Language: UR
آنحضورﷺ کی سیرت وسوانح کے بیان میں آغاز رسالت کے دور کو بچوں کے لئے آسان اور سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے تا بچے اس زمانہ سے آگاہ ہوسکیں جب آپ ﷺ کو ردائے نبوت عطا کی گئی اوراصلاح خلق کی ذمہ داری سپرد ہوئی اور ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت اور گزشتہ نبیوں کی پیش گوئیوں کاتاریخ ساز ظہور ہوا۔ موجودہ ایڈیشن نظارت نشرواشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔
سيرة وسوانح حضرت محمد مصطفی عمل الله آغاز رسالت
نام کتاب مرتبہ من اشاعت تعداد شائع کردہ مطبع قیمت : آغاز رسالت امہ الباری ناصر 2008 3000 نظارت نشر واشاعت صدر انجمن احمدی قادیان 143516 - ضلع گورداسپور.پنجاب.بھارت فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان 20 روپے ISBN: 978-81-7912-187-0
پیش لفظ لجنہ اماءاللہ کراچی پاکستان نے صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر احباب جماعت کی معلومات اور بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کم از کم سو کتب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت مختلف افراد کی طرف سے مرتب کردہ یا تصنیف کردہ کتب شائع کی گئیں.یہ کتب نہایت آسان اور عام فہم سادہ زبان میں لکھی گئیں تا کہ ہر کوئی آسانی سے اسے سمجھ سکے.ان میں سے کتا بچہ " آغاز رسالت خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی سال میں سید نا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت شائع کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور نافع الناس بنائے.برہان احمد ظفر (ناظر نشر و اشاعت قادیان)
امتہ الباری نامه شائع کردہ: نظارت نشر و اشاعت قادیان 143516 ضلع گورداسپور.( پنجاب ) بھارت L G L G L G L G L = الة صلی اللہ علیہ آلہ و به کتنه
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ م الحمد لله لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کو جشن تشکر کے سلسلے کی پینسٹھویں کتاب پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.یہ کتاب بچوں کے لئے سیرت نبوی کے موضوع پر چھوٹی چھوٹی کتابوں کے سلسلے کی دسویں کتاب ہے جس کا نام ہے سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم آغاز رسالت ہم اپنے اشاعتی منصوبے کی پیش رفت میں اظہار تشکر کرتے ہوئے مرحومہ حور جہاں بشری دار و غفر لھا کو دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں جن کی دلی خواہش کی تکمیل کے لئے ان کے بعد عزیزہ امتہ الباری ناصر کام کو آگے بڑھا رہی ہیں.اس کتاب میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اُس حفصہ کے متعلق بتایا گیا ہے جس میں خدا تعالیٰ نے آپ کو ردائے رسالت سے سرفراز فرمایا اور اصلاح عالم کی ذمہ داری سونچی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں اور گزشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کا ظہور کچھ اس طرح ہوا کہ غارِ حرا میں جبرائیل علیہ السلام نے خدائے واحد لا شریک کا پیغام پہنچایا.پڑھ اپنے خدا کے نام سے
2 آپ پر بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی.آپ گھبرائے مگر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آپ یہ ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیار ہو گئے اور سخت مخالفتوں کے باوجود آپؐ نے کامیابیوں کے ساتھ رسالت کا حق ادا کیا.ہم اسی شان والے نبی کی اُمت ہیں.ہمیں ان سب واقعات سے آگاہ رہنا چاہیے.قارئین سے درخواست ہے کہ خود بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں اور خصوصاً بچوں کو پڑھنے کے لئے دیں.تاکہ دو جان سکیں کہ خدا تعالیٰ کیسے اخلاق و اوصاف والے پیاروں کو پسند فرماتا ہے اور اپنی رضا اور القاء سے نوازتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو حصول رضائے الہلی کی توفیق عطا فرمائے.آمین عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ اور ان کی معاونات ہم سب کی دعاؤں کی مستحق ہیں جن کی محنت سے یہ روحانی مائدہ قارئین تک پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم سے نوازے آمین -
آغاز رسالت فارحرا اور پہلی وحی حجر اسود نصب کرتے وقت قریش مکہ کے سب قبیلوں کے اہم لوگوں نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر رضامندی اور خوشنودی کا اظہار کر کے آپ کے اخلاق وکردار کے پاکیزہ ہونے کی گواہی دی.ایک نیم بند جو اُن کے سامنے پکا پڑھا تھا.سب کی آنکھ کا تارا تھا اس کی پیاری عادتوں سے سب واقف تھے.اور عام طور پر ذکر بھی ہونا کہ محمد بہت امانت دار ہیں سب لوگ آپ کی اس خوبی سے خوب ' واقف تھے اگر صرف اتنا کہا جاتا کہ امین آرہا ہے، تو سب کے علم میں ہوتا کہ دراصل محمد آرہے ہیں.جن کی نمایاں ترین خوبی امانت و دیانت ہے.اس کے ساتھ یہ بھی علم تھا کہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں.امین ، کے ساتھ ' صادق بھی نام کی طرح مشہور تھا.محمد جھوٹ نہیں بولتے.یہ بات نہ صرف آپ کے رشتہ دار یا چاہنے والے جانتے تھے بلکہ دشمن بھی اعتراف کرتے تھے حتی کہ آپ کا سب سے بڑا جانی دشمن ابوجہل بھی اس خوبی سے واقف تھا.آپ کے زمانہ نبوت میں ایک دفعہ اُس نے کہا." اے محمد ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس بات کو جھوٹا کہتے ہیں جو تو لایا ہے." (ترمذی)
ہر قل شاہ روم کے سامنے ابو سفیان نے گواہی دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ دوستم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.(بخاری کتاب بدء الوحی) ایک اور جانی دشمن النظر بن حارث نے کہا.محمد تم میں ہی ایک چھوٹا سابچہ ہوتا تھا اور وہ تم سب سے زیادہ راست گو تھا اور سب سے زیادہ امین تھا.اور اس کے متعلق تمہاری یہی رائے تھی حتی کہ جب تم نے اس کی زلفوں میں سفیدی دیکھی اور وہ بڑھاپے کو پہنچا اور وہ تمھارے پاس وہ کچھ لایا جو وہ لایا تو تم یہ کہنے لگے کہ وہ ساحر ہے اور جھوٹا ہے.خدا کی قسم وہ جھوٹا اور جاد دگر ہرگہ نہیں.“ (شقا قاضی عیاض و ابن هشام) اللہ تعالیٰ نے آپ میں امانت اور صداقت کے ساتھ اعلیٰ اخلاق و کردار کی ہر خوبصورتی اپنی انتہائی بلند سطح تک جمع کر دی تھی.اچھی اچھی باتیں آپ کو کوئی سکھاتا نہیں تھا.آپؐ کا دل ہی ایسا تھا کہ اس میں سیدھی سچی صاف اور ستھری باتیں ہی آتی تھیں.آپ ایسے لوگوں میں رہتے تھے جو بتوں کی پوجا کرتے تھے مگر آپ کا دل کہتا کہ یہ غلط ہے.معبود صرف ایک ہے.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک خدا کو ماننے والے تھے.آپ جب اپنے دوستوں میں بیٹھتے تو اپنی سوچ کے مطابق باتیں کرتے.آپ کے دوستوں میں ایک عبداللہ ابن ابی قحافہ ابو بکر تھے.(جو بعد میں آپ کے خلیفہ اول بنے) ایک دوست حکیم بن حزام تھے جو آپ سے بہت محبت رکھتے تھے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی بہت اچھی دوستی تھی.آپ
کے لئے عمدہ عمدہ تحفے لایا کرتے تھے.وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چازاد بھائی تھے.ایک دوست زید بن عمر د تھے.وہ بھی خدا تعالیٰ کے ایک ہونے کے قائل تھے.یعنی دین ابراہیمی پہ قائم تھے (زمانہ گیا تھا.سلام سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو آپ اپنے دوستوں سے باتیں کرتے کہ آپ کو بتوں کی پو جا پتہ نہیں.آپ کے دوست اور دوسرے جاننے والے آپ کی باتوں کو سنتے کبھی مان جاتے کبھی نہ مانتے مگر ایسا ہوتا کہ جہاں بھی بات ہوتی وہ اس بات کا تذکرہ کر تے کہ مد اصلی ال لی کہ ہیم اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک ہے اُسی کو سب طاقتیں ہیں.اس کے علاوہ کسی کو کچھ دینے والا یا مالک تصور کرنا غلط ہے.باتیں سچی تھیں اس لئے دلوں پر ائمہ کمر میں چند دوستوں، ورقه، زید اور عثمان بن جو برت کو خیال آیا کہ پتھر کے بتوں کے آگے ، جو کوئی سمجھ نہیں رکھتے ، سر جھکانا ہے قائدہ ہے بلکہ حماقت ہے.چنانچہ سب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق حقیقی خدا کی تلاش میں نکلے.ورقہ اور عثمان تو عیسائیت سے متاثرہ ہو کر عیسائی ہو گئے اور زیدیہ کہتے کہتے مر گئے کہ خدا اگر مجھ کو یہ علم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح پوجنا چاہیئے تو میں اُسی طریقے سے تجھ کو پوجتا." 16 (سیرة النبی شیلی مت (۲) ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جھوٹے خداؤں سے بے زاری کی ہر پیدا ہو رہی تھی.اس اہر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تجارتی سفروں میں یہودیوں، عیسائیوں اور مکہ کے بت پرستوں کا آپس میں میل بول رہتا.ایک دوسرے کے عقائد اور ان کی اخلاقی حالت
کا علم ہوتا.ہر طرف خدا تعالیٰ سے دوری کی وجہ سے مذاہب میں کھو کھلا پن آگیا تھا.گندے رسم و رواج کو مذہب کا نام دیا جاتا.اچھائی اور بُرائی کا تصور بدل گیا تھا اُس معاشرے میں نمایاں اور ممتاز وہ نہیں ہوتا تھا میں کے خیالات پاک ہوں بلکہ قدر کی نگا ہیں اُس طرف اُٹھتی تھیں جو گمراہی میں تیز قدم ہو.شرک کی کوئی انتہا نہ تھی.صرف خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے.ان بتوں کے الگ الگ نام اور کام تھے.اُن کے دن منائے جاتے.قربانیاں دی جانیں اور گانے بجانے کی تفلیس منعقد کی جاتیں.عیسائیوں کے شرک کا یہ حال تھا کہ فانی انسانوں کو خدا کا درجہ دے دیا م تھا.اور اس طرح تین خداؤں کو مانتے تھے.یہودیوں نے بھی ایک نبی کو اللہ تعالیٰ کا بیا بنایا ہوا تھا.یہودیوں نے تو اللہ تعالی کی اتنی نا فرمانیاں کی تھیں کہ خدا کے پکے مجرم مین گئے تھے.مذہب کے نام پر ملنے والے سارے چراغ بجھ چکے تھے.روشنی کی جو کرن دین ابرا ہیٹی کے نام سے زندہ تھی.ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اسی دین پر قائم تھے.ایک زندہ اور قادر خداجس کا گھر خانہ کعبہ ہے جس کا پیغام سب مذاہب کی اصلی تعلیم میں ملتا ہے.وہ حی دقیوم ، واحد لاشریک خدا کہاں ہے کیسے مل سکتا ہے.انگر وہ معبود حقیقی مل جائے تو بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا جا سکتا ہے.ساری دنیا کے سارے دکھوں کا علاج اُس معبود کو پانے میں ہے.وہ اللہ تعالیٰ مل جائے تو اُس سے پوچھا جائے کہ انسانوں کے دلوں سے گند کیسے دور کیا جاسکتا ہے ہر طرف ظلم اور ظلمت کے اندھیروں کو کس طرح نور سے تبدیل کیا جا سکتا ہے.آپ اپنے ارد گرد کی ہر جھوٹی خراب اور بے معنی رسم کے خلاف تھے.بتوں پر پھر ھائے چڑھائے
جاتے.اُن کے نام کے کھانے پکتے سب بانٹ بانٹ کر کھاتے مگر آپ ایسے کھانوں کو ہاتھ بھی نہ لگاتے شراب حرام ہونے کا حکم تو آپ کی نبوت کے بعد آیا تھا مکہ کے - لوگ پانی کی طرح شراب پیتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے خود نخود آپ کے دل میں اُس گندی چیز کے لئے نفرت ڈال دی.آپؐ نے کبھی شراب نہ پی تھی.(سیرت المجیبہ باب ما حفظه الله) آپ کا دل اتنا پاک تھا کہ آپ فطری طور پر نیک باتوں کو پسند فرماتے.مکہ میں عورتوں کی عزت نہیں کی جاتی تھی.غریبوں کے حق مار کہ اُس پر فخر کیا جاتا.بیماروں اور ناداروں کی خدمت کرنا بے کار کام سمجھتے.جبکہ آپ کو سب انسانوں سے خاص طور پر اُن بے چاروں سے جو کسی کھہ میں مبتلا ہوں.زیادہ ہمدردی ہوتی.آپ کسی کو تکلیف میں دیکھ ہی نہیں سکتے تھے.کوشش فرماتے کہ آپ کی ذات سے دوسروں کو آرام پہنچے.آپ لوگوں کی بے حسی پر غمزدہ ہو جاتے اور ایسے طریقے سوچتے جن سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح ہو سکے.جاتے اور ایسے طریقے سوچتے جن سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح ہو سکے.اُن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پیدا ہو اور ایک بلند تمر وجود کا خوف ہو کہ اگر برائی کریں گے تو پکڑ بھی ہو گی سزا بھی ملے گی.بلند ہستی یعنی خدا تعالیٰ نے یہ دنیا کیوں پیدا کی یہ سورج چاند ، ستارے سارا نظام کیوں بنایا.دن اور بات کہنے ، یا.پنے کس لئے ہے.کس کے لئے بنے جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے.اُس سے تعلق کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے.اس سے پوچھا جائے کہ بندے آپس میں پیار سے کیسے رہ سکتے ہیں.آپ ہر وقت غور و فکر میں رہتے.اور دعائیں کرتے کہ معبود مجھے سیدھا راستہ دکھا ان دعاؤں اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات پر سوچنے کے لئے
ا.آپ تنہا بیٹھنا پسند فرماتے.گھر میں تو کوئی نہ کوئی بات ہوتی رہتی ہے.شہر میں گہما گہمی رہتی ہے.گلی کوچوں میں آنا جانا اور شور شرابا ہوتا ہے.آپؐ کو ان رونقوں سے زیادہ لچسپی اُن نئی نئی باتوں میں تھی جو اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھا رہا تھا.قدرت نے گویا ایک سکول کھول دیا تھا.زمین و آسمان کی حقیقتوں سے پر دے اُٹھ رہے تھے.ہر دن ہر رات راز فطرت زیادہ کھل کر سامنے آنے لگا.ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی کڑی ملنے لگی.ہر نیا انکشاف خدائے واحد کی طرف اشارہ کرتا.معبود حقیقی کو پہچاننے اور جاننے کی لذت ایسا نشہ تھا جس میں آپ زیادہ سے زیادہ ڈوب جانا چاہتے تھے.دنیا اور دنیا کی دلچسپیاں آپ کی نگاہوں میں بے حقیقت ہوتی جا رہی تھیں.آپ الگ تھلگ ہو کر اپنے معہود کی یاد میں وقت گزارنا پسند فرماتے.مکہ کی بستی سے ذرا فاصلے پر کوہ حرا پہ ہے.جاتے ایسی تنہائی کی تلاش میں جہاں صرف آپ ہوں اور آپ کا معبود - آپ کو اس پہاڑ پر ایک فارمل گئی.اس غار میں آپ کو وہ خاموشی اور تنہائی مل گئی جس کی آپ کو تلاش تھی.مکہ سے منی کی طرف جاتے ہوئے کوہ حرا پر چڑھیں تو اس کی بلندی تک چڑھ کر دوسری طرف انتہ کہ یہ ایک چھوٹی سی غار ہے جس میں ایک آدمی پورے قد سے کھڑا بھی نہیں ہو سکتا.دو بڑی بڑی چٹانیں آپس میں اوپر سے اس طرح مل گئی ہیں کہ ہٹ HUT کی شکل کی چھت بن گئی ہے.فرش ظاہر ہے پتھروں کا بنے.کوئی آرام دہ بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی.مگر آپ کو آرام اپنے محبوب خدا کی یاد میں ملتا تھا.آپ یاد الہی میں اس قدر کھو جاتے کہ وقت گزرنے کا بھی احساس نہ ہوتا.حضرت خدیجہ نے آپ کی محویت کو کو دیکھا تو حسن تدبر سے گھر کی ہر ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کر دیا.آپ کے غار حرا میں قیام کا عرصہ طویل ہونے لگا تو آپ ایسا کھانا تیار کر کے ساتھ کر دیتیں جو زیادہ دیر
محفوظ رہ سکے اور سردی گرمی کا اُس پر اثر نہ ہو.خوراک ختم ہو نے پر حضور گھر تشریف لے آتے تو وہ اگلے قیام کے لئے کھانا تیار کہ دنہیں.ایک دفعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مل کر غار حرا میں اعتکاف کی نذر مانی.الخصائص الکبری جلداً ص ۲۲۶ ترجمہ).غار حرا کی عبادت کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود متحر یہ فرماتے ہیں." اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہلِ دنیا سے ایک نفرت اور کم است پیدا ہو جاتی ہے.یا لطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی.اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپؐ اس تنہائی میں ہی پوری لذت اور ذوق پاتے تھے.ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو.آپ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے بہادر اور شجاع تھے جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آجاتی ہے.اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا.اہل دنیا بر دل ہوتے ہیں.اُن میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی.،، ( ملفوظات جلد چہارم ص (۳۱) آپ کی پہلی عبادت رہی تھی.جو آپ نے غار حرا میں کی.جہاں کئی کئی دن دیوانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وغیرہ کا خوف ہے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور عبادت کرتے تھے اور
۱۲ ترجمه دعائیں مانگتے تھے.قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک طرف کشش بہت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دُور ہو جاتا ہے ( ملفوظات چهارم ص ۳۳۲) 16.آپ نے غار حرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اور گریہ وزاری کیا گئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنت کیا کئے تب جاکر کہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے فیضان نازل ہوا...اصل بات یہی ہے کہ انسان خدا کی راہ میں جب تک اپنے اوپر ایک موت اور حالت فنا وارد نہ کر لے تب تک اُدھر سے کوئی پرواہ نہیں کی جاتی البتہ جب خدا دیکھتا ہے کہ انسان نے اپنی طرف سے کمال کوشش کی ہے اور میرے پانے کے واسطے اپنے پر موت وارد کرلی ہے تو پھر وہ انسان پر خود ظاہر ہو جاتا ہے اور اُس کو نوازنا اور قدرت نمائی (ملفوظات جلد پنجم مک (۵) سے بلند کرتا ہے." قرآن کریم نے اس کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے.وَوَجَدَكَ صَالاً فَهَدَى (الضحى : ٨) (^: یہ : اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی تلاش میں سرگردان و جیران پایا پس اُس نے تجھ کو اپنی طرف آنے کا راستہ بتا دیا.اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے اپنے ہونے کے ثبوت دینے پہلے آپ کو خواب میں ایسے نظارے دکھائے جو صبح ہونے پر صبح کے سورج کی طرح روشن انداز میں پوے ہو جاتے.خواب میں مستقبل کی خبریں دیں جو اُسی طرح پوری ہو جاتیں.آپ کا دل حمد
سے بھر جاتا.ہر نظارہ ، ہر خواب آپ کو خدا تعالیٰ سے قریب تر لے جاتا.آپ پورے کے پورے اللہ تعالیٰ میں محو ہو گئے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان بابرکت دنوں کا ذکر اس طرح کہتی ہیں."جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات بلند کرنے اور آپ کو شرف و بزرگی عطا فرمانے کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے جس چیز سے نبوت کی ابتدا ہوئی وہ سچے خواب تھے.آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ اس طرح روشن ہو کر حقیقت بن جاتا جیسے صبح کی تابندگی اور روشنی ہوتی ہے کوئی شخص بھی ان خوابوں پر شک نہیں کر سکتا تھا جیسا کہ کوئی شخص صبح کی روشنی اور تورانی کرنوں کے سامنے آنے پر ان سے انکار نہیں کر سکتا.ایک جگہ یہ لفظ ہیں کہ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ بات بالکل اسی طرح حقیقت میں بھی سامنے آجاتی." ان پیچھے خوابوں، رویائے صالحہ سے آپ کا ان دیکھے خدا پر ایمان مزید مضبوط پیغام کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا ہو جاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے اُس جو فرشتہ وحی کی صورت میں ہے کہ آنے والا تھا.جب آپ کی عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو ایک دن عجیب نظا را دیکھا.آپ غار حرا میں تشریف فرما تھے.رمضان کا مبارک مہینہ تھا.رمضان المبارک کا بھی آخرمی ٢١٠ عشرہ تھا.پیر کا دن تھا.(۲۴ رمضان المبارک ۲۰ اگست ) اچانک آپ کے ہ سامنے ایک ایسی بستی آگئی جیسے آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.یہستی اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا فرشتہ حضرت جبرائیل تھا.جو مضبوط جسم والے انسان کی شکل میں آپ کے
سامنے ظاہر ہوا.فرشتے نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا.اقرأ یعنی منہ سے بول میری بات دہرا اور پھر اُسے لوگوں تک پہنچا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَا اَنَا بِقَارِئُ میں تو پڑھ نہیں سکتا.یعنی میں توخود کو اتنا بڑا کام کرنے کے قابل نہیں سمجھتا.فرشتے نے یہ جواب سنا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا اور زور سے سینے سے لگا لیا اور پھر چھوڑ کر کہا.س کی کہا اقرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا.فرشتے نے آپ کو پھر کپڑا اور زور سے سینے سے لگا کہ بھینچا اور پھر چھوڑ اِقْرَأْ مگر آپ کا دیہی تامل تھا اس پر اُس ربانی رسول نے آپ کو تیسری دفعہ بھینچا.گویا اپنی انتہائی کوشش سے آپ کے دل پر اثر ڈالا.آپ فرماتے ہیں.حَتَّى بَلَغَ مِي الجُهْدُ میری مقابلہ کی طاقت ختم ہو گئی.فرشتے کو ستی ہو گئی کہ اب آپ خود کو اس پیغام کے لئے آمادہ کر لیں گے.آپ کو چھوڑ اور اللہ پاک کا لایا ہوا پیغام آپ کو پڑھایا.إقراء باسم تِكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ
۱۵ مِنْ عَلَى اِقْرَ أَوَرَبُّكَ الأكرمُ الَّذِى عَلَّمَ بالقلم لا عَلَمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُه پڑھ لینی منہ سے بول یا لوگوں تک پہنچا اپنے رب کا نام جس نے پیدا کیا.پیدا کیا اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے.ہاں پڑھ تیرا رب بہت عزت اور شان والا ہے.جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا.سکھایا اس نے انسان کو وہ کچھ جو وہ جانتا نہ تھا.ا استفاده سیرت خاتم النبین ص ۱۸ ، بخاری کتاب بدء الوحی) آپ اس پیغام اور اس کے ساتھ عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو سمجھتے تھے.اس لئے اپنی خاکساری کی وجہ سے خیال تھا کہ میں تو ایک عاجزہ بندہ ہوں پھر پڑھا لکھا بھی نہیں شان والے رب کا پیغام صحیح طریق پر پہنچا بھی سکوں گا یا نہیں.اسی لئے آپ نے دو مرتبہ اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا.مگر جب آپ کو اندازہ ہوا کہ اللہ پاک آپ کو یہ کام سپرد فرمانا چاہتا ہے تو آپ نے اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کا تابع بنا دیا اور بڑی فرمانبرداری سے اس ذمہ داری کو قبول فرمائیا.آپ جانتے تھے کہ وہ اپنے بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا اور جس سے کام لینا ہو.اُس میں اپنے فضل واحسان سے صلاحیت اور شجاعت پیدا فرما دیتا ہے.تاہم اس بڑی ذمہ داری کی آپ پر گھبراہٹ تھی.اجنبی سے ملاقات محبوب خدا کا پیغام اور ذمہ داری سب پہلی دفعہ ہوا تھا.آپ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا.آپ کو ایک طرح کا خوف محسوس ہوا.آپ جلدی جلدی گھر تشریف لائے.حضرت خدیجہ نے آپ کو دیکھا تو معمول سے قدرے تاخیر سے آنے پر گھبراہٹ
19 کا اظہار کیا.اے ابوالقاسم آپ کہاں تھے قسم ہے خدا کی میں نے آپ کی تلاش میں آدمی بھیجے یہاں تک کہ وہ مکہ کی بلندیوں سے ہو کہ واپس بھی آگئے.آپ نے بے چینی سے فرمایا.نَقِلُونى، نمّلُونى مجھے کپڑا اوڑھا دو.مجھے کپڑا اوڑھا دو.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی حالت دیکھی تو جلدی سے کپڑا اوڑھا دیا اور پاس بیٹھ گئیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ نے اطمینان محسوس فرمایا.تو فرشتے کے آنے اور آپ پر بہت عظیم ذمہ داری ڈالنے کا سارا ماجرا سنایا.آپؐ نے فرمایا.لَقَدْ خَشِيْتُ عَلَى نَفْسِى مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر لگنے لگا ہے.مجھےجو پیغام دیا گیا ہے بڑا بو جھیل کام ہے.مجھے لگتا ہے مجھے سخت محنت کرنا ہوگی.بہت مشکل واقعات پیش آئیں گے.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کی سب باتیں اطمینان سے سنتیں.اُن کو اندازہ تھا کہ اُن کا شوہر کوئی معمولی انسان نہیں.لمحے لے کے ساتھ جو سکینت اور اطمینان اور دلی خوشی اُن کو میسر آتی تھی.وہ ایک خدا نما تورانی ہستی سے ہی ممکن تھی.اسی وجہ سے وہ آپ سے بے حد محبت کرتی تھیں.بیوی سے زیادہ کسی کو کون سمجھ سکتا ہے اور وہ تو مکہ کی عقلمند ترین خاتون شمار ہوتی تھیں.بڑے سکون سے بڑی محبت سے اور بڑے مان سے آپ نے کہا.كَلاَ وَ اللَّهِ مَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ.-
16 وَتَحْمِلُ الكَلَ وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَ تُعِيْنُ عَلَى نواب الحق (بخاری کتاب بدء الوحی) - نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.بلکہ آپ خوش ہوں.خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.آپ رشتے داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں.ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں بے سہارا لوگوں کے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں.نادار لوگوں کو کہا کہ دیتے ہیں.وہ اعلیٰ اخلاق جو دنیا سے مٹ چکے ہیں ان کو اپنے اندر جمع کیا ہے ہمیشہ مہمان نوازی کرتے ہیں.جو لوگ ایسے مصائب میں مبتلا ہوں جن میں ان کی شرارت کا دخل نہ ہو بلکہ حوادث زمانہ سے ان کو تکلیف پہنچی ہو.آپ اُن کی مدد کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالے گا.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی جن خوبیوں سے آپ کی قدر دان تھیں سب کا ذکر کمر کے تسلی دی کہ جس شخص میں یہ خوبیاں ہوں.اللہ تعالیٰ اس کا ساتھ ضرور دے گا پھر مزید نیستی کے لئے اور حوصلہ بڑھانے کے لئے آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں.ورقہ بن نوفل مذہبی علوم سے واقف تھے.توریت اور انجیل کے مترجم تھے.الہی کلام کے انداز کو خوب سمجھتے تھے.اگر چہ ضعیف ہو چکے تھے.بینائی بھی باقی نہ تھی تاہم وہ وقت کی اداؤں کو پہچانتے تھے کہ عظیم الشان موعود بنی کے آنے کا وقت ہو چکا ہے.آپ کی زبانِ مبارک سے سارا ماجرا سن کر کہا." یہ تو وہی پیغام ہے جو حضرت موسیٰ کو ملا تھا.کاش میں اس وقت (یعنی آپ کے نبی بننے کے وقت جوان ہوتا.کاش میں اُس وقت زندہ
1A ہوتا.جب تیری قوم تجھے نکال دے گی.عجیب بات تھی ابھی خدیجہ نے آپ کی خوبیوں کا ذکر کر رہی تھیں.آپ کو خود بھی علم تھا کہ آپ کبھی کسی کو تکلیف دیتے ہیں نہ تکلیف میں رہے ہیں.آپ نے حیرت سے فرمایا.دیکھ سکتے ہیں پھر یہ ورقہ کیا کہہ اوَ مُخْرِ حَيَّ هُمْ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی.ورقہ نے کہا وہاں تیری قوم تجھے نکال دے گی کیونکہ آج تک کوئی شخص اس تعلیم کو لے کر نہیں آیا جیس تعلیم کو تو لے کر کھڑا ہوا ہے.مگر اس کی قوم نے اُس کی ضرور شمنی کی ہے.اگر مجھے بھی وہ دن دیکھنا نصیب ہوا جب تم اپنی قوم کے سامنے اس تعلیم کا اعلان کرو گے اور قوم تیری شدید مخالفت کرے گی.یہاں تک کہ وہ تجھے اس شہر میں سے نکال دے گی تو میں تیری مدد کروں گا.بخاری باب بدء الوحی) اس واقعہ کے کچھ دن بعد ورقہ بن نوفل فوت ہو گئے مگر وہ یہ سعادت حاصل کر گئے کہ تائید کرنے والوں میں سر فہرست رہے.حضرت مصلح موعود نے تحقیق کر کے کر بتایا ہے کہ اقرا کے بعد سورۃ " ن والقلم" اور سورہ مرتبل نازل ہوئی.پھر وحی کا ( تفسیر کبیر جلد دہم (۲۲۲) سلسلہ رک گیا.حضرت ابن عباس کے مطابق یہ عرصہ چالیس دن بیان ہوا ہے.) زرقانی جلد (
۱۹ وحی کا سلسلہ رک جانے اور عظیم الشان کام کی اہمیت کے احساس سے آپ فکر مند رہتے.فرائض کی بجا آوری میں پورا اتر نے کا بوجھ بھی تھا.طبیعت کا انکسار اور عاجزانہ مزاج اس کیفیت میں خوف اور مایوسی کا رنگ بھر دیتا.اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غناء کو دیکھتے ہوئے کوتا ہی ہو جانے کے ڈر سے ناراضگی کا ڈر بھی تھا.حدیث میں آتا ہے کہ آپ کو کشفی نظاروں میں دکھائی دیتا کہ آپ پہاڑ کی چوٹیوں سے خود کو گرانا چاہتے ہیں.ایسے میں فرشتہ آواز دیتا.يا محمد إنَّكَ أَنتَ رسول الله حقا اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو اللہ تعالیٰ کے پیچھے رسول ہیں.اس آواز سے آپ اپنا ارادہ ترک فرما دیتے.(بخاری کتاب التعبیر) آپ کا وقت زیادہ تر غار حرا ہی میں گزرتا.ایک دن آپ حرا سے اپنے گھر واپس آرہے تھے کہ اچانک ایک آواز آئی گویا کوئی شخص آپ کو مخاطب کر رہا ہے.آپ نے آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا.آخر آپ نے اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک عظیم الشان کرسی پر وہی فرشتہ بیٹھا ہے جو غار حرا میں آپ کو نظر آیا تھا.آپ نے یہ نظارا دیکھا تو سہم گئے اور گھبرائے ہوئے جلدی جلدی گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ سے فرمایا.دَبِرُونِي دَرُوني مجھ پر کوئی کپڑا ڈھانک دو.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جلدی سے کپڑا اوڑھا دیا.آپؐ کپڑا اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ ایک پیر جلال آواز آپؐ کے کانوں میں آئی.
۲۰ ياَيُّهَا المُدَّثِرُ اے چادر میں لپٹے ہوئے شخص اُٹھ کھڑا ہوا اور لوگوں کو خدا کے نام پر بیدار کہ.اُٹھ اور اپنے رب کی بڑائی کے گیت گا اپنے نفس کو پاک صاف کمر اور ہر قسم کے شرک سے پر تیر کمہ." 16 استخاری ابواب التفسیر و باب بدء الوحی ) اس کے بعد وحی کا سلسلہ ہرا بہ جاری ہو گیا.نبوت کے پیغام کے ساتھ آپ پر نماز فرض ہوئی.آپ مکہ کے بلند جیتے ہیں تھے.جہاں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا.حضرت جبرئیل نے وضو کیا پھر آنحضرت صلی اللہ علہ یکم نے بھی اُسی طرح وضو کیا.بعد ازاں حضرت جبرائیل نے آپ کو ساتھ لے کر نماز پڑھی اور غائب ہو گئے.(اس کشفی نظارہ کے بعد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدی کے پاس تشریف لائے.اُن کے سامنے وضو کیا اور ساتھ لے کہ اُسی طرح نماز پڑھی جس طرح حضرت جبرائیل نے پڑھی تھی.(ابن ہشام) اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جہاں پہلی مسلمان عورت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا وہاں پہلی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.آپؐ نے اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ پہلی مبلغ عورت ہیں.ور قرین نوفل اور بصرہ کے بحیرا راہب کو آپؐ نے ہی نبوت کے ظہور کی اطلاع دی.دسیرت حلبیہ جلدا ص۳۹۲ تالیف علی بنا به بان الدین الحلبی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواتین جنت کی سردار فرمایا.ر جامع الصغير للسيوطى جلد ۲۲ )
ایک بار حضرت جبرائیل نے آپ کو بتایا کہ خدیجہ برتن میں کچھ لارہی ہیں.آپ ان کو خدا کا اور میرا اسلام پہنچا دیں.(استیعاب جلد ۲ ص ۷۲) کو ایک موقع پر حضرت جبرائیل نے آپ کو فرمایا " خدیجہ کو جنت کے ایک ایسے گھر کی بشارت سنا دیجئے جو موتیوں کا ہو گا." ہوگا (اسد الغابه جلده من (۴۳ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رفاقت نے آپ کو بڑا حوصلہ دیا.آپ اس بہت بڑی ذمہ داری کے متعلق سوچھتے کہ کس طرح مکہ میں اپنے اردگرد غافل جاہل لوگوں کو بیدار کر کے اللہ تعالیٰ کا پیغام دیں ابتداء میں آپ نے بڑی حکمت سے اپنے قریبی احباب کو تبلیغ حق کا منصوبہ بنایا.سکہ کے امین دصادق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سب سے پیالے نبی ، انسانوں میں سب سے بہتر اور نبیوں میں سب سے افضل خاتم النبیین کس طرح انسانوں کو خدا سے ملاتے ہیں.کسی طرح سخت دشوار حالات سے گذرتے ہیں.یہ عزم حوصلے استقلال کی درد ناک مصائب سے پُر کہانی ہم آپ کو تفصیل سے بتائیں گے.اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت فضل اور احسان کے نظارے دیکھیں گے اور دل سے درود پڑھتے رہیں گئے.اللهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ الِ مُحَمَّد وَبَارِكْ وَسلم إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد