں " ایک سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے تعدد ازدواج پر اہل مغرب کا جنس پرستی کا اعتراض رڈ کرتے ہوئے اپنی کتاب " محمد " میں لکھا."But, seen in context, polygamy was not designed to improve the sex life of the boys.It was a piece of social legislation.The problem of orphans had exercised Muhammad since the beginning of his career and it had been exacerbated by the deaths at Uhud.The men who had died had left no only widows but daughters, sisters

Page 40

تعد دازدواج 24 ازواج النبی new and other relatives who needed a new protector.Their be scrupulous about guardians might not be administering the property of these orphans: some might even keep these women unmarried so that they could hold on to their property.It was not unsusual for a man to marry his women wards as a way of absorbing their property into his own estate.11 41 ترجمہ :."اگر تعدد ازدواج کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ہر گز لڑکوں کی تسکین جنس کے سامان کے طور پر ایجاد نہیں کی گئی تھی.بلکہ یہ معاشرتی قانون سازی کا ایک حصہ تھا.یتیم لڑکیوں کا مسئلہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو آغاز سے ہی در پیش تھا لیکن جنگ احد میں کئی مسلمانوں کی شہادت نے اس میں اضافہ کر دیا تھا.شہید ہونے والوں نے محض بیوگان ہی پیچھے نہیں چھوڑیں بلکہ سیٹیاں بہنیں اور دیگر رشتہ دار بھی تھے جو نئے سہاروں کے متقاضی تھے.کیونکہ ان کے نئے نگران ان یتامی کی جائیدادوں کے انتظام و انصرام کے قابل نہ تھے.بعض جائید ادروکنے کی خاطر ان لڑکیوں کی شادی اس لئے نہ کرتے تھے اور ایک مرد کے لئے اپنے زیر کفالت عورتوں سے شادی کرنا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی جس کے ذریعہ وہ ان کی جائیداد بھی اپنے قبضہ میں کر لیں" اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر لاراویسیا وگلیری نے اسلام میں عورت کے تحفظ حقوق اور مثالی مقام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:.As a matter of fact, the Islamic law, which seems today to be so full of concessions on this subject, actually established for the followers of Muhammad certain limitations upon polygamy which was in practice without any limitation.It condemned certain forms of conditional and temporary marriage which were in effect different forms of legal concubinage.Furthermore, it gave to the woman rights she had never known before................But if, from the social point of view in Europe, woman has reached a high condition, her position, legally at least,

Page 41

تعددازدواج 25 ازواج النبی until a very few years ago, has been and in some countries continues to be, less independent than of the Muslim woman in the Islamic world.ترجمہ :.اسلامی شریعت کے آنے سے پہلے تعدد ازدواج پر کوئی قید نہ تھی اور اسلامی قانون نے بہت سی پابندیاں لگا کر مسلمانوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کو جائز رکھا.اسلام نے ان مشروط اور عارضی نکاحوں کو ناجائز قرار دیا جو دراصل حرامکاری کو جائز بنانے کے مختلف بہانے تھے مزید برآں اسلام نے عورتوں کو ایسے حقوق عطا کئے جو انہیں پہلے کبھی حاصل نہ تھے.گو سماجی اعتبار سے یورپ میں عورت کو بڑا درجہ حاصل ہے لیکن اگر ہم چند سال پیچھے جائیں اور یورپ کی عورت کی خود مختاری کا موازنہ دنیائے اسلام کی عورت کی خود مختاری سے کریں تو معلوم ہو گا کہ یورپ میں عورت کی حیثیت کم از کم قانونی لحاظ سے بہت اونی رہی ہے اور بعض ملکوں میں اب تک یہی صورت باقی ہے.پروفیسر ڈاکٹر ویگلیری مزید لکھتی ہیں:.Enemies of Islam have insisted in depicting Muhammad as a sensual individual and a dissolute man, trying to find in his marriages evidence of a weak character not consistent with his mission.They refuse to take into consideration the fact that during those years of his life when by nature the sexual urge is strongest, although he lived in a society like that of the Arabs, where the institution of marriage was almost non-existent, where polygamy was the rule, and where divorce was very easy indeed, he was married to one woman alone, Khadija, who was much older than himself, and that for twenty-five years he was her faithful, loving husband.Only when she died and when he was already fifty years old did he marry again and more than once.Each of these marriages had a social or a political reason, for he wanted through the women he married to honour pious women, or to establish

Page 42

تعدد ازدواج 26 ازواج النبی marriage relations with other clans and tribes for the purpose of opening the way for the propagation of Islam.With the sole exception of Ayesha, he married women, who were neither virgins, nor young nor beautiful.Was this sensuality? "I ترجمہ :."اسلام کے دشمنوں نے محمد (م) کی شادیوں سے آپ میں ایک کمزور کردار اور اپنے مشن سے غیر مخلص ثابت کرنے کی کوشش کر کے آپ کو ایک عیاش طبع اور آوارہ آدمی کی صورت میں پیش کرنے کیلئے پور از ور لگایا.انہوں نے اس حقیقت کو مد نظر نہ رکھا کہ آپ نے زندگی کے اس دور میں جبکہ قدرتی طور پر جنسی خواہشات زور آور ہوتی ہیں صرف ایک ہی عورت سے شادی کی ، باوجود یکہ آپ عربوں کے اس معاشرے کے مکین تھے جہاں نظام ازدواجیت نہ ہونے کے برابر تھا.جہاں تعدد ازدواج ایک رواج تھا اور جہاں علیحدگی نہایت آسان تھی.خدیجہ جو خود آپ سے کافی عمر رسیدہ تھیں اور آپ پچھیں 25 سال تک ان کے وفاشعار اور محبوب رفیق حیات رہے.صرف اس وقت جب خدیجہ کی وفات ہو گئی اور آپ پچاس 50 سال کے ہو گئے.آپ نے دوبارہ کئی شادیاں کیں.ہر شادی کسی معاشرتی یاسیاسی مقصد کیلئے تھی.آپ اپنی ازواج کے ذریعہ سے پر ہیز گار عورتوں کو عزت دینا چاہتے تھے یا دوسرے قبائل سے شادیوں کے ذریعے سے تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام کی تبلیغ میں زیادہ سے زیادہ راہ ہموار ہو.سوائے حضرت عائشہ کے آپ نے ایسی عورتوں سے نکاح کیا جو نہ تو کنواری تھیں نہ جوان اور نہ ہی غیر معمولی خوبصورت.کیا یہی عیاشی ہوتی ہے؟" اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ **** ****

Page 43

6 7 8 ازواج النبی 1 2 3 4 15 27 حوالہ جات پیدائش باب 16 آیت 3، 1.باب 25 آیت 1 پیدائش باب 29 آیات 14-30 تعددازدواج استثناء باب 21 آیت 15-17 خروج باب 21 آیت 9 تا 11 گفتی باب 12 آیت 1- خروج باب 2 آیات 22 1.تواریخ باب 3 -1.سلاطین باب 11 آیات 1 تا 3 یمتھیں کا پہلا خط باب 3 آیت 1 9 10 رحمۃ للعالمین جلد 1 ص 379 از محمد سلیمان المنصور پوری(1348ھ ).وکی پیڈیاز پر لفظ کرشن آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 ص 281 تا 283 11 آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10ص45،44 12 ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد سوم ص 106 چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد 23ص244 13 14 چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23ص246 15 نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء 16 17 18 19 20 21 چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23ص300،299 الحكم جلد 13 مؤرخہ 17 اپریل1905ص4 ملفوظات جلد دوم ص 387 قرآن مجید مع ترجمه و تشریح حضرت خلیفہ اوّل مرتبہ حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب ص 893 خلاصه از سیرت خاتم النسبین ص 444432 سیرت خاتم النبيين ص 441-442

Page 44

ازواج النبی 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 البدایہ النھایہ جلد 3ص159 مسند زید بن علی جلد 1ص112 کشف الغمري، جلد 1ص236 28 مسند احمد جلد 6 ص 307.سیرت خاتم النبيين ص530 بخاری کتاب النکاح باب عرض الانسان ابنته تعددازدواج Life of Muhammad by Canon Sell, p- 184,185.1913 ابوداؤد کتاب الادب باب من فضل من عال یتامی.بخاری کتاب الادب باب ما یجوز من الشعر والرجز ابوداؤد کتاب النکاح باب فی القسم بين النساء بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد.بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف مسلم کتاب النکاح باب فضیلۃ اعتاقہ امت سلاطین 3/1 ، و کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ص 603 بائیبل سوسائٹی لاہور خطبات نور ص532 دیباچہ تفسیر القرآن ص 205 206 طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 99 بیروت طبقات الکبری جلد 8 ص 128، الاصابۃ جلد 7 ص 741 طبقات الکبری جلد 8 ص 118 بخاری کتاب الزکاۃ باب الی الصدقۃ افضل.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 ص247 محمد از مار گولیس ص 176،177 Muhammad A Biography of Prophet by Karen Armstrong p:180 An Interpretation of Islam p.66-77 42 Vaglieri, Laura Veccia: An Interpretation of Islam, 43 p.67,68

Page 45

ازواج النبی 29 29 رض حضرت خدیجہ فضائل ام المؤمنین حضرت خديجة الكبرى - حضرت خدیجہ کو عورتوں میں سے سب سے پہلے آنحضور ملی تم پر ایمان لانے کی سعادت عطا ہوئی.رسول کریم نے فرمایا:." خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب باقی لوگوں نے انکار کیا.اور جب سب دنیا نے تکذیب کی اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی تھی.".رسول الله طی می کنیم نے حضرت خدیجہ کو جنت کی عورتوں میں سے افضل قرار دیا.ایک دفعہ حضرت جبریل علیہم کی آمد پر رسول اللہ علی یی کریم نے ان کا سلام حضرت خدیجہ کو پہنچا کر فرمایا کہ " تمہارے لئے جنت میں ایک ایسے گھر کی بشارت دی ہے جس میں کوئی شور وشغب یا تھکان نہ ہوگی." حضور ملی تم نے فرمایا: "خدیجہ کی محبت تو مجھے پلا دی گئی اور میرے دل میں بٹھادی گئی ہے." خاندانی تعارف حضرت خدیجہ قریش کے ایک مالدار اور معزز گھرانے بنو اسد سے تعلق رکھتی تھیں.آپ کے والد خویلد بن اسد بن عبد العزی تھے اور والدہ فاطمہ بنت زائدہ بنی لوسٹی کی خاتون تھیں.روایات میں رسول کریم ملی لی ایم کے ساتھ عقد سے پہلے حضرت خدیجہ کی یکے بعد دیگرے دو شادیوں کا ذکر ملتا ہے.ایک شادی بنو مخزوم کے گھرانے کے معزز شخص عقیق بن عائذ سے ہوئی جن سے ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی.حضرت خدیجہ کی دوسری شادی مالک بن نباش سے ہوئی.بعض روایات میں مذکورہ بالا شادیوں کی ترتیب برعکس بھی مذکور ہے.حضرت خدیجہ کے مالک سے دو بچے ہوئے.ایک کا نام ہند اور دوسرے کا ہالہ تھا.جس کی نسبت سے اس کے والد مالک کی کنیت ابو ہالہ معروف تھی.ہند نے رسول اللہ علم کی آغوش میں تربیت پائی.حالت اسلام میں ان کی وفات ہوئی.ہند کہا کرتے تھے میرے

Page 46

ازواج النبی 30 حضرت خدیجہ رض والدین اور بھائی بہن سب لوگوں سے زیادہ معزز ہیں.کیونکہ میرے باپ رسول اللہ صلی ی تیم والدہ حضرت خدیجہ بھائی قاسم بن محمد اور بہن فاطمہ بنت محمد ہیں.مذہب 3 اسلام سے قبل حضرت خدیجہ کے مذہب کے بارہ میں کوئی واضح روایت تو موجود نہیں تاہم ان کا طور طریق، نیک سیرت اور پاکیزگی ظاہر کرتی ہے کہ نہ تو بتوں کی طرف ان کا کوئی میلان تھا اور نہ ہی وہ اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کی طرح کسی اور مذہب عیسائیت وغیرہ کی طرف رجحان رکھتی تھیں.بلکہ مکہ کے گنتی کے چند نیک اور مؤخد لوگوں کی طرح دین ابراہیمی سے نسبت رکھتی تھیں.ان کے آباؤ اجداد بھی اسی دین سے نسبت باعث فخر جانتے تھے.ورقہ بن نوفل بھی بت پرستی کو نا پسند کرتے تھے ، انہوں نے تحقیق حق کی خاطر مکہ کے ایک اور مؤحد زید بن عمرو بن نفیل کے ساتھ شام کا سفر بھی کیا.یہود و نصاری کے بارہ میں معلومات حاصل کر نے کے بعد زید تو دین ابراہیمی پر قائم رہے جبکہ ورقہ نے عیسائیت قبول کر لی تھی.0 رسول اللہ صلی یا تم سے شادی حضرت خدیجہ کے والد جنگ فجار میں مارے گئے تھے.وہ اپنی خاندانی جائیداد کی تنہا مالک تھیں.ایک کے بعد اپنے دوسرے شوہر کی وفات کے بعد گھر یلو انتظام خود سنبھال کر وہ ہر لحاظ سے بااختیار بھی تھیں.قریش میں نہایت معزز اور مالدار خاتون ہونے کے ساتھ وہ نہایت عفیف، پاک دامن اور پارسا مشہور تھیں اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں ان کا لقب "طاہرہ " پڑ گیا تھا.وہ قریش کے شام جانے والے قافلے میں اپنا مال بغرض تجارت بھجوایا کرتی تھیں اس کے لئے انہیں کسی دیانتدار شخص کی ضرورت تھی.حضرت خدیجہ نے رسول اللہ علیم کی صداقت و امانت کا شہرہ بھی سن رکھا تھا.انہوں نے ابو طالب کی تحریک پر آنحضرت لیلی ہم کو پیغام بھجوایا کہ اگر آپ میرا امال تجارت شام لے کر جائیں تو دوسرے لوگوں کی نسبت آپ کا معاوضہ دوگنا ہو گا یعنی دواونٹ کی بجائے چار اونٹ.ابو طالب نے بھی اس موقع پر آنحضرت ٹیم کو اس کام کے لئے آمادہ کرنے کی تحریک کی اور کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کے لئے اس رزق کا خود بند و بست فرمایا ہے.5 66 چنانچہ آنحضرت الی ال ایام حضرت خدیجہ کا مال تجارت شام لے جانے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت خدیجہ نے اپنے ایک غلام میسرہ کو بھی آپ کے ہمراہ بھجوایا.رسول کریم ی ی ی یمن کی صداقت و دیانت کی بدولت ملک رض

Page 47

ازواج النبی 31 حضرت خدیجہ رض شام کے سفر میں تجارت میں اتنی برکت پڑی کہ اس سفر میں چار گنا منافع حاصل ہوا.مزید برآں حضرت خدیجہ کو جب اپنے غلام سے آپ کی امانت و دیانت اور راست بازی کے علاوہ ، عیسائی راہب نسطور سے ملاقات اور اس کی خوش آئند باتوں کا پتہ چلا تو ان کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت 6 بہت بڑھ گئی.تاریخ میں حضرت خدیجہ کے قریبی خاندان کے جن مرد افراد کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے ان میں ایک آپ کے چا عمر و بن اسد ہیں جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور وہ کافی ضعیف العمر تھے.دوسرے چازاد بھائی ورقہ بن نوفل.اس کے علاوہ حضرت خدیجہ کے پانچ بھائیوں عوام ، حزام ، نوفل، عمرو، عدی اور تین بہنوں رقیقہ ،ہالہ اور ہند کا ذکر ملتا ہے ( بعض کے نزدیک ہالہ کا ہی دوسرا نام ہند تھا).خاندانی شرافت کے لحاظ سے عرب میں عورتوں کی عمومی کمزور حالت کے بر عکس حضرت خدیجہ صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتی تھیں اور وہ اپنے معاملات میں با اختیار تھیں.بے شک روایتی لحاظ سے ان کی شادی حضرت خدیجہ کے چا اور رسول اللہ علی علی کریم کے چا ابو طالب کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچی مگر اس سے قبل حضرت خدیجہ کی ایک راز دان سہیلی نفیسہ نے آنحضرت لعلیم سے ملاقات کر کے شادی کرنے کے بارہ میں آپ کا عندیہ معلوم کیا اور پھر حضرت خدیجہ کی تجویز کا ذکر کر کے ان کے ہاں رشتہ بھجوانے کی تحریک کی.آپ نے حضرت خدیجہ کی پاکدامنی اور نیک شہرت کی وجہ سے یہ بات پسند فرمائی مگر نفیسہ سے بر ملا یہ اظہار کیا کہ حضرت خدیجہ کا تعلق چونکہ ایک مالدار اور معزز گھرانے سے ہے اس لئے شاید ان کے چچا عمرو کی رائے اس رشتہ کے حق میں نہ ہو.نفیسہ نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی اور حضرت خدیجہ کے ساتھ مشورہ کر کے رشتہ طے کروانے کا اہتمام کیا.انہوں نے حضرت خدیجہ کے گھر میں ایک دعوت کا انتظام کر کے قریش کے رؤساء کو بلایا جن کی موجودگی میں حضرت خدیجہ کے چچا نے آنحضرت علی علیم کے ساتھ ان کے نکاح کی اجازت لی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شادی کے وقت پچیس 25 سال اور معروف روایت کے مطابق حضرت خدیجہ کی عمر قریباً چالیس 40 برس تھی.مگر ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے ہونے کی وجہ سے ان کی 8 صحت بہت اچھی تھی.چنانچہ عمروں کے غیر معمولی تفاوت کے باوجود یہ رشتہ بہت کامیاب رہا.رض

Page 48

ازواج النبی 32 حضرت خدیجہ رض 12 نکاح کے موقع پر رسول اللہ سلیم کے چا ابو طالب نے گفتگو فرماتے ہوئے اپنے اولاد ابراہیم اور متولی بیت اللہ ہونے کی فضیلت کا ذکر کیا اور کہا کہ میرے اس بھتیجے محمد بن عبد اللہ کا موازنہ کسی بھی شخص سے کیا جائے تو اس کا پلڑا یقیناً بھاری ہو گا.ہاں اگر یہ مال میں کم ہے تو وہ ایک آنی جانی چیز ہے.اور محمد وہ ہے جس کی قرابت سے تم سب واقف ہو.0 جس کے بعد حضرت خدیجہ کے چازاد ورقہ بن نوفل نے اپنے خطاب میں ابو طالب کی بیان کردہ خاندانی شرافت کی تائید کرتے ہوئے حضرت خدیجہ کی طرف سے یہ نکاح چار سو دینار پر قبول کیا.ابو طالب نے کہا کہ مناسب ہو گا کہ حضرت خدیجہ کے چا بھی اس کی تائید کریں.اس پر ان کے چچا عمر و بن اسد نے اعلان کیا کہ اے سرداران قریش ! میں نے محمدملی یا یتیم کا نکاح خدیجہ سے کر دیا ہے.0 روایات میں آنحضرت علی سلیم کا حق مہر دو طرح مذکور ہے یعنی 20 اونٹ کے ساتھ ساڑھے بارہ اوقیہ بھی.اس دو قسم کے حق مہر کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اس موقع پر ابو طالب نے بھی آنحضرت می کنیم کی طرف سے ایک حصہ حق مہر اپنے مال سے ادا کرنا قبول کیا تھا.پھر آنحضرت طلی یا تم نے اپنی طرف سے اس سے زائد بھی ادا کیا اس طرح ہیں اونٹ اور ساڑھے بارہ اوقیہ دونوں حق مہر ادا ہوئے.یہ شادی صرف آنحضرت علیم کے لئے ہی موجب تسلی وراحت نہ ہوئی بلکہ آپ کے چچا ابو طالب کے لئے بہت زیادہ باعث مسرت ہوئی، جس کا اظہار انہوں نے اس موقع پر ان الفاظ میں کیا " تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے ہم سے کرب اور پریشانیاں دور کر لیں " 0 حضرت خدیجہ اور ان کی والدہ فاطمہ اپنی جگہ بہت خوش تھے.انہوں نے رسول اللہ صلی علی کریم کو مشورہ دیا کہ اپنے چچا سے کہیں کہ خوشی کے اس موقع پر کچھ اونٹ ذبح کروا کے لوگوں کو کھاناکھلائیں.حضرت خدیجہ نے اس روز اپنے گھر کی لونڈیوں کو حکم دیا کہ دف و غیرہ بجا کر رونق کا کچھ سامان کریں اور رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ دو پہر یہیں آرام فرمائیں آنحضرت علی یا تم نے یہ تجویز پسند کرتے ہوئے لوگوں کو کھانا کھلایا اور حضرت خدیجہ کے گھر قیلولہ فرمایا.0 ظاہری فرق اور عمروں کے تفاوت کے باوجود یہ شادی بہت کامیاب ثابت ہوئی کیونکہ شادی کا مطلب محض جسمانی ضروریات کو پورا کرنا ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کوئی عام شادی تھی بلکہ جیسا کہ بعد کے حالات نے ظاہر کیا اس رشتہ میں الہی تقدیر کار فرما تھی.جس کا قابل ذکر پہلو یہ تھا کہ جو عظیم ذمہ داری آنحضرت پر 16 15

Page 49

ازواج النبی 33 حضرت خدیجہ رض پڑنے والی تھی اس میں حضرت خدیجہ جیسی بااثر اور پختہ عمر والی خاتون نے آپ کا قدم قدم پر معاون و مددگار اور ڈھارس بننا تھا.حضرت خدیجہ شادی کے بعد رسول اللہ لی لی ایم کے ساتھ کم و بیش قریباً چوبیس 24 برس رہیں.ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یا تم اپنی تردید و تکذیب کے بارہ میں کوئی بھی بات سن کر جب پریشان ہوتے تو حضرت خدیجہ تسلی و تشفی دلا کر اسے دور کرتیں.آپ کے غم کا بوجھ ہلکا کر تیں اور آپ کی تصدیق کر کے آپ کی مشکلات آسان کرتیں.17 18 الغرض یہ شادی خالصتاً اعلیٰ مقاصد اور اخلاق فاضلہ کی بناء پر قرار پائی اور یہی اس کی کامیابی کا اصل راز تھا.حضرت خدیجہ نے آنحضرت می نم کو پیغام شادی کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے آپ کے حسن خلق اور سچائی کی وجہ سے آپ سے رغبت ہے.محبت و اعتماد کا یہ تعلق شادی کے بعد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا.حضرت خدیجہ نے آپ کو ہر قسم کی مالی فکروں سے آزاد کر دیا، وہ آپ کے اشارے پر جان قربان کرنے والی تھیں.چنانچہ رسول اللہ صلی علی ایم نے ایک موقع پر فرمایا " " حضرت خدیجہ نے اس وقت اپنے مال سے میری مدد کی جب باقی لوگوں کو اس کی توفیق نہیں ملی.آنحضرت علی یا تم نے حضرت خدیجہ کے غلام زید بن حارثہ کی خدمات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ کر ان کو سراہا تو حضرت خدیجہ نے آنحضرت مسلم کی یہ رغبت دیکھ کر انہیں آپ کی ملکیت میں ہی دے دیا اور 20 19 رض حضور ملی یا تم نے ان کو آزاد کر دیا.محبت الہی اور عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رغبت و شغف دیکھ کر حضرت خدیجہ ہمیشہ آپ کی ممد و معاون ہوئیں.آنحضرت می ایلیا کی تخلیہ اور عبادت کی خاطر غار حراء میں جاکر اعتکاف فرماتے.حضرت رض خدیجہ آپ کے لئے زادراہ کا اہتمام فرماتیں.ایسے ہی ایک مرتبہ جب حضرت خدیجہ کھانا لے کر آنحضور میں نیم کے پاس آرہی تھیں.حضرت جبریل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یارسول اللہ ! یہ حضرت خدیجہ ایک برتن لئے آ رہی ہے جس میں سالن کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے جب یہ آپ کے پاس آجائیں تو انہیں اللہ تعالی کی طرف سے اور

Page 50

ازواج النبی 34 حضرت خدیجہ رض میر اسلام کہیے اور جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دیجئے جس میں کوئی شور وشغب یا تھکان نہ ہو گی." 2111 حضرت خدیجہ نے اس کا جو خوبصورت جواب دیاوہ ان کی عقل و ذہانت کا شاہکار ہے.انہوں نے کہا اللہ تو خود سلام ہے ( یعنی سلامتی کا سر چشمہ ہے اور سلامتی اس سے جاری ہوتی ہے ) اور جبریل علیہم کو بھی سلام ہو.رض حضرت خدیجہ کے لئے جنت میں موتیوں کے گھر کی جو پیش خبری دی گئی تھی اس میں یہ پیغام تھا کہ وہ خدیجہ جو ہر حال میں آنحضرت طی یتیم کی ڈھارس بنیں ، ایک ایسی امیر کبیر خاتون جن کی اپنی خدمت پر کئی خادمائیں مقرر ہوتی تھیں ، وہ خود اپنے اس عظیم شوہر کی خدمت پر کمر بستہ ہو گئیں، وہ آپ کے آرام اور کھانے پینے کا خیال رکھتیں.اس خدیجہ کے لئے اللہ تعالی نے جنت میں ان کے شفاف اور پر خلوص دل کی طرح موتیوں سے بنا ہوا ایک شیش محل تیار کروا رکھا ہے.حضرت خدیجہ نے اس دنیا میں حضور علی میم کے گھر کو پر سکون اور جنت نظیر بنادیا تھا، اس کی جزا کے طور پر اللہ تعالی نے ان کو یہ پیغام اور خوشخبری پہنچائی کہ اللہ تعالی جنت میں اسی طرح کے پر سکون گھر کی ان کو خوش خبری دیتا ہے کہ جس طرح انہوں نے حضور علی یتیم کے آرام و غیرہ کا خیال رکھا ہے آپ کو بھی اس ابدی گھر میں کوئی تھکاوٹ نہ پہنچے گی.الغرض حضرت خدیجہ آغاز سے ہی آنحضرت ام کی ساتھی اور مشکلات و مصائب میں آپ کی سا جبھی بن گئیں اور آپ کی تنہائی کی عبادات اور اعتکاف میں ان کی خدمات اور تعاون جاری رہا.آنحضرت پر وحی کے پہلے واقعہ کے بعد بھی حضرت خدیجہ نے جس طرح آنحضرت طی تم کی ڈھارس بندھائی وہ انہیں کا حصہ تھا.غارِ حرا میں قرآنی وحی کا عجیب تجربہ حضور علی نیم کے ساتھ پہلی دفعہ گزرا.آپ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا : پڑھ ! فرمایا: میں تو پڑھنے والا نہیں.آپ نے فرمایا: اس نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے اس قدر بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھ.میں نے کہا: میں تو پڑھنے والا نہیں تو اس نے مجھے پکڑ لیا اور دوسری دفعہ بھینچا اور میری طاقت جواب دے گئی.پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ.میں نے کہا : میں تو پڑھنے والا نہیں.تو اس نے مجھے پکڑ لیا اور تیسری دفعہ بھینچا یہاں تک کہ میری طاقت جواب دے

Page 51

ازواج النبی 35 حضرت خدیجہ رض گئی.پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (ترجمہ) پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا.اس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ اور تیر ارب سب سے زیادہ معزز ہے.جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا.انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا.(العلق : 2تا6) چنانچہ رسول اللہ لی لیکن ان آیات کے ساتھ واپس لوٹے اور آپ کے کندھوں کے پٹھے کانپ رہے تھے.یہاں تک کہ آپ حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور کہا: مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو.چنانچہ انہوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا اور پھر آپ سے وہ گھبراہٹ جاتی رہی.پھر آپ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا: اے خدیجہ ! میرے ساتھ کیا گزری اور پھر ان کو ساری بات بتائی.آپ نے فرمایا: مجھے تو اتنی بڑی ذمہ داری لیتے ہوئے) اپنی جان کا ڈر ہے.حضرت خدیجہ نے اس نازک موقعے پر کمال اعتماد سے آنحضرت علی ایم کی ہمت بندھائی اور آپ کے شاندار اخلاق فاضلہ کو گواہ ٹھہرا کر آپ کو حوصلہ دیا اور انتہائی یقین سے تسلی دیتے ہوئے کہا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ آپ کی جان کو کوئی خوف یا خطرہ لاحق ہو بلکہ آپ کو بشارت ہو کہ کوئی عمدہ پیغام آپ کے پاس آیا ہے.اللہ تعالی کبھی بھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا.کیونکہ آپ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے اور سچی بات کہتے ہیں ، آپ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصائب حقہ میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ایسے اخلاق فاضلہ رکھنے والے انسان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے پھر انہوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ آنحضرت لم کی مزید تسلی کی خاطر آپ کو اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو کر اس مذہب کا کافی علم حاصل کر چکے تھے ، وہ عبرانی زبان کے عالم اور توریت و انجیل بھی پڑھے ہوئے تھے.حضرت خدیجہ نے ان سے کہا اے میرے چچا کے بیٹے ! ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سنو.ان کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا ہے ورقہ بن نوفل نے آنحضور طی نم کی گفتگوسن کر کہا کہ “ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ ہم پر بھی نازل ہوا تھا.اے کاش! اس وقت میں جوان اور صحت مند ہوں.جب آپ کی قوم آپ کو اپنے وطن سے نکال دے گی.”حضور نے از راہ تعجب فرمایا کہ کیا میرے جیسے ( نفع رساں اور خادم خلق) کو قوم اپنے وطن سے نکال باہر کر دے گی؟ ورقہ نے کہا کہ ”ہاں ! پہلے اسی طرح ہی ہوتا آیا ہے.24 66 ا ہے.23 "

Page 52

ازواج النبی 36 حضرت خدیجہ رض الغرض حضرت خدیجہ وہ تھیں جنہوں نے رسول اللہ لی ایم کی پہلی وحی کے معابعد آپ کی تصدیق کی بلکہ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاکر ان کی طرف سے تصدیق کروانے کا موجب بھی ٹھہریں.بعد میں کسی موقع ہوتا.25 " رض پر آنحضرت لعلیم سے ورقہ کی نسبت سوال ہوا کہ آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟ حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ یارسل اللہ علی کی پہلی وحی کے بعد انہوں نے آپ کی تصدیق تو کر دی تھی، اگر چہ وہ بعد میں جلد وفات پاگئے.آنحضور تم نے فرمایا کہ "ہاں، میں نے ان کو خواب میں دیکھا ہے کہ انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں.اور اگر وہ اہل نار میں سے ہوتے تو ان پر یہ لباس نہ حضرت خدیجہ نے رسول کریم منم کی پہلی وحی کے موقع پر جو یہ شہادت دی کہ آپ صلہ رحمی کرنے والے، مہمان نواز اور حقیقی مصائب میں لوگوں کی مدد کرنے والے ہیں.ان الفاظ سے خود حضرت خدیجہ کے پاکیزہ اخلاق پر بھی روشنی پڑتی ہے کیونکہ یہ تینوں باتیں یعنی صلہ رحمی یارشتہ داروں سے حسن سلوک، مہمان نوازی اور مصیبت زدگان کی امداد ، گھر کی مالکہ اور حضرت خدیجہ جیسی مخیر اور صاحب ثروت خاتون کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھیں.بلاشبہ وہ رشتہ داروں سے حسن سلوک میں رسول الله علیم کی اول درجہ کی معاون تھیں.چنانچہ جب رسول اللہ سلم نے اپنے چچا ابو طالب کے کمزور مالی حالات کے باعث ان کے بیٹے حضرت علی کو اپنی کفالت میں لیا تو یہ حضرت خدیجہ ہی تھیں جنہوں نے ان کو اپنے گھر میں رکھ کر سنبھالا اور خیال رکھا.اسی طرح بحیثیت خاتونِ خانہ مہمان نوازی میں ہمیشہ آپ نے اپنا خدمت کا حق کامل طور پر ادا کیا.ابتدائی دور میں ایمان لانے والے مسلمانوں کی مہمان نوازی اور خاطر داری ایک اہم خدمت تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے عزیز و اقارب کو الہی حکم کے تحت انذار کرنے اور پیغام حق پہنچانے کیلئے اکٹھا کیا تو حضرت علی کو ہدایت فرما کر ان کے لئے دو مرتبہ دعوتِ طعام کا خصوصی انتظام کروایا، اس کھانے میں بکری کے پائے کا خاص اہتمام چالیس افراد کے لیے کیا گیا.اس زمانہ میں حضرت علیؓ کے علاوہ گھر یلو خدمات کے لحاظ سے حضرت خدیجہ نہی رسول اللہ علیم کی خاص مد و معاون تھیں.26 حضرت خدیجہ کی ایک اور اہم فضیلت ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانا ہے.رسول اللہ لی تم کو ان کی اس خصوصیت کا ہمیشہ خیال رہا.آپ ان کے فضائل میں اس بات کا تذکرہ فرماتے

Page 53

ازواج النبی 37 حضرت خدیجہ رض تھے کہ "خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب باقی لوگوں نے انکار کیا.اور جب سب دنیا نے تکذیب کی اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی تھی." 2711 رسول اللہ لی لی ایم نے فرمایا " جنت کی عورتوں میں سے افضل حضرت خدیجہ بنت خویلد ، حضرت فاطمه بنت محمد، حضرت مریم بنت عمران اور حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی) ہیں." حضرت خدیجہ کی ایک فضیلت آنحضور ملی ہم یہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بطن سے اولاد عطا فرمائی.اولاد 29 رض آنحضرت علی ایم کی ساری اولاد حضرت خدیجہ سے ہوئی سوائے صاحبزادہ ابراہیمؑ کے جو حضرت ماریہ کے بطن سے تھے.آپ کے تمام لڑکے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.چاروں صاحبزادیوں کو اپنی والدہ حضرت خدیجہ کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.پھر ان کی شادیاں اور اولاد بھی ہوئی.تاہم سوائے حضرت فاطمہ اور حضرت علیؓ کے کسی کی نسل معروف نہیں.کتب سیرت میں باختلاف روایات صاحبزادہ ابراہیم سمیت آنحضور طی یا تم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی کل تعداد بارہ 12 تک بیان کی گئی ہے.ان میں سے حضرت خدیجہ کے بطن سے ہو نیوالی اولاد کی تفصیل حسب ذیل ہے: صاحبزادی زینب.صاحبزادی رقیہ.صاحبزادی ام کلثوم - صاحبزادی فاطمہ.صاحبزادہ قاسم.صاحبزادہ عبد اللہ کو ہی طاہر اور طیب بھی کہا جاتا ہے.جبکہ دوسری روایت کے مطابق صاحبزادہ طاہر اور صاحبزادہ طیب، صاحبزادہ عبد اللہ کے علاوہ تھے جو قبل از بعثت توام پیدا ہوئے.اسی طرح قبل از بعثت صاحبزادہ طیب اور صاحبزادہ مطیب کی توام ولادت اور ایک اور بچے عبد المناف کا بھی ذکر ملتا ہے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طاہر کے ساتھ توام پیدا ہونے والے بچے کا نام مطہر تھا.جہاں تک صاحبزادیوں اور ان کی شادی کا تعلق ہے حضرت خدیجہ کی زندگی میں ان کی خواہش پر ہی بڑی صاحبزادی حضرت زینب کا رشتہ ان کے بھانجے ابو العاص بن ربیع سے طے پایا تھا.30

Page 54

ازواج النبی 38 حضرت خدیجہ رض غزوہ بدر میں جب آنحضرت علی عیاری سکیم کے داماد ابو العاص دیگر کفار مکہ کے ساتھ قید ہو کر آئے تو صاحبزادی حضرت زینب مکہ میں تھیں.انہوں نے اپنے شوہر کی آزادی کے لئے فدیہ کے طور پر وہ ہار بھجوادیا جو حضرت خدیجہ نے شادی کے موقع پر انہیں دیا تھا.وہ ہار جب حضور ملی ہم نے دیکھا تو پہچان لیا آپ کو حضرت خدیجہ کی دلگر از یاد کچھ اس طرح آئی کہ رقت طاری ہو گئی.وہ کیا ہی عجیب منظر ہو گا جب حضرت خدیجہ کے احسانات یاد کر کے آنحضرت علی نم کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں.آپ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ ابوالعاص کو فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا جائے.چنانچہ وہ ہار واپس لوٹا دیا گیا جو ایک عظیم ماں حضرت خدیجہ کی اپنی بیٹی کیلئے شادی کے موقع پر ایک قیمتی نشانی تھی البتہ ابو العاص بن ربیع پر ان کی رہائی کے عوض یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ اپنی مسلمان بیوی اور رسول الله طی ی ی یتیم کی صاحبزادی حضرت زینب کو بخیر و عافیت حضور کے پاس مدینہ بھجوادیں.حضور می یتیم کی اس خواہش کے احترام میں صحابہ نے وہ ہار واپس کر دیا اور ابوالعاص کو فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا گیا.ابو العاص بھی باوفا نکلے انہوں نے بھی اپنے عہد کا حق خوب ادا کر دکھایا.مکہ واپس جاتے ہی انہوں نے حسب وعدہ اپنی بیوی حضرت زینب کے لئے ایسا انتظام کیا کہ وہ مدینے آنحضرت طی نیم کے پاس پہنچ سکیں.حضور علیم نے ابو العاص کی اس نیکی کو ہمیشہ یادر کھا.آپ ان کے بارہ میں فرماتے تھے "انہوں 32 نے دامادی کارشتہ خوب نبھایا.مجھ سے جو بات کی سچ کہی اور میرے ساتھ جو وعدہ کیا وہ خوب نبھایا." اسی نیکی و خوبی کی بدولت بالآخر ابو العاص کو بعد میں قبول اسلام کی بھی توفیق عطا ہوئی.حضرت خدیجہ کے بطن سے حضور ملی یک کم کی جو نرینہ اولاد ہوئی وہ ان کی زندگی میں کم سنی میں ہی وفات پاگئی.صدمات کے ان مواقع پر آنحضرت سلیم کا پاکیزہ نمونہ دیکھ کر حضرت خدیجہ نے بھی کمال صبر دکھایا.صاحبزادہ قاسم ابھی دودھ پیتے بچے تھے کہ ان کی وفات ہو گئی.حضرت خدیجہ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا.ایک دن گھریلو ماحول میں بس اتنا عرض کیا، یارسول الله م ا قاسم کے ایام رضاعت مکمل نہیں ہوئے تھے اگر اللہ تعالی اسے چند دن اور مہلت دے دیتا اور اس کی رضاعت کی مدت پوری ہو جاتی (قرآن کریم میں مکمل رضاعت کی مدت دو سال مذکور ہے.(البقرة: 234) تو کیا ہی اچھا ہوتا، ہم چند دن اور بچے کے ساتھ گزار لیتے.حضور نے فرمایا کہ " قاسم کی رضاعت جنت میں پوری ہو گی.حضرت خدیجہ نے عرض

Page 55

ازواج النبی 39 حضرت خدیجہ رض کیا یارسول اللہ ! اگر اس بات کا یقین ہو تو میرے لئے قاسم کا یہ غم سہار نا آسان ہو جائے.اس پر حضور علیم نے فرمایا " اگر آپ چاہیں تو تسلی کے لئے میں اللہ تعالی سے دعا کروں گا کہ وہ تمہیں اس کی آواز سنادے.تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ اس کی رضاعت کی تکمیل جنت میں ہورہی ہے.یوں آپ کی تسلی کے سامان ہو جائیں گے.حضرت خدیجہ نے کمال شرح صدر سے عرض کیا " یار سول اللہ صلی اتم ! میں اللہ اور اس کے رسول کی بات کو سچا مانتی اور اس کی تصدیق کرتی ہوں " 34 قبول اسلام کے بعد حضرت خدیجہ پر ایک آزمائش اپنی پیاری بیٹیوں کے رشتے ختم ہو جانے کی صورت میں بھی آئی.آنحضرت علی علیم کے چا ابو لہب کے بیٹے عتبہ کا نکاح صاحبزادی حضرت رقیہ سے اور عتیبہ کا صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے ہوا تھا.دعویٰ نبوت کے بعد جب آنحضرت لم کی مخالفت بڑھی تو قریش نے ابو لہب کے بیٹوں کو حضرت خدیجہ کی بیٹیوں کی طلاق پر اکسایا اور ان دونوں نے رسول اللہ ایم کی دونوں صاحبزادیوں کو طلاق دے دی.اپنی عزیز بیٹیوں کی تکالیف کا یہ ابتلاء بھی حضرت خدیجہ نے بڑے صبر واستقلال سے برداشت کیا وہ کبھی زبان پر بے صبری کا کوئی کلمہ نہیں لائیں.اس سے حضرت خدیجہ کے کمال صبر کے ساتھ ان کے مضبوط ایمان اور کامل یقین کا بھی پتہ چلتا ہے کہ جو انہیں اللہ تعالی کی ذات اور رسول اللہ لی نیم کی وحی پر تھا چنانچہ نبی کریم پر مشکلات و مصائب میں جب رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا گیا تو حضرت خدیجہ نے بھی آنحضرت علی علی کریم کے ساتھ کمال صبر اور استقامت سے ان کو برداشت کیا.چنانچہ 7 نبوی سے شعب ابی طالب میں تین سالہ محصوری کا زمانہ حضرت خدیجہ نے بھی آنحضرت کے ساتھ سخت تکلیف اور صعوبت میں گزارا.حالانکہ آپ ایک معزز خاندان کی بڑی مال دار خاتون تھیں اس ناز و نعمت کے مقابل پر انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر دکھوں اور اذیتوں کو قبول کرنا گوارا کر لیا مگر حق کو نہ چھوڑا اور آخر دم تک رسول اللہ صلی یا تم کا ساتھ دیا.چنانچہ آنحضور علم نے حضرت خدیجہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت خدیجہ تمام عورتوں سے بہتر اور افضل ہیں.35

Page 56

ازواج النبی 40 حضرت خدیجہ رض 36 11 رسول اللہ لی مریم کو حضرت خدیجہ کے احسانات کا بہت پاس تھا.حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں رسول اللہ علیم جب کوئی جانور ذبح کرواتے اور گوشت تقسیم کرنا ہوتا تو آپ حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے نام لے کر فرماتے کہ فلاں گھرانے میں بھی گوشت بھیجنا.وہ حضرت خدیجہ سے محبت کرتی تھیں.فلاں کے گھر میں بھی بھجوا ناوہ حضرت خدیجہ کی سہیلی تھی.حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے ایک دفعہ اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا " خدیجہ کے پیارے بھی مجھے پیارے لگتے ہیں." حضرت عائشہ کی ہی روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک بڑھیا آنحضرت علم کے گھر میں آئی.آپ نے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا مزینہ قبیلہ کے پڑوس سے آئی ہوں.پھر وہ جب بھی آتیں حضور اس کی بہت عزت کرتے ، بہت خوش ہوتے اور اس کا بڑا احترام کرتے ، پوچھتے کیسی ہو ؟ کیا حال ہے ، ہمارے بعد تمہارے دن کیسے گزرے ، ایک دفعہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تم اس بڑھیا پر آپ کی اتنی شفقت اور توجہ کی کیا وجہ ہے ؟" حضور می یم نے فرمایا " یہ بڑھیا حضرت خدیجہ کے زمانے میں ہمارے گھر آیا کرتی تھی اور وفا بھی تو ایمان کا حصہ ہے.میں اس بڑھیا کے ذریعہ حضرت خدیجہ کے ساتھ بیتے لمحات یاد کر لیتا ہوں.یہ حضرت خدیجہ کے ساتھ وفا کا ایک اظہار تھا.حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں " حضرت خدیجہ میری شادی سے تین سال پہلے وفات پاچکی تھیں.حضور گھر سے باہر جانے سے پہلے بھی حضرت خدیجہ کا ذکر خیر کر کے جاتے تھے.میں تو ان کی باتیں سن سن کے اکتا گئی.اسی وجہ سے مجھے کبھی حضور ٹیم کی باقی بیویوں پر اتنی غیرت نہیں آئی، جتنی حضرت خدیجہ پر آیا کرتی تھی حضور ملی یا تم فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ ان کے جنت میں گھر کی بشارت دی ہوئی ہے.ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ ہمارے گھر آئیں، انہوں نے اندر داخل ہونے کے لئے اجازت چاہی.حضرت خدیجہ سے آواز کی مشابہت کے باعث حضور می یم دور سے ہی پہچان گئے ، اور بے قرار ہو کر کہا خدایا ! یہ تو ہالہ ہیں.اس پر مجھے غیرت آئی اور میں کہہ بیٹھی کہ یا رسول اللہ علیکم ! یہ آپ نے قریش کی بوڑھیوں میں سے ایک بوڑھی کا کیا ذکر چھیڑ رکھا ہے.جس کی زمانہ پہلے وفات ہو گئی اور اللہ تعالی نے آپ کو ان سے بہتر بیویاں بھی عطا فرمائی ہیں.آپ تو خدیجہ کا ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے دنیا میں خدیجہ کے علاوہ کوئی اور عورت ہی نہیں.آنحضرت لیلی ہم یہ سن کر سخت ناراض ہو گئے.آپ کے چہرے پر غصے کے ایسے آثار

Page 57

ازواج النبی 41 حضرت خدیجہ رض مجھے نظر آئے کہ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، میں نے دعا کی کہ "اگر آج رسول اللہ ملی تم کا غصہ دور ہو جائے تو پھر میں زندگی کے آخری سانس تک کبھی حضرت خدیجہ کے بارہ میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گی".تب میری پشیمانی دیکھ کر آنحضرت نے فرمایا کہ "اے عائشہ ! واقعہ یہ ہے کہ خدیجہ سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا.وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی تھی جب ساری دنیا میرا انکار کر رہی تھی اور اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب ساری دنیا مجھے جھٹلارہی تھی.اور اس وقت اس نے اپنے مال کے ساتھ میری ہمدردی اور خیر خواہی کی جب تمام لوگ مجھے چھوڑ چکے تھے.پھر فرمایا کہ اے عائشہ ! میں کیا کروں خدیجہ کی محبت تو مجھے پلا دی گئی ہے اور میرے دل میں بٹھادی گئی ہے." اور ایسا کیوں نہ ہو تا جب کہ خود عرش کے خدا نے بھی حضرت خدیجہ کو سلام پہنچایا.آئیے ! ہم بھی اس 3811 عظیم خاتون پر سلام بھیجیں جس کو عرش کے خدا نے سلام بھیجا.سلام ہو آپ پر اے خدیجۃ الکبری ! وفات حضرت خدیجہ کی وفات ہجرت مدینہ سے تین سال قبل رمضان المبارک کے مہینہ میں مکہ مکرمہ میں ہوئی.جو 9 یا 10 نبوی بنتا ہے.یہ سال مسلمانوں میں "عام الحزن "کا سال کہلاتا ہے.جو ایک غم کا پہاڑ بن کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ملی تم پر ٹوٹا کیونکہ آپ کی غمگسار ، آپ کی ساتھی ، آپ کی شریک حیات اس سال رخصت ہو گئی.اسی سال حضرت خدیجہ کی وفات سے تین روز قبل آپ کے چا ابو طالب 40 نے بھی وفات پائی.جنہوں نے آپ کے دادا عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی تھی.حضرت خدیجہ نے قریباً پچیس 25 سال کا عرصہ رسول اللہ علیم کی صحبت میں گزارا.اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک آنحضرت علیم کے ساتھ وفا کرتے ہوئے بالآخر اس دنیا سے کوچ کر گئیں.وفات کے وقت آپ کی عمر پینسٹھ 65 سال تھی.حضرت خدیجہ کی تدفین جون مقام پر ہوئی.اس زمانے میں ابھی جنازہ کا دستور نہ تھا.حضرت حکیم بن حزام بیان کرتے تھے کہ ہماری پھوپھی حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی تو ہم گھر سے ان کی میت لے کر نکلے اور انہیں حجون مقام پر جاکر دفن کیا.جواب جنت معلیٰ کے نام سے موسوم ہے.0 41

Page 58

ازواج النبی 42 حضرت خدیجہ رض 42 رسول الله طی مید لرم خو د حضرت خدیجہ کی قبر میں اترے.اور اس جانکاہ صدمہ پر صبر کرتے ہوئے اپنی وفا شعار بیوی کو مغفرت اور بلندی درجات کی دعاؤں کے ساتھ الوداع کیا.ولیم میور اپنی کتاب Life Of Mahomet میں لکھتا ہے:.The death of his wife was a grievous affliction.For five- and-twenty years she had been his counselor and support; and now his heart and home were left desolate.His family however no longer needed her maternal care.The youngest daughter, Fatima, was approaching womanhood, and an attachment was perhaps already forming with Ali, her father's nephew, and adopted son.Though Khadija (at her death threescore and five years old) must long ago have lost the charms of youth, and though the custom of mecca allowed polygamy, yet Mahomet was during her lifetime restrained from other marriages by affection and gratitude.His grief at her death at first was inconsolable, liable as he was to violent and deep emotion; but its effects were transient.The place of Khadija could be filled, though her devotion and virtues might not be rivalled, by numerous successors.ترجمہ : ان (حضرت محمدصلی علی ایم) کی اہلیہ (خدیجہ) کی وفات کا صدمہ بڑا عظیم تھا کیونکہ آپ پچیس سال تک آپ کی مشیر اور معاون و مددگار رہیں.اب آپ کا دل اور گھر ویران ہو چکا تھا.تا ہم آپ کے خاندان کو مادرانہ شفقت کی ضرورت نہ تھی.سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ جوان ہو رہی تھیں اور غالباً ان کی نسبت والد کے چا زاد بھائی اور متبنیٰ یعنی حضرت علی کے ساتھ ہو رہی تھی.اگر چہ حضرت خدیجہ اب پینسٹھ 65 سال کی ہو گئیں تھیں اور عنفوان شباب گزار چکی تھیں.گومکہ کے رواج کے مطابق تعد دازواج کی اجازت تھی.تاہم حضرت محمدی علیم نے خدیجہ کی زندگی میں ان سے محبت اور ان کے احسانات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسری

Page 59

رض حضرت خدیجہ 43 ازواج النبی شادی سے اجتناب کیا.اور غالباً اس وجہ سے بھی کہ خدیجہ کے خاندان کا اثر و رسوخ مکمل طور پر حاصل رہے.خدیجہ کی وفات کا یہ صدمہ گوابتداء میں ناقابل برداشت تھا کیونکہ اس وقت شدید اور گہرے جذبات تھے.مگر یہ اثرات عارضی اور وقتی رہے.خدیجہ کی جگہ تو پُر کی جاسکتی تھی.مگر ان کی وفا شعاری اور نیکیاں بے بدل تھیں باوجود اس کے کہ ان کی وفات کے بعد بہت سی خواتین آپ کے عقد میں آئیں.اس کے مقابل پر ایک انصاف پسند ہند و سوامی لکشمن پر شاد نے آنحضرت لیلی لیلا کالم کے حضرت خدیجہ سے حسن وفا کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :."آپ نے ام المومنین کی حین حیات میں دوسرے نکاح کا نام تک نہیں لیا.اسی پیرانہ سال بڑھیا پر جس کا گلشن شباب پامال عمر ہو چکا تھا، ہزار جان سے فریفتہ رہے.روحانی محبت کا یہ وہ گلشن ہے جس کے پھولوں میں نفسانیت کی بُو نہیں پائی جاتی....پینسٹھ 65 سال کی عمر میں خدیجہ الکبریٰ اپنے بہترین شوہر کو ہمیشہ کیلئے داغ مفارقت دے گئیں اور ایک گوشہ زمین میں ابدی نیند جاسوئیں.مگر ان کے دل نواز شوہر کے دل کی عمیق ترین گہرائیوں میں جو جذبات محبت ان کیلئے موجود تھے وہ ان کے جسم کے ساتھ مدفون نہیں ہو گئے بلکہ انہوں نے ہمیشہ آپ کے دل کو محشرستان بنائے رکھا.ان کی فداکار محبت اور شیریں کار عشق کے نقوش ہمیشہ آپ کے لوح دل پر مرتسم رہے.دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انقلاب اور زمانے کی کوئی بڑی سے بڑی گردش ان کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ".اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ***** ****** ***

Page 60

ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 44 رض حضرت خدیجہ حوالہ جات معرفة الصحابة لابی نعیم جلد 22 ص 235 المعجم الكبير طبرانی جلد 19 ص 201 المعجم الكبير طبرانی جلد 22 ص 448.مجمع الزوائد جلد 9ص350 سيرة الحلبیہ جلد 1 ص 303 ، سمط النجوم جلد 1ص185 دلائل النبوة للبيهقى جلد 2ص13 طبقات الکبری جلد 1 ص131تا132 طبقات الکبری جلد 1 ص131 تا 132.صحیح مسلم باب فضائل خدیجہ مستدرک حاکم جزء4 ص80.الاصابة جزء 2ص112 سیرت ابن ہشام جزء 2 ص 643 - سیرت الحلبیہ جزء 1 ص 297.اسد الغابة جزء 1 ص1316 طبقات الکبری جلد 1 ص131 تا 132 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 131-132.سیرت الحلبیہ جلد 1 ص 224.سیرت خاتم النيبين ص 107 طبقات الکبری جلد 1ص130تا131 الوفا تعریف فضائل المصطفى لابن الجوزی جلد 1 ص 108 سیرت حلبیہ ج 1 ص 223

Page 61

رض حضرت خدیجہ ازواج النبی 45 13 14 15 16 17 18 19 20 طبقات الکبری جلد 1ص132تا133 زوجات النبي وآل البيت ص 123 زوجات النبي وآل البيت ص 123 زوجات النبی ص 124، سمط النجوم العوالی فی انباء الاوائل والتوالی جلد 1ص186 سیرۃ ابن ہشام جلد 1ص416 الاصابة في تمييز الصحابة جزء 7 ص 603 مسند احمد جلد 6 ص 118 الاصابة في تمييز الصحابة جزء 7 ص 603.سیرت خاتم النيبين ص 110 21 صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضل خدیجہ رضی اللہ عنها 22 طبرانی کبیر جلد 23 ص 25 مجمع الزوائد جلد 9ص228 بخاری کتاب بدء الوحی.صحیح مسلم ترجمہ شائع کردہ نور فاؤنڈیشن 23 24 25 26 27 28 29 30 31 بخاری کتاب بدء الوحی کنز العمال جلد 12 ص76 سیرت ابن ہشام جلد 1 ص 238- خصائص الکبری جلد 1 ص 203 مجمع الزوائد جلد 9ص227 مسند احمد جلد 1 ص 316,293 قاہرہ مسند احمد جلد 6 ص 117 قاہرہ سيرة الحلبیہ جلد 3 ص 372.البدایہ النھایہ جلد 5ص329 ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی فداء الاسیر بالمال

Page 62

ازواج النبی 46 حضرت خدیجہ 32 33 34 35 36 37 بخاری کتاب النکاح باب الشروط فى النكاح سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی ابن رسول الله له عيد القلم السيرة النبوۃ لابن ہشام جلد 2 ص 296.الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 37 مسند احمد 1 ص 293 طبرانی کبیر جلد 23ص13.اصابہ جز8ص62 مستدرک حاکم جلد 1 ص 15- المعجم الكبير لطبرانی جلد 23 ص 23 رض 38 مسلم کتاب الفضائل باب فضل خدیجہ.مسند احمد جلد 6 ص 117 قاہرہ.المعجم الكبير جزء 23ص13.الاستیعاب جزء 1ص589 اسد الغابہ لابن الاثیر جلد 1ص1340 39 40 41 42 43 44 مستدرک حاکم جلد 3ص201 طبقات الکبریٰ جلد 8 ص18 زوجات النبي وآل البيت ص 125 للشعراوى p.194 Life of Mahomet by William Muir عرب کا چاند از سوامی لکشمن پر شاد ص 92،91 رض

Page 63

ازواج النبی فصائل:.47 ย ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ حضرت سوده رض رسول اللہ علیم سے حضرت سودہ کا نکاح بھی الٹی منشاء کے مطابق تھا.چنانچہ انہوں نے شادی سے قبل دو ایسی واضح رؤیا دیکھیں جنکی تعبیر خود ان کے شوہر نے یہ کی کہ انکی وفات کے بعد حضرت سودہ رسول اللہ صلی علی ایک یتیم کے عقد میں آئیں گی..حضرت خدیجہ کے بعد حضرت سودہ آنحضور علم کا گھر سنبھالنے والی، نہایت سادہ طبع خاتون تھیں.فرماتی تھیں کہ " مجھے دیگر ازواج سے مقابلے کی تو کوئی تمنا نہیں.ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ قیامت کے روز آپ کی بیویوں میں ہی میر احشر ہو." حضرت عائشہؓ نے حضرت سودہ کے بارہ میں کیا خوبصورت رائے دی کہ " مجھے کبھی کسی کے متعلق یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میں اس جیسی ہو جاؤں سوائے حضرت سودہ کے کہ ان کی بھولی بھالی ادائیں اختیار کرنے کو جی چاہتا ہے اور بے اختیار دل کرتا ہے کہ کاش! میں بھی ان کی طرح ہوتی اور ان جیسا پاک اور صاف دل ان جیسی بھولی بھالی ادا ئیں مجھے بھی نصیب ہو جاتیں " نام و نسب حضرت سودہ کے والد زمعہ بن قیس قریش میں سے تھے جبکہ آپ کی والدہ شموس بنت قیس مدینہ کے خاندان بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں.رسول اللہ علیم کے دعوی نبوت کے بعد ابتدائی زمانے میں ہی حضرت سودہ کو اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا.ان کی شادی اپنے چا زاد سکران بن عمر و القرشی سے ہوئی تھی.انہوں نے بھی ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کر کے آنحضرت لیلی کیم کے صحابی ہونے کا اعزاز اور حبشہ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی.حضرت سودہ بھی ہجرت حبشہ میں ان کے ہمرکاب تھیں.حبشہ سے واپس مکہ لوٹے تو حضرت سکر ان کی وفات ہو گئی.

Page 64

ازواج النبی 48 حضرت سوده بعض دوسری روایات کے مطابق حضرت سکران حبشہ میں ہی وفات پاگئے تھے.یوں حضرت سودہ نے 3 دین کی خاطر وطن چھوڑنے کی قربانی کے ساتھ ایک مہاجر صحابی کی بیوہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا.حضرت سکران سے حضرت سودہ کے ایک بیٹے عبدالرحمان تھے جو بعد میں ایران کی جنگ جلولاء میں 4 شہید ہوئے.حضرت سودہ سے شادی حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد نبی کریم ملی علیم نے نبوت کے دسویں سال حضرت سودہ کے ساتھ نکاح فرمایا اور مکہ میں ہی ہجرت مدینہ سے پہلے شادی ہو گئی.دراصل حضرت خدیجہ کی وفات سے آنحضرت لعلیم کی اہلی زندگی میں ایک خلاء کا پیدا ہونا طبعی امر تھا.حضرت خدیجہ کی اولاد جو چار بیٹیوں پر مشتمل تھی، ان کے سنبھالنے اور گھر یلو انتظام و انصرام کیلئے حضور عالم کو ایک فکر لاحق رہتی تھی.تنہائی اور اداسی کی ایک کیفیت تھی.صحابہ بھی نبی کریم کی یہ تکلیف محسوس کرتے تھے.ایک بزرگ صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم زوجہ حضرت عثمان بن مظعون نے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہو کر کمال ادب اور جرات سے یہ گزارش کی کہ یارسول اللہ ! آپ حضرت خدیجہ کے بعد بہت تنہا اور اداس ہو گئے ہیں.رسول کریم یہ کہ تم نے فرمایا، ہاں ! آخر وہ میرے بچوں کی ماں، گھر کی مالکہ اور نگران تھیں.واقعی حضرت خدیجہ نے آنحضور ملی می ریم کے گھر کا نہایت احسن انتظام کیا ہوا تھا اور دینی فرائض اور ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لئے آپ کو مکمل طور پر فارغ کر رکھا تھا.ان کے بعد ایک کمی کا محسوس ہونا قدرتی امر تھا.پھر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بھی اس خلاء کا پُر کیا جانا بہت اہم تھا.حضرت خولہ نے گویا مسلمانوں کی نمائندہ بن کر رسول کریم میم کی خدمت میں بعض تجاویز بھی رشتوں کے سلسلے میں پیش کیں.حضور ملی تم نے نسبتاً ایک معمر بیوہ خاتون حضرت سودہ کی تجویز پسند فرمائی.اس کے لئے سلسلہ جنبانی کی ذمہ داری حضرت خولہ ہی کے سپرد ہوئی.چنانچہ وہ ان کے گھر گئیں.پہلے تو خود حضرت سودہ سے رسول اللہ لی لی ایم کے رشتہ کی بات کی.پھر حضرت خولہ ان کے والد کے پاس گئیں تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ "اس سے بہترین اور معزز رشتہ سودہ کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے"

Page 65

ازواج النبی 49 حضرت سودہ رض چنانچہ یہ رشتہ طے ہو گیا اور حضرت سودہ مکی دور میں ہی آنحضرت کے گھر میں آگئیں.رسول اللہ لی لی الیکم نے آپ کا حق مہر چار سو دینار مقرر فرمایا تھا.حضرت سودہ کے مشرک بھائی عبد بن زمعہ کو جب یہ خبر ملی تو اس نے ماتم کرتے ہوئے اپنے سر میں مٹی ڈالی.بعد میں جب وہ مسلمان ہوئے تو کہا کرتے تھے کہ " میں بھی کیسا احمق تھا کہ اپنی بہن کے ساتھ آنحضرت امیم کی شادی پر ماتم کرتے ہوئے اپنے سر میں خاک ڈالتا مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ اتنی بڑی سعادت ہے" حضرت سودہ کی رؤیا حضرت سودہ کی اس سعادت میں یقیناً الی مصلحت بھی شامل تھی اور ان کی بعض رؤیاء بھی اس طرف اشارہ کرتی تھیں ، جن سے اس رشتہ کے منجانب اللہ ہونے کا پتہ چلتا ہے نیز حضرت سودہ کی نیکی و تقویٰ اور ان کے تعلق باللہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے.حضرت سودہ کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت علیم کے ساتھ نکاح سے بہت پہلے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت لیلی می کنم تشریف لائے ہیں اور آپ نے اپنا پاؤں میری گردن پر رکھا ہے.میں نے اپنے خاوند کو یہ رؤیا سنائی.وہ کہنے لگے کہ "اگر تمہاری خواب سچی ہے تو میری وفات کے بعد تم آنحضرت لیلی ریم کے عقد میں آؤ گی " حضرت سودہ فرماتی تھیں کہ اگلے روز میں نے یہ خواب دیکھی کہ " میں لیٹی ہوئی ہوں اور چاند میرے اوپر آگرا ہے.میں نے فکر مندی سے اپنے شوہر حضرت سکران) کو یہ خواب بھی سنائی انہوں نے دوبارہ یہی تعبیر کی کہ جلد ان کی وفات ہو جائے گی اور اس کے بعد آنحضرت علی علی کی کمی سے میر ا عقد ہو گا.روایت ہے کہ اسی روز سے حضرت سکران بیمار پڑ گئے اور پھر جانبر نہ ہو سکے.اسکے کچھ عرصہ بعد ہی حضرت سودہ رسول اللہ علیم کے حرم میں شامل ہو کر ام المومنین بن گئیں.حضرت ابن عباس بیان کرتے تھے کہ رسول الله علی کریم نے جب حضرت سودہ کو شادی کا پیغام بھجوایا تو ان کے پانچ چھ بچے تھے انہوں نے جوابا عرض کیا کہ "مجھے نکاح میں کوئی روک نہیں.کیوں کہ آپ مجھے سب دنیا سے زیادہ عزیز ہیں مگر مجھے آپ کا احترام پیش نظر ہے کہ کہیں میرے بچے صبح و شام اپنی چیخ و پکار سے آپ کو پریشان ہی نہ کر رہے ہوں.رسول اللہ صلی علی یہ تم نے فرمایا کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات تو اس امر (شادی) 8

Page 66

ازواج النبی 50 حضرت سوده رض میں مانع نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کوئی اور بات ہر گز نہیں.اس پر رسول اللہ صلی یا تم نے فرمایا کہ ” اللہ تم پر رحم فرمائے ، بہترین عورتیں جو اونٹوں کی پشت پر سوار ہوتی ہیں قریش کی نیک عور تیں ہیں جو بچوں کی کم سنی 66 میں نہایت شفقت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال و متاع کا خیال رکھنے والی ہوتی ہیں ، حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد تین سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ تک حضرت سودہ تنہا رسول اللہ صلی عید الاسلام کے عقد میں رہیں یہاں تک کہ مدینہ میں حضرت عائشہ رخصت ہو کر حضور صلی علی الیتیم کے گھر آئیں.جن کا نکاح حضرت سودہ سے پہلے حضور میں قیام کے ساتھ ہو چکا تھا.بہر حال حضرت سودہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ حضرت خدیجہ کے بعد رسول اللہ صلی کم کی پہلی بیوی ہونے کا اعزاز پایا.حضرت خدیجہ سے رسول اللہ میم کی اولاد کو سنبھالا اور حضور ملی ایم کے گھر کو چلانے کی اہم ذمہ داری اور خدمت ادا کرنے کی توفیق پائی جیسا کہ بعض مستشرقین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے.11 10 گھریلو زندگی اور پاکیزہ خصائل حضرت سودہ نہایت سادہ طبیعت کی تھیں، مزاج میں نیکی ایسی غالب تھی کہ نیکی اور بھلائی کی جو بات ایک دفعہ سن لی اس پر مضبوطی سے جم گئیں.آپ کی سادگی کا مثبت پہلو یہ تھا کہ آپ ازراہ ادب رسول الله طی می کنم کے ارشاد کی کوئی تشریح یا تأویل کرنے کی بجائے اپنی سمجھ کے مطابق اس کی فوری اور لفظی تعمیل کی کوشش کرتی تھیں.جیسے آنحضرت میں ہم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ سے فرمایا تھا کہ شاید یہ میرا آخری حج ہو پھر اس کے بعد روک ہے.حضرت سودہ چونکہ دین العجائز رکھتی تھیں اور سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ( یعنی سنا اور اطاعت کی ) ان کا مذہب تھا.وہ حضور علی علیم کے بعض ارشادات کی پابندی ظاہری الفاظ کے مطابق بھی اصرار سے کرتی اور کہتی تھیں کہ حضور میں کیا تم نے حجۃ الوداع میں فرمایا تھا کہ بس یہی آخری حج ہے اس کے بعد روک ہے.حضرت سودہ کے ساتھ حضرت زینب بھی کہا کرتی تھیں کہ آنحضور علم سے یہ بات سننے کے بعد ہم نے اس مقصد کے لئے کبھی اپنی سواری (حج کیلئے استعمال نہیں کی.12

Page 67

ازواج النبی 51 رض حضرت سوده 13 اسی طرح حضرت سودہ بنت زمعہ رسول اللہ لی تعلیم کی کامل فرمانبرداری میں بھی ایک نمونہ تھیں.فتح مکہ کے موقع پر ان کے باپ کی لونڈی سے پیدا ہونیوالے بچے کے نسب کا تنازعہ ہوا.حضرت سعد بن ابی وقاص کے مشرک بھائی عتبہ نے زمعہ کی لونڈی کے ساتھ تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اس بچے کے بارہ میں اپنے بھائی (سعد) کو وصیت کی تھی کہ ”یہ میرا بچہ ہے اس کا خیال رکھنا.“رسول کریم نے اس کا اصولی فیصلہ نسب کے لحاظ سے یہ فرمایا کہ زمعہ کی لونڈی کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ تو زمعہ کا ہی شمار ہو گا.مگر چونکہ اس بچہ کی شکل و شباہت مدعی فریق عتبہ بن وقاص سے ملتی تھی.اس لئے مصلحتاً یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حضرت سودہ والد کی طرف سے اس بھائی سے پر وہ کیا کریں گی.حضرت سودہ نے اس ارشاد کی ایسی پابندی فرمائی کہ پھر کبھی اس بھائی سے ملنے کی خواہش نہیں کی اور آخری دم تک اسے نہیں دیکھا.ایک واقعہ احکام پردہ کے نزول کے زمانہ کا ہے.عرب عورتوں میں عام طور پر پردہ کا کوئی رواج نہیں تھا تاہم معزز خاندانوں کی عورتیں عزت و وقار کی علامت کے طور پر چادر وغیرہ لیتی تھیں.اور زیادہ تر گھروں میں ہی ٹھہری رہتی تھیں.حضرت عمرؓ کی طبیعت میں ازواج رسول کے احترام اور پردہ کے بارہ میں شدت تھی.انہوں نے ام المومنین حضرت سودہ کو گھر سے باہر نکلتے دیکھا اور لمبے قد کے باعث انہیں پہچان لیا.حضرت عمر کی ذاتی رائے تھی کہ ازواج مطہرات کو مکمل پردہ کی خاطر گھر میں ہی ٹھہر نا چاہئے.اور ان کو باہر نہیں نکلنا چاہئے.حضرت سودہ عرب دستور کے مطابق حسب ضرورت پر دے کے ساتھ گھر سے باہر بھی چلی جاتی تھیں.ایک رات جب آپ گھر سے باہر نکلیں تو حضرت عمرؓ نے انہیں بلند آواز سے پکار کر کہا عَرَفْنَاكِ يا سَوْدَة.کہ اے سودہ ! ہم نے آپ کو پہچان لیا.حضرت سودہ ناراض ہو کر وہیں سے واپس گھر پلٹ آئیں.سیدھی رسول اللہ علیم کے پاس اس بیوی کے گھر پہنچیں جہاں آپ کی باری تھی.آپ کھانا تناول فرمارہے تھے.حضرت سودہ نے حضور کی خدمت میں یہ شکایت کی کہ یارسول اللہ عالم حضرت عمر بن الخطاب آپ کی ازواج مطہرات کے بارہ میں بآواز بلند یہ کہنے لگے ہیں کہ ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے.اس وقت نبی کریم پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور پردہ کے بارہ میں آیات اتریں جن میں ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ حسب ضرورت باہر جانے کے اشارے بھی موجود ہیں.چنانچہ حضور نے فرمایا " اے سودہ ! تم عورتوں کو اجازت دی گئی ہے کہ ضرورت اور کام کی خاطر باہر جاسکتی ہو "

Page 68

ازواج النبی 52 حضرت سودہ رسول اللہ علیم کے پاکیزہ اخلاق کا ایک نمایاں پہلو قرآن شریف میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ تکلف اور تصنع سے پاک تھے.حضرت سودہ کی گھریلو زندگی میں کوئی بناوٹ نہ تھی.آپ کے عادات و خصائل میں یہی خوبصورت سادہ طبعی نظر آتی ہے.چنانچہ حضور ملی یا تم اپنے گھر میں حضرت سودہ کی ایسی بے تکلف باتوں سے خوب محظوظ ہوتے.15 جس زمانہ میں رسول کریم مالی علی کریم نے اللہ تعالی سے خبر پا کر دجال کی کچھ تفصیل بیان فرمائی.اتفاق سے ان علامتوں میں سے بعض باتیں مدینے میں موجود یہودیوں کے ایک بچے ابن صیاد میں بھی پائی گئیں تو حضور نے اس اندیشہ کا اظہار فرمایا کہ کہیں ابن صیاد ہی دجال نہ ہو.حضرت سودہ پہلے ہی دجال سے بہت خائف تھیں کیونکہ آنحضرت کی ہر بات پر انہیں کامل ایمان اور یقین تھا.حضور نے فرمایا تھا کہ دجال سے بڑا اور خوفناک فتنہ آج تک نہیں دیکھا گیا.اور ہر گزشتہ نبی نے اس فتنے سے ڈرایا ہے.ایک روز حضرت حفصہ حضرت عائشہ کے گھر ملنے آئیں تو وہاں حضرت سودہ بھی تشریف لے آئیں انہوں نے یمن کی خوبصورت چادر اوڑھی ہوئی تھی اور زینت کی خاطر زعفران وغیرہ کا بھی استعمال کیا ہوا تھا.حضرت حفصہ حضرت عائشہؓ سے کہنے لگیں کہ ابھی رسول اللہ ل ل لا لم تشریف لائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کی زینت ہم سے زیادہ ہے اب دیکھنا میں یہ کیسے خراب کرتی ہوں.حضرت عائشہ نے فرمایا اے حفصہ ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.حضرت سودہ ذرا اونچاسکتی تھیں انہوں نے پوچھا تم کیا کہہ رہی ہو ؟ حضرت حفصہ نے کہا کا ناد جال ظاہر ہو گیا ہے.حضرت سودہ نے پوچھا کیا واقعی کاناد جال ظاہر ہو گیا ہے ؟ حضرت حفصہ نے کہا ہاں.وہ کہنے لگیں پھر میں کہاں چھپ سکتی ہوں؟ حضرت حفصہ نے کہا کہ آپ اس خیمہ میں چھپ جائیں (جس میں موسم سرما میں ہنڈیا وغیرہ پکایا کرتے تھے).اس خیمہ میں مکڑی کے جالے بھی تھے.حضرت سودہ اس میں چھپ گئیں.اتنی دیر میں رسول اللہ لی تیم تشریف لائے تو وہ دونوں اتنا ہنس رہی تھیں کہ اس کی وجہ سے بات کرنا بھی مشکل تھا.رسول اللہ علیم نے فرمایا تمہاری ہنسی کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے خیمے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا.رسول اللہ یتیم خیمے کی طرف گئے تو حضرت سودہ مارے ڈر کے کانپ رہی تھیں.آنحضور ملی یا ہم نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا یا رسول اللہ علیم کاناد جال ظاہر ہو گیا ہے.

Page 69

ازواج النبی 53 رض حضرت سوده آپ نے فرمایا کہاں ظاہر ہوا ہے اس نے تو ظاہر ہونا ہے.پھر حضور صلی یا نیلم نے حضرت سودہ کا ہاتھ پکڑا اور ان سے مٹی اور جالے وغیرہ صاف کئے.16 ย حضرت عائشہ کا حضرت سودہ کے ساتھ محبت اور بے تکلفی کا خاص تعلق تھا.دیگر ازواج مطہرات میں سے حضرت حفصہ ، حضرت صفیہ، حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ بھی حضرت سودہ کا خاص لگاؤ تھا.اور باوجو د سوت پن کے ان کی صاف دلی کے باعث گھریلو ماحول میں بے تکلفی اور پیار و محبت کا عجیب رنگ پایا جاتا تھا.رسول اللہ علیم بھی اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اہل خانہ کے ساتھ بیٹھنے کیلئے بھی وقت نکالتے اور جائز حد تک انہیں دل لگی کی اجازت دیتے اور دلچسپی کے سامان بہم پہنچاتے تھے.حضرت سودہ کی سادگی ، صفائی قلب اور ہمدردی خلق کا جذبہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب غزوہ بدر میں ستر کفار قریش قیدی ہو کر آئے جن میں بعض بڑے سردار اور رؤساء بھی تھے.حضرت سودہ بعض سرداران قریش کو اپنے گھر میں قید دیکھ کر سادگی میں بے ساختہ ایسا اظہار کر بیٹھیں جور سول اللہ ہم کو طبعاً ناگوار ہوا مگر آپ نے حضرت سودہ کی معذرت قبول فرمالی.یہ واقعہ خود حضرت سودہ یوں بیان فرماتی ہیں کہ جب مدینہ میں اسیر ان بدر کے آنے کی خبر پہنچی اور میں کسی دوسرے گھر سے اپنے گھر واپس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سردار قریش ابو یزید سہیل بن عمر و ہمارے گھر کے حجرے کے ایک کونے میں اس حال میں قید ہے کہ اس کے ہاتھ گردن سے رسی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں.آپ فرماتی ہیں کہ سردار قریش ابو یزید کو اس حال میں دیکھ کر میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور بے اختیار ہو کر کہا کہ "اے ابو یزید ! قید ہونے سے تو بہتر تھا تم عزت کے ساتھ مر جاتے " آپ فرماتی ہیں میرا یہ کہنا تھا کہ دوسری طرف رسول اللہ علیم کی اس آواز نے مجھے چونکادیا کہ اے سورہ ! کیا تم اللہ اور رسول کے خلاف انہیں اکساتی ہو ؟ آپ بیان کرتی ہیں میں نے عرض کیا یارسول الله ل ل ل ل لم ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، دراصل جب میں نے ابو یزید کو اس حال میں قید دیکھا کہ اس کے ہاتھ گردن سے بندھے ہیں تو بے اختیاری میں ایسا کہ بیٹھی ہوں.ورنہ معاذاللہ ہر گز میرا ایسا کوئی منشاء نہیں.حضرت سودہ کو اپنی نیک عاقبت اور انجام بخیر کی بھی فکر رہتی تھی.آپ نے آنحضور سے یہ بھی سن رکھا تھا کہ جنازہ میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے.چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے رسول اللہ صلی علیم کی خدمت

Page 70

ازواج النبی 54 رض حضرت سوده میں ( غالباً کسی سفر پر روانگی کے وقت) یہ عجیب درخواست کی کہ اگر آپ کی عدم موجودگی میں ہماری موت آجائے تو اجازت فرما دیں کہ حضرت عثمان بن مظعون (جو ایک زاہد و عابد بزرگ صحابی تھے ) ہمارا جنازہ پڑھا دیں.رسول اللہ سلیم نے فرمایا اے زمعہ کی بیٹی ! کاش تمہیں موت کا صحیح ادراک ہوتا تو پتہ چلتا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ شدید ہے جتنا تم گمان کرتی ہو.زہد اور شوق عبادت 18 ایک دفعہ حضرت سودہ کے دل میں آنحضرت لیلی می ریم کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کا شوق پیدا ہوا.ان کی باری میں رسول کریم علی یا تم جب تہجد کے لئے اٹھے تو یہ بھی آنحضور می یتیم کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑی ہو گئیں.ان کا جسم بھاری تھا.ادھر آنحضور طی یہ رات کو اکیلے میں لمبی نماز پڑھتے.لمبا قیام رکوع اور طویل سجدے ہوتے تھے.اگلی صبح جب حضور صلی علی الیتیم سے اس نماز کے بارہ میں اپنا تاثر بیان کیا تو بے تکلفی سے یوں کہہ دیا کہ یارسول اللہ صلی یا تم ! میں نے رات آپ کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے تو اتنا لمبار کوع کر وایا کہ بالآخر میں نے اپنی ناک ہی پکڑ لی کہ رکوع میں جھکے جھکے کہیں نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے.آنحضور طی یا تم یہ تبصرہ سن کر خوب محظوظ ہوئے.عشق رسول مل السليم 19 حضرت سودہ کو رسول کریم ملی تم سے ایک عشق تھا.آخری بیماری میں آنحضور طی تم نے جب یہ فرمایا کہ ازواج مطہرات میں سے سب سے جلد وہ بیوی مجھے اس جہاں میں آکر ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں.اب بظاہر یہ موت کی خبر تھی مگر بیویاں ہیں کہ شوق کے عالم میں سرکنڈے سے باز وماپ رہی ہیں کہ دیکھیں تو سہی وہ لمبے ہاتھوں والی سعادت مند کون ہے جو اپنے آقا کے پاس سب سے پہلے پہنچے گی، گویا از واج رسول جان و دل سے آپ پر فدا ہو چکی تھیں اور آپ پر جان چھڑکتی تھیں.خیر ! حضرت سودہ جو لمبے قد کی تھیں انہیں کے ہاتھ لمبے نکلے اور وہ اس پر بہت خوش تھیں کہ پہلے میرے حصے میں یہ سعادت آئے گی اور میں سب سے پہلے اپنے آقا سے جاملوں گی.20

Page 71

ازواج النبی 55 حضرت سوده رض حضرت سودہ نے رسول اللہ صل علی کی کمی سے پانچ احادیث روایت کی ہیں.جن میں سے دو احادیث بخاری اور مسلم میں اور دیگر ابوداؤد اور نسائی میں مذکور ہیں.حضرت ابن عباس اور بیٹی بن عبد الرحمن ان سے روایت کرتے ہیں.صحت کی کیفیت وھ میں آنحضور طی ایام حج کے ارادہ سے نکلے تو باوجودیکہ حضرت سودہ اپنی عمر کی مناسبت سے بھاری بدن کے باعث کمزوری اور سست روی کا شکار ہو گئی تھیں مگر اس کے باوجو در سول کریم این یتیم کے ساتھ شوق سے شریک سفر ہوئیں اس موقع پر انہوں نے مزدلفہ کی رات آنحضرت یہی ہم سے یہ درخواست کی تھی کہ یارسول الله علیم عام لوگ جو علی الصبح مزدلفہ سے واپس لوٹتے ہیں اس وقت ہجوم بہت زیادہ ہوتا ہے.میرے لئے اس میں چلنا مشکل ہو گا اس لئے مجھے باقی لوگوں سے پہلے مزدلفہ سے واپسی کی اجازت عطا فرما دیں.حضور علی علی کریم نے معذوری کے باعث انہیں اجازت عطا فرما دی اور حضرت سودہ رات کو ہی مزدلفہ واپس لوٹ آئیں جب کہ باقی لوگ صبح کے وقت مزدلفہ آئے.22 اس طرح حضرت سودہ کی برکت سے امت کے کمزوروں اور معذوروں کے لئے رحمت و وسعت کے سامان ہو گئے.چنانچہ حضرت سودہ کے اس رخصت لینے کے بعد جب بعض اور حاجیوں نے سر منڈوانے ، قربانی کرنے اور رمی حجار جیسے مناسک حج کی ترتیب آگے پیچھے ہو جانے کا ذکر کیا تو حضور نے از راہ شفقت اس میں رخصت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں حرج نہیں.رسول کریم میم کی زندگی کے آخری سالوں میں حضرت سودہ نے اپنے بڑھاپے ، کمزوری اور بیماری کے باعث محسوس کیا کہ وہ اپنی عائلی ذمہ داریاں کما حقہ حضور کے پاس رہ کر ادا نہیں کر سکتیں اور عمر کے اس حصے میں انہیں ازدواجی تعلقات کی حاجت نہیں رہی، مگر یہ دلی تمنا ضرور تھی کہ آنحضرت سے جو بابرکت نسبت اور تعلق ہے وہ تادم حیات قائم رہے اور اپنی کسی معذوری و بیماری کے باعث رسول اللہ علیم سے ان کا تعلق علیحدگی پر منتج نہ ہو.اس اندیشہ کی بناء پر انہوں نے آنحضور می ی ی یتیم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ علی میرا تم مجھے دیگر ازواج سے مقابلے کی تو کوئی تمنا نہیں.ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ قیامت کے روز آپ

Page 72

ازواج النبی 56 حضرت سوده رض کی بیویوں میں ہی میر احشر ہو ، اس لئے میں آپ سے علیحد گی نہیں چاہتی ، تاہم اپنے حقوق زوجیت سے دستبردار 23 ہوتی ہوں اور حضرت عائشہ کے حق میں میں اپنی باری چھوڑتی ہوں.اس درخواست سے ان کا مقصد اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنا تھا، حضور ملی ہم نے ان کی یہ استدعا قبول فرمائی.حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ سورہ نساء کی آیت 129 کا اسی مضمون سے تعلق ہے جس میں ارشاد ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے مخاصمانہ رویے یا عدم توجہی کا خوف کرے تو ان دونوں پر کوئی گناہ تو نہیں کہ اپنے درمیان اصلاح کرتے ہوئے صلح کر لیں.بعض روایات میں جو رسول اللہ لی تعلیم کے حضرت سودہ کو طلاق دینے کے ارادہ کا ذکر ہے وہ اصول روایت اور درایت ہر دو لحاظ سے لائق اعتبار نہیں.اصل بات یہ ہے کہ حضرت سودہ نے خود ہی کسی وسوسہ یا اندیشہ سے برضاور غبت اپنے حقوق چھوڑ دیئے تھے.2466 اس بارہ میں حضرت مسیح موعود ایک معاند عیسائی پادری فتح مسیح کے اعتراض کارڈ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:." یہ اعتراض کہ آنحضرت ملی یا کلیم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہو گئے تھے.سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روایتیں کی ہیں.وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت علیم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا.پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب میری حالت قابل رغبت نہیں رہی.ایسا نہ ہو کہ آنحضرت علی تیم باعث طبعی کراہت کے جو منشاء بشیریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو.اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو.کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں و ہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے.اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو.چنانچہ نیل الاوطار کے ص 140 میں یہ حدیث ہے......یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شاید میں آنحضرت میں تم سے جدا ہو جاؤں گی تو اس نے کہا یار سول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی آپ نے اس کی یہ درخواست قبول فرمالی.ابن سعد اور سعید

Page 73

ازواج النبی 57 رض حضرت سوده ابن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توار د ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہوا تھا.اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت علی لیا کہ تم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا.بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کر کے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا.اور اگر ان روایات کے توار د اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرت نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پا کر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے.کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں.اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس سبب سے مر داس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کارروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں " حضرت مصلح موعود نے بھی طلاق حضرت سودہ کے اعتراض کی یہی وضاحت فرمائی ہے کہ ”اس بیوی (حضرت سودہ) کے دل میں ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم ما تم مجھے بوجہ بڑھاپے کے طلاق دیدیں 2666 25 اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں ” نہیں (حضرت سودہ کو) اپنی جگہ یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید آنحضرت علی لیا کہ تم اس حال میں انہیں علیحدہ کر دیں اخلاق فاضلہ 27 حضرت سودہ کی سیرت میں تقویٰ، سادگی ، سچائی، پختگی ، ایمان ، اطاعت رسول اور ایثار خاص طور پر قابل ذکر ہیں.رسول اللہ صلی یتیم کی وفات کے بعد خلفاء راشدین حضرت سودہ کا جو احترام کیا کرتے تھے اس سے بھی ان کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے.حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ درہموں سے بھرا ایک تھیلا حضرت سودہ کو بھجوایا حضرت سودہ نے پوچھا اس میں کیا ہے.بتایا گیا کہ اس میں در ہم ہیں.وہ سادگی سے فرمانے لگیں کہ کھجور کے بورے میں درہم کہاں ؟ اور گھر کی خادمہ سے کہا کہ اے لڑکی! مجھے ذرا کھجور رکھنے کا برتن لادینا تا کہ یہ کھجوریں اس میں ڈال لیں.پھر جب بورے کو کھولا تو واقعی در ہم نکلے.

Page 74

رض حضرت سوده 58 ازواج النبی ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں غیرت کا اظہار فطری سی بات ہوتی ہے لیکن حضرت سودہ کے ایثار کی یہ حالت تھی اور وہ ایسی پاک اور صاف دل تھیں کہ انہوں نے آخری عمر میں اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو بخش دیا تھا.اگر چہ اس میں آنحضرت لیلی یتیم کی رضا طلبی اور آپ کی محبت کے حصول کا بھی دخل تھا.حضرت عائشہ کا خراج تحسین 2911 حضرت عائشہ تو حضرت سودہ کی ایسی ہی خوبیوں اور خصوصیات کی وجہ سے ان کی عاشق تھیں اور ان کی مرنجان مرنج طبیعت، سادہ گوئی اور صاف دلی پر فریفتہ تھیں ایک دفعہ فرمانے لگیں کہ "عورتوں میں سے مجھے کسی عورت کے بارے میں کبھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میں ویسی ہو جاؤں سوائے حضرت سودہ کے کہ ان کی بھولی بھالی ادائیں اختیار کرنے کو جی چاہتا ہے اور دل کرتا ہے کہ میں بھی ان کی طرح ہوتی اور ان جیسا پاک و صاف دل ان جیسی بھولی بھالی ادائیں مجھے بھی نصیب ہو جاتیں " مشہور روایت کے مطابق حضرت سودہ کی وفات مدینہ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ہوئی جبکہ دوسری روایت کے مطابق شوال 54ھ میں حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں انہوں نے وفات پائی.اور جنت البقیع میں آپ کی تدفین ہوئی.اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور آنحضرت علی تعلیم کے قرب میں ان کے درجات بلند فرماتار ہے.آمین اللَّهمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 31 ***: ****

Page 75

ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 59 حوالہ جات اسد الغابہ جلد 7 ص 157 مطبوعہ بیروت جوامع السيرة ص 66 مطبوعہ بیروت استیعاب جلد 1 ص 207 زوجات النبی از شعر اوی ص 136 بیروت شرح زرقانی علی المواهب اللہ نیہ جلد 4 ص377 ابن سعد جلد 8 ص 52 مطبوعہ بیروت طبرانی جلد 23 ص 23 مطبوعہ مصر.مسند احمد جلد 6ص210 مطبوعہ قاہرۃ.زوجات النبی از شعر اوی ص 142 طبرانی جلد 24 ص 36 مطبوعہ مصر طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص56 مطبوعہ بیروت طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 152.مجمع الزوائد جلد 4 ص497 رض حضرت سوده The Prophet Muhammad A Biography by Barnaby Rogerson p-138 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 55 مطبوعہ بیروت مسند احمد جلد 6 ص324 مطبوعہ قاہرة بخاری کتاب البیوع باب تفسیر المشبهات بخاری کتاب الوضوء باب خروج النساء للبراز.بخاری کتاب النکاح باب خروج النساء

Page 76

ازواج النبی 15 16 مسند احمد جلد 5 ص 221 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 60 معجم الكبير جلد 24 ص 278 الاصابة جلد 7 ص 610 بیروت.اسد الغابة جلد 1 ص 1341 بيروت سیرت ابن ہشام جز 2 ص 299 مطبوعہ مصطفی البابی الحلبی الاصابہ جلد 7 ص 721 مطبوعہ بیروت طبقات ابن سعد جلد 8 ص54 مطبوعہ بیروت حضرت سودہ بخاری کتاب الزکوۃ باب الى الصدقة افضل اعلام النساء بحواله زوجات النبی از شعر اوی ص 140.اصابہ ج 7 ص 721.بخاری کتاب الحج باب من قدم ضعفہ اھلہ.بخاری کتاب التفسیر سوره احزاب و کتاب الحج.صحیح بخاری ترجمه و تشریح حضرت سید زین العابدین صاحب جلد 3 ص359 الاستيعاب جلد 1 ص 603 ترمذی کتاب التفسير سورة النساء نور القرآن روحانی خزائن جلد 9ص 380 تا 382 انوار العلوم جلد 4 ص 452 سیرت خاتم النسيين ص 432 الاصابہ جلد 7 ص 721 مطبوعہ بیروت مسلم کتاب الرضاع باب جواز هبتها نوبتها لفرتها طبقات ابن سعد جلد 8 ص 57 مطبوعہ بیروت مرآة الحرمین جلد 1ص425 رض

Page 77

ازواج النبی 61 حضرت عائشہ فضائل ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ حضرت عائشہ کی رسول اللہ علیم سے شادی بھی ایک الٹی تقدیر تھی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ " شادی سے قبل ایک فرشتہ نے مسلسل تین راتیں تمہاری تصویر دکھا کر کہا یہ دنیا و آخرت میں تمہاری بیوی ہے " رسول الله لا عالم نے حضرت عائشہ سے فرمایا " عائشہ ! تمہارے ساتھ میری محبت رسی کی پختہ گرہ کی طرح ہے" رسول اللہ سلیم نے فرمایا " عائشہ کی فضیلت باقی بیویوں پر ایسی ہے جیسے خرید یعنی گوشت والے کھانے کو عام کھانے پر " نیز فرمایا " ازواج میں سے عائشہ کے بستر میں مجھے وحی ہو جاتی ہے." حضرت جبریل نے حضرت عائشہ کو رسول اللہ صلی علم کے ذریعہ سلام پہنچایا.نبی کریم ملی یا تم نے ایک کشفی نظارہ میں حضرت عائشہ کو جنت میں دیکھا.واقعہ افک میں جب حضرت عائشہ کی برکت کے بارہ میں سورہ نور کی آیات اتریں تو حضرت عائشہ نے فرمایا ” مجھ جیسی حقیر کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ میری بریت کے لئے آسمان سے قرآنی وحی اترے گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی.“ رسول الله طی یتیم کی آخری بیماری میں آپ کی خواہش کے مطابق حضرت عائشہ کو نبی کریم کی خدمت اور تیمار داری کا خاص موقع ملا اور حضور علی کریم نے آپ کے سینے پر سر رکھے ہوئے جان دی.نام و نسب حضرت عائشہ آنحضور کے یار غار اور وفا شعار ساتھی حضرت ابو بکر صدیق" کی صاحبزادی تھیں.جنہیں

Page 78

ازواج النبی 62 حضرت عائشہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت عطا ہوئی.حضرت ابو بکر کا تعلق قریش کی شاخ تیم بن مرہ بن کعب سے تھا.آپ کا شجرہ نسب آٹھویں پشت میں جا کر آنحضرت ایینیم سے جاملتا ہے.آپ کے قبیلہ کے سپردخون بہا اور دیتیں جمع کرنا تھا اور حضرت ابو بکر اپنے قبیلہ کی طرف سے یہ اہم کام انجام دیتے تھے.حضرت عائشہ کی والدہ حضرت ام رومان نے بھی ابتدائی زمانے میں ہی اسلام قبول کیا تھا.ان کی وفات پر حضور نے فرمایا کہ "جس نے جنت کی حور کو دیکھنا ہو وہ ام رومان کو دیکھ لے“.رسول اللہ صل عالم سے نکاح حضرت عائشہ کی پیدائش روایات کے مطابق رسول اللہ و سلم کی بعثت کے چوتھے سال بیان کی جاتی ہے.جیسا کہ ذکر ہوا ان کی شادی آنحضرت لیلی یتیم کے ساتھ خاص الٹی مشیت کے تحت ہوئی تھی.حضور نے شادی کے بعد اس بارہ میں حضرت عائشہ سے اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:."عائشہ ! تم شادی سے پہلے دو دفعہ مجھے خواب میں دکھائی گئیں" دوسری روایت کے مطابق آپ نے حضرت عائشہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ "فرشتہ تمہیں میرے پاس تین راتیں ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر لا تار ہا اور کہا یہ دنیا و آخرت میں تمہاری بیوی ہے.میں نے چہرہ سے کپڑا اٹھایا تو کیادیکھتا ہوں کہ وہ تم ہو.اس پر میں نے کہا اس رؤیا سے خدا کی یہی منشاء ہے تو وہ اسے ضرور پورا کرے گا." رض رض یہ رویا غیر معمولی حالات کے باوجود بڑی شان سے پوری ہوئی.اللہ تعالی نے اس کے سامان یوں پیدا فرمائے کہ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم آنحضور ملی یم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ " یار سول اللہ صل اللہ ! ہم آپ کو اداس اور غمزدہ دیکھتے ہیں " کیا بات ہے ؟ حضور ملی یا ہم نے فرمایا " یہ درست ہے حضرت خدیجہ میرا بہت خیال رکھنے والی تھیں اور ان کی وفات کے بعد بجاطور پر میری یہی کیفیت ہے" انہوں نے عرض کیا آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے " حضور نے فرمایا "کس سے؟" انہوں نے عرض کیا " یار سول الله طی یکی دورشتے ہیں.ایک تو کنواری لڑکی عائشہ بنت ابو بکر نہیں اور دوسری ایک بیوہ خاتون سودہ بنت زمعہ حضور اکرم نے فرمایا ”آپ دونوں جگہ پیغام دے دیں.“ حضرت خولہ

Page 79

ازواج النبی 63 حضرت عائشہ دونوں جگہ وہ پیغام لے کر گئیں.حضرت سودہ سے تو اسی زمانے میں شادی ہو گئی.حضرت عائشہ اس وقت کم سن تھیں.اس لئے ان سے نکاح تو ہو گیا لیکن رخصتی مدینہ جاکر ہوئی.ان کی شادی کے متعلق رسول اللہ لی لی ایم کا کشف جن غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایاوہ نہایت ایمان افروز ہے.حضرت خولہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں حضرت عائشہؓ کی والدہ کے پاس رسول اللہ صلی علیم کا پیغام لے کر گئی اور ان کو برکت کی دعا دے کر کہا " ایک بہت اچھا رشتہ عائشہ کے لئے لے کر آئی ہوں".انہوں نے کہا " ٹھہر و، ابو بکر آتے ہی ہوں گے ".وہ تشریف لائے تو ان کو بتایا گیا کہ "عائشہ کے لئے رسول اللہ صلی علی ایم کے رشتہ کا پیغام ہے ".حضرت ابو بکر صدیق کا پہلا اظہار یہ تھا کہ آنحضرت شینم تو میرے بھائی ہیں کیا بھتیجی سے یہ رشتہ مناسب ہو گا.حضرت خولہ نے رسول کریم ایم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہی گزارش کی تو آپ نے فرمایا کہ "ابو بکر سے جاکر کہو بے شک وہ میرے اسلامی بھائی ہیں.مگر یہ تعلق دینی محبت اور بھائی چارے کا ہے اور شرعاًیہ رشتہ کرنے میں کوئی روک نہیں ".حضرت خولہ نے حضرت ابو بکر اور حضرت ام رومان کے پاس جاکر اس بات کا ذکر کیا تو حضرت ابو بکر نے کچھ مہلت چاہی.ام رومان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ دراصل بات یہ ہے کہ حضرت ابو بکر قول کے بڑے پچکے ہیں.ان کے دوست مطعم بن عدی نے پہلے سے اپنے بیٹے جبیر کے لئے ان سے عائشہ" کارشتہ مانگ رکھا ہے.اس لئے مطعم سے بات کئے بغیر کوئی فیصلہ مشکل ہے.پھر اس کے بعد ایک دن حضرت ابو بکر سردار قریش مطعم کے گھر گئے اور کہا کہ عائشہ بڑی ہو رہی ہیں.اب اس رشتہ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ مطعم تو خاموش رہے.ان کی بیوی بول پڑی کہ " یہ لڑکی تو ٹھہری بے دین ! ہمارے بیٹے کو بھی گمراہ کر دے گی " حضرت ابو بکر مطعم سے مخاطب ہوئے کہ " آپ کی کیا رائے ہے ؟" وہ کہنے لگے "میری بیوی کی رائے آپ نے سن ہی لی ہے" اس پر حضرت ابو بکر کو تسلی ہو گئی کہ اب وعدہ خلافی کا الزام مجھ پر نہیں آئے گا.چنانچہ انہوں نے حضرت خولہ کے ذریعہ حضور علی یا تم کو یہ پیغام بھجوادیا کہ " ہمیں آپ کارشتہ منظور ہے " یوں حضرت عائشہ کے ساتھ نبی اکرم علی ایم کا نکاح ہو گیا.

Page 80

ازواج النبی 64 حضرت عائشہ رخصتانہ اور عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے دو سال قبل کا ہے.ہجرت نبوی کے بعد حضرت عائشہ اپنے خاندان کے ہمراہ مدینہ آکر حارث بن خزرج کے محلہ میں ٹھہریں.یہاں آنے کے ایک سال بعد 2ھ میں حضرت عائشہ کا رخصتانہ ہوا.حضرت عائشہ کے اپنے بیان کے مطابق اس وقت ان کی عمر نو سال تھی.اس زمانے میں عمروں کاریکارڈرکھنے کا رواج نہیں تھا.نو سال والی روایت اگر صحیح بھی سمجھی رض جائے تو یہ حضرت عائشہ کا اپنا ایک موٹا اندازہ ہو سکتا ہے.حضرت عائشہ کی نو سال کی عمر میں کم سنی کی شادی پر بھی ایک مسیحی دشمن اسلام نے اعتراض کیا ہے.حضرت مسیح موعود اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے.اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے.صرف ایک راوی سے منقول ہے.عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے.جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے.پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں.کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے.لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا......محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ نو برس تک بھی لڑکیاں بالغ ہو سکتی ہیں.بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہو سکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صد ہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھ آٹھ نونو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے." پھر ایک آریہ معترض کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: نہیں.حضرت عائشہ کا نوسالہ ہونا تو صرف بے سر و پا اقوال میں آیا ہے.کسی حدیث یا قرآن سے ثابت " (9

Page 81

ازواج النبی 65 حضرت عائشہ 10 عصر حاضر کے ایک محقق کے مطابق نو سال والی روایت آنحضرت سے صحیح ثابت نہیں ان کے نزدیک حضرت عائشہ کی یہ عمر بیان کر نیوالے واحد راوی ہشام سے تسع 9 کے بعد عشرہ 10 کا لفظ سہوا رہ گیا ہے.محقق موصوف کے مطابق بوقت نکاح حضرت عائشہ کی عمر ستر 0 17 سال اور رخصتی کے وقت انہیں 19 سال تھی.اور وہ اٹھائیس 28 سال کی عمر تک یعنی نو سال حضور کے ساتھ رہیں.تاہم اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مؤلف "سیرت خاتم النبیین " کی قابل قدر تحقیق سلسلہ کے لٹریچر میں زیادہ معروف اور رائج ہے.جس کے مطابق بوقت شادی حضرت عائشہ کی عمر کا اندازہ بارہ سال بنتا ہے.عرب کے گرم ملک میں چونکہ بچیاں اس عمر میں بالغ ہو جاتی تھیں.اس لئے ان کی شادی کر دی جاتی تھی.اس لحاظ سے وہ میں 20 سال کی عمر تک رسول اللہ یتیم کی صحبت میں رہیں.0 واقعات شادی حضرت عائشہ اپنی شادی کا حال یوں بیان فرماتی ہیں کہ " میں اپنے محلہ حارث بن خزرج میں سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی کہ میری والدہ نے مجھے بلایا.میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ساتھ نبی اکرم ملی تم بھی تشریف لائے ہوئے تھے.والدہ مجھے پینگ پر سے بلا کر لے آئیں.اس وقت میرے بالوں کی ایک مینڈھی بندھی ہوئی تھی.والدہ نے میر امنہ وغیرہ دھلوایا، کنگھی کی اور مجھے تیار کر کے نبی اکرم طی نیستم کے پاس لے گئیں وہاں مرد اور عور تیں بھی تھے.مجھے آپ کے پاس بٹھا کر میری والدہ نے عرض کیا " یہ رہی آپ کی بیوی ! اللہ تعالیٰ آپ کے اہل آپ کے لئے مبارک کرے." پھر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور یوں رسول اللہ علیم کے ساتھ میری شادی ہو گئی.خدا کی قسم میری شادی پر کوئی بکری یا اونٹ ذبح نہیں ہوئے.ہاں حضرت سعد بن معاذ سردار مدینہ نے کھانے کا ایک دیگچھر رسول اللہ علی یل اسلام کی خدمت میں بھجوایا تھا.اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ کی رخصتی کتنی سادگی سے ہوئی.یہاں جھولا جھولنے کی روایت سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ حضرت عائشہ ایسی کم سن تھیں کہ شادی کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں.آجکل بھی شادی شدہ لڑکیاں بڑے شوق سے جھولا جھولنا پسند کرتی ہیں اور بعض گھرانوں میں تو مجھولے کو گھر کی زینت بنا کے رکھا جاتا ہے.بہر حال اس واقعہ سے حضرت عائشہ کی کھیل وغیرہ سے دلچسپی کا اندازہ ضرور ہوتا ہے.1211 "

Page 82

ازواج النبی 66 حضرت عائشہ شادی کے موقع کی بعض اور دلچسپ تفاصیل حضرت اسماء بنت عمیں زوجہ حضرت جعفر طیار یوں بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ کی شادی پر میں نے انہیں تیار کیا تھا اور وہ عورتیں جنہوں نے حضرت عائشہ کو نبی اکرم یتیم کی خدمت میں پیش کیا تھا میں بھی ان میں شامل تھی.اس موقع پر نبی اکرم کو دودھ کا پیالہ بھی پیش کیا گیا.آپ نے اس میں سے کچھ پی لیا اور باقی حضرت عائشہ کو دیا.حضرت عائشہ اپنی طبعی حیاء اور شرم کے باعث دودھ نہیں لے رہی تھیں.حضرت اسماء نے انہیں کہا بی بی "آنحضرت کے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ واپس نہ لوٹاؤ." اس پر حضرت عائشہ نے شرم و حیاء سے سمٹتے ہوئے دودھ کا وہ پیالہ لے کر اس میں سے کچھ دودھ پیا.حضرت اسماء کی یہ نصیحت کتنی معنی خیز اور وزن رکھتی ہے.کیونکہ نبی کریم ا یتیم کا مقام خدا کے بر گزیدہ نبی کا ہے.جن کی روحانی برکات کے علاوہ بچا ہوا کھانا بھی تبرک اور باعث سعادت ہے.پھر نبی اکرم نے فرمایا " اب اپنی سہیلیوں کو بھی پلاؤ ".اسماء نے عرض کیا " یار سول اللہ ! ہمیں تو بھوک نہیں ہے ".حضور نے فرمایا " بھوک اور جھوٹ دو چیزیں اکٹھی نہ کرو." اسماء نے عرض کیا " یار سول اللہ ! یہ جو بات ہم تکلفاً کہہ دیتے ہیں کہ بھوک وغیرہ نہیں ہے تو کیا یہ بھی جھوٹ شمار ہو گا؟" آپ نے فرمایا " یقیناً جھوٹے کو جھوٹا ہی لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ چھوٹے جھوٹ کو بھی جھوٹ ہی شمار کیا جاتا ہے.' حضرت عائشہ کی دلداری 13 11 " حضرت عائشہ آنحضرت علم کی پہلی کنواری بیوی تھیں.حضرت عائشہ اپنا یہ اعزاز بجاطور پر بیان بھی کیا کرتی تھیں.حضور علم کی دیگر شادیاں ایسی خواتین سے ہوئیں جو مطلقہ یا بیوہ تھیں.دوسری طرف آنحضور ملی ی یتیم حضرت عائشہ کی عمر کی مناسبت سے ان کا بہت لحاظ رکھتے اور دلداری فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہ خود بیان فرماتی ہیں کہ " شادی کے بعد بھی میں آنحضرت علی کریم کے گھر میں گڑیاں کھیلا کرتی تھی.میری کچھ سہیلیاں میرے ساتھ کھیلنے آتی تھیں.جب حضور علی سلیم گھر میں تشریف لاتے تو وہ آپ کے رعب سے بھاگ جاتیں.حضور طی یک تم میری خاطر ان کو اکٹھا کر کے واپس گھر لے آتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتی رہتیں." اس زمانہ میں عورتوں کے لئے کوئی خاص سماجی دلچسپیاں نہ ہوتی تھیں.اس لئے وہ فارغ وقت کھیل اور تفریح میں گزار نا پسند کرتی تھیں.رسول اللہ علیم کی مصروفیات سے بھر پور زندگی میں حضرت عائشہ نے

Page 83

ازواج النبی 67 حضرت عائشہ اپنی ہم عمر سہیلیوں کے ساتھ کھیل اور تفریح کا مشغلہ شادی کے بعد بھی جاری رکھا جو قابل اعتراض نہیں.حضور علی کیم کی تشریف آوری پر آپ کی سہیلیوں کا بھاگ جانا ظاہر کر رہا ہے کہ آپ کی ہم عمر لڑکیاں بھی یہ شعور رکھتی تھیں کہ حضرت عائشہ شادی شدہ ہیں اور ان کے شوہر کے آجانے کے بعد ان کو حضور علم کی خدمت کے لئے فارغ کر دینا مناسب ہے.رسول اللہ لی ی ی یتیم کی دلداری کا ایک واقعہ حضرت عائشہ یوں بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریم صله ی کم گھر میں تشریف فرماتھے کہ اچانک ہم نے باہر کچھ شور اور بچوں کی آوازیں سنیں.نبی کریم طی تم نے باہر جا کر دیکھا تو ایک حبشی عورت تماشا کر رہی تھی اور بچے بالے اس کے گرد جمع تھے.آپ نے مجھے فرمایا "عائشہ ! تم بھی آکر دیکھ لو" میں نے آکر اپنی ٹھوڑی رسول اللہ ملی یا کریم کے کندھے پر رکھی اور دیکھنے لگی.کچھ دیر بعد حضور پوچھتے دیکھ چکی ہو ؟ بس کافی ہے ؟ میں کہہ دیتی " نہیں ابھی تو اور دیکھوں گی " اور میرے دل میں تھا کہ ذرا دیکھوں تو سہی یہ میرے کتنے ناز اٹھاتے ہیں.اتنے میں حضرت عمرؓ آگئے تو بچے ان کو دیکھ کر بھاگ گئے.رسول کریم طلم نے فرمایا " معلوم ہوتا ہے انسانوں اور جنوں میں سے تمام شیطان عمرؓ کے خوف سے بھاگتے ہیں." رسول کریم میں اپنی تمام بیویوں کے ساتھ ان کی دلچسپی اور مذاق کے مطابق بات کر نا پسند فرماتے تھے مگر حضرت عائشہ کی نو عمری کا خاص لحاظ تھا انہی کی زبانی یہ دلچسپ واقعہ سنے ایک دفعہ ہم گھر کے کمرے میں بیٹھے تھے ، ہوا کا جھونکا آیا تو الماری کا وہ پردہ ہٹ گیا جس کے پیچھے میری کھیلنے کی گڑیاں رکھی تھیں.رسول کریم میم نے دیکھ کر فرمایا.عائشہ یہ کیا ؟ میں نے عرض کیا حضور طی نیم میری گڑیاں ہیں.آپ بڑی توجہ سے یہ سب کچھ ملاحظہ فرمارہے تھے.گڑیوں کے درمیان میں چمڑے کے دو پروں والا ایک گھوڑا آپ نے دیکھا تو اس کے بارے میں پوچھا " عائشہ ان گڑیوں کے درمیان میں کیا رکھا ہے ؟ میں نے کہا گھوڑا ہے.آپ پروں کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے.اس کے اوپر کیا لگا ہے " میں نے کہا اس گھوڑے کے دو پر ہیں.تعجب سے فرمایا " گھوڑے کے دو پر ؟" میں نے کہا آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان علیہم کے گھوڑوں کے 15 11 پر ہوتے تھے.اس پر آنحضرت لی لیلی کنیم بنے اور اتنا ہے کہ مجھے آپ کے دانت نظر آنے لگے.

Page 84

ازواج النبی 68 حضرت عائشہ اس واقعہ سے حضرت عائشہ کی ذہنی بلوغت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب میں پرورش پانے کے باوجود آپ کی معلومات اور سوچیں ہم عمر لڑکیوں سے کتنی زیادہ ہوش مندانہ تھیں.رض 1711 رونق و تفریح عید کا دن تھا حضرت عائشہ کے گھر میں کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بعاث کے نغمے گارہی تھیں.حضور گھر میں دوسری طرف منہ پھیر کر لیٹے ہوئے تھے.اتنے میں حضرت ابو بکر تشریف لائے اور اپنی بیٹی حضرت عائشہ کو ڈانٹنے لگے کہ رسول طی علم کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا ؟ آنحضرت میم نے حضرت عائشہ کی خاطر داری کرتے ہوئے فرمایا اے ابو بکر !ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے آج مسلمانوں کی عید ہے.ان لڑکیوں کو خوشی کر لینے دو." حضور کو حضرت عائشہ کی دلداری کا اتنا خیال ہوتا تھا کہ ایک دفعہ عید کے موقع پر حبشہ کے لوگوں نے تیر اندازی ، نیزہ بازی اور تلوار زنی کے کچھ کرتب دکھانے تھے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا " عائشہ ! تمہارا بھی دل کرتا ہے کہ یہ کھیل دیکھو".میں نے کہا ہاں یار سول اللہ ییم ! میں تو " کر تب دیکھنا چاہتی ہوں " آپ نے فرمایا " پھر آجاؤ.آپ مجھے ساتھ لے گئے اور اپنے پیچھے کھڑا کر لیا.میں حضور کے کندھے کے اوپر سے دیر تک دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں سیر ہو گئی.پھر حضور طی تم نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ کیا خوب جی بھر کر دیکھ لیا.میں نے عرض کیا جی ہاں یار سول الله ملی یا تم اس پر ارشاد فرما یا ٹھیک ہے اب گھر جاؤ.اس واقعہ سے رسول کریم صلی یا یتیم کی اس شفقت و محبت اور دلداری کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو آپ حضرت عائشہ سے رکھتے تھے.تاہم حضور کی زوجہ اور ام المؤمنین ہونے کے سبب آپ کی بالغ عمری میں پردہ کی جو ضرورت تھی یہ تماشا دکھاتے ہوئے آپ ہم نے اس کا بھی لحاظ رکھا اور حضرت عائشہ کو پردہ کی خاطر پنے پیچھے کھڑا کر کے یہ کرتب دکھائے.حضرت عائشہ یہ واقعہ سنا کر فرما یا کرتی تھیں کہ نو عمر لڑکیوں کو کھیل تماشا کا شوق ہوتا ہے.دیکھو آنحضرت ام نو عمری کے جذبات کا کتنا لحاظ رکھتے تھے اور ہر جائز خواہش پورا کرنے میں کوئی تامل نہیں فرماتے تھے.ہر چند کہ عائشہ سے شادی کے وقت عمروں کا تفاوت چالیس برس سے بھی زائد تھا جو بہت

Page 85

ازواج النبی 69 حضرت عائشہ سنجیدگی اور تکلف پیدا کر سکتا تھا مگر فی الواقعہ ایسا نہیں ہوا.آپ نے حضرت عائشہ کی دل لگی اور ناز برداری کے لئے کبھی کوئی جائز کسر اٹھانہ رکھی.دوڑ کا مقابلہ آنحضرت علی ایم کا حضرت عائشہ کے ساتھ ایسا ہی پر شفقت، بے تکلفی کارہن سہن تھا جس سے آپ نے ان کا دل جیت لیا.آپ ان کی جائز خواہشات اور نو عمری کے سارے چاؤ پورے کرتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک سفر میں حضرت نبی اکرم طلم نے فرمایا کہ عائشہ ! آپ میرے ساتھ دوڑ لگانا چاہتی ہو.پھر باہم دوڑ کا مقابلہ ہو اوہ فرماتی ہیں کہ میں دبلی پتلی تھی دوڑ میں آگے نکل گئی.اب کیا معلوم حضوراکرم علیم نے خود انہیں حوصلہ افزائی کی خاطر یہ موقع دیا یا حضرت عائشہ اپنے دبلے پن کی وجہ سے آگے بڑھ گئیں مگر کچھ عرصہ بعد ایک اور موقع پر حضور نے ان سے فرمایا کہ چلو پھر دوڑ کا مقابلہ ہو جائے.تب وقت گزرنے کے باعث حضرت عائشہ کا وزن بھی کچھ بڑھ چکا ہو گا.بہر حال اس مرتبہ آنحضرت طی یتیم آگے بڑھ گئے اور اس مرتبہ آپ نے حضرت عائشہ کو باور کروایا کہ یہ اس دوڑ کا بدلہ ہو گیا جو پہلے تم نے جیتی تھی.اور یوں شگفتگی و مزاح کی ایک نئی کیفیت پیدا کر دی.19 جنگوں میں شرکت رسول کریم نیم کا ازواج کو جنگی کرتب دکھانے اور دوڑ کا مقابلہ کرنے میں ایک اور گہری حکمت یہ نظر آتی ہے کہ وہ حسب ضرورت مشکل حالات کا مقابلہ کر سکیں.چنانچہ جنگوں میں پہلی دفعہ رسول اللہ علی می کنیم نے خواتین سے زخمیوں کو پانی پلانے اور نرسنگ کی خدمات لینے کی پاکیزہ بنیاد ڈالی.قدیم زمانہ میں رواج تھا کہ جنگ میں مردوں کا حوصلہ بڑھانے، رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور دل بہلانے کیلئے عور تیں بھی شریک جنگ ہوتی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا جو نقدس اور احترام قائم فرمایا اس لحاظ سے آپ کو یہ طریق سخت ناپسند تھا کہ عورت مردوں کے ہاتھ میں محض کھلونا بن کر رہ جائے.خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص کچھ خواتین کو زخمیوں کی مرہم پٹی، تیار داری اور دیکھ بھال کیلئے ساتھ چلنے کی اجازت فرمائی.آنحضرت امیم کے اس پاکیزہ خیال کو ایک فرانسیسی عیسائی سوانح نگار یوں بیان کرتا ہے :.

Page 86

ازواج النبی 70 حضرت عائشہ 2011 " شاید تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی لشکر کے ساتھ عورتیں نرسنگ کی خدمات اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے شامل ہو ئیں ، ورنہ اس سے پہلے جنگ میں عورت سے تحریض جنگ اور حظ نفس کے سوا کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا.عورت سے درست اور جائز خدمات لینے کے بارہ میں اب تک کسی نے نہ سوچا تھا کہ میدان جنگ میں تیار داری اور بیماروں کی دیکھ بھال کی بہترین خدمت عورت ہی انجام دے سکتی ہے." اس طرح نبی کریم نے جنگ میں عورتوں کا باعزت مقام بحال کیا.جس پر خواتین بجا طور پر فخر کرتی تھیں.چنانچہ صحابیات حضرت ام سلیم اور حضرت ام رفیدہ کی جنگی خدمات کے علاوہ خود رسول اللہ ایم کی زوجہ حضرت عائشہ اور آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ نے بھی جنگ بدر میں یہ خدمات انجام دیں.حضرت ام سلمہ نے غزوہ حدیبیہ میں مفید مشورہ دے کر عورتوں کا سر فخر سے بلند کر دیا.ย صحابیات میں سے حضرت ام سلمہ اور رسول اللہ علیم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے ساتھ حضرت ย 22 21 عائشہ نے بھی جنگوں میں شریک ہو کر نرسنگ، مرہم پٹی اور زخمیوں کو پانی پلانے کی خدمات انجام دیں.خادم رسول طی یا کم حضرت انس کی روایت کے مطابق جنگ احد میں انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت ام سلیم کو ایسی ہی ہنگامی ڈیوٹی کے دوران مستعدی سے بھاگتے ہوئے دیکھا.اسی طرح حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں احد کے دن جب آنحضرت علی ترمیم کے چہرے پر زخم آئے تو آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ نے آپ کے زخم دھوئے اور مرہم پٹی کی.رسول اللہ علی اعلام جنگوں میں تشریف لے جاتے ہوئے بیویوں کو ہمراہ لے جانے کیلئے قرعہ اندازی کے 23 24 ذریعے انتخاب فرماتے تھے جس کے نام کا قرعہ نکلتا اسے ساتھ لے جاتے.احادیث میں حضرت عائشہ کا آنحضور کے ساتھ دو غزوات جنگ احد اور غزوہ بنو مصطلق میں شامل ہونے کا ذکر ملتا ہے.25 جذبات کا خیال یوں تو نبی کریم سب بیویوں کے ساتھ دلداری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور ان کی معمولی ے معمولی شکایت کا بھی ازالہ فرماتے تھے.مگر حضرت عائشہ اپنی زیر کی ، ذہانت اور مزاج شناس ہونے کی وجہ سے آپ کی شفقت کا خاص مورد ہوتی تھیں.آپ فرماتے تھے کہ "عائشہ کی فضیلت باقی بیویوں پر ایسے ہے جیسے شرید یعنی گوشت والے کھانے کو عام کھانے پر ".بعض بیویوں کی طرف سے حضرت عائشہ سے زیادہ

Page 87

ازواج النبی 71 حضرت عائشہ حسن سلوک پر شکوہ پیدا ہوا تو فرمایا کہ "بیویوں میں سے صرف عائشہ ہی ہے جن کے بستر میں بھی مجھے وحی ہوتی ہے".یعنی خدا کا سلوک بھی اللہ کی اس بندی کے ساتھ نرالا ہی ہے.رسول کریم کو حضرت عائشہؓ کے جذبات و احساسات کا جس قدر خیال ہوتا تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے.ایک ایرانی باشندہ رسول کریم کا ہمسایہ تھا، جو کھانا بہت عمدہ بنانا تھا اس نے ایک دن رسول کریم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کو دعوت دینے آیا.آنحضور کی باری عائشہ کے ہاں تھی.آپ نے فرمایا کہ کیا عائشہ بھی ساتھ آجائیں؟ اُس نے غالباً تکلف اور زیادہ اہتمام کے اندیشے سے نفی میں جواب دیا آپ نے فرمایا پھر میں بھی نہیں آتا.تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ بلانے آیا تو آپ نے پھر فرمایا میری بیوی بھی ساتھ آئے گی؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا تو آپ نے دعوت میں جانے سے معذرت کر دی.وہ چلا گیا، تیسری دفعہ پھر آکر اس نے گھر آنے کی دعوت دی.آپ نے بھی پھر اپنا وہی سوال دہرایا کہ عائشہ بھی آجائیں اس مرتبہ اس نے حضرت عائشہ کو ہمراہ لانے کی حامی بھر لی.اس پر آپ حضرت عائشہ کے ساتھ اس ایرانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر کھانا تناول فرمایا.جائز خواہشات کا خیال 27 رسول الله علم کو حضرت عائشہ کی جائز خواہشات کا بہت خیال رکھتے تھے.حضرت عائشہ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی جو ہر انسان کی طبعی خواہش ہوتی ہے.ایک دفعہ انہوں نے رسول اللہ لی لی تم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ یارسول اللہ لی لی نیم ! آپ میری کوئی کنیت ہی رکھ دیں جو بالعموم کسی بچے کے نام پر ہوتی ہے.رسول کریم لیلی یا ہم نے فرمایا تم اپنے بیٹے کے نام پر کنیت رکھنا.بعض روایات کے مطابق حضرت عائشہ کا ایک بچہ بوجہ اسقاط ضائع ہو گیا تھا، اس کی نسبت سے آپ کی کنیت ام عبد اللہ رکھی گئی.دوسری روایت میں ہے کہ جب ان کی بہن اسماء کے ہاں عبد اللہ بن زبیر کی ولادت ہوئی تو حضرت عائشہ اس بچے کو لے کر رسول اللہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں.آپ نے اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا اس کا نام عبد اللہ اور تمہاری کنیت اس کی نسبت سے اتم عبد اللہ ہو گی.اس واقعہ سے رسول اللہ علیم کی دلداری کا اندازہ ہوتا ہے جو آپ حضرت عائشہ سے فرماتے تھے.29 الغرض حضرت عائشہ نے رسول اللہ یا ہم سے جو شفقتیں اور محبتیں دیکھیں وہ غیر معمولی ہیں.

Page 88

ازواج النبی نادانستہ خطا سے در گزر 72 حضرت عائشہ رسول کریم ایم کے سفر میں جو بیوی بھی ہمراہ ہوتی آپ اس کے آرام اور دلداری کا خاص خیال رکھتے.احادیث میں حضرت عائشہ کا ہار ایک سے زائد مرتبہ گم ہونے کا ذکر ملتا ہے.ایک ایسے ہی موقع پر آنحضرت نے کمال شفقت سے حضرت عائشہ کے ہار کی تلاش میں کچھ لوگ بھجوائے.اسلامی لشکر کو اس جگہ پڑاؤ کرنا پڑا جہاں پینے کے لئے پانی میسر تھانہ وضو کے لئے.ایسی صورت حال پیدا ہونے پر حضرت عائشہ کے والد حضرت ابو بکر بھی ان سے ناراض ہو گئے اور سختی سے فرمانے لگے."عائشہ ! تم ہر سفر میں ہی مصیبت اور تکلیف کے سامان پیدا کرتی ہو." مگر آنحضرت لی ہم نے کبھی ایسے موقع پر حضرت عائشہ کو جھڑ کا تک نہیں خواہ ان کی وجہ سے آپ کو پورے لشکر کے کوچ کا پرو گرام بدلنا پڑا اور تکلیف بھی اٹھانی پڑی.اسی موقع پر تیمم کی آیات اتریں.جو امت کی سہولت کیلئے اللہ تعالی کی طرف سے ایک احسان اور تحفہ تھا اور جسے بعض باذوق صحابہ حضرت عائشہ کی برکت شمار کرتے تھے.چنانچہ انصار قبیلے کے رئیس حضرت اُسید بن حضیر نے تو اس موقع پر ام المومنین حضرت عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے ابو بکر کی اولاد ! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے جو مسلمانوں کو عطا ہوئی ہے.واقعہ افک 31 ایک اور سفر میں سوء اتفاق سے پیش آنے والا واقعہ افک حضرت عائشہ کی زندگی کا دردناک واقعہ اور ایک بہت بڑا ابتلاء بن کر پیش آیا.جس نے حضرت عائشہ بلکہ پورے اہل مدینہ کی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا، خود حضرت عائشہ نے اس واقعہ کی جو تفاصیل بیان کی ہیں وہ ایک طرف انکی سادگی اور معصومیت کو ظاہر کرتی ہیں تو دوسری طرف اس کرب و اذیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس میں وہ قریباً ایک ماہ مبتلا رہیں اور اللہ تعالٰی نے انہیں غیر معمولی استقامت عطا فرمائی.اس دوران خود حضرت نبی اکرم ا یتیم اور حضرت ابو بکر صدیق کے گھرانے پر جھوٹی الزام تراشی تمام مخلص مومنوں کے لئے بھی بہت بڑی آزمائش تھی.جس کا سامنا معمولی غفلت اور سادگی کے باعث انہیں کرنا پڑا.مگر خدائے علیم و خبیر کی طرف سے حضرت عائشہ کی برائت کا جس طرح اظہار ہوا، اس سے حضرت عائشہ کا مقام اور عصمت و طہارت ثابت ہوئی اور آپ کی ذات پر ہونے والے تمام ممکنہ اعتراضات کو ہمیشہ کیلئے رڈ کر دیا گیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور

Page 89

ازواج النبی 73 حضرت عائشہ حضرت صدیق اکبر کی بیٹی کو " صدیقہ " کے بلند ترین مقام پر فائز فرما دیا گیا.اپنے خوبصورت انجام کے لحاظ سے یہ واقعہ سوء اتفاق نہیں بلکہ حسن اتفاق بن جاتا ہے.جس میں اللہ تعالی کی کئی حکمتیں کار فرما تھیں.ایک اہم حکمت مدینہ میں افواہیں پھیلانے والے منافقوں کی ریشہ دوانیوں کا ہمیشہ کیلئے سد باب بھی تھا.اس روح فرسا واقعہ کی کسی قدر تفصیل یہ ہے کہ غزوہ بنو مصطلق ( جسے غزوۂ مریسیع بھی کہا جاتا ہے ) میں دوبارہ حضرت عائشہ کا ہار گم ہوا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں سفروں میں عورتوں کو ہو دج ( ہودج ) سمیت اٹھا کر اونٹوں پر رکھ دیا جاتا تھا.اس سفر میں فجر کے وقت جب قافلے نے کوچ کرنا تھا اس سے قبل آپ قضائے حاجت کے لئے باہر تشریف لے گئیں.واپس آکر گلے پر جو ہاتھ پھیرا تو آپ کا ہار موجود نہیں تھا.آپ گھبراہٹ میں واپس جاکر بار تلاش کرنے لگیں اور صبح کی روشنی ہو جانے تک ڈھونڈتی رہیں.بار تو مل گیا لیکن آپ کی واپسی تک قافلہ روانہ ہو چکا تھا.آپ فرماتی تھیں کہ میں سخت پریشان ہوئی جنگل میں تن تنہا کیلی وہاں آکر جو لیٹی ہوں تو آنکھ لگ گئی.جو کسی کے بآواز بلند انا للہ پڑھنے سے کھلی.یہ شتر سوار صحابی رسول حضرت صفوان بن معطل تھے جو آنحضور کی ہدایت کے مطابق لشکر کے پیچھے حفاظتی نقطہ نظر سے یہ جائزہ لیتے آرہے تھے کہ کوئی خطرہ تو نہیں یا قافلے کی کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی.اچانک ان کی نظر فرش زمین پر سوئی ہوئی حضرت عائشہ پر پڑی تو بے اختیار ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليورَاجِعُون.یہ سن کر حضرت عائشہ اٹھ کر بیٹھ گئیں.وہ بیان کرتی ہیں کہ پردے کے احکامات نازل ہونے سے قبل اس صحابی رسول نے مجھے دیکھا ہوا تھا اس لئے پہچان لیا، میں نے فوراپردہ کر لیا.حضرت عائشہ کی اپنی گواہی اس صحابی کے بارہ میں یہ ہے کہ "صفوان شریف النفس انسان تھا کہ اس نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی بس اونٹ کو میرے سامنے لاکر بٹھا دیا اور مہار پکڑے رکھی اور میں اونٹ پر سوار ہو گئی " دوسری طرف جب قافلے والوں کو حضرت عائشہ کی گمشدگی کا علم ہوا تو وہ سخت پریشان ہو کر اگلے پڑاؤ پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے.حضرت صفوان حضرت عائشہ کی سواری لیکر عین ظہر کے وقت وہاں پہنچے.جبکہ چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں یہی وقت تھا جب منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی سلول اور اس کے فتنہ پرداز ساتھیوں کو طرح طرح کے الزام لگانے کا موقع ہاتھ آگیا.

Page 90

ازواج النبی 74 حضرت عائشہ 3266 " ادھر حضرت عائشہ کی سادگی اور معصومیت کا اور ہی عالم تھا.آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں مدینہ واپس آئی تو مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ریشہ دوانیاں اور الزام تراشیاں اندر اندر جاری ہیں.اتفاق سے اسی دوران میں بیمار ہو گئی.ایک دن قضائے حاجت کے لئے ام مسطح کے ساتھ باہر جارہی تھی کہ اچانک ام مسطح کا پاؤں پھسلا تو وہ کہہ اٹھیں مسطح ہلاک ہو ، میں نے کہا ”اپنے اس بیٹے کو کیوں برا بھلا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شامل ہوا تھا.وہ بولیں آپ کو نہیں معلوم کہ وہ کیسے کیسے الزام آپ پر لگا رہا ہے ؟ تب پہلی دفعہ مجھے علم ہوا کہ ایسی باتیں ہو رہی ہیں.آپ فرماتی ہیں کہ ان دنوں مجھے تو صرف ایک بات پریشان کرتی تھی کہ آنحضور ملی یا نیم کی طرف سے اس لطف و کرم ، التفات اور دلداری کا اظہار نہیں ہوتا تھا جو آپ پہلے کیا کرتے تھے.بس اتنا تھا کہ آپ گھر آتے اور حال پوچھ کر چلے جاتے.بالآخر میں بھی بیماری کے باعث آنحضور سے اجازت لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی.اپنی والدہ سے جاکر حیرت سے پوچھا کہ امی ! لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ والدہ نے ( جو اپنی معصوم بچی کے مزاج سے خوب شناسا تھیں) تسلی دی اور کہا بیٹی ! گھبراؤ نہیں جہاں ایک سے زائد بیویاں ہوں وہاں ایسی باتیں ہو ہی جاتی ہیں.مگر اس کے باوجود حضرت عائشہ کے دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا.انہوں نے پوچھا کیارسول اللہ سلیم کو بھی یہ باتیں پہنچی ہیں.والدہ نے کہا ہاں.اس پر حضرت عائشہ نے پوچھا اور ا با کو بھی.انہوں نے کہا ہاں.یہ سن کر حضرت عائشہ بیہوش ہو کر گر پڑیں.جب ہوش میں آئیں تو شدید بخار میں مبتلا تھیں اور کپکپی طاری تھی.فرماتی تھیں میں ساری رات روتی رہی نہ نیند آئے نہ الزام تراشی کے باعث دکھ سے میرے آنسو کھمیں.مگر ابھی ابتلاء کے دن باقی تھے.اس دوران نبی اکرم صلی یا تم نے اس نازک صورتحال کے بارہ میں اپنے قریبی اصحاب سے مشاورت شروع کی.جنہوں نے حضرت عائشہ کی معصومیت و طہارت کی کھل کر گواہی دی.حضرت اسامہ بن زید رسول اللہ علم کے گھرانہ کے فرد کی طرح تھے انہوں نے حضرت عائشہ کے بارہ میں اپنی نہایت عمدہ اور نیک رائے بیان کی.پھر حضرت عائشہ کی اپنی خادمہ حضرت بریرہ جن کا حضرت عائشہ سے ہر وقت کا ساتھ تھا، نے کہا یارسول اللہ لی ہیں کہ تم ! میں تو اتنا جانتی ہوں کہ حضرت عائشہ آٹا گوندھ کر رکھ دیتی ہیں اور بکری آکر کھا جاتی ہے.بس اس معمولی تساہل کے سوا آج تک کوئی عیب میں نے ان میں نہیں دیکھا.سبحان اللہ ! اس سے بڑھ کر کسی کی پاکیزگی پر کیا گواہی ہو سکتی ہے.خود رسول کریم ملی تم نے بھری مجلس میں اس واقعہ کے بارہ میں اپنی

Page 91

ازواج النبی 75 حضرت عائشہ 3311 شہادت یوں بیان کرتے ہوئے فرمایا " دوستو ! مجھے ایسے لوگوں کے بارہ میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی پر تہمت لگائی ہے.اور خدا کی قسم آج تک میرے علم میں اپنی بیوی کی کوئی بُری بات نہیں آئی.پھر الزام بھی انہوں نے ایسے شخص پر لگایا ہے کہ خدا کی قسم اسکی بھی کوئی برائی کبھی میرے علم میں نہیں آئی.اور صفوان کبھی میرے گھر نہیں آیا سوائے اسکے کہ میں خود موجود ہوں، اور نہ کبھی میں کسی سفر میں گیا ہوں مگر وہ ہمیشہ میرے ساتھ شریک سفر رہا." حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں اُدھر میرا یہ حال تھا کہ میں اگلے دن تک روتی رہی دو راتیں اور دودن گزر گئے.میں تھی کہ مارے غم کے روئے ہی چلی جارہی تھی.یہاں تک میرے والدین کو یہ فکر لاحق ہوا کہ یہ رورو کر اپنی جان ہلکان کردے گی.تیسرے دن نبی اکرم می کنیم تشریف لائے.اور اس سارے عرصہ ابتلاء میں پہلی دفعہ آپ نے کھل کر مجھ سے بات کی.حضور علی تم نے کمال عدل کے ساتھ حضرت عائشہ کے سامنے پوری صور تحال رکھتے ہوئے فرمایا " آپ کو پتہ ہے مدینہ کے ماحول میں کیا کیا باتیں ہو رہی ہیں.اگر ایسی کوئی بات ہوئی ہے تو آپ خود صاف صاف بتادیں انسان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے.مگر اس کے بعد ا گر وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالی معاف فرما دیتا ہے".حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور کے سوال پوچھنے کے بعد میرے آنسو تھم گئے.تب میں نے عرض کیا یار سول اللہ علی یل ام ! آپ لوگوں نے اس الزام تراشی کی باتوں کو اتنا سنا ہے کہ یہ بات آپ کے دلوں میں پختہ ہو چکی ہے اب اگر میں حق گوئی کرتے ہوئے انکار کرتی بھی ہوں تو آپ شاید ماننے کو تیار نہ ہوں.پس میری مثال حضرت یوسف علیہ شام کے والد جیسی ہے جنہوں نے کہا تھا.فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ ( يوسف: 19) یعنی "میرے پاس سوائے صبر جمیل کے کوئی چارہ نہیں اور اللہ ہی ہے جس سے اس بارہ میں جو آپ بیان کرتے ہیں مدد مانگی جاسکتی ہے." اس وقت آنحضور ملی یہ تم پر وحی کی کیفیت طاری ہو گئی.اور سرد موسم کے باوجود آپ پسینے سے شرابور ہو گئے.جب یہ کیفیت دور ہوئی تو آنحضرت علیم نے فرمایا "عائشہ ! تمہیں مبارک ہو اللہ تعالی نے تمہاری بریت فرما دی ہے.اس موقع پر سورہ نور کی یہ آیات اتریں جن میں ذکر ہے.

Page 92

ازواج النبی 76 حضرت عائشہ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ.لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ.(النور : 13،12) یعنی یقینا وہ لوگ جو جھوٹ گھڑ لائے تم ہی میں سے ایک گروہ ہے.اس معاملہ) کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے.ان میں سے ہر شخص کیلئے ہے جواس نے گناہ کمایا جبکہ ان میں سے وہ جو اس کے بیشتر کا ذمہ دار ہے اس کیلئے بہت بڑا عذاب (مقدر) ہے.ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اُسے سنا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے متعلق محسن ظن کرتے اور کہتے کہ یہ کھلا کھلا بہتان ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہ کی یہ واضح برکت ظاہر ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی یا تم نے جھوٹا 34 الزام لگانے والے دو مردوں اور ایک عورت کو حد قذف کے طور پر سزا بھی دی.اور بعض روایات کے مطابق اتنی اتنی کوڑے لگوائے.حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ اس سارے ابتلاء کے دوران مجھے یہ خیال تو تھا کہ میرا مولی ضرور میری بریت فرمائے گا کیونکہ میں معصوم ہوں لیکن میرا اندازہ تھا کہ حضور کو کوئی خواب یار کیا آجائے گی.مجھ جیسی حقیر کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ میری بریت کے لئے آسمان سے قرآنی وحی اترے گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی.پھر جب آنحضرت کی طرف سے یہ خوشخبری سنانے پر میری والدہ نے مجھے کہا کہ "عائشہ ! اٹھو اور آنحضرت علی ایم کا شکریہ ادا کرو " تو میں نے کہا "میں تو صرف اپنے اللہ کا ہی شکر ادا کروں گی".یہ تھی حضرت عائشہ صدیقہ کی سچائی اور معصومیت کی داستان جس سے آپ کے مقام صدیقیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی.بے تکلف گھریلو ماحول میاں بیوی کے انتہائی قربت کے رشتہ میں جہاں ایک دوسرے پر اعتماد کے ساتھ توقعات وابستہ ہوتی ہیں، کبھی شکوے بھی جنم لیتے ہیں.گھر یلو سطح پر ہمہ وقت ایک ساتھ رہتے ہوئے میاں بیوی کے درمیان کسی شکایت کا پیدا ہو نا یا کسی خلاف طبع بات پر وقتی ناراضگی یا رنجش ایک طبعی امر ہے.پھر ایک سے زائد بیویوں کی

Page 93

ازواج النبی 77 حضرت عائشہ صورت میں تو یہ بات کہیں بڑھ سکتی ہے.طبعی غیرت کے جذبات کے ساتھ ان نازک تعلقات کو خوش اسلوبی سے استوار رکھنا بھی ایک اہم اور کٹھن مرحلہ ہو جاتا ہے.جسے سر کرناہر ایک کا کام نہیں.رسول الله تعلیم کے حسن خلق کا کمال یہ تھا کہ آپ نے اپنے گھر میں کبھی کوئی نا قابل تلافی شکایت یا مستقل نزاع پیدا نہیں ہونے دیا.اور کبھی کوئی ہلکے پھلکے مسائل پیدا ہوئے بھی تو آپ خوبصورت انداز میں ان کا بہترین حل نکال لیتے تھے.ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ کریم نے فرمایا " اے عائشہ ! جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے اس کا پتا چل جاتا ہے ".انہوں نے پوچھا وہ کیسے ؟ فرمایا، "جب تم مجھ سے راضی یا خوش ہوتی ہو تو بات کرتے ہوئے کہتی ہو رب محمد.مجھے محمد علم کے رب کی قسم ! بات یوں ہے.لیکن جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ورب ابراھیم کہ ابراہیم علیل نام کے رب کی قسم ! بات یوں ہے." حضرت عائشہ نے کہا " یار سول اللہ علیکم ! بات تو ٹھیک ہے مگر خدا کی قسم ! اس ناراضگی کے وقت بھی میں صرف آپ کے نام کو ہی چھوڑتی ہوں.دل سے آپ کی محبت نہیں جاتی." یہ ہمارے آقا و مولی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تھی کہ کس طرح آپ نے حضرت عائشہ کو اپنے اخلاق فاضلہ سے ย 3611 گرویدہ کر لیا تھا.ایک دن حضرت عائشہ گھر میں آنحضرت طلی یا تم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ ان کے ابا حضرت ابو بکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہانہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے ایسے بولتی ہو.آنحضرت یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابو بکر کی کسی سزا سے حضرت عائشہ کو بچالیا.جب حضرت ابو بکر چلے گئے تو رسول کریم حضرت عائشہ سے از راہ تفنن فرمانے لگے.دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ تشریف لائے تو حضرت عائشہ آنحضرت مالی اسکیم کے ساتھ جنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں.حضرت ابو بکر کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کر لو.حضرت عائشہ اپنا یہ دلچسپ واقعہ بھی سناتی تھیں کہ ایک دفعہ کسی معاملہ میں رسول کریم کے ساتھ میری کچھ تکرار ہو گئی.آپ فرمانے لگے " تم کسی کو ثالث بنالو.کیا عمر بن الخطاب منظور ہیں ؟“ حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے کہا ” نہیں وہ سخت مزاج ہیں.آپ نے فرمایا ” اچھا اپنے والد کو ثالث بنالو.“ میں نے کہا ٹھیک 37

Page 94

ازواج النبی 78 حضرت عائشہ ہے تب رسول اللہ نے حضرت ابو بکر کو بلوا بھیجا اور بات شروع ہوئی تو میں نے رسول کریم سے کہا آپ اللہ سے ڈریں اور سوائے سچ کے کچھ نہ کہیں.اس پر حضرت ابو بکڑ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا جس سے میرے ناک سے خون بہنے لگا.وہ فرمانے لگے تمہاری ماں تمہیں کھوئے.تم اور تمہارا باپ سچ بولتے ہو اور خدا کار سول حق نہیں کہتا.رسول کریم لی تم نے فرمایا ”اے ابو بکر ! ہم نے تجھے اس لئے تو نہیں بلایا تھا.حضرت ابو بکر نے گھر سے ایک کھجور کی چھڑی لیکر مجھے مارنا چاہا.میں آگے آگے بھاگی اور جاکر رسول اللہ سے چمٹ گئی.رسول کریم ملی یا تم نے حضرت ابو بکر سے کہا میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اب آپ چلے جائیں.ہم نے آپ کو اس لئے نہیں بلایا تھا.جب وہ چلے گئے تو میں رسول اللہ لی تم سے الگ ہو کر ایک طرف جا بیٹھی.آپ نے فرمایا ” عائشہ میرے قریب آجاؤ.“ میں نہیں گئی تو مسکرا کر فرمانے لگے ” بھی تھوڑی دیر پہلے تو تم نے اپنے ابا سے بچنے کیلئے میری کمر کو زور سے پکڑ رکھا تھا اور خوب مجھ سے چمٹی ہوئی تھیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور کے اخلاق یہی تھے کہ نہایت نرم خو ، نہایت کریم اور معزز ، ہمیشہ 3866 مسکراتے رہنے والے، زندگی بھر آپ نے اپنے کسی خادم یا اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں گھر میں جو ہمارے ساتھ ایسا بے تکلفی کار ہن سہن تھا کہ ہمارے ساتھ گھل مل جاتے ہماری دلچسپیوں میں شامل ہو جاتے کہ ایک دفعہ ازواج مطہرات کو آپ نے تیرہ عورتوں کی کہانی سنائی.جنہوں نے اپنے اپنے خاوندوں کے کچے چٹھے خوب کھول کھول کر سنادئے.ہر ایک نے بتایا کہ اس کا خاوند کیسا ہے اور کن خوبیوں کا مالک ہے یا اس میں کیا خامیاں ہیں.حضور طی لیں کہ ہم نے ان تمام عورتوں کا حال بیان کرنے کے بعد ایک جوڑے کا ذکر کیا.اس شخص کا نام کہانی کے مطابق ابو زرعہ بیوی کا نام اتم زرعہ تھا.حضور علیم نے فرمایا کہ یہ ابو زرعہ اور اتم زرعہ بہت ہی اچھا جوڑا اور مثالی جوڑا تھا.فرمایا کہ ابو زرعہ جیسا شوہر بہت ہی مشکل سے ملتا ہے جو عورتوں کا اتنالحاظ کرے، اتنے ان کے ناز اٹھائے اور ہر لحاظ سے ان کے لئے سہولتیں پیدا کرے.باوجود یکہ ابوزرعہ نے اتم زرعہ کو طلاق دے کر اور شادی کر لی تھی.مگر ام زرعہ نے اپنے خاوند کی جی بھر کر تعریف کی کہ اس نے مجھے ہر قسم کا آرام پہنچایا اور کھانے کے لئے وافر دیا اور کہا خود بھی کھاؤ اور اپنے والدین کو بھی بھجواؤ.حضرت عائشہ فرماتی ہیں پھر رسول کریم ال سلیم نے فرمایا کہ میری اور عائشہ کی مثال ابو زرعہ کی سی ہے.تم میری ام زرعہ اور میں تمہارا ابو زرعہ ہوں.39

Page 95

ازواج النبی 79 حضرت عائشہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ اپنے باپ حضرت ابو بکر کے جاہلیت کے مال ودولت پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس کئی لاکھ درہم تھے.رسول کریم ملی می کنیم فرمانے لگے.”اے عائشہ ! رہنے بھی دو.میں تمہارے لئے ایسے ہوں جیسے کہانی میں ابو زرعہ اتم زرعہ کے لئے تھا اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا ” نہیں یار سول اللہ صلی علیکم ! آپ میرے لئے ابو زرعہ سے کہیں بہتر ہیں.“ 66 پاک زبان حضرت عائشہ گھریلو ماحول میں ایک نہایت بے تکلف مجلس کی بات بتاتی ہیں.ایک دفعہ حضور کے سامنے گھر میں کسی شخص کی بدسلوکی کا ذکر ہوا جو وہ گھر میں یا اہل خاندان کے ساتھ روار کھتا تھا اتنے میں وہی شخص ملاقات کے لئے حاضر ہو گیا اور اجازت چاہی تو حضور بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اس سے ملے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی می کنم ! ابھی تو آپ اس آدمی کا ذکر کر رہے تھے کہ یہ اپنے خاندان سے بدسلو کی کرتا ہے اس کے باوجود آپ اس سے بہت حسن سلوک سے پیش آئے اور اس کا لحاظ کیا.اس پر آنحضور نے کتنا خوبصورت جواب دیا.فرمایا یا عائشہ! مَتَى عَاهَدُثَنِي فَخَاشَا.اے عائشہ ! تم نے مجھے پہلے کبھی دیکھا ہے کہ میں کسی کے ساتھ درشتی سے پیش آیا ہوں گویا ع وہ اپنی خو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں رسول اللہ لی لی ایم کی دعائیں 41 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے کبھی کبھار غصہ آجاتا تورسول کریم می کنیم اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ کر دعا کرتے.اللهمَّ اغْفِرْ لَهَا ذَنْبَهَا وَأَذْهِبْ غَيْظَ قَلْبِهَا وَأَعِذْهَا مِنَ الْفِتَنِ.اے اللہ ! عائشہ کے گناہ بخش دے اور اس کے دل کا غصہ دور کر دے اور اسے فتنوں سے بچالے.دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ کے عضہ ہونے پر حضور پیار سے ان کی ناک پکڑ کر فرماتے اے عویش (یعنی پیاری عائشہ ) یہ دعا کرو.اللهم رَبَّ النَّبِيِّ مُحَمَةٍ اِغْفِرْ لِي ذَنْبِى وَاذْهِبْ غَيْظَ قَلِي وَأَجِرْنِي مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ کہ اے اللہ ! نبی محمد کے رب! میرے گناہ مجھے بخش دے اور میرے دل کا غصہ دور کر دے اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے.42

Page 96

ازواج النبی 80 حضرت عائشہ ایک اور واقعہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرت طلی تیل ایک تم کو جو خوشگوار موڈ میں دیکھا تو عرض کیا کہ یارسول اللہ علیم ! آپ میرے لئے دعا کریں.حضور نے حضرت عائشہ کے لئے اسی وقت دعا کی "اے اللہ ! حضرت عائشہ کو بخش دے.اس کے سارے پہلے گناہ بھی اور اس کے آئندہ کے گناہ بھی اور اس کی جو مخفی خطائیں ہیں وہ بھی اور جو ظاہر ہیں وہ بھی معاف کر دے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اتنی خوش ہوئی کہ ہنس ہنس کے اپنا سر حضور کی گود میں ڈال دیا.میری ہنسی از راه تشکر تھی کہ آج اتنی بڑی مغفرت کی دعا میں نے حضور سے کروالی.حضور نے یہ دیکھ کر فرمایا، "اے عائشہ! کیا میری دعانے تمہیں بہت خوش کیا ہے ؟" میں نے عرض کیا یارسول اللہ لی یا تم ! یہ ہے ہی خوش ہونے کی بات ! اتنی بڑی دعا آپ نے میرے لئے کر دی ہے.آپ نے فرمایا " عائشہ ! یہ دعا میں ہر روز اپنی امت کے لئے کرتا ہوں " حضرت عائشہ کے فضائل اور رسول اللہ صلی علی کریم کا ان سے تعلق محبت آنحضرت علی ایم کے ساتھ حضرت عائشہ کی محبت کا یہی عالم تھا.ایک دفعہ حضور سے پوچھنے لگیں، کہ مجھے کسی مثال سے سمجھائیں کہ آپ کی محبت میرے ساتھ کیسی ہے؟ فرمایا! عائشہ ! تمہارے ساتھ میری محبت رتی کی پختہ گرہ کی طرح ہے.حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ علیکم ! وہ گرہ کیسی ہے ؟ فرمایاوہ گرہ بڑی مضبوط اور پختہ ہے.اس میں مرور زمانہ سے کوئی فرق نہیں آیا.اور واقعی آنحضرت طلی یا تم نے حضرت عائشہ کے ساتھ اسی طرح ایک پختہ گرہ کی طرح عمر بھر وہ تعلق نبھایا ہے.44 ایک دفعہ نبی کریم عطیہ کیا کہ تم نے فرمایا کہ میں نے عائشہ کو جنت میں دیکھا اور وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے.عائشہ کی ہتھیلیوں کی سفیدی مجھے اب بھی نظر آرہی ہے.اس کشفی نظارہ میں یہ اشارہ تھا کہ حضرت عائشہ کو جنت میں بھی آپ کی معیت نصیب ہو گی.ایک دفعہ آنحضرت سے پوچھا گیا کہ آپ کو لوگوں میں سے سب سے پیارا اور عزیز کون ہے آپ نے فرمایا ابو بکر، پوچھا گیا ان کے بعد کون؟ فرمایا کہ ابو بکر کی بیٹی.ایک اور موقع پر بعض ازواج نے آنحضرت لیلی لی کہ تم حضرت عائشہ کے بارے میں سوال کیا کہ حضور ” جس طرح محبت و شفقت کا تعلق حضرت عائشہ سے رکھتے ہیں.ایسا ہی سلوک ہمارے ساتھ بھی ہونا چاہئے.آنحضرت نے فرمایا کہ مجھے وحی حضرت عائشہ کے بستر میں ہو جاتی ہے.اس میں دراصل پیغام تھا کہ حضرت عائشہ کی نیکی و تقوی، ذہانت و فطانت اور خدمات کی وجہ

Page 97

ازواج النبی 81 حضرت عائشہ سے اللہ تعالی کا بھی ان کے ساتھ ایک نرالا سلوک ہے اور اگر ان کی خدمتوں کی وجہ سے میری دلی کیفیت کا میلان اس طرف ہے تو اس پر میرا اختیار نہیں.اس زمانہ میں یہود مدینہ کے دستور کے برخلاف رسول کریم علی کی بیویوں کے مخصوص ایام میں ان کا اور زیادہ خیال فرماتے تھے.ان کے ساتھ مل بیٹھتے.بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایام مخصوصہ میں بھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ میرے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے حضور ملی نیم گوشت کی بڑی یا بوٹی میرے ہاتھ سے لے لیتے اور بڑی محبت کے ساتھ اس جگہ منہ رکھ کر کھاتے جہاں سے میں نے اسے کھایا ہوتا تھا.میں کئی دفعہ پانی پی کر بر تن حضور ای نم کو پکڑا دیتی تھی.حضور علی اہم وہ جگہ ڈھونڈ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا تھا وہیں منہ رکھ کر پانی پیتے تھے.46 بیویوں میں عدل حضور علی لام حضرت عائشہ کی نیکی و تقوی، ذہانت و فطانت اور خدمات کی وجہ سے ان سے خاص التفات رکھتے تھے.مگر اس کے باوجود آپ کا کمال عدل تھا جو آپ تمام ازواج کے ساتھ حسن سلوک میں رکھنے کی سعی فرماتے تھے.رسول کریم ملی تم کوشش فرماتے کہ تمام بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں سرمو فرق نہ آئے.جنگوں میں جاتے ہوئے بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی فرماتے تھے اور جس کے نام کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے تھے.آیت تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ (الاحزاب:52) میں اجازت تھی کہ تُو اُن میں سے جنہیں چاہے چھوڑ دے اور جنہیں چاہے اپنے پاس رکھ.اس کے مطابق آپ کو ازواج کے بارہ میں مکمل اختیار دیا گیا تھا.اس کے باوجود آپ نے یہ اختیار اس حد تک بھی استعمال نہیں فرمایا کہ بلاوجہ معمول کی باریوں میں بھی کوئی تفریق کی ہو.حضرت عائشہ اپنے خاص انداز محبت میں عرض کیا کرتی تھیں کہ "اگر یہ اختیار مجھے ہوتا تو میں تو صرف آپ کے حق میں ہی استعمال کرتی " اور پھر واقعی حضرت عائشہ نے اس وقت اپنی وفا کا نمونہ دکھا یا جب ان کے لئے آنحضرت علی کنم یاد نیاوی مال و دولت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقع آیا تو آ نحضر عملی یا تم نے سورہ احزاب کی آیت تغییر ( یعنی سورۃ الاحزاب : 29) کی روشنی میں

Page 98

ازواج النبی 82 حضرت عائشہ اپنی بیویوں کو یہ فرمایا کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زینت کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں بہت سامال و منال دے کر رخصت کر دیتا ہوں اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت کی طلب گار ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالی نے اعلیٰ درجہ کی نیکی بجالانے والی بیویوں کیلئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول الله طی کنیم نے یہ اختیار کا آغاز مجھ سے کیا اور مجھ سے نہایت سنجیدگی سے فرمانے لگے ”اے عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھنے والا ہوں.تم اس بارے میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کر کے مجھے جواب دینا.“ 48 حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ حضور میں تم کو معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے حضور میں ہم سے جدائی کا مشورہ کبھی نہیں دیں گے.پھر حضور یا تم نے مجھے آیت تخییر پڑھ کر سنائی.میں نے کہا ” آپ کیسی بات کر رہے ہیں.میں کس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی، مجھے تو بس اللہ اور اس کار سول اور آخرت کا گھر چاہیے، آپ فرماتی تھیں کہ باقی سب ازواج نے بھی یہی جواب دیا.الغرض ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جو تقویٰ کے بلند اور روشن مینار پر فائز تھے.بسا اوقات اس خیال سے کہ دل کے جذبوں اور طبعی میلان پر تو کوئی اختیار نہیں اس لئے اگر سب بیویوں کے برابر حقوق ادا کرنے کے بعد بھی میلان طبع کسی بیوی کی جانب ہو گیا تو کہیں میرا مولی مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.انتہائی مخلصانہ عدل اور منصفانہ تقسیم کے بعد بھی آپ یہ دعا کرتے تھے کہ ” اے اللہ تو جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ انسانی حد تک جو حضۂ رسدی تقسیم ہو سکتی تھی وہ تو میں کرتا ہوں اور اپنے اختیار سے بری الذمہ ہوں.میرے مولی اب دل پر تو میرا اختیار نہیں اگر قلبی میلان کسی کی خوبی اور جوہر قابل کی طرف ہے تو مجھے معاف فرمانا.مزاج شناس بیوی 49.66 حضور میں تم کو ج آرام اور سکون حضرت عائشہ کے ہاں حاصل تھا اس کا علم تمام ازواج مطہرات کو بخوبی تھا.اس حوالے سے آخری بیماری میں آپ بار بار بے چین ہو کر پوچھتے تھے کہ عائشہ کی باری کب ہے؟ چنانچہ باقی ازواج مطہرات نے خود ہی آپ کو حضرت عائشہ کے گھر تیمار داری کی اجازت دے دی.50

Page 99

ازواج النبی 83 حضرت عائشہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آخری بیماری میں جس دن آپ میرے گھر تشریف لائے بالکل پُر سکون ہوگئے دیگر ازواج مطہرات نے جب یہ محسوس کیا کہ بیماری کی حالت میں آپ کو حسب منشاء آرام و سکون کی ضرورت ہے اور آپ کے دلی راحت و سکون کی خاطر متفقہ فیصلہ کر کے یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ میم ! ہم پسند کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ کے گھر میں ہی اب آپ کی تیمار داری ہو.چنانچہ آخری ایام میں حضرت عائشہ مسلسل حضور ملی یکم کی تیمار داری فرماتی رہیں.آپ فرمایا کرتی تھیں اور بجاطور پر آپ کو اس بات کا فخر تھا کہ حضور طی یا تم نے میرے گھر میں میرے کمرے میں اس حال میں جان دی کہ میرے سینے کے اوپر آپ کا سر تھا اور آخری لمحوں میں میر العاب حضور طلی کیم کے لعاب کے ساتھ مل گیا اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آخری بیماری میں حضور ملی در تیم لیے ہوئے تھے.حضرت عائشہ کے بھائی حضرت عبدالرحمن آئے ، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی.آپ کو مسواک کی خواہش پیدا ہوئی.حضرت عائشہ نے آپ کی نظروں کا مفہوم بھانپ کر حضرت عبدالرحمن کے ہاتھ سے وہ مسواک لی اس کو دھو کر چبا کر نرم کیا اور آنحضرت میم کی خدمت میں پیش کر دیا.حضور طی یہ کہ تم نے وہ مسواک استعمال کی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے اچھی مسواک کرتے پہلے نہیں دیکھا تھا." آپ فرماتی تھیں ان آخری لمحوں میں حضور طی تم نے میرے سینے پر سر رکھے ہوئے جان دے دی اور آپ کی زبان پر یہ کلمے جاری تھے کہ اپنے اس اعلیٰ دوست کی طرف جاتا ہوں اپنے اس بڑے اور بلند اور بزرگ و برتر دوست کی طرف میں سفر کرتا ہوں" یہ کہتے ہوئے آپ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُون.علمی مقام حضرت عائشہ علمی مزاج رکھتی تھیں.اگر چہ ان کے خواندہ ہونے کے بارہ میں اختلاف ہے.تاہم یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس قرآن کا ایک لکھا ہوا نسخہ موجود تھا.جس سے انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو بعض آیات املاء کروائی تھیں.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے رخصتانہ کے بعد کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا ہو گا.52 آنحضرت علم کا عائشہ کے ساتھ شادی کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ آنحضرت کی پاکیزہ صحبت اور تعلیم و تربیت سے فیضیاب ہوں اور علم سیکھیں اور آگے امت کو سکھانے والی ہوں.اور آپ کا یہ مقصد بدرجہ اتم پورا

Page 100

ازواج النبی 84 حضرت عائشہ ہوا.آنحضرت لی ہم نے حضرت عائشہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی.اور آپ کے اکتساب فیض ہی کی بدولت ہمیشہ کے لئے پھر حضرت عائشہ امت کی معلمہ بن گئیں.آپ نے فرمایا کہ نصف علم حضرت عائشہ سے سیکھو.امام زہری روایت کرتے ہیں آنحضرت نے حضرت عائشہ کے علمی مقام کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا اگر اس امت کی عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو عائشہ کا علم ان تمام عورتوں سے بڑھ جائے.حضرت عروہ ، حضرت عائشہ کے بھانجے اور بیٹوں کی طرح تھے کسی نے ان سے کہا.آپ کو بہت اعلیٰ درجے کے شعر یاد ہیں جو آپ برجستہ پڑھتے ہیں.انہوں نے کہا مگر اپنی خالہ حضرت عائشہ کے مقابلہ میں میری کچھ بھی حیثیت نہیں جو کسی بھی واقعہ یا معاملہ پر عرب شعراء کے کمال برجستہ اور بر محل شعر پڑھتی ہیں.حضرت عروہ نے ایک دفعہ حضرت عائشہ سے عرض کیا کہ ام المومنین آپ کے علم فقہ سے تو مجھے اسلئے تعجب نہیں ہوتا کہ آپ آنحضرت کی زوجہ مطہرہ ہیں اور عمر بھر آپ نے ان سے مسائل سیکھے ہیں.آپ کی شعر وادب سے دلچسپی اور اہل عرب کی جنگوں کی تاریخ جاننے سے بھی حیرت نہیں ہوتی کہ آپ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی ہیں، جنہیں ان علوم پر عبور تھا اور اپنے باپ سے یہ علوم آپ نے سیکھے ہوں گے ، مگر یہ تو بتائیں علم طب میں درک آپ نے کہاں سے پایا؟ حضرت عائشہ نے فرمایا:.اے میرے بھانجے ! آخری عمر میں جب آنحضرت طی یہ تم بیمار ہوئے تو اس زمانہ میں مختلف علاقوں سے کثرت سے وفود آتے تھے.وہ آنحضرت کیلئے مختلف نسخے تجویز کیا کرتے تھے.میں اپنے ہاتھ سے وہ نسخے بنایا کرتی تھی.اس زمانے سے مجھے طب میں بھی ایک مہارت اور دلچسپی پیدا ہو گئی.حضرت عائشہ کے علمی مقام کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے تھے کہ صحابہ کرسول کو جب کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی الجھن پیش آتی تو ہم حضرت عائشہ سے دریافت کرتے تھے اور ہمیں ان کے پاس سے کوئی نہ کوئی بات لازماً اس مسئلے کے بارہ میں مل جایا کرتی تھی.یہ بات آپ کے شاندار حافظے پر دلالت کرتی ہے.حضرت امیر معاویہ خود ایک بہت بڑے خطیب تھے.وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت عائشہ سے زیادہ فصیح و بلیغ مقر ر اور آپ سے بڑھ کر کوئی ذہین نہیں دیکھا.53 54

Page 101

ازواج النبی 85 حضرت عائشہ حضرت عروہ بیان کرتے تھے میں نے حضرت عائشہ سے بڑھ کر علم قرآن رکھنے والا، میراث کا علم جاننے والا ، حلال و حرام کا عالم ، علم فقہ، شعر وادب، طب کا ماہر ، تاریخ عرب اور علم الانساب کا عالم کوئی نہیں دیکھا جو بیک وقت ان تمام علوم پر یکساں قدرت رکھتا ہو.حضرت علیؓ سے علمی مناسبت 55 اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کو جو غیر معمولی علمی مقام عطا کیا تھا وہ دراصل نوعمری سے رسول کریم کی بابرکت صحبت کے فیض کا نتیجہ تھا.اس پہلو سے آپ کو اہل بیت کے ایک اور وجود حضرت علی خلیفہ راشد سے بھی خاص علمی مناسبت ہے کہ انہوں نے بھی کم سنی میں رسول اللہ علیہ سے علمی فیض اور ورثہ پایا اور اس ارشاد رسول کے مصداق ہوئے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے.تعجب ہے کہ بعض لوگ حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی باہمی مناقشت از راه تکلف ظاہر کرنے کی بات تو کرتے ہیں.مگر نامعلوم کیوں اس علمی مناسبت اور موافقات کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان کو فراموش کر جاتے تھے.کئی اہم مشکل علمی مسائل پر ان دونوں بزرگ حضرات کی عالمانہ آراء ہمارے لئے راہنمائی کا موجب ہیں.مثلاً امت میں ایک اہم مسئلہ ختم نبوت کی تفسیر کے بارہ میں پیدا ہونیوالا تھا.اسکے بارہ میں حضرت عائشہ اور حضرت علی دونوں بزرگان کی دور بین نگاہ نے بھانپ کر کیا خوب روشنی ڈالی.حضرت علی نے تو اپنے بچوں کے استاد کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ میرے بچوں کو خاتم النبیین میں لفظ خاتم تاء کی زیر سے نہیں بلکہ زبر سے پڑھانا.کیونکہ خاتم کے معنی مہر اور انگوٹھی، اور خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہیں.اسی طرح حضرت عائشہ نے بھی رسول اللہ صلی علیم سے علم پاکر اس اہم موضوع کی طرف امت کو یہ توجہ دلائی کہ قُولُوا خَاتَمَ النَّبِيِّين وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعدَهُ یہ تو کہو کہ حضور علی تیم خاتم النین ہیں مگر نہ کہو کہ آپ کے بعد نبی نہیں.اس کے علاوہ آنحضرت کے ان دونوں مایہ ناز شاگردوں کی علمی موافقت کی مثالیں موجود ہیں.مثلاً حضرت علیؓ کی رائے میں آیت يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعَكُنَّ وَأُسَرِحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (الاحزاب : 29) سے مراد طلاق نہیں تھی بلکہ دنیا و آخرت میں سے کسی ایک چیز کا اختیار مراد تھا.بعینہ یہی رائے حضرت عائشہ کی ہے 58 59

Page 102

ازواج النبی 86 حضرت عائشہ حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ دونوں نبی کریم ملی علم کی رات کی عبادت کے بارہ میں اس پر متفق ہیں کہ 60 آپ رات کے ہر حصہ میں مختلف اوقات میں نوافل ادا کیا کرتے تھے.0 حضرت عائشہ اور حضرت علی دونوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ م م جب کسی مریض کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے.أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ إِنَّكَ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا - 61 ترجمہ :.اے انسانوں کے ربّ! بیماری کو دور کر دے تو شفاء عطا فرما کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے.تیری شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں.ایسی شفاء دے جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے.پھر حضرت عائشہ اور حضرت علی میں باہم احترام کا تعلق تھا.حضرت مقداد بن شریح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ مجھے کسی ایسے شخص کے بارہ میں بتائیں جس سے میں موزوں پر مسح کے مسئلہ کے بارہ میں پوچھ سکوں.انہوں نے کہا حضرت علی کے پاس جاؤ کہ انکار سول اللہ کے ساتھ ایسا قریبی تعلق تھا کہ ان کے اکثر اوقات حضور می یتیم کی صحبت میں گزرتے تھے.میں نے حضرت علیؓ ย 62 سے آکر پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ لی لی ہم نے ہمیں سفر میں موزوں پر مسح کا ارشاد فرمایا تھا.سخاوت اور انفاق فی سبیل اللہ حضرت عائشہ عالمہ ، فاضلہ ہونے کے ساتھ بہت خدا ترس اور اللہ تعالی پر کامل توکل کر نیوالی اور اسکی راہ میں کھلا خرچ کرنے والی اور بہت سخی بزرگ تھیں.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے ایک دفعہ آپ کو دو تھیلے اشرفیوں کے بھجوائے جن میں ایک لاکھ اسی ہزار درھم تھے.حضرت عائشہ اس دن روزے سے تھیں آپ ان کو تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئیں اور اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اٹھیں جب تک کہ سارے در ہم تقسیم نہیں ہو گئے.افطاری کے وقت آپ کی لونڈی کہنے لگیں کہ ام المومنین ! ایک در ہم اپنے لئے بھی رکھ لیا ہوتا، اس سے گوشت خرید کر افطاری ہی کر لیتیں.فرمانے لگیں کہ تم یاد دلادیتیں تو رکھ بھی لیتے.گویا انہیں اپنی ضرورتوں کا بھی خیال نہیں تھا اور سب کچھ خدا کی راہ میں لٹادیتی تھیں.63

Page 103

ازواج النبی 87 حضرت عائشہ حضرت امیر معاویہ نے ایک دفعہ لاکھ درہم مالیت کا ہار آپ کی خدمت میں بھجوایا، آپ نے وہ قبول تو کر لیا 65 64 لیکن تمام ازواج میں اسے برابر طور پر تقسیم کر دیا.حضرت عائشہ کوئی چیز آئندہ کے لئے بچا کے نہیں رکھتی تھیں جو آناسب صدقہ کر دیتیں.یہ سبق بھی دراصل انہوں نے آنحضرت سے ہی سیکھا تھا.جنہوں نے آخری بیماری میں بھی حضرت عائشہ کے گھر میں فرمایا تھا کہ اے عائشہ ! وہ درہم کہاں گئے جو میں نے تمہارے پاس رکھے ہوئے تھے پھر وہ در ہم منگوا کر یہ آخری پونجی بھی صدقہ کر دی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت علیم کی وفات کے وقت گھر میں کھانے کے لئے سوائے جو کے ایک تھیلے کے اور کچھ بھی نہیں تھا.پھر خدا تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت ڈالی، ختم ہونے کو ہی نہیں آتے تھے.ایک دن مجھے خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی کہ کتنے جو باقی رہ گئے ہیں.نکال کر جوان کو ما پاتو تھوڑے دنوں میں ہی ختم ہو گئے.معلوم ہوتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک برکت عطا ہوئی تھی.66 دعا اور عبادت کا شوق آنحضرت ا تم اپنی ازواج کی تربیت کے لئے ہمیشہ مواقع کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کے دلوں میں محبت الہی پیدا کرنا، ذکر الہی اور عبادت کے شوق پیدا کرنا آپ کا مقصد ہوتا، ایک ایسے ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت علی عید یک تیم فرمانے لگے کہ اے عائشہ ! مجھے اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے کہ جس کا نام لے کر اگر دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ وہ دعا ضرور قبول کرتا ہے، حضرت عائشہ نے وفور شوق سے عرض کیا کہ یار سول اللہ صلی یا یہ وہ صفت آپ مجھے ضرور بتائیں، حضور نے فرمایا اے عائشہ ! میرے خیال میں اس صفت کا بتانا اس لئے مناسب نہیں ہے ، کہ تم اس کے ذریعے سے کوئی دنیا کی چیز نہ مانگ رہی ہو.حضرت عائشہ روٹھ کر ایک طرف ہو کر کونے میں بیٹھ رہیں.جب آنحضور نے کچھ دیر تک توجہ نہیں فرمائی تو خود ہی اٹھیں اور آکر آنحضرت ملی یکم کی پیشانی کا بوسہ لیا.جیسے منت کر رہی ہوں اور عرض کیا یارسول الله علم دیکھیں ناں ! آپ مجھے وہ صفت ضرور بتادیں تو آنحضرت لیلی تم نے فرمایا کہ اے عائشہ ! میں نے تمہیں کہا ہے کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ آپ اس کے ذریعے کچھ دنیا کی چیز چاہو یامانگو ، اس لئے میں تمہیں بتانا نہیں چاہتا.حضرت عائشہ، پھر ناراض سی ہو کر ایک طرف جابیٹھیں کہ اچھا

Page 104

ازواج النبی 88 حضرت عائشہ نہیں بتاتے تو نہ سہی پھر انہوں نے وضو کیا، مصلیٰ بچھایا اور نماز پڑھ کر حضور" کو سنا سنا کر دعا کرنے لگیں کہ اے اللہ ! تجھے اپنے سارے ناموں اور ساری صفتوں کا واسطہ ، ان صفتوں کا بھی جو مجھے معلوم ہیں اور ان کا بھی جن کو میں نہیں جانتی کہ اپنی اس بندی کے ساتھ عفو کا معاملہ کرنا.آنحضرت ملی یا تم ایک طرف بیٹھے حضرت عائشہ کی اس دعا کو سن رہے تھے اور آپ نے خوش ہو کر فرمایا " اے عائشہ وہ صفت انہیں صفات میں سے ایک ہے جو تم نے ابھی شمار کر دیں اور گن ڈالی ہیں." 6711 روحانی مقام حضرت عائشہ کاروحانی مقام اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کی آمدورفت آپ کے گھر میں 68 رہتی تھی.حضرت عائشہؓ نے حضرت جبریل علیہم کو دیکھا اور انہوں نے حضرت عائشہ کو سلام پہنچایا.0 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آنحضرت می کنیم کو گھوڑے پر سوار دیکھا اور ایک اور آدمی بھی ساتھ گھوڑے پر سوار تھا.اس نے گھوڑے کی گردن کے بالوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور اس کی شکل حضرت دحیہ الکلبی سے ملتی تھی جو بہت خوش شکل صحابی تھے.حضور ان سے گفتگو فرمارہے تھے.میں نے اس واقعہ کار سول اللہ صلی علی کی کم سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کو دحیہ الکلبی سے باتیں کرتے دیکھا تھا.آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ ! وہ جبریل علیا نام تھے اور آپ کو سلام کہہ رہے تھے.حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی علیم اللہ تعالی ان کو جزادے آپ میری طرف سے بھی ان کو سلام کہیں.حضرت عائشہ ایک اور واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت علی علیہ کی نماز پڑھ رہے تھے.میں نے دیکھا کہ باہر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی کھڑا ہے.میں نے حضور صلی علی کی کمی سے عرض کیا تو آپ باہر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ وہ جبریل علیا نام تھے.کسی مصلحت سے اندر نہیں آئے انہوں نے آنحضرت کے ذریعے حضرت عائشہ کو سلام بھجوایا.یہ تھا حضرت عائشہ کا وہ بابرکت گھرانہ جہاں آنحضرت لیلی ایم کے طفیل فرشتے نازل ہوا کرتے تھے اور فرشتوں سے ملاقاتیں ہوتی تھیں اور آپ ان کی طرف سے حضرت عائشہ کو سلامتی کا پیغام پہنچایا کرتے تھے.تواضع وانکساری 69 اس مقام اور مرتبہ کے باوجود حضرت عائشہ کے تواضع اور انکسار کی کیفیت بھی عجیب تر تھی جس کا سبق

Page 105

ازواج النبی 89 حضرت عائشہ انہوں نے آنحضرت لیلی میل کلیم سے ہی سیکھا تھا.ان کی آخری بیماری میں حضرت عبداللہ بن عباس نے عیادت کے لئے حاضر ہونا چاہا.حضرت عائشہ کو اجازت دینے میں تامل ہوا کہ وہ آئیں گے تو تعریف کریں گے اور یہ بات آپ کو ناگوار تھی لیکن جب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے بلالیا.حضرت عبد اللہ بن عباس نے آتے ہی آپ کی تسلی اور دلداری کے لئے کچھ باتیں کیں پھر کہنے لگے کہ اب رسول اللہ علیم اور دیگر پیاروں سے ملاقات میں صرف روح اور جسم کی جدائی کا معاملہ ہی باقی رہ گیا ہے.اور آپ تو رسول اللہ علیم کی سب سے عزیز بیوی تھیں.اور اس میں کیا شک ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند نہایت اعلیٰ درجے کی تھی اس لئے آپ کے لئے فکر کی کیا بات ہے؟ آپ کہنے لگیں اور کوئی بات؟ حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے کتنی برکتیں عطا کیں.تیمم کا حکم آپ کے بار گم ہونے پر ہمیں عطا ہوا تھا.پھر اللہ تعالی نے قرآن میں ان کا ذکر کیا اور ان کی برات کے بارے میں سورۃ النور میں کئی آیات اتریں.یہ تمام باتیں سن کر حضرت عائشہ نے کمال عجز و انکسار سے کہا اے عبداللہ بن عباس ! رہنے بھی دیں ان باتوں کو.آپ میری پاکیزگی اور نیکی کی یہ باتیں چھوڑیں.خدا کی قسم میں تو یہ چاہتی ہوں کہ میں بھولی بسری ہو جاتی اور میرا کوئی نام و نشان نہ ہوتا بس میں نابود ہو جاتی.اخلاق رسول مله دیدار تیم 71 حضرت عائشہ نے بہت ہی باریک بینی سے آنحضرت علی علی کریم کے اخلاق کا، آپ کی زندگی کا مطالعہ کر کے اسکا حاصل یہ بیان کیا کہ آپ کے اخلاق قرآن تھے.پھر انہوں نے بڑی تفصیل سے سنت رسول الله طی می کنیم 72 اور اسوہ نبی کے بارہ میں ہمارے لئے ایک ذخیرہ فراہم کیا.آپ سے دو ہزار دو سو احادیث مروی ہیں.حضرت عائشہ جس بات کو سب سے زیادہ بیان کرتیں اور جس سے وہ متاثر تھیں وہ آنحضرت کا عبادت الہی کے لئے شوق اور جذبہ تھا.انہوں نے بارہا بیان کیا کہ آنحضرت مالی تم گھر میں عام لوگوں کی طرح رہتے تھے.اور گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے.مگر جب نماز کا بلاوا آتا تو آ نحضرت طی می کنم کو نماز کے ساتھ ایسی کشش ہوتی تھی کہ نماز کا نام سنتے ہی لپک کر اٹھتے اور تمام کام کاج چھوڑ کے فوراً نماز کے لئے تشریف لے جاتے)

Page 106

ازواج النبی 90 حضرت عائشہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ لی لی یتیم کی رات کی عبادات کا بھی تذکرہ کیا ہے.رمضان ہو یا غیر رمضان حضور طی یکم گیارہ رکعات ادا کرتے اور لمبی نماز پڑھتے تھے.فرماتی ہیں نہایت حسین اور خوبصورت وہ نماز ہوا کرتی.میں نے بسا اوقات یہ عرض کیا کہ یار سول اللہ ملی تیم ! آپ کے پاؤں سوج جاتے ہیں اتنی محنت اور مشقت کیوں اٹھاتے ہیں.آپ فرماتے تھے کہ اے عائشہ ! جس خدا نے مجھ پر اتنے فضل کئے کیا اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.یہ تو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر تھا.دوسری طرف اہل خانہ کے حقوق کا بھی اسی طرح خیال رکھتے.جیسا کہ ذکر ہوا حضرت عائشہ سے جب حضور کے اخلاق کے بارہ میں سوال کیا گیا تو فرمانے لگیں کہ آپ کے اخلاق تو قرآن تھے یعنی قرآن شریف میں جو احکام یا اخلاق بیان ہوئے ہیں وہ تمام کے تمام بدرجہ اتم آنحضرت علی یا تم میں موجود تھے.گویا آپ چلتے پھرتے قرآن تھے.جب پوچھا گیا کہ گھر میں حضور طی یہ تم کی کیا مصروفیات ہوتی تھیں تو حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ آپ کا عام انسانوں کی طرح رہن سہن تھا کوئی اظہار تکبر یا کسی بڑائی کے خیال کا تصور ہی نہیں تھا.گھر میں رہتے ہوئے آپ اپنے ذاتی کام خود کر لیا کرتے تھے، کپڑے کو پیوند خود لگا لیتے تھے ، بکری کا دودھ خود دوھ لیتے تھے ، اسے چارہ خود ڈال دیتے تھے ، جوتے مرمت فرمالیتے تھے ، گھر کا ڈول مرمت فرمالیتے ، دینی کاموں یا مجالس سے رات کو جب گھر تشریف لایا کرتے تو اہل خانہ کو جگا کر بے آرام نہیں کرتے تھے بلکہ خود ہی دودھ یا کوئی کھانے پینے کی چیز لے لی اور سو گئے.گھر والوں کے آرام کا لحاظ رکھتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں رات جب نماز کے لئے اٹھتے تھے تو بہت دیر عبادت کرنے کے بعد جب کچھ 75 وقت طلوع فجر میں باقی رہ جاتا تھا تو پھر ہمیں بھی بیدار کرتے تاکہ ہم بھی کچھ نوافل وغیر ہ ادا کر لیں.تعدد ازدواج 76 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے حضرت خدیجہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی.ان کے بعد حضرت سودہ سے شادی ہوئی اور پھر حضرت عائشہ سے.

Page 107

ازواج النبی 91 حضرت عائشہ حضرت عائشہ تنہا وہ پہلی کنواری خاتون ہیں جو رسول اللہ ی ی ی یتیم کے عقد میں آئیں.دیگر ازواج سے بیوگی یا طلاق کے بعد آپ کا نکاح ہوا، سوائے حضرت ماریہ کے.تاہم حضرت عائشہ کے نکاح سے تعدد ازدواج کا سلسلہ شروع ہوا.اس لئے یہاں اس بارہ میں مختصر وضاحت مناسب ہو گی.اسلام میں تعدد ازدواج کا انتظام یا سہولت کسی حکم یا قاعدہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک استثناء ہے.جس کی اجازت نکاح کے اغراض کے حصول اور نسل انسانی کی جائز ضروریات پورا کرنے کیلئے خاص حالات میں دی گئی ہے اور اسے اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے کہ اگر انسان عدل کرنے کے قابل ہو سبھی وہ تعددِ ازدواج کرے.ورنہ ایک بیوی پر اکتفاء کرے اور پھر اسلام کی طرف سے یہ رخصت ان حالات میں دی گئی جبکہ عربوں میں تعدد ازدواج کی کوئی حد بندی نہیں تھی.ہر شخص جتنی مرضی بیویاں رکھ سکتا تھا.اسلام نے اس کو ضرورت کی بنیاد پر اور عدل کی شرط کے ساتھ صرف چار تک محدود کر دیا.جہاں تک آنحضرت علیم کے تعدد ازدواج کا تعلق ہے بطور ایک مذہبی راہنما اور لیڈران کے اغراض اور مقاصد خالصتادینی تھے.مثلاً یہ کہ آپ کے عملی نمونہ کے ذریعے عربوں کی جاہل رسومات کا خاتمہ ہو.اسی طرح حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کے ذریعے متبنی کی رسم کا خاتمہ ہوا.ایک بڑا مقصد مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت بھی تھا.کیونکہ آنحضرت علی ایم کے ذریعے ایک نئے قانون اور تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑنی تھی.اگر نبی کریم التی یا یتیم کی شادیاں نفسانی اغراض کی خاطر ہو تیں تو آنحضرت طلیلی یا تم ادھیڑ عمر ، بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح نہ کرتے.جیسے حضرت ام سلمہ نے خود شادی کے وقت عمر رسیدگی کا عذر بھی کیا.پھر جس کنواری خاتون سے شادی ہوئی اور جس کی باری نویں دن آتی تھی اسکا بیان کردہ یہ واقعہ سن کر غور کیجئے کہ کیا یہ شادی محض نفس پرستی کیلئے شمار ہو سکتی ہے.حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہ سے عرض کیا کہ رسول کریم کی کوئی بہت پیاری اور خوبصورت کی بات سنائیں.حضرت عائشہ نے فرمایا ان کی تو ہر ادا ہی پیاری تھی.ایک رات میرے ہاں باری تھی.آپ تشریف لائے اور میرے ساتھ بستر میں داخل ہوئے.آپ کا بدن میرے بدن سے چھونے لگا.پھر فرمانے لگے اے عائشہ ! کیا آج کی رات مجھے اپنے رب کی عبادت میں گزارنے کی

Page 108

ازواج النبی 92 حضرت عائشہ اجازت دو گی.میں نے کہا مجھے تو آپ کی خواہش عزیز ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں پھر آپ اٹھے ، مشکیزہ سے وضو کیا، اور نماز میں کھڑے ہو کر قرآن پڑھنے لگے.پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپ کا دامن آنسوؤں سے تر ہو گیا.پھر آپ نے دائیں پہلو سے ٹیک لگائی.دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر کچھ توقف کیا.پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپ کے آنسوؤں سے فرش زمین بھیگ گیا.صبح دم بلال نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپ کو روتے پایا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ بھی روتے ہیں؟ حالانکہ اللہ نے آپ کو بخش دیا.فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.پھر فرمانے لگے میں کیوں نہ روؤں جبکہ آج رات مجھ پر یہ آیات اتری ہیں اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ والْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ.آپ نے آل عمران کے آخری رکوع کی یہ آیات پڑھیں اور فرمایا ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے یہ آیات پڑھیں اور ان پر غور نہ کیا.یہ وہ حقائق ہیں جنکو محقق مستشرقین کیلئے بھی قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں.چنانچہ مسٹر مار گو لیتھ بھی جن کی آنکھ عموماً ہر سیدھی بات کو الٹا دیکھنے کی عادی ہے آنحضرت طلیم کے تعدد ازدواج کے بارہ میں حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہو کر لکھتے ہیں.77 محمد ) کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمد (مم) یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعے سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کر لیں.ابو بکر و عمر کی لڑکیوں کی شادیاں یقیناً اسی خیال کے ماتحت کی گئی تھیں.اسی طرح سر بر آوردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمد ( یا ریتم ) کی شادیاں سیاسی اغراض کے ماتحت و قوع میں آئی تھیں." پروفیسر ڈاکٹر ویگلیری لاراویسیا لکھتی ہیں :.رض سوائے حضرت عائشہ اور حضرت ماریہ : ناقل) کے آپ نے ایسی عورتوں سے نکاح کیا جو نہ تو کنواری تھیں نہ جوان اور نہ ہی غیر معمولی خوبصورت.کیا یہی عیاشی ہوتی ہے؟"

Page 109

ازواج النبی وفات 93 حضرت عائشہ حضرت عائشہؓ کی وفات 17 / رمضان 58 ہجری میں آنحضرت لیلی لی ایم کی وفات سے قریباً نصف صدی بعد ہوئی.حضرت ابو ہریرہ ، مروان کی طرف سے اس وقت مدینہ میں امیر تھے.انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.جہاں آپ نے تدفین کے لئے وصیت فرمائی تھی.دراصل آپ نے اپنے اس حجرے میں جس میں آنحضرت لیلی نیم اور حضرت ابو بکر مد فون ہیں ، اپنے لئے جگہ رکھی ہوئی تھی، جب حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ ہوا.انہوں نے پیغام بھجوایا کہ اے ام المومنین ! اگر مجھے میرے ساتھیوں کے ساتھ تدفین کے لئے جگہ کی اجازت مل جائے تو کیا خوب ہو.حضرت عائشہ نے فرمایا یہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی مگر اب میں اپنے اوپر آپ کو ترجیح دیتی ہوں.اپنی وفات سے پہلے آپ نے وصیت فرمائی کہ میں یہ پسند نہیں کرتی کہ باقی بیویوں پر مجھے کچھ ترجیح ہو.اس لئے باقی ازواج مطہرات کے ساتھ مجھے بھی جنت البقیع میں دفن کر دینا.اور یوں حضرت عائشہ اپنے پیاروں کے پاس اپنے محبوب ترین وجود حضرت محمد صلی علی کریم کے قدموں میں پہنچ گئیں.0 80 اللَّهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ **** ****

Page 110

ازواج النبی 94 حضرت عائشہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 ابن ہشام جلد 1 ص 288 ابن سعد جلد 8 ص 277 حوالہ جات الطبقات الکبری 8/ 79- مستدرک جلد 4 ص 5- السيرة الحلبية 4 ص133.سیرت خاتم النبيين ص424 بخاری کتاب النکاح باب النظر الى المرأة قبل التزويج.مسند احمد جلد 6ص128 مسلم کتاب النکاح باب تزویج الاب البكر الصغيرة- سیرت خاتم النبيين صفحہ 423 منجم الكبير جلد 23 ص 57، جلد 24 ص80، مسند احمد جلد 6 ص 210.مجمع الزوائد جلد 9ص228 بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب تزویج النبی عائشہ نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9ص378،377 آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10ص64 كشف الغمة عن عمر أم الأمة مصنفہ حکیم نیاز احمد ، جلد 2 ص 158تا162.سیرت خاتم النبین از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ص 423 تا425 ابو داؤد کتاب الادب باب في الارجوحة مسند احمد جلد 6ص438، معجم الكبير لطبرانی جلد 23 ص63 بخاری کتاب الادب باب الانبساط الى الناس 15 ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر 16 ابوداؤد کتاب الادب باب فی اللعب بالبنات 17 بخاری کتاب العیدین باب سنة العيدين 18 بخاری کتاب المساجد باب اصحاب الحراب في المسجد

Page 111

ازواج النبی 19 20 21 22 23 24 25 95 حضرت عائشہ سنن ابوداؤد کتاب الجہاد باب السبق في الرجل + مسند احمد بن حنبل جزء 6 ص 264 حیات محمد تالیف امیل در منغم ص250-251 بخاری کتاب الجہاد باب مداوة النساء الجرحى بخاری کتاب الجہاد باب غز والنساء و قتالصن بخاری کتاب الجہاد باب دواء الجرح باحراق 26 بخاری کتاب الجہاد باب حمل الرجل امرأته في الغزو بخاری کتاب الجہاد باب غزوۃ النساء - کتاب المغازی باب الافک.کتاب الشہادات باب شھادۃ القاذف بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہ 27 مسلم کتاب الاطعمة باب ما يفعل الضيف اذا تبعه غیر من دعاه صاحب الطعام 28 29 30 ابو داؤد کتاب الادب باب في المرأة تكنی مسند احمد جلد 6 ص 93، ابن حبان ص 7073 بخاری کتاب الشهادات باب تعديل النساء بعضهن بعضاً 31 بخاری کتاب التیمم حدیث نمبر 1 32 33 34 35 36 بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکة بدراً بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک.مسند احمد جلد 6ص59 بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک.مسند احمد جلد 6ص35 بخاری کتاب المغازی باب الافک بخاری کتاب النکاح باب غيرة النساء 37 ابو داؤد کتاب الادب باب ما جاء في المزاح 38 39 السمط النجوم جلد 1 ص 191.ازواج النبی ص 100 بخاری کتاب النکاح باب حسن المعاشرة مع الاهل

Page 112

ازواج النبی 96 40 42 مجمع الزوائد جلد 4 ص317 بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی فاحتا الوفا باحوال المصطفے الابن جوزی ص674 بیروت 43 مستدرک حاکم جلد 4 ص 13- مجمع الزوائد جلد 9ص391 44 مسند احمد بن حنبل جلد 6ص138 45 بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب فضل عائشہ 46 47 48 49 ابو داؤد كتاب الطهارة باب في مواكلة الحائض بخاری کتاب الجہاد باب حمل الرجل امر الله فى الغزو بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحزاب ابوداؤد کتاب النکاح باب في القسم بين النساء حضرت عائشہ 50 بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہ 51 بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی 2 بخاری کتاب فضائل القرآن تالیف القرآن 53 مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 218 54 المعجم الكبير جزء 23 صفحہ 183 55 56 مستدرک حاکم جلد 4 ص 12.دلائل النبوۃ جلد 7 ص 428- الاصابہ جلد 8 ص18 مستدرک حاکم جزء 3 ص 137 57 تفسیر در منثور للسیوطی آیت خاتم النبيتين جلد 6 ص 618 58 59 60 60 مصنف ابن ابی شیبہ جلد 5 ص336و تفسیر الدرالمنثور جلد 6ص618 مسند احمد جلد 1ص78، جلد 6ص185 مسند احمد جلد 1 ص 147، جلد 6 ص 46

Page 113

ازواج النبی 61 62 63 64 65 66 مسند احمد جلد 6 ص 44 ، جلد 1 ص 76 مسند احمد جلد 1 ص 118 طبقات الكبرى جلد 8 ص 67 مستدرک حاکم جلد 4 ص 15 مجمع الزوائد جلد 3ص308 97 حضرت عائشہ 67 68 69 70 71 72 بخاری کتاب النمس باب نفقته النساء ابن ماجہ کتاب الدعا باب اسم الله الاعظم بخاری کتاب بداء الخلق باب ذکر الملائكة بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائكة مسلم کتاب اللباس باب لا تدخل الملائكة طبقات الکبریٰ جلد 8ص174 ازواج النبی ص 125 73 بخاری کتاب الادب باب کیف یکون الرجل فی اللہ 74 بخاری کتاب التجد باب قیام النبی صلی علی تیم 75 مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف.مسند احمد جلد 5 ص116 و جلد 6ص256 76 بخاری کتاب العلم باب العلم والعظة بالليل 77 78 79 تفسیر در المنشور جلد 2 ص 195 مار گولیس ص 176،177 An Interpretation of Islam p.24,28,67,68 80 بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی.مستدرک حاکم جلد 4 ص 7 بیروت

Page 114

ازواج النبی 98 ام المؤمنین حضرت حفصہ فصائل:.ย حضرت حفصہ رسول اللہ صلی علی تم کو خدائے عالم الغیب کی طرف سے حضرت حفصہ کے عبادت گزار ہونے کی سند عطا ہوئی.آنحضرت سلم نے فرمایا " حفصہ ! مجھے جبرائیل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی ہے کہ تم بہت پابند صوم و صلوۃ ہو.اور یہ بشارت بھی دی ہے کہ آپ کی یہ بیوی جنت میں بھی آپ کے ساتھ ہو نگی." نام و نسب ام المومنین حضرت حفصہ حضرت عمر بن الخطاب ( اسلام کے دوسرے خلیفہ) کی صاحبزادی تھیں جن کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو عدی سے تھا.آپ کی والدہ حضرت زینب بنت مظعون صحابیہ رسول ، حضرت عثمان بن مظعون کی بہن اور قریش کی شاخ بنو صبح سے تھیں.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت عبد الرحمان بن عمرؓ آپ کے سگے بھائی تھے.آپ کی پیدائش آنحضرت می کنیم کی بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی.اسی زمانے میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی تھی جس سے آپ کی پیدائش کا سال یادر کھا جاتا ہے.رسول اللہ صلی یا اسکیم سے عقد حضرت حفصہ بنت عمر کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ سہمی سے ہوئی.یہ وہ وفا شعار صحابی تھے جنہیں بدر میں شرکت کی سعادت ملی اور ایسے سخت زخم آئے جن کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوئی.بعض دیگر روایات کے مطابق آپ کی شہادت دراصل اُحد میں شرکت کے بعد لگنے والے زخموں کے نتیجے میں ہوئی تھی.ان کی وفات کے بعد حضرت حفصہ آنحضرت صلی علی ایک یتیم کے عقد میں آئیں.یہ واقعہ ہجرت کے قریباً تیس ماہ بعد دوسرے یا تیسرے سال ہجرت کا ہے.حضرت خنیس بن حذافہ کی شہادت کے بعد جب حضرت حفصہ نبیوہ ہو گئیں تو ان کی عدت پوری ہو جانے

Page 115

ازواج النبی 99 حضرت حفصہ کے بعد طبعاً حضرت عمرؓ کو اپنی 21 سالہ اس جواں سال بیٹی کے رشتہ کی فکر دامن گیر ہوئی، انہوں نے اپنے قریب ترین دوستوں میں یہ رشتہ طے کرنا چاہا.پہلے حضرت عثمان کو حضرت حفصہ کا رشتہ پیش کیا.انہوں نے جوابا کہا کہ فی الحال وہ دوسری شادی کا ارادہ نہیں رکھتے.حضرت عمرؓ کی فکر اپنی جگہ قائم رہی، چنانچہ انہوں نے حضرت ابو بکر کو یہ رشتہ پیش کیا.مگر وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا کچھ دن گزرے تو آنحضرت علیم کی طرف سے حضرت حفصہ کے رشتہ کا پیغام آیا جو حضرت عمرؓ نے بڑی خوشی سے قبول کر لیا.5 رض اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جب حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ سے ملے تو ان سے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ جب آپ نے حفصہ کے رشتہ کا ذکر مجھ سے کیا تو میں خاموش رہا تھا.شاید اس خاموشی سے آپ کو کچھ رنج ہوا ہو.حضرت عمر صاف گو انسان تھے.فرمانے لگے واقعی مجھے بھی اس بات سے صدمہ پہنچا تھا کیونکہ میں نے خاص تعلق محبت سے آپ کو اس رشتہ کی پیش کش کی اور آپ نے کوئی جواب ہی نہ دیا.حضرت ابو بکر نے وضاحت فرمائی کہ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کی طرف سے رشتہ کی تجویز سے کچھ عرصہ قبل آنحضرت لالی کنم بطور مشورہ حفصہ کے رشتے کا ذکر اپنی ذات کے لئے مجھ سے فرما چکے تھے.اس لئے میں خاموش رہا کیونکہ میں آنحضرت ام کی راز دارانہ مشاورت کا پیشگی ذکر آپ سے نہیں کر سکتا تھا.یہاں تک کہ خود حضور کی طرف سے یہ مبارک پیغام آپ کو پہنچ جائے.ہاں اگر حضور لیل لی کہ ہم نے اس رشتہ کا ذکر اپنے لئے نہ کیا ہوتا تو میں آپ کی خواہش کے احترام میں ضرور یہ رشتہ قبول کر لیتا.حضرت عمر نے آنحضرت سلیم کی خدمت میں بھی یہ عرض کر دیا تھا کہ یارسول اللہ ! میں نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کے سامنے حفصہ کا رشتہ پیش کیا مگر انہوں نے قبول نہ کیا.آنحضرت علی کریم نے بھی ایسا پیارا جواب دیا جس سے ان کی تسلی ہو گئی.آپ نے فرمایا کہ اے عمر ! اللہ تعالی آپ کی بیٹی کے رشتے کا جو انتظام کریگا وہ عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کو جو رشتہ عطا کرے گا وہ آپ کی بیٹی سے بہتر ہے.اور پھر یہی ہوا کہ آنحضرت علی ایم کے ساتھ حضرت حفصہ بنت عمر کا عقد ہوا اور حضرت عثمان کی شادی آنحضرت علی کیم کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے ہو گئی.یہ واقعہ حضرت عثمان کی پہلی بیوی حضرت رقیہ بنت رسول اللہ کی وفات کے بعد کا ہے.جب ایک طرف وہ اپنی بیوی حضرت رقیہؓ کی وفات کے صدمے سے نڈھال تھے تو تم

Page 116

ازواج النبی 100 حضرت حفصہ دوسری طرف یہ احساس غالب تھا کہ آنحضرت علی ی ی یتیم کے ساتھ ان کی دامادی کا تعلق نہیں رہا.اسی دوران حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت حفصہ کے رشتہ کی تجویز ہوئی مگر حضرت عثمان نے معذرت کر لی.بعد میں حضرت ام کلثوم بنت رسول اللہ لی تعلیم کے ساتھ حضرت عثمان کی شادی ہو گئی اور یوں رسول اللہ یتیم کی یہ بات پوری ہو گئی.گھر یلوزندگی حضرت حفصہ بنت عمرہ کے مزاج میں اپنے والد کی جلالی طبیعت کا کچھ رنگ موجود تھا.خود حضرت عمرؓ بھی انہیں نرم خوئی کی نصیحت کیا کرتے تھے جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے.حضرت حفصہ کی یہ کیفیت حضرت عائشہ کے بیان کردہ ایک واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے.ان دونوں ازواج میں سوت پن کے باوجود آپس میں دوستی بھی بہت تھی.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اور حفصہ کو نفلی روزہ تھا.ہم دونوں گھر میں تھیں کہیں سے کھانے کی کوئی چیز تحفہ میں آئی.ہم نے باہم مشورہ کیا کہ نفلی روزہ کھول کر کھانا کھا لیتے ہیں، پھر روزہ کھول لینے کے بعد فکر بھی ہوئی کہ نفلی روزہ توڑنے کا کہیں گناہ نہ ہو.جب حضور طی نیم گھر تشریف لائے تو حضرت حفصہ نے مجھے اپنے سے پہلے یہ سوال پوچھنے کی مہلت نہ دی.فرماتی ہیں "وَكَانَتْ ابْنَةَ ابنها "آخر وہ کس باپ کی بیٹی تھیں.کہنے لگیں یارسول اللہ ! کہیں سے کھانا آیا تھا ہم نے کھانا کھا کر نفلی روزہ کھول لیا.اب آپ بتائیں ہم کیا کریں؟ حضور نے فرمایا " اب اس کے بدلے میں آپ دونوں کو نفلی روزہ رکھنا ہو گا.اس واقعہ سے ازواج مطہرات کی نفلی عبادات کے شوق اور جذبہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے.حضرت حفصہ کی طبیعت اور مزاج کی مناسبت سے یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ علیم نے کچھ عرصہ کیلئے بعض مصالح کے تحت ایک ماہ کیلئے ازواج سے علیحدگی اختیار کی.اس دوران مشہور ہو گیا کہ آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے، انہی دنوں کی بات ہے حضرت عمرؓ کی بیوی نے کسی معاملہ میں انہیں مشورہ دینا چاہا تو وہ سخت خفا ہوئے کہ مردوں کے معاملات میں عورتوں کی مداخلت کے کیا معنی ؟ تب ان کی بیوی کہنے لگیں کہ آپ کی اپنی بیٹی حفصہ تو رسول اللہ لی لی ایم کے آگے بولتی اور ان کو جواب دیتی ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ رسول کریم مالی یک تیم سارا سارا دن اس سے ناراض رہتے ہیں.حضرت عمرؓ کو یہ بات سخت ناگوار ہوئی اور وہ فوراً اپنی بیٹی حفصہ کے گھر پہنچ گئے اور پوچھا کہ کیا تمہارے آگے سے بولنے کی وجہ سے

Page 117

ازواج النبی 101 حضرت حفصہ رسول الله على ام بعض دفعہ سارا سارا دن تم سے ناراض رہتے ہیں.انہوں نے عرض کیا کہ ہاں بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا " یاد رکھو عائشہ کی ریس کرتے ہوئے تم کسی دن اپنا نقصان نہ کر لینا" پھر حضرت عمرؓ اپنی رشتہ دار اور حضور کی دوسری زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کو بھی یہی نصیحت کرنے چلے گئے.انہوں نے بھی کیا خوب جواب دیا کہ اے عمر ! اب رسول اللہ علی قلم کے گھریلو معاملات میں بھی آپ مداخلت کرنے لگے ہو.کیا اس کے لئے خود رسول اللہ مال لیلی کیم کافی نہیں ہیں.حضرت عمرؓ بیان فرماتے تھے" میں خاموشی سے واپس چلا آیا اور اسی وقت یہ واقعہ آنحضرت لیلی کیم کو جاسنا یا جس پر آپ پریشانی کے اس عالم میں بھی خوب محظوظ ہو کر مسکراتے رہے.واقعہ طلاق 9 حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ملی تم نے حضرت حفصہ کو طلاق دی اور پھر رجوع فرمالیا.حضرت انس بن مالک سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ملی ہم نے جب حضرت حفصہ کو طلاق دی تو آپ کو رجوع کا حکم ہوا اور آپ نے رجوع فرمالیا.قیس بن زید سے روایت ہے کہ حضور علی یم نے ایک دفعہ حضرت حفصہ کی طلاق کا ارادہ کیا.اتفاق سے اس موقع پر حضرت حفصہ کے ماموں کا ان کے گھر آنا ہوا تو وہ بے اختیار رو پڑیں اور کہنے لگیں" خدا کی قسم ! یہ مت سمجھنا کہ کسی اکتاہٹ یا بیزاری کی وجہ سے آنحضرت ملی تم نے مجھے طلاق دی ہے " اور جیسا 12, کہ ارشادِ ربانی ہے يأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (الطلاق: 2) یعنی اے نبی.جب تم طلاق دو عورتوں کو تو ان کو طلاق دو انکی عدت پر اور گنتے رہو.اس وقت تک حضور نے صرف پہلی طلاق کا ہی ذکر فرمایا تھا جس کے بعد رجوع کا امکان تو باقی تھا.مگر رنجیدہ خاطر ہونے کے باوجو در سول اللہ صلی علیا کی تم سے کسی شکوہ کی بجائے وہ آنحضور علی سلیم کا دفاع کرتے ہوئے ساری ذمہ داری اپنے سر لے رہیں تھیں.جس سے ان کا جذ بہ فدائیت ظاہر وباہر ہے.دریں اثناء حضور گھر تشریف لائے تو حضرت حفصہ اپنی چادر سنبھالنے لگیں.رسول اللہ لی ہم نے طلاق کا فیصلہ واپس لینے کی خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا " جبرائیل "میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ حفصہ سے رجوع کرلیں.وہ روزے رکھنے والی اور بہت عبادت گزار ہیں اور یہ جنت میں بھی آپ کے ساتھ ہو نگی "

Page 118

ازواج النبی 102 حضرت حفصہ بلاشبہ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت حفصہ کے حق میں یہ ایک عظیم الشان گواہی ہے.جس سے آپ کے روحانی مقام کا بھی اندازہ ہوتا ہے.دوسری روایت میں ذکر ہے کہ حضرت حفصہ کی طلاق کی اطلاع جب حضرت عمرؓ کو پہنچی تو انہوں نے سخت فکر مندی اور گھبراہٹ کے عالم میں اپنے سر میں خاک ڈال کر کہا کہ جب میری بیٹی رسول اللہ صلی می کنیم 15 کے عقد میں نہیں رہے گی تو اللہ تعالی عمر کی کیا پر واہ کر یگا.0 حضرت عمرؓ کا یہ رد عمل ان کی کمال عاجزی اور انکساری کے ساتھ محبت رسول ” کو بھی ظاہر کرتا ہے.الغرض حضرت عمرؓ اپنی تمام تر جرات اور حوصلہ مندی کے باوجود بہت فکر مند ہوئے کہ یہ رشتہ نہ رہا تو خدا معلوم کیا بنے گا.اللہ تعالیٰ نے ان کی التجاء سنی.چنانچہ دوسری روایت کے مطابق آنحضرت طلی تم نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا تھا " اللہ تعالی نے مجھے حفصہ سے رجوع کا حکم دیا ہے اور اس کا ایک سبب حضرت عمر پر اللہ تعالی کی رحمت اور شفقت کا اظہار بھی ہے." چنانچہ آپ نے طلاق سے رجوع کر لیا.حضرت حفصہ سے طلاق کے بعد رجوع کا یہ واقعہ صحاح ستہ کی کتب ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ کے علاوہ طبرانی اور ابن سعد وغیرہ میں مذکور ہے جو جائے اعتراض نہیں.بے شک عام حالات میں طلاق ناپسندیدہ ہے، مگر اس کے باوجود بشرط تقویٰ اور عند الضرورت جو از طلاق اسلامی تعلیم کی جامعیت اور سہولت کا ایک امتیازی پہلو ہے اور یہ جملہ روایات سورہ طلاق کی آیت 2 اور سورہ بقرہ کی آیت 230 کی عملی تفسیر نبوی ہیں.جن سے سنتِ طلاق کے ساتھ سنت رجوع طلاق کا بھی علم ہوتا ہے.اور جہاں تک کسی بیوی کو طلاق دینے یا اس کے ارادہ کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود نے اصولی اور عقلی طور پر رسول اللہ لی ایم کے ارادہ طلاق کا جواز حضرت سودہ کے حق میں تسلیم کرتے ہوئے فرمایا ہے ”اس میں بھی کوئی برائی نہیں.اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے.خشیت 17 66 حضرت حفصہ نے رسول اللہ علیم سے دجال کے بارہ میں جو کچھ سنا تھا اس پر ایسا پختہ ایمان اور یقین تھا کہ شبہ کی بناء پر بھی اس سے خائف رہتی تھیں.مدینہ میں ایک مشتبہ الحال مجذوب سا شخص ابن صیاد تھا.اس میں دجال کی بعض نشانیاں پائے جانے کی خبر سن کر اس اندیشہ کا اظہار فرمایا کہ کہیں وہی دجال نہ ہو.رسول

Page 119

ازواج النبی 103 حضرت حفصہ کریم سلیم بھی حقیقت حال معلوم کرنے اسکی جائے رہائش تشریف لے گئے.اور اس سے کچھ سوالوں کے جواب پوچھ کر فرمایا کہ تم اپنی اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے.رسول اللہ سکیم کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ مدینہ کی کسی گلی میں آپ کے بھائی عبد اللہ کا ابن صیاد سے سامنا ہو گیا.انہوں نے اسے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے وہ سخت طیش میں آگیا اسکی رگیں پھول کر حالت غیر ہو گئی اس کے اظہار غصہ کی کیفیت کو دیکھ کر گلی لوگوں سے بھر گئی.حضرت ابن عمر اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس آئے تو انہیں اس واقعہ کا علم ہو چکا تھا.انہوں نے اپنے بھائی حضرت عبد اللہ سے فرمایا کہ ابن صیاد کے ساتھ تکرار سے آپ کا کیا مقصد تھا؟ آپ کو پتہ نہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم نے دجال کے خروج کی ایک نشانی اس کا غصہ بھی بیان کیا تھا.اس لئے اسے نظر انداز کرنا چاہئے تھا.18 رسول اللہ علی ایم کی ازواج سے حسن معاشرت اور فیض صحبت کی برکت رسول الله علی کریم کے عقد میں بیک وقت کئی ازواج کی موجودگی اور حضرت عائشہ و حفصہ کی دوستی کے باعث بسا اوقات آپس میں ایسے معاملات ہو جایا کرتے تھے جن سے وقتی طور پر حضور طی یتیم کے لیے بھی ایک عجیب مشکل صورتحال پیدا ہو جاتی مگر آنحضرت میں نم ہمیشہ عفو اور در گزر کا سلوک فرمایا کرتے تھے.ایک سفر میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ دونوں شریک تھیں.آنحضرت میم سفر میں رات کو حضرت عائشہ کے ساتھ سفر کرتے اور ان سے باتیں کرتے تھے.حضرت حفصہ نے ان سے کہا کیا آج رات آپ میرے اونٹ پر سوار نہیں ہو جاتیں اور میں آپ کے اونٹ پر سوار ہو جاؤں.پھر تم بھی دیکھو اور میں بھی دیکھوں.حضرت عائشہؓ نے کہا ہاں ٹھیک ہے.پھر وہ ان کے اونٹ پر سوار ہو گئیں.حضور طی کنیم (حسب عادت ) حضرت عائشہؓ کے اونٹ کی طرف آئے جس پر اب حفصہ تھیں.آپ نے ان کو سلام کیا پھر روانہ ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے پڑاؤ کیا.ادھر حضرت عائشہ کو رسول اللہ لی یمن کی جدائی کا احساس ہوا چنا نچہ پڑاؤ کی جگہ انہوں نے گھاس پر اپنے پاؤں رکھ دئے اور کہتی رہیں کہ اے میرے رب ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کردے.جو مجھے کاٹ لے.در آنحالیکہ میں آنحضور عمل می کنیم کو کوئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتی.مگر یہ آنحضرت مال یتیم کا ہی اعلیٰ ظرف تھا کہ آپ نے دونوں ازواج سے در گزر فرمایا.

Page 120

ازواج النبی 104 حضرت حفصہ 20 ازواج کی کبھی کبھار باہمی مناقشت کو آنحضرت علی کم کمال حکمت عملی سے دور فرما دیتے تھے.ایک دفعہ حضرت حفصہ نے حضرت صفیہ کو طعنہ دے دیا کہ تمہارا تعلق تو یہودی قبیلے سے ہے اور تم یہودیوں کی اولاد ہو.اس پر وہ رونے لگیں.حضور علی می کنیم گھر تشریف لائے تو حضرت صفیہ کو روتے دیکھ کر فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ آپ نے رسول اللہ علیم سے حضرت حفصہ کی اس بات کا ذکر کیا کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم قریش کے خاندان سے ہیں اور تم یہودیوں کی بیٹی ہو.حضور طی می کنیم نے فرمایا " تم ایک نبی (ہارون) کی بیٹی ہو اور تمہارے چچا حضرت موسی بھی نبی تھے.اور تم خود نبی کی بیوی ہو.پھر وہ (حفصہ) تم پر کس طرح فخر کر سکتی ہیں.( یعنی میرا تو تین نبیوں سے تعلق بنتا ہے اور تم ایک نبی کا تعلق مجھ پر جتلا رہی ہو ) پھر آپ نے فرمایا اے حفصہ ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو" اسی طرح کے ایک واقعہ کی تفصیل احادیث میں یوں مذکور ہے کہ آنحضرت علی تم کسی بیوی کے ہاں شہد کا شربت پینے کے لئے ٹھہر گئے.جہاں آپ کو کچھ تاخیر ہو گئی.حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ کو اس بیوی پر غیرت آئی اور دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ حضور کو آئندہ اس سے روکنے کے لئے اس شہد کے کسی نقص کی طرف توجہ دلانی چاہئے.چنانچہ حضور جب ان کے ہاں ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تو پہلے حضرت حفصہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! آج آپ نے کوئی بو دار شہر پیا ہے ؟ شاید اس کی مکھی فلاں بوٹی پر بیٹھتی اور اس کارس چوستی ہو گی.پھر آپ حضرت عائشہ کے ہاں گئے تو انہوں نے بھی ایسا ہی ذکر کر دیا.آنحضرت طی می کنم نے اپنی نفاست طبع کے باعث کہ کسی کو مجھ سے تکلیف نہ پہنچے یہ عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی شہد نہیں پیوں گا.چنانچہ سورۃ تحریم میں ارشاد ہوا: - يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمُ - (التحريم:2) یعنی اے نبی اس چیز کو محض اپنی بیویوں کی خواہش کی خاطر اپنے لئے کیوں حرام کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کی ہے.روایات حدیث 21 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت حفصہ نے بہت کچھ سیکھا جسے انہوں نے اپنی روایات اور احادیث میں بیان کیا ہے.ساٹھ کے قریب ایسی روایات اور احادیث موجود ہیں.حضرت حفصہ نے بھی اپنے

Page 121

ازواج النبی 105 حضرت حفصہ والد حضرت عمر کی طرح روایات بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت 22 عائشہ کی طرح آپ کی بھی بہت زیادہ روایات نہیں ہیں.تا ہم جو روایات ہیں ان سے آپ کے علمی مقام کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے.ان روایات میں آنحضرت کے گھر یلو احوال بھی آپ نے بیان فرمائے ہیں.کبھی آپ نے حضور علیم سے کوئی علمی مسئلہ دریافت کیا تو اس کا بھی ذکر کیا ہے.ایک دفعہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی خواب رسول اللہ لی ایم کی خدمت میں بیان کر کے تعبیر چاہی تھی.حضور علی سلم نے فرمایا " تمہارا بھائی عبد اللہ بن عمر بہت ہی اچھا انسان ہے.کاش ! وہ رات کو نماز تہجد کا اہتمام کیا کرے.حضرت حفصہ نے یہ پیغام اپنے بھائی کو پہنچایا تو وہ بڑی استقامت سے ستجد پر قائم ہو گئے.رسول اللہ تعلیم کے معمولات اور عبادت کا تذکرہ اور اس کی پیروی حضرت حفصہ، حضور کی پاکیزہ سنت بیان کرتے ہوئے فرماتی تھیں کہ رسول نیم کے سونے کا طریق یہ تھا کہ دایاں ہاتھ آپ دائیں گال کے نیچے رکھ کر دائیں پہلو ہو کر لیٹتے تھے.اور سوتے وقت یہ دعا بھی کرتے تھے رَبّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ.اے میرے ربّ! مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچانا اور محفوظ رکھنا جس دن اپنے بندوں کو تو اٹھائے گا.حضرت حفصہ نے رسول کریم کے بعض اور معمولات یہ بیان کئے کہ آنحضرت لیلی ہم نے چار چیزوں کو کبھی نہیں چھوڑا ، جن کا آپ خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے ایک عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ، دوسرے عشرہ ذوالحجہ کے روزے، تیسرے ہر مہینے میں تین روزے بالعموم سوموار ، جمعرات اور بدھ کو اور نماز فجر سے پہلے 24 دور کعتیں.آنحضرت علیم کی پاکیزہ صحبت میں رہتے ہوئے حضرت حفصہ نے آپ کی عبادات کا طرز عمل بھی خوب اپنا یا یہاں تک کہ رسول اللہ سلیم کو خدائے عالم الغیب کی طرف سے ان کی زندگی میں ان کے عبادت گزار ہونے کی سند عطا ہوئی.آخری عمر میں بھی آپ کثرت سے روزے رکھتی رہیں اور وفات تک مسلسل اس کی توفیق ملی.26

Page 122

ازواج النبی 106 حضرت حفصہ 27 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم طی ی ی یکم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے.میں حضور علی نیم کا خیمہ تیار کرتی تھی.ایک دفعہ حضرت حفصہ نے بھی مجھ سے پوچھ کر اپنا خیمہ لگالیا.ان کی دیکھا دیکھی حضرت زینب بنت جحش نے بھی اپنا خیمہ لگوالیا.صبح رسول اللہ لی لی تم نے مسجد میں کئی خیمے لگے دیکھے تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ جس پر ان ازواج کے بارہ میں بتایا گیا ( جن کے خیمے تھے ) تو آپ نے فرمایا کہ انہیں کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا.کیا نیکی نے ؟ ان خیموں کو اٹھا دو.اور یہ مجھے نظر نہ آئیں.پھر اس سال آپ نے رمضان میں اعتکاف نہیں فرمایا بلکہ شوال کے دس دن اعتکاف میں گزارے.آپ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی یا تم کو میں نے ہمیشہ کھڑے ہو کر رات کی عبادت کرتے دیکھا ہے.البتہ وفات سے ایک سال پہلے بڑھاپے میں بدن کے بھاری ہو جانے کی وجہ سے بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے لگے اس میں آپ لمبی تلاوت کرتے تھے.آپ کی قرآت بہت خوبصورت ہوتی تھی؟ کسی نے پوچھا کہ حضور علم کی وہ قرآت کیسی ہوتی تھی.حضرت حفصہ نے فرمایا کہ تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے ، قرآن کو دلآویزی سے ٹھہر ٹھہر کر اس طرح پڑھو جیسے آنحضرت لیلی می کنیم پڑھا کرتے تھے اور پھر سورہ فاتحہ کی آیات خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں اور ہر آیت کے بعد وقف کرتے ہوئے آپ نے بتلایا کہ اس طرح آنحضرت لی ایم کی خوبصورت تلاوت ہوتی تھی.رسول الله علم کی آخری عمر میں تہجد کی نماز بیٹھ کر ادا کرنے کے بارہ میں حضرت عائشہؓ کی روایت میں 28 مزید وضاحت ہے کہ بڑھاپے کی عمر میں رسول اللہ صلی یا تم بیٹھ کر قرآت کرنے لگے مگر بعض دفعہ جب سورت کی تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو آپ کھڑے ہو کر تلاوت کرتے اور پھر رکوع میں جاتے.29 امام بخاری نے بعض دیگر روایات سے تطبیق کرتے ہوئے اس روایت کو قیام رمضان کے باب میں لا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ ایسا صرف آخری عمر میں رمضان میں ہوتا تھا.آنحضور عبادت الہی کی خاطر آرام طلبی ہر گز پسند نہ کرتے تھے.اسکے باوجود حضرت حفصہ آنحضرت کے آرام اور راحت کا بہت خیال رکھتی تھیں.ایک رات حضرت حفصہ نے آنحضرت کے بستر کو نرم کرنے کیلئے اس کی چار نہیں کر دیں.صبح آپ نے فرمایا "رات تم نے بستر میں جو تبدیلی کی تھی.اسے اکہراکر دو اس نے مجھے نماز سے روک دیا ہے.جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس رات حضرت حفصہ نے رسول اللہ صلی علی کریم

Page 123

ازواج النبی 107 حضرت حفصہ کے بستر کی (جو پیشم کا تھا) مزید دو نہیں کر دیں.معلوم ہوتا ہے اس پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے توازن بر قرار رکھنے میں دشواری ہوئی ہو گی.جس پر آپ نے اسے پہلی حالت میں لوٹادینے کیلئے فرمایا.علمی شوق اور ذوق تدبر قرآن حضرت حفصہ کے علمی ذوق کا جہاں تک تعلق ہے.اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت طلی تم نے اپنے بدری صحابہ اور حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہ کی تعریف کی.بدر کے تین سو تیرہ اصحاب کے متعلق فرمایا کہ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُم فَقَد غَفَرتُ لکھ کہ اب جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا.رسول اللہ علیمی کریم نے ایک موقع پر فرمایا کہ " ان باتوں کی وجہ سے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی بدریوں اور اہل حدیبیہ میں سے کسی کو دوزخ کی آگ میں نہیں ڈالے گا.اگر اللہ چاہے تو مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا ".حضرت حفصہ نے اس بارہ میں ایک موقع پر سوال کیا یارسول اللہ تم پھر قرآن شریف کی اس آیت کا کیا مطلب ہے وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبَّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا ( مریم : 72) کہ تم میں سے ہر ایک فرد کے لئے جہنم کو جھیلنا اور بھگتنا ضرور ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟'' آنحضرت طی تم نے کیا خوبصورت جواب دیا فرمایا "اے حفصہ ! کیا تم نے اس سے اگلی آیت میں یہ نہیں پڑھا.ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فيها جیتا.(مریم : 73) کہ جو تقویٰ اختیار کر نیوالے ہیں ان کو ہم نجات دے دیں گے.اور جو ظالم ہیں جہنم میں پڑے رہ جائیں گے " حضرت مسیح موعود نے اس آیت کی یہ لطیف تفسیر بھی بیان کی کہ اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اس دنیا میں جو دارالابتلاء ہے انواع اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالی کیلئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء و قدر بھی نار کی شکل میں ان پر وارد ہوتے ہیں وہ ستائے جاتے اور دُکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا.بہر حال حضرت حفصہ جو قرآن شریف کی حافظہ تھیں وہ کس غور اور تدبر سے اس کا مطالعہ کرتی تھیں اس کا اندازہ اس سوال سے خوب ہو جاتا ہے.بعض دوسری روایات میں بھی اس علمی نکتہ کی مزید تفصیل مذکور ہے کہ اللہ تعالی کے مومن بندوں کو اس دنیا میں جو بخار وغیرہ آ جاتا ہے اور بعض اوقات شدید گرمی کی تپش برداشت کرنی پڑتی ہے اس کے متعلق

Page 124

ازواج النبی 108 نضرت حفصہ 33 آنحضرت علی کریم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بخار کی حدت بھی تو جہنم کی ایک جھلس اور لپٹ ہے.0 دنیا میں پہنچنے والے دکھوں اور تکلیفوں کے ذریعے اللہ تعالی مومنوں کے گناہوں کا ازالہ کرتارہتا ہے اور ان مصیبتوں کو کوتاہیوں کے کفارہ کا ذریعہ بنا دیتا ہے.اور مومن کے بہت سے امتحانی مراحل اسی دنیا میں بآسانی طے ہو جاتے ہیں.چنانچہ رسول کریم ہی ہم نے فرمایا کہ بخار بھی جہنم کی ایک لپٹ ہی ہے.حضرت حفصہ نے اپنے ذاتی شوق سے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا.جس پر آنحضور طی نیم نے حوصلہ افزائی بھی فرمائی.چنانچہ ایک دفعہ ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عبداللہ زہریلے کیڑے کے کاٹنے کا دم آنحضرت لم تم کو بتارہی تھیں جو وہ عام طور پر کیا کرتی تھیں.حضور عالم نے فرمایا یہ دم آپ حفصہ کو بھی سکھاد و جیسا کہ آپ نے انکو لکھنا پڑھنا بھی سکھایا ہے.چنانچہ حضرت حفصہ نے وہ دم بھی ان سے سیکھا.34 دیگر اعزاز و خدمات حضرت حفصہ کو حضور ملی ایلیا کی کمی کے ساتھ حجۃ الوداع میں بھی شرکت کی توفیق ملی.اس کے بعض حالات 35 بھی آپ نے بیان کئے ہیں کہ کس طرح اس سفر میں آنحضرت نے تمام مناسک حج ادا فرمائے.قرآن شریف کے لغت قریش میں جاری و قائم کرنے کے سلسلہ میں بھی حضرت عثمان کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت حفصہ کا تعاون اور خدمات شامل ہیں.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں قرآن شریف کے جمع وتدوین کا کام تو حضرت زید بن ثابت اور صحابہ کی ایک کمیٹی کے ذریعہ مکمل ہوا.جس کے صحیفے حضرت ابو بکڑ کے پاس رہے.حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس یہ صحیفہ آیا اور ان کی وفات کے بعد حضرت حفصہ کے پاس موجود تھا.حضرت عثمان کے زمانہ میں شام و عراق میں جنگوں کے دوران بہت سارے حفاظ بھی شہید ہو گئے اور شام و عراق کے لہجہ میں فرق کے باعث حضرت حذیفہ نے حضرت عثمان کو قریش کی زبان میں قرآن جمع کرنے کی طرف توجہ دلائی تا کہیں یہود و نصاری کی طرح امت محمدیہ بھی اختلاف کا شکار نہ ہو جائے.حضرت حفصہ کے پاس قرآن کے تحریری صحیفے موجود تھے.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں کہلا بھیجا کہ آپ وہ صحیفے میرے پاس بھیج دیں ہم ان صحیفوں کو (قریش کی لغت کے مطابق) نقل کرا کر پھر آپ کو واپس کر دیں گے.حضرت حفصہ نے یہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیج دیئے انہوں نے قریشی صحابہ سے نقل رض

Page 125

ازواج النبی 109 حضرت حفصہ کروانے کے بعد وہ صحیفے حضرت حفصہ کو واپس بھجوا دیئے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیئے اور حکم دیا کہ اس کے سوا جو قرآنی صحیفہ ہے اسے جلادیا جائے.حضرت حفصہ کی وفات کے معا بعد مروان بن الحکم امیر مدینہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ذریعہ حضرت حفصہ والے صحیفے منگوا کر از راو احتیاط ضائع کر دئے تاکہ لوگ مصحف عثمانی کے بارہ میں کسی شبہ میں مبتلا نہ ہوں.36 37 حضرت حفصہ نے وفات سے پہلے اپنے اموال کی وصیت اپنے حقیقی بھائی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے حق میں کی.غابہ (مدینہ کے قریب ایک مقام ) کی کچھ زمین حضرت عمر آپ کی تحویل میں دے گئے تھے وہ باقی بچ رہی تھی اسے بھی آپ نے صدقہ کر دیا.0 حضرت حفصہ کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ غزوہ بدر میں آپ کے عزیزوں میں آنحضور ٹیم کے علاوہ چھ اصحاب رسول بھی شامل ہوئے جو آپ کے قریب ترین عزیز تھے.ان اصحاب میں آپ کے والد حضرت عمرؓ ، آپ کے چچا حضرت زید، آپ کے تین ماموں حضرت عثمان، حضرت عبداللہ ، حضرت قدامه اور ایک ماموں زاد بھائی حضرت سائب شامل ہیں.ایک اعتراض کا جواب 38 رض پادری و میری نے اس آیت پر بعض بے بنیاد اور کمزور تفسیری روایات کو بنیاد بنا کر اس جگہ سیل(Sale) کے حوالہ سے یہ اعتراض کیا ہے کہ دراصل محمد ہم نے اپنی لونڈی ماریہ کے ساتھ حضرت عائشہ یا حفصہ کی باری والے دن صحبت کی.حضرت حفصہ نے اس کا بہت برا منایا تو انہیں منانے کیلئے آپ نے اس لونڈی کے پاس کبھی نہ جانے کا عہد کر لیا.اور سورۃ تحریم آپ کو اس معاہدہ سے آزاد کرنے کیلئے اتار لی گئی.پھر خود ہی پادری و ہیری نے اس سورت کے شان نزول کی وہ مشہور اور مستند دوسری روایت جو شہد کا شربت پینے کے بارہ میں ہے نقل کی ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے اور جس سے خود بخود پہلی روایت کار د ہو جاتا ہے.39 یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت ماریہ والی روایت کے راویوں میں سے کسی نے بھی یہ واقعہ خود حضرت حفصہ یا آنحضور نیم کی کسی اور زوجہ مطہرہ سے بیان نہیں کیا جو اس کی عینی شاہد تھیں.

Page 126

ازواج النبی ازواج کی تربیت 110 حضرت حفصہ جہاں تک اس واقعہ پر مسٹر کینن کے ازواج کے باہمی رقابت کے اعتراض کا تعلق ہے تو جہاں ایک سے زائد ازواج ہوں وہاں رقابت کی کیفیت ایک طبعی اور قدرتی بات ہے بلکہ اس نسوانی فطرتی جذبہ کا فقدان باعث تعجب ہوتا.مسٹر کین اگر تعصب کے بغیر غور کرتے تو ازواج مطہرات میں باہم حسن سلوک اور اس رقابت کا ایک دائرہ اخلاق کے اندر رہنا قابل تحسین فعل بھی ہے.اور اس سے آنحضرت علی ایم کے اخلاق فاضلہ ، وسعت حوصلہ اور ازواج کے انداز تربیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ ہر جائز اور ممکنہ حد تک اپنی بیویوں کے جذبات کا خیال رکھ کر ان کو خوش رکھنا چاہتے تھے.لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ ازواج کی ناجائز بات بھی مان لیا کرتے تھے.بلکہ روایات سے پتا چلتا ہے کہ دینی مصالح کے خلاف کسی کا کوئی بھی مشورہ ہوتا تو آنحضرت طی یہ کہ تم اسے ہر گز قبول نہ فرماتے.بلکہ سختی سے اس سے منع فرما دیتے.ترک شہد کا معاملہ چونکہ آنحضور کی ذاتی قربانی اور ایثار سے تعلق رکھتا تھا اس لئے آپ ازواج کی خوشی کی خاطر اپنی ذات کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے.تب اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کی غیرت آئی اور ارشاد ہوا کہ آپ کیوں بیویوں کی رضا کی خاطر اس چیز کو حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ پر حلال کی ہے آپ بیویوں کی باتیں جس حد تک سنتے اور برداشت فرماتے تھے.اس پر ازواج مطہرات کے عزیز و اقارب کو بھی تعجب ہوتا تھا جیسا کہ عمر کو ہوا.مگر آنحضرت ہم نے کبھی اس کا بڑا نہیں منایا اور اپنے اخلاق فاضلہ اور نرم خوئی میں کبھی کوئی کمی یادرشتی نہیں آنے دی.حضرت ابو بکر کی امامت نماز کا واقعہ ازواج کی تربیت کی لطیف مثال ہے جو حضور کی آخری بیماری میں پیش آیا.جب رسول اللہ نے فرمایا کہ ابو بکر سے کہو کہ وہ نماز کی امامت کروائیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ آنحضرت کی یہ بیماری اگر آخری ثابت ہوئی اور حضرت ابو بکر نے حضور کی قائمقامی اور نیابت میں امامت کروائی تو لوگ باتیں کریں گے کہ ابو بکر مصلے پر کیا آئے کہ اس کے بعد پھر رسول الله علم دوبارہ نماز ہی نہ پڑھا سکے اور آپ کی وفات ہی ہو گئی.اس لئے حضرت عائشہ کو اپنے ذوق کی حد تک رسول الله علیم کی آخری بیماری میں اپنے والد کی امامت ناگوار تھی.اس بارہ میں انہوں نے پہلے حضرت حفصہ سے مشورہ کیا پھر دونوں ازواج نے حضور کی خدمت میں عرض کیا یار سول اللہ ! ابو بکر کی آواز

Page 127

حضرت حفصہ 111 ازواج النبی دھیمی اور رقت آمیز ہے، جس کی وجہ سے وہ لوگوں تک اپنی آواز نہ پہنچا سکیں گے.حضرت عمر بلند آواز والے ہیں امامت نماز کے لئے انہیں کہنا چاہئے.آنحضرت نے دوبارہ فرمایا " ابو بکر ہی امامت کروائیں " اس میں یہ اشارہ اور پیغام بھی تھا کہ آنحضرت کے بعد امامت اور خلافت کا مقام حضرت ابو بکر کو عطا ہو گا.یہی وجہ ہے کہ جب دوبارہ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ نے اپنی اس درخواست پر اصرار کیا تو حضور ملی تم نے انہیں فرمايا إِنَّكُنَّ لأَنتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُف کہ تم یوسف والی عورتوں کی طرح ہو.چنانچہ امامت ابو بکر کے بارہ میں آنحضرت طلی سکیم کا فیصلہ قائم رہا.وفات 40 ابن سعد اور ابن عبد البر کے مطابق حضرت حفصہ کی وفات سال 45ھ میں بعمر ساٹھ 60 سال حضرت امیر معاویہ کے دور حکومت میں ہوئی.آپ کی وفات کے بارہ میں جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ علامہ طبرانی اور علامہ ھیثمی کے مطابق آپ کی وفات افریقہ کے فتح ہونے کے سال ہوئی.چونکہ فتح افریقہ کا پہلا واقعہ حضرت عثمان کے زمانہ میں 27ھ میں ہوا اس وجہ سے اس سال میں آپ کی وفات کا خیال محض ایک غلط فہمی ہے.کیونکہ آپ کی عمر ساٹھ سال ہوئی جبکہ 27ھ میں وفات کی صورت میں عمر محض 42 سال بنتی ہے جو درست نہیں..الغرض ام المومنین حضرت حفصہ حضور علی ایم کی وفات کے بعد بھی امت میں ایک لمبے عرصہ تک تربیت کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں اور بالآخر اپنے مولی کے حضور حاضر ہو گئیں.آپ کا جنازہ مدینہ کے امیر مروان بن حکم نے پڑھایا، حضرت ابو ہریرہ نے میت قبر میں رکھی.آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر قبر کے اندر اترے.یوں ہماری ماں امت کی ماں ہم سے جدا ہو کر اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ایم کے قدموں میں حاضر ہو گئیں.اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں.42 اللَّهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *** ***

Page 128

حضرت حفصہ 112 حوالہ جات طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 8 ص219 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 15 بیروت.اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ علامہ ابن الاثیر جلد 1 ص1361 بیروت طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 81 بیروت بخاری کتاب المغازی باب مشهود الملائكة بدراً بخاری کتاب النکاح باب عرض الانسان ابنتہ.عیون الاثر فى فنون المغازی لابن سید الناس جلد 2ص302 بیروت مسند احمد بن حنبل جلد 1 ص 12 قاہرہ طبقات الکبریٰ لا بن سعد جلد 8 ص 83 بیروت ترمذی کتاب الصوم باب ما جاء فی ایجاب القضاء ابوداؤد کتاب الصوم باب من رأى علیه القضاء بخاری کتاب التفسير سورة التحريم باب تبتغي مرضاة أزواجك نسائی کتاب الطلاق باب الرجعۃ.ابن ماجہ کتاب الطلاق باب الطلاق.ابوداؤد کتاب الطلاق باب المراجعة ابن سعد جلد 8 ص 84 مستدرک حاکم جلد 4 ص 16 ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12

Page 129

ازواج النبی 113 13 14 حقائق الفرقان جلد 4 ص 139 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص84 بیروت 15 المعجم الكبير لطبرانی جلد 17 ص 291 موصل 16 المعجم الكبير لطبرانی جلد 17 ص 291 موصل 17 نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9ص382 18 مسلم کتاب الفتن باب ذکر ابن صیاد 19 بخاری کتاب النکاح باب القرعة بين النساء 20 ترندی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی 21 بخاری کتاب الطلاق باب لم تحرم ما احل الله لک 22 ازواج النبی از محمد بن یوسف ص 145 بیروت 23 بخاری کتاب التنجد باب فضل قیام اللیل 24 مسلم کتاب صلاة المسافر باب استحباب یمین الامام مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 287 قاہرہ 25 26 27 الاصابہ فی تمیز الصحابہ لابن حجر جلد 7ص582 بيروت 28 بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی شوال مسلم کتاب صلاة المسافر باب جواز النافلة - مسند احمد جلد 6ص288 29 بخاری کتاب التنجد باب قیام لانبی باللیل فی رمضان.30 الشمائل النبويه الترمذی باب ما جاء فی فراش رسول اللہ 31 ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذكر البعث حضرت حفصہ

Page 130

ازواج النبی 114 32 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص 143 33 بخاری کتاب مواقيت الصلاة باب الا براد بالظهر في شدة 34 ابو داؤد کتاب الطب باب ما جاء فی الرقی 35 دلائل النبوة للبيهقى جلد 8 ص 295 بيروت 36 بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع قرآن.فتح الباری جلد 9 ص 20 37 38 39 مسند احمد بن حنبل جلد 2 ص 125 قاهره ازواج النبی الامام محمد بن یوسف ص 144 بیروت حضرت حفصہ A comprehensive Commentary of The Quran by 158.Vol 4 Chap LXVI p.Rev.Wherry 40 بخاری کتاب الجماعة والامامة باب حد المريض ان يشد الجماعة مسلم کتاب الصلاۃ باب استخلاف الامام اذا عرض لۂ عذراً 41 المعجم الکبیر لطبرانی جلد 23 ص 188 موصل.الاستیعاب جلد 1ص584 بیروت 42 طبقات الکبریٰ جلد 8 ص 86،جلد 8 ص128 بیروت.مستدرک حاکم جلد 4 ص 16 بیروت

Page 131

ازواج النبی فضائل 115 ย حضرت زینب بنت خزیمہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ زمانہ جاہلیت سے ہی حضرت زینب بنت خزیمہ کا نام ام المساکین مشہور تھا.وہ غرباء کی ضروریات کا بہت خیال رکھتی اور ان کو کھاناوغیرہ کھلاتی تھیں.آپ ہجرت مدینہ کے بعد وفات پانے والی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں.الٹی تقدیر کے مطابق انہیں چند ماہ رسول اللہ علم کی صحبت نصیب ہوئی.وہ آنحضرت علی علی کریم کی مزاج شناس اور کامل فرمانبردار تھیں.رسول اللہ میم کی زندگی میں ان کی وفات ہوئی اور آپ نے خود ان کی نماز جنازہ پڑھائی.نام و نسب حضرت زینب بنت خزیمہ بن حارث ہلالیہ کا تعلق قبیلہ بنی ہلال بن عامر سے تھا.حضرت زینب بنت خزیمہ کی پہلی شادی طفیل بن حارث کے ساتھ ہوئی.جن سے طلاق کے بعد انہی کے پھوپھی زاد جسم بن عمرو بن حارث سے دوسری شادی ہوئی.پھر پہلے شوہر کے بھائی حضرت عبیدہ بن حارث کے ساتھ شادی ہوئی جو جنگ بدر میں شہید ہو گئے.0 اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن جحش کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا جو احد میں شہید ہو گئے.حضرت عبداللہ بن جحش رسول اللہ صلی علی ا ستم کی پھوپھی حضرت امیمہ کے بیٹے اور آپ کے پھوپھی زاد تھے.یوں حضرت.زینب بنت خزیمہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش کی بھاوج بھی ہوتی تھیں.اسی طرح ام المومنین حضرت میمونہ والدہ کی طرف سے حضرت زینب کی بہن تھیں جو آپ کی وفات کے بعد 7ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئیں.رسول اللہ صلی تم سے شادی 3 آنحضرت لعل یا تم کو اپنے نسبتی بھائی اور شہید احد حضرت عبد اللہ بن جحش کی اس بیوہ کی خاطر ملحوظ تھی.آپ نے انہیں شادی کا پیغام بھجوایا جو انہوں نے قبول کر لیا اور بارہ اوقیہ (چاندی) یعنی قریباً پانچ صد در ہم

Page 132

ازواج النبی 116 حضرت زینب بنت خزیمہ 4 حق مہر پر حضرت زینب بنت خزیمہ کا نکاح ماہ رمضان 3ھ میں رسول اللہ لی لی یتیم کے ساتھ ہوا.حضرت زینب ، رسول اللہ کی مزاج شناس اور آپ کی کامل فرمانبر دار تھیں چنانچہ قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت سے روایت ہے کہ میں ایک روز آنحضور کی زوجہ حضرت زینب بنت خزیمہ کے پاس بیٹھی تھی اور ہم انکے کپڑے رنگنے کیلئے سرخ مٹی تیار کر رہے تھے اس دوران آنحضور ان کے حجرہ میں تشریف لے آئے.آپ کپڑے رنگ کرنے کے اہتمام کیلئے رنگنے والی سرخ مٹی دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے دروازے سے ہی واپس تشریف لے گئے.حضرت زینب نے یہ دیکھا تو سمجھ گئیں کہ رسول اللہ نے اسے رض رض پسند نہیں فرمایا.چنانچہ حضرت زینب نے پانی لے کر ان کپڑوں کو دھو لیا جس سے تمام سرخ رنگ صاف ہو گیا.کچھ دیر بعد آنحضور دوبارہ تشریف لائے، اور کمرے کا جائزہ لیا تو رنگنے والی سرخ مٹی وغیرہ موجود نہیں تھی چنانچہ آپ اندر تشریف لے آئے.(5 اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانانور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول فرماتے ہیں.ایک دفعہ حضرت زینب اپنے کپڑے گیری میں رنگنے لگیں آنحضرت ملی تم باہر سے تشریف لائے اور کپڑے رنگتے ہوئے دیکھ کر واپس تشریف لے گئے.حضرت زینب تاڑ گئیں کہ آپ کس بات کی وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں.ہادیوں کے گھر میں ہر وقت الٹی رنگن چڑھی رہتی ہے.جس کا ذکر صِبغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً (البقرة: 139) میں ہے.یہ رنگینیاں اسکے مقابل میں کیا چیز ہے.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالی بناوٹ، زیور اور لباس سے خوش نہیں ہوتابلکہ نیک بیبیوں کی بناوٹ اور زیور انکے نیک عمل ہیں " 6 حضرت ام سلمہ فرمایا کرتی تھیں کہ جب رسول اللہ لی لی نام سے میری شادی ہوئی تو آپ نے مجھے حضرت زینب بنت خزیمہ کے اس گھر میں اتار اجہاں وہ رہا کرتی تھیں.یوں حضرت زینب بنت خزیمہ کی وفات کے بعد ان کا گھر حضرت ام سلمہ کو مل گیا.اخلاق فاضلہ حضرت زینب بنت خزیمہ نہایت نیک، پارسا اور غریبوں کی خبر گیری کرنے والی خاتون تھیں.جاہلیت کے زمانہ سے ہی آپ کا نام اتم المساکین مشہور ہو گیا تھا کیونکہ وہ غرباء کی ضروریات کا بہت خیال رکھتی اور ان کو کھانا وغیرہ کھلاتی تھیں.

Page 133

حضرت زینب بنت خزیمہ 117 ازواج النبی غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ بھی حضرت زینب بہت حسن سلوک سے پیش آتیں.ایک دفعہ انہوں نے اپنی ایک لونڈی آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو آنحضرت علی کریم نے انہیں یہ نصیحت فرمائی کہ تمھارے بعض ننھیالی رشتے دار جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، یہ لونڈی اگر آپ انہیں دے دیں تو زیادہ مناسب ہے چنانچہ وہ لونڈی حضرت زینب نے انہیں دے دی.وفات 9 11 تقدیر خداوندی سے حضرت زینب بنت خزیمہ کو صرف چند ماہ تک ہی حضور طی یتیم کی رفاقت نصیب ہو سکی.شادی کا یہ عرصہ تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ آٹھ ماہ تک بیان کیا جاتا ہے.آپ کی وفات 30 برس کی عمر میں ہوئی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی.ازواج مطہرات میں سے آپ پہلی زوجہ مبارکہ تھیں جنہوں نے ہجرت کے بعد مدینہ میں وفات پائی.آپ کے بعد رسول الله علی کریم نے حضرت ام سلمہ سے شادی کی.حضرت زینب بنت خزیمہ نہ صرف حضرت زینب بنت جحش کی ہم نام تھیں.بلکہ صدقہ و خیرات میں ان کی ہم صفت بھی.اس وجہ سے بعض روایات میں یہ اشتباہ پیدا ہو گیا ہے کہ بوقت وفات حضور ہم نے لمبے ہاتھوں والی جس بیوی کے جلد اپنے ساتھ آملنے کا ذکر فرمایا تھا وہ شاید حضرت زینب بنت خزیمہ ہیں لیکن فی الواقعہ یہ درست نہیں ہے.کیونکہ حضرت زینب بنت خزیمہ کی وفات حضور کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی اور لمبے ہاتھوں والی بیوی کے متعلق آنحضور علی کریم نے یہ فرمایا تھا کہ وہ میری وفات کے بعد بہت جلدی مجھے آملے گی.یہ بات حضرت زینب بنت جحش کے حق میں پوری ہوئی جو حضور کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آپ سے جاملیں.حضرت زینب بنت خزیمہ کی نماز جنازہ آنحضور ملی کنیم نے خود پڑھائی اور آپ کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کی.اللَّهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ **** ****

Page 134

حضرت زینب بنت خزیمہ 118 حوالہ جات المعجم الكبير لطبرانی جلد 24ص58،57 مطبوعہ موصل، سیرة ابن هشام جلد 2 ص 647 بیروت مستدرک علی الصحیحین لامام ابو عبد اللہ حاکم جلد 4 ص 36 بیروت اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ علامہ ابن الاثیر جلد 1ص1359 بیروت الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 115 بیروت المعجم الكبير لطبرانی جلد 24 ص 57 موصل خطابات نور ص226 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 164 بیروت مستدرک علی الصحیحین لامام ابو عبد اللہ حاکم جلد 4 ص 36 بیروت الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 115 بیروت الاصابۃ فی تمییز الصحابه از علامه ابن حجر جلد 7 ص672 دار الجیل بیروت الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 115 بیروت مجمع الزوائد للهيثمي جلد 9 ص 400 بيروت مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل زینب ام المومنین.طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 115 بیروت ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12

Page 135

ازواج النبی 119 ام المؤمنین حضرت اُم سلمہ ย فضائل:.حضرت ام سلمہ.حضرت ام سلمہ کو رسول اللہ لی تعلیم کے ساتھ دیگر ازواج سے زیادہ غزوات میں شرکت کا شرف نصیب ہوا.صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ لی تعلیم نے جب صحابہ کو اسی میدان میں قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا اور وہ غم کے مارے سکتہ کے عالم میں تھے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ سے مشورہ کر کے اپنی قربانی ذبح کر دی جس کی برکت سے تمام صحابہ نے فوراً قربانیاں ذبح کر دیں.حضرت ام سلمہ نے رسول اللہ لی ایم کے ارشاد پر خواتین کو نماز میں پہلی دفعہ امامت کروائی.نام و نسب حضرت ام سلمہ کا اصل نام ہند بنت ابی امیہ زیادہ معروف تھا.اگرچہ بعض روایات میں رملہ بھی مذکور ہے.آپ اپنے بیٹے سلمہ کی وجہ سے ام سلمہ کی کنیت سے مشہور تھیں.ان کے والد کا نام سہیل اور بعض روایات کے مطابق حذیفہ بیان کیا جاتا ہے جن کی کنیت ابو امیہ تھی.وہ اپنی سخاوت کی وجہ سے پورے عرب میں "زاد الراکب " کے لقب سے مشہور تھے یعنی مسافروں کو زادِراہ مہیا کرنے والے.سہیل اپنے ہم سفروں کی مہمان نوازی اور میز بانی کا بہت خیال رکھتے تھے یہاں تک کہ انکے ہمراہیوں کو زادِ راہ ساتھ لانے کی ضرورت نہ ہوتی.وہ خود ان سب کے لئے مہمان نوازی کے جملہ انتظام اس شوق سے کرتے کہ ان کا لقب ہی "زاد الراکب " پڑ گیا.گویاوہ مسافروں کے لئے مجبتم زاد راہ ہیں.حضرت ام سلمہ کے والد کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو مخزوم سے تھا.والدہ عاتکہ بنت عامر بھی قریش کی شاخ میں سے تھیں.بعض روایات میں ان کا نام عاتکہ بنت عبد المطلب مذکور ہے یہ دراصل آپ کی

Page 136

ازواج النبی 120 ย حضرت ام سلمہ سوتیلی والدہ کا نام تھاجو آنحضور طی نم کی پھوپھی تھیں.ان سے آپ کے دو بھائی عبد اللہ اور زہیر تھے.ہجرت حبشه و مدینه حضرت ام سلمہ نے اپنے شوہر حضرت ابو سلمہ کے ساتھ ابتدائی زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی، مصائب و مشکلات کے ابتدائی کی دور میں جب حضور طی می کنیم نے اپنے اصحاب کو پہلی دفعہ ہجرت کی اجازت دی تو حضرت ام سلمہ کو اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرنے کی سعادت عطا ہوئی.حبشہ سے مکہ واپس آئیں تو دوبارہ مدینہ ہجرت کرنا پڑی.اس موقع پر ایک بہت بڑا ابتلاء بھی آپ کو پیش آیا.جس میں آپ نے کمال استقامت کا نمونہ دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سر خرو فرمایا.واقعہ یوں ہوا کہ حضرت ابو سلمہ اپنے بیٹے سلمہ اور بیوی ام سلمہ کے ساتھ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانے لگے تو ام سلمہ کے قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ ہم اپنی بیٹی کو تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے.یوں ابو سلمہ بیوی بچوں کی قربانی دے کر تن تنہا ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے.کچھ عرصہ بعد حضرت ابو سلمہ کے اہل خاندان نے مطالبہ کیا کہ سلمہ ہمارے بیٹے کی اولاد ہے جس پر ہمارا حق ہے اس لئے وہ ہمیں دے دیا جائے.سلمہ اس وقت کم سن بچہ تھا.جسے انہوں نے حضرت ام سلمہ سے چھین کر الگ کر لیا.حضرت ام سلمہ کو اپنے خاوند اور معصوم بچے سے جدائی کا یہ عرصہ نہایت بے چینی اور اذیت میں گزار نا پڑا.بالآ خر ایک سال کے بعد حضرت ابو سلمہ کے گھر والوں نے ماں کو بچہ واپس کیا اور حضرت ام سلمہ اسے لیکر اپنے شوہر کے پاس مدینہ پہنچ گئیں.2 حضرت ام سلمہ کو یہ دوہری سعادت بھی عطا ہوئی کہ دو ہجرتوں کی توفیق پائی.پہلی ہجرت حبشہ کے دُور دراز ملک میں اور دوسری مدینہ کی طرف آپ کو پہلی ہجرت کرنے والی خاتون بھی کہا جاتا ہے.شاید اس لئے بھی کہ تنہا ہجرت کر کے مدینہ آئیں.جبکہ ایک اور روایت کے مطابق حضرت لیلی بنت خیمہ 8 زوجہ عامر بن ربیعہ بھی اس اولیت میں آپ کی شریک ہیں.0 حضرت ابو سلمہ سے آپ کی اولاد میں سلمہ اور عمر دو بیٹے اور درہ اور زینب دوبیٹیاں تھیں.پہلے شوہر کی وفات 9 حضرت ام سلمہ کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ آنحضرت علی علی کریم کے انتہائی وفا شعار صحابہ میں سے تھے.

Page 137

ازواج النبی 121 حضرت ام سلمہ انہوں نے غزوہ بدر میں شامل ہونے کی توفیق پائی اور شجاعت کے جوہر دکھائے، غزوۂ احد میں بھی حضور کے ساتھ کمال وفا اور اخلاص کے ساتھ شرکت کی.اور استقامت کا نمونہ دکھایا.0 غزوہ اُحد میں حضرت ابو سلمہ کو ایک بہت گہر از خم باز و پر آیا تھا جو ایک عرصہ تک مندمل نہ ہوا.تقریباً رض ایک ماہ کے علاج سے اچھا ہوا.تیسرے سال ہجرت کے آخر میں حضور علیہ السلام نے حضرت ابو سلمہ کو ڈیڑھ سو سواروں کا امیر مقرر کر کے قطن کے پہاڑ کی طرف ایک مہم پر بھجوایا.ایک مہینہ کے قریب آپ اس مہم پر رہنے کے بعد مدینہ واپس لوٹے تو دوبارہ وہی زخم ہر ا ہو گیا.بالآخر اسی بیماری میں چوتھے سال ہجرت میں آپ کی وفات ہوئی.رض آنحضرت الی نیم کا اپنے وفا شعار رفیق حضرت ابو سلمہ سے بہت ہی محبت اور پیار کا تعلق تھا.ان کی وفات پر حضور عالم بنفس نفیس ان کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے گئے.آپ نے وہاں موجود لوگوں سے فرمایا کہ ابو سلمہ کے لئے یہ دعا کریں کہ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيَّينَ وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ وَاغْفِرُ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ وَنَوَّرُ لَهُ فِيهِ 1211 یعنی اے اللہ ! ان کو بخش دے اور ان پر رحم کر اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کا درجہ بلند کر دے.ان کے پیچھے رہنے والوں میں تو خود ان کا جانشین ہو پھر آپ نے یہ دعا کی کہ "اے اللہ ! ان کی قبر کو کشادہ کر اور اس میں ان کے لئے نور بھر دے رسول اللہ لی کم کی اس دعا سے اپنے اس وفا شعار صحابی کے ساتھ آپ کی گہری محبت کا بھی پتہ چلتا ہے جو حضور علی یا تم کو تھی.حضرت ابو سلمہ کی وفات کے بعد طبعاً آنحضرت طی یتیم کو ان کی بیوہ اور بچوں کی کفالت کے بارہ میں بھی فکر تھی.ہمدردی کا یہی جذبہ آپ نے اپنے صحابہ میں بھی اجا گر کر دیا تھا.چنانچہ حضرت ابو سلمہ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت ام سلمہ کو شادی کا پیغام بھیجا اور حضرت عمرؓ نے بھی.لیکن حضرت ام سلمہ نے مختلف وجوہات کی بناء پر معذرت کر لی.حضرت ابو سلمہ کے اخلاق فاضلہ حضرت ام سلمہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرے میاں ابو سلمہ بہت محبت اور احسان کرنے والے شوہر تھے.

Page 138

ازواج النبی 122 ย حضرت ام سلمہ ایک دفعہ گھریلو ماحول میں میری ابو سلمہ سے یہ بات ہوئی کہ کہتے ہیں اگر میاں بیوی میں سے کوئی فوت ہو جائے اور وہ جنتی ہو اور بعد میں اس کا ساتھی شادی نہ کرے تو وہ جنت میں اکٹھے ہوتے ہیں.کیا آپ معاہدہ کرتے ہو کہ ہم دونوں میں سے اگر کوئی پہلے فوت ہو جائے تو جو پیچھے رہ جائے گا وہ شادی نہیں کرے گا.حضرت ابو سلمہ نے حضرت ام سلمہ سے پوچھا کہ پہلے تم بتاؤ کہ کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ اگر میں پہلے فوت ہو جاؤں تو تم بعد میں کسی سے نکاح نہیں کرو گی.انہوں نے کہا کہ میں تواز خود یہ تجویز بہت سوچ سمجھ کر دے رہی ہوں کہ آپ کی وفات کے بعد میں نکاح نہیں کروں گی.خواہ آپ کی خاطر بیوگی کا لمبازمانہ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے.ابو سلمہ نے کہا تو پھر سُنو معاہدہ یہ ٹھہرا کہ اگر پہلے میں مر جاؤں تو تمہیں لازمآًنکاح کرنا ہو گا.تمہارے بعد میں نکاح کروں یا نہ تمہیں ضرور شادی کرنی ہو گی.پھر انہوں نے یہ دُعا کی کہ اے اللہ ! اگر پہلے میری وفات ہو جائے تو ام سلمہ کو مجھ سے بھی بہتر شخص عطا فرمانا، تا کہ اسے کوئی پریشانی اور تکلیف نہ ہو ، اور وہ اسے بہت آرام سے رکھے.حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہ فوت ہوئے تو آنحضرت لعل یا تم نے مجھے خاص طور پر صبر کی نصیحت کی.حالانکہ میں نے اس وقت یہ سوچا تھا کہ ہم ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ آئے ہیں.یہاں غریب الوطنی کی حالت میں میرے شوہر کی وفات ہو رہی ہے.میں ابو سلمہ کا ایسا بین کرونگی جو دنیا ایک زمانے تک یادر کھے گی کہ کسی بیوی نے شوہر کی وفات پر بین کئے تھے ، اس کے لئے میں نے اپنی ایک سہیلی کو بھی کہہ رکھا تھا کہ تم بین کرنے میں میری مدد کرنا اور وہ بے چاری میری خاطر آ بھی گئی مگر ادھر آنحضرت علی یا تم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ام سلمہ ! کیا تم اس شیطان کو اپنے گھر میں داخل کرو گی جسے اللہ تعالی نے نکالا ہے؟ یہ بات آنحضرت علی علیہ ہم نے دو مرتبہ دوہرائی جس پر حضرت ام سلمہ نے سب رونا دھونا ایسے بند کیا کہ پھر نہیں روئیں.حضور علی نے مزید فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اس پر صبر کرتے ہوئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہے.( یعنی ہم اللہ کے ہی ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) اور پھر اس کے بعد یہ دعا کرے کہ اللَّهُمَّ أُجْرُنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفُ لِي خَيْرًا مِنْهَا.یعنی اے اللہ میری اس مصیبت میں میرے صبر کا اجر مجھے عطا کرنا.اور اس سے بہتر بدلہ مجھے دینا، تو اللہ تعالی غیر معمولی طور پر اسے بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے.

Page 139

ازواج النبی 123 حضرت ام سلمہ 16 حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ابو سلمہ کی وفات کے بعد میں حیران ہو کر سوچتی تھی کہ ابو سلمہ سے بہتر بھی کوئی ہو سکتا ہے ؟ وہ تو ایک عظیم انسان تھے، ان سے بہتر کوئی کیسے ہو سکتا ہے ؟ فرماتی ہیں دعا کرتے ہوئے اس فقرہ پر آکر میں رک جاتی کہ "ان (ابو سلمہ ) سے بہتر مجھے عطا کر دے " لیکن آنحضرت کی نصیحت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ ہمت اور توفیق دے دی اور میں نے یہ دعا بھی کی پھر یہ دعا ایک عجیب معجزانہ رنگ میں بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرت لا علم عطا فرما دیئے.رسول اللہ صلی علی ایم کے ساتھ شادی 4ھ میں حضرت ام سلمہ کی عدت گزر جانے کے بعد حضور علی کریم نے انہیں شادی کا پیغام بھجوایا.حضرت حاطب بن ابی بلتعہ حضور میں تم کا یہ پیغام لے کر حضرت ام سلمہ کے پاس گئے تو انہوں نے اپنی بعض مجبوریوں کا ذکر کیا کہ اوّل تو میں ایک عیالدار عورت ہوں.میرے ساتھ چار بچے ہیں.حضور جیسے معمور الاوقات وجود کے عقد میں آکر میں ان کے لئے پریشانی کا موجب ہی نہ بن جاؤں.دوسرے یہ کہ میں بہت غیور عورت ہوں.حضور صلی نیلم کے حرم میں پہلے سے متعدد ازواج ہیں.مجھے ڈر ہے کہ میں دیگر ازواج کے ساتھ غیرت کا کوئی ایسا نا مناسب اظہار نہ کر بیٹھوں جو حضور علی لیا کہ یتیم کے لئے تکلیف کا موجب ہو.تیرے میرا کوئی بالغ ولی اس موقع پر موجود نہیں جو میرا نکاح کر سکے.حضرت عمرؓ کو حضرت ام سلمہ کے اس جواب کا پتہ لگا تو انہوں نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا اے ام سلمہ ! کیا آپ آنحضور کا پیغام رڈ کرو گی؟ حضرت ام سلمہ نے پھر اپنی مجبوریاں دہرادیں جن کے جواب میں آنحضرت علی ہم نے یہ تسلی بخش پیغام حضرت ام سلمہ کو بھجوایا کہ جہاں تک تمہاری عیالداری کا تعلق ہے اللہ تعالی اور اس کار سول تمہارے بچوں کی کفالت کے ذمہ دار ہیں.باقی جہاں تک تمہاری طبعی غیرت کا تعلق ہے ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالی آپ کی ناواجب غیرت دور کر دے.رہی یہ بات کہ آپ کا کوئی ولی موقع پر موجود نہیں تو خاطر جمع رکھیں کہ یہ نکاح تمہارے اولیاء میں سے کسی کو بھی برا نہیں لگے گا اور سب اسے بخوشی قبول کریں گے.باقی ولایت نکاح اور ایجاب و قبول کے لئے تو تمہارا کم سن بیٹا بھی کافی ہے.حضرت ام سلمہ نے ایک عذر یہ بھی پیش کیا کہ شادی کی عمر کے لحاظ سے میں ایک عمر رسیدہ عورت ہوں.رسول کریم ملی تم نے فرمایا کہ میری نسبت پھر بھی تمہاری عمر کم ہے اس وقت رسول اللہ علیم کی عمر قریباً 57 برس تھی.0 18

Page 140

ازواج النبی 124 حضرت ام سلمہ 19 در اصل آنحضور عالم کے حضرت ام سلمہ سے عقد کی وجہ ایک تو ان کی ذاتی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے وہ ایک شارع نبی کی بیوی بننے کی اہل تھیں.دوسرے وہ ایک بلند پایہ صحابی کی بیوہ تھیں اور صاحب اولاد تھیں جن کی وجہ سے ان کا خاص انتظام ضروری تھا.ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رسول اللہ علیم کے رضاعی بھائی بھی تھے.اس لئے بھی حضور نے ان کے پسماندگان کا خیال رکھا.حضرت ام سلمہ کے بیٹے عمر رسول اللہ لی تم سے نکاح کے لئے اپنی والدہ کے ولی بنے.یہ شادی بہت سادگی کے ساتھ ہوئی.حضور طلی کلیم نے ام سلمہ سے فرمایا کہ میں نے فلاں بی بی کو جو کچھ دیا تھا بلا کم وکاست وہ آپ کو بھی دوں گا یعنی آٹا پینے کی دو چکی، دو گھڑے اور گدیلا جس کے اندر کھجور کے نرم ریشے بھرے تھے.حضرت ام سلمہ نے محض للہ ایثار و اخلاص کے ساتھ یہ مقدس رشتہ قبول کیا تھا اس میں کسی دنیوی طمع یا حرص کو دخل نہ تھا.چنانچہ حضرت ام سلمہ سے رشتہ کے لئے بات چیت کے دوران جب حضور " نے فرمایا کہ اگر آپ ( دیگر ازواج کے مقابل پر) حق مہر میں اضافہ چاہیں تو ہم وہ بھی بڑھا دیں گے.حضرت ام سلمہ نے کسی مرحلہ پر اس پیشکش سے بھی کوئی استفادہ پسند نہ کیا.رسول کریم علیم کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ سے شادی کے موقع پر آنحضرت لی ہم نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ میں نے نجاشی شاہ حبشہ کو جو تحائف بھجوائے ان میں مشک (کستوری)، خوبصورت لباس اور چادریں شامل تھیں.اب جب کہ نجاشی کی وفات ہو گئی ہے وہ تحالف لا محالہ واپس آجائیں گے اور وہ میں تمہیں تحفہ میں دے دوں گا.پھر وہ تحائف واپس آنے پر آپ نے رض 22 23 اپنا وعدہ پورا فرمایا.دیگر ازواج کو بھی اس موقع پر آنحضرت لیلی لیا کہ ہم نے ایک ایک اوقیہ برابر مشک عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ کے حق میں رسول اللہ صلی لی ایم کی خاص دعا ایسے عجیب رنگ میں قبول فرمائی کہ ان کی ناواجب طبعی غیرت جاتی رہی.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ شادی کے بعد آنحضرت می کنم جب میرے ہاں تشریف لائے تو پہلے دن میں نے آپ کے لئے جو کے کچھ ستو اور کھاناوغیرہ تیار کر کے پیش کیا.اس موقع پر بھی حضرت ام سلمہ کی ناواجب غیرت کے دور ہونے سے متعلق رسول اللہ کی قبولیت دعا کا عجیب نظارہ سامنے آیا.حضور علی تم نے حضرت ام سلمہ کو شادی کے معا بعد دیگر ازواج کے ساتھ باری کے لئے اختیار دیا اور فرمایا کہ آپ کو اپنے خاوند کے ہاں ایک عزت کا مقام حاصل ہے.اگر پسند کرو تو میں شادی

Page 141

ازواج النبی 125 ย حضرت ام سلمہ کے معا بعد کے مسلسل سات دن تمہارے ہاں قیام کرتا ہوں مگر پھر اسی قدر قیام دیگر ازواج کے پاس کرنے کے بعد تمہاری باری آئیگی اور اگر آپ چاہو تو ایک دن قیام کے بعد باری بدل جائے اور پھر دیگر ازواج کی ایک ایک دن کی باری کے بعد جلد آپ کی باری پھر لوٹ آئے گی.حضرت ام سلمہ نے شادی کے معا بعد بجائے اکٹھے سات دن کا مطالبہ کرنے کے پہلے دن کے بعد ہی باری کی تبدیلی قبول کر لی.26 11 مسابقت في الخيرات حضرت ام سلمہ میں مسابقت فی الخیرات کی روح خوب پائی جاتی تھی.ایک دفعہ آنحضرت لی ہم نے اپنے گھر میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء ، داماد حضرت علیؓ اور ان کے بچوں کو اپنی اوڑھنے کی چادر میں لے کر ان کے لئے دعا کی کہ اے اہل بیت ! تم پر اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.اس موقع پر حضرت ام سلمہ نے عرض کیا یارسول الله طی کنیم! کیا ہم اہل بیت نہیں ؟ ہمارے لئے بھی یہ دعا کر دیں.آنحضرت نے فرمایا " اے ام سلمہ ! تم اور تمہاری بیٹی بھی اہل بیت میں شامل ہو " ایسا ہی دوسرا واقعہ حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار آنحضرت طلای تیم مکہ اور مدینہ کے در میان جعرانہ مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے.کچھ بدو آئے اور آنحضور سے کچھ مانگا.حضور نے فرمایا اس وقت تو میں سب کچھ تقسیم کر چکا ہوں لیکن تمہیں خوش خبری ہو کہ انشاء اللہ آئندہ کسی وقت تمہاری ضروریات بھی پوری کی جائیں گی " انہوں نے کہا کہ آپ تو بس آئندہ کے لئے ہی بشارتیں دیتے رہتے ہیں.آنحضرت نے اس موقع پر موجود اپنے صحابہ حضرت بلال اور حضرت ابو موسی سے فرمایا " یہ لوگ ہماری بشارت قبول نہیں کرتے.تم یہ بشارت قبول کرو" پھر حضور نے پانی پی کر کچھ تبرک اپنے ان صحابہ کو عطا فرمایا.حضرت ام سلمہ کے دل میں رسول اللہ لی ایم کی سچی محبت تھی اور ایک معرفت و یقین کے ساتھ انہیں ایسی روحانی برکات کی دلی تمنا ہوتی تھی.وہ پردہ کے پیچھے سے بولیں " اے بلال! اپنی ماں کے لئے بھی اس بابرکت پانی میں سے کچھ بچالینا پھر اس برکت والے پانی سے انہوں نے بھی حسب خواہش حصہ پایا.اس واقعہ سے ان کے ادب و احترام رسول کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت طلی کی کم عصر کی نماز پڑھنے کے بعد تمام ازواج کے گھروں میں (جو ایک ہی حویلی میں تھے) باری باری حال دریافت کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے.اس کا آغاز پایا.اس 2711 ย

Page 142

ازواج النبی 126 حضرت ام سلمہ 28 آپ حضرت ام سلمہ سے کرتے تھے.اور یوں عمر میں بڑی بیوی کا ایک احترام بھی باقی از واج کے مقابل پر آپ نے قائم کروایا.اگرچہ حضرت سودہ حضرت ام سلمہ سے زیادہ عمر رسیدہ تھیں مگر انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تھی.شوق حصولِ علم 29 ام المؤمنین حضرت ام سلمہ پڑھنا لکھنا جانتی تھیں.حصول علم کا بھی بے حد شوق رکھتی تھیں.انہوں نے بہت سے دینی مسائل رسول اللہ ی ی ی یتیم سے دریافت کئے اور حضور کے بعد بھی لمبی عمر پا کر ایک زمانہ تک اس علم دین کو عام کیا.اور گھریلو زندگی کے حوالے سے خصوصاً خواتین کی رہنمائی اور تربیت کا حق ادا کیا.حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں کہ میں نے آنحضرت میں کم سے غسل جنابت کے بارہ میں بھی تفصیل سے پوچھا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ لی لی تم میں عموماً اپنے بال مینڈھی بنا کر باندھ لیا کرتی ہوں.کیا مجھے سر کے بال کھول کر غسل کرنا چاہئے.آنحضرت سلیم نے فرمایا کہ سر پر تین چلو پانی ڈال دینا کافی ہے.اس سے 31 طہارت حاصل ہو جاتی ہے.ایک دفعہ انہوں نے حضور علی لیا کہ کم سے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی تم ! ابو سلمہ تو فوت ہو گئے میں ان کی اولاد کی پرورش کرتی ہوں یہ میرے بچے ہیں میں ان کو چھوڑ بھی نہیں سکتی.کیا اس کا بھی اجر ہو گا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے اللہ تعالی ان کی پرورش کا تمہیں اجر عطا فرمائے گا.ذہانت و فراست حضرت ام سلمہ نہایت زیرک خاتون تھیں.اللہ تعالی نے انہیں غیر معمولی ذہانت سے نوازا تھا.اس کا اظہار صلح حدیبیہ کے موقع پر خوب ہوا.چنانچہ علماء نے آپ کی اس خوبی کو اپنی ذات میں غیر معمولی اور بہت بڑی فضیلت قرار دیا ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ آنحضرت می کنیم چھٹے سال ہجرت میں جب ایک رؤیا کی بناء پر طواف کعبہ کے لئے تشریف لے گئے تو مشرکین مکہ نے مخالفت کے باعث مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی اور حضور علیم اور آپ کے صحابہ کو حدیبیہ مقام پر رکنا پڑا.بالآخر ان شرائط پر صلح ہوئی کہ مسلمان اس سال نہیں بلکہ اگلے سال آکر بیت اللہ کا طواف کر لیں.صحابہ عمرہ کے لئے جو قربانیاں ساتھ لے کر گئے تھے ، آنحضرت لعلیم نے انہیں میدان حدیبیہ میں ہی اپنی قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دے دیا.

Page 143

ازواج النبی 127 حضرت ام سلمہ ย اس غیر متوقع صور تحال اور صدمہ سے مسلمان نڈھال تھے.غم سے ان کے سینے چھلنی تھے.اپنی قربانیاں میدانِ حدیبیہ میں ذبح کرنے کے حکم پر وہ مجسمہ حیرت بنے کھڑے تھے ، ان کے ہوش و حواس انکا ساتھ نہیں دے رہے تھے.حضرت ام سلمہ بھی اس سفر میں شریک تھیں.حضور علی می کنیم ان کے خیمہ میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ام سلمہ تمہاری قوم کو کیا ہوا ہے.وہ میرے حکم پر قربانیاں ذبح کرنے کی بجائے خاموش ہیں، حضرت ام سلمہ نے عرض کیا یارسول اللہ علیم ! آپ باہر تشریف لے جا کر سب سے پہلے اپنی قربانی ذبح کر دیں اور بال مونڈنے والے کو بلائیں وہ آپ کے بال کاٹ دے.پھر دیکھیں صحابہ کیسے آپ کی پیروی کرتے ہیں.حضرت ام سلمہ کی کمال فراست نے بھانپ لیا کہ اس وقت صحابہ کو ایک صدمہ اور غم پہنچا ہے اور کمزوری کی اس حالت میں وہ ایک عملی نمونے کے محتاج ہیں.آنحضرت علی مریم نے اس بر وقت اور خوبصورت مشورے پر عمل کرتے ہوئے باہر جا کر اپنی قربانی کو ذبح کیا اور بال منڈوانے لگے.پھر کیا تھا صحابہ ایک عجب جوش و ولولہ کے ساتھ اپنی قربانیوں کی طرف آگے بڑھے اور انہیں ذبح کرنے لگے کہ میدانِ ہ مٹی کی قربان گاہ کا منظر پیش کرنے لگا.اس واقعہ کے عینی شاہد صحابہ بیان کرتے تھے کہ جب ہم لرزتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ قربانیاں ذبح کرنے کے بعد اپنے سر مونڈ رہے تھے اور خطرہ تھا کہ کانپتے ہاتھوں سے کسی کی گردن ہی نہ کاٹ ڈالیں.مسلمانوں کے اس نازک وقت اور ابتلاء میں حضرت ام سلمہ کے اس حديده 33 بابرکت مشورہ سے غیر معمولی برکت عطا ہوئی.جس نے ہمیشہ کے لئے خواتین کے سر بلند کر دیئے.اس واقعہ کی ثقاہت و عظمت ایسی ہے کہ مار گولیتھ جیسا مستشرق بھی حضرت ام سلمہ کے مشورہ اور اس سے پیدا ہونے والے تاریخی نتیجہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکا جو مردوں کے اس غالب معاشرہ میں ایک غیر معمولی بات تھی.وہ لکھتا ہے :."At last (by the advice of his wife Umm Salamah) he performed the operations himself, and his followers did the same." یعنی آخر کار (آپ کی زوجہ ام سلمہ کے مشورہ پر) آپ نے خود اپنی قربانی سر انجام دی اور پھر آپ کے صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا.

Page 144

ازواج النبی 128 حضرت ام سلمہ ย حضرت ام سلمہ کی ذہانت کا اندازہ بعض اور روایات سے بھی ہوتا ہے.ایک موقع پر انہوں نے آنحضرت ایسی ہم سے پوچھا کہ یارسول اللہ ینم ! ایک عورت کو اپنے خاوند کی وفات کے بعد دوسری شادی پھر تیسری اور چوتھی کرنی پڑتی ہے.تو وفات کے بعد اگر اس کے سب شوہر بھی جنت میں ہوئے.تو وہ ان میں سے کس کے ساتھ ہو گی.آنحضرت لیلی یا تم نے فرمایا " اس کا اختیار بیوی کو ہو گا اس سوال سے 3511 حضرت ام سلمہ کی رسول اللہ علیم سے سچی محبت اور دونوں جہانوں میں معیت کی خواہش بھی ظاہر ہے.حضرت ام سلمہ کی اولاد حضرت ام سلمہ کی اولاد میں دو بیٹوں سلمہ اور عمرؓ اور دو بیٹیوں درہ اور زینب کا ذکر ہو چکا ہے.حضرت ام سلمہ کے رسول اللہ علیم کے عقد میں آنے کے بعد ان کے بچوں کی پرورش آنحضور طی می کنم کے گھر میں ہونے لگی.آپ نے خودان بچوں کو کھانے پینے کے آداب سکھائے.اور نہ صرف ان کے لئے دعائیں کیں بلکہ ہر طرح سے انکا خیال رکھا.بڑے بیٹے سلمہ (جو اپنی والدہ حضرت ام سلمہ کے آنحضور طی می کنیم سے نکاح کے موقع پر ولی تھے ) کارشتہ عمرۃ القضاء سے واپسی پر 7ھ میں چھوٹی عمر میں ہی آپ نے خود اپنے چچا حضرت حمزہ کی بیٹی امامہ سے جس محبت اور خلوص سے طے کیا اس کا اظہار اپنے صحابہ سے یوں فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے میں نے اس کا بدلہ چکا دیا.آپ کا اشارہ اس طرف تھا کہ حضور طی نیم کے نکاح کے وقت اس بچے نے حضرت ام سلمہ کے ولی کے طور پر ایجاب و قبول کیا تھا.اگرچہ بعد میں سلمہ ذہنی لحاظ سے معذور اور بیمار ہو گئے تو امامہ بنت حمزہ کی شادی ان سے تو نہ ہو سکی اور حضرت ام سلمہ کے دوسرے بیٹے اور سلمہ کے چھوٹے بھائی عمر بن سلمہ کے ساتھ یہ رشتہ طے پایا اور شادی ہوئی.اور یہ سب حضور طی نیم کی طرف سے سلمہ کی قدر دانی کے طور پر معلوم ہوتا تھا.سلمہ عبد الملک بن مروان کے زمانہ تک زندہ رہے.دوسرے بیٹے عمر کی پیدائش ہجرت حبشہ کے زمانہ میں ہوئی تھی.رسول اللہ سلیم کی وفات کے وقت وہ نو سال کے تھے.حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں وہ ایران اور بحرین کے امیر مقرر ہوئے.اور عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ان کی وفات ہوئی.تیسری صاحبزادی زینب تھیں جو حبشہ میں پیدا ہوئیں ان کا نام بڑہ تھا جسے بدل کر آنحضرت ہم نے 37 36 زینب نام رکھا تھا.38

Page 145

ازواج النبی 129 ย حضرت ام سلمہ حضور علی علیم کے ساتھ حضرت ام سلمہ کی شادی کے وقت یہ اپنی والدہ کی گود میں شیر خوار بچی تھیں.شادی کے بعد جب آنحضور علیم کمرے میں داخل ہوئے تو حضرت ام سلمہ بیٹی کو دودھ پلا رہی تھیں.آپ واپس تشریف لے گئے.دوبارہ تشریف لائے تو یہی صور تحال دیکھی اور پھر واپس ہو گئے.حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی حضرت عمار بن یاسر گو جب اس کا علم ہوا تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ یہ بچی تمہارے اور رسول اللہ نیم کے درمیان حائل ہے اسے میرے سپر د کر دو.اس کے بعد جب حضور طی یک تیم تشریف لائے تو زینب کو گھر میں نہ پاکر فرمایا ”زناب کہاں ہے ؟“ انہوں نے عرض کیا کہ اسے عمار باہر لے گئے ہیں.پھر حضرت عمار نے اپنی اس بھانجی کی رضاعت کا مناسب اہتمام کیا.ابن سعد کے مطابق رضاعت کی یہ ذمہ داری حضرت اسماء بنت ابو بکر ادا کرتی رہیں.آنحضرت نے ایک موقع پر محبت اور پیار کا اظہار کرتے ہوئے زینب کے چہرے پر پانی چھڑ کا تھا، کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے بڑھاپے میں بھی ان کے چہرے پر ترو تازگی کے آثار نظر آتے تھے.فیض صحبت رسول ملی ایل ایلیم 41 42 40 آنحضرت طلی یا تم نے اپنی ازواج کی جو اعلیٰ تعلیم تربیت فرمائی.حضرت ام سلمہؓ کی روایات میں اس کا بھی ذکر ملتا ہے.حضرت ام سلمہ قرآن کی حافظہ تھیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن کی تلاوت کا طریق بیان کرتے ہوئے حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ علیم ہر ایک آیت جدا کر کے پڑھا کرتے تھے.مثال کے طور پر آپ سورۂ فاتحہ کی بسم اللہ سے لیکر مالِك يَوْمِ الدِّین تک چار آیات چار ٹکڑوں میں الگ الگ پڑھ کر سنا تیں.ایک روایت میں پردہ کے مسائل کے بارہ میں آپ فرماتی ہیں کہ آنحضرت علی علیم نے انہیں اور حضرت میمونہ کو اپنے ایک نابینا صحابی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم سے بھی پردے کی ہدایت فرمائی تھی.اور بیویوں کے اس سوال پر کہ وہ تو نابینا ہیں.رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ کیا تم بھی نابینا ہو ؟ اس طرح آنحضرت لعلم نے نہایت باریک بینی سے اس قرآنی ہدایت پر عمل کروایا کہ مومن مرد بھی اور مومن عورتیں بھی آنکھیں نیچی رکھا کریں.اور کسی نابینا مرد پر بھی اپنے گھر کی عورتوں کو نظر ڈالنے سے روک کر پردے کا ایک اعلیٰ نمونہ قائم کر کے دکھایا اور خواتین کا مردوں سے اختلاط کسی صورت میں بھی پسند نہیں فرمایا.

Page 146

ازواج النبی 130 حضرت ام سلمہ ย ایک اور روایت میں حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ ایک مخنث ( جسے ہیجڑا یا خُسرا بھی کہتے ہیں ) آیا ہوا تھا اس نے سردارِ طائف کی بیٹی کا ذکر اس انداز میں کیا کہ جس سے اس کی جسامت وغیرہ ظاہر ہوتی تھی.آنحضرت ملی تم کو علم ہوا تو فرمایا کہ بظاہر مردانہ صلاحیتوں سے محروم ایسے لوگوں سے بھی ہماری خواتین کو پردہ کرنا چاہئے تاکہ دوسروں کی بیٹیوں کے بارہ میں ایسی نامناسب باتیں نہ ہوں.اس لئے ہمارے گھر وں میں یہ اس طرح آزادانہ آیا نہ کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کی دینی تربیت کا کتنا خیال رکھتے تھے اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے.حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ لی لی تم ایک رات اچانک بیدار ہوئے اور فرمایا کہ سبحان اللہ آج رات فتنوں کی کتنی ہی خبریں دی گئیں اور کتنے ہی خزانے بھی اتارے گئے.یعنی آئندہ کے بارہ میں فتوحات وغیرہ کی پیشگوئیاں.کوئی ہے جو ان حجروں میں محو خواب بیبیوں کو جگائے کہ وہ اٹھ کر عبادات اور دعا میں کچھ وقت گزار لیں.کاش انہیں علم ہو کہ کتنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے اس دنیا میں تو عمدہ لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں مگر اگلے جہان میں نامعلوم انہیں لباس نصیب بھی ہو گا کہ نہیں.کس ہوش ربا انداز میں حضور طی یا تم نے اپنے گھر کے لوگوں کو تہجد کے لئے بیدار کیا.حضرت ام سلمہ ہجرت حبشہ کے زمانہ کی یادوں کا تذکرہ بھی مختلف مواقع پر فرماتی رہیں.حضور کی آخری بیماری میں بھی جب حضور طی نیم بے چینی کی کیفیت میں تھے اور ازواج احوال پرسی کیلئے حاضر تھیں انہوں نے یہ ذکر کیا کہ حبشہ میں عیسائیوں کا ایک گر جا تھا، جس کا نام "ماریہ " تھا.آنحضرت علی یا ہم نے اس 46 47 موقع پر فرمایا کہ ان کا بُر اہو ان لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبروں پر سجدے کئے اور وہاں عبادت گاہیں بنائیں.0 اس طرح حضور نے اپنی آخری بیماری کی تکلیف میں بھی اپنے دل میں موجود اس دینی غیرت کا اظہار فرما کر اپنے اہل بیت میں توحید سے محبت اور شرک سے نفرت کے جذبات اجاگر کئے.جو ہر قیادت حضرت ام سلمہ میں غیر معمولی جرأت وحوصلہ کے ساتھ قیادت کا ایک خاص جو ہر موجود تھا.حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اور میں گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ خواتین گھر کے ایک جانب نماز ادا کر رہی ہیں.حضور علی یا تم نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ اے ام سلمہ ! تم کون سی نماز پڑھ رہی ہو ؟ انہوں

Page 147

ازواج النبی 131 حضرت ام سلمہ ย 49 نے عرض کیا فرض نماز حضور علی کریم نے فرمایا تم امامت کیوں نہیں کرواتیں؟ حضرت ام سلمہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں.بس عورتوں کی امام آگے کھڑے ہونے کی بجائے درمیان میں کھڑی ہو جائے.اس طرح حضرت ام سلمہ نے خواتین کو نماز باجماعت میں پہلی دفعہ امامت کروائی.دوسری روایت میں مزید صراحت ہے کہ یہ نماز عصر کی تھی.حضرت حجیر ةبنت حصین بیان کرتی ہیں کہ ہمیں حضرت ام سلمہ نے عصر کی نماز کی امامت کروائی اور آپ ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں.اور یوں عورتوں کے لئے نماز میں ایک خاتون کی امامت کا نمونہ ان کے ذریعہ جاری ہوا.حضرت ام سلمہ حضور علم سے اکثر دینی مسائل دریافت کرتی رہتی تھیں.اس وجہ سے صحابہ کرام بعد کے زمانے میں دینی سوالات پوچھنے کے لئے آپ سے رجوع کرتے تھے.ایک موقع پر حضرت عبد اللہ بن عباس نے حضرت عائشہ سے پوچھوایا کہ نماز عصر کے بعد نفل پڑھنے جائز ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس بارہ میں حضرت ام سلمہ سے پوچھیں.سائل ان کے پاس گیا تو حضرت ام سلمہ نے بیان فرمایا کہ حضور عام طور پر عصر کے بعد نفل پڑھنے سے منع فرماتے تھے.کیونکہ غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنا منع ہے.اور عصر کے بعد سورج ڈھلنے کا وقت ہوتا ہے اس لئے غروبِ آفتاب کی وجہ سے نماز کے لئے ناپسندیدہ اوقات میں شمار ہوتا ہے کہ کہیں نماز پڑھنے والا ممنوع وقت میں داخل نہ ہو جائے.پھر انہوں نے اپنا یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک دفعہ عصر کے بعد حضور میرے گھر نماز پڑھنے لگے تو میں نے اپنی خادمہ سے کہا کہ حضور علی تم کو یاد کر واؤ کہ آپ تو عصر کے بعد نماز سے روکتے تھے.آج آپ خود پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ کے اشارے سے روک دیں تو واپس چلی آنا.حضور طی یا ہم نے جب خادمہ کو ہاتھ کے اشارے سے منع فرما دیا اور سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ دراصل آج نماز ظہر کے بعد عبد القیس قبیلہ کے وفد کی آمد پر مصروفیت رہی.ان کے ساتھ ملاقات کی وجہ سے میری ظہر کے بعد کی دو رکعتیں ادا ہونے سے رہ گئیں جو میں نے اب ادا کی ہیں.حضرت ام سلمہ کی ایک روایت کے مطابق وہ وفد بنو تمیم کا 52 51 جہاں تک بعض دوسری روایات میں آنحضور می یتیم کے عصر کے بعد دو نفل ادا کرنے کا تعلق ہے اس بارہ میں حضرت عائشہ وضاحت کرتی ہیں کہ نبی کریم ملی تیم نیکی کا کوئی کام شروع کرتے تو پھر اسے جاری

Page 148

ازواج النبی 132 حضرت ام سلمہ رکھتے تھے.چنانچہ یہ نوافل آپ بعد میں بھی ادا فرماتے رہے.یہاں تک کہ یہ دور کعتیں آپ نے کبھی نہیں چھوڑیں.حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں کہ عام طور پر لوگ کوشش کرتے تھے کہ جب حضور کی باری میری طرف ہو تو وہ تحائف بھیجا کریں.حضرت ام سلمہ اپنی دلیری کے باعث حق بات سے رکتی نہ تھیں.چنانچہ ایک موقع پر بعض دیگر ازواج کے ساتھ مل کر انہوں نے حضور کی خدمت میں اس بارہ میں عرض کیا کہ یار سول الله تم لوگوں پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ جس بیوی کے ہاں بھی آپ کی باری ہو وہاں وہ تحائف لا سکتے ہیں.انہیں خاص حضرت عائشہ کی باری کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں.حضور نے اس بات سے اعراض کیا.حضرت ام سلمہ سے ہی یہ روایت بھی ہے کہ آنحضرت نے ایک موقع پر فرمایا کہ عائشہ کے بارے میں مجھے کوئی الزام مت دیا کرو کیونکہ اللہ تعالی کا بھی اس کے ساتھ نرالا سلوک ہے اور ان کے بستر میں رض (54) مجھے وحی بھی آتی ہے.حضرت ام سلمہ نے حضور طی تم کے گھر میں آکر غیر معمولی برکات سے حصہ پایا.وہ گھر جس میں فرشتوں کا نزول ہوتا تھا اور وہ ان فرشتوں کو دیکھتی اور ان کی باتیں سننے کی سعادت پاتی رہیں.وہ خود بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت لی لی کہ تم میرے گھر میں تھے جبریل علیہم آئے وہ حضور علی یتیم سے گفتگو فرماتے رہے، جب اٹھ کر جانے لگے تو آنحضرت لیلی یا تم نے فرمایا کہ ام سلمہ جانتی ہو کہ یہ کون تھے.میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ لی لی یم ا یہ آپ کے صحابی دحیہ کلبی تھے.حضرت دحیہ وہ خُو بر و صحابی تھے جن کی شکل میں جبریل حضور طی کنیم کے پاس وحی لے کر آتے تھے.حضرت ام سلمہؓ کہتی تھیں کہ میں سمجھتی رہی کہ دحیہ کلبی ہیں.پستہ اس وقت چلا جب آنحضرت صلی علی تم نے مسجد میں جاکر خطبہ ارشاد کیا اور فرمایا کہ جبریل یہ وحی لے کر آئے تھے.رض حضرت ام سلمہ کے والہانہ عشق رسول کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے رسول اللہ لی لی ایم کے کچھ بال بطور تبرک سنبھال کر رکھے ہوئے تھے.56

Page 149

ازواج النبی وفات 133 حضرت ام سلمہ حضرت ام سلمہ نے لمبی عمر پائی.آپ نے رسول اللہ لی لی ایم کے بعد باون برس تک رسول اللہ میم کی علمی وروحانی برکات سے ایک دنیا کو مستفیض کرتے ہوئے بالآخر 63ھ کے آخر میں یزید کے عہد میں اپنے مولی کے حضور حاضر ہو گئیں.آپ ازواج مطہرات میں سب سے لمبی عمر پا کر سب سے آخر میں وفات پانے والی زوجہ مطہرہ تھیں.واقدی کی روایت کے مطابق آپ کی عمر 84 برس ہوئی.جبکہ بعض دیگر روایات اور قرائن کی روشنی میں آپ کی عمر کا اندازہ 95 سال تک پہنچتا ہے.حضرت ام سلمہ کی وصیت تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت عمرؓ کے بہنوئی حضرت سعید بن زید پڑھائیں جو عشرہ مبشرہ صحابہ رسول میں سے تھے.مگر ان کی وفات حضرت ام سلمہ سے پہلے ہو گئی چنانچہ حضرت ابوہریرہ نے جنت البقیع میں آپ کی نماز جناہ پڑھائی.اور وہیں تدفین بھی عمل میں آئی.59 اللَّهمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ***** **** ****

Page 150

حضرت ام سلمہ 134 حوالہ جات الاصابة فی تمییز الصحابه از علامہ ابن حجر جلد 8ص150 دار الجبیل بیروت الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص86 بیروت مجمع الزوائد للهيثمي جلد 6 ص 282 بيروت، الاستیعاب جلد 1 ص 261 بیروت دلائل النبوة للبيهقى جلد 8ص463 بيروت سیرۃ ابن ہشام جلد 1 ص 468 بیروت الطبقات الکبریٰ جلد 3 ص 239 بیروت مستدرک حاکم جلد 4 ص17 بیروت اصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 8 ص 223 بیروت دلائل النبوة للبيهقى جلد 8 ص 463،اسد الغابہ جلد 1ص632 بیروت اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ علامہ ابن الا شیر جلد 1ص632 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم جلد 4 ص 19 بیروت صحیح مسلم کتاب الجنائز باب اغماض الميت والد عاءله مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 313 قاہرہ الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص88 بيروت صحیح مسلم کتاب الجنائز بابا لبكاء على الميت مسلم کتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة مسلم کتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة مسند احمد جلد 6 ص320.طبقات ابن سعد جلد 8 ص91 سیرت خاتم النبيين ص530 سنن النسائی کتاب النکاح باب النکاح الابن الله ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20

Page 151

ازواج النبی 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 135 حضرت ام سلمہ مستدرک حاکم جلد 2ص195 بیروت المعجم الكبير لطبرانی جلد 23 ص 253 موصل مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 404 قاہرہ مسند احمد بن حنبل جلد 6ص295 قاہرہ کنز العمال للعلامہ علاء الدین علی المنتقی جلد 16 ص 562 مؤسسة الرسالة المعجم الكبير لطبرانی جلد 24 ص 281 موصل ، مسند احمد بن حنبل جلد 6ص296 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف ازواج النبی الامام محمد بن یوسف ص 155 بیروت مسلم کتاب الرضاع باب جواز صبتها نو بتھالضر بتھا.سیرت خاتم النبین ص 531 سیرت خاتم النبيين ص 531 ابن ماجہ کتاب الطهارة باب ما جاء في عسل النساء.مسند احمد جلد 6ص289 صحیح مسلم کتاب الزكاة باب فضل النفقة والصدقة بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد والمصالحه Mohammed and the rise of Islam by Margoliouth p.348.London المعجم الاوسط الطبرانی جلد 23ص367 قاہرہ مسند احمد جلد 6 ص 320.ابن سعد جلد 8 ص461.الاصابہ جلد 3 ص 149 بیروت الوافی بالوفیات لالصفدی جلد 3 ص297 37 38 39 الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 ص592 بیروت مسند احمد جلد 2ص430 قاہرہ مسند احمد بن حنبل جلد 6ص320.ابن سعد جلد 8 ص461 40 المعجم الكبير للطبرانی جلد 24 ص 282 موصل

Page 152

حضرت ام سلمہ 136 انوار العلوم جلد 20ص430 سنن ابی داؤد کتاب الحروف والقرآت باب حد ثنا عبد اللہ بن محمد سنن ابو داؤد کتاب اللباس باب وقل للمؤمنات يغضضن بخاری کتاب اللباس باب اخراج المتشبهين بالنساء صحیح بخاری کتاب العلم باب العلم والعظة بالليل طبقات الكبرى جلد 2ص239 بخاری کتاب المساجد باب هل تنبش قبور، بخاری کتاب المساجد باب الصلاة في البيعة مسند زید بن علی جلد 1ص112 سنن دار قطنی جلد 1 ص 405 بيروت بخاری کتاب مواقيت الصلواۃ باب لا يتحرى الصلواة بخاری کتاب السهو باب اذا کلم وھو یصلی مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص293 قاہرہ بخاری کتاب مواقيت الصلاۃ باب ما یصلی بعد العصر.فتح الباری شرح بخاری لابن حجر عسقلانی جلد 2 ص 64 بیروت بخاری کتاب فضائل الصحابه باب فضل عائشه بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام بخاری کتاب اللباس باب ما یذکر فی الشیب الاصابہ جلد 8 ص 224 - سبل الھدی والرشاد جلد 11 ص 191.تفسیر ابن کثیر جلد 6ص400 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 95 الاصابہ جلد 8 ص152 ازواج النبی 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 552 58 59

Page 153

ازواج النبی فضائل 137 رض حضرت زینب بنت جحش ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش حضرت زینب بنت جحش کی شادی بھی اللی مصلحت کا نتیجہ تھی.وہ خود رسول اللہ لی لی تم سے اپنی شادی کا ذکر بجاطور پر فخر کے رنگ میں کیا کرتی تھیں کہ دیگر ازواج مطہرات کے مقابل پر مجھے یہ خصوصیت عطا ہوئی کہ اللہ تعالی نے یہ شادی کروانے کی نسبت اپنی ذات سے دی جیسا کہ فرمایا:.جب زید کا نکاح حضرت زینب کے ساتھ ختم ہو گیا تو اس کے بعد اے نبی ! ہم نے تیرا نکاح حضرت زینب کے ساتھ کروادیا (الاحزاب : 38) آپ فرماتی تھیں کہ دیگر ازواج کے نکاح کا فیصلہ کرنے والے ان کے ولی تھے.مگر آنحضور طی یتیم کے ساتھ میرے نکاح کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ایک دفعہ رسول اللہ صلی یی سلیم نے اپنے پاس موجود ازواج سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم میں سے زیادہ جلد لمبے ہاتھوں والی بیوی مجھے آکر ملے گی.حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ ان میں سے سب سے پہلے حضرت زینب کی وفات سے یہ بات کھلی کہ لمبے ہاتھوں سے مراد ان کا صدقہ وغیرہ کرنا اور اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنا تھا.حضرت عائشہ نے آپ کی وفات پر کیا شاندار خراج تحسین پیش کیا کہ آج ایک ایسی ہستی ہم سے جدا ہو گئی جو بہت ہی تعریفوں کے لائق تھی.جو غرباء، مساکین اور مستحقین کو بہت فائدہ پہنچانے والی تھیں.رسول کریم کی ہم نے آپ کو عبادت میں خشوع و خضوع، دردمند خاتون قرار دیا.نام و نسب حضرت زینب بنت جحش کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا.ان کی والدہ امیمہ حضرت عبد المطلب کی صاحبزادی اور آنحضرت علیم کی پھوپھی تھیں.آپ السابقون الاولوں میں سے تھیں اور بہت ابتدائی

Page 154

ازواج النبی 138 حضرت زینب بنت جحش زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی.جن عورتوں نے ابتدائی زمانہ میں ہجرت کی آپ بھی ان میں شامل 2 آپ کا اصل نام بڑہ تھا.آنحضرت طی می کنیم نے اسے تبدیل کر کے زینب نام رکھا.آنحضرت کے لطیف ذوق کے مطابق یہ پُر حکمت طریق تھا کہ ایسے نام جو معنی کے لحاظ سے اچھے نہ ہوں بدل کر کوئی اور نام رکھ دیتے تھے.بڑہ بظاہر ایک اچھا نام تھا جس کے معنی سراپا نیکی کے ہیں، لیکن چونکہ قرآن شریف میں حکم ہے لَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُفر کہ اپنے نیک پاک ہونے کا دعویٰ نہ کرو.اسی مصلحت سے حضور نے بڑہ کی بجائے زینب نام رکھا.جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ بڑہ نام کے بارہ میں یہ کہا گیا کہ اس میں اپنے آپ کو پاک قرار دینے کے دعوئی کا گمان ہو سکتا ہے.اسکی تائید محمد بن عمرو کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ میری بیٹی کا نام بڑہ رکھا گیا.حضرت ابو سلمہ کی بیٹی زینب نے اس نام سے منع کرتے ہوئے بتایا کہ میرا نام بھی بڑھ رکھا گیا تھا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے نیک پاک ہونے کا دعویٰ نہ کرو.اللہ تعالیٰ تم میں سے نیک لوگوں کو جانتا ہے.چنانچہ میر ا نام زینب رکھا گیا.حضرت زینب کی کنیت ام الحکم تھی.قریش کے معزز قبیلے کی خاتون ہونے کے علاوہ دینداری اور تقویٰ میں بھی حضرت زینب کا بلند مقام تھا.پہلی شادی اور طلاق کی گہری حکمت رض حضرت زید کا تعلق دراصل ایک آزاد عرب قبیلہ بنو کلب سے تھا.ان کے دشمن قبیلہ نے حملہ کر کے انہیں بچپن میں ہی غلام بنا لیا اور حضرت حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کو پیش کر دیا.حضرت خدیجہ نے انہیں ہو نہار پا کر رسول کریم کو دے دیا اور حضور نے انہیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنالیا.انہیں حضور کی صحبت میں رہ کر خدمات کی توفیق ملی.وہ دینی کاموں میں پیش پیش ہوتے تھے.حضور علی کیا کہ تم نے ان کی دینداری اور تقویٰ کی وجہ سے یہ پسند فرمایا کہ ان سے غلامی کا داغ دھونے کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب نگارشتہ حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ ہو جائے.پہلے تو زینب نے اپنی خاندانی بڑائی کا خیال کرتے ہوئے اسے ناپسند کیا.لیکن آخر کار آنحضرت ملی تم کی پر زور خواہش کو دیکھ کر رضامند ہو گئیں.

Page 155

ازواج النبی 139 حضرت زینب بنت جحش اس رشتہ کے پس منظر میں دیگر اہم مقاصد بھی تھے جن میں جاہلیت کے قبائلی تفاخر کا خاتمہ ،رنگ و نسل کی تمیز مٹانا، احترام انسانیت اور اسلامی مساوات کا قیام شامل ہے.جن کے ذریعہ ان غلاموں سے حسن سلوک تعلیم به کا ایک شاندار نمونہ پیش کیا گیا جنہیں جاہلیت میں جانوروں سے بھی بد تر سمجھا جاتا تھا.جبکہ اسلامی " تھی کہ اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات : 14) تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تقویٰ کے ย لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے.اسی بناء پر کفو کا معیار نبی کریم طی ی ی سلیم نے حسن و جمال ، مال و منال اور نسب و عزت کی بجائے دین کو قرار دیا کہ اسی میں خیر و برکت ہے.یہ تھیں وہ وجوہات جن کی بناء پر آنحضرت نے شادی کی یہ تجویز حضرت زینب کے سامنے رکھی.شروع میں طبعاً انہیں کچھ روک بھی پیدا ہوئی کیونکہ آپ کا تعلق قریش کے خاندان سے تھا اور ابراہیمی نسبت اور تولیت کعبہ کے باعث یہ خاندان قریش کے معزز ترین خاندانوں میں شمار ہوتا تھا.اور ان کی کسی عورت کارشتہ کسی غلام کے ساتھ کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکتا تھا.آنحضرت می نم کی وعظ و تلقین کے بعد حضرت زینب نے اپنی سعادت ورشد کے باعث یہ رشتہ قبول کر لیا.مگر شاید ایک طرف حضرت زید کو آزاد کردہ غلام ہونے کا احساس دوسری طرف حضرت زینب کے ایک معزز قبیلے کی شریف زادی ہونے کی صور تحال میں جو قدرتی تفاوت تھا وہ دور نہ ہو سکا اور گھر یلو نباہ میں مشکل پیش آئی.آنحضرت لیلی کیم کے سامنے جب اس گھرانے کے بعض مسائل یا شکایات آئیں تو پہلے آپ نے فریقین کو سمجھایا، خاص طور پر حضرت زید کو خالصہ تقویٰ کے پیش نظر اپنے معاملات سلجھانے کی تلقین فرمائی.کیونکہ آپ محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ دین و تقویٰ کو مقدم کرتے ہوئے اس رشتے کو نبھانے کے لئے کوشش کریں اور کچھ قربانی دیں تو یہ رشتہ شاید نبجھ جائے.قرآن شریف میں اس بارہ میں واضح اشارہ ہے کہ آنحضرت علم حضرت زید کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ أَمسِكُ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ الله (الاحزاب : 38) کہ اے زید ! تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار نہ کرو.کیونکہ آنحضور ملی یم نے کئی اغراض دینیہ کے پیش نظر یہ رشتہ طے فرمایا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کی بعض دیگر مخفی حکمتوں کے تابع یہ رشتہ نبھ نہیں سکا اور بالآخر حضرت زید کو حضرت زینب سے علیحدگی اختیار کرنی ہی پڑی.مگر کیا ہی خوش قسمت تھے حضرت زید محض اس لئے نہیں کہ آپ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام کلام مجید میں اس موقع پر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے

Page 156

ازواج النبی 140 حضرت زینب بنت جحش کئی وساوس جاہلیت کے ازالہ کے لئے ان کے وجود کو وسیلہ بھی بنایا.اور اسی موقع پر سورۂ احزاب میں ہی اللہ تعالی نے ہمارے نبی ا تم کو خاتم النبیین کے بلند روحانی مقام کا اعلان کرنے کیلئے پسند فرمایا.رسول اللہ صلی یا تم سے شادی اور اسکی حکمت 8 جب حضرت زید کی طرف سے حضرت زینب کو طلاق کے بعد تین ماہ کی عدت گزر گئی تو اللہ تعالیٰ نے بعض اور رسوم جاہلیت کے خاتمہ کے لئے آنحضرت علی ی ی یتیم کو حضرت زینب کے ساتھ نکاح کی ہدایت فرمائی تاکہ ایک تو منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نہ کرنے کی رسم جاہلیت کا قلع قمع ہو.دوسرے عورتوں کے حقوق کو قائم کیا جائے.اس منشاء الٹی کے پورا کرنے کے لئے حضور می یا تم نے یہ شاندار حکمت عملی اختیار فرمائی کہ اپنے وفادار منہ بولے بیٹے اور ساتھی حضرت زید کو بھی ہر قدم پر اس مشورے میں شریک رکھا.بلکہ حضرت زینب کو شادی کا پیغام بھی انہیں کے ذریعہ بھجوایا.حضرت زید خود بیان کرتے ہیں کہ حضرت زینب کی عدت طلاق ختم ہو جانے کے بعد حضور نے مجھے حضرت زینب کے ہاں شادی کا پیغام پہنچانے کا ارشاد فرمایا.حضرت انس کی روایت کے مطابق جب حضرت زید نے حضرت زینب کے گھر جا کر اپنے آنے کی اطلاع دی وہ اس وقت آٹا گوندھ رہی تھیں.وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میرے دل پر اس وقت ان کی عظمت و احترام کا ایک رعب غالب تھا کہ کس عظیم ہستی نے ان کے لئے پیغام بھجوایا ہے.اس کیفیت میں پردہ کی خاطر میں ان کے گھر کی جانب پشت کر کے کھڑا ہو گیا.حالانکہ ابھی پردہ کے احکام نہیں اترے تھے.اور یوں آنحضرت طی می کنم کی طرف سے شادی کا پیغام انہیں پہنچایا.حضرت زینب بنت جحش ایک تقویٰ شعار اور متوکل خاتون تھیں.انہوں نے بھی کیا خو بصورت جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالی سے دعا اور استخارہ نہ کر لوں کوئی جواب نہیں دے سکتی.چنانچہ وہ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ کھڑی ہو گئیں.حضرت زینب بھی تسلی ہو جانے پر ان کے بھائی ابواحمد بن جحش ولی مقرر ہوئے.اور چار صد در هم حق مہر پر آنحضرت علیه السلام کے ساتھ حضرت زینب کا نکاح ہوا.یہ نکاح اس بدر سم کے خاتمہ کا عملی اعلان تھا کہ متبنی کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے.9 10 یہاں یہ امر تحقیق طلب ہے کہ صحیح مسلم میں حضرت زینب کی شادی کا واقعہ بیان کرنے والے راوی صحابی پندرہ سالہ حضرت انس کی روایت کس حد تک قابل قبول ہے.جن کی درایت کے بارہ میں بھی محدثین

Page 157

ازواج النبی 141 حضرت زینب بنت جحش نے کلام کیا ہے.خصوصاً اس لئے کہ اس روایت کے بیان میں حضرت انس سے یہ تسامح بھی ہوا ہے کہ انہوں نے شادی کے واقعات کو ترتیب کے لحاظ سے آگے پیچھے بیان کر دیا.انہوں نے حضرت زینب کو رسول اللہ علیم کی طرف سے شادی کا پیغام بھیجوانے کے بعد نکاح کر لینے کی وحی قرآنی کا ذکر کیا ہے جو در ایتا درست نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ آیت جس میں دراصل حضرت زینب سے عقد کی اجازت کا ذکر ہے شادی سے پہلے ہی ہو سکتی ہے نہ کہ بعد.آیت کے الفاظ یہ ہیں.وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ فَلَمَّا فَقَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَجْنَاكَهَا (الاحزاب : 38) یعنی تو اپنے نفس میں وہ بات چھپا رہا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خائف تھا اور اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے.پس جب زید نے اس (عورت) کے بارہ میں اپنی خواہش پوری کر لی اور اسے طلاق دے دی)، ہم نے اسے تجھ سے بیاہ دیا.پس اول تو قرآن شریف جو تاریخ اسلامی کا سب سے صحیح ریکارڈ ہے اس میں وحی الہی کے نتیجہ میں آنحضور کے اس نکاح کا ذکر ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیات پہلے اتر چکی تھیں.خواہ حضرت انس کے علم میں بعد میں آئی ہوں.اس کی تائید ائمہ اہل بیت میں سے حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت امام علی زین العابدین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ...اللہ نے اپنے نبی ٹیم کو زینب سے شادی سے قبل بتادیا تھا کہ وہ آپ کی ازواج میں سے ہو گی.چنانچہ جب حضرت زید آپ کے پاس شکایت لے کر آئے تو آپ نے قرآنی بیان کے مطابق انہیں نصیحت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس روک رکھو.اس پر اللہ تعالی نے آپ کو فرمایا کہ میں آپ کو پہلے خبر دے چکا ہوں کہ آپ کی شادی حضرت زینب سے ہو گی.آیت 11 کے اس حصہ کہ " تو اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا" سے یہی بات مراد ہے.پس یہ آیات حضرت زینب کو پیغام شادی بھجوانے سے قبل نازل ہو چکی تھیں.یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی علیحدہ وحی خفی بھی اس بارہ میں نازل ہوئی ہو ، بہر حال اس شادی کا فیصلہ وحی الہی کے نتیجہ میں ہوا.اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں جو رسول اللہ علیم کے حضرت زینب بھی اجازت کے بغیر ان کے گھر جانے کا ذکر ہے اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی، درست نہیں ہے.کیونکہ یہ بات صحیح بخاری کی روایت کے صریح خلاف ہے جس کے مطابق حضرت زینب رخصت ہو کر آنحضرت علی علی کریم

Page 158

ازواج النبی 142 حضرت زینب بنت جحش کے گھر آئی تھیں.اور رخصتی کے بعد حضور کا اپنے گھر میں یا حضرت زینب کے کمرہ میں بلا اجازت و اطلاع جانا قابل اعتراض نہیں، نہ ہی کوئی غیر معمولی خلاف دستور بات ہے.حضرت زینب بنت جحش اپنی اس شادی کا ذکر فخر کے رنگ میں کیا کرتی تھیں کہ دیگر ازواج مطہرات کے مقابل پر مجھے یہ خصوصیت عطا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ شادی کروانے کی نسبت اپنی ذات سے دی جیسا کہ فرمایا کہ جب زید کا نکاح حضرت زینب کے ساتھ ختم ہو گیا تو اس کے بعد اے نبی ہم نے تیرا نکاح حضرت زینب کے ساتھ کر وادیا.حضرت زینب فرماتی تھیں کہ دیگر ازواج کے نکاح کا فیصلہ کرنے والے ان کے ولی تھے.مگر آنحضور طیم کے ساتھ میرے نکاح کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا.میرا حق آپ پر دوسری بیویوں سے بڑھ کر ہے اور جبرائیل میرے نکاح کے سفیر تھے.رحمی رشتہ کے قریبی ہونے کے لحاظ سے کہ میں آپ کی پھوپھی زاد ہوں جس سے بڑھ کر کوئی قریبی رشتہ والی اور بیوی نہیں اور پردہ کے احکام لاگو ہونے کے لحاظ سے بھی میں بڑھ کر ہوں ( کہ آپ کی شادی کے موقع پر آیت الحجاب اتری تھی).بلاشبہ جبرائیل کا اس نکاح کے لیے سفیر ہونا ایک سعادت تھی جو آپ کے حصہ میں آئی.مگر اس روایت کی بناء پر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ نکاح کے وقت حضرت زینب کے کوئی ولی ہی مقرر نہیں ہوئے تھے.صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ کے بھائی کی ولایت میں یہ نکاح عمل میں آیا تھا.تاہم حضرت زینب کا یہ فخر اپنی جگہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ان کے ساتھ نکاح کا ارشاد فرمایا تا کہ رسوم جاہلیت کا قلع قمع کیا جائے.دعوت ولیمہ حضرت زینب حضور کی پھوپھی زاد اور قبیلہ قریش کی سید زادی تھیں.آنحضرت ا ہم نے الہی منشاء کے تابع ہو نیوالی اس بابرکت شادی کے موقع پر نہایت عمدہ اور خصوصی دعوت ولیمہ کا انتظام کیا.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت زینب بنت جحش کی شادی کے موقع پر حضور نے بہت لوگوں کو دعوت دے کر بلایا.لوگ باری باری دس دس کی ٹولیوں کی صورت میں حضرت زینب کے لئے تیار کئے گئے کمرہ میں آتے اور کھانا کھا کر چلے جاتے.آخر میں کچھ لوگ کھانا کھا کر وہیں بیٹھ رہے اور ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے.اس موقع پر حضور کئی دفعہ اس کمرے کے پاس آکر اس انداز میں کھڑے ہوئے جیسے انسان

Page 159

ازواج النبی 143 حضرت زینب بنت جحش مجلس برخواست کرنے کے لئے اٹھتا ہے، لیکن بعض احباب پھر بھی بیٹھے رہے حتی کہ آنحضور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے.حضرت زینب بنت جحش اسی کمرے میں دوسری طرف رخ کر کے ایک حیادار دلہن کی طرح بیٹھی ہوئی تھیں.اسی موقع پر سورۃ احزاب کی آیت حجاب اتری.جس میں دعوتوں وغیرہ کے موقع پر بعض دیگر احکام بھی ارشاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے مگر اس طرح نہیں کہ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے ہو لیکن (کھانا تیار ہونے پر ) جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہو اور جب تم کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور وہاں (بیٹھے) باتوں میں نہ لگے رہو.یہ (چیز) یقینا نبی کے لئے تکلیف دہ ہے مگر وہ تم سے (اس کے اظہار پر ) شرماتا ہے اور اللہ حق سے نہیں شرماتا.اور اگر تم اُن ( ازواج نبی ) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو.یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ طرز عمل) ہے.اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو اذیت پہنچاؤ اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اس کے بعد کبھی اس کی بیویوں (میں سے کسی) سے شادی کرو.یقینا اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے.(الاحزاب :54) احکام پردہ کا نزول اسی موقع پر آداب معاشرت کے علاوہ پر دے کے احکام بھی اترے.جس کے بعد سے با قاعدہ پر دے کا رواج ہوا.ولیمہ کے بارہ میں حضرت انس بن مالک کی ایک اور روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضور نے کسی بیوی کا ایسا ولیمہ کیا ہو جیسا حضرت زینب کا تھا.اس پر حضور نے بکری ذبح کروائی.0 دوسری روایات سے گوشت روٹی کے ساتھ میٹھا پیش کرنے کا بھی ذکر ہے.حضرت انس کی ہی روایت ہے کہ اس شادی کے موقع پر میری والدہ حضرت ام سلیم نے مجھے کھیر وغیرہ کا ایک بڑا بر تن کھانے کے ساتھ پیش کرنے کے لئے بھجوایا اور مجھے کہا کہ حضور صلی عوام کی خدمت میں جاکر عرض کرنا کہ اس وقت ہمارے گھر میں میسر یہ حقیر تحفہ پیش خدمت ہے.0 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور نے مجھے لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لئے بھجوایا اور میں دس دس کی ٹولیوں میں انہیں بلا کر لایا جو اس کمرے میں آکر بیٹھتے اور کھانا کھا کر چلے جاتے تھے.ان کی تعداد تین سو 16 ย

Page 160

ازواج النبی 144 حضرت زینب بنت جحش کے قریب تھی.بطور خاص گوشت اور روٹی کا کھانا اور حضرت ام سلیم کی طرف سے میٹھا بھجوانا ایک خاص اہتمام تھا جو حضرت زینب کے ولیمہ پر کیا گیا اور ایک عرصہ تک لوگوں نے اس دعوت کو یادر کھا.17 ایک اعتراض کا جواب یہاں حضرت زینب کی شادی کے بارہ میں بعض بے بنیاد روایات کارڈ کرنا بھی ضروری ہے.جو علامہ زمخشری، امام حاکم اور علامہ سیوطی وغیرہ مفسرین و محدثین کی کتب کے ذریعہ اسلامی لٹریچر میں در آئے، ایسی روایات کو اسلام دشمن عناصر نے خوب اچھالا اور ان سے اپنے مقاصد مزعومہ اور فوائد مذمومہ حاصل کرنا چا ہے.ان کا تذکرہ بھی کوئی عاشق رسول گوارا نہیں کر سکتا.کیونکہ ان باتوں کو ایک عام شخص کی طرف منسوب کرنا بھی زیب نہیں دیتا کجا یہ کہ رسول اللہ کے بارہ میں ایسا خیال کیا جائے.پھر جب قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت زینب کی شادی کئی رسوم جاہلیت کو کالعدم کرنے کے لحاظ سے خالصہ اللی منشاء کے ماتحت ہوئی.تو ایسی روایات کی کیا وقعت رہ جاتی ہے.انہیں بے سر و پاروایات کی بناء پر ایک بیہودہ اعتراض مشہور مستشرق ولیم میور نے بھی کیا.وہ لکھتا ہے :.We have already made acquaintance with Zeid, the Prophet's freed-man and adopted son.His wife Zeinab, now over thirty years of age, was fair to look upon.On a certain day,the Prophet visited, as he often did , their house.Zeid being absent, Zeinab invited him to enter, and, starting up in her loose and scanty dress, made haste to array herself for his reception.But the beauties of her figure through the half-opened door had already unveiled themselves too freely before the licentious gaze of Mahomet.He was smitten by the sight:.............There might be little scandal according to Arab morals in seeking the hand of a married woman whose husband had no wish to retain her; but the husband in the present case was Mahomet's son, and even in Arabia such a union was unlawful.Still the passion for Zeinab could not be

Page 161

ازواج النبی 145 حضرت زینب بنت جحش smothered; it continued to burn within the heart of Mahomet, and at last, bursting forth, scattered his scruples to the winds.Sitting one day with Ayesha, the prophetic ecstasy appered to come over him.As he recovered, he smiled joyfully and said: 'Who will go and congratulate Zeinab, and say that the Lord hath joined her unto me in marriage? " ترجمہ :.نعوذ باللہ آنحضرت للعالم حسب معمول زید اور زینب کے گھر گئے تو زید کو موجود نہ پایا.زینب جو تقریباً30 سال کی ایک خوبصورت عورت تھی اس نے آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دی.اور اپنے مختصر اور کھلے لباس میں آپ کے استقبال کیلئے آگے بڑھیں مگر اس سے قبل ہی محمد (م) کی چاہت بھری نظریں آدھے کھلے دروازے سے زینب کے خوبصورت خدو خال پر پڑ چکی تھیں.آپ اس نظارہ سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے..........زید کے طلاق دینے کے بعد عرب کے رسم و رواج کی وجہ سے آپ اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی نہیں کر سکتے تھے.لیکن محمد ( م ) کے دل میں محبت کی آگ اب بھی اسی طرح بھڑک رہی تھی.آخر کار ایک دن آپ عائشہ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی اور خوش ہو کر یہ کہا کہ کون زینب کو مبارکباد دیگا کہ خدا نے اسے میرے عقد میں دے دیا ہے" اس قسم کے اعتراضات کا کافی و شافی جواب اس زمانہ کے امام اور رسول اللہ علیم کے عاشق صادق حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کیا خوب دیا ہے.آپ فرماتے ہیں:.ان مفتری لوگوں نے اعتراض کی بناء دو باتیں ٹھہرائی ہیں (۱) یہ کہ متبنی اگر اپنی جورو کو طلاق دے دیوے تو متبنی کرنے والے کو اس عورت سے نکاح جائز نہیں (۲) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھی تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے سو ہم ان دو باتوں کا ذیل میں جواب دیتے ہیں.امر اول کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ متبنی کرتے ہیں ان کا یہ دعوی سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹیوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں..ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دو باپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متمبنی بنانے والا حقیقت میں باپ ہو گیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعویٰ کیا گیا ہے.

Page 162

حضرت زینب بنت جحش ازواج النبی 146 غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں.یہ بھی یادر ہے کہ زید جو زینب کا پہلا خاوند تھا وہ دراصل آنحضرت علیم کا غلام تھا آپ نے اپنے کرم ذاتی کی وجہ سے اس کو آزاد کر دیا اور بعض دفعہ اس کو بیٹا کہا تا غلامی کا داغ اس پر سے جاتا رہے چونکہ آپ کریم النفس تھے اس لئے زید کو قوم میں عزت دینے کے لئے آپ کی یہ حکمت عملی تھی مگر عرب کے لوگوں میں یہ رسم پڑ گئی تھی کہ اگر کسی کا استاد یا آقا یا مالک اس کو بیٹا کر کے پکارتا تو وہ بیٹا ہی سمجھا جاتا یہ رسم نہایت خراب تھی اور نیز ایک بیہودہ وہم پر اس کی بناء تھی کیونکہ جبکہ تمام انسان بنی نوع ہیں تو اس لحاظ سے جو برابر کے آدمی ہیں وہ بھائیوں کی طرح ہیں اور جو بڑے ہیں وہ باپوں کی مانند ہیں اور چھوٹے بیٹوں کی طرح ہیں.اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالی نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تمپر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں.جیسا کہ یہ آیت ہے.وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جورواں حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں.پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالی کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا تو اب ہریک سمجھ ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا.قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متبنی کی جورو حرام نہیں ہو سکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لاؤ..سکتا اور دوسری بجز جس پر اعتراض کی بنیادر کھی گئی ہے یہ ہے کہ زینب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا تھا صرف زبر دستی خدا تعالیٰ نے حکم دے دیا.یہ ایک نہایت بد ذاتی کا افتراء ہے جس کا ہماری کتابوں میں نام و نشان نہیں..وقرآن یا بخاری اور مسلم سے اس بات کا ثبوت دیں کہ وہ نکاح زینب کے خلاف مرضی پڑھا گیا تھا.ظاہر ہے کہ جس حالت میں زینب زید سے جو آنحضرت کا غلام آزاد تھا راضی نہ

Page 163

ازواج النبی 147 حضرت زینب بنت جحش تھی اور اسی بناء پر زید نے تنگ آکر طلاق دی تھی اور زینب نے خود آنحضرت کے گھر میں ہی پرورش پائی تھی اور آنحضرت کے اقارب میں سے اور ممنون منت تھی تو زینب کے لئے اس سے بہتر اور کونسی مراد اور کونسی فخر کی جگہ تھی کہ غلام کی قید سے نکل کر اس شاہ عالم کے نکاح میں آوے جو خدا کا پیغمبر اور خاتم الانبیاء اور ظاہری بادشاہت اور ملک داری میں بھی دنیا کے تمام بادشاہوں کا سرتاج تھا جس کے رعب سے قیصر اور کسریٰ کانتے تھے اور قرآن شریف بیان فرماتا ہے کہ آنحضرت اس رشتہ سے طبعا نفرت رکھتے تھے اور روز..کی لڑائی دیکھ کر جانتے تھے کہ اس کا انجام ایک دن طلاق ہے چونکہ یہ آیتیں پہلے سے وارد ہو چکی تھیں کہ منہ بولا بیٹا در اصل بیٹا نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے آنحضرت کی فراست اس بات کو جانتی تھی کہ اگر زید نے طلاق دے دی تو غالباً خدا تعالیٰ مجھے اس رشتہ کے لئے حکم کرے گا تا لوگوں کے لئے نمونہ قائم کرے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور یہ قصہ قرآن شریف میں بعینہ درج ہے.پھر پلید طبع لوگوں نے جن کی بدذاتی ہمیشہ افترا کرنے کی خواہش رکھتی ہے خلاف واقعہ یہ باتیں بنائیں کہ آنحضرت می کنیم خود زینب کے خواہشمند ہوئے حالانکہ زینب کچھ دور سے نہیں تھی کوئی ایسی عورت نہیں تھی جس کو آنحضرت نے کبھی نہ دیکھا ہو یہ زینب وہی تو تھی جو آنحضرت کے گھر میں آپ کی آنکھوں کے آگے جوان ہوئی اور آپ نے خود نہ کسی اور نے اس کا نکاح اپنے غلام آزاد کردہ سے کر دیا اور یہ نکاح اس کو اور اس کے بھائی کو اوائل میں نامنظور تھا اور آپ نے بہت کوشش کی یہاں تک کہ وہ راضی ہو گئی.ناراضگی کی یہی وجہ تھی کہ زید غلام آزاد کردہ تھا.پھر یہ کس قدر بے ایمانی اور بد ذاتی ہے جو واقعات صحیحہ کو چھوڑ کر افترا کئے جائیں اور یہ بات جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نکاح پڑھ دیا اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ نکاح میری مرضی کے موافق ہے اور میں نے ہی چلا ہے کہ ایسا ہوتا مومنوں پر حرج باقی نہ رہے.عبادت گزاری حضرت زینب بنت جحش بہت دعا گو اور عبادت گزار خاتون تھیں.آنحضرت میں لیا ہم ایک دفعہ حضرت زینب کے گھر میں تشریف لائے.حضرت عمر بن الخطاب بھی آپ کے ساتھ تھے.رسول اللہ ملی ہم نے دیکھا کہ حضرت زینب بہت انہماک سے نماز میں مصروف ہیں.آپ نے ان کی خشیت اور تضرع کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ زینب بہت ہی درد مند دل رکھنے والی خاتون ہیں.

Page 164

ازواج النبی 148 حضرت زینب بنت جحش دوسری روایت کے مطابق حضور سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ! آپ نے حضرت زینب کے لئے اواہ کا لفظ فرمایا ہے.اس سے کیا مطلب ہے.آپ نے فرمایا کہ اس سے انتہائی خشوع و خضوع ، دردمند دل اور تضرع و عاجزی کی حالت مراد ہے.یقیناً ابراہیم بہت ہی بردبار ، نرم دل (اور ) جھکنے والا ہے.جو دوسخا 21 حضرت زینب بنت جحش بہت سخاوت کرنے والی اور مسکینوں اور غریبوں کا بے حد خیال رکھنے والی تھیں.دست کاری کی صنعت اور ہنر سے آپ واقف تھیں.ہاتھ سے کام کرنے کو ترجیح دیتی تھیں.جانوروں کی کھالیں وغیر ہ رنگنے اور بعض اور چیزیں بنانے سے کچھ کما لیتی تھیں اور اس سے جو آمدن ہوتی تھی وہ اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ کر دیا کرتی تھیں.آنحضرت علی سلیم کو ان کی یہ بات بہت پسند تھی.بعض مواقع پر اس بارے میں دیگر ازواج مطہرات کے سامنے حضرت زینب بنت جحش کی آپ نے تعریف بھی فرمائی.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت زینب بنت جحش اس گھر یلو مجلس میں موجود تھیں.جس میں آنحضرت لیل لی کہ ہم نے اس موقع پر موجود اپنی ازواج سے فرمایا کہ أَسْرَعُكُنَّ لَاقًا فِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا یعنی میری وفات کے بعد تم میں سے بہت جلد جو بیوی مجھے آکر ملے گی وہ لمبے ہاتھوں والی ہے.ازواج مطہرات ظاہری ہاتھوں کی لمبائی مراد لیتے ہوئے حضور کے سامنے ہی دیوار پر ہاتھ رکھ کر اپنے لگیں.حضرت سودہ کے ہاتھ لمبے نکلے جبکہ حضرت زینب بنت جحش کے ہاتھ سب سے چھوٹے تھے مگر حضور ملی ایم کی وفات کے بعد حضرت زینب بنت جحش سب سے پہلے فوت ہوئیں.اس موقع پر حضرت عمرؓ نے کیا خوب تبصرہ فرمایا کہ آنحضرت علی علیم کے سامنے جب ازواج ہاتھ ماپ رہی تھیں تو لمبے ہاتھوں کی حقیقت واضح نہ تھی.مگر اب حضور کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب کی وفات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ لمبے ہاتھوں سے مراد، ان کا صدقہ وغیرہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا تھا.ان کے وہ لمبے ہاتھ جو غریبوں کے گھروں میں پہنچ کر ان کی ضروریات پوری کرتے تھے.24 6* 23 حضرت زینب کی مال سے بے نیازی اور استغناء کا عجب عالم تھا.حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب اموال غنیمت آئے تو انہوں نے حضرت زینب بنت جحش کی خدمت میں ان کا حصہ بھی بھجوایا.وہ اتنازیادہ تھا

Page 165

ازواج النبی 149 حضرت زینب بنت جحش که حضرت زینب بنت جحش سمجھیں کہ ساری ازواج کا حصہ تقسیم کرنے کے لئے میرے پاس بھجوایا ہے.بڑی سادگی سے فرمانے لگیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت عمرؓ کو بخشش عطا فرمائے.ساری بیویوں کا مال تقسیم کے لئے مجھے بھجوانے سے بہتر تھا کہ وہ کسی اور بیوی کو بھجواتے جو زیادہ بہتر رنگ میں اسے تقسیم کرتیں.جب بتایا گیا کہ یہ تو صرف آپ کے لئے ہے تو فرمایا کہ سبحان اللہ ، اتنازیادہ مال میرے لئے بھجوادیا ہے.پھر آپ نے اسے کھولنا بھی پسند نہیں فرمایا اور وہ درہم و دینار گھر کے کسی کونے میں پھینکوا کر اوپر کپڑا ڈال دیا.اور وہ خادمہ جو وہ مال لے کر آئی تھیں ان سے فرمایا کہ اس میں ہاتھ ڈال کر جتنا ہاتھ میں آتا ہے نکال لو.پھر وہ بعض ایسے مستحقين کو بھجوایا جو یتیم بچے تھے اور ان سے آپ کا رحمی رشتہ بھی تھا.پھر مسلسل ایک کے بعد دوسرے گھر میں بھجواتی رہیں.یہاں تک کہ جب تھوڑا سا بچ گیا تو تقسیم کرنے والی خاتون برزہ بنت رافع نے کہا "اے ام المومنین ! اب تو بہت تھوڑا سا مال رہ گیا ہے.اس مال میں آپ کا بھی حق تھا اور آپ نے تو سارے کا سارا تقسیم کر دیا.اس پر فرمانے لگیں! کہ اچھا جو باقی رہ گیا ہے وہ سارا تمہارا ہے.برزہ کہتی ہیں کہ میں نے اسے نکال کر شمار کیا تو صرف پچاسی درہم باقی بچے تھے وہ بھی حضرت زینب نے مجھے عطا کر دیئے.پھر حضرت زینب دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر کہنے لگیں کہ اے اللہ ! اس سال کے بعد میں یہ مال لینا نہیں چاہتی.گویا انہیں یہ گوارانہ تھا کہ اتنامال ان کے گھر میں آئے اور پھر اس سے اگلے ہی سال حضرت زینب کی وفات ہو گئی اور وہ اپنے مولی کے حضور حاضر ہو گئیں.26 25 حضرت عائشہ کا خراج تحسین آپ کی وفات پر حضرت عائشہ نے کیا خوبصورت خراج تحسین پیش کیا.انہوں نے فرمایا کہ آج ایک ایسی ہستی ہم سے جدا ہوگئی جو بہت ہی تعریفوں کے لائق تھی.جو غریبوں کو اور مستحقین کو بہت ہی فائدہ پہنچانے والی تھیں، یعنی حضرت زینب.آج ان کی وفات سے واقعہ بیو گان اور یتیموں کو ایک دھچکا لگا ہے اور ان کو ان کی وفات کا صدمہ ہوا ہے.یہ آپ ہی تھیں جو غریبوں کا خیال رکھتیں اور بیوگان کے حقوق ادا کرنے والی تھیں.اللہ تعالی کی ہزاروں ہزار رحمتیں آپ پر ہوں.27 اخلاق فاضلہ حضرت زینب بنت جحش نہایت اعلیٰ اخلاق فاضلہ کی مالک تھیں.آپ کی سچائی ، دیانت ، صلہ رحمی اور

Page 166

ازواج النبی 150 حضرت زینب بنت جحش دیگر بیویوں سے حسن سلوک کے بارہ میں حضرت عائشہ نے بھی خوب دل کھول کر تعریف کی ہے.حالانکہ رسول اللہ علیم کی زندگی میں حضرت عائشہ اور حضرت زینب کے درمیان آنحضور طی نیم کی شفقتوں کا زیادہ مورد بننے کے لئے باہم ایک مقابلہ بھی ہوتا تھا.پھر بھی حضرت عائشہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ” واقعہ افک میں جب مجھ پر الزام لگایا گیا، تو حضرت زینب کی بہن حمنہ بھی اس میں شریک ہو گئیں، مگر جہاں تک حضرت زینب کی اپنی ذات کا تعلق ہے ان سے جب آنحضرت علی کریم نے پوچھا کہ اس حوالہ سے آپ کی حضرت عائشہ کے بارہ میں کیا رائے ہے ؟ تو جو خوبصورت جواب انہوں نے دیاوہ ان کی سچائی اور راست بازی اور وسیع النظری پر دلیل ہے.کہنے لگیں کہ یارسول اللہ علیم ! میں نے تو کبھی اپنی آنکھوں اور کانوں سے کوئی ایسی بات دیکھی نہ سنی.اور خدا کی قسم ! میں نے عائشہ سے سوائے خیر اور بھلائی کے کبھی کچھ نہیں دیکھا.حضرت عائشہ کو ان کی اس حق گوئی کی بڑی قدر تھی اور وہ حضرت زینب کی تعریف کیا کرتی تھیں جبکہ ان کی بہن شاید بزعم خویش حضرت زینب ہی کی غیرت کی خاطر حضرت عائشہ کے بارہ میں مخالفانہ رائے رکھتی تھیں.اس موقع پر بھی حضرت زینب نے جادہ اعتدال اور سچائی کا دامن نہیں چھوڑا.حضرت عائشہ خود فرمایا کرتی تھیں کہ آنحضرت سلم کی ازواج مطہرات میں سے زینب وہ تھیں جو میرے ساتھ مقابلہ کیا کرتی تھیں.مگر خدا کی قسم ! کہ میں نے زینب سے بہتر کوئی اور عورت نہیں دیکھی جو اتنی متقی ، پارسا اور سچی ہو.اتنی زیادہ صلہ رحمی کرنے والی اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے والی ہو.اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے والی اور صدقہ دینے والی ہو.وہ اپنی محنت کی کمائی سے اللہ کی راہ میں اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے صدقہ دیا کرتی تھیں.اطاعت شعاری 29 28 حضرت زینب بنت جحش کی سیرت میں اطاعت رسول کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے.آنحضرت علی ہم نے جن پرانی رسموں کا خاتمہ کیا ان میں عربوں کا کسی کی وفات پر بین کرنا اور سوگ وغیرہ بھی شامل تھا.حضور نے ان بد رسوم سے منع کیا.حضرت زینب کا اس بارہ میں نہایت پاک نمونہ تھا.چنانچہ جب ان کے حقیقی بھائی کی وفات ہوئی تو آپ نے تیسرے دن خوشبو منگوا کر استعمال کی اور چہرے پر پاؤڈر وغیر ہ استعمال کر کے فرمانے لگیں کہ مجھے اس عمر میں بننے سنورنے کی کوئی حاجت یا ضرورت تو نہیں مگر آج میں اپنے آقا و مولا حضرت محمد

Page 167

ازواج النبی 151 حضرت زینب بنت جحش کے ایک حکم کی تعمیل کی خاطر ایسا کر رہی ہوں چونکہ میں نے آپ کو ایک دفعہ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا تھا.آپ نے فرمایا کہ تین دن سے زیادہ کسی بھی میت پر سوگ نہ کیا جائے.سوائے اپنے خاوند کے کہ جس کے لئے بیوہ کو چار ماہ اور دس دن جو عدت کا زمانہ سوگ میں گزارنا ہوتا ہے.اس لئے آج اگرچہ میرا بہت ہی پیارا اور عزیز بھائی فوت ہوا ہے.میں حضور کے اس حکم کے مطابق تیسرے دن کے بعد اپنا سوگ ختم کرتی ہوں.یہ حضرت زینب کا ہی اطاعت اور وفا شعاری کا ایک اظہار ہے.روایات احادیث 30 حضرت زینب بنت جحش سے کئی احادیث بھی مروی ہیں.آپ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت میرے گھر میں تشریف لائے.آپ کچھ گھبرائے ہوئے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور میں تم کو وحی الہی کے ذریعے عرب کے مستقبل سے متعلق اطلاع دی گئی تھی.آپ نے فرمایا کہ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرِّ قَدِ اقترب عربوں کے لئے ہلاکت ہے اس شر اور مصیبت کی وجہ سے جو بہت قریب آگیا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ آج یا جوج ماجوج کے فتنہ میں سے اتنے سے معمولی سوراخ کے برابر فتنہ ظاہر ہوا ہے.آپ نے انگشت شہادت اور انگوٹھے کو ملا کر سوراخ کی مقدار بیان کی اور فرمایا کہ ابھی تو بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے اور بہت ہلاکتیں ہوں گی.حضرت زینب بنت جحش نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی نیم ! ہمارے اندر نیک لوگ موجود ہونگے اس کے باوجود پھر بھی یہ تباہی اور ہلاکت ہم پر آنے والی ہے.حضور نے فرمایا کہ جب پلیدی اور برائی بڑھ جائے گی تو اللہ تعالی کی یہ تقدیر پوری ہو کر رہے گی.وفات 32 حضرت زینب بنت جحش کا انتقال حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں 20ھ میں ہوا.آپ کی عمر ترین 53 برس تھی.حضرت عمرؓ کی یہ بڑی خواہش تھی کہ اتنی بلند پایہ بزرگ اور ام المومنین کی تدفین کے موقع پر ان کی قبر میں وہ خود داخل ہوں.انہوں نے ازواج مطہرات کو پیغام بھجوا کر پوچھا کہ ان کی قبر میں داخل ہونے کے لئے کون زیادہ مستحق ہے.ازواج نے پیغام بھیجا کہ جو ان کی زندگی میں ان کے گھر میں داخل ہو سکتا تھا وہ آج ان کی قبر میں بھی داخل ہو سکتا ہے.چنانچہ حضرت عمر خود ان کی قبر میں اترے.اور بہت اعزاز واحترام کے ساتھ ان کی تدفین کروائی.پہلے آپ نے یہ اعلان کروایا کہ ان کے جنازے کے ساتھ

Page 168

حضرت زینب بنت جحش 152 ازواج النبی صرف ان کے رحمی رشتہ دار ہی جائیں گے.حضرت عمرؓ کا مقصود یہ تھا کہ بوقت وفات بھی ام المومنین کے احترام میں جنازہ کے لئے بھی حجاب کا اہتمام ہو اور اسی کے ساتھ حضرت زینب کی تدفین ہو.لیکن جب حضرت اسماء بنت عمیس نے یہ عمدہ مشورہ دیا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضور علیم کی زوجہ محترمہ کی تدفین بہر حال پردہ کے اہتمام کے ساتھ ہونی چاہئے تو آپ ایک تابوت میں ان کی نعش رکھ کر جنت البقیع میں لے جائیں اور وہاں ان کی تدفین ہو جائے.حضرت عمرؓ کو یہ رائے بہت پسند آئی اور آپ نے تابوت کا انتظام کر کے اعلان کروایا کہ تمام اصحاب رسول جنازہ کے ساتھ آکر تد فین میں شامل ہو سکتے ہیں.حضرت زینب بنت جحش کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.34 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ****: ***

Page 169

ازواج النبی 1 2 3 4 15 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 153 حوالہ جات الاصابہ فی تمییز الصحابه از علامہ ابن حجر جلد 2ص600 دار الجیل بیروت اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ علامہ ابن الاثیر جلد 1ص1357 بیروت بخاری کتاب الادب باب تحویل الاسم معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصبھانی جلد 23 ص 171 بیروت دلائل النبوة للبيهقى جلد 4 ص 51 بيروت طبقات الکبری لابن سعد جلد 5 ص214 بیروت ترمذی کتاب التفسیر باب سورہ احزاب طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص104 بیروت مسلم کتاب النکاح باب زواج زینب سیر ابن ہشام جلد 2 ص 644 بیروت حضرت زینب بنت جحش الدر المنثور جزء 6 ص 615 بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ الاحزاب ترمذی کتاب التفسیر باب سورہ الاحزاب.مستدرک حاکم جزء 4 ص27 صحیح مسلم کتاب النکاح باب زواج زينب بنتِ جَحْشِ وَنُزُولِ الْحِجَابِ وَإِثْبَاتِ وَلِيمَةِ الْعُرْسِ مسلم کتاب النکاح باب زواج زینب طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 8 ص 105 بیروت مسلم کتاب النکاح باب زواج زینب بنتِ جَحْشِ وَنُزُولِ الْحِجَابِ وَإِثْبَاتِ وَلِيمَةِ الْعُرْسِ مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 246 قاہرہ.الوفا باحوال المصطفیٰ جلد 1 ص 212 بیروت.

Page 170

ازواج النبی 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 =4 154 حضرت زینب بنت جحش فتح الباری لابن حجر عسقلانی جلد 9 ص 227 بیروت Life of Mahomet By W.Muir p-300,301 آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10 ص 55 تا 62 معجم الكبير لطبرانی جلد 24 ص 39 موصل عیون الاثر جلد 2 ص 387 ابن سید الناس بیروت معرفۃ الصحابة لابی نعیم الاصبھانی جلد 22 ص300 بیروت مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل زینب + مستدرک حاکم جزء 4 ص27 مجمع الزوائد ھیثمی جلد 9 ص 399 بیروت طبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 ص 301،جلد 8 ص109 بیروت ازواج النبی الامام محمد بن یوسف ص 189 بیروت طبقات الکبری لابن سعد جلد 8ص110 بیروت بخاری کتاب المغازی باب حدیث الا فک مستدرک حاکم جلد 4 ص 26 بیروت بخاری کتاب الجنائز باب حد المرأة على غير زوجها بخاری کتاب الفتن باب یا جوج و مأجوج.المعجم الكبير لطبرانی جلد 24 ص 38 موصل معجم الكبير جلد 24 ص 50 ، طبقات الکبری جلد 8 ص 111 بیروت المستدرک حاکم جلد 4 ص 25 بیروت المعجم الکبیر لطبرانی جلد 24ص38 موصل.اسد الغابة لابن الاثیر جلد 7 ص 127 بیروت

Page 171

ازواج النبی 155 اتم المؤمنین حضرت جویریہ فضائل حضرت جویریہ رض عرب قبیلہ بنو خزاعہ کے مشرک سردار کی بیٹی جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار سے رسول اللہ کی شادی بھی خاص الٹی تقدیر تھی.انہوں نے بھی آنحضرت طلی یا تم سے شادی سے پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک چاند یثرب سے چلا اور ان کی گود میں آ گرا.جب جویریہ قید ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کے والد فدیہ کے ساتھ انہیں آزاد کروانے آئے.حضور صلی یا تم نے ان سے فرمایا کہ " میں اسے اختیار دیتا ہوں اگر وہ آزاد ہو کر آپ کے ساتھ جانا چاہے تو میری طرف سے آزاد ہے".مگر حضرت جویریہ نے اپنے والد کو جواب دیا:." اب تو میں اللہ کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں.اس لئے اب آپ کے ساتھ واپس نہیں جاسکتی." نام و نسب حضرت جویریہ کا اصل نام بڑہ تھا جس کے معنی نیکی کے ہوتے ہیں.آنحضرت ہم نے یہ نام پسند نہیں فرما یا اور اسے بدل کر جو پر یہ رکھ دیا.صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بعض احادیث کے حوالہ سے بڑہ نام کی تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں." بڑہ کا نام بدلنے میں یہ حکمت تھی کہ چونکہ بڑہ کے معنی نیکی کے ہیں آنحضرت لی ہیں کہ تم یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کبھی جب بڑہ گھر میں نہ ہوں اور کوئی شخص ان کے متعلق یہ دریافت کرے کہ آیا بڑہ گھر میں ہیں یا نہیں تو اسے یہ جواب ملے کہ بڑہ گھر میں نہیں ہے جس کے بظاہر یہ معنی ہیں کہ گویا نیکی اور برکت گھر سے اٹھ گئی ہے." شاید کسی کو یہ معمولی لفظی تبدیلی کی بات معلوم ہو لیکن فی الحقیقت اس سے آنحضرت لی مینیم کی اس دور اندیشی، معاملات کی گہرائی اور تہہ تک جانے کی عادت معلوم ہوتی ہے کہ آپ کس طرح ہر ظن کے موقع 2

Page 172

ازواج النبی 156 حضرت جویریہ رض سے بھی بچتے تھے اور نیکی کے ساتھ آپ کو کتنی گہری محبت تھی کہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ نیکی سے جدائی کا مضمون لفظی طور پر بھی گفتگو میں کہیں پیدا ہو.بڑہ ایک مشرک سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں.جن کا تعلق بنو خزاعہ قبیلے کی مصطلق شاخ سے تھا.آنحضور علی لام کے حرم میں آنے سے پہلے وہ ایک مشرک مسافع بن صفوان کے عقد میں تھیں جو غزوہ بنی مصطلق میں مارا گیا اور وہ اسیر ہو کر حضرت ثابت بن قیس یا ان کے چازاد کے حصہ میں آئیں.اور مکاتبت میں امداد کیلئے حضور صلی علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوئیں.غزوہ بنو مصطلق 3 یہاں غزوہ بنو مصطلق ( جسے غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں) کے بارہ میں مختصر آیہ ذکر مناسب ہوگا کہ قبیلہ بنو مصطلق مکہ اور مدینہ کے درمیان ساحل سمندر کے پاس مریسیع مقام پر آباد تھا.0 4 قریش مکہ کے اکسانے پر اس قبیلے کے سردار حارث بن ابی ضرار نے 5ھ میں اپنے آٹھ دیگر ساتھی قبائل کے پاس جا کر ان کو مدینے پر حملے کے لئے تیار کیا.آنحضور ملی ٹیم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے ایک صحابی حضرت بریدہ اسلمی کو احوال معلوم کرنے کی غرض سے بھیجا.انہوں نے واپس آکر بتایا کہ بنو مصطلق کے لوگ مدینہ پر حملہ کے لئے بالکل تیار ہیں.آنحضرت طلی تم نے بجائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ مسلمانوں کو فوری جہاد کی تیاری کا حکم دیا اور بنو مصطلق کے علاقے مریسیع کی طرف کوچ فرمایا اور منزلیں مارتے ہوئے اچانک ان کے علاقہ میں جا پہنچے جہاں اس قبیلہ کا سردار دیگر حامی قبائل کو اکٹھا کر رہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب اتنا آناً فانا اور خاموشی سے کیا کہ دشمن کو اس کی بھنک بھی نہ پڑی اور آپ دشمن کے سر پر جا پہنچے ، جب وہ امن سے اپنی بکریوں کو پانی پلا ر ہے تھے.وہ اچانک مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر سخت پریشان ہو گئے.ارد گرد کے قبائل جو ان کی مدد کے لئے آئے ہوئے تھے وہ تو گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے، البتہ قبیلہ بنو مصطلق کے لوگوں نے کچھ مقابلہ کرنے کی کوشش کی.5

Page 173

ازواج النبی 157 حضرت جویریہؓ رض مگر مسلمانوں نے ان کو گھیرے میں لے لیا، پہلے فریقین کے درمیان تیر اندازی ہوئی پھر مسلمانوں نے ہلہ بول کر یکدم ان پر حملہ کیا.اس تمام مقابلے میں صرف ایک مسلمان شہید اور دس کافر ہلاک ہوئے اور دشمن کو شکست فاش ہوئی.دشمن کی عورتیں اور بچے وغیرہ قیدی بنالئے گئے.حضرت جویریہ بھی ان میں شامل تھیں.حضور علی کریم نے قیدی تقسیم کئے.جو یہ یہ ایک انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں.جنہوں نے ان سے مکاتبت کر کے آزاد کرنے کا تحریری معاہدہ کر لیا.ان کی آزادی کے عوض سردار کی بیٹی ہونے کے ناطے نواوقیہ کی ایک بھاری رقم ان کے ذمہ لگائی.جس کی مالیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانہ میں زکوۃ کا نصاب ( یعنی وہ رقم جس کی موجودگی میں کسی مسلمان پر زکوۃ واجب ہوتی تھی) پانچ اوقیہ چاندی یعنی قریباًد و صد درہم تھا اور یہ قریباً اس سے دگنی رقم تھی.یہ ساری رقم آنحضرت ا ہم نے حضرت جویریہ کی طرف سے بطور حق مہر ادا کی اور انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح فرمایا.رسول اللہ صلی یا تم سے شادی حضرت عائشہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ حضرت جویریہ خوبرو خاتون تھیں.انہوں نے حضرت ثابت سے ایک خطیر رقم کے عوض اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اس سلسلے میں حضور علیم کے پاس امداد لینے کی غرض سے آئیں.ایک عورت ہونے کے ناطہ سے مجھے طبعا دل میں کچھ وسوسہ سا پیدا ہوا.اس پر طرہ یہ کہ حضرت جویریہ نے نہایت عمدگی اور کمال فصاحت کے ساتھ اپنا سارا معاملہ آنحضور کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا " یار سول اللہ صلی تیم ! آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی ہوں جو مصیبت ہماری قوم کو پہنچی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں.میں نے حضرت ثابت کے ساتھ آزادی کا تحریری معاہدہ کر لیا ہے.اب میں آپ سے اس مکاتبت کی رقم میں مدد حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئی ہوں.اس کی کہانی سے آنحضرت طلیلی لیلا کہ تم بہت متاثر ہوئے.معلوم ہوتا ہے حضور طی یا ہم نے اس خیال سے کہ یہ قبیلے کے سردار کی بیٹی ہیں.اور ان کے ساتھ تعلق عقد کے نتیجہ میں یہ قبیلہ اسلام کے اور قریب آسکتا ہے.چنانچہ آنحضرت عالی ہم نے حضرت جویریہ سے فرمایا کہ "آزادی میں مالی امداد سے بہتر کوئی اختیار آپ کو مل جائے تو کیا وہ مناسب نہ ہو گا.انہوں نے پوچھا وہ 8

Page 174

ازواج النبی 158 حضرت جویریہ کیا؟ آپ نے فرمایا " اگر تمہاری مکاتبت کی رقم نو اوقیہ چاندی ادا کر کے میں آپ کے ساتھ عقد کرلوں.حضرت جویریہ نے اس بات کو پسند کیا.0 دوسری روایت میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت جویریہ نے آنحضرت مسلم کی یہ تجویز صدق دل سے پسند کی یہاں تک کہ بعد میں جب ان کے والد حارث اپنے خیال میں بیٹی کو قید سے آزاد کروانے آئے تو انہوں نے آنحضور علم کی خدمت میں عرض کیا " مجھ جیسے سردار کی بیٹی کے لئے مناسب نہیں کہ اسے لونڈی بنا کر رکھا جائے.میری آپ سے گزارش ہے کہ اسے آزاد کر دیں تاکہ وہ جہاں جانا چاہے جائے." حضور علی علی کریم نے فرمایا کہ " میں اسے اختیار دیتا ہوں اگر وہ آزاد ہو کر آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ اسے لے جا سکتے ہیں.مگر یہ ان کی مرضی پر منحصر ہو گا، "اوہ سردار اس پر بہت خوش ہوا مگر جب حارث اپنی بیٹی جویریہ کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ آنحضرت علی کریم نے تمہیں اختیار دے دیا ہے.آپ فدیہ کے ساتھ آزاد ہو کر ہمارے ساتھ جاسکتی ہیں.اب خدا کے لئے ہمیں کہیں رسوا نہ کرنا مگر قربان جائیں حضرت جویریہ کے اس جواب پر جو انہوں نے اپنے والد کو دیا انہوں نے کہا " اب تو میں اللہ کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں.اس لئے آپ لوگوں کے ساتھ واپس نہیں جاسکتی.دراصل حضرت جویریہ رسول اللہ علیم کے حسن و احسان کو دیکھ کر آپ کی گرویدہ ہو چکی تھیں.ابن ہشام کی روایت کے مطابق رسول اللہ علیم نے حضرت جویریہ کی حضرت ثابت سے مکاتبت کی رقم ادا کر کے اور انہیں آزاد کروا کے نکاح فرمالیا.10 ابن ہشام کی ہی دوسری روایت میں یہ مزید تفصیل بھی ہے کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر دورانِ سفر رسول اللہ صلی علیم نے ایک انصاری کو حضرت جویریہ کی خدمت اور حفاظت پر مامور کیا اور مدینہ واپس تشریف لے آئے.ادھر جویریہ کے والد حارث اپنی بیٹی کے فدیہ کی خاطر کئی اونٹ لے کر مدینہ کو روانہ ہوئے.عقیق مقام پر پہنچے تو انہیں اپنے اونٹوں میں سے دو اونٹ بہت خوبصورت معلوم ہوئے.جن کو انہوں نے عقیق کی گھائی میں چھپا دیا.پھر آنحضور علی کم کی خدمت میں باقی اونٹ بطور فدیہ پیش کئے.حضور عالم نے فرمایا ان دو اونٹوں کا کیا قصہ ہے جن کو تم نے عقیق کی گھاٹی میں چھپارکھا ہے.حارث نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں.خدا کی قسم سوائے اللہ

Page 175

ازواج النبی 159 حضرت جویریہ رض کے کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا.اس پر حارث اور اس کے دو بیٹوں اور اس کی قوم نے اسلام قبول کر لیا.پھر وہ اونٹ منگوا کر آنحضرت میم کی خدمت میں بطور فدیہ پیش کر دیئے.اور ان کی بیٹی ان کے حوالے کر دی گئی.حضرت جویریہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تو آنحضور نے ان کے والد کو شادی کا پیغام 12 13 بھجوایا.انھوں نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے چار صد در ھم پر کر دیا.خود حضرت جویریہ کی روایت کے مطابق آنحضور طی علی کریم سے نکاح کے وقت ان کی عمر 20 سال تھی.اس شادی میں منشاء الہی اور برکت آنحضرت ماتم کی قبیلہ بنی مصطلق کی اس شہزادی سے شادی کے تعلق میں منشاء الٹی کے واضح اشارے ملتے ہیں.خود حضرت جویریہ بیان کرتی تھیں کہ آنحضرت علی اسکیم کے مریسیع میں آنے کے تین روز قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چاند یثرب سے چلا اور میری گود میں آپڑا ہے.میں نے کسی کو یہ خواب بتانی مناسب نہیں سمجھی ، جب رسول اللہ صلی علی تیم تشریف لائے اور جنگ کے بعد ہم قیدی بنالئے گئے تو مجھے اپنی رؤیا کی وجہ سے کچھ امید بندھتی تھی کہ اس کی کوئی بہتر تعبیر میرے حق میں ظاہر ہو گی.پھر وہ حضور طی کنیم کی خدمت میں پیش ہوئیں.وہ خود بیان فرماتی تھیں کہ جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ نے مجھے آزاد کر کے میرے ساتھ نکاح فرمایا.اس نکاح کا پہلا غیر معمولی اثر اور برکت یہ ہوئی کہ مسلمانوں نے قبیلہ بنو مصطلق کے تمام قیدی آزاد کر دئے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی جویریہ سے رسول اللہ علیم نے شادی کر لی ہے تو انہوں نے کہا اب تو ہمارے آقا و مولا کا اس قبیلے کے ساتھ دامادی کا رشتہ ہو گیا ہے اور وہ رسول اللہ لی لی ایک نیم کے سسرال بن چکے ہیں.اس لئے ان کے جتنے قیدی ہمارے پاس ہیں ہم ان کو بلا معاوضہ آزاد کرتے ہیں.روایات میں ذکر ہے کہ کوئی ایک سو مسلمان گھرانوں نے بنی مصطلق کے قید کی اس دن آزاد کئے تھے.حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ میں نے کسی بھی عورت کو اپنے قبیلے کے لئے ایسا برکت والا نہیں پایا جیسی حضرت جویریہ اپنے قبیلہ کے لئے ثابت ہوئیں کہ ان کے قبیلہ کے بیسیوں غلام اس بناء پر ایک دن میں آزاد 14

Page 176

ازواج النبی 160 حضرت جویریہ کر دئے گئے کہ ام المومنین حضرت جویریہ کے رشتہ داروں اور عزیزوں کو ہم بطور غلام بالونڈی کے اپنے پاس کیوں رکھیں.16 الغرض اللہ تعالی نے اس قبیلہ کی غلامی سے آزادی کی یہ برکت حضرت جویریہ کے طفیل ظاہر فرما دی اور اس کا نہایت گہرا اور عمدہ اثر اس قبیلے کے لوگوں پر ہوا جس کے نتیجہ میں وہ قبیلہ بجائے دشمنی کے اسلام کے قریب ہو گیا.ایک اعتراض کا جواب وہ روایات جن میں یہ ذکر ہے کہ حضرت جویریہ آنحضرت میں لیا یتیم کی ملک یمین (لونڈی ) کے طور پر تھیں صحیح نہیں.کیونکہ مستند روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت علی عالم نے حضرت جویریہ کو آزاد کر کے ان کا حق مہر مقرر کیا اور بنی مصطلق کے تمام اسیر اس رشتہ مصاہرت کی برکت سے آزاد ہوئے.خود حضرت جویریہ بیان کرتی ہیں کہ ایک موقع پر میں نے آنحضرت علی نیم کی خدمت میں جب یہ ذکر کیا کہ یارسول اللہ ! بعض ازواج مطہرات مجھ پر فخر کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ آپ نے مجھے بطور لونڈی کے اپنایا ہے.آنحضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ اے جویریہ ! کیا میں نے تمہارے لئے حق مہر مقرر نہیں کیا.لونڈی کا تو کوئی حق مہر نہیں ہوتا.پھر میں نے تو حق مہر کے علاوہ بھی تمہاری قوم کے چالیس غلام اور لونڈیوں کو 17 بھی آزاد کر دیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت جویریہ آنحضرت علی علم کی زوجہ مطہرہ کے طور پر آپ کے عقد میں آئیں.اور آپ کی تربیت اور فیض صحبت سے جس طرح باقی ازواج نے حصہ پایا ہے اسی طرح اللی تقدیر کے مطابق قبیلہ بنو مصطلق کی اس خوش قسمت خاتون نے بھی حصہ پایا.جنہیں ان کی طبعی نیکی اور سعادت کے نتیجہ میں رؤیا کے ذریعہ اس کی پیشگی خبر دے دی گئی تھی.یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ حضرت جویریہ کے ملک یمین یالونڈی ہونے کے بارہ میں اعتراض ازواج نبی کو کیسے پیدا ہوا جو رسول اللہ علیم کی تربیت یافتہ تھیں.اس بارہ میں یادر کھنا چاہئے کہ وہ زمانہ شریعت کے نزول کا تھا.جب پرانے رسم ورواج کے خاتمہ کے ساتھ اسلامی تعلیم کے نفوذ کا آغاز ہو رہا تھا.

Page 177

ازواج النبی 161 حضرت جویریہ رض اور یہ مسائل ابھی واضح نہ ہوئے تھے بلکہ آج بھی بعض لوگوں میں اس بارہ میں ابہام پایا جاتا ہے.حضرت مصلح موعود اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.لونڈی سے مراد ہر وہ لونڈی نہیں جسے آج کل لونڈی کہا جاتا ہے.بلکہ لونڈیوں سے مراد وہ لونڈیاں ہیں جو رسول کریم میم کے مقابل پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کرنے کیلئے ان کے ساتھ آتی تھیں اور وہ جنگ میں قید کر لی جاتی تھیں.تو اگر وہ مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا جائز ہے یعنی نکاح کیلئے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں تھی.0 18 پس دور غلامی کے عرب میں ایک مفتوح قبیلہ کی لونڈی کو جب رسول اللہ صل تم نے آزاد کر کے شادی کی تو طبعا یہ سوال پیدا ہونا ہی تھا جیسا کہ فتح خیبر کے بعد جنگی قیدی حضرت صفیہ کو آزاد کر کے رسول اللہ صلی علی تیم نے جب ان سے عقد فرمایا تو صحابہ کو یہی سوال پیدا ہوا کہ وہ کنیز ہیں یاز وجہ کر سول؟ پھر سب صحابہ کا اس پر اتفاق ہوا کہ اگر تو حضرت صفیہ کو دیگر ازواج کی طرح پردہ کروایا گیا تو وہ زوجہ مطہرہ ہونگی ورنہ لونڈی.جب حضور نے ان کو پردہ کروایا تو معاملہ واضح ہو گیا کہ آنحضور نے انہیں اپنے حرم میں شامل فرمایا ہے.19 پس جنگی قیدیوں کے قدیم دستور سے ہٹ کر حضرت جویریہ کو رسول اللہ سلیم کا حق مہر ادا کرنا، ان کے لئے ازواج کی طرح پردہ کا اہتمام اور انکی باری کی تقسیم نے ان کے جنگی قیدی ہونے کے تمام خیالات کو یکسر رڈ کر دیا.رسول اللہ علی ایم کے فیض صحبت سے پیدا ہو نیوالا انقلاب حضرت جویریہ قبول اسلام کے بعد حضور می ینم کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالی سے محبت اور ذکر الہی کرنے والی اور اعلیٰ درجہ کی عبادت گزار بن گئیں.حضرت جویریہ کی اپنی ایک روایت سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے.وہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ملی می کنیم ایک دفعہ گھر سے باہر تشریف لے گئے تو میں اس وقت صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد تسبیحات اور ذکر الہی کر رہی تھی، حضور نماز پڑھانے کے بعد صحابہ کے درمیان تشریف فرمار ہے اور پھر واپس تشریف لائے تو دن چڑھ چکا تھا اور میں اسی طرح مصلے پر بیٹھی تسبیحات اور ذکر الہی میں مشغول تھی.

Page 178

ازواج النبی 162 حضرت جویریہ رض آنحضرت علیم نے مجھے اسی حال میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا کہ تم صبح سے یہیں بیٹھی ذکر الٹی اور تسبیح میں مصروف ہو، میں نے عرض کیا جی ہاں یار سول اللہ لی تم ! آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھ ایسے کلمات نہ سکھاؤں جو تم تسبیحات اور ذکر الہی کے وقت پڑھ لیا کرو.میں نے تو وہی تین چار کلمے تین دفعہ پڑھے ہیں.مگر تم نے نماز فجر سے لے کر دن چڑھنے تک جتنا ذ کر الٹی اور تسبیحات کی ہیں.وہ چار کلمے اپنے اجر و ثواب ہیں ان سے زیادہ بھاری اور وزنی ہیں.اور وہ یہ کلمات ہیں :.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضًا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ - 20 اللہ تعالی اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے.اتنا قابل تعریف اور پاک جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے.اور اتنا پاک ہے جتنا وہ چاہے.اور اتنا پاک ہے جتنا اس کے عرش کا وزن ہے.اور اتنا پاک جتنا اس کے کلمات کے لکھنے کے لئے سیاہی ہو (اور اس کے کلمات کو احاطہ تحریر میں لانے کے لئے دنیا کے تمام سمندروں کی سیاہی بھی ناکافی ہے).ایک دوسری روایت میں اس دعا کے ہر کلمہ کو تین مرتبہ پڑھنے کا ذکر ہے.اس سے آنحضور طی یا یتیم کا مقصود صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالی کی جو تسبیح اور حمد دل کی گہرائی، سچی محبت اور شعور ووجد ان سے اپنی تمام تر لفظی و معنوی وسعتوں کے ساتھ کی جائے وہ زیادہ لائق قبول ہے.عشق رسول علیه السلام حضرت جویریہ جو ایک مشرک اور دشمن قبیلہ سے تھیں.رسول اللہ ٹیم کے عقد میں آئیں اور آپ کے اخلاق فاضلہ اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر آغاز میں ہی ایسی گرویدہ ہو ئیں اور وہ سچی محبت ان کے دل میں پیدا ہوگئی جو ایک مومن کی حقیقی شان ہے.چنانچہ جب آپ کے والد نے اپنی بیٹی کی اسیری کا سنا اور ان کو آزاد کروانے کیلئے فدیہ لیکر آیا اور درخواست کی کہ اسے آزاد کر دیا جائے.رسول اللہ العلیم نے حضرت جویریہ کو اختیار دیا کہ وہ والدین کے ساتھ جانا چاہیں تو جاسکتی ہیں.والد نے خوشی خوشی جا کر اپنی بیٹی کو یہ بات بتائی اور کہا کہ خدا کیلئے مجھے رسوا نہ کرنا.مگر قربان جائیں حضرت جویریہ پر انہوں نے کیا خوب جواب دیا که قَدْ اخْتَرْتُ رَسُولَ اللہ کہ اب تو میں خدا کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں.اپنے ماں باپ کو تو چھوڑ سکتی ہوں مگر ان سے جدا نہیں ہو سکتی.یہ وہ سچا عشق رسول تھا جو حضرت جویریہ کو ایمان کے بعد نصیب ہوا.اور رض

Page 179

ازواج النبی 163 حضرت جویریہ رض پھر زندگی کے ہر شعبہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد میں انہوں نے رسول اللہ لی یتیم کی ذات کو نمونہ بناکر آپ کی اطاعت کا خوبصورت نمونہ دکھایا.جیسا کہ انکی روایات سے ظاہر ہے.روایات حدیث 23 آنحضرت علی کم سے حضرت جویریہ نے جو کچھ سیکھا اسے بیان کرنے کی بھی کوشش کی.آپ سے کل سات احادیث مروی ہیں.آپ کی بعض روایات سے آپ کے دینی شوق کا اندازہ ہوتا ہے.آنحضرت نے شعبان 5ھ میں ان سے شادی کی جس کے بعد انہیں پانچ سال آپ کی پاکیزہ صحبت کے میسر آئے.اس عرصہ میں وہ نیکی اور عبادت کے اعلیٰ معیار پر قائم ہو گئیں.آپ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے جمعہ کے دن روزہ رکھا ہوا تھا، آنحضرت می کنیم تشریف لائے ، آپ کو پتہ چلا تو پوچھا کہ کیا آپ نے کل بھی روزہ رکھا تھا کیونکہ جمعہ کا اکیلاروزہ رکھنا منع ہے ، سوائے اس کے کہ اس سے پہلے یا اگلے دن بھی روزہ رکھا جائے.معلوم ہوتا ہے حضرت جویریہ کو یہ بات معلوم نہ تھی انہوں نے عرض کیا کہ کل تو مجھے روزہ نہیں تھا آنحضور نے فرمایا کیا آنے والے کل میں روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ عرض کیا نہیں بس آج جمعہ کا ہی روزہ رکھا ہے.رسول اللہ تم نے فرما یا جمعہ کا اکیلار وزہ مناسب نہیں ہے اس لئے افطار کر دو.حضرت جویریہ بیان کرتی ہیں کہ حضور طی تم نے لباس کے بارہ میں سب ہمیں آداب سکھائے.خاص طور پر مردوں کے لئے ریشم کا لباس آپ نے منع کیا اور فرمایا کہ جو لوگ فخر اور تکبر کے اظہار کے لئے ریشم پہنتے ہیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو ذلت کے لباس پہنائے گا.دوسری روایت میں آگ کے لباس کا ذکر ہے، مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کی نافرمانی اور اس کی ناراضگی کی جزا جہنم ہے جس میں انسان گرایا جاتا ہے.حضرت جویریہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلو سادہ زندگی کے بارہ میں بھی بیان کیا ہے.اتنی سادگی تھی، اتنی قناعت سے گزارا ہوتا تھا کہ ایک دفعہ رسول اللہ لی تم گھر تشریف لائے اور حضرت جویریہ سے فرمایا کچھ کھانے کو ہے وہ کہتی ہیں ، میں نے عرض کیا یار سول اللہ علیکم ! آج اس وقت کھانے کی اور تو کوئی چیز نہیں سوائے گوشت کے جو میری فلاں آزاد کردہ لونڈی نے بھجوایا ہے.آنحضرت علی کیا کہ تم نے فرمایا کہ وہی لے آؤ وہ ہمارے لئے جائز ہے.کیونکہ آپ کی لونڈی کو جہاں سے بھی گوشت آیا وہ اپنے محل پر پہنچ 25 24

Page 180

رض حضرت جویریہ 164 ازواج النبی چکا، اب اس کی ملکیت ہو جانے کے بعد ہم اس سے تحفہ لے رہے ہوں گے جو منع نہیں.گویا ملکیت کے بدلنے 26 سے صدقہ کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے.پھر حضور علی ملی کہ ہم نے وہ کھانا تناول فرمایا.اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول اللہ سلیم کی زندگی کھانے پینے کے معمولات میں کتنی سادہ تھی.اس سادہ زندگی کے باوجود ایک عرب سردار کی بیٹی کا رسول اللہ لی لی نام کو ترجیح دینا اور اختیار دئے جانے کے باوجود اپنے والدین کے پاس جانے کے لئے تیار نہ ہونا صاف بتاتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اتم کے حسن اخلاق کی گرویدہ ہو چکی تھیں.وفات حضرت جویریہ کی وفات 65 سے 70 سال کی عمر میں 56 ھ میں بیان کی جاتی ہے.آپ کی نماز جنازہ حضرت معاویہ کے دور حکومت میں مدینہ کے والی مروان بن حکم نے پڑھائی.آپ کی تدفین کے بارہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی.تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ دیگر ازواج کی طرح آپ بھی جنت البقیع میں دفن ہوئیں.حضرت جویریہ کی زندگی اس بات کی مثال کے لئے پیش کی جاسکتی ہے کہ کس طرح ان کی زندگی میں انقلاب بر پا ہو گیا اور ایک مشرک سردار کی بیٹی آنحضرت علی علی تسلیم کے عقد میں آکر آپ کی فیض صحبت کی برکتیں حاصل کر کے ام المومنین کے مقام پر فائز ہوئیں اور اُمت کو ہمیشہ کے لئے ایک پاکیزہ نمونہ دے کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں.اللَّهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *** ********: **

Page 181

رض حضرت جویریہ 165 حوالہ جات مسلم کتاب الادب باب استحباب تغییر الاسم القبيح سیرت خاتم النبيين ص 571 سیرۃ ابن ہشام جلد 2 ص 294.الاستیعاب ص 582 فتح الباری شرح بخاری لابن حجر عسقلانی جلد 1 ص 432 بیروت طبقات الكبرى لابن سعد جلد 2 ص 64,63 بیروت.دلائل النبوة البيقي جلد 4 ص 105 دار الفکر بيروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص28 بیروت ابو داؤد کتاب العتق باب في بيع المكاتب اذا انسحنت الكتابه - سیرۃ ابن ہشام جلد 2 ص 294.سیرت خاتم النيبين ص 571 ابو داؤد کتاب العتق باب في بيع المكاتب اذا انسحنت الكتابه - الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص117 الاصابہ فی تمییز الصحابہ علامہ ابن حجر جلد 7ص566 بیروت.طبقات الكبرى الابن سعد جلد 8 ص118 بیروت سیرة ابن هشام جلد 2 ص 645 بیروت سيرة ابن هشام جلد 2 ص 294 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص28 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 28 بیروت ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14

Page 182

ازواج النبی 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 166 رض حضرت جویریہ سیرۃ ابن ہشام جلد 2 ص 294 بیروت ابوداؤد کتاب العتق باب في بيع المكاتب مستدرک حاکم جلد 4 ص 27 بیروت.طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 118.مجمع الزوائد لکھیثمی جلد 9 ص 403 ملخص از فرمودات مصلح موعود درباره فقهی مسائل ص 266 تا 268 بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر مسلم کتاب الذکر والد عا باب التسبيح اول النهار مسند احمد بن حنبل جلد 6ص429 قاہرہ تھذیب الاسماء از علامہ ابی زکریا محیی الدین بن شرف النووى جلد 1ص928 بخاری کتاب الصوم باب صوم يوم الجمعة ترمذی کتاب الصوم باب كراهية صوم يوم الجمعة مسند احمد بن حنبل جلد 6ص430 قاہرہ مسند احمد جلد 6 ص 324 مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 29 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشا پوری جلد 4 ص28 بیروت

Page 183

ازواج النبی فضائل 167 ام المؤمنین حضرت ام حبيبة حضرت اُم.حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ لی ایم کی شادی بھی ایک الہی تقدیر تھی.شادی سے پہلے حضرت ام حبیبہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک نووارد نے انہیں ام المومنین کے لقب سے مخاطب کیا جس سے پہلے تو وہ ڈر گئیں.مگر خوشا نصیب کہ اس کی تعبیر رسول اللہ علیم سے عقد کی صورت میں ظاہر ہوئی.شاہ حبشہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت ام حبیبہ سے آنحضور طی یتیم کے نکاح کا اعلان کیا.حضرت ام حبیبہ کو اپنے والدین سے بھی بڑھ کر رسول اللہ لی لی تم سے پیار تھا.صلح حدیبیہ کے بعد جب ان کے والد سردارِ مکہ ابو سفیان مدینہ آئے تو اپنی بیٹی سے بھی آکر ملے.اس دوران وہ ان کے گھر میں آنحضرت علی الی الیتیم کے بستر پر بیٹھنے لگے تو حضرت ام حبیبہ نے فوراً آگے بڑھ کر اس بستر کو لپیٹ دیا.سردار مکہ ابو سفیان نے بڑے تعجب سے سوال کیا کہ بیٹی ! کیا یہ بستر میرے قابل نہیں یا کوئی اور بات ہے ؟ حضرت ام حبیبہ نے عرض کیا، ابا ! یہ بستر میرے شوہر نامدار ہی کا نہیں میرے آقا حضرت محمد مصطفی مہم کا بھی ہے.رض نام و نسب و قبول اسلام حضرت ام حبیبہ کا نام ہند مشہور تھا.آپ مکہ کے مشہور سردار ابو سفیان بن حرب کی بیٹی تھیں اور قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تعلق تھا.آپ کی والدہ صفیہ بنت ابو العاص حضرت عثمان بن عفان کی پھوپھی تھیں.روایات میں آپ کا دوسرا نام رملہ بھی مذکور ہے.0 اللہ تعالی نے حضرت ام حبیبہ کو ابتدائی زمانہ میں ہی اپنے شوہر کے ساتھ قبول اسلام کی توفیق عطا فرمائی.آپ کا نکاح حضرت عبید اللہ بن جحش سے ہوا تھا جو آپ کے دادا حرب کے حلیفوں میں سے تھے.ان کے رض

Page 184

ازواج النبی 168 رض حضرت اُم ساتھ ہی ملک حبشہ کی طرف آپ کو ہجرت کرنے کی توفیق ملی.وہیں آپ کی بیٹی حبیبہ پیدا ہوئیں.جس کی وجہ رض سے آپ کی کنیت ام حبیبہ معروف ہے.حبشہ میں یہ حادثہ پیش آیا کہ حضرت ام حبیبہ کے شوہر عبید اللہ نے وہاں کا مذہب عیسائیت اختیار کر لیا.اس کی اطلاع اللہ تعالی نے حضرت ام حبیبہ کو ایک رؤیا کے ذریعہ سے پہلے سے ہی دے دی تھی.آپ خود بیان فرماتی تھیں " ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے شوہر عبید اللہ بن جحش کی شکل بگڑ گئی ہے اور مجھے بد صورت اور بد زیب دکھائی دے رہے ہیں اور میں کہتی ہوں کہ خدا کی قسم انکی تو حالت ہی بدل گئی ہے.اگلی صبح پتہ لگا کہ وہ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر چکے ہیں.آپ بیان کرتی تھیں کہ میں نے انہیں کہا کہ یہ تمہارے لئے بہتر نہیں، میں نے انہیں اپنی خواب بھی سنائی تھی مگر انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی.پھر عیسائی ملک حبشہ کی آزادیوں اور شراب وغیرہ کی رغبت میں وہ کچھ یوں مست ہو گئے کہ اسی حال میں ان کی وفات ہو گئی.عبید اللہ ام حبیبہ سے کہنے لگے کہ میں نے اپنے مسلک پر غور کیا ہے اور مجھے عیسائی مذہب سے بہتر کوئی دین نظر نہیں آیا.دراصل میں اسی دین پر تھا جب مسلمان ہوا.اور اب پھر عیسائیت قبول کر چکا ہوں.رض بعض روایات میں حضرت ام حبیبہ کے شوہر کا نام عبد اللہ آیا ہے جو درست نہیں.عبید اللہ بن جحش کے ایک بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش تھے جو ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے بھائی تھے.وہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے جبکہ حضرت ام حبیبہ کے شوہر عبید اللہ نے حبشہ میں وفات پائی.رسول اللہ صلی علیم سے شادی رض حضرت ام حبیبہ رسول اللہ لی لی نام سے اپنی شادی کی دلچسپ روداد خود یوں بیان فرماتی ہیں کہ " اس خواب کے کچھ عرصہ بعد میں نے ایک اور خواب میں دیکھا کہ ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھے ام المومنین کے لقب سے مخاطب کیا.جس سے پہلے تو میں ڈر گئی.پھر میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ رسول اللہ علیم سے عقد فرمائیں گے.چنانچہ عبید اللہ بن جحش کی وفات کے بعد جب میری عدت ختم ہو گئی تو شاہ حبشہ نجاشی کے ذریعے حضور علی نیم کی طرف سے نکاح کا پیغام مجھ تک پہنچا.شاہ حبشہ نجاشی کی خادمہ خاص ابرہہ نامی تھی جس کے سپر د بادشاہ کے لباس اور خوشبو وغیرہ کے انتظام کی

Page 185

ازواج النبی 169 رض حضرت اُة رض ذمہ داری تھی.اس نے آکر مجھے یہ پیغام دیا کہ بادشاہ سلامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ لی تم نے انہیں لکھا ہے کہ وہ آپ کا نکاح حضور کے ساتھ کر دیں.میرے دل سے پردیس میں یہ خوشخبری لانے والی لونڈی ابرہہ کے لیے دعا نکلی کہ اللہ تعالی تمہیں ہمیشہ خوش رکھے.ابرہہ نے مزید کہا کہ بادشاہ سلامت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ آپ نکاح کے لئے کسی کو اپنا وکیل مقرر کر دیں.چنانچہ میں نے اپنے ماموں خالد بن سعید بن العاص کو اس غرض کے لئے وکالت نامہ کا پیغام بھجوایا.اور خوش ہو کر ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن ، دو پازیبیں اور انگوٹھیاں بطور انعام دیں.اسی شام شاہ حبشہ نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب اور وہاں موجود دیگر مسلمانوں کو جمع کر کے خود رسول اللہ صلی عدالت کا خطبہ نکاح پڑھا.حمد و ثنا اور تشہد کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے مجھے لکھا ہے کہ میں ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے نکاح کا اعلان آپ کے ساتھ کر دوں.اس کی تعمیل کرتے ہوئے ان کا حق مہر میں چار سود بینار ( نقد ) مقرر کرتا ہوں.پھر بادشاہ نے دیناروں کی تھیلی لوگوں کے سامنے بکھیر کر رکھ دی.اس پر حضرت ام حبیبہ کے وکیل حضرت خالد بن سعید کھڑے ہوئے ، انہوں نے اس نکاح کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کیلئے یہ رشتہ بہت مبارک فرمائے.بادشاہ نے حق مہر کی رقم حضرت خالد بن سعید کے سپر د کر دی.جب لوگ اٹھ کر جانے لگے تو نجاشی شاہ حبشہ نے کہا " انبیاء کی سنت ہے کہ ان کی شادی کے موقع پر کھانا کھلایا جاتا ہے " چنانچہ انہوں نے کھانا منگوایا.بادشاہ ہو کر رسول اللہ صلی علی کریم کی غلامی کادم بھر نے والے اس وفاشعار صحابی حضرت اصمحہ نجاشی کی دعوتِ طعام میں شامل ہو کر تمام اصحاب خوشی خوشی گھروں کو واپس لوٹے.حضرت ام حبیبہ مزید بیان فرماتی تھیں کہ جب حق مہر کی رقم مجھے پہنچی تو میں نے بادشاہ کی خادمہ خاص ابرہہ کو بلوا بھیجا اور اُسے کہا کہ جب تم رسول اللہ علیم سے شادی کی خوشخبری لائی تھی تو میرے پاس کوئی مال نہ تھا اس وقت جو میسر تھا وہ تمہیں دے دیا اب پچاس دینار مزید تمہیں بطور انعام دیتی ہوں.اس پر ابرہہ نے میرے تحفہ میں دیئے ہوئے زیورات کا ڈبہ مجھے واپس کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت نے فرمایا ہے کہ کوئی تحفہ لے کر میں آپ کے مال سے ذرا بھی کم نہ کروں، بادشاہ کے لباس کی تیاری اور تیل خوشبو وغیرہ مہیا کرنے کی نگرانی میرا کام ہے.اور میں رسول کریم ملی یم کا دین قبول کر کے مسلمان ہو چکی ہوں.اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بادشاہ نے اپنی بیگمات کو ہدایت کی ہے کہ وہ سب آپ کو اپنی طرف سے خوشبو کے تحائف

Page 186

ازواج النبی 170 رض حضرت اُم بھجوائیں.پھر اگلی صبح وہ میرے لیے عود اور عنبر وغیرہ کی خوشبوئیں اور پاؤڈر وغیرہ لے کر آئیں.حبشہ سے یہ تحائف لے کر میں جب رسول اللہ علیم کے پاس مدینہ آئی تو یہ چیزیں استعمال کیا کرتی تھی.آپ نے کبھی ان کو نا پسند نہیں فرمایا.بادشاہ کی خادمہ خاص ابرہہ نے مجھے وہ تحائف دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو بھی میرا ایک کام کرنا ہو گا اور وہ یہ کہ رسول اللہ لی لی نیلم کو میر اسلام کہنا اور عرض کرنا کہ میں آپ کا دین اختیار کر کے مسلمان ہو چکی ہوں.اسکے بعد جب تک میں وہاں رہی ، ابرہہ نے مجھ سے بہت ہی محبت کا سلوک کیا.تقریب نکاح پر بھی اسی نے مجھے تیار کیا تھا.وہ جب مجھے ملنے آتی تو مجھے یاد کر وانے کی خاطر کہتی کہ بی بی ! میرا کام بھول نہ جانا.حضرت ام حبیبہ بیان کرتی تھیں کہ جب میں رسول اللہ علی نیم کے پاس مدینہ حاضر ہوئی تو آپ کو بتایا کہ حبشہ میں نکاح وغیرہ کی تقریب کس طرح ہوئی تھی اور شاہی خادمہ ابرہہ کے جو واقعات و معاملات میرے ساتھ گزرے ان کا بھی میں نے ذکر کیا.رسول اللہ صلی تم اس سے خوب محظوظ ہوئے.تب مجھے بادشاہ کی خادمہ ابرہہ کا پیغام یاد آیا اور میں نے اس کا سلام رسول اللہ ی ی ی یکم کی خدمت میں عرض کیا.آپ نے جواب میں فرما یاوَ عَلَيْهَا السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُہ کہ اس پر بھی سلام اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.الغرض حضرت ام حبیبہ مکہ کے ایک بڑے سردار ابو سفیان کی بیٹی تھیں آنحضرت لی ایم کے ساتھ ان کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے لئے شاہ نجاشی نے شایانِ شان اہتمام کیا.جس کا ذکر مختلف روایات میں موجود ہے.چنانچہ علامہ جوزی اور امام بیہقی نے لکھا ہے کہ آنحضرت علی یا تم نے اپنے نمائندہ عمرو بن امیہ کو اس رشتہ کے لئے بھجوایا تو حضرت نجاشی نے آنحضرت علی الی السلام کے ساتھ حضرت ام حبیبہ کا اعلان نکاح کرتے ہوئے اپنی طرف سے حضور کی نمائندگی میں چار سو دینار کا مہبر بھی ادا کیا بعض روایات میں یہ رقم چار ہزار درہم بیان ہوئی ہے جبکہ عام ازواج کا حق مہر چار سو درہم تھا.اور پھر شر حبیل بن حسنہ کے ساتھ حضور ملی ایم کی خدمت میں انہیں بڑی کشتیوں کے ذریعہ مدینہ بھیجوانے کا بھی انتظام کیا.5 رض حضرت ام حبیبہ اس بحری سفر کا مختصر حال بھی بیان فرماتی تھیں کہ " نجاشی نے ہمارے لیے دو بڑی کشتیوں کے ساتھ ماہر ملاحوں اور کشتی بانوں کا انتظام بھی کر دیا تھا.یہاں تک کہ ہم مدینہ کے ساحل سمندر تک پہنچے.وہاں سے دیگر سواریوں کے ذریعہ مدینہ پہنچے.6 11

Page 187

ازواج النبی 171 رض حضرت اُم حضرت ام حبیبہ کی حبشہ سے مدینہ آمد 7 ہجری کا واقعہ ہے.اس وقت ان کی عمر 36 برس کے قریب تھی.اس زمانے میں کسی نے حضرت ام حبیبہ کے آنحضور عالم کے ساتھ نکاح کا ذکر جب ابو سفیان سے کیا اور کہا کہ آپ تو آنحضرت علی ایک یتیم کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور انہوں نے آپ کی بیٹی کے ساتھ شادی کر لی ہے.اس نے اپنار ئیسانہ و قار قائم رکھتے ہوئے جواب دیا کہ بالآخر آنحضرت علی تم ایک معزز انسان ہیں.اگر میری بیٹی نے ایک قابل احترام ہستی سے نکاح کیا ہے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں.بعد میں جب صلح حدیبیہ ہو گئی اور ابو سفیان مکہ سے مدینہ آئے.اس موقع پر آنحضور طی یتیم سے اپنے مخصوص سردارانہ انداز میں کہنے لگے کہ میں نے آپ کو کیا چھوڑا سارے عرب نے ہی آپ کو چھوڑ دیا.آنحضور نے مسکراتے ہوئے انہیں ان کی دوسری کنیت سے پکار کر فرمایا اے ابو حنظلہ ! یہ بات کم از کم آپ کو تو زیب نہیں دیتی.حنظلہ ابوسفیان کا وہ بیٹا تھا جو غزوہ بدر میں کافر ہونے کی حالت میں مارا گیا تھا.شادی میں حکمت مستشرق کینن سیل نے اپنی کتاب " دی لائف آف محمد " میں یہ اعتراض کیا ہے کہ نبی کریم ملی تم کی شادیوں کے دفاع میں جو یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ ایک سے زائد شادیاں بیو گان اور عمر رسیدہ خواتین کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے کے لئے تھیں ، اگر ایسا ہی تھا تو بہت سی اور بیوگان بھی کیوں حرم نبی میں شامل نہ کی گئیں.کم از کم حضرت ام حبیبہ کے بارہ میں یہ وضاحت درست نہیں.کیونکہ انہیں تو ایسی کوئی دشواری نہ تھی وہ آرام و آسائش سے حبشہ میں آباد تھیں اور مکہ واپسی کی صورت میں بھی ان کے والد ابو سفیان (جو ایک رئیس تھے) بخوبی ان کی کفالت کے قابل تھے.وہ لکھتا ہے.It is sometimes argued in defence of the Prophet's matrimonial alliances that they were made with the object of supporting widows and old women and that in this case a natural protector was needed.If this is so there seems no reason why many more were not admitted into the Prophet's harem.Umm Habiba, however, does not appear to have been in any difficulty, she was comfortably settled in Abyssinia, and, in the case of her return to

Page 188

ازواج النبی 172 رض حضرت اُ Arabia, Abu Sufyan was well able to look after her.ترجمہ : آنحضرت علی کی کمی کے ازدواجی تعلقات کے دفاع میں بعض دفعہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان تعلقات عامہ کا مقصد بیواؤں اور بوڑھی عورتوں کو سہارا دینا مد نظر تھا.کیونکہ ایسی صورت میں انہیں ایک فطری محافظ کی ضرورت ہوتی ہے.اگر ایسا ہی مقصد تھا تو آنحضور صلی علی اسلام کے عقد میں مزید خواتین کیوں نہ لائی گئیں.تاہم ام حبیبہ (جو آپ کے عقد میں لائی گئیں : ناقل) بظاہر ایسی کسی مشکل میں نہ تھیں اور وہ حبشہ میں آرام سے زندگی گزار رہی تھیں اور عرب میں واپسی کی صورت میں ابو سفیان ان کی بخوبی دیکھ بھال کر سکتے تھے.اس اعتراض کا تفصیلی جواب اس کتاب میں تعدد ازدواج کے مضمون میں دیا جا چکا ہے کہ رسول اله علی کریم کی تمام شادیاں مختلف وقتی و قومی مصالح کے تحت تھیں جن میں سے ایک اہم مصلحت بیوگان کا تحفظ بھی تھا.اس حوالہ سے مزید بیوگان کو حرم میں شامل نہ کرنے کا اعتراض نہایت بودا ہے.کیونکہ اسلامی شریعت میں نکاح کے احکام کے مطابق آنحضرت طی می کنیم اور آپ کے صحابہ کو بیوگان سے نکاح کرنے اور کروانے کی ہدایت تھی (النور:33) جس پر صرف آپ نے ہی نہیں آپ کے اصحاب نے بھی قربانی کرتے ہوئے عمل کر کے دکھایا.جہاں تک حضرت ام حبیبہ سے شادی پر مسٹر کین کی طعنہ زنی کا تعلق ہے تو یہ اعتراض نہ صرف دیانت داری پر مبنی نہیں بلکہ تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ بھی ہے.تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ کفار مکہ بالعموم مسلمان رشتہ داروں سے رشتے ناطے منقطع کر چکے تھے اور ان کے دلوں میں الا ما شاء اللہ مسلمان اولاد ، والدین یا بہن بھائیوں کے لئے کوئی نرم گوشہ باقی نہ رہا تھا کجا یہ کہ معاند اسلام ابوسفیان سے اپنی مسلمان بیٹی کی کفالت کی توقع کی جائے.اگر وہ اتنا ہی ہمدرد ہوتا تو حضرت ام حبیبہ شکومکہ سے حبشہ ہجرت کی نوبت ہی کیوں پیش آتی.دوسرے خود ام حبیبہ جو دین کی خاطر وطن اور ماں باپ کو چھوڑ چکی تھیں خود یہ بات انکی غیرت ایمانی کے خلاف تھی وطن اور شوہر کی قربانی دینے کے بعد حالتِ بیوگی میں دین اسلام چھوڑ کر پھر اپنے والد کی کفالت میں جانے کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں.اور اگر ایسا کوئی

Page 189

ازواج النبی 173 رض حضرت اُم ادنی ساخد شہ تھا بھی تو رسول اللہ علیم کی ان کے ساتھ رشتہ کی بر محل تجویز سے دور ہو گیا.کیونکہ مسلمان رض ہونے کے بعد ہر لحاظ سے ان کی کفالت کے اصل ذمہ دار رسول اللہ صلی عید الیتیم تھے.پس جب حضرت ام حبیبہ نے رئیس مکہ کی بیٹی ہو کر تنعم کی زندگی چھوڑتے ہوئے خدا اور اس کے رسول کی خاطر اپنے وطن اور گھر بار کو قربان کر دیا اور دیارِ غیر میں تنہا رہ گئیں تو رسول اللہ العلیم نے حضرت ام حبیبہ کی رضامندی سے انہیں اپنے عقد میں لینے کا ارادہ فرمایا.تو اس سے بڑھ کر ان کیلئے خوشی کی خبر کیا ہو سکتی تھی.پھر خود حضرت ام حبیبہ سے زیادہ ان کے قیام حبشہ کے نجی معاشی حالات کو کون سمجھ سکتا ہے؟ نجاشی کی خادمہ خاص کے ذریعہ رسول اللہ علیم سے عقد کا پیغام موصول ہونے پر فطری رد عمل کے طور پر انہوں نے جس خوشدلی سے رسول اللہ صلی یا کہ تم سے عقد کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے قبول کیا اس کا کچھ اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے تو اس خادمہ کو یہ خوشی کی خبر پہنچانے پر بے اختیار خوشی کی ڈھیروں دعائیں دیں.پھر حالت مسافرت و غربت میں اور کچھ توفیق نہ پا کر اپنا زیور ہی اتار کر بطور انعام دے دیا.اس سے حبشہ میں حضرت ام حبیبہ کی معاشی حالت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے.آپ کی مالی حالت اس وقت کچھ بہتر ہوئی جب نجاشی کی طرف سے آپ کو حق مہر کی ادائیگی ہو گئی تبھی تو انہوں نے بادشاہ کی خادمہ خاص ابرہہ کو یہ کہ کر دوبارہ مزید انعام دینا چاہا کہ پہلی دفعہ یہ خوشخبری پہنچانے کے وقت انہیں کچھ زیادہ انعام دینے کی مالی استطاعت نہ تھی جس کی تلافی وہ اب مزید پچاس دینار کا انعام دے کر کرنا چاہتی تھیں.مگر بادشاہ چونکہ ان کی مالی حالت سے واقف تھا اس نے اس خادمہ کو حضرت ام حبیبہ سے کچھ بھی لینے سے منع کر دیا تھا.رسول اللہ علیم کی طرف سے پیغام شادی ملنے پر حضرت ام حبیبہ کے خوشگوار رد عمل سے مزید اس حقیقت کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ام حبیبہ کا ارادہ حبشہ ٹھہر نے یا والد کی طرف لوٹ کر جانے کا نہیں تھا اسی لئے ان کو اس رشتہ سے زندگی کی سب سے بڑی خوشی حاصل ہوئی جس کی اطلاع انہیں بذریعہ رؤیا پہلے سے کر دی گئی تھی.الغرض حضرت ام حبیبہ کے اپنے بیان کردہ حالات ہی مسٹر کمین کا اعتراض جڑ سے اکھیڑنے کے لئے کافی ہیں.آنحضرت ا یتیم کی اس شادی میں اور بھی گہری حکمتیں تھیں، جو اپنے وقت پر ظاہر ہوئیں.حضرت رض عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ سورہ ممتحنہ کی یہ آیت حضرت ام حبیبہ سے رسول اللہ علیم کی شادی کے موقع پر اتری ہے.10

Page 190

ازواج النبی 174 حضرت اُم رض عَلَى اللهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ - (الممتحنه: 8) یعنی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مسلمانو! تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو تمہارے دشمن ہیں محبت پیدا کر دے اور اللہ تعالی اس پر قادر بھی ہے اور بہت بخشنے والا اور مہر بان ہے.اگرچہ یہ آیت بہت وسیع تر معنی اپنے اندر رکھتی ہے.مگر اس موقع کی مناسبت سے ایک مفہوم صحابہ نے یہ بھی سمجھا کہ مشرکین کی مسلمان اولادوں کے ساتھ جو رشتے ناطے قائم ہو رہے ہیں تو بعید نہیں کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے دلوں میں بھی اسلام کی محبت پیدا کر دے اور وہ رفتہ رفتہ اسلام کے قریب آجائیں.ایک بڑا مقصد حضرت ام حبیبہ سے رشتہ کرنے کا یہی تھا، مکہ کا بڑا سردار ابو جہل تو بدر میں مارا گیا تھا ، جس کے بعد اس کا بیٹا عکرمہ سردار بنا اور مشرکین کے دوسرے بڑے لیڈر کے طور پر ابوسفیان سامنے آئے جو تمام اسلامی جنگوں میں لشکر کفار کی کمان کرتے ہوئے مسلمانوں کے مدمقابل آتے رہے.بعد کے زمانہ میں واقعتہ اس مودت کے آثار نظر آتے ہیں جن کا آیت مذکورہ میں ذکر تھا.مثلاً کفار مکہ نے جب حدیبیہ کا معاہدہ توڑا تو اس کی تجدید کروانے کے لئے مدینہ آنے والے ابو سفیان ہی تھے جن کو اپنے رشتہ مصاہرت کے باعث ہی یہ جرات ہوئی کہ وہ حالت جنگ میں امن کے ساتھ حضور علی علیم کے پاس مدینہ میں آکر بات کریں کہ اس معاہدہ کی توثیق کی جائے.بعد میں بالآخر اسی تعلق کے نتیجہ میں فتح مکہ کے موقع پر ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا.انھوں نے سردارانہ رنگ میں کسی اعزاز کے لئے بھی درخواست کی.چنانچہ آنحضور میں ہم نے ان کی دلداری کرتے ہوئے اس موقع پر یہ اعلان بھی کروایا کہ جو ابو سفیان اور اس کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے امان دی جائے گی.یہی وجہ تھی کہ ابو سفیان اور اس کے گروہ کی طرف سے فتح مکہ کے موقع پر کوئی مزاحمت نہیں کی گئی.اس میں بھی رسول اللہ علی یتیم کے ساتھ ان کے رشتہ مصاہرت کو بھی ایک اہم دخل تھا.بعض دیگر اقوام کی طرح اہل مصر میں بھی قدیم سے یہ دستور تھا کہ وہ شاہان مملکت یا والیان ریاست اور معزز مہمانوں سے پختہ تعلقات استوار کرنے کی خاطر اپنے خاندان کی معزز لڑکیوں کا رشتہ پیش کر دیتے تھے.جیسا کہ بائبل کے مطابق فرعون مصر نے اپنی بیٹی حضرت سلیمان کو پیش کر دی تھی جس کے نتیجہ میں مصر بنی اسرائیل کے حملہ سے محفوظ ہو گیا.0

Page 191

ازواج النبی 175 رض حضرت اُم 12 صحیح مسلم کی ایک روایت کی وضاحت اور تاویل حضرت ام حبیبہ کی شادی کے بارہ میں صحیح مسلم کی ایک روایت اپنے ظاہری معنوں کے لحاظ سے محل نظر ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ام حبیبہ کی شادی ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد ہوئی، جو تاریخی لحاظ سے قطعاً درست نہیں.تاہم حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہئیے کیونکہ یہ آنحضرت لعلیم کی طرف منسوب ہے.اور کسی اختلاف وغیرہ کی صورت میں حدیث کو ر ڈ کرنے کی بجائے اسے قبول کرنے کیلئے آپ کا فرمان ہے کہ " اس کی تاویل کرنی پڑے گی." اس روایت کو بھی بغیر تاویل کے قبول نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ بظاہر اس میں ایک تاریخی اختلاف پایا جانا ہے.وہ روایت یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ابو سفیان کی طرف بہت التفات نہیں کرتے تھے.ان کی مجلس میں بہت زیادہ اٹھنا بیٹھنا بھی نہیں تھا.شاید اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ابوسفیان نے مسلم کی روایت کے مطابق یہ عرض کیا کہ یا رسول الله علی تم میری تین گزارشات قبول فرمائیں.آپ نے ان کی تالیف قلبی کی خاطر فرمایا کہ ٹھیک ہے.تو انہوں نے عرض کیا.ایک تو یہ کہ اپنی حسین و جمیل بیٹی ام حبیبہ کی خود آپ سے شادی کرتا ہوں (یعنی اب رضامندی دیتا ہوں).حضور علیم نے ان کا دل رکھتے ہوئے فرمایا " اچھا تو انہوں نے کہا.دوسری یہ درخواست ہے آپ میرے بیٹے معاویہ کو اپنے پاس کاتب (سیکر ٹری) رکھ لیں.آپ نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا.تیسری درخواست انہوں نے یہ کی کہ مجھے اپنے کسی لشکر کا امیر مقرر کر دیں جیسے میں کفر کی حالت میں اسلام سے لڑتا رہا اب میں آپ کی نمائندگی میں مسلمانوں کی طرف سے کفار کے ساتھ جنگ کروں گا.آپ نے فرمایا اچھا".مسلم کی اس روایت کے ایک راوی ابوز میں کہتے ہیں کہ اگر ابو سفیان خود نبی کریم ہم سے یہ سوال نہ کرتے تو شاید آپ از خودان باتوں کی ضرورت نہ سمجھتے مگر آپ کے اخلاق کریمہ میں یہ بات تھی کہ کوئی چیز بھی آپ سے مانگی جاتی تو آپ ہاں میں ہی جواب فرماتے تھے.چنانچہ آپ نے ابوسفیان کو حاکم بھی مقرر فرمایا اور ان کے بیٹے معاویہ سے کاتب (سیکرٹری) کا کام بھی لیا.تاہم اس روایت کے پہلے حصہ کے بارہ میں بعض اہل علم نے بجاطور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ فتح مکہ کے بعد ابو سفیان کار سول اللہ لی تم کو یہ کہنا کسے درست ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیٹی ام حبیبہ آپ کو بیاہ دوں حالانکہ اس سے ڈیڑھ سال پہلے ان کا نکاح حبشہ میں ہو چکا تھا.

Page 192

ازواج النبی 176 رض حضرت اُم 14 شارح مسلم علامہ نووی نے اسکی ایک وضاحت یوں کی ہے کہ دراصل حبشہ میں ام حبیبہ کے نکاح کے وقت ان کے والد سردار مکہ ابو سفیان کی ولایت اور رضا انہیں میسر نہ تھی.فتح مکہ کے بعد ابو سفیان کے اس اظہار کا مطلب محض یہ تھا کہ لوگوں کو علم ہو کہ میں نے خوشی سے اپنی بیٹی حضور می یتیم کی زوجیت میں دے دی ہے.اور حضور طی می ریم کے ساتھ یہ رشتہ مصاہرت نمایاں اور واضح ہو جائے.اس کمزور تاویل کے مقابل پر دوسری نسبتاً معقول تاویل وہ ہے جو علامہ ابن کثیر نے کی ہے کہ دراصل ابو سفیان نے ام حبیبہ کے دوبارہ بیاہ کر دینے کا ذکر نہیں کیا تھا بلکہ فتح مکہ کے بعد آنحضرت طی یکم جب بادشاہ بن گئے تو ابوسفیان نے اپنی دوسری بیٹی عزّہ کو بھی آپ کے عقد میں دینے کی پیشکش کی تھی.اس بات کی تائید صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد کی روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں یہ ذکر رض رض 15 رض ہے کہ خود حضرت ام حبیبہ نے حضور علی علیم سے ذکر کیا تھا کہ یار سول الله طی کنم ! میں چاہتی ہوں کہ آپ میری بہن عزہ کو اپنے عقد میں لے لیں (ممکن ہے ان کی یہ درخواست اپنے والد کی خواہش کے پیش نظر ہو).حضور عالم نے فرمایا کہ کیا تم پسند کرو گی کہ تمہاری بہن تمہاری سوکن بن کر آجائے.حضرت ام حبیبہ نے جواب دیا کہ اور بھی تو سو کنیں ہیں.اگر میری بہن اس سعادت میں میرے ساتھ شریک ہوتی ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے.حضور ملی ہم نے فرمایا کہ یہ جائز نہیں.اسلام میں دو بہنوں کو بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں اکٹھا کرنا منع ہے.اس طرح حضور علی یا یہ کہ ہم نے اس رشتہ سے معذرت کر لی تھی.اللہ اور بندوں کی ادائیگی حقوق کا حسین امتزاج حضرت ام حبیبہ کو اللہ تعالی نے غیر معمولی ایمان کی مضبوطی اور اسلام اور آنحضرت علیم کی سچی محبت سے نوازا تھا.وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی خوب رعایت رکھتی تھیں.وہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات نفل ادا کرتا ہے اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنایا جاتا ہے.آپ فرماتی تھیں کہ جب سے آنحضرت لیلی تم سے میں نے یہ حدیث سنی اس کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کبھی بھی یہ نوافل نہیں چھوڑے.اور روزانہ یہ بارہ نوافل ادا کرتی ہوں.حضرت ام حبیبہ کو عبادات اور دعاؤں سے خاص شغف تھا.اپنے والد کے قبول اسلام کے بعد جہاں ان کے حقوق کے دیگر تقاضے پورے کئے وہاں ان کے حق میں دعائیں بھی کیا کرتی تھیں.ایک دفعہ 16

Page 193

ازواج النبی 177 رض حضرت اُ آنحضرت ہم نے ام حبیبہ کو یہ دعا کرتے سنا کہ اے اللہ ! میرے شوہر حضرت محمد مصطفی ایم کی عمر ملی یا سے مجھے بہت برکت عطا کر یعنی ان کے ساتھ رفاقت کا لمبازمانہ مجھے نصیب کرنا.میرے باپ ابو سفیان کی عمر میں بھی برکت دینا اور ان سے بھی میں لمبے زمانہ تک فائدہ اٹھاؤں.اور میرے بھائی معاویہ کی عمر میں بھی برکت دینا.حضور علی کریم نے اپنی زوجہ مطہرہ کو یہ دعائیں کرتے ہوئے سنا تو کیا ہی عمدہ نصیحت فرمائی کہ یادر کھو اللہ تعالی کے ہاں کچھ میعاد اور تقدیریں اٹل ہوتی ہیں.ضروری نہیں کہ ہر دعا اس تقدیر کو ٹال دے.اللہ تعالیٰ پہلی چیز کو پیچھے نہیں کرتا اور پیچھے والی کو پہلے نہیں کرتا.بالآخر آج یا کل سب نے خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہی ہے اسلئے دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالی آگ اور قبر کے عذاب سے بچائے پس اپنے لئے اور سب کے لئے یہ دعا کیا کرو کہ اللہ تعالی انجام بخیر کر دے تو یہ زیادہ بہتر اور بابرکت ہو گا.حقوق العباد رض حضرت ام حبیبہ کا صلہ رحمی کا یہ تعلق اپنے والد اور بھائی سے آخر دم تک رہا.آنحضور ملی تم ایک روز اپنی ایک بیوی ام حبیبہ کے گھر میں داخل ہوئے.وہ اپنے بھائی معاویہ کو پیار کر رہی تھیں.آپ نے محبت کی نگاہوں سے اسے دیکھا اور بہن بھائی کی محبت کو طبعی تقاضوں کا ایک خوبصورت جلوہ تصور فرماتے ہوئے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا ام حبیبہ کیا معاویہ تمہیں پیارا ہے.حضرت ام حبیبہ نے جواب دیا جی حضور بھلا میں اپنے بھائی سے پیار نہ کروں گی ! اس پر آنحضرت اللہ کریم نے فرمایا کہ اگر یہ تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے.0 بیوی کا دل اس جواب کو سن کر کس قدر خوش ہوا ہو گا کہ آپ میرے رشتہ داروں کو غیریت کی نگاہ سے نہیں بلکہ میری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ جو مجھے ہو اسی قدر ان کو بھی پیارا ہوتا ہے.رض روایات کے مطابق آنحضرت لیلی تم نے ام حبیبہ کے والد ابو سفیان بن حرب کو جریش یا جرش کا گورنر مقرر کیا.حضور علی ایم کے وصال کے وقت وہ حاکم نجران تھے.حضرت ام حبیبہ کے دیگر ازواج کے ساتھ تعلق اور سلوک سے متعلق حضرت عائشہ کی ایک روایت بہت لطیف ہے اور وہ یہ کہ بوقت وفات حضرت ام حبیبہ نے انہیں بطور خاص اپنے پاس بلوایا اور کہا کہ دیکھو ہمارا تعلق باہم سوکنوں کا تھا.اس تعلق میں بعض دفعہ کوئی خلش دل میں رہ جاتی ہے یا بعض دفعہ زیادتی بھی

Page 194

ازواج النبی 178 رض حضرت اُمّم ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ وہ معاف کر دے.میری ایسی جتنی بھی کوتاہیاں تھی میں ان کی معافی مانگتی ہوں.اور آپ کی طرف سے اگر ایسی کوئی زیادتی ہوئی ہو تو وہ میں آپ کو معاف کرتی ہوں.حضرت عائشہ نے یہ سنا تو بے اختیار کہہ اٹھیں آپ نے تو مجھے خوش کر دیا اللہ تعالی بھی آپ کو خوش کرے.یہ وہ اعلیٰ درجہ کی تربیت تھی جو آنحضرت علی علی الکریم نے اپنی ازواج کی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ان کے پیش نظر ہوتا تھا.پھر حضرت ام حبیبہ نے یہ معاملہ صرف حضرت عائشہ سے ہی نہیں کیا بلکہ پھر حضرت ام سلمہ کو بلوا بھیجا اور ان سے بھی یہی بات کی کہ آپس میں ہماری جو بھی غلط فہمیاں یا حق تلفی کی باتیں تھیں میں بھی معاف کرتی ہوں آپ بھی معاف کر دیں.تاکہ اللہ تعالی کے پاس ہمارے معاملات صاف ہو کر پیش ہوں.اور یوں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہونے سے قبل " کہاسنا معاف " کر کے ہلکی پھلکی ہو گئیں.ย محبت و طاعت رسول 20 بدر سوم کے خلاف جہاد میں حضرت ام حبیبہ نے بہترین نمونہ قائم کر کے دکھایا.عربوں میں اس سے پہلے جو فتیح رسمیں پائی جاتی تھیں ان میں سے ایک موت فوت پر بہت زیادہ بے صبری، جزع فنزع اور واویلا کا طریق تھا جو وفات یافتہ اور اس کے خاندان کی بڑائی کا معیار سمجھا جاتا تھا.ام حبیبہ کے والد ابو سفیان تو مکہ کے بڑے سرداروں میں سے تھے.اور ان کے خاندان کے غیر مسلم اقرباء سے ایسی بدر سوم کا خدشہ ہو سکتا تھا مگر جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت ام حبیبہ نے تیسرے ہی دن خوشبو منگوائی اور اسے استعمال کر کے فرمانے لگیں کہ میری عمر گوایسی نہیں رہی کہ مجھے خوشبو لگانے یا اپنے چہرے کے لئے کچھ زیب وزینت کرنے کی ضرورت ہو.لیکن میں نے اپنے آقا و مولا آنحضرت طی تم سے ایک بات سنی تھی اس کی پیروی میں ایسا کر رہی ہوں.آپ نے ایک موقع پر منبر پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا.کسی مومن عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہے جائز نہیں کہ وہ کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے کہ جس کا وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی" اپنے حقیقی والد کی وفات کے تیسرے دن ہی حضرت ام حبیبہ کا اپنا سوگ وغیرہ ختم کر کے تیار ہو کر خوشبو وغیرہ استعمال کرنا بتاتا ہے کہ حضرت ام حبیبہ کو اللہ اور اس کار سول دنیا کی ہر چیز حتی کہ ماں باپ سے بھی زیادہ پیارے تھے.21 رض

Page 195

ازواج النبی 179 رض حضرت اُم حمیت جاہلیت کے اس دور میں آپ کا یہ عمل ایک طرف غیر مسلم خواتین کے لیے غیرت دینی کا ایک شاہکار تھا تو مسلمان خواتین کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ تھا.آپ رسول اللہ میں یتیم کے ارشادات پر بغیر کسی تاویل کے لفظا عمل کرنے کی حد تک سختی کی قائل تھیں.جو دراصل اطاعت کی روح ہے.خواہ بعض دفعہ اس میں آپ کی رائے شامل نہ ہو.مثلاً ایک دفعہ آپ کے بھانجے ابوسفیان بن سعید الاخنس نے ستو کھا کر (نماز سے پہلے ) صرف کلی کرنے پر اکتفا کیا تو وہ فرمانے لگیں کہ آگ کی پکی چیز پر رسول اللہ علیم کے ار شاد کے مطابق تمہیں وضو کرنا چاہئے.حالانکہ یہ حکم منسوخ ہو چکا تھا.مگر آپ کا جذبہ اطاعت اس واقعہ سے ظاہر ہے.دیگر روایات حدیث 22 حضرت ام حبیبہ کی دیگر روایات میں ایک حدیث رسول الله طی می کنم بروز قیامت آپ کو حق شفاعت عطا کئے جانے کا ذکر ہے.دوسری روایت میں آپ بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریم ما لم اذان کے کلمات سن کر انہیں دوہرایا کرتے تھے.اسی طرح عصر سے قبل آپ نے چار رکعات ادا کرنے والے کو جنت کی بشارت دی ہے.ایک اہم روایت یہ ہے کہ رسول اللہ سلیم نے فرمایا کہ ابنِ آدم کی ہر بات یا کلمہ اسکے اپنے فائدے کے لیے ہوتا ہے سوائے نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے اور ذکر الہی کے جو خدا کے لئے ہے.دینی غیرت اور محبت رسول صلی علیه السلام رض 23 حدیبیہ کے معاہدہ کے بعد جب اہل مکہ عہد شکنی کے مرتکب ہوئے تو ابو سفیان اس معاہدہ کی توثیق کی خاطر مدینہ آیا اور اپنی بیٹی حضرت ام حبیبہ کے گھر گیا.جب وہ آنحضرت طی لی ایم کے بستر پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہ نے فوراً آگے بڑھ کر اس بستر کو لپیٹ دیا.سردار مکہ ابو سفیان لمبے عرصہ بعد اپنی بیٹی کے گھر آیا تھا.وہ سخت حیران ہوا کہ میری بیٹی بجائے میرے اکرام و عزت کے لئے بستر بچھانے کے الٹا اپنا بستر لپیٹ رہی ہے.اس نے بڑے تعجب سے سوال کیا کہ بیٹی کیا یہ بستر میرے قابل نہیں یا کوئی اور بات ہے ؟ حضرت ام حبیبہ نے عرض کیا اتنا! یہ بستر میرے شوہر نامدار ہی کا نہیں میرے آقا حضرت محمد مصطفی ایم کا ہے اور آپ کے ناپاک مشرکانہ عقیدہ کی وجہ سے میں نے حضور کا پاکیزہ بستر لپیٹ کر آپ سے جدا کر دیا ہے.ابو سفیان نے کہا کہ میری بیٹی ! لگتا ہے جب سے تم مجھ سے جدا ہوئی ہو تمہارے حالات کچھ بگڑ گئے ہیں.24

Page 196

ازواج النبی 180 رض حضرت اُم تاہم ام حبیبہ کے اپنے والد کے ساتھ اس معاملہ سے رسول کریم ملی علیم کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی سچائی کا خوب اندازہ ہوتا ہے.بیوی سے بڑھ کر شوہر کے اخلاق کو کون جانتا ہے.رسول اللہ ملی تعلیم کے اخلاق ایسے بے تکلف، پاک صاف اور بچے تھے کہ آپ کی صحبت اور قرب میں رہنے والے آپ کے گرویدہ اور والا وشیدا تھے.حضرت ام حبیبہ کا از خود دینی غیرت کے سبب رسول اللہ علی یا تم کو اپنے باپ پر ترجیح دینا صاف بتاتا ہے کہ رسول اللہ لی فی یتیم کی سچائی پر آپ جان و دل سے فدا تھیں.انہوں نے اپنے باپ کے خونی رشتہ پر بھی محبت و ادب رسول کو مقدم رکھا حالانکہ ان کا باپ بھی دنیوی لحاظ سے کفار کا بڑا سر دار تھا اور ایک شان و شوکت رکھتا تھا.مگر ان کی نظر میں اپنے باپ کی دنیوی وجاہت یا کوئی بھی خونی رشتہ رسول الله می کنم کے مقابل پر بیچ تھا.خلافت سے تعلق حضرت ام حبیبہ رسول اللہ علیم کی تربیت یافتہ تھیں.آپ نے رسول اللہ علیم کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء سے محبت وادب اور وفا کا تعلق قائم رکھا.حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ آپ کی مدد کو آئیں.چنانچہ حضرت ام حبیبہ پانی مہیا کرنے کی غرض سے حضرت عثمان کے گھر آئیں.جب آپ ان کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپ کو روکنا چاہا.بعض نے کہا بھی کہ یہ ام المومنین ام حبیبہ نہیں مگر اس پر بھی وہ شورش پسند باغی باز نہ آئے اور آپ کی خچر کو مارنا شروع کر دیا.ام المومنین حضرت ام حبیبہ نے خلیفہ وقت کے پاس جانے کیلئے یہ معقول وجہ بھی بیان فرمائی کہ اس لئے بھی اندر جانا چاہتی ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ بنوامیہ کے بیتامی اور بیوگان کی وصایا جو حضرت عثمان کے پاس ہیں ضائع نہ ہو جائیں.تاکہ ان کی حفاظت کا سامان کر دوں.مگر ان بد بختوں نے آنحضرت علیم کی زوجہ مطہرہ کی یہ بات ماننے کی بجائے نہایت بے ادبی سے آپ کی خچر پر حملہ کر کے اس کے پالان کے رشتے کاٹ دیئے اور زین الٹ گئی.قریب تھا کہ حضرت ام حبیبہ گر کر ان مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جاتیں اور شہید ہو جاتیں کہ بعض مخلصین اہلِ مدینہ نے جو قریب تھے جھپٹ کر انہیں سنبھالا اور گھر پہنچا دیا.25

Page 197

رض حضرت اُم 181 ازواج النبی وفات رض حضرت ام حبیبہ کی وفات کے بارہ میں اختلاف ہے.اکثر روایات کے مطابق حضرت امیر معاویہ کی امارت کے زمانے میں 44ھ میں بعمر تہتر 73 برس انکی وفات ہوئی.امام حاکم، ابن سعد، ابن اثیر وغیرہ کی رائے بھی یہی ہے.ہمارے نزدیک یہی رائے زیادہ ثقہ ہے.اگرچہ امام حاکم کی مستدرک میں ایک اور روایت کے مطابق آپ اپنے بھائی امیر معاویہ کی وفات 60ھ سے ایک سال پہلے فوت ہوئیں.مگر اس کی کوئی تائید نہیں ملی.حضرت ام حبیبہ کی تدفین کے بارہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی.تاہم ایک روایت سے مدینہ میں قبر کا اشارہ ملتا ہے اور ام المؤمنین ہونے کے ناطے دیگر ازواج کے ساتھ جنت البقیع میں ہی آپ کی تدفین زیادہ قرین قیاس ہے.خصوصاً جبکہ آپ کے بھائی (حضرت امیر معاویہؓ) کے زمانہ امارت میں آپ کی وفات ہوئی.اللہ تعالی اپنی بہت ہی رحمتیں اور فضل فرمائے ام المومنین حضرت ام حبیبہ پر جنہوں نے آنحضرت علی علی کریم اور دین اسلام کے ساتھ آخر دم تک محبت اور وفا کے سب تقاضے پورے کر دکھائے.اللَّهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ رض **** ****

Page 198

رض حضرت اُم 182 حوالہ جات مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 21، 22 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 21، 22 بیروت الكبير لطبرانی جلد 19 ص 245 - فتح الباری لابن حجر عسقلانی جلد 3 ص148 مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 22 بیروت نسائی کتاب النکاح باب القسط فی الا صدقہ.مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 427 قاہرہ مستدرک حاکم نیشاپوری جلد 4 ص20.طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص99 بيروت تاریخ طبری جلد 2 ص 132 الاصابۃ فی تمییز الصحابه از علامه ابن حجر جلد 8 ص 150 و جلد 7 ص 652 بیروت.طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 99 بیروت الاصابۃ فی تمییز الصحابه از علامہ ابن حجر جلد 3 ص414 بیروت Life of Muhammad by Canon Sell, p- 184,185.دلائل النبوة للبيهقی جلد 4 ص 41- اسد الغابہ لا بن الاثیر جلد 1ص632 بیروت سلاطین 3/1 ، وکتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ص 603 بائیبل سوسائٹی لاہور ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 ص 393.فقہ احمدیہ ص 8، 9 مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل ابی سفیان شرح النووی علی مسلم جلد 16ص63 ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14

Page 199

ازواج النبی 15 16 17 18 19 183 حضرت اُم بخاری کتاب النکاح باب وان تجمعوا بین اختین.مسلم کتاب الرضاع باب تحریم البيبة ابوداؤد کتاب النکاح باب يحرم من الرضاعة نسائی کتاب النکاح باب تحریم الربيبة ابن ماجہ کتاب النکاح باب يحرم من الرضاع.مسند احمد جلد 1ص624.مسلم کتاب صلاة المسافرين و قصرها باب فضل السنن الراسبية مسلم کتاب القدر باب بیان ان الآجال والارزاق و غیرها مجمع الزوائد للهيثمي جلد9ص595 بيروت فتوح البلدان لبلاذری جلد 1 ص 71، 83 قاہرہ 20 21 22 23 24 25 26 27 28 The people of The Islamic State p-107 مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص22، 23 بیروت بخاری کتاب الجنائز باب احداد المرأة على غيرها مسند احمد بن حنبل جلد 6ص328 قاہرہ دلائل النبوۃ لابی نعیم ص 224 الترغیب والترهيب جلد 1 ص 226.الترغیب والترهيب جلد 3 ص 345.مسند احمد جلد 6 ص 425 سیرۃ ابن ہشام جلد 2 ص 396 تاریخ طبری محمد بن جریر جلد 6 ص 3010 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 21 بیروت الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 7 ص 653 بیروت.اسدالغابہ جزء 1ص1353 مستدرک حاکم جلد 4 ص24، طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 8ص100 بیروت الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر جلد 1ص596 بيروت رض

Page 200

ازواج النبی فضائل 184 ام المؤمنین حضرت صفیہ ย حضرت صفیہ یہودی سردار حیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہ کی رسول اللہ علیم سے شادی میں بھی خدائی تقدیر کار فرما تھی.جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے حضرت صفیہ جیسی پاک مزاج بی بی کو شادی سے پہلے بذریعہ خواب دے دی تھی.حضور علی السلام نے خیبر سے واپسی پر حضرت صفیہ سے شادی کے بعد ان کے ہودج میں بیٹھنے کی جگہ مزید نرم کرنے کیلئے اپنی عبائہ کر کے اس پر بچھادی.پھر آپ نے انہیں اونٹ پر سوار کروانے کے لئے اپنا گھٹنا جھکادیا تا کہ وہ اس پر پاؤں رکھ کر سہولت سے اونٹ پر بیٹھ سکیں.اور انہیں ازواج مطہرات جیسا پردہ کروایا جس سے صحابہ سمجھ گئے کہ وہ " ام المؤمنین ہیں.نبی کریم نے غزوہ خیبر کے اسباب کی حقیقت کھول کر حضرت صفیہ کے سامنے بیان کی اور اس جنگ کے دوران ان کے عزیزوں کے ہلاک ہونے پر دلا سا دیتے ہوئے اس قدر دلی معذرت کی کہ آپ کے بارہ میں ان کا سینہ صاف ہو گیا وہ خود بیان فرماتی تھیں کہ اس سے پہلے آنحضرت سے بڑھ کر میرے لئے کوئی قابل نفرین وجو د نہیں تھا مگر آپ کے ساتھ پہلی نشست کے بعد جب میں اٹھی تو آنحضرت علی علی ہستم سے زیادہ کوئی مجھے محبوب نہ تھا.آپ ہی مجھے سب سے پیارے اور سب سے زیادہ عزیز تھے." رسول الله علیم کی آخری بیماری میں حضرت صفیہ نے عرض کیا کہ کاش آپ کی بیماری مجھے مل جائے اور آپ کو شفاء ہو.کسی بیوی نے اس پر طنزیہ اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی الکریم نے فرمایا " خدا کی قسم یہ اپنی بات میں سچی ہے گویا مجھے صدق دل سے چاہتی ہے." نام و نسب حضرت صفیہ کا اصل نام زینب تھا.آپ یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں.

Page 201

ازواج النبی 185 حضرت صفیہ والدہ کا نام بڑہ بنت شموئیل تھا.آپ کا نسب حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے لاوی اور حضرت موسیٰ“ کے بھائی ہارون علیہ السلام کی اولاد سے جاملتا ہے.2 رسول اللہ علیم کے حرم میں آنے کے بعد آپ صفیہ کے نام سے موسوم ہوئیں.صفی کے ایک لغوی معنے مالِ غنیمت کے اس حصہ کے ہیں جو رئیس اپنے لیے مخصوص کر لے.اسی بناء پر مال غنیمت میں رسول اللہ کے حصہ کو "الصفی " کہا جاتا تھا.حضرت عائشہ حضرت صفیہ کو اسی لحاظ سے صفی قرار دیتی تھیں.3 صفیہ کے دوسرے لغوی معنے خالص، پاک وصاف وجود اور مخلص ساتھی کے ہیں.ان معنوں کے لحاظ سے بھی بلاشبہ حضرت صفیہ اسم با مسمی بھی تھیں، کیونکہ انہوں نے قبولِ اسلام کے بعد اپنا دل وسینہ پاک وصاف کر کے محبت الہی اور عشق رسول سے لبریز کر لیا تھا.حضرت صفیہ ایک امیر کبیر یہودی سردار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جہاں ان کا شہزادیوں جیسار ہن سہن تھا.انکی ذاتی ملکیت میں ایک سو کے قریب لونڈیاں تھیں.جو گھر یلو خدمت پر بھی مامور ہوتی تھیں.0 آپ کی پہلی شادی اٹھارہ 18 برس کی عمر میں معروف یہودی عرب شاعر سلام بن مشکم القرظی سے ہوئی.مگر دیر پا ثابت نہ ہو سکی اور سلام انہیں طلاق دے دی.دوسرا نکاح یہودی سردار اور شاعر کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوا.قدرت اللی کی بھی عجیب شان ہے کہ یہ شادی رسول اللہ علیم کے محاصرہ خیبر کے قریبی زمانہ میں ہوئی.اور صفیہ ابھی نو بیاہتاد لہن ہی تھیں کہ اس جنگ میں ان کا خاوند کنانہ مارا گیا.دونوں شادیوں سے کوئی اولاد نہیں تھی.خیبر فتح ہونے کے بعد وہ اسیر ان جنگ میں شامل ہو کر حضرت بلال کے سپرد ہوئیں ، جب وہ انہیں لیکر یہودی مقتولین کے پاس سے گزرے تو حضرت صفیہ اور ان کی ساتھی قیدی عورت اس وحشت ناک منظر کو دیکھ کر واویلا کرنے لگیں، جس پر رسول اللہ لی ہم نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت بلال کو فہمائش فرمائی کہ اسیر عورتوں کو ان کے مقتولین کی نعشوں کے پاس سے لیکر نہیں گزرنا چاہیے تھا تا کہ وہ دل آزاری سے بچ جاتیں.اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ملی تم کو دشمن اسیر ان کے جذبات کا بھی کتنا خیال تھا.اس دوران ایک صحابی حضرت دحیہ الکلبی نے آنحضور علم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ خیبر کے جنگی قیدیوں میں سے مجھے بھی ایک لونڈی عطا ہو.رسول کریم 7

Page 202

ازواج النبی 186 حضرت صفیہ نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کوئی ایک لونڈی لے سکتے ہیں.چنانچہ انہوں نے حضرت صفیہ کو اپنے لئے چن لیا.رسول الله علی علیم سے شادی بعد میں جب آنحضرت لیلی نیم کے علم میں یہ بات آئی کہ قیدیوں میں یہود کی ایک شہزادی بھی ہے، جسے حضرت دحیہ الکلبی لے چکے ہیں.اس کا احترام و لحاظ یہود خیبر پر ایک اور احسان ہو گا جو ان کی دشمنی کم کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے.ایسے ہر مشکل مرحلہ پر رسول ر م م م ا ایک طرف اللہ تعالی کی طرف رجوع کر کے اس سے رہنمائی اور دعا کے ذریعہ اس کے فضل کے طالب ہوتے تو دوسری طرف اپنے اصحاب رض سے مشاورت سے بھی کام لیا کرتے تھے.چنانچہ آپ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا کہ یہود کی اس شہزادی سے کیا معاملہ ہونا چاہیے.صحابہ نے عرض کیا کہ یار سول اللہ علیکم ! یہ آپ کے مناسب حال ہے.حضرت صفیہ سے آپ کے عقد کی صورت میں مفتوح قوم کی تالیف قلبی ہو گی اور یہ بات یہود کو اسلام کے قریب لانے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے.حضور نے قومی مفاد میں یہ مشورہ قبول کرتے ہوئے حضرت صفیہ کو آزاد کر کے اپنے حرم میں شامل فرمایا.اور غلامی سے آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا.یہ گراں قدر حق مہر ا نہوں نے بخوشی قبول کیا.دوسری طرف صحابی رسول حضرت دحیہ الکلبی جنہوں نے حضور میں لی ایم کی اجازت سے حضرت صفیہ کو اپنی تحویل میں لیا تھا، جب آنحضور صلی عالم نے حضرت صفیہ کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور اس کے عوض تالیف قلب کے لیے حضرت دحیہ کو سات غلام عطا فرما دیے.تو یہ زیادہ انعام انہوں نے بخوشی قبول کیا.آنحضرت علیم نے حضرت صفیہ کو تکمیل عدت تک ایک مخلص انصاری گھرانے کی خاتون حضرت ام سلیم کے سپر د کیا تا کہ حالت طہر کے بعد وہ انہیں رسول اللہ سے شادی کے لئے تیار کر دیں.خیبر سے واپس آتے ہوئے حضور میں ہم نے سد الصباء مقام پر پڑاؤ کیا اور تین رات یہاں قیام کیا.اسی جگہ حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ یہ کو دلہن بنا کر رسول الله صل علی کی کمی کی خدمت میں پیش کیا.0 خاص حجاب کا اہتمام اس زمانہ کے عرب رواج کے مطابق لونڈیوں کو اپنے مالکوں کے کام کاج اور سودا سلف و غیر ہ لانے کی رض

Page 203

ازواج النبی 187 حضرت صفیہ مجبوریوں سے گھر سے باہر بھی جانا پڑتا تھا.ان کا پر وہ نسبتا گرم اور ہلکا ہوتا تھا جبکہ شریف خاندانوں اور بالخصوص ازواج النبی کا پردہ معیاری و مثالی اور ایک عمدہ نمونہ تھا.جس میں چہرہ کے پردہ کا خاص اہتمام بھی شامل تھا.لونڈی کے پردہ کا شریف بیبیوں کے پردہ سے فرق کا اشارہ سورۃ احزاب کی آیت ذَالِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ (الاحزاب : 60) میں بھی موجود ہے.یعنی مومن عورتیں چادر کے گھونگھٹ کا پردہ اختیار کریں جو اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں کوئی ایذاء نہ دی جاسکے.حضرت ابن عباس اس آیت کا یہ پس منظر بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں عرب عورتوں کالباس بلا امتیاز آزاد عورت یالونڈی ایک قسم کا ہوتا تھا.تب اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو چادر لینے کا حکم دیا کہ وہ لونڈیوں جیسا لباس نہ رکھیں.اس پر دہ کا مدینہ کے اوباش بھی لحاظ کیا کرتے تھے...گھونگٹ والی چادر کا پردہ معزز خواتین کے لیے ایسا مخصوص ہوا کہ حضرت عمر اپنے زمانہ خلافت میں کسی لونڈی کو اس پردہ کے اختیار کرنے کی اجازت نہ دیتے اور فرماتے تھے کہ گھونگٹ والی چادر کا پردہ آزاد عورتوں کے لیے ہے تاکہ وہ کسی چھیڑ خانی اور ایذاء رسانی سے بچ سکیں.یہاں تک کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک لونڈی کو ایسا پردہ کئے دیکھا تو اسے سختی سے اس سے روک کر فرمایا کہ آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار نہ کرو.0 1211 حضرت صفیہ چونکہ اسیران جنگ میں سے تھیں، انہیں حرم میں شامل کرنے کے لئے کسی الگ اعلانِ نکاح کی ضرورت نہیں تھی.جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ اگر وہ (لونڈیاں) مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا نا جائز ہے یعنی نکاح کے لیے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں.چنانچہ صحابہ کرام قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ اگر نبی کریم عالم نے حضرت صفیہ کو محض ایک لونڈی کے طور پر قبول فرمایا ہے تو آپ ان سے پردہ کا خاص اہتمام نہیں کروائیں گے اور اگر وہ آپ کی زوجہ اور ام المومنین ہیں تو ان سے دیگر ازواج جیسا مثالی پردہ کروایا جائیگا.پھر جب آنحضرت لیلی می کنم نے انہیں ازواج مطہرات جیسا ہی پردہ کروایا تو آپ کا یہی فعل اعلان نکاح و شادی سمجھا گیا اور صحابہ کی تشقی ہو گئی.13 دعوت ولیمہ حضرت صفیہ سے با قاعدہ شادی کا ایک اور قرینہ دورانِ سفران کی رخصتی کے باوجود دعوت ولیمہ کا اہتمام

Page 204

ازواج النبی 188 حضرت صفیہ ہے.آنحضرت علی ایم کے ساتھ آپ کے صحابہ کی ایک محبت بھری بے تکلفی تھی.حضرت صفیہ سے شادی کے موقع پر ایک صحابی نے عرض کیا یار سول اللہ علی نیم ولیمہ کب ہو گا؟ حضور ملی تم نے فرمایا " ولیمہ تو حق 14 ہوتا ہے اور یہ ضرور ہو گا." پھر حضور طی یا کہ تم نے دوران سفر ہی اس ولیمے کا انتظام بھی فرمایا.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ فتح خیبر سے واپسی پر جب ہم سد الصباء مقام پر پہنچے تو رسول اللہ صلی یا تم نے یہاں پڑاؤ کیا اور اسی جگہ رخصتی کے بعد دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایا.حالت سفر میں بھی یہ ایک نہایت سادہ ر پُر وقار تقریب تھی.حضور نے صحابہ سے فرمایا کہ سب کے پاس جو زادِ راہ ہے، اسے اکٹھا کیا جائے چنانچہ کھجور اور جو وغیرہ جو صحابہ کے پاس تھے اکٹھے کئے گئے.حضور ” بھی اپنی چادر کے ایک پلو میں جو اور کھجور لیکر آئے.ایک دستر خوان پر یہ سب کھانا چن دیا گیا اور تمام صحابہ اس دعوت میں شریک ہوئے.رسول اللہ علیم نے صحابہ سے فرمایا " اپنی ماں کی دعوت کھاؤ " یوں حضرت صفیہ سے شادی کے بعد سفر خیبر میں نہایت سادگی کے ساتھ شاہ عرب کا یہ ولیمہ ہوا.خود حضرت صفیہ نے اس ولیمہ کے لئے رات کو ہی پتھر کے ایک برتن میں کھجوریں بھگو کر رکھ دی تھیں.صبح یہ نبیذ یعنی کھجور کا شربت مہمانوں کو پلایا گیا.0 حسن خلق سے حضرت صفیہ کے دل پر فتح 17 1611 حضرت صفیہ کے کئی عزیز غزوہ خیبر میں مارے گئے تھے.جن میں ان کے والد اور شوہر کے علاوہ بعض اور عزیز رشتہ دار بھی تھے.خود حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ اس پہلو سے آنحضور طی یتیم کے متعلق میرے دل میں ایک بوجھ تھا لیکن آپ نے محبت اور شفقت کے سلوک سے حضرت صفیہ کی اس قدر دلداری اور ناز برداری فرمائی کہ حضرت صفیہ کے بقول آپ نے ان کا دل جیت لیا.وہ خود بیان فرماتی ہیں کہ جب حضور خیبر سے روانہ ہونے لگے اور مجھے اونٹ پر سوار کروانے کا وقت آیا تو حضور علی کریم نے پہلے ہودج تیار کروایا اور جو عبا آپ نے اوڑھی ہوئی تھی اسے تہ کر کے میرے بیٹھنے کی جگہ پر بچھایا تا کہ ہودج نرم ہو جائے.یہ بیوی سے حسن معاشرت کا اعلیٰ نمونہ ہی نہیں بلکہ مفتوح قوم کی شہزادی کیلئے ایک اعزاز بھی تھا.پھر آپ نے انہیں اونٹ پر سوار کروانے کے لئے یہ سہولت بھی بہم پہنچائی کہ اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکادیا اور فرمایا اس پر پاؤں رکھ کر آپ اُونٹ پر سوار ہو جائیں." 1911

Page 205

ازواج النبی 189 حضرت صفیہ حضرت صفیہ کے دل پر بظاہر ان چھوٹی باتوں کا بہت ہی گہرا اثر ہوا.آپ بیان فرماتی ہیں " سفر میں آنحضرت علم کی بے پناہ شفقتیں مجھ پر ہوئیں.میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی دوران سفر ہودج میں بیٹھے بیٹھے کئی دفعہ ایسے ہوا کہ نیند سے آنکھ لگ جاتی اور میر اسر ہو رج کی لکڑی سے جاٹکراتا، آنحضرت بہت محبت اور پیار سے میرا سر تھام کر سہلاتے اور فرماتے "اے ٹیبی کی بیٹی ! اپنا خیال رکھو کہیں نیند یا اونگھ میں تمہیں کوئی چوٹ نہ لگ جائے " 2011 21 حضرت صفیہ کے خاندان کی اسلام دشمنی کے باوجود پیداشدہ انقلاب ! حضرت صفیہ کے دل کی جیت رسول اللہ لی ایم کی ایک عظیم الشان فتح تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہود اور خصوصاً حضرت صفیہ کے گھرانے میں اسلام کے لئے دشمنی کتنی شدید تھی.دراصل یہودیوں کی کتابوں میں فاران کی پہاڑیوں سے ملک عرب میں ایک نبی کے جلوہ گر ہونے کی خبر تھی کہ جس کے ذریعے انہیں بادشاہت اور فتح نصیب ہوئی تھی.اس موعود نبی کی کئی علامات ان میں مشہور تھیں، اور یہود کے کئی قبائل اس نبی کی تلاش میں مدینہ کے نخلستان میں آکر آباد ہوئے اور اسی امید میں اپنے بچوں کے نام بھی محمد رکھنے لگے.مگر جب" وہ نبی" اپنی علامتوں کے مطابق آگیا تو انہوں نے اس لیے اس کا انکار کر دیا کہ وہ ان کے جد امجد حضرت ابراہیم کے بیٹے اسحاق کی اولاد سے نہیں بلکہ دوسرے بیٹے اسماعیل کی اولاد سے تھا.اس لئے ان کے بڑوں نے اپنی سرداری نہ چھوڑنے اور اس نبی کی مخالفت کرنے کا تہیہ کر لیا.حضرت صفیہ کے والد ٹھیبی اپنے قبیلہ کے سردار تھے.ان کے بارہ میں خود حضرت صفیہ اپنے بچپن کی ایک معصوم اور سچی شہادت یوں بیان کرتی ہیں کہ "میرے والد اور میرے چا گھر کے بچوں میں سے سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے.اور باقی بچوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے لیک کر مجھے لیا کرتے تھے.جب رسول اللہ صلی لی لی تم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور قباء میں قیام فرمایا تو ایک روز میرے والد حیی بن اخطب اور چا ابو یاسر بن اخطب علی الصبح ان کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے گئے.شام کو جب واپس گھر لوٹے تو انکے چہرے اترے ہوئے تھے اور وہ لڑ کھڑاتے قدموں سے چلے آرہے تھے.میں اپنی عادت کے مطابق لپک کر ان کی طرف بڑھی.مگر اس روز ان دونوں نے میری طرف کوئی توجہ نہ کی.مجھے لگا جیسا ان کے دل کسی غم سے بوجھل ہوں.وہ سخت نڈھال

Page 206

ازواج النبی 190 حضرت صفیہ 22 تھے.پھر میں نے چا ابو یا سر کو ابا سے کہتے سنا کہ بھائی کیا یہ وہی (موعود نبی) ہے؟ میرے والد نے کہا کہ ہاں خدا کی قسم ! یہ وہی ہے.چچانے کہا کیا واقعی آپ اسے اس کی نشانیوں سے پہچان گئے ہیں کہ وہ ساری علامتیں اسی شخص میں پوری ہوتی ہیں.انہوں نے کہا ہاں.چچانے پوچھا تو پھر اس کے بارہ میں آپ نے کیا سوچا ؟ اتبانے کہا خدا کی قسم ! جب تک دم میں دم ہے محمد کی مخالفت کرنی ہے." ایک کم سن بچی کے صاف ذہن و دماغ پر نقش ہو جانیوالے اس بچے تاریخی واقعہ سے جہاں اس یہودی خاندان کی اسلام دشمنی ظاہر ہے وہاں اس واقعہ میں خدا ترس لوگوں اور عبرت حاصل کرنے والی قوموں کے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ خدا کے مامور کے انکار و تکذیب اور عداوت کا فیصلہ کتنا خطرناک ہوتا ہے ؟ دراصل ایسا فیصلہ خدا سے دشمنی کے مترادف ہوتا ہے جس میں تعصب اور عجلت برتنے کا نتیجہ سوائے ہلاکت اور بر بادی کے کچھ نہیں ہوتا.اسی قسم کے متعصب سرداران یہود کے بارہ میں رسول اللہ علی علی کریم کا یہ فرمان کتنا واضح ہے جنہوں نے اپنی قوم کو قبول حق سے روک رکھا تھا.آپ نے فرمایا "اگر دس بڑے یہودی (سردار) مجھ پر ایمان لاتے تو سارے یہود ہی ایمان لے آتے " مگر وہ ظالم سردار اپنی قوم کو بھی ساتھ لے ڈوبے.یہ واقعہ یقیناً آج کی دنیا کے لئے باعث عبرت ہے.حضرت صفیہ اپنے خاندان کی اسلام دشمنی کے بارہ میں دوسری گواہی یہ بیان کرتی تھیں کہ میری آنکھ کے اوپر بہت گہرا نیلے یا سبز رنگ کا ایک نشان تھا.حضور علی میں ہم نے اسے دیکھ کر پوچھا کہ یہ تمہیں کیا ہوا تھا ؟ تب میں نے آپ کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ جب حضور می ینم خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ چودہویں کا چاند میری جھولی میں آگرا ہے.میں نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنائی تو اس نے بڑے زور سے مجھے ایک طمانچہ دے مارا اور کہا " کیا تم یثرب (مدینہ) کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو ؟ " دوسری روایت میں ذکر ہے کہ حضرت صفیہ نے یہ خواب اپنے والد کو سنائی.اس میں سورج کے اپنے سینے پر گرنے کا ذکر کیا.والد نے ناراض ہو کر کہا کہ کیا تم اس بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو.جس نے آکر ہمارا محاصرہ کر رکھا ہے.25

Page 207

ازواج النبی 191 حضرت صفیہ دونوں روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ شوہر اور باپ دونوں کو آپ نے یہ خواب سنائی ہو.بہر حال یہ رویا حضرت صفیہ نے حضور میں تعلیم کے محاصرے کے دوران دیکھی اور بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ چودہویں کے چاند یا سورج سے مراد در اصل آنحضرت علی یا یتیم ہی تھے جو مدینہ کے بادشاہ بن گئے.اس بات کا بھی حضرت صفیہ کے دل پر گہرا اثر کیا.حضرت صفیہ کے معاندانہ خاندانی پس منظر سے ہی یہود خیبر کی مفتوح قوم کے دل میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی تھی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.جس کا ایک اظہار یہودی عورت زینب کی طرف سے ہوا.جو سردار خیبر مرحب کی بہن اور سلام بن مشکم کی بیوی تھی.اس نے رسول اللہ لی تم کو فتح خیبر کے بعد کھانے کی دعوت پر بلایا اور بکری کے گوشت میں زہر ملا کر آپ کو کھلانا چاہا.ایک صحابی حضرت بشر نے ایک زہر یلا لقمہ نگل لیا جس کے نتیجہ میں وہ کچھ عرصہ بعد وفات پاگئے.خود رسول کریم کے حلق میں وفات تک اس زہر کا اثر رہا.رسول کریم ما تم نے اس یہودیہ کو بلوا کر اس بد عہدی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی " میں نے سوچا اگر آپ واقعی نبی ہیں تو زہر کے اثر سے بچ جائیں گے اور اگر نبی نہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی" رسول کریم ملی ہم نے اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کی مرتکب اس عورت کو بھی معاف فرما دیا.قریباً ایک سال بعد حضرت بشر بن البراء کی وفات پر وہ قصاص میں ماری گئی.یہود کی عداوت اور صحابہ کے خدشات 26 حضرت صفیہ اپنے والد، بھائی، شوہر اور دیگر افراد خاندان کی جنگ میں ہلاکت کے بعد جب حضور کے حرم میں آئیں تو طبعی طور پر بعض فدائی صحابہ کے دلوں میں آپ کی حفاظت کے حوالہ سے کئی وسوسے اٹھ رہے تھے.خصوصاً اس لئے بھی کہ ایک یہودی عورت زینب کے رسول اللہ لی لی تم کو زہر دینے کی کوشش کا واقعہ ابھی تازہ تھا.حضرت ابوایوب انصاری بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہ لی ہم نے یہودی سردار یحیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ سے شادی کی تو میرے ذہن میں جذبہ عشق رسول اور آپ کی حفاظت کے خیال سے کچھ اندیشے اور وسوسے پیدا ہوئے.میں نے ساری رات حضور می یام کے خیمہ عروسی کے گرد پہرہ دیا.صبح رسول اللہ علی یا تم نے دیکھ کر پوچھا تو دل کا حال عرض کیا کہ آپ کی حفاظت کے لئے از خود ساری رات پہرہ پر کھڑا رہا ہوں.رسول اللہ صلی یا تم نے اسی وقت دعا کی کہ "اے اللہ ! ابوایوب کو ہمیشہ

Page 208

ازواج النبی 192 حضرت صفیہ اپنی حفاظت میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں " یہ دعا قبول ہوئی جس کی دلچسپ داستان الگ ہے.حضرت ابو ایوب نے بہت لمبی عمر پائی اور راقم الحروف نے بھی قسطنطنیہ میں ان کے 28 27 مزار پر دعا کی سعادت پاتے ہوئے اسے آج بھی محفوظ اور زیارت گاہ خاص و عام دیکھا ہے.حضرت صفیہ مدینتہ الرسول میں حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ عسفان سے واپسی پر ہم رسول اللہ علی ایم کے ہم رکاب تھے آپ اونٹنی پر سوار تھے.حضرت صفیہ بنت حیی کو اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا، آپ کی اونٹنی کا پیر پھسلا اور آنحضور میل می کنم اور حضرت صفیہ اونٹ سے گر پڑے.ابو طلحہ نے اپنی سواری سے کود کر عرض کیا یار سول اللہ علیکم ! میں آپ پر قربان ، آپ خیریت سے تو ہیں.آپ نے فرمایا " پہلے عورت کی خبر لو" چنانچہ ابو طلحہ نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا اور حضرت صفیہ کے پاس پہنچ کر ان کو بھی چادر اوڑھائی اور آپ کے لیے سواری کو ٹھیک ٹھاک کر کے تیار کیا.خیبر سے مدینہ تشریف آوری پر آنحضور میں ہم نے حضرت صفیہ کا اپنے ایک صحابی حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر ٹھہر نے کا انتظام فرمایا.انصار کی عورتوں نے جب رسول اللہ علیم کے ساتھ آپ کی خوبرو دلہن کی آمد کی خبر سنی تو ان کو دیکھنے دوڑی چلی آئیں.حضرت عائشہ بھی از راه جستجو نقاب اوڑھ کر ان خواتین میں شامل ہو گئیں.آنحضور صلی علیم نے انہیں پہچان لیا اور جب وہ باہر نکلیں تو رسول اللہ صلی می کنم پیچھے سے جا کر ان کے پاس پہنچ گئے اور گلے لگالیا اور دریافت کیا کہ عائشہ ! تم نے انہیں کیسا پایا؟ حضرت عائشہ نے اپنے خاص انداز میں جواب دیا کہ " یہودیوں میں سے ایک یہودیہ " آنحضور نے فرمایا "عائشہ ! ایسا نہ کہو وہ اب اسلام قبول کرنے کے بعد بہت اچھی مسلمان ہے." ہر چند کہ حضرت عائشہ کی دلداری رسول اللہ لی ایم کو ملحوظ خاطر ہوتی تھی.مگر ان کے اظہارِ غیرت کے بعض ایسے مواقع پر تربیت کی خاطر حضور انہیں بھی تنبیہ فرمانا ضروری سمجھتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے حضرت صفیہ کو اپنی چھوٹی انگلی دکھا کر ان کے پست قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چھوٹے قد کا طعنہ دے دیا.آنحضرت علی می کنیم کو پتہ چلا تو آپ نے بہت سرزنش کی اور فرمایا " یہ ایسا سخت کلمہ تم نے کہا ہے کہ تلخ سمندر کے پانی میں بھی اس کو ملادیا جائے تو وہ اور کڑوا اور کسیلا ہو جائے.' 2911 30 11

Page 209

ازواج النبی 193 حضرت صفیہ حضرت صفیہ بیان کرتی ہیں کہ حضور علم کی یہ شفقتیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں.ایک دفعہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے مجھے یہ طعنہ دے دیا کہ "تمہارا تعلق تو یہودی قبیلے سے ہے اور تم یہودیوں کی اولاد ا ہو" حضور صلی علی یا تم گھر تشریف لائے تو مجھے روتے دیکھ کر فرمایا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ یارسول اللہ علیم ! آپ کی جن ازواج کا آپ کے خاندان یا قریش سے تعلق ہے وہ کہتی ہیں کہ ہم قریش کے خاندان سے ہیں اور تم یہودیوں کی بیٹی ہو.حضور نے فرمایا " اے ٹیبی کی بیٹی ! اس میں رونے کی کونسی بات ہے.تمہیں ان کو یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ تم مجھ سے بہتر کس طرح ہو سکتی ہو ؟ حضرت ہارون علیکم میرے باپ ، حضرت موسیٰ“ میرے چچا اور محمد لی یہ کہ تم میرے شوہر ہیں " یعنی میرا تو تین نبیوں سے تعلق بنتا ہے.اور تم ایک نبی کا تعلق مجھ پر جتلا ر ہی ہو.حضرت عائشہ میں یہ وصف بھی تھا کہ حق بات کا بلا جھجک اظہار کر دیتی تھیں چنانچہ آپ فرماتی تھیں کہ رض میں نے کھانا پکانے میں حضرت صفیہ سے بہتر کوئی نہیں دیکھا.ایک دفعہ انہوں نے میری باری میں کچھ کھانا بناکر بھیج دیا.مجھے غیرت آگئی اور میں نے کھانے کا برتن زمین پر بیچ کر توڑ دیا.رسول اللہ کریم نے کھانا لانے والے لڑکے انس سے صرف اتنا فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آگئی اور پھر اس ٹوٹے پیالے کے ٹکڑے خود اکٹھے کرنے لگے بعد میں خود ندامت کے ساتھ رسول اللہ صلی یتیم کی خدمت میں میں نے عرض کیا کہ یار سول الله علم میری اس غلطی کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا بر تن کے بدلے برتن اور کھانے کے بدلے کھانا.32 حضرت صفیہ اور رسول اللہ صلی نیم کی شفقت بے پایاں حضرت صفیہ کے اندر رسول اللہ صلی علی کریم کی صحبت سے جو انقلاب پیدا ہوا اس کا ذکر وہ خود یوں بیان کرتی تھیں کہ " شروع میں آنحضرت ولی تم سے بڑھ کر میرے لئے کوئی قابل نفرین وجود نہیں تھا مگر امر واقعہ یہ کہ حضور طی تم نے پہلی ملاقات میں ہی اتنی محبت اور شفقت کا سلوک میرے ساتھ روا رکھا اور اس قدر اصرار کے ساتھ مجھ سے اظہارِ عذر فرماتے رہے کہ اے صفیہ ! تیرا باپ وہ تھا جو تمام عرب کو میرے خلاف ھینچ کر لایا اور اس نے یہ یہ کیا اور بالآخر ہمیں اپنے دفاع کیلئے مجبور کر دیا کہ ہم خیبر میں آکر اس کی ان سازشوں کے مقابل پر جوابی کارروائی کریں.حضرت صفیہؓ فرماتی تھیں کہ آنحضور طی تم نے اس کثرت سے اور اتنی

Page 210

ازواج النبی 194 حضرت صفیہ 33 11 محبت اور شفقت کے ساتھ اس بات کا اعادہ کیا کہ میرا دل حضور ملی ترمیم کے لئے بالکل صاف ہو گیا.آپ کے ساتھ پہلی مجلس سے ہی جب میں اٹھی ہوں تو آنحضرت لعلیم سے زیادہ کوئی مجھے محبوب نہ تھا.آپ ہی مجھے سب سے پیارے اور سب سے زیادہ عزیز تھے " رسول کریم ملی ایم کی بعض اور دلداریوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صفیہ بیان کرتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ہی میں یتیم و واپسی سفر میں نسبتاً جلد مدینہ پہنچنا چاہتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہمیں یہ ڈر تھا کہ حضرت صفیہ کے ایام مخصوصہ کی وجہ سے شاید ہمیں کچھ دن رکنا پڑے گا تا کہ وہ بھی آخری طواف سے فارغ ہو جائیں تو پھر واپسی ہو.چنانچہ حضور نے اسی فکر کے باعث پوچھا کہ کیا صفیہؓ کی وجہ سے ہمیں رکنا ہو گا؟ یہ بھی حضور یم کی ایک دلداری تھی کہ اگر حج کے بعد اپنی فطری مجبوری کے باعث حضرت صفیہ کا آخری طواف باقی ہے تو ہم سب کو ان کا انتظار کرنا ہو گا.لیکن جب آپ کو بتایا گیا کہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں تو آپ نے فرمایا " اچھا! پھر تو ہم روانہ ہو سکتے ہیں " اسی سفر کا ذکر ہے ، حضرت صفیہ بیان کرتی ہیں کہ حج کے بعد ہم واپس مدینہ لوٹے.میرا اونٹ بہت تیز رو تھا.آنحضرت ملی کہ تم نے شتر بان سے فرمایا کہ خواتین قافلہ میں شامل ہیں اس لئے اونٹوں کو ذرا رض آہستہ ہانکو.پھر اچانک حضرت صفیہ کا وہ بہت تیز رفتار اونٹ اڑ کر رک گیا.وہ اس وجہ سے پریشان ہو کر رونے بیٹھ گئیں.آنحضرت ملی یکم ان کو دلاسے دے کر تسلی کروارہے ہیں مگر ان کو چین نہیں.حضور جتنا ان کو بہلاتے وہ روتی چلی جاتیں کہ یارسول اللہ ! میری سواری تو سب سے آگے بڑھنے والی تھی یہ اب رُک کے بیٹھ رہی ہے.جب بار بار سمجھانے کے باوجود ان کی طبیعت نہ سنبھلی تو آنحضورعلی تم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور قافلہ کو پڑاؤ کا حکم دیا.وہ کہتی ہیں کہ اب اگلے پڑاؤ پر مجھے یہ صدمہ لاحق تھا کہ ایسی بے صبری کا اظہار مجھ سے کیوں ہو گیا اور کیوں میں نے تحمل سے کام نہ لیا.میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ اگر آنحضرت علی یکم مجھے سے ناراض ہو گئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو.چنانچہ میں نے حضور کو راضی کرنے کی یہ ترکیب سوچی کہ حضرت عائشہ سے کہا کہ میں آج اپنی باری کا دن آپ کو ایک شرط پر دے سکتی ہوں اور وہ یہ کہ آپ آنحضرت علی یا تم کو مجھ سے راضی کر دیں.دراصل حضرت صفیہ کو یہ اندیشہ تھا کہ میں نے جو اپنارونا

Page 211

ازواج النبی 195 حضرت صفیہ 35 دھونا بند کرنے کے ارشاد کی فوری تعمیل نہیں کی تو آپ مجھ سے خفانہ ہو گئے ہوں.حضرت عائشہ نے ان کی یہ شرط قبول کر کے اپنی خوبصورت اوڑھنی زیب تن کی خوشبو وغیرہ لگائی اور اپنے عمدہ لباس کے ساتھ آنحضرت لعلیم کے خیمہ میں پہنچ گئیں.جو نہی پر وہ اٹھایا آنحضرت نے فرمایا، عائشہ آج تمہاری تو نہیں صفیہ کی باری ہے.حضرت عائشہؓ نے جواب میں کمال حاضر دماغی سے یہ قرآنی آیت پڑھ دی ذَالِك فَضل اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ.کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے.پھر انہوں نے سارا قصہ حضور طی تم کو کہہ سنایا کہ کس طرح مجھے صفیہ نے اپنا آج کا دن اس شرط پر دے دیا ہے کہ میں ان کی طرف سے آپ کو راضی کر لوں.حضرت عائشہ نے حضور میں تم کو ساری بات بتائی اور آپ صفیہ سے راضی ہو حضرت صفیہ نے اپنی باری محض رسول اللہ سلیم کی رضا کی خاطر قربان کی.اسی طرح ایک ماہ رمضان کا واقعہ ہے.حضور طی لی ال تیم اعتکاف میں تھے.ازواج مطہرات حضور کی زیارت کے لئے مسجد نبوی آئیں اور ملاقات کر کے اپنے گھروں کو لوٹ گئیں.حضرت صفیہ بنت حیی کا گھر حجرات نبوی سے الگ مسجد سے کچھ فاصلے پر تھاوہ حضور کے پاس رک گئیں.حضور نے رات کے وقت انہیں تنہا واپس بھجوانا مناسب نہ سمجھا اور خود ان کے ساتھ ہو لئے.جب مسجد کے اس دروازے کے پاس پہنچے جو حضرت ام سلمہ کے حجرے کے دروازے کے قریب ہے تو آپ نے دو انصار کو وہاں سے گزرتے دیکھا.انہوں نے حضور علی قلم کو سلام کیا اور دیکھا کہ حضور کے ساتھ ایک باپردہ خاتون جارہی ہیں.ان کے احترام میں وہ تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگے.آنحضرت علی کریم نے ان دونوں کو دیکھ کر فرمایا.ذرا ٹھہر جاؤ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہیں.وہ دونوں انصاری رک گئے اور بہت ہی پریشان اور نادم ہو کر عرض کیا.یار سول اللہ لی یا ہم اللہ پاک ہے آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ہمارے دل میں اس کے علاوہ کوئی اور خیال بھی آسکتا ہے ؟ آنحضرت علی یا تم نے فرمایا " شیطان انسان کے اندر خون کی سی تیزی سے گردش کرتا ہے.بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر.مجھے اندیشہ پیدا ہوا کہ تمہارے دل میں کہیں کوئی غلط خیال نہ آجائے." اس لئے یہ وضاحت مناسب سمجھی گئی.بہر حال اس واقعہ سے حضرت صفیہ کے لئے رسول اللہ علیم کی شفقت ظاہر و باہر ہے کہ حالت اعتکاف کے باوجو د رات کے اندھیرے اور ویران راستے کی مجبوری کے باعث انہیں گھر تک چھوڑنے کے لئے آپ خود ان کے ہمراہ تشریف لے گئے.

Page 212

ازواج النبی محبت الہی 196 حضرت صفیہ حضرت صفیہ کی عبادت اور ذکر الہی کے بارے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے.جو دراصل آنحضرت ملی می کنیم کے فیض صحبت کا کرشمہ ہے.آپ نے اپنی ازواج کے دل میں خدا تعالی کی محبت، عبادت اور ذکر الہی سے گہرا تعلق پیدا کر دیا تھا.حالانکہ وہ مختلف قبائل اور مذاہب کے کو چھوڑ کر آئی تھیں کوئی عیسائیوں سے تو کوئی یہود سے.مگر وہ آپ کی محبت میں آکر آپ کے رنگ میں رنگین ہو گئیں.حضرت صفیہ کے آزاد کردہ غلام کنانہ کا بیان ہے کہ حضرت صفیہ فرماتی تھیں " ایک دفعہ حضور علی علیکم میرے پاس تشریف لائے میں نے کھجور کی چار ہزار گٹھلیاں اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں.ان پر میں تسبیح کیا کرتی تھی." حضور نے پوچھا یہ کس مقصد کے لئے ہیں." عرض کیا " حضور می یلم میں ان کو گن گن کر ان پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کرتی ہوں " آپ نے فرمایا کیا میں تم کو اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں ؟" پھر حضور علی علی کریم نے ان کو سمجھایا کہ بجائے یوں گن گن کر تسبیح کرنے کے یہ پڑھا کرو.سُبحان اللهِ عَدَدَ خَلْقِهِ کہ اللہ تعالی پاک ہے اور اس کی سبو حیت اور اس کی پاکیزگی میں اتنا بیان کرتی ہوں جتنی خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے.یہ ذکر الہی کے وہ لطیف اور اچھوتے اسلوب تھے جو آنحضرت علی علیم اپنی ازواج کو سمجھایا کرتے تھے.حضور علیہم کی اس تربیت اور فیض صحبت کے نتیجے میں ان کی بھی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ذکر الٹی میں دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں آگے بڑھنے والی اور ترقی کرنے والی ہوں.37 اسی طرح کا واقعہ حضرت جویریہ بنت حارث کے بارہ میں بھی آتا ہے جو مشرکوں میں سے اسلام میں آئیں اور رسول اللہ صلی علیل تمیم نے ان کو بھی ذکر الہی کرتے دیکھا تو یہ جامع اور بابرکت دعا سکھائی.محبت رسول 38 حضرت صفیہ کو حضور طی یتیم کے ساتھ جو محبت تھی اس کا ایک اندازہ آنحضرت مریم کی آخری بیماری میں ہوا.ازواج مطہرات آنحضور طی یک نیم کے پاس بیٹھی حضور کی تیمار داری اور عیادت میں مصروف تھیں.اس دوران حضرت صفیہ نے بے اختیار کہا " اے اللہ کے نبی ! میرا دل کرتا ہے کہ آپ کی یہ بیماری مجھے مل جائے.اور آپ کو اللہ تعالیٰ شفاء دے ".حضرت صفیہ کی یہ بات سن کر بعض ازواج نے ایک دوسرے کو

Page 213

ازواج النبی 197 حضرت صفیہ طنز یہ اشارہ کیا.آنحضرت مالی کیم حضرت صفیہ کے قلب صافی کو جانتے تھے.آپ نے فرمایا "خدا کی قسم ! یہ اپنی بات میں سچی ہے گویا صدق دل سے مجھے چاہتی ہے " ، 3911 یہ واقعہ رسول اللہ صلی ی ی یتیم کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی سچائی کا عظیم الشان گواہ ہے.یہودی گھرانے میں پرورش پانے والی ایک لڑکی جس کے باپ نے اسلام سے مذہبی عداوت کی بناء پر رسول اللہ میم کو آپ کی نشانیوں سے سچار سول جان لینے کے بعد بھی اپنی سیادت و ریاست قائم رکھنے کے لئے ذاتی مخالفت کا فیصلہ کیا.اور آپ کا جانی دشمن بن کر عمر بھر آپ کے خلاف برسر پیکار رہا.جنگ خندق میں کفار قریش کی مدد کی اور آپ کے خلاف اعلان جنگ کر کے عہد شکنی کے مر تکب ہوئے جس کے باعث مدینہ سے نکالا گیا تو خیبر میں جاکر اسلام کے خلاف مضبوط اڈے قائم کئے.بالآخر جب خیبر کے میدانوں میں اسکا اور اسکی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہوا تو حضرت صفیہ کا نہ صرف والد بلکہ شوہر اور کئی عزیز اس جنگ میں کام آئے اور خود انکے بقول رسول اللہ علیم کا وجود انکے لئے سب سے زیادہ قابل نفرین تھا.مگر رسول اللہ صلی یا یتیم کے عقد میں آنے کے بعد انکی کا یا کیسی پلٹی کہ اپنی جان رسول اللہ لی تم پر چھڑ کنے لگیں.اور صدق دل سے آپ پر فریفتہ ہو گئیں اور خود ان کے بیان کے مطابق رسول اللہ لی ی ی ی یتیم سے زیادہ انہیں کوئی محبوب نہ رہا اور خدا کے رسول نے بھی گواہی دی کہ وہ بلاشبہ خلوص دل سے آپ پر قربان ہے.دشمن قوم کی بیٹی کی یہ گواہی جس نے قریب سے رسول اللہ علیم کے اخلاق کا مشاہدہ کیا آپ کے اخلاق فاضلہ اور سچائی کو خوب ظاہر کرتی ہے.یہی وہ راز تھا جس کی بناء پر رسول اللہ علیم نے ان کا نام زینب سے بدل کر صفیہ رکھا.یعنی انہوں نے اپنا دل وسینہ رسول ال لی لی نام اور اسلام کے لئے خالص کر لیا تھا.اور آپ کی باصفاسا تھی بن گئیں.سبحان اللہ ! e حضرت صفیہ کی کایا پلٹنے پر مستشرقین کی حیرانی حضرت صفیہ کے اندر پیدا ہونے والے اس انقلاب پر مستشرق مارگولیتھ بھی حیران و پریشان ہے.اور اپنے اندرونی بغض و عناد کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکا.وہ لکھتا ہے.Some Moslems paid her the compliment of thinking she meant to play a Judith's part, but they did her more than justice.Just as the Jewish tribes had each played for its own hand, careless of the fate of the others, so to this

Page 214

ازواج النبی 198 حضرت woman a share in the harem of the conqueror made up for the loss of father, husband, brethren, and religion.so Beckwourth found that a few hours were sufficient to reconcile the American squaws to captivity.Dragged from the blood-baths in which their husbands, fathers, and brothers perished, they in a little time became cheerful and even merry.Another Jewess, Zainab, the wife of Sallam,son of Mishkam, who figures as a partisan of Mohammed, tried with partial success a plan which others had attempted to fail entirely.She found out what joint was the Prophet s favourite food, and cooked it for him, richly seasoned with poison.The Prophet s guest,Bishr, son of Al-Bara, took some and swallowed it ; and presently died in convulsions.........But when three years after he died of fever, he thought it was Zainab s poison still working within him.ترجمہ : بعض مسلمانوں نے حضرت صفیہ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ایک مشہور ہیروئن جیوڈتھ کے مخصوص کردار کی عکاس قرار دیا ہے.جیسا کہ مختلف یہودی قبائل نے ہر دوسرے قبیلہ کے مفاد سے بے پرواہ ہو کر صرف اپنے ہی فائدہ کو مد نظر رکھا.اس خاتون (صفیہؓ) نے بھی ایک فاتح کے حرم میں بخوشی داخل ہو کر باپ، خاوند ، بھائیوں اور مذہب کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے پیاروں کے خون کو فراموش کر دیا.سو بقول Beckwourth جس طرح محض چند گھنٹوں میں (ایک) امریکی خاتون نے حالات (قید) سے سمجھوتہ کر لیا.اس خون ریز میدان جنگ سے الگ ہوتے ہی ( حضرت صفیہ نے ) جہاں اس کا خاوند ، باپ اور بھائی ہلاک ہوئے تھے.حرم نبوی میں داخل ہو کر خوش و خرم زندگی شروع کر دی.جبکہ ایک اور یہودی عورت زینب (زوجہ سلام بن مشکم) نے قومی غیرت میں اپنے منصوبہ پر عمل کر کے کسی حد تک کامیابی حاصل کی جہاں پر کہ دوسرے ایسے منصوبوں میں مکمل طور پر ناکام رہے تھے.اس نے رسول خدا کا پسندیدہ کھا ناز ہر ڈال کر تیار کیا.

Page 215

ازواج النبی 199 حضرت صفیہ رض اس جگہ مار گولیتھ یہودی تاریخ کی مشہور ہیروئن جوڈتھ (جس نے ایک فاتح اسیری بادشاہ سے شادی کے بعد اسے ہلاک کر کے یہودیوں کی شکست کو فتح میں بدل دیا تھا) کی مثال پیش کر کے کہتا ہے کہ فتح خیبر کے بعد رسول اللہ صلی تم کو زہر دے کر اپنے مقصد میں ناکام ہو نیوالی یہودی عورت زینب (زوجہ سلام بن مشکم) نے قومی غیرت میں جو کردار ادا کیا کیوں حضرت صفیہ نے (جس کے والد ، شوہر اور بھائی رسول اللہ علم کے ہاتھوں مارے گئے تھے) جوڑ تھ جیسا وہ کردار ادا نہ کیا.پھر وہ اپنی حیرت و پریشانی اور اسلام دشمنی کا اظہار اس طنز یہ اعتراض کے ذریعہ کرتا ہے کہ بعض مسلمانوں نے حضرت صفیہ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر ان سے حد سے زیادہ توقع رکھنی چاہی ہے ، جیسے حضرت ابو ایوب انصاری نے حضرت صفیہ سے رسول اللہ میم کی شادی کی پہلی شب ساری رات خیمہ کے باہر اپنے خدشات کی بناء پر آپ کی حفاظت کے لئے پہرہ دیا.جبکہ مارگولیتھ کے مطابق حضرت صفیہ نے دیگر یہود کی طرح اپنے مفاد کی خاطر ایسا کیا اور بہت جلد اپنے پیاروں کے خون کو بھلادیا اور شادی کی رنگ رلیوں میں مصروف ہو کر بخوشی فاتح خیبر کے حرم میں شامل ہو گئیں.کاش مارگولیتھ نے تعصب کی بجائے انصاف کی نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا اور حضرت صفیہ کے قبول اسلام کا پس منظر بچپن کے زمانہ سے پیش نظر رکھا ہوتا تو اسے یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہتا کہ ان کے اندر یہ تبدیلی اچانک واقع نہیں ہوئی.ہاں اگر حضرت صفیہ کے اندر یہ تبدیلی واقعی ایک رات میں ہوئی ہوتی تو پھر بھی یہ رسول اللہ علی می ریم کے اخلاق فاضلہ کا جادو تھا.جن کے بارہ میں خود حضرت صفیہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی علی یا تم جو میرے لئے دنیا میں سب سے زیادہ قابل نفرین تھے سب سے بڑھ کر مجھے محبوب ہو گئے.مگر فی الواقعہ یہ صرف ایک رات کا ہی انقلاب نہیں تھا بلکہ حضرت صفیہ کے دل میں تو دراصل بچپن کے اس روز سے ہی اسلام کی صداقت گھر کر چکی تھی جس روز انہوں نے اپنے والد اور چچا کی بانی اسلام کے سچا ہونے کے متعلق گفتگو سنی کہ آپ ہیں تو وہی موعود سچے نبی مگر بہر حال انکی مخالفت کرنی ہے.اسلام کے حق میں حضرت صفیہ کی زندگی کا دوسرا تاریخی موڑ وہ ہے جب انہوں نے محاصرہ خیبر کے دوران اپنی خواب میں چاند کو اپنی گود میں گرتے دیکھا، جسے سن کر ان کے شوہر نے یہ کہتے ہوئے تھپڑ رسید کر دیا تھا کہ تم عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو.رسول اللہ صلی علی یا تم ہی در اصل ان کے اس خواب کی

Page 216

ازواج النبی 200 حضرت صفیہ تعبیر تھے.یہ خواب جہاں حضرت صفیہ کی سچائی اور پاکیزگی نفس اور ان کے بارہ میں اللی منشاء کو ظاہر کرتا تھا وہاں اس کا اتنا جلدی پورا ہو جانار سول الله می کنیم کیلئے ان کے دل کو فتح کرنے کیلئے کافی تھا.پھر سونے پر سہاگا یہ کہ رسول اللہ علیم کے حسن و احسان کے جلوے اور پاکیزہ اخلاق ایسے تھے جنہوں نے حضرت صفیہ کا دل موہ لیا.مار گولیتھ کی اس معترضانہ سوچ کی تردید خود واقعات بھی کرتے ہیں.اگر واقعی یہود کی خصلت یہی تھی کہ اپنی مقصد برآری کیلئے حالات سے صلح کر لی جائے تو خود مار گولیتھ اور سر ولیم میور کے بیان کے مطابق حضرت صفیہ (جن کا آبائی نام زینب تھا) کی ایک اور ہمنام زینب نامی یہود یہ بھی تو تھی جس نے اپنی آتش انتقام سرد کرنے کے لئے آنحضور طی تم کو کھانے میں زہر دینے سے بھی دریغ نہ کیا تھا.اس کے مقابل پر حضرت صفیہ میں پیدا ہو نیوالی اس تبدیلی کی عظمت اور بڑھ جاتی ہے اور رسول اللہ سی ایم جیسے عظیم الشان معلم و مربی کی سچائی اور آپ کے اخلاق فاضلہ پر دلیل ہے.رسول اللہ علیم کی اس پاکیزہ محبت کی تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح الاوّل فرماتے ہیں :.نبی کریم کی بی بی ماریہ پہلے عیسائی تھیں اور صفیہ یہودی.اس قسم کے عقیدوں سے نبی کریم کی صحبت 4111 میں پاک ہوئیں' جہاں تک حضرت صفیہ کے ساتھ رسول اللہ علیم کی شادی پر اعتراض کا تعلق ہے اس میں کوئی وزن رض نہیں کیونکہ یہ شادی ایک قومی ضرورت تھی جیسا کہ سردار مکہ ابو سفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ اور بنو مصطلق ย کے سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہ اور مصر کی شہزادی حضرت ماریہ قبطیہ کے ساتھ عقد ہوا تھا.اسی دستور کے مطابق قدیم زمانے سے شادیوں کا رواج تھا.بائبل کے مطابق حضرت سلیمان نے بھی اس مقصد کی خاطر فرعون مصر کی بیٹی سے شادی کی تھی جس کے باعث اسرائیل کو مصر سے حملہ کا خطرہ نہ رہا.حضرت صفیہؓ کے ساتھ رسول اللہ علیہ و سلم کی شادی میں کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں تھی جیسا کہ بعض مستشرقین نے لکھا ہے.بلکہ یہ دشمن قوم پر ایک احسان تھا.حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول حضرت صفیہ کی شادی پر مشہور مستشرق ولیم میور کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.رض

Page 217

ازواج النبی 201 حضرت صفیہ "مسٹر میور (Muir) نے اعتراض کیا مگر وہ جانتا نہ تھا کہ ملک عرب میں دستور تھا کہ مفتوحہ ملک کے سردار کی بیٹی یا بیوی سے ملک میں امن و امان قائم کرنے اور اس ملک کے مقتدر لوگوں سے محبت پیدا کرنے کے لئے شادیاں کیا کرتے تھے.تمام رعایا اور شاہی کنبہ والے مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ اب کوئی کھٹکا نہیں.چنانچہ خیبر کی فتح کے بعد تمام یہود نے وہیں رہنا پسند کیا.خلافت سے تعلق 43 11 44 حضرت صفیہ کا جو تعلق خلفائے راشدین کے ساتھ اطاعت اور محبت کا تھا اس کا ایک اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جب حضرت عثمان کے دور خلافت میں ان کا محاصرہ کیا گیا حضرت صفیہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں حضرت عثمان کی کچھ مدد کرنا چاہتی ہوں.چنانچہ آپ نے اپنی سواری تیار کرائی اور حضرت عثمان کے ساتھ ملاقات کے لئے تشریف لے گئیں.راستے میں باغی فوجوں کے سردار اشتر نے آپ کو روک لیا.آپ کی سواری کو مارنا چاہا اور بے ادبی کرنی چاہی.آپ نے فرمایا "میری سواری کو واپس لے چلو، میں یہ بھی پسند نہیں کرتی کہ زوجہ رسول کے لئے یوں رسوائی کے سامان پیدا ہوں." اس کے باوجود حضرت صفیہ نے حضرت عثمان کی مدد کا ایک اور انتظام کیا.ان کا گھر حضرت عثمان کے گھر کے قریب تھا، آپ نے ایک لکڑی اپنے اور ان کے گھر کے در میان بطور پل کے رکھ دی اور ایک ایسار ابطہ بحال کر لیا جس کے ذریعے محاصرہ کے دوران حضرت عثمان کے لئے کھانے پینے کی ضروری چیزیں مہیا فرماتی رہیں.حضرت صفیہ کو خدا تعالی نے غیر معمولی حلم عطا کیا تھا.آخر ایک سردار کی بیٹی اور اب سردارِ دو جہاں کی زوجہ مطہرہ تھیں.ایک دفعہ ان کی لونڈی نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں ان کی یہ شکایت کر دی کہ وہ جمعہ کی بجائے سبت کے دن یا ہفتہ کو بہت پسند کرتی ہیں.اور اس میں وہ یہودیوں سے حسن سلوک کرتی اور صدقہ وغیرہ دیتی ہیں.حضرت عمر کی طبیعت بہت ہی عادلانہ تھی آپ نے خود ہی حضرت صفیہ سے اس بارہ میں پوچھ لیا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ حضرت صفیہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالی نے جب مجھے جمعہ کا بابرکت دن عطا کیا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس کی بجائے میں کسی اور دن کو محبوب رکھوں.باقی یہودیوں سے میرے رحمی رشتے ہیں بعض رشتے دار ایسے ہیں جو ا بھی مسلمان نہیں ہوئے میں ان کے حق کے مطابق ان سے صلہ رحمی اور احسان کا سلوک کرتی ہوں.حضرت عمرؓ کے لئے یہ وضاحت کافی تھی.بعد میں حضرت صفیہ نے اس

Page 218

حضرت صفیہ 202 ازواج النبی ย 45 لونڈی سے پوچھا کہ اس شکایت کرنے سے تمہارا مقصد کیا تھا؟ اس نے کہا بس یہ تو شیطانی اکسا وا تھا.آپ نے کس کمال ذرہ نوازی سے فرمایا "جاؤ میں تمہیں آزاد کرتی ہوں " یہ آپ کا حلم تھا کہ ایک لونڈی جس نے آپ کے خلاف شکایت کی آپ نے اسے بھی معاف کر کے حسن سلوک کیا.حضرت صفیہ نے آنحضرت لیلی لایا کہ تم سے بعض احادیث بھی روایت کی ہیں.آپ بیان فرماتی ہیں حضور طی یا تم نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ بعض لوگ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہلاک ہونگے " میں نے عرض کیا یار سول اللہ علیم وہ لوگ جو حملہ آور ہوں گے ان میں سے ایسے بھی تو ہو سکتے ہیں جو اس بات کو نا پسند فرمارہے ہوں.حضور طلیل لی کہ تم نے فرمایا " ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک ان کی نیتوں کے مطابق ہو گا." وفات حضرت صفیہؓ کی وفات رمضان 50ھ میں حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں ہوئی.یہ عجیب توار د ہے کہ آنحضرت طی یتیم کے ساتھ آپ کی شادی بھی رمضان کے مہینہ میں ہی ہوئی تھی.تدفین دیگر ازواج کے ساتھ جنت البقیع میں ہوئی.اللہ تعالی نے فتوحات کے زمانہ میں حضرت صفیہ کو اموال وغیرہ عطا کئے اس کے نتیجے میں ایک لاکھ 47 رض در ہم نقد سے بھی زائد ان کا ورثہ تھا.زمینیں وغیرہ اس کے علاوہ تھیں.آپ نے اپنی خالہ کے یہودی بیٹے کے لئے اپنی جائیداد کے تیسرے حصے کی وصیت فرمائی.48 اللَّهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *** ******** **

Page 219

ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 203 حوالہ جات طبقات الکبریٰ جلد 8ص120 حضرت صفیہ اسد الغابۃ جلد 5 ص327 مطبوعہ دار المعرفة بيروت لسان العرب زیر لفظ صفا.ابوداؤد کتاب الخراج باب ما جاء فی سھم الصفی.فتح الباری شرح بخاری لابن حجر جلد 7 ص 480 المنجد ، قاموس المحدث زیر لفظ صفی ازواج النبی ص 214 مطبوعة دار التراث المدينة المنورة اسد الغابۃ جلد 5 ص327 دار المعرفة بيروت بخاری کتاب المغازی باب فتح خیبر ابن ہشام جلد 3 ص 195 امر صفیہ ام المؤمنين مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت مسلم کتاب النکاح باب فضیلة اعتناقہ امت بخاری کتاب المغازی، مسلم کتاب النکاح باب فضیلۃ اعتاقہ امت.ابن ہشام جلد 3 ص197 دار الكتب العلمية بيروت در منثور للسیوطی زیر آیت الاحزاب 60 الفضل 5 ستمبر 1936ء بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر مجمع الزوائد جلد 9ص251

Page 220

ازواج النبی 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 46 27 28 29 30 31 32 204 بخاری کتاب الجہاد باب غز الصبى الخدمة مجمع الزوائد جلد 9ص405 دار الفکر بیروت بخاری کتاب الصلاة في الثياب باب ما یذکر فی الفخذ طبقات الکبریٰ جلد 8 ص125 بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر مجمع الزوائد جلد 8 ص 574 دار الفکر بيروت استثناء باب 18/18، باب 2/33 ابن ہشام جلد 1 ص 517 بخاری کتاب فضائل الصحابة باب استیان الیهود المعجم الكبير لطبرانی جلد 24 ص 67 مكتبة ابن تیمیة القاهرة - مجمع الزوائد جلد 9 ص 404 دار الفکر بیروت المعجم الكبير جلد 24ص67 بخاری کتاب المغازی باب باب الشاة التي سمت.ابن ھشام جلد 3 بیروت، ابن کثیر جلد 3ص397 مطبوعہ عیسی البابی الحلبی القاهرة 1965ء السيرة الحلبیہ جلد 3 ص 44 مطبوعہ بیروت بخاری کتاب الجہاد باب ما يقول اذار جمع من الغزو حضرت صفیہ ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء- طبقات الکبریٰ جلد 8 ص 126 ابوداؤد کتاب الادب باب في الغيبة ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی بخاری کتاب النکاح باب الغيرة - ابو داؤد کتاب الاجارة باب فیمن افسد شيئا

Page 221

ازواج النبی 205 حضرت صفیہ مجمع الزوائد جلد 9ص406 دار الفکر بیروت ازواج النبی ص 214 ابن ماجہ کتاب النکاح باب المرأة تهب یو مھا.مسند احمد جلد 6 ص 337،95 بخاری کتاب الاعتکاف باب هل يدراً المعتكف عن نفسه ترمذی کتاب الدعوات باب في دعاء النبی ترمذی کتاب الدعوات باب في دعاء النبی طی داریم طبقات الکبریٰ جلد 8 ص128،الاصابۃ جلد 7ص741 Mohammed and the rise of Islam by Margoliouth p.360-362 حقائق الفرقان جلد 3 ص 409 سلاطین 3/1.کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ص 603 بائیبل سوسائٹی لاہور پاکستان $2010 خطبات نور ص532 طبقات الکبری جلد 8 ص 128، اصابة جلد 7 ص 741 الاصابة جلد 7 ص741 مسند احمد بن حنبل جلد 6ص337 السمط الثمین محب الدین الطبری ص 142 طبقات الکبری جلد 8 ص 128، عیون الاثر جلد 2ص308 33 34 35 36 37 38 39 40 40 41 42 43 44 45 46 47 48

Page 222

ازواج النبی فضائل 206 ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ ย حضرت ماریہ حضرت ماریہ کا تعلق اس شاہ مصر کے خاندان سے تھا جس نے رسول اللہ لی لی ایم کے دعوی کی تصدیق کرتے ہوئے مکتوب نبوی کو اپنے سینے سے لگایا اور اسے چوم کر ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں محفوظ کروایا، اور رسول اللہ لی اس کام کو قیمتی تحائف کے ساتھ شاہی خاندان کی دو لڑکیاں بھی بھجوائیں جن میں سے ایک حضرت ماریہ تھیں..حضرت ماریہ جب صاحبزادہ ابراہیم سے حاملہ ہوئیں تو جبریل نے رسول اللہ ہم سے کہا صلی "اے ابو ابراہیم ! آپ پر سلام ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو ماریہ سے ایک لڑکا عطا کرنے والا ہے اور ارشاد ہے کہ آپ اس کا نام ابراہیم رکھیں.".پھر صاحبزادہ ابراہیم ماریہ کے بطن سے پیدا ہوئے جن کے بارہ میں رسول اللہ لی ہم نے فرمایا."اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا." نام و نسب رض حضرت ماریہ قبطیہ شاہ مصر مقوقس کی قبطی قوم سے تھیں.آپ کے والد کا نام شمعون تھا، والدہ رومی نژاد خاتون تھیں.آپ کی پیدائش مصر کے علاقہ انصایا انصنا کی بستی حفن میں ہوئی.مؤرخ ابن سعد نے حضرت ماریہ کو قدیم مصری باشندوں کی نسبت سے قبطی جبکہ علامہ بلاذری نے انہیں رومیہ یعنی بحیرہ روم کے شمال میں رہنے والی قوم سے قرار دیا ہے.0 تاہم دونوں مؤرخوں نے ان کا جو حلیہ لکھا ہے یعنی سفید رنگ اور گھنگریالے بال.اس سے ان کا مصری ہو نازیاہ قرین قیاس ہے.رسول اللہ صلی علی یتیم کے زمانہ میں والی اسکندریہ اور شاہ مصر جریج بن میناء تھا، جسکا رومی لقب "بطريق" (Patriarch) تھا.عرب اسے "مقوقس " کے لقب سے یاد کرتے تھے.صلح حدیبیہ

Page 223

ازواج النبی 207 حضرت ماریہ رض کے بعد 6ھ میں اس نے رسول اللہ علیم کے تبلیغی خط سے متاثر ہو کر آپ کے قاصد کی واپسی پر جو تحائف ساتھ بھجوائے ان میں اس کے خاندان کی دو لڑکیاں بھی تھیں.ان میں سے حضرت ماریہ سے رسول اللہ صلی و ایم نے خود عقد فرمایا.حضرت خدیجہ کے بعد جس حرم سے رسول اللہ لی ایم کی اولاد ہوئی وہ حضرت ماریہ تھیں.8ھ میں ابراہیم ان کے بطن سے پیدا ہوئے.جس پر ان کی کنیت ام ابراہیم اور (ابو القاسم کے ساتھ ) رسول الله طی کنم کی دوسری الہامی کنیت ابو ابراہیم ہوئی.اگرچہ صاحبزادہ ابراہیم کم سنی میں وفات پاگئے.مگر رسول اللہ علی می کنم نے اہل مصر کے ساتھ اپنے بیٹے کے ننھیالی تعلق کو ہمیشہ احسان اور وفا کے جذبات کے ساتھ یادر کھا.رسول کریم نے اہل مصر کے بارہ میں مسلمانوں کو ہدایت فرمائی: إِذَا مَلِكْتُمُ الْقِبْطَ فَأَحْسِنُوْا إِلَيْهِمْ فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّة وَإِنَّ لَهُمْ رَحْماً يعني أُمُّ إِسْمَاعِيلَ إِنَّمَا كَانَتْ مِنْهُمْ یعنی جب تم مصریوں پر غالب آؤ تو ان سے حسن سلوک کرنا کیونکہ ان کے ساتھ ایک تو ذمہ " کا تعلق ہے دوسرے "رحم " کا.کیونکہ حضرت اسماعیل کی والدہ ( ہاجرہ) بھی انہیں (اہل مصر) میں سے تھیں."ذمہ " کے معنی عہد ، پناہ اور امان کے ہوتے ہیں.عرب کہتے ہیں آنتَ في ذمة الله یعنی تم اللہ کی پناہ میں ہو.تاریخ سے بظاہر تو رسول اللہ علیم کا اس زمانہ میں اہل مصر سے کوئی معاہدہ ثابت نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے تبلیغی خط کے جواب میں شاہ مصر کا مثبت رد عمل دیکھ کر اہل مصر سے حسن سلوک کی وصیت کرتے ہوئے انہیں امان عطا فرمائی اور اسے "ذمہ" کے حق سے یاد فرمایا ہے.شاہ مصر کو دعوتِ اسلام اور اس کارڈ عمل رسول الله علیم نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط بھیجوائے.ذوالقعدہ 6ھ میں آپ نے اپنے صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ مقوقس شاہ مصر کو خط بھجوایا.آنحضور می کنیم کا یہ کسی بادشاہ کی طرف چو تھا خط تھا جس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی.بسم اللہ کے بعد اس میں تحریر تھا:.محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے مقوقس حاکم اہل مصر کے نام.سلامتی ہو اس پر جو ہدایت قبول کرے.اس کے بعد میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، تم اسلام قبول کر لو ، امن میں آجاؤ گے

Page 224

ازواج النبی 208 حضرت ماریہ اور مسلمان ہو جانے سے اللہ تعالیٰ تمہیں دوہرا اجر عطا کریگا.اگر تم نے اعراض کیا تو اہل مصر کا گناہ بھی تم پر (3) 11/ ہو گا " ایسا ہی خط رسول اللہ نے کسری شاہ ایران کو بھی بھیجا تھا.مگر اس نے رسول الله علی علیم کا خط چاک کر دیا تھا اور رسول اللہ لی تم نے اسکی حکومت ٹوٹ جانے کی پیشگوئی فرمائی تھی.مگر شاہِ مصر کارڈ عمل شاہ ایران سے یکسر مختلف تھا.شاہ مصر مقوقس نے آپ کے مکتوب مبارک کو سینہ سے لگایا اور کہا کہ اس زمانہ میں ایک نبی نے ظاہر ہونا تھا جس کا ذکر ہم اللہ کی کتاب میں پاتے ہیں مگر میراخیال تھا کہ وہ شام سے ظاہر ہو گا.پھر اس نے مکتوب نبوی کا احترام کرتے ہوئے ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھ کر اسے محفوظ کروایا.رسول اللہ میم کا خط پڑھ کر اور آپ کے قاصد حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سن کر وہ حقیقت کو پہچان گیا تھا.اور آپ کے قاصد سے کہا کہ تم ایک دانا انسان ہو ، جو ایک دانا شخص کے سفیر بن کر آئے ہو.میں نے ان کی تعلیم میں اعتدال پایا ہے وہ ہر گز گمراہ جادو گریا کا ہن نہیں.اور میں اس معاملہ میں مزید غور کروں گا.4 اس نے اس آنے والے نبی کی ایک خاص نشانی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسکی علامتوں میں ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ وہ دو بہنوں کو اپنے حرم میں ) اکٹھا نہیں کرے گا.پھر اس نے اپنے جوابی خط میں رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں یہ بھی لکھا کہ میں آپ کے سفیر کے ساتھ عزت سے پیش آیا ہوں اور اس کے ساتھ دو لڑکیاں (بہنیں) بھجوا رہا ہوں.جنہیں قبطی قوم میں بڑا درجہ حاصل ہے.یہ دونوں لڑکیاں آپس میں بہنیں تھیں، بعید نہیں کہ ان بہنوں کے حضور کی خدمت میں بھجوانے کی ایک غرض مذکورہ علامت نبوت کی جانچ بھی ہو.پس شاہِ مصرا گرچہ اپنی حکومت کے چھن جانے کے ڈر سے اسلام تو قبول نہ کر سکا.مگر اس نے رسول اللہ صلی علیم کی شان و عظمت محسوس کر کے آپ سے سفارتی تعلقات استوار کرنے ضروری سمجھے اور آپ کی خدمت میں تحائف بھی بھجوائے.جن میں کچھ پارچات ، زیور اور ایک سلیٹی رنگ کا خچر دلدل نامی بھی شامل تھا.مزید برآں اپنے خاندان کی دو معزز لڑ کیاں بغرض رشتہ بھجوانا اس زمانہ کے دستور کے مطابق تعلقات مضبوط کرنے کی خاطر بھی تھا.لڑکیوں کے ساتھ ان کے عمر رسیدہ بھائی یا چچازاد ما بور نامی بھی تھے ، جنہوں نے مدینہ آکر اسلام قبول کر لیا.بعض روایات کے مطابق یہ لڑکیاں (جو پہلے عیسائی تھیں ) دوران سفر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ اور نمونہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی تھیں.

Page 225

ازواج النبی 209 حضرت ماریہ رض الغرض ان دو بہنوں کو خدمتِ اقدس میں بھجوانے سے شاہ مصر کے رسول اللہ علیم کے ساتھ رشتہ مصاہرت کرنے اور آپ کی سچائی کی اس علامت سے جانچنے کا عندیہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ (نبی) دو بہنوں کو اکٹھا نہیں کرے گا.چنانچہ رسول اللہ علیم نے ان دونوں بہنوں میں سے حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل کیا اور دوسری بہن سیرین کا رشتہ حضرت حسان بن ثابت سے کروا کر جہاں اسلامی اخوت کی عظیم الشان مثال قائم فرمائی.وہاں قرآنی حکم کے مطابق مقوقس کی بیان کردہ نشانی کی بھی تصدیق فرما دی.کیونکہ اسلامی شریعت کے مطابق ایک شخص کادو بہنوں کو عقد میں جمع کرنا حرام ہے.(النساء:6) ย حضرت ماریہ رسول اللہ صلی می ریم کے حرم میں رسول اللہ لی تم نے حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں شامل کر کے انہیں با قاعدہ پر دہ کر وایا اور نو مسلم ہونے کے باعث ابتدائی دنوں میں خصوصیت سے ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ فرمائی.اس بارہ میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے کہ " اس وجہ سے مجھے سب سے زیادہ غیرت ماریہ پر آتی تھی.وہ گھنگھریالے بالوں والی ایک خوبصورت خاتون تھیں.اور رسول الله می کنیم کو بہت عزیز بھی تھیں.آنحضرت لیلی یا ہم نے انہیں پہلے پہل ہمارے پڑوس میں ہی حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر پر رکھا.آپ شروع کے دنوں میں وہاں کثرت سے تشریف لے جاتے رہے.پھر انہیں نواح مدینہ میں کھجور کے ایک باغ میں ٹھہرایا.جہاں حضور طی نیم گاہے بگاہے تشریف لے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے اولاد بھی عطا کی اور ہم اس سے محروم رہیں." ابن سعد میں واقدی کی حضرت عائشہ سے منسوب یہ روایت جس میں حضرت ماریہ کے ہاں رسول اللہ علی ایم کے کثرت سے جانے کا ذکر ہے قابل قبول نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ حضرت عائشہ کی دیگر صحیح روایات بخاری، ابوداؤد و مسند احمد کے خلاف ہے جن کے مطابق "رسول کریم اپنی بیویوں کے مابین اخراجات اور وقت کی تقسیم میں برابری اور عدل سے کام لیتے تھے." اور وقت وغیرہ کی تقسیم میں بیویوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیتے تھے اور کم ہی کوئی دن ہوتا تھا جب آپ سب بیویوں کے گھروں میں چکر نہ لگائیں.اس کے بعد اس بیوی کے گھر تشریف لے جاتے تھے جہاں باری ہوتی تھی.حتی کہ سفر میں کسی بیوی کو ہمراہ لے جانا ہوتا تو قرعہ اندازی سے فیصلہ فرماتے.اس تناظر میں واقدی کی مذکورہ روایت کا متعلقہ 6 11

Page 226

ازواج النبی رض 210 حضرت ماریہ رض رض حصہ بخاری، ابو داؤد اور مسند احمد کے خلاف ہونے کے باعث قابل رڈ ہے اور ابتدائی دنوں میں حضرت ماریہ کو زیادہ وقت دینے کی روایت بلا توجیہ قبول نہیں کی جاسکتی.خصوصاً جبکہ ایک اور روایت میں اس کے بر عکس حضرت ماریہ اور حضرت ریحانہ کو دیگر ازواج کے ساتھ دو دن کے مقابل پر ایک دن یعنی نصف باری دینے کا بھی ذکر ہے.پھر اس روایت میں جو وجہ بیان ہوئی ہے وہ اپنی جگہ محل نظر ہے کہ بوجہ لونڈی ان کو نصف باری ملتی تھی.اگر کوئی تاویل عقلی و نقلی لحاظ سے قابل قبول ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ رسول اللہ کو حسب حالات و ضرورت باریوں میں کمی بیشی کا اختیار تھا.جیسا کہ ارشاد ربانی ہے تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ (الاحزاب : 52) یعنی تُو أن (بیویوں) میں سے جنہیں چاہے چھوڑ دے اور جنہیں چاہے اپنے پاس رکھ ، گویا بعض مصالح کے تحت آپ کو ازواج کی باریوں میں کمی بیشی یارڈ و بدل کا اختیار تھا جسے حتی الوسع آپ نے استعمال نہیں فرمایا تاہم شادی کے شروع دنوں میں حضرت ماریہ کے عیسائیت سے مسلمان ہونے پر تربیت کی خاطر کچھ زائد وقت دیا بھی ہو تو بعد میں انہیں چند روز نصف وقت دے کر برابر کر دیا.یہ توجیہ اس لیے قرین قیاس ہو سکتی ہے کہ حضرت ام سلمہ سے شادی کے موقع پر بھی حضور نے انہیں اختیار دیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو میں تین یا سات دن آپ کے پاس قیام کر سکتا ہوں.مگر پھر اتنے ہی دن ہر بیوی کو اسکی باری میں دینے کے بعد آپ کی باری آئیگی.رسول اللہ علیم نے بعد میں وہ باغ جس کے بالا خانہ میں وہ قیام فرمار ہیں.حضرت ماریہ قبطیہ کو عطا رض رض فرما دیا تھا.یہ بالا خانہ آج بھی مشر بہ اتم ابراہیم کے نام سے معروف ہے.رسول اللہ علی ایم کی پاکیزہ صحبت اور اعلیٰ تربیت کی برکت سے حضرت ماریہ نے ام المومنین کا بلند مقام پایا.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاول نے 1910ء میں سورۂ احزاب کی آیت تطہیر کا درس دیتے ہوئے اہل بیت رسول مانے کور جس سے پاک کرنے کی وضاحت میں اسلام قبول کرنے والی بیویوں میں حضرت ماریہ کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ وہ عیسائیوں سے مسلمان ہوئیں اور نبی پاک کی صحبت میں پاک ہوئیں.رسول اللہ ماتم کا شروع کے دنوں میں حضرت ماریہ کے ہاں کثرت سے جانا بھی دینی تعلیم و تربیت کے علاوہ غریب الوطنی میں انکی اجنبیت دور کرنے کے باعث بھی ہو سکتا ہے.نیز صاحبزادہ ابراہیم کے 12

Page 227

ازواج النبی 211 حضرت ماریہ رض ایام حمل میں بھی وہ خصوصی توجہ چاہتی ہو نگی.خصوصاً جب کہ ان کے بطن سے آپ کو ایک بیٹے کی ولادت کی بشارت دی گئی تھی.جیسا کہ روایت ہے رسول اللہ صلی ہیم نے فرمایا :."اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ اس (ماریہ) کے بطن سے ایک لڑکا عطا ہو گا جو میری شباہت پر ہو گا.مجھے اس کا نام ابراہیم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور میری کنیت ابو ابراہیم رکھی ہے.اگر مجھے اپنی کنیت بدلنی ناپسند نہ ہوتی تو میں ابوابراہیم کی کنیت اختیار کر لیتا، جس طرح جبریل نے مجھے پکارا ہے.صاحبزادہ ابراہیم کی ولادت 1311 حضرت ماریہ جب صاحبزادہ ابراہیم سے حاملہ ہوئیں تو جبریل نے آکر کہا "اے ابو ابراہیم ! آپ پر سلام ہو.اللہ تعالی آپ کو ماریہ سے ایک لڑکا عطا کرنے والا ہے اور ارشاد ہے کہ آپ اس کا نام ابراہیم رکھیں.اللہ تعالی آپ کو یہ بیٹا مبارک کرے اور دنیاو آخرت میں اسے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنائے.0 دوسری روایت میں ہے کہ جبریل نے رسول اللہ علیم سے آکر کہا "اے ابو ابراہیم ! آپ پر سلام ہو تو آپ نے فرمایا ہاں میں ابوابراہیم بھی ہوں اور ابراہیم کا بیٹا بھی ہوں اور اسی کے نام سے ہم پہچانے جاتے ہیں.اللہ تعالی فرماتا ہے.مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ (الحج: 79) یہی تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب تھا.اُس (یعنی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا " ذوالحجہ 8ھ میں حضرت ماریہ کے بطن سے صاحبزادہ حضرت ابراہیم تولد ہوئے.حضرت انس سے 16 1511 روایت ہے کہ ان کی ولادت سے اگلے روز رسول اللہ علیم نے فرمایا " آج رات مجھے اللہ تعالی نے لڑکا دیا ہے جس کا نام میں نے اپنے باپ کے نام پر ابراہیم رکھا ہے " صاحبزادہ ابراہیم کی دایہ رسول اللہ لی لی نام کی آزاد کردہ لونڈی حضرت سلمی تھیں.ان کے شوہر حضرت ابورافع نے ہی آکر رسول اللہ صل تعلیم کو صاحبزادہ ابراہیم کی ولادت کی خوشخبری سنائی تھی.رسول اللہ علی می کنم نے خوش ہو کر انہیں ایک خادم بطور انعام عطا فرمایا.آپ نے ساتویں دن صاحبزادہ ابراہیم کے بال مونڈوائے اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ میں دے کر بالوں کو دفن کر وادیا گیا.عقیقہ کے لئے آپ نے ایک بکری ذبح کروائی.

Page 228

ازواج النبی 212 حضرت ماریہ رض اس روایت میں صاحبزادہ ابراہیم کے عقیقہ پر ایک بکری ذبح کرنے کا حکم ہے.جبکہ رسول کریم فرماتے تھے کہ بچہ عقیقہ (قربانی) کے عوض رہن ہوتا ہے.اور آپ بالعموم لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنے کی ہدایت کرتے تھے.لیکن چونکہ اسلامی تعلیم میں نرمی اور ٹیٹر کا پہلو غالب ہے.اور اس کے احکام تکلیف مالایطاق نہیں.اس لیے اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو آپ کے عمل سے لڑکے کیلئے عقیقہ کے دو بکرے ذبح کرنے کی سنت زیادہ معروف اور افضل ہے تاہم حسب توفیق خاص حالات میں لڑکے کی طرف سے ایک بکرا عقیقہ کا جواز بھی لیا جاسکتا ہے.0 19 صاحبزادہ ابراہیم کی رضاعت کے بارہ میں انصار کے مختلف گھرانوں میں طبعا ایک جذ بہ اور شوق پایا جاتا تھا کہ وہ اس خدمت کی سعادت پائیں.ابتدائی کچھ ایام میں تو حضرت سلامہ نے یہ خدمت انجام دی پھر ایک انصاری خاتون حضرت ام بردہ بنت منذر ) جو حضرت براء بن اوس کی زوجہ تھیں) کچھ عرصہ دودھ پلاتی رہیں.رسول اللہ علیم بنی نجار کے محلہ میں اپنے لخت جگر ابراہیم کو دیکھنے تشریف لے جاتے اور وہاں قیلولہ بھی فرماتے.رسول اللہ علیم نے حضرت ام بردہ کو کھجوروں کا ایک قطعہ بھی بطور تحفہ عطا فر مایا تھا.اس کے کچھ عرصہ بعد صاحبزادہ ابراہیم رضاعت کے لئے حضرت ابوسیف کی بیوی حضرت ام سیف کے سپر د کئے گئے جو مدینہ میں لوہار کا کام کرتے تھے.رسول اللہ لی تم کو صاحبزادہ ابراہیم سے بہت محبت تھی.آپ اکثر اپنے بیٹے سے ملاقات کے لئے ابوسیف کے گھر تشریف لے جاتے صاحبزادے کو اٹھاتے سینہ سے لگاتے چومتے اور پیار کرتے.22 صاحبزادہ ابراہیم کی استعداد روحانی صاحبزادہ ابراہیم کی ولادت سے تین سال قبل سورۃ الاحزاب کی آیت خاتم النیبین میں یہ صراحت آچکی تھی مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب : 41) کہ محمد ال یا ہم تمہارے (جیسے) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتم ہے.

Page 229

ازواج النبی 213 حضرت ماریہ اس میں یہ اشارہ بھی مضمر تھا کہ رسول اللہ علیم کی نرینہ اولاد میں سے کوئی بھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے گا.اس بچے کی ولادت پر خوشی کے ساتھ طبعاً ایک گھبراہٹ پیدا ہونی بھی ضروری تھی کہ یہ بچہ کچھ عرصہ کا 23 مہمان ہے.ایسی کیفیت میں حضرت جبریل نے آنحضرت میں یہ تم کو " اے ابو ابراہیم ! آپ پر سلام کہہ کر ایک گوناں تسلی بھی دی کہ اس بچے کا آکر کم عمری میں جانا بھی موجب برکت و سلامتی ہو گا.وفات ابراہیم ہر چند کہ صاحبزادہ ابراہیم کی وفات ایسی الہی تقدیر تھی جس کے اشارے موجود تھے مگر طبعاً آپ کو اس نرینہ اولاد کی جدائی پر گہرا صدمہ تھا.چنانچہ انکی وفات پر رسول اللہ علیم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر، حضرت عبد الرحمان بن عوف نے عرض کیا کہ یارسول اللہ مسلم ! آپ بھی روتے ہیں.آپ نے فرمایا.اے ابن عوف یہ رحمت ہے.پھر آپ کا ایک اور آنسو ٹپکا تو آپ نے فرمایا:.إِنَّ العَيْنَ تَدْمَهُ وَالقَلْبُ يَحْزَنُ ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يُرْضِي رَبَّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ 24 يَا إِبْرَاهِيمُ لِمَحْزُونُون ® یعنی آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگیں ہے اور ہم کچھ نہیں کہتے مگر وہی جو ہمارے رب کو پسند ہو اور ہم اے ابراہیم ! تیری جدائی سے یقیناً غمگیں ہیں.کچھ یہی کیفیت حضرت ماریہ کی اپنی اکلوتی اولاد کی جدائی پر بھی تھی.چنانچہ ان کی بہن سیرین روایت کرتی ہیں کہ صاحبزادہ ابراہیم کے آخری لمحات تھے.میں اور میری بہن حضرت ماریہ رونے لگیں تو آنحضور نے منع نہیں فرمایا مگر جب بچہ فوت ہو گیا تو آپ نے ہمیں اونچی آواز سے رونے سے منع فرما دیا.25 صاحبزادہ ابراہیم نے قریباً 18 ماہ عمر پائی.گویا رضاعت کے دو سال بھی پورے نہ ہو پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.رسول اللہ صلی علی کریم نے ان کی وفات پر فرمايا إن له مرضعا في الجنَّةِ- 26 کہ صاحبزادہ ابراہیم کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہو گی.یعنی ان کی روحانی تحمیل دوسرے جہاں میں ہو گی.

Page 230

ازواج النبی 214 حضرت ماریہ رض صاحبزادہ ابراہیممؑ کی وفات پر سورج گرہن ہوا تو بعض لوگوں نے اسے آنحضور می یتیم کے اس صاحبزادے کی وفات کی مناسبت سے ایک نشان قرار دیا.رسول اللہ سی می کنیم نے واضح فرمایا چاند سورج گرہن 2811 27 کسی کی وفات پر نہیں ہوتے.یہ تو اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں پس اٹھو اور نماز کسوف ادا کرو.رسول اللہ لی لی ہم نے اس معصوم بچے کی تدفین کے لئے خاص جگہ کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا ہم اپنے اس بچے کو اس کے پیشر و حضرت عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کریں گے."رسول اللہ علیم کے چا زاد حضرت فضل بن عباس نے صاحبزادہ ابراہیمؑ کو غسل دیا اور ان کی قبر میں ان کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید بھی اترے.جبکہ رسول اللہ لی تم قبر کے کنارے تشریف فرمار ہے.قبر کی تیاری کے دوران رسول کریم ال لال ہم نے دیکھا کہ کچھ سوراخ باقی رہ گئے ہیں.آپ نے توجہ دلا کر ان کو بند کر وا دیا اور فرمایا " اس سے مرنے والے کو تو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں لیکن زندوں کی آنکھ اس سے ٹھنڈی ہوتی ہے.اور بندہ جب کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ وہ اس کام کو عمدہ کر کے مکمل کرے " حضرت ماریہ زوجہ رسول حضرت ماریہ کے بارہ میں بعض محدثین ،اہل سیر اور مؤرخین کی عمومی رائے یہ ہے کہ وہ رسول للہ علیم کی ملک یمین سریہ یا لونڈی کے طور پر تھیں.صاحبزادہ ابراہیم کی پیدائش کے بعد وہ بطور ام ولد آزاد ہوئیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی تم نے صاحبزادہ ابراہیم کی ولادت پر حضرت ماریہ کے بارہ میں فرمایا کہ اس کے بیٹے نے اسے آزاد کر دیا.لیکن بعض محدثین نے اس حدیث کے بعض راویوں کے ضعیف ہونے کے باعث اسے رد کیا ہے.اس روایت کو قبول کرنے کی صورت میں بھی اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی رائج الوقت دستور کے مطابق اتم ابراہیم کو کنیز ہی سمجھتا تھا تو بیٹے کی ولادت نے اس پر بھی اتمام حجت کر دی ہے کہ اب انہیں آزاد تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں.وہ بطور زوجہ رسول اللہ علیم کے حرم میں نہ بھی آتیں تو بھی بچے کی ولادت کے ذریعہ انہوں نے آزاد ہونا ہی تھا گویا حضرت ماریہ کے ہاں اولاد ہونے پر یہ اظہار مسرت کا ایک انداز تھا.

Page 231

ازواج النبی 215 حضرت ماریہ رض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت ماریہ کے زوجہ یا کنیز ہونے کے معاملہ کو ایک اختلافی امر قرار دیا اگرچہ سیرت خاتم النبیین کے ناتمام رہ جانے کے باعث ہم اس بارہ میں انکی تفصیلی تحقیق سے محروم ہیں.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاؤل نے سور کاحزاب کی آیت 53 کی تفسیر میں حضرت ماریہ کو لونڈی قرار دیا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِ شَيْءٍ رَقِيبًا ( احزاب: 53)اس کے بعد تیرے لیے (اور ) عورتیں جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان (بیویوں) کے بدلے میں تو اور بیویاں کر لے خواہ ان کا حسن تجھے پسند ہی کیوں نہ آئے.مگر وہ مستثنیٰ ہیں جو تیرے زیر نگیں ہیں اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اوّل فرماتے ہیں کہ "جس وقت یہ آیت اتری اس وقت حضرت کے نکاح میں نو بیبیاں...تھیں.مگر لونڈی رکھنے کی اجازت تھی.چنانچہ مقوقس بادشاہ مصر نے آپ کو مار یہ لونڈی ہدیہ بھیجی".حضرت خلیفہ اول نے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے اپنی کتاب فصل الخطاب میں بھی عیسائی پادریوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے عام روایات کے مطابق حضرت ماریہ کو آنحضرت علی علی ایم کی 32 33 سریہ بی بی اور ام الولد (یعنی آپ کے صاحبزادہ کی ماں بننے کے نتیجے میں آزاد ہونے والی) بیان فرمایا ہے.سورۂ احزاب کی آیت 53 کی وضاحت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی ماریہ کو ایسی لونڈی قرار دیا ہے جسے رسول اللہ صلی ھیں کہ تم نے اپنے نکاح میں لے لیا تھا.لونڈی سے نکاح کے ثبوت کے لیے حضرت خلیفہ ثانی کا بیان فرمودہ یہ اصول بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اگر وہ (لونڈیاں) مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا نا جائز ہے یعنی نکاح کے لیے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں." آپ مزید فرماتے ہیں کہ حضرت ماریہ کو مقوقس شاہِ مصر نے اپنے ملک کے رواج کے مطابق لونڈی کے طور پر تحفہ رسول کریم ملی نیم کی خدمت میں بھیجا تھا.پس وہ اس آیت کے حکم سے باہر ہیں اور ان سے بھی رسول اللہ صلی علی یتیم کا نکاح ثابت ہے.آیت 51 اور 53 دونوں میں رسول اللہ یتیم کے لیے لونڈی کی جو اجازت ہے اس کے بارے میں حضرت خلیفہ ثانی کی رائے ہے کہ رسول کریم نے اس اجازت سے فائدہ نہیں سن ہے رسول کریم نے اس اجازت کو سورۃ الانفال کے اس حکم سے مشروط سمجھا ہو کہ "کسی نبی اٹھایا.

Page 232

ازواج النبی 216 حضرت ماریہ رض 36 کے لیے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کئے بغیر قیدی بنائے " (الانفال : 68).اس حکم الہی پر عمل کرتے ہوئے آپ نے کبھی کوئی غلام یا لونڈی نہیں رکھی اور اخلاق فاضلہ کا وہ بہترین نمونہ دکھایا جسے ہمیشہ کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا.اس لحاظ سے مؤقف میں زیادہ وزن ہے کہ آنحضرت ملی تم نے بی بی ماریہ کو روز اول سے اپنے حرم میں شامل کر کے ازواج مطہرات جیسا سلوک کیا، ان سے پردہ کر وایا اور الگ رہائش کا انتظام کیا.اس رشتہ کے نتیجہ میں مصر اور اسکندریہ کے بادشاہ سے تعلقات پیدا ہوئے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اس کتاب میں اور اس کے بعد اپنے درس القرآن میں بھی حضرت ماریہ کو رسول اللہ صلی یتیم کی بی بی کے الفاظ سے بھی یاد فرمایا ہے.اور ان کے لئے "سر یہ بی بی" کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں.لفظ سُریہ کی لغوی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ سین کی کسرہ (زیر) کے ساتھ لفظ میر سے ماخوذ ہو کر اس کے معنے لونڈی کے ہیں.جبکہ سین کی ضمہ (پیش) کے ساتھ یہ لفظ شرور سے ہے اور اس کے معنے ایسی بی بی کے ہیں جس سے شوہر خوش ہو یعنی اس کی عزیز بیوی.اگر یہ مانا جائے کہ حضرت خلیفہ اول نے حضرت ماریہ کے لونڈی ہونے کے متعلق بعد میں کسی وقت اپنی رائے تبدیل کر لی تھی تو آپ نے حضرت ماریہ کے لئے سُریہ کا لفظ انہی معنی میں استعمال فرمایا ہو گا.یعنی شوہر کو خوش کرنے والی عزیز بی بی.حضرت ماریہ کا ازواج مطہرات میں شامل ہونا جن قرائن قویہ کی موجودگی میں قبول کرنے کے لائق ہے وہ یہ ہیں :.رض 1.ذاتی غلام یالونڈی رکھنے سے اجتناب کے متعلق رسول اللہ علیم کا عملی نمونہ.2.شاہ مصر کا اپنے خاندان کی معزز لڑکی ماریہ کو بغرض رشتہ مصاہرت بھجوانا اور حضور طی یا نیم کا بصورت عقد اپنے حرم میں قبول فرمانا.3.رسول اللہ علیم کا حضرت ماریہ کو ازواج مطہرات کی طرح پردہ کروانا.رض 4.رسول کریم ملی علم کا نو مسلمہ حضرت ماریہ کے حرم رسول میں شامل ہونے پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے حسب منطوق سورۃ احزاب : 52 خصوصیت سے توجہ دینا تا کہ وہ سورۃ احزاب کی آیات 33 تا35 کا نمونہ ہوں.5.رسول الله علی علیم کا حضرت ماریہ کو علیحد ودرہائش اور بطور تحفہ انہیں باغ عطا کرنا.

Page 233

ازواج النبی 217 حضرت ماریہ 6.خلفائے راشدین حضرت ابو بکر اور حضرت عمررؓ کا حضرت ماریہ کے ساتھ خصوصی احترام کا برتاؤ اور دیگر ازواج کی طرح ان کے لئے باقاعدہ نفقہ مقرر کرنا.ان امور کی کسی قدر تفصیل سے یہ مضمون مزید واضح ہو جاتا ہے.1.اوّل:.آنحضرت علی نیم غلاموں کی آزادی کی تعلیم کے علم بردار بن کر آئے تھے اور عمر بھر آپ نے غلامی کے خلاف جہاد کیا.روایات سے ثابت ہے کہ کوئی ایک غلام بھی آپ نے اپنے قبضہ میں رکھنا پسند نہیں فرمایا.حضرت خدیجہ نے اپنے غلام زید بن حارثہ میں آپ کی رغبت دیکھ کر آپ کی ملکیت میں دیا تو آپ نے اسے بھی آزاد کر کے اختیار دیا مگر انہوں نے رسول الله می کنیم کو اپنے والدین پر ترجیح دی.اور حضور نے ان کو اپنا بیٹا بنا کر رکھا.بعد میں بھی آنحضرت لیلی و یا یک تم اپنی زندگی میں ہمیشہ خود غلام آزاد کرتے اور دوسروں 37 سے کرواتے رہے.صرف غزوہ حنین میں ایک دن میں ہی آپ نے چھ ہزار غلاموں کی آزادی کا حکم دیا.لیکن ذاتی طور پر جو غلام آپ نے آزاد کئے وہ ایک روایت کے مطابق 63 تھے.0 گو یا اپنی زندگی کے سالوں کے برابر آپ نے غلام آزاد کیسے اور بوقت وفات آپ نے کوئی ایک غلام یا 38 لونڈی ترکہ میں نہیں چھوڑی.اس لحاظ سے حضرت ماریہ کو لونڈی بنا کر رکھنا آپ کے مزاج اور عادت کے خلاف تھا.اس لئے حضور نے ان سے عقد فرما کر اپنی ازواج میں شامل فرمایا.اور اس مقصد کیلئے کسی علیحدہ اعلان نکاح کی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ حضرت صفیہ کو بھی رسول اللہ علیم کا اپنے حرم میں شامل فرمایا تو ازواج کی طرح پردہ کروانا ہی اس کا اعلان تھا.2.دوم:.بعض دیگر اقوام کی طرح اہل مصر میں بھی قدیم سے یہ دستور تھا کہ وہ شاہان مملکت یا والیان ریاست اور معزز مہمانوں سے پختہ تعلقات استوار کرنے کی خاطر اپنے خاندان کی معزز لڑکیوں کار شتہ پیش کر دیتے تھے.جیسا کہ بائبل کے مطابق فرعون مصر نے اپنی بیٹی حضرت سلیمان کو پیش کر دی تھی جس کے نتیجہ میں مصر اسرائیل کے حملہ سے محفوظ ہو گیا.حضرت ابراہیم کے زمانہ کے فرعون مصر نے ان کی ولایت و بزرگی اور قبولیت دعا کا نشان دیکھ کر انہیں حضرت ہاجرہ کا رشتہ پیش کیا تھا.اسی طرح اگرچہ مقوقس شاہِ مصر اپنی قوم کی مخالفت کے ڈر سے اپنا مذ ہب 39

Page 234

ازواج النبی 218 رض حضرت ماریہ چھوڑ کر مسلمان تو نہیں ہوا اور یہ عذر کیا کہ میری قوم اس نبی کی اتباع پر راضی نہ ہو گی اور مجھے اپنی حکومت کو خیر باد کہناپڑے گا.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے دراصل مقوقس کو رسول اللہ لی لی ایم کی سچائی اور کامیابی کا یقین ہو گیا تھا چنانچہ اس نے آپ سے صلح و امن کے تعلقات استوار رکھنے کے لئے اپنے قومی رواج کے مطابق اپنے خاندان کی معزز دو لڑکیاں رشتہ کے لئے بھجواتے ہوئے یہ بھی اظہار کیا کہ آپ کے اخلاق کریمہ میں یہ بات ہے کہ وہ دو بہنوں کو ایک ساتھ عقد میں نہیں رکھتے.اور رسول اللہ علم نے قرآنی تعلیم (سورۂ نساء: 24) کے مطابق ان دونوں بہنوں میں سے ایک کو اپنے حرم میں لا کر اس نشانی کو بھی سچا ثابت کر دیا.40 رض 3.سوم :.آنحضرتعلیم کا حضرت ماریہ کو ازواج مطہرات کی طرح پردہ کروانا بھی انہیں زمرہ ازواج میں شامل کرنے کے مترادف ہے.سورہ احزاب میں ازواج رسول کے لئے مخصوص احکام پردہ میں یہ صراحت ہے کہ ان کا مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے.ان کی آواز میں بھی لوچ نہیں ہونی چاہیے اور انہیں بالعموم اپنے گھروں میں ٹھہر نا چاہیے اور جاہلیت کے رواج کے مطابق اظہار زینت نہیں کرنا چاہیے بلکہ ازواج مطہرات کو ایسے رنگ میں چادریں اوڑھنے کی تلقین فرمائی کہ وہ خود پہچانی نہ جائیں ان کا خاص پر وہ ان کی پہچان بن جائے.نیز جن لوگوں کو گھریلو کام کاج کے سلسلہ میں ازواج اور اہل بیت سے رابطہ کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی پردہ کے پیچھے سے سوال کریں.(الاحزاب : 60،54،34،33) اس بناء پر ازواج مطہرات پردہ کا خاص اہتمام کرتی تھیں اور اس میں چہرہ کا پردہ بطور خاص شامل تھا.رسول اللہ صلی علی ایم کی ازواج کا مثالی نمونہ اس بارہ میں اتنا معروف تھا کہ غزوہ خیبر کے بعد جب آپ نے حضرت صفیہ کو اپنے عقد میں لیا تو اسیرانِ جنگ میں سے ہونے کی وجہ سے یہ خیال ہوا کہ حضور انہیں بطور ملک یمین اپنے عقد میں رکھتے ہیں یا زوجہ کے طور پر.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ اس بات کی جانچ کے لئے ہم نے اسی علامت پر انحصار کیا کہ اگر رسول اللہ لی یا تم نے حضرت صفیہ کو ازواج کی طرح پردہ کا اہتمام کروایا تو وہ زوجہ مطہرہ ہوں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور صحابہ کا مقرر کردہ معیار صد فی صد درست ثابت ہوا.اور حضور طی یا ہم نے انہیں ازواج کی طرح پردہ کروایا.اسی معیار پر جب حضرت ماریہ کا معاملہ پر کھا جائے تو روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ لی لی کہ ہم نے حضرت ماریہ کے لئے شروع سے پردہ کا اہتمام کروایا.0 رض

Page 235

ازواج النبی 219 حضرت ماریہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا یہ فرمانا کہ حضرت ماریہ سے رسول اللہ لی لی ایم کا نکاح ثابت ہے.اس کا ایک ثبوت ان کا حق مکاتبت طلب نہ کرنا اور دوسرا قرینہ پردہ ازواج ہے جیسا کہ حضرت صفیہ کے نکاح کے لئے بھی یہی قرینہ قویہ ہے.-4.چہارم :.حضرت عائشہ کی وہ روایت جس میں مومسلم حضرت ماریہ قبطیہ کو شادی کے شروع دنوں میں کچھ زائد وقت دینے کا ذکر ہے.اگر اسے اس تاویل کے ساتھ قبول کیا جائے کہ دیگر ازواج کی موجودگی میں ان کی باریوں کے اہتمام کے ساتھ یہ زائد وقت رسول اللہ علی یک تیم ح حسب منطوق سورہ احزاب آیت 52 اس نو مسلم بیوی کی تعلیم و تربیت پر صرف کرتے تھے.تو یہ بھی حضرت ماریہ کے زوجہ رسول ہونے پر ایک قرینہ ہوگا، کیونکہ حرم رسول میں آجانے کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کے تقاضے بڑھ گئے تھے.اور پیش آمدہ حالات میں رسول اللہ صلی علی کریم سے بڑھ کر کوئی اور یہ احسن فریضہ انجام نہیں دے سکتا تھا.5 پنجم : رسول الله علی کریم نے مضافات مدینہ کے اموال بنی نضیر میں اپنے جس باغ میں حضرت ماریہ کو ٹھہرایا، وہ بعد میں انہیں تحفہ عطا کر دیا تھا جہاں وہ سکونت ہوئیں.اگرچہ اس باغ کے بارہ میں یہ تصریح موجود نہیں کہ وہ حق مہر میں تھا یا تحفہ.تاہم زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ وہ حق مہر ہو گا کیونکہ لونڈی کی ملکیت میں ایسی قیمتی جائداد آجائے تو وہ حق مکاتبت استعمال کر کے خود آزاد ہو سکتی ہے.اس لئے رسول اللہ علی الکریم نے یقیناً اپنی حرم کو یہ باغ بطور مہر عطافرمایا ہو گاور نہ مساوات کی خاطر دیگر بیویوں کو بھی ایسا باغ بطور تحفہ عطا فرماتے.ย ย 42 6 ششم :.رسول اللہ علیم کی وفات کے بعد حضرت ماریہ نے جن دو خلفاء کا زمانہ پایا ان کا سلوک بھی حضرت ماریہ سے ازواج مطہرات جیسا تھا.وہ آپ کا خصوصی احترام کرتے اور آپ کیلئے باقاعدہ نفقہ کا انتظام فرماتے رہے جس طرح دیگر ازواج کے لئے فرماتے تھے.رض اس کے مقابل پر حضرت عمرؓ نے عمرة بنت الجون کے لئے وظیفہ مقرر نہیں کیا تھا.(ان کا دوسرا نام اسماء اور 43 امیمہ بھی آتا ہے اور جن کو رسول اللہ علیم نے شادی سے قبل ہی ان کے مطالبہ پر طلاق دے دی تھی.) 0 اگرچہ حضرت عمرؓ نے سورہ احزاب کی آیت 54 کے حوالہ سے اس مطلقہ زوجہ رسول اللہ لی لی تم کو رسول اللہ کے بعد کہیں اور نکاح سے منع کیا تو اس خاتون نے جوابا یہ دلیل دی کہ مطلقہ ہونے کی وجہ سے نہ تو مجھے ازواج ย

Page 236

ازواج النبی 220 حضرت ماریہ رض کی طرح پردہ کا پابند کروایا گیانہ مجھے ام المومنین کا لقب ملا اور نہ ہی آپ نے میرے لئے ازواج کی طرح نفقہ یا وظیفہ مقرر کیا ہے.اگر رسول اللہ علی ایم کی قبل از شادی مطلقہ ہونے کے لحاظ سے بھی مجھے ازواج میں شمار 44 کرتے ہوئے آئندہ نکاح سے روکنا ہے تو پھر اسی اصول پر میر ا نفقہ بھی مقرر ہونا چاہیے.اور حضرت عمر نے انکی اس دلیل کو رڈ نہیں فرمایا تھا.ایک اعتراض کا جواب حضرت ماریہ کے بارہ میں محدث امام حاکم ، مشہور مفسر جلال الدین سیوطی اور مؤرخ ابن سعد نے ایک ایسی کمزور روایت بیان کی ہے جسے بعض عیسائی پادریوں نے بنیاد بنا کر رسول کریم ای کمر پر اعتراض کیا ہے کہ آپ نے ان سے حضرت حفصہ کے گھر اور ان کی باری میں صحبت کی.اور ان کے رد عمل پر رسول کریم نے اپنی سر یہ حضرت ماریہ کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا اور اس کا ذکر کرنے سے منع کر دیا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ (التحريم:2) 0 45 اس روایت کا ایک راوی واقدی ہے جو کسی بھی لحاظ سے قابل اعتماد نہیں.مزید برآں نسائی اور مستدرک کی اس روایت میں حضرت ماریہ کی بجائے کسی اور لونڈی کا ذکر ہے.جس سے یہ اعتراض اور مشتبہ اور بے بنیاد ہو جاتا ہے.اس کے علاوہ یہ روایت صحیح بخاری اور مسلم کی روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی قابل رڈ ہے.صحیحین کی روایت کے مطابق سورۃ التحریم آیت 2 کے شان نزول میں مذکور ہے کہ چند ازواج کے کہنے پر آپ نے ایک حلال چیز (شہد) کو اپنے اوپر حرام کر لیا تو یہ آیت نازل ہوئی.علامہ ابوسلیمان محمد بن محمد الخطابی البستی (متوفی 388ھ) نے تصریح کی ہے کہ بخاری مسلم کی حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ اس واقعہ تحریم کا تعلق واقعہ شہد سے تھا نہ کہ حضرت ماریہ سے.جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں.یہی بات علامہ الخازن ابوالحسن علی بن محمد ابراہیم بن عمرالشیعی (متوفی 741ھ) نے لکھی ہے کہ علماء کے نزدیک اس روایت کا تعلق 46 شہد کے واقعہ سے ہے.نیز ان کے مطابق حضرت ماریہ کے متعلق یہ روایت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے.47 رض

Page 237

ازواج النبی 221 حضرت ماریہ رض حضرت مولانانور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول نے بھی حضرت ماریہ کے بارہ میں ایسی روایات کو ر ڈ کیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :." بعض مفسر لوگوں نے زینب کے بدلے میں ماریہ قبطیہ کا نام لیا........یہ مفسروں کا قول حدیث کے مقابلے میں التفات کے قابل نہیں بلکہ محققین نے ماریہ کے وجود پر بھی انکار کیا ہے.48 11 ہے.بعض کتب میں یہ قصہ حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے جو ابن اسحاق کے نزدیک "مدرج" (یعنی بعد کے راوی کی طرف سے اضافہ ہے ) اسی طرح بعض ایسی روایات حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ کی طرف بھی منسوب ہیں جو بزرگ علمائے فنِ حدیث کے نزدیک اجتہاد اور درایت کے لحاظ سے سند نہیں.0 اسی طرح مختلف تفاسیر اور کتب تاریخ میں واقعہ شہد کی حضرت ماریہ سے متعلق روایت اندرونی طور پر ย 50 تضاد کا شکار ہے اور ایسے راویوں سے مروی ہے جن کی روایات قابل قبول نہیں.مثلاً مستدرک حاکم کی اس روایت کے راوی محمد بن بکیر کے بارہ میں لکھا ہے کہ وہ بسا اوقات غلطی کھا جاتے تھے.0 یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس روایت کے راویوں میں سے کسی نے بھی یہ واقعہ خود حضرت حفصہ یا آنحضور علم کی کسی اور زوجہ مطہرہ سے براہ راست بیان نہیں کیا جو اس واقعہ کی عینی شاہد تھیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ " بعض مفسرین نے اس آیت کی بہت گندی تفسیر کی ہے یعنی یہ کہ آپ نے حضرت ماریہ سے جو آپ کی لونڈی تھی صحبت کی اور پھر یہ بات ایک بیوی سے عہد لے کر بتادی.اس نے دوسری بیویوں کو بتادیا اور یہ بات پھیل گئی.یہ سب قصہ غلط ہے اور رسول کریم کو بد نام کرنے کے لئے گھڑا گیا ہے " وفات رض 51 11 ام ابراہیم حضرت ماریہ کی وفات رسول اللہ علیم کی وفات کے پانچ سال بعد محرم 16ھ میں حضرت عمر بن الخطاب کے دور خلافت میں ہوئی.52 حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت ماریہ کے جنازہ میں شرکت کے لئے لوگوں کو خصوصیت سے اطلاع کروا کے اکٹھا کر وایا اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.53

Page 238

ازواج النبی 222 حضرت ماریہ رض حضرت ابو بکر نے دیگر ازواج کی طرح حضرت ماریہ کا وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا جو ان کے زمانہ خلافت میں جاری رہا پھر حضرت عمرؓ نے بھی آپ کی وفات تک اسے جاری رکھا.(54) رسول اللہ علیم کے بعد فوت ہو نیوالی پہلی بیوی اور ایک اشکال کا حل ! حضرت ماریہ کی وفات 16ھ میں ہوئی اس لحاظ سے وہ رسول اللہ علیم کی وفات کے بعد سب سے پہلی فوت ہونیوالی زوجہ مطہرہ تھیں.اس موقع پر رسول کریم طی می کنیم کی اس پیشگوئی کی وضاحت ضروری ہے جس میں آپ نے ازواج کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ تم میں سے سب سے پہلے مجھے وہ بیوی اس جہاں میں آملے گی جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں.ہاتھ ماپنے کے لحاظ سے تو حضرت سودہ کے ہاتھ زیادہ لمبے نکلے مگر صحابہ نے بالا تفاق حضرت زینب (متوفیہ 20ھ) کو حضور می ی ی یتیم کی وفات کے بعد فوت ہو نیوالی پہلی بیوی مانا.اور لمبے ہاتھوں سے ان کا صدقہ وغیرہ دینا مراد لیا گیا.یہ تاویل اس صورت میں تو درست ہو سکتی ہے جب حضرت ماریہ کو ازواج میں شمار نہ کیا جائے مگر جیسا کہ گزشتہ بحث میں بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ماریہ کنیز نہیں ، زوجہ کرسول تھیں.اور انکی وفات رسول الله علی کریم کے بعد دیگر ازواج سے پہلے 16ھ میں ہوئی.اب لمبے ہاتھوں والی بیوی کی پیشگوئی کے بارہ میں حضرت عائشہ اور دیگر بعض اصحاب رسول کم کی یہی رائے ہے کہ یہ حضرت زینب کے حق میں پوری ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی صحیح بخاری کی اس روایت کو قبول فرمایا ہے.اس ظاہری تضاد کے حل کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں.اول یہ کہ حضرت ماریہ کی تاریخ وفات حضرت زینب (16ھ) سے پہلے ثابت ہو مگر تاریخی تحقیق کا نتیجہ یہی ہے کہ حضرت ماریہ کی وفات 16ھ اور حضرت زینب کی وفات 20ھ میں ہی ثابت ہے.اس تضاد کو رفع کرنے کی دوسری امکانی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جس وقت حضور ملی یا تم نے اپنی ازواج کو مخاطب کر کے یہ پیشگوئی فرمائی اس موقع پر سب ازواج ایک جگہ موجود اور مخاطب تھیں یا آپ کا خطاب موقع پر موجود صرف چند ازواج کو تھا.نیز اس صورت میں کیا حضرت ماریہ کے موقع پر موجود ہونے کی بھی کوئی صراحت ملتی ہے.اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ماریہ کا اس موقع پر موجود ہونا کسی روایت سے ثابت نہیں جبکہ بعض دوسری ازواج کی موجودگی کی صراحت مل جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات حضور نے گھریلو ماحول میں کسی خاص موقع پر موجود بعض ازواج کے اس سوال پر فرمائی تھی کہ ہم میں سے

Page 239

ازواج النبی 223 حضرت ماریہ رض سب سے پہلے کون سی بیوی آپ سے جاملے گی ؟ آپ نے فرمایا تھا کہ جس کے ہاتھ تم میں سے زیادہ لمبے ہیں.موقع پر موجود ازواج مطہرات نے اس کے ظاہری معنی مراد لیتے ہوئے اپنے باز و ماپنے شروع کئے.حضرت سودہ لمبے ہاتھوں والی نکلیں.مگر ان موجود الوقت اور رسول اللہ مسلم کی بلاواسطہ مخاطب بیویوں میں سے پہلی وفات 20ھ میں حضرت زینب بنت جحش کی ہوئی.حضرت عائشہ فرماتی تھیں " تب ہم پر کھلا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد زیادہ صدقہ دینے والا ہاتھ تھا.اور حضرت زینب بنت جحش اپنے ہاتھ سے کام کر کے 56 دستکاری کے ذریعے روپیہ کما کر کثرت سے صدقہ کرتی تھیں.انہیں صدقہ کرنے سے گویا محبت تھی " بخاری کی اس روایت کے مطابق اس موقع پر ازواج میں سے حضرت عائشہ حضرت سودہ اور حضرت زینب بنت جحش کی قطعی موجود گی صریح طور پر ثابت ہوتی ہے.جبکہ ایک اور روایت سے حضرت میمونہ کے بھی اس موقع پر موجود ہونے کا ذکر ملتا ہے.مگر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے حضرت ماریہ کی موجودگی کی صراحت کسی حدیث میں نہیں ملتی.دیگر بعض روایات میں عمومی طور پر ازواج مطہرات کے رسول اللہ صی علم کے گھر میں اکٹھا ہونے کا ذکر ہے جس سے حجرات نبوی میں رہائش پذیر دیگر ازواج میں سے حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ، حضرت جویریہ ، حضرت میمونہ کی بھی اس موقع پر موجود گی کا قیاس کیا جاسکتا ہے.لیکن کسی روایت میں حضرت ماریہ کی موجودگی کا صراحتا ذ کر نہ ہونا اور بالخصوص ان کا گھر حجرات نبوی سے کچھ فاصلہ پر مضافات مدینہ میں واقع ہونا اس موقع پر ان کی موجودگی کے امکان کو معدوم کر دیتا ہے.اس لئے یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ یہ پیشگوئی اس وقت موجود اور مخاطب ازواج میں سے حضرت زینب بنت جحش کے حق میں پوری ہوئی اور وہی رسول اللہ علیم کی وفات کے بعد پہلے فوت ہو کر حضور طی تم سے جاملیں.واللہ اعلم بالصواب اللَّهمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *** **

Page 240

ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 224 حضرت ماریہ حوالہ جات طبقات الکبریٰ جلد 1ص134،الاصابہ جلد 8 ص112 طبقات ابن سعد جلد 1 ص 50 ، سیرۃ ابن ہشام جلد 1ص 6، جلد 8 ص 214 زاد المعاد جلد 3 ص 391 زاد المعاد جلد 3 ص، 691 ابن سعد جلد 1 ص260 ازواج مطہرات کا انسائیکلوپیڈ یاڈاکٹر ذوالفقار کا ظم انار کلی لاہور طبقات ابن سعد جلد 8 ص 212 مسند احمد جزء 6 ص 144 ابو داؤد کتاب النکاح باب في القسم بين النساء بخاری کتاب الشهادات باب تعديل النساء بعضهن بعضا تاریخ دمشق لابن عساکر جزء 1 ص198 طبقات الکبری جلد 8 ص 212، جلد 1ص134 حقائق الفرقان جلد 3 ص 409 کنز العمال جزء 12 ص 454، تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 1ص 36 تاریخ دمشق جلد 1 ص 110 تاریخ دمشق جلد 7 ص413 مسلم کتاب الفضائل باب رحمه ام الصبیان والعیال تاریخ دمشق لابن عساکر جزء 3 ص 236 ترمذی کتاب الاضاحی باب العقيقة الاستيعاب جلد 1ص18

Page 241

ازواج النبی 19 20 21 22 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 225 سنن ابو داؤد کتاب الضحا یا باب في العقيقه ، المعجم الكبير جزء 1 ص 311 تاریخ دمشق جلد 7 ص413 طبقات الکبری جلد 8 ص 436، اسد الغابۃ جلد 1 ص 23،1366 بخاری کتاب الجنائز باب باب قول النبي لم انا بك لمحزونون طبقات الکبری جلد 1ص136 مستدرک حاکم جلد 2 ص 660 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی آنا بک لمحزنون طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 215 بخاری کتاب الجنائز باب ماقيل في أولادالمسلمین بخاری کتاب الکسوف باب الصلاة في كسوف الشمس اسد الغابۃ جلد 1 ص 23،24،1372 استیعاب ص918 دار المعرفة بيروت حضرت ماریہ مستدرک حاکم جلد 2 ص 19 سیرت خاتم اسیبین صفحہ 821 قرآن مترجم مولانا مولوی محمد سعید صاحب از درس قرآن حضرت خلیفۃ المسیح الاول صفحہ 893 فصل الخطاب ص 123 الفضل 5 ستمبر 1936ء حاشیہ تفسیر صغیر صفحه 554 فصل الخطاب ص 123 سبل السلام لمحمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی الصنعانی (متوفی 1182ھ ) جلد 4 ص139 بخاری کتاب الوصايا باب الوصايا و قول النبي رض

Page 242

ازواج النبی 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 226 حضرت ماریہ سلاطین 3/1 کتاب مقدس مطالعاتی اشاعت ص 603 با تکمیل سوسائٹی لاہور پاکستان الاصابہ جلد 6 ص 377 زیر لفظ مقوقس طبقات الكبرى جلد 1ص135 طبقات الكبرى جلد 8 ص 212 بخاری کتاب الطلاق باب من طلق طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 147 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 187 معالم السنن جلد 4 ص252 عون المعبود جلد 10ص126 فصل الخطاب ص 125 اصول الشاشی جلد 1ص275 تھذیب التھذیب جلد 9 صفحہ 71 تفسیر صغیر زیر آیت سورۃ التحریم: 2 وفاء الوفاء جلد 3 ص 825 مستدرک حاکم جلد 4 ص 39 الاصابہ جلد 8 ص112 بخاری کتاب الزکاۃ باب الى الصدقة افضل مجمع الزوائد جلد 9ص248

Page 243

ازواج النبی 227 ام المؤمنین حضرت میمونہ فصائل:.ย ย حضرت میمونه حضرت میمونہ حضور ملی تم کی وہ آخری بیوی ہیں جن سے 7ھ میں حضور نے نکاح فرمایا.یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت میمونہ کی وفات بھی سرف" مقام پر ہوئی وہ جگہ جہاں آنحضرت لیلی تیم نے ان سے شادی کے لئے خیمہ لگوایا تھا.حضرت میمونہ کی خواہش کے مطابق انہیں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں رسول اللہ لی ی ی ی یتیم کی خدمت میں پہلی دفعہ وہ پیش ہوئی تھیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.نام و نسب ام المومنین حضرت جویریہ کی طرح حضرت میمونہ کا اصل نام بھی بڑہ تھا جسے آنحضور عالم نے پسند نہ فرماتے ہوئے بدل کر میمونہ نام رکھ دیا.جیسا کہ روایات سے پتہ چلتا ہے اس تبدیلی میں بہت لطیف اور گہری حکمتیں ملحوظ خاطر تھیں.اوّل یہ کہ بڑہ نام (جس کے معنی سرا پا نیکی کے ہیں) اظہار بڑائی یا تکبر کاذریعہ نہ بن جائے.جیسا کہ ایک روایت میں بھی اشارہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد لَا تُزَكُوا أَنفُسَكُمْ (النجم : 33) کی تعمیل میں کمال احتیاط مقصود تھی کہ اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہرایا کرو.دوسرے ایسے نام کے بے محل استعمال کو بھی اچھا شگون نہیں سمجھا گیا جیسے کوئی کہے کہ بڑہ ( یعنی نیکی) گھر میں نہیں ہے.اس حکمت کا تفصیلی ذکر حضرت زینب بنت جحش اور حضرت جویریہ کے مضمون میں آچکا ہے.حضرت ام المومنین میمونہ بنت حارث کا تعلق قریش کی شاخ بنو ہلال سے تھا.آپ کی والدہ ہند بنت عوف تھیں.ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ان کی آٹھ بہنیں تھیں ، خاندانی تعارف کے لئے یہاں ان کا تذکرہ بھی مناسب ہو گا.حضرت میمونہ کی ایک حقیقی بہن ام الفضل لبابہ الکبریٰ تھیں.جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے عقد میں آئیں.دوسری بہن کبابہ صغریٰ مشرک سردار ولید بن مغیرہ مخزومی کی بیوی اور

Page 244

ازواج النبی 228 حضرت میمونه رض حضرت خالد بن ولید کی والدہ تھیں.تیسری بہن عصماء بنت حارث مشرک سر دارابی بن خلف کے نکاح میں اور چوتھی بہن عزہ بنت حارث زیاد بن عبداللہ الہلالی کے عقد میں تھیں.ان چار حقیقی بہنوں کے علاوہ والدہ کی طرف سے چار بہنیں اور تھیں.ان میں سے ایک ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ تھیں جو رسول ย رض 5 اللہ صلی ی ی ی یتیم کے عقد میں آئیں ، دوسری بہن حضرت اسماء بنت عمیں حضرت جعفر طیار بن ابی طالب کے عقد میں تھیں، ان کی شہادت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کی زوجیت میں آئیں اور ان کی وفات کے بعد حضرت علیؓ سے ان کی شادی ہوئی.تیسری بہن سلمی بنت عمیس رسول اللہ لی لی ایم کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب کی زوجہ تھیں حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد حضرت شداد بن اسامہ سے ان کی شادی ہوئی.اور چوتھی بہن سلامہ بنت عمیں عبد اللہ بن کعب قسمی کے عقد میں تھیں.حضرت میمونہ کی شادی زمانہ جاہلیت میں مسعود بن عمرو بن عمیر سے ہوئی تھی.ان سے طلاق کے بعد آپ ابور ہم بن عبد العزیٰ کے عقد میں آئیں.پھر ان سے بھی علیحدگی کی نوبت آئی.7ھ میں آنحضرت علی ایم کے ساتھ ان کا نکاح ہوا.ان سب رشتوں کے حوالے سے اس زمانے میں ام المؤمنین حضرت میمونہ کی والدہ ہند بنت عوف کے متعلق قریش مکہ میں یہ بات بجاطور پر زبان زد عام تھی کہ روئے زمین پر ان سے بڑھ کر اور کوئی عورت ایسی قابل احترام نہیں کہ جس کے ایسے عظیم الشان داماد ہوں یعنی ان کے ایک داماد آنحضرت، دوسرے حضرت ابو بکر صدیق ، دود اما در سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ اور حضرت عباس اور د و د اما در سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد حضرت جعفر اور حضرت علیؓ تھے.بلاشبہ یہ ایک منفرد اعزاز ہے جو حضرت میمونہ کے خاندان کو عطا ہوا.رض رسول اللہ سلام سے شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت میمونہ کی شادی کا واقعہ عمرۃ القضاء 7 ھ کے بعد کا ہے اور یہ شادی حضور علی کریم کی آخری شادیوں میں سے تھی.بعض روایات کے مطابق حضرت میمونہ نے اپنے آپ کو آنحضور علی نیم کی خدمت میں بطور ہبہ پیش کیا تھا جس کی اجازت قرآن کریم کی اس آیت میں ہے:.وَامْرَأَةٌ مُؤْمِنَةٌ إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِي اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَسْتَنْكِحَهَا ( الاحزاب : 51) اگر کوئی عورت اپنا نفس نبی کو ہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے بشر طیکہ نبی بھی اس سے نکاح کا خواہاں ہو.

Page 245

ازواج النبی 229 رض حضرت میمونه دیگر روایات کے مطابق اس نکاح کی تفصیل یوں مذکور ہے کہ آنحضور میں اہم معاہدہ حدیبیہ کے مطابق عمرۃ القضاء کے لئے جب ذوالقعدہ 7ھ میں مکہ تشریف لائے.اسی زمانے میں حضرت جعفر بن ابی طالب کی بھی ہجرت حبشہ سے واپسی ہوئی تھی جن کی بیوی حضرت اسماء حضرت میمونہ کی بہن تھیں.حضور نے یہ دیکھا کہ میمونہ جیسی معزز مسلمان خاتون ابھی تک مکہ میں خاوند سے علیحدگی کے بعد اکیلی رہ گئی ہیں آپ نے حضرت جعفر سے مشورہ کیا کہ اگر میمونہ پسند کریں تو آنحضور طی کنیم ان سے عقد کر لیں.حضرت جعفر نے اپنے چا اور ہم زلف حضرت عباس سے اس کا ذکر کیا اور اسی موقع پر آنحضرت طی تم سے حضرت میمونہ کا نکاح ہو گیا.ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت لی لی ہم نے حضرت میمونہ کو شادی کا پیغام بھجوایا تو انہوں نے اپنی بڑی بہن، رسول اللہ لی لی لی کی چی ام الفضل زوجہ حضرت عباس سے کہا کہ وہ جو چاہیں فیصلہ کریں.حضرت ام الفضل نے حضرت عباس کو اختیار دے دیا اور انہوں نے آنحضرت علی علیم کے ساتھ حضرت میمونہ کا چار صد در هم حق مہر پر مکہ میں نکاح کیا.رخصتی اور ولیمہ حرم سے باہر مکہ سے دس 10 میل کی مسافت پر (7) 8 11 "سرف " مقام پر ہوا.بعض روایات سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ آنحضرت علی علی کی نیلم نے حالت احرام میں حضرت میمونہ سے نکاح کیا تھا ، جو درست نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ حضور علی لیا کہ کم عمرہ کے بعد احرام کھول چکے تھے جبکہ بعض لوگوں نے ابھی احرام نہیں کھولے تھے.چونکہ اس دوران نکاح ہوا اس لئے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید مُحرم ہونے کی حالت میں حضور نے نکاح کیا ہے چنانچہ حضرت میمونہ کی اپنی روایت ہے کہ آنحضرت سے جب میرا انکاح ہوا تو حضور اس وقت حالت احرام میں نہیں تھے " اسی طرح حضور علیم کے آزاد کردہ غلام ابورافع جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت میمونہ کے درمیان اس عرصے میں انتظامات شادی کے سلسلہ میں پیغام رسانی کا بھی موقع ملا، وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ملی یا کلام اور حضرت میمونہ کا جب نکاح ہوا اس وقت آپ حالت احرام میں نہیں تھے " رسول اللہ صلی علیہ السلام کا ایفائے عہد آنحضرت علی تم نے معاہدہ حدیبیہ کے مطابق عمرہ کے لئے مکہ میں صرف تین روز قیام کرنا تھا.عمرہ

Page 246

ازواج النبی 230 رض حضرت میمونه کے معا بعد سرف“ مقام میں حضور نے احرام کھولا اور حضرت میمونہ سے نکاح ہو گیا.مکہ میں تیسرے دن مشرکین مکہ کے وفد جس میں حویطب بن عبد العزیٰ اور سہیل وغیرہ شامل تھے ، حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ تین دن پورے ہو گئے ہیں اس لئے آج آپ کو معاہدہ کے مطابق تھے سے کوچ کرنا چاہئے.حضور علی کیا کہ تم نے فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے میمونہ سے شادی کی ہے اگر آپ لوگ پسند کرو اور ایک دن مزید رکنے کی اجازت دے دو تو میں آپ سب کو دعوت ولیمہ میں شامل کروں گا.انہوں نے کہا ہمیں آپ کی دعوت کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس آپ وعدہ کے مطابق مکہ خالی کر دیں، چنانچہ آنحضرت شہر سے باہر تشریف لے گئے اور "سرف " مقام پر جاکر حضرت میمونہ کے ساتھ آپ نے قیام فرمایا جہاں یہ شادی اور تقریب ولیمہ ہوئی.اس تاریخی واقعہ کو مشہور مستشرق ولیم میور نے بھی بیان کیا ہے ، جس سے رسول اللہ صلی علی یتیم کے ایفائے عہد کی جھلک صاف نمایاں ہے.اگرچہ میور کو اپنے عناد کے باعث اس کے واشگاف اظہار کی توفیق نہیں ملی.وہ لکھتا ہے :.10 Already the stipulated term of three days was ended, and he had entered on a fourth, when Suheil and Huweitib, chief men of the Coreish, appeared before him and said : ' The period allowed the hath elapsed: depart now thefore from amongst us.' To which the prophet replied courteously: 'And what harm if ye allowed me to remain and celebrate my nuptials in your midst, and make you a feast at which ye might all sit down?' 'Nay,' roughly answered the chiefs, 'we have no need of thy viands retire !' Mahomet gave immediate orders for departure: it was proclaimed among the pilgrims that by the evening not one should be left behind at Mecca.Palcing his bride in carge of his servent Abu Rafi, he himself proceeded at once to Sarif, distant from the city eight or ten Arabian miles.In the evening Abu Rafi, :

Page 247

ازواج النبی 231 رض حضرت میمونه carrying Meimuna with him, reached the same place, and there the marriage was consummated.Early next morning the march resumed, and the cortege returned to Medina.یعنی جب عمرہ کے تین دن ختم ہوئے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) چوتھے دن میں داخل ہو گئے تو قریش کے سردار سہیل اور حویط ب آپ کے پاس آئے اور حسب معاہدہ فوراً مکہ سے چلے جانے کو کہا اس پر آپ نے ان سے درخواست کی کہ وہ آپ کو اپنی شادی وغیرہ کی تقریب منانے کی اجازت دیں اور ان کے ساتھ ضیافت میں شریک ہوں.ان سرداروں نے اس دعوت کو سختی سے رڈ کرتے ہوئے فوراً چلے جانے کو کہا.چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زوجہ کو اپنے ایک خادم ابو رافع کے سپر د کیا اور تمام صحابہ کو مکہ سے فور کوچ کا حکم دیا.آپ نے سرف مقام پر پہنچ کر پڑاؤ کیا، جو 8 یا 10 میل کے فاصلہ پر تھا.شام کو ابورافع بھی حضرت میمونہ کو لے کر اسی مقام پر پہنچ گئے.اور وہاں شادی کی تقریب ہوئی جہاں سے اگلے دن وہ مدینہ روانہ ہو گئے.تقوی شعاری حضرت میمونہ کے ایک بھانجے یزید بن الا صم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مکہ سے تشریف لائیں اور ہم ان کا استقبال کرنے کیلئے گئے.راستے میں کسی باغ سے ہم نے کچھ پھل وغیرہ توڑ لئے.حضرت عائشہ کو پتہ لگا تو اپنے بھانجے طلحہ بن عبید اللہ کے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ساتھ مجھے بھی مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ دیکھو ! آپ لوگوں کا ایک تعلق رسول اللہ علیم اور اہل بیت کے ساتھ ہے یعنی رسول الله علی کریم کی بیوی کے تم بھانجے ہو جس کا لحاظ تمہاری ذمہ داری ہے.حضرت میمونہ تو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں تمہیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ حضرت میمونہ بہت ہی تقویٰ شعار اور انتہائی صلہ رحمی کرنے والی تھیں.اپنی سوت کے بارہ میں حضرت عائشہ کی یہ گواہی کیسی عظیم الشان ہے.جو حضرت میمونہ کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ کی عظمت کو بھی ظاہر کرتی ہے.حضرت میمونہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی خالہ تھیں.آپ کا ان کے ساتھ سلوک بھی محبت اور صلہ رحمی کا تھا.انہوں نے اپنی بعض روایات میں ذکر کیا ہے کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ کے ہاں رات بسر کی اور اس دوران حضور کی نماز تہجد کا طریق بھی دیکھا.0

Page 248

ازواج النبی 232 حضرت میمونه ย ازواج کی غیرت اور رسول اللہ علیم کا علم و کرم حضرت میمونہ کی روایات سے نبی کریم ملی یم کے ازواج سے حسن سلوک کا بھی ذکر ملتا ہے.مثلاً مدینہ کے یہودی عورتوں کے مخصوص ایام میں ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا ترک کر دیتے تھے اور ان سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا.حضرت میمونہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت طلی تیم اس زمانہ کے طرز معاشرت کے بر عکس ایام حیض میں بھی ہمارے ساتھ معمول کا برتاؤ کیا کرتے تھے سوائے اس کے جس سے اللہ تعالی نے روکا ہے یعنی آپ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرتے تھے.اس کے علاوہ حضور می یار تم ان ایام میں ہمارے ساتھ بستر پر لیٹ بھی جاتے ، نماز پڑھتے ہوئے آنحضرت تعلیم کے کپڑے ہمارے کپڑوں کو بھی چھو جاتے.ہم حضور ملی ایم کے سامنے مسجد میں جا کر آپ کا مصلے وغیرہ بچھا دیا کرتی تھیں اور حضور صلی علی کریم اس حال میں کہ ہم میں سے کوئی ایام مخصوصہ میں ہو اس کی گود میں سر رکھ دیتے اور قرآن شریف کی تلاوت 14 فرماتے رہتے.ازواج کی باہم غیرت کے جوش کے وقت بھی رسول اللہ علیہ یا ریلی کا ان سے نرمی اور شفقت کا معاملہ ایسا بے نظیر تھا جس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی.رسول اللہ علیم کے صبر و تحمل کا ایک ایسا ہی واقعہ خود حضرت میمونہ یوں بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول کریم ملتی ہی کی میرے ہاں باری تھی.آپ کہیں باہر تشریف لے گئے.مجھے پتہ چلا تو میں نے اندر سے دروازہ بند کر دیا.آپ نے واپس آکر دروازہ کھٹکھٹایا.میں نے کھولنے سے انکار کر دیا.آپ نے فرمایا تمہیں قسم ہے کہ تم ضرور دروازہ کھولو گی.میں نے کہا آپ میری باری میں کسی اور بیوی کے ہاں کیوں گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے.میں تو پیشاب کی 15 حاجت سے باہر نکلا تھا.حضرت میمونہ نے اپنا یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی ایک لونڈی آزاد کر دی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں آئی تو میں نے خوش ہو کر بتایا یار سول اللہ مسلم ! آپ کو پتہ ہے کہ میں نے اپنی فلاں لونڈی بطور صدقہ آزاد کر دی ہے.حضور علی کریم نے فرمایا کہ اگر تم مجھ سے پوچھ لیتی تو میں تمہیں مشورہ دیتا کہ وہ لونڈی اپنے ننھیال کو دے دو اس سے تمہیں دہرا اجر ہوتا.ایک صدقہ کا دوسرے صلہ رحمی کا.

Page 249

ازواج النبی 233 حضرت میمونه رض اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضور علیم کی کتنی گہری نظر ازواج کے رشتے داروں اور ان کی ضروریات وغیرہ پر ہوتی تھی.روایات حدیث حضرت میمونہ نے آنحضرت علی یا تم سے 46 کے قریب احادیث روایت کی ہیں.ان میں سے اکثر ایسی روایات ہیں جن کا گھر یلو زندگی سے تعلق ہے.17 در اصل حضور طی یتیم کی ایک سے زائد شادیوں کا بنیادی مقصد بھی یہ تھا کہ ازواج مطہرات آپ سے دینی باتیں سیکھ کر آگے مسلمان خواتین کو سکھائیں اور ان کی تربیت کے سامان کریں.چنانچہ حضرت میمونہ کی روایات میں آنحضرت علیم کے غسل جنابت کا مکمل طریق بھی بیان ہوا ہے.آپ فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ حضور نے اپنے غسل کے انتظام کے لئے مجھے ہدایت فرمائی تو میں پردہ پکڑ کر کھڑی ہو گئی ، حضور نہانے لگے.آپ نے غسل کا پانی لے کر پہلے دو مر تبہ ہاتھ دھوئے پھر طہارت کی پھر زمین پر اچھی طرح ہاتھ مل کر دھوئے پھر مکمل وضو کرتے ہوئے کلی کی ، ناک میں پانی ڈالا، چہرہ اور باز و دھوئے پھر جسم پر پانی ڈالا.پھر جس جگہ غسل فرمایا تھا وہاں سے ہٹ کر ایک طرف ہوئے اور پاؤں دھوئے اور یوں حضرت میمونہ نے حضور کے غسل کا طریق تفصیل سے لوگوں کے لئے بطور ایک پاک نمونہ کے بیان کر دیا.حجۃ الوداع کے بعض واقعات بھی حضرت میمونہ نے بیان کئے ہیں.وہ بیان فرماتی ہیں اس سفر میں عرفہ کے دن بعض لوگوں نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ آج حضور طی تم روزہ سے ہیں یا نہیں.ایک مشروب کا پیالہ حضور کی خدمت میں میدان عرفات میں بھجوادیا.جو حضور علی لایا ہم نے پی لیا اور سب کو پتہ چل گیا کہ سفر کی حالت میں دوران حج حضور ملی یا تم نے عرفہ کا روزہ ضروری نہیں رکھا.البتہ بعض روایات کے مطابق مدینے میں عرفہ کے دن حضور طی علم روزہ رکھا کرتے تھے.) حضرت میمونہ یہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک بکری (جو میری لونڈی کو صدقے میں ملی تھی) مرگئی.اسے پھینک دیا گیا.حضور نے اسے مردہ حالت میں پڑے ضائع ہوتے ہوئے دیکھ کر فرمایا تم لوگ اس کے چمڑے سے ہی فائدہ اٹھا لیتے ، میں نے عرض کیا کہ حضور یہ مردار تو حرام ہے اس کے چمڑے سے ہم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف نے مردار کا گوشت کھانا حرام کیا ہے.اس کے چمڑے کو حرام 18

Page 250

ازواج النبی 234 حضرت میمونه رض نہیں کیا پھر آپ نے جانور کی کھال پاک کرنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اور درخت کے پتوں 19 میں کھال کو ڈال کر صاف کرنے سے وہ پاک ہو جاتی ہے جس کے بعد اسے استعمال کیا جاسکتا ہے.ایک اور واقعہ حضرت میمونہ یہ بیان فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ حضور صبح بیدار ہوئے تو آپ کی طبیعت کچھ مکدر تھی تو میں نے پوچھا یار سول اللہ علیم ! کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ آج رات جبریل علیا نام نے آنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ آئے نہیں اور آج تک انہوں نے کبھی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی اس لئے میں پریشان ہوں.آپ بیان فرماتی تھیں کہ گھر میں ایک چھوٹا سا پلہ تھا.آپ نے فرمایا کہ کہیں اس کی موجودگی کے باعث ایسانہ ہوا ہو پھر اس کو آپ نے گھر سے باہر کر دیا اور پانی سے اس جگہ کو دھو کر صاف کر دیا، اگلے دن جبریل علیا نام آئے تو حضور نے ان سے پوچھا کہ کل آپ کیوں نہیں آئے.جبریل نے کہا کہ ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا مورتیاں وغیرہ ہوں.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حدیث میں تین قسم کی ضروریات یعنی جانوروں یا کھیتی باڑی کی حفاظت یا شکار کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک کہتے رکھنے کی بھی اجازت دی ہے.مگر محض شوقیہ طور پر کتا پالنے اور رکھنے میں چونکہ صفائی اور بیماری وغیرہ کے کئی مسائل اور الجھنیں بھی پیش آسکتی تھیں اس سے بچنے کے لئے حضور مٹی میں ہم نے یہ احتیاط فرمائی.حضرت میمونہ گھریلو ماحول کی یہ بات بھی بیان فرماتی تھیں کہ حضور اپنے گھر میں گوشت تناول فرمانے کے بعد باقاعدہ وضو نہیں فرماتے تھے.گویا کھانے کے بعد نماز کے لئے کلی کر لینا ہی کافی ہے.آگ کی کی چیز کھانے کے بعد وضو کرنے کی ہدایت کی وضاحت بھی اس حدیث سے ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد بھی محض گلی کرنا ہی ہے.گھریلو سطح کے بعض مسائل کے ضمن میں حضرت میمونہ یہ واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے گھی میں چوہیا گر جانے کا مسئلہ حضور طی کریم سے پوچھا.آپ نے فرمایا کہ اگر گھی جما ہوا ہو پھر تو اتنا حصہ جو چوہیا کے ارد گرد ہے نکال کر پھینک دو اور اگر گھی پگھلا ہوا اور مائع حالت میں ہے تو سارے کا سارا پھینکنا پڑے گا.شوق حصول علم 22 حضرت میمونہ کی ایک اور روایت سے بھی ان کے اس شوق کا اندازہ ہوتا ہے جو انہیں آنحضرت طی می کنم

Page 251

ازواج النبی 235 ย حضرت میمونه سے علم اور دین کی باتیں سیکھنے کا تھا.اور پھر وہی باتیں آگے انہوں نے سکھائیں.ایک دفعہ آپ نے اپنے بھتیجے عبدالرحمن بن سائب کو بتایا کہ میں نے آنحضرت علی یا تم سے بیمار کے لئے ایک دم سیکھا تھا.وہ دعا تم بھی مجھ سے سیکھ لو اور وہ یہ دعا تھی:.بِسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ وَاللهُ يَشْفِيْكَ مِنْ كُلِ دَاءٍ فِيْكَ اذْهَبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شَافي إِلَّا أَنْتَ 23 یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں اور اللہ آپ کو شفاء دے گا ہر ایک بیماری سے جو تجھ میں پائی جاتی ہے.اے انسانوں کے رب اس بیماری کو دور کر دے اور شفا عطا فرما کہ تو ہی حقیقی شفا دینے والا ہے.تیرے سوا اور کوئی شفاء دینے والا نہیں.ایسی ہی پاکیزہ دینی باتیں ازواج مطہرات نے آنحضرت علی کریم کے فیض صحبت سے سیکھیں اور آگے ایک دنیا کو سیکھائیں.حضرت عبد اللہ بن عباس کے نزدیک آپ نے آنحضور ملی یا ہم سے چھیالیس 46 احادیث روایت کی ہیں.جبکہ بعد کی کتب میں یہ تعداد چھتر 76 بھی بیان ہوئی ہے.24 رسول الله علی تم سے سچا عشق حضرت میمونہ کی اس آخری خواہش سے جہاں رسول اللہ علی کریم سے ان کے بچے عشق کا پتہ چلتا ہے، وہاں مستشرقین کا وہ اعتراض بھی باطل ہو جاتا ہے کہ معاذ اللہ آپ نے شوقیہ شادیاں کیں.سید نا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں :."رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نعوذ باللہ من ذالک عیاشی پر مبنی تھا.مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق ایسا پاکیزہ ، ایسا بے لوث اور ایسا روحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متاثر نہ ہوتے.مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھا وہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہیں.مثلاً یہی واقعہ کتنا

Page 252

رض حضرت میمونه 236 ازواج النبی چھوٹا سا تھا کہ میمونہ رسول کریم تم سے پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمہ میں ملیں.اگر رسول اللہ صلی می کنیم کا ان سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا اور اگر آپ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہ اس واقعہ کو اپنی زندگی کا کوئی اچھا واقعہ نہ سمجھتیں بلکہ کوشش کرتیں کہ یہ واقعہ ان کی یاد سے بھول جائے.لیکن میمونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں اور اسی سال کی ہو کر فوت ہوئیں.مگر اس برکت والے تعلق کو وہ ساری عمر بھلا نہ سکیں.اتنی سال کی عمر میں جب جوانی کے جذبات سب سرد ہو چکے ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد جو عرصہ ایک مستقل عمر کہلانے کا مستحق ہے میمونہ فوت ہوئیں.اور اس وقت انہوں نے اپنے گرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مر جاؤں تو مکہ کے باہر ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریم علیم کا خیمہ تھا اور جس جگہ پہلی دفعہ مجھے آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا میری قبر بنائی جائے اور اس میں مجھے دفن کیا جائے.دنیا میں سچے نوادر بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی.مگر سچے نوادر میں سے بھی اور قصے کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس گہری محبت سے زیادہ پُر تاثیر پیش کیا جاسکتا ہے ؟ وفات 25 حضرت میمونہ خود بیان فرماتی تھیں کہ میری عمر شادی کے وقت 26 سال تھی.انہوں نے عام الحرة 63ھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے 56 سال بعد 82 سال کی عمر میں وفات پائی.اور اسی مقام سرف میں جہاں ان کی شادی ہوئی تھی ) دفن ہوئیں.حضرت ابن عباس نے ان کی نماز جنازہ پڑہائی.26 حضرت میمونہ حضور علی کریم کی وہ آخری بیوی تھیں جن سے حضور طی یا تم نے نکاح فرمایا.اتفاق کی بات ہے کہ حضرت میمونہ کی تدفین بھی اسرف " مقام پر ہوئی.اور جس جگہ آنحضرت علی علیم نے ان سے شادی کے لئے خیمہ لگوایا تھا، اسی جگہ پر حضرت میمونہ کی خواہش کے مطابق ان کا مزار بنا.یہ ایک عجیب توارد 27 اور حضرت میمونہ کے لئے یہ ایک یاد گار چیز تھی.0 اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ****** *********

Page 253

ازواج النبی 1 CN 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 237 حضرت میمونه حوالہ جات طبقات الکبری لابن سعد جلد 8ص 137 بیروت معرفۃ الصحابہ لابی نعیم اصبھانی جلد 23 ص 171 بیروت مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص 31 بیروت ازواج النبی لامام محمد بن یوسف ص 198 بیروت سيرة ابن هشام جلد 2ص646، المختصر الكبير في سير ۃالرسول جلد 1 ص 67 بيروت تاریخ طبری جلد 2 ص 214 بیروت.اسد الغابہ لابن الاثیر جلد 1 ص 1416 بیروت مستدرک حاکم جلد 4 ص 32.ابن ھشام جلد 2 ص 372 مسند احمد بن حنبل جلد 6ص333 قاہرہ ابوداؤد کتاب المناسک باب المحرم يتزوج مستدرک حاکم جلد 4 ص 33 بیروت، ابن هشام جلد 2ص372 بیروت Life of MAHOMET By Muir P-403,404 مستدرک علی الصحیحین امام عبد اللہ حاکم نیشاپوری جلد 4 ص34 بیروت بخاری کتاب الوضوء باب قراءة القرآن بعد الحدث بخاری کتاب سترة المصلی باب اذا صلی الى الفراش.کتاب الحیض باب قرآة الرجل في حجر الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1ص365 مطبوعہ بیروت بخاری کتاب الهبة باب هبة المرأة لغير زوجها ย

Page 254

رض حضرت میمونه 238 بخاری کتاب الغسل باب تفريق الغسل والوضوء کنز العمال لعلامہ علاء الدین علی المنتقی جلد 5ص193 مؤسسة الرساله بخاری کتاب الزکاۃ باب الصدقة على المولی.ابوداؤد کتاب اللباس باب في احب الميتة مسلم کتاب اللباس باب لاند خل الملائكة بيتا مسلم کتاب الحیض باب نسخ الوضوء مما مست النار کنز العمال العلامہ علاء الدین علی المنتقی جلد 9 ص 374 مؤسسة الرساله مسند احمد جلد 6 ص 332 قاہرہ تھذیب الاسماء لعلامہ ابی ذکریا محی الدین بن سرف النووی جلد 1ص948 بیروت.دیباچه Mohammad Mercy For The World by Qazi Muhammad Sulaiman Salman Mansoorpuri V-2 p338 Karachi به تفسیر القرآن از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ، ص205،206 بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء.مسند احمد جلد 1ص359.المعجم الكبير لطبراني جلد 23 ص422 طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 139 بیروت ازواج النبی 17 18 19 20 21 22 23 24 22 25 26 27

Page 255

ازواج النبی 239 ام المؤمنین حضرت ریحانہ حضرت ریحانہ کے بارہ میں اختلاف حضرت ریحانہ ย حضرت ریحانہ کا زمانہ 6 ہجری ہے.اس ترتیب کے لحاظ سے حضرت جویریہ کے بعد ان کا ذکر ہونا چاہئے.لیکن ان کے بارہ میں پائے جانے والے اس اختلاف کے باعث اس بحث کو آخر میں رکھا گیا ہے کہ آیا وہ قطعی طور پر ازواج میں شامل ہیں یا نہیں؟ بصورت دیگر رسول اللہ تم پر نیز رکھنے کے اس اعتراض کو بہر حال لا جواب نہیں چھوڑا جا سکتا اس لئے ان کا ذکر کئے بغیر چارہ نہیں.یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کتب سیر میں جن خواتین کے رسول اللہ لی تعلیم سے منسوب رہنے کے بعد اور آپ کے حرم میں شامل ہونے سے پہلے طلاق یا وفات پانے کا ذکر ہے ان کو ازواج کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا.لیکن جہاں تک حضرت ریحانہ کا تعلق ہے یہ بات نہایت اہم ہے کہ تاریخ میں کسی اور خاتون کی بطور زوجہ رسول اللہ کی موجودگی کا اس طرح ذکر نہیں ملتا جس طرح حضرت ریحانہ کا.اس تاریخی ریکارڈ کا خلاصہ یہ ہے.(1) حضرت ریحانہ کا حق مہر قریباً بارہ اوقیہ چاندی رسول اللہ صلی علی کریم نے ادا فرمایا.اور رسول اللہ صلی ایم کے فیصلہ کے مطابق لونڈی یا ملک یمین اور زوجہ کے در میان ما بہ الامتیاز حق مہر ہے.پس حضرت ریحانہ بھی حرم میں شامل تھیں نہ کہ کنیز.(2) حضرت ریحانہ کے نکاح اور رخصتی کے بعد طلاق کا ذکر بھی ملتا ہے.لونڈی کی صورت میں طلاق کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکتا.پس حضرت ریحانہ زوجہ رسول تھیں.(3) آنحضور علم کا حضرت ریحانہ کے لئے الگ رہائش کا انتظام اور دیگر از واج جیسی باری کی تقسیم بھی ان کے زوجہ ہونے پر دلیل ہے.0 (4) حضرت صفیہ کی طرح حضرت ریحانہ سے بھی رسول الله علی علیم کا ازواج النبی کی طرح پردہ کروانا بھی ان کے زوجہ ہونے کی واضح علامت ہے.0 3

Page 256

ازواج النبی 240 حضرت ریحانہ رض (5) اسیر جنگ ہونے کے لحاظ سے اگر حضرت صفیہ اور حضرت جویریہ سے مماثلت کے باوجود حضرت ریحانہ کو زوجہ تسلیم نہ کیا جائے تو بوجہ جنگی قیدی یہی اعتراض ان دو ازواج پر بھی ہو گا.جہاں تک رسول اللہ صلی یا اسلام سے منسوب دیگر خواتین کا ذکر ہے.ان میں سے کسی ایک میں بھی حضرت ریحانہ والی خصوصیات موجود نہیں کیونکہ یا تو ان خواتین سے نکاح ہی نہیں ہوا، صرف سلسلہ جنبانی کے بعد معاملہ ختم ہو گیا جیسے ام شریک، خولہ بنت الهدیل، اسماء بنت الصلت ، اسماء بنت النعمان، آمنہ ، ام حرام و غیرہ.پھر بعض خواتین ایسی تھیں کہ باقاعدہ رخصتی عمل میں آنے سے پہلے ہی انہیں طلاق ہو گئی جیسے عمرۃ بنت یزید بن الجون، عالیہ بنت ظبیان وغیرہ ان میں سے کسی کو بھی رسول اللہ سلم کی صحبت میں رہنے کا موقع نہیں ملا.اور کسی مؤرخ یا سیرت نگار نے بھی ان کو حضرت ریحانہ کی طرح زوجہ قرار نہیں دیا.0 علامہ ابن الا شیر اس بارہ میں لکھتے ہیں:.”ایسی خواتین جن کی رسول کریم کے ہاں رخصتی نہیں ہوئی یا محض پیغام نکاح بھجوایا اور عقد مکمل نہ ہوا یا کسی عورت نے آپ سے پناہ چاہی اور آپ نے طلاق دے دی تو ان امور میں بہت اختلاف ہے جس کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں.ایسی منسوب خواتین کے مقابل پر حضرت ریحانہ کے زوجہ رسول ہونے کا ذکر مؤرخ طبری وابن سعد ، محدث ابن الجوزی اور شارح بخاری علامہ ابن حجر جیسے محققین نے انکی مذکورہ خصوصیات کی بناء پر کیا ہے.نام و نسب حضرت ریحانہ زید بن عمرو بن خنافہ کی بیٹی تھیں جن کا تعلق مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر سے تھا.ان کی شادی بنو قریظہ کے ایک یہودی حکم نامی سے ہوئی تھی جو غزوہ بنو قریظہ میں مارا گیا.اس لحاظ سے بعض نے آپ کو بنو قریظہ میں بھی شمار کیا ہے.0 بنو قریظہ کی غداری اس جگہ رسول کریم طی یتیم کے ساتھ بنو قریظہ کی غداری اور مدینہ سے یہود کی جلاوطنی کا مختصراً ذکر ضروری ہے.آنحضرت لیلی مہم جب غزوہ خندق سے فارغ ہو کر گھر واپس تشریف لائے تو ا بھی آپ بمشکل ہتھیار وغیرہ اتار کر نہانے دھونے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ایک فرشتہ کے ذریعہ یہ ارشاد ہوا ”جب تک بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کا فیصلہ نہ ہو جائے آپ کو ہتھیار نہیں اتارنے چاہئیں تھے.“ چنانچہ

Page 257

ازواج النبی 241 حضرت ریحانہ ย آپ نے حضرت علیؓ کو صحابہ کے ایک دستے کے ساتھ فور ابنو قریظہ کی طرف روانہ کر دیا.یہ ذو قعدہ 5 ھ کا واقعہ ہے.کچھ دیر بعد خود آنحضرت طی می کنیم بھی مسلح ہو کر مدینہ سے روانہ ہوئے.جب آپ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو حضرت علیؓ نے آپ سے عرض کیا یارسول اللہ لی تم ! میرے خیال میں آپ کا آگے جانا مناسب نہیں، ہم خود ہی ان سے عہد شکنی کرنے والوں سے نمٹ لیں گے.آپ اپنی بصیرت خداداد سے ساری صور تحال سمجھ گئے اور فرمایا کیا بنو قریظہ نے میرے متعلق کوئی بدزبانی کی ہے.حضرت علیؓ نے اثبات میں جواب دیا.تب آپ نے فرمایا حضرت موسی کو ان لوگوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ تکالیف پہنچی تھیں.پھر آپ نے بنو قریظہ کے ایک کنوئیں پر پہنچ کر ڈیرہ ڈال دیا.اور یہودِ بنو قریظہ نے محصور ہو کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا.شروع شروع میں تو یہ لوگ سخت تمرد اور غرور کا اظہار کرتے رہے لیکن وقت کے ساتھ انہیں محاصرہ کی سختی اور اپنی بے بسی کا احساس ہونے لگا.انہوں نے باہم مشورہ کیا جس میں انکے رئیس کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین تجاویز رکھیں.(1) ہم محمد پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائیں کیونکہ فی الحقیقت محمد کی صداقت عیاں ہو چکی ہے اور ہماری کتب میں بھی اسکی تصدیق پائی جاتی ہے.(2) ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیں اور پھر انجام سے بے فکر ہو کر میدان میں نکل آئیں.(3) آج سبت کی رات ہے.محمد اور اس کے اصحاب اپنے آپ کو ہماری طرف سے امن میں سمجھتے ہیں.آج ان پر شب خون مارا جائے.کسی تجویز پر اتفاق رائے نہ ہو سکا.10 محاصرہ کے کم و بیش ہیں 20 دن بعد یہود نے اوس قبیلہ کے اپنے ایک حلیف اور رسول اللہ صلی یا اسکیم کے صحابی حضرت سعد بن معاذ کو حکم مان لیا اور اپنے قلعوں کے دروازے اس شرط کے ساتھ کھولنے پر رضامند ہو گئے کہ سعد جو فیصلہ ہمارے متعلق کریں گے وہ ہمیں منظور ہو گا.آنحضرت علی عیدالکریم نے بھی یہ تجویز منظور فرماتے ہوئے حضرت سعد کو بلوا بھیجا.ان کی تشریف آوری پر آپ نے صحابہ سے فرمایا، اپنے سردار کے احترام میں کھڑے ہو جاؤ.پھر آپ نے فرمایا سعد ! بنو قریظہ نے تمہیں حکم مانا ہے ان کے متعلق تم جو بھی فیصلہ کرو انہیں منظور ہو گا.حضرت سعد نے یہ پوچھ کر کہ آپ کو بھی وہ فیصلہ منظور ہو گا ان کی شریعت کے مطابق یہ فیصلہ سنایا کہ بنو قریظہ کے جنگجو لوگ قتل کر دیئے جائیں.ان کی عور تیں اور بچے قید

Page 258

ازواج النبی 242 حضرت ریحانہ ย کر دیئے جائیں اور انکے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے جائیں.آنحضرت نے یہ فیصلہ سن کر بے ساختہ فرمایا ” یہ فیصلہ الہی قانون کے مطابق اور ایک ایسی تقدیر ہے جو ٹل نہیں سکتی.12 پس یہ ایک خدائی تقدیر ہی تھی مگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رحیم و کریم رسول کے ذریعہ سے یہ سخت فیصلہ جاری ہو.اگر یہود آنحضرت لیلی کیم کو اپنا حکم مانتے تو لازبًا رَحْمَةً لِلعالَمينَ حضرت محمد بنو نضیر کی طرح بنو قریظہ کی بھی جان بخشی کر دیتے.کسی دلی درد سے آپ فرماتے تھے کہ اگر یہود میں سے دس (بڑے) آدمی بھی مجھ پر ایمان لے آتے تو میں امید رکھتا تھا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی.اور خدائی عذاب سے بچ جاتی.چنانچہ دوسرے دن جب فیصلے کا اجراء ہونا تھا آپ نے بتقاضائے رحم یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ مجرموں کو الگ الگ کر کے سزادی جاوے یعنی ایک کے قتل کے وقت دوسرے مجرم پاس نہ ہوں تاکہ وہ یہ دلخراش منظر نہ دیکھیں.جب حیی بن اخطب رئیس بنو نضیر کے قتل کی باری آئی تو وہ آنحضرت کو دیکھ کر کہنے لگا اے محمد ! مجھے یہ افسوس نہیں کہ میں نے تمہاری مخالفت کیوں کی لیکن بات یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑتا ہے خدا بھی اسے چھوڑ دیتا ہے.جب آنحضرت علی یا تم نے اسے اشارۃ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ اے ابو قاسم ! میں مسلمان تو ہو جاتا مگر اب لوگ کہیں گے موت سے ڈر کر میں نے ایسا کیا.ایسے جنگی مقتولین کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی.کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اس دن جس یہودی کی بھی سفارش آئی یا اس نے اسلام قبول کر لیا، آپ نے اسے معاف کر کے آزاد فرما دیا.جہاں تک قیدی بچوں اور عورتوں کا تعلق ہے تو وہ سب مدینہ میں ہی رہے.آنحضرت علی ہم نے انہیں حسب دستور اپنے مختلف صحابہ کی نگرانی میں تقسیم فرما دیا تھا.پھر ان میں سے بعض نے اپنا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کر لی اور بعض کو آنحضرت صلہ دیا کہ تم نے بطور احسان چھوڑ دیا تھا.13 حضرت ریحانہ سے شادی کی بحث 14 جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر مسلمانوں کے حلیف اور معاہد بنو قریظہ نے عہد شکنی کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے ساتھ مل کر مسلمانان مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو جنگ احزاب کے بعد ان کے خلاف کارروائی ضروری ہو گئی.مسلمانوں کی پیش قدمی پر بنو قریظہ قلعہ بند ہو کر مقابلہ پر اتر آئے.بالآخر مدینہ سے نکل جانے کے معاہدہ پر انہیں مدینہ چھوڑنا پڑا چند سو جنگجو مر دمارے گئے.اس تعداد میں اختلاف کی

Page 259

ازواج النبی 243 حضرت ریحانہ ย بحث کا یہ موقع نہیں.یہاں اصل بحث طلب امر قید ہو نیوالے بچوں اور عورتوں میں ایک خاتون ریحانہ کا معاملہ ہے.جو مال فے میں شامل ہونے کے باعث رسول اللہ صلی می کنیم کی ملکیت تھیں.ان کے بارہ میں متنوع روایات کے باعث محدثین، مؤرخین اور اہل سیر میں اختلاف ہے کہ وہ رسول اللہ سکیم کے حرم میں شامل تھیں یا کنیز تھیں.محد ثین میں سے امام حاکم نے مستدرک میں ، امام طبرانی نے معجم الکبیر میں اور علامہ بیہقی نے سنن الکبریٰ میں حضرت ریحانہ کے علاوہ شاہ مصر کی طرف سے رسول کریم کمی کی خدمت میں بھجوائی گئی خاتون ان کے نزدیک حضرت ماریہ کے ہاں صاحبزادہ ابراہیم کی ولادت پر 15 حضرت ماریہ کو بھی کنیز لکھا ہے.بطور اتم ولدا نہیں ازواج النبی میں شامل کر لیا جاتا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ رسول الله علی ی ی ی نیم کو سورہ احزاب کی آیت 53،51 میں ملک یمین کی جو اجازت تھی اس سے آپ نے فائدہ نہیں اٹھایا.اور جنگی قیدی بنانے کی اس استثنائی اجازت کو اس حکم سے مشروط 16 رکھا جس میں ارشاد ہے مَا كَانَ لِنَي أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُشْخِنَ فِي الْأَرْضِ (الانفال : 68) یعنی کسی نبی کیلئے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کئے بغیر قیدی بنائے.مگر رسول اللہ لی ہم نے اس جواز کے باوجود کبھی کوئی کنیز نہیں رکھی.پس حضرت ماریہ تو روز اول سے ہی زوجہ کر سول تھیں کیونکہ وہ جنگی قیدی نہ تھیں.یہی صورت حضرت ریحانہ کے بارہ میں موجود روایات کی ہے کہ اگر ان کو یکسر رڈ بھی نہیں کیا جاسکتا تو قبول کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ریحانہ کنیز نہیں زوجہ کرسول تھیں.محد ثین بیہقی اور طبرانی کے مطابق رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ریحانہ کو آزاد کر دیا تھا اور وہ اپنے قبیلہ میں جاکر پردہ میں رہنے لگی تھیں.یہی رائے مؤرخ طبری اور ابن اسحاق کی ہے.اہل سیر میں سے ابن رض 19 الا شیر نے حضرت ریحانہ اور حضرت ماریہ دونوں کو کنیز قرار دیا ہے.علامہ ابن حجر نے اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن الا شیر کو حافظ ابن مندہ کی کتاب طبقات صحابہ کی اس غیر معمولی اہمیت کی حامل روایت کا علم نہیں ہوا جن کے مطابق ریحانہ کا اپنے خاندان میں جاکر پردہ نشین ہو کر رہنے لگی تھیں.20 صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے فرماتے ہیں:.

Page 260

ازواج النبی 244 حضرت ریحانہ ย ریحانہ ان قیدیوں میں سے تھیں جنہیں آنحضرت لیلی یا تم نے خود بطور احسان چھوڑ دیا تھا ور اس کے بعد ریحانہ مدینہ سے رخصت ہو کر اپنے میکے کے خاندان (بنو نضیر ) میں چلی گئی تھیں اور پھر وہیں رہی اور علامہ ابن حجر نے جو اسلام کے چوٹی کے محققین میں سے ہیں.اسی روایت کو صحیح قرار دیا ہے.روایات کے تجزیہ و تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مؤرخ ابن سعد نے ریحانہ کے بارہ میں واقدی سے دو 21 66 روایات لکھی ہیں اوّل کہ وہ کنیز ہی تھیں دوسرے یہ کہ رسول اللہ علیم نے ان سے نکاح کر لیا تھا.کنیز والی روایت کو خود ابن سعد نے کمزور قرار دیا ہے اس روایت کے مطابق ریحانہ کو بنو قریظہ کے دیگر قیدیوں کے ساتھ رسول اللہ علی کی کمی کی خدمت میں پیش کرتے وقت ان کے حسن و جمال کی وجہ سے انہیں باقی قیدیوں سے الگ کر لیا گیا.بنو قریظہ کے قیدیوں کے قتل اور تقسیم کے بعد رسول اللہ یہی ان کے پاس گئے اور انہیں اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو آزاد ہو کر آنحضور سے نکاح کر لیں یا کنیز بن کر رہیں.انہوں نے یہی پسند کیا اور وفات تک وہ کنیز رہیں.اسی روایت کی بناء پر بعض عیسائی مؤرخین کو زبان طعن در زا کرنے کا موقع ملا.جیسا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس بارہ میں سرولیم میور کے دل آزار اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح بخاری اور دیگر صحیح روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان روایات کو بے بنیاد قرار دیا ہے.علامہ شبلی نعمانی نے بھی اسی الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک (عیسائی) مؤرخ کے نہایت طعن آمیز الفاظ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ ”بانی اسلام جب سات سو مقتولین کے تڑپنے کا تماشاد یکھ چکا تو گھر پر آکر تفریح خاطر کیلئے....“ اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ موصوف نے ریحانہ کے کنیز ہونے کے اس واقعہ کو سرے سے غلط قرار دیا ہے.علامہ شبلی نے حضرت ریحانہ کے حرم ( نبوی) میں داخل ہونے کی روایتوں کو واقدی اور ابن اسحاق سے 23 24 رض ماخوذ قرار دیا ہے.جن کے مطابق خود ریحانہ کے بقول آنحضرت لیلی لیلی یک کلیم نے انہیں آزاد کر کے شادی کی تھی.پھرانہوں نے علامہ ابن حجر کے حوالہ سے تاریخ مدینہ کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ریحانہ رسول الله طی می کنیم کی زوجہ تھیں.اور حافظ ابن مندہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ قید سے آزادی کے بعد وہ اپنے خاندان میں پردہ نشین ہو کر رہنے لگیں.علامہ شبلی کی ساری بحث کا خلاصہ حضرت ریحانہ کے بارہ میں یہ ہے کہ ”اگر یہی مان لیا جائے کہ وہ حرم نبوی میں آئیں تب بھی قطعا وہ منکوحات میں تھیں کنیز نہ تھیں.66

Page 261

ازواج النبی 245 حضرت ریحانہ ย حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی علامہ شبلی کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے اگر اس روایت کو تسلیم بھی کیا جاوے کہ آنحضرت نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا تو تب بھی آنحضرت نے اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی فرمائی تھی اور اسے لونڈی کے طور پر نہیں رکھا.اسی طرح آپ تحریر فرماتے ہیں ” چنانچہ جن مؤرخین نے ریحانہ کے متعلق یہ روایت کی ہے کہ آنحضرت لم نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا ان میں سے اکثر نے ساتھ ہی یہ صراحت کی ہے کہ آپ نے اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کر لی تھی.چنانچہ ابن سعد نے ایک روایت خود ریحانہ کی زبانی نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت لیلی تم نے مجھے آزاد کر دیا تھا اور پھر میرے مسلمان ہو جانے پر میرے ساتھ شادی فرمائی تھی اور میر امہر بارہ اوقیہ چاندی (قریباً پانچ صد درہم) مقرر ہوا تھا اور ابن سعد نے اس روایت کے مقابلہ میں اس دوسری روایت کو جس پر ولیم میور نے بنیاد بنا کر اعتراض کیا ہے صراحت کے ساتھ غلط اور خلاف واقعہ قرار دیا ہے.اور لکھا ہے کہ یہی اہل علم کی تحقیق ہے.“ پس اس تحقیق کے مطابق حضرت ریحانہ سے رسول اللہ علیم کی شادی والی ابن سعد کی روایت ہی لائق قبول ٹھہرتی ہے جسے انہوں نے اپنے ہاں اثبت الا قاویل یعنی سب سے ثقہ اور پختہ روایت قرار دیا ہے.اس لحاظ سے یہ شادی بد عہد قبیلہ بنو نضیر پر ایک اور احسان تھا کہ وہ بھی چاہیں تو تو بہ کر کے رسول الله طی یکم کے دامن عفو میں آسکتے ہیں.ابن سعد کی دیگر روایات کے مطابق یہ شادی محرم 6ھ میں حضرت ریحانہ کے حالت طہر کے انتظار کے بعدام المنذر بنت قیس کے گھر میں ہوئی.ایک اور روایت میں یہ بھی بیان ہے کہ آنحضرت علیم نے ریحانہ کو اختیار دیا کہ اسلام قبول کر لیں تو اول انہوں نے اپنے دین پر قائم رہنے کو ترجیح دی.پھر آنحضور نے ان سے فرمایا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو آپ کے عقد میں آسکتی ہیں.پہلے پہل ریحانہ نے یہ پسند نہ کیا.مگر معلوم ہوتا ہے آپ اس مقصد کے لیے تدبیر اور دعاؤں کا سلسلہ شروع کرنے سے پر امید تھے کہ وہ ضرور اسلام قبول کر لیں گی.یا شاید اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو اسکی پیشگی اطلاع ہو.چنانچہ ایک روز حضور "صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے تو کسی کے قدموں کی آہٹ آئی.آپ نے فرمایا یہ ثعلبہ بن سعید ہے جو ریحانہ کے اسلام کی خوشخبری لا رہا ہے.چنانچہ 28 ایسا ہی ہوا.ریحانہ کے قبول اسلام کے بعد آنحضور میں ہم نے حسب وعدہ انہیں عقد میں لے لیا.29

Page 262

ย حضرت ریحانہ 246 ازواج النبی رسول اللہ علیم نے حضرت ریحانہ سے اس پردہ کا اہتمام کروایا جو ازواج مطہرات کیا کرتی تھیں.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے انہیں لونڈی کی حیثیت میں قبول نہیں فرمایا تھا، جیسا کہ بعض معترضین کا خیال ہے بلکہ یہ زوجہ رسول اللہ علیم سے انتہائی محبت کی وجہ سے دوسری ازواج سے شدید غیرت رکھتی تھیں.جن کے ناقابل برداشت ہونے کے باعث رسول اللہ علیہ میں تم کو انہیں طلاق دینی پڑی.مگر یہ بھی ان سے 30 برداشت نہ ہوا اور وہ اس قدر روئیں کہ رسول اللہ نے ان کے پاس تشریف لے جا کر طلاق واپس لے لی.الغرض اول تو ابن سعد میں حضرت ریحانہ سے شادی کی ثقہ روایت کی روشنی میں دیگر روایات کے مطالعہ سے سارا معاملہ کھل جاتا ہے کہ خود ان کی روایت کے مطابق آنحضرت سے ان کی شادی ہوئی، ان کا حق مہر باقی ازواج کے برابر بارہ 12 اوقیہ رکھا گیا، انہیں اس طرح پردہ کروایا گیا جس طرح ازواج مطہرات پر دہ کرتی تھیں.پھر دیگر روایات کے مطابق ایک مرحلہ پر انکی طلاق کی نوبت بھی آئی مگر ان کی درخواست پر رسول اللہ علیم نے رجوع کر لیا، اسی طرح باقی ازواج کی طرح انکی بھی باری مقرر کی گئی تھی.جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ایسی کوئی تحقیق تو نہیں مل سکی جس سے اس موضوع پر تفصیلی روشنی پڑتی 31 ہو، البتہ عمومی رنگ میں جماعت کے علمی طبقہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی محققانہ ترجیحی رائے کی 32 روشنی میں اسی رائے کو قبول کیا جاتا رہا ہے کہ حضرت ریحانہ لونڈی نہیں تھیں بلکہ منکوحہ بیوی تھیں.اس مؤقف کے نتیجہ میں بہر حال رسول اللہ کی ذات پر ایک بودے اور ناپاک اعتراض کا قلع قمع ہو جاتا ہے.دورِ حاضر کے دیگر محقق مصنفین میں ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری صاحب نے بھی اپنی کتاب " ازواج 33 مطہرات " میں حضرت ریحانہ کو ازواج النبی میں شامل کیا ہے.0 وفات حضرت ریحانہ کی وفات 10ھ میں رسول اللہ علیم کی زندگی میں آپ کے حجتہ الوداع سے تشریف لانے کے بعد ہوئی.ان کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.34 اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيْدٌ **** **** ****

Page 263

ازواج النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 247 حوالہ جات مستدرک جلد 4 ص 27 طبقات الکبری جلد 8 ص 118 طبقات الکبری جلد 8 ص 130 طبقات الکبری جلد 8ص130 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخيبر.طبقات الكبرى جلد 8ص130 عیون الاثر جلد 2 ص 393،392 اسد الغابہ ص 20 حضرت ریحانہ اصابه فی تمییز الصحابہ از علامہ ابن حجر جلد 7 ص865.طبقات ابن سعد جلد 8 ص 129 بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبي من الاحزاب و مخرجه الى بني قريظة طبقات الكبرى لابن سعد جلد 2 ص 77،76 بيروت سیرۃ ابن ہشام جلد 2 ص 235 بیروت، تاریخ طبری جلد 2ص99 بیروت بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبي من الاحزاب و مخرجه الى بني قريظة بخاری کتاب فضائل الصحابه باب اتیان الیہود النبی سیرۃ ابن ہشام جلد 2 ص 241 ، تاریخ طبری جلد 2 ص 101.سیرۃ الحلبیہ علامہ علی ان برہان الدین حلبی جلد 1 ص 72 بیروت طبقات الکبری جلد 2 ص 75 بيروت، سیرة الحلبیہ جلد 2 ص 71 بيروت مستدرک حاکم جلد 4 ص 45- معجم الكبير جلد 22 ص 444.سنن الکبری جلد 7 ص 72 تفصير صغير ص 553 ย

Page 264

ازواج النبی 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 248 دلائل النبوة للبيتقى جلد 4 ص74 - المعجم الكبير لطبرانی جلد 22 ص 445 حضرت ریحانہ تاریخ طبری جلد 2 ص 213 اسد الغابہ جلد 1ص20،19 الاصابہ جلد 7ص658 سیرت خاتم النبيين ص604 طبقات الكبرى جلد 8 ص 130 سیرت خاتم النبيين ص604 سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی ص440 سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی ص440 سیرت خاتم النبيين ص 605 سیرت خاتم النيبين ص604تا605 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 129 تا 131- الاصابہ جلد 7 ص 659 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 131 بیروت.سيرة ابن هشام جلد 2 ص 245 بیروت طبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص 130 بیروت طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 129 تا 131.مضامین شاکر از عبد الرحمان شاکر ص 48 ماہنامہ مصباح جولائی 1976ء ص20 ازواج مطہرات ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری ص 205 تا 207 دار الاشاعت کراچی طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 130 بیروت، عیون الاثر لا بن سید الناس جلد 2ص388 بیروت رض

Page 265

ازواج النبی 249 ازواج النبی کے حجرات ازواج النبی کے حجرات مدینہ ہجرت فرما کر آنحضور ملی یا تم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد اس سے متصل ازواج مطہرات کیلئے مکان بنوائے.اس وقت تک صرف حضرت سودہ اور حضرت عائشہ ہی آپ کے عقد میں تھیں.جن کے لئے دو حجرے بنوائے گئے.اس کے بعد دیگر ازواج کے عقد میں آنے پر اور مکان بھی بنتے گئے.جو کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں کے تھے.مسجد نبوی سے ملحق قبلہ رخ بائیں ہاتھ پر حضرت عائشہ کا مکان تھا اور ان کے ساتھ حضرت سودہ کا.حضرت عائشہ کا حجرہ امام کے مقام کے ساتھ سامنے کی جانب تھا، یہ وہی حجرہ ہے جس میں حضور طی یا تم نے اپنی بیماری کے آخری ایام گزارے، اس دوران ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بستر سے جھانک کر صحابہ کو نماز میں مشغول پایا تو بہت خوش ہوئے.اسی حجرہ میں آپ نے وفات پائی اور پھر یہیں تدفین ہوئی.باقی حجرات کے متعلق یہ بات بھی یقینی ہے کہ وہ ان دو حجروں ( حجرہ حضرت عائشہ اور حجرہ حضرت سودہ) کے مقابل پر شامی جانب تھے.ان میں بالترتیب حضرت ام سلمہ حضرت ام حبیبہ ، حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت جویریہ ، حضرت میمونہ، حضرت زینب بنت جحش کے گھر تھے.ان گھروں کے درمیان جو دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا وہ باب النساء سے موسوم تھا.ازواج مطہرات کے یہ سادہ مکانات چھ چھ ، سات سات ہاتھ چوڑے اور دس دس ہاتھ لمبے تھے.چھت اتنی اونچی تھی کہ آدمی کھڑا ہو تو چھت کو چھو سکتا تھا.دروازوں پر پردہ ہوتا تھا.حضرت حفصہ کا گھر وہ تھا جس میں ایلاء کا وہ واقعہ پیش آیا، جب آنحضور طی می کنیم نے ایک مہینہ تک ازواج کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی اور یہ عرصہ بالا خانہ میں گزارا، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ گھر دو منزلہ تھا.اسی طرح بعض دیگر ازواج کے گھروں میں بھی بالا خانہ کا بھی ذکر ملتا ہے جو شاید آخری سالوں میں تیار کئے گئے تھے.واللہ اعلم ( بخاری کتاب الطلاق باب قول اللہ تعالی الذین یولون من نسائهم)

Page 266

ازواج النبی کے حجرات 250 ازواج النبی حضرت صفیہ کا مکان حجروں سے الگ واقع تھا.جسے ان کے عزیز واقارب نے معاویہ بن ابوسفیان سے خرید کر انہیں دیا تھا.اس طرح حضرت ماریہ قبطیہ کا مکان مدینہ کے مضافات میں بنی نضیر کے ایک باغ میں تھا جو آنحضور علی لی ہم نے انہیں تحفہ عطا فرمایا تھا.جو آج بھی مشربہ ام ابراہیم " کے نام سے معروف ہے.(طبقات الکبری جلد 8 ص 164.سیرت النبی این تیم از علامہ شبلی نعمانی ص 178 دار الاشاعت کراچی) اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ***** ***** ****

Page 267

卷 3 صلى الله نقشه حجرات ازواج النبی علی بات النس مرتبہ مدینہ ریسرچ اینڈ سٹڈی سینٹر مدینہ منورہ 2 مسجد نبوی نوٹ :.احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حجرات کی ترتیب کچھ یوں تھی.(1) حجرہ حضرت عائشہ (2) حجرہ حضرت سودہ (3) دیگر ازواج النبی کے حجرات 251

Page 268

ازواج مطہرات کی قبور 邀 حضرت خدیجہ Palematy www.حضرت عائشہ حضرت میمونہ 252 باقی تمام ازواج مطہرات کی قبور

Page 269

253 اولادالنبی رسول اللہ اور ان کی اولاد کی سیرت و سوار کا ایمان افروز تذکره و

Page 270

Page 271

اولاد النبی فصائل:.255 حضرت زینب ย حضرت زینب بنت محمد آنحضرت لم نے حضرت زینب کے متعلق فرمایا " یہ میری بیٹیوں میں سے سب سے افضل ہے.کیونکہ اس کو میری وجہ سے تکلیفیں پہنچی ہیں." آپ کی وفات بھی راہ مولی میں تکالیف کی وجہ سے ہوئی ، اور رسول اللہ صلی یا تم نے انہیں شہیدہ کا لقب عطا فرمایا.حضور طی تم نے فرمایا میں نے زینب کی کمزوری کو یاد کر کے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو پا کا کر دے." آپ کی تدفین کے وقت آنحضور طی یا تم نے حضرت زینب کو مخاطب کر کے فرمایا "ہمارے آگے بھیجے ہوئے بہترین انسان عثمان بن مظعون کے ساتھ جنت میں جاکر اکٹھے ہو جاؤ." پیدائش.قبول اسلام اور شادی حضرت زینب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب صاحبزادیوں میں بڑی تھیں جو بعثت نبوی سے دس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں.جبکہ حضور می یتیم کی عمر 30 سال تھی.رض 2 جب حضور میں تم کو نبوت عطا ہوئی تو حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ اور بہنوں کے ساتھ ہی رسول اللہ علم کی تصدیق اور قبول اسلام کی سعادت پائی.حضرت خدیجہ کی تجویز پر صاحبزادی حضرت زینب کی شادی تقریباً 10 سال کی عمر میں ہی اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی جو حضرت خدیجہ کی حقیقی بہن ہالہ کے بیٹے تھے.آنحضور طی کریم نے دعویٰ نبوت فرما یا تو قریش کی مخالفت اور ان کے ڈرانے دھمکانے پر حضور طلی کی اسکیم کی دو صاحبزادیوں حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ کو تو انکے خاوندوں نے نکاح کے بعد رخصتی سے قبل ہی

Page 272

اولاد النبی 256 حضرت زینب بنت محمد طلاق دیدی لیکن ابو العاص نے جرات و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفا کا دامن نہ چھوڑا اور حضور کی بیٹی زینب کو طلاق دینے سے انکار کر دیا.قریش نے ابو العاص کو لالچ دی کہ آپ اگر محمد سلیم کی بیٹی کو چھوڑ دیں تو جو لڑ کی پسند کرو گے ہم اس سے تمہاری شادی کر دیں گے.لیکن اس کے باوجود نیک دل، جرأت مند اور وفا شعار ابو العاص نے زینب کو طلاق دینے سے انکار کر دیا.رض حضرت زینب کی ہجرت مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعد تمام قبائل عرب آپ کے دشمن بن چکے تھے.حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ کو حضور میں تم نے اپنے پاس لانے کیلئے مدینہ سے حضرت زید بن حارثہ کی سر کردگی میں چند افراد کو مکہ بھجوایا جو حکمت عملی کے ساتھ نبی کریم امی کی دونوں صاحبزادیوں کو مدینہ لائے.لیکن حضرت زینب اپنے خاوند ابو العاص کے پاس تھیں اور بچپن سے دین اسلام پر قائم تھیں.شادی کے بعد ایک طرف حضرت زینب پر اپنے شوہر کی ذمہ داری بھی تھی دوسری طرف وہ اپنی حقیقی خالہ کے گھر بیاہی ہوئی تھیں جہاں بظاہر ان کے لئے کوئی خوف نہ تھا.مگر رسول اللہ سلم کی ہجرت کے بعد مکہ میں ان کا مسلسل دشمنانِ اسلام کے نرغے میں رہنا اب خطرہ سے خالی بھی نہ رہا تھا.ان کے شوہر ابو العاص ابھی اپنے دین پر تھے ، جب حضرت زینب کی جان اور ایمان کی سلامتی کیلئے ہجرت ناگزیر ہوگئی تو پہلی دفعہ ناکامی کے بعد دوسری مرتبہ رسول اللہ علیم کے ارشاد اور حکمت عملی سے یہ پایہ تکمیل کو پہنچی.اس پہلی ہجرت کا واقعہ حضرت عائشہ یوں بیان کرتی ہیں کہ حضور ملی تم جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ کی بیٹی حضرت زینب قبیلہ کنانہ کے بعض لوگوں کے ساتھ یا ایک اور روایت کے مطابق ابو العاص کے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئیں.مگریہ تدبیر کار گر نہ ہو سکی اور مخالفین کو پتہ چل گیا وہ تعاقب میں نکلے اور ہبار بن اسود حضرت زینب کے قریب پہنچ کر تیر چلانے لگا.یہاں تک کے کہ حضرت زینب کو اونٹ سے گراد یا اور ان کا حمل ضائع ہو گیا اور خون بہنے لگا.کنانہ نے ترکش سے تیر نکالے اور کہا کہ اب اگر کوئی قریب آیا تو ان تیروں کا نشانہ ہو گا.لوگ ایک طرف ہو گئے تو ابوسفیان سردارانِ قریش کے ساتھ آیا اور کہا کہ تیر روک لو ہم کچھ بات کرنا چاہتے ہیں.کنانہ نے تیر ترکش میں ڈال لئے.ابو سفیان نے کہا محمدعلی علی کریم کے ترک وطن سے حالات جہاں تک جاپہنچے ہیں تم کو معلوم ہیں اب اگر تم علانیہ ان کی لڑکی کو ہمارے قبضہ

Page 273

اولاد النبی 257 حضرت زینب بنت محمد رض ย سے نکال کر لے گئے تو لوگ کہیں گے کہ ہماری کمزوری ہے.بہتر ہو گا کہ ابھی ہمارے ساتھ واپس مکہ چلو پھر کسی وقت رات کو چھپ کر خاموشی سے نکل جانا.چنانچہ آپ مکہ واپس تشریف لے آئیں اور پھر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب معاملہ ٹھنڈ اپڑ جانے تک ہجرت کا ارادہ موقوف کیا.اس واقعہ پر آپ کے میکے بنو ہاشم اور آپ کے سُسرال بنوامیہ جھگڑ پڑے.بنوامیہ نے کہا ہم اسکے زیادہ قریبی ہیں اس لئے حضرت زینب کو مکہ میں ہمارے پاس ہی رہنا چاہئے.چنانچہ وہ اپنے شوہر کے گھر رہیں یہاں تک کہ غزوہ بدر پیش آگیا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ جنگ بدر کے بعد جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب نے (جو ابھی مکہ میں ہی تھیں) ابو العاص کی آزادی کے لئے فدیہ کے مال میں حضرت خدیجہ کا وہ ہار بھی بھجوایا جو انہوں نے شادی کے وقت حضرت زینب کو پہنا کر ابو العاص کے گھر رخصت کیا تھا.حضور نے وہ ہار دیکھا جو ایک ماں کی بیٹی کیلئے نشانی تھی، اور جو ایک مجبور مومنہ کو حالتِ کسمپرسی میں بھجوانی پڑی تھی تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی.آپ نے حضرت زینب کی راہ ہجرت ہموار کرنے کی خاطر صحابہ سے از راہ مشورہ فرمایا اگر تم پسند کرو تو زینب کے خاوند کو بغیر کچھ لئے چھوڑ دو اور اس کے فدیہ میں آیا ہوا مال واپس کر دو.صحابہ نے بخوشی ایسا کیا.حضور طی تم نے ابو العاص سے بھی وعدہ لیا کہ وہ حضرت زینب کو مدینہ بھیج دیں گے.0 جنگ بدر کے ایک ماہ بعد حضرت ابو العاص مکہ واپس آئے.اس دوران حضرت زینب ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کے گھر رہائش پذیر رہیں.جہاں ابو سفیان کی بیوی ہند آنحضور کی صاحبزادی زینب کو طعنہ دیتی تھی کہ یہ سب تکلیفیں تیرے باپ کی وجہ سے ہیں.حضور علی یا ہم کو جب اپنی بیٹی کی اس اذیت ناک حالت کی اطلاع ملی تو آپ نے حضرت زید بن حارثہ سے فرمایا کہ کیا تم زینب کو میرے پاس لا سکتے ہو ؟ حضرت زید نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی علم ! کیوں نہیں.چنانچہ حضور علی علیم نے فرمایا میری یہ انگوٹھی لے جاؤ اور زینب کو پہنچادو.حضرت زید کمال حکمت سے مکہ گئے اور شہر کے نواح میں پہنچ کر جائزہ لینے لگے.اس دوران حضرت زید ایک چرواہے سے ملے اور اس سے پوچھا کہ تم کس کے ملازم ہو ؟ اس نے بتایا کہ میں ابوالعاص کا ملازم ہوں.پھر حضرت زید نے پوچھا یہ بکریاں کس کی ہیں؟ اس نے کہا زینب بنت محمد علیم کی.اس پر حضرت زید نے نبی کریم علیم کی انگوٹھی اس چرواہے کے ذریعہ حضرت زینب کو بھجوائی.انگوٹھی دیکھ کر وہ سمجھ گئیں.کہ ان کے مقدس باپ کا سندیسہ ہے.

Page 274

اولاد النبی 258 حضرت زینب بنت محمد اگلی رات ابو العاص حضرت زینب کو لے کر نکلے اور یا حج مقام پر انہیں حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ مدینہ روانہ کر کے واپس مکہ آگئے.اس طرح انہوں نے رسول اللہ علیم سے کئے عہد کی پابندی کرتے ہوئے حضرت زینب کو خاموش حکمت عملی سے مدینہ بھجوانے کا انتظام رسول اللہ لی لی یتیم کی ہدایت کے مطابق کر دیا.اور حضرت زینب اپنے مقدس والد آنحضرت نیم کے پاس مدینہ پہنچ گئیں.آنحضر عمل ہم آپ کے بارہ میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ میری بیٹیوں میں سب سے افضل ہے کیونکہ اس کو میری وجہ سے بہت تکالیف پہنچی ہیں.0 8 ابوالعاص کا قبول اسلام 6 ہجری میں ابو العاص اپنے اور قریش کے اموال لے کر تجارت کی غرض سے شام گئے ، آپ بہت امانتدار شخص تھے.سفر تجارت سے واپسی پر رسول اللہ علی علی کریم کے بھیجے ہوئے ایک دستے سے ان کی مٹھ بھیڑ ہو گئی جس نے اس تجارتی قافلے کا سارا سامان چھین کر اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا.یہ اسلامی دستہ جب مدینہ پہنچا تو دوسری طرف ابو العاص بھی اپنا مال واپس لینے کی امید اور درخواست لیکر رات کی تاریکی میں مدینہ پہنچے اور اپنی بیوی حضرت زینب کے پاس پہنچ کر پناہ کے طالب ہوئے.حضرت زینب نے ان کو امان دیدی.حضور صبح کی نماز کیلئے مسجد نبوی تشریف لائے تو زینب نے عورتوں کے چبوترہ سے بلند آواز میں کہا، اے لوگو ! میں نے ابو العاص کو پناہ دیدی ہے.حضور نے نماز سے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا کیا تم نے بھی وہ سنا ہے جو میں نے سنا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا.آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اس معاملے کا مجھے بھی اس سے پہلے پتہ نہیں تھا.اور میں نے تمہارے ساتھ ہی یہ آواز سنی ہے.پھر فرمایا.مسلمانوں کا سب سے کمزور فرد بھی کسی کو پناہ دینے کا مجاز ہے.اس کے بعد حضور واپس گھر تشریف لے گئے اور اپنی بیٹی سے فرمایا اے میری بیٹی ! ابو العاص کے ٹھہرانے کا اچھا انتظام کرو لیکن وہ ہر گز تمہاری خلوت میں نہ آئے کیونکہ تم بحیثیت مسلمان اس کیلئے اب حلال نہیں.بیشک ہجرت سے قبل تک ابوالعاص نے (نہ صرف اسلام کی مخالفت نہ کی بلکہ ) اپنی اہلیہ زینب سے مکہ میں حسن سلوک کیا اور ان کو اپنے دین پر قائم رہنے دیا.لیکن ہجرتِ مدینہ ان کے درمیان تفریق کا ذریعہ بن گئی.جیسا کہ ارشاد ربانی ہے یأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ 9

Page 275

اولاد النبی 259 حضرت زینب بنت محمد اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ (الممتحنة : 11) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں مہاجر ہونے کی حالت میں آئیں تو ان کا امتحان لے لیا کر و.اللہ ان کے ایمان کو سب سے زیادہ جانتا ہے.پس اگر تم اچھی طرح معلوم کر لو کہ وہ مومنات ہیں تو کفار کی طرف انہیں واپس نہ بھیجو.نہ یہ اُن کیلئے حلال ہیں اور نہ وہ ان کیلئے حلال.اس کے بعد حضرت زینب کی سفارش پر آنحضور طی یا تم نے ابو العاص کا سارا مال واپس کر دیا جسے لیکر وہ مگہ چلے گئے قریش کا مال ان کے سپرد کیا اور مدینہ واپس آکر اسلام قبول کر لیا.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی بیٹی زینب کو ان کی ہجرت کے چھ سال بعد 10 ابوالعاص کے مسلمان ہونے پر ان کے ساتھ پہلے نکاح پر ہی لوٹادیا کسی نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہوئی.0 ابوالعاص کے اپنے دین پر قائم رہنے اور حضرت زینب کی ہجرتِ مدینہ کے باعث ان کے رشتہ ازدواج میں جو روک پیدا ہوئی تھی وہ ابوالعاص کے اعلان قبول اسلام سے دور ہو گئی.ہر چند کہ اس درمیانی عرصہ میں حضرت زینب دوسرے نکاح کا اختیار رکھتی تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہر کے قبولِ اسلام کے انتظار کو ترجیح دی.اور یوں چھ سال بعد یہ امید بر آنے پر وہ پھر سے اس رشتہ میں منسلک ہو ہو گئیں.حضرت مسور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیم نے ایک موقع پر اپنے داماد ابو العاص کا ذکر کیا اور یہ رشتہ نبھانے میں ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ " اس نے مجھ سے جو کہا سچ کہا اور جو وعدہ کیا اسے خوب نبھایا اسی بناء پر رسول اللہ صلی علی کریم نے ابو العاص سے دوبارہ کسی نکاح کے ذریعہ نئے مہر وغیرہ کی شرائط کی ضرورت نہیں سمجھی.حضرت زینب کی اولاد حضرت زینب کی اولاد میں دو تین بچوں کا ذکر ملتا ہے ، جو کم سنی میں فوت ہو گئے.ایک بیٹی حضرت امامہ کی شادی حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ سے ہوئی.اور ان کی وفات کے بعد حسب وصیت 12 حضرت مغیرہ سے نکاح کیا.حضرت زینب کے ایک صاحبزادے علی بن زینب نے بنی غاضرہ قبیلے میں

Page 276

اولاد النبی 260 حضرت زینب بنت محمد دودھ پیا پھر رسول اللہ صلی علی کریم نے انہیں اپنی نگرانی میں لے لیا.ابو العاص اس وقت مکہ میں حالت شرک میں 13 14 P حضرت اسامہ بن زید حضرت زینب کے ایک صاحبزادے کی وفات کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ صاحبزادی زینب نے آنحضور کو پیغام بھجوایا کہ میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں آخری سانس لیتا نظر آتا ہے، آپ تشریف لے آئیں.رسول اللہ ہی ہم نے فرمایا ان کو جاکر سلام کہو اور یہ پیغام دو کہ یہ اللہ کا ہی مال تھا، جو اس نے عطا کیا تھا اور اسی نے واپس لے لیا ہے.اور ہر شخص کی اللہ کے پاس میعاد مقرر ہے.اس لئے میری بیٹی صبر کرے اور اللہ سے اس کے اجر کی امید رکھے.اس پر آپ کی صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھجوایا اور قسم دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں.آپ تشریف لے گئے، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت اور کچھ اور اصحاب آپ کے ساتھ تھے.وہ بچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا.جس کی جان نکل رہی تھی.رسول اللہ علیہ علم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.حضرت سعد نے تعجب سے کہا یارسول اللہ علی میں ہم یہ کیا؟ آپ نے فرمایا یہ محبت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے.بعض روایات میں حضرت زینب کے بیٹے کی بجائے بیٹی کی وفات کا ذکر ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک کم سن بیٹی (نواسی مراد ہے ) آخری دموں پر تھی.رسول کریم می لی ہم نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا اسی دوران اس کی روح پرواز کر گئی.بچی کی میت رسول اللہ علیم کے سامنے تھی.رسول اللہ صلی یا یتیم کی رضاعی والدہ ام ایمن رو پڑیں.رسول کریم طی تم نے اسے فرمایا.اے ام ایمن ! رسول اللہ لی یتیم کی موجودگی میں تم روتی ہو وہ بولیں جب خدا کا رسول بھی رو رہا ہے تو میں کیوں نہ روؤں.رسول کریم ملی نیم نے فرمایا میں روتا نہیں ہوں.یہ تو محبت کے آنسو ہیں پھر آپ نے فرمایا مومن کا ہر حال ہی خیر اور بھلا ہوتا ہے.اس کے جسم سے جان قبض کی جاتی ہے اور وہ اللہ کی حمد کر رہا ہوتا ہے.حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی تم نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت زینب کی بیٹی امامہ کو 15 16 اٹھایا ہوا تھا.جب آپ سجدہ کرتے تو اسے نیچے بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے.0

Page 277

اولاد النبی 261 حضرت زینب بنت محمد حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور ملی یتیم کے پاس نجاشی کی طرف سے کچھ زیورات بطور تحفہ آئے.اس میں ایک انگوٹھی بھی تھی.جس کا نگینہ ملک حبشہ کا تھا.آپ نے عدم دلچسپی ظاہر فرماتے 17 رض ہوئے اسے لکڑی یا انگلی سے پرے کر دیا.پھر امامہ کو بلایا اور فرمایا.بیٹی ! اسے تم پہن لو.یہی امامہ بعد میں پہلے حضرت علیؓ کے عقد میں اور انکی وفات کے بعد حضرت مغیرہ کے نکاح میں آئیں.حضرت زینب کی وفات حضرت زینب نے آخر دم تک اسلام کی خاطر تکالیف برداشت کیں.وفات کے وقت وہی زخم تازہ ہو گئے تھے جو واقعہ ہجرت میں انہیں پہنچے تھے.جب ہبار کے تیروں سے آپ اونٹنی سے نیچے جا گریں یا ایک دوسری روایت کے مطابق ہبار کے دھکا دینے پر حضرت زینب ایک چٹان سے جاٹکرائیں اور یوں آپ کا حمل ساقط ہو گیا.اسی بناء پر انہیں شہید سمجھا جاتا تھا.0 18 19 حضرت زینب کی وفات رسول اللہ صلی علی کی کمی کی زندگی میں ہی 8ھ میں ہوئی.0 نبی کریم ا ہم نے ان کے غسل اور تجہیز و تکفین کے لئے خود ہدایات فرمائیں.حضرت ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور علی نیم تشریف لائے اور ہمیں فرمایا کہ "زینب کو تین یا پانچ مرتبہ بیری کے پتے والے پانی سے غسل دو.اگر تم ضروری سمجھو تو پانچ سے بھی زیادہ مرتبہ نہلا سکتی ہو.آخر پر کا فور کبھی استعمال کرنا.جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا " وہ کہتی ہیں جب ہم فارغ ہوئے تو حضور می کنم کو اطلاع دی.حضور علی یا ہم نے اپنا تہہ بند ہمیں دیا اور فرمایا کہ یہ چادر اُن کو بطور جامہ پہناؤ.ایک اور روایت میں ہے کہ حضور علی یا تم نے فرمایا کہ اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنانا.نیز فرمایا کہ اس کا دائیں پہلو سے اور وضو کی جگہوں سے 21 20 غسل شروع کرنا.حضرت زینب کی وفات پر حضور علی یم ان کی قبر میں اترے آپ غم زدہ تھے.جب حضور ملی کنم قبر سے باہر نکلے تو غم کا بوجھ کچھ ہلکا تھا.فرمایا میں نے زینب کے ضعف کے خیال سے اللہ سے دعا کی ہے کہ اے اللہ ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو ہلکا کر دے " اللہ تعالی نے میری دعا قبول کر لی اور اس کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے.22

Page 278

حضرت زینب بنت محمد 262 اولاد النبی حضرت زینب کی تدفین کے موقع پر آنحضور نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا " ہمارے آگے بھیجے ہوئے بہترین انسان عثمان بن مظعون کے ساتھ جنت میں جا کر اکٹھے ہو جاؤ یہ سن کر عورتیں روپڑیں، حضرت عمر انہیں روکنے لگے.حضور علی کریم نے فرمایا "رونا منع نہیں مگر شیطانی آوازیں نکالنے یعنی بین کرنے سے بچو.“ پھر آپ نے فرمایا "وہ دکھ جو آنکھ اور دل سے ظاہر ہو وہ اللہ کی طرف سے ایک پیدا شدہ جذبہ ہے اور رحمت اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ظاہر ہو وہ شیطانی فعل ہے " آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی.24 23 11 اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ **** ****

Page 279

اولاد النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 263 حوالہ جات مستدرک حاکم جلد 4 ص 45 طبقات الكبرى جلد 8 ص37 ابن ھشام جلد 1ص651.مستدرک حاکم جلد 3 ص262 ابن هشام جلد 1 ص 652 ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی فداء الاسیر بالمال حضرت زینب بنت محمد تاریخ الصغیر لامام بخاری جلد 1 ص34 حدیث زینب.زرقانی جلد 3 ص 223 ابن ہشام جلد 1 ص 653 تاریخ الصغیر لامام بخاری جلد 1 ص34 تحت حدیث زینب بنت رسول طله عيد المسلم ابن هشام جلد 1 ص 657 ابن هشام جلد 1 ص 658 بخاری کتاب النکاح باب شروط النكاح طبقات الکبری جلد 8 ص 233- معجم الكبير جلد 22ص443 الاصابہ جلد 4 ص570 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي يعذب الميت نسائی کتاب الجنائز باب فى البكاء على الميت بخاری کتاب الصلاۃ باب اذا حمل جارية صغيرة ابوداؤد کتاب الخاتم باب ما جاء فی الذهب للنساء تاریخ دمشق جلد 3 ص149،148

Page 280

اولاد النبی 19 20 21 22 23 24 264 الاصابہ جلد 7 ص 665 بخاری کتاب الجنائز باب يجعل الكافور في الاخيرة بخاری کتاب الوضوء باب التيمين في الوضوء والغسل اسد الغابہ جلد 1ص1360 مسند احمد جلد 1 ص 335 ارد و جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول ص 716 حضرت زینب بنت محمد

Page 281

اولاد النبی 265 ย حضرت رقیہ بنت محمد فصائل:.حضرت رقیہ حضرت عثمان کی زوجہ جن کے متعلق خود آنحضور صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ وہ اخلاق میں میرے سب سے زیادہ مشابہ ہے.اور یہ بھی فرمایا کہ عثمان پہلا شخص ہے جس نے حضرت لوط کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی.حضرت رقیہ کی بیماری کی خاطر رسول الله علی کریم نے حضرت عثمان کو غزوہ بدر سے رخصت عطا فرمائی اور پھر مال غنیمت میں سے حصہ بھی دیا.پیدائش حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو حضرت زینب سے تین سال چھوٹی تھیں.آپ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے دعویٰ نبوت سے سات سال قبل پیدا ہوئیں.جب آنحضور کی عمر 33 برس تھی.قبول اسلام.نکاح اور طلاق اپنی دیگر بہنوں کی طرح آپ بھی ابتدائی مسلمان سمجھی جاتی ہیں.رسول اللہ تعلیم کے دعویٰ نبوت سے قبل ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا لیکن دعویٰ نبوت کے بعد جب آيت تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وتَب نازل ہوئی تو ابو لہب نے اپنے بیٹے کو کہا اگر تم نے اس (محمد میم) کی بیٹی کو طلاق نہ دی، تو اپنے باپ کا بیٹا نہیں.چنانچہ اس نے رسول اللہ ی ی ی یتیم کی صاحبزادی رقیہ کو رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی.حضرت عثمان سے شادی اللہ تعالی نے اس کا نعم البدل حضرت عثمان کی صورت میں عطا کیا.چنانچہ الہی منشاء کے تحت نبی کریم"

Page 282

اولاد النبی 266 حضرت رقیہ بنت محمد نے حضرت رقیہ کی شادی حضرت عثمان سے کر دی.حضرت عثمان غنی نے بھی ابتدائی سالوں میں اسلام قبول کیا تھا.آنحضور ملی یا تم نے حضرت رقیہ کو نصیحت فرمائی کہ ابو عبد اللہ (حضرت عثمان) سے حسن سلوک کرنا کیونکہ وہ اخلاق میں میرے سب سے زیادہ مشابہ ہے.ایک دن نبی کریم ملی تیم شادی کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ حضرت رقیہ حضرت عثمان کا سر دھو رہی تھیں.ہجرت حبشہ 4 نبوت کے پانچویں سال جب کفار مکہ کے مظالم کی وجہ سے پہلی ہجرت یعنی ہجرت حبشہ کا واقعہ پیش آیا تو حضرت رقیہ بھی حضرت عثمان کے ساتھ شریک سفر تھیں.رسول الله من علم کو طبعا اس جدائی کی وجہ سے دل پر بڑا بوجھ تھا اور فکر تھی یہی وجہ ہے کہ نبی کریم طی می ایستم حبشہ سے آنے والوں سے اپنی بیٹی اور داماد کے احوال دریافت فرمایا کرتے تھے.ایک روایت میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ قریش کی ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہا اے محمد ! میں نے تمہارے داماد اور تمہاری بیٹی کو دیکھا ہے.حضور نے بڑی جستجو سے دریافت فرمایا، تم نے انہیں کس حال میں پایا ؟ اس نے کہا عثمان نے اپنی بیوی کو ایک گدھے پر سوار کیا ہوا تھا.اور خود اسے چلا رہے تھے.حضور ملی ولی تم نے دعا کی کہ اللہ ان کا ساتھی اور مددگار ہو.عثمان پہلا شخص ہے جس نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے بعد ہجرت کی.5 حبشہ میں ایک عرصہ تک رہنے کے بعد جب دونوں مکہ واپس لوٹے تو رسول کریم مدینہ ہجرت فرما چکے 6 تھے.چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد حضرت عثمان مع اہل و عیال ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے.0 رسول کریم ملی تیم کی شفقت پدری نبی کریم عالم نے حضرت رقیہ کو گھریلو کاموں کیلئے اپنی ایک خادمہ ،ام عیاش نامی عطا فرمائی تھی جو انکے ساتھ ہی رخصتی کے وقت حضرت عثمان کے گھر آئی تھی.اتم عیاش کی ایک روایت ہے کہ میں جب حضور علیم کے پاس تھی تو آپ تشریف فرما ہوتے تھے اور میں آپ کو کھڑے ہو کر وضو کر وایا کرتی تھی جبکہ حضور طی یا اسلم بیٹھے ہوئے ہوتے تھے.حضرت عثمان اور حضرت رقیہ کی طرف نبی کریم ملی کلیم کا اسامہ بن زید کے ذریعے تحفے تحائف بھجوانے کا ذکر ملتا ہے.حضرت اسامہ جو رسول اللہ علیم کے متبنی اور آزاد کردہ غلام حضرت زید کے بیٹے

Page 283

اولاد النبی 267 حضرت رقیہ بنت محمد تھے.انہوں نے بچپن رسول اللہ علیم کے گھرانے کے فرد کے طور پر گزارا اور آپ کے فیض صحبت میں تربیت پائی.وہ مدینہ کے اسی ابتدائی زمانہ کے اپنے بچپن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نے میرے ہاتھ ایک طشت دے کر حضرت عثمان کی طرف بھیجا جس میں کچھ گوشت تھا.جب میں ان کے گھر پہنچا تو وہ حضرت رقیہ کے ساتھ بیٹھے تھے.میں نے ان دونوں جیسا خوبصورت جوڑا اور کوئی نہیں دیکھا.کبھی میں حضرت عثمان کے چہرے کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف.جب میں حضور علی ایم کے پاس واپس آیا تو حضور علی لیا کہ تم نے فرمایا ، ان سے مل آئے ہو ؟ میں نے کہا، جی.فرمایا، کیا تو نے ان سے زیادہ حسین جو ڑ دیکھا ہے ؟ میں نے کہا، نہیں! پھر بتایا کہ یارسول اللہ لی عالم میں کبھی حضرت رقیہ کو دیکھتا تھا اور کبھی حضرت عثمان کو.8 راہ مولیٰ میں تکالیف پر صبر ہجرت حبشہ میں حضرت رقیہ کو جو مصائب برداشت کرنے پڑے اس میں ایک بڑا صدمہ یہ پیش آیا کہ آپ کا ایک بچہ اسقاط حمل سے ضائع ہو گیا.اس کے بعد حضرت رقیہ کے ایک اور صاحبزادے عبداللہ پیدا ہوئے لیکن کم عمری میں فوت ہو گئے.اسی وجہ سے حضرت عثمان ابو عبد اللہ کہلاتے تھے.ان کی عمر دو سال تھی جب ایک مرغ نے ان کے چہرے پر چونچ مار کر ان کا چہرہ زخمی کر دیا تھا اور اسی زخم کے بگڑ جانے سے ان کی وفات ہو گئی.ان کا جنازہ رسول اللہ یا تم نے پڑھایا اور حضرت عثمان خود ان کی قبر میں اترے.اس کے بعد حضرت رقیہ کی کوئی اولاد نہ ہوئی.وفات 2 ہجری میں غزوہ بدر کے موقع پر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں.ان کی تیمار داری کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو نہ صرف غزوہ بدر سے رخصت عطا فرمائی بلکہ اس مخلصانہ خدمت اور جنگ بدر میں ان کے مصمم ارادہ شرکت کے باعث اموالِ غنیمت سے انہیں حصہ بھی عطا فرمایا.رسول کریم ما ابھی بدر کے محاذ پر ہی تھے کہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف بڑھ گئی اور انہوں نے اکیس 21 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا.ایک روایت کے مطابق جب قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی

Page 284

حضرت رقیہ بنت محمد 268 اولاد النبی حضرت زید بن حارثہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ میں داخل ہوئے.آنحضرت علی کریم غزوہ بدر کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر کی وفات کی اطلاع پاکر طبعا مغموم ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.غزوہ بدر سے مدینہ تشریف لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی قبر پر تشریف لے گئے اور انہیں خدا کے حوالے کرتے ہوئے یوں الوداع کیا کہ "جاؤ ہمارے پہلے مرحوم عثمان بن مظعون سے جاملو " (مہاجرین میں حضرت عثمان بن مظعون پہلے صحابی تھے جنہوں نے مدینہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے).اس پر عورتیں رونے لگیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کوڑا لے کر اٹھے اور عورتوں کو مارنے لگ گئے تو آپ نے ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا " محض رونے میں کچھ حرج نہیں لیکن نوحہ و بین شیطانی حرکت ہے اس سے بچنا چاہیے' حضرت فاطمہ جب رسول اللہ لا یتیم کے ساتھ حضرت رقیہ کی قبر پر حاضر ہوئیں تو وہ بھی آبدیدہ تھیں.آنجناب طی یا تم نے ان کو تسلی دی اور آنسو پونچھے.0 آپ کی تدفین کے بارہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی.تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ جنت البقیع میں دیگر اہلِ بیت کے ساتھ تدفین ہوئی.خصوصاً نبی کریم علیم کے اس ارشاد کہ ہمارے پہلے مرحوم عثمان بن مظعون سے جاملو ، میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ آپ کی تدفین ان کے قریب جنت البقیع میں ہوئی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ** **

Page 285

اولاد النبی 269 حضرت رقیہ بنت محمد 1 2 3 حوالہ جات مستدرک حاکم جلد 4 ص 50 بیروت.الطبقات الکبری لابن سعد جلد 8 ص36 بيروت الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 36 بیروت المعجم الكبير لطبرانی جلد 1 ص 76 موصل 4 البدایہ والنھایہ لابن کثیر جلد 3 ص 85 5 6 تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 3 ص150 بیروت الاصابۃ فی تمییز الصحابه از علامہ ابن حجر جلد 7ص 649 دار الجيل بيروت 7 ابن ماجہ کتاب الطهارة باب الرجل يستعين على وضوره فيصب عليه 9 اسد الغابہ جلد 1ص1454 المعجم الكبير لطبرانی جلد 1 ص 76 موصل الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 36 بیروت 10 طبقات الکبریٰ جلد 8 ص36.تاریخ الخمیس جلد 1 ص275.بخاری کتاب المغازی باب تسمیة من سمی اهل بدر 11 متدرک حاکم جلد 4 ص 53، 51- طبقات الکبری جلد 8 ص 36 12 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 36 بيروت

Page 286

اولاد النبی 270 حضرت ام کلثوم حضرت ام کلثوم بنت محمد فصائل:.جبرائیل نے آنحضور ملی ہم کو اطلاع دی کہ اللہ تعالی نے ام کلثوم کی شادی عثمان سے رقیہ کے برابر حق مہر پر ہی کر دی ہے.حضرت ام کلثوم کی تدفین کے موقع پر سورۃ طہ کی آیت 56 نازل ہوئی کہ اس سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا اور اس میں تمہیں دوبارہ لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری دفعہ تمہیں نکالیں گے.ولادت حضرت ام کلثوم، حضرت زینب اور حضرت رقیہ سے چھوٹی اور حضرت فاطمہ سے بڑی تھیں.آپ کی ولادت بعثت نبوی سے قبل ہوئی.ان کی تاریخ پیدائش کا صحیح علم نہیں ہے.0 حضرت ام کلثوم اپنی کنیت سے ہی معروف ہوئیں.اسی وجہ سے ان کا اصل نام بھی کسی کو معلوم نہیں.قبول اسلام.نکاح و طلاق حضرت ام کلثوم نے بھی اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ہی رسول اللہ سٹی کیم کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام قبول کیا تھا.حضرت ام کلثوم کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتیبہ سے ہوا.چنانچہ حضور طی نیم کے اعلان نبوت کے بعد ابو لہب اور ام جمیل نے اپنے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کو مجبور کیا کہ چونکہ رقیہ اور ام کلثوم اب بے دین ہو گئیں ہیں اس لئے تم انھیں طلاق دے دو.حضرت ام کلثوم کو بھی حضرت رقیہ کی طرح رخصتی سے قبل ہی طلاق ہوئی.4 آنحضور ٹی ایم کے لئے یہ وقت بہت کٹھن تھا جب آپ کی دو بیٹیوں کو طلاق دے دی گئی، قبیلہ والوں نے قطع تعلق کر لیا اور آپ اور آپ کے ماننے والوں پر پے در پے مظالم کئے.

Page 287

اولاد النبی 271 حضرت ام کلثوم بنت محمد ہجرت مدینہ انہی حالات کی وجہ سے اللہ تعالی کی جانب سے حبشہ ہجرت کا حکم ملا اور پھر خود آنحضرت میں یہ ہم بھی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے.حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ مکہ میں ہی رہ گئی تھیں.چنانچہ نبی کریم نے مدینہ سے حضرت زید بن حارثہ کی سر کردگی میں چند افراد کو مکہ بھجوایا جو خاموشی اور حکمت عملی کے ساتھ نبی کریم ا یتیم کی صاحبزادیوں کو مدینہ لے آئے.حضور علی الم جب مدینہ پہنچے تو آپ نے حضرت ابوایوب کے گھر قیام فرمایا.آپ نے حضرت ابو بکرؓ سے بطور قرض لے کر حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم فراہم کئے اور ان دونوں کو اپنے باقی ماندہ اہل بیت کو لانے کیلئے مکہ روانہ کیا.حضرت ابو بکر نے ان دونوں کے ساتھ عبد اللہ بن اریقط الد کلی کو بھی دو یا تین اونٹ دیکر بھیجا اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن ابو بکرؓ کو لکھا کہ وہ بھی اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر ان کے ہمراہ آجائیں.حضرت زید نے آنحضور علی ایم کے اہل بیت میں سے ام المومنین حضرت سودہ ، حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہو نا تھا.اہل بیت کے ان افراد کے ساتھ حضرت زید کی بیوی حضرت ام ایمن اور بیٹا اسامہ بھی تھے.حضرت زید نے اپنے ساتھ حضرت زینب بنت رسول کو بھی لیکر جانا چاہا لیکن کفار قریش نے ان کو روک لیا.حضرت رقیہ اپنے شوہر ย حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ اس سے قبل ہی حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کر چکی تھیں.حضرت زید بن حارثہ نے مکہ پہنچتے ہی واپسی سفر کا انتظام کیا اور اپنی بیوی حضرت ام ایمن ، اپنے بیٹے اسامہ اور رسول اللہ صلی یتیم کے اہل و عیال کے ساتھ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے.جبکہ حضرت عبد اللہ بن ابو بکر اپنی والدہ حضرت ام رومان اور اپنی دو بہنوں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء کو لیکر نکلے.یہاں تک کہ خیر وعافیت سے مدینہ پہنچ گئے.رسول اللہ لی ہم اس وقت مسجد نبوی اور اسکے ارد گرد گھر بنا رہے تھے ، آپ نے اپنے ان اہل خانہ کو حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر میں ٹھہرایا.حضرت عثمان سے شادی 5 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رقیہ کی وفات کے بعد نبی کر یم لم وحی الہی کی بناء پر حضرت عثمان کو مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمایا اے عثمان ! یہ جبرائیل ہے جس نے مجھے خبر دی ہے کہ

Page 288

اولاد النبی 272 حضرت ام کلثوم بنت محمد 7 اللہ نے آپ کا نکاح ام کلثوم سے رقیہ کے مہر کے برابر اور انہی جیسی مصاحبت پر کر دیا ہے.ایک دوسری روایت میں حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم مسلم نے فرمایا.خدا نے مجھے بذریعہ وحی بتایا ہے کہ میں اپنی دو معزز بیٹیوں کی شادی عثمان سے کروں.حضرت عمر بن الخطاب نے بھی اس دوران اپنی بیٹی حفصہ کی شادی حضرت عثمان سے کرنے کی خواہش کی تھی.چنانچہ حضور علی یا تم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا.کیا میں تجھے بہترین داماد کے متعلق نہ بتاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا، جی یارسول اللہ علیم فرمایا میں تمہارے لئے اور عثمان میرے لئے بہترین داماد ہیں.اس طرح منشاء الہی کی بنا پر حضرت رقیہ کے بارہ اوقیہ حق مہر پر ہی آنحضور علی لال کی ایم نے حضرت حفصہ کو اپنے عقد میں لے لیا اور اپنی بیٹی اتم کلثوم کی شادی 3 ہجری میں حضرت عثمان سے کر دی.8 نبی کریم مسلم کی بیٹیوں میں سے کسی کا حق مہر بارہ 12 اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ہم نے اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کی شادی کی تو آپ نے ام ایمن سے فرمایا کہ میری بیٹی کو تیار کر دو اور اسے دلہن بنا کر عثمان کے پاس لے جاؤ.اور اسکے آگے دف بجاتی جانا.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.حضرت عثمان کا حسن سلوک نبی کریم ہم شادی کے تیسرے دن ان کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت ام کلثوم سے ان کا اور ان کے شوہر کا حال پوچھا اور فرمایا کہ تو نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ عرض کی، بہترین شوہر.تو نبی کریم نے فرمایا.امر واقعہ یہ ہے کہ تمہارے میاں لوگوں میں سے سب سے زیادہ آپ کے جد امجد ابراہیم اور تمہارے باپ محمد صلی علی الکریم سے مماثلت رکھتے ہیں.0 حضرت عثمان نے شادی کے بعد آنحضور ملی ی ی ی ی یتیم کی اس صاحبزادی کا بھی خاص خیال رکھا.اور ان کے لئے باعزت لباس و طعام کا انتظام کیا.حضرت انس بن مالک جو دس سال کی عمر سے رسول اللہ علی یم کے گھر خادم تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ہی علم کی صاحبزادی ام کلثوم کو ریشم کی دھاری دار چادر پہنے دیکھا.

Page 289

اولاد النبی 273 حضرت ام کلثوم بنت محمد حضرت ام کلثوم سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضور علی کریم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! میرے خاوند بہتر ہیں یا فاطمہ کے ؟ پہلے تو رسول اللہ صلی یا تم خاموش رہے.پھر فرمایا تیرا خاوند ان افراد میں سے ہے جو اللہ اور اس کے رسول ملی یا تم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ اور اس کا رسول بھی اسے چاہتے ر ہیں.آپ واپس جانے لگیں تو حضور طی می کنیم نے واپس بلا یا اور فرمایا کہ میں نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے کہا، آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میرا خاوند ان لوگوں میں سے ہے جو اللہ اور رسول سے محبت کرتے ہیں اور اللہ اور اس کا رسول اُس سے محبت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا ! ہاں ٹھیک کہتی ہو، اور میں اس پر زائد یہ کہتا ہوں "میں جنت میں داخل ہوا اور میں نے اس میں تیرے خاوند سے مقام و مرتبہ میں برابر کسی اور صحابی کو نہیں دیکھا وفات 14 15 13 " حضرت ام کلثوم بھی حضور می یم کی زندگی میں ہی شعبان 9 ہجری میں فوت ہوئیں.آپ کی نماز جنازہ آنحضور ملی تم نے خود پڑھائی اور آپ کی قبر کے پاس بیٹھے رہے.جبکہ حضرت علی، حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید قبر میں اترے.حضرت لیلی " بنت قانف الثقفیہ روایت کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثوم کو انکی وفات پر غسل دیا تو کفن کیلئے خود رسول کریم می کنیم دروازے کے پاس کھڑے ہو گئے.آپ باری باری ہمیں کفن کے کپڑے پکڑاتے تھے.آپ نے پہلے تہہ بند کیلئے کپڑا دیا پھر قمیص دی، پھر اوڑھنی اور لفافہ دیا.اس کے بعد ان کو ایک کپڑے میں لپیٹ دیا.0 حضور علی ایم نے جب حضرت ام کلثوم کو قبر میں رکھا تو یہ قرآنی آیت تلاوت فرمائی.مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا تُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (طہ: 56) یعنی اس سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا اور اس میں تمہیں دوبارہ لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری دفعہ تمہیں نکالیں گے.راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہم نہیں کہ آپ نے بِسمِ اللهِ وَفي سَبِيلِ اللهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ کی دعاپڑھی یا نہیں.جسکا مطلب ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ اور اسکی راہ میں اور اسکے رسول کی ملت پر.پھر جب آپ کی لحد تیار ہو گئی تو نبی کریم می کنیم قبر بنانے والوں کو مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر دیتے تھے اور فرماتے تھے ان سے اینٹوں کی درمیانی در زیں بند کرو پھر

Page 290

حضرت ام کلثوم بنت محمد 274 اولاد النبی فرمانے لگے کہ مردے کیلئے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت تو نہیں لیکن اس سے زندہ لوگوں کے دل کو ایک 16 اطمینان ضرور حاصل ہو جاتا ہے.حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ ہم حضور می یم کی بیٹی حضرت ام کلثوم کے جنازہ میں حاضر تھے.حضور طی می کنم قبر کے پاس بیٹھے آنسو بہا رہے تھے.حضور کے ارشاد پر حضرت ابو طلحہ ان کی قبر میں اترے.0 حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان کا رسول اللہ سلم کے سامنے ذکر ہوا تو حضور طی کنم نے فرمایا کہ وہ نور ہے.پوچھا گیا کہ نور سے کیا مراد ہے؟ فرمایا یہ نور آسمانوں، جنتوں اور آفتاب کانور ہے.اور یہ نور خوبصورت حوروں سے زیادہ تابناک ہے، اور میں نے اپنی دو بیٹیاں اس نور کے عقد میں دی ہیں.اسی لئے اللہ نے ان کا نام ملا اعلیٰ میں ذوالنور رکھا ہے اور جنت میں ذوالنورین.پس جو کوئی حضرت عثمان کو برا بھلا کہے گا اس نے مجھے برا بھلا کہا.0 حضرت ام کلثوم کی وفات پر حضرت عثمان کے اخلاص و وفا کو دیکھتے ہوئے آنحضرت میں ہم نے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہو تیں تو میں یکے بعد دیگرے تم سے بیاہ دیتا.آپ کی تدفین مدینہ منورہ میں ہوئی اور وہیں آپ کا مرقد ہے.جو غالب قیاس کے مطابق جنت البقیع 18 19 کے قبرستان میں ہے.اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ***: ****

Page 291

اولاد النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 275 حضرت ام کلثوم بنت محمد حوالہ جات مواهب اللدنیہ جلد 3 ص193 مصر مواهب اللہ نیہ جلد 3ص199 مصر طبقات الكبرى جلد 8 ص37 اسد الغابہ جلد 1 ص 1458 طبقات الکبری جلد 8 ص 165 166 ابن ماجہ افتتاح الكتاب في الايمان و فضائل الصحابة والعلم باب فضل عثمان مجمع الزوائد جلد 9ص92 بیروت مستدرک حاکم جلد 3ص115 بیروت ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی مهوى النساء الکامل لابن عدی جلد 5 ص134 بیروت الکامل لابن عدی جلد 5 ص 134 بیروت بخاری کتاب اللباس باب الحرير النساء مستدرک حاکم جلد 4 ص54 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص38 مسند احمد جلد 6ص 380 مسند احمد جلد 5ص 254 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعذب الميت تاریخ دمشق جلد 39ص47 الكبير لطبرانی جلد 22 ص436 اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول ص 168

Page 292

اولاد النبی فضائل 276 ย حضرت فاطمۃ الزہراء حضرت فاطمہ بنت محمد جب رسول اللہ علیم کی کمر پر کفار مکہ نے حالت سجدہ میں اونٹنی کی بچہ دانی رکھ دی تو آپ نے اسے آپ پر سے اٹھایا.پھر جنگ احد میں جب آنحضور کا چہرہ مبارک لہولہان ہوا تو حضرت فاطمہ نے مرہم پٹی کی.رسول اللہ لی لی ایم نے فرمایا: " فاطمہ اس امت کی عورتوں، تمام جہانوں کی عورتوں، بہشت میں جانے والی عورتوں اور ایمان لانے والی عوتوں کی سردار ہیں." آنحضور ملی کلیم نے فرمایا " فاطمہ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور اس کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے " دی.་་ اسی طرح فرمایا " فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ میں نے چال ڈھال، طور اطوار اور گفتگو میں حضرت فاطمہ سے بڑھ کر آنحضرت الی یا یتیم کے مشابہہ کسی کو نہیں دیکھا.آنحضور مریم کا کوئی بیٹا نہ تھا بیٹیوں میں سے آپ کی اولاد صرف حضرت فاطمہ سے چلی.جن کے دو بیٹوں حسن و حسین نے شہادت کا عظیم مرتبہ بھی پایا.ولادت حضرت فاطمہ آنحضرت لعلیم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں.آپ مکہ معظمہ میں ام المومنین حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں.آپ کے سن ولادت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے.مؤرخ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ صاحبزادہ ابراہیم کے علاوہ آنحضرت لی ایم کی تمام اولاد دعوی نبوت سے قبل پیدا ہوئی.بعض روایات کے مطابق بعثت نبوی سے پانچ برس پہلے خانہ کعبہ کی تعمیر کے زمانہ میں حضرت فاطمہ

Page 293

اولاد النبی 277 حضرت فاطمہ بنت محمد کی پیدائش ہوئی.اس وقت حضور سرور دو عالم کی عمر پینتیس 35 سال تھی.تاریخ طبری، تاریخ خمیس کے علاوہ اصابہ میں یہی روایت مذکور ہے.مندرجہ بالا روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کی ولادت پانچ سال قبل بعثت مانی جائے تو 2ھ میں بوقت شادی آپ کی عمر 20 برس بنتی ہے.مگر کسی سوانح نگار نے شادی کے وقت آپ کی اتنی عمر نہیں لکھی حتی کہ مستشرقین نے بھی زیادہ سے زیادہ عمر 18 سال لکھی ہے.تاہم مستند روایات کی رو سے آپ کی ولادت سن بعثت نبوی یا اس کے ایک سال بعد ما نیں تو آپ کی عمر شادی کے وقت 15 سے 16 بنتی ہے.بعض دیگر مستند روایات میں بعثت نبوی کے قریب زمانہ میں حضرت فاطمہ کی ولادت ہوئی جبکہ آنحضور طی یکم کی عمر اکتالیس 41 سال تھی.جبکہ حاکم، ابن سعد اور ابن عبدالبر نے بعثت نبوی سے ایک سال قبل آپ کا سن ولادت بتایا ہے.ان روایات کی تصدیق بعض دیگر قرائن سے بھی ہوتی ہے مثلاً یہ کہ حضرت فاطمہ حضرت عائشہ سے عمر میں پانچ سال بڑی تھیں اور حضرت عائشہ کی پیدائش معروف روایات کے مطابق بعثت کے چار سال بعد بیان کی جاتی ہے.اسی طرح سن 2 ہجری میں اپنی شادی کے وقت حضرت فاطمہ کی عمر 15 سال اور چند ماہ بیان ہوئی ہے.اس حساب سے بھی آپ کی پیدائش بعثت نبوی کے پہلے سال ہی بنتی ہے.جو زیادہ 2 قابل قبول ہے.بچپن اور تربیت حضرت فاطمہ کو بچپن سے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا.کم سنی میں ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا.شفیق باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول اللہ علیم کو دی جانے والی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا.کبھی آپ کے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ اور غلاظت پھینک دی جاتی کبھی اپنے والد کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان دیکھا تو کبھی مشرکوں نے آپ کے والد بزرگوار کے سر میں خاک ڈال دی.مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی حضرت فاطمہ نڈر ہو کر اپنے بزرگ باپ کی مددگار بنی رہیں.ایک دفعہ رسول کریم لی لی کہ تم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے.ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں مجلس لگائے بیٹھے تھے.ان سرداروں میں سے کسی ظالم نے مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جو اونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جاکر اس کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر

Page 294

اولاد النبی 278 حضرت فاطمہ بنت محمد رکھ دے.ان میں سے ایک بد بخت عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اونٹنی کی گند بھری بچہ دانی اٹھالا یا اور دیکھتارہا جو نہی نبی کریم سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپ کی پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا.حضرت عبداللہ بن مسعود کہا کرتے تھے کہ میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی رسول خدای نیم کی کچھ مدد نہ کر سکتا تھا.بس کف افسوس ملتا رہ گیا کہ اے کاش ان دشمنان رسول کے مقابل پر مجھے اتنی توفیق ہوتی کہ آپ کی تکلیف دور کر سکتا.اُدھر ان مشرک سرداروں کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ میں تم کو اذیت میں دیکھ کر استہزا کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کی حالت میں پڑے تھے ، بوجھ کی وجہ سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے.یہاں تک کہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ تشریف لائیں اور آپ کی پشت سے وہ غلاظت کا بوجھ ہٹایا.تب آپ نے سجدے سے سر اٹھایا.عبادت الہی سے روکنے اور استہزا کرنے والے ان جانی دشمنوں کے حق میں رسول الله علیم نے یہ فریاد کی " اللهم علَيْكَ بِقُرَيْشٍ " اے اللہ ! ان قریش کو تو خود سنبھال.یہ دعا بھی قبول ہوئی اور خدائی گرفت ان دشمنان رسول پر بدر کے دن آئی اور رسول اللہ صلی لی تم نے ان کا یہ عبرت ناک انجام بچشم خود دیکھا کہ میدان بدر میں ان کی لاشیں اس حال میں پڑی تھیں کہ تمازت آفتاب سے ان کے حلیے بگڑ چکے تھے.0 3 اپنے شفیق چا ابو طالب کی وفات کے بعد تو رسول اللہ علی ایم کی ایزاد ہی کا سلسلہ بہت تیز ہو گیا.یہاں تک کہ آپ کی ذات پر حملے ہونے لگے.ایک مرتبہ کسی بد بخت نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی.رسول کریم می کنم گھر تشریف لائے.آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ مٹی بھر اسر دھوتی اور ساتھ روتی جاتی تھیں.رسول اللہ علی یار تم انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا بیٹی ! رونا نہیں.اللہ تعالی تمہارے باپ کا محافظ ہے.پھر فرمایا قریش نے میرے ساتھ ابو طالب کی وفات کے بعد بد سلو کی کی حد کر دی ہے.حضرت فاطمہ کا اعلان نکاح 2 سنہ ہجری میں حضرت علی نے رسول اللہ صلی یا یک کم کی خدمت میں حضرت فاطمہ سے عقد کی درخواست کی جسے حضور نے بخوشی قبول فرمایا.اس وقت حضرت علیؓ نے ایک اونٹنی فروخت کی جس کی مالیت 480 درہم تھی.نبی کریم نے ہدایت فرمائی کہ اس رقم کا ایک حصہ خوشبو وغیرہ کے لئے، دوسرا حصّہ کپڑوں کے لئے اور تیسر احضہ دیگر اخراجات میں صرف کیا جائے.چنانچہ جب نکاح کا وقت آیا تو حضور طی یا کنیم

Page 295

اولاد النبی 279 حضرت فاطمہ بنت محمد 5 نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس حق مہر کیلئے کیا ہے.اس پر حضرت علیؓ نے نفی میں جواب دیا.حضور علیم نے فرمایا تمہاری وہ زرہ کہاں ہے جو میں نے تمہیں فلاں فلاں وقت میں دی تھی.چنانچہ حضرت علی نے حق مہر میں اپنی وہ زرہ مالیتی قریباً چار صد 100 درہم پیش کی.اس بابرکت نکاح کا اعلان خودر سول کریم ملی تم نے فرمایا جس میں مہاجرین وانصار کے بزرگ شامل ہوئے.رسول کریم صلی یا تم نے خطبہ نکاح ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:.سب تعریف اللہ کی ہے وہ اپنی نعماء اور قدرت کے لحاظ سے قابل پرستش اور اپنے غلبہ اور طاقت کے سبب واجب الاطاعت ہے ، وہ عذاب دینے کے لحاظ سے ایسی ذات ہے جس سے انسان ڈر جائے.اور نعمتوں کا مالک ہونے کے سبب ایسی ذات ہے جس کار عب دلوں پر طاری ہے ، وہ اپنے احکام زمین و آسمان میں جاری کرتا ہے، اس نے اپنی قدرت سے مخلوق کو پیدا کیا، پھر انسان کو اس میں سے دانائی کے ساتھ ممتاز کیا.اپنی عزت کے ساتھ اسے حکومت بخشی اور اپنے دین کے ساتھ اس کو معزز بنایا.پھر اپنے نبی محمد ال نیم کے ذریعہ ان کی تکریم کی.وہ خدا جس نے مصاہرت کے تعلق کو نسب سے ملا کر ، اس(نکاح) کو فرض ٹھہرایا جس سے برائیاں زائل ہوئیں اور رحموں کو اس نے زینت بخشی.پھر اس امر (یعنی صلہ رحمی و مصاہرت ) کو لوگوں کے لئے لازم حال قرار دیا.چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا.( یعنی اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا اور اسے آبائی اور سسرالی رشتوں میں باندھا اور تیرا رب دائمی قدرت رکھتا ہے.) اس کا حکم اس کی قضاء کو جاری کرتا ہے ،اسکی قضاء اسکی قدر کی طرف چلتی ہے اور اسکی قدر اپنی اجل کی طرف جاتی ہے.ہر ایک اجل کے لئے وقت مقدر ہے.پھر خدا جس (حکم) کو چاہتا ہے اس کو مٹاتا اور جس کو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور ام الکتاب اسی کے پاس ہے.اس کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ نے مجھے حکم دیا کہ فاطمہ کا علی سے نکاح کروں اور میں نے اس چار سو مثقال کے مہر پر اس کا نکاح کر دیا ہے." خطبہ کے بعد آنحضور طی تم نے چھوہاروں کا ایک طشت تقسیم کروایا.پھر آپ نے نئے جوڑے کو دعا دی خدا تمہاری پریشانیاں دور کرے، تمہارا انصیب نیک کرے اور تم دونوں میں برکت دے اور تم سے

Page 296

اولاد النبی 280 حضرت فاطمه بنت محمد بہت سی پاک اولاد پیدا ہو." پھر رسول اللہ صلی یا تم منبر سے اتر آئے اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم بھی کچھ کہو جس پر انہوں نے خدا کی حمد کی اور حضور علی یا تم پر درود بھیجنے کے بعد کہا کہ رسول الله طی می کنم نے اپنی لڑکی فاطمہ کا مجھ سے نکاح کیا ہے اور میری یہ زرہ اس کا مہر ہے اور میں اس پر راضی ہوں.حضرت فاطمہ کی تقریب رخصتی (6 تم رسول پاک طی کریم نے اس مبارک جوڑے پر اپنے وضو کا پانی چھڑک کر دعائے خیر دی.حضرت اسماء بنت عمیں کہتی تھیں کہ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب رسول کریم مالی علی الامر ان دونوں کیلئے بوقت رخصتی خاص دعا کر رہے تھے.آنحضرت علی علی کریم نے نہایت سادگی سے حضرت فاطمہ کو رخصت کیا اور انہیں نصیحت کے رنگ میں فرمایا "تمہارا شوہر دنیاو آخرت میں سردار ہو گا.یہ میرے اولین صحابہ میں سے ہے اور علم و حلم میں دوسروں سے بڑھ کر ہے " ضرورت کی چند گھریلو چیزیں جو حضرت فاطمہ کو دی گئیں ان میں کمبل ، تکیہ، چار پائی، بستر ، چادر ، آٹا پینے کی چکی، چھانی، مشکیزہ، پیالہ اور دو گھڑے شامل تھے.یہ تھی بوقت شادی سرکار دو عالم کی صاحبزادی کی کل کائنات.حضرت علیؓ کی زندگی بھی درویشانہ تھی.دعوت ولیمہ تک کے لئے کچھ انتظام نہ تھا.چنانچہ جنگل سے گھاس کاٹ کر شہر کے سناروں کو بیچ کر ولیمے کے لئے رقم اکٹھی کرنے کا ارادہ کیا.مگر جب یہ بھی ممکن نہ ہوا تو خو در سول کریم علی، حضرت سعد اور بعض اور صحابہ کی اعانت سے پر وقار ولیمہ کی تقریب ممکن ہوئی.جو کھجور ، منقہ ، جو کی روٹی ، پنیر اور شوربے کی دعوت تھی.اس زمانے کے اقتصادی حالات اور غربت اور سادگی کا اندازہ حضرت اسماء کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے.آپ فرماتی تھیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا.0 حضرت فاطمہ سے محبت و شفقت حضرت فاطمۃ الزھراء رسول الله علی علیم کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھیں.آپ کی محبت بھری تربیت کا اثر تھا کہ حضرت فاطمہ میں بھی آپ کی پاکیزہ سیرت کار نگ جھلکتا نظر آتا تھا.

Page 297

اولاد النبی 281 حضرت فاطمہ بنت محمد حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال، طور اطوار اور گفتگو میں حضرت فاطمہ سے بڑھ کر آنحضرت علی مریم کے مشابہہ کوئی نہیں دیکھا.سیدہ فاطمہ جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو حضور طی ملی را کم کھڑے ہو جاتے تھے محبت سے انکا ہاتھ تھام لیتے تھے اور اسے بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب آنحضور " حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی احترام میں کھڑی ہو جاتیں آپ کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضور کو بٹھاتیں.رسول الله تم مدینہ سے سفر پر روانہ ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دورکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ہی آکر اس زمانہ میں معاشی تنگی کے پیش نظر آپ اس نئے جوڑے کو قناعت اور صبر ودعا کی تلقین بھی فرماتے تھے.چنانچہ ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے تو سینے میں درد ہونے لگا ہے.تمہارے ابا کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں، جا کر درخواست کرو کہ ہمیں بھی ایک خادم عطا ہو.فاطمہ کہنے لگیں خدا کی قسم! میرے تو خود چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گٹے پڑگئے ہیں.چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں.آپ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا کہ سلام عرض کرنے آئی ہوں.پھر انہیں حضور طی تم سے کچھ مانگتے ہوئی شرم آئی اور واپس چلی گئیں.حضرت علیؓ نے پوچھا کہ کیا کر کے آئی ہو ؟ وہ بولیں کہ میں شرم کے مارے کوئی سوال ہی نہیں کر سکی.تب وہ دونوں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور علی کی کمی کی خدمت میں اپنا حال زار بیان کر کے خادم کے لئے درخواست کی.رسول کریم علی کریم نے فرمایا " خدا کی قسم! میں تمہیں دے دوں اور اہل صفہ (غریب صحابہ ) کو چھوڑ دوں ؟ جو فاقہ سے بے حال ہیں جبکہ ان کے اخراجات کے لئے کوئی رقم میسر نہیں.میں ان قیدیوں کے عوض ملنے والی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا" دوسری روایت سے رسول اللہ صلی علی الیتیم کے اس جواب کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں یہ قیدی پہلے ہی شہدائے بدر کے یتیم بچوں میں تقسیم کر چکا ہوں.یہ سن کر وہ دونوں واپس گھر چلے گئے.رات کو نبی کریم ملی ام ان کے گھر تشریف لے گئے.وہ دونوں اپنا کمبل اوڑھے لیٹے ہوئے تھے.رسول اللہ صلی علیم کو دیکھ کر اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا اپنی جگہ لیٹے رہو.پھر فرمایا تم نے مجھے سے

Page 298

اولاد النبی 282 حضرت فاطمہ بنت محمد جو مانگا کیا میں اس سے بہتر چیز تمہیں نہ بتاؤں ؟ انہوں نے کہا ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا یہ چند کلمات ہیں جو جبریل نے مجھے سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ ، دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو.جب رات بستر پر جاؤ تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو.دوسری روایت میں تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور چونیتیس مرتبہ اللہ اکبر کے ساتھ آخر پر لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ پڑھنے کا بھی ذکر ہے.12 حضرت علی فرماتے تھے جب سے رسول اللہ لی ہم نے مجھے یہ کلمات سکھائے میں انہیں آج تک پڑھنا نہیں بھولا.کسی نے تعجب سے پوچھا کہ جنگ صفین کے ہنگاموں میں بھی آپ یہ نہیں بھولے؟ کہنے لگے ہاں جنگ صفین میں بھی یہ ذکر الہی کرنا میں نے یادر کھا تھا.13 الغرض رسول الله علی تم نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ کو ذکر الہی کی طرف توجہ دلا کر سمجھایا کہ خدا کی محبت میں ترقی کرو.اللہ خود تمہاری ضرورتیں پوری فرمائے گا.تم خدا کو نہ بھولو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا.اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ کے حالات دیکھ کر ان کیلئے رسول اللہ ہم نے یہ دعا بھی کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ آئے.فاطمہ فرماتی ہیں اس کے بعد کبھی مجھے بھوک کی تکلیف نہیں پہنچی.0 بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے کشائش عطا فرمائی تو آنحضرت لم تم نے حضرت فاطمہ کو ایک عمر رسیدہ خادم بھی عطا فرمایا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ کے پاس جو اوڑھنی تھی اس سے پورا جسم نہیں ڈھانپا جاسکتا تھا.اگر سر ڈھانپتیں تو ٹانگیں برہنہ ہو جاتیں اور اگر ٹانگیں ڈھانپتیں تو سر نگا ہو جاتا.اس پر حضرت فاطمہ نے یہ صور تحال بتا کر آنحضور میں ہم سے اس بوڑھے خادم سے پردہ کی بابت پوچھا تو آپ نے جواب دیا وہ تمہارے باپ کی طرح ہے اور تمہار اغلام ہے تربیت اولاد 14 11 نبی کریم کو اپنی اولاد کی تربیت کا بہت خیال تھا آپ ان کیلئے دعائیں کرتے ، انہیں اہل بیت کے پاکیزہ مقام پر ہونے کے لحاظ سے عبادات اور نیکیوں کی طرف توجہ دلاتے ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم چھ ماہ تک فجر کی نماز کے وقت حضرت فاطمہ کے دروازے کے پاس گزرتے ہوئے فرماتے رہے."اے اہل بیت ! نماز کا

Page 299

اولاد النبی 283 حضرت فاطمہ بنت محمد 15 وقت ہو گیا ہے " پھر آپ سورہ احزاب کی آیت : 33 پڑھتے کہ "اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے " آنحضور ٹیم کو اپنی اولاد کی نماز تہجد کی ادائیگی کی بھی فکر لاحق ہوتی تھی.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ہمارے گھر تشریف لائے اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لئے بیدار کیا.پھر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کئے.اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو.حضرت علیؓ کہتے ہیں میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہ بیٹھا " خدا کی قسم ! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں.ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اُٹھا دے "رسول کریم طی می کنیم و واپس لوٹے.آپ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے پہلے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ "ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے" پھر یہ آیت تلاوت کی "وَكَانَ الْإِنْسَابُ اَكْثَرَ شَيْ ءٍ جَدَلًا" کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے.16 حضرت فاطمہ کی مالی قربانی حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنت ہبیرہ نامی ایک خاتون نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں.نبی کریم اپنی لاٹھی سے ان کو ہلاتے جاتے تھے اور فرمانے لگے کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تمہارے ہاتھ میں آگ کی انگوٹھیاں ڈال دے؟ اس نے حضرت فاطمہ کے پاس آکر اس بات کا شکوہ کیا.حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ ادھر میں نبی کریم ملی یتیم کے ساتھ روانہ ہو گیا، نبی کریم گھر پہنچ کر دروازے کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اجازت لیتے وقت آپ کا یہی معمول تھا.اس وقت حضرت فاطمہ کے ہاتھ میں سونے کی ایک لڑی تھی اور وہ اس خاتون سے مخاطب تھیں کہ یہ سونے کی لڑی دیکھو جو مجھے ابو الحسن نے تحفہ دیا ہے، دریں اثناء نبی کریم ملی نہیں گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا، اے فاطمہ ! بات انصاف کی ہونی چاہیئے.کل کلاں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (م) کی صاحبزادی فاطمہ کے ہاتھ میں آگ کی لڑی ہے.پھر آپ نے انہیں ملامت کی اور وہاں رُکے بغیر ہی واپس تشریف لے گئے.تب حضرت فاطمہ نے وہ سونے کی لڑی فوراً فروخت کر کے اس کی قیمت سے ایک غلام خریدا اور اسے آزاد

Page 300

اولاد النبی 284 حضرت فاطمہ بنت محمد کر دیا.نبی کریم کو جب اس بات کا پتہ چلا تو آپ نے خوش ہو کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کی ہے جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات دی.حضرت فاطمہ کی محبت و خدمت رسول 17 حضرت فاطمہ بھی دلی محبت کے جذبہ سے اپنے مقدس باپ کا ہر طرح خیال رکھتی تھیں اور حتی الوسع ان کی خدمت کی سعادت پاتیں.ایک دفعہ کسی نے حضرت علی کی دعوت کی اور آپ کے لئے کھانا تیار کیا.حضرت فاطمہ نے حضرت علیؓ سے مشورہ کیا کہ کسی روز ہم بھی رسول اللہ لی لی تم کو اپنے ہاں دعوت پر بلاتے ہیں تاکہ آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں.چنانچہ انہوں نے آنحضور کو کھانے پر بلایا.آپ تشریف لائے.ابھی آپ نے اپنا قدم مبارک دروازہ کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھا کہ گھر کے ایک کونے میں تصویروں والا پردہ دیکھا، جسے دیکھتے ہی آپ واپس تشریف لے گئے، حضرت فاطمہ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ آپ جاکر پتہ کریں کہ حضور کس وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں.حضرت علی کہتے ہیں کہ میں حضور کے پیچھے گیا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی علی تیم کس چیز نے آپ کو واپس لوٹا دیا؟ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے یا کسی اور نبی کیلئے کسی ایسے گھر میں داخل ہو نا مناسب نہیں جہاں تصویروں والے نقش و نگار ہوں.اس واقعہ سے رسول الله علی ملک کے اس حسن تربیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جس کا آپ آپنی اولاد کیلئے خیال رکھتے تھے.حضرت ام سلمہ سے روایت ہے رسول اللہ علیم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ تشریف لائیں ان کے صاحبزادے حسن و حسین ہمراہ تھے.حضرت فاطمہ ہنڈیا میں کچھ کھانا حضور علیم کے لئے لائی تھیں ، وہ آپ کے سامنے رکھا.آپ نے پوچھا ابوالحسن یعنی حضرت علی کہاں ہیں حضرت فاطمہ نے عرض کیا کہ گھر میں ہیں.حضور ملی یا تم نے ان کو بلا بھیجا اور پھر سب اہل بیت بیٹھ کر کھانا کھانے لگے.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ملی تم نے کھانے سے فارغ ہو کر ان اہل بیت کے حق میں یہ دعا کی "اے اللہ ! جوان اہل بیت کادشمن ہو تو اس کا دشمن ہو جا اور جو انہیں دوست رکھے تو اسے دوست رکھنا " حضرت فاطمہ نے غزوات میں بھی رسول اللہ علیم کے ساتھ شریک ہو کر آپ کی خدمت کی توفیق 19 پائی.جنگ اُحد میں آنحضور طی یکم کا چہرہ مبارک زخمی اور لہو لہان ہوا تو حضرت فاطمہ اور حضرت علیؓ نے آپ کی مرہم پٹی کی.20

Page 301

اولاد النبی 285 حضرت فاطمہ بنت محمد حضرت فاطمہ کی بہن حضرت رقیہ کی وفات پر رسول کریم ملی تم اپنی صاحبزادی فاطمہ کو لے کر ان کی قبر پر آئے تو فاطمہ قبر کے پاس رسول کریم ملی ایم کے پہلو میں بیٹھ کر رونے لگیں.رسول اللہ صلیم دلاسا دیتے ہوئے اپنے دامن سے ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے.0 اولاد سے مشفقانہ اور عادلانہ سلوک 22 21 رسول اللہ صلی یا تم کا سلوک اپنی اولاد سے مشفقانہ ہونے کے ساتھ عادلانہ بھی تھا.آپ نے اپنے تمام اعزہ و اقارب کو اور خاص طور پر اپنی بیٹی فاطمہ کو کھول کر سنا دیا تھا کہ اللہ کے مقابل پر میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا.تمہارے عمل ہی کام آئیں گے.فتح مکہ کے سفر کا واقعہ ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نامی نے کچھ زیورات چرا لئے.اسلامی تعلیم کے مطابق چور کی سزا اس کے ہاتھ کاٹنا ہے.وہ عورت چونکہ معزز قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی اس لئے اس کے خاندان کو فکر ہوئی اور انہوں نے رسول اللہ صلی علی کی یتیم کے بہت پیارے اور عزیز ترین فرد اسامہ بن زید سے حضور کی خدمت میں سفارش کروائی کہ اس عورت کو معاف کر دیا جائے.اسامہ نے جب رسول اللہ مع سلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ کے چہرہ کا رنگ سرخ ہو گیا اور فرمایا کیا تم اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم کے بارہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو ؟ اسامہ نے عرض کیا یارسول اللہ لی تم میرے لئے اللہ تعالی سے بخشش طلب کریں.اسی شام کو نبی کریم علیم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا " تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حد قائم کرتے تھے.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا.مگر جہاں اولاد کے جائز حقوق کا سوال ہوتاوہاں آپ ان کی حمایت بھی فرماتے.فتح مکہ کے بعد بنو ہاشم نے خیال کیا کہ رسول اللہ لی یتیم کی جسمانی اولاد تو کوئی نہیں اور مردوں حضرت علی ہی بوجہ دامادی آپ کے وارث ہوں گے.انہوں نے حضرت علی کو ابو جہل کی بیٹی کے رشتہ کی پیشکش کر دی.دراصل وہ اس سیاسی شادی کے ذریعہ آئندہ حکومت و بادشاہت میں حصہ دار بننے کی کوشش میں

Page 302

اولاد النبی 286 حضرت فاطمہ بنت محمد تھے ، مگر رسول اللہ لی تم نے اسے پسند نہیں فرمایا.چنانچہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور درج ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:."آل ہشام علی بن ابی طالب سے اپنی بیٹی کا عقد کرنے کیلئے مجھ سے اس کی اجازت چاہتے ہیں لیکن میں اجازت نہ دونگا اور کبھی نہ دونگا.البتہ ابن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے.فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جس نے اس کو اذیت دی مجھ کو اذیت دی." نیز فرمایا " فاطمہ مجھ سے ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ (اس شادی کے ذریعہ ) اسے دین کے بارہ میں کہیں فتنہ میں نہ ڈالا جائے.خدا کی قسم رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن (ابو جہل) کی بیٹی بیک وقت ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں " رسول الله علی ایم کی حضرت فاطمہ کی اولاد سے محبت رسول کریم صلی یا تم نے اپنی اولاد کی تربیت کی بنیاد محبت الہی پر رکھی تاکہ وہ اللہ کی محبت میں پروان چڑھیں 25 اور یہ محبت ان کے دل میں ایسی گھر کر جائے کہ وہ غیر اللہ سے آزاد ہو جائیں.چنانچہ نبی کریم حضرت حسن اور حسین کو گود میں لے کر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر.حضرت فاطمۃ الزہراء کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں.شادی کے بعد حضرت فاطمہ صرف نو برس زندہ رہیں.اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین.پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت ام کلثوم.نویں سال حضرت محسن بطن مادر میں ہی فوت ہو گئے.اس جسمانی صدمہ سے حضرت فاطمہ بھی جانبر نہ ہو سکیں.لہذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و ام کلثوم کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں.رسول اللہ تم نے فرمایا اسامہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے سوائے (میری بیٹی) فاطمہ کے.خود اسامہ کہتے ہیں کہ آنحضرت علی لیا کہ تم انہیں اور حضرت حسینؓ کو دونوں رانوں پر بٹھا لیتے اور فرماتے "اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما 2011 26

Page 303

اولاد النبی 287 حضرت فاطمہ بنت محمد حضرت ابولیلی بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم کی خدمت میں حاضر تھے.کم سن حضرت حسن یا حسین میں سے کوئی آپ کی گود میں چڑھا ہوا تھا.اچانک بچے نے پیشاب کر دیا اور میں نے حضور صلی نیم کے پیٹ پر پیشاب کے نشان دیکھے.ہم ایک کربچے کی طرف آگے بڑھے تاکہ اسے اٹھا لیں.رسول اللہ میم نے فرمایا 29 28 میرے بیٹے کو میرے پاس رہنے دو اور اسے ڈراؤ نہیں پھر آپ نے پانی منگوا کر اس پر انڈیل دیا.حضرت یعلی عامری سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ علیم کے ساتھ ایک دعوت پر جارہے تھے کہ سامنے سے کم سن حسین دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظر آئے.رسول اللہ لی ہم نے کھیل کھیل میں ان کو پکڑنا چاہا تو وہ ادھر اُدھر بھاگنے لگے.رسول کریم صلی یا تم اس طرح ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا.پھر آپ نے اپنا ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر انہیں چومنے لگے اور فرمایا حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں (یعنی میرا ان سے گہرادلی تعلق ہے) جو شخص حسین سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے.حسین ہماری نسل ہے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم مسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کی پشت پر حسن اور حسین سوار تھے اور آپ اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کے بل چل رہے تھے اور ان بچوں سے باتیں کر رہے تھے کہ تمہارا اونٹ کتنا اچھا ہے اور تم دونوں سوار بھی کیسے خوب ہو.حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ھی یہ تم کو دیکھا حضرت حسنؓ آپ کے کندھے پر تھے اور فرمارہے تھے "اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ! ایک دفعہ رسول کریم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسن اور حسین آگئے انہوں نے سرخ قمیص پہنے تھے اور چلتے ہوئے ٹھوکریں کھا رہے تھے رسول کریم منبر سے اتر آئے اور انکو اٹھا لیا، اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں.میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھا تو مجھے سے رہا نہ گیا اور میں نے اپنی بات روک کر ان کو اُٹھالا یا " حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کر یم ملی لیکن ہمارے ہاں تشریف لائے.میں لیٹا ہوا تھا.حضرت حسن اور حضرت حسین نے پینے کیلئے کچھ مانگا.حضور علی میں اپنی اٹھے، ہمارے گھر میں ایک بکری تھی جس کا دودھ دوہا جا چکا تھا.آپ اس کا دودھ دوہنے لگے تو دوبارہ بکری کو دودھ اتر آیا.حسن حضور کے پاس آئے تو حضور عمل می کنیم 3011

Page 304

اولاد النبی 288 حضرت فاطمہ بنت محمد نے اُن کو پیچھے ہٹا دیا اور اُن کی بجائے حسین کو دودھ دیا.حضرت فاطمہ نے عرض کیا یارسول اللہ علی می کنیم 32 آپ کو زیادہ پیارا ہے.آپ نے فرمایا نہیں در اصل پہلے دودھ اس نے مانگا تھا.حضرت ابو بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یا کم نماز پڑھتے ہوئے جب سجدہ میں جاتے تھے تو بعض دفعہ حضرت حسنؓ آپ کی پشت یا گردن پر چڑھ جاتے.حضور طی می کنیم بہت نرمی سے ان کو پکڑ کر اُتارتے تاکہ گریں نہیں.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ لی لی ہم حضرت حسن کے ساتھ آپ جس طرح محبت سے پیش آتے ہیں ایسا سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے.فرمایا یہ دنیا میں میری خوشبو ہے.میرا یہ بیٹا سر دار ہے جو دو گروہوں میں صلح کروائے گا.® رسول اللہ صلی علی ایم کی وفات 34 10 ہجری میں آنحضرت میم کا وصال ہوا.وفات سے ایک روز قبل آنحضرت طی تم نے حضرت فاطمہ کو بلا بھیجا، آپ تشریف لائیں تو آپ اللہ کریم نے ان سے کان میں کچھ بات فرمائی.جس پر حضرت فاطمہ رونے لگیں.پھر آپ نے بلا کر کان میں کچھ کہا جس پر وہ ہنس پڑیں.حضرت عائشہ نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ پہلی دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں انتقال کروں گا.جب میں رونے لگی تو فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے آکر ملو گی تو میں ہنسنے لگی.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ (حضور کی بیماری میں) آئیں نبی کر یم ا ہم نے فاطمہ کو خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں طرف یا شاید بائیں جانب بٹھایا.حضرت فاطمہ کو اپنے مقدس باپ سے جو محبت اور عشق تھا اسی وجہ سے آپ سے اپنے والد کی تکلیف دیکھی نہیں جارہی تھی بے ساختہ کہہ اٹھیں وائے میرے باپ کی تکلیف.اس پر آنحضرت علیل ہم نے فرمایا آج کے بعد تمہارے باپ کو کوئی تکلیف نہ رہے گی.رسول اللہ علی ایم کی وفات پر حضرت فاطمہ کی زبان سے جو جذباتی فقرے نکلے، ان سے بھی آپ کی گہری محبت پدری کا اظہار ہوتا ہے، آپ نے حضرت انسؓ سے کہا کہ وائے افسوس میرے ابا ! ہم آپ کی موت کا افسوس کس سے کریں ؟ کیا جبریل علیم سے ؟ وائے افسوس! ہمارے ابا! آپ اپنے رب کے کتنے قریب تھے ! ہائے افسوس! ہمارے ابا ہمیں داغ جدائی دے کر چلے گئے جنہوں نے جنت الفردوس میں گھر بنالیا.ہائے افسوس! میرے ابا ! جنہوں نے اپنے رب کے بلانے پر لبیک کہا اور اس کے حضور حاضر ہو گئے.

Page 305

اولاد النبی 289 حضرت فاطمہ بنت محمد پھر جب آنحضور طی یکم کی تدفین مکمل ہو چکی تو حضرت فاطمہ نے حضرت انس خادم رسول سے فرمایا.اے انس ! تم لوگوں نے رسول اللہ صلی نیلم کے اوپر مٹی ڈالنے کو کیسے گوارا کر لیا.حضرت فاطمہ نے اپنے مقدس باپ کی وفات پر غمناک دل اور آنکھوں سے رواں آنسوؤں کے ساتھ جو مرثیہ کہا اس کا ایک لاجواب شعر ہے.آپ فرماتی ہیں:.صُبَّتْ عَلَيَّ مَصَائِبَ لَوْ أَثْهَا صبتُ عَلَى الْأَيَّامِ عُدْنَ لَيَالِيَا یعنی مجھ پر ایسے مصائب ٹوٹ پڑے کہ اگر دنوں پر پڑتے تو انکور اتوں میں بدل دیتے.36 حضور ملی ایم کے وصال کے بعد جب خلافت راشدہ کا خدائی وعدہ پورا ہوا تو قیام خلافت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام خوف دور کر دیئے.خلافت کو بتدریج استحکام نصیب ہوا.حضرت ابو بکر نے پہلا نہایت پر حکمت قدم یہ اٹھایا کہ قوم کی شیرازہ بندی کی.مسئلہ میراث مدینہ سے دودن کے فاصلہ پر فدک نام سے کھجوروں وغیرہ کے باغات پر مشتمل سر سبز علاقہ تھا.جہاں یہودی آباد تھے.یہودِ خیبر کی شکست کے بعد انہوں نے بھی آنحضور سے صلح کر کے فدک کے تمام باغات اور اموال کا نصف آپ کو دے دیا تھا.جو بغیر جنگ کے حاصل ہونے کے باعث مال فئے یعنی رسول اللہ لی لی کہ تم کے خالص تصرف میں تھا.جسے آپ اپنے اقارب، یتامی، مساکین اور مسافروں وغیرہ کے لیے خرچ کرنے کا مکمل اختیار رکھتے تھے.(الحشر: 7,8) چنانچہ رسول اللہ صلی علی نام یہ اموال اس اختیار کے مطابق اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ کرتے رہے.اس لیے آپ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ کو طبعا خیال ہوا کہ شاید یہ اموال آپ کی اولاد کے قبضہ و تصرف میں آئیں گے.مگر حضرت ابو بکر خلیفہ راشد نے وضاحت فرما دی کہ یہ قومی اموال رسول اللہ کے خلفاء کے قبضہ اور تصرف میں رہیں گے اور آلِ رسول طلعلیم کے اخراجات حسب سابق اس سے پورے کیے جاتے رہیں گے.چنانچہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی سلیم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے حضرت ابو بکر صدیق سے درخواست کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو اللہ تعالی نے آپ کو بطور فئے عنایت فرمایا تھا اس میں ان کا حصہ میراث ان کے سپرد ہو تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ رسول

Page 306

اولاد النبی 290 حضرت فاطمہ بنت محمد اللہ علیم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کا ورثہ نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے ( بخاری میں ہی اس فقرہ کی وضاحت موجود ہے کہ "ہم انبیاء" کی جماعت سے مراد یہاں رسول اللہ علی مہم کا اپنا وجود ہے، دیگر انبیاء اس میں شامل نہیں) حضرت ابو بکرؓ نے رسول اللہ کے اس ارشاد کی تعمیل میں کہا کہ رسول اللہ علیم نے جس طرح ان اموال میں تصرف فرمایا میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا.میں ڈرتا ہوں کہ اگر آنحضور کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دکر میں گمراہ نہ ہو جاؤں.39 بخاری کی دوسری روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ میں نے رسول الله طی یکم سے سنا ہے کہ ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ آل محمد اپنی گزر بسر کے لیے اس میں سے لے سکتے ہیں، رہا حسن سلوک تو خدا کی قسم ! میں رسول اکرم لی ایم کے رشتہ داروں سے سلوک کرنے کو اپنے رشتہ داروں سے زیادہ پسند کرتا ہوں.خلیفہ بر حق حضرت ابو بکر کے اس نہایت عادلانہ اور حق و حکمت پر مشتمل فیصلہ پر بظاہر کوئی ناراضگی والی بات نہیں تھی.لیکن بفرض محال کسی غلط فہمی کے نتیجہ میں اور تقاضہ بشری سے حضرت فاطمہ کو کوئی وقتی رنجش پیدا بھی ہوئی تو وفات سے قبل وہ دور بھی ہو گئی تھی.اور ایسی رنجش کا کسی اجتہادی رائے کی وجہ سے پیدا ہو نا قابل اعتراض نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ابو بکر صدیق اور دیگر صحابہ (حضرت فاطمہ وغیرہ) کی ایسی کسی امکانی رنجش کے بارہ میں کیا خوبصورت رہنمائی فرماتے ہیں کہ آپ (حضرت ابو بکر سے مومنوں کے لیے فلاح و بہبود ہی ظاہر ہوئی.آپ ایذا اور دکھ دینے کی تہمت سے پاک تھے...جس نے دنیا سے صرف اسی قدر حصہ لیا جتنا اس کی ضرورتوں کے لیے کافی تھا تو پھر تو کیسے خیال کر سکتا ہے کہ اس نے رسول اللہ میم کی آل پر ظلم روا رکھا ہو گا.باوجودیکہ اللہ نے آپ کو آپ کی حسن نسیت کی وجہ سے ان سب پر فضیلت عطا فرمائی ہوئی تھی...اور ہر جھگڑا نیتوں کے فساد پر مبنی نہیں ہوتا جیسا کہ جہالت کے بعض پیروکاروں نے خیال کیا ہے بلکہ اکثر جھگڑے اجتہادات کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں.سب سے زیادہ مناسب اور درست طریق یہی ہے کہ ہم کہیں کہ خیر الکائنات علی علیم کے بعض صحابہ میں آغاز تنازعات در اصل اجتہادات تھے نہ کہ ظلم اور بدکاریوں کا ارتکاب.اور مجتہد اگرچہ خطا کار ہوں وہ قابل

Page 307

اولاد النبی 291 حضرت فاطمہ بنت محمد معافی ہوتے ہیں.کبھی کبھی صلحاء بلکہ اکا بر اتقیاء اور اصفیاء کے تنازعات میں بھی کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے.اور اس میں اللہ رب العالمین کی مصلحتیں ہوتی ہیں.الہذا جو کچھ بھی ان (صحابہ) کے درمیان واقع ہوا یا ان کی زبانوں سے نکلا اسے بیان کرنے کی بجائے اسے 41" لپیٹ دینا ہی مناسب ہے اور ان کے امور کو اللہ کے حوالہ کر ناجو کہ صالحین کا متولی ہے واجب ہے." چنانچہ رسول اللہ علیم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ چھ ماہ زندہ رہیں.آپ کی آخری بیماری میں حضرت ابو بکر خلیفہ المسلمین خود عیادت اور ملاقات کے لئے تشریف لائے اور حضرت فاطمہ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ کو اطلاع دی جس پر آپ ان کے پاس تشریف لائے.حضرت ابو بکر نے اس موقع پر ایک بار پھر واضح فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے تو اپنا گھر بار ، خاندان اور قبیلہ صرف خدا کی رضا، اس کے رسول کی رضا اور اہل بیت سے محبت کی خاطر چھوڑا تھا.الغرض حضرت ابو بکر کے سمجھانے اور حقیقت کھل جانے پر حضرت فاطمہ ان سے راضی ہو گئیں.اور یوں ان کا انجام بخیر ہوا.تاریخی لحاظ سے یہ بات اتنی 42 پختہ ہے کہ خود شیعہ لٹریچر سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر حضرت فاطمہ کے پاس آئے اور وہ ان سے راضی ہو گئیں.وفات 43 حضرت فاطمہ نے اپنے والد بزرگوار رسول خدا نیم کی وفات کے چھ مہینے بعد تین 3 رمضان سن 10 ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی.وفات کے وقت آپ کی عمر 21، 22 برس تھی.حضرت ام جعفر (اسماء بنت عمیس ) روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ نے حضرت اسماء سے کہا کہ عورتوں سے (بوقتِ وفات) جو معاملہ ہوتا ہے وہ مجھے پسند نہیں کہ ان کے اوپر محض ایک کپڑا ڈال دیا جاتا ہے اور اس کی جسمانی ساخت ظاہر ہورہی ہوتی ہے.حضرت اسماء نے کہا کہ رسول اللہ علیم کی صاحبزادی کیا میں آپ کو ایسی چیز نہ دکھاؤں جو میں نے حبشہ کے ملک میں دیکھی تھی.پھر انہوں نے کچھ کھجور کی شاخیں منگوائیں اور پھر اس پر ایک کپڑاڈال دیا.اس پر حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ یہ کتنا عمدہ طریق ہے.اس سے جو مرداور عورت کے مابین ما بہ الامتیاز ہو سکتا ہے.پس جب میری وفات ہو تو آپ حضرت علیؓ کے ساتھ مل کر مجھے غسل دینا اور دیکھنا کوئی اور اس وقت اندر داخل نہ ہو.

Page 308

اولاد النبی 292 حضرت فاطمہ بنت محمد چنانچہ حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ اندر آنے لگیں تو حضرت اسماء نے کہا کہ آپ اندر نہ آئیں جس پر انہوں نے حضرت ابو بکر سے شکایت کی کہ اسماء نے مجھے رسول اللہ ملی تیم کی صاحبزادی کا تجہیز و تکفین دیکھنے نہیں دیا اور انہوں نے دلہن کی طرح ان کا ہو رج بنارکھا ہے.حضرت ابو بکر تشریف لائے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر استفسار فرمایا کہ آپ نے کیوں ازواج النبی کو ان کی رسول اللہ علیم کی صاحبزادی کی تجہیز و تکفین پر آنے سے روکا اور کیوں دلہن کی طرح ہو رج تیار کیا؟ اس پر حضرت اسماء نے جواباً فرمایا کہ حضرت فاطمہ نے یہ طریق (حبشہ کا ) اپنی زندگی میں دیکھ کر مجھے ہدایت کی تھی اور کہ میرے جنازہ کیلئے بھی ایسا ہی انتظام کرنا.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جیسا انہوں نے کہا تھا ویسا ہی کرو.حضرت فاطمہ کی قبر کے متعلق بھی اختلاف ہے.ایک روایت کے مطابق وہ جنت البقیع میں حضرت امام حسن کے مزار کے پاس مدفون ہوئیں لیکن ابن سعد کے مطابق وہ دار عقیل کے ایک گوشہ میں مدفون ہیں.امام جعفر سے روایت ہے کہ جب حضرت فاطمہ کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر جنازہ کیلئے تشریف لائے تو حضرت ابو بکر نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ آپ آگے آکر جنازہ پڑھائیں.حضرت علیؓ نے کہا کہ آپ خلیفہ رسول ہیں آپ ہی نماز جنازہ پڑھائیں.چنانچہ حضرت ابو بکر نے حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھائی.46 حضرت فاطمہ کا مقام رسول اللہ لی لی ایم کی نظر میں رسول اللہ صلی یا تم نے حضرت فاطمہ کے بارہ میں فرمایا:." فاطمہ بہشت میں جانے والی عورتوں اور ایمان لانے والی عوتوں کی سردار ہیں " " فاطمہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں " 47 11 فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں " 49 50 " فاطمہ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے " © " جس نے فاطمہ کو ایزادی اس نے رسول کو ایزادی" 51

Page 309

حضرت فاطمہ بنت محمد 293 اولاد النبی حضرت فاطمہ حدیث کی روایت میں بہت محتاط تھیں.کتب احادیث میں آپ سے صرف اٹھارہ 18 حدیثیں مروی ہیں.آپ سے روایت کرنے والے حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ **: ***

Page 310

اولاد النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 294 حضرت فاطمہ بنت محمد حوالہ جات الوفا جلد 1 ص 427-الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر جلد 8 ص54 مستدرک حاکم جلد 3 ص176.اسد الغابہ ص 264.الاصابہ جلد 8 ص54.فتح الباری لابن حجر جلد 7ص105.الاستیعاب ص612 بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء على المشركين بالهزيمة السيرة النبوية لابن ہشام جلد 2 ص 26 ابن سعد جلد 8 ص 19 تا 21 - السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 374.اسد الغابہ ص1396 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 374 - خطبات النبوى طلع ع ا ل ت م ص 71،70 استیعاب جلد 1 ص338، زرقانی جلد 2ص4 مسند احمد جلد 5ص359 و مجمع الزوائد جلد 4 ص50 ترمذی کتاب المناقب باب فضل فاطمه ابو داؤد کتاب الادب باب ماجاء فی القیام بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک ابو داؤد کتاب الخراج باب فی بیان مواضع قسم المنس.مسند احمد جلد 1ص106 الخصائص الكبرى السيوطى جلد 2 ص 111 ابو داؤد کتاب اللباس باب فی العبد ينظر الى شعر مولاته ترمذی کتاب التفسیر سوره احزاب مسند احمد جلد 1 ص91 مسند احمد جلد 5 ص 278

Page 311

اولاد النبی 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 295 حضرت فاطمہ بنت محمد ابو داؤد کتاب الاطعمه باب الرجل یدعی فیری مکروھا مجمع الزوائد ٹھیثمی جلد 9ص262 مطبوعہ بیروت بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد سنن الكبرى الميقى كتاب الجنائر باب سیاق اخبار على جوازا لبكاء بعد الموت بخاری کتاب التفسير سورة الشعراء بخاری کتاب المغازی باب مقام النبی سی ام ز من الفتح بخاری کتاب النمس باب ماذکر من درع النبی طهم مسند احمد جلد 2ص446 بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب ذکر اسامہ بن زید مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 348 متدرک حاکم جلد 3 ص194 بیروت مجمع الزوائد تھیثمی جلد 9ص 291 بیروت بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب 22 ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین مجمع الزوائد ٹھیثمی جلد 9 ص 268 بیروت مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص 38.37 بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوه ابن ماجہ کتاب الجنائز بابذ کر وفاته طال القلم الوفا باحوال المصطفے لابن الجوزی جلد 2 ص 22 فتوح البلدان لبلاذری فتح الباری لابن حجر جلد 6ص202

Page 312

اولاد النبی 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 296 بخاری کتاب النمس باب فرض الخمس حضرت فاطمہ بنت محمد بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب مناقب قرابة رسول الله لي علي التم سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 81 تا83 للبيهقى دلائل النبوة مبيھقی جلد 8 ص 460 ، طبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص27 منہاج السالکین اور نہج البلاغۃ کی شرح ابن میثم البحرانی کنز العمال جلد 13 ص 686 طبقات ابن سعد جلد 8 ص28،27 کنز العمال جلد 12 ص 515 بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة بخاری کتاب الاستئذان باب من ناجی بین یدی الناس مستدرک حاکم جلد 3 ص170 بیروت متدرک حاکم جلد 3 ص167 بیروت مستدرک حاکم جلد 3ص168 بیروت

Page 313

اولاد النبی 297 حضرت امام حسن حضرت امام حسن نام و نسب حضرت حسن رسول اللہ علیم کے نواسے اور اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب بن عبد المطلب کے صاحبزادے تھے.آپ رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے بطن سے تھے اور کنیت ابو محمد تھی.آپ کے والد حضرت علی بن ابی طالب بن عبد المطلب آنحضور طی عالم کے چچازاد بھائی تھے.حضرت حسنؓ کی ولادت با سعادت ہجرت مدینہ کے تیسرے سال 15 رمضان المبارک کو ہوئی.رسول اللہ صلی علی کریم نے خود اپنے نواسے حضرت حسن کے کان میں اذان کہی.نبی کریم فرماتے تھے کہ ہر بچہ اپنے عقیقہ کی قربانی کے عوض رہن ہوتا ہے.مطلب یہ کہ دنیا جو آفات و آلام کا گھر ہے یہاں پر متنفس کو مصائب و آلام در پیش ہیں.لہذا کسی بیماری حادثہ یا تقدیر شر سے حفاظت کے لیے اس کی طرف سے رڈ بلا کے طور پر جانور کی قربانی کر دینی چاہیئے.2 آپ ہدایت فرماتے تھے کہ حسب توفیق لڑکے کی طرف سے دو مینڈھے اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور قربانی، دعا کی خاطر ذبح کروا کے گوشت رشتہ داروں اور مستحقین میں تقسیم کیا جائے.اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش پر حضرت فاطمہ الزہراء نے اس کی طرف سے دو مینڈھوں کی قربانی کرنا چاہی.مگر معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم الی یا ہم خود اپنے نواسے کے عقیقہ کا ارادہ فرما چکے تھے.آپ نے فرمایا کہ تم اس کا عقیقہ نہ کرو بلکہ اس کا سر منڈوا کر اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کر دو.پھر خود رسول اللہ علی یا ہم نے ساتویں روز حضرت امام حسن کے عقیقہ کیلئے دو مینڈھے ذبح کروائے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ حسن کی پیدائش پر رسول کریم ملی یا کریم ہمارے گھر تشریف لائے اور فرمایا مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ.تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے ؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا.میں نے اس کا نام "حرب" تجویز کیا ( حرب کے معنے جنگ کے ہیں ) رسول اللہ علیم نے فرمایا نہیں اس کا نام "حسن " ہے یعنی ظاہری 3

Page 314

اولاد النبی 298 حضرت امام حسن حسن اور باطنی خوبیوں کا مرقع.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں حسن اور حسین وغیرہ جیسے نام رکھنے کا رواج نہ تھا اور یہ جنت کے ناموں میں سے ہیں.یوں رسول اللہ لی لی کہ تم نے جس حسین انقلاب آفریں دور کا آغاز فرمایا اس کے ناموں کو بھی حسن سے بھر کے اسم با مسمی بند کی بنادیا.حضرت حسن شکل و صورت میں رسول اللہ صلی یی یتیم سے اتنی مشابہت رکھتے تھے کہ شبیہ رسول کے لقب سے معروف تھے.حضرت علی فرماتے تھے کہ حضرت حسن سر سے سینہ تک رسول اللہ علیم سے مشابہ 5 حضرت ابو جحیفہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم طی می کنیم کو دیکھا ہوا ہے.حضرت حسن بالکل آپ کی رض شباہت پر تھے.جب ان سے حضرت حسن کا حلیہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کار نگ سفید تھا.حضرت عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر نے حضرت حسنؓ کو اٹھار کھا ہے اور کہہ رہے ہیں بِأَبِي شَبِيهُ بِالنَّئ لَيْسَ شَبِيهُ بِعَلِيَّ بخدا یہ بچہ ( حسن) تو بالکل نبی کریم میم کی صورت ہے، علی سے بالکل بھی مشابہ نہیں اور حضرت علی یہ سن کر مسکرا رہے تھے.0 حضرت ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ حضرت حسن بن علی کو کھلاتے ہوئے اچھالتی جاتی تھیں اور ساتھ یہ شعر بھی گنگناتی تھیں کہ حسن تو اپنے باپ علی سے کہیں زیادہ اپنے نانا کی شبیہ ہے.تربیت رسول حضرت حسن خاندان نبوت میں پروان چڑھنے والے پہلے لڑکے تھے جنہیں رسول اللہ لی لی امی کی صحبت کی سعادت میسر آئی.رسول اللہ لی لی یتیم بچوں کیلئے خصوصاً بے حد رحیم و کریم تھے اور حضرت حسنؓ نے آنحضرت میم کی شفقت و محبت اور رحمت سے بھی وافر حصہ لیا اسی لئے آپ ريحانة النبي کے لقب سے بھی یاد کئے جاتے ہیں یعنی نبی کریم عا لم کی خوشبو.اسی محبت کے صدقے آپ نے رسول الله السلام کی دعاؤں کا فیض بھی خوب پایا.

Page 315

اولاد النبی 299 حضرت امام حسن کیا ہی خوش نصیب تھے وہ بچے جنہوں نے رسول اللہ علیم کی گود میں نشوونما پائی.آپ کی بے پایاں شفقت پدری کے ایسے بے شمار واقعات میں سے ایک کا ذکر ہمیں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں یوں ملتا ہے کہ ایک دن رسول کریم ملی می کنم بنو قینقاع کے بازار میں تشریف لے گئے.واپسی پر حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں تشریف فرما ہوئے اور اپنے نواسہ کے بارہ میں استفسار کرتے ہوئے فرمایا ہمار انتھا یہیں ہے؟ ننھا یہیں ہے ؟ حضرت فاطمہ نے جلدی سے بیٹے کا منہ دھلا یا کپڑے پہنائے اور حسن دوڑتے ہوئے آکر رسول اللہ علیم سے چمٹ گئے.آپ نے انہیں گلے لگایا پیار سے بوسہ دیا اور دعا کی "اے اللہ ! اس سے محبت کر اور اس سے بھی کر جو اس سے محبت کرے.' حضرت ابو ہریرۃ کی ہی دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ علیم نے حضرت حسن کو بوسہ دیا اور اس وقت آپ کے پاس بنو تمیم کے قبیلہ کا سردار اقرع بن حابس بھی موجود تھا.اس نے کہا میرے دس بچے ہیں میں نے تو آج تک ان میں سے کسی کو نہیں چوما.رسول اللہ صلی یا تم نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.911 رسول اللہ لی یتیم بچوں سے اس تمام تر شفقت اور محبت کے باوجود اپنی اولاد کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے کوئی کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی.نبی کریم علم نے فرمایا کی کمی یعنی تھو کر دو.فرمایا بچے! کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم (اہل بیت) صدقہ نہیں کھاتے_ رسول الله علی کریم نے حضرت حسن کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے ہوئے انہیں نماز کی بعض دعائیں بھی یاد کروائیں.خود حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول الله علی لیا کہ تم نے مجھے وتر میں پڑھنے کیلئے یہ دعائے قنوت سکھائی.اللّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَن هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَن عَافَيتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَن تَوَلَّيتَ وَبَارِكَ لِي فِيمَا أَعطيتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيتَ إِنَّكَ تَقفِى وَلَا يُقفى عَلَيكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَن وَّالَيتَ وَلَا يَعِزُّ مَن عَادَيت تَبَارَکتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيتَ - ترجمہ : اے اللہ ! مجھے ہدایت عطا فرما ان میں سے جن کو تو ہدایت کرے.اور مجھے عافیت عطا فرما ان میں سے جن کو تو عافیت عطا کرے.اور مجھے دوست بنالے ان میں سے جن کو تو خود دوست بناتا ہے.اور جو کچھ

Page 316

اولاد النبی 300 حضرت امام حسن تو عطا کرے اس میں میرے لئے برکت ڈال دے.اور جو تو فیصلہ کرے اس کے شر سے مجھے بچالے.یقینا تو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا جو تجھے دوست بنالے وہ ذلیل نہیں ہوتا اور جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے وہ عزت نہیں پاتا.تو برکت والا ہے اے ہمارے رب ! تو بہت بلند شان والا ہے.محبت رسول 1311 12 حضرت معاویہ بن ابو سفیان بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ علی کیا کہ تم نے ایک دفعہ حضرت حسن کو اپنی گود میں لیا اور اپنے گہرے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا " یہ مجھ میں سے ہے.' حضرت ابن زبیر بیان کرتے تھے کہ میں نے حسن بن علی کو دیکھا ہے رسول اللہ لی تم نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں ہوتے اور حسن آپ کی پشت پر سوار ہو جاتے آپ خود انہیں نہیں اتارتے تھے یہاں تک کہ وہ تھک ہار کر خود اتر جاتے اور کبھی آپ رکوع کی حالت میں ہوتے.حسن آتے تو آپ آپنی ٹانگیں کشادہ کر دیتے تا کہ وہ وہاں سے دوسری جانب نکل جائیں.حضرت امیر معاویہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی ایم کو میں نے حسن کی زبان یا شاید ان کے ہونٹ 15 14 چومتے ہوئے دیکھا ہے.حضرت عیسیٰ بن عبد الرحمن اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ علی یتیم کے پاس حاضر تھے.کم سن حسن بن علی رینگتے ہوئے آئے وہ رسول اللہ صلی علی کریم کے سینہ پر چڑھ گئے اور وہیں پیشاب کر رض 16 دیا.ہم نے جلدی سے انہیں اٹھا لینے کی کوشش کی.نبی کریم نے فرمایا " کوئی بات نہیں، میرا بیٹا ہے ، میرا بیٹا ہے." پھر آپ نے پانی منگوا کر اپنے کپڑے کو دھودیا.0 حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ نبی میلی لی ا تم مجھے اٹھا کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے اور دوسری ران پر حضرت حسنؓ کو ، پھر ہمیں اپنے ساتھ چمٹا کر فرماتے "اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر." حضرت ابوہریرۃ کہا کرتے تھے کہ حضرت حسن کے ساتھ رسول اللہ علیم کی شفقت و محبت کا ایک نظارہ دیکھنے کے بعد سے میں ان کے ساتھ دلی محبت رکھتا ہوں.حضرت حسن رسول اللہ یتیم کی گود میں تھے اور وہ رسول اللہ ملی یک کم کی داڑھی کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیر رہے تھے.نبی کر یم ملتی تھی کہ تم اپنی زبان اس 1711

Page 317

اولاد النبی 18 301 حضرت امام حسن کے منہ میں ڈال رہے تھے.پھر آپ نے دعا کی "اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر." حضرت حسنؓ کے حق میں رسول اللہ لی لی ایم کی یہی دعا حضرت براہ سے بھی مروی ہے.رسول اللہ مسلم کی یہ دعائیں اپنے اس محبوب نواسہ کے بارہ میں ان کی زندگی میں کیسے مقبول ٹھہریں.حضرت ابوہریرہ ایک سفر کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی یتیم کے ساتھ حسن یا حسین اپنی والدہ کے ہمراہ شریک تھے آپ بچے کے رونے کی آواز سن کر جلدی سے ان کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ میرے بیٹے کو کیا ہوا.حضرت فاطمہ نے عرض کیا کہ پیاس سے روتا ہے.اس دن حالت سفر میں لوگوں کے پاس پانی نہ تھا.آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ اسے مجھے دے دو.پھر آپ نے حضرت حسنؓ کو اپنی چادر میں لے کر انہیں اپنے سینہ سے چمٹا لیا اور اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور وہ اسے چوسنے لگے یہاں تک کہ پر سکون ہو گئے.0 رسول اللہ صلی یا تم کو اپنی اولاد کے حق میں دعاؤں کے طفیل آئندہ زمانہ کے کچھ قبولیت کے نظارے بھی دکھائے گئے.حضرت ابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی نیم گفتگو فرمارہے تھے اور حسن آپ کی گود میں تھے.آپ صحابہ سے باتیں کرتے ہوئے کبھی ان کی طرف متوجہ ہوتے اور گاہے حسنؓ کی طرف توجہ فرما کر اس کو بوسہ دیتے اس دوران آپ نے فرمایا "میرا یہ بیٹا سردار ہو گا اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا." حضرت حسن سات سال کے کم سن بچے تھے کہ ان کے عظیم نانا کی وفات ہو گئی اور وہ ان شفقتوں کے گھنے سائے سے محروم ہو گئے.اگر اس وقت صاحبزادی فاطمۃ الزھراء کی دنیا اندھیر ہو گئی تو معصوم حسن کے دل و دماغ پر کیا بیتی ہو گی.دور خلافت راشده خلافت حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں آپ نے اپنے نانا کے بعد خلیفہ راشد حضرت ابو بکر سے وہی محبت واحسان کا سلوک دیکھا.جس کا ایک نظارہ حضرت عقبہ بن حارث کی اس روایت سے سامنے آتا ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم کی وفات کے چند روز بعد کا ذکر ہے حضرت ابو بکر نے نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد باہر نکلے ، میں بھی آپ کے ساتھ تھا.حضرت علی آپ کے پہلو میں چل رہے تھے.راستہ میں حضرت

Page 318

اولاد النبی 302 حضرت امام حسن حسن کے پاس سے گزر ہوا، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے.حضرت ابو بکر نے اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا پھر فرمایا " یہ بچہ علی سے کہیں زیادہ رسول اللہ سے مشابہ ہے " اور حضرت 21 22 علی یہ سن کر مسکراتے رہے.رسول اللہ صلی علیم کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کا سلوک بھی حضرت حسنؓ کے ساتھ مشفقانہ رہا.وہ بھی اپنے آقا ومولا کی پیروی میں حضرت حسنؓ سے نہایت محبت سے پیش آتے تھے.انہوں نے حضرت امام حسن کے لیے پانچ ہزار درہم کا وظیفہ مقرر فرمایا.تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی کے زمانہ میں حضرت حسنؓ کو خلیفہ وقت کی اطاعت اور اپنی عمر کے مطابق خدمت کی توفیق ملتی رہی.اس وقت آپ نوجوان تھے.حضرت عثمان کے زمانہ خلافت (30 ہجری) میں آپ کو طبرستان کے جہاد میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت عثمان کے آخری دور میں جب مخالفین نے فتنہ برپاکر کے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو حضرت علیؓ نے اپنے دونوں جواں سال بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لیے مامور فرمایا.انہوں نے حسب توفیق خدمت انجام دی.حضرت عثمان پر حملہ کے وقت بلوائیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ بھی زخمی ہوئے.قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حسنؓ کو حضرت عثمان کے گھر سے نکلتے اس حال میں دیکھا کہ وہ زخمی ہو چکے تھے.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حملہ آور خارجیوں کے بارہ میں رض 23 اعلانیہ رائے دیتے ہوئے حضرت حسنؓ نے فرمایا "میرا ان کے دین سے اور ان سے کوئی تعلق نہیں " اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت میں آپ ان کے دست راست اور مشیر رہے.ہمیشہ خوف خدا کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے رائے دی.اسی زمانہ میں جنگ جمل کے جو حالات پیدا ہوئے حضرت حسن اپنی صلح جو طبیعت کے لحاظ سے ان کے حق میں نہ تھے.جنگ کے بعد خود حضرت علیؓ نے بھی ان کی 26 رائے کو صائب قرار دیا.اپنے بزرگ باپ اور خلیفہ راشد حضرت علی کے زمانہ خلافت میں بھی حضرت حسن کو خدمات کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت علیؓ نے آپ کو بعض اہم انتظامی فیصلوں کی تعمیل کے لیے اپنے نمائندے کے طور پر بھجوایا اور آپ نے خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق ان کی تعمیل کروائی.27

Page 319

اولاد النبی 303 حضرت امام حسن وفات حضرت علی اور خطبہ حسن حضرت علیؓ کی شہادت کو فہ میں 27 رمضان 40ھ کو ہوئی.بیعت لینے کے بعد حضرت حسنؓ نے تقریر کرتے ہوئے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا: " آج کی رات 27 رمضان المبارک وہ مقدس رات ہے جس میں حضرت عیسی علیہام کی روح قبض کی گئی تھی اور اسی رات حضرت علیؓ کی روح قبض کی گئی ہے " 28 پھر انہوں نے فرمایا: "آج رات ایک ایسی ہستی کی روح قبض کی گئی ہے کہ نہ تو پہلوں میں سے کوئی اس سے سبقت لے سکے اور نہ کوئی بعد میں آنے والے اس کے مقام کو پاسکیں گے.رسول اللہ علیم انہیں یعنی حضرت علیؓ کو اپنا علم جنگ عطا فرمایا کرتے تھے اور جب وہ لڑتے تو جبرائیل ان کے دائیں اور میکائیل ان کے بائیں ہوتے تھے اور وہ کبھی فتح کے بغیر واپس نہ لوٹے.انہوں نے اپنے ترکہ میں سات صد در ہم کے سوا کوئی سونا یا چاندی نہیں چھوڑا.یہ رقم بھی آپ کے مقررہ مشاہرے سے بیچ رہی تھی اور ان کا ارادہ اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے ایک خادم خریدنے کا تھا." پھر فرمایا: "اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ تو مجھے پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ یاد رکھے کہ میں حسن بن علی ہوں اور نبی کا بیٹا اور وصی کا بیٹا اور بشیر و نذیر کا بیٹا اور داعی الی اللہ اور سراج منیر کا بیٹا ہوں.میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ جن کے گھر میں جبرائیل کا آنا جانا تھا.ہاں ان اہل بیت میں سے جن سے خدا نے خود اپنے ہاتھ سے ناپاکی کو دور کر کے انہیں پاک وصاف کر دیا تھا اور ان اہل بیت میں سے ہوں جن کی محبت اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض کر دی اور اپنے نبی سے فرمایا قل لا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْر إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى یعنی تو کہہ دے کہ میں تم سے اس کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم آپس میں اقرباء کی سی محبت کرو.' بیعت حضرت امام حسن 29 11 اس کے بعد حضرت امام حسن نے اپنے ساتھیوں کے اصرار پر ان سے بیعت لے لی.حضرت حسن جانتے تھے کہ ان کی بیعت خلافت راشدہ والی بیعت نہیں ورنہ وہ از خود کبھی معزول نہ ہوتے.دراصل انہوں نے محض قیام امن اور امت میں وحدت کی خاطر لی تھی.انہوں نے اپنے والد کی وفات پر بیعت کا اصرار کرنے والوں سے واضح طور پر مصالحت کی پیشگی شرط طے کرتے ہوئے فرما دیا تھا کہ "خدا کی قسم! میں تمہاری

Page 320

اولاد النبی 304 حضرت امام حسن بیعت ہر گز قبول نہیں کروں گا مگر ایک شرط پر ".لوگوں نے کہا وہ کیا شرط ہے ؟انہوں نے فرمایا کہ "میری بیعت اس شرط پر ہوگی کہ جس سے میں صلح کروں گا اس سے تم بھی صلح کرو گے اور جس سے میری جنگ ہو گی اس سے تمہاری جنگ ہو گی " گویا آپ کی بیعت علی الصلح تھی اور واقعہ یہ ہے کہ اگر اس وقت حضرت امام حسن وحدت قومی اور صلح کی خاطر بیعت نہ لیتے تو کشت و خون سے امت کا شیر ازہ پارہ پارہ ہو جاتا.الغرض یہی بیعت صلح اسلامی علاقوں میں امن کا موجب بنی.حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے چالیس ہزار سے زائد وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کے حکم پر بیعت علی الموت کر کے جان قربان کر دینے کا عہد کیا تھا.وہ حضرت علی کی وجہ سے حضرت حسنؓ سے بھی محبت رکھتے تھے.ان چالیس ہزار نے حضرت حسن کی بھی بیعت کی جن میں اہل حجاز ، کوفہ اور عراق کے لوگ شامل تھے اور مکمل طور پر ان کے اطاعت گزار تھے.حضرت جریر بن حازم بیان کرتے ہیں کہ اہل کوفہ نے حضرت حسنؓ کی بیعت کی اور اس کے بعد ان کے باپ سے بڑھ کر ان کے ساتھ محبت اور اطاعت کا نمونہ دکھایا.31 اس زمانہ میں ایک موقع پر جب جبیر بن نفیر نے آپ سے عرض کیا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ آپ خلافت کے خواہاں ہیں تو آپ نے فرمایا کہ بے شک تمام عرب کے قبائل میرے ہاتھ میں ہیں.میں جس سے صلح کروں گا ان سے ان کی صلح ہو گی اور جن سے میری جنگ ہو گی ان سے ان کی جنگ ہے مگر میں نے خدا کی رضامندی کی خاطر امارت و حکومت کو چھوڑ دیا ہے.رسول الله صلی علی ایم کی صلح والی پیشگوئی کا پورا ہونا 33 حضرت حسن کی بیعت میں موجود صلح کی شرط سے ہی رسول اللہ علیم کی آپ کے حق میں کی گئی وہ پیشگوئی پوری ہوتی نظر آتی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ " میرا یہ بیٹا سردار ہو گا اور دو عظیم گروہوں میں صلح کروائے گا پس حضرت حسنؓ کی بیعت کا مقصد ہی صلح اور امن کا قیام تھا جس کا آغاز میں ہی آپ نے 3411 ذکر فرما دیا تھا اور یہی دراصل الہی تقدیر تھی.

Page 321

اولاد النبی 305 حضرت امام حسن دوسری طرف والی شام حضرت امیر معاویہ کو بھی اس بات کا اندازہ تھا کہ حضرت حسن طبعا صلح جو ہیں اور انہیں فتنہ و انشقاق گوارا نہیں.امیر معاویہ نے حضرت حسن مو مخفی طور پر صلح کا پیغام بھجواتے ہوئے اپنی بیعت کر لینے کے عوض یہ پیشکش بھی کی کہ ان کی وفات کے بعد حضرت حسن ان کے جانشین ہوں گے.حضرت امام حسن تو بہر صورت صلح چاہتے تھے انہوں نے اپنے حامیوں میں اس مصالحت کے لیے راہ ہموار کرناشروع کر دی.پہلے آپ نے اپنے چچازاد حضرت عبد اللہ بن جعفر کو اس کے لیے تیار کیا پھر اپنے بھائی حضرت امام حسین سے بات کی.اور انہیں بھی اس مصالحت کے لیے آمادہ کر لیا.اس طرح حضرت حسن کی بیعت پر چار ماہ گزر گئے جس میں وہ عراق اور خراسان کے حاکم تھے اور امیر معاویہ اہل شام کے.پھر آپ نے امیر معاویہ کی طرف کوچ کیا اور انہوں نے اپنی فوجوں سمیت آپ کی طرف رخ کیا.حضرت حسنؓ کے مقدمة الجیش کے سالار حضرت قیس بن سعد تھے جو صاحب شرطہ (پولیس کے انچارج) کے طور پر مشہور تھے.جب دونوں فوجیں " انبار " کے قریب جمع ہوئیں تو فریقین کو اندازہ ہو گیا کہ کوئی ایک گروہ دوسرے کی اکثریت کو ہلاک کئے بغیر غالب نہیں آسکتا.تب با قاعدہ مصالحت کا آغاز ہوا.حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ میں اپنی امارت و حکومت آپ کے حوالہ کرتا ہوں مگر شرط یہ ہوگی کہ آپ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں ہونے والی جنگوں سے متعلق مدینہ ، حجاز اور عراق کے لوگوں کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی نہیں کریں گے.امیر معاویہ اس پیشکش پر خوش تو ہوئے مگر جو بالکھ بھیجا کہ آپ کی یہ شرط مجھے قبول ہے سوائے دس افراد کے جنہیں میں امان نہیں دے سکتا حضرت حسنؓ نے اسے قبول نہ کیا.اس پر امیر معاویہ نے لکھ بھیجا کہ خواہ میں نے قسم کھائی ہو کہ قیس 35 36 بن سعد پر اختیار پانے کی صورت میں اس کی زبان اور ہاتھ کاٹ ڈالوں گا پھر بھی اسے امان دے دوں ؟ حضرت حسنؓ نے صاف جواب دیا کہ اگر آپ میرے سالار قیس بن سعد یا کسی بھی ساتھی کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہیں جس سے فتنہ کو ہوا ملے تو میں آپ کی بیعت نہیں کر سکتا.اس پر امیر معاویہ نے ایک سفید کاغذ حضرت حسنؓ کو بھیجا کہ پھر آپ جو چاہیں اپنی شرائط اس پر لکھ دیں، میں ان کو قبول کروں گا.شرائط صلح میں امیر معاویہ کی وہ ابتدائی پیشکش بھی شامل تھی کہ ان کی وفات کے بعد حضرت حسنؓ ان کے جانشین ہوں گے اس طرح ربیع الاول 41ھ میں حضرت امیر معاویہ اور حضرت امام حسن کے درمیان

Page 322

اولاد النبی 306 حضرت امام حسن مصالحت ہو گئی یوں رسول اللہ علیم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی "میرا یہ سردار بیٹا دو عظیم گروہوں کے در میان صلح کروائے گا" اور اس مصالحت کا سہر احضرت حسنؓ کے سر رہا.حضرت بانی جماعت احمد یہ اس اہم تاریخی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.حضرت حسن میں بھی دو ہی صلحیں تھیں.ایک صلح تو انہوں نے حضرت معاویہ کے ساتھ کرلی.دوسری صحابہ کی باہم صلح کرادی " مصالحت کے بعد تقریر ย 3711 مصالحت کے نتیجہ میں حضرت امام حسن امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہو گئے.اس موقع پر حضر نہ امیر معاویہ کے مشیر حضرت عمرو بن العاص نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ امام حسنؓ کو کہیں کہ وہ مجمع عام میں اپنی اس دستبرداری کا اعلان کریں.حضرت امیر معاویہ کو یہ بات پسند نہ تھی.انہوں نے عذر بھی کیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں.حضرت عمرو نے کہا کہ امام حسن سیاسی امور سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے اس لیے اس موضوع پر ان کی خاموشی دنیا پر ظاہر ہو جائے گی.اس اصرار کے بعد ایک مجلس میں امیر معاویہ نے حضرت حسنؓ سے کہا کہ اب ہمارے درمیان جو کچھ معاہدہ طے پایا ہے وہ آپ لوگوں کے سامنے بیان کر دیں.اس موقع پر حضرت امام حسن نے حضرت عمرو کی توقع کے برخلاف موقع کی مناسبت سے ایک نہایت جامع اور فصیح و بلیغ دلنشیں خطاب فرمایا.انہوں نے کہا " تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے ذریعہ تمہارے پہلوں کو ہدایت عطا فرمائی اور تمہارے بعد میں آنے والوں کے خون کی ہمارے ذریعہ حفاظت فرمائی.اس پر بھی اللہ کی حمد ہے.سنو! تم میں سے سب سے زیادہ ذہین انسان وہ ہے جو متقی ہو اور سب سے زیادہ عاجز رہ جانے والا بد کار ہے اور یہ معاملہ حکومت جس میں میرے اور معاویہ کے درمیان اختلاف ہوا کہ وہ اس کے زیادہ حقدار ہیں یا یہ میرا حق ہے.میں نے محض خدا کی خاطر اور امت محمدیہ کی بہبود اور ان کو خون سے بچانے کے لیے اس سے سبکدوش ہو گیا.اور پھر آپ نے امیر معاویہ کی طرف متوجہ ہو کر سورۃ الانبیاء کی یہ آیت پڑھی وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (الانبياء: 109) ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ شاید یہ تمہارے لیے آزمائش ہے اور محض ایک قلیل مدت تک کا فائدہ.دوسری روایت کے مطابق حضرت حسنؓ نے اپنے خطبہ میں یہ بھی فرمایا کہ خلیفہ تو وہ ہوتا ہے جو سیرت رسول ملی یا نیم پر چلنے والا اور آپ کی اطاعت پر عمل "

Page 323

اولاد النبی 307 حضرت امام حسن کرنے والا ہو.وہ خلیفہ نہیں جو ظلم کو اپنا شیوہ بنائے اور سنتِ رسول کو معطل کرتے ہوئے سب کچھ دنیا کو ہی 38 سمجھ لے.امیر معاویہ نے اس پر اثر تقریر کے بعد حضرت عمرو سے کہا کہ یہ تمہاراہی مشورہ تھانا.حضرت عمرو بن العاص بھی اس خلاف توقع لاجواب تقریر کے بعد سراسیمہ ہو کر امیر معاویہؓ سے کہنے لگے کہ بس میرا تو اتنا مقصد تھا کہ حضرت حسنؓ اپنی زبان سے سبکدوشی کا اعلان کر دیں.معاہدہ صلح کا احترام 39 حضرت امیر معاویہ سے مصالحت کے بعد حضرت امام حسنؓ نے اسے قائم رکھنے اور قیام امن کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا.اہل عراق میں سے آپ کے کئی ساتھی اس مصالحت پر نکتہ چینی کرتے تھے انہیں آپ نے مسلسل یہ تلقین فرمائی کہ تم لوگوں نے اس شرط پر میری بیعت کی تھی کہ جس سے میری جنگ ہو گی اس سے تمہاری جنگ اور جس سے میری صلح اس سے تمہاری صلح ہو گی.اب جب میں نے امیر معاویہ سے صلح کر کے ان کی بیعت کرلی ہے تو تم میری سنو اور میری اطاعت کرو.مصالحت کے بعد حضرت امیر معاویہ اور حضرت امام حسن اکٹھے کوفہ آئے.امیر معاویہ نے "نخیلہ " مقام پر اپنے لشکر کے ساتھ کئی دن تک ڈیرہ لگائے رکھا.اس دوران حضرت امام حسنؓ کئی مرتبہ حضرت امیر 41 40 معاویہ سے ملاقات کے لیے وہاں گئے.مصالحت کے بعد امیر معاویہ نے حضرت حسن کو بیت المال سے ستر لاکھ درہم پیش کیے اور حضرت حسن اپنے اہل بیت کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے.امیر معاویہ اور ان کے ساتھ اس مصالحت کے نتیجہ میں حضرت امام حسن اور ان کے والد حضرت علی کو برا بھلا کہنے سے باز آ گئے.حضرت حسن بصرہ میں حضرت امیر معاویہؓ کا درس سنتے تھے.بعد میں جب اہل بصرہ نے حضرت حسن کو خراج دینے سے انکار کیا تو امیر معاویہ نے حضرت حسنؓ کے لیے ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا.حضرت بانی جماعت احمدیہ صلح کے اس کارنامہ پر حضرت امام حسنؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں "حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہو گئے.پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے.انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں.اس لئے معاویہ سے گزارہ لے لیا.چونکہ حضرت حسن کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسن پر پورے راضی نہیں ہوئے.ہم تو دونوں کے ثناخواں

Page 324

اولاد النبی 308 حضرت امام حسن ہیں.اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں.حضرت امام حسن نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں.انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا.....نیت نیک تھی.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ" حضرت امام حسن اس مصالحت کے بعد دس سال تک زندہ رہے.بوقت وفات آپ نے حضرت امام حسین کو راز دارانہ رنگ میں یہ نصیحت کی کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم اہل بیت میں نبوت کے ساتھ حکومت وخلافت جمع نہیں کرے گا اور اہل کوفہ سے مجھے تمہارے بارہ میں کچھ اچھی توقع نہیں ہے پھر اپنی تجہیز و تکفین اور تدفین کے بارہ میں وصیت کرتے فرمایا کہ میں نے حضرت عائشہ سے ان کے حجرہ میں رسول اللہ نیم کے ساتھ تدفین کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے اجازت بھی دے دی تھی مگر مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے از راہ مروت ایسا کیا.میری وفات کے بعد ان سے احتیاطاً دوبارہ پوچھ لینا اگر وہ بخوشی اجازت دیں تو مجھے ان کے حجرے میں دفن کر دینا.مگر میرا خیال ہے کہ بعض لوگ اس راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے اگر ایسا ہو تو پھر مجھے اپنے ان بزرگوں کے ساتھ جو ہمارے لیے نمونہ ہیں مسلمانوں کے عام قبرستان جنة البقیع میں دفن کر دینا.وفات 44 جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے حضرت امام حسن کی مصالحت کی ایک شرط یہ تھی کہ امیر معاویہ کے بعد وہ ان کے جانشین ہوں گے.یہ شرط اموی خاندان اور خصوصاً امیر معاویہ کے بیٹے یزید پر بہت بھاری تھی جو اپنے باپ کے بعد امارت و بادشاہت کے خواب دیکھ رہا تھا.یہ بد بخت حضرت امام حسنؓ کے قتل کی سازشیں کرنے لگے.چنانچہ حضرت امام حسنؓ کو کئی مرتبہ زہر دینے کی کوشش کی گئی لیکن ہر دفعہ وہ خدا کے فضل سے بچ جاتے رہے.آخری مرتبہ زہر خورانی کے نتیجہ میں جب آپ اپنے جگر کے بل لوٹ پوٹ ہو رہے تھے.اس دوران حضرت امام حسین آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے.حضرت امام حسنؓ نے کہا میرے بھائی ! مجھے تین دفعہ زہر پلایا گیا ہے مگر اس مرتبہ کا زہر اتنا شدید ہے کہ میرا جگر پھٹا جاتا ہے.حضرت امام حسین نے پوچھا بھائی ! کس نے آپ کو زہر پلایا؟ آپ نے فرمایا کہ آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں ؟ کیا آپ ان سے جنگ کرنا

Page 325

اولاد النبی 309 حضرت امام حسن چاہتے ہیں؟ میں ان کا معاملہ خدا کو سونپتا ہوں.دوسری روایت میں ہے کہ اگر تو یہ وہی ہے جس پر میرا گمان ہے تو اللہ تعالی کی سز از یادہ سخت ہے اور اگر وہ کوئی دوسرا ہے تو مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بے گناہ میرے بدلہ میں قتل ہو.45 عمیر بن اسحاق سے روایت ہے کہ ہم حضرت امام حسن کے پاس تھے وہ اندر جا کے باہر آئے اور کہنے لگے کہ مجھے کئی دفعہ زہر پلایا گیا لیکن اس دفعہ سے زیادہ شدید زہر مجھے کبھی نہیں پلا یا گیا اس نے تو میرے جگر کا ایک حصہ باہر نکال پھینکا ہے.راوی کہتا ہے کہ میں اب بھی اس لو تھڑے کو اپنی ایک چھڑی سے الٹنے 46 پلٹتے دیکھ رہا ہوں.بعض روایات کے مطابق زہر خورانی کا یہ واقعہ یزید بن معاویہ کی سازش بیان کیا جاتا ہے.جس کے مطابق حضرت حسنؓ کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ زہر پلایا گیا تھا جس سے آپ پیٹ کی ایسی شدید بیماری 47 میں مبتلا ہوئے کہ آپ کے نیچے (دست اور قے وغیرہ کے لیے ایک برتن رکھا جاتا اور دوسرا اٹھایا جاتا تھا.زہر خورانی کے نتیجہ میں حضرت حسن چالیس دن تک علیل رہے اور بالآخر آپ کی وفات اسی زہر سے ہوئی.جب کہ آپ کی عمر قریباً 46 سال تھی.روایات کے مطابق یہ سانحہ 49ھ یا 50ھ میں پیش آیا.سعد بن بکر کے آزاد کردہ غلام مساور بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کو حضرت امام حسن کی وفات کے دن مسجد کی چھت پر چڑھ کر روتے دیکھا.وہ بآواز بلند کہ رہے تھے.اے لوگو ! آج رسول اللہ کا پیارا ( نواسہ) فوت ہو گیا.اس کی موت پر آنسو بہاؤ.2 جنازہ اور تدفین 49 حضرت امام حسنؓ کی نماز جنازہ امیر مدینہ سعید بن العاص نے پڑھائی.حضرت امام حسن کی بصیرت نے قبل از وقت بھانپ لیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ کی اجازت کے باوجود انہیں مخالف اموی حکمراں آپ کے حجرے میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیں گے.چنانچہ مروان نے اس سے منع کرتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم ! حسن شہر گزر سول اللہ یتیم کے مقبرہ میں دفن نہ ہوں گے کیونکہ حضرت عثمان کو بھی یہاں دفن ہونے سے روکا گیا تھا.اس موقع پر امام حسین اور امیر مدینہ کے درمیان کچھ بحث بھی ہوئی.جس پر حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ تم لوگ رسول اللہ علیم کے

Page 326

اولاد النبی 310 حضرت امام حسن اس نواسے کی تدفین کے بارہ میں اختلاف کرتے ہو جس کے بارہ میں میں نے رسول اللہ لی تم کو فرماتے سنا جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا.بالآخر 50 حضرت امام حسین نے اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق مزاحمت پر امن کو ترجیح دی اور حضرت حسنؓ کو اپنی والدہ حضرت فاطمۃ الزھر ان کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا.0 حضرت امام حسین نے جنازہ کے وقت مدینہ کے امیر سعید بن العاص کو اپنے بھائی حضرت امام حسنؓ کے جنازہ کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے کر دیا کہ "اگر سنت رسول یہ نہ ہوتی تو میں آپ کو آگے نہ کرتا " مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ علیم کی سنت سے امیر کی اطاعت واحترام ثابت ہے.صحبت و فیض رسول ملی کم اور علمی مقام 51 حضرت امام حسن نے بچپن رسول اللہ لی لی ایم کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور آپ سے علم سیکھا تھا جس کا ذکر آپ کی بعض روایات سے ملتا ہے.سفیان بن اللیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسنؓ کی امیر معاویہؓ سے مصالحت کے بعد جب مدینہ واپسی ہوئی تو ہم ان کی ایک مجلس میں حاضر تھے.دورانِ گفتگو اذان کے آغاز کا ذکر ہوا تو کسی نے کہا کہ عبد الله بن زید کے خواب کی بناء پر اذان شروع ہوئی تھی.حضرت امام حسنؓ نے کیا خوب علمی جواب دیا کہ اذان کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ عظمت کا حامل ہے خود جبریل علیہم نے دودفعہ اذان کے کلمات اور ایک دفعہ اقامت کے الفاظ کہہ کر رسول اللہ لی لی تم کو سکھائے اور آپ نے امت کو تعلیم فرمائے.گویا ان کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن زید کی رؤیا کا واقعہ ایک تائید ی امر تھا.اخلاق فاضلہ 52 عجز وانکسار :.حضرت حسنؓ کی عاجزی و انکساری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ امارت سے دستبرداری اور مصالحت کے بعد عازم مدینہ ہوئے تو بعض لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مومنوں کے لیے کتنی عار اور ذلت حصہ میں آئی.آپ نے فرمایا " ذلت وعار بہتر ہے ، ناریعنی آگ سے." ابور وق ہمدانی بیان کرتے ہیں کہ ابو غریف نے ان سے بیان کیا کہ حضرت امام حسنؓ کے مقدمة الجيش میں حضرت قیس بن سعد کی قیادت میں بارہ ہزار لوگ تھے جو اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار تھے.ان

Page 327

اولاد النبی 311 حضرت امام حسن کی تلواروں سے اہل شام کے خلاف خون ٹپک رہا تھا.جب حضرت حسن کی مصالحت کا پیغام ہمیں پہنچا تو غم واندوہ سے ہماری کمریں جیسے ٹوٹ گئیں.پھر حضرت امام حسن واپس کو فہ آئے تو ہمارا ایک معمر شخص ابو عامر سفیان بن لیلی آپ سے یوں مخاطب ہوا السلام علیک اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے ! آپ نے کہا اے ابو عامر ! ایسا مت کہو میں نے مومنوں کو ذلیل نہیں کیا بلکہ میں نے اس بات کو نا پسند کیا کہ میں انہیں حصول اقتدار و حکومت کی خاطر قتل کروادوں.55 دنیا سے بے رغبتی علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یا تم نے جسے سردار کا خطاب دیا ہو اس سے بڑا سر دار کون ہو سکتا ہے اور حضرت حسن نہایت حلیم الطبع، خدا ترس، عالم و فاضل تھے.ان کے تقویٰ وفضیلت کی یہی شان کافی ہے کہ انہوں نے خدا تعالی کی خاطر حکومت اور دنیا کو چھوڑ دیا.آپ ایک درویش منش اور دنیا سے بے رغبت انسان تھے.فرماتے تھے کہ جب سے مجھے اپنے نفع و نقصان کا شعور پیدا ہوا ہے میں نے کبھی پسند نہیں کیا کہ امت محمدیہ کی حکومت مجھے سونپی جائے اور اس کے عوض معمولی خون بھی ہے.ایک دفعہ حضرت امیر معاویہؓ نے مدینہ میں کسی شخص سے پوچھا کہ مجھے حسن بن علی کے بارہ میں کچھ بتاؤ.انہوں نے کہا اے امیر المؤمنین ! وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھے ذکر الہی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے پھر اپنی پشت کا سہارا لے کر بیٹھ جاتے اور رسول اللہ صلی یا یتیم کی مسجد میں کوئی شخص جسے کوئی بزرگی حاصل ہے، باقی نہیں رہتا مگر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور آپ ان سے باتیں کرتے ہیں پھر آپ وہاں سے اٹھتے ہیں.رسول اللہ علی مریم کا ارشاد ہے کہ "جس نے حسن سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا " اس دنیا میں اس طرح بھی پورا ہوا.اس حوالہ سے یہ روایت بھی قابل توجہ ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے اپنی لونڈی کو حضرت حسن کے پاس کسی کام کی غرض سے بھیجا.وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپ کو وضو کرتے دیکھا جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کپڑے کے ٹکڑے سے گردن کو پونچھا جو مجھے اچھانہ لگا اور میرے دل میں ان کے بارہ میں کچھ کدورت پیدا ہوئی.اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میر ا جگر پھٹ گیا ہے.58 56

Page 328

اولاد النبی 312 حضرت امام حسن حضرت ام موسیٰ بیان کرتی ہیں کہ حضرت امام حسن جب رات کو بستر پر تشریف لاتے تو ایک لوح مکتوب 59 آپ کے پاس ہوتی جس پر سورۃ کہف لکھی تھی آپ اس کی تلاوت فرماتے تھے.حضرت امام حسن نے پیدل پچھیں حج کیے تھے اور ان سفروں میں کئی شرفاء کو آپ کی معیت کا شرف حاصل ہوا.جود و سخا حضرت حسن بہت سخی مزاج تھے اور صدقہ و خیرات بہت کثرت سے کرتے تھے.ابوہشام القناد بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت امام حسن کے پاس بصرہ سے سامان لے کر آیا کرتا تھا ایک طرف آپ مجھ سے قیمت کم کروایا کرتے تھے اور ابھی میں آپ کے پاس موجود ہوتا تھا کہ وہ سارا مال عوام الناس میں بانٹ دیتے تھے.سعید بن عبد العزیز بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن نے اپنے پہلو میں بیٹھے ایک شخص کو دعا کرتے سنا کہ "اے اللہ تعالی ! مجھے دس ہزار درہم دے ".آپ نے فوراً دس ہزار درہم لا کر اسے عطا فرما دیئے.خدمت خلق 62 ابو جعفر بیان کرتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص حضرت حسین کے پاس آیا اور ایک حاجت میں ان سے مدد چاہی حضرت امام حسین اس وقت اعتکاف کی حالت میں تھے.کہنے لگے اگر میرا اعتکاف نہ ہوتا تو میں خود جا کر تمہارا کام کر وادیتا.وہ وہاں سے نکلا اور حضرت امام حسن کے پاس جا کر اپنی ضرورت پیش کر دی.آپ اس کے ساتھ چل پڑے اور حاجت روائی کی.وہ کہنے لگا مجھے اس ضرورت میں آپ کی مدد لینا نہ چاہتا تھا اس لیے میں پہلے حضرت حسین کے پاس گیا، انہوں نے عذر کیا تو آپ کے پاس آیا ہوں.حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ میرے نزد یک محض اللہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنا ایک مہینہ کے اعتکاف سے زیادہ بہتر ہے.حضرت امام زین العابدین بن علی بن حسین بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے.ایک شخص نے عرض کیا اے ابو محمد ! میرے اس کام کے لیے میرے ساتھ چلئے.حضرت امام حسنؓ نے طواف وہیں چھوڑا اور ساتھ چل دیئے.ایک حاسد شخص نے دیکھ لیا اور کہنے لگا اے ابو محمد ! آپ طواف چھوڑ کر فلاں کا کام کرنے چلے گئے.حضرت حسنؓ نے فرمایا میں کیوں نہ جاتا؟ جب کہ رسول اللہ صلی ہم نے

Page 329

اولاد النبی 313 حضرت امام حسن فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے جاتا ہے اور اس کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اس کے لیے ایک حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جاتا ہے اور اگر وہ اس کی ضرورت پوری نہ کر سکے تو عمرہ کا ثواب لکھا جاتا ہے.اور میں نے حج و عمرہ دونوں کما لیے اور واپس آکر اپنا طواف بھی کر رہا ہوں.عفو و کرم کا نمونہ 64 حضرت بانی جماعت احمدیہ حضرت امام حسنؓ کے عفو و کرم کا ایک غیر معمولی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :." کہتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکر چاء کی پیالی لایا.جب قریب آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپ کے سر پر گر پڑی.آپ نے تکلیف محسوس کر کے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا.غلام نے آہستہ سے پڑھا.وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ ( آل عمران : 135 ) یہ سُن کر امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا كَظمت غلام نے پھر کہا وَ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ نظم میں انسان غصہ دبالیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا ہے، مگر اندر سے پوری رضامندی نہیں ہوتی، اس لئے عفو کی شرط لگا دی ہے.آپ نے کہا کہ میں نے عفو کیا.پھر پڑھا واللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنینَ.محبوب الہی وہی ہوتے ہیں جو کظم اور عفو کے بعد نیکی بھی کرتے ہیں.آپ نے فرمایا: جا آزاد بھی کیا.راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چائے کی پیالی گراکر آزاد ہوا.اب بتاؤ کہ یہ نمونہ اصول کی عمدگی ہی سے پیدا ہوا " خوش گفتاری 65 11 حضرت امیر معاویہؓ کہا کرتے تھے کہ میرے ہاں کلام کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ کلام حضرت امام حسنؓ کا تھا جسے سن کر خواہش ہوتی تھی کہ وہ بولتے چلے جائیں.میں نے ان سے کبھی کلام کے دوران سخت کلمہ نہیں سنا سوائے ایک موقع کے جب ان کے بھائی حضرت حسینؓ کی ایک زمین کا تنازعہ عمر و بن عثمان سے تھا.اس موقع پر حضرت امام حسنؓ نے ایک فقرہ کہا کہ " ہمارے پاس اس کے لیے کچھ نہیں سوائے اس چیز کے جس سے اس کی ناک مٹی میں ملے ".اس سے زیادہ اور کوئی سخت کلمہ آپ نے میرے سامنے نہیں بولا.66 زریق بن سوار بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور مروان کے مابین اختلاف تھا.مروان سخت کلامی

Page 330

اولاد النبی 314 حضرت امام حسن 67 کرنے لگا حضرت امام حسن خاموش سنتے رہے.پھر اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا ناک صاف کی.حضرت امام حسن نے فرمایا تیر بھلا ہو.کیا تجھے معلوم نہیں کہ دایاں ہاتھ منہ سے کھانے پینے کے لیے اور بایاں ہاتھ صفائی کے لیے ہے.تم پر افسوس.اس پر مروان خاموش ہو گیا.حضرت امام حسن حق گو انسان تھے.خلاف واقعہ بات کو ہمیشہ رد فرماتے اور سچائی کو بیان کرتے خواہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہوتی.اس زمانہ میں اہل بیت سے محبت کرنے والوں نے غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت علیؓ کے بارہ میں یہ عقیدہ تراش لیا تھا کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے.حضرت امام حسن سے کسی نے ذکر کیا کہ بعض شیعہ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں آپ نے فرمایا "جس نے بھی یہ کہا، جھوٹ کہا اور ایسا عقیدہ رکھنے والے جھوٹے ہیں.اگر حضرت علیؓ نے دنیا میں واپس آنا ہوتا تو آپ کی بیویاں آگے شادی نہ کر لیتیں اور نہ ہی ہم آپ کی میراث تقسیم کرتے " حضرت حسنؓ نے اپنی پاکیزہ صحبت اور علم و فضل سے کوفہ میں قیام کے دوران اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لیے وعظ و نصائح کا سلسلہ جاری رکھا.ان کا وعظ بہت فصیح و بلیغ اور موئثر ہوتا تھا.ایک وعظ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا " اے اہل کو فہ ! جان لو، حلم زینت ہے اور وفامر قت ہے اور جلد بازی بے وقوفی ہے اور بے وقوفی کمزوری ہے اور کمینے لوگوں کی صحبت عیب ہے اور بد عملوں کے ساتھ میل جول شک پیدا 69 11 68 کر دیتا ہے" ازواج واولاد اور اہلی زندگی حضرت امام حسن کی کئی شادیاں تھیں.سوتک شادیوں کی روایت درست نہیں.مستند طور پر نو شادیاں ثابت ہیں جن سے آٹھ بیٹے اور سات بیٹیاں ہوئیں.ان کے نام یہ ہیں:(1) زید بن حسن(2)ام الحسن (3)ام الحسین (4) حسن بن حسن (5) عمرو بن الحسن (6) قاسم (7) عبد اللہ (8) عبد الرحمن (9)حسین بن الحسن (10) طلحہ (11) فاطمه (12) ام عبد الله (13) فاطمہ (14) ام سلمہ (15) رقیہ.70 بالعموم بیک وقت چار بیویاں آپ کے عقد میں رہیں.جن سے ہمیشہ حسن سلوک فرمایا.حضرت علی بن حسین فرماتے تھے کہ حضرت امام حسن نے کئی عورتوں کو طلاق دے کر فارغ کیا مگر جس عورت کو بھی انہوں نے طلاق دی وہ ( آپ کے حسن سلوک کی وجہ سے ) آپ سے محبت کرتی تھی " 71

Page 331

اولاد النبی 315 حضرت امام حسن ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسنؓ نے ایک خاتون سے شادی کی اور ان کے پاس ٹھہرے.اس نے رات کو اپنی اوڑھنی کا ایک پلو اپنی پازیب سے اور دوسرا آپ کے پاؤں سے باندھ دیا.جب آپ رات کو اٹھے تو پوچھا یہ کیا ؟ وہ کہنے لگی مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ نیند اور اندھیرے میں اٹھ کر کہیں ٹھو کر سے گرنہ جائیں اور عرب لوگ میرے بارہ میں بد شگونی لیں.آپ نے اس سے مزید احسان کا برتاؤ کیا اور اس کے پاس سات دن ٹھہرے.اس دوران حضرت عبد اللہ بن عمر نے جب کئی روز تک آپ کو نہ دیکھا تو ساتھیوں سے کہا کہ چلو جا کر ان کا احوال پوچھتے ہیں.راوی کہتے ہیں وہ ہمیں لے کر حضرت امام حسنؓ کے پاس آئے تو ان کی وہ مہمان نواز بیوی کہنے لگی کہ آپ مہمانوں کو روک رکھیں میں ان کے لیے کھانا بنواتی ہوں.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن نے ایسی دلچسپ گفتگو شروع فرمائی کہ محویت کے عالم میں ہمیں وقت کا احساس ہی نہ رہا یہاں تک کہ کھانا پیش کر دیا گیا.اسی طرح آپ کی ایک بیوی بنی اسد قبیلہ سے تھیں جب ان کو طلاق دی تو دس ہزار درہم اور شہد کے مشکیزے ان کو عطا کیے اور اپنے آزاد کردہ غلام بسیار سے پوچھا کہ جب تم انہیں الوداع کرنے کے لیے گئے تو وہ کیا کہتی تھیں ؟ غلام نے کہا کہ فزاری قبیلہ والی کہتی تھی کہ " اللہ تعالیٰ حضرت حسن کو بہت برکات دے اور بہترین جزا دے" اور اسد قبیلہ کی خاتون کہتی تھی کہ ایک جدا ہونے والے محبوب سے بہت کم فائدہ اٹھایا.حضرت حسنؓ نے یہ سنا تو اس دوسری کی طلاق واپس لے لی.فضائل و مقام حضرت امام حسن 72 حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ مالی علی کریم نے ایک موقع پر حضرت علی، حسن و حسین اور فاطمہ کو ایک چادر کے اندر لے لیا اور فرمایا: اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں.ان سے ناپاکی دور کر دے اور 73 ان کو مکمل طور پر پاک کر دے.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین اہل جنت کے سرداروں میں سے ہیں.74 عروہ بن زبیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ السلام نے حضرت حسنؓ کو بوسہ دیا اور اپنے

Page 332

حضرت امام حسن 316 اولاد النبی ساتھ چمٹالیا اور اسے اپنے منہ کے ساتھ لگائے سونگھنے لگے.اس موقع پر ایک انصاری نے عرض کیا میر ابیٹا بڑا ہو چکا ہے میں نے آج تک اسے نہیں چوما.رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ تم سے رحمت چھین لی ہو تو اس میں میرا کیا قصور؟ اس روایت سے لقب ریحانہ النبی کی وجہ تسمیہ بھی ظاہر ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ علی می کنیم تشریف لائے اور حضرت حسن کو گردن پر اٹھار کھا تھا.ایک شخص نے دیکھ کر کہا کہ واہ رے بچے! یہ کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تم سوار ہو.رسول اللہ لی تم نے سن کر فرمایا اور سوار بھی کتنا اچھا ہے.نیز آپ نے فرمایا "حسین میرا اور میں حسین کا ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے' حضرت حسن نے بھی شہادت کا عظیم مر تبہ پایا.حضرت بانی جماعت احمد یہ حضرت امام حسنؓ کے بلند مقام اور ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.ہوں " 76 " میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن 78 11 حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے " اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *** ***

Page 333

اولاد النبی 317 1 2 3 4 5 6 7 8 9 حوالہ جات بخاری کتاب المناقب باب صفة النبی طی استیعاب جلد 1 صفحہ 113.تهذیب التهذیب جلد 2 صفحہ 257 ترمذی کتاب الاضاحی باب الاذان نسائی کتاب العقیقہ باب کم یعق عن الجارية- مسند احمد جلد 6 ص 392 استیعاب جزء 1 صفحہ 114.اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 264 استیعاب جزء 1 صفحہ 114 بخاری کتاب المناقب باب صفة النبی ال م تر نمدی کتاب الادب باب العدة بخاری کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین مسند احمد جلد 6ص283 بخاری کتاب اللباس باب السحاب للصبيان 10 بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ و معانقته 11 بخاری کتاب الزكاة باب ما يذكر في الصدقة للنبي 12 ابوداؤد کتاب الوتر باب القنوت في الوتر 13 ابوداؤد کتاب اللباس باب فی جلود النمور والسباع 14 15 16 17 18 19 تھذیب التھذیب جزء4 صفحہ 93 مسند احمد بن حنبل جزء 1 صفحہ 93 مسند احمد بن حنبل جزء 4 صفحہ 347 مسند احمد بن حنبل جزء 5 صفحہ 205 مستدرک حاکم جلد 3 ص 187 زیب التھذیب جزء 2 صفحہ 258 حضرت امام حسن

Page 334

اولاد النبی 318 20 بخاری کتاب الصلح باب قول النبی الحسن.مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 49 21 مسند احمد بن حنبل جزء 1 صفحہ 8 22 فتوح البلدان للبلاذرى ذكر عطاء عمر بن الخطاب 23 ابن کثیر جلد 3 صفحہ 45، تاریخ طبری جلد 2 24 مستدرک حاکم جلد 3 ص 114 25 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 674 26 مستدرک حاکم جلد 3 ص 111 3ص111 27 متدرک حاکم جلد 3 ص 126 28 مستدرک حاکم جلد 3 ص 154 29 متدرک حاکم جلد 3 ص 188 30 مستدرک حاکم جلد 3 ص 190 31 متدرک حاکم جلد 3 ص 190.تھذیب التھذیب جلد 2ص259.الاستيعاب جلد 1 ص 114 32 تهذیب التهذیب باب جزء 2 صفحہ 259 33 تهذیب التهذیب جزء 2 صفحہ 260 بخاری کتاب الصلح باب قول النبي للحسن بن علی 35 اصابہ جلد 2 ص 68 تا 73 36 استیعاب جلد 1 ص 114 37 ملفوظات جلد اول صفحہ 388 38 استیعاب جزء 1 صفحہ 115 - مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح جلد 18ص14 39 | استیعاب جزء 1 صفحہ 115 حضرت امام حسن

Page 335

اولاد النبی 40 الاصابة جزء 2 صفحہ 68 تا73 41 تاریخ دمشق ص 266 42 تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 286 43 ملفوظات.جلد 4 صفحہ 580،579 44 استیعاب جزء 1 صفحہ 116 45 استیعاب جلد 1ص116,115 46 استیعاب جلد 1 ص 116 47 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 284 48 مستدرک حاکم جلد 3 ص189 49 تهذیب التهذیب جزء 2 صفحہ 260 319 50 مستدرک حاکم کتاب جلد 3 ص189.استیعاب جلد 1 ص 116 51 تهذیب التهذیب جزء 2 صفحہ 257 52 استیعاب جزء 1 صفحہ 113 53 3 الاصابة جزء 2 صفحہ 68 تا 73 54 استیعاب جزء 1 صفحہ 114 55 استیعاب جزء 1 صفحہ 114 56 تاریخ دمشق ص 241 57 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 241 58 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 241 59 تاریخ دمشق لابن عساکر ص244 60 مستدرک حاکم جلد 3 ص 185 حضرت امام حسن

Page 336

اولاد النبی 61 تاریخ دمشق لابن عساکر ص245 320 62 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 245 63 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 247 64 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 248 65 ملفوظات جلد 1 ص 115.بحار الانوار جلد 43ص352 66 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 252 67 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 253 68 مسند احمد بن حنبل جلد 1ص148 69 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 259 70 بحار الانوار جلد 44 صفحہ 163، کشف الغمہ جلد دوم صفحه 70، اسلامی انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 788، دائرۃ المعارف الاسلامية 71 تاریخ دمشق لابن عساکر ص 251 72 تاریخ دمشق لابن عساکر ص248 249 73 | مستدرک حاکم جلد 3 ص189 74 75 76 مستدرک حاکم جلد 3ص182 متدرک حاکم جلد 3ص189 مستدرک حاکم جلد 3 ص 186 77 بخاری و ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین 78 ترجمه از عربی سرالخلافته روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 359,358 79 تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 365,364 حاشیہ حضرت امام حسن

Page 337

اولاد النبی 321 حضرت امام حسین ولادت حضرت امام ย حسین ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی " کے نواسہ حضرت امام حسین شعبان 4 ہجری میں پیدا ہوئے.آپ اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی کے صاحبزادے تھے.نبی کریم اپنی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء کے گھر میں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سن کر تشریف لائے.آپ نے بچے کا نام حسین رکھا یعنی ظاہری حسن اور باطنی خوبیوں کو جمع کرنے والا.اس کے کان میں خود اذان کہی.حضرت فاطمہ نے ولادت حسن پر کی جانے والی نبی کریم کی نصیحت کے مطابق پہلے حسین کے سر کے بال منڈوائے پھر بالوں کے وزن کے برابر اللہ کی راہ میں چاندی صدقہ کی اور دو مینڈھے ذبح کر کے عقیقہ کروایا.رسول کریم طی تم فرماتے تھے کہ ہر بچہ اپنے عقیقہ کی قربانی تک اس کے عوض رہن رہتا ہے.مطلب یہ کہ دنیا جو آفات و آلام کا گھر ہے یہاں ایک نئی روح کے آنے پر اسے مصائب، کسی بیماری حادثہ یا تقدیر شر سے حفاظت کے لیے اس کی طرف سے رڈ بلا کے طور پر بکری وغیرہ کی قربانی کر دینی چاہیے.اس لیے آپ حسب استطاعت لڑکے کی طرف سے دو مینڈھے اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور قربانی اور دعا کی خاطر ذبح کروا کے گوشت رشتہ داروں اور مستحقین میں تقسیم کرواتے تھے.صحبت و محبت رسول مطل عهد السلام حسین رسول الله تم تو ویسے ہی دل کے نرم اور بچوں کے لیے اور زیادہ شفیق تھے.پھر آپ کی کوئی نرینہ اولاد بھی بڑی عمر کو نہیں پہنچی تھی.اس لئے بھی طبعا آپ کو اپنے کم سن نواسوں حسن و حسین سے خاص محبت تھی.خادم رسول حضرت انس کہتے تھے کہ اہل بیت میں آنحضور کو سب سے پیارے حسن و تھے.رسول اللہ یکم اکثر ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات فرماتے ان کی بچگانہ ادائیں دیکھ کر خوش ہوتے انہیں اٹھاتے اور فرط محبت سے انہیں سینہ سے چمٹا لیتے.مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی می کنیم حالت سجدہ میں ہوتے اور یہ بچے آپ کی پشت پر سوار ہو جاتے.نماز کے بعد آپ انہیں گود میں اٹھا لیتے.ایک دفعہ رسول کریم یکم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ حسین مسجد میں داخل ہوئے.آپ کی نظر اپنے کم سن نواسہ

Page 338

اولاد النبی 322 حضرت امام حسین پر پڑی تو منبر سے اتر آئے اور انہیں اٹھا کر سینے سے لگا لیا.اکثر آپ ان بچوں کے لئے دعائیں کرتے."اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر " حضرت یعلی عامری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی نیز فرمایا " جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا.حسین میرا اور میں حسین کا ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے " دور در خلفائے راشدین یوں 7 برس رسول اللہ علی ایم کی وفات تک حضرت حسین نے اپنے مقدس نانا کے آغوش محبت میں تعلیم و تربیت کی سعادت پائی اور ان کی دعاؤں کا فیض پایا.خلفائے راشدین حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی رسول اللہ الکریم کی قرابت کی وجہ سے حضرت حسینؓ کو محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے.حضرت عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں ان کی محصوری کے وقت حضرت حسین نوجوان تھے انہوں نے اپنے بزرگ والد حضرت علی کے حکم پر خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے پہرہ دیا اور جب تک ممکن ہو سکا باغیوں کو حملے سے روکے رکھا.حضرت امام حسین اپنے والد کے زمانہ خلافت میں ان کے معاون و مددگار رہے.آپ نے اپنے والد اور خلیفہ راشد حضرت علی کی شہادت کے بعد اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسنؓ کی بیعت کی اور امیر معاویہ سے ان کی مصالحت میں آپ بھی شریک ہوئے.جس میں خود امیر معاویہ کی پیشکش کے مطابق طے پایا تھا کہ ان کی وفات کے بعد امام حسن ان کے جانشین ہوں گے.مگر حضرت حسن کی اچانک شہادت کے باعث اس پر عمل درآمد نہ ہوا.امیر معاویہ کے عہد میں حضرت امام حسین نے قسطنطنیہ کی مشہور مہم میں حصہ لیا.حضرت انس کے مطابق رسول اللہ صلی علیم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے حسن اور حسین 5 تھے.0 رسول الله علی کریم نے فرمایا کہ حسن اور حسین نوجوانان اہل جنت کے سردار وں میں سے ہیں.ان سے جنگ مجھ سے جنگ اور ان سے صلح مجھ سے صلح ہے.شہادت امام حسین کے بارہ میں رسول اللہ علی ایم کی پیشگوئی حضرت امام حسینؓ کی شہادت بھی السی تقدیروں میں سے ایک تقدیر مبرم معلوم ہوتی ہے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہے.حضرت انس سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتہ نے نبی کریم طی نیم کے پاس آنے

Page 339

اولاد النبی 323 حضرت امام حسین کی اجازت چاہی.آپ نے اسے اجازت دے کر حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازے پر دھیان رکھنا کوئی اندر نہ آئے.اتنے میں حضرت حسین اچھلتے کودتے اندر چلے گئے اور رسول اللہ میں علم کے کندھے پر سوار ہو گئے.فرشتہ نے پوچھا یہ بچہ آپ کو بہت پیارا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا کہ آپ کی امت اسے شہید کر دے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ بھی آپ کو دکھا سکتا ہوں.پھر اس نے کچھ سرخ مٹی اپنے ہاتھ میں لے کر دکھائی.حضرت ام سلمہ نے وہ مٹی لے کر اپنے کپڑے کے پتو میں باندھ لی.راوی کہتے ہیں کہ ہم سنتے تھے کہ یہ شہادت کربلاء میں ہو گی.8 یہی روایت خود حضرت ام سلمہ سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ صلی فیلم آرام فرمارہے تھے اور میں دروازہ پر نگرانی کر رہی تھی کہ دریں اثناء حضرت حسین رینگتے ہوئے رسول اللہ علیم کے پاس پہنچ گئے.آپ نے انہیں اپنے اوپر بٹھا لیا.آپ فرماتی ہیں پھر میں نے رسول اللہ میم کی گریہ کی آواز سنی تو آپ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ علی یا تم مجھے پتہ نہیں لگا اور حسین اندر چلے آئے.آپ نے فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل آئے تو حسین میرے پیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ یہ آپ کو بہت پیارا ہے؟ میں نے کہاہاں.جبرائیل نے کہا کہ آپ کی امت اسے شہید کر دے گی.ایک اور روایت حضرت ام الفضل بنت حارث سے ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ لی می کنیم کی خدمت میں عرض کیا کہ آج رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھی ہے ، آپ نے فرمایا وہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ وہ بڑی خوفناک خواب ہے.آپ نے فرمایا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا میری گود میں آگرا ہے.رسول اللہ لی ہم نے فرمایا آپ نے یہ تو اچھی خواب ہے.فاطمہ کے ہاں ایک لڑکا ہو گا اور وہ آپ کی گود میں آئے گا.چنانچہ حضرت فاطمہ کے ہاں حسین پیدا ہوئے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا.پھر ایک دن میں رسول اللہ لی تعلیم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حضرت حسین کو آپ کی گود میں رکھ دیا.پھر اچانک جو میری نظر پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ رسول اللہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں.میں نے کہا اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے تھے اور انہوں مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی.میں نے عرض کیا کہ کیا اس بیٹے کو؟ آپ نے فرمایا ہاں.اور جبریل میرے لیے اس سر زمین کی سرخ مٹی بھی لائے ہیں.9 جیسا کہ ظاہر ہے ان روایات میں سے پہلی امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں دوسری ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اور تیسری امام حاکم نے مستدرک میں بیان کی ہے.ہر چند کہ روایت کے لحاظ سے ابن عساکر کی

Page 340

اولاد النبی 324 حضرت امام حسین تاریخ دمشق کو تیسرے درجہ میں ہونے کی وجہ سے ثقہ اور معتبر نہیں سمجھا جاتا.لیکن ان روایات کی تائید مستدرک حاکم اور مسند احمد سے بھی ہوتی ہے.اگر ان کو من وعن اور لفظا لفظاً قبول نہ بھی کیا جائے تو ان روایات سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام حسین کی شہادت ایک تقدیر الٹی تھی جس کی خبر بذریعہ کشف اللہ تعالی نے پیشگی طور پر آنحضرت ا نیم کو دے دی تھی اور یہ بات بعید از قیاس نہیں.شہادت امام حسین کا تاریخی پس منظر بہر حال جہاں شہادت امام حسینؓ اسلامی تاریخ کا ایک دلخراش سانحہ ہے وہاں رسول الله علی کریم کی ایک پیشگوئی بھی اس کے ذریعہ پوری ہوئی.جس کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ حضرت امام حسنؓ کی شہادت کے بعد 56 ہجری میں امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کر دیا جس پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے انتشار اور تفرقہ سے بچنے کے لئے یزید کی بیعت کر لی.حضرت عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر اور امام حسینؓ نے بیعت نہ کی.ان کی رائے تھی کہ یزید اپنے فسق و فجور کی حالت میں خلیفۃ المسلمین بننے کا اہل نہیں.امیر معاویہ کے حامیوں کا یہ موقف تھا کہ یزید کی ولی عہدی کے اعلان اور بیعت کے بعد اب مخالفت جائز نہیں.تاہم امیر معاویہ کی زندگی میں اس بیعت کے لیے کوئی اصرار نہیں ہوا.اہل کوفہ کی دعوت 60 ہجری میں حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی امیر مدینہ کو ہدایت کی کہ ان تینوں حضرات سے فوری بیعت لی جائے.جس پر امام حسین اور عبد اللہ بن زبیر مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے.جہاں حضرت امام حسین اہل کوفہ کے کثرت سے بیعت کے خط آئے جن میں آپ کو کوفہ آنے کی دعوت تھی.انہوں نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کو فہ بھجوایا.ان کی اس اطلاع پر کہ اٹھارہ ہزار اہل کو فہ آپ کی بیعت پر متفق ہیں آپ نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا.حضرت عبد اللہ بن عباس سمیت کئی بزرگوں نے اس فیصلہ کی مخالفت کی تو حضرت امام حسین نے فرمایا کہ وہ استخارہ کے بعد کوئی رائے قائم کریں گے پھر الہی تقدیر کے مطابق بالآخر انہوں نے مع اہل و عیال کوفہ جانے کا عزم کر لیا.مسلم بن عقیل کی شہادت ย ادھر یزید کو علم ہوا کہ مسلم بن عقیل امام حسین کے لئے اہل کوفہ کی بیعت لے چکے ہیں تو اس نے بصرہ کے حاکم ابن زیاد کو کوفہ بھجوادیا، جس نے وہاں حکومت کا نظم و نسق سنبھال لیا اسی نے اہل کوفہ کو روپے کا لالچ

Page 341

اولاد النبی 325 حضرت امام حسین دے کر مسلم بن عقیل کو (جور کیس کو فہ بانی کے گھر روپوش تھے ) گرفتار کر لیا.حضرت مسلم کو ابن زیاد سے گفتگو کے بعد یقین ہو گیا کہ وہ شہید کر دیے جائیں گے.انہوں نے حضرت امام حسین کو اہل کوفہ کی عہد شکنی کے باعث کو فہ نہ آنے کا پیغام بھجوایا.ہانی اور مسلم 3 ذوالحجہ کو شہید کر دیئے گئے.کرشمہ تقدیر ملاحظہ ہو کہ اس واقعہ کی اطلاع مکہ پہنچنے سے پہلے اسی روز حضرت امام حسین مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے.مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین حالات کی نزاکت کا اندازہ ہو چکا تھا.چنانچہ اس سفر کے آغاز پر انہوں نے جو اظہار کیا اس سے خدا کی تقدیر پر ان کے ایمان، توکل کے علاوہ حسن نیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصد حمایت حق اور تردید باطل تھا.انہوں نے فرمایا " اللہ ہی کے ہاتھ میں تمام کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور ہمارا رب ہر روز نئی شان میں ہوتا ہے.اگر کوئی چیز ہماری مراد کے موافق ہوئی تو ہم اللہ کا شکر ادا کریں گے اور اگر تقدیر الہی ہماری مراد میں حائل ہو گئی تو وہ شخص زیادتی اور خطاء پر نہیں ہو تا جس کی نیت حق کی حمایت پر ہو.اور جس کے دل میں خوف خدا ہو " سفر کربلا مکہ مکرمہ سے کربلا تک قریباً نو صد کلو میٹر کا سفر ایک ماہ میں طے ہوا.کئی روز بعد خزیمہ مقام پر آپ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہوا.اس اطلاع پر واپسی کے مشورے شروع ہوئے، مگر حضرت مسلم کے بھائی کو فہ جاکر بدلہ لینے پر مصر تھے.اسی دوران حضرت امام حسین نے رویا میں رسول اللہ صلی نم کو دیکھا کہ وہ آپ کو کوئی ارشاد فرماتے تھے جس کا مطلب انہوں نے یہی سمجھا کہ میری جان پر کچھ بھی گزر جائے اب واپسی محال ہے.تا ہم آپ نے اپنے ہمراہیوں کو واپسی کا اختیار دے دیا اور عام لوگ تتر بتر ہونے لگے صرف بہتر کی تعداد میں اہل بیت کے جانثار اور چند لوگ باقی رہ گئے.اشراف مقام پر حاکم کوفہ ابن زیاد کے حکم پر حربن قیس ایک ہزار کا لشکر لے کر آگیا.وہ اس قافلہ کو گھیر کر کو فہ لے جانا چاہتا تھا.حضرت امام حسین نے بارہا کھل کر یہ اظہار کیا کہ میں نے اہل کوفہ کے بلاوے پر وہاں جانے کا عزم کیا تھا، اگر ان کی رائے بدل گئی ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں.انہوں نے حربن قیس کو اہل کوفہ کے وہ خط بھی دکھائے.اس نے کہا کہ ہم یہ خط لکھنے والے نہیں، ہمیں تو اپنے امیر کا حکم ہے کہ آپ کو کوفہ لے جائیں یا آپ مدینہ کا کوئی راستہ لیں جہاں یزیدی حکومت کا امیر موجود تھا.حضرت امام حسین نے کہا کہ اس سے موت بہتر ہے ".اب واپسی کی راہیں مسدود ہو چکی تھیں.دونوں گروہ متوازی چلتے ہوئے قصر بنی

Page 342

اولاد النبی 326 حضرت امام حسین مقاتل پہنچے.تقدیر کے اشارے بگڑتی ہوئی صور تحال کو ظاہر کر رہے تھے.اس جگہ حضرت امام حسین نیند سے اچانک بیدار ہوئے پہلے اناللہ اور پھر الحمد للہ پڑھا اور فرمایا " خواب میں ایک سوار کہتا ہے کہ قوم موت کی طرف بڑھ رہی ہے.آپ کے کم سن صاحبزادے زین العابدین نے یہ سن کر کہا کہ حق کی راہ میں موت آتی ہے تو کیا پر واہ ؟ اس سے اگلے پڑاؤ پر قطقطانیہ میں امام حسین نے کشفی نظارہ دیکھا کہ آپ شہید کر دیئے جائیں گے.چنانچہ 2 محرم کو پھر کسی دوسری طرف نکل جانے کی تدبیر کی مگر څڑ نے انکار کر دیا یہاں تک کہ میدان کربلا پہنچے.یہاں ابن زیاد کا قاصد حُر کے نام خط لا یا کہ امام حسین کو روک کر بے آب و گیاہ بیابان میں اتار دو.چنانچہ اس نے حضرت امام حسینؓ کو یہ اطلاع دی کہ مجھے حکم ملا ہے کہ آپ سے بیعت لوں یا پھر یزید کے پاس بھجوادوں، حضرت امام حسین نے قاصد سے کہا کہ " ان پر عذاب آنے کو ہے".پھر اپنے ساتھیوں کے سامنے خدا کی راہ میں جان دینے کا بلند مرتبہ بیان کر کے صورتحال پر روشنی ڈالی.ابن سعد لشکر کربلا میں 3 محرم کو عمر ابن سعد کوفہ سے مزید چار ہزار فوج لے کر کربلا پہنچ گیا.اس نے حضرت امام حسین سے یہاں آنے کی وجہ پوچھی.امام حسین نے فرمایا " میں اہل کوفہ کے اصرار پر آیا ہوں.اگر میر ا آنا منظور نہیں تو مجھے واپس جانے دو.ابن زیاد نے یہ سن کر بظاہر اطمینان کا اظہار کیا مگر امام حسین کے رشتہ کے ماموں شمر ذی الجوشن نے اکسایا کہ بیعت یزید کے لیے امام حسین کو قابو کرنے کا یہی موقع ہے.4 محرم کو ابن زیاد نے ایک طرف ابن سعد کو خط بھجوایا کہ امام حسین اور اس کے اصحاب پہلے بیعت کریں.دوسری طرف مسجد کوفہ میں عوام کو انعام واکرام کا وعدہ کر کے قتل حسین پر آمادہ کیا.جس پر شمر ، حصین اور ابن نمیر کے ساتھ چار چار ہزار کے تین لشکروں کے علاوہ یزید بن رکاب اور محمد بن اشعث کے ساتھ مزید تین ہزار کا لشکر تیار ہو گیا.5 محرم کو یہ لشکر کوفہ سے کربلا روانہ ہوئے اور 6 محرم کو کربلا پہنچنے لگے.ابن سعد نے عمرو بن حجاج کی کمان میں پانچ صد کی نفری دریائے فرات پر تعینات کی تاکہ آل رسول م م کو پانی سے روکیں.7 محرم کو پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے امام حسین نے پچاس سوار و پیادے دریائے فرات پر بھجوائے ، مگر عمر و بن حجاج کے روکنے کے باوجود وہ بحفاظت اپنے مشکیزے پانی سے بھر لائے.رات کو حضرت امام حسینؓ نے ابن سعد کو بلوا کر اتمام حجت کرتے ہوئے آل رسول سے جنگ سے باز رہنے کی تلقین کی.

Page 343

اولاد النبی کربلا میں شمر کی آمد 327 حضرت امام حسین 8 محرم کو ابن زیاد نے ابن سعد کو کہلا بھیجا کہ تمہیں امام حسین سے مذاکرات کرنے نہیں بھیجوایا تھا، اپنا فرض ادا کر و یا لشکر کی کمان چھوڑ دو.اور مزید نگرانی کے لئے علی الصبح شمر ذی الجوشن کو بھی کر بلار وانہ کر دیا.9 محرم الحرام کو شمر نے کربلا پہنچ کر ابن سعد کو پیغام دیا کہ فوراً جنگ شروع کر دو، ورنہ کمان میرے سپرد کر دو.ابن سعد نے تیاری شروع کی.امام حسین نے اگلی صبح تک مہلت چاہی.اس دوران شمر نے اپنے رحمی رشتہ کے واسطہ سے اہل بیت کے لیے امان کا اعلان کر کے حضرت امام حسین کے ساتھیوں کو ان سے الگ ہونے کی دعوت دی مگر انہوں نے نہایت حقارت سے اس پیشکش کو ٹھکراد یا اور ببانگ دہل کہا کہ ہم ہر قدم پر وفا کریں گے اور جاں فدا کر کے دکھائیں گے.رات کو حضرت امام حسین نے خیموں کے پیچھے خندق کھود کر اس میں لکڑیاں بھر دینے کا حکم دیا تا کہ بوقت ضرورت آگ جلا کر اسے حفاظتی روک کے طور پر استعمال کیا جاسکے.ملیں حضرت امام حسین کے بڑے صاحبزادے اٹھارہ سالہ علی اکبر پچاس ساتھیوں کے ہمراہ پانی کی چند بھر کر لائے.حضرت امام حسین نے ساتھیوں سے فرمایا " یہ تمہارا آخری توشہ ہے.وضو اور غسل کرو اور کپڑوں میں خوشبو لگاؤ کہ یہی تمہارے کفن ہوں گے ".پھر آپ نے لمبی خندق پیچھے رکھ کر خیمے ترتیب دیئے.جن کے آگے اپنے بھائی حضرت عباس کو علم سونپا، میمنہ پر زہیر اور میسرہ پر حبیب کو مقرر کیا.دوسری طرف کئی ہزار کا یزیدی لشکر تھا.جس کے میمنہ پر عمرو بن حجاج، میسرہ پر شمر ذی الجوشن ، سواروں پر عمرو بن قیس اور پیادوں کا سالار شیث بن رکاب تھا.10 محرم کی شب اس مقدس قافلہ کربلا کی آخری رات تھی.جس میں حضرت امام حسین نے ہتھیار تیار کر وائے اور یہ رات عبادت اور دعاؤں میں گزاری.ذرا آنکھ لگی تو خواب میں دیکھا کہ کتے ہم پر حملہ آور ہیں.بہن زینب نے صورتحال بھانپ کر کہا کاش ! آج موت میرا خاتمہ کر دیتی.میری ماں فاطمہ باپ علی اور بھائی حسن کے بعد آپ ہی ہمارا سہارا تھے.امام حسین نے کمال تحمل سے فرمایا زینب ! حلم و وقار کو شیطان کے حوالے مت کرو.عرض کیا بھائی آپ کے بدلے میری جان قربان ہو جائے.حضرت حسین کی آنکھوں میں آنسو آگئے.زینب بھی رونے لگیں تو بھائی نے صبر کی تلقین کی اور فرمایا " ایک نہ ایک دن سب نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے.تمہیں خدا کی قسم کہ میری موت کے بعد اسوۂ رسول کے خلاف نہ کرنا.نہ گریبان پھاڑنا نہ منہ نوچنانہ بین کرنا "_ O

Page 344

اولاد النبی قیامت کرب و بلا 328 حضرت امام حسین آخر 10 محرم کی صبح قیامت برپا ہوئی.حضرت امام حسین کے ساتھ صرف بہتر 72 جاں نثار تھے.مقابل پر کئی ہزار مسلح سپاہی.جھنڈا عباس کے ہاتھ میں تھا.حضرت حسین نے میدان جنگ میں جانے سے قبل قرآن سامنے رکھا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی : "خدایا ! تو ہر مصیبت میں میر ابھر وسہ اور ہر تکلیف میں میرا آسرا ہے ہمیشہ تو ہی میراپشت و پناہ تھا اور ہمیشہ میں نے تیری طرف ہی رجوع کیا تو ہی ہر بھلائی کا مالک ہے " دعا کے بعد نکلے تو سامنے شمر تھا حضرت امام کے ایک ساتھی نے اس پر وار کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے منع کر دیا کہ پہل نہیں کرنی.بریر بن حضیر نے حضرت امام حسین کی اجازت سے ابن سعد کو آل رسول کی غیرت اور خوف خدا دلایا.اس نے کہا "ہم تو انہیں ابن زیاد کے پاس کو فہ لے جانا چاہتے ہیں ".میدان جنگ میں اترنے سے قبل حضرت امام حسین نے عمامہ رسول سر پہ رکھا اور آخری طویل خطاب فرمایا جس میں اہل بیت کے حوالہ سے اپنے تعارف کے بعد مدینہ سے مکہ آمد اہل کوفہ کی دعوت اور مسلم بن عقیل کی شہادت کا ذکر کیا اور مد مقابل موجود داہل کوفہ کے سرداروں کے نام لے کر اتمام حجت کر کے فرمایا کہ کیا میں تمہارے بلاوے پر نہیں آیا؟ اس موقع پر ایک دفعہ پھر آپ نے دشمن سے واپسی کے پر امن راستہ کا مطالبہ کیا مگر دوسری طرف سے بدستور بیعت یزید پر اصرار یا یہ مطالبہ تھا کہ ہمارے ساتھ کو فہ چلیں.اس پر آپ نے عمر بن سعد کوللکارا کہ " جس حکومت کی خاطر تم یہ سب کچھ کر رہے ہو وہ تمہیں کبھی نصیب نہ ہو گی".ابن سعد نے ناراض ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب کیا انتظار کرتے ہو اور ان کو کیوں مہلت دے رکھی ہے ؟ اس وقت ایک حیرت ناک واقعہ رونما ہوا.یہ حضرت امام حسین کے اتمام حجت کا اثر تھا یا قدرت خداوندی کا کرشمہ کہ حر کی غیرت ایمانی جاگی.وہ عمر بن سعد سے ملاقات کر کے گھوڑے پر سوار ، اپنی ڈھال آگے کئے امام حسین کی طرف بڑھا اور ڈھال پھینک کر معافی کا طلبگار ہوا اور لجاجت سے عرض کیا کہ میں ہی آپ کو گھیر کر کر بلا لے آیا ہوں.آپ مجھے معاف کر دیں، اللہ بھی مجھے معاف کرے آپ بھی معاف کر دیں.اور میری یہ درخواست قبول فرمائیں کہ آپ کی طرف سے لڑ کر جان کا نذرانہ پیش کر دوں.یزیدیوں کا آغاز جنگ اب عمر بن سعد نے ایک علامتی تیر چلا کر جنگ کا آغاز کر دیا.ادھر حضرت امام حسین نے حر کو اجازت دی.وہ کمال بے جگری سے لڑے اور اکیلے چالیس مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کمال بہادری سے

Page 345

اولاد النبی 329 حضرت امام حسین لڑتے ہوئے جان دے دی.پھر مبارزت شروع ہوئی تو میدان کربلا میں تسلیم ورضا کے عجب قصے رقم ہوئے.ایک ایک فدائی میدان میں اترنے سے قبل حضرت امام حسین کے سامنے آکر پہلے سلام کرتا اور پھر آپ کی اجازت و دعا کے ساتھ میدان کارزار میں اتر کر جام شہادت نوش کرتا.حضرت امام حسین ہر پر وانے کو اجازت دیتے ہوئے یہ آیت پڑھتے : فَمِنهُم مَن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ (الاحزاب:24) کہ ان میں بعض نے اپنی منتیں پوری کیں اور کچھ بھی انتظار میں ہیں کہ دل کی حسرتیں نکالیں.حر کے بعد پندرہ وفاشعار جام شہادت نوش کر کے بیسیوں دشمنوں کو ہلاک کر چکے تو ابن سعد نے مبارزت کی بجائے یکبارگی حملہ کا فیصلہ کیا.شمر نے اپنے لشکر اور حصین بن نمیر کے تیر اندازوں کی مدد کے ساتھ قافلہ امام حسین کے بائیں حصہ پر حملہ کیا جہاں مقابلے میں صرف بنتیں سوار تھے.خیموں کی طرف سے تیر آنے پر شمر کا گھوڑ از خمی ہوا تو عمر بن سعد نے خیمے جلا دینے کا حکم دے دیا.میدان کارزار گرم تھا کہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو نواسہ رسول نے نماز ادا کرنے کی اجازت چاہی.مگر ابن سعد اور اس کے مسلمان ساتھیوں نے یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ تم منکرین بیعت یزید ہو.تمہاری نمازیں بھی قبول نہیں.مجبوراً حضرت امام نے نماز خوف ادا کی.نماز ظہر کے بعد پھر گھمسان کا رن پڑا.مشہور جانباز سعید بن عبداللہ الحنفی نے امام حسین کے آگے سینہ سپر ہو کر جان دے دی.ان کے بعد زہیر بن قیس شہید ہوئے.یکے بعد دیگرے پروانے جائیں وار رہے تھے.حنظلہ شامی لڑتے ہوئے کہتے جاتے تھے کہ نواسہ رسول کو شہید نہ کرنا ورنہ تم پر عذاب وارد ہو گا.امام حسین نے فرمایا " یہ بد بخت ہو چکے ہیں ان پر نصیحت کا کوئی اثر نہیں".الغرض اڑ تھیں اور ساتھی شہید ہو گئے.آخری ساتھی روتے ہوئے آگے بڑھے اور حضرت امام حسین سے عرض کیا کہ یہ آنسو آپ کی خاطر ہیں کہ ہم آپ کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے حضرت امام حسین نے فرمایا خدا تمہیں متقیوں کی جزا دے.سب فدائیوں کی شہادت کے بعد اب اہل بیت رسول کی باری آئی اٹھارہ سالہ صاحبزادہ علی اکبر میدان میں آئے اور دشمنوں کو للکارا أَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنُ عَلِي وَرَبِّ البَيْتَ وَلِيُّ بِالنَّبِيَّ یعنی میں علی بن حسین ہوں.اور رب کعبہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیارا ہوں.یہ کہہ کر انہوں نے بھی بے جگری سے لڑتے ہوئے بہادری کے ساتھ جان دے دی.پھر کیا تھا پھوپھی

Page 346

اولاد النبی 330 حضرت امام حسین زینب کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے.حضرت حسین نے بہن کو خیمہ میں بھجوایا اور اپنے لخت جگر علی اکبر کی نعش خیمہ کے سامنے لار کھی.دریں اثناء علی اکبر کے کم سن بھائی بھی شہید کر دئے گئے.ان کی والدہ معصوم کی لاش دیکھ کر سکتہ میں آگئیں.علی اصغر امام حسین کے ہاتھوں میں تھے ایک ظالم نے تیر مارا جو گلے میں پیوست ہوا.اور وہ بھی شہید ہو گئے.اس کے بعد مسلم بن عقیل کے بیٹے عبد اللہ اور پھر جعفر طیار کے پوتے عدی نے جام شہادت نوش کیا.عقیل کے صاحبزادے عبد الرحمان اور حسن کے صاحبزادہ قاسم شہید ہوئے.یہ دیکھ کر علمدار عباس کے کہنے پر عبداللہ ، جعفر اور عثمان تینوں بھائی امام حسین کے آگے دیوار بنا کر کھڑے ہو گئے اور جانیں نچھاور کر دیں.اب آخری فرد عباس سامنے آئے اور دلیری سے جان فدا کر دی.اہل بیت رسول کے ہیں جگر گوشے آن واحد میں میدان کربلا میں ذبح ہوئے پڑے تھے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ شہادت امام حسین اب حضرت امام حسین میدان میں تنہارہ گئے.وہ خوب جانتے تھے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے.وہ سارے دن کی تلوار زنی اور اور تنہا اہل بیت کی نعشیں سنبھالنے کی مشقت سے چور تھے.خیمہ میں موجود خواتین مبارکہ اور بیمار بیٹے زین العابدین سے آخری ملاقات کر کے میدان میں اترے.آپ کمال شجاعت سے پہلے میمنہ پر اور پھر میسرہ پر حملہ آور ہوئے.دشمن سے مقابلہ کرتے کرتے شدت پیاس کے باعث انہوں نے فرات کا رخ کیا اور گھوڑا پانی میں ڈال کر چاہا کہ وہ بھی پانی پی لے.اس دوران ایک تیر دہن مبارک میں آلگا جس سے خون کا فوارہ چھوٹا.پھر بھی آپ آخر دم تک مقابلہ کرتے رہے اور دشمن کو للکار کر کہا " خدا کی قسم آج کے بعد تم کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرو گے جس کی وجہ سے خدا اتنا ناراض ہو گا.میں تو اپنے محبوب خدا کے پاس جاتا ہوں گے مگر وہ دونوں جہان میں تم سے میرا انتقام ضرور لے گا.آپ کو شہید کرنے کے بعد کوفیوں نے خیموں کو لوٹنا شروع کر دیا حتی کہ خواتین مبارکہ کے سروں سے چادریں تک اتارنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا.پھر عمر بن سعد نے منادی کروائی کہ کون اپنے گھوڑے کے سموں سے حضرت امام حسین کو پامال کرے گا.یہ سن کر دس بد بخت سوار نکلے اور اپنے گھوڑوں سے آپ کی نعش کو روند ڈالا یہاں تک کہ آپ کے سینہ وپشت کو چور چور کر دیا.حضرت امام حسین کے جسم پر پینتالیس 45 زخم تیروں کے ، تنتمیں 33 زخم نیزوں کے اور تنتا لیس 43 زخم

Page 347

اولاد النبی 331 حضرت امام حسین 11 زخم تلواروں کے تھے.اور یوں 10 محرم کو اسلامی تاریخ کا ایک دردناک خونیں باب رقم ہوا.حضرت امام حسین 10 محرم 61ھ میں شہید ہوئے.ان کی عمر اس وقت 58 برس تھی اور آپ اپنے بالوں پر خضاب لگاتے تھے.ازواج و اولاد 12 حضرت امام حسین نے متعدد شادیاں کیں.آپ کی ازواج میں لیلی ، باب ، حرار، سکینہ اور غزالہ کے علاوہ کسری شاہ ایران یزد گرد کی بیٹی شہر بانو بھی تھیں.13 ان سے آپ کے آٹھ بیٹے بیٹیاں ہوئیں.جن کے نام یہ ہے.(1) علی بن حسین الاکبر (2) علی بن الحسین امام زین العابدین (3) علی بن الحسین الاصغر (4) جعفر بن حسین (5) عبد الله (6) سکینہ (7) فاطمہ (8) زینب.آپ کے تمام صاحبزادے میدان کربلا میں شہید ہو گئے سوائے حضرت امام علی زین العابدین کے.ان کی شادی حضرت امام حسنؓ کی صاحبزادی فاطمہ سے ہوئی.مظلوم حسین حضرت بانی جماعت احمد یہ فرماتے ہیں:.14 امام حسین کا مظلومانہ واقعہ خدائے تعالی کی نظر میں بہت عظمت اور وقعت رکھتا ہے اور یہ واقعہ حضرت مسیح کے واقعہ سے ایسا ہمرنگ ہے کہ عیسائیوں کو بھی اس میں کلام نہیں ہو گی " 15 پھر آپ فرماتے ہیں:.امام حسین کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں.آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھا کتنا خوفناک ہے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے.جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا.اور ایسا اند ھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی.اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا " علمائے امت کی رائے 16 حضرت امام حسین کے یزید کی بیعت نہ کرنے کے بارہ میں علمائے امت میں مختلف آراء ہیں جیسا کہ حکومت وقت کے قاضی شریح نے آپ کے کفر کا فتویٰ دیا مگر خدا ترس علماء نے حق گوئی اور راستی کا دامن نہ چھوڑا.

Page 348

اولاد النبی 332 حضرت امام حسین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں :.امام حسین کا یزید کے خلاف کھڑ ا ہو نا دعوئے خلافت راشدہ کی بناء پر نہ تھا.جو تیس سال گزرنے پر ختم ہو چکی تھی بلکہ اس لیے کہ رعایا کو ایک ظالم (یزید) کے ہاتھ سے چھڑایا جائے اور ظالم کے مقابلہ میں مظلوم کی اعانت واجبات (دین) میں سے ہے.17 دیگر علمائے اہل سنت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ و بعض جاہلوں کی یہ رائے کہ حسین (حکومت وقت کے) باغی تھے باطل ہے.غالباً یہ خوارج کے ہذیانات ہیں.جو راہ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں.18.6 پس امت کے خدا ترس علماء اسلام نے حضرت امام حسین کو محض حاکم وقت کی بغاوت سے بری الذمہ قرار دیا ہے.جماعت احمدیہ کا مؤقف مگر آئے رسول اللہ لی لی لی ایم کے عاشق صادق حضرت بانی جماعت احمدیہ کا ارشاد بھی ملاحظہ کریں.آپ فرماتے ہیں:.حضرت امام حسین نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے...نیت نیک تھی.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ " حضرت امام حسین نے شہادت کا وہ بلند مرتبہ پایا جس کے نتیجہ میں وہ زندہ جاوید ہو گئے.جماعت احمد یہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں :."امام م حسین یزید کے مقابلہ پر شہید ہوئے مگر کیا یزید کا نام بھی اب کوئی لیتا ہے.جس مقصد کے لیے امام حسین کھڑے ہوئے آخر وہی کامیاب ہوا اور دنیا نے اسلامی نظام کی اسی تشریح کو قبول کیا جس کے لیے حضرت امام حسین کھڑے ہوئے تھے.یزید کے مقصد کی تو آج ایک مسلمان بھی تائید نہیں کرتا.....اگر حضرت امام حسین کربلا کے میدان میں جان نہ دیتے تو مسلمانوں کو شاید اسلامی نظام کی اہمیت کا اس قدر احساس نہ ہوتا جس قدر کہ ان کی شہادت کی وجہ سے ہوا.اس شہادت نے مسلمانوں میں اسلام کی تعلیم کے احیاء کے لیے گویا ایک آگ لگادی اور اسلام کے علماء نے اس تعلیم کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دیا " اسی طرح فرمایا:.20 اگر کوئی شخص مارا جاتا ہے لیکن اس کے مرنے سے قوم کو فائدہ پہنچتا ہے تو وہ مرتا نہیں بلکہ زندہ ہوتا ہے.

Page 349

اولاد النبی 333 حضرت امام حسین ور نہ ظاہری تکالیف کو دیکھا جائے تو حضرت امام حسین بھی شہید کر دیئے گئے تھے.مگر وہ ناکام نہیں ہوئے بلکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور جس اصول کی خاطر انہوں نے قربانی پیش کی تھی وہ اصول آج بھی قائم ہے اور قیامت تک رہے گا " اخلاق فاضلہ 2111 22 عبادات:.حضرت امام حسین عالم و فاضل انسان تھے.عبادات سے خاص شغف تھا.نمازوں کا اہتمام فرماتے.کثرت سے روزے رکھتے.آپ نے پچھیں حج پیدل چل کر کیے.عراق جانے سے پہلے جتنا عرصہ مدینہ میں رہے.پیدل حج کے لیے تشریف لے جاتے رہے.خودداری:.حضرت عبد اللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین امیر معاویہ کے پاس تشریف لائے.انہوں نے ان دونوں کو اسی وقت دولا کھ در ہم پیش کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ آپ دونوں یہ قبول کریں اور میں ہند زوجہ ابو سفیان کا بیٹا ہوں جس نے اتنی رقم نہ پہلے کسی کو دی اور نہ ہی میرے بعد کوئی کسی کو دے گا.حضرت امام حسن تو خاموش رہے لیکن حضرت امام حسین کہنے لگے خدا کی قسم ! واقعی ایسی عطا کے لیے آپ کو اس کے بعد ہم سے زیادہ صاحب شرف و فضیلت پھر کوئی نہیں ملے گا.23 24 انکساری و مهمان نوازی:.ایک دفعہ حضرت حسین کچھ مساکین کے پاس سے گزرے جو مسجد نبوی کے قریب صفہ میں کھانا کھا رہے تھے انہوں نے آپ کو بھی کھانے کی دعوت دی.آپ ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرما یا یقینا اللہ متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا.آپ نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.پھر فرمایا کہ میں نے تو تمہاری دعوت قبول کر لی اور اب تم بھی میری دعوت قبول کرو.آپ ان سب کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی رباب سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ نکال کر ان کو پیش کر دو.حضرت حسن نے حضرت حسینؓ کو ایک خط میں شعراء کو انعام واکرام دینے پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا جس پر حضرت حسین نے جواباً خط میں لکھا کہ بہترین مال وہ ہے جو عزت کی حفاظت کرے.بڑوں کا احترام:.ابو حسن مدائنی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی جس پر انہوں نے باہم بات کرنا چھوڑ دی.آنحضور ملی کلیم نے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے.اس وجہ سے تین دن گزرنے کے بعد حضرت حسنؓ خود ہی اپنے چھوٹے بھائی حضرت حسین کے پاس آئے.حضرت حسین بیٹھے ہوئے تھے آپ 25

Page 350

اولاد النبی 334 حضرت امام حسین 26 نے ان کے سر کو بوسہ دیا.جب حضرت حسنؓ تشریف فرما ہوئے تو حضرت حسین نے کہا کہ صلح میں پہل کرنے میں مجھے اس بات نے روکا کہ آپ شرف وفضیلت میں مجھ سے بڑھ کر ہیں میں نے نا پسند کیا کہ میں سبقت کر کے آپ کے مقام اور احترام میں کوئی دخل دوں.علمی وروحانی مقام:.حضرت ابن زبیر بیان کرتے تھے کہ انہوں نے حسین بن علی سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک قیدی آزاد کرنا کس کے ذمہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان لوگوں کے ذمہ جن کے ساتھ وہ ہو کر لڑے اور جن کی مدد کی ہو.پھر پوچھا کہ نومولود کا خرچہ کب سے واجب ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ پیدائش کے بعد جب وہ روتا ہے اور آواز نکالتا ہے تو اس کا خرچہ اور اس کا رزق ضروری ہو جاتی ہے.پھر آپ سے کھڑے ہو کر پانی پینے کے بارہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے دودھ منگوایا اور کھڑے ہو کر پی لیا.آپ بکری بھون کر لٹکا دیتے تھے اور اس کے ساتھ ہماری مہمان نوازی کرتے تھے.حضرت امام حسین مستجاب الدعوات بزرگ تھے.ابو عون سے روایت ہے کہ جب حضرت حسین مدینہ سے مکہ جانے لگے تو ابن مطیع کے پاس سے گزرے وہ اپنے لیے کنواں کھود رہا تھا.اس نے عرض کیا کہ ہم نے یہ کنواں کھودا ہے لیکن اب اس سے پانی نکلنا بند ہو گیا ہے.آپ اللہ تعالی سے ہمارے لیے برکت کی دعا کریں.آپ نے فرمایا کہ اس میں سے پانی لے آؤ.وہ ڈول میں پانی لے آیا آپ نے اس پانی سے کلی کی اور کنویں میں ڈال دیا.وہ کنواں میٹھا اور وافر پانی دینے لگا.27 مقام و فضائل حضرت امام حسین آپ کو علم و فضل اور فن خطابت میں کمال حاصل تھا.آپ راتوں کو عبادت سے زندہ کرتے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے.رسول اللہ صلی یا تم نے حسن و حسین کے بارہ میں فرمایا کہ یہ دونوں میرے لئے دنیا کی عمدہ خوشبو ہیں.29 آنحضور ملی یم دعا کرتے تھے "اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر " آنحضور طی علی کریم نے فرمایا جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کیاور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا" کرے" پھر فرمایا حسین میرا اور میں حسین کا ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت

Page 351

اولاد النبی 335 حضرت امام حسین.پھر فرمایا جس نے ان سے جنگ کی اس نے مجھے سے جنگ کی جس نے ان سے صلح کی اس نے مجھ سے صلح کی " رسول اللہ صلی علی سلیم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے حسن اور حسین تھے.30 حسن اور حسین نوجوانان اہل جنت کے سردار ہیں.حضرت امام حسین سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے امام زمانہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں :.حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہد کی تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت علی علم کے آل تھے " ہوں " پھر آپ فرماتے ہیں :.31 11 میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن 3211 امام حسین کا اسوہ حسنہ حضرت بانی جماعت احمدیہ حضرت امام حسین کے اسوۂ حسنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان بر گزیدوں سے ہے جن کو خدا تعالی اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیاوہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور بر گزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے.اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے.وہ اپنے ایمان

Page 352

حضرت امام حسین 336 اولاد النبی کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے بر گزیدوں اور پیاروں کا دشمن 33 11 حضرت بانی جماعت احمدیہ کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد صاحب اپنے والد بزرگوار کا یہ چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ اپنے بچوں کو محرم میں شہادت امام حسین کے واقعات سنائے تو آنکھوں سے آنسورواں تھے جو آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچھتے جاتے تھے.اس درد ناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے در دو کرب سے فرمایا کہ "یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کر یم ملی نیم کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا.اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقاسی مینیم کے جگر گوشہ کی شہادت کے تصور سے آپ کا دل بے چین ہو رہا تھا ہے.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے خود اپنے منظوم کلام میں فرمایا:.جان و دلم فدائے جمال محمد است 34 11 خاکم نثار کوچه آل محمد است یعنی میری جان اور دل محمد مصطفی علی کریم کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ *****: ***

Page 353

اولاد النبی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 337 حضرت امام حسین حوالہ جات مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص392.نسائی کتاب العقیقہ باب کم یعق عن الجارية المعجم الكبير جلد 1 ص 313 بخاری کتاب الفضائل باب مناقب الحسن والحسین مسند احمد بن حنبل ج4 ص 172 تاریخ الخلفاء جلال الدین سیوطی بخاری کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین ابن ماجہ افتتاح الكتاب الایمان فضل الحسن والحسین مسند احمد بن حنبل جزء 3 صفحہ 265 تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 194 مستدرک حاکم جزء 3 صفحہ 194 الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد 2 ص 182- تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 333 الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد 2ص175تا178.تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 329 تا 331 المعجم الكبير جزء 3 صفحہ 98 تاج المواليد جزء 1 صفحہ 17 اسلامی انسائیکلو پیڈ یا صفحہ 799، دائرۃ المعارف الاسلامية تاج المواليد جلد 1 صفحہ 17، اعلام الوری با علام الهدی جلد 1 صفحہ 395 ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 ص 135 ملفوظات جلد 5 صفحہ 336

Page 354

اولاد النبی 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 338 حضرت امام حسین کمپنی ادب فتاوی عزیزی جلد 1ص 226 از شاہ عبد العزیز قدس سره ناشر ایچ ایم سعید منزل پاکستان چوک کراچی شرح فقہ اکبر ص 87 ملفوظات جلد 4 صفحہ 580،579 تفسیر کبیر جلد 1ص149،148 تفسیر کبیر جلد 2ص590،589 اسد الغابہ جزء 1 صفحہ 265 تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 113 تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 181 تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 181 بخاری کتاب الادب باب اینهی عن التحاسد.تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 181 استیعاب جزء1 صفحہ 118 تاریخ دمشق لابن عساکر صفحہ 182 بخاری کتاب المناقب باب مناقب الحسن والح بخاری و ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 364-365 حاشیہ ترجمه از عربی سرالخلافہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 359,358 مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 254 سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد ص 36

Page 355

رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں کی قبور کی 3 21 2120 ย 1 - حضرت زینب 2 - حضرت ام کلثوم 3 - حضرت رقیه ย 4 - حضرت فاطمہ 339 970

Page 356

973 رسول اللہ علیہ کے نواسوں کی قبور حضرت امام حسن جهة البقیع (مدینه ) ย حضرت امام حسین کربلا ( عراق) 340

Page 356