Adbul-Masih

Adbul-Masih

ادب المسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام

آپ حضرت کے محسنات شعر اُردو، فارسی اور عربی زبان میں
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ
منظوم کلام

مصنف کی یہ گہری علمی کاوش اپنی نوعیت اور موضوع کے اعتبار سے ایک خاص محبت سے پیش کیا جانے والا شاہکار ہے جس میں انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اردو، عربی اور فارسی کے شعری کلام کا ان تینوں زبانوں کے اساتذہ کے کلام سے موازنہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کیا موضوعات کے لحاظ سے اور کیا فن کے لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حق میں اللہ تعالیٰ کا  فرمان <p style="text-align: center;">درکلام تو چیزیست کہ شعرائے رادرآں دخلے نیست</p> برحق ہے۔نیز اس کتاب کی تیاری کا  مرکزی جذبہ اور روح رواں یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے  موضوعات شعر قرآن کریم کے موضوعات ہونے کی بناء پر فرمان خدا اور فرمان رسولﷺ کو ہی پیش کرتے نظر آتے ہیں اور صاف عیاں ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کا ادبی کلام قرآن کریم کے اقدار ادب کے عین تابع ہے۔ مصنف نے اپنے بزرگ والدین (حضرت مصلح موعود ؓ اور حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ) سے ورثہ میں ملنے والے علمی اور ادبی ذوق سے مہمیز لیتے ہوئے ایک طویل محنت اور عرق ریزی کے بعد اس زمانہ کے امام مسیح موعود کے عطاکردہ بے بہا اور قیمتی ترین خزانہ کے چند ہیرے جواہرات دکھانے کے لئے یہ کتاب مرتب کی تو اس پر سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسودہ دیکھنے کے بعد ایک مکتوب میں کتاب پر رائے ظاہر فرمائی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، جس سے کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا کلام واقعی ارشادہ باری تعالیٰ کے عین مطابق ہے: <p style="text-align: center;">کلام افصحت من لدن رب کریم</p> قریبا 500 صفحات کی اس ٹائپ شدہ کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے محسنات اشعار پر سیر حاصل مواد بڑے خوبصورت قرینے سے مرتب کرکے پیش کیاگیا ہے۔ آخر پر انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

صرف احمدی احباب کے لیے وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (الحج: 25) اور اُن کو پاکیزہ کلام کی طرف ہدایت کی جائے گی اور ان کو خدا کے طریق کی طرف ہدایت کی جائے گی ادب المسيح عليه الصلوة والسلام آپ حضرت کے محسنات شعر اردو، فارسی اور عربی زبان میں در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخلے نیست تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے كَلَام اقْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رَّبِّ كَرِيمٍ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے ( الهام حضرت اقدس)

Page 2

انتساب نمبر شمار 1 - اظہار تشکر پیش لفظ فہرست موضوعات فہرست مضامین 3.چند یادیں.وجہ افتخار وشکر - تعارف از حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 5.چند گزارشات 6.ادب اور اس کی تعریف 7 آسمانی اور زمینی ادب کے محرکات حضرت اقدس کے موضوعات شعر 9.حضرت اقدس کا ادب تین زبانوں میں اور اساتذہ ادب سے تقابل الف.اردو زبان میں ابلاغ رسالت آپ حضرت کا عقیدہ اور دعاوی ii مسیح و مہدی کی آمد ہندوؤں اور دہریوں پر ابلاغ رسالت iv عیسائیوں پر ابلاغ رسالت V سکھوں پر ابلاغ رسالت vi اصلاح عقائد اور ابلاغ (1) وفات مسیح ادب المسيح صفحہ نمبر vii ix xi xiii xviii 1 13 46 26 41 54 61 73 74 له له له له لا 76 78 79 80 80

Page 3

المسيح iv (۲) جہاد بالسیف vii ابلاغ رسالت میں انکار و تکذیب viii ابلاغ رسالت بشیر و نذیر بن کر ix ابلاغ _ قوم کو نصیحت فارسی زبان میں ابلاغ رسالت ابیات ii عیسائیوں پر ابلاغ رسالت iii قصیده iv غزل دعوی رسالت vi دعوی مسیحیت vii دعوی مجددیت viii نذیر اور بشیر ہونے کے اعتبار سے عربی زبان میں ابلاغ رسالت ج - 10.حضرت اقدس کے ادب کے علائم ورموز الف روحانی علائم ورموز i نور ii صدق ادبی علائم ورموز i بہار 81 82 84 85 87 91 101 103 116 123 124 125 125 127 151 154 154 164 173 173

Page 4

V ii کربلا، گریبان اور جیب 11 - حضرت اقدس کا ادب ایک منفر دمکتب ادب ہے 12 - حمد و ثناء باری تعالیٰ الف.اردو زبان میں حمد و ثنائے باری تعالیٰ فارسی زبان میں حمد و ثنائے باری تعالیٰ ج.عربی زبان میں حمد وثنائے باری تعالیٰ 13.نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الف.اردو زبان میں فارسی زبان میں ج.عربی زبان میں 14.مدحت و ترغیب اسلام الف.اردو زبان میں فارسی زبان میں ج - عربی زبان میں 15 - مدحت قرآن الف.اردو زبان میں i نور ii ہدایت iii تاثیرات قرآن 179 187 196 224 230 236 242 260 267 276 284 284 293 301 306 310 310 312 313

Page 5

ب المسيح فارسی زبان میں ج.عربی زبان میں 16 - مدح صحابہ کرام 17.محبت الہی الف.اردو زبان میں فارسی زبان میں ج.عربی زبان میں 18- تقوی 19- عاجزی اور خاکساری 20.تکبر اور خود پسندی 21- ترک آسائش و آرام 22.دنیا سے بے رغبتی 23.عیب جوئی و بدگمانی 24- مناجات.دُعا 322 vi 25.حضرت اقدس کا روحانی منصب اور مقام 26 | انڈیکس آیات قرآنیہ 329 335 346 356 363 370 375 386 397 401 404 408 409 433 447

Page 6

vii ادب المسيح انتساب خاکسارکی یہ کوش میری والدہ مرحومہ سار بیگم در خلیہ اسی الثانی رضی الہ عنہ کے نام ہے.اول اس لیے کہ میرے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کاش وہ میری ہوشمندی کے زمانہ تک زندہ ہوتیں تو میں چھوٹی موٹی خدمت اور مہلکے پھلکے پیار سے ان کا دل گرما تا اور ان کے لیے چند خوشی کے لمحات پیدا کرتا.ایسا تو نہیں ہوسکا اور وہ اس زمانے سے بہت قبل اپنے محبوب حقیقی کے پاس چلی گئیں.مگر میں خیال کرتا ہوں کہ شائد میری تمنا کے صدق کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بخشی ہے کہ میں ان کی محبوب ہستی اور آقا کے کلام کے حسن و خوبی کی تلاش کی اس کوشش کو ان کے نام سے منسوب کروں.اور پھر ایسا ہو کہ آپ اپنے بیٹے کی اس خدمت کو مادری فخر اور عاجزی کے ساتھ اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحفہ پیش کریں.دوسرے درجہ پر یہ انتساب اس لیے بھی موزوں ہے کہ میرے ننھیال کی روایات اور میرے نانا محترم مولانا عبدالماجد کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ میری والدہ صاحب علم و ادب خاتون تھیں اور خصوصاً فارسی زبان کا علم اور شعری ادب کا عالمانہ فہم اور ذوق سلیم رکھتی تھیں.دوروایات سناتا ہوں : اول یہ کہ میرے نا نامحترم نے اپنی بیٹی کی جواناں مرگ رحلت کے غم میں ان کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خلیفتہ امسیح الثانی کے نکاح میں آنے کے بعد جب ان کی رخصتی کا وقت آیا تو آپ ماں باپ کی جدائی اور ایک دور در از اجنبی منزل کی طرف روانہ ہونے پر بہت مضطرب تھیں.اس اضطراب کو دور کرنے کے لیے نا نا محترم نے ان کے کان میں سعدی کا یہ شعر اپنے نام کی تبدیلی کے ساتھ بار بار سنایا تو آپ کا اضطراب دور ہوا: تا نہ پنداری که تنها می روی دیده ماجد و دل همراه تست ترجمہ: یہ گمان نہ کرو کہ تم تنہا جا رہی ہو.ماجد کا دیدہ و دل تمہارے ساتھ ہے.یہ شعر سعدی کی شہکار غزلوں میں سے ایک ہے جو محبوب ہستی کی جدائی اور فراق کے مضمون میں معروف ہے.

Page 7

ادب المسيح آپ کے فارسی ادب کے عارفانہ ذوق سلیم کی تصدیق میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی تیتر بھی ہے جو آپ اسی الثانی نے میری والدہ کی وفات پر ان کے ذکر میں لکھی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے ایک مرتبہ اپنے خط میں لکھا کہ میں اپنی زندگی کا مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں“: بر آستان آں کہ ز خود رفت بیر یار چوں خاک باش و مرضی یارے دراں بجو آپ حضرت اقدس کے شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تو خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کے لیے اپنے نفس کو کھو چکا ہو.پھر اس کے دروازے پر مٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گر جا اور اس طرح سے خدا کی رضا حاصل کر“ اور فرماتے ہیں: ” بخدا اس نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا کر دیا.زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی.وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہے.“ اور دعا دیتے ہیں: ”اے راحم خدا تو اس گری ہوئی کو اٹھا لے اور اس پر پوری طرح سے راضی ہو جا.آمین الفضل 23 جون 1933 ) جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عارفانہ شعری ادب کا ایسا گہرا فہم اور ذوق سلیم اس انتساب کی دوسری مناسبت ہے.خدا کرے کہ یہ کوشش ان کے ذوق شعر وادب کے معیار سے قریب تر ہو.آمین.والسلام خاکسار مرزا حنیف احمد ور رمضان المبارک 1428 ہجری 22 ستمبر 2007

Page 8

ix ادب المسيح اظہار تشکر اول تو خاکسار کی طرف سے ہمارے پیارے باری تعالیٰ کا بے حد و حساب شکر ہے کہ اُس نے صرف اپنے بے پایاں احسان کے تحت یہ توفیق دی ہے کہ خاکسار با وجود کم علمی کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے محاسن پیش کر سکے.فالحمد للہ.الحمد للہ.والحمد للہ علی ذالک.اس عنایت خاص کے تشکر میں خاکسار اپنی ذات کو بے انتہا کم درجے پر رکھتے ہوئے بہت عاجزی سے اپنے آقا کے اشعار ہی کو پیش کر سکتا ہے جو بہر وجوہ خاکسار پر اطلاق پاتے ہیں.اپنی کم علمی اور محدود استعداد کی بنا پر یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار اور اللہ تعالیٰ کے خالص احسان اور عنایت کی بنا پر ہے.نگاه رحمت جاناں عنایت با بمن کردست وگرنہ چوں منے کے یا بد آں رشد و سعادت را ترجمہ: محبوب کی نگاہ رحمت نے مجھ پر بڑی عنایتیں کی ہیں ورنہ مجھ جیسا انسان کس طرح اس رشد و ہدایت کو پاتا.اس خدمت کے معاونین میں وہی دو نام ہیں جنہوں نے خاکسار کی کتاب تعلیم فہم القرآن کی تیاری میں بہت خدمت کی تھی.اول میجر ریٹائرڈ سعید احمد صاحب ابن چوہدری محمد بوٹا صاحب مرحوم ہیں.دوم چوہدری محمد ادریس صاحب ابن مولانامحمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی مرحوم مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ ہیں.ان دونوں اصحاب نے میرے علمی مسودے کو خوشخط کیا اور پھر بہت محنت اور لگن سے لفظاً لفظاً PROOF READING کی.یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا.اللہ تعالیٰ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے محبت کو قبول کرے اور آخر دم تک اس کو بڑھاتا چلا جائے.آمین.خاکسار ان دونوں کا بہت شکر گزار ہے اور ان کے لیے دعا گو ہے.یہ امر بہت قابل تحسین ہے کہ محترم میجر ریٹائرڈ سعید احمد صاحب نے اس کتاب میں درج شدہ آیات قرآنیہ کا انڈیکس بھی بہت محنت سے تیار کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے.

Page 9

ادب المسيح X آخر پر مگر اہمیت کے اعتبار سے تین دوست اور بھی ہیں.اول: طاہراحمد مختار مربی سلسلہ، دوم: محمد یوسف شاہد صاحب مربی سلسلہ اور تیسرا نام محترم حبیب الرحمن زیروی صاحب نائب ناظر اشاعت کا ہے.ان سب اصحاب نے بہت ہی محنت اور محبت سے کتاب کے مسودہ کی Proof Reading اور اس کی Setting بھی کی.خاکساران سب اصحاب کا بہت شکر گزار ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے محبت کو قبول فرمائے.آمین ثم آمین والسلام خاکسار مرزا حنیف احمد

Page 10

ادب المسيح پیش لفظ حضرت اقدس کا شعری کلام تین زبانوں (اردو.فارسی.عربی میں تخلیق ہوا ہے.ظاہر ہے کہ ان زبانوں کے سرمایۂ ادب کی لفظی اور معنوی خوبی کی تلاش اور نشاندہی کے لیے ان تینوں زبانوں کے ادب کا وسیع اور تفصیلی علم اور ادبی علوم یعنی علم معانی اور بیان اور فن صنائع اور بدائع سے متعارف ہونا بہت ضروری ہے.یہ وہ ریاض اور علوم ہیں جن کی مدد سے محاسن کلام کی تعیین اور تحقیق ہوتی ہے اور شعر کے لفظی اور معنوی حسن و جمال کی شناخت میں مدد ملتی ہے.تاہم، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شعری حسن و جمال کو دل و دماغ میں قبول کرنا اور ایک جمالیاتی اور معنوی لطف اٹھانا دراصل ایک ذوقی قابلیت ہے جو کہ بہت حد تک ایک خداداد استعداد ہے.اس شعر نہی کی استعداد کو کسی جمالیاتی فلسفہ اور لسانی اصطلاحات کے حوالے کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ ایک فطرتی صلاحیت ہے جس کو ذوق سلیم بھی کہا جاتا ہے.اگر یہ موجود ہو تو صاحب ذوق لفظ و معانی کے حسن و جمال کی ہر تجلی اور ہر انداز کو پہچان لیتا ہے.سمجھ لیتا ہے اور لطف اُٹھاتا ہے.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جن نابغۂ شعر و ادب نے الفاظ و معانی میں گل کاریاں کی ہیں وہ سب ایسے تھے کہ ان کو اپنی گل افشانیوں کے لئے کسی فنی اور فلسفیانہ علیم ادب و انشاء کی راہ نمائی نصیب نہیں تھی.اس کے باوجودان کے کلام میں تمام محاسنِ کلام کی اقدار جلوہ نما ہوتی ہیں.حالانکہ شعوری طور پر ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ادبی صنعت گری پیش کر رہے ہیں.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی تخلیقات ادب کے مطالعہ اور تجزیہ پر بنیاد رکھ کر اور ان کو دلیل راہ بنا کر ہی علوم ادب اور فن شاعری کے دستور اور قواعد مرتب کئے گئے ہیں.اس بیان میں غالب کو بھی سن لیں.ما نه بودیم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد که گردد فن ما ترجمہ: میں تو اپنے معیار ادب پر خوش نہیں تھا.مگر شعر نے خود خواہش کی ہے کہ وہ میرے فن میں شمار ہو.مطلب یہ ہے کہ شعر سے فنِ شعر پیدا ہوتا ہے.فرن شعر سے اشعار کی تخلیق نہیں ہوتی.ان حقائق کے باوجود ادبی علوم سے متعارف ہونا اور مطالعہ ادب کی وسعت کی اہمیت مسلمہ ہے.ادبی

Page 11

ادب المسيح xii استعدادوں کو صیقل کرنے کی یہی راہ ہے.اس ضمن میں عرض کرتا ہوں کہ گزشتہ پچھپیں ، تمہیں سال سے جبکہ خاکسار نے اپنے ذوق ادب کا رُخ حضرت اقدس کے کلام کی طرف موڑا ہے اور اس سے ایک محبت کا رشتہ قائم کر کے اس کی مقدور بھر خدمت کرنے کا ارادہ کیا ہے اس وقت سے علوم ادبیہ کے حصول کی اور ان تینوں زبانوں کے اُس سرمایۂ ادب کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے جو حضرت اقدس کے موضوعات شعر کے تحت آتے ہیں.اس لیے علوم شعریہ سے مکمل طور پر نا واقف بھی نہیں اور اساتذ ہ ادب کے محاسن کلام کی پہچان کا مقدور بھر شعور رکھتا ہوں : دراصل یہ ایک معذرت ہے اپنے محبوب علیہ السلام کی جناب میں اور سچی بات بھی یہی ہے کہ یہ کوشش ایک علمی شاہکار کے طور پر نہیں کی جارہی.یہ ایک اظہار محبت ہے جو خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ادب عالیہ سے ہے.یقین ہے کہ کم قیمت ہونے پر بھی آپ حضور اپنی کمال شفقت سے اس تھے کو قبول فرما ئیں گے.بفضلہ تعالیٰ عرفی شیرازی نے میرے دل کی بات کی ہے: امید هست که بیگانی عرقی را بدوستی سخن ہائے آشنا بخشند امید ہے کہ عرفی کے بیگانہ پن کو اپنے دوست کے اشعار سے محبت کی وجہ سے قابل در گذر سمجھا جائے گا.

Page 12

xiii ادب المسيح چند یادیں.وجہ افتخار و شکر میرے بڑے بھائی خلیفہ امسح الرائع بہت اعلیٰ درجہ کے شاعراور صاحب ذوق سلیم تھے.بھائی ہونے کارشتہ تو تھاہی مگر مشترک ادبی رجحان ہونے کی بنا پر بھی ہم دونوں کا ایک تعلق تھا اور اکثر اوقات شعر وسخن کا تذکرہ رہتا تھا.مجھے یاد ہے کہ چند غزلیں ایسی بھی تھیں کہ اگر ایک مصرعہ ان کا ہے تو دوسرا خاکسار کا اور بہت مرتبہ میرے اشعار کی تعریف بھی کیا کرتے تھے.مجھے افسوس ہے کہ وہ سب تحریریں محفوظ نہیں رکھ سکا.ایک مرتبہ خاکسار نے ایک ہلکا پھلکا مقالہ حضرت میں موعود علیہ السلام کی فاری شاعری پر جامعہ احمدیہ کی مجلس میں پڑھا تھا اور اس کی نقل حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت میں ارسال کی تھی.آپ نے اس مضمون کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ تمہاری تحریر عالمانہ ہے اس خدمت کو مکمل کرو.یہ تمہارے قلبی رجحان کے مطابق ہے اور پھر بہت مرتبہ استفسار کرتے رہے کہ حنیف کا کام کہاں تک پہنچا ہے؟ افسوس ہے کہ جب ادب اسے کاکام مکمل ہوا تو آپ اپنے محبوب حقیقی کے پاس جاچکے تھے.آپ کے ادبی اور دینی منصب کے اعتبار سے حضرت اقدس کے کلام کے محاسن کی بیش قدر قیمت کو سمجھنا آپ ہی کا منصب تھا.تاہم میرے لئے یہ امر وجہ افتخار ضرور ہے کہ آپ کی نظر میں خاکسار اس خدمت کو سرانجام دینے کے قابل تھا.ان سب یادوں سے یہ تو ثابت ہے کہ ادب اسیح “ کی تکمیل میں آپ کی تمنا اور دعا شامل تھی.ایک مرتبہ آپ کی یاد میں کسی شاعر کا سلام میری نظر سے گزرا تو میں نے بھی برجستہ چندا شعار ”سلام کے عنوان سے کہہ کر آپ کی خدمت میں بھجوائے تھے.یاد پڑتا ہے کہ اس کا مطلع کچھ اس طور سے تھا صبا جو گزرے تو اس گلی میں تو ان کو میر اسلام کہنا بہت محبت سے بات کرنا بطر ز صد احترام کہنا اور مقطع کیونکہ مجھے پسند آیا تھا اس لئے خوب یا د رہا ہمارے آنسو کو عشق مہدی میں آپ زمزم کا نام دینا ہمارے دل کو خدا کی الفت میں ایک بیت الحرام کہنا

Page 13

ادب المسيح xiv آپ حضرت نے میرے سلام کو بہت محبت سے قبول کیا.خوش قسمتی سے آپ کا خط محفوظ رہ گیا ہے.تبر کا پیش کرتا ہوں.را جعل : من لدنه سلطا نصيها بناء مالك المحامين ليدر پیارے برادرم حنیف احمد سم الله اله العلم نَحْمَدُه وَتُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكريم ANMADIYYA MUSLIM TENGI آپ کا پیار بھرا پر خلوص دلچسپ خط ملا.جزاکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته آپ کی نظم بہت عمدہ اور اعلیٰ درجہ کی ہے.اس میں استادی رنگ پایا جاتا ہے.ماشاء اللہ.امید ہے کسی پرچے میں شائع ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو اپنی بے حد رحمتیں عطا کرے.آصفہ بیگم محبت بھر اسلام کہتی ہیں.بچوں کو ہمارا پیار دیں.والسلام خاکسار عليقات والرابع حضرت کی وفات کے بعد خاکسار نے زیادہ توجہ اپنی تصنیف ”تعلیم فہم قرآن کی طرف کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ کتاب حضرت خلیفہ اسیح الخامس کے وقت میں تیار ہوگئی اور آپ نے اس خدمت کو بہت ہی محبت سے قبول کیا اور بہت ہی قابل قدر اور پر معارف خط کتاب کے تعارف میں تحریر فرمایا.فجزاك الله خيرا خاکسار نے حضرت خلیفہ لمسیح الخامس سے ذکر کیا کہ خاکسار ادب المسیح “ کے عنوان سے حضرت اقدس کے تین

Page 14

XV ادب المسيح زبانوں میں شعری کلام کے محاسن کے عنوان سے کچھ خدمت گزاری کی کوشش کر رہا ہے.آپ نے اس ارادے کو بہت پسند فرمایا اور جب تک یہ کام مکمل نہیں ہو گیا میری ہمت افزائی کے طور پر آج تک یہ استفسار کرتے رہے کہ ادب الصبیح ، کب مکمل ہوگی.میں بھی اپنی کوشش کے ساتھ دعا کے لئے عرض کرتا رہا لی کہ اس کی تعمیل ہوئی اور خاکسار نے آپ حضرت کی خدمت میں کتاب کا پہلا پروف ارسال کر دیا.اس کے جواب میں آپ حضرت کا خط تبر کا پیش خدمت کر رہا ہوں.والعمل إن من لذلك سُلْطنا تميرا القنا لك تماشيا مر الة الحياة العلمية تَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر پیارے صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کی نئی کتاب ”ادب اصحیح “ کا مسودہ ملا.جزاکم اللہ حسن الجزاء.میں نے تو اس کی صرف چند جگہیں ہی دیکھی ہیں.ماشاء اللہ ادبی اور علمی ذوق رکھنے والوں کے لیے اچھا مجموعہ ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام مختلف حوالوں سے اکٹھا کیا ہے اور وضاحت کے لیے بھی آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہی نثری کلام کو پیش کیا ہے.اللہ قبول فرمائے.میں چونکہ بالاستیعاب نہیں دیکھ سکا اس لیے آپ اشاعت سے پہلے اسے نظارت اشاعت کو دکھا دیں تا کہ وہ تفصیل سے دیکھ کر اس پر اپنی رائے دے سکیں.اللہ آپ کی صحت اور عمر میں برکت دے اور تمام نیک مرادیں پوری فرمائے.آمین والسلام خاکسار خليفة المسيح الخامس

Page 15

ادب المسيح xvi حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کوشش کو نظارت اشاعت کی طرف بغرض تبصرہ ارسال کیا گیا.ناظر صاحب اشاعت کی طرف سے جو تبصرہ ہوا ہے وہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں: حضور کے ارشاد کی تعمیل میں خاکسار نے صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کی تصنیف ”ادب المسیح کا مسودہ اول سے آخر تک پوری توجہ سے پڑھا ہے.حضور کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ تصنیف اپنی نوعیت اور موضوع کے اعتبار سے ایک علمی شاہکار ہے اور اس کی اشاعت جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہوگا.محترم صاحبزادہ صاحب نے اپنی تصنیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی، فارسی اور اردو متینوں زبانوں کے شعری کلام کا ان تینوں زبانوں کے اساتذہ فن کے شعری کلام سے موازنہ کر کے ثابت کیا ہے کہ کیا موضوعات کے لحاظ سے اور کیا فن کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے.در کلام تو چیزیست که شعراء را در آن دخلے نیست اس تصنیف میں کوئی بات سلسلہ کے معتقدات علم کلام اور روایات کے خلاف نہیں ہے.۲۰/۱۱/۲۰۰۸ والسلام خاکسار سید عبدالحی، بہت ہی منصفانہ تبصرہ ہے مگر بہت ادب سے عرض کرتا ہوں خاکسار کی کوشش کی روح رواں کا ذکر نہیں کیا گیا.یعنی یہ کہ حضرت اقدس کے موضوعات شعر قرآن کریم کے موضوعات ہونے کی بنا پر اول ہر موضوع پر قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو پیش کیا گیا ہے اور قرآن کریم کی اقتدا یا دب کو بھی حسب توفیق و استعداد پیش کیا گیا ہے.اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت اقدس کا ادب قرآنی اقدار ادب کے اتباع میں ہے.یہ گزارش اس غرض سے کی گئی ہے کہ قارئین کی اس طرف توجہ رہے.کیونکہ یہی کتاب کی روح رواں ہے.یہاں تک تو ادب اسیح کے تعلق میں چند علمی اور روحانی عظمت اور مقدرت رکھنے والی ہستیوں کی پسند کا ذکر ہے اور خاکساران سب کا شکر گزار ہے.مگر جس ہستی کے تفصیلی تبصرے کی گزارش کی گئی تھی وہ ہمارے پیارے خلیفتہ المسح الخامس تھے.آپ کا بیان تاخیر سے تیار ہوا.اس لئے اس مقام پر پیش کیا جا رہا ہے.فارسی کا محاورہ دیر آید درست آید یعنی جس کام میں تاخیر ہو جائے وہ بہتر ہو جاتا ہے.ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں.مگر اس کے حقیقی معنی سیدی کے موخر بیان سے کھلے ہیں.

Page 16

xvii ادب المسيح سیدی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعری کلام کا ایک ایسا طائرانہ جائزہ لیا ہے جس سے آپ کے کلام کے حسن و خوبی کو بھی بیان کیا ہے اور اس کلام کی تخلیق کے مقاصد کو بھی ظاہر کیا ہے.بہت مختصر ، جامع اور عالمانہ ادبی زبان میں اپنی ان خصوصیات کے ساتھ یقینا ایک شہر کا ر تبصرہ ہے.اور کسی بھی ادبی علمی مجلس میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے.سچ بات تو یہ ہے کہ ابھی تک حضرت اقدس کے شعری کلام پر کچھ کام نہیں ہوا.اگر کچھ ہے تو ایک خاکسار کی خدمت ہے اور دوسرے آپ کا اس خدمت کو چار چاند لگانا ہے.سیدی! خاکسار ایک علمی اور ادبی بات کر رہا ہے.آپ کا یہ تعارف آپ کو اور مجھے بھی زندہ کر گیا ہے.خدا کرے کہ اس کی جناب میں بھی مقبول ہو.آمین خاکسار مرزا حنیف احمد

Page 17

ادب المسيح xviii امس ایدہ بنصرہ العزیز اید ادب المسیح کا تعارف بزبان حضرت خلیفة المسیح الامس لا اله عالی : حضرت ال لي من لدنك شاطنا نعيها تمدُه وَتَعَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر لندك 5-3-2008 پیارے ماموں (مرزا حنیف احمد صاحب) السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ نے اپنی نی کاوش جو اس فرمانے کے بے بہا اور قیمتی ترین خزانے کے چند ہیرے جواہرات دکھانے کے لئے کی اور جس کا نام آپ نے ادب امسیح “ رکھا ہے، مجھے بھجواتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کروں.اس سے پہلے میں نے آپ کو اس بارے میں ایک مختصر خط لکھا تھا جو مصروفیات کی وجہ سے کتاب کو سرسری دیکھ کر لکھا تھا.جس پر نہ مجھے تسلی ہوئی نہ آپ کو.جس کا آپ نے اظہار کیا اور آپ کا یہ اظہار بھی مجھ پر احسان ہے کیونکہ اسی وجہ سے میں نے کتاب کو جستہ جستہ دیکھنا شروع کیا.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور ادب کا تعلق ہے اس بارے میں ایک عاجز انسان کی رائے کیا ہو سکتی ہے.یہ تو وہ کلام ہے جس کو کائنات کے خدا نے خود آپ کے منہ سے کہلوایا اور پھر آپ کو الہا ما فرمایا کہ کلام افصحت من لدن رب كريم جس کا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہو.اس کی خوبصورتی تو بیان کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے.رائے نہیں دی جاسکتی.آپ نے تو اس کلام کے چند موتیوں کی چمک دکھانے کی کوشش کی ہے اور جیسا کہ الہام سے ظاہر ہے.اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق فرمائی کہ کوئی دنیاوی کلام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.چاہے جتنا بڑا ہی صوفی شاعر یا لکھنے والا کیوں نہ ہو.کیونکہ آپ کے کلام کا محور ہی فنافی اللہ کا اعلیٰ ترین معیار اور عشق رسول کی انتہا ہے.جس پر آپ کا یہ مصرعہ مہر ثبت کرتا ہے کہ بعد از خدا بعشق محمد محمرم آپ نے خدا تعالیٰ کے اس فرمان کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا خوب سمجھا کہ

Page 18

xix ادب المسيح فاتبعوني يحببكم الله.اور پھر جب یہ محبت اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہے تو آسمان سے آواز آتی ہے.هذا رجل يحب رسول الله اور پھر آپ کو وہ مقام مل جاتا ہے جو اپنے آقا و مطاع کی غلامی میں سب سے بڑا مقام ہے اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ اولادِى ( تذکرہ - صفحہ 325) اللہ اللہ کیا پیار کا اظہار ہے اس زمین و آسمان کے خالق و مالک کا آپ سے، جس کا اظہار آپ خود بھی یوں فرماتے ہیں گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار پس جو شخص عشق خدا اور عشق رسول میں مخمور ہو اور جس نے بمنزلة اولادی کارتبہ پایا ہو.اس کا مقابلہ وادیوں میں بھٹکنے والے کیا کریں گے چاہے جتنا بھی صوفیانہ رنگ رکھتے ہوں.آپ نے خود بھی یہ موازنہ کرتے ہوئے بالکل صحیح لکھا ہے.مواز نہ تو صرف ہر سطح پر آپ کی برتری ثابت کرنے کے لئے ہے.آپ کی شعر و شاعری کا بھی ایک مقصد ہے اور وہ آپ نے خود اس طرح بیان فرما دیا ہے کہ کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے پس بات وہی ہے کہ ہر ہر لفظ میں توحید کا قیام عشق رسول اور اللہ تعالیٰ کی دنیا پر برتری ثابت کرنا.اللہ تعالیٰ کے آگے جھکانا اور رسول کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہی آپ کی نظم ونثر کا مقصد تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ سے تمام دنیا کو یہ پیغام دینے کا اعلان کروایا کہ میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار اور پھر وہی بات کہ یہ پانی اللہ اور اس کے رسول کے عشق میں مخمور ہونے کی وجہ سے آپ کی ذات کی شکل میں اتارا گیا اور یہاں سے پھر ادب سے بہت آگے جا کر عشق و محبت کے اسلوب شروع ہو جاتے ہیں جس کی آخری منزل تو حید باری تعالیٰ کا قیام ہے.آپ کے آقا ومطاع فرماتے ہیں لا أحصي ثناء عليك انت كما أثنيت على نفسك میں تیری ثناء کا حق ادا نہیں کر سکتا.تیری ثناء وہی ہے جو تو نے خود کی.

Page 19

ادب المسيح اور غلام کہتا ہے XX يَا مَنْ أَحَاطَ الخَلْقَ بِالأَلاء نُثْنِي عَلَيْكَ وَ لَيْسَ حَوْلُ ثَنَاءِ اور پھر فرمایا کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار بہر حال جوں جوں کتاب دیکھی گوجستہ جستہ ہی سہی لیکن جس شعر یا کلام پر بھی نظر پڑی اس نے توجہ تو کھینچنی ہی تھی کیونکہ یہ کلام ہی امام الزمان کا ہے.لیکن ساتھ ہی آپ کے لئے بھی دعا نکلتی ہے کہ اس کو اس صورت میں یکجا کر کے اس خوبصورت کلام کا جو گلدستہ بنانے کی کوشش کی ہے اور جو مثالیں میں نے پیش کی ہیں آپ کی کتاب سے ہی لی ہیں ) یہ احمدی ادبی اور علمی حلقوں میں تو یقینا قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی ہی لیکن مجھے امید ہے غیر بھی دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہے گا.یہ گلدستہ جو آپ نے بنایا ہے پورے چمن کو تو نہیں دکھا سکتا لیکن ہر صاحب ذوق کو اپنی اپنی علمی ، ادبی ، ذوقی اور روحانی حالت کے مطابق اس چمن کے حسن اور خوبصورتی کا تصور قائم کرنے میں مدد دے سکتا ہے.اور پھر مجھے یقین ہے کہ ایک پاک دل اس چمن کی سیر کرنے کی کوشش کرے گا.گودیر سے ہی سہی لیکن دو علمی ، ادبی اور روحانی شاہکاروں کا مجموعہ پیش کر کے آپ نے جماعتی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزاء دے.آپ کی عمر و صحت میں برکت ڈالے.آمین والسلام خاکسار وراوک و برند که خليفة المسيح الخامس

Page 20

ادب المسيح چند گذارشات سب سے اول اس کتاب کے عنوان ”ادب الہی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.دراصل خاکسار نے یہ عنوان اپنے پیارے ماموں پروفیسر ابوافتح عبدالقادر سے اخذ کیا ہے.آپ عربی فارسی اور اردو میں اور اگر انگریزی زبان کو بھی شامل کر لیں تو ان چاروں زبانوں پر عالمانہ طور پر قدرت رکھتے تھے.دینی علوم اور تاریخ اسلام کے عالم اور اپنے وقت کے جید علماء سے علمی اور ادبی تعلق تھا.مولانا ابوالکلام آزاداور مولا ناشبلی نعمانی سے دوستانہ رسم ورا تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام نظم و نثر کے عاشق اور ایک اعتبار سے حافظ بھی تھے اور آپ کو صحابی ہونے کا شرف بھی نصیب ہوا تھا.آپ کی خواہش تھی کہ حضرت اقدس کے ادب عالیہ پر علم اور تحقیقی کام کریں.اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے بہت محنت اور ریاض بھی کیا تھا.حضرت اقدس کے ان گنت ادبی نظم و نثر کے شاہکا را قتباسات آپ نے زبانی یاد کر ر کھے تھے اور اس خدمت کی بجا آوری کے لیے آپ نے اپنی نوکری کا وقت ختم ہونے سے دو، تین سال قبل ہی نوکری سے فراغت حاصل کر لی تھی.اس شوق تحقیق و تصنیف کو آپ نے ادب اسیح “ کا نام دے رکھا تھا.افسوس ہے کہ ملک کے بٹوارے کی بدامنی اور مشکلات نے آپ کو اتنی مہلت نہ دی کہ دلجمعی سے یہ خدمت بجالا سکتے.وگرنہ سچی بات تو یہی ہے کہ اس خدمت کا حقیقی منصب آپ ہی کا تھا.قیاس میں نہیں آتا کہ ان تینوں زبانوں کی نظم ونثر پر ادیبانہ قدرت اور تبحر علمی اور حضرت اقدس کے ادب عالیہ کا وسیع مطالعہ آئندہ کیسے اور کب یکجا ہوگا.اور حضرت اقدس کی ادبی شان کو بیان کرنے کی خدمت کما حقہ کیونکر سرانجام ہوگی.میں آپ کی محبت بھری یاد میں آپ کے عنوان کو اختیار کر رہا ہوں اور آپ کے شوق کو پورا کرنے کی بساط بھر کوشش کر رہا ہوں.میرے ادبی شوق کا حضرت اقدس کے ادب کی طرف رخ پھیر نے میں آپ کی شفقت اور صحبت کا بہت دخل ہے.ربّ اغفر وارحم و انت خير الراحمين دوسری گذارش اس کتاب کے موضوع کے تعلق میں یہ ہے کہ اصطلاحا ”ادب“ کے لفظ کی تعریف میں نظم اور نثر دونوں کو شمار کیا جاتا ہے.گو ان دونوں کی جداگانہ طور پر ایک متعین ادبی ہیئت اور ساخت ہے اور جدا گانہ اقدار حسن بھی ہیں.مگر کتاب کے عنوان کی نسبت سے ضرورت پیش آئی کہ وضاحت کر دی جائے کہ اس عنوان سے مراد

Page 21

ب المسيح 2 حضرت اقدس علیہ السلام کا صرف شعری ادب ہے.یعنی آپ کا اردو، فارسی اور عربی زبان کا شعری کلام.نظم اور نثر کے محاسن کی نشاندہی کے لیے ہیئت کے اعتبار سے اور اسلوب کے اعتبار سے مختلف اقدار ادب اور پیمانے بنائے گئے ہیں.نثر میں وزن اور صوتی آہنگ کا نہ ہونا اور اظہار مطلب میں زبان کی علامتی نوعیت سے زیادہ فائدہ نہ اٹھانا نثر کی خوبصورتی شمار ہوتی ہے.اس کے برعکس شعر میں ان عناصر کا فقدان شعر کے حسن و خوبی کو کھو دیتا ہے.یہی اختلاف ان دونوں اصناف ادب کو باہم دگر ممتاز کرتا ہے.تاہم محاسن کلام کی دیگر تمام اقدار کا ان دونوں اصناف میں جلوہ گر ہونا یکساں طور پر لازم ہوتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو ایسی نگارش ”ادب“ نہیں کہلاتی.موضوع یا مواد کے اعتبار سے خیال کی عظمت اور نفاست اور ہیئت کے اعتبار سے الفاظ کی حسین ترتیب اور انتخاب جس کے امتزاج سے تا ثیر اور ابلاغ کامل کی قابلیت پیدا ہوتی ہے دونوں اصناف ادب کی روح رواں ہوتے ہیں.جیسے شعران عناصر کی غیر موجودگی میں شعر نہیں کہلاتا ویسے ہی نثر بھی ان اقدار ادبی کی غیر موجودگی میں ایک بے جان الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے.حضرت اقدس نے اپنی نثر او شعر میں ن او بی اقدار کا کمال سن وخوبی التزام کیا ہے.اس لیے ادب لمسیح کی عظمت وشان کے بیان میں آپ کے نثری کلام کو شامل نہ کرنا ایک قسم کی ادھوری سی بات ہے.اور ادھوری بات تو ادھوری ہی ہوتی ہے.آپ حضرت کی ادبی شان کے بیان میں ایسا کرنا تو اس اعتبار سے بھی درست نہیں کہ حقیقت میں آپ کے بیان فرمودہ ادب کی خوبی اور عظمت آپ کے نثری کلام ہی کی مرہونِ منت ہے.ابلاغ رسالت کے لیے آپ نے نثر کو اختیار فرمایا ہے.نظم کو ایک ثانوی نوع اظہار کے طور پر قبول کیا ہے.یعنی اس طرح سے کہ جو مضمون نثر میں بیان ہورہا ہے اس کے ابلاغ کامل کے لیے اشعار میں بھی اس مضمون کو بیان کر دیا گیا ہے.آپ نے بعثت کے بعد کے وقت میں شاید کہیں ایک آدھ بار کے سوا ارادۂ مشق سخن نہیں کی.یہی وجہ ہے کہ شعراء کے دستور کے مطابق آپ کا کوئی مجموعہ اشعار یاد یوان نہیں ہے.آپ کی تینوں زبانوں کے در ہائے مشین آپ کی نثری تصنیفات سے ماخوذ ہیں.آپ کا یہ فرمان : کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

Page 22

3 ادب المسيح دراصل یہی بیان کر رہا ہے جو قبل میں کہا گیا ہے.یعنی نظم کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید کوئی انسان نظم کے اثر سے ہدایت پالے.تا ہم آپ کے اس فرمان سے آپ کے اشعار کے ادبی حسن و خوبی پر حرف نہیں آتا.کیونکہ عظیم المرتبہ ادیب جس صنف ادب کو بھی اظہار خیال کے لیے اختیار کرتا ہے وہ اس میں اپنی ادبی عظمت کو برقرار رکھنے پر قادر ہوتا ہے.ز فرق تا بقدم ہر کجا که می بینم کرشمہ دامن دل می کشد که جا اینجاست ترجمہ محبوب کے چہرے سے اس کے قدموں تک، میرا دل ہر مقام پر یہ گمان کرتا ہے کہ اصل حسن کا جادو تو یہاں چل رہا ہے.اس مقام پر اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ الہیات کے مضامین کے دو پہلو ہوتے ہیں.ایک عنوان سے اس میں ثبوت ہستی باری تعالی و ملائکہ اور انبیا کا صدق بعثت بیان ہوتا ہے.دوسرے عنوان سے محبوب حقیقی کی محبت اور عشق کی واردات اور وصال کی کیفیات بیان ہوتی ہیں.ادبی اسلوب کے اعتبار سے مشرقی ادب میں یہی دستور ہے کہ واردات عشق اور کیفیات ہجر و وصال کے بیان کے لیے شعر کی صنف ہی اختیار کی جاتی ہے.نثر کا اسلوب واردات قلبی کی گہرائی اور احساس کی شدت کو بیان کرنے کا متحمل نہیں ہوتا.یوں کہہ لیں کہ وہ احساسات جو انسان کی روح میں جنم لیں اور قلب پر وارد ہوں ایک ایسا اسلوب بیان چاہتے ہیں جس کے معانی میں لامتناہی وسعت ہوتا کہ وہ قلبی واردات کی گہرائیوں اور محبوب کے حسن و جمال کا اظہار کر سکے.شاید حضرت کا گاہ بہ گاہ شعر کو اختیار کرنے کا یہی راز ہو.کہیں غالب یہی بات تو نہیں کہہ رہا:.کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ شعروں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے اس شعر کے ایک معنی تو معروف عام ہیں.ہمارے مضمون کے تعلق میں اس شعر میں یہ بیان ہوا ہے کہ قلبی احساسات اور واردات عشق کو شعر ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے.اور پھر جب کہ دل کے راز شعر میں چھپے ہوں تو جب شعر بیان ہو گیا تو دل کا راز افشاء ہو گیا.ادبی انتقاد میں اسی عمل کا نام ابلاغ کامل ہے.بہر صورت درست بات یہی ہے کہ حضرت اقدس کی ادبی شان اور عظمت کا عظیم تر حصہ آپ کی نثر میں ہی رونما ہوا ہے.الہیات اور محبت الہی کے دقیق مضامین کو بے انتہا خوبصورت اور سادہ الفاظ میں بیان کرنا.اور

Page 23

المسيح 4 اس کے ساتھ تاثیر کے عنصر کو اس طور پر قائم رکھنا کہ قاری کو صرف دماغی اور عقلی عرفان ہی حاصل نہ ہو بلکہ ہر فقرے کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے قلب کی کیفیت بدلتی جائے اور کلام ختم ہونے پر وہ صرف صاحب عرفان ہی نہ ہو بلکہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا بھی ہو.یہ ایک ایسی قدرت کلام ہے جو خدا تعالیٰ نے کسی بھی مہذب زبان کے ادیب کو اس شان اور اس قدر فراخ دلی سے نہیں دی.سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان جو اپنی حیات کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی اور بلوغت کے مقام تک نہیں پہنچی تھی.اس کے اظہار کی طاقت کو بالغ مقام تک پہنچانے میں حضرت اقدس کی نثر نے اردو زبان پر ایک احسان عظیم کیا ہے.کوئی وقت ایسا آئے گا کہ بڑے بڑے ادیب اور دانشور اس احسان کا تجزیاتی جائزہ لے کر اس حقیقت کو قبول کریں گے.ہم کہنا تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری کتاب کے عنوان ” ادب المسیح “ سے مراد صرف آپ کا شعری کلام ہے.مگر اچھا ہوا کہ بات دور نکل گئی اور ہمیں آپ کی نثری شان کو بھی چند الفاظ میں بیان کرنے کی سعادت نصیب ہو گئی.ویسے بھی یہ حدیث دلبراں ہے افسانہ از افسانه می خیزد تو ہونا ہی تھا.اور ابھی بہت ہوگا.حضرت اقدس کے فارسی کلام کی نسبت سے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ آپ کا ایک اور مجموعہ فارسی اشعار بھی ہے جو کلام فرخ کے نام سے معروف ہے.( آپ بعثت سے قبل مختر خ تخلص فرماتے تھے ).یہ وہ کلام ہے جو آپ نے منصب ماموریت پر فائز ہونے سے قبل تخلیق فرمایا ہے.اس وقت ہم اُس کلام کے محاسن کو پیش نہیں کر رہے کیونکہ اس کوشش میں ہمارے پیش نظر صرف آپ کا وہ کلام ہے جو ” در مشین کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے.تاہم کلام فرخ کے ادبی تجزیہ کسی اور وقت اور کسی اور صاحب قلم کے سپر د کرتے ہوئے ہم چند ایک باتیں اس کلام کی خصوصی نوعیت کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں.اوّل خصوصیت یہ ہے کہ چند ایک موضوعات شعر جن کو اختیار کرنے سے قبل منصب امامت پر فائز ہونا ضروری تھا.کلام فرخ کے باقی تمام شعری موضوعات وہی ہیں جو کہ در مشین فارسی میں اختیار کیے گئے ہیں.یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جس پیغام خداوندی کو پہنچانے کے لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا ہے.آپ حضرت کے قلبی اور ذہنی رجحانات بعثت سے قبل بھی وہی تھے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کلام فرخ میں حمد باری تعالیٰ ، نعت رسول، محبت الہی اور اسلام کی صداقت کے سوا اور کوئی موضوع شعر اختیار نہیں کیا گیا.یہ آپ کے کیفیات قلبی کے صدق کا ایک محکم ثبوت ہے.

Page 24

5 ادب المسيح ایک ایسا محکم ثبوت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ذیل کے فرمان میں بیان کیا ہے.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس: 17) ترجمہ: ان کفار سے کہہ دے کہ اس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں بسر کی ہے.یہاں پر عمر سے مراد وقت نہیں ہو سکتا کیونکہ آنحضرت کے وقت میں بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے ایک عمرا اپنی قوم کے ساتھ گزاری ہوگی.یہاں پر عُمُرًا" سے مراد آپ کے اطوار حسنہ اور قلبی رجحانات ہی ہو سکتے ہیں جو آپ کی صداقت پر دلیل بن سکیں.دوسری نوعی خصوصیت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ دونوں مجموعہ ہائے کلام میں موضوعات متحد ہیں مگر کلام فرخ کے مطالعہ کے بعد ہر صاحب ذوق سلیم اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کلام میں تاثیر اور جذب کی وہ خوبی نہیں جو کہ آپ کے بعثت کے بعد کے کلام میں تجلیات محبوب حقیقی اور اس کے قرب و وصال نے پیدا کی ہے.یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جیسے درجہ بدرجہ آپ حضرت کی روحانی ترقی ہوئی اسی انداز سے آپ کے کلام نے بھی نشو و نما حاصل کی یہاں تک کہ وہ اپنے حقیقی منصب تک پہنچ گیا.آپ کے کلام میں اس انقلاب کا ظاہر ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ ایک وقت کے بعد مورد تجلیات الہیہ تھے اور آپ کا کلام وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى (النجم: 4) کے درجے پر پہنچ گیا تھا.جیسے حضرت اقدس اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یعنی اس کا کوئی نطق اور کوئی کلمہ اپنے نفس اور ہوا کی طرف سے نہیں.وہ تو سراسر وحی ہے جو اس کے دل پر (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) نازل ہو رہی ہے.جیسے فرمایا: حکم است آسمان بز میں میرسانمش گر بشنوم نگو نمش آن را کجا برم ترجمہ: آسمان کا حکم میں زمین تک پہنچاتا ہوں ،اگر میں اسے سنوں اور لوگوں تک نہ پہنچاؤں تو اس کو کہاں لے جاؤں.من خود نگویم اینکه بلوح خدا ہمیں است گر طاقت ست محو کن آں نقش داورم ترجمہ: میں خود یہ بات نہیں کہتا بلکہ لوح محفوظ میں ایسا ہی لکھا ہے.اگر تجھ میں طاقت ہے تو خدا کے لکھے ہوئے کومٹادے.

Page 25

ب المسيح 6 اور یہ شعر تو مَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوى كى تفسیر فرماتے ہیں: ہوگی.کسیکه هم شده از خود بنور حق پیوست هر آنچه از دهنش بشنوی بجا باشد ترجمہ : جوشخص اپنی خودی کو چھوڑ کر خدا کے نور میں جاملا اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق حضرت اقدس کے شعری ادب کی خصوصی عظمت اور منفردشان کے بارے میں حضرت اقدس کا عظیم الشان الہام بھی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ آپ کا کلام انسانیت کی طرف خدا تعالیٰ کا ایک پیغام ہے.اور اس کلام کی عظمت میں کسی شاعر کو حصہ نہیں دیا گیا.در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخلے نیست.كَلامٌ أُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبِّ كَرِيمٍ تذکرہ صفحہ 508.مبطوعہ 2004ء) ترجمہ: تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے.تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے.(حقیقۃ الوحی رخ جلد 22 صفحہ 106 ) آپ حضرت کے کلام کا دیگر شعراء سے تقابلی موازنے کے بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ محاسن کلام حضرت اقدس کی نشاندہی اور آپ کے کلام کے دیگر اساتذہ ادب کے کلام سے تقابلی موازنہ کے سلسلے میں چند ایک وضاحتیں کرنی بہت ضروری ہیں.اول یہ کہ اس امر سے تو سب اصحاب علم و ادب واقف ہیں کہ جب کبھی ادبی تخلیقات کا باہم دگر تقابل اور موازنے کا وقت آتا ہے تویہ احتیاط لازما برتنی پڑتی ہے کہ متقابل ادب پاروں کا موضوع سخن ایک ہی ہو.اصناف شعر میں ہر صنف شعر کا ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے مختلف اور متعین طرز بیان ہے.مشرقی ادب میں تو یہ دستور ایک محکم ادبی قانون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے.یہاں تک کہ اسلوب یعنی طرز بیان میں مفرد الفاظ اور تراکیب الفاظ ، استعارات اور تشبیہات اول تو لفظاً مختلف اور مقرر ہوتی ہیں.اگر ایسانہ بھی ہو تو یہ بات مسلّمہ ہے کہ ہر صنف شعر کے استعارات اور تشبیہات معنا مختلف مطالب رکھتی ہیں.یہ اختلاف اور امتیاز موضوعات شعری کے مختلف ہونے کی بنا پر ہی ہوتا ہے.ایک ہی ترکیپ لفظی

Page 26

7 ادب المسيح یا استعارہ - حمد و ثناء باری تعالیٰ کے بیان میں وہی مطلب بیان نہیں کرتا جو کہ غزل کے عنوان کے تحت بیان کر رہا ہوتا ہے.اسی طرح سے نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آداب بیان ہیں کہ اس کے الفاظ کا انتخاب اور طریق اظہار خیال دیگر اصناف شعر کے اسالیب سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا.مدحیہ قصائد کا اسلوب اور نعت کا اسلوب ہر اعتبار سے مختلف ہوتا ہے.اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ نعت کا عنوان کاملۂ صداقت پر مبنی ہوتا ہے اور حفظ مراتب کا تقاضا کرتا ہے.عرفی نے کس قدر با ادب بات کی ہے.عرفی مشتاب این رو نعت است نه صحراست آہستہ که ره بر دمِ تیغ است قدم را هشدار که نتواں بیک آهنگ سرودن نعت شہِ کونین و مدیح کے و جم را ترجمہ: عرقی ! تیز قدم نہ چلو.یہ نعت کا لالہ زار ہے کوئی صحرا نہیں ہے.یہاں پر چلنا تو تلوار کی دھار پر چلنا ہے اور یہ بھی یا درکھو کہ شاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کا وہ اسلوب نہیں ہو سکتا جو شاہانِ ایران کی مدح سرائی کا ہوتا ہے.ان آداب نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں بیان کرنے کے بعد عرقی نے ایک ایسی مدح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو فارسی ادب میں زندہ و جاوید رہے گی.میں اس کو بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا.بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ ربط کلام کو قربان کر دینا بھی ایک ربط ہوتا ہے.کہتا ہے: تقدیر بیک ناقہ نشانید دو محمل لیلی حدوث تو و سلمی قدم را " یعنی رسول اکرم کی شان ایسی ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک ناقہ پر دو محمل باندھ دیے ہوں.ایک میں آپ انسان ہونے کی حیثیت سے دلیلی کی طرح بیٹھے ہوں اور دوسرے میں خدا تعالیٰ کے بے انتہا قرب کی وجہ سے آپ سلمی کی طرح سے سوار ہوں.عربی ادب میں لیلی اور سلمی کے نام محبوب کے لیے علامتی اشارے ہیں.اور عرفی کہتا ہے کہ ہمارے پیارے رسول میں دونوں علامات محبوبی جمع ہوگئی ہیں.یعنی آپ کے انسان کامل ہونے کا حسن و جمال جو حدوث کا

Page 27

ب المسيح جلوہ ہے.8 اور آپ کے نبی اول و آخر ہونے کا منصب جو کہ خدا تعالیٰ کی صفت قدم کی تجلی ہے.جیسے فرمایا: كُنتُ نَبِيًّا وَ آدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَ الْجَسَدِ ترجمہ: میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم روح اور جسم کے بین بین تھا.اس شانِ قدم کو حضرت اقدس نے کس قدرخوبصورتی سے بیان کیا ہے.فرماتے ہیں: روح او در گفتن قول بلی اول کسے آدم توحید و پیش از آدمش پیوند یار ترجمہ: قول ”بلی“ کہنے میں آپ کی روح سب سے اول ہے.آپ آدم تو حید ہیں اور آدم کی تخلیق سے قبل ہی آپ کا خدا تعالیٰ سے پیوند تھا عرض یہ کر رہا تھا کہ موضوعات کے اختلاف سے اسلوب بیان کا تبدیل ہونا اور اس اختلاف کی مطابقت میں ابلاغ کے مراحل طے کرنا ایک اہم دستورخن وری ہے اس بیان میں عرقی کو سنا ہے تو انیس کو بھی سن لیں.کتنا خوبصورت بیان ہے: بزم کا رنگ جدا، رزم کا میدان ہے جدا یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا فہم کامل ہو تو ہر نالے کا عنواں ہے جدا مختصر پڑھ کے رُلا دینے کا عنواں ہے جدا اس موضوع کو اختیار کرنے کا اول مقصد تو یہ تھا کہ ابتدا ہی میں بیان کر دیا جائے کہ حضرت اقدس کے اشعار کا دیگر شعراء کے اشعار سے تقابل اُن موضوعات شعری کے تحت ہی ہو گا جو کہ حضرت اقدس نے اختیار فرمائے ہیں اور یہی انصاف بھی ہے.یہاں تک تو بات اشعار کے تقابلی موازنے کی ہوئی ہے.مگر اس موضوع کے اختیار کرنے کا دوسرا مقصد جو کہ دراصل اس موضوع کی جان ہے وہ ذیل میں عرض کرتا ہوں.محاسنِ کلام حضرت اقدس کی نشاندہی میں ہمارے لیے جو چراغ راہ اور کسوٹی ہوگی وہ قرآن کریم کے فرمودات ہوں گے.کیونکہ حضرت اقدس کے اختیار کردہ شعری موضوعات دراصل قرآن کریم کے موضوعات

Page 28

ادب المسيح ہیں.اور یہ حقیقت تو سب مانتے ہیں کہ قرآن کریم زبان کا معجزہ ہے اور اپنی فصاحت اور بلاغت کو صرف بیان ہی نہیں کرتا بلکہ اس کو ادب عالیہ قرار دیتا ہے.جیسے فرمایا: اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ (الزمر: 24) ترجمہ: اللہ نے سب سے بہتر کلام نازل کیا ہے فرمایا: لهذ الِسَانُ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ (النحل : 104) حضرت اقدس فرماتے ہیں: پس عربی مبین کے لفظ سے فصاحت اور بلاغت کے سوا اور کیا معانی ہو سکتے ہیں.خاص کر جبکہ ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان میں کرتا ہوں کہ تم اس کی نظیر پیش کرو تو بجز اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور ”مبین“ کا لفظ بھی اس کو چاہتا ہے.“ (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) قرآن کریم ان فرمودات کے ساتھ اپنی ادبی شان کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اعلانِ عام کرتا ہے کہ اس ادب عالیہ کے مقابل پر اگر کسی ادیب کا یارا ہے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ مقابل پر آئے اور جن وانس مل کر بھی کوشش کریں تو وہ اس کلام کا مقابل اور مثل پیش نہیں کر سکتے.فرمایا: ہی ہو.وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ (البقرة:24) ترجمہ: اگر تم اس کے بارہ میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو تم اس جیسی کوئی سورت لے آؤ.فرمایا: قُل لَبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسَ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ وَ بِمِثْلِم (بنی اسرائیل :89) ترجمہ: کہہ دے کہ اگر انسان اور جن اس قرآن کی مثل لانے کے لیے اکٹھے ہو جا ئیں تو بھی اس کی مثل نہ لاسکیں گے.اور بمثلہ کہہ کر ان فرمودات میں یہ بھی بیان کر دیا کہ تقابل اور موازنہ کے لیے لازم ہے کہ موضوع کلام ایک حضرت اقدس ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس بات کا ثبوت بھی پیدا کر لینا چاہیے کہ جن کمالات ظاہری اور باطنی پر قرآن شریف

Page 29

المسيح 10 مشتمل ہے انہی کمالات پر وہ کلام بھی اشتمال رکھتا ہے جس کو بطور نظیر پیش کیا گیا ہے.“ ایک اور مقام میں فرماتے ہیں: (براہین احمدیہ ، ر.خ.جلد 1 صفحه 474 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) قرآن کریم اپنے اعجاز کے ثبوت میں وَ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ (البقرة:24) کہتا ہے.یہ معجزات روحانی ہیں.جس طرح وحدانیت کے دلائل دیے ہیں.اسی طرح پر اس کی حکمت ، فصاحت، بلاغت کی مثل لانے پر بھی انسان قادر نہیں.دوسرے مقام پر فرمایا: قُل نَّبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِم (بنی اسرائیل : 89) (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) قرآن کریم میں جہاں پر خدا تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور اپنی قدرت اور صفات کو دیگر خداؤں کے مقابل پر پیش کر کے دعوت مقابلہ دی ہے.جیسے فرمایا: ءَ الهُ تَمعَ الله (النمل: 61) وہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی صداقت کے اثبات میں دلائل و براہین دیے ہیں.جیسے کہ فرمایا: كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَرُسُلي (المجادلة:22 ) اور وہاں پر اپنے کلام کی ادبی برتری اور عظمت کو بیان کر کے قرآن کے مضامین میں ادب پیش کرنے کی دعوت مقابلہ بھی دی ہے اور اپنے ادب کو ادب عالیہ قرار دیا ہے.دراصل یہی تین عنوانات ہیں جن میں قرآن کریم دعوت مقابلہ دیتا ہے.دیگر تمام مضامین انہی کے ذیل میں آتے ہیں.ان گذارشات سے اول تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن موضوعات پر خدا تعالیٰ نے کلام فرمایا ہے وہ حقیقت میں ادب عالیہ ہے اور دوم یہ کہ جو بھی قرآنی موضوعات پر کلام پیش کرے گا اس کلام کے حسن و خوبی کو پر کھنے کے لیے جو کسوٹی ہوگی وہ ان موضوعات پر قرآن کریم کے فرمودات اور اُس کا اسلوب بیان ہوگا.اور اسی پیمانے پر ہم حضرت اقدس کے کلام کے حسن و جمال کی ناپ تول کریں گے اور یہ جائزہ لیں گے کہ آپ نے کس حد تک اتباع قرآن وحدیث کا حق ادا کیا ہے.اس مقام پر میں نہایت درجہ عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ حضرت اقدس کی بیان کردہ تفسیر قرآن کے مطالعہ کے وقت سے میرے دل میں یہ تمنا تھی کہ قرآن کریم نے جو ادب عالیہ کے معیار اور اقدار بیان فرمائے ہیں ان کو ایک ترتیب کے ساتھ پیش کروں تا کہ اس طور سے زمینی اور آسمانی ادب کا ایک تقابلی مواز نہ ہو جائے.مگراب جبکہ ادب امسیح پر گذارشات پیش کرنے کا وقت آیا ہے تو یہ خیال راسخ ہو گیا کہ یہ دونوں موضوعات باہم پیوست اور یک جان ہیں.اس لیے ان کو ایک ہی وقت میں بیان کرنا بہتر ہوگا.چنانچہ اس نقطہ نظر کے ساتھ یہ کوشش

Page 30

11 ادب المسيح ہوگی کہ انتقاد ادب کے بنیادی موضوعات یعنی تعریف ادب اور محرکات تخلیق ادب کا ایک تقابلی جائزہ لیا جائے کہ ان موضوعات پر قرآن کریم یعنی آسمانی ادب اور زمینی ادب کی اقدار و معیار میں کس مقام تک باہم اتفاق ہے اور اس سفر کے کس دوراہے پر دونوں ادبی تخلیقات کی منزل مقصود مختلف ہو جاتی ہے.ایسا جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک کسی ادب کے مقاصد تخلیق اور اس کی ترجیحات کا علم اور اس سے قلبی موافقت نہ ہو تو اس ادب کی حقیقی عظمت اور شان کا شعور حاصل نہیں ہوسکتا.غالب نے یہی بات کتنی سادہ زبان اور کس قدر حسن و جمال کے ساتھ بیان کی ہے.دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے یعنی شعر کی لذت سامع کے قلبی جذبات سے پیدا ہوتی ہے.اس بیان کے تسلسل میں ایک وضاحت اور بھی کردوں کہ قرآن کریم کی ادبی اقدار کو پیش کرنے میں ہم اول تو حضرت اقدس کے تفسیری معنوں سے راہ نمائی حاصل کریں گے اور آپ کے اختیار کردہ فرمودات قرآن پیش کریں گے.حق بات تو یہی ہے کہ قرآن کریم کی تفہیم اس ہستی ہی کو زیب دیتی ہے جس نے یہ کہا ہے.علمِ قرآن علم آں طیب زباں علم غیب از وحی خلاق جہاں ترجمہ: قرآن پاک کا علم اس پاک زبان کا علم اور الہام الہی سے غیب کا علم این سه علم چون نشانها داده اند ہر سم ہمیچوں شاہداں استاده اند ترجمہ: یہ تین علم مجھے نشان کے طور پر دیے گئے ہیں اور تنوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں.اس وقت تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کے باوجود اس امر سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ قرآن کریم اور مرسلین باری تعالیٰ کا ادب عالیہ ہونا اور دیگر ادبی تخلیقات سے برتر ہونا، انہی اقدار ادب پر موقوف ہے جو اس زبان کے ادب میں مسلم اور جاری ہوتے ہیں.کیونکہ امتزاج لفظ و معانی جس سے ادبی حسن و خوبی پیدا ہوتی ہے ایک ہی ہوتا ہے.اس لیے ان ہی کے اسالیب ادب اور اساتذہ شعر کے مقابل پر حضرت اقدس کے ادب پاروں کے محاسن کو بیان کرنا بھی از بس ضروری ہوگا جن زبانوں میں حضرت اقدس کا کلام وارد ہوا ہے ( یعنی اردو، فارسی اور عربی).

Page 31

المسيح 12 گذارشات کے ضمن میں چند وضاحتیں یہ بھی ہیں کہ ہم نے موضوعات شعر کی مطابقت میں قرآن کریم کے چنیدہ فرمودات کو پیش کیا ہے.اس انتخاب کی حقیقی ضرورت یہ تھی کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ صرف وہی فرموداتِ قرآن پیش کیے جائیں جن کی تفسیر میں حضرت اقدس نے کچھ بیان کیا ہے.یہ عمل اس لیے ضروری تھا کہ ایسا ہو کہ ہمارا استدلال ادبی مستند ہو جائے اور اس چناؤ اور اختصار کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ حضرت اقدس کے موضوعات شعری قرآن کریم کے موضوعات ہیں.اور قرآن کریم میں ان موضوعات کے تحت لا تعداد فرمودات ہیں اور ان سب کو بیان کرنے کی یہ کوشش متحمل نہیں ہو سکتی تھی.دوسری گذارش یہ ہے کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث کا صرف ترجمہ اور بعض مقامات پر آپ کے مشہور عام اخلاق و اطوار کو پیش کیا ہے.عام طور پر ایسے بیان کے حوالوں کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی.حضرت اقدس کے فرمودات کا حوالہ بھی آپ کی تفسیر قرآن سے دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آیات کی تفسیر اس کتاب کے اقتباسات سے دی جارہی ہے تو اس صورت میں آپ کی تفسیر کا حوالہ ہی کافی سمجھا گیا ہے.آیات قرآنیہ کا لفظی ترجمہ اس لیے پیش نہیں کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر آیات کا تفسیری ترجمہ کرتے ہیں اس لیے ہم نے اس کو کافی سمجھا ہے.ان سب گذارشات کی روشنی میں ہمارا دستور عمل یہ ہوگا کہ:.اول : ہماری تلاش ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے زیر نظر موضوع کو کس طور پر بیان فرمایا ہے.دوم: یہ تلاش ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور کس طور پر بیان فرمایا ہے.سوم : یہ جائزہ لیا جائے گا کہ حضرت اقدس نے ان دو ماخذوں کا اتباع کس حسن و خوبی سے کیا ہے.چہارم : اور آخر پر ان تینوں زبانوں کے مسلّمہ شعراء کے کلام سے حسب توفیق تقابلی اشعار پیش کیے جائیں گے.بفضلہ تعالیٰ میں یہ خوب جانتا ہوں کہ اس ترتیب سے بہتر ترتیب بھی ہو سکتی تھی.مگر ہر خادم اپنی استعداد کے مطابق ہی خدمت کر سکتا ہے.اس صورت میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے.سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را میں نے اپنا تمام سرمایہ خدمت میں پیش کر دیا ہے.تو ہی جانتا ہے کہ یہ کافی ہے کہ نا کافی.

Page 32

13 ادب المسيح ادب اور اس کی تعریف اگر ”ادب لمسیح کی تالیف کا مقصد یہ ہے کہ حضرت اقدس کے شعری ادب کے محاسن بیان ہوں تو اس نسبت سے ہماری کوشش کے عین مطابق ہوگا کہ اول لفظ ”ادب“ کے معانی اور تعریف میں کچھ بیان کیا جائے.یہ بیان اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم نے محاسن ادب حضرت اقدس اور تمام مرسلین کی نشاندہی کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ ادبی محاسن کو معیار اور کسوٹی کے طور پر اختیار کیا ہے.اس لیے لازم ہے کہ ابتدا ہی میں یہ امر واضح ہو جائے کہ زمینی ادب اور آسمانی ادب یعنی ”ادب المرسلین کی تعریف اور تعیین میں کس حد تک اتفاق ہے اور کتنا اختلاف.یہ جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ادب مرسلین اور قرآن کریم کا ادب ایک منفرد نوعیت کا ادب ہے.اس لیے جب تک دیگر مکاتیب ادب اور اس منفر د مکتب ادب کے مقامات اتحاد اور اختلاف واضح نہ ہو جائیں اس وقت تک محاسن کلام حضرت اقدس کی حقیقی شان اجا گر نہیں ہو سکے گی.تا ہم اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اصولی طور پر ہر زبان کا ادب اپنی ادبی اقدار اور اسالیب کی پاس داری کے اعتبار سے ایک ہی نوعیت کا ہوتا ہے.جہاں پر زبان ایک ہوگی وہاں پر اسالیب اظہار خیال ہم رنگ اور ایک ہی ہوں گے.قرآن کریم نے جب عربی زبان بولنے والوں کو دعوت مقابلہ دی اور فرمایا فَأْتُوْا بِسُورَةٍ مِن مِثْلِیے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ عربی زبان میں اس کے اسالیب کی پاسداری کرتے ہوئے قرآن کے موضوعات میں اس سے بہتر کلام پیش کرو ( جیسا کہ ”مِنُ مِثْلِہ سے واضح ہے ).مگر اس اتحاد و یگانگت کے باوجود اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جب کسی ادیب کے محرکات تخلیق ادب عام روش سے ہٹ کر ایک مخصوص اور منفرد نہج اختیار کر لیتے ہیں اور اپنا طمح نظر اور مقصود بدل لیتے ہیں تو اس کی ادبی نگارشات بھی یقینی طور پر ممتاز نوعیت اختیار کر لیتی ہیں.اس صورت میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ اول ان اقدار ادب کا بیان ہو جو ہر زبان کے ادب کی مشترک میراث ہے اور پھر یہ جائزہ لیا جائے کہ قرآن کریم اپنی ادبی اقدار کو کیسے بیان کرتا ہے اور پھر ان محرکات تخلیق ادب پر بات ہو جن کی بنا پر ان دونوں ادبی اقدار کی نوعیت مختلف اور ممتاز ہو جاتی ہے.جیسا کہ ہم نے قرآن کریم اور مرسلین باری تعالیٰ کے ادب کو آسمانی ادب اور دیگر ادبیات کو ز مینی کہا ہے.تو زمینی ادبیات کے اعتبار سے ”ادب“ کی چند لفظی تاریخ اور تعریف اس طور سے بیان کی جاتی ہے.ابتداء لفظ ”ادب“ کی تعریف ان گنت معنوں میں کی جاتی رہی ہے.اپنے عربی اصل کے پیش نظر ہر خلق

Page 33

ب المسيح 14 کی خوبی کو ادب کہا گیا ہے.چنانچہ آداب مہمان نوازی اور اکرام ضیف کو بھی ادب کہتے ہیں.تعلیم و تدریس کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے.یعنی ادیب معلم ہے اور ادب سے مراد تعلیم و تدریس ہے.اس طور پر تمام علوم خواہ وہ معاشرتی ہوں یا سائنسی ان کا پڑھنا سیکھنا’ادب کے دائرے میں آجاتا ہے.مگر ایک عرصہ گذرنے پر اصحاب علم و ادب نے یہ احساس کیا کہ اگر ادب کا دائرہ کار الفاظ اور ان کے معانی تک محدودر ہے تو لفظ کے معانی ہمیشہ ایک نہیں ہوتے.لفظ کبھی تو اپنے حقیقی معنوں کو بیان کر رہا ہوتا ہے اور کبھی مجازی معنوں کو.یعنی معانی مستعار کو جیسا کہ لفظ ”چاند ہے کہ حقیقی معنوں میں نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے.مگر مجازی معنوں میں محبوب یا دلپسند ہستی ہے.اس شعور کی بناپر علمی اور ادبی دنیا نے معاشرتی اور سائنسی علوم کو علم کہا اختیار کیا.یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ سائنسی تحقیق کے لیے لازم ہے کہ لفظ کے ایک ہی محقق اور مستقل معنی ہوں تا کہ تحقیق کا عمل ایک متعین راہ پر گامزن رہے.شعر و سخن کی دُنیا میں لفظ کا ایسا جمود اور یک رنگی قبول نہیں ہے کیونکہ شعر کا حقیقی موضوع واردات قلب کا ایک حسین بیان واظہار ہے.عشق اور محبت کی کیفیات کے بیان میں تو دل کے جذبات دریا سمندر سے بھی گہرے ہوتے ہیں اور حسن کی ہزار در ہزار تجلیات ہوتی ہیں.اس ہجوم رنگ و بو کو دولفظوں میں سمجھنے کے لیے لفظ کی دلالتوں کو وسیع کرنا لازم ہوتا ہے.اس لیے اگر لفظ ایک ہی معنی کے اظہار میں جم جائے اور دم سادھ لے تو بات نہیں بنتی.اس صورت میں یا تو عشق و محبت اور حسن و جمال کی گوناں گوں تجلیات اور قلب کی نہاں در نہاں کیفیات کو بیان کرنا ترک کر دینا ہوگا یا پھر لفظ کے معانی اور اشارے کو اتنی وسعت دینی ہوگی جتنی کہ جذبات اور خیال کی وسعت ہے.لفظ کی اس وسعت معانی کو اصطلاح میں مجازی معانی یا معانی مستعار کہتے ہیں.غالب نے ٹھیک کہا ہے:.بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے گو اس شعر میں غزل کی تکنیکی حدود و قیود کا ذکر ہے.مگر دراصل جس تنگی کا غم غالب کو ہے وہ لفظ کی معنوی وسعت کا فقدان ہے.حضرت اقدس کا یہ فرمانا: کس طرح تیرا کروں اے ذوالمن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

Page 34

15 ادب المسيح ی بھی دراصل لفظ کی کم مائیگی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ میں طاقت اظہار نہیں ہے.وگر نہ قلبی شعور کے اعتبار سے آپ حضرت کو احسانات خداوندی کا کامل عرفان تھا.آپ حضرت نے لفظ کی اس کم مائیگی کا اظہار عربی زبان میں ثناء باری تعالیٰ کے مضمون میں بھی کیا ہے.فرماتے ہیں: يَا مَنْ أَحَاطَ الْخَلْقَ بِالْآلَاءِ نُشِئُ عَلَيْكَ وَ لَيْسَ حَوُلُ ثَنَاءِ ترجمہ: اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں لیکن تعریف کی طاقت نہیں پاتے.دراصل لفظ کو جمالیاتی اقدار کے اظہار کے قابل بنانے اور قلبی کیفیات کے بیان میں کامیاب کرنے ہی کا نام ”ادب“ ہے.انیس نے اس محنت اور ریاض کو بہت خوبصورت بیان کیا ہے:.گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں اک پھول کا عنواں ہو تو سورنگ سے باندھوں یہاں پر لفظ معنی خیال اور جذبے کے معنوں میں ہے.یعنی یہ کہ خیال اور جذبے کے اظہار اور ابلاغ کے لیے الفاظ کے پھولوں کو کیسے ترتیب دوں تا کہ خیال اور الفاظ با ہم مل کر حسن کاری کریں.شاید عابد علی عابد اس مسئلے کو واضح تر انداز میں بیان کر رہے ہیں.کہتے ہیں:.لفظ کے روپ میں ڈھلتے نہیں وہ افسانے جو مرے چشم تخیل میں بپا ہوتے ہیں لفظ کے پردہ زرتار میں خوبانِ خیال کبھی مستور کبھی پردہ کشا ہوتے ہیں بات کچھ طویل ہو گئی ہے.کہنا یہ چاہتا ہوں کہ لفظ کے حقیقی معنوں کی حد بندی نے ادبیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے قلبی اور جذباتی خیالات کے اظہار کے لیے لفظ کی معنوی دلالتوں میں وسعت پیدا کریں.اس کوشش نے ادب میں علم مجاز کی تخلیق کی ہے اور لفظ کے معانی میں استعارہ.کنایہ.تشبیہات اور علامات کی مدد لے کر لفظ کو بے انتہا معنوی وسعت دی ہے.اور اس قابل بنایا ہے کہ وہ حسن کاری کر سکے.

Page 35

ب المسيح 16 یہی وجہ ہے کہ تمام مہذب زبانوں کے اہل نظر اور نقادوں نے لفظ ”ادب“ کی تعریف میں ایک ہی ایسی قدر بیان کی ہے جو ادبی دنیا میں مقبول عام اور مسلم ہے.یعنی یہ کہ خیال اور مشاہدات کو احساسات اور جذبات کو حسین الفاظ میں بیان کرنا ”ادب“ ہے.چنانچہ بیان نثر میں ہو یا نظم میں ”ادب“ کے مقام تک پہنچنے کے لیے اس میں لفظی اور معنوی حسن و جمال کا ہونا شرط اول ہے اور شرط آخر بھی.ادب میں حسن، لفظ اور معانی کے ارتباط اور تناسب سے پیدا ہوتا ہے.یہ ربط اور تناسب ایک شعوری لذت بھی پیدا کرتا ہے اور اپنے آہنگ کے ساتھ تختہ گل کی طرح سے رنگ و روپ بھی بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ علوم اد ببیہ کا موضوع محاسن کلام کی تلاش اور تعیین ہے.علم معانی اور علم بیان علم صنائع و بدائع اسی محور کے گردگھومتے ہیں اور علامات حسن بیان کی نشاندہی میں مد اور معاون ہوتے ہیں.آخر الامر یہ ہے کہ لفظ و معنی میں حسن تخلیق کرنا ہی وہ قدر ہے جو کہ ”ادب“ کی تعریف کو متعین کرتی ہے.اور اُس کو دیگر انسانی علوم اور دانش وری کے بیان سے ممتاز کرتی ہے.شاید غالب نے لفظ و معانی کے انتشار رنگ و بو سے پریشان ہو کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ شعر میں یہ انتشار قبول ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہر لفظ میں بہار کا جلوہ گر ہونا لازمی ہو.( یعنی حسن کا ) کہتا ہے: ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے ”ادب“ کی تعریف کا یہ ایک ایسا بنیادی عنصر ہے جس کو تمام مہذب زبانوں کے ادیب اور نقاد قبول کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس ارتباط اور مناسبت کو بہت پر حکمت انداز میں بیان فرمایا ہے اور اپنی تمام مخلوق کے حسن کو تناسب سے پیدا کیا ہے.فرماتا ہے : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَونَكَ فَعَدَ لَكَ (الانفطار : 8) یعنی اول قدم پر تخلیق ہے اور پھر ترتیب اور تعدیل ہے.ادب میں بھی تخلیق کے یہ تین ہی عناصر اور مراحل ہیں.اس آیت کی تفسیر میں حضرت اقدس فرماتے ہیں: حسن تناسب اعضاء کا نام ہے.جب تک یہ نہ ہو ملاحت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت فَسَونك فَعَدَ لَكَ فرمائی ہے.فَعَدَلَكَ کے معنے تناسب کے ہیں کہ نسبتی اعتدال ہر جگہ ملحوظ رہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 201.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت اقدس نے نسبتی اعتدال ہر جگہ ملحوظ رہے فرما کر ادبیات کو بھی اس اصل الاصول کے تحت کر دیا ہے.

Page 36

17 ادب المسيح جیسا کہ ہم نے قرآن کریم اور ادب مرسلین کو آسمانی ادب اور دیگر ادبیات کو زمینی کہا ہے.تو اس مقام تک آسمانی ادب اور زمینی ادب کی تعریف و تعبیر میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا.دونوں ادب پاروں میں یہ قدر مشترک ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ادب حقیقت میں لفظ و معانی میں جمالیاتی عصر کو اجاگر کرنے کا نام ہے اور ادب خواہ آسمانی ہو یا زمینی اپنی سحر کاری اور جذب میں ایک سا ہی ہوتا ہے.اور حسن کی دونوں تجلیات قلب و نظر کو شکار کرتی ہیں.گو محبوب حقیقی کے حسن و جمال کی تجلی میں دیگر تمام تجلیات حسن سمو جاتی ہیں.تا ہم حقیقت یہی ہے کہ اس حادثے کا بیان ہی ادب کا منصب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ادب پاروں کو ”ادب“ کا نام نہیں دیا بلکہ اس سے بہت بہتر معانی کے حامل لفظ کو ( جو کہ در حقیقت ادب کی جان ہے ) اختیار فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودات کو احسن الحدیث اور احسن القصص کہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی عظمت اور شان ہے کہ اس نے ایسے لفظ کو قبول نہیں کیا جو اپنے معانی اور مطالب کے اظہار میں ایسا اختلاف اور وسعت رکھتا ہو کہ اس کے ساتھ نفسِ مضمون کا ایک مستقل رشتہ قائم نہ ہو سکے.( جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ لفظ ”ادب“ ایک مختلف المعانی علامت ہے ).اس لیے قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت سے بعید تھا کہ وہ ایک مخصوص معانی کے اظہار کے لیے ایک ایسے پراگندہ خیال لفظ کو اختیار فرماتا جس کے حقیقی اور مجازی معنوں میں اختلاف ہو.قرآن کریم نے اپنی ادبی شان بیان کرنے کے لیے حسن کا لفظ اختیار کیا ہے اور صرف یہی نہیں کہ قرآن کریم نے اپنے کلام کو حسین کہا ہے بلکہ سب سے اول اپنی ذات کو حسنِ کامل، کہا ہے.فرمایا: اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنُى (طه: 9) ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.اُسی کے لیے تمام اسمائے حسنہ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف : 181) ترجمہ: تمام حسین نام اللہ ہی کے ہیں.اُس کو انہی ناموں سے پکارو.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تخلیق کو حسین قرار دیا ہے.فرمایا: الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (السجدة : 8) ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے اپنی تمام مخلوق میں حسن قائم کیا ہے.اور فرمایا:

Page 37

المسيح 18 فَتَبْرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِينَ (المؤمنون: 15) ترجمہ: پس برکت والا ہے وہ اللہ جوسب سے زیادہ حسین تخلیق فرمانے والا ہے.اور انسان کو خصوصیت سے حسین کہا ہے.فرمایا: وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمُ (المؤمن : 65) ترجمہ: اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور نہایت حسین صورتیں بنائیں اور پھر فرمانِ عام ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں حسن کو اختیار کرو.فرمایا: إن الله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة : 196) ترجمہ: یقینا اللہ تعالی محسنین کو پسند کرتا ہے.اور خاص طور پر اپنے قول کو حسین بناؤ.فرمایا: وَقُلْ لِعِبَادِى يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (بنی اسرائیل : 54) ترجمہ: اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات کریں جو زیادہ حسین ہو.اور فرمایا: وَقُولُو الِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84) ترجمہ: لوگوں سے حسین طریق پر بات کرو.حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کریم لفظ حسن اور اس کے مشتقات سے بھرا ہوا ہے.یہی اس کی شان اور منصب ہے کیونکہ جس ہستی کی طرف وہ بلاتا ہے وہ حقیقی معنوں میں حسن اول اور حسن آخر ہے.اور قرآن اس حسن ازل اور لم یزل کی تجلی ہے.اللہ تعالیٰ کی شناخت اس کی صفات سے ہوتی ہے اور گذشتہ کے فرموداتِ خداوندی سے یہ امر واضح ہے کہ ہر صفت اور ہر تحتی میں جو قد رمشترک ہے وہ حسن ہے.اور یہ بھی کہ جہاں بھی حسن کی تجلی ہوگی وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا پر تو ہو گا.انہی معنوں میں فرمایا ہے: قُلِ ادْعُوا اللهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيَّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (بنی اسرائیل: 111)

Page 38

19 ادب المسيح ترجمہ: ان سے کہو کہ خواہ تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کے نام سے.حقیقت یہی ہے کہ تمام حسین نام اُسی کے ہیں.اس حقیقت کو حضرت اقدس نے کس قدر خوبصورتی سے بیان کیا ہے.فرماتے ہیں: کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا تو بردیوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا چاند میں محبوب حقیقی کے حسن کا عکس دیکھنا.مگر کامل عکس نہ ہونے کو کچھ کچھ کہہ کر بیان کرنے سے چاند کی بھی عزت قائم رکھی اور محبوب حقیقی کی عظمت کو بھی بیان کر دیا.بہت ہی بلیغ بیان ہے.حسن کا پر تو کبھی کامل نہیں ہوسکتا.مگر پر تو ہونے کے اعتبار سے اس کی ایک شان ضرور ثابت ہے.اور حسین آنکھ کا حسن کامل کی طرف اشارہ کرنا.اور خمدار زلفوں کا محبوب حقیقی کی طرف ہاتھ بڑھانا ایک دلفریب ادبی صنعت گری ہے.فارسی زبان میں فرماتے ہیں:.اے دلبر و دلستان و دلدار واے جانِ جہان و نور انوار اے میرے دلبر محبوب اور دلدار اور اے جان جہاں اور نوروں کے نور لرزاں ز تجلیت دل و جان حیراں ز رخت قلوب و ابصار جان و دل تیرے جلال سے کانپ رہے ہیں.قلوب اور نظریں تیرے رخ کو دیکھ کر حیران ہیں حسنِ تو غنی کند ز ہر حُسن مہر تو بخود کشد ز ہر یار تیرا حسن ہرحسن سے بے نیاز کر دیتا ہے اور تیری محبت ہر دوست کو چھڑا کر اپنی طرف کھینچ لاتی ہے حسن نمکینت ار نہ بودے از حُسن نہ بودے بیچ آثار نمکین حسن نہ ہوتا تو دنیا میں حسن کا نام و نشان نہ ہوتا اگر تیرا

Page 39

المسيح از بیر نمائش جمالت ! 20 بینم ہمہ چیز آئینہ دار تیرے جمال کی نمائش کے لیے میں ہر چیز کو آئینہ سمجھتا ہوں ہر برگ صحیفہ ہدایت ہر جوہر و عرض شمع بردار ہر پتا ہدایت کا صحیفہ ہے اور ہر ذات و صفت تجھے دکھانے کے لیے متعلیمی ہر نفس بتو رہے نماید ہر نفس تیرا راستہ دکھاتا ہے ہر جاں بدہد صلائے این کار ہے ہر جان بھی اسی بات کی ہی آواز دیتی ہے ہر ذرہ فشاند از تو نُوری ہر قطره براند از تو انہار ہر ذرہ تیرا نور پھیلاتا ہے.ہر قطرہ تیری توصیف کی نہریں بہاتا ہے یہاں تک تو ”ادب“ کی تعریف میں ایک ایسی قدر کو بیان کیا گیا ہے جو زمینی اور آسمانی ادب میں قدر مشترک ہے.مگر ادب میں صرف لفظ ہی حسن پیدا نہیں کرتا بلکہ جن معانی پر لفظ دلالت کر رہا ہوتا ہے وہ بھی ادبی حسن کاری میں برابر کا شریک ہوتا ہے اور اسی اختلاط اور ارتباط ہی سے حسن کی تخلیق ہوتی ہے.اس لیے جیسا کہ لفظ کی معتین نشست و برخواست کے قیام کے لیے اقدار حسن متعین کی گئی ہیں اسی طور پر معافی کی بلندی اور پستی کو اہم قد راد بی قبول کر کے اس کی نشاندہی میں بہت کچھ کہا گیا ہے.اور اصحاب نقد و نظر نے ان دونوں عناصر کے بارے میں تفصیلی مبحث اٹھائے ہیں اور ادب میں ہیئت اور مواد کی تعیین کی کوشش کی ہے.ان اصولی اقدار ادب کی تفصیل میں ذیلی طور پر اور بھی بہت سی اقدار ادب ہیں جن کا قیام ادب عالیہ کی تخلیق کے لیے از بس ضروری قرار دیا گیا ہے.ہمیں ان عناصر ادب کی تفصیلی پردہ کشائی کی ضرورت نہیں ہے.تاہم چند ایک اقدار ادب ایسی ہیں جن کا بیان زیر قلم موضوع سے قریبی تعلق رکھتا ہے.اول : یہ قبول کیا گیا ہے کہ ادب عالیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ آفاقی مضامین اور مواد کا حامل ہو.یعنی وہ ہر انسان کی فطرتی اور قلبی جذبات اور تمناؤں کی عکاسی کرے.دوم : یہ کہ مشاہدات صدق پر مبنی ہوں.صدق کا عنصر ادبی تخلیق میں جزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے.حسن کا بیان ہو یا قلبی کیفیات کا اظہار اس میں ادبی حسن و جمال پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ مشاہدات اور جذبات حقیقت پر مبنی ہوں.اگر ایسا نہیں تو وہ کلام ایک دیو مالائی افسانہ ہوتا ہے اور قلب و نظر کو سخر نہیں کرتا.اسی بنیاد پر تیسری ادبی قدر ہے جس کو تاثیر کا نام دیا گیا ہے.ادب میں تاثیر لفظ و معانی کے حسن و جمال سے پیدا ہوتی ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ ادب عالیہ کی پہچان اس کی تاثیر ہی پر قائم ہے تو بالکل درست ہوگا.کیونکہ

Page 40

21 ادب المسيح ادب کی غائت اور مقصود ابلاغ کامل ہی ہے.اور ابلاغ مؤثر کلام ہی سے پیدا ہوتا ہے.اس لیے ابلاغ ایک ایسا عصر ہے جس کو حاصل کر نا تمام ادبی تخلیقات کا مطلوب اور منشاء ہوتا ہے.گذشتہ میں تو ادب کی دو بنیادی اقدار کا زمینی اور آسمانی ادب میں تقابل ہوا ہے.اب یہ دیکھنا ہے کہ جو چند ایک مزید اقدار ادب بیان ہوئی ہیں (یعنی.ادب کا آفاقی ہونا.ادب کا صدق پر مبنی ہونا اور ادب کا مؤثر ہونا ).ان کی نسبت سے قرآن کریم کیا فرماتا ہے.قرآن کریم نے محاسن کلام کے موضوع پر بہت سے مقامات میں نشاندہی کی ہے اور اقدار حسنِ کلام بیان کی ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ قرآن کریم اپنے دعاوی کی دلیل خود ہی پیش کرتا ہے.اور قرآن کا دعوی ہے کہ وہ سب سے حسین کلام ہے.ہم اختصار کے طور پر دو مقامات کو اختیار کرتے ہیں.ایک مقام پر تو اصولی اور قدرے مختصر بات کی ہے.فرماتا ہے:.أَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةٌ طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِ أُكُلَهَا كُلِّ حِينِ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (ابراهيم: 25، 26) حضرت اقدس ان آیات کے ترجمہ وتفسیر میں فرماتے ہیں:.کیا تو نے نہیں دیکھا کیونکر بیان کی اللہ نے مثال.یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ درخت کی مانند ہے.جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہو.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں میں قرار دیتا ہے:.1.اول یہ کہ اصلهَا ثَابِت.یعنی اصول ایما نیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں ( صداقت پر قائم ہوں ) 2.دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے.وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ یعنی صحیفہ قدرت کا مطالعہ اس کی صداقت کو ثابت کرے اور یہ کہ وہ تعلیم ایمان کے بیان اور اخلاق کے بیان اور احکام کے بیان میں کمال درجہ پر پہنچی ہو.

Page 41

المسيح 22 3.تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی تو تِی اَكُلَهَا كُلَّ حِينِ یعنی ہر وقت اور ہمیشہ کے لیے وہ اپنا پھل دیتا ر ہے.یعنی اپنی تاثیرات دکھا تار ہے کیونکہ کلام کا پھل اس کی تاثیر ہی ہوتی ہے.یہ تو اقدار ادب کا ایک بنیادی اور اصولی بیان ہے.جس کی ہر شرط کی تفصیل اور تعبیر سے ان گنت ادبی اقدار پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے.مگر خاکسار کی ناقص رائے میں جہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر قدرے تفصیل سے اور وضاحت سے بیان فرمایا ہے وہ ذیل میں ہے.فرماتا ہے:.اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتُبًا مُّتَشَابِهَا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (الزمر: 24) حضرت اقدس اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ نے بہترین بیان ایک ملتی جلتی ( اور ) بار بار دہرائی جانے والی کتاب کی صورت میں اتارا ہے.جس سے ان لوگوں کی جلد میں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں لرزنے لگتی ہیں پھر ان کی جلد میں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف مائل ہوتے ہوئے ) نرم پڑ جاتے ہیں.یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں.اب دیکھ لیں کہ کس قدر وضاحت سے بیان کیا ہے کہ:.1 - اللهُ نَزَّلَ.یعنی موادِ ادب تنزیل ربانی ہو یعنی کامل صدق پر مبنی ہو.2 - اَحْسَنَ الْحَدِيثِ یعنی لفظ اور معانی کے اختلاط سے ایک حسن پیدا ہوتا ہو.3- كتابا یعنی مواد میں ایک تعلیم اور کوئی سمح نظر ہو.-4- مُتَشَابِهًا مَثَانِيَی.یعنی مواد باہم متضاد نہ ہو.اور حضرت اقدس کی تفسیر کے مطابق اپنے اندر معقولی اور روحانی دونوں طور کی روشنی رکھتا ہو.5 تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ یعنی اس کی تأثیر ایسی ہو کہ اس کے پڑھنے سے ان لوگوں کی کھالوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یعنی اس کا جلال اور اس کی ہیبت عاشقوں کے دلوں پر غالب ہو جاتی ہے اور وہ قرآن کی قہری تنبیہات اور جلالی تاثیرات کی تحریک سے رات

Page 42

23 ادب المسيح دن اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بہ دل و جان کوشش کرتے رہتے ہیں....پھر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کے دلوں اور بدنوں پر رقت طاری ہو جاتی ہے.یعنی ذکر ان کے دلوں میں پانی کی طرح بہنا شروع ہو جاتا ہے“.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ادب عالیہ کی تعریف میں یہ ایک عظیم الشان بیان ہے.کسی بھی مہذب زبان کے علم تنقید ادب میں ادب عالیہ کی تعریف میں ایسا جامع اور مکمل بیان نہیں ملے گا.زمینی ادب اور آسمانی ادب کی اقدار میں ہم نے قرآن کے معیار ادب کو پیش کیا ہے.اب اس موضوع پر مرسلین باری تعالیٰ کے فرمودات بھی سن لیں.اوّل منصب تو ہمارے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جوامع الکلم عطا ہوئے تھے اور جو افصح العرب تھے ہفرماتے ہیں: إِنَّ مِنَ الشَّعْرِ لَحِكْمَةً وَّ إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحُرًا ترجمہ: بعض اشعار میں حکمت ہوتی ہے اور بعض بیان تو جادو کا اثر رکھتے ہیں اب دیکھ لیں کہ تعریف ادب میں کس قدر جامع اور مکمل فرمان ہے.ادب کے دو عناصر (یعنی مواد اور ہیئت ) کوکس کمال سے دو لفظوں میں بیان کر دیا ہے.اس فرمان کے مطابق آپ کی نظر میں شعر و ادب میں ایک حکیمانہ عرفان ہونا چاہیے.یعنی اس کا ناطہ انسان کی فطرت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ قائم و دائم ہو اور دوسرے قدم پر الفاظ کا حسن و جمال اور ان کی بندش ایسی ہو کہ انسان کو مسحور کر دے.جوامع الکلم جو آپ کو عطا کیے گئے ان کی ایک اعلیٰ مثال ہے.دوسرے منصب پر حضرت مسیح موعود کو بھی سن لیں.سخن معدن در و سیم و طلاست اگر نیک دانی ہمیں کیمیاست ترجمہ: کلام تو موتی ، چاندی اور سونے کی کان ہے اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے تو یہی کیمیا ہے سخن قامتے هست با اعتدال فصاحت چو خدّ و بنا گوش و خال ترجمہ: کلام کی مثال تو ایک خوبصورت جسم کی ہے اور اس کی فصاحت رخسار اور کان کی لواور تل کی طرح ہے چو گفتار باشد بلیغ و اتم اثر ها کند در دلے لاجرم ہا

Page 43

ب المسيح 24 ترجمہ : جب کلام بلیغ اور اعلیٰ ہو تو ضرور دل پر اثر کرتا ہے وگر منطقه مهمل است و خراب چو خواب پریشاں رود بے حساب ترجمہ: لیکن اگر گفتگو بے معنی اور خراب ہو تو وہ خواب پریشاں کی طرح رائیگاں جاتی ہے زباں گرچہ بحرے بود موجزن طلاقت نه گیرد بجز علم و فن ترجمہ: زبان اگر چه طوفانی سمندر کی طرح ہو پھر بھی فصاحت بغیر علم وفن کے نہیں آتی یہاں پر آپ نے اول تو اعلیٰ کلام اور سخن وری کی تعریف کی ہے کہ وہ سیم وزر سے بہتر ہے.مگر فر مایا کہ اس کی قدر و قیمت اس وقت بنتی ہے جبکہ اس میں ایک ایسا اعتدال اور تناسب ہو جیسا کہ ایک حسین قامت محبوب اور اس کے رخساروں کی سرخی اور اس کے کانوں کے آویزے ہوتے ہیں.یعنی الفاظ اور معانی ایک حسین جلوہ دکھا رہے ہوں مگر اس جلوہ آرائی کے باوجود اس تناسب لفظی کا موثر ہونا ضروری ہے.اور اگر ایسا نہیں تو شعر وادب ایک خواب پریشاں کی طرح بے مقصد و مراد ہوتا ہے.فرمایا: و گر منطقه مهمل است و خراب چو خواب پریشاں رود بے حساب ترجمہ: لیکن اگر گفتگو بے معنی اور خراب ہو تو وہ خواب پریشاں کی طرح رائیگاں جاتی ہے اس مقام تک جو بیان ہوا ہے اس سے یہ امور واضح ہوئے ہیں:.اول یہ کہ ”ادب“ لفظ و معانی کے ایک حسین اور ترنم خیز ارتباط کا نام ہے اور یہ بھی کہ شعر میں یہ ربط اس وقت قائم ہوتا ہے جبکہ اس میں انسان کی فطرت کے تقاضوں کی عکاسی ہو اور وہ ایک فرد کی قلبی کیفیت کا بیان نہ ہو بلکہ وہ انسان کی کیفیت ہو اور انسانیت کی خوشی اور غم کا ایسا اظہار ہو کہ جس کو سن کر صرف لطف ہی نہ آئے بلکہ زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر دے.اس مقام تک تو تعریف ادب میں آسمانی ادب اور زمینی ادب میں باہم اختلاف نہیں ہے.مگر جیسا کہ ابتدا میں اشارۃ کہا گیا تھا کہ یہ دونوں ادب اس اتحاد اور اشتراک کے باوجود اپنی نوعیت میں دو مختلف مکاتیب ادب ہیں اور یہ کہ ان دونوں میں باہم فراق اور اختلافی نوعیت محرکات تخلیق ادب اور ترجیحات ادبی کے باہم دگر ممتاز اور مختلف

Page 44

25 ادب المسيح ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اس مضمون میں جو سورۃ الزمر کی تعریف شعر وادب بیان ہوئی ہے اس میں قرآن کریم نے یہ فرما کر تقشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمُ ( جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اُن کے رونگٹے اس کے پڑھنے سے کھڑے ہو جاتے ہیں ) اس اختلاف کو بیان کر دیا ہے اور تخصیص کر دی ہے کہ آسمانی ادب کے فہم و ادراک اور اس سے لطف اٹھانے کے لیے محبت الہی اور تعلق باللہ ایک لازمی شرط ہے.یہی حقیقت حضرت مسیح موعود کس قدر خوبصورتی سے بیان فرما ر ہے ہیں: فارسی میں کہتے ہیں: لوائے ما ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد ترجمہ: ہمارا جھنڈاہر خوش قسمت انسان کی پناہ ہوگا اور کھلی کھلی فتح کا شہرہ ہمارے نام پر ہوگا اور پھر اردو زبان میں کہتے ہیں: صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اور فرماتے ہیں: اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار یعنی اول قدم پر انسان کی فطرت سعید ہو اور دوسرے قدم پر اس کے قلب میں خوف خداوندی ہو.اس وجہ سے آسمانی ادب کی اس اہم نوعیت کو قدرے تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ آسمانی اور زمینی ادب کے محرکات تخلیق اور ترجیہات ادب کیا ہیں اور ان میں اختلاف و تضاد کے موجبات کیا ہیں.

Page 45

ب المسيح 26 آسمانی اور زمینی ادب کے محرکات گذشتہ میں بیان ہو چکا ہے کہ آسمانی شعر و ادب کی ایک منفرد اور ممتاز نوعیت ہے.اس لیے اگر آسمانی شعر و ادب کو ایک ممتاز اور جداگانہ مکتب شعر و ادب کہا جائے تو یقیناً درست ہوگا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مکتب ادب میں زانوئے تلمذ تہ کیے بغیر اس کے حسن و خوبی سے آگا ہی ممکن نہیں ہے.تاہم اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان ہونے کے ناطے سے اس کے محرکات ادب بھی ان ہی عوامل کا نتیجہ ہیں جو زمینی ادب کے ہیں.دید وشنید قلبی احساس اور دماغی شعور، تلاش اور جستجو یہ سب مشترک محرکات و عوامل تخلیق ادب ہیں.دونوں ادب مشاہدات اور احساسات کو قلب و نظر میں قبول کرنے کے عمل سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو ان کا چشمہ حیات بھی مشترک ہونا چاہیے.مگر اس وقت یہ معلوم کرنا ہے کہ اس اتحاد کے باوجود وہ کیا عوامل ہیں جن کی عمل داری نے ان دونوں ادبوں میں ایسا اختلاف کیسے پیدا کر دیا ہے کہ ہم ادب آسمانی کو ایک ممتاز اور منفر دمکتب شعر کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں.دراصل ان دونوں ادبوں کی باہم دگر ممتاز نوعیت ان ادیبوں کی قلبی ترجیحات اور مقاصد زندگی کے مختلف ہونے سے پیدا ہوتی ہے اور اس بنا پر ہی ان کے مشاہدات اور جذبات کا رخ ایک دوسرے سے مختلف سمت اختیار کر لیتا ہے.زمینی ادیب کے مشاہدات اس کے ماحول اور تہذیبی ترجیحات کے عوامل سے جنم لیتے ہیں.اس کے جذبات بھی جسمانی لذت اور شوق کے دائرے میں محصور ہوتے ہیں.اس کی اقدار حسن و جمال اور اس کی پسند نا پسند بھی زمینی قیود اور حدود سے پیوست ہوتی ہے.وہ زمینی وابستگیوں اور لذتوں سے باہر نہیں نکلتا وہ اسی میں جنم لیتا ہے اور اسی کی یافت اور نایافت ( یعنی حصول اور محرومی ) اس کے شعر وادب کے عنوانات ہوتے ہیں اور اس کے ادب کے تخلیقی محرکات بھی.جیسے غالب کا حال ہے کہ اگر عشق کا غم نہیں تو وہ زندگی کے دیگر مصائب میں مبتلا ہے.غم اگر چہ جانگسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا آسمانی ادیبوں کے مشاہدات اور جذبات یا دائرہ تخلیق ادب اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے اول ایسے کہ ان کی ترجیحات زندگی زمینی نہیں ہوتیں گووہ اس زمین کے باسی ہوتے ہیں اور اسی زمین کے باسیوں کی طرف بھیجے جاتے ہیں مگر وہ اس اعتبار سے سرزمین کے باسی نہیں بھی ہوتے کہ وہ زمینی محبتوں اور لذتوں کی تمنا نہیں رکھتے.

Page 46

27 ادب المسيح وہ محبوب حقیقی کے عشق کا جیتا جاگتا نشان بن کر آتے ہیں اس لیے ان کے ادب کی اساس زمینی محبتوں اور لذتوں کو ترک کرنا اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے وصال کی لذت سے انسان کو آشنا کرنا ہوتی ہے.آپ کی بعثت اور کلام کا یہ مقصد فارسی اشعار میں کس قدر خوبی و جمال سے بیان ہوا ہے فرماتے ہیں بجز اسیری عشق رخش رہائی نیست بدرد او همه امراض را دوا باشد اس کے چہرہ کے عشق کی قید کے سوا کوئی آزادی نہیں اور اُس کا درد ہی سب بیماریوں کا علاج ہے به بینی اش اگرت چشم خویش وا باشد پرورد مرا ہر دم عنایت و کرمش اُس کا فضل و کرم ہر وقت میری پرورش کرتا ہے اگر تیری آنکھیں کھلی ہیں تو تجھے یہ بات نظر آ جائے گی بیامدم که ره صدق را درخشانم بدلستاں برم آن را که پارسا باشد میں اس لیے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اُسے لے چلوں جو نیک و پارسا ہے.اس مقصد کے بیان کو اردو میں بھی دیکھ لیں.مجھے اس یار سے پیوندِ جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اور عربی میں بھی اسی مقصد ادب کا بیان سُن لیں.فرماتے ہیں: أَنْتَ الْمُرَادُ وَ اَنْتَ مَطْلَبُ مُهْجَتِى وَعَلَيْكَ كُلُّ تَوَكَّلِي وَ رَجَائِي تو ہی مراد ہے اور تو ہی میری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور امید ہے.أَعْطَيْتَنِي كَأْسَ الْمَحَبَّةِ رَيْقَهَا فَشَرِبُتُ رَوْحَاءٌ عَلَى رَوْحَاءِ تو نے مجھے محبت کی بہترین کے کا ساغر عطا کیا ہے تو میں نے جام پر جام پیا.إِنِّي أَمُوتُ وَلَا يَمُوتُ مَحَبَّتِى يُدْرَى بَذِكْرِكَ فِي التُّرَابِ نِدَائِي میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.(قبر کی مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز پہچانی جائے گی.اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے تصرف خاص سے آسمانی ادیبوں کی تخلیق فرماتا ہے اور اپنی نگرانی میں ان کے قلبی اور نظری رجحانات کی تادیب اور تعدیل کرتا ہے اس لیے محرکات ادب میں ان کے مشاہدات اور جذبات اور ان کی ادبی استعداد اور اکتساب ہنر خالصہ محبوب حقیقی کی منشاء اور حکم کے تحت اور اس کی

Page 47

المسيح نگرانی میں تشکیل پاتے ہیں.اس مضمون میں اردو میں فرماتے ہیں 28 ابتدا سے گوشئہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تا رڈ کروں حکیم شہ ذی الاقتدار اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دلفگار اور عربی میں فرماتے ہیں بِمُطَّلِعٍ عَلَى أَسْرَارِ بَالِى بِعَالِمِ عَيْبَتِي فِي كُلِّ حَالِي قسم اس ذات کی جو میرے دل کے بھیدوں سے آگاہ ہے او قسم اس ذات کی جو ہر حال میں میرے سینے کے راز سے واقف ہے لَقَدْ أُرْسِلْتُ مِنْ رَّبِ كَرِيمٍ رَحِيمٍ عِنْدَ طُوفَانِ الضَّلَالِ بے شک میں رب کریم رحیم کی طرف سے طوفانِ ضلالت کے وقت بھیجا گیا ہوں بِالْإِبْدَاءِ أَتْرُكُ أَمْرَ رَبِّي وَمِثْلِى حِيْنَ يُؤْذَى لَا يُبَالِي کیا دُ کھ دئے جانے سے میں اپنے رب کے کام کو چھوڑ دوں؟ جبکہ میرے جیسا آدمی ایذا دئے جانے پر پرواہ نہیں کیا کرتا اور فارسی میں فرماتے ہیں.مامورم و مرا چه درین کار اختیار رو این سخن بگو بخداوند آمرم میں تو مامور ہوں مجھے اس کام میں کیا اختیار ہے جا! یہ بات میرے بھیجنے والے خدا سے پوچھ حکم است از آسمان بز میں میرسانمش گر بشنوم نگویمش آن را کجا برم آسماں کا حکم میں زمین تک پہنچاتا ہوں.اگر میں اُسے سنوں اور لوگوں کو نہ سناؤں تو اُسے کہاں لے جاؤں من خود نگویم اینکه بلوح خدا ہمیں است گر طاقت ست محو کن آں نقش داورم میں خود یہ بات نہیں کہتا بلکہ لوح محفوظ میں ہی ایسا لکھا ہے اگر تجھ میں طاقت ہے تو خدا کے لکھے ہوئے کو مٹادے.اس حقیقت کے بیان میں قرآن کریم کے بہت سے فرمودات ہیں جو آسمانی ادیبوں یعنی انبیاء علیہم السلام کی ادبی اور روحانی سیرت کی تشکیل کے عوامل و محرکات پر روشنی ڈالتے ہیں.دل تو یہ چاہتا ہے کہ پچن چن کر قرآن کریم کے وہ جواہر پارے جن میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی سیرت کی تشکیل کا دستور عمل بیان کیا ہے ایک ترتیب سے پیش کروں اور اس حقیقت کی وضاحت کروں کہ انبیاء کی روحانی

Page 48

29 29 ادب المسيح تربیت اور کمال علم وادب.زندگی کے عوامل اور محرکات سے متاثر ہو کر تشکیل نہیں پا تا بلکہ یہ ایک عنایت خاص کے طور پر عطا ہوتا ہے اور کامل تصرف الہی کے تحت تخلیق ہوتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر ہم حضرت اقدس کے ادب کو ایک منفرد اور جدا گانہ مکتب شعر و ادب کہتے ہیں.مگر ہمارا موضوع اس تفصیل کی اجازت نہیں دیتا اس لیے مختصر چند فرمودات قرآن پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي (طه:۴۰) حضرت اقدسش اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی ایک پیشگوئی ہے و القیت علیک محبّةً منى ولتصنع علی عینی یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا“.(حقیقۃ الوحی - ر- خ- جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۹) یہ بہت ہی عالی مرتبہ اور محبت میں ڈوبا ہوا فرمانِ باری تعالیٰ ہے.اس فرمان کے بیان میں ایک بہت اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ آیت آپ حضرت اقدس پر الہام ہونے کی وجہ سے اگر اوّل یہ فرمان عمومی تھا تو آپ کے لیے خدا تعالیٰ نے مخصوص بھی کر دیا اور آپ ہی کا ادب اور اس کے عوامل تخلیقی یہاں بیان ہو رہے ہیں.اس فرمانِ الہی سے یہ بات ثابت ہے کہ مرسلین باری تعالیٰ کی تمام تعلیم و تربیت اللہ تعالیٰ ہی کے تصرف خاص کے تحت ہوتی ہے اور ان کی تمام استعدادیں اور قابلیتیں اللہ کی نگرانی اور اس کی منشاء کے تحت تشکیل پذیر ہوتی ہیں اور کوئی خارجی محرک اور عمل کارفرما نہیں ہوتا.حضرت اقدس نے اس حقیقت کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے.بلکہ تقریباً وہی الفاظ اختیار کئے ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے تھے.حق بھی یہ ہے کہ محبوب کے کلام کی رمز کو ایک عاشق ہی سمجھ سکتا ہے.اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار میں ہے لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار

Page 49

ب المسيح 30 اب دیکھ لیں وَ لِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِی “ اور گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار کو مقابل پر رکھ لیں تو ایک ہی معنی ابھرتے ہیں یعنی جیسے ماں بچے کو گود میں لے کر پرورش کرتی ہے اُسی طرح انبیاء کی تمام روحانی اور علمی استعداد میں محبوب حقیقی کی نگرانی میں اور اس کی منشاء کے مطابق جنم لیتی ہیں اور آخری شعر بھی اسی مضمون کو بیان کر رہا ہے کہ آپ حضرت اپنی کوئی بھی ذاتی استعداد اور قابلیت نہیں سمجھتے ہیں اور اپنے علم وادب کو صرف اور صرف باری تعالیٰ کی عنایت خاص گردانتے ہیں.....لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگہ میں بار دراصل حضرت کا اس شعر میں اس طرف اشارہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کے آقا اور مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْامی“ کہا ہے (الاعراف: 158) حضرت اقدس اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: در متقی کا معلم خدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امتیت غالب ہوتی ہے“ ( ملفوظات جلد اول صفحه ۴ ۲۸.جدید ایڈیشن مطبوعه ر بوه ) یہاں تک تو انبیاء کی تعلیم و تربیت اور اکتساب علم و ہنر کے اعتبار سے عمومی فرمان کا ذکر ہوا ہے اب اس ایک تفصیلی بیان کو بھی سُن لیں جس میں اللہ تعالیٰ اُن ذرائع اور انتظام کا ذکر فرماتا ہے جو اُس نے اس مقصد کے حصول کے لیے اختیار فرمائے ہیں.فرماتا ہے: عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا لِيَعْلَمَانُ قَدْ اَبْلَغُوا رِسَلَتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاحْصُى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (الجن : ۲۹،۲۸،۲۷) حضرت اقدس آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.د یعنی اللہ اپنے غیب پر کسی کو غالب نہیں ہونے دیتا مگر ان لوگوں کو جو اس کے رسول اور اس کی درسگاہ کے پسندیدہ ہوں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) درسگاہ کے لفظ سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہاں پر انبیاء کی درسگاہ سے مرادان کی تعلیم و تربیت اور اندازِ تعلیم ہے.باقی ماندہ آیات اور اُن کے معانی یہ ہیں فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا اور اس

Page 50

31 ادب المسيح رسول کی یہ شان ہے کہ اس کے آگے بھی اور اسکے پیچھے بھی محافظ فرشتوں کی گار دچلتی ہے.لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسلتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا.تا کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ ان رسولوں نے اپنے ربّ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا دیا ہے اور اللہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس کو اپنے احاطے میں رکھتا ہے اور ہر چیز کو گن رکھتا ہے.مید وہ فرمان ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تلامیذ الرحمان کی درسگاہ کا تفصیلی دستور بیان کیا ہے.ان آیات میں اول تو یہ واضح کر دیا کہ یہاں پر درسگاہ سے انبیاء کی تعلیم وتربیت کا ذکر ہے دوم یہ بتایا کہ ہم اپنا عرفان خاص بندوں کو دیتے ہیں.سوم یہ فرمایا کہ ان ہونہار شاگردوں کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ ابلاغ رسالت کریں.جیسا کہ اس سورت کی آیت میں فرمایا إِلَّا بَلغَا مِنَ اللهِ وَرِسلته (الجن : 24) یعنی میرا تو صرف یہ کام ہے کہ میں اللہ کی بات اور اس کا پیغام پہنچا دوں.ابلاغ رسالت کو ایک اور مقام میں بہت وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے.مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِةٍ أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبّى وَرَبَّكُمُ...(المائدة: 118) میں نے تو صرف وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا یعنی یہ کہ اللہ کی عبادت کرو.جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے.چہارم یہ کہ اس مقصد کے حصول کے لیے فرشتوں کی ایک فوج ان کی مددگار ہوتی ہے.پنجم یہ کہ ان کی قابلیتیں اور استعدادیں خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتی ہیں.اور شم یہ کہ ان سے کوئی ایسی بات ظاہر نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق نہ ہو.ان فرمودات باری تعالٰی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مرسلین باری تعالیٰ کے کلام کی تخلیق کے محرکات اور عوامل اور ان کی ادبی استعدادوں پر اللہ تعالیٰ کا قادرانہ تصرف ہوتا ہے.وہی ان کو ابلاغ رسالت کے لیے انتخاب کرتا ہے اور اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے ہمہ وقت ان کی نگرانی کرتا ہے اور ان کی استعدادوں اور قابلیتوں کا خود کفیل ہوتا ہے.تفصیلی تصرفات الہیہ اس امر کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ ان کے کلام میں کوئی خارجی محرک کارفرما نہیں ہوتا ہے.ان کے مشاہدات، احساسات اور جذبات تمام تر خدا تعالی کی درس گاہ کی تعلیم وتربیت اور عطاء خاص ہوتی ہے اور یہ کہ وہ محبوب حقیقی کے حسن و جمال اور اس کے بیان کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتے.ادب مرسلین کی اس کیفیت کو حضرت اقدس نے بہت ہی دلفریب انداز میں بیان کیا ہے.فرماتے ہیں.من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است ز هر بادِ صرصرم میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اُسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے.

Page 51

المسيح 32 سچ تو یہی ہے کہ ہر درسگاہ کا ہونہار شاگرد اس کا چشم و چراغ ہی ہوتا ہے.مرسلین باری تعالیٰ کی شان و عظمت کا اس سے بہتر اور کیا بیان ہوسکتا ہے.محبوب حقیقی اپنے حسن و جمال کی تجلی اس چراغ سے کرتا ہے اور اس میں کسی اور کے حسن کا پر تو نہیں ہوتا.وہ اُسی جمالِ اول و آخر کا ظہور ہوتا ہے اور صرف اُسی کے جمال کو ظاہر کرتا ہے.دوسرے مصرعے میں یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ محبوب حقیقی کا تصرف خاص اس چراغ کو خارجی محرکات اور تاثیرات سے پاک رکھتا ہے (باری تعالیٰ کے ہاتھ سے اس کا تصرف خاص ہی مراد ہے ) یعنی اس چراغ کے نور کی ترسیل بھی محبوب حقیقی خود ہی کرتا ہے اور کوئی طاقت اس کی نور افشانی میں حائل نہیں ہوسکتی.باری تعالیٰ کی محبت کے ادب کی تخلیق کے عوامل ومحرکات اور ان کا صدق و تاثیر.ان کے کلام کا حسن و جمال اس سے بہتر کیا بیان ہوسکتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ یہ شعر آسمانی ادب کی تخلیق اور تاثیر کے مضمون میں ایک ادبی شاہکار اور ادبی معراج ہے.یہ وہ تصرفات الہیہ ہیں جن کے نتیجہ میں مرسلین کے کلام کی یہ کیفیت ہوتی ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: 54) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.لہذا ہر بات نبی کی جو نبی کی توجہ تام اور اس کے خیال کی پوری معروضیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ بلاشبہ وحی ہوتی ہے.اور فرماتے ہیں: دوباره از سخن و وعظ من بیا باشد میں اس کی زبان ہو جاتا ہوں اس پر اشارہ ہے ” وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى“ اس لیے رسول کریم نے جو فر مایا وہ خدا تعالیٰ کا ارشاد تھا ( دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) کمال پاکی و صدق و صفا که گم شده بود پاکیزگی اور صدق وصفا کا کمال جو معدوم ہو گیا تھا وہ دوبارہ میرے کلام اور وعظ سے قائم ہوا ہے مرنج از سخنم ایکہ سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحی کبریا باشد اے بیخبر انسان میری اس بات سے ناراض نہ ہو.کیونکہ یہ بات جو میں نے کہی ہے خدا نے مجھ پر وحی کی ہے.کسیکه گم شده از خود بنور حق پیوست هر آنچه از دهنش بشنوی بجا باشد جو شخص اپنی خودی چھوڑ کر خدا کے نور میں جاملا.اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہوگی.یہ وہ فرمودات باری تعالی ہیں جن کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مرسلین باری تعالیٰ کے کلام کی تخلیق کے محرکات وعوامل اور اُن کی ادبی استعداد میں اللہ تعالیٰ کے قادرانہ تصرف کے تحت تشکیل پاتی ہیں.وہ

Page 52

33 ادب المسيح اُن کو اپنے دائرہ لطف اور اپنی نظر سے دور نہیں ہونے دیتا اور یہی اُن کی درس گاہ ادب ہوتی ہے.جیسے فرمایا.اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَنَهَرٍ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلَيْكَ مُقْتَدِرٍ (القمر: 56:55) اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں.صدق کی نشست گاہ.با اقتدار بادشاہ کے پاس ان تصرفات باری تعالیٰ کے تحت حُسنِ ازل اور جمال محبوب حقیقی اُن کا مشاہدہ ہوتا ہے اور محبوب حقیقی کا عشق اُن کا جذ بہ آپ حضرت فرماتے ہیں.ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دُنیائے مادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اور فارسی میں فرماتے ہیں.خاکساریم و سخن از ره غربت گوئیم يَعْلَمُ الله کہ بکس نیست غبار مارا ہم تو خاکسار ہیں اور فروتنی سے بات کرتے ہیں.خدا شاہد ہے کہ ہمیں کسی سے عداوت نہیں مانہ بیہودہ پیئے ایس سروکارے برویم جلوۂ حسن کشد جانب یارے مارا ہم فضول اس مقصد کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے بلکہ حجتی حسن ہمیں محبوب کی طرف کھینچے لیے جارہی ہے.اور عربی میں فرماتے ہیں.وَلَسْتُ بِطَالِبِ الدُّنْيَا كَزَعْمِكَ وَقَدْ طَلَّقْتُهَا بِالْاعْتِزَالِ اور میں ہرگز طالب دنیا نہیں ہوں جیسا کہ تیرا خیال ہے.میں نے تو گوشہ نشینی کے ذریعہ اسے طلاق دے دی ہے.تَرَكْنَا هَذِهِ الدُّنْيَا لِوَجْهِ وَاثَرْنَا الْجَمَالَ عَلَى الْجَمَالِ ہم نے یہ دنیا ایک چہرے کی خاطر چھوڑ دی ہے اور ہم نے اس کے جمال کو جمال دُنیوی پر ترجیح دی ہے.وَإِنَّكَ تَزْدَرِي نُطْقِی وَ قَوْلِي وَلَوْ صَادَفْتَهُ مِثلَ اللَّالِي تو میرے کلام اور میری بات کو حقیر سمجھتا ہے خواہ تو نے اسے موتیوں کی مانند پایا ہو

Page 53

ب المسيح 34 یہاں تک تو مرسلین کے مشاہدات اور جذبات کا ذکر ہوا ہے.کچھ باتیں اُن کے اکتساب فن کے بارے میں ان ہی کی زبان میں بھی ہونی چاہئیں.جہاں تک اُن کی ادبی استعدادوں اور اکتساب فن کا خدا تعالیٰ کے تصرف خاص کے تحت تشکیل پانے کا عمل ہے وہ تو قرآن کریم کی روشنی میں بیان ہو چکا ہے اب یہ دیکھتے ہیں کہ مرسلین کرام اس بارے میں خود کیا فرماتے ہیں.سب سے پہلے بات تو اُس ہستی کی کرتے ہیں جو حضرت اقدس اور ہم سب کا آقا اور مطاع ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فِدَاهُ أَبِي وَأُمِّي یہ بات تو معروف عام ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شعر وسخن کا دور دورہ تھا اور ہر شخص کسی نہ کسی حد تک سخن فہمی اور شعر دانی کا ملکہ رکھتا تھا مگر اُس ماحول میں سب سے اعلیٰ ادبی فصاحت و بلاغت ہمارے آقا اور مطاع کی سمجھی جاتی تھی اور آپ کو افصح العرب“ کہا جاتا تھا آثار میں ہے کہ آپ کی ادبی شان سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے استفسار کیا مَنْ أَدَّبَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ یعنی اے اللہ کے رسول آپ کی ادبی تربیت کس نے کی ہے.اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَدْبَنِي رَبِّي عَزَّ وَ جَلَّ “ یعنی یہ کہ مجھے میرے عز وجل خدا نے ادب کی تعلیم دی ہے.آپ کا یہ فرمان بھی تو ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم عطا کئے ہیں.اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بات کرتے ہیں اس مضمون میں آپ فرماتے ہیں چوں حاجتے بود بادیپ دگر مرا من تربیت پذیر از رب میمنم! مجھے کسی اور اُستاد کی ضرورت کیوں ہو.میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کیے ہوئے ہوں.اب دیکھ لیں کہ حضرت اقدس کا اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے کیسا اتحاد اور یگانگت ہے.ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے حضرت ابو بکر نے آپ سے بھی یہی سوال کیا تھا اور جس کے جواب میں آپ نے وہی بات کی جو آپ کے آقا نے کی تھی.یہاں پر ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے یہ کہ حضرت اقدس نے اس شعر میں خدا تعالیٰ کے اسماء گرامی میں ورو سے مھیمن کی صفت کو بیان کیا ہے اور مھیمن کے معنی نگران کے ہیں اور یہی بات لتصنع علی عینی 66

Page 54

35 ادب المسيح میں بیان ہوئی ہے.تا کہ میری نگرانی میں تیری پرورش ہو" بات سے بات نکل رہی ہے عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس غزل میں حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنے جذبات کی نوعیت کو بھی بیان کیا ہے کہ وہ ذاتی رجحانات اور اکتساب فن سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک عطائے ربانی ہے.اور وصال باری تعالیٰ کی تجلیات ہیں.جیسے فرماتے ہیں.بیچ آگهی نبود از عشق و وفا مرا خود ریختی متاع محبت بدانم مجھے عشق و وفا کی کچھ بھی خبر نہ تھی.تو نے ہی خود محبت کی یہ دولت میرے دامن میں ڈال دی.ایس خاک تیره را تو خود اکسیر کرده بود آن جمال تو که نمود است احسنم اس سیاہ مٹی کو تو نے خودا کسیر بنادیا وہ صرف تیرا ہی جمال ہے جو مجھے اچھا لگا.صد این صیقل دلم نه بزهد و تعبد است خود کرده بلطف و عنایات روشنم یہ میرے دل کی صفائی زہداور کثرت عبادت کی وجہ سے نہیں بلکہ تونے مجھے آپ اپنی مہربانیوں سے روشن کر دیا ہے حضرت اقدس کے اکتساب علم و ہنر اور صیقل قلب و نظر کے بارے میں ایک تفصیلی بیان اور بھی سُن لیں.آخری دو شعر تو بہت دلفریب اور دلر با ہیں.فرماتے ہیں.گر نه او خواندے مرا از فضل وجود فضولی کردمے بے سود بود اگر وہ خود اپنے فضل و کرم سے مجھے نہ بلا تا.تو خواہ میں کتنی ہی کوششیں کرتا سب بے فائدہ تھیں از نگا ہے ایس گدا را شاہ کرد قصہ ہائے راهِ ما کوتاه کرد! اُس نے ایک نظر سے اس فقیر کو بادشاہ بنا دیا اور ہمارے لمبے راستہ کو مختصر کر دیا راه خود برمن کشور آں داستاں دانمش از انسان که گل را باغباں اس محبوب نے خود اپنا راستہ میرے لیے کھولا.میں یہ بات اس طرح جانتا ہوں جیسے باغبان پھول کو پر از نور دلستاں شد سینه ام شد ز دستے صیقل آئینه ام محبوب کے نور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا صیقل اسی کے ہاتھ نے کیا پیکرم شد پیکر یار ازل کار من شد کار دلدار ازل میر اوجود اُس یار از لی کا وجود بن گیا اور میرا کام اُس دلدار قدیم کا کام ہو گیا بسکه جانم شد نہاں در یار من بوئے یار آمد ازیں گلزار من چونکہ میری جان میرے یار کے اندر مخفی ہوگئی اس لیے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی

Page 55

المسيح 36 نور حق داریم زیر چادرے از گریبانم برآمد دلبری ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے.وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا ہے.ہر که در عهدم زمن ماند جدا می کند بر نفس خود جور و جفا جو میرے زمانہ میں مجھ سے جدا رہتا ہے تو وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.احمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جامِ من است احمد آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی ( دُنیا کے لیے ) آخری جام ہے.جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ہے تخلیق ادب میں یہی اختلاف ان دونوں ادبوں کی نوعیت کو یکسر بدل دیتا ہے.زمینی ادب کی ترجیحات کو زمینی پسند و نا پسند اور یافت اور نا یافت میں محدود کر دیتا ہے اور آسمانی ادب کی ترجیحات کو تمام تر محبوب حقیقی کے حسن و جمال کے بیان اور اس کے عشق کے اظہار میں محصور کر دیتا ہے.اب دیکھ لیں آپ حضرت نے زمینی ترجیحات سے اور ان کے بیان سے کتنی دوری اختیار کر لی ہے.اور کیا عاشقانہ انداز ہے.فرماتے ہیں: لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں میں فدائے یار ہوں گوشتیغ کھینچے صد ہزار اے مرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو نیک دن ہو گا وہی جب تجھ پہ ہوویں ہم نثار جس طرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار اور عربی میں فرماتے ہیں.اس کلام کی فدائیت کا نظارا کریں.أَنْتَ الْمُرَادُ وَ أَنْتَ مَطْلَبُ مُهْجَتِي وَ عَلَيْكَ كُلُّ تَوَكَّلِي وَ رَجَائِيٌّ تو ہی مراد ہے اور تو ہی مری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور امید ہے.أَعْطَيْتَنِي كَأْسَ الْمَحَبَّةِ رَيْقَهَا فَشَرِبْتُ رَوْحَاءٌ عَلَى رَوْحَاءِ تو نے مجھے محبت کی بہترین مے کا ساغر عطا کیا ہے تو میں نے جام پر جام پیا.إِنِّي أَمُوتُ وَلَا يَمُوتُ مَحَبَّتِي يُدْ رَىٰ بِذِكْرِكَ فِي التُّرَابِ نِدَائِي میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.( قبر کی مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائے گی.اور فارسی میں " قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “ (الانعام: 163) کے فرمان کی بہت ہی حسین تفسیر اور اپنے قلب کے حوالے سے واقعاتی تعبیر ہے.و آنچه می خواهم از تو نیز توئی عالم مرا عزیز توئی دونوں عالم میں تو ہی میرا پیارا ہے اور جو چیز میں تجھ سے چاہتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے در دو

Page 56

37 ادب المسيح حقیقت تو یہ ہے کہ ادبی اصطلاح میں جن ادبی اقدار کو ہم ” محرک شعر کہتے ہیں وہ ادب مرسلین میں تصرفات الہیہ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں.اور یہی وہ ہمہ گیر تصرفات باری تعالیٰ ہیں جو مرسلین کے کلام کو محبوب حقیقی کے پر تو جمال کے حصار میں محصور رکھتا ہے اور اُسی کے حسن کی تجلیات کے بیان میں اور اُسی کے وصال کی تڑپ اور شوق میں اُن کی نغمہ سرائی ہوتی ہے.اور پھر ایسے ہوتا ہے کہ محبوب حقیقی بھی اُن کی زبان پر ہر اعتبار سے پاکیزہ کلام جاری کرتا ہے اور اُن مضامین کی تعلیم دیتا ہے جن سے باری تعالیٰ کا حسن و جمال ظاہر ہو اور اُس کی محبت اور وصال کی تمنا دل میں زندہ ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (الحج : 25) اور وہ ہدایت دیے جاتے ہیں پاکیزہ کلام کی طرف اور وہ ہدایت دیے جاتے ہیں صاحب حمد و ثنا خدا کے راستے کی طرف.زمینی محرک ادب تو اپنی کیفیت بدلتا رہتا ہے کبھی کوئی ایک جذبے کے تحت بیان کر رہا ہوتا ہے اور کبھی عین اُس جذبے کے خلاف بیان کرتا ہے.کبھی اُس میں جوش اور یقین ہوتا ہے اور کبھی وہ بے یقینی اور شکوک کا شکار ہو جاتا ہے چنانچہ وہ احساس اور مشاہدہ جو محرک ادب بنتا ہے وہ یکساں نتائج پیدا نہیں کرتا.یہی وجہ ہے کہ دنیائے ادب میں ایک سے موضوعات پر بے شمار اظہار خیال ہوتا ہے اور اُس میں بے شمار اختلاف معنوی بھی ہوتا ہے اور اختلاف اسلوب بیان بھی.یہ جو کہا گیا ہے کہ زمینی ادب بے یقینی اور شکوک کا شکار ہوتا ہے ادب میں ایک ایسا عام مشاہدہ ہے کہ ایک طفل مکتب بھی اس بیان کی تصدیق کر سکتا ہے.تاہم اساتذہ شعر کے چند نمونے پیش کرنے سے یہ حقیقت مزید واضح ہو سکتی ہے.حافظ شیرازی کہتے ہیں.کس نه دانست که منزل گئے مقصود کجاست این قدر ہست کہ بانگے جرس می آید کوئی نہیں جانتا کہ منزل مقصود کیا ہے ،مگر اتنا علم ہے کہ قافلے کی روانگی کا جرس بج رہا ہے رومی کہتے ہیں.گفتند یافت می نشود جسته ایم ما گفت آں کہ یافت می نشود آنم آرزوست کہا گیا کہ بہت تلاش کے باوجود مقصود نہیں ملا.اس نے کہا کہ جو نہیں ملا اُسی کی تو آرزو ہے اسی مضمون میں غالب کہتے ہیں.ہاں اہل طلب کون سنے طعنہ نایافت دیکھا کہ وہ ملتا نہیں.اپنے ہی کو کھو آئے

Page 57

ب المسيح اور 38 تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی.تو زیاں تھا نہ سود تھا محبوب حقیقی کے دیدار کی حسرت.عرفان کامل کی تلاش میں ناکامی.اور شک و گمان کی کیفیت میں طعنہ ہائے نایافت زمینی ادب کے غالب عناصر تخلیق ہیں.اس بنا پر وہ ادب یقین اور قطعیت کا حامل نہیں ہوتا اور نتیجہ ایک بے اثر کلام ہو جاتا ہے.ادب پاروں کا مؤثر ہونا ادبی اقدار میں ایک اہم ترین قدر ہے.ایک ایسی قدر جو دیگر تمام اقدار کا مقصود و مطلوب ہوتی ہے.اگر یہ مفقود ہو تو دیگر تمام اقدار ادب کا قیام ایک کار لا حاصل ہوتا ہے.ادب عالیہ میں جس قدر کو اسلوب اور ابلاغ کہتے ہیں وہ اپنے آخری تجزیہ میں مؤثر کلام ہی کا نام ہے.اس مضمون میں غالب کا ایک سادہ اور سلیس مگر عظیم الشان شعر ہے.دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے یعنی یہ کہ کلام کی لذت و شان تو اس وقت ثابت ہوتی ہے جبکہ وہ سامع کے جذبات کو زندہ اور مشتعل کرے.ادبی شاہ پاروں کا ابلاغ کامل اسی طور سے ہوتا ہے کہ کہنے والے اور سننے والے.شاعر اور سامع کے رجمانات قلبی اور ذہنی تر جیہات میں باہم یک رنگی اور اتحاد پیدا ہو جائے.حضرت اقدس نے بھی اس مضمون کو بہت درد سے بیان کیا ہے.اگر از روضه جان و دل من پرده بر دارند به بینی اندراں آں دلبر پاکیزه طلعت را ترجمہ.اگر میرے جان و دل کے چمن سے پردہ اٹھایا جائے تو تو اس میں اُس پاکیز ہ طلعت معشوق کا چہرہ دیکھ لے گا فروغ نور عشق أو ز بام و قصر ما روشن مگر ببیند کسے آن را که میدارد بصیرت را اُس کے نور عشق کی تجلی سے ہمارے بام و قصر روشن ہیں.لیکن اُسے وہی دیکھتا ہے جو بصیرت رکھتا ہو اس مضمون میں قرآن کریم کے لا تعداد فرمودات ہیں یعنی یہ کہ ہدایت اُسی کو ملتی ہے جس دل میں کوئی کرن محبت الہی اور خشیت الہی کی روشن ہو.قرآن کریم میں اول قدم پر ہی فرما دیا گیا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.یعنی صرف صاحب تقوای انسان کو یہ قرآنی ادب پارے تلاش محبوب حقیقی میں مدد دے سکتے ہیں.دوسرے مقام پر قرآن کریم کی تاثیر کے بیان میں فرمایا: تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللهِ (الزمر:24)

Page 58

39 ادب المسيح حضرت اقدس اس فرمانِ خداوندی کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کے پڑھنے سے ان لوگوں کی کھالوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں (یعنی اس کا جلال اور اس کی ہیبت عاشقوں کے دلوں پر غالب ہو جاتی ہے اس لیے کہ ان کی کھالوں پر کمال خوف اور دہشت سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں ) وہ قرآن کی قہری تنبیہات اور جلالی تاثیرات کی تحریک سے رات دن اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بہ دل و جان کوشش کرتے رہتے ہیں.یعنی یہ کہ قرآن کریم کے ادب پاروں کا دل و دماغ پر اثر اسی انسان کے ہوسکتا ہے جس کا دل خشیت الہی سے معمور ہو.اور اس کے دل میں محبت الہی کا چراغ روشن ہو.حضرت اقدس نے اس حقیقت کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے: فرماتے ہیں: راز قرآن را کجا فهمید کے بہر نورے، نوری باید بسے! کوئی قرآنی اسرار کو کیونکر سمجھ سکتا ہے نور کے سمجھنے کے لیے بہت سا نور باطن ہونا چاہیے نور را داند کسے کو نور شد و از حجاب سرکشی با دور شد نور کو وہی شخص سمجھتا ہے جو خود نور ہو گیا ہو.اور سرکشی کے حجابوں سے دور ہو گیا ہو ایں نہ من قرآن ہمیں فرموده است اندر و شرط تطهر بوده است یہ میری بات نہیں بلکہ قرآن نے بھی یہی فرمایا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے پاک ہونے کی شرط ہے یہ بات تو واضح ہے کہ جس طور سے قرآن کریم خدا تعالیٰ کی محبت اور عرفان کی راہ دکھاتا ہے.اُسی طور پر اس کے مرسلین بھی دکھاتے ہیں.ان کے مشاہدات اور جذبات ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت اور اس کی محبت کا اظہار ہوتا ہے.اور پھر نتیجہ ان کے کلام کی تمام ترجیحات محبوب حقیقی کے حسن و جمال کا بیان واظہار ہوتی ہیں.خاکسار یہ سمجھتا ہے کہ یہی حقیقت اور چیز ہے جس کو ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کے کلام کی منفر دنوعیت اور ممتاز کیفیت کو بہت محبت سے آپ کو الہام کیا ہے.66 در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخلے نیست - گلامٌ أُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبِّ كَرِيمٍ “ ( ترجمہ ) تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے.تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا تذکرہ ، ایڈیشن چہارم، صفحه ۵۹۵.مطبوعہ 2004ء) گیا ہے.

Page 59

المسيح 40 حضرت اقدس کے کلام کی تخلیق اور ترجیحات شعر کا مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے تصرفات کے تحت پیدا ہونا اور اس کے حکم کے مطابق ابلاغ رسالت کرنا ہی وہ عنصر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ” چیزیست کا نام دیا ہے اور یہی وہ محترک ادب ہے جو تمام مرسلین باری تعالیٰ کو دیا جاتا ہے اور اس عنایت خاص میں دیگر شعراء کو دخل نہیں ہوتا اور اسی بنا پر مرسلین باری تعالیٰ کا مکتب شعر زمینی شاعروں کے مکتب شعر سے ممتاز اور جداگانہ نوعیت کا ہو جاتا ہے.آخر پر ہماری گذارشات کی تائید اور تصدیق میں حضرت اقدس کے اس فرمان کو بھی دیکھ لیں جو اس مضمون کی روح کو اس قدر صدق اور یقین سے بیان کر رہا ہے جو کہ ایک مرسل باری تعالیٰ کا ہی منصب ہو سکتا ہے.فرماتے ہیں:.اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں.کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لیے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے.(ازالہ اوہام - رخ جلد 3 صفحہ 403) اب ہم اس مقام پر ہیں کہ یہ بیان کریں کہ مرسلین باری تعالیٰ کی اس منفرد تعلیم و تدریس کے مضامین اور موضوعات کیا ہیں جو کہ اس درس گاہ کا نصاب بنتے ہیں.اور جن کے اظہار اور افشا کا حکم بارگاہ الہی سے دیا جاتا ہے.

Page 60

41 ادب المسيح حضرت اقدس کے موضوعات شعر اس سے قبل میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت اقدس کے محرکات تخلیق ادب اور آپ کی ادبی ترجیحات کی ممتاز نوعیت کی بنا پر آپ کا ادب ایک منفرد اور جدا گانہ مکتب ادب ہے.اس امر کے شواہد پیش کرنے کے بعد ہم اس مقام تک پہنچے ہیں کہ آپ کے اختیار فرمودہ موضوعات ادب کو بیان کریں.دراصل یہ ترتیب تو ادبی دستور اور روایت کے تحت اختیار کی گئی ہے وگر نہ حقیقت تو یہی ہے کہ ادیب کے تخلیقی محرکات کا علم در اصل اس کے ادب پاروں سے ہی ہوتا ہے.یعنی یہ علم اور شعور کہ اس کے ذہنی رجحانات کیا ہیں.اور اس کو کن واردات قلبی نے ایک خیال اور جذبے کو الفاظ کا قالب دینے پر مجبور کیا ہے.دوسرے الفاظ میں ادیب کے موضوعات شعر ہی اس کے قلب و نظر کا راز فاش کر رہے ہوتے ہیں.یہی حقیقت جس کو بیان کرنا مجھے مشکل معلوم ہورہا ہے غالب نے کس قدر سادہ اور سہل انداز میں بیان کر دی ہے.کھلتا کسی پر کیوں میرے دل کا معاملہ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے اگر اس شعر کے وزن سے صرف نظر ہو سکے تو انتخاب کی جگہ موضوعات کا لفظ رکھ دیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادیب کے محرکات ادب اور ترجیحات قلبی کا علم ان موضوعات سے ہوتا ہے جن کو وہ اختیار کرتا ہے.ایک اعتبار سے انتخاب بھی ایک نوعیت کی تخلیق ہی ہوتی ہے کیونکہ دونوں عمل اپنی پسند و نا پسند کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.اتنا کچھ کہنے کے باوجود ہماری ترتیب میں زیادہ رد و بدل کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ہم نے حضرت اقدس کے محرکات ادب کے بیان میں آپ کے کلام کا وہ موضوع قدم قدم پر پیش کر دیا ہے جو آپ کے شعری موضوعات کی جان اور روح رواں ہے اور ایک ایسا نقطہ مرکزی اور محور ہے جس کے گرد آپ حضرت کے تمام شعری موضوعات طواف کرتے ہیں.(۱) یعنی واحد وحید خدا کی محبت کا قیام اور ابلاغ رسالت.(۲) آپ کے کلام کی یہ نوعیت کہ وہ خالصہ اور کلیۂ محبت الہی اور اس کے حصول کے آداب کے اظہار میں بیان ہوا ہے اور محبوب حقیقی کی طرف سے تنزیل کے طور پر ایک پیغام خداوندی ہے.دنیائے ادب میں ایک ایسی منفردشان اور خوبی ہے کہ شاید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں آپ کے کلام کی ایسی تعریف و مدحت بیان کی ہے.

Page 61

المسيح 42 الہام حضرت اقدس در کلام تو چیز لیست که شعراء را در آن دخله نیست تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ( خوبی ) ہے جو شاعروں کو نصیب نہیں ہوئی ) لفظ ” کلام کو کسی شاعر کی ایک آدھ غزل یا نظم کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا اس لفظ کو اسی موقع پر اختیار کیا جاتا ہے جبکہ کسی شاعر کے تمام مجموعۂ کلام اور افاضات شعری کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور اس میں کسی ایک زبان کی قید بھی نہیں ہوتی.اس لیے خاکسار کی دانست میں چیز“ کہہ کر اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے جو آپ کے تمام کلام کی روح رواں ہے اور جس نے آپ کے کلام کا احاطہ کر رکھا ہے یعنی محبوب حقیقی کی محبت میں تسلیم ورضا اور ابلاغ رسالت باری تعالیٰ کرنا.محاسن کلام کی مکمل پاسداری کے ساتھ آپ کے کلام کی یہ خصوصیت دنیائے ادب میں ایک منفرد اور ممتاز خوبی ہے.مغربی ادیبوں کو تو یہ سعادت نصیب ہی نہیں ہوئی.مگر مشرقی اور اسلامی ادیبوں میں بھی کوئی شاعر ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی ادبی اور شعری تخلیقات کا محور کاملۂ محبت الہی کے مضامین کو بنایا ہو.حمد و ثناء باری تعالیٰ اور نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے موضوعات ہیں جو مشرقی ادب میں مقبول عام ہیں.مناجات کا موضوع بھی ایک حد تک مقبول ہے اور جستہ جستہ اشعار محبت الہی اور وصال باری تعالیٰ کی تمنا میں مل جائیں گے.خواہ وہ مجاز اور استعارہ کی راہ سے ثابت ہوتے ہوں.ابلاغ رسالت کا موضوع تو ان کے بس کی بات نہیں تھی.کیونکہ یہ کام تو ایک مرسل باری تعالی ہی کو کرنا ہوتا ہے مگر اگر کسی قدر محبت الہی کے بیان کا سرمایۂ ادب دستیاب ہے تو وہ فارسی زبان میں ہے.دراصل فارسی زبان کے ادیبوں نے ہی یہ کوشش کی ہے کہ وہ زمینی قید و بند سے آزاد ہو کر فنا پذیر اقدار حسن و جمال اور عشق و محبت سے بلند ترحسنِ ازل اور محبوب لم یزل کی طرف پرواز کرے مگر فارسی ادب میں کوئی ایسا شاعر نہیں ملے گا جو کامل طور پر حریم قدس کا باسی ہو اور اسی بارگاہ سے اس کو قابلیت اور استعداد عطا ہوئی ہو اور وہ اُسی نور کا پر تو ہو جائے.حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا انی فی اللہ اور عاشق رسول اسلامی ادب کے آسمان پر کبھی طلوع ہی نہیں ہوا تھا.کسی محبوب حقیقی اور محبوب خدا کا ایسا وصال نصیب نہیں ہوا تھا کہ اس کی انتہاء میں یہ کیفیت ہو کہ محبوب اور محبت اور عاشق اور معشوق میں امتیاز مشکل ہو جائے اور یہ صورت ہو جائے.

Page 62

43 ادب المسيح من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ترجمہ:.میں تو ہو گیا ہوں اور تو میں ہو گیا ہے میں جسم ہو گیا ہوں تو جان ہو گیا ہے ( یہ اس لیے ہوا ہے ) تاکہ کوئی (بعد میں ) یہ نہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے.دراصل تمام مرسلین باری تعالیٰ کا یہی مرکزی موضوع ہوتا ہے اور اسی محور کے گردان کا کلام طواف کرتا ہے.یہی وہ بنیادی فرق ہے جو انبیاء اور مرسلین کے کلام اور دیگر شعراء کے کلام میں ظاہر ہوتا ہے اور یہی وہ چیز.جوالہام حضرت اقدس میں بیان ہوئی ہے.دوبارہ سن لیں.در کلام تو چیزیست که شعراء را در آن دخله نیست ترجمہ:.تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جو دیگر شاعروں کو عطا نہیں ہوئی یہ جو کہا گیا کہ محبت الہی اور احکام الہی کی ترسیل کے مضامین کو مستقلا اختیار کرنے میں حضرت اقدس کی ایک منفرد اور ممتاز ہستی ہے اس سے صرف یہ مراد ہے کہ دنیوی شعراء کے مقابل پر ایسا ہے.وگر نہ حق تو یہ ہے کہ اس منفرد نوعیت کا کلام تو تمام انبیاء اور مرسلین کا مجموعی ورثہ ہے اور ایسا وراثتی انعام ہے جو حضرت آدم سے لے کر آدم ثانی یعنی حضرت اقدس تک درجہ بدرجہ منتقل ہوتا رہا ہے.حضرت ایوب کی گریہ وزاری اور حضرت داؤڑ کے مزامیر اور حضرت سلیمان کی امثال اور غزل الغزلات اور اُس سے بڑھ کر ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم.یہ سب ادبی شاہکار ہیں.اپنی ہیئت میں آج کے شعری اسلوب سے قریب تر بلکہ شعر ہی ہیں.شعر کی تعریف میں مخصوص اوزان اور بحور کی قید اور ارکان افاعیل کی ایجاد بعد کی ہے.اساتذہ شعر وادب نے بھی اس شرط کو ہر مقام پر قابل اعتماد نہیں سمجھا.قرآن کریم تو اس شرط کو یکسر قبول نہیں کرتا.قرآن کا ایک اپنا زیر و بم اور آہنگ ہے جو بہت دل پذیر ہے.قرآن کریم جہاں پر عقلی استدلال اور علمی تعلیم و تدریس بیان فرماتا ہے وہاں نثر کا انداز ہے اور یہی نثر کا منصب ہے.اور جس مقام پر باری تعالیٰ اپنی ذات وصفات کی عظمت و جلال اور اپنا حسن و جمال بیان فرماتا ہے.وہاں پر اس کا طرز بیان شعری اسلوب پر ہے کیونکہ قلب و روح کی تسخیر اور عشق کے جذبے اسی سے زندہ ہوتے ہیں یہی وہ اسلوب ادر ہے جس وجہ سے وہ بے مثل ہونے کا مدعی ہے.

Page 63

المسيح 44 زمرہ انبیاء کے کلام کے موضوعات کی یہ بنیادی خصوصیت درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئی ہمارے آقا اور مطاع حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے کامل نو راور حسن و جمال کیساتھ جلوہ نما ہوتی ہے اس کامل تجلّی، نور کے بیان میں حضرت اقدس فرماتے ہیں.ہر رسولے آفتاب صدق بود ہر رسولی بود مہر انورے ہر رسول سچائی کا سورج تھا.ہر رسول روشن آفتاب تھا ہر رسولے بود ظلے دیں پناہ ہر رسولے بود باغ مثمرے ہر رسول دین کو پناہ دینے والا سایہ تھا اور ہر رسول ایک پھلدار باغ تھا آں ہمہ از یک صدف صد گوہراند متحد در ذات و اصل و گوہرے وہ سب ایک سپی کے سو موتی ہیں.جو ذات اور اصل اور چمک میں یکساں ہیں اول آدم آخر شاں احمد ست اے خنک آں کس کہ بیند آخرے اُن میں پہلا آدم اور آخری احمد ہے.مبارک وہ جو آخری کو دیکھ پائے انبیاء روشن گهر هستند لیک ہست احمد زاں ہمہ روشن ترے تمام نبی روشن فطرت رکھنے والے ہیں.مگر احمد اُن سب سے زیادہ روشن ہے.اب دیکھ لیں سب انبیاء آفتاب صدق یعنی محبوب حقیقی کے مظہر ہوتے ہیں اور دین اور روحانیت ان کے موضوعات ہوتے ہیں اور ان عنوانات میں وہ سب مشترک اور ہم زبان ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ حضرت آدم سے لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مثیل اور مہدی آخر زمان تک قائم و دائم رہتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ محبوب حقیقی کی ذات وصفات اور اس کے عشق کے بیان میں آنحضرت کے فرمودات دیگر انبیاء سے روشن تر اور خوب تر ہیں.آپ حضرت نے اردو میں ہی اس مضمون کو بہت پیارے انداز میں بیان کیا ہے.فرماتے ہیں.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نو رسا را نام اُس کا ہے مُحَمَّدٌ دل بر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبراک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے

Page 64

45 ادب المسيح پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہراک نظر ہے بدر الدجی یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب وا میں ہے اس کی ثناء یہی ہے محبت الہی اور عشق رسول اکرم کے اساسی موضوعات پر ہمارے پیارے امام آخر زمان کا یہ کلام بھی سن لیں اور مشاہدہ کریں کہ ان موضوعات سے ان کا کیسا اتحاد جسم و جان ہے.محبت الہی کے بیان میں فرماتے ہیں: شد ز دستے صیقل آئینه ام پر ز نور داستان شد سینه ام محبوب کے نور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا صیقل اسی کے ہاتھ نے کیا پیکرم محمد پیکر یارِ ازل کار من شد کار دلدار ازل میرا وجود اُس یار ازلی کا وجود بن گیا اور میرا کام اُس دلدار قدیم کا کام ہو گیا بسکه جانم شد نہاں در یار من ہوئے یار آمد ازیں گلزار من چونکہ میری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لیے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی نور حق داریم زیر چادرے از گریبانم برآمد دلبری ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے.وہ دلبر مرے گریبان میں سے نکلا أحمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جامِ من است احمد آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی (دنیا کے لیے) آخری جام ہے اور عشق رسول اکرم کی کیفیت کو بھی مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: ہم چنیں عشقم بروئے مصطفے دل پرد چوں مُرغ سوئے مُصطفے ایسا ہی عشق مجھے مصطفے کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفے کی طرف اڑ کر جاتا ہے تا مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر جب سے مجھے اُس کے حسن کی خبر دی گئی ہے.میرا دل اُس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے محو روئے او شد است ایس روئے من ہوئے او آید ز بام و کوئ من یہ میرا چہرہ اُس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اُسی کی خوشبو آ رہی ہے

Page 65

ب المسيح 46 بکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم.من ہمانم.من ہماں - - از بسکہ میں اُس کے عشق میں غائب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں اس مقام تک تو یہ بات ہوئی ہے کہ حضرت اقدس کے کلام کی تخلیق کاملۃ وکلیۂ الہیات کے مضامین پر مشتمل ہوتی ہے اور ان مضامین کا مرکزی نقطہ اور محور محبت الہی اور عشق رسول اکرم ہے.یعنی آنحضرت کے نائب کے طور پر ابلاغ کرنا.مگر جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس کے موضوعات شعری تمام تر قرآن کریم کے موضوعات ہیں.اس لیے ہم مختصراً دو بنیادی فرمودات قرآن پیش کرتے ہیں.اول تو وہ فرمانِ خداوندی ہے جو ہمارے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ: قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (انعام : 163،164) حضرت اقدس ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اُن کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میری جد و جہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے ہے.اور اس راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا ربّ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے“ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قد ر خدا میں گم اور محو گئے تھے کہ آپ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض اللہ کے لیے ہو گئی تھی.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ایک اور مقام پر آیت قرآنی کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله...إلى الآخر (محمد: 20) کلمہ جو ہم ہر روز پڑھتے ہیں.اس کے کیا معنی ہیں؟ کلمہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کرتا ہے کہ میرا معبود اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں اللہ “ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کے لیے آتا ہے.یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے“ (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 66

47 ادب المسيح مشاہدہ کر لیں کہ قرآن کریم کا وہ موضوع جس پر اس کی تعلیم کی اساس ہے وہ محبت الہی ہی ہے.اب ایک ارشاد خداوندی ابلاغ رسالت کے موضوع پر بھی سن لیں.اللہ تعالیٰ سورۃ ھود میں فرماتا ہے: كتب أحْكِمَتْ الله ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا الله إِنَّنِي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (هود: 3,2) وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ...الى الآخر (هود: 4) حضرت اقدس ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے الا تعبدوا الا الله...خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.چونکہ یہ تعبدِ تام کا عظیم الشان کام انسان بدوں کسی اسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ اور کسی قوت قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کر سکتا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اُسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر ہو کر آیا ہوں“ (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) (ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَيْهِ ) کے ترجمہ میں فرماتے ہیں.یعنی خدا کی طرف رجوع کرو“ (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہ سب ارشاد قرآنی ابلاغ رسالت کے مضمون میں ہے کہ اس موضوع کے مطابق ابلاغ رسالت ہو.اس مقام تک تو موضوعات کلام حضرت اقدس کے تین بنیادی موضوعات کا ذکر ہوا ہے تین ایسے موضوعات جو قرآن کریم کے اتباع میں اور خدا کے حکم کی بجا آوری میں آپ نے اختیار فرمائے ہیں اور دراصل انہی موضوعات کے تحت دیگر تمام موضوعات حضرت اقدس آتے ہیں اوّل خدائے واحد کی محبت.دوم.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور محبت.سوئم.آنحضرت کے مثیل اور نائب ہونے کے اعتبار سے بشیر ونذیر بن کر ابلاغ رسالت.چہارم درجہ پر مناجات اور دعا جیسا کہ وَاَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَيْهِ کا فرمان ہے.ان تمام.مضامین کو آپ نے ان دو اشعار میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے.جیسے فرماتے ہیں.

Page 67

ب المسيح 48 بعد از خدا بعشق محمد مخترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم خدا کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں جانم فدا شود بره دین مصطفے این است کام دل اگر آید میترم! میری جان مصطفے کے دین کی راہ میں فدا ہو.یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش میسر آجائے اس مقام تک جو بیان ہو چکا ہے وہ اس طرح سے ہے کہ حضرت اقدس کے موضوعات کلام خالصہ اور کلیۂ خدا تعالیٰ کے حکم اور منشاء کے مطابق ہیں اور یہ کہ صرف حضرت اقدس ہی نہیں بلکہ تمام مرسلین باری تعالیٰ کے موضوعات کلام اسی محور کے گرد گھومتے ہیں اور کیونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء کامل اور آخری اظہار قرآن کریم ہے اس لیے قرآن کریم کے فرمودات کو بھی پیش کر دیا گیا ہے.جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ آپ حضرت کے بنیادی موضوعات شعری چار ہیں.(۱) محبت الہی.(۲) عشق رسول (۳) ابلاغ رسالت (۴) مناجات یہ آپ کے کلام کے سرخیل ہیں اول تو یہ کہ آپ نے تینوں زبانوں میں ان موضوعات پر کثرت سے کلام کیا ہے.اور دوسرے یہ کہ اگر یہ موضوعات نہ بھی ہوں تو کسی نہ کسی طور سے آپ کے کلام میں یہ عنوانات شعر نقاب کشا ہو جاتے ہیں.آپ کے کلام کی یہ ایک دلفریب ادا ہے.محبت الہی.عشق رسول.ابلاغ رسالت اور مناجات کی آپ سے کچھ ایسی وابستگی ہے کہ موضوع کوئی بھی ہو یہ عنوانات شعر چہرہ نما ہو جاتے ہیں.کسی نے بہت خوب کہا ہے:.ماطفل كم سواد سبق قصہ ہائے دوست صد بار خوانده و دگر از سر گرفته ایم ترجمہ:.ہم ایسے کم ہنر شاگرد ہیں کہ دوست کی کہانی سو بار پڑھنے کے باوجود اس کو پھر سے شروع کر دیتے ہیں.( کم سواؤ سے مراد عاشق زار ہے کہ محبوب کا ذکر بار بار کرنا چاہتا ہے) مگران اشعار سے بہت بہتر اور واضح حضرت اقدس کا شعر ہے فرماتے ہیں.عاشق زار ہمہ گفتار در سخن خود کشد بجانب یار ترجمہ:.عاشق زار اپنی ہر گفتگو کو محبوب کے ذکر کی طرف پھیر لیتا ہے.بات حضرت اقدس کے بنیادی موضوعات شعری کی ہورہی تھی کہ ان موضوعات پر حضرت کے سرمایہ شعری کی اساس ہے.مگر اس سے یہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ آپ حضرت کے دیگر موضوعات شعر کم اہمیت

Page 68

49 ادب المسيح رکھتے ہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے دیگر تمام موضوعات ان ہی بنیادی موضوعات کے ذیل میں آتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ الہیات ایک مربوط موضوع علم و ادب ہے.باری تعالیٰ کی ذات وصفات اس کی تجلیات کے تمام مظاہر اس کی تخلیق اس کے دائرہ ادب میں آتے ہیں.ان سب کا باہم ایک رابطہ ہے جیسے ایک زنجیر کی کڑیاں ہوں اور زنجیر عروہ وثقی سے منسلک ہو.اس لیے حضرت اقدس کے تمام عنوانات شعر ایک ہستی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ان کا محبوب حقیقی ہے یعنی باری تعالیٰ عزّ وجل.آپ حضرت نے اس مضمون کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے.چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا اور فارسی میں اس حقیقت کو بے انتہا درد کے ساتھ بیان کرتے ہیں: ہر سوي و هر طرف رخ آں یار بنگر آں دیگرے کجاست که آید بخاطرم ترجمہ: میں ہر طرف اور ہر جانب اُس یار کا چہرہ دیکھتا ہوں.پھر اور کون ہے جو میرے خیال میں آئے.اور افسوس سے کہتے ہیں: اے حسرت ایں گروہ عزیزاں مرا ندید وقتے به ببیندم که ازین خاک بگذرم ترجمہ: افسوس کہ عزیزوں نے مجھے نہ پہچانا.یہ مجھے اس وقت جائیں گے جب میں اس دُنیا سے گزر جاؤں گا آپ حضرت کے بنیادی موضوعات کے ذیل میں جن عنوانات کو پیش کیا جا رہا ہے.اسلامی ادب میں ان کی ایک نادر اور منفر د مثال ہے.اول اس اعتبار سے کہ کسی شاعر اور ادیب نے ان موضوعات کو اپنے کلام کے لیے اختیار نہیں کیا.عربی.فارسی اور اردو کے سرمایۂ ادب کی چھان بین کر کے دیکھ لیں کہ ان موضوعات پر کسی کے دل میں وہ تڑپ اور محبت پیدا نہیں ہوئی جو ایک جذبے کو شعر کی صورت دینے کا باعث ہوتی ہے.ایسا ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ کسی ادیب کو دین اسلام کے احیاء کی خدمت کا منصب عطا نہیں ہوا تھا.اور نہ ہی ایسا قرب ولقاء باری تعالیٰ تھا کہ وہ ان مضامین کو اپنے دل و جان پر وارد کر کے حکم خداوندی کی بجا آوری میں نغمہ سرائی کرتا.

Page 69

ب المسيح 50 ان موضوعات میں سب سے اول تو نعت قرآن کریم ہے کہ اسلامی ادب میں اس کا نام ونشان نہیں ملتا اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو وہ بھی برسبیل تذکرہ کہا ہے اپنے کلام کا موضوع نہیں بنایا.جیسے حالی نے منصب رسول اکرم کے بیان میں کہدیا.اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا مس خام کو جس نے کندن بنایا کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا اچھی بات ہے مگر برسبیل تذکرہ ہے اور قرآن کریم کی عظمت کو قدرے تفصیل سے بیان نہیں کیا.صاف نظر آرہا ہے کہ اختصار مطلوب ہے.اس طور پر مسلمان شاعروں میں ایک دو شعرمل جائیں گے اور بس.کسی نے خوب کہا ہے.سرسری اُن سے ملاقات تھی گا ہے گا ہے صحبت غیر میں گا ہے سرِ راہ گا ہے مگر دوسری طرف حضرت اقدس کو دیکھو کہ قرآن کریم کی محبت اور عظمت کے بیان میں آپ ایک عاشق کی طرح سے رطب اللسان اور کثیر البیان ہیں.آپ نے کتنی سچی بات کی ہے اور فرماتے ہیں دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ز عشاق فرقان و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم ہم قرآن اور آنحضرت کے عاشقوں میں سے ہیں اسی پر ہم آئے ہیں اور اسی حالت میں گذر جائیں گے.دوسرا موضوع شعر جو اسلامی ادب میں نا پید ہے وہ صداقت اور حمایت دینِ اسلام“ ہے اگر چند اشعار کہیں ملتے ہیں تو مسدس حالی میں مگر وہ بھی بنیادی طور پر قومی اور ملی گم گشتہ عظمت و شان کا نوحہ ہے یہ بات تو درست ہے کہ حالی حقیقی تعلیم اسلام کو فراموش کرنے کو اور اسوہ رسول اکرم سے بے اعتنائی برتنے کو ہی ملی اور قومی انحطاط و شکست کا موجب سمجھتے تھے مگر انہوں نے قرآن کی صداقت اور اس کی تعلیم کی عظمت کو ایک موضوع کے طور پر اختیار نہیں کیا.چندا شعارسن لیں: نہیں قوم میں گرچہ کچھ جان باقی نہ اس میں ہے اسلام کی شان باقی نہ وہ جاہ وحشمت کے سامان باقی پر اس حال میں بھی ہے اک آن باقی بگڑنے کا گوان کا وقت آ گیا ہے مگر اس بگڑنے میں بھی اک ادا ہے

Page 70

51 ادب المسيح آپ دیکھ لیں حاتی اسلام کی شان کو دنیا کی جاہ وحشمت کا حصول سمجھتے ہیں یا اگر بہت نرمی سے تجزیہ کیا جائے تو دنیا میں اقتدار اور بادشاہت کے ختم ہونے کو اسلامی تعلیم سے دور ہونے کی وجہ گردانتے ہیں.دوسری طرف نگاہ کریں کہ حضرت اقدس دین اسلام کو قرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس میں اس کی شان اور عظمت گردانتے ہیں.فرمایا: اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدی یہی ہے ملتی اے سونے والو جاگوشمس الضحی یہی ہے ہے بادشاہی اس دیں سے آسمانی اے طالبانِ دولت ظل ہما یہی سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ ہے اس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے اب دیکھ لیں کہ دونوں نظریات میں کس قدر تفاوت راہ ہے.آپ حضرت کا تیسرا اور چوتھا موضوع شعر جو کہ اسلامی ادب میں بے نام ونشان ہے ان کے عنوان ” نعت صحابہ کرام اور ضرورت الہام ہے.اول تو موضوعات شعری میں ” بعد از تلاش بسیار چند اشعار مل جاتے ہیں تو ان دو عنوانات میں تو وہ بھی دستیاب نہیں.اس کی حقیقی وجہ تو یہ ہے کہ صحابہ کرام کی فدائیت اور عشق رسول اکرم کی حقیقی عظمت کا شعور اُسی کو ہوسکتا ہے جو رسول اکرم پر اُسی طور سے جان و دل نثار کرتا ہو جیسے کہ آپ کے صحابہ کرتے تھے.جیسے فرمایا.مسیح وقت اب دنیا میں آیا مبارک وہ جواب ایمان لایا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی ئے ان کو ساقی نے پلا دی فسبحان الذي اخذى الاعادي اگر نعتِ صحابہؓ ادب میں مفقود ہے تو ضرورت الہام کا عنوان تو یکسر اور یک قلم نا پید ہے.ایسا ہونا لازم ہی تھا.کیونکہ الہام الہی کی عظمت اور شان کو اور اُس کی برکت سے تسکین اور یقین کامل کی کیفیات کو وہی بیان کر سکتا ہے جو صاحب وحی والہام ہو اور صرف صاحب وحی اور الہام ہی نہیں بلکہ جس کو حضرت اقدس کی طرح سے

Page 71

ادب المسيح 52 کثرت مکالمه ومخاطبہ باری تعالٰی نصیب ہو.اور جو اس طور سے عاشق محبوب حقیقی ہو کہ ہمہ وقت حسن و جمال یار کے آثار کا متلاشی ہو دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی ہم نے حضرت اقدس کے تمام موضوعات شعری کو بیان نہیں کیا آئندہ میں وہ عنوانات اپنے مقام پر آئیں گے اس وقت حضرت اقدس کے موضوعات شعری کے بنیادی عناصر کو بیان کر کے چند ایک ایسے موضوعات بیان کیے ہیں جو اسلامی ادب میں یکسر نا پیدا اور بے نام ونشان ہیں.ایسا ہونا بھی لازم تھا کیونکہ ان موضوعات کی تخلیق کے لیے ایک ایسی ہستی کے ظہور پر ٹور کی ضرورت تھی جو ان کیفیات اور مشاہدات کا مورد اور واصل ہو مگر تسلسل بیان میں اس حقیقیت کا اظہار بھی واجب ہے کہ اسلامی ادب میں ان شعری عنوانات کے نوادرات کو شامل کرنا آپ حضرت کا اسلامی ادب پر ایک عظیم احسان ہے.اسلامی ادب کے لیے یہ ایک صرف اضافہ ہی نہیں بلکہ صداقت دین اسلام کے ثبوت فراہم کرنے کے اعتبار سے سرمایہ افتخار و عظمت بھی ہے.مرسلین باری تعالیٰ کے اختیار کردہ موضوعات کلام کے تعلق میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ زیر نظر کوشش میں ہم جس مرسل خدا مسیح دوراں اور مہدی آخر زمان کے محسنات کلام کو پیش کر رہے ہیں وہ اس زمرہ مرسلین باری تعالیٰ کی ایک ایسی جلیل القدر ہستی ہے جس کو خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں آنحضرت کی وراثت عرفانِ الہی بھی نصیب ہے اور جو اس منصب کی برکت کی وجہ سے تمام گذشتہ رسولوں کی روحانی عظمتوں کا حامل بھی ہے.جیسے فرماتے ہیں: انبیاء گرچه بوده اند ہے من بعرفان نه کمترم ز کسے اگر چہ انبیاء بہت ہوئے ہیں مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں اگرام وارث مصطف شدم یقیں به شده رنگیں برنگِ یار حسیں میں یقیناً مصطفے کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں آنچه داداست ہرنبی را جام داد آن جام را مرا بتمام جو جام اُس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اُس نے کامل طور سے مجھے بھی دیا ہے اس منصب عالی کی تصدیق بلکہ ایک اعتبار سے تفصیل میں حضرت اقدس کو اس عظیم الشان الہام باری تعالیٰ سے نوازا گیا ہے.

Page 72

چو دور خسروی آغاز کردند 53 ادب المسيح مسلماں را مسلمان باز کردند جب ہمارا شاہی زمانہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا گیا ناز کردند او میں از راه تحقیر بدورانش رسولاں اس کے درجہ کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ کہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ناز کیا ہے مقام

Page 73

ب المسيح 54 حضرت اقدس کا ادب تین زبانوں میں اور اساتذہ ادب سے تقابل قبل میں بہت مرتبہ کہا گیا ہے کہ حضرت اقدس کا ادب حکم خداوندی کی بجا آوری میں ابلاغ رسالت کی غرض سے صادر ہوا ہے.دراصل ابلاغ رسالت ہی وہ منبع ہے جس کے دہن سے اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات اور اپنی اطاعت اور محبت کی تعلیم و تربیت جاری فرماتا ہے.قرآن میں مرسلین کو یہ حکم بار بار ہوا ہے کہ : بَلغُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (المائدة: 68) ترجمہ: جو تجھ پر نازل ہوا ہے اس کا ابلاغ کر اور مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغ (المائدة: 100) ترجمہ:.رسول پر صرف پیغام پہنچانا ہی فرض ہے یہ ابلاغ ان کے ذاتی منصب کا نہیں ہوتا.بلکہ پیغام کی ترسیل کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرسلین کے بارے میں فرمان قرآن ہے.مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: 4.5) یعنی انبیاء کا نطق و کلام ان کی ذاتی تمناؤں کے اظہار میں نہیں ہوتا بلکہ وحی الہی کے تحت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اور اس کی نگرانی میں جاری ہوتا ہے اس مضمون کو حضرت اقدس نے کس قدر خوبی سے بیان فرمایا ہوا ہے.ما مورم و مرا چه در ین کار اختیار رو این سخن بگو بخداوند آمرم ! میں تو مامور ہوں مجھے اس کام میں کیا اختیار ہے جا! یہ بات میرے بھیجنے والے خدا سے پوچھ حکم است ز آسماں بز میں میرسانمش گر بشنوم نگوئیمش آن را کجا برم آسماں کا حکم میں زمین تک پہنچاتا ہوں.اگر میں اُسے سنوں اور لوگوں کو نہ سناؤں تو اُسے کہاں لے جاؤں من خود نگویم اینکه بلوح خدا ہمیں است گر طاقت ست محوگن آن نقش داورم میں خود یہ بات نہیں کہتا بلکہ لوح محفوظ میں ہی ایسا لکھا ہے اگر تجھ میں طاقت ہے تو خدا کے لکھے ہوئے کو مٹا دے.آپ مشاہدہ کر لیں کہ مرسلین باری تعالیٰ کا منصب ادبی کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ان کی نگارشات لوح محفوظ کے مندرجات ہوتے ہیں.

Page 74

عربی میں فرماتے ہیں: 55 ادب المسيح وَمَا قُمْتُ فِي هَذَا الْمُقَامِ بِمُنْيَتِى وَيَعْلَمُ رَبِّي سِرَّ قَلْبِي وَيَشْعُرُ مام میں اپنی خواہش سے کھڑا نہیں ہوا.اور میرا خدا مرے دل کے بھید کو جانتا ہے.وَكُنتُ امْرَء أَبْغِى الْحُمُولَ مِنَ الصَّبَا مَتى يَاتِنِي مِنْ زَائِرِينَ أَصَعِرُ اور میں ایک آدمی تھا کہ بچپن سے گوشہ گزینی کو دوست رکھتا تھا.جب کوئی ملنے والا میرے پاس آتا تو میں کنارہ کش ہو جاتا فَاخْرَجَنِي مِنْ حُجُرَتِى حُكْمُ مَالِكِى فَقُمْتُ وَلَمْ أُعْرِضْ وَلَمْ أَتَعَذَّرُ پس مجھے حجرہ میں سے میرے مالک کے حکم نے نکالا.پس میں اٹھا.اور نہ میں نے اعراض کیا اور نہ تاخیر کی وَلِلَّهِ سُلْطَانٌ وَّ حُكُمْ وَ شَوَكَةٌ وَنَحْنُ كُمَاةٌ بِالإِشَارَةِ نَحْضُرُ اور خدا کے لیے تسلط اور حکم اور شوکت ہے.اور ہم وہ سوار ہیں جو اشارہ پر حاضر ہوتے ہیں اور اردو میں فرماتے ہیں.ابتدا سے گوشئہ خلوت رہا مجھ کو پسند ٹھہر توں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تُو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اس میں میرا مجرم کیا جب مجھکو یہ فرماں ملا کون ہوں تارڈ کروں حکم شہ ذی الاقتدار اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دلفگار دیکھ لیں کہ حضرت اقدس کا کلام کس قدر حکم الہی کے تحت ہے.ان مشاہدات کی روشنی میں یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ گذشتہ میں جو آپ حضرت کے موضوعات شعری بیان ہوئے ہیں وہ بھی دراصل آپ کی سوچ و بچار اور ذاتی ترجیحات کی بناپر قائم نہیں ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کا پیغام پہچانے کی غرض سے ظہور میں آئے ہیں.

Page 75

ب المسيح 56 ادب مرسلین کی تخلیقی نوعیت کے تعلق میں یہ گذارشات دراصل قرآن کریم کے فرمان کی تفسیر اور تصدیق ہے.فرمانِ خداوندی ہے.إِنَّهُ لَقَولُ رَسُوْلِ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ.وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ - تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الحاقة: 41 تا 44) یعنی یہ کہ انبیاء کا کلام شاعر کا کلام نہیں ہوتا.نہ ہی کہانت ہوتی ہے.یہ تو ایک حکم خداوندی ہوتا ہے تنزیل اس مقام پر پیغام“ کے معنوں میں آیا ہے اس طرح سے کہہ لو کہ انبیاء کا کلام شعر تو ہوتا ہے مگر قول شاعر نہیں ہوتا.کیونکہ شاعر کا کلام اس کے تخیل اور ذاتی جذبے سے ہوتا ہے اور مرسلین کا کلام تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ ہوتا ہے (الحاقة: 44) یعنی اگر کوئی شعر خدا کی طرف سے اور اس کے حکم سے نازل ہو وہ ” قول شاعر نہیں ہوگا.یہی وہ بات ہے جو حضور نے ان تینوں زبانوں کے اشعار میں بیان کی ہے.آپ حضور نے ” تنزیل“ کو فرمان الہی کے معنوں میں بیان کیا ہے.اسی وجہ سے انبیاء کا منظوم کلام شعر تو ہوتا ہے مگر قول شاعر نہیں ہوتا.ایک بار پھر سن لیں.اب تو جو فرماں میلا اسکا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دلفگار اس لیے اگر ہم یہ کہیں کہ آپ حضرت نے کبھی تاکیڈا اور توجہ سے شعری ادب کو پیش نہیں کیا تو بالکل درست ہوگا کیونکہ آپ کا کلام ایک پیغام رسانی ہے اور حکم الہی کے تحت ہے.چنانچہ آپ کا ادبی سرمایہ کسی ادبی منصب کے اظہار کے لیے تخلیق نہیں ہوا بلکہ حکم خداوندی کی بجا آوری کے لیے تشکیل پایا ہے.اور اگر یہ فرض ادا ہو جاتا ہے تو مزید کوئی مطلوب اور مقصود نہیں ہوتا.اس امر کے اظہار کے لیے آپ فرماتے ہیں.کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے کس قدر سادہ اور سلیس اور عام فہم بیان ہے.(اس کو ادب میں سہلِ ممتنع کہتے ہیں ) اور موقع اور حل بھی ایسا ہی تھا کیونکہ مقصود بیان شعری تکلفات سے صرف نظر کرنا تھا.اس لیے شعر کو شعری نزاکتوں سے دور ہی رہنا چاہیے تھا.شعر گوئی بغرض شعر و شاعری سے انکار ہے.اس لیے کہ شعر گوئی ایک ہنر اور فن ہے اور آپ حضرت کوئی فتنی

Page 76

57 ادب المسيح معجزہ دکھانا نہیں چاہتے اس لیے ڈھب کا لفظ استعمال کیا ہے ڈھب اردو زبان میں کسی فریضے کے قرینے.ادا کرنے کے معنوں میں آتا ہے.یعنی جس سے مطلب پورا ہو جائے.خواجہ میر درد نے کیا خوب کہا ہے.میں نے تو کچھ ظاہر نہ کی تھی دل کی بات وہ مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا یعنی میری نظروں نے میرا پیغام پہنچا دیا.آپ کا یہ فرمان تو ہے کہ شعر گوئی میں آپ کا مقصد شعر و شاعری نہیں ہے.مگر اس حقیقت کو کیسے فراموش کیا جائے کہ جن زبانوں میں آپ نے شعر کہے ہیں وہ ان زبانوں کے اسلوب کی مکمل پاسداری کے ساتھ کہے ہیں.اور ایک صاحب زبان کی تمام لسانی خوبیوں اور ادبی حسن و جمال کیساتھ کہے ہیں.آپ حضرت کا تین زبانوں کی مختلف اقدار ادب اور اسالیب بیان کی مطابقت میں کلام کرنا اور اس طرح سے کلام کرنا کہ آپ ان زبانوں میں اجنبی نہیں بلکہ اہل زبان معلوم ہوں.اور پھر ایسا ہو کہ آپ کے اختیار کردہ موضوعات میں تینوں زبانوں کا کوئی بھی ادیب اور شاعر آپ کے حسنِ بیان کے مقابل پر دم نہ مار سکے ایک عظیم الشان ادبی معجزہ ہے ایک ایسا معجزہ جس کو تنزیل کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا.یہی وہ بات ہے جو گذشتہ میں کہی جا چکی ہے.آپ حضرت فرماتے ہیں:.چوں حاجتے بود با دیپ دگر مرا من تربیت پذیر زرب میمنم ترجمہ: مجھے کسی اور استاد کی ضرورت کیوں ہو.میں تو اپنے خدا سے تربیت یافتہ ہوں اس وقت تک جو کچھ کہا گیا ہے اس میں تکرار بھی ہے اور قدرے طوالت بھی مگر شعر و سخن کے محاسن کی تلاش میں ہر راہ گذرا سی ایک محبوب منزل کی طرف لوٹ آتی ہے اور محبوب کے محسنات ادبی کا ذکر ہو تو کیونکر طویل نہ ہو.حدیث دلکش و افسانه از افسانه می خیزد دگر از سرگرفتم قصه زلف پریشان را یہ دل کو لبھانے والی بات ہے اس لئے بات سے بات نکلتی ہے.اس لیے میں نے پھر سے محبوب کی زلف پریشاں کا ذکر چھیڑ دیا ہے.دراصل گذشتہ میں جو کہا گیا ہے وہ حضرت اقدس کی اس منفرد اور ممتاز ادبی شان کے تعارف کے طور پر ہے کہ ابلاغ رسالت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے تعلق میں حضرت اقدس کا ایک منفرد مقام ہے.وہ ایسے کہ دیگر

Page 77

المسيح 58 تمام مرسلین باری تعالیٰ نے ابلاغ رسالت کی خدمت اپنی قومی اور مادری زبان میں ادا کی ہے زمرہ مرسلین علیہم السلام میں حضرت اقدس علیہ السلام کی ایک واحد شخصیت ایسی ہے جس نے ایک زبان سے زائد زبانوں یعنی تین زبانوں میں اس خدمت عالیہ کو سرانجام دیا ہو.(اردو.فارسی اور عربی) ہم دعوئی سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ان تینوں زبانوں کے GENIUS یعنی روح رواں اور کلاسیکی معیار کو صرف برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس کو مزید وسعتوں سے ہمکنار کیا ہے.ہر زبان کی روح اور انتخاب الفاظ کو ملحوظ خاطر رکھنا اور تینوں زبانوں کے مزاج اور معنوی اسلوب کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا ادب عالیہ تخلیق فرمایا ہے.یہ بات درست ہے کہ مرسل اپنی قومی زبان میں ہی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ....الخ) (ابراهيم: 5) اور ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان ہی میں بھیجا ہے.تا کہ وہ اُنہیں ہماری باتیں کھول کر بتائے ) اور حضرت سے قبل ایسا ہی ہوتا رہا.مگر حضرت اقدس کی بعثت کیونکہ رسول اکرم کی امت کے مہدی اور مسیح کے طور پر تھی اور آپ نے امت محمدیہ کی اصلاح احوال کرنی تھی اور اُس کو دوبارہ صحیح اسلام پر لا نا تھا اور اسوۂ رسول اکرم کو زندہ کرنا تھا.مگر وہ امت آپ کے وقت تک تین زبانوں میں پھیل چکی تھی یعنی عربی.فارسی اور اردو.اس لیے گو یہ ایک امتیازی اور منفرد خصوصیت ہے مگر در حقیقت اپنے آقاء نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی پاسداری میں عطا ہوئی ہے اور اس واقعاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آپ حضرت کو تین زبانوں پر قدرت عطا کی گئی ہے.اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت اقدس اپنے الہامات کی عربی زبان میں نازل ہونے کی وضاحت میں فرماتے ہیں: اس کا اصل سریہ ہے کہ صرف تعلق جتلانے کی غرض سے عربی الہامات ہوتے ہیں کیونکہ ہم تابع ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو کہ عربی تھے.ہمارا کاروبارسب ظلی ہے اور خدا کے لیے ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 597.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور فرماتے ہیں: اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض ہوا تھا کہ کسی اور زبان میں الہام کیوں نہیں ہوتا تو آپ پر اللہ تعالیٰ نے فارسی زبان میں الہام کیا این مشت خاک را گر نه خشم چه کنم (ترجمہ: اس مٹھی بھر خاک کو اگر معاف نہ کروں تو کیا کروں ) ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 598.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )

Page 78

59 ادب المسيح آپ حضور اس الہام کے باطنی عرفان کو بیان کرتے ہوئے معنی کرتے ہیں آخر کار خدا کی رحمت کا روبار کرے گی“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 598.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اب دیکھ لیں کہ آپ حضرت اقدس نے کسی وضاحت سے آیت کریمہ کے رموز کو بیان کر دیا ہے.اول یہ کہ آپ جس ہستی کے تابع ہیں اُسی کی قوم اور اُمت کو تبلیغ رسالت کرنا آپ کے ذمہ ہے کیونکہ آنحضرت کی امت کا کثیر حصہ تین زبانوں میں وسعت اختیار کر گیا ہے اس لیے درحقیقت یہ تینوں زبانیں بولنے والے آپ ہی کی قوم ہیں.دوم یہ کہ اس وجہ سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے تین زبانوں پر قدرت عطا کی تا کہ آپ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ “ کا فریضہ ادا کرسکیں جب کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ خصوصیت اور قدرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا تین زبانوں میں وسعت پذیر ہونے کی بنا پر ہے مگر اس امر سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ عنایات خاص ایک علمی اور ادبی عظمت وشان ( کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معجز نمائی بھی ہے.اس مضمون میں حضرت اقدس کا بیان بھی ہے مگر اس خیال سے کہ اول آپ کی تین لسانی عظمت کی وضاحت میں کچھ بیان آجائے اور پھر حضرت اقدس کا بیان درج ہو، تاکہ یہ حقیقت بھی کھل جائے کہ اسلامی زبانوں میں ابلاغ رسالت کرنا ایک القاء باری تعالی یعنی حکم الہی تھا جس کو آپ نے کمال خوبی کے ساتھ سرانجام دیا.آپ انجام آتھم میں علماء ومشائخ ہند کے نام عربی میں ایک مکتوب تحریر فرما کر اس امر کی وضاحت فرماتے ہیں.ولما كان المقصد ان يتبيّن الحق الذي جئنا به لِكُلّ تقى وَسَعيد مِن قريب وبعيد.ألقى في روعي ان اكتب هذا المكتوب في العربية واترجمه بالفارسية و ارعى النواظر في النواضر الاصلية و اوسع التبليغ بالالسن الاسلامية ليكون بلاغًا تامًا للطالبين.و ہرگاہ کہ مقصود این بود که بر هر پرہیز گارے و نیک نہادے آن امر حق ہویدا گردد که ما آوردیم گوآن مرد از سرزمین قریب باشد یا از بعید الہذا در دلم انداخته شد که این مکتوب را در زبان عربی بنویسم و ترجمه آن در فارسی کنم و نظار گیاں را در چراگاه اصلی سیر کنانم و بزبان ہائے اسلامیان تبلیغ را وسیع کنم تا برائے طالبان این تبلیغ بمرتبہ کمال رسد.ترجمه از مرتب دراصل مقصد یہ تھا کہ ہر نیک نہاد پر ہیز گار پر یہ حقیقت واضح ہو جائے خواہ وہ انسان قریب کی سرزمین یا بعید کی سرزمین کا باشندہ ہو ).اس لیے میرے دل میں

Page 79

المسيح 60 القاء ربانی ہوا کہ میں اس مکتوب کو عربی میں تحریر کروں.اور اس کا ترجمہ فارسی میں کروں.اور دیکھنے والوں کو اصلی حقیقت سے آگاہ کروں اور اسلامی زبانوں میں اپنی تبلیغ کو وسیع کروں تا کہ طالبان حق کے لیے یہ تبلیغ مرتبۂ کمال تک پہنچ جائے.انجام آتم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 74-75) ان تینوں زبانوں میں قادر الکلامی کے چند نمونے تو گذشتہ صفحات میں درج ہوئے ہیں مگر بات کیونکہ مینوں زبانوں کے مختلف مزاج اور GENIUS کی ہو رہی ہے اس لیے اس امر کی تصدیق کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت کے کم از کم ایک موضوع کے تحت تینوں زبانوں کے نمونے پیش کریں.اول چند الفاظ میں ہر زبان کے مزاج اور اسلوب کا بیان ہو اور پھر یہ مشاہدہ کروائیں کہ باوجود ہر زبان کا اسلوب بیان مختلف ہونے کے آپ حضرت نے ان زبانوں کے کلاسیکی اسلوب کو اپنا لیا ہے.اور اہل زبان کی طرح سے کلام تخلیق کیا ہے.آپ حضرت کی ان تینوں زبانوں کے اسالیب کی پاسداری کے ثبوت میں ہم نے ادب عالیہ کی اُسی قدر کا انتخاب کیا ہے.جس کو اللہ تعالیٰ نے بھی مقصود ادب مرسلین قرار دیا ہے اور زمینی ادیبوں نے بھی اپنے ادب پاروں کا مقصود اور مطلوب کہا ہے.یعنی ابلاغ کامل

Page 80

61 ادب المسيح اردو زبان میں ابلاغ رسالت زبان اپنی زندگی کے متعدد نشیب وفراز اور فتح و شکست سے گذرنے کے بعد ہی پختہ اور صیقل ہوتی ہے.اردو ایک کم عمر زبان ہے.تجرباتی لحاظ سے اس زبان پر گرم وسردزمانہ کا کوئی طویل عمل نہیں ہوا.گو یہ بات درست ہے کہ اردو زبان اپنی ابتدائی ساخت میں ہندی زبان یا بھاشا کی بنیادوں پر استوار ہوئی ہے جو کہ صدیوں سے دہلی اور میرٹھ کی اقوام میں بولی جاتی تھی مگر یہ ایک تاریخی تجزیہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ زبان جو اؤل بھاشا کی ایک شاخ تھی ہندوستان میں مسلمان سلاطین کی آمد کے بعد اپنی نوعیت اور ساخت میں بالکل تبدیل ہو کر ایک ممتاز اور مستقل زبان کی صورت اختیار کر گئی تھی.اسی اثر کی بنا پر اس زبان میں اُس زبان کا عمل دخل ہو گیا جو کہ اس ملک کے حاکم اور بادشاہ تھے یعنی فارسی زبان یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں اردو ادیب اپنے اشعار میں فارسی تراکیب اور عربی لغت کا جابے جا استعمال کرتے نظر آتے ہیں.اگر اردو شاعری کی ابتدا امیر خسرو سے کی جائے تو ولی دکنی تک پہنچنے تک اس زبان نے اپنے اسلوب کی کوئی خاص اور منفر دراہ متعین نہیں کی تھی.تاہم یہ بات درست ہے کہ ولی دکنی تک پہنچتے پہنچتے اردو ایک زبان کی شکل اختیار کر گئی تھی.یہی وجہ ہے کہ ولی دکنی کو ریختہ کا بانی مبانی کہا جاتا ہے.ولی دکنی ہی کے اتباع میں دہلی اردو زبان کا مکتب سخن بن گیا تھا.یہاں پر اردو زبان کے ادب کی تدریجی ترقی بیان کرنا مقصود نہیں ہے.صرف یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ اردو زبان اور اردو ادب نے اپنا حقیقی اسلوب میر درد اور میر تقی میر کے وقت میں متعین کیا اور سہل اور سادہ بیان کو اس کا روح رواں بنایا اور اسی روایت ادب اور دستور بیان کو ذوق اور اس کے مکتب شعر کے شاگردوں نے مزید صیقل کر کے فروغ دیا.یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کے اساتذہ شعر نے میر تقی میر کے اسلوب بیان کو اردو اسلوب شعر کی معراج قرار دیا ہے.جیسے غالب نے کہا ہے: ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا اور ذوق کو یہ حسرت رہی کہ میر کا انداز نصیب ہو.نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

Page 81

ب المسيح 62 اور قریب کے زمانے میں حالی میر کو اپنا راہنما کہتے ہیں.اور حسرت موہانی کہتے ہیں.شاگر دمیرزا کا مقلد ہوں میر کا شعر میرے بھی ہیں پر در دو لیکن حسرت میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں جناب میر کے شیوہ گفتار میں چند شعر بھی سن لیں اور اور اور آخر پر مرگ ایک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا اب کے جنوں میں فاصلہ شاید ہی کچھ رہے دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں ہم فقیروں سے کج ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا یہی وہ سہل اور سادہ زبان ہے جس کو سہل ممتنع کہتے ہیں اور یہی وہ انداز بیان ہے جس کی تلاش میں تمام شعراءار دو سر گرداں رہے ہیں.اس اسلوب پر دو شعر ایسے بھی سن لیں جن کو غالب جیسے عظیم المرتبت شاعر نے ایسا پسند کیا کہ اپنا دیوان ان پر شار کرنے کو تیار ہو گیا تھا.ایک ذوق کا ہے اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے اور ایک مومن کا ہے.مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

Page 82

63 اور یہی وہ اسلوب سادہ و سہل ہے جس کو حسرت موہانی نے بہت مشکل سمجھا ہے.رنگینی سخن میں بھی ہے سادگی کی شرط کہتا ہے مشکل ہے اس فریضہ آساں کی احتیاط یاد آیا کہ یہی اُن کا انداز بیان بھی تھا.کہتے ہیں ایک ہی بار ہوئیں وجہ پریشانی دل التفات ان کی نگاہوں نے دوبارہ نہ کیا ادب المسيح یہ وہ سادہ اور با محاورہ اسلوب بیان ہے جوار دو زبان کی روح رواں ہے.حضرت اقدس نے اردو کی اس روح رواں کی پاسداری میں اپنے اردو کلام میں سادہ اور سہل انداز کو اختیار کیا ہے اور اپنے کلام کو شعر نہیں کہا بلکہ ایک ڈھب کہا ہے.میرے خیال میں حضرت اقدس اردو اسلوب میں میر درد کے طرز بیان سے قریب تر ہیں.ہونا بھی چاہیے کیونکہ اردو شاعری میں خواجہ میر درد ہی ایک ایسے شاعر ہیں جو مسلمہ طور پر صوفی شاعر کہلاتے ہیں.راہ طریقت میں آپ کا طریق طریقہ محمدیہ کہلاتا ہے اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ سلوک ما سلوک نبوی است و طریق ما طریق محمدی (علم الكتاب صفحہ 85 ) اردوزبان کے صیقل کرنے کے اعتبار سے آپ کا اہم مقام ہے ” تاریخ اردو ادب“ کے مصنف لکھتے ہیں زبان اور ادب کے لحاظ سے خواجہ صاحب ایک نہایت نمایاں اور ممتاز درجہ رکھتے ہیں بقول مصنف ” آب حیات آپ چار رکنوں میں سے ایک رکن ہیں.اور باقی رکن میر.سودا.اور مظہر ہیں.حقیقت میں انہی عناصر اربعہ کی ترکیب سے زبان کا قوام درست ہوا....زبان صاف ہو گئی.منجی اور بالآخر ترقی کی معراج تک پہنچ گئی.اسی کتاب میں نواب حبیب الرحمن شیروانی کا قول لکھا ہے کہ ( تاریخ ادب اردو صفحہ 75 ) خواجہ صاحب کی زبان اور طر زادا وہی ہے جو میر کی ہے.عبارت صاف سلیس فصیح.ہر شخص کی سمجھ میں آسانی سے آتی ہے“.( تاریخ ادب اردو صفحہ 74) خدا بھلا کرے شیروانی صاحب کا کہ آپ نے یہ کہہ کر میرا کام آسان کر دیا کہ عبارت صاف سلیس فصیح.

Page 83

ب المسيح 64 ہر شخص کی سمجھ میں آسانی سے آتی ہے یہی حضرت اقدس کا اسلوب بیان ہے.اور یہی ان کا منصب ابلاغ تھا کہ آپ کا پیغام عمومی اعتبار سے ہر ایک کی سمجھ میں آجائے.یہ بھی مشاہدہ کریں کہ حضرت کا یہ طرز بیان قرآن کریم کے اتباع میں ہے.جیسے کہ فرمایا: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (القمر: 41) ترجمہ: ہم نے قرآن کو عمل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے.سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے.اور پھر جیسا کہ کہا گیا ہے کہ اردو زبان کا GENIUS اور اسلوب خاص بھی یہی ہے بات میر درد کے مسلک کی ہو رہی تھی.اس کے تسلسل میں مشاہدہ کریں تو آپ کا یہ مسلک ہمارے آقا سے کس قدر قریب ہے.بلکہ ایک ہی ہے.فرماتے ہیں.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے اور فرماتے ہیں: اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں اور فارسی میں فرماتے ہیں: وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ز عشاق فرقان و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم ترجمہ: ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں.اسی کیساتھ پیدا ہوئے ہیں اور اسی کیساتھ فوت ہوں گے.حق تو یہ ہے کہ حضرت اقدس کی رسالت کی شرط اعظم محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھی.جیسا کہ آپ کو رویا میں دکھایا گیا فرماتے ہیں.نثار میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مجھی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا ” هذا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولَ اللَّهِ 66 یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.

Page 84

65 ادب المسيح اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے (براہین احمدیہ، ر.خ.جلد 1 صفحہ 598) یہ تو چنداد بی اور ترجیحاتی مناسبتیں تھیں جن کا ذکر ضروری تھا.مگر ایک مناسبت جو ان سے بھی زیادہ اہم ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے وہ حضرت اقدس کا میر درد کے خانوادے سے آپ کی دامادی کا رشتہ ہے.جیسے الہام الہی میں فرمایا گیا الحمد لله الذي جعل لكم الصهر والنسب“ حضرت اقدس ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمھاری دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے تریاق القلوب ، رخ - جلد 15 صفحہ 272-273) اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے میر درد سے آپ کا تعلق کرنا تھا کہ ہم سب کی ماں سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا نے آپ کے عقد میں آنا تھا جو کہ چھٹی یا ساتوں پشت میں میر درد کی نسل سے ہیں.ان سب مناسبتوں کو بیان کر کے ہم اصل مضمون کی طرف آتے ہیں کہ اس امر کی وضاحت کریں کہ اردو شعر کے اسلوب کے اعتبار سے حضرت اقدس میر درد کے اسلوب سے قریب تر ہیں.اس لیے قرابت اسلوب کے ثبوت میں چند امثال پیش کرنا ضروری ہیں.مگر امثال دینے اور اشعار کا تقابلی موازنہ کرنے سے قبل اس امر کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا کہ گودونوں صاحب ادب اپنے موضوعات کے انتخاب اور الفاظ کے چناؤ میں باہم دگر ہم زبان اور ہم خیال ضرور نظر آئیں گے مگر میر درد کا طرز نگارش تغزل کے رنگ میں ڈوبا ہوا ایک جمالیاتی تجربہ ہے.اس لیے ان کے بیان کے روحانی معانی مجاز کی راہ سے ثابت ہوتے ہیں.اس کے مقابل پر حضرت اقدس بر ملا عاشق باری تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ان کے کلام میں مجاز کو دخل نہیں ہے.ایک کامل حقیقتِ عظمی کا اظہار ہے جو جمالیاتی انداز کے قیام کے ساتھ ہے اور تمام ادبی نزاکتوں کوملحوظ خاطر رکھ کر کہا گیا ہے.مجاز نہیں ہے بلکہ حقیقی مشاہدات اور واردات قلبی کا اظہار ہے.اس لیے موضوع اور الفاظ میں اتحاد اور یک رنگی کے باوجود طرز نگارش میں اختلاف ضرور ہو گا.دوران مطالعہ اس امتیاز کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے.

Page 85

المسيح 66 اول قدم پر حضرت کا وہ شعرسُن لیں.جو آپ کی تمام شعری تخلیقات کا مقصد اور مدعا ہے.یعنی کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے اس شعر کے بارے میں گذشتہ میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ڈھب“ کے لفظ کا استعمال میر درد اور حضرت کا ایک ہی ہے اور طرز بیان بھی.میں نے تو کچھ ظاہر نہ کی تھی دل کی بات وہ مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا دوسری مثال عشق میں آلام و مصائب کے معنوں میں ہے میر درد کہتے ہیں.اذیت.مصیبت.ملامت بلا ئیں تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا ایک اور جگہ پر کہتے ہیں.حضرت اقدس فرماتے ہیں.ان لبوں نے ہی نہ کی مسیحائی ہم نے سوسو طرح سے مرد یکھا اس عشق میں مصائب سوسو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے حرف وفا نہ چھوڑوں اس عہد کو نہ توڑوں اس دلیر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے آپ دیکھ لیں مضمون باہم متصل ہے.عشق کے مصائب کا ذکر ہے.الفاظ کا انتخاب بھی یک رنگ ہے.مگر ان سب قرابتوں کے باوجود میر درد کا بیان ایک مشکلات و مصائب کی فہرست معلوم ہوتی ہے.کسی محبت کا اظہار نہیں.بلکہ اس مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں.دوسرے شعر میں مایوس بھی ہیں.مگر ان کے مقابل پر ہمارے پیارے حضرت کو دیکھو.آپ ایسے عاشق صادق ہیں کہ مصائب سے آزردہ خاطر نہیں ہوئے.ان سے نجات حاصل کرنا نہیں چاہتے بلکہ بے انتہا محبت کے انداز میں کہتے ہیں کہ کیونکہ یہ میرے محبوب کی طرف سے آئی ہیں اس لیے بصد محبت و احترام قبول ہیں.اس کی مرضی پر راضی ہیں.وفا میں

Page 86

67 ادب المسيح مستقیم اور عہد پر قائم.ہم نے اس مثال میں میر درد کے دو شعر دئیے ہیں تو حضرت کا بھی ایک اور فرمان سن لیں.فرماتے ہیں.کیسے کافر ہیں مانتے ہی نہیں ہم نے سوسوطرح سے سمجھایا اس غرض سے کہ زندہ یہ ہوویں ہم نے مرنا بھی دل میں ٹھہرایا بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا سوسو طرح سے مرنا ایک خوبصورت بیان ہے مگر اسی ترکیب لفظی کو حضرت نے بہت بہتر اور درست معنوں میں پیش کیا ہے مرنا تو ایک بار ہی ہوتا ہے اور سوسو بار مرنا تو ایک شاعرانہ غلو اور تعلی ہے مگر سمجھانے کی غرض سے سوسو طرح سے سمجھانا پڑتا ہے اور کسی مقصد کے حصول کے لیے دل میں مرنا ٹھہرایا جاتا ہے یہ ایک بہت فصیح کلام کا نمونہ ہے اس لیے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ کے کلام کو ہم نے اپنی جناب سے فصیح کیا ہے.کلام افصحت من لدن رب كريم ترجمہ: تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے حقیقت الوحی ، ر - خ- جلد 22 صفحہ 106) یہ تو سب جانتے ہیں کہ زبان کے صحیح استعمال کو فصیح،، کہتے ہیں یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی ہے.مضمون یہ تھا کہ میر درد کے اشعار اور حضرت کے اشعار میں اسلوب بیان کا اتحاد ہے.مقاصد بیان اور جذبات کی نوعیت میں اتفاق نہیں.ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ میر درد ایک سالک راہ ہیں اور حضرت ایک واصل باللہ ہستی ہیں.اس لیے میر درد کے بیان میں مایوسی اور نایافت کا عنصر ہے.جس کے مقابل پر حضرت اقدس واردات عشق کے بیان میں محبوب کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی عنایات کے مورد ہیں.اور ”ہم نے مرنا بھی دل میں ٹھہرایا‘ کے جواب میں محبوب حقیقی نے جو انعام اپنے باغ کے پھول پھینک کر دیا ہے اُس میں اس قدر خوش ہیں کہ اس کو حاصل زیست سمجھتے ہیں اور جاں نثار کرنے کو تیار ہیں.بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا

Page 87

المسيح 68 یہ تقابل شعری کچھ طویل ہو رہا ہے دو مثالیں اور دے کر اس پر اکتفا کرونگا میر درد کہتے ہیں.ہم کب کے چل بسے تھے پر اے مردہ وصال کچھ آج ہوتے ہوتے سرانجام رہ گیا یعنی محبوب کے ہجر میں میری یہ کیفیت تھی کہ اگر مردہ وصل نہ آتا تو میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا.حضرت اقدس اس کیفیت کے بیان میں فرماتے ہیں.میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا الطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار بات ایک ہی ہے.اسلوب بیان با ہم قریب ہے.مگر کیفیت کے اعتبار سے میر صاحب کو مثر دہ وصال نے کام تمام ہونے سے بچالیا ہے.دوسری طرف حضرت اقدس ہیں کہ آپ تو واصل باللہ ہیں اس لیے آپ کو وصال نہ ہونے کے تصور نے بے تاب کیا ہے اس صورت میں جو سرانجام ہونا تھا اس کو مر کر خاک ہونے پر اکتفا نہیں کیا یکسر بے نام و نشان اور معدوم ہونے کا بیان ہے.فرماتے ہیں.پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار ایک شعر اور سن لیں.میر درد کہتے ہیں.کچھ تجھ کو بھی خبر ہے کہ اُٹھ اُٹھ کے رات کو عاشق تیری گلی میں کئی بار ہو گیا حضرت اقدس فرماتے ہیں.شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا دیکھ لیں.محبوب کی گلی بھی ہے.عشق کا مجنونانہ اظہار بھی ہے اور محبوب بے خبر اور بے پرواہ بھی ہے.مگر اس کیفیت کے بیان میں فرق کو دیکھیں کہ محبوب کو خبر کیسے ہو اگر شور نہ ہو اور میر نے عشق کی وارفتگی کو تو بیان کیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ اس وفورِ شوق کا نتیجہ کیا ہوگا.حضرت نے یہ سب کمیاں دور کر کے اس نتیجہ کا بھی اظہار کر دیا کہ اگر خبر نہ لی گئی تو کیا ہوگا.”لے جلدی خبر“ اور ” خوں نہ ہو جائے میں کس قدر تلازم اور خوبصورت صنعت گری ہے.

Page 88

69 ادب المسيح اپنی محبت اور عشق کے اظہار میں اور لطف و عنایات باری تعالیٰ کے بیان میں ایسا کلام کہاں ملے گا.کون اس طرح کے عشق الہی میں مبتلا ہوگا اور کس کو محبت قبول نہ ہونے کی صورت میں ایسا غم ہوگا.ایک بار پھرسُن لیں.شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا آخر پر حضرت اقدس کے اسلوب بیان کا میر درد کے اسلوب سے قریب تر ہونے کے اعتبار سے ایک مشاہدہ پیش کرتا ہوں اردو ادب کی دنیا میں میر درد کو ایک صوفی شاعر قرار دینے کی غرض سے ان کے دیگر اشعار کے ساتھ ذیل کے شعر کو تاکیڈا پیش کیا جاتا ہے.جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا میرے دل میں خیال آیا کہ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنے حسن و جمال میں اُسی خالق کی طرف اشارہ کرتی ہے جو حسن ازل اور جمال لم یزل ہے یعنی باری تعالیٰ جل شانہ.یہ حضرت کا دلپسند مضمون ہے.جیسے فارسی میں فرماتے ہیں.ہمہ جا شور تو بینم چه حقیقت چه مجاز سینی مشرک و مسلم ہمہ بریاں کر دی میں ہر جگہ تیرا ہی شور دیکھتا ہوں خواہ وہ حقیقت ہو یا مجاز تو نے تو مشرک اور مومن سب کے سینے جلا دیے ہیں.( گرم کر دیے ہیں) اردو میں تو اس مضمون میں ایک معرکہ آرا ثنائے باری تعالیٰ ہے.فرماتے ہیں.کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

Page 89

ب المسيح 70 چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا محبوب حقیقی کی تجلیات کو اس کی خلق کے ہر ذرہ میں دیکھنا ایک روحانی مشاہدہ ہے.اس مضمون کا بیان حضرت کی زبان سے سنیں.ایک واقعاتی بیان تو ہے مگر محبت الہی کا جوش اور اس پر قربان ہونے کے شوق کو ملاحظہ کریں.اس مقابل پر میر درد کا بیان ایک پھیکا اور بے رنگ واقعاتی مشاہدہ ہے اور اظہار عشق و محبت تو بالکل نا پید ہے.بات سے بات نکل رہی ہے.عرض یہ کر رہا تھا کہ درد کے کلام میں ایک عجیب اتفاق مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت اقدس کی درجہ بالاثناء میں ایک مصرعہ ایسا ہے جو بالکل خفیف تبدیلی کیساتھ درد کا ہے حضور فرماتے ہیں.اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے اور درد کہتے ہیں.مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تار کا اس کی بہارِحسن کا دل میں ہمارے جوش ہے فصل بہار جس کے ہاں.ایک میگل فروش ہے وزن اور بحر میں اختلاف ہے.مگر مصرعہ اول ایک ہی ہے.توارد ہے یا اختیار دونوں صورتوں میں یہ درد کی خوش بختی ہے اور تعجب خیز بھی.قریب الاسلوب ادیبوں میں ایسے حادثے ہوتے رہتے ہیں.یہی بات میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت کا اسلوب بیان میر درد سے قریب تر ہے.اس وقت تک جو بیان ہوا ہے ایسے ہے کہ اول :.اردو زبان کا اسلوب بیان کیا ہے.دوم : میر درد کا اردوزبان کے اسلوب کی تعیین میں کیا مقام ہے.سوم :.یہ کہ حضرت اقدس کا اسلوب بیان میر درد سے قریب تر ہے.

Page 90

71 ادب المسيح اب وقت آیا ہے کہ ہم ایک موضوع کے تحت حضرت اقدس کے اُردو اشعار کی چند مثالیں پیش کریں.جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ اس غرض کے لیے ہم نے ابلاغ ارسالت“ کا موضوع اختیار کیا ہے اس موضوع کے تعلق میں ایک مشکل کا سامنا ہو جاتا ہے.یہ کہ حقیقت میں حضرت کے تمام کلام کا مرکزی موضوع ابلاغ رسالت ہی“ ہے.یہ اس طور سے کہ ابلاغ رسالت میں تو اول آپ کے ماموریت کے دعاوی آتے ہیں.اور پھر وہ تمام روحانی اور علمی منصب جو آپ کو رسالت باری تعالیٰ کے فیضان کے طور پر عطا ہوئے ہیں.وہ بھی آپ کی رسالت کے صدق کا ثبوت فراہم کر رہے ہوتے ہیں.اور اس اعتبار سے وہ بھی ابلاغ رسالت کے موضوع کے تحت آجائیں گے.مثلاً حمد و ثناء باری تعالی.صدق رسول اکرم - نعت قرآن - حمایت اسلام اور محبت الہی.چنانچہ اس نہج پر دیگر بھی یہ وہ موضوعات ہیں جن کو ہم مستقل اور ممتاز موضوعات کے تحت پیش کرنا چاہتے ہیں.اس لیے اس موضوع کے تحت ہم نے صرف چند ایک ذیلی عنوانات کا انتخاب کیا ہے تا کہ موضوعات با ہم اس طور سے قریب نہ ہوں کہ ان کی انفرادی نوعیت قائم نہ رہ سکے.اور اسی دستور کو ہم آپ کے عربی اور فارسی کلام میں بھی اپنانے کی کوشش کریں گے اردو زبان اور اس کے اسلوب کے بارے میں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کو قدرے تفصیل سے بیان کرنے کی وجہ اول تو یہ ہے یہ زبان حضرت اقدس کی قومی زبان ہے اور آپ حضرت کے پیغام رسالت کا بہت وسیع حصہ اس زبان میں بیان ہوا ہے.اور قرآن کریم کے فرمان کی پاسداری میں ایسا ہونا بھی ضروری تھا.جیسے فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ (ابراهيم: 5) ہم نے ہر رسول کو اس کی قومی زبان میں تبلیغ ہدایت کے لیے بھیجا ہے.دوسرا خیال یہ بھی تھا کہ دراصل آپ حضرت کے متبعین کا عظیم حصہ آپ کی قوم کا ہے جس کی قومی زبان اردو ہے.اس اعتبار سے ان کا حضرت کے اردو کلام سے فائدہ اور لطف اُٹھانے کا زیادہ حق ہے.کوشش ہوگی کہ فارسی اور عربی کلام کے بیان میں اختصار سے کام لیا جائے.ذیلی عنوانات کو ہم نے ایسے ترتیب دیا ہے.اول.آپ کا عقیدہ اور دعاوی دوم.انذار اور تبشیر

Page 91

72 المسيح سوم - تبلیغ اور تلقین چہارم.دعوت میں نرمی اور کوشش پنجم.دعوت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نصرت.

Page 92

73 ادب المسيح آپ حضرت کا عقیدہ اور دعاوی آپ حضرت اپنے عقائد کے بیان میں فرماتے ہیں: مومنوں پر کفر کا کرنا گماں ہے یہ کیا ایمانداروں کا نشاں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راہ احمد مختار ہیں سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل اب تنِ خا کی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا تم ہمیں دیتے ہو کا فر کا خطاب کیوں نہیں لو گو تمہیں خوف عقاب دیکھ لیں کہ کس قدر جامع اور خوبصورت بیان ہے کمال وضاحت بھی ہے اور کمال ایجاز بھی.بیان میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ہے.رسول اکرم پر ایمان خاتم النبیین کے طور پر ہے.قرآن کے تمام احکام پر ایمان کا ذکر بھی آگیا اور خدا اور رسول پر قربان ہونے کا منشاء باری تعالیٰ آ گیا اور یہ بات بھی ہوگئی کہ ایسے مومن کا کافر کہنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے.اس قدر وسیع مضمون کو چند اشعار میں بیان کرنا ادب میں ایجاز“ کہلاتا ہے اور یہ ایجاز کا کمال ہے.آپ حضرت کے بنیادی دعاوی آپ حضرت کے بنیادی دعاوی مجد داسلام.مہدی آخر زمان اور مسیح دور ان کے ہیں.اول کے بارے میں فرماتے ہیں آسماں ہو پر غافلو اک جوش ہے کچھ تو دیکھو گر تمہیں کچھ ہوش ہے گیا دیں کفر کے حملوں سے چور چُپ رہے کب تک خداوند غیور اس صدی کا بیسواں اب سال ہے شرک و بدعت سے جہاں پامال ہے بدگماں کیوں ہو خُدا کچھ یاد ہے افترا کی کب تلک بنیاد ہے

Page 93

ب المسيح 74 وہ خُدا میرا جو ہے جوہر شناس اک جہاں کو لا رہا ہے میرے پاس لعنتی ہوتا ہے مردِ مُفتری لعنتی کو کب ملے یہ سروری ہر صدی کے سر پر مجد ددین کے آنے کا دعوی ہے.اور اس صدی کو تو میں سال گزر گئے اور جس کام کے لیے مجد دآتا ہے یعنی شرک و بدعت کو مٹانے کے لیے وہ تو ظاہر ہو گئے مگر تمھا را مجدد نہیں آیا.جو آیا ہے تم اُس کو مفتری کہتے ہو.یہ تو بتاؤ کہ مفتری کو کتنی مہلت ملتی ہے اور پھر اگر میں مفتری ہوں تو مجھے خدا نے سروری کیسے دے دی.اس بیان میں بھی وہ تمام خوبیاں ہیں جو گذشتہ میں بیان ہوئی ہیں.دعوی ہے، دلیل ہے اور حسن و خوبی ہے.مسیح و مہدی کی آمد مہدی کی آمد کا سب کو صرف انتظار ہی نہیں تھا بلکہ پر جوش تمنا تھی.علماء دین اس کی راہ تک رہے تھے مگر جب آ گیا تو سب سے اول منکر ہوئے اور روحانی نوشتوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں.یہ بھی بتا دیا کہ لَا المَهْدِی إِلَّا عیسیٰ اور یہ بھی بتا دیا کہ جہاد بالسیف کو بند کرنے کی وجہ ان کی مایوسی ہے کہ مال غنیمت حاصل نہ ہوگا.فرماتے ہیں یا دوہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں مهدی موعود حق اب جلد ہوگا آشکار کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش سے کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنیوالے سے پیار پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اول ہو گئے منکر یہی دیں کے منار پھر دوبارہ آگئی اخبار میں رسم یہود پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ بجبہ دار تھا نوشتوں میں یہی از ابتدا تا انتہا پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقش جدار میں تو آیا اس جہاں میں ابنِ مریم کی طرح میں نہیں مامور از بهر جہاد و کارزار اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بیشمار ایسے مہدی کے لیے میداں کھلا تھا قوم میں پھر تو اس پر جمع ہوتے ایکدم میں صد ہزار ا : یہودی صفت علماء

Page 94

75 ادب المسيح مسیحیت کے دعوے کا بیان بھی سن لیں.بہت ہی خوبصورت بیان ہے حقیقی سہل ممتنع ہے یعنی اعلیٰ مضمون کو آسان زبان میں بیان کرنا.فرماتے ہیں.وہ آیا منظر جس کے تھے دن رات گھل گیا روشن ہوئی بات معمہ.دکھا ئیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دے دیں شہادات پھر اس کے بعد کون آئیگا بیہات خُدا سے کچھ ڈرو چھوڑو معادات خُدا نے اک جہاں کو یہ سُنادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مسیح وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مُبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی کے اُن کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اس میں اپنی آمد کا اعلان بھی کیا ہے.زمینی اور آسمانی نشان یعنی کسوف و خسوف اور طاعون و زلازل کا بھی ذکر کر دیا.یہ بھی بیان کر دیا کہ آپ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 4) کی قرآنی پیشگوئی کے مطابق مبعوث ہوئے ہیں تو اس صورت میں مکڈ مین کو پاک خدا ضرور پکڑے گا.آسمان سے حضرت مسیح موعود کی ٹھنڈی ہوا کی آمد کے ذکر میں فرماتے ہیں.آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا دل ہمارے ساتھ ہیں گومنہ کریں بک بک ہزار اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسمان بارد نشان الوقت می گوید زمیں ایں دوشاہد از پئے من نعرہ زن چون بیقرار کے اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار لے آسماں کی آواز سنوکہ مسیح آگیا میسج آ گیا.اور زمیں کو سنو کہ کہتی ہے کہ خوش نصیب امام آگیا ہے.ہے : آسماں نشانوں کی بارش کر رہا ہے.زمیں میرا اوقت بتاتی ہے.یہ دو گواہ میرے لیے بیقراری سے اعلان کر رہے ہیں.

Page 95

المسيح 76 اعلان رسالت کے بہت پیارے انداز کو بھی دیکھ لیں.فرماتے ہیں زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے لاکھ ہوں انبیا ء مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقام احمد ہے باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلامِ احمد ہے ابن مریم کے ذکر کو چھوڑ و اس سے بہتر غلام احمد ہے اور اس الہام کے حسن و خوبی کو دیکھیں.برتر گمان وو ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے حضرت اقدس اپنا روحانی منصب رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی عنایت اور ان کا ہی فیضان سمجھتے ہیں.دیکھ لیں غلام احمد اور جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے“ کیسا اتحاد لفظی اور معنوی ہے.سبحان اللہ.ہندؤں اور دہریوں پر ابلاغ رسالت ہندؤں کے عقیدہ کے مطابق روح انادی ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور خدا کی مخلوق نہیں.اس عقیدہ کا بطلان بہت ہی خوبصورت استدلال سے کیا ہے.فرماتے ہیں: اے آریہ سماج پھنسومت عذاب میں کیوں مبتلا ہو یارو خیال خراب میں اے قوم آریہ ترے دل کو یہ کیا ہوا تو جاگتی ہے یا تری باتیں ہیں خواب میں کیا وہ خدا جو ہے تری جان کا خدا نہیں ایماں کی بو نہیں ترے ایسے جواب میں گر عاشقوں کی روح نہیں اسکے ہاتھ سے پھر غیر کیلئے ہیں وہ کیوں اضطراب میں گر وہ الگ ہے ایسا کہ چھو بھی نہیں گیا پھر کس نے لکھ دیا ہے وہ دل کی کتاب میں جس سوز میں ہیں اس کیلئے عاشقوں کے دل اتنا تو ہم نے سوز نہ دیکھا کباب میں جامِ وصال دیتا ہے اُس کو جو مر چکا کچھ بھی نہیں ہے فرق یہاں شیخ و شاب میں ہے وہ اسی کو جو ہو خاک میں ملا ظاہر کی قیل و قال بھلا کس حساب میں ملتا

Page 96

77 ادب المسيح ہوتا ہے وہ اس کا جو اس کا ہی ہو گیا ہے اُسکی گود میں جو گرا اُس جناب میں فرماتے ہیں: گر عاشقوں کی روح نہیں اسکے ہاتھ سے پھر غیر کیلئے ہیں وہ کیوں اضطراب میں یعنی اگر عاشق کو محبوب سے کوئی تخلیقی اور قلبی مناسبت نہیں تو محبوب حقیقی کے وصال کیلئے کیوں مضطرب.فرماتے ہیں کہ بغیر کسی خالق کے مخلوق خود بخود کیسے ہوسکتی ہے.اس لئے ایسے غیر معقول عقیدہ کے دن تھوڑے ہے اُن کو سو دا ہوا ہے ویدوں کا اُن کا دِل مبتلا ہے ویدوں کا آریو! اس قدر کرو کیوں جوش کیا نظر آ گیا ہے ویدوں کا ؟ نہ رکیا ہے نہ کر سکے پیدا سوچ لو یہ خُدا ہے ویدوں کا عقل رکھتے ہو آپ بھی سوچو کیوں بھروسہ کیا ہے ویدوں کا؟ بے خدا کوئی چیز کیونکر ہو یہ سراسر خطا ہے ویدوں کا ایسے مذہب کبھی نہیں چلتے کال سر پر کھڑا ہے ویدوں کا اس مضمون میں مزید تفصیلی بیان بھی سُن لیں.بھلاتم خود کہو انصاف سے صاف کہ ایشر کے یہی لائق ہیں اوصاف کہ کر سکتا نہیں اک جاں کو پیدا نہ اک ذرہ ہوا اس سے ہویدا نہ اُن بن چل سکے اس کی خُدائی نہ اُن بن کر سکے زور آزمائی نظر سے اس کے ہوں مجوب ومكتوم نہ ہو تعداد تک بھی اس کو معلوم معاذ اللہ ! یہ سب باطل گماں ہے وہ خودا یشر نہیں جو نا تواں ہے اگر بُھولے رہے اس سے کوئی جاں تو پھر ہو جاوے اس کا ملک ویراں پیار و ! یہ روا ہر گز نہیں ہے خُدا وہ ہے جورب العالمیں ہے

Page 97

ب المسيح 78 عیسائیوں پر ابلاغ رسالت قرآن کریم کی شان کے مقابل پر انجیل کو پیش کرنے کی دعوت.اور اس دعوت میں یہ فرمانا کہ اگر تم ایسے کوتاہ بین ہو کہ قرآن کی عظمت کو دیکھ نہیں سکتے تو اپنے کان ہی استعمال میں لاؤ اور مجھ سے اس کی عظمت وشان کا بیان سُن لو.اگر شوق نہیں تو امتحان کے طور پر ہی سُن لو.بہت ہی خوبصورت بیان ہے.آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یونہی امتحان سہی سیہ وہ خالص اردو زبان کا اسلوب ہے جس کو ہم نے بتایا ہے کہ تمام شعراء اردو حاصل کرنا چاہتے ہیں.شرماؤ! فرماتے ہیں.آؤ عیسائیو! ! ادھر آؤ!!! نُور حق دیکھو! راہ حق پاؤ! جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ! خالق ہے اُس کو یاد کرو یونہی مخلوق کو سر پہ نہ بہکاؤ! کب تلک جھوٹ سے کرو گے پیار کچھ تو سچ کو بھی کام فرماؤ! کچھ تو خوفِ خدا کرو لوگو کچھ تو لوگو! خدا اے عزیزو! سنو کہ بے قرآں حق کو ملتا نہیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں اُن پہ اُس یار کی نظر ہی نہیں ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر کہ بناتا ہے عاشق دلبر بات جب ہو کہ میرے پاس آویں میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں مجھ سے اُس دلستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سُنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یوں ہی امتحان سہی

Page 98

ادب المسيح 79 سکھوں پر ابلاغ رسالت ادبی ہیئت کے اعتبار سے چولہ بابا نانک مثنوی کا اسلوب ہے اور اس نوع ادب میں کسی واقعہ کو وضاحت سے بیان کرنا کمالِ ادب ہوتا ہے.اس کو علم تنقید میں محاکات“ کہتے ہیں.اب دیکھ لیں کہ حضرت اقدس نے تمام ادبی اقدار کی کیسی پاسداری کی ہے اور کتنی خوبصورتی سے کی ہے.فرماتے ہیں: یہی پاک چولہ ہے سکھوں کا تاج یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آج یہی ہے کہ ٹوروں سے معمور ہے جو دور اِس سے اُس سے خُدا دور ہے ذرا سوچو سکھو ! یہ کیا چیز ہے؟ یہ اُس مرد کے تن کا تعویذ ہے یہ اُس بھگت کا رہ گیا اک نشاں نصیحت کی باتیں حقیقت کی جاں بھلا بعد چولے کے آے پر غرور وہ کیا کسر باقی ہے جس سے تو دُور تو ڈرتا ہے لوگوں سے اے بے ہنر خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟ یہ تحریر چولہ کی ہے اک زباں! سنو وہ زباں سے کرے کیا بیاں که دین خدا دینِ اسلام ہے جو ہو منکر اُس کا بد انجام ہے محمد وہ نبیوں کا سردار ہے کہ جس کا غدو مثل مُردار ہے ☆

Page 99

ب المسيح وفات مسیح 80 اصلاح عقائد اور ابلاغ آپ حضرت کے وقت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا بجسم عصری آسمان پر جانے کا بہت چر چا تھا.تمام امت یہی عقیدہ رکھتی تھی.حضرت اقدس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کی اصلاح فرمائی.اور اب یہ کیفیت ہے کہ کوئی بھول کر اس کا ذکر نہیں کرتا.آپ حضرت کے بیان کو دیکھ لیں اصلاح کی بنیاد قرآن کے فرمان پر ہے.اور بہت دلنشیں انداز ہے.کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال؟ دل میں اُٹھتا ہے میرے سو سو اُبال ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اُس کو فرقاں سربسر اُس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر وہ نہیں باہر رہا أموات ہو گیا ثابت یہ تئیس آیات سے کوئی مُردوں سے کبھی آیا نہیں یہ تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں عہد شد از کردگارِ بے چگوں غور گن در أَنَّهُمُ لَا يَرْجِعُونَ اے عزیزو! سوچ کر دیکھو ذرا موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا؟ اور فرماتے ہیں: کوئی جو مُردوں کے عالم میں جاوے وہ خود ہو مُردہ تب وہ راہ پاوے کہو زندوں کا مردوں سے ہے کیا جوڑ یہ کیونکر ہو کوئی ہم کو بتاوے لے : یہ خدائے لاشریک کا قانون ہے.وہ لوٹ کر نہیں آئیں گئے، پر غور کرو

Page 100

جہاد بالسیف 81 ادب المسيح ایسا جہادجس سے مراد اسلام کو بزور شمشیر پھیلانا ہے قرآن کی تعلیم نہیں ہے.جبر واکراہ سے اسلام کو پھیلا نا تو لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: 257 ) کے فرمان نے ہی ممنوع کر دیا ہے.اور حضرت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کی جنگوں کو دفاعی کارروائی ثابت کر کے وضاحت کی ہے کہ کیونکہ آپ کے وقت میں تلوار سے اسلام کی اشاعت کو روکا گیا تھا اس لیے جہاد کیا گیا مگر فی زمانہ جبکہ اشاعت اور قبولیت اسلام میں کوئی جبر نہیں کیا جاتا اس لیے دین کے لیے اب جنگ کرنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.فرماتے ہیں: اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خُدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خُدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اُس خبیث کو کیوں بُھولتے ہو تم يَضَعُ الحَرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما پچکا ہے سید کونین مصطفے عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا جب آئیگا تو صلح کو وہ ساتھ لائیگا جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا پیویں گے ایک گھاٹ پر شیر اور گوسپند کھیلیں گے بچے سانپوں سے بیخوف و بے گزند یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائیگا اک معجزہ کے طور سے یہ پیش گوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ صحیح کے آنے کا ہے نشاں کر دیگا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں ☆

Page 101

ب المسيح 82 ابلاغ رسالت میں انکار اور تکذیب اس مضمون میں حضرت کے صبر اور غم کا مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: زعم میں اُن کے مسیحائی کا دعوی میرا افترا ہے جسے از خود ہی بنایا ہم نے کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں! نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سُن کے دُعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے تیری اُلفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ اور فرماتے ہیں: اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے کیسے کافر ہیں مانتے ہی نہیں ہم نے سو سو طرح سے سمجھایا اس غرض سے کہ زندہ یہ ہوویں ہم نے مرنا بھی دل میں ٹھہرایا بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا اور پھر اس بد زبانی سے تکذیب کرنے کا نتیجہ بھی سن لیں.فرماتے ہیں: ترے فضلوں سے جاں بستاں سرا ہے ترے ٹوروں سے دل شمس الضحی ہے اگر اندھوں کو انکار و اباء ہے وہ کیا جانیں کہ اس سینہ میں کیا ہے کہیں جو کچھ کہیں سر پہ خدا ہے پھر آخر ایک دن روز جزا ہے بدی کا پھل بدی اور نامرادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تکذیب و انکار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا بیان بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: پر وہ جو مجھ کو کاذب و مگار کہتے ہیں اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں

Page 102

83 ادب المسيح اُن کے لیے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہر زماں دیکھو! خدا نے ایک جہاں کو جُھکا دیا! گم نام پاکے شہرۂ عالم بنا دیا! جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا کچھ ایسا فضل حضرت رب الوری ہوا سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا میں تھا غریب و بیکس و گم نام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجو ع جہاں ہوا اور فرماتے ہیں.اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا میں کیونکر گن سکوں تیری عنایات ترے فضلوں سے پر ہیں میرے دن رات مری خاطر دیکھائیں تو نے آیات ترتم سے مری سُن لی ہر اک بات کرم سے تیرے دشمن ہوگئے مات عطا کیں تو نے سب میری مُرادات پڑا پیچھے جو میرے غول بدذات پڑی آخر خود اس موذی پر آفات ہوا انجام سب کا نامرادی اور یہ فرمان بھی سُن لیں.فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اس تعصب پر نظر کر نا کہ میں اسلام پر ہوں فدا پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر بار بار میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار حضور اقدس کا منصب رسالت کا بیان بھی سن لیں.مجھ کو خود اُس نے دیا ہے چشمہ توحید پاک تالگا وے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے پھر اگر مخدرت ہے، اے منکر تو یہ چادر اُتار خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں اِن دِلوں میں جب کہ ہے شور قیامت آشکار ایک طوفاں ہے خُدا کے قہر کا اب جوش پر نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار

Page 103

ب المسيح 84 صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامنِ اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بفرق ایں جدار منصب رسالت اور تائید الہی کا ایک اور بیان بھی مشاہدہ کریں: ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے دن دیکھا نہیں کوئی بھی یار غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہوکر پا گیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات وکرم جن کا مشکل ہے کہ تاروزِ قیامت ہو شمار آسماں میرے لیے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لیے تاریک دتار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کیلیے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار ہو گئے بیکا رسب حیلے جب آئی وہ بلا ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثل مخبار ابلاغ رسالت بشیر و نذیر بن کر انبیاء اور مرسلین خدا تعالیٰ سے دو ہی منصب لے کر آتے ہیں.اوّل مقام پر وہ خدا کے پیغام کو ماننے والوں کو بشارت دیتے ہیں اور دوسرے قدم پر خدا کے پیغام کو قبول نہ کرنے والوں کو خدا کے مواخذہ اور پکڑ سے خوف دلاتے ہیں.جیسے قرآن نے فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (البقرة: 120) جیسے حضرت کا الہام ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا تذکرہ صفحہ 81.مطبوعہ 2004ء) اور بشیر ہونے کا الہام ہے.وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ اور تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوش خبری سُنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے.تذکرہ صفحہ 197.مطبوعہ 2004ء)

Page 104

85 ادب المسيح نذیر ہونے کے منصب کے مطابق فرماتے ہیں: دوستو جا گو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے پھر خُدا قد رت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے وہ جو ماہ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ تم یقیں سمجھو کہ وہ اک زجر سمجھانے کو ہے آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج آسماں اے غافلو ! اب آگ برسانے کو ہے اور فرماتے ہیں: سونے والو! جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے جو خبر دی وہی حق نے اُس سے دل بیتاب ہے زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمیں زیر و زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ہے سر رہ پر کھڑا نیکوں کی وہ موٹے کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سیل سے اور فرماتے ہیں: حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے پھر چلے آتے ہیں یا رو زلزلہ آنے کے دن زلزلہ کیا اس جہاں سے کوچ کر جانے کے دن فرماتے ہیں: ابلاغ _ قوم کونصیحت یارو! خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں جو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں! باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں؟ حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں کب تک رہو گے ضِد و تعصب میں ڈوبتے ! آخر قدم بصدق اُٹھاؤ گے یا نہیں کیونکر کرو گے رڈ جو محقق ہے ایک بات؟ کچھ ہوش کر کے عذر سُناؤ گے یا نہیں؟ سچ سچ کہو اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب ! پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھاؤ گے یا نہیں؟ اور فرماتے ہیں: وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا اور آخر پر اس درد بھری آواز کو بھی سُن لیں دوستو اک نظر خُدا کے لیے سید الخلق مصطفے کے لیے

Page 105

المسيح 86 گزشتہ میں مصنف ”آب حیات“ کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ اردو شعری اسلوب کی تعیین کے چار رکن ہیں.اور انہیں ارکان اربعہ پر آئندہ آنے والے ارباب شعر و خن نے مشق سخن کر کے اپنی اپنی عمارتیں قائم کی ہیں اور زبان کو رنگ و روپ دیا ہے اور آخر الامر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اردو زبان کا ادب سادہ اور سہل زبان میں گل کاری کرنا ہے جس کو مولانا حسرت موہانی نے بہت سادہ مگر خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے اور فریضہ اردوادب قرار دیا ہے.رنگینی سخن میں بھی ہے سادگی کی شرط مشکل ہے اس طریقہ آساں کی احتیاط ہمیں اس تحقیق سے انکار نہیں.ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر یہی بات محقق ہے.اور یقینا ہے تو اس اسلوب ادب پر جو سب سے خوبصورت عمارت قائم ہوئی ہے وہ ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.اگر موضوعات شعر اور ترجیحات قلبی کے اختلاف کو پیش نظر رکھا جائے اور صرف اُن موضوعات شعری کا جائزہ لیا جائے جو آپ حضرت نے اختیار فرمائے ہیں تو اردو شعر میں کوئی شعر گو ایسا نہیں ملے گا جو ان کے مقابل پر تو کیا ان کے قریب بھی پہنچ سکے.یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ باوجود اردو زبان کی کم عمری کے اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو اپنے خاص تصرف سے جلدی جلدی پروان چڑھا کر اس قابل بنایا کہ وہ حضرت اقدس کی آمد تک آپ کے کلام کی مدد سے اس مقام تک پہنچ جائے کہ عرفان باری تعالیٰ کے دقیق اور علوی مضامین اور محبت الہی کی کیفیات کو بیان کرنے کے قابل ہو.اردو زبان پر حضرت اقدس کا یہ ایک عظیم احسان ہے.اس وقت تعصب کی کوتاہ بین آنکھ اس ادبی حسن و جمال کا نظارہ کرنے سے قاصر ہے.مگر ایک ایسا وقت ضرور آئے گا کہ آپ کی اس منفردشان کو تمام ادبی محفلوں میں بیان کیا جائے گا اور اس پر مقالے لکھے جائیں گے انشاء اللہ تعالی.

Page 106

87 ادب المسيح فارسی زبان میں ابلاغ رسالت تاریخی اعتبار سے اسلام کی آمد سے قبل فارسی زبان میں کوئی شعری سرمایہ محفوظ نہیں تھا.گو یہ درست ہے کہ قدیم میں ایرانی ادب کے ترانے اور باربد کے راگ ادبی اشعار کے طور پر بولے جاتے تھے.مگر ان میں آج کے وقت کی عربی بحور اور اوزان کا التزام نہیں رکھا جاتا تھا.اسلام اور عربوں کے اقتدار میں آنے کے بعد دو اڑھائی سو سال گزرنے پر اغلبا مامون الرشید کے زمانے کے قرب وجوار میں فارسی شاعری نے عربی بحور اور قواعد عروض کو اختیار کیا تھا.اور پھر ایسا قبول کیا کہ آج اسلامی ادب میں اس کا مقام فرن شعرا اور تخلیق شعر میں سب سے بلند ہے.فارسی شاعری کی ابتدا کے بیان میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح اردو شعر کا باوا آدم ولی دکنی ہے فارسی شعر کی ابتدا رودکی سے ہوئی ہے.مگر رودکی کے بعد فارسی نے جس منصب کے بلند مرتبہ شاعر پیدا کئے ہیں.ان کے مقابل کی تلاش دیگر زبانوں میں ممکن نہیں ہے.فردوسی.سعدی.حافظ اور خیام اور اس سطح کے بہت سے اساتذہ کلام فارسی ہیں جنہوں نے اس زبان کو شعری عظمت دی ہے اور اس کی لسانی نوک پلک درست کر کے ایک کلاسیکی اسلوب شعر متعین کیا ہے.فارسی ایک قدیمی اور مہذب زبان ہے.اپنی قدامت اور تہذیب کے متعدد اور مختلف الانواع ادوار سے گزرنے کی وجہ سے اس زبان میں نازک احساسات اور فلسفیانہ خیالات کے بیان کرنے کی قدرت پیدا ہوگئی ہے.یہی وجہ ہے کہ نو ر رسالت کے حصول کے بعد اس زبان نے اپنے ادبی سمح نظر اور مقصود کو بہت جلد زمینی اور فنا پذیر اقدار حسن و جمال کی قید و بند سے نکال کر حسن کم یول (یعنی محبت الہیہ ) کے قدموں میں رکھ دیا تھا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لا تعداد عاشقانِ محبوب حقیقی نے اپنی واردات عشق و محبت کو بیان کرنے کے لیے اس زبان کا سہارا لیا ہے گویا یہ عشق ومحبت کے اظہار کی زبان ہے.حضرت اقدس کے تینوں زبانوں کے ادب میں گو محبت الہی کا مضمون جاری وساری ہے مگر جس والہانہ انداز میں اور جس کثرت سے یہ مضمون آپ کے فارسی کلام میں ملتا ہے اس طور سے دیگر زبانوں میں نہیں ہے.اردو اور فارسی ادب کے قابل قدرنقا دسید عابد علی عابد نے سچ کہا ہے کہ فارسی ادب کا مزاج روحانی ہے.اس لیے بنیادی طور پر واردات قلبی کا حسین انداز میں بیان ہی فارسی ادب کے اسلوب کا جزو اعظم ہے.فارسی ادب کی اس روایت کے مطابق ابوسعید ابوالخیر سے لے کر سنائی.عطار.مولانا رومی.حافظ اور سعدی

Page 107

ب المسيح 88 اور ایسے ایسے بہت سے شاعر ہیں جن کو الہیات کے موضوعات کا شاعر کہا جاتا ہے.مولانا روم کی مثنوی کے بارے میں تو یہ کہا گیا ہے ” ہست قرآن در زبان پهلوی یعنی فارسی زبان کا قرآن ہے.اسلوب شعری کے اعتبار سے بھی یہی صاحب کمال شاعر ہیں جن کی طرز بیان پر فارسی شعر کی عمارت قائم ہوئی ہے.کسی نے بہت درست کہا ہے.در شعر سه کس پیمبرانند ہر چند کہ لانبـــــی بــعـــدی باوجود اس فرمان کے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا شعر میں تین اشخاص پیغمبر ہیں.ابیات و قصیده و غزل را فردوسی و انوری و سعدی مثنوی اور قصیدہ اور غزل کے اعتبار سے یہ فردوسی اور انور کی اور سعدی ہیں فارسی ادب میں ان تین شاعروں کا اپنی صنف شعر میں بے مثال ہونا تو بالکل برحق ہے.مگر ہم بات اللہیات کے موضوعات کی کر رہے ہیں اور اس تسلسل بیان میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کی بعثت سے قبل جن عنوانات شعری کو الہیات کے مضامین کہا جاتا تھا وہ عمومی طور پر اسلامی اخلاق اور تہذیب کے عنوانات ہیں.کہیں کہیں جستہ جستہ محبت الہی کا ذکر ہوتا ہے مگر وہ بھی اس طور سے کہ کھینچ تان کر ان کے اشعار کے مجازی معنی کئے جائیں تو اُس کا ثبوت ملتا ہے.عرفان الہی کا مضمون تو بالکل کا لعدم ہے.اسلامی سرمایہ ادب میں جس کلام کو صوفیانہ کلام کہتے ہیں وہ اسلامی اخلاق پر وعظ ونصیحت ہے اور باقی مجاز کے پردوں میں چھپا ہوا ہے.یعنی یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ شعر محبوب حقیقی کی محبت کی واردات بیان کر رہا ہے یا محبوب مجازی کی.آذری نے بہت درست کہا ہے: اگر چه شاعران نغز گفتار ز یک جام اند در بزم سخن مست اگرچه قادر الکلام شاعر شعر کی محفل میں ایک ہی جام سے سرمست ہیں ولے با بادہ بعض حریفاں فریب چشم ساقی نیز پیوست مگر بعض دوستوں کی شراب میں کچھ حصہ ساقی کی چشم مست کا بھی ہوتا ہے مبیں یکساں کہ در اشعار ایں قوم ورائے شاعری ” چیزے دگر ہست“ اس لیے یہ خیال نہ کرو کہ ان کے اشعار میں شاعری کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہے چیزے دگر ہست“ کی ترکیب لفظی سے مجھے خیال آیا کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ اکثر وو

Page 108

89 ادب المسيح شاعروں میں بجز شعر گوئی کوئی اور روحانی حقیقت نہیں ہوتی.اسی وجہ سے حضرت اقدس کے اشعار کو دیگر شاعروں کے کلام سے ممتاز کرنے کے لیے آپ کو یہ الہام کیا در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخلی نیست تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جو دیگر شعراء کو نصیب نہیں ہوئی مشاہدہ کریں کہ ” چیزے دگر ہست اور ” چیزے است“ میں کس قدراتحاد لفظی اور معنوی ہے.بات یہ ہو رہی تھی کہ اسلامی ادب شعر میں کوئی بھی ایسا شاعر نہیں جس نے بر ملا اور بے نقاب ہو کر عاشق الہی ہونے کا اعلان کیا ہو.شعر میں یہ ممتاز منصب افتخار صرف اور صرف حضرت اقدس کے اشعار کو نصیب ہوا ہے.جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عطاء خاص کے طور پر بیان بھی کر دیا ہے.مثال کے طور پر آپ کی مناجات کے یہ چند اشعار ہی کافی ہیں.راہم اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش اے میرے خدا میرے گناہ بخش دے دے.اپنی بارگاہ تک میری رہنمائی کر روشنی بخش در دل و جانم پاک گن از گناه پنهانم میرے دل و جان میں روشنی کردے اور پوشیدہ گناہ سے مجھے پاک کردے دلستانی و دلربائی کن نگا ہے گرہ کشائی گن اپنے حُسن سے میرے دل کو چھین لے.ایک نظر سے میری مشکل کشائی کردے و عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی دونوں جہانوں میں تو ہی میرا پیارا ہے.اور جو چیز میں تجھ سے مانگتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے مناجات اور عشق الہی کے عنوان میں ایسا کلام کہاں ملے گا.یہی وہ عنصر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے "چیز" کہا ہے.یہاں تک تو فارسی شاعری پر ایک طائرانہ نظر ہے اور فارسی شعر میں آپ حضرت کی منفرد اور ممتازشان کو بیان در دو کیا گیا ہے.اب وقت آیا ہے کہ یہ بیان کرنے کی کوشش کی جائے کہ فارسی شعر میں اساتذہ فرن شعر جن کی پیمبرانہ ادبی شان گذشتہ میں رقم ہوئی ہے.ان کے اسلوب بیان اور پسندیدہ اصناف شعر کا کچھ ذکر ہو.اس حقیقت سے تو کسی صاحب نظر ادیب کو اختلاف نہیں ہوگا کہ مشرقی ادب، یعنی اُردو، فارسی اور عربی میں بنیادی اور حقیقی اصناف ادب ابیات اور قصیدہ اور غزل ہی ہیں.گواگر ان زبانوں کی شعری تاریخ پر نظر کی جائے تو حقیقت میں قصیدہ ہی ایک ایسی صنف ادب ہے.جس کے بطن سے دیگر اصناف شعر رونما ہوئی ہیں.

Page 109

المسيح 90 قصیدہ در اصل عربی ادب کا باوا آدم ہے.ابتدا میں اسی صنفِ شعر میں تمام دیگر اصناف شعر کے موضوعات شامل ہوتے تھے.جیسے کہ روایہ اس کا اول حصہ تشبیب کہلاتا تھا جس میں شاعر کے محبوب کا حسن و جمال اور اس کی محبت کا بیان ہوتا تھا جو کہ غزل کا موضوع ہے اور قصیدہ کے بطن میں ذاتی یا قومی تفاخر کا بیان ہوتا تھا، جس میں دیگر تمام اصناف شعر دستیاب ہو جاتے تھے.جن کو بعد میں آنے والے ادیبوں نے مستقل اصناف کے طور پر اختیار کر لیا تھا یعنی مثنوی ، غزل ، رباعی اور مدح و تفاخر وغیرہ.اس لیے اگر کہا جائے کہ مشرقی ادب کی بنیاد قصیدہ ہے تو بالکل بے جانہیں ہوگا.تاہم اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ قصیدے کے بطن سے جو دیگر اصناف شعر پیدا ہوئی ہیں وہ اپنی ارتقائی منازل کو طے کرنے کے بعد ایک مخصوص اور منفر داسلوب بیان کے حامل ہوگئی ہیں اور اپنی اپنی ایک منفردشان رکھتی ہیں.چنانچہ مثنوی یا ابیات کا ہیئت اور موضوعات کے اعتبار سے غزل اور قصیدہ سے کوئی اتحاد نہیں ہے اور نتیجہ یہ تینوں بنیادی اصناف شعر اپنے اسلوب میں باہم دگر ممتاز اصناف شعر کی صورت اختیار کرگئی ہیں.اسی حقیقت کی بنا پر ہم نے فیصلہ کیا کہ ان تین اصناف شعر میں حضرت اقدس اور دیگر اساتذہ شعر کو اس طور پر پیش کیا جائے تاکہ ان کے اسلوب شعر کی تعین بھی ہو جائے اور حضرت اقدس کا ان اقدار شعر کی پاسداری کرنا بھی ظاہر ہو جائے.اس سے قبل کہ ہم ان اصناف شعر میں اساتذہ شعر فارسی اور حضرت اقدس کے کلام کو تقابلی موازنہ کے لیے پیش کریں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ گو ہم نے اس غرض کے لیے ابلاغ رسالت کا موضوع انتخاب کیا ہے مگر کیونکہ فارسی زبان بولنے والی اقوام میں ہندو سکھ اور عیسائی مذہب رکھنے والے باشندے نہیں ہیں اس لیے حضرت اقدس کے فارسی کلام میں ان سے خطاب نہیں کیا گیا تا ہم ” کا سر صلیب ہونے کے اعتبار سے عیسائیوں پر ابلاغ دستیاب ہے.اور ایک دو مقامات میں ہندؤوں پر بھی ہے.ان کی دہریت کی بنا پر.دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ شعری تقابل کے تعلق میں اس امر کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا کہ ترجیحات شعری اور موضوعاتِ شعری سے صرف نظر کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے کہ حضرت اقدس نے فارسی زبان کے اسالیب شعری کا کس حسن و خوبی سے التزام کیا ہے.

Page 110

91 ابیات ادب المسيح گذشتہ میں بیان شدہ اصناف شعر کی ترتیب کے مطابق ہم ابیات یعنی مثنوی کی صنف کو اول بیان کرتے ہیں.ابیات دراصل مثنوی کا ہی دوسرا نام ہے.اس طرز کلام میں ہر شعر اپنی بحر اور وزن کے اتحاد کے باوجود اپنا جداگانہ قافیہ رکھتا ہے.اس لیے ان کو ابیات کا نام دیا گیا.مثنوی کے موضوعات تاریخی واقعات اور روایتی حکایات کے ساتھ اخلاقی اور صوفیانہ درس و تدریس بھی ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ مثنوی رزمیہ (یعنی قومی جنگ و جدل کا ذکر) بھی ہوتی ہے اور عشق ومحبت کی داستانوں کے ساتھ صوفیانہ خیالات کے بیان کے لیے بھی اختیار کی جاتی ہے.فر دوستی کی مثنوی رزمیہ ہے.شاہنامہ فردوسی کے نام سے مشہور عام ہے اور خالص زبان فارسی یعنی زبان پہلوی کا شاہکار سمجھا جاتا ہے.اس کے مضامین شاہانِ ایران کی تاریخ، جنگ و جدال اور روایتی قومی حکایات ہیں.دوسری مشہور عالم اور عظیم مثنوی جو مثنوی رومی کے نام سے معروف ہے.منازل سلوک اور دیگر صوفیانہ پر مشتمل ہے.میرے خیال میں فارسی شاعری میں ابوسعید ابوالخیر کے بعد رومی اور سنائی ہی دو ایسے شاعر ہیں جو مجاز سے صرف نظر کرتے ہوئے منازل سلوک اور محبت الہی کو بیان کرتے ہیں اور اُن کے حصول کا درس مضامین پر دیتے ہیں.جیسا کہ کہا گیا ہے کہ مثنوی واقعات کے بیان اور درس و تدریس کی صنف شعر ہے.اس لیے اسلوب بیان کے اعتبار سے اس کی فنی اقدار میں ترتیب بیان اور واردات ذہنی اور قلبی کو سلاست اور وضاحت سے بیان کرنا بنیادی اقدارین ہیں اور یہی دو صفات ہیں جن کی بنا پر فردوسی اور رومی کی مثنویوں کو شاہکار اور لا جواب سمجھا جاتا ہے.فر دوستی کے اشعار کو نمونہ کے طور پر پیش کرنے میں یہ مشکل تھی کہ اس کے موضوعات شعر حضرت اقدس کے موضوعات شعر سے یکسر مختلف ہیں تاہم تلاش بسیار کے بعد شاہ نامہ میں ایک ایسا بیان مل گیا ہے جو حضرت اقدس کا بھی دل پسند مضمون ہے یعنی شناء باری تعالیٰ.فردوسی کہتا ہے: خداوند نام و خداوند جائے خداوند روزی ده رہنمائے ز نام و نشان و گمان برترست خدا اس کا نام ہے اور مالک کل اس کا منصب ہے روزی دینے اور راہنمائی کرنے کا مالک ہے نگارنده بر شده گوهر ست وہ نام ونشان اور قیاس ނ بالاتر ہے وہ قیمتی موتیوں کو پیدا کرنے والا ہے

Page 111

المسيح 92 نیا بد بدو نیز اندیشه راه که او برتر از نام و از جانگاه اس کی ہستی تک عقل کی رسائی نہیں کیونکہ وہ نام ونشاں سے بالاتر ہے خرد را و جان را ہمیں سنجد او در اندیشه سختہ کے گنجد او عقل اور جسم اس سے زندہ ہے اس لیے ناقص خیال میں وہ کیسے سما سکتا ہے به هستیش باید که خسته شوی بیکار یکسوشوی ز گفتار بیکار اس کی ہستی کے بارے میں بہتر ہے کہ اقرار کر لیا جائے اور بے کار گفتگو کو ترک کیا جائے ز دانش دل پیر برنا بود توانا بود هر که دانا بود عقل مند انسان طاقت ور ہوتا ہے اور عظمندی سے بوڑھے کا دل بھی جوان ہو جاتا ہے ازیں پرده برتر سخن گاه نیست هستیش اندیشه را راه نیست اس بیان سے بہتر کوئی بیان نہیں کہ اس کی ہستی تک عقل کی رسائی نہیں ہے اس کے مقابل پر مثنوی کی طرز پر حضرت اقدس کا فرمان مشاہدہ کریں.حمد و شکر آں خدائے کردگار کز وجودش وجودی آشکار ہر اس خدائے کردگار کی حمد اور شکر واجب ہے جس کے وجود سے ہر چیز کا وجود ظاہر ہوا ایں جہاں آئینہ دار روئے اُو ذره ذره ره نماید سوئے اُو یہ جہان اس کے چہرے کے لیے آئینہ کی طرح ہے ذرہ ذرہ اُسی کی طرف راستہ دکھاتا ہے کرد در آئینه ارض و سما اں رُخ بے مثل خود جلوہ نما اس نے زمیں و آسمان کے آئینہ میں اپنا بے ہر گیا ہے عارف بنگاه او دست ہر مثل چهره وکھلا دیا شاف نماید راه او گھاس کا ہر پتہ اس کے کون ومکان کی معرفت رکھتا ہے اور درختوں کی ہر شاخ اُسی کا راستہ دکھاتی ہے تور مهر و مه زِ فیض نُورِ اوست ہر ظہورے تابع منشور اوست چاند اور سورج کی روشنی اُسی کے نور کا فیضان ہے ہر چیز کا ظہور اُسی کے شاہی فرمان کے ماتحت ہوتا ہے ہر سرے سرے زِ خلوت گاہ او ہر قدم جوید در با جاه أو ہر سر اُس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے اور ہر قدم اُسی کا باعظمت دروازہ تلاش کرتا ہے مطلب ہر دل جمال روئے اُوست گھر ہے گرہست بہر کوئے اُوست اُسی کے منہ کا جمال ہر ایک دل کا مقصود ہے اور کوئی گمراہ بھی ہے تو وہ بھی اسی کے کوچہ کی تلاش میں ہے

Page 112

93 ادب المسيح اوّل تو عرفان ہستی باری تعالیٰ میں فردوسی سے بعد اور اختلاف ہے.فردوسی کے بیان میں ایک نا کامی اور لا حاصلی ہے.اس کے خیال میں باری تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے.بہتر ہے کہ اس کی ہستی کو قبول کر لیا جائے.دوسری طرف حضرت اقدس ایک زندہ خدا کی ہستی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں اور کائنات کے ہر ذرہ کو اس ہستی کا گواہ ٹھہراتے ہیں اور انسان کی ہر تمنا اور مقصود کو دراصل باری تعالیٰ کی تلاش کا عمل قرار دیتے ہیں.یہاں تک کہ اگر کوئی گمراہ بھی ہے تو بھی وہ عرفانِ باری تعالیٰ کی تلاش ہی میں گم گشتہ راہ ہے.عرفان باری تعالیٰ میں فردوسی کی اس کم مائیگی کا جواز ہے کہ وہ حضرت کی طرح سے عارف باللہ اور واصل باللہ انسان نہیں تھا.یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار میں تاثیر نہیں.شعر کا ابلاغ کامل تاثیر سے ہوتا ہے اور تا شیر صرف موضوع یا مواد سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ شعر ہونے کے ناطے سے الفاظ اور تراکیب کا حسین اور دلفریب ہونا اس کی تخلیق کا باعث ہوتا ہے اور وہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ صاحب شعر کے جذبات قلبی اور مشاہدات روحانی اس کی اپنی واردات عشق و محبت ہوں.مثنوی کے اسلوب بیان کے اعتبار سے بھی مشاہدہ کریں کہ فردوستی کے بیان میں کوئی ترتیب نہیں ہے.مضامین میں تکرار ہے اور ترکیب لفظی کے اعتبار سے کلام میں بندش کی خوبی اور اس کا حسن و جمال بالکل مفقود ہے.ایک تکنیکی طرز بیان ہے اور اس کے حاصل کلام شعر ( جو کہ ایرانی تہذیب میں مقبول عام ہے ) توانا بود هر که دانا بود زدانش دل پیر برنا بود تعلق ہے اپنی معنوی اور لفظی بندش کی خوبی کے باوجود موضوع کلام سے بے ابیات اور مثنوی کے اسلوب کے بیان میں ہم نے مولانا رومی کو شامل کیا ہے.کیونکہ آپ کی مثنوی بھی فارسی شعر میں شاہکار سمجھی جاتی ہے.واصلین باری تعالیٰ کے مناقب کے بیان میں مولانا رومی کہتے ہیں.بندگان خاص علام الغيوب در جہاں جانِ جواسیس القلوب اس خدائے عالم غیب کے خاص بندے روحانیت کی دنیا میں دلوں کے جاسوس ہوتے ہیں.با ازل خوش با اجل خوش شاد کام فارغ از تشنیع و گفت خاص وعام وہ مشیت ازلی پر راضی اور اجل سے خوش ہوتے اور خاص و عام کے طعن وتشنیع سے بے پرواہ رہتے ہیں.

Page 113

ب المسيح 94 کار ایشان است زاں سوی بری گردوت روشن جو گردره بری ان کے معاملات عیب سے پاک ہوتے ہیں.یہ حقیقت تجھ پر اس وقت کھلے گی جب تو انکی گرد راہ حاصل کرے گا.نور حق ظاهر بود اندر ولی نیک ہیں باشی اگر اہل دلی ولی (خدا کے دوست ) کی ذات سے خدا کا نور آشکار ہوتا ہے.اگر تو اہل دل ہے تو اُن سے نیک گمان رکھ.کاں گروہی کے رهیدند از وجود چرخ و مهر و ماه شاں آرد سجود جو لوگ اپنی ہستی مٹا دیتے ہیں آسمان اور چاند سورج ان کو سجدہ کرتے ہیں.ہر کہ مُرد اندر تن أو نفس گبر مرورا فرماں برد خورشید و ابر جن کے تن کے اندر نفس کافر مر جاتا ہے.آفتاب و ابر ان کی اطاعت کرتے ہیں.چوں دلش آموخت شمع افروختن آفتاب او را نیارد سوختن جنھوں نے محبت کی شمع جلانا سیکھ لی اُن کو آفتاب بھی نہیں جلا سکتا.اولیا را هست قدرت از اله تیرجته باز گرداند نیز راه خدا نے اپنے دوستوں کو یہ طاقت دی ہے کہ کمان سے چھوڑے ہوئے تیر کو راہ سے لوٹا سکتے ہیں.چوں قبول حق بود آن مر در است دست او در کارها دست خداست چونکہ ولی خدا کا مقبول ہوتا ہے اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے.جہل آید پیش او دانش شود جهل شد علمی که در ناقص جہل اس کے حضور میں علم سے مبدل ہو جاتا ہے.اس کے برخلاف ناقص سے منسوب ہو کر علم بھی جہل بن جاتا ہے.اس مضمون میں حضرت اقدس کا کلام بھی سُن لیں رود چو صوف صفا در دل آمیختند مداد از سواد عیوں ریختند جب صفائی کا صوف دل میں ملاتے ہیں تو آنکھوں کی سیاہی سے روشنی ڈالتے ہیں دو چیز است چوپان دنیا و دیں دل روشن و دیده دُور ہیں دو چیزیں دین و دنیا کی محافظ ہیں.ایک تو روشن دل دوسرے دور اندیش نظر خدا راست آن بندگانِ کرام که از بهر شاں می کند صبح و شام خدا کے نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خدا صبح و شام کو پیدا کرتا ہے چو مے بنگرند جہانے بدنبال خود می کشند جب وہ کن انکھوں سے دیکھتے ہیں تو ایک جہاں کو اپنے پیچھے کھینچ لیتے ہیں بدنبال چشم چو

Page 114

95 ادب المسيح اثر هاست در گفتگو ہائے شاں چکد نور وحدت زِ رو ہائے شاں اُن کے کلام میں اثر ہوتا ہے اور اُن کے چہروں سے توحید کا نور ٹپکتا ہے در او شال به اظہار ہر خیر و شر نها دست حق خاصیت مستتر ان میں نیکی اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالے نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے بگفتن اگر چه خدا ولی از خدا هم جدا نیستند اگر چہ کہنے کو وہ خدا نہیں ہیں.لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہیں کسے را که او ظل یزداں بود قیاسش بخود جهل و طغیاں بود جو شخص نیستند ہے خدا کا ظل ہو اس کو اپنے پر قیاس کرنا جہالت اور سرکشی فردوسی کے نمونہ کلام کے بارے میں تو چند لفظی تجزیہ بیان ہو چکا ہے مولانا رومی کے بیان میں بھی یہ بات عیاں ہے کہ اس میں کیفیات کے بیان میں تسلسل اور باہم ربط کا فقدان ہے اور شعری حسن و خوبی کے اجزا جن سے شعر میں حُسن و جمال پیدا ہوتا ہے نمودار نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ باوجود روحانی موضوعات سے ذہنی مناسبت کے ان کا کلام ایک تکنیکی انداز کا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ایک واعظ اور مدرس علمی اعتبار سے عاشقان الہی کا منصب بیان کر رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس سلوک کی راہ میں قرآن کریم کو اول مقام دیتے ہیں اور تمام مسالک سلوک کو قرآن کریم کی تربیت کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور بہت درد سے فرماتے ہیں.دردا که حسن صورت فرقاں عیاں نماند آں خود عیاں مگر اثر عارفاں نماند افسوس ہے کہ قرآن کے چہرہ کا حسن ان پر ظاہر نہیں ہوا.مگر واقعہ یہ ہے وہ تو ظاہر ہے مگر صاحب عرفان ختم ہو گئے ہیں اور بہت تاکید سے فرماتے ہیں کہ تمام دیگر آداب طریقت کو چھوڑ کر قرآن کریم کی تعلیم کو اختیار کرو.جیسے فرمایا: بگذار ورد مثنوی وشغل غزل و شعر ایں خود چه چیز هست اگر قدر آں نماند مثنوی کے درد کو ترک کرو اور غزل و شعر میں مشغول نہ رہو ان کی اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں اگر قرآن کی قدر نہ کی جائے مولانا رومی کے مقابل پر حضرت اقدس کے کلام کو مشاہدہ کریں یہاں معلوم ہوتا ہے کہ ایک عاشق صادق اپنی قلبی واردات اور مشاہدات کو بیان کر رہا ہے اور وہ تمام صفات جو واصل باللہ انسان میں عملی طور پر پیدا ہو جاتی ہیں ان کا ثبوت فراہم کر رہا ہے.اس شعر کے حسن وخوبی کو دیکھیں.فرماتے ہیں: بدنبال چشم چو مے بنگرند جہانے بدنبال خود می کشند جب وہ اپنی آنکھ کے کنارے سے نظر کرتے ہیں تو ایک جہان کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں

Page 115

ب المسيح 96 فارسی میں ” دنبال چشم ، آنکھ کے کنارے کو کہتے ہیں آنکھ کا وہ حصہ جس میں سرمہ لگاتے وقت سرمے کو طویل کر دیا جاتا ہے.اسی بنا پر ایسی آرائش چشم کو سرمہ دنبالہ دار کہتے ہیں (ایسی کیفیت چشم کو کن انکھوں سے دیکھنا بھی کہتے ہیں.مگر کسی اور زبان کی ترکیب لفظی سے وہ معنوی دلالتیں پیدا نہیں ہو سکتیں جو دنبال چشم“ نے پیدا کی ہیں.اس ترکیب لفظی میں استغنی اور محویت اور غیر اللہ سے انقطاع کا انداز بھی ہے.ایک انداز محبوبیت بھی ہے اور بہت کچھ ہے جس کو آپ کے عاشق ہی سمجھ سکتے ہیں.دوبارہ سُن لیں.بدنبال چشمے چومے بنگرند جہانے بدنبال خود می کشند اسلامی دنیا میں واقعاتی طور پر تو یہ حادثہ دو مرتبہ ہی ہوا ہے اول ہمارے آقا اور ہادی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کہ آپ نے ایک نظر سے ایک جہان کو اپنا غلام بنالیا اور دوسرے آپ کے نائب اور مثیل حضرت اقدس علیہ السلام کے وقت میں کہ ایک نیم وا چشم سے ایک جہاں کو اپنی محبت میں مبتلا کر دیا.یہ امر نا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی سب سے بڑھ کر محبت کا جذبہ پیدا نہ کیا ہو اور ایسا حکم صادر فرما دے.یہی تحفہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیا.وَالْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِّنِ وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي اور پھر حضرت اقدس کو یہ نوید عطا کی جیسا کہ الہام حضرت اقدس میں فرمایا: وَالْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِّنِي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي آپ حضرت اس الہام کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (طه: 40) اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی تا میرے رو برو تجھ سے نیکی کی جائے.“ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: تذكرة صفحہ 72 - مطبوعہ 2004ء) اپنی طرف سے میں نے تجھ پر محبت ڈال دی یعنی تجھ میں ایک ایسی خاصیت رکھ دی کہ ہر ایک جو سعید ہوگا وہ تجھ سے محبت کرے گا اور تیری طرف کھنچا جائے گا.میں نے ایسا کیا تا کہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پاوے اور میرے رُو برو تیرا نشونما ہو.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) یہ وہ عظیم الشان تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام عاشقان الہی کو عطا کیا ہے اور حقیقی عاشقانِ الہی انبیاء اور مرسلین

Page 116

ہی ہوتے ہیں.97 ادب المسيح قُلْ اِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجَكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِ؟ وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (التوبة (24) حضرت اقدس اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمھاری عورتیں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ مال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں اور تمہاری سوداگری جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری حویلیاں جو تمہارے دلپسند ہیں خدا سے اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں اپنی جانوں کو لڑانے سے زیادہ پیارے ہیں.تو تم اُس وقت تک منتظر رہو کہ جب تک خدا اپنا حکم ظاہر کرے اور خدا بد کاروں کو کبھی اپنی راہ نہیں دکھائے گا.( تفسیر حضرت اقدس زمر آیت) اسی فرمان خداوندی کی تصدیق میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تین باتیں ہیں جس میں وہ ہوں ، وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس محسوس کرے گا.اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اسے زیادہ محبوب ہو.دوسرے یہ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفر سے نکل آنے کے بعد پھر کفر میں لوٹ جانے کو اتنا نا پسند کرے جتنا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہو.اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ آپ کا یہ بیان وارداتی اظہارِ منصب ہے نہ کہ شاعرانہ موزوں کلامی.خاکسار یقین سے کہہ سکتا ہے کہ واصلین باری تعالیٰ کے مناقب بیان کرنے میں حضرت اقدس کے یہ چندا شعار اسلامی ادب کے شاہکار ہیں اور ان کے مقابل پر کسی کے کلام کو تلاش کرنا ایک بے سود عمل ہے.میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے عاشقانِ باری تعالیٰ نے فارسی زبان میں روحانی مشاہدات اور قلبی واردات کا ذکر کیا ہے جیسے سنائی.عطار.اور رومی اور اس نوع کے دیگر شعراء ہیں مگر تصوف اور سلوک کے مضامین کو بیان کرنے میں یہ خصوصیت که صاحب شعر روحانی مناقب کو ذاتی واردات قلبی اور مشاہدات روحانی کے طور پر بیان کر رہا ہو اسلامی ادب میں ایک ایسا منصب ہے جو کسی اور صاحب شعر کو نصیب نہیں ہوا.یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام

Page 117

المسيح 98 میں ادبی خوبی کے باوجود وہ تاثیر نہیں جو کہ ایک عاشق صادق کے کلام میں ہوتی ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اُن کا کلام کوئی حقیقی جذ بہ اور قلبی حرکت پیدا نہیں کرتا وعظ اور درس مکتب کی حد تک ہی رہتا ہے.حضرت اقدس نے اپنے کلام کی اس منفرد اور ممتاز کیفیت کو کہ یہ ایک عاشق صادق اور واصل باللہ کا کلام ہے بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے.فرماتے ہیں: من نه واعظ که عاشق زارم آید از طور واعظان عارم مجھے عار ہے میں ایک واعظ نہیں بلکہ عاشق زار ہوں اور واعظوں کے طریق نزد بیگانگاں جنوں زده ام نزد معشوق نیک ہشیارم غیروں کے نزدیک میں جنون میں مبتلا ہوں مگر معشوق کے نزدیک میں بہت ہوشیار ہوں اور اس شعر کے حسن و خوبی کو بھی دیکھیں.فرماتے ہیں: رائے واعظ اگر چہ رائے من است لیک عشق تو بند پائے من است اگر چہ میری رائے بھی وہی ہے جو واعظ کی رائے ہے مگر تیرے عشق کی بیڑی میرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہے.پیش کردہ نمونے کے اشعار کے باہم دگر تقابل پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر ہمارا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ فارسی ابیات میں حضرت اقدس کا منصب کس قدر بلند ہے اور یہ کہ آپ کس شان سے اسالیپ شعر فارسی کی پاسداری کرتے ہوئے اساتذ ہ شعر کے ہم پلہ ہی نہیں بلکہ بدر جہا بہتر ہیں.مثنوی کی صنف شعر میں اس فن کے اساتذہ سے حضرت اقدس کے کلام کا تقابلی مواز نہ تو پیش کیا جا چکا ہے مگر کیونکہ ہم نے اس موضوع میں ابلاغ رسالت“ کے عنوان میں اشعار پیش کرنے کا دستور اختیار کیا ہے اس لیے ہم چند ایک مثالیں اس موضوع پر آپ حضرت کی فارسی ابیات میں پیش کرتے ہیں.مرسلین باری تعالیٰ ابلاغ رسالت دوطور سے کرتے ہیں.اول عقلی براہین اور خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق اور اُس کی صفات سے متصف ہونے کو ثابت کر کے.اس طرز پر حضرت اقدس کی تحریر اور تقریر میں ایک منحنیم خزانہ موجود ہے.

Page 118

99 ادب المسيح دوسرے طور پر اپنی صداقت پر خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر یعنی یہ اعلان کر کے کہ اُن کی صداقت کی شہادت خدا تعالیٰ سے طلب کرو.دوسرے طور کی شہادت اس قدر قوی اور مستحکم ہوتی ہے کہ اُس کے بعد کسی عقلی اور منطقی استدلال کی ضرورت نہیں رہتی.یہ شہادت یا تو الہام الہی اور القاء قلبی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے یا مباہلہ کے ذریعہ سے یعنی مرسلین باری تعالیٰ خدا تعالیٰ سے اذن حاصل کر کے اپنے صدق کا ظہور ما نگتے ہیں.الہام اور القاء کے تعلق میں تو حضرت اقدس سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ذریعہ سے آپ کی دعاوی پر ایمان لانے والوں کی ایک جماعت آپ کو عطا کرے گا.چنانچہ یہ الہام الہی آپ پر بہت مرتبہ ہوا ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء وو " تیری مددوہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے ) ( تذکر صفحہ 39 ، 195 ،295، 541،535،301، 623،621 مم مطبوعہ 2004ء) چنانچہ آپ کے سب غلام اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ اُن کے باپ دادوں نے اور آپ کے وقت میں تمام اصحاب نے خدا تعالیٰ سے خبر اور یقین حاصل کر کے آپ کی تصدیق کی.یہی بات حضرت اقدس نے کس خوبصورتی سے بیان کی ہے فرماتے ہیں:.بروئے حضرت داوار سوگند عزیزاں مے دہم صدبار سوگند اے دوستو میں تمہیں سینکڑوں قسمیں دیتا ہوں اور جناب الہی کی ذات کی قسمیں دیتا ہوں محبوب دل ابرار سوگند که در کارم جواب از حق بجوئید به کہ میرے معاملہ میں خدا سے ہی جواب مانگو.میں تمہیں نیکوں کے دلوں کے محبوب کی قسم دیتا ہوں کس قدر درد اور غم سے بھرا ہوا بیان ہے اپنے صدق پر خود ہی گواہ ہے یعنی یہ کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسی سے میرا صدق طلب کرو ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: دو چشم خویش صفا کن که تا رخم بینی وگرنه پیش تو صد عدل ہم جفا باشد اپنی دونوں آنکھیں صاف کرتا کہ میرا چہرہ دیکھ سکے ورنہ تیری نظر میں تو ہر انصاف ہی ظلم دکھائی دے گا مرا بریں سخنم آں فضول عیب کند کہ بے خبر ز ره و رسم دین ما باشد میری اس بات میں وہ فضول گو عیب نکالتا ہے جو ہمارے دین کی راہ و رسم سے بے خبر ہے

Page 119

المسيح 100 کجاست مهم صادق که تا حقیقت ما برو عیاں ہمہ از پرده خفا باشد ایسا ملہم صادق کہاں ہے کہ جس پر ہماری حقیقت پردہ حجاب میں سے بھی ظاہر ہو ابیات کی صنف میں بہت سے زر و جواہر پیش کئے جاچکے ہیں.اس اسلوب شعر پر حضرت اقدس کے منصب عالی کو مزید ظاہر کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی.تاہم اس خیال کے پیش نظر کہ ہم نے چند ایک موضوعات شعری اس مضمون کے تحت پیش کرنے کا دستور بنایا ہے.ابیات میں کچھ ذیلی موضوعات کے اشعار بھی آپ کو سناتے ہیں.اول حضرت اقدس کے کلام میں آپ حضور کے عقائد کا اعلان سُن لیں.ابلاغ رسالت میں یہ عنوان اول مقام رکھتا ہے.فرماتے ہیں: مامسلمانیم از فضل خدا ہم خدا کے فضل ޏ مصطفى ما را امام و مقتدا مسلمان ہیں محمد مصطفے ہمارے امام اور پیشوا ہیں ہم بریس از دار دنیا بگذریم اندریں دیں آمده از مادریم ہم ماں کے پیٹ سے اسی دین میں پیدا ہوئے اور اسی دین پر دُنیا سے گذر جائیں گے آن کتاب حق که قرآن نام اوست باده عرفان ما از جام اوست خدا کی وہ کتاب جس کا نام قرآن ہے ہماری شراب معرفت اُسی جام سے ہے آں رسولے کش محمد ہست نام دامن پاکش بدست ما مدام! وہ رسول جس کا نام محمد ہے.اُس کا مقدس دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے مہر او باشیر شد اندر بدن جان شد و باجان بدر خواهد شدن اُس کی محبت ماں کے دودھ کے ساتھ ہمارے بدن میں داخل ہوئی وہ جان بن گئی اور جان کے ساتھ ہی باہر نکلے گی ہست او خیر الرسل خیر الانام وہی خیر الرسل اور خیر الانام ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تکمیل اُس پر ہوگئی ما از و نوشیم ہر آہے کہ ہست ہر نبوت را برو شد اختتام زو شده سیراب سیرا بے کہ ہست جو بھی پانی ہے وہ ہم اُسی سے لے کر پیتے ہیں جو بھی سیراب ہے وہ اُسی سے سیراب ہوا ہے آنچہ مارا وحی و ایمائے بود! آں نہ از خود از ہماں جائے بود! جو وحی و الہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں وہیں سے آتا ہے

Page 120

ما از و یا بیم ہر نور و کمال! 101 ادب المسيح وصل دلدار ازل بے او محال ہم ہر روشنی اور ہر کمال اُسی سے حاصل کرتے ہیں محبوب از لی کا وصل بغیر اُس کے ناممکن ہے ہر چہ زُو ثابت شود ایمانِ ماست اقتدائے قول او در جانِ ماست اُس کے ہر ارشاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے جو بھی اس کا فرمان ہے اس پر ہمارا پورا ایمان ہے عیسائیوں پر ابلاغ رسالت ہر که در راه محمد زد قدم انبیاء را شد مثیل، آں محترم جس نے محمد کے طریقہ پر قدم مارا.وہ قابل عزت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے تو عجب داری از فوز ایں مقام پائے بند نفس گشته لشته صبح و شام تو اس درجہ کی کامیابی پر تعجب کرتا ہے کیونکہ تو ہر وقت اپنے نفس کا غلام ہے اے کہ فخر و ناز بر عیسی تراست بندہ عاجز بچشم تو خداست اے وہ شخص کہ تجھے عیسی پر فخر اور ناز ہے اور خدا کا ایک عاجز بندہ تیری نظر میں خدا ہے پیش عیسی او فتقادی در سجود ورور شد فراموشت خداوندے تجھے خدائے شفیق بھول گیا اور تو عیسی کے آگے سجدہ میں گر گیا من ندانم این چه عقل است و ذکا بنده را ساختن ربُّ السما میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسی عقل اور ذہانت ہے کہ ایک بندہ کو خدا بنایا جائے فانیاں را نسبتے با او کجا از صفات او کمال است و بقا فانی انسانوں کو خدا سے کیا نسبت اس کی صفت تو کامل ہونا اور ہمیشہ رہنا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدائی منصب دینے کے جواب کو بھی سُن لیں.در آں ابن مریم خدائی نبود ز موت وز فوتش رہائی نبود! اُس ابن مریم میں خدائی نہ تھی.کیونکہ موت و فوت سے اُسے رہائی حاصل نہ تھی رہا کرد خود را ز شرک و دوئی تو ہم گن چنیں ابنِ مریم توئی! اُس نے اپنے تئیں شرک اور دوئی سے آزاد کر لیا تھا تو بھی ایسا کر.ابنِ مریم تو بھی بن جائے گا کتنا پیارا استدلال ہے یہ کہ جو بھی شرک سے کامل پاک ہو جاتا ہے وہ ابن مریم ہوتا ہے.

Page 121

ب المسيح 102 آخر پر ہندوؤں اور دہریوں پر ابلاغ رسالت کا مشاہدہ کریں.جیسا کہ ہندو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روح اور مادہ ہمیشہ سے ہے اور مخلوق نہیں.اس کے جواب میں فرماتے ہیں : اے ز تعلیم ز تعلیم وید آواره منکر از فیض بخش همواره اے کہ تو وید کی تعلیم کی وجہ سے گمراہ ہو گیا ہے اور دائی فیض رساں خدا کا منکر ہے اں قدیرے کہ نیست زو چارہ نزد تو عاجز ست و ناکاره وہ قادر جس کے سوا کسی کا گزارہ نہیں ہے تیرے نزدیک عاجز اور ناکارہ ہے بشنوی گر بود حق رُوئے شورِ قَالُوا بَلَى زِہر سُوئے اگر تیرا منہ خدا کی طرف ہو تو تو ضرور سُنے گا ہر طرف سے قالوا بلی کا شور آنکه با ذات او بقاؤ حیات چوں نباشد بدیع ما آں ذات وہ کہ جس کی ذات سے ہر بقا اور زندگی وابستہ ہے وہ ذات ہماری خالق کیوں نہیں ہوسکتی گے خدا ایں چنیں بود ہیہات ناتوانی ست طور مخلوقات کمزوری تو مخلوقات کا خاصہ ہے مگر خدا ایسا کیونکر ہو سکتا افسوس! ہے - گے پسندد خرد کہ رب قدیر ناتواں باشد وضعیف و حقیر عقل کب پسند کرتی ہے کہ قادر خدا کمزور ضعیف اور حقیر ہو

Page 122

103 قصیده ادب المسيح قبل میں ابیات کی صنف شعر میں حضرت اقدس کے اسلوب بیان کو اساتذ ہ کلام سے تقابل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.یہ مضمون قدرے مفصل ہو گیا ہے اس کے جواز میں اول یہ عرض ہے کہ ہم نے اس بیان میں اصولی اعتبار سے حضرت اقدس کے کلام کی منفرد اور ممتاز عظمت کو عمومی طور پر پیش کر دیا ہے دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ فارسی سرمایہ شعر میں ابیات کی صنف اپنی وسعت بیان اور فنی اعتبار سے ایک اہم مقام رکھتی ہے.فارسی شعر میں مثنوی کے طرز میں لا تعداد کلام ہے.تاریخ.وعظ و نصیحت.عشقیہ حکایات اور اخلاقیات سب اس صنف کے موضوعات ہیں اس لیے فارسی شاعری کی فنی اقدار اور کلاسیکی اسلوب زبان کی تعیین بہت حد تک اسی صنف شعر کی مرہون منت ہے.فردوسی رومی.سعدی اور عبدالرحمن جامی اور اس منصب کے بہت سے شعراء اس صنف میں طبع آزمائی کر کے اساتذہ فن شاعری کہلاتے ہیں.دوسرے الفاظ میں مثنوی کی طرز نگارش فارسی اسلوب بیان کا ایک مستحکم ستون ہے.شاید فارسی شاعری کی اسی روایت پر چلتے ہوئے حضرت اقدس کا فارسی کلام بھی نصف یا اس سے کچھ کم و بیش اسی صنف شعر میں وارد ہوا ہے.طوالت کا ایک سبب یہ بھی ہے.یہی چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم نے ابیات یعنی مثنوی کی صنف کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے.فارسی ادب میں ابیات کے بعد قصیدے کا مقام ہے.جیسا کہ گذشتہ میں بیان شدہ قطعہ میں کہا گیا ہے ابیات و قصیده و غزل را فردوستی و انورتی و سعدی دراصل فارسی شعر میں ابیات اور قصیدہ ہی دو ایسی اصناف ہیں جن سے دیگر اصناف شعر نے جنم لیا ہے کیونکہ ان دواصناف شعر میں غزل اور مرثیہ.رباعی اور قطعہ اور دیگر اصناف رزم و بزم کے مضامین بھی شامل ہوتے ہیں.قصیدہ عربی شاعری کی اہم ترین صنف ہے فارسی زبان میں اسی توسط سے آیا ہے.حقیقت میں فارسی اور اردو شاعری نے عربی قصیدہ میں ہی جنم لیا ہے اور ان کی تمام اصناف شعر اسی عربی صنف شعر کی رہین منت ہیں.اپنی ہیئت کے اعتبار سے اس کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور باقی اشعار میں مصرعہ ثانیہ ہم قافیہ ہوتا ہے.ادب عربی کے دستور کے مطابق اس کا اول رکن ” تشبیب کہلاتا ہے جس میں تذکرہ شباب اور محبوب کی صفات بیان ہوتی ہیں.

Page 123

المسيح 104 دوسرا رکن گریز“ کہلاتا ہے یعنی اول ذکر کے بعد چند اشعار میں روئے سخن ممدوح کی طرف کیا جاتا ہے اور تیسرے رکن میں ”مدح کو بیان کیا جاتا ہے اور چوتھے مرحلے پر دعا ہوتی ہے کہ ممدوح کی عمر دراز ہو اور فتح و کامرانی نصیب ہو اور مطلوب بھی بیان ہوتا ہے.فنی اعتبار سے قصیدے کا یہی ڈھانچہ (STRUCTURE) ہے جو قدیم سے اس وقت تک قائم ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ فارسی شاعری عربی شاعری کی پروردہ ہے اور اردو شاعری نے ان دونوں زبانوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے اسی لیے وراثت کے طور پر فارسی اور اردو شاعری کا اسلوب ادب عربی نقش ونگار رکھتا ہے.تاہم فارسی زبان تک پہنچنے تک قصیدے کی وہ ہیئت نہیں رہی جو عربی کلاسیکی ادب میں تھی.اس تبدیلی کی اہم وجہ تو یہ ہے کہ فارسی زبان میں قصیدہ سلاطین کے دربار سے وابستہ ہو گیا اور بادشاہوں کی مدح سرائی اس کا اولین موضوع بن گیا اس لیے عربی دستور کے مطابق تشبیب اور گریز کی ضرورت نہ رہی البتہ مدح اور حسنِ طلب اور دعا کے عناصر قائم رہے.ایک وجہ اختلاف یہ بھی ہے کہ فارسی زبان کے قصیدہ نگاروں نے صرف مدح وستائش اور تفاخر کے موضوع سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دیگر موضوعات پر بھی قصائد تخلیق کئے ہیں.یہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر فارسی قصیدے کی ہیئت بھی تبدیل ہوئی اور اس کو موضوعات کی وسعت بھی نصیب ہوئی نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ فارسی اساتذہ شعر نے مدیحہ قصائد کے ساتھ دیگر موضوعات پر بھی قصائد تخلیق کئے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو قصائد مدیحہ نہیں اور دیگر موضوعات پر ہیں ان ہی کی بنا پر انور کی اور خاقانی جیسے عظیم المرتبت شاعروں نے اپنے ہنر کو پیش کیا ہے اور ادب فارسی کے شاہکار تخلیق کر کے داد تحسین لی ہے اور اساتذہ شعر کہلائے ہیں.انوری کا وہ قصیدہ جو اس نے تاتاریوں کے حملہ کے بعد خراسان کی بدامنی کے بیان میں لکھا ہے.فارسی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے اس کے ابتدائی بند یہ ہیں.بر سمرقند اگر بگذری ای باد سحر نامہ اہل خراسان به برخاقان بر اے صبح کی ہوا! اگر تو سمر قند سے گزرے تو اہل خراسان کا عریضہ خاقان کی خدمت میں پہنچا دینا.نامه مطلع آں رنج تن وآفتِ جاں نامه مقطع آن درد دل و خونِ جگر ایسا عریضہ جس کا آغاز جسمانی رنج و درد اور روحانی تکلیف سے ہے.جس کا اختتام درد دل اور خون جگر پر ہے.

Page 124

105 ادب المسيح نامه بر قیمش آه عزیزاں پیدا نامه در شکنش خون شهیدان مضمر ایسا عریضہ جس کی تحریر سے عزیزوں کی آہیں ظاہر ہیں اور جس کی شکن میں شہیدوں کا خون مضمر ہے اور خاقانی کا قصیدہ جو خرابہ مدائن" کے عنوان سے مشہور ہے اور جو اس نے شاہان ایران کے محلات کی تباہی اور ان کے کھنڈرات کو دیکھ کر لکھا تھاوہ بھی فارسی ادب کا شاہکار ہے اس کے ابتدائی بند یہ ہیں.ہاں ای دل عبرت بین از دیدہ نظر کن ہاں ایوان مدائن را آئینه عبرت داں ہاں اے دل عبرت والی آنکھوں سے دیکھ اور مدائن کے محل کو عبرت کا آئینہ جان.یک ره ز ره دجله منزل بمدائن کن از دیده دوم دجله برخاک مدائن راں ذرا دریائے دجلہ کی راہ سے مدائن میں گزر اور آنکھوں سے ایک دوسرا د جلہ مدائن کی خاک پر بہا.خود دجلہ چناں گرید صد دجله خون گوئی کز گرمی خونابش آتش چکد از مژگاں خود دجلہ مدائن کی ویرانی پر خون کے سینکڑوں دریا بہاتا ہے.گویا اشک خون کی گرمی سے اس کی پلکوں سے آگ برستی ہے.جیسا کہ گذشتہ شعر میں بیان ہوا ہے کہ قصیدہ میں انوری کی پیغمبرانہ شان ہے.میں نے اس کو وسیع کر کے خاقانی کو بھی شامل کر لیا ہے کیونکہ فارسی قصیدہ میں یہ دونوں اوّل مقام کے فنکار ہیں اور ان کا ذکر صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ حضرت اقدس کے فارسی قصائد کے نمونے پیش کرنے سے قبل فارسی قصیدہ کے اسالیب ادب کا کچھ تعارف ہو جائے اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ قصیدہ کی صنف صرف مدح وستائش کے بیان میں محدود نہیں.دیگر موضوعات بھی اس کے دائرہ پہن میں آتے ہیں.قبل میں جو اساتذہ کے نمونے پیش کئے گئے ہیں وہ وطن کی محبت کے جذبات کے اظہار میں ہیں.حضرت اقدس کے قصائد کے موضوعات خالصتا محبت الہی اور دین اسلام کی صداقت اور مسلمانوں کی دین کی طرف سے غفلت کے بیان میں ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں.بتاج وتخت زمیں آرزو نے دارم نہ شوق افسر شاہی بدل مرا باشد میں کسی زمینی تاج و تخت کی خواہش نہیں رکھتا نہ میرے دل میں کسی بادشاہی تاج کا شوق ہے مرا بس است که ملک سما بدست آید که ملک و ملک زمین را بقا کجا باشد میرے لیے یہی کافی ہے کہ آسمانی بادشاہت ہاتھ آ جائے کیونکہ زمینی ملکوں اور جائدادوں کو بقا نہیں ہے

Page 125

ب المسيح 106 حوالتم بفلک کرده اند روز نخست کنوں نظر بمتاع زمین چرا باشد جبکہ خدا نے مجھے روز اول سے آسمان کے حوالہ کر دیا ہے تو اب دنیاوی پونجی پر میری نظر کیونکر پڑسکتی ہے مرا که جنت علیاست مسکن و ماوی چرا بمز بلہ ایں نشیب جا باشد جب کہ میرا مسکن و ماویٰ جنت الفردوس ہے تو پھر میرا ٹھکانہ اس گڑھے کی گوڑی میں کیوں ہو البته سعدی کا قصیدہ جو خلافت عباسیہ کے زوال کے غم میں لکھا گیا ہے.گو اپنے موضوع میں متحد نہیں.مگر چند اعتبار سے باہم دگر تعلق رکھتا ہے.اول یہ کہ حضرت اقدس نے سعدی کی زمین اور قافیہ کا اتباع کیا ہے اور دوم یہ کہ دونوں کو امت مسلمہ کی زبوں حالی کا غم ہے.مگر فرق یہ ہے کہ سعد کی عباسی خلافت کی دنیوی شان و شوکت کے زوال کو امت مسلمہ کا زوال سمجھ کر اپنے غم کا اظہار کر رہے ہیں.اور آپ حضرت ، سعدی کے جذبات غم و غصہ کا رخ موڑ کر یہ فرمار ہے ہیں کہ اسلام کا زوال دنیا کی جاہ و حشمت کے زوال سے نہیں ہوگا بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو بھلا کر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور غیرت کے زوال سے ہوگا اوّل سعدی کا اقتباس مشاہدہ کریں.آسماں راحق بودگر خوں ببارد برز میں برز وال ملک مستعصم امیر المومنین ترجمہ: امیر المومنین مستعصم باللہ ( خلیفہ بغداد) کی حکومت کے زوال پر اگر آسمان زمین پر خون کا مینہ برسائے تو بجا ہے ای محمد گر قیامت می براری سرز خاک سر برآورویں قیامت درمیان خلق ہیں اے رسول خدا اگر آپ قیامت میں قبر پاک سے سراٹھائیں گے تو اب اٹھائیے کیونکہ دنیا میں قیامت برپا ہوگئی ناز نینان حرم را موج خونِ بے دریغ ز آستاں بگذشت و مارا خونِ چشم از آستین حرم خلافت کے نازک انداموں کے خون کی موجیں آستانے سے باہر نکل گئیں اور اس غم میں ہماری آنکھوں کا خون آستین سے بہنے لگا.زینهار از دور گیتی و انقلاب روزگار در خیال کس نہ گشتے کا نچناں گرد و چنیں گردشِ فلک اور انقلاب روزگار سے خدا کی پناہ! یہ بات کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تھی کہ اس عروج کا یوں زوال ہوگا.دیده بردار اے کہ دیدی شوکت بیت الحرم قیصرانِ روم سر برخاک و خاقان برز میں اے شخص جس نے دربار خلافت کی شان و شوکت دیکھی ہوگی کہ قیصر وخا قان اسکی خاک پر سر رکھتے تھے اب آنکھ اٹھا کر یہ حال دیکھ.

Page 126

107 ادب المسيح خون فرزندان، عمّم مصطفى شد ریخته ہم براں خا کی کہ سلطاناں نہا دندے جبیں کہ رسول کے چچا عباس کی اولاد کا خون اسی زمین پر جہاں سلاطین اپنی پیشانیاں جھکاتے تھے بہہ رہا ہے.اور پھر آپ حضرت کا فرمان مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں.می سزد گر خون بارد دیدہ ہر اہلِ دیں بر پریشاں حالی اسلام وقحط المسلمین مناسب ہے کہ ہر دیندار کی آنکھ خون کے آنسو روئے ، اسلام کی پریشان حالی اور قحط المسلمین پر دین حق را گردش آمد صعبناک و سهمگیں سخت شورے اوفتاد اندر جہاں از کفر وکیس خدا کے دین پر نہایت خوفناک اور پر خطر گردش آگئی.کفر وشقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہو گیا آنکه نفس اوست از ہر خیر وخوبی بے نصیب می تراشد عیبها در ذات خير المرسلین و شخص جس کا نفس ہر ایک خیر و خوبی سے محروم ہے وہ بھی حضرت خیر الرسل کی ذات میں عیب نکالتا ہے آنکه در زندان ناپاکی ست محبوس و اسیر هست درشان امام پاکبازاں نکتہ چیں! وہ جو خو ناپاکی کے قید خانے میں اسیر و گرفتار ہے وہ بھی پاکبازوں کے سردار کی شان میں نکتہ چینی کرتا ہے.تیر بر معصوم مے بارد جیسے بد گہر آسمان را مے سز دگر سنگ بارد بر زمیں بداصل اور خبیث انسان اُس معصوم پر تیر چلاتا ہے آسمان کو مناسب ہے کہ زمین پر پتھر برسائے.پیش چشمان شما اسلام در خاک اوفتاد چیست عذرے پیشِ حق اے مجمع المُتَنعمیں تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلام خاک میں مل گیا.پس اے گروہ امراء تمہارا خدا کے حضور میں کیا عذر ہے.ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو ا فواج یزید دین حق بیمار وبیکس ہمچو زین العابدیں افواج یزید کی مانند ہر طرف کفر جوش میں ہے اور دین حق زین العابدین کی طرح بیمار وبیکس ہے مردم ذی مقدرت مشغول عشرتہائے خویش محرم وخنداں نشسته با بُنانِ نازنین امراء عیش وعشرت میں مشغول ہیں اور حسین عورتوں کے ساتھ خرم وخنداں بیٹھے ہیں عالماں را روز وشب با ہم فساد از جوش نفس زاہداں غافل سراسر از ضرورتہائے دیں! علماء دن رات نفسانی جوشوں کے باعث آپس میں لڑ رہے ہیں اور زاہد ضروریات دین سے بالکل غافل ہیں.

Page 127

ب المسيح 108 یہ امر تو دونوں قصائد کے مطلع سے ہی ثابت ہے کہ آپ حضرت نے سعدی کے قصیدے کے جواب میں ہی اپنا قصیدہ رقم فرمایا ہے مگر جو بات ہم پیش کرنا چاہتے ہیں.وہ ان دونوں کے محرکات تخلیق کا اختلاف ہے یعنی ایک طرف دنیوی جاہ و حشمت کے تلف ہونے کا غم ہے اور دوسری جانب اسلامی اقدار اور دین سے محبت کے فقدان کا غم ہے.دراصل حضرت اقدس کا قصیدہ سعدی کے نقطہ نظر کی اصلاح کی غرض سے ہے.یعنی یہ کہ اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان اس روحانی تعلیم کی وجہ سے ہے جو وہ لائے نہ کہ دنیوی جاہ وحشمت سے.فرماتے ہیں.اے مسلماناں چہ آثار مسلمانی ہمیں ست دیں چنیں ابتر شما در جیفہ دنیا رہیں ترجمہ: اے مسلمانو! کیا یہی مسلمانی کی علامتیں ہیں دین کی تو یہ حالت ہے اور تم مر دارد نیا سے چھٹے ہوئے ہو قصیدہ کی صنف شعر میں جو شاعر صاحب منصب ہیں.ان کے اقتباسات تو پیش کئے جاچکے ہیں.خاص طور پر سعدی کے قصیدے کا حضرت کے قصیدے سے ایک حد تک فتنی اور علمی تقابل بھی ہے.اب ہم زیر قلم مضمون کے موضوع کے مطابق فارسی زبان میں ابلاغ رسالت کے چند نمونے قصیدے کی صنف میں پیش کرتے ہیں.اول مقام پر ہم حضرت کے دعوئی مسیحیت کے بیان میں آپ کے عظیم الشان میمیا قصیدے کے اقتباسات پیش کرتے ہیں.ادبی اعتبار سے یہ قصیدہ حافظ شیرازی کے مشہور قصیدہ کی زمین میں ہے جو اس نے بادشاہ منصور کی مدح میں رقم کیا تھا اس لحاظ سے حافظ شیرازی کے اسلوب بیان سے بھی آپ حضرت کے اسلوب کا تقابل ہو جائیگا اور کوشش ہوگی کہ اختلاف موضوع کی پاسداری کیساتھ دونوں قصائد کی ادبی شان کا تقابلی مطالعہ بھی ہو جائے.یہ کوشش اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ قصائد صرف ایک زمین ہی میں رقم نہیں ہوئے بلکہ بہت سے اشعار میں ان کا لفظی اور معنوی اتحاد بھی پایا جاتا ہے.بلکہ اسی زمین میں حضرت اقدس کے ایک شعر کا مصرعہ ثانی حافظ سے توارد ہے.حافظ کہتے ہیں: گر بر کنم دل از تو و بردارم از تو مهر ایں مہر بر که افگنم آں دل کجا برم ترجمہ: اگر تجھ سے دل ہٹالوں اور تجھ سے محبت نہ کروں تو اس محبت کو کس پر وارد کروں! اس دل کو کہاں لے جاؤں.

Page 128

حضرت اقدس فرماتے ہیں.109 ادب المسيح گر مہر خویش بر کنم از روئے دلبرم آں مہر بر که افگنم آں دل کجا برم ترجمہ : اگر میں اپنی محبت کو اپنے دلبر کی جانب سے ہٹا لوں تو اس محبت کو کس سے لگاؤں اور اس دل کو کہاں لے جاؤں.دراصل حضرت کا یہ قصیدہ سعدی کے قصیدے کی طرح سے حافظ کے قصیدے کا جواب ہے.مگر یہ حقیقت تو واضح ہے کہ حافظ کے شعر میں وہ شعری نزاکت اور سلاست نہیں جو کہ آپ کے شعر میں ہے درحقیقت یہ ایک اصلاح ہے اور ایسی اصلاح جس سے شعر کی معنوی اور جمالیاتی قدر و قیمت بڑھ جائے اہل ادب کی نظر میں مقبول ہوتی ہے.حافظ کے اس قصیدے کے مقابل پر آپ حضرت نے بہت سے مقامات میں قافیہ کی مناسبت سے بہت ہی خوبصورت مضامین باندھے ہیں اور مدح و توصیف کا صحیح منصب بیان کیا ہے جیسے کہ حافظ اپنے ممدوح کو مخاطب کر کے کہتا ہے.نامم ز کارخانه عشاق محو باد گر جز محبت تو بود شغل دیگرم ترجمہ: خدا کرے کہ عاشقوں کے کارخانے سے میرا نام مٹ جائے اگر تیری محبت کے سوا میرا کوئی دوسرا شغل ہو اور آپ حضرت باری تعالیٰ کی محبت میں فرماتے ہیں.دریاب چونکہ آب ز بهر تو ریختیم دریاب چونکه جز تو نما نداست دیگرم ترجمہ: میری داد کو پہنچ کیونکہ میں نے تیرے لئے آنسو بہائے ہیں.میری فریا دسن کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی نہیں رہا.حافظ کہتے ہیں.را هم مزن بوصف زلال خضر که من از جام شاہ جرعه کش حوض کوثرم ترجمہ: خضر کے صاف پانی کی تعریف کر کے مجھے گمراہ نہ کر کیونکہ میں شاہ کے جام سے حوض کوثر کے جام پی رہا ہوں.

Page 129

المسيح 110 آپ حضرت اپنے منصب کے بیان میں فرماتے ہیں.واللہ کہ ہمچو کشتی نوحم از کردگار بے دولت آنکه دور بماند دلنگر ترجمہ: بخدا میں اپنے پروردگار کی طرف سے نوح کی کشتی کی مانند ہوں.بدقسمت ہے وہ جو میرے لنگر سے دُور رہتا ہے این آتشے کہ دامن آخر زماں بسوخت از بیر چاره اش بخدا نمبر کوثرم یہ آگ جس نے اس آخری زمانہ کا دامن جلا دیا ہے.خدا کی قسم میں اس کے علاج کے لیے نہر کوثر ہوں اور آخر پر محبت الہی اور عشق رسول کے بیان کا مشادہ کریں.حافظ کہتا ہے.حافظ نے جاں محبت رسول است و آل آں بر این سخن گواه ست خدا وند اکبرم ترجمہ: حافظ اپنی جان سے رسول اور اُس کی آل سے محبت کرتا ہے.میرے اس قول پر خداوندا کبر گواہ ہے اور آپ حضرت فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخند اسخت کا فرم ترجمہ : خدا کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں.حافظ نے ایک زمینی بادشاہ کی مدح میں قصیدہ کہا ہے اور حضرت اقدس نے ایک آسمانی بادشاہ کی عظمت و شان میں ( ابلاغ رسالت کی غرض سے ) مدح سرائی کی ہے.مدیحہ قصائد ہونے کے اعتبار سے ان میں مکمل اتحاد ہے اور فنی اعتبار سے بر وقافیہ کے ہم صفت ہونے کا ذکر ہو چکا ہے.مگر حافظ کے اشعار کے مقابلہ پر حضرت اقدس کے اشعار کا تقابلی موازنہ کریں تو صاف واضح ہو جائے گا کہ جس شعری نزاکت اور زبان اور بندش کا حسن و جمال حضرت کے کلام میں ہے.وہ عناصر شعر حافظ کے کلام میں دستیاب نہیں.اور مدروح کا اختلاف تو ایسا ہے کہ جیسے حضرت اقدس حافظ کی تادیب فرما رہے ہوں کہ اگر مدح و توصیف ہی کرنی ہے تو پھر بادشاہوں کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اور اس کے مرسلین کی کرو کہ اس کے حقیقی حقدار تو وہی ہیں.

Page 130

111 ادب المسيح یہ تقابل قدرے طویل ہو گیا ہے مگر اس طوالت کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ فارسی شعر میں فردوسی.سعدی اور حافظ کے سے منصب کے اساتذہ شعر کا آپ حضرت کے کلام سے موازنہ ہو گیا.اور یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ آپ حضرت فارسی اسالیب ادب میں ان سب سے ارفع و اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور ان میں وہ چیز نہیں جس کو خدا تعالیٰ نے ” چیزے است“ کہا ہے ادبی اعتبار سے فارسی قصائد میں آپ حضرت نے جو معرکہ آرا اور عدیم المثال قصیده در معرفت انسانِ کامل مظہر حق تعالی کے عنوان سے رقم فرمایا ہے.اس کی مثال فارسی ادب میں نہیں مل سکتی موضوع اور مدوح کے اعتبار سے بھی کسی صاحب شعر نے انسان کامل اور مرسلین باری تعالیٰ کے مناصب اور ان کی اوصاف کے بیان میں اس شان اور عظمت سے مدح سرائی نہیں کی.اس نایابی کی حقیقی وجہ تو روحانی ہے.یعنی یہ کہ ممدوح کی روحانی عظمت و شان کا عرفان اور شعور اُسی کو حاصل ہو سکتا ہے.جس نے خدا تعالیٰ کا قرب پا کر وہ تمام صفات حاصل کی ہوں جو مقربین اور مرسلین کو عطا کی جاتی ہیں.دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مدحیہ قصائد کی خوبی اس میں ہے کہ جو کچھ کہا جائے وہ سچ ہو مگر قرب الہی اور محبت الہی کا صدق تو صرف مرسلین باری تعالی ہی بیان کر سکتے ہیں.جن کا بیان مشاہدات ذاتی اور واردات قلبی کا اظہار ہوتا ہے اور برحق ہوتا ہے.اسلوب بیان کے اعتبار سے قصیدے کی ایک خاص زبان ہے.علامہ شبلی کے الفاظ میں ” بندش میں چستی الفاظ متین اور پریشان.خیالات میں بلندی اور رفعت اس کی خصوصیات ہیں.مزید کہتے ہیں کہ سنجیدہ اور متین خیالات کے ادا کرنے کے لیے قصیدے کا ہی اسلوب بیان موزوں ہوتا ہے.ان تمام صفات لفظی اور معنوی کا خلاصہ یہ ہے کہ قصیدہ کا حسن و خوبی اور اس کی حقیقی شان.الفاظ کے اعتبار سے ان کا پُر شوکت ہونا اور تراکیب میں حسنِ بیان ہونا ہے.اور مواد کے اعتبار سے اگر قصیدہ مدحیہ ہے تو مدح و منقبت کا سچائی پر مبنی ہونا ہوتا ہے.زیر نظر قصیدے میں تمام صفات بدرجہ اتم موجود ہیں اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ عدیم المثال ہیں.اس حقیقت کو مزید روشن کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہیئت کے اعتبار سے بھی اس کی عظمت و شان کو اقدار قصیدہ نگاری کے دستور کی روشنی میں اجاگر کریں.جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ قصیدہ کی صنف ادب کے چار ارکان ہیں اول رکن تشبیب ہے جو کہ محبوب کی صفات اور اس کے حسن و جمال کے بیان میں ہوتی ہے.حضرت اقدس محبوب الہی اور مقربین باری تعالیٰ میں سے تھے اس لیے ان کا حسن و جمال روحانی ہی ہوسکتا ہے اس بیان میں حضرت اقدس کے پچاس سے زائد اشعار ہیں.اور ایسے ہیں کہ اس مضمون میں کوئی شاعر یا

Page 131

ب المسيح 112 نثر نگار آپ کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا.اس بیان کی عظمت اور شوکت اور شعری زبان پر مقدرت اور حسن بیان کے اظہار کیلئے چند اشعار پیش ہیں.فرماتے ہیں.مصطفى ہماں ز نوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما باشد انسانوں میں وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے بتابد از رُخ او نور عشق و صدق و وفا ز خلق أو كرم و غربت و حیا باشد اس کے چہرہ سے عشق اور صدق وصفا کا نور چمکتا ہے.کرم.انکسار اور حیا اس کے اخلاق ہوتے ہیں صفات او همه ظلِ صفاتِ حق باشند ہم استقامت او ہمچو انبیاء باشد اس کی ساری صفات خدا کی صفات کا پر تو ہوتی ہیں اور اس کا استقلال بھی انبیا کے استقلال کی مانند ہوتا ہے رواں بچشمه او بحر سرمدی باشد عیاں در آئینه اش روئے کبریا باشد اس کے سرچشمہ سے ابدی فیضان کا سمندر جاری ہوتا ہے اور راُس کے چہرہ میں خدائے بزرگ کا چہرہ نظر آتا ہے صعود أو ہمہ سوئے فلک بود ہردم وجود او ہمہ رحمت چو باشد اس کی پرواز ہر وقت آسمان کی طرف ہی ہوتی ہے.اور اس کا وجود مصطفی کی طرح سراسر رحمت ہوتا ہے خبر دهد بقدومش خدا به مصحف پاک هم از رسول سلامے بصد شنا باشد خدا اس کی تشریف آوری کی خبر قرآن مجید میں دیتا ہے اور رسول کی طرف سے بھی سینکڑوں ثنا اور سلام بھیجے جاتے ہیں اس شعر میں حضرت اپنا کر فرمارہے ہیں کیونکہ آپ ہی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے کا کہا گیا تھا اور آپ ہی کا ذکر خدا تعالیٰ نے وَآخَرِينَ مِنْهُمُ کے فرمان میں کیا ہے.دراصل یہ عقیدہ آپ ہی کے روحانی منصب کے بیان میں ہے.نه تا بد از ره جانان خود سر اخلاص اگر چه سیل مصیبت بزور ها باشد وہ اپنے محبوب کی راہ میں کبھی اخلاص میں کمی نہیں آنے دیتا.خواہ مصیبتوں کا سیلاب کتنے ہی زوروں پر ہو قصیدے کا دوسرا رکن گریز کہلاتا ہے.یعنی اصل مقصد اور موضوع کی طرف رخ پھیرنا.اس کے حسن و خوبی کو بھی ملاحظہ کریں.

Page 132

113 ادب المسيح فرماتے ہیں.نہیں حادثہ بنیاد دیں زجا ببرد اگر ز ملت ما ظل شال جدا باشد حادثات کی غارتگری دین کی بنیاد کو ہلا دے اگر ہمارے مذہب سے ان لوگوں کا سایہ الگ ہو جائے اور فرماتے ہیں: ازین بود که چو سال صدی تمام شود بر آید آنکه بدیں نائب خُدا باشد یہی وجہ ہے کہ جب صدی کے سال ختم ہوتے ہیں تو ایسا مرد ظاہر ہوتا ہے جو دین کے لیے خدا کا قائمقام ہوتا ہے اور پھر اس وضاحت کے بعد فرماتے ہیں: رسید مژده زعیم کہ من ہماں مردم که او مجدد ایں دین و رہنما باشد مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجد د اور راہ نما ہے لوائے ما پنہ ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد ہمارا جھنڈا ہر خوش قسمت انسان کی پناہ ہو گا.اور کھلی کھلی فتح کا شہرہ ہمارے نام پر ہوگا.اس گریز میں کمال فن کے بعد حضور قصیدہ کا تیسرا رکن اختیار فرماتے ہیں اور اپنے مقصد اور مدعا کے اظہار کے طور پر اپنے دعاوی بیان فرماتے ہیں.آپ حضرت اپنے دعاوی کے صدق کے بیان میں تقریباً ایک صد اشعار میں اپنا روحانی منصب بیان کر کے اپنی سماوی تعلیم کو قبول کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اور کس قدر خوبصورتی اور وقار اور تمکنت سے فرماتے ہیں.اول آپ کے دعاوی کو ایک مقام پر مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: برآید آنکه بدیں نائب خدا باشد از میں بود که چو سال صدی تمام شود یہی وجہ ہے کہ جب صدی کے سال ختم ہوتے ہیں تو ایسا مردظاہر ہوتا ہے جو دین کیلئے خدا کا قائم مقام ہوتا ہے رسید مژده زغیم کہ من ہماں مردم که او مجدد ایں دین و رہنما باشد مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجد د اور راہنما ہے.منم مسیح بیانگ بلند می گویم منم خلیفہ شا ہے کہ برسا باشد میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ میں ہی مسیح ہوں اور میں ہی اُس بادشاہ کا خلیفہ ہوں جو آسمان پر ہے مویدے کہ مسیحا دمست و مهدی وقت بشان او دگرے گے نہ اتقیا باشد وہ تائید یافتہ شخص جو مسیحا دم اور مہدی وقت ہے اُسکی شان کو اتقیا میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا

Page 133

ب المسيح منم مسیح زمان و منم کلیم خد 114 خدا منم محمد و احمد که مجتبی باشد میں ہی مسیح وقت ہوں اور میں ہی کلیم خدا ہوں.میں ہی وہ محمد اور احمد ہوں جو حتمی ہے مرنج از سخنم ایکه سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحی کبریا باشد اے وہ شخص جو بالکل بے خبر ہے میری بات سے ناراض نہ ہو.کہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے کیکه گم شده از خود بنورِ حق پیوست ہر آنچه از دهنش بشنوی بجا باشد ایسا شخص جو اپنی خودی کو چھوڑ کر خدا کے نور میں جاملا.اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہوگی.اور پھر آپ اپنی تعلیم اور امامت کو قبول کرنے کی تلقین میں فرماتے ہیں.چو غنچه بود جہانے خموش و سربسته من آمدم بقدومی که از صبا باشد یہ جہاں ایک غنچہ کی طرح بند تھا میں (اس کے لیے ) ان برکتوں کو لے کر آیا ہوں جو بادصبالا یا کرتی ہے چه فتنه ها که بزا دست اندریں ایام کدام راه بدی کو در اختفا باشد اس زمانہ میں کس قدر فتنے پیدا ہو گئے ہیں اور کونسا راستہ بدی کا ہے جو مخفی ہے محال ہست کزیں فتنہ ہا شوی محفوظ مگر ترا چوبمن گام اقتدا باشد ناممکن ہے کہ تو ان فتنوں سے بچ سکے سوائے اس کے کہ تو میری پیروی کرے کسیکه سایه بال ہماش سُود نداد ببایدش که دو روزے بظل ما باشد وہ شخص جسے بال ہما نے بھی فائدہ نہ دیا ہو اسے چاہئیے کہ دو دن ہمارے زیر سایہ رہے مُسلّم است مرا از خدا حکومت عام که من مسیح خدایم که بر سما باشد خدا کی طرف سے میری حکومت ثابت ہو چکی ہے کیونکہ میں اُس خدا کا مسیح ہوں جو آسمان پر ہے قصیدے کا تیسرا رکن جس کو دعا کہتے ہیں اس کا بھی مشاہدہ کر لیں کیونکہ حضرت اقدس نے یہ قصیدہ اپنی بعثت کے اعلان کے لئے رقم فرمایا ہے.اس لئے دعا بھی اس طور سے فرمائی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے دعا گو ہیں اور بجز اعانت اسلام آپ کا دیگر مقصد نہیں ہے.اس لئے خدا تعالیٰ سے دعا کر کے میری صداقت کا ثبوت حاصل کرو اور آپ سے دشمنی اور عناد نہ رکھو.فرماتے ہیں.چه حاجتست که رنجے کشی بتالیفات که امتحان دعا گو ہم از دعا باشد کیا ضرورت ہے کہ تو کتا بیں تصنیف کرنے کی تکلیف اٹھائے کیونکہ دعا گو کا امتحان بھی دعا ہی کے ذریعہ سے ہوتا ہے

Page 134

115 ادب المسيح بروئے یار کہ ہرگز نہ رتبتے خواہم مگر اعانت اسلام مدعا باشد خدا کی قسم میں ہرگز کوئی عزت اور مرتبہ نہیں چاہتا میرا مطلب تو صرف تائید اسلام ہے سیاه باد رخ بخت من اگر به دلم دگر غرض بجز از یار آشنا باشد میری قسمت کا منہ کالا ہو اگر میرے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی غرض ہو ره خلاص کجا باشد آن سیه دل را آں کہ با چنیں دل من در پئے جفا باشد اُس سیاہ دل انسان کو نجات کیونکر مل سکتی ہے جو میرے جیسے دل والے پر ظلم کرنے کے درپے ہو اور فرماتے ہیں چوسیل دیده ما هیچ سیل و طوفاں نیست بترس زیں کہ چنیں سیل پیش پا باشد ہماری آنکھ کے سیلاب کی طرح کا اور کوئی سیلاب نہیں اس بات سے ڈر کہ کہیں یہ سیلاب تیرے سامنے ہی نہ ہو ز آه زمرة ابدال بایدت ترسید على الخصوص اگر آو میرزا باشد تجھے ابدالوں کی جماعت کی آہوں سے ڈرنا چاہیئے.خصوصا اگر مرزا (غلام احمد ) کی آہ ہو

Page 135

ب المسيح 116 غزل ہم نے فارسی ادب میں حضرت اقدس کی عظمت کے اظہار کے لئے ایک قدیمی فارسی قطعہ کے بیان کے مطابق تین بنیادی اصناف شعر کے مسلمہ اساتذہ کے مقابل پر ان اصناف میں حضرت اقدس کے کلام کو پیش کرنے کا دستوراختیار کیا ہے.یہ اصناف.ابیات و قصیدہ اور غزل ہیں.ابیات اور قصیدہ کا تقابلی موازنہ گذشتہ میں پیش کیا جا چکا ہے.اس مقام پر فارسی غزل پر ایک مختصر اور طائرانہ نظر کی جائیگی.جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ اردو اور فارسی شعر و ادب کا باوا آدم عربی قصیدہ ہے اور اس امر پر تمام محققین کا اتفاق ہے کہ غزل کی جدا گانہ صنف کی تخلیق اُن عشقیہ اشعار کی مرہون منت ہے جو عربی قصیدہ کی ابتدایا تمہید میں مرتب کئے جاتے ہیں جن کو تشبیب یا تنسیب کہتے ہیں.ایرانی شعراء نے قصیدے کی تشبیب کو ایک مستقل صنف شعر کے طور پر اختیار کر لیا اور اس کو موضوع کی پاسداری میں غزل کا نام دیا اور اس صنف میں عظیم الشان ادبی شاہکار پیدا کئے.معنوی اعتبار سے غزل کا موضوع محبوب مجازی کے حسن و جمال اور اس سے واردات عشق و محبت کا بیان ہے.اس کے برعکس حضرت اقدس کا شعری موضوع تمام تر محبوب حقیقی کی عظمت و شان اور باری تعالیٰ کی محبت کے بیان میں ہے.یہی وجہ ہے کہ فارسی شعر کی اس صنف کو حضرت اقدس نے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور غزل کے انداز میں آپ کی صرف چند ایک غزلیں ہیں اور وہ بھی بر ملا اور واضح طور پر عشق الہی کے بیان میں ہیں.غزل کے عام طور پر اختیار نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرت نے ان مضامین کو جو غزل میں بیان ہوتے ہیں.دیگر اصناف شعر میں اس قدر حسن و خوبی سے بیان کیا ہے کہ آپ کو غزل کی ضرورت نہیں رہی.آپ حضرت نے ابیات و قصیدہ اور نظم کی اصناف میں کمال حسن و جمال کیساتھ عشق الہی اور محبت الہی کے مضامین کو باندھا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ حضور کے اشعار کا عنوان کوئی بھی ہو آپ کی بات عشق الہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی ختم ہوتی ہے.آپ ہی کا تو یہ فرمان ہے.عاشق زار در ہمہ گفتار سخن خود کشد بجانب یار حقیقی عاشق اپنی تمام گفتگو میں اپنے کلام کو محبوب کی طرف پھیر لیتا ہے

Page 136

اسی مضمون میں کسی استاد کا شعر ہے.117 ادب المسيح در دلے ما غم دنیا غم معشوق شود باده گر خام بود پخته کند شیشه ما ترجمہ: میرے دل میں دنیا کا غم بھی محبوب کا غم ہو جاتا ہے اگر شراب خام بھی ہو تو بھی میرے دل کی صراحی اُسے پختہ کر دیتی ہے.یعنی تمام غم محبوب کے غم میں ڈوب جاتے ہیں.غزل کی لغوی تعریف کے تعلق میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے عملی طور پر فارسی ادب میں اس صنف شعری کو صرف مجازی عشق و محبت کے بیان میں محدود نہیں کیا گیا.چنانچہ رود کی سے لے کر آج کے شعراء تک غزل کے مضامین میں بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے اور اخلاق اور دین اور محبت الہی اس صنف کے تسلیم شدہ موضوعات بن چکے ہیں.فارسی ادب میں ابوسعید ابوالخیر.سعدی.سنائی.عطار اور رومی نے فارسی غزل کو تصوف اور محبت الہی کے بیان سے آشنا کیا ہے.اور پھر سعدی کی شکستہ اور سلیس زبان اور حافظ کے والہانہ پر درد کلام نے فارسی ادب کے روحانی مزاج کو متعین کیا ہے.اور اس میں سلوک کے مضامین کے اسلوب بیان کو تخلیق کیا ہے.شاید فارسی زبان کا یہ ارتقائی سفر ہی اس اعزاز کا باعث ہوا ہو کہ ہمارے آقا اور مطاع حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی زبان کے سوا صرف فارسی زبان ہی میں الہام ہوا ہے.ایس مشتِ خاک را گر نه خشم چه کنم اس مٹھی بھر خاک کو اگر معاف نہ کروں.تو کیا کروں ) باری تعالیٰ کا یہ فرمان فارسی محاسن کلام کا معراج ہے اور ہر انسان کے لیے ایک مردہ جانفرا ہے.اس تسلسل میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فارسی شاعروں کی خوش نصیبی ہے کہ ان میں سے سعدتی کے آٹھ اور حافظ کے تین اشعار اور مصرعے حضرت اقدس کو الہام ہوئے ہیں اس خوش نصیبی کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شاعر آپ حضرت کے دل پسند شاعر تھے اور آپ کی پسند کی پاسداری میں اللہ تعالیٰ نے مختلف پیش آمدہ حالات کے مطابق آئندہ کی اخبار دینے کی غرض سے اُن کے کلام میں آپ سے خطاب کیا اور آپ کی دل پسندی کو اپنی پسند بھی بنالیا.مثال کے طور پر ایک موقع پر مخالفین کی طرف سے ایک اشتہار میں آپ کے خلاف بد کلامی پر آپ کو بہت رنج ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دلجوئی کے طور پر حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ الہام کیا:

Page 137

ب المسيح 118 حالیا مصلحت وقت دران می بینم ترجمہ: ابھی میں اس میں مصلحت وقت سمجھتا ہوں.( تذکرہ صفحہ 212.مطبوعہ 2004ء) مکمل شعر اس طور سے ہے اور یقیناً حضرت کو اس کا علم ہوگا.حالیا مصلحت وقت دراں می بینم که کشم رخت به میخانه وخوش بنیشم ترجمہ: فی الحال مصلحت وقت اسی میں ہے کہ اپنا سامان میخانہ میں لے جاؤں اور آرام کروں.یعنی خدا کا ارادہ یہی ہے کہ مخالفین کی سخت زبانی سے صرف نظر کرتے ہوئے اللہ کی محبت میں محو ہو جاؤ.دل آزاری کے موقع پر اس طور سے سکینت نازل فرمانا ایک دل فریب انداز تربیت ہے یعنی یہ کہ جب میں تمہیں اپنی محبت کے جام پلا رہا ہوں تو دنیا کی سخت کلامی کا کیا غم ہے.ادبی اعتبار سے صاحب نظر ہی ایسی برمحل بات کہہ سکتا ہے اور ایک صاحب نظر ہی اس کا صحیح لطف اُٹھا سکتا ہے.اور محبوب حقیقی اور محبت صادق سے بڑھ کر اور کون صاحب نظر ہو سکتا ہے.ایک اور مثال بھی سُن لیں.حضرت اقدس کو آپ کے وصال کی خبر دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے سعدی کا شعر انتخاب کیا مباش ایمن از بازی روزگار مکن تکیه بر عمر نا پائیدار ( تذکرہ صفحہ 640 مطبوعہ 2004ء) ترجمہ : زمانے کے کھیل سے بے خوف نہ رہو.نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کرو.اس شعر کا دوسرا مصرع تو وفات سے چند روز قبل الہام ہوا تھا.یہاں پر بھی بے انتہا محبت اور ادبی شان کے ساتھ آپ کو سفر آخرت کی خبر دی ہے.گذشتہ میں قصیدہ کے عنوان کے تحت سعدی اور حافظ کے قصائد سے حضرت کے قصائد کا موازنہ کر کے ہم یہ حقیقت واضح کر چکے ہیں کہ آپ حضرت کا اسلوب شعر ان دونوں اساتذ ہ شعر فارسی کے اسلوب سے صرف قریب ہی نہیں بلکہ محاسنِ کلام کے اعتبار سے ان سے اعلیٰ اور ا رفع ہے.اس لئے اگر اسلوب شعری کی بات ہوگی یہ کہنا درست ہوگا کہ آپ حضرت کا اسلوب شعر خصوصا قصائد اور غزل میں ان دو عظیم المرتبت شاعروں کے ہم پلہ ہے.البتہ ابیات اور مثنوی میں آپ حضرت کا طرز بیان مولانا رومی کے اسلوب پر ہے اور یہی تین سخن ور آپ حضرت کے دل پسند شاعر بھی ہیں.

Page 138

119 ادب المسيح اس بات کے ثبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ حضرت نے اپنی تحریر اور تقریر میں بہت سے مقامات پر ان شاعروں کے اشعار کو قبول کرتے ہوئے بیان کیا ہے.محترم عبد الحق صاحب رامہ مرحوم کی تلاش کے مطابق آپ حضرت نے شیخ سعدی کے توے سے بھی زائد شعر اور ان کے بعد مولانا روم اور حافظ شیرازی کے چھپیں چھپیں اشعار اختیار کئے ہیں.فارسی ادب میں غزل کی صنف کے بارے میں بیان ہو چکا ہے کہ بقول علامہ شبلی " غزل کا اصل خمیر عشق و محبت کا اظہار ہے اور یہ بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اساتذہ ادب نے اس صنف شعر کو صرف مجازی عشق کے بیان سے مخصوص نہیں کیا بلکہ محبوب حقیقی کی محبت اور عشق کا اظہار اس صنف کا مقبول موضوع ہے.عشق و محبت کے طرز بیان میں جو عنا صر ادب غزل کے اجزائے اعظم ہیں وہ علامہ شبلی کے کہنے کے مطابق دحسن بیان ، خوبی ادا اور زبان کی شستگی ہے.اور ان تمام عناصر کا اجتماع حافظ شیرازی کے کلام میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس کی فارسی میں جو بھی چند ایک غزلیں ہیں وہ حافظ شیرازی کے اسلوب بیان کی حسن و خوبی رکھتی ہیں.اگر فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ حافظ کا کلام مجازی معانی اور تعبیر کی راہ سے محبوب حقیقی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور حضرت کا خطاب بر ملا اور ظاہر محبوب حقیقی اور اس کی واردات عشق و محبت کو بیان کرتا ہے اور یہی وہ فرق ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم آپ حضرت کے کلام کو ایک منفرد اور جدا گانہ مکتب شعر کہیں.حافظ شیرازی کے اسلوب کے تتبع میں اول تو آپ حضرت کی ایک غزل مسلسل ہے جو آپ نے ردیف اور قافیہ کی تبدیلی کے ساتھ تخلیق کی ہے.حافظ کی یہ ایک مشہور عالم اور مقبول عام غزل ہے جس کا مطلع یہ الا يَا أَيُّهَا السَّاقِي اَدِرُ كَاسًا وَّ نَاوِلُهَا که عشق آسان بود اول ولی افتاد مشکل با ترجمہ: اے ساقی پیالہ دے اور اس کا دور چلا کیونکہ اول اول عشق آسان لگتا ہے مگر پھر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.حضرت اقدس اس کے جواب میں کہتے ہیں: بده از چشم خو د آبی درختان محبت را مگر روزے دہندت میوہ ہائے پُر حلاوت را ترجمہ: محبت کے درختوں کو اپنی آنکھوں کے پانی سے سیراب کرتا کہ ایک دن وہ تجھے شیریں پھل دیں.

Page 139

المسيح 120 یہ ایک طور سے حافظ کے شعر کا جواب ہے کہ اگر عشق حقیقی ہو تو اس میں مصیبت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام ہوتا ہے.حافظ کی اسی غزل کا ایک شعر تو لفظاً آپ نے اختیار فرمالیا.گو موضوع کی تبدیلی کے ساتھ حافظ کہتا ہے.شب تاریک و بیم موج و گر دا بے چنیں ہائل کجا دانند حال ما سبکساران ساحل با ترجمہ: تاریک رات ہے اور سیلاب کا خوف اور خوفناک بھنور.ساحلوں پر بے فکری سے سیر کرنے والے ہمارا حال کیا سمجھ سکتے ہیں.حضرت اقدس اس بے بسی کی کیفیت کو دین اسلام اور قوم کی غفلت کے غم میں بیان کرتے ہیں.فرماتے ہیں: در میں ہنگام پر آتش بخواب خوش حساں خیسم زماں فریا د میدارد که بشتا بید نصرت را ترجمہ: اس آتشیں زمانے میں آرام کی نیند کیونکر سوسکتا ہوں جبکہ زمانہ فریاد کر رہا ہے کہ جلدی مدد کو پہنچو.شب تاریک و بیم دزد و قوم ما چنیں غافل کجا زیں غم روم یا رب نما خود دست قدرت را ترجمہ: اندھیری رات ہے، چور کا خوف ہے اور قوم غافل ہے.اس غم سے کہاں جاؤں؟ يا رب خود دست قدرت دکھا.مشاہدہ کریں کہ موضوع کے اختلاف کے باوجود حضرت اور حافظ کا کس قدر اتحاد لفظی و معنوی ہے.ایک اصلاح بھی ہے کہ تاریک رات میں موج و گرداب کا خوف نہیں ہوتا چور کا ضرور ہوتا ہے.گو غافل کی رعایت سے چور درست ہے اور ساحل کی رعایت سے موج و گرداب درست ہے.مگر اس بحری طوفان میں ساحل پر سیر و تفریح کرنے والے کیسے پہنچ گئے.یہ ایک رعایت لفظی ہے اور حضرت کا کلام ایک حقیقت پر مبنی حادثہ ہے جس کے بیان کیلئے ضائع بدائع کے سہارے کی ضرورت نہیں.حضرت فرماتے ہیں کہ دشمن اسلام کا حقیقی مال و متاع لوٹ رہے ہیں مگر قوم غافل ہے اور یہ کہ آپ کو اس غم سے خدا تعالیٰ کی نصرت ہی نجات دلا سکتی ہے.یہ ایک واقعاتی صدق پر مبنی مشاہدہ ہے.حافظ کی طرح سے تختیل اور لفظی ہنرمندی نہیں ہے.تاہم ترکیب الفاظ اور

Page 140

جذبے کے اظہار میں مکمل اتحاد ہے.121 ادب المسيح حافظ کے اسلوب بیان کے مطابق حضرت کے کلام میں بہت سے نمونے پیش نظر ہیں.ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں.حافظ کی مشہور غزل جس کا مطلع یہ ہے.بنال بلبل اگر با منت سرے یا ریست که ما دو عاشق زاریم و کار ما زار لیست ترجمہ: اے بلبل ! اگر تو مجھے دوست رکھتی ہے تو آہ و نالہ کر کیونکہ ہم دونوں عاشق زار ہیں اور ہمارا کام گریہ وزاری کرنا ہے.حضرت فرماتے ہیں: محبت تو دوائے ہزار بیماری است بروئے تو کہ رہائی درمیں گرفتاری است ترجمہ: تیری محبت ہزار بیماریوں کی دوا ہے.تیرے منہ کی قسم ہے کہ ایسی گرفتاری ہی میں اصل رہائی ہے.حافظ کہتے ہیں: خیال زلف تو پختن نه کار خاما نیست که زیر سلسله رفتن کمال عیاریست ترجمہ: تیری زلف کا خیال پختہ کرنا خام کاروں کا کام نہیں اس لئے کہ زلف کی زنجیر میں آنا ہی اصل عیاری ہے.حضرت فرماتے ہیں: پناہ روئے تو جستن نه طور مستان است که آمدن به پناهت کمال ہشیاری است ترجمہ: تیرے چہرے کی پناہ ڈھونڈھنا بے ہوش لوگوں کا کام نہیں کیونکہ تیری پناہ میں آجانا کمال ہشیاری کا کام ہے آپ دیکھ لیں حافظ بلبل کیسا تھ گریہ وزاری پر مجبور ہے مگر حضرت اقدس اس عشق و محبت کے مضمون کو کتنا

Page 141

المسيح 122 خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ تیری محبت میری مشکلوں کا علاج ہے اور گو میں محبت میں گرفتار ہوں مگریچ یہ ہے اسی میں میری رہائی ہے اور یہی میری دلی تمنا ہے.دوسرے شعر میں تو مکمل اتحاد لفظ و معانی ہے مگر جو سلاست اور حسنِ بیان حضرت کے شعر میں ہے اور جس طور سے مست اور ہشیار کا تقابل کیا ہے وہ دیدنی ہے.حافظ عشق و محبت کے بیان کے مسلمہ طور پر مقبول شاعر ہیں شاید اسی مناسبت سے حضرت اقدس کا عشق الہی کا اسلوب حافظ کے طرز بیان پر ہے اور شاید اسی مناسبت کے تحت محبوب حقیقی نے حافظ کے شعر میں الہام کیا کہ جن لوگوں ( یعنی حضرت اقدس ) کے دل عشق الہی سے زندہ کئے جاتے ہیں ان کو زندگی دوام ملتی ہے اور زمانہ اُن کو معدوم نہیں کر سکتا.حافظ کہتا ہے: ہرگز نمیرد آن که دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما ترجمہ: جن کا دل عشق کی وجہ سے زندہ کیا جاتا ہے وہ کبھی نہیں مرتے ہماری ہمیشگی دنیا کی تاریخ میں درج ہو چکی ہے.دراصل یہ محبوب حقیقی کیطرف سے ایک محبت کا پیغام تھا کہ تم میرے محبان میں شامل ہو چکے ہو.اس لئے جس طور سے میری ذات جاودانی ہے میرے عشاق بھی معدوم نہیں ہوا کرتے.مگر قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس محبت کے پیغام کو پہچانے کے لئے محبوب لم یزل نے حافظ کے شعر کا انتخاب کیا ہے اور آپ حضرت کی طرف یہ پیغام بھیجا ہے.کیا اس عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عشق و محبت کا سب سے بہتر اظہار حافظ ہی کر سکتا ہے اور یہ کہ اس شعر کے اصل مخاطب اور حقدار آپ حضرت اقدس ہی تھے.شاید آپ حضرت نے انہیں مناسبتوں کی پاسداری میں اس شعر کو اپنے دوشعروں میں اس کے حقیقی معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محفوظ کر لیا ہے.فرماتے ہیں: آں ناں کہ گشت کو چہ جاناں مقام شاں ثبت است بر جریدہ عالم دوام شاں ترجمہ: وہ لوگ جن کا مسکن محبوب کا کوچہ ہو گیا ہے.دنیا کے دفتر میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا.

Page 142

123 ادب المسيح ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق میرد کسے کہ نیست مرامش مرام شاں ترجمہ: جس کا دل عشق سے زندہ ہو گیا ہو.وہ کبھی نہیں مرتا.مرتا وہی ہے جس کا مقصد عاشقوں کی طرح سے نہ ہو.غزل کے اسلوب میں حافظ شیرازی کا منصب اور حضرت اقدس کا اس کی پاسداری میں غزل کہنا کافی تفصیل سے بیان ہو چکا ہے.ایک بات کہنی رہ گئی ہے یہ کہ باری تعالیٰ جل شانہ اور حضرت اقدس کی جناب میں شمس الدین حافظ کی یہ مقبولیت یقیناً اس کے لئے عین سعادت اور جائے افتخار ہوگی.ہم نے دستور بنایا ہے کہ اسلوب شعری کو ہم ابلاغ رسالت کے عنوان کے تحت پیش کریں گے اور اساتذہ شعر سے آپ کے شعری منصب کا تقابل کریں گے آپ حضرت کے اردو اور فارسی اشعار کا اساتذہ شاعری کے ہم پلہ بلکہ ان سے بہتر ہونے کا ثبوت تو گذشتہ میں وضاحت سے بیان ہو چکا ہے اور ابلاغ رسالت کی امثال بھی پیش کی جاچکی ہیں.مگر غزل کی صنف میں ایک مشکل درپیش ہے کہ غزل کی صنف کا موضوع سخن واردات عشق و محبت کا بیان ہے.اس لئے اس صنف شعر میں منطقی استدلال اور تبشیر وانذار کے مضامین بیان نہیں ہو سکتے.یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت نے غزل کے اسلوب کی پاسداری میں اس صنف میں عمومی طور پر ابلاغ رسالت کے موضوع کو اختیار نہیں کیا اور یہی آپ کا ادبی منصب تھا.مگر غزل کے اسلوب میں لقاء باری تعالیٰ اور محبت محبوب ازل ضرور بیان ہو سکتی ہے.اور عاشق الہی ہونا ہی منصب رسالت کا جزو اعظم ہے.اس لئے محبت الہی کے بیان میں ابلاغ رسالت فرمایا ہے.اس اعتبار سے ہم چند ایک نہایت درجہ خوبصورت امثال پیش کرتے ہیں.بہت خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں.دعوی رسالت بده از چشم خود آبی درختان محبت را مگر روزے دہندت میوہ ہائے پُر حلاوت را محبت کے درختوں کو اپنی آنکھوں کے پانی سے سیراب کر.تا کہ ایک دن وہ تجھے شیر میں پھل دیں من از یار آمدم تا خلق را این ماه بنمایم گرامروزم نمی بینی به بینی روز حسرت را میں اُس یار کی طرف سے آیا ہوں کہ مخلوق کو یہ چاند دکھاؤں اگر آج تو مجھے نہیں دیکھے گا تو ایک روز حسرت کا دن دیکھے گا.

Page 143

المسيح 124 اگر از روضه جان و دل من پرده بردارند به بینی اندران آن دلبر پاکیزه طلعت را اگر میرے جان و دل کے چمن سے پردہ اٹھایا جائے تو تو اُس میں اُس پاکیزہ طلعت معشوق کا چہرہ دیکھ لے گا.فروغ نور عشق او ز بام و قصر ما روشن مگر ببیند کسے آں را که میدارد بصیرت را اُس کے نور عشق کی تجلی سے ہمارے بام و قصر روشن ہیں لیکن اُسے وہی دیکھتا ہے جو بصیرت رکھتا ہو دعوی مسیحیت مشاہدہ کریں محبت الہی اور اس کے عشق میں وارفتگی کو اپنے مسیح ہونے کے ثبوت کے طور پر بیان کرتے ہیں.بہت ہی دلفریب انداز تغزل ہے.غزل کی تعریف کو یکسر تبدیل کرنے والا اور اس کو محبوب حقیقی کے قدموں میں ڈالنے والا کلام ہے.فرماتے ہیں: مرانہ زہد و عبادت نہ خدمت و کاری است ہمیں مرا است که جانم رہین دلداری است میرے پاس نہ زہد ہے نہ عبادت نہ خدمت نہ اور کوئی کام صرف ایک بات ہے کہ میری جان اس دلدار کے پاس رہن پڑی ہوئی ہے چه لذتی است برویش کہ جاں فدالیش باد چه راحتے است بکولیش اگر چه خوں بارےاست اُس کے چہرہ میں ایسی لذت ہے کہ اس پر جان قربان ہے اس کی گلی میں عجیب لطف ہے اگر چہ وہاں خون کی بارش ہوتی ہے مسیح وقت مرا کرد آنکه دید این حال بہ ہیں دلائل دعویٰ اگر چه بیکاری است خدا نے جب میرا یہ حال دیکھا تو مجھے مسیح الزمان بنا دیا اب تو میرے دعوے کے دلائل دیکھ گو (تیرے نزدیک یہ بیکار ہے دوائے عشق نخوا ہم کہ آں ہلاکت ماست شفائ ما بہ ہمیں رنج و درد و آزاری است میں عشق کا علاج نہیں چاہتا کیونکہ اس میں ہماری ہلاکت ہے ہماری شفا تو اسی رنج و درد اور بیماری میں ہے اسی انداز میں فرماتے ہیں.اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی اے محبت تو نے عجیب آثار دکھائے ہیں دوست کی محبت میں زخم اور مرہم کو ایک ہی کر دیا ہے تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احسان کردی میں بھی جب تک دیوانہ نہیں ہو گیا میرے ہوش ٹھکانے نہ ہوئے.اے جنونِ عشق تجھ پر قربان ! تو نے کتنا احسان کیا.

Page 144

125 ادب المسيح ہمہ جاشور تو بینم چه حقیقت چه مجاز سینۂ مشرک ومسلم ہمہ بریاں کردی میں سب جگہ تیرا ہی شور دیکھتا ہوں خواہ حقیقت ہو یا مجاز.تو نے تو مشرک اور مومسن سب کے سینے جلا ڈالے ہیں.اں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی کہ ازیں خاک مرا آں کردی وہ میچ جس کا مقام آسمان پر بیان کرتے ہیں تو نے مہربانی فرمائی کہ اسی زمین میں سے مجھے وہی مسیح بنا دیا دعوی مجددیت عجب داریداے نا آشنایاں غافلان از دیں که از حق چشمه حیواں درمیں ظلمت شود پیدا اے دین سے غافل اور نا واقف انسانو.کیا تمہیں تعجب آتا ہے کہ اس اندھیرے میں خدا کی طرف سے ایک چشمہ حیات پیدا ہو گیا ہے.چرا انسان تعجب با کند در فکر این معنی که خواب آلودگان را رافع غفلت شود پیدا آدمی یہ بات سوچ کر کیوں حیران ہو کہ نیند کے متوالوں کے لیے ایک غفلت کا دور کرنے والا پیدا ہو گیا فراموشت شداے قوم احادیث نبی اللہ که نزد ہر صدی یک مصلح امت شود پیدا اے میری قوم تو رسول اللہ کی حدیثوں کو بھی بھول گئی کہ ہر صدی کے سر پر امت کے لیے ایک مصلح پیدا ہوا کرتا ہے.آئینہ کمالات اسلام ٹائیٹل مطبوعہ 1893ء ) نذیر اور بشیر ہونے کے اعتبار سے ایک ہی مقام پر کس قدر خوبصورت اور باوقارا نداز میں انذار اور تبشیر ہے.نشاں اگر چه نه در اختیار کس بودست مگر نشان بدهم از نشاں ز دادارم اگر چہ نشان کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے مگر میں خدا کی طرف سے ایک نشان کا پتہ بتاتا ہوں کہ آں سعید ز طاعوں نجات خواهد یافت که جست و جست پنا ہے بچار دیوارم یعنی وہی خوش قسمت شخص طاعون سے نجات پائے گا جو جھپٹ کر میری چاردیواری کے اندر پناہ لے گا مرا قسم بخداوند خویش و عظمت او کہ ہست ایں ہمہ از وحی پاک گفتارم مجھے اپنے مالک کی اور اس کی بزرگی کی قسم ہے کہ میری یہ سب باتیں خدا پاک کی وحی سے ہیں

Page 145

المسيح 126 چه حاجتت به بحث دگر ہمیں کافیست برائے آنکہ سیه شد دلش ز انکارم کسی اور بحث کی کیا ضرورت ایسے شخص کے لیے جس کا دل میرے انکار کی وجہ سے تاریک ہو چکا ہو یہی بات کافی ہے.اگر دروغ بر آید ہر آنچہ وعدہ من رواست گرہمہ خیزند بر پیکارم جو وعدہ میں کرتا ہوں اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو بے شک جائز ہے کہ سب مجھ سے لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں.

Page 146

127 ادب المسيح عربی زبان میں ابلاغ حضرت اقدس کی تینوں زبانوں میں منفردشان کے بیان میں ہم یہ حقیقت پیش کر رہے ہیں کہ ان تینوں زبانوں میں آپ حضرت کا اسلوب بیان ان کی کلاسیکی ادب کی پاسداری میں اور ان کے اقدارفن کے مطابق ہی نہیں بلکہ ان ہی کے اسالیب بیان میں ان سے بھی ارفع اور اعلیٰ ہے.اردو اور فارسی اساتذہ کے کلام سے آپ کے کلام کا ایک مختصر تقابل اور موازنہ پیش کیا جا چکا ہے.اس مقام پر ہم عربی کلاسیکی ادب پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے اور یہ جائزہ لیں گے کہ آپ حضرت کا عربی کلام کس حد تک عربی زبان کے مسلمہ شعری اسلوب اور طرز بیان سے مطابقت رکھتا ہے.دستور کے مطابق اول عربی زبان کی تخلیق اور اس کی عظمت و شان کے بارے میں چند اشارے ضروری ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ تمام زبانوں کی ابتدا اور تدریجی ترقی کے بارے میں تاریخی شواہد دستیاب ہیں کہ کیسے ابتدا ہوئی اور کن زبانوں سے اختلاط و تعاون کے بعد اور کس دور زمانہ میں ایک مستقل اور منفرد زبان بن گئی.صرف عربی ہی ایک ایسی زبان ہے جس کے بارے میں ہمارے پاس زمینی تو نہیں مگر قوی روحانی شواہد ہیں کہ یہ زبان الہامی زبان ہے بلکہ انسان کو جب اول مقام پر نطق و بیان سے نوازا گیا تھا تو وہ یہی زبان تھی اور دیگر تمام زبانیں اسی زبان کی مشتقات ہیں یا بدلی ہوئی صورتیں ہیں.ہمارے لیے تو اس کے ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے آقا اور امام آخر الزمان نے قرآن کریم کی آیت وَ كَذلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيَّا لِتُنْذِرَ أم القرى...الى الأخر (الشوری: 8 ) کی تفسیر میں اس صداقت کو واضح کر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں: و اما تفصيل آيات تؤيد اية ام القرى و تبيّن ان العربية ام الالسنة و الهام الله الاعلى فمنها آية من الله المنان في سورة الرحمان اعنى قوله خلق الانسان علمه البيان.فالمراد من البيان اللغة العربية.كما تشير اليه الآية الثانية اعنى قوله تعالى عربي مبين.فجعل لفظ المبين وصفًا خاصًا للعربية و اشار الى انه من صفاته الذاتية.ولا يشترك فيه احد من الرحمن...خ.جلد 9 صفحہ 188 ) ترجمہ: اور ان آیتوں کی تفصیل جو آیت ائم القری کی مؤید ہیں اور جو ظاہر کرتی ہیں جو عربی ائم الالسنہ اور الہام الہی ہے سو یہ تفصیل ذیل ہے.چنانچہ ان میں سے ایک وہ آیت ہے جو سورۃ رحمان میں ہے یعنی خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ.جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اُس کو بولنا سکھایا.سو بیان سے مراد جس کے معنے بولنا ہے عربی زبان ہے

Page 147

المسيح 128 جیسا کہ دوسری آیت اس کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی عَرَبِي مُبِينٌ سوخدا نے مبین کے لفظ کو عربی کے لیے ایک خاص صفت ٹھہرایا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ لفظ بیان کا عربی کی صفات خاصہ میں سے ہے.عربی زبان کی قدامت کے بارے میں ہمارے لیے تو یہی کافی ہے ( تاہم آپ حضرت نے اس فرمان کے اثبات میں جو آسمانی اور لسانی شواہد پیش کیے ہیں ان کے علم کے لیے آپ کی معرکہ آراء کتاب من الرحمن کا مطالعہ از بس ضروری ہے) ایک الہامی زبان ہونے کے ناطے سے یہ امر تو بد یہی ہے کہ ایسی زبان اور اس کا اسلوب اپنی فصاحت و بلاغت میں بھی دیگر زبانوں سے ارفع و اعلیٰ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات میں اپنے کلام کو حسن الحدیث اور احسن القصص اور عربی زبان کو عَرَبِيٌّ مُبِین “ کی صفات کا حامل قرار دیا ہے چنانچہ 66 عربی زبان کا اُئم الالسنہ ہونا اور فصاحت و بلاغت میں سب زبانوں سے اعلیٰ ہونا بھی حضرت اقدس کی زبان میں سُن لیں.آپ فرماتے ہیں.واقتضت حكم ارادات الالهية ان ينزل كتابه الكامل الخاتم في اللهجة التي هي اصل الالسنة.و امّ كلّ لغة من لغات البرية.و هي عربي مبين.وقد سمعت ان الله جعل لفظ البيان.صفة للعربية في القرآن.ووصف العربية بعربي مبين.فهذه اشارة الى فصاحة هذا اللسان.و علو مقامها عند الرحمن و اما الالسنة الاخرى فما وصفها بهذا الشان.من الرحمن روحانی خزائن 9 صفحہ 203) ترجمہ: اور الہی ارادوں کی حکمتوں نے تقاضا کیا کہ اس کی کامل کتاب جو خاتم الکتب ہے اس زبان میں نازل ہو جو جڑ زبانوں کی ہے اور تمام مخلوقات کی زبانوں کی ماں ہے اور وہ عربی ہے اور تو سُن چکا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بلاغت فصاحت کو عربی کی صفت ٹھہرایا ہے اور عربی کو عربی مبین کے لفظ سے موسوم کیا ہے.پس یہ بیان اس زبان کی فصاحت کی طرف اشارہ ہے اور نیز اس کے مرتبہ عالیہ کی طرف ایما ہے مگر اللہ تعالیٰ نے دوسری زبانوں کو اس وصف سے موصوف نہیں فرمایا.عربی زبان کی قدامت اور اس کی فصاحت و بلاغت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 148

129 ادب المسيح بھی اس زبان کی تمام خصوصیات کو نہایت درجہ مختصر اور جامع فرمان میں بیان کر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں.احِبُّوا العَربَ لِثَلاثِ فَإِنِّي عَرَبِيٌّ وَ الْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ وَ لِسَانُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِيٌّ ( رواه حاکم) یعنی عرب قوم سے تین خصوصیات کی بنا پر محبت کرنی چاہیے اوّل یہ کہ میں عربی ہوں.دوم یہ کہ قرآن عربی میں نازل ہوا اور رسوم یہ کہ اہل جنت کی زبان عربی ہے.مؤرخین کی تحقیق کے مطابق عرب سامی اقوام میں سے ایک قوم ہے اور سام حضرت نوح کا بیٹا تھا.اس لیے یہ اقوام ایک ہی جڑ سے پیدا ہوئی ہیں.اس جڑ کے مقام پیدائش کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے.بعض عراق اور حبشہ کہتے ہیں اور بعض اس مقام کو جزیرۂ عرب کہتے ہیں.ان تین مقامات میں ہمارے نزدیک ( جو کہ حضرت محمد مصطفے نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں ) جزیرہ عرب ہی عرب قوم اور اس کی زبان کی جائے پیدائش ہے کیونکہ اسی سرز مین اور اسی زبان میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کامل اور آخری کتاب نازل فرمائی ہے اور عربی زبان کو مختلف اور متنوع ادوار میں تربیت دے کر اس مقام تک پہنچایا کہ ہستی باری تعالیٰ کا عرفان اور اس کا حسن و جمال بیان کرنے کے قابل ہو جائے.عربی زبان کا یہ نقطہ ارتقاء حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مکہ میں سکونت پذیر ہونے کے بعد ہوا ہے جیسا کہ حضرت جابر نے حدیث نبوی میں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت نے آیت قرآنًا عَرَبِيًّا “ کی تلاوت فرما کر ارشاد کیا کہ یہ خالص زبان عربی جس میں قرآن نازل ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے الہاما حضرت اسماعیل کو تعلیم دی تھا.(مستدرک حاکم) یہی وجہ ہے کہ عرب اقوام میں قبیلہ قریش کی زبان مسلمہ طور پر مستند اور فصیح عربی زبان سمجھی جاتی ہے عربی زبان کی بلوغت کے اس سفر میں دو ہی سنگ میل ہیں.اول.ادب جاہلیہ دوم.قرآن کریم اور رسول اکرم کی فصاحت لسانی کہ آپ افصح العرب تھے.ہم نے ادب جاہلیہ کو صرف تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے اول قرار نہیں دیا بلکہ قرآن کریم کے ادبی دعوت مقابلہ کے اعتبار سے بھی اس کا اول ہونا اس طور سے لازم ہے کہ اسی شعری ادب کے مقابل پر اس نے فرمایا ہے "وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ “ (البقرة:24) اگر فِي رَيْبٍ “ کے معانی ” قرآن کی ادبی عظمت سے انکار کیا جائے تو اس آیت کے معانی ایسے ہونگے اُن ( ادباء عرب ) سے کہہ دے کہ اگر تم قرآن کریم کو ادب عالیہ نہیں سمجھتے تو ان موضوعات میں ) مقابل پر کوئی کلام پیش کرو.

Page 149

المسيح 130 یہ امر تو بد یہی ہے کہ اگر ادب جاہلیہ کی کوئی لسانی خوبی اور ادبی حسن و جمال نہ ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ قرآن کریم اپنی تمام ادبی عظمت و شان کے ہوتے ہوئے ایک ادنی اسلوب ادب کو دعوت مقابلہ دیتا.موازنہ اور با ہم تقابل ہم مرتبہ اور ہم اسلوب ادب کے درمیان ہوا کرتا ہے.جہاں پر زبان ایک ہوگی وہاں پر اس کی لغت اور بیان کا اسلوب بھی ایک ہی ہوگا.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس نے عربی زبان کے فہم اور ادراک کو معارف قرآن کے سمجھنے کے لیے لازم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: اسی زبان پر فہم معارف قرآنیہ کا مدار ہے اور جو کہ ماہر علم ادب نہیں اور نابغہ شعراء میں سے نہیں ممکن نہیں کہ اس کو فقیہ کہا جاسکے.( ترجمہ از مرتب) انجام انتقم ، رخ - جلد 11 صفحہ 265 ) ایک اور مقام میں تو بالکل وضاحت سے فرماتے ہیں: ائمہ راشدین نے جاہلیت کے ہزار ہا اشعار کو حفظ کر رکھا تھا اور قرآن شریف کی بلاغت فصاحت کے لیے انکو بطور سندلاتے تھے“ ( نزول مسیح ، رخ - جلد 18 صفحہ 434) یہاں تک تو عربی زبان کی تخلیق اور اس کی عظمت و شان کا ذکر ہوا ہے.اب ہم اس زبان کے شعری اسلوب اور اس کے مخصوص موضوعات کو بہت اختصار سے پیش کرتے ہیں یہ بات تو بیان ہو چکی ہے کہ ہر قومی ادب کی تخلیق اور تشکیل میں اس قوم کے تمدنی اور سیاسی عوامل ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس قوم کی ذہنی ترجیحات اور قلبی پسند و نا پسند کی تعین کرتے ہیں اور اپنی ترجیحات دینی اور جذبات قلبی کا شعری بیان ہی ان کا ادبی سرمایہ ہوتا ہے.عرب ایک جزیرہ نما ہے جس کی زمین خشک اور بنجر ہے.زیر زمین پانی بہت کم یاب ہے اور بارش نہ ہونے کے برابر ہے.اس لیے وہ زمین زراعت کے قابل نہیں اور نہ ہی شہری زندگی کے لیے موزوں ہے.ان جغرافیائی تقاضوں کے تحت اس زمین کے باسی خانہ بدوش زندگی گذارنے پر مجبور تھے.چراگاہ اور پانی کی تلاش میں اپنے جانوروں کو اور اپنے خاندانوں کو صحرا بصحر الیے پھرتے تھے اور جب بھی قحط پڑتا تو آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کر کے لوٹ مار کرنے لگتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ان کے ادب اور شعری محرکات میں بہادری اور مبارزت ( باہم جنگی مقابلے کی دعوت ) اور قحط سالی میں سخاوت بنیادی موضوعات شعر تھے.اور انہی اخلاق واطوار میں باہم تفاخر اور تقابل اہم موضوع کلام تھا.اگر ان سب محرکات شعری کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہوتو وہ لفظ ”مبارزت“ ہے یعنی جنگ و جدال.اگر تلوار سے ہے تو بھی اور اگر با ہم مباہات میں ہے تو بھی.اس شعری تجزیہ کے اثبات میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں.

Page 150

131 ادب المسيح اول جاہلیہ کے شاعر ابوالغول کا شوق جنگ و جدال اور تفاخر کا مشاہدہ کریں فَدَتْ نَفْسِى وَ مَا مَلَكَتْ يميني فَوَارِسَ صَدَّقَتْ فِيْهِمْ ظُنُونِي میری جان اور میرا سارا مال ان شہ سواروں پر قربان ہو جنہوں نے اپنے متعلق میرے خیالات کو سچ کر دکھایا.( شہسواروں کے متعلق جیسے میرے نظریات تھے وہ ویسے ہی بیباک اور بہادر ثابت ہوئے.) فَوَارِسَ لَا يَمَلُّونَ الْمَنَايَا إِذَا دَارَتْ رَحَى الحَرْبِ الزَّبُون وہ ایسے شہسوار ہیں جو موتوں کی سختیوں سے تنگ دل نہیں ہوتے.جب فنا کر دینے والی جنگ کی چکی گھومنے لگتی ہے.وَلَا يَجُزُونَ مِنْ حَسَنِ بِسَىءٍ وَلَا يَجُزُونَ مِنْ غِلظ بِلِينِ وہ نیکی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے اور نہ بختی کے بدلے نرمی کرتے ہیں.بلکہ سختی کاسختی اور نرمی کا نرمی سے بدلہ دیتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ وہ تمام موضوعات شعر جاہلیہ جن کا گذشتہ میں ذکر ہوا اسی ایک نمونہ شعر میں یکجا دستیاب ہیں.جنگی شاہ سواروں کا بھی ذکر ہے.دلیری اور بہادری میں فخر و مباہات بھی ہے اور تیسرے شعر میں اپنے اخلاقی دستور کو بھی ایک باغیرت اور احسان کا بہتر بدلہ دینے والی قوم کے طور پر بیان کر دیا ہے.گو اس مثال میں خالص میدان جنگ کا نقشہ کھینچا گیا ہے.جہاں اس کے قبیلے کے سوار موت وحیات سے بے پرواہ ہو کر اپنی اپنی جنگی شجاعت اور آداب جنگ و جدال کا نظارہ دکھا رہے ہیں.تاہم اخلاقی خوبی بھی بیان ہے مگر مبارزت کے ساتھ.اب ایک ایسی مثال بھی دیکھ لیں جس میں تفاخر اور مباہات بھی ہے مگر تغزل بھی.جو کہ عربی شاعری کے اجزائے اعظم میں سے ہے.انا محبّوكَ يَا سَلْمَى فحيينا وان سقـيـت كـرام الناس فاسقينا اے سلمی ہم تجھ کو سلام کرتے ہیں تو تو بھی ہمیں سلام کر اور اگر تو صرف شرفاء کو شراب پلاتی ہے تو ہمیں پلا.و ان دَعَوتِ إِلى جُلَّى وَ مَكْرُمَةٍ يَوْمًا سَرا ةِ كِرَامِ النَّاسِ فادعينا اگر تو کسی دن لڑائی یا سخاوت کے لیے شریف زادوں کو بلائے تو ہمیں بھی بلا ہم بھی اس کے اہل ہیں.إن تُبدَ رُغَايَةٌ يَومًا لِمَكْرُمَةٍ تَلقَ السَّوَابِقَ مِنَّا وَ الْمُصَلَّيْنَا اگر کسی دن عزت کے کسی کام کے لیے مقابلہ ہو اور لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں تو اوّل اور دوم نمبر پر ہمارے گھوڑے ہوں گے اور پیچھے دوسروں کے.اب دیکھ لیں نفسِ مضمون میں اپنی طرف التفات اور توجہ کی التجا ہے.مگر اس کا جواز عشق و محبت نہیں بلکہ

Page 151

المسيح 132 خالص قومی تفاخر اور شجاعت کی بنا پر ہے شعر جاہلیہ کے اس اسلوب اور ترجیہات کلام کے ثبوت میں ابو تمام کا حماسہ اور معلقات کے قصائد کا ہر شعر گواہ ہے اور جاہلیہ کی شاعری کی یہی پختہ اسناد ہیں اور حضرت اقدس کے فرمان کے مطابق آئمہ راشدین انہی کو قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے ثبوت میں بطور سند لاتے تھے.فرق یہ ہے کہ قرآن کریم نے عربی اسلوب کو قائم رکھتے ہوئے عربی ادب کی ترجیحات اور مقاصد کا رخ موڑ دیا.دنیا کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دیا اور باہم جنگ و جدال کے شوق کو خدا کے منشا کے مطابق جہاد میں اور سخاوت اور اکرام ضیف کو صدقہ اور خیرات کی تلقین میں بدل دیا.ہمارے آقا حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے کامل اتباع میں اپنے کلام میں اسی دستور کو قائم رکھا ہے اور کمال ادبی شان اور صنعت گری کے ساتھ اشعار کی تخلیق کی ہے اور عربی کلاسیکل اسلوب کی پاسداری فرمائی ہے.ادب جاہلیہ میں اول مقام تو سبعہ معلقات کا ہے اور دوسرے درجے پر وہ اشعار ہیں جو بعثت نبی اکرم سے قبل مقبول عام تھے.ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ حماسہ کی صرف دو مثالیں پیش کی ہیں.تقابل اور موازنہ کے لیے حضرت اقدس کے چند اشعار بھی ملاحظہ کر لیں.ابلاغ رسالت کے بیان میں فرماتے ہیں.وَنَحْنُ كَمَاهُ اللَّهِ جِئْنَا بِأَمْرِهِ حَلَلْنَا بَلَادَ الشَّرُكِ وَ اللهُ يَخْفُرُ ہم خدا کے سوار ہیں.اس کے حکم سے آئے ہیں.اور شرک کے شہروں میں ہم داخل ہوئے ہیں اور خدا ر ہنمائی کر رہا ہے.أَقُولُ وَلَا أَخْشَى فَإِنِّي مَسِيحُهُ وَلَوْ عِندَ هَذَا الْقَوْل بِالسَّيْفِ انْحَرُ میں بے دھڑک کہتا ہوں کہ میں خدا کا مسیح موعود ہوں.اگر چہ میں اس قول پر تلوار سے قتل بھی کیا جاؤں وَقَدْ جَاءَ فِي الْقُرْآنِ ذِكْرُ فَضَائِلِي وَذِكْرُ ظُهُورِى عِندَ فِتَنِ تُشَوَّرُ اور میرے فضائل کا ذکر قرآن میں موجود ہے.اور میرے ظہور کا ذکر بھی پر آشوب زمانہ میں ہونا لکھا ہے وَمَا أَنَا إِلَّا مُرُسَلٌ عِندَ فِتْنَةٍ فَرُةِ قَضَاءَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ تَقْدِرُ اور میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.پس خدا کے حکم کو تو بدل دے اگر تجھے قدرت ہے تَخَيَّرَنِي الرَّحْمَانُ مِنْ بَيْنِ خَلْقِهِ لَهُ الْحُكْمُ يَقْضِئُ مَا يَشَاءُ وَيَأْمُرُ خدا نے مجھے اپنی مخلوقات میں سے چن لیا ہے.حکم اسی کا حکم ہے جو چاہے کرے ایک اور مقام میں فرماتے ہیں.وَإِنِّي مِنَ الْمَوْلَى الْكَرِيمِ وَإِنَّهُ يُحَافِظُنِي فِي كُلِّ دَشْتٍ وَيَخْفِرُ اور میں خدا کی طرف سے ہوں.اور خدا ہر ایک جنگل میں میری محافظت اور رہنمائی کرتا ہے فَكِيدُوا جَمِيعَ الْكَيْدِ يَا أَيُّهَا الْعِدَا فَيَعْصِمُنِي رَبِّي وَهَذَا مُقَدَّرُ

Page 152

133 ادب المسيح پس ہر ایک قسم کا مکر مجھ سے کرواے دشمنو! پس میرا خدا مجھے بچائے گا اور یہی مقدر ہے مَضَى وَقْتُ ضَرُبِ الْمُرُهِفَاتِ وَ دَفَوُهَا وَإِنَّا بِبُرْهَانَ مِنَ اللهِ نَحَرُ وہ وقت گزر گیا جب کہ تلوار میں چلائی جاتی تھیں.اور ہم خدا کی برہان سے منکروں کو ذبح کرتے ہیں وَلِلَّهِ سُلْطَانٌ وَحُكُمْ وَشَوْكَةٌ وَنَحْنُ كُمَاةٌ بِالإِشَارَةِ نَحْضُرُ اور خدا کے لیے تسلط اور حکم اور شوکت ہے.اور ہم وہ سوار ہیں جو اشارہ پر حاضر ہوتے ہیں اور اس مثال کو دیکھیں کہ خالص عربی اسلوب اور کامل اتباع اساتذ ہ ادب ہے.فرماتے ہیں.بِمُطَّلِعَ عَلَى أَسْرَارِ بَالِي بَعَالِمِ عَيْتِي فِي كُلِّ حَالِي قسم اس ذات کی جو میرے دل کے بھیدوں سے آگاہ ہے اور قسم اس ذات کی جو ہر حال میں میرے سینے کے راز سے واقف ہے بِوَجُهِ قَدْ رَأَى أَعْشَارَ قَلْبِـي بِمُسْتَمِعٍ بِصَرُخِي فِي اللَّيَالِي قسم ہے اس ذات کی جو میرے دل کے تمام گوشوں سے واقف ہے اور قسم اس ذات کی جو راتوں کو میری آہ وزاری کو سننے والا ہے لَقَدْ أُرْسِلْتُ مِنْ رَّبِّ كَرِيمٍ رَحِيمٍ عِندَ طُوفَانِ الضَّلَالِ ہے ؛ بے شک میں رب کریم رحیم کی طرف سے طوفان ضلالت کے وقت بھیجا گیا ہوں اور فرماتے ہیں: تَعَالَ إِلَى الهُدَى ذُلَّا خُضُوعًا إِلَى مَا تَكْتَسِى ثَوْبَ الدَّلال فروتنی اور خاکساری سے ہدایت کی طرف آ.کب تک تو غرور کا لباس پہنے رکھے گا وَإِنْ نَاضَلْتَـنِــي فَتَرَى سِهَـامِـي وَمِثْلِى لَا يَفِرُّ مِنَ النِّضَالِ اگر تو تیراندازی میں میرا مقابلہ کرے تو میرے تیروں کا تجھے پتہ لگ جائے گا اور میرے جیسا آدمی تیراندازی کے مقابلہ میں بھا گا نہیں کرتا سِهَامِي لَا تَطِيشُ بَوَقْتِ حَرْبٍ وَسَفِى لَا يُغَادِرُ فِي الْقِتَالِ لڑائی کے وقت میرے تیر خطا نہیں جاتے اور میری تلوار لڑائی میں (کسی کو ) نہیں چھوڑتی فَانُ قَاتَلْتَنِي فَارِيْكَ أَنِّي مُقِيمَ فِي مَيَادِينِ الْقِتَالِ اگر تو مجھ سے جنگ کرے تو میں تجھے دکھا دوں گا کہ بیشک میں لڑائی کے میدانوں میں ثابت قدم ہوں أَبِالإِبْدَاءِ اتْرُكُ أَمُرَ رَبِّي وَمِثْلِى حِيْنَ يُؤْذَى لَا يُبَالِي

Page 153

المسيح 134 کیا دکھ دیے جانے سے میں اپنے رب کے کام کو چھوڑ دوں گا؟ جبکہ میرے جیسا آدمی ایذا دیے جانے کی پروا نہیں کیا کرتا وَكَيْفَ أَخَافُ تَهْدِيدَ الْخُنَاثِي وَقَدْ أُعْطِيتُ حَالَاتِ الرِّجَالِ میں مختشوں کی دھمکی سے کیسے ڈرسکتا ہوں جبکہ مجھے مردوں کے حالات مردانگی دیے گئے ہیں اَلَا إِنِّي أُقَاوِمُ كُلَّ سَهُـ وَاقْلِي الاِكْتِنَانَ عَنِ النِّبَالِ آگاہ رہو کہ میں ہر تیر کا سامنا کر سکتا ہوں اور میں تیروں کے خوف سے مورچہ بند ہونے کو پسند نہیں کرتا مشاہدہ کریں کہ مضمون ابلاغ رسالت کا ہے مگر اسلوب مبارزت کا ہے.خدا تعالیٰ کا فرمان اور حکم ہے اور مقابلہ براہین اور دعا اور تائید الہی سے ہے مگر حکم الہی کی بجا آوری کے اظہار میں دلیر شاہ سوار ہیں اور دعا کے اظہار میں تیر ہیں اور حکم خداوندی کی بجا آوری میں تلوار بت شکن ہیں.اور شجاعت اور دلیری ایسی ہے کہ مبارزت اور مقابلہ کی دعوت عام ہے.اختصار کے پیش نظر جاہلیہ کے متعدد شعراء سے صرف دو شاعروں کی مثال دی ہے اور ان کے مقابل پر حضرت اقدس کے اشعار پیش کیے ہیں.مقصد صرف یہ ہے کہ اسلوب ادب جاہلیہ اور حضرت کے طرز بیان کا اتحاد و یک رنگی واضح ہو جائے.وگر نہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس کا اسلوب بیان دراصل معلقات کے قصائد تخلیق کرنے والے اساتذہ ادب سے صرف مطابقت ہی نہیں رکھتا بلکہ بہت مقامات میں حضور نے ان کے اشعار کے جملے اور ان کے طرز بیان کو اختیار فرمایا ہے.جیسا کہ کہا گیا ہے کہ خالص عربی زبان کا مولد ومسکن جزیرۂ عرب تھا.اور ملک عرب میں اس زبان کا مکتب لسانی وہی مکہ مکرمہ تھا جہاں پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس زبان کی الہامی تائید کیساتھ تہذیب و تعدیل کی اور نتیجہ حقیقی فصیح زبان عربی قریش کی زبان مانی گئی.اسی لسانی عظمت کے تحت اقوام عرب کا یہ دستور تھا کہ جب تک کوئی شاعر مکہ جا کر قبیلہ قریش سے اپنے کلام کی دادن حاصل نہیں کرتا تھا.اس وقت تک اس کا کلام مستند اور مقبول نہیں ہوتا تھا.اسی دستور کے مطابق قریش اُدبا کی نظر میں جو قصیدہ ان کے معیار فصاحت و بلاغت کے مطابق ہوتا اُس کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا.چنانچہ اشعار جاہلیہ میں سات قصائد ایسے منتخب ہوئے تھے اور ان کو خانہ کعبہ کی دیواروں پر آویزاں کر دیا گیا تھا.تا کہ یہ اعلان عام ہو کہ یہ عربی ادب کی شاہکا را مثال ہیں.ان قصائد میں جن کو صف اول کا شاہکار کلام کہا جا سکتا ہے وہ لبید بن ربیعہ کی شعر نبی اور ذوق سلیم کے مطابق اول امراؤ القیس اور دوم طرفہ اور سوم لبید کا اپنا قصیدہ ہے.جیسا کہ بیان ہوا ہے.ادب جاہلیہ عربی زبان کا ایسا ارتقا علوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اسی

Page 154

135 ادب المسيح اسلوب پر نازل کرنا پسند فرمایا اور اس سے بہت بہتر کلام نازل کیا اور ادبا عرب کو فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ “ کی دعوت مقابلہ دی مگر مثله “ کی شرط لگا کر واضح کر دیا کہ موضوعات شعر بھی وہی ہوں جو کہ قرآن کریم کے ہیں.قرآن کریم کے واضح فرمان کے تحت ہی ہمارے آقا اور مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ” جوامع الکلم عطا کیے گئے اور آپ کو افصح العرب‘ کا منصب عطا فر مایا گیا.ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعود کا کلام عربی بھی اسی فرمان قرآن کریم کے اتباع میں ہے یعنی اس طور سے کہ اسلوب ادب کو قائم رکھا گیا مگر جاہلیہ کے شعر کے موضوعات اور شیح نظر کو بدل کر ان کا رخ تبدیل کر دیا اور ان کی شاہ سواری اور شجاعت کو اخلاق حسنہ میں مبارزت کو محبوب حقیقی کے قرب اور اس کی لقا میں اور اس کے لیے جان فدا کرنے کو اپنے شعر کی ترجیحات بنالیا.جیسا کہ آپ اپنے پیارے خدا کو مخاطب کر کے عرض کر رہے ہیں.أنْتَ الَّذِي قَدْ كَانَ مَقْصِدَ مُهْجَتِي فِي كُلِّ رَشْحِ الْقَلَمِ وَ الْإِمَلاءِ ترجمہ: تو ہی تو میری جان کا مقصود تھا قلم کے ہر قطرہ ( روشنائی ) اور لکھائی ہوئی تحریر میں.بیان یہ ہورہا تھا ادب عربیہ میں لبیڈ کے کہنے کے مطابق تین اصحاب معلقات افصح العرب ہیں.حضرت اقدس نے بھی عمومی طور پر ان تین شعراء کے اسلوب میں شعر تخلیق فرمائے ہیں.ان شعراء میں جیسا کہ اول امراؤ القیس کا قصیدہ ہے.حضرت کے کلام میں بھی اس کے قصیدہ لامیہ کی جابجا جھلکیاں نظر آتی ہیں.ان کی امثال کو ملاحظہ کریں: ا.امراؤ القیس اپنے گھوڑے کی تعریف میں کہتا ہے.مِكَرٌ مِّفَةٍ مُقْبِل مُدْبِرٍ مَّعًا كَجَلْمُودِ صَخْرٍ حَطَّهُ السَّيْلُ مِنْ عَلِى ترجمہ: وہ گھوڑا بہت حملہ کرنے والا اور بہت بھاگنے والا اور آگے بڑھنے والا اور پیچھے ہٹنے والا ہے اور یہ سب ایک وقت میں کرتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بھاری پتھر جسے رود ( سیلاب) نے اوپر سے نیچے کو گرا دیا ہو.حضرت اقدس اپنے پیارے محبوب اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور شان میں فرماتے ہیں.رءُوفٌ رَّحِيمٌ امر مانع معا بشیر نذير في الكروب مُبَشِّرُ ترجمہ: وہ بیک وقت مہربان ہے.رحیم ہے اور امر و نہی کرنے والا ہے.بشارت دینے والا.انذار کرنے والا اور تکالیف میں خوشخبری دینے والا ہے.

Page 155

ب المسيح 136 آپ حضرت اپنے قلم کی شان کو بیان کرتے ہوئے امراؤ القیس کے ایک مکمل مصرع کو اختیار فرماتے ہیں.وَأُعْطِيتُ قَلْمًا مِثْلَ مُنْجَرِدَ الْوَغَى فَيُسْعِرُ نِيرَانَا وَ كَالْبَرْقِ يَخْفِقِ اور میں قلم لڑائی کے گھوڑے کی طرح دیا گیا ہوں پس آگ کو سلگاتی اور برق کی طرح ہلتی ہے مِكَرٌ مِفَرٌ مُقْبِلٌ مُدْبِرٌ مَّعًا گدَابِ أَجَارِدَ عِندَ مَوْقِدِ مَازِقِ حملہ کرنے والے، بھاگنے والے، آگے ہونے والے، پیچھے ہونے والے جیسا کہ لڑائی کے میدان میں عمدہ گھوڑوں کی عادت ہے.شعرعربی میں امراؤ القیس کا ایک زندہ جاوید شعر اپنے محبوب کے حسن و جمال کے بیان میں ہے.کہتا ہے: تضيءُ الظُّلامَ بالعَشيء كانها منارة مُمُسَا رَاهِبٍ مُتَبَيِّل وہ اپنے حسن سے رات کی تاریکی اس طرح روشن کر دیتی ہے جیسا کہ ایک تارک الدنیا راہب کا چراغ ہو.حضرت اقدس قرآن کریم کے نور کی ضیاء پاشی اور برکات کے بیان میں فرماتے ہیں.يُضِيءُ الْقُلُوبَ وَيَدُ فَعَنَّ ظَلَامَهَا وَيَشْفِي الصُّدُورَ سَوَادُهُ وَيُهَدِّبُ وہ دلوں کو روشن کرتا اور ان کی تاریکیوں کو دور کرتا ہے اور اس کی تحریر سینوں کو شفا دیتی ہے اور مہذب کرتی ہے.فَقُلْتُ لَهُ لَمَّا شَرِبُتُ زَلَالَهُ فِدَّى لَّكَ رُوحِي أَنْتَ عَيْنِي وَ مَشْرَبُ پس میں نے قرآن سے کہا جب میں نے اس کا صاف پانی پیا.تجھ پر میری جان قربان ہو کہ تو میر اچشمہ اور گھاٹ ہے.اور فرماتے ہیں: تُضِيءُ الظَّلامَ مَعَارِفِي عِنْدَ مَنْطِقِى وَقَوْلِى بِفَضْلِ اللَّهِ دُرِّ مُنَوَّرُ میری گفتگو کے وقت میرے معارف ظلمت کو روشنی سے بدل دیتے ہیں اور میرا قول اللہ کے فضل سے روشن موتی ہے.ایک مثال اور دیتا ہوں.عبداللہ تم سے مباحثہ کے لیے امرت سر کی طرف روانہ ہونے کے ذکر میں فرماتے ہیں.وَبَشَّرَنِي قَبْلَ الْجِدَالِ بِلُطْفِهِ فَقَالَ لَكَ الْبُشْرَى وَ اَنْتَ الْمُظَفَّرُ اور مقابلہ سے پہلے ہی اس نے اپنی مہربانی سے مجھے بشارت دے دی.سو کہا: تجھے بشارت ہو تو ہی کامیاب ہونے والا ہے.

Page 156

137 ادب المسيح فَفَاضَتْ دُمُوعُ الْعَيْنِ مِنِّى تَدَلُّلاً وَقَصَدْتُ عَنْبَرُ سَرَ وَ قَطْرِيَ يَمُطُرُ تب میری آنکھوں سے عاجزی سے آنسو جاری ہو گئے اور میں نے اس حال میں امرتسر کا ارادہ کیا کہ میرے آنسوؤں کی جھڑی لگ رہی تھی.امراؤ القیس اپنے محبوب سے جدا ہونے پر کہتا ہے فَفَاضَتْ دُمُوعُ العَيْنِ مِنِّيٍّ صَبَابَةٌ عَلَى النَّحْرِ حَتَّى بَلَّوُ مَعِي مَحْمَلِي اس کی محبت میں آنسو میری آنکھوں سے میرے سینے پرگرے یہاں تک کہ انہوں نے میری تلوار کی میان کو بھگو دیا.ایک شعر اور سُن لیں.امراؤ القیس رات کی تاریکی اور خوف وخطر کے بیان میں کہتا ہے.وَلَيلٌ كموج البحر اَرحَى سُدُولَة عَلَيَّ بانواعِ الهُمُومِ لِيَبتل اور بہت تاریک راتوں نے سمندر کی امواج کی طرح سے مصائب کے پردے مجھ پر ڈالے حضرت اقدس عام گمراہی اور بے دینی کے عالم کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.تَرَانَتْ غَوَايَاتٌ كَرِيحٍ عَاصِفٍ وَ أَرْحَى سُدُولَ الْغَيِّ لَيْلٌ مُكَدَّرُ گمراہیاں تند ہوا کی طرح نظر آرہی ہیں اور تاریکی پیدا کرنے والی رات نے گمراہی کے پردے لٹکا دیے ہیں.حضرت اقدس کے اشعار سے امراؤ القیس کے اشعار کا تقابل قدرے طویل ہو گیا ہے.اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ امراؤ القیس جاہلیہ کے شعراء کا سردار اور استاد ہے.اس شاعر کے قصیدے کو عربی ادب کا شاہکار گردانتے ہوئے قریش نے اول مقام پر خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کیا تھا اور جاہلیت کے ہر شاعر نے کوشش کی ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک اس کے اسلوب بیان اور لفظی محاسن کو حاصل کرے اس لیے اگر حضرت اقدس اور امراؤ القیس کے اسالیب شعر کے اتحاد و یک رنگی کو قدرے تفصیل سے بیان کر دیا جائے تو گویا ہم نے تمام عربی کلاسیکی ادب کا موازنہ حضرت اقدس کے ادب سے کر دیا ہے.دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ حقیقت میں حضرت اقدس کے اشعار میں بے شمار امثال اسی شاعر کے اسلوب شعری اور انتخاب لفظی سے اتحاد رکھتی ہیں.تا ہم صرف امراؤ القیس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا.اساتذہ شعر عربی میں حضرت اقدس نے طرفہ اور کبید کو بھی قابل اعتنا سمجھا ہے کچھ امثال ان کی بھی ملاحظہ کر لیں.

Page 157

المسيح 138 طرفہ اپنی ناقہ کی خوبی کے بیان میں کہتا ہے وَصَادِقَنَا سَمُعَ التَّوَجُسِ لَلسُّرى لِهَجَسٍ خَفِي أَوْ لِصَوْتٍ مُّنَدَّدٍ ترجمہ: اس کے دونوں کان رات میں چلتے وقت کا نا پھوسی کی طرف بہت ٹھیک اور سچے ہیں اُس کا کان لگا نا خواہ پست آواز کی طرف ہو یا بلند آواز کی طرف.حضرت اقدس وحی الہی کی آواز کے بیان میں فرماتے ہیں.وَمَا قُلْتُ إِلَّا مَا أُمِرْتُ بِوَحْيِهِ وَمَا كَانَ هَجُسٌ بَلْ سَمِعْتُ مُنَدَّدَا ترجمہ: اور میں نے وہی بات کہی جس کا مجھے خدا کی وحی سے حکم دیا گیا اور وہ کوئی نا قابل فہم دھیمی آواز نہ تھی بلکہ میں نے تو ایک پر شوکت آواز سنی ہے.ایک اور مثال بھی سُن لیں.طرفہ اپنی ناقہ کی چست رفتاری کے بیان میں کہتا ہے.احَلْتُ عَلَيْهَا بِالْقَطِيعِ فَاجْذَمَتُ وَقَدْ حَبَّ الُ الْامُعَنِ الْمُتَوَقَد میں نے اپنی ناقہ پر سوار ہو کر کوڑا اٹھایا چنانچہ وہ چٹیل زمین میں موج مارتی ہوئی گرم ریت پر خوب دوڑی حضرت اقدس مکفرین پر حجت پوری کرنے کے بیان میں فرماتے ہیں.رَأَيْتُ تَغَيَّظُكُمْ فَلَمُ الُ حُجَّةً وَوَطِئْتُ ذَوُقًا أَمْعَرًا مُّتَوَقِدَا ترجمہ: میں نے تمہارا غصہ دیکھا سو میں نے محبت پوری کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور میں نے پتھریلی اور بھڑکتی ہوئی زمین کو ذوق و شوق سے پامال کیا.جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ سبع معلقات کے شاعروں میں لبید نے اپنا منصب تیسرے نمبر پر رکھا ہے.یعنی اول امراؤ القیس دوم طرفہ اور سوم لبید بن ربیعہ شعری اور ادبی عظمت کے اعتبار سے اس کے فیصلے سے اختلاف کرنا ممکن نہیں.وہ ایک جلیل القدر شاعر اور صاحب ذوق سلیم ہستی تھا.مگر روحانی اعتبار سے دل یہ چاہتا ہے کہ لبید کو اول مقام دیں.کیونکہ معلقات کے شعراء میں لبید ہی ایک ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا.جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور جن کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ “ کا خطاب متصل ہوا.معلقات کے شعراء میں یہ ایک ایسا افتخار ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوا.اور پھر حضرت لبیڈ ہی ایک ایسے شاعر ہیں جن کے دو مصرعے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے

Page 158

طور پر اختیار فرمائے.139 ادب المسيح حضرت اقدس کو نشان کے طور پر زلزلوں کی تباہ کاریوں کی اطلاع دینے کی غرض سے الہام ہوا عفت الديار محلها و مقامها یہ حضرت لبیڈ کے معلقے کا اول مصرع ہے.( تذکرہ صفحہ 556.مطبوعہ 2004ء) آپ حضرت اس مصرع کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں عَفتِ الذِيَارُ مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا بمنی تابد غولها فرجامها اس کے معنے ہیں کہ میرے پیاروں کے گھر منہدم ہو گئے.ان عمارتوں کا نام ونشان نہ رہا جو عارضی سکونت کی عمارتیں تھیں اور نہ وہ عمارتیں رہیں جو مستقل سکونت کی عمارتیں تھیں.دونوں قسم کی عمارتیں نابود ہوگئیں اور دوسرا الہامی مصرع بھی اسی قصیدے کا ہے انَّ المَنَايَا لَا تَطيش سِهَامُها ترجمہ : موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے تذکرہ صفحہ 573.مطبوعہ 2004ء) فرماتے ہیں.” تب میں نے کشفی حالت میں ہی یہ دعا کی کہ اے خدا تو ہر چیز پر قادر ہے.تب الا ہوا إِنَّ المَنَايَاقَد تَطيش سِهَامُها ، یعنی موتوں کے تیر خطا بھی جاتے ہیں.مشاہدہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے لبید کے مصرعے میں ایک خبر دی اور اُسی کے مصرعے کی اصلاح کر کے منذ ر واقعہ کو معدوم کر دیا یہ اصلاح اس اعتبار سے بھی معتبر ہے کہ لبید کو خدا تعالیٰ کے قادر ہونے پر وہ یقین نہیں تھا جو حضرت اقدس کو تھا.یعنی یہ کہ تیر اسی صورت میں نشانے پر لگتا ہے جب خدا کا منشا ہو.معلقات کے شعراء میں اس افتخار کے بارے میں حضرت اقدس کے فرمان کوسُن لیں.فرماتے ہیں.اب یا در ہے کہ وحی الہی یعنی عفت الديار محلها و مقامها یہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے لبید بن ربیعہ العامری کے دل میں ڈالا تھا جو اُس کے اس قصیدہ کا اوّل مصرع ہے جو سبعہ معلقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف باسلام ہو گیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں داخل تھا اس لیے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہونگی جن سے ایک ملک تباہ ہوگا وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، رخ.جلد 21 صفحہ 162 )

Page 159

المسيح 140 اور پھر لبید کے کلام کی تعریف میں فرمایا: اس سے کیوں تعجب کرنا چاہئے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توار د ہو جائے.خدا تعالے جیسے ہر ایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے اور ہر ایک پاک کلام اُسی کی توفیق سے منہ سے نکلتا ہے.“ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، رخ.جلد 21 صفحہ 162 ) اس لیے اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ معلقات میں اول درجہ اور مقام حضرت لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے تو ہم ہر اعتبار سے حق بجانب ہوں گے.حضرت لبید رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اور شعری قرب و مناسبت کو دونوں حضرات کے ایک شعر کی مثال پر ختم کرتا ہوں.لبیڈا اپنے محبوب قبیلے کے غیر آباد اور تباہ شدہ قیام گاہ کے نشانوں کو ( جن کو سیلاب نے دوبارہ اجاگر کر دیا ہے) دیکھ کر کہتا ہے.وَجَلا السُّيُولُ عَنِ الطُّلُولِ كَأَنَّهَا زبرٌ تُجِدُّ مُتُونُهَا أَفَلَامُهَا ترجمہ: سیلابوں کے بہنے نے کھنڈروں سے یہ ظاہر کر دیا ہے گویا وہ کھنڈر کتابیں ہیں جن کے مٹے ہوئے متنوں کو اُن کے قلموں نے نیا اور چمکا دیا ہے.حضرت اقدس بعینہ لبید کی طرح سے ایک رمضان کے ماہ میں سورج اور چاند کے گرہن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کا ٹکڑے ہو جانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو تازہ اور اجاگر کرتا ہے.قَطَعَاتُهَا تَهْدِى الْقُلُوبَ كَأَنَّهَا زُبُرٌ تُجِدُ نُقُوشَ شَمْسٍ مُقْتَدَا ترجمہ: اس کے ٹکڑے دلوں کو ہدایت کرتے ہیں گویا وہ کتابیں ہیں جو ہمارے آفتاب یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشوں کو تازہ کرتی ہیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شعری محاسن کے اعتبار سے آثار میں ہے کہ جب فرزدق جیسے عظیم الشان شاعر نے لبید کا یہ شعر سنا تو سجدہ ریز ہو گیا.استفسار پر اس نے جواب دیا کہ تم لوگ قرآن کریم کے مقامات سجدہ کو پہچانتے ہو اور میں شعر کے مقام سجدہ کو جانتا ہوں.اگر لبید کے شعر پر سجدہ ہوسکتا ہے تو.آنحضرت کی پیشگوئی ثابت ہونے کے اعتبار سے تو حضرت کا شعر ہزا ر سجدوں کے لائق ہے.ہم نے ادب جاہلیہ اور حضرت اقدس کے اتحاد اسلوب بیان میں بہت ہی کم مثالیں پیش کی ہیں کیونکہ

Page 160

141 ادب المسيح مقصد اس اتحاد کو ثابت کرنا تھا جو بہت حد تک حاصل ہو گیا ہے وگر نہ جو احباب ادب جاہلیہ اور حضرت کے کلام کا تفصیلی علم رکھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اتحاد اسلوب ادبی کے اثبات میں ایسی ایسی ان گنت امثال پیش کی جاسکتی ہیں.اس مضمون کی ابتدا میں عرض کیا گیا تھا کہ عربی زبان کے سفر بلوغت کے دو ہی سنگ میل ہیں.اول: ادب جاہلیہ دوم: قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت رسانی کہ آپ افصح العرب“ تھے یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ ادب جاہلیہ کو اول اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہی وہ ادب ہے جس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے برتر اور اعلیٰ ہونے کا دعوی فرماتا ہے.اس لیے اس کا اول بیان ہو نا لا زم تھا.ان دو حقائق کے پیش نظر لازم تھا کہ ہم حضرت اقدس کے عربی شعر کے محاسن کو ان دونوں ادب ہائے عالیہ کے حسن کلام کے سامنے پیش کرتے اور یہ جائزہ لیتے کہ آپ حضرت کا کلام کس حد تک ان کے قائم کردہ اقدار ادب کی مطابقت میں ہے.یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلوب ادب علمی بھی ہوتا ہے اور ادبی بھی.ادبی اسلوب کا تعلق زبان اور اس کے محاورے اور تشبیہی دلالتوں سے ہوتا ہے مگرعلمی اسلوب موضوعات کے انتخاب اور ترجیحات قلبی اور مشاہدات نظری سے قائم ہوتا ہے اس لیے باوجود اس حقیقت کے کہ قرآن کریم اور حضرت اقدس کا ادب عربی زبان اور اس کے محاورے کے اعتبار سے ادب جاہلیہ کے اسلوب پر ہے اور اسی اسلوب میں اس سے اعلیٰ اور ارفع ہے مگر علمی اسلوب کے اعتبار سے جس کو انتقاد میں ” مواد ادب“ کہتے ہیں.ان دونوں ادبی شاہکاروں کا ادب جاہلیہ سے کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے.قرآن کریم اور اس کے اتباع میں حضرت اقدس کے مواد ادب اول طور پر ثبوت ہستی باری تعالیٰ اور صداقت انبیاء اور فرمودات قرآن کریم ہیں اور دوسرے درجے پر خدا کی محبت.اس کی عبادت اور اخلاق حسنہ میں اس کی تعلیم ہے.اس کے برعکس مادی دنیا کے انسان کے مواد ادب انسان کے باہم عشق ومحبت میں ہجر و وصال کا ذکر اور مادی آسائشوں کا حصول یا فقدان کا نوحہ ہے.مواد اور موضوعات کے اس تفاوت اور اختلاف کی بناء پر حضرت مسیح موعود کا عربی کلام اُسی کلام کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے جس کی ترجیحات آپ کے کلام سے مکمل متحد اور ہم رنگ ہوں.

Page 161

المسيح 142 اس وضاحت کے بعد ہم اس مقام پر پہنچے ہیں کہ یہ جائزہ لیں کہ حضرت اقدس کا کلام کس قدر عاشقانہ انداز میں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا اتباع کر رہا ہے.یہ حقیقت تو واضح ہے کہ حضرت اقدس کا عربی ادب بیش سے بیش تر نثر میں تخلیق ہوا ہے اور آپ کی عربی نثر ہی حقیقت میں اس کامل اتباع کو پیش کر سکتی ہے جو آپ حضرت نے قرآن کریم کا کیا ہے.خاکسار کے مشاہدے کے مطابق آپ کی نثر میں کوئی فقرہ ایسا نہ ہو گا جس میں لسانی یا علمی اعتبار سے کوئی نہ کوئی جھلک قرآنی نور کی قلب و نظر کو بے تاب نہ کر رہی ہومگر کیونکہ ہم آپ حضرت کے ادب کی اس خدمت میں صرف آپ کا شعری کلام پیش کر رہے ہیں اس لیے آپ کے شعری کلام کی ان گنت امثال میں سے چند ایک اتباع قرآنِ کریم کے اثبات میں پیش کرتے ہیں.(۱) قرآن کریم فرماتا ہے: وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهرُ.....الى الآخر (البقرة: 75) ترجمہ: اور بعض پتھر ایسے ہیں کہ جن سے نہریں بہتی ہیں.آپ حضرت انقطاع الی اللہ کے بعد اپنے قلب کا عرفان الہی سے لبریز ہونے کو بیان کرتے ہیں.حفَرْتُ جِبَالَ النَّفْسِ مِنْ قُوَّةِ الْعُلَى فَصَارَ فُؤَادِي مِثْلَ نَهْرٍ يُفَجَّرُ ترجمہ: میں نے خدا داد طاقت سے نفس کے پہاڑوں کو کھودا ہے پس میرا دل نہر کی طرح ہو گیا ہے جو جاری کی جاتی ہے.(۲) قرآن کریم فرماتا ہے.فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنْبُوا مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (الانعام: 6) ترجمہ: انہوں نے تکذیب کی حق کی جب وہ ان کے پاس آیا عنقریب انکو خبریں ملینگی جسکی وہ تکذیب کرتے تھے.حضرت فرماتے ہیں: فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَ هُمُ فَسَوْفَ يُرِيْهِمْ رَبُّنَا مَا كَذَّبُوا ترجمہ: انہوں نے سچ کو جھٹلا دیا ہے جب وہ ان کے پاس آیا سوضرور انہیں دکھا دے گا ہمارا رب کہ انہوں نے کس چیز کو جھٹلایا ہے.(۳) قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کے انکار میں فرماتا ہے

Page 162

143 ادب المسيح بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ الى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُنْ لَّهُ صَاحِبَةٌ.....إلى الآخر (الانعام: 102) ترجمہ: اللہ موجد ہے آسمانوں اور زمین کا اس کے لیے اولاد کیونکر ہو حالانکہ اس کی کوئی بیوی نہیں.آپ حضرت قرآن ہی کے الفاظ میں فرماتے ہیں.وَ مِنْ أَيْنَ طِفُلْ لِلَّذِي هُوَ أَطْهَرُ أَلِلَّهِ زَوْجٌ ؟ أَيُّهَا الْمُتَمَدِّرُ! ترجمہ: اور کہاں لڑکا ہوسکتا ہے اس ہستی کا جو سب سے پاک ہے؟ اے خراب آدمی! کیا اللہ کی کوئی بیوی ہوسکتی ہے؟ (۴) قرآن کریم حضرت نوح کی زبان سے ان کی تکفیر پر فرماتا ہے وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ أَنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِي وَتَذْكِيْرِى بِايَتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ.....إلى الأخر (يونس: 72) ترجمہ ان پر نوح کی خبر پڑھ کر سنا.جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اگر تم پر میرا مقام اور نصیحت شاق گذرتی ہے تو میں نے اللہ پر توکل کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جَلَّتْ وَصَايَانَا هُدًى لَكِنَّهَا كَبُرَتْ عَلَيْكَ وَ لَيْتَهَا لَمْ تَكْبُرِ ہماری نصیحتیں ہدایت کے لحاظ سے شاندار ہیں لیکن وہ تجھ پر شاق ہیں.کاش کہ وہ شاق نہ گذرتیں (۵) قرآن کریم قیامت کے دن کی کیفیت کے بیان میں فرماتا ہے.وَانْذِرُهُمْ يَوْمَ الْأَزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُظِمِينَ (المؤمن : 19) ترجمہ: اور ان کو اچانک آنے والے دن سے ڈرا.جبکہ دل حلق کے نزدیک غم سے بھرے ہوئے ہونگے آپ حضرت عشق رسول اکرم کی کیفیت کے بیان میں فرماتے ہیں.وَ أَرَى الْقُلُوْبَ لَدَى الْحَنَاجِرِ قُرْبَةً وَ أَرَى الْغُرُوْبَ تُسِيْلُهَا الْعَيْنَانِ ترجمہ: اور میں دیکھتا ہوں کہ دل بیقراری سے گلے تک آگئے ہیں اور میں دیکھتا ہوں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.(1) قرآن کریم حضرت موسیٰ کی تکذیب کے بیان میں فرماتا ہے: وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ.......إلى الآخر (المومن: 29) ترجمہ: اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اس کا وبال ہوگا اور اگر وہ سچا ہے تو تم پر اس کی وعید کا کچھ حصہ پڑیگا.

Page 163

المسيح 144 آپ حضرت اپنے صدق دعوی کے بیان میں فرماتے ہیں.فَإِنْ أَكُ صِدِّيقًا فَرَبِّي يُعِزُّنِيْ وَ إِنْ اكُ كَذَّابًا فَسَوْفَ أَحَقَّرُ ترجمہ: سواگر میں سچا ہوں تو میرا رب مجھے عزت دے گا اور اگر میں جھوٹا ہوں تو ضرور بے عزت کیا جاؤں گا.(۷) قرآن کریم مومنوں کی مدد کے بیان میں فرماتا ہے: ذلِكَ بِأَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ امَنُوا وَانَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ (محمد: 12) ترجمہ: یہ اس لیے کہ اللہ مومنوں کا کارساز ہے اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں.آپ حضرت قرآن ہی کے الفاظ میں اس مضمون کا بیان کرتے ہیں.وَإِنَّ لَنَا الْمَوْلَى وَلَا مَوْلَى لَكُمْ فَتَنْظُرُ أَنَّا نَغْلِبَنَّ وَتُنْصَرُ ترجمہ: اور ہمارا تو ایک مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں.سو تو دیکھ لے گا کہ ہم ضرور غالب آئیں گے اور مدد دئیے جائیں گے.(۸) قرآن کریم انسان کی عذر خواہی کے بیان میں فرماتا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيْرَةٌ ، وَلَوْ انْقَى مَعَاذِيْرَهُ (القيمة: 16-15) ترجمہ: انسان اپنے نفس کو خوب جانتا ہے خواہ وہ اپنے عذر پیش کرے.آپ حضرت عیسائیوں کی فریب کاریوں کے بیان میں فرماتے ہیں: وَ مِنْ تَلْبِيْسِهِمْ قَدْ حَرَّفُوا الْأَلْفَاظَ تَفْسِيرًا وَ قَدْ بَانَتْ ضَلَالَتُهُمْ وَ لَوْ الْقُوا الْمَعَاذِيرَا ترجمہ: اور ان کی ایک تلبیس یہ ہے کہ تفسیر میں الفاظ کی تحریف کرتے ہیں اور اُن کی گمراہی ظاہر ہو چکی اگر چہ اب عذر پیش کریں.(۹) قرآن کریم انسان سے مواخذہ کرنے کے بیان میں فرماتا ہے.ذَرْنِي وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا (المدثر : 12) ترجمہ: مجھے اور میں نے جس کو پیدا کیا ہے اکیلا چھوڑ دے.آپ حضرت مکذبین کو کہتے ہیں کہ آپ کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں.فرماتے ہیں: فَذَرُنِي وَ خَلاقِي وَ لَسْتَ مُصَيْطِرًا عَلَيَّ وَلَا حَكَمْ وَقَاضٍ فَتَأْمُرُ ترجمہ: مجھ کو چھوڑ دے میرے ربّ کے حوالہ کر تو مجھ پر داروغہ نہیں کہ حکم چلاتا ہے فیصلے کرتا ہے نہ ثالث عادل ہے.

Page 164

145 ادب المسيح اس مضمون کے آخر پر ہم آپ حضرت کے ایسے چار اشعار پیش کرتے ہیں جو یک جابیان ہوئے ہیں اور جن میں ادب عربی کے دونوں سنگ میل یعنی ادب جاہلیہ اور ادب قرآن یکے بعد دیگرے بیان ہوا ہے.ادب جاہلیہ کے حوالہ سے حضرت لبید بن ربیعہ کا مشہور عالم شعر ہے.(1) الا كل شيء ما خلا الله باطل و كـل نـعـيـم لا محالة زائل ترجمہ : سُن لو کہ خدا کے سوا سب باطل ہے اور تمام نعمتیں ختم ہونے والی ہیں.اور اسی صاحب ادب صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا مصرعہ ہے جو آپ حضرت کو الہام ہوا ہے.(٢) إِنَّ المَنَايَا لَا تَطيش سِهَامُها ترجمہ : موتوں کے تیر کبھی خطا نہیں جاتے.ہمارے پیارے امام آخر زمان جاہلیہ کے اسلوب میں فرماتے ہیں.الا لَيْسَ غَيْرَ اللَّهِ شَيْءٌ مُدَوَّمٌ وَّكُلُّ جَلِيْسٍ مَّا خَلَا اللَّهَ يَهْجُرُ شعو ! اللہ کے سوا کوئی شئے ہمیشہ رہنے والی نہیں اور ہر ہم نشیں سوائے اللہ کے جدا ہونے والا ہے اثَرْنَ غُبَارًا عِنْدَ حُكْم يُصْدِرُ وَإِنَّ الْمَنَايَا سَابِحَاتٌ قَوِيَّةٌ اور مالتینا موتیں تو تیز روگھوڑے ہیں جو غبار اڑاتے ہیں حکم صادر ہونے کے وقت قرآن کریم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(1) أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ (الحديد : 17) ترجمہ: اب ہم مومنوں سے کہتے ہیں کہ کیا اب تک ان کے دل اللہ کے ذکر کیلیے جھکتے نہیں.(۲) وَأَخِرُ دَعُونَهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (يونس: 11) ترجمہ: اور ان کی آخری پکار یہ ہوگی کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین ہے.(ا) تَذَكَّرْ دِمَاءَ الْعَارِفِيْنَ بِسُبُلِهِ اَلَمْ يَأْنِ أَنْ تَخْشَى وَ أَنْتَ مُحَرَّرُ خدا کی راہ میں عارفین کے بہنے والے خون کو یاد کر.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تو ڈرے؟ یا کیا تو آزاد ہے؟ (۲) وَاخِرُ دَعْوَانَا أَن الْحَمْدُ لِلَّذِيْ هَدَانَا مَنَاهِجَ دِيْنِ حِزْبٍ طُهَرُوْا اور ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام حمد اسی ذات کے لیے ہے جس نے ہمیں پاک گروہ کے دین کی راہوں کی راہنمائی کی.اتباع قرآن اور اسالیب ادب عربی کے مقابل پر حضرت اقدس کے کلام کو مقدور بھر پیش کر دیا گیا ہے.

Page 165

المسيح 146 اس مرحلے پر اس مضمون کے دستور کے مطابق ہم چند اشعار ابلاغ رسالت کے عنوان کے تحت پیش کرتے ہیں.عربی میں ابلاغ رسالت کے عنوان سے ذیل کے اشعار گذشتہ میں پیش کیے جاچکے ہیں مگر دل چاہتا ہے کہ اس عنوان کے تحت اول مقام پر ان کو دوبارہ پیش کروں بہت ہی موثر اور پُر شوکت کلام ہے.بِمُطَّلِعٍ عَلَى أَسْرَارِ بَالِيُّ بِعَالِمِ غَيْبِتِي فِي كُلِّ حَالِيُّ قسم اس ذات کی جو میرے دل کے بھیدوں سے آگاہ ہے اور قسم اس ذات کی جو ہر حال میں میرے سینے کے راز سے واقف ہے.بِوَجْهِ قَدْ رَأَى أَعْشَارَ قَلْبِي بِمُسْتَمِعٍ بِصَرُحِي فِي اللَّيَالِي قسم ہے اس ذات کی جو میرے دل کے تمام گوشوں سے واقف ہے اور قسم اس ذات کی جو راتوں کو میری آہ وزاری کو سننے والا ہے.لَقَدْ أُرْسِلْتُ مِنْ رَّبِّ كَرِيمٍ رَحِيمٍ عِندَ طُوفَانِ الضَّلَالِ بے شک میں رب کریم رحیم کی طرف سے طوفان ضلالت کے وقت بھیجا گیا ہوں وَقَدْ أُعْطِيتُ بُرْهَانًا كَرُمْحٍ وَثَقَّفْنَاهُ تَنْقِيْفَ الْعَوَالِي اور مجھ کو نیزے جیسی ( تیز) برہان دی گئی ہے اور برہان کو ہم نے ہر کبھی سے پاک کر دیا ہے جس طرح کہ نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے.فَلَا تَقْفُ الظُّنُوْنَ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَ خَفْ أَخْذَ الْمُحَاسِبِ ذِي الْجَلَالِ پس تو نادانی سے بے بنیاد باتوں کے پیچھے نہ لگ اور صاحب جلال، حساب لینے والے کی گرفت سے ڈر آپ حضرت کے مصلح ربانی ہونے کے اعتبار سے آپ کے روحانی حسن و جمال کا بیان بھی سُن لیں: إِنِّي صَدُوْقَ مُصْلِحْ مُتَرَدِّمُ سَمٌ مُعَادَاتِي وَسِلْمِي أَسْلَمُ میں صادق اور مصلح ہوں اور میری دشمنی زہر اور میری صلح سلامتی ہے إِنِّي أَنَا الْبُسْتَانُ بُسْتَانُ الْهُدَى تَأْتِي إِلَى العَيْنُ لَا تَتَصَرَّمُ میں باغ ہدایت ہوں.میری طرف وہ چشمہ آتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا رُوْحِيْ لِتَقْدِيسِ الْعَلِيِّ حَمَامَةٌ اَوْ عَنْدَلِيبٌ غَارِدٌ مُتَرَبِّمُ میری روح خدا کی تقدیس کے لیے ایک کبوتر ہے یا بلبل ہے جو خوش آوازی سے بول رہی ہے مَا جِئْتُكُمْ فِي غَيْرِ وَقْتٍ عَابِيًّا قَدْ جِئْتُكُمْ وَالْوَقْتُ لَيْلٌ مُظْلِمُ میں تمہارے پاس بے وقت نہیں آیا.میں اس وقت آیا کہ ایک اندھیری رات تھی

Page 166

147 ادب المسيح صَارَتْ بِلَادُ الدِّيْنِ مِنْ جَدْبِ عَتَا أَقْوى وَ أَقْفَرُ بَعْدَ رَوْضٍ تَعْلَمُ دین کی ولایت بباعث قحط کے، جو غالب آ گیا، خالی ہو گئی بعد اس کے جو وہ ایک باغ کی طرح تھی.هَلْ بَقِيَ قَوْمٌ خَادِمُونَ لِدِيْنِنَا أَمْ هَلْ رَأَيْتَ الذِيْنَ كَيْفَ يُحَطَّمُ کیا کوئی قوم باقی ہے جو ہمارے دین کی خدمت کرے اور کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دین کوکس طرح مسمار کیا جاتا ہے.فَاللَّهُ أَرْسَلَنِي لِاحْيِيَ دِيْنَهُ حَق فَهَلْ مِنْ رَاشِدِ يَسْتَسْلِمُ سوخدا نے مجھے بھیجا تا کہ میں اس کے دین کو زندہ کروں یہ سچ ہے.پس کیا کوئی ہے جو اطاعت کرے.حضرت کے دعوای مجددیت اور جو علم قرآن آپ کو عطا ہوا ہے اس کو مشاہدہ کریں.وَ طُوبَى لِإِنْسَانِ تَيَقَّظَ وَ انْتَهَى وَخَافَ يَدَ الْمَوْلَى وَ سَيْفًا يُتَعْجِرُ اور خوشی ہے اس انسان کے لیے جو بیدار ہو اور رک گیا اور مولیٰ کے ہاتھ سے ڈرا اور اس تلوار سے بھی جو خون بہاتی ہے.وَ وَاللَّهِ إِنِّي جِئْتُ مِنْهُ مُجَدِّدًا بِوَقْتِ أَضَلَّ النَّاسَ غُوْلٌ مُّسَخّرُ اور خدا کی قسم ! یقیناً میں اس کی طرف سے مجدد ہو کر آیا ہوں ایسے وقت میں کہ قابو کر لینے والے دیو نے لوگوں کو گمراہ کر دیا تھا.وَعَلَّمَنِي رَبِّى عُلُوْمَ كِتَابِهِ وَ أُعْطِيْتُ مِمَّا كَانَ يُخْفَى وَيُسْتَرُ مجھے میرے رب نے اپنی کتاب کے علوم سکھائے اور مجھے وہ علم دیا گیا جو مخفی اور مستور تھا.وَأَسْرَارُ قُرْآنٍ مَّجِيْدِ تَبَيَّنَتْ عَلَيَّ وَيَسَّرَ لِيْ عَلِيْمٌ مُّيَسِرُ اور قرآن مجید کے بھید مجھ پر ظاہر ہو گئے.آسانی پیدا کرنے والے خدائے علیم نے میرے لیے آسانی پیدا کر دی.كَانَّ الْعَذَارَى بِالْوُجُوْهِ الْمُنِيْرَةِ خَرَجْنَ مِنَ الْكَهْفِ الَّذِي هُوَ مُقْعَرُ گویا کہ کنواری عورتیں چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ نکل پڑیں اس غار سے جو گہری تھی آپ جناب دعوا کی مہدیت کو بیان کرتے ہیں.يَا مُكْفِرِى أَهْلِ السَّعَادَةِ وَ الْهُدَى الْيَوْمَ أَنْزِلْتُمْ بِدَارِ هَوَان اے وے لوگو جو اہل سعادت کو کافر ٹھہراتے ہو! آج تم ذلت کے گھر میں اتارے گئے تُوْبُوْا مِنَ الْهَفَوَاتِ يُغْفَرْ ذَنْبُكُمْ وَاللَّهُ بَر وَاسِعُ الغُفْرَان اپنی لغزشوں سے تو بہ کرو تا تمہارے گناہ بخشے جاویں.اور خدا تعالیٰ نکوکار، وسیع المغفرت ہے

Page 167

المسيح 148 قَدْ جَاءَ مَهْدِيْكُمْ وَ ظَهَرَتْ آيَةٌ فَاسْعَوْا بِصِدْقِ الْقَلْبِ يَا فِتْيَانِي تمہارا مہدی آگیا اور نشان ظاہر ہو گیا.سواے میرے جوانو! دلی صدق سے کوشش کرو.اور آخر پر ابلاغ رسالت کے حکم کی بجا آوری کے ثبوت میں فرماتے ہیں: وَ إِنَّ هِدَايَةَ الْفُرْقَانِ دِيْنِيْ وَادْعُوْكُمْ إِلَى نَهْجِ السَّدَادِ اور بے شک قرآن کی ہدایت ہی میرا دین ہے اور میں تمہیں بھی درست راستے کی طرف بلاتا ہوں.وَإِمَّا شِئْتَ فَاجْلِسْ فِي الْأَعَادِي فَقُمْ إِنْ شِئْتَ كَالْاحْبَابِ طَوْعًا اگر تو چاہے تو دوستوں کی طرح (اپنی) خوشی سے اٹھ اور اگر چاہے تو تو دشمنوں میں بیٹھا رہ.وَبَارَزنَا، فَيَا قَوْمِي بَدَادِ وَقَدْ بَارَى الْعَدُوُّ بِعَزْمِ حَرْبِ اور بے شک دشمن لڑائی کے ارادے سے سامنے آ گیا اور ہم بھی مقابلے میں نکل کھڑے ہیں.پس اے میری قوم! میرے مدِ مقابل کو سامنے لا.فَقَدْ بَلَّغْتُ فَرْضِيْ بِالْوَدَادِ وَكَانَ نَصِيْحَةٌ لِلَّهِ فَرْضِيْ اور خدا کے لیے نصیحت کرنا میرا فرض تھا اور میں نے اپنا فرض دوستانہ جذبات کے ساتھ پورا کر دیا ہے.میری خواہش ہے کہ اس مضمون کے اختتام پر اس موضوع کو مزید تقویت دینے کے لیے چند دیگر عنوانات کے تحت بھی امثال پیش کروں جہاں پر آپ حضرت نے تینوں زبانوں کے مختلف اور متنوع اسالیب کی پاسداری کرتے ہوئے کلام تخلیق کیا ہے.تا کہ ایسا ہو کہ ایک ہی مقام پر مختصرا آپ حضرت کی قدرت کلام کا نمونہ پیش ہو جائے.اسی غرض کے لیے ہم نے آپ حضرت کے محرکات تخلیق ادب کے موضوع کے تحت دوعنوانات کا انتخاب کیا ہے.اول: محبت الهی دوم: محبت قرآن کریم اول عنوان کے تحت اردو میں بہت دلفریب انداز میں فرماتے ہیں جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا کیا ہوا گر قوم کا دل سنگِ خارا ہو گیا يَعْلَمُ الله کہ بکس نیست غبارے مارا فارسی زبان میں آپ کا حسن کلام مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: خاکساریم و سخن از ره غربت گویم ہم خاکسار ہیں.غریبانہ طور پر کلام کرتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ ہمیں کسی سے عناد نہیں.

Page 168

مانہ بیہودہ بیٹے ایس سروکارے برویم 149 ادب المسيح جلوۂ حسن کشد جانب یارے مارا ہم یہ کام بے کا رطور پر نہیں کر رہے حسن کا جلوہ ہمیں اپنے دوست کی طرف کھینچ رہا ہے.عربی میں قلبی محبت الہی کا بیان دیکھیں.أنْتَ الْمُرَادُ وَاَنْتَ مَطْلَبُ مُهْجَتِى وَ عَلَيْكَ كُلُّ تَوَكَّلِي وَ رَجَائِي تو ہی مراد ہے اور تو ہی مری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور امید ہے.أَعْطَيْتَنِي كَاسَ الْمَحَبَّةِ رَيْقَهَا فَشَرِبُتُ رَوْحَاءٌ عَلَى رَوْحَاءِ تو نے مجھے محبت کی بہترین ئے کا ساغر عطا کیا ہے تو میں نے جام پر جام پیا.إِنِّي أَمُوتُ وَلَا يَمُوتُ مَحَبَّتِى يُدْرَى بَذِكْرِكَ فِي الْتُرَابِ نِدَائِي میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.(قبر کی مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائے گی.انتَ الَّذِي قَدْ كَانَ مَقْصِدَ مُهْجَتِي فِي كُلِّ رَشْحِ الْقَلَمِ وَالْإِمْلَاءِ تو ہی میری جان کا مقصود تھا.قلم کے ہر قطرہ (روشنائی) اور تحریر میں.اردو میں قرآن کریم سے محبت کا انداز مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے شکر خدائے رحماں ! جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے آب گل کھلا یہی ہے کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے فارسی زبان میں اس محبت کے اظہار پر نظر کریں.أو انیس خاطر غمگین ماست الغرض فرقاں مدار دین ماست الغرض قرآن ہمارے دین کی بنیاد ہے وہ ہمارے غمگین دل کو تسلی دینے والا ہے نور فرقاں مے کشد سوئے خُدا می توان دیدن ازو روے خدا فرقان کا نور خدا کی طرف کھینچتا ہے.اس سے خدا کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں پہنچو رُوئے او کجا رُوئے دگر! ما چه ساں بندیم زاں دلبر نظر ! ہم اس معشوق سے اپنی آنکھیں کیونکر بند کر سکتے ہیں.اُس کے چہرہ جیسا خوبصورت اور کوئی چہرہ کہاں ہے روئے من از نور روئے کو بتافت یافت از فیضش دل من هرچه یافت میرا منہ اُس کے منہ کے نور کی وجہ سے چمک اٹھا میرے دل نے جو کچھ بھی پایا اسی کے فیض سے پایا

Page 169

المسيح 150 اور عربی زبان میں قرآن کریم کی محبت کا دور جام دیکھے طَرِيٌّ طَلَاوَتُهُ وَ لَمْ تَعْفُ نُقْطَةٌ لِمَا صَانَهُ اللهُ الْقَدِيْرُ الْمُوَقَّرُ اس کی ترو تازگی ہمیشہ ہی شاداب ہے اور اس کا ایک نقطہ بھی نہ مٹ سکا کیونکہ عزت بخش اور قدیر خدا نے اس کی حفاظت فرمائی ہے فَيَا عَجَبًا مِنْ حُسْنِهِ وَ جَمَالِهِ 0 ارى أَنَّهُ دُرِّ وَّ مِسْكَ وَ عَنْبَرُ پس اس کا حسن اور جمال کیا ہی عجیب ہے.میں تو اس کو موتی.کستوری اور عنبر ہی پاتا ہوں فَهَلْ فِي النَّدَامَى حَاضِرٌ مَّنْ يُكَوِّرُ وَ إِنَّ سُرُوْرِي فِي إِدَارَةِ كَأْسِهِ اور میری خوشی تو اس کے پیالہ کوگردش میں لانے میں رہی ہے.کیا ہم مجلسوں میں کوئی ہے جو بار بار لے؟ اس سے قبل میں بھی عرض کیا گیا ہے کہ آپ حضرت کا اسلوب شعری کا تین زبانوں کے اقدار ادب اور اساتذہ شعر کے مطابق ہونے کا موضوع قدرے طویل اور مفصل ہو گیا ہے.مگر حضرت اقدس کے کلام کے محاسن پیش کرنے کے لیے یہ تقابلی تفصیل از بس ضروری تھی.مگر اس تفصیل کا حقیقی اور محترم فائدہ تو یہ ہے کہ ایک حد تک یہ حقیقت بھی روشن ہو گئی کہ حضرت کا عربی کلام در اصل قرآن کریم کے اسلوب بیان اور انتخاب الفاظ کا اتباع ہے.اور اس حقیقت کو روشن کرنا ہی ہما را اولین مقصد تھا یہ مقصد صرف موضوعات شعر کے اتحاد کو بیان کر کے ہی حاصل ہوسکتا تھا.عربی ہی ایسی زبان تھی جس میں آپ حضرت کا اتباع قرآن تمام ادبی اقدار کی روشنی میں ثابت کیا جا سکتا تھا.یعنی ا ترجیحات قلبی اور موضوعات شعر میں اتباع.||.اسلوب بیان میں اتباع.||| انتخاب الفاظ اور محاورہ زبان میں اتباع.ہمیں امید ہے کہ اس کوشش سے ایک حد تک تینوں مقاصد تحریر حاصل ہو گئے ہیں.فالحمد للہ علی ذلک

Page 170

151 ادب المسيح حضرت اقدس کے ادب کے علائم ورموز قبل میں بہت اختصار سے عرض کیا گیا تھا کہ لفظ کے دو معانی کیسے جاسکتے ہیں.ایک وضعی یا حقیقی اور ایک مجازی یعنی غیر حقیقی.اگر بہت اختصار سے اس امر کی وضاحت کی جائے تو وہ ایسے ہے کہ ”لفظ کے وہ معانی بھی کیسے جاسکتے ہیں جن کے لیے وہ اول مقام پر وضع کیا گیا ہے اور اُن معانی میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جن کے لیے وہ حقیقی طور پر بنایا نہیں گیا، ان معنوں کو مجازی معانی کہتے ہیں.لفظ کا یہ مفہوم در اصل علامتی مفہوم ہے.گویا کہ ” مجاز لفظ کے معانی میں تجاوز کا نام ہے.یہ بھی کہا گیا تھا کہ شعری ادب کی دنیا میں لفظ کی دلالتوں اور معانی کو وسعت دینے کے لیے شعر میں اکثر و بیشتر لفظ کو مجازی یا معانی مستعار کے اظہار کے لیے اختیار کیا جاتا ہے.اس عمل کو ادبی انتقاد میں شعر کے علائم اور رموز کہتے ہیں.” رموز رمز کی جمع ہے جو کہ پوشیدہ اشارے اور کنائے سے تعبیر ہے اور علائم علامت کی جمع ہے جس سے ادب میں معانی مستعار مراد ہوتے ہیں.لفظ کی اس دورنگی کو غالب نے بہت ہی خوبصورتی سے بیان کیا ہے.مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام چلتا نہیں ہے دشنہ وشجر کہے بغیر ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر یعنی محبوب کے ناز و ادا سے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اس کو تیر اور خنجر لگنے کی کیفیت کے سوا کیسے بیان کیا جاسکتا ہے اور جب سالک راہ کو وصال باری تعالی بیان کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اس وجدانی کیفیت کو اس طور ہی سے کہے گا کہ محبوب حقیقی نے مجھے جام وصال پلا کر مد ہوش کر دیا ہے.حضرت اقدس نے بھی اس شعری ضرورت کی پاسداری کرتے ہوئے ”لفظ کے مجازی معانی کو اختیار فرمایا ہے.کس قدر خوبصورت فرمان ہے.احمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جام من است ترجمہ: احمد آخر زمان میرا نام ہے ( اور بادۂ معرفت کا ) آخری جام میرا ہی جام ہے.

Page 171

ب المسيح 152 اور قرآن کریم سے حصول عرفان باری تعالیٰ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: این کتاب حق که قرآں نامِ اُوست یاده عرفان ما از جام اوست ترجمہ: یہ خدا کی کتاب جس کا نام قرآن ہے میرے عرفان کی مے اسی جام سے ہے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عشق کے بیان میں فرماتے ہیں: ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلا یا ہم نے فارسی اور اردو کے اشعار پیش ہوئے ہیں تو عربی کا فرمان بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: أنْتَ الْمُرَادُ وَ أَنْتَ مَطْلَبُ مُهْجَتِي وَ عَلَيْكَ كُلُّ تَوَكَّلِي وَ رَجَائِي ترجمہ: تو ہی میری مراد ہے اور تو ہی میری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور امید ہے أَعْطَيْتَنِي كَاسَ الْمَحَبَّةِ رَيْقَهَا فَشَرِبْتُ رُوْ حَاءٌ عَلَى رُوحَاءِ ترجمہ: تو نے مجھے محبت کی مے کا بہترین ساغر عطا کیا ہے تو پھر میں نے جام پر جام پیا ہے.دیکھ لیں غالب نے کتنی درست بات کہی ہے ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر بات یہ ہو رہی تھی کہ شعری ادب میں ”لفظ کی مجازی علامتوں اور اشاروں سے مدد نہ لی جائے تو کیفیات قلبی کا حسین اور دلنشین انداز میں اظہار ممکن نہیں ہوتا اور اسی ادبی عصر کا نام مجاز ہے اس لیے ہر قابل ذکر شاعر نے اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کامل کے لیے لفظی دلالتیں اور اشارے مقرر کیے ہیں تا کہ شعر کوسُن کر یہ کہا جا سکے.دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ہماری خواہش ہے کہ حضرت اقدس کے ادب عالیہ میں آپ حضور نے جو الفاظ معانی مستعار یا علامات کے طور پر اختیار کیے ہیں ان کا ایک مختصر سا تصور پیش کریں.مشکل یہ ہے کہ ایسے رموز و علائم تو بہت ہیں مگر زیر نظر

Page 172

153 ادب المسيح کوشش ان تمام الفاظ کا جائزہ لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی.اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غالب کی طرح سے آپ کے علامتی الفاظ کے دو شعبے بنا دیے جائیں ایک روحانی اور دینی علامات کا اور دوسرا خالص ادبی علامات کا.اور پھر ان دونوں شعبوں میں چند ایک پیش خدمت کیے جائیں اور نہایت اختصار سے بیان کیا جائے کہ حضرت اقدس نے ان الفاظ کو کن معانی اور مطلب کے اظہار میں اختیار کیا ہے.مگر اس کوشش سے یہ مراد نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ ان الفاظ کی وہی دلالتیں ہیں جو ہم نے پیش کی ہیں.کیونکہ ہر صاحب نظر ادیب ادب عالیہ کے رموز کو ذاتی شعور ادبی کے مطابق سمجھنے اور لطف اٹھانے میں آزاد ہوتا ہے.تاہم ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم آپ حضرت کے علامتی معانی کو آپ ہی کے اشعار کی روشنی میں ثابت کریں اور یہ بھی کہ جس مقام پر حضرت اقدس قرآن کریم کے اتباع میں معانی کر رہے ہیں.وہاں پر قرآن کریم کا حوالہ بھی دے دیا جائے.روحانی رموز اور علائم کے تحت ہم نے دو الفاظ انتخاب کیسے ہیں.اول ”لفظ نُور اور دوم لفظ صدق ادبی رموز و علائم کے تحت بھی دو الفاظ انتخاب کیے گئے ہیں.اول.بہار اور دوم کر بلا گریبان اور جیب

Page 173

ب المسيح 154 روحانی علائم و رموز نور ایک عربی لفظ ہے جس کے مشہور عام معانی روشنی کے ہیں.حضرت اقدس نے اس لفظ کو بہت سے معنوں میں اختیار کیا ہے اور ان تمام معانی اور دلالتوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ سب قرآن کریم سے ماخوذ ہیں.اول قدم پر آپ حضور نے قرآن کریم کے فرمان اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (النور: 36) کے اتباع میں خدا تعالیٰ کو اس نام سے پکارا ہے.فارسی میں اللہ تعالیٰ کو نہایت درجہ محبت سے خطاب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں: اے دلبر و دلستان و دلدار و اے جان جہان و نور انوار ترجمہ: اے دلبر دلستان اور دل دار.اے جہان کی جان اور نوروں کے نور بینم در از یاد تو نورها به حلقة عاشقان خوں بار ترجمہ: تیرے ذکر کی برکت سے میں انوار دیکھتا ہوں آہ و زاری کرنے والے عاشقوں کی جماعت میں.اردو میں فرماتے ہیں: کس قدر ظاہر ہے نو ر اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا اور فرماتے ہیں: ٹو ر فرقاں ہے جو سب ٹوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا عربی میں فرماتے ہیں: وَمَا غَيْرُ بَابِ الرَّبِّ إِلَّا مَذَلَّةٌ وَ مَا غَيْرُ نُورِ الرَّبِّ إِلَّا تَكَدُّرُ ترجمہ : رب کے دروازہ کے سوا باقی سب ذلت ہے اور رب کے نور کے سوا باقی سب ظلمت ہے.مشاہدہ کریں الله نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ “ اور ” نور انوار اور مبداء الانوار میں با ہم کس قدر اتحاد لفظی اور معنوی ہے.ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کو ” نور“ کا نام دیا ہے.حضرت اقدس اس آیت کے معافی کرتے ہوئے فرماتے ہیں.خدا اصل نور ہے.ہر ایک نور زمین اور آسمان کا اُسی سے نکلا ہے“ (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 174

155 ادب المسيح چنانچہ حضرت اقدس نے اول قدم پر ” نور“ کا لفظ خدا تعالیٰ کی ہستی کے لیے اختیار کیا اور پھر اس ہستی سے جو انوار کا دریا نکلا ہے اس میں اول نام اور اشارہ ہمارے پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کے سردار اور دیگر تمام انبیاء کا ہے اور پھر قرآن کریم کے عرفان کے دریا کا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: قَدْ جَاءَ كُمْ مِنَ اللهِ نُورُ وكِتب مُّبِينٌ (المائدة: 16) اور فرمایا: وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا (الاحزاب : 47) حضرت اقدس نُورٌ وَّ كِتَابٌ مُّبِين “ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ظلمانی زمانے کے تدارک کے لیے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کا رسول اور اُس کی کتاب ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت المائدة :16) اور سراجا منیرا کی تفسیر میں فرماتے ہیں: انبیاءسلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو کثرت اور کمال سے ٹور باطنی عطا ہوا ہے.دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت الاحزاب : 47) قرآن کریم کے فرمودات ہی کے اتباع میں حضرت اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرماتے ہیں: وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نو رسا را نام اُس کا ہے مُحَمَّدٌ دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبراک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے.بدر الدجی یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مُرسلیں ہے وہ طیب وامیں ہے اُس کی ثناء یہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

Page 175

المسيح 156 اور فرماتے ہیں: نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار اور دیگر تمام انبیاء کے بارے میں فرمایا کہ وہ بھی حامل نور تھے“.بچنیں سے داں مقام انبیاء مے واصلان و فاصلال از ما سواء ترجمہ: انبیاء کے مقام کی یہی مثال ہے واصل باللہ ہیں خدا کے غیر سے لاتعلق ہیں فانی اند و آله ربانی اند نور حق در جامعه ربانی اند! ترجمہ: وہ فانی فی اللہ ہیں اور خدا کا ہتھیار ہیں انسانی لباس میں خدا کا نور ہیں زانکہ ادنی را به اعلی راه نیست کس نے قدر نور شاں آگاه نیست ترجمہ: کوئی ان کے نور کی قدر سے آگاہ نہیں کیونکہ ادنی کو اعلیٰ تک رسائی نہیں اور فرماتے ہیں: ہر رسولے آفتاب صدق بود ہر رسو.متحد در ذات و اصل و گوہرے رسولی بود مہر انورے ترجمہ: ہر رسول سچائی کا سورج تھا ہر رسول منور سورج تھا آں ہمہ از یک صدف صد گوہر اند ترجمہ: یہ سب ایک سیپی کے سو موتی ہیں جو ذات اور اصل اور چمک میں یکساں ہیں.انبیاء روشن گہر هستند لیک ہست احمد زاں ہمہ روشن ترے ترجمه تمام انبیاء روشن فطرت رکھنے والے ہیں مگر احمد ان سب سے زیادہ روشن ہے اس مضمون میں اس حدیث کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری سب سے محترم اور محبوب ماں یعنی حضرت آمنہ بی بی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کشفا دیکھا تھا کہ ایک نوران کے بطن سے نکلا ہے جس نے شام کے محلات روشن کر دیے ہیں.اور ایک عظیم الشان شعر یہ بھی تو ہے.فرماتے ہیں: (مشكوة باب فضائل رسول (صلعم) محمد میں نقش نور خداست کہ ہرگز چنوئے بگیتی نخاست محمد خدا کے نور کا سب سے بڑا نقش ہیں ان جیسا انسان دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا

Page 176

157 ادب المسيح اس شعر کے مضمون میں بہت ہی خوبصورت کلام ہے فرماتے ہیں: تانه نور احمد آید چاره گر! کس نمی گیرد از تاریکی بدر! ترجمہ: جب تک احمد کا نور چارہ گر نہ ہو تب تک کوئی تاریکی کے لیے چاند نہیں نکل سکتا.از طفیل اُوست نور ہر نبی نام ہر مُرسل بنام او جلی ترجمہ: ہر نبی کا نور آپ کے طفیل ہے ہر رسول کا نام اس کے نام سے روشن عربی میں فرماتے ہیں: نُورٌ مِّنَ اللَّهِ الَّذِي أَحْيَ الْعُلُوْمَ تَجَدُّدَا الْمُصْطَفَى وَ الْمُجْتَبَىٰ وَ الْمُقْتَدَى وَ الْمُجْتَدَا ہے.ترجمہ: وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کیا.وہ برگزیدہ اور چنیدہ ہے اس کی پیروی کی جاتی ہے اور اس سے فیض طلب کیا جاتا ہے.لفظ انور کے علامتی اشاروں میں تیسرا اہم اشارہ قرآن کریم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمُ نُورًا مُّبِينًا (النساء: 175) حضرت اقدس اس آیت کے معانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اے لوگو قر آن ایک بُرہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور کھلا کھلا نور ہے.جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.“ قرآن کے ہی اتباع میں فرماتے ہیں: وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقُرْآنُ فَيْضًا (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) خَفِيرٌ جَالِبٌ نَحْوَ الْجَنَانِ ترجمہ: اور تو کیا جانتا ہے کہ قرآن فیض کے اعتبار سے کیا ہے؟ وہ ایک راہبر ہے جو بہشت کی طرف کھینچتا ہے.لَهُ نُوْرَانِ نُورٌ مِنْ عُلُومِ وَ نُورٌ مِّنْ بَيَانٍ كَا الْجَمَانِ ترجمہ: اس میں دونور ہیں ایک علوم کا نور اور دوسرا فصاحت اور بلاغت کا نور جو چاندی کی طرح چمکتا ہے.اور نُورًا مُّبِينًا کے مطابق فرماتے ہیں: وَكُلُّ النُّورِ فِي الْقُرْآنِ لَكِنْ يَمِيلُ الْهَالِكُوُن إِلَى الدُّخَانِ ترجمہ : تمام اور ہر ایک قسم کے نور قرآن میں ہیں مگر مرنے والے دھوئیں کی طرف دوڑتے ہیں.

Page 177

المسيح 158 بِهِ نِلْنَا تُرَاكَ الْكَامِلِينَا بهِ سِرْنَا إِلَى أَقْصَى الْمَعَانِي ہم نے اس کے ذریعہ سے کاملوں کی وراثت پائی.ہم نے اس وسیلہ سے حقائق کے اخیر تک سیر کیا.اور اردو میں فرماتے ہیں: نور فرقاں ہے جوسب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا ہے قصورا پنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور اور فرماتے ہیں: ایسا چکا ہے کہ صد نیر بیضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دُنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعمی نکلا اے عزیزو! سنو کہ بے قرآں حق کو ملتا نہیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں اُن پہ اُس یار کی نظر ہی نہیں اور پھر اس نور کا حقیقی منصب مشاہدہ کریں فرماتے ہیں: ہے شکر رب عزوجل خارج از بیان جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں پر یہ کلام نور خدا کو دکھاتا ہے اس کی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن نا تمام ہے

Page 178

159 ادب المسيح فارسی زبان میں دیکھیں کس قدرشان سے اور کیسے والہانہ انداز میں فرماتے ہیں: از نور پاک قرآن صبح صفا دمیده بر غنچہ ہائے دلہا بادِ صبا وزیده ترجمہ: قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہوئی اور دلوں کے غنچوں پر بادصبا چلنے لگی.ایں روشنی و لمعاں شمس الضحیٰ ندارد وایس دلبری و خوبی کس در قمر نه دیده ترجمہ ایسی روشنی اور چمک تو دو پہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندی میں بھی نہیں.اے کانِ دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی کیں خلق آفریده ترجمہ: اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کہاں سے آئی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی ہیں.میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده ترجمہ : مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس فریاد سننے والے خدا کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے.اور فرماتے ہیں: از وحی خدا صبح صداقت بدمیده چشمے کہ ندید آں صحفِ پاک چه دیده ترجمہ : خدا کی وحی سے صبح صداقت روشن ہوگئی جس آنکھ نے یہ صحف پاک نہیں دیکھے اُس نے کچھ بھی نہیں دیکھا.آں دیدہ کہ ٹورے نگرفت است ز فرقاں حقا کہ ہمہ عمر ز کوری نہ رہیدہ جس آنکھ نے قرآن سے نو را خذ نہیں کیا خدا کی قسم کہ وہ ساری عمر اندھے پن سے رہائی نہیں پائے گا اور فارسی میں قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامت ”نور“ کے چند اور معانی بھی مشاہدہ کر لیں.آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کے نور سے مراد اول صداقت کا چراغ ہے دوم رہبر و رہنما ہے.نعمت اور رحمت خداوندی ہے اور خدا کی پہچان کا ذریعہ ہے.فرماتے ہیں: نور فرقاں نه تافت است چناں کہ بماندے نہاں ز دیدہ وراں ترجمہ: قرآن کا نور اس طور سے نہیں چمکتا کہ دیکھنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے.آں چراغ هداست دنیا را رہبر و رہنماست دنیا را ترجمہ: وہ تمام دنیا کے لیے ہدایت کا چراغ ہے وہ جہان بھر کے لیے رہبر و راہنما ہے.

Page 179

المسيح مخزن راز ہائے ربانی 160 از خدا اله خدا دانی ہے ترجمہ: وہ خدا کے اسرار کا خزانہ ہے خدا کی طرف سے خدا شناسی کا آلہ اس مقام تک ہم نے حضرت اقدس کے کلام کی علامت نور کو اس ترتیب سے پیش کیا ہے کہ اول نور سے مراد ہستی باری تعالی ہے اور دوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیاء و مرسلین ہیں.اور سوم قرآن کریم ہے.اور ان تمام علامتی استعاروں کو اختیار کرنے کی تصدیق اور توثیق کے لیے قرآن کریم کے فرمودات کو پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بھی واضح ہو جائے کہ حضرت اقدس نے اس علامت کو از خود انتخاب نہیں کیا بلکہ یہ انتخاب قرآن کریم سے ماخوذ ہے اور کامل اتباع قرآن ہے.اس تسلسل بیان میں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نور جو کہ نور کے حقیقی منبع یعنی باری تعالیٰ عز شانہ کی ہستی سے نکلا ہے دراصل عرفان باری تعالیٰ اور اس کی محبت کا نور تھا جو ہمارے آقا اور پیشوا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ سے انسان کے قلب و نظر کو منور کرنے کے لیے ایک دریائے نور کی طرح جاری ہوا اور اپنی نورانی امواج میں تمام انبیاء اور صلحاء کو منور کرتا ہوا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب وروح پر تحمیل پذیر ہوا.جیسا کہ باری تعالیٰ نے فرمایا ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 4) ترجمہ: آج میں نے تمہارے فائدہ کے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو مکمل کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے.اس نور کے سفر کو بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: كُنتُ نَبِيًّا وَالْآدَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالتِّيْنِ ترجمہ: میں اسوقت بھی نبی تھا جبکہ آدم جسم اور روح کے درمیان تھا.اس فرمان نبوی کے معنوں میں حضرت فرماتے ہیں: روح او در گفتن قول بلی اول کسے آدم توحید و پیش از آدمش پیوند یار ترجمہ: قول بلی کہنے میں آپ کی روح سب سے اول ہے.آپ تو حید کے آدم ہیں اور آدم سے پہلے آپ کا خدا سے پیوند تھا.

Page 180

اور فرماتے ہیں: 161 ادب المسيح آں شہِ عالم که نامش مصطفی سید عشاق حق شمس الضحی ترجمہ: وہ جہاں کا بادشاہ جس کا نام مصطفیٰ ہے جو عاشقانِ الہی کا سردار اور چمکتا ہوا سورج ہے آنکہ ہر نُورے طفیل نور اوست آنکه منظور خدا منظور اوست ترجمہ: وہ وہ ہے کہ ہر نور اسی کے طفیل سے ہے اور وہ وہ ہے کہ جس کا منظور کردہ خدا کا منظور کردہ ہے.آنکه جمله انبیاء و راستاں خادمانش ہمچو خاک آستاں ترجمہ: وہ کہ تمام انبیاء اور راست باز لوگ خاک در کی طرح سے اس کے خادم ہیں.یہ صیح ہے کہ اس دریائے نور کا آخری قیام وہی تھا جہاں پر اس نے ہمارے آقا اور پیشو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ صافی کے سمندر میں گرنا تھا.مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس نور کے سمندر کا آخری تموج ایک اور بھی تھا جس کو اس نے.وَأُخْرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة:4) کے فرمان میں بیان کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہی کی ایک تحجتی، عظیم ہوگی.اور آپ ہی کے طفیل آپ کے نور کی ضوفشانی ہوگی اور ایسی ہوگی کہ گویا کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہی تشریف لے آئے ہیں.تی جلی مہدی آخر زمان اور مسیح دوران کی ہے جیسا کہ حضرت اقدس فرماتے ہیں: ہست او خیر الرسل خیر الانام ہر نبوت را برو شد اختتام ترجمہ: وہ خیر الرسل اور خیر الانام ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تکمیل اس پر ہو چکی ہے.آنچه ما را وحی و ایمائی بود آن نه از خود از ہماں جائے بود ترجمہ: جو وحی اور الہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں وہیں سے آتا ہے.اور فرماتے ہیں: انبیاء گرچه بوده اند بسے من بعرفاں نہ کمترم نہ کسے ترجمہ: انبیاءاگر چہ بہت سے ہوئے ہیں مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں.

Page 181

المسيح 162 وارث مصطفی شدم به یقیں شده رنگیں به رنگ یار حسیں ترجمہ: میں یقینا مصطفیٰ کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں.لیکن آئینه ام ز رب غنی از پیئے صورتِ مر مدنی لیکن میں رب غنی کی طرف سے آئینہ کی طرح ہوں.اس مدنی چاند کی صورت لوگوں کو دکھانے کے لیے.مشاہدہ کریں.آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے تمام روحانی منصب آپ کے نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.آپ ان کے رخ انور کا آئینہ ہیں اور آپ ان کے انوار کے وارث ہیں.یہ اتحاد اور الحاق اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے اس لیے آپ حضرت کی روحانی تجلیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تجلیات ہیں.فرماتے ہیں: مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نو رلیا با رخدایا ہم نے اور اس حصول نور کے بعد فرماتے ہیں: میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسمان سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار اور فرماتے ہیں: آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا یا ؤ گے !! لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلا یا ہم نے اور نثر میں نہایت درجہ یقین اور جلال سے فرماتے ہیں: مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61) اور آخر پر آپ حضرت وقت کی بے دینی اور بے راہ روی کو بیان کر کے اپنی بعثت کی غرض و غایت بیان

Page 182

کرتے ہیں.فرماتے ہیں: 163 ادب المسيح اندریس روز ہائے چوں شب تار دست گیرد عنایت داوار ترجمہ: ایسے دنوں میں جو اندھیری رات کی طرح ہوتے ہیں خدائے عادل کی مہر بانی لوگوں کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے.فرستند بخلق صاحب نور تا شود تیرگی ز تورش دور ترجمہ: وہ خلقت کی طرف ایک نورانی وجود بھیجتا ہے تا کہ اس کے نور سے اندھیرا دور ہو.حضرت اقدس کے کلام میں علامت نور کی نشاندہی قدرے تفصیلی ہوگئی ہے.ایسا اس لیے ہوا کہ حضرت اقدس نے اس علامت کو تمام روحانی مناصب اور روحانی تجلیات کے اظہار کیلیے اختیار فرمایا ہے.اس لیے تفصیل ناگزیر تھی.گزشتہ میں اس علامت کے بنیادی اور اہم اشارے بتا دیے گئے ہیں.عمومی طور پر فرمان قرآن سن لیں.وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه (الحديد: 29) اس فرمان سے لفظ نور کی علامتی وسعت کا اندازہ لگا لیں.اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں: تمہیں ایک پاک نور عطا کیا جائیگا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا.یعنی نور الہام اور نو را جابت دعا اور نور کرامات اصطفاء (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 183

ب المسيح صدق 164 دوسرا لفظ جوحضور سیدی نے اپنے کلام میں علامت اور استعارے کے طور پر اختیار کیا ہے وہ صدق ہے.ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ روحانی نظام میں: اول مقام پر اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ہے.اور دوسرے مقام پر اس نور کی تجلی ہے جو صدق کامل ہے اور خدا کے کلام اور انبیاء کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللهِ وَكَذَبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ (الزمر:33) ترجمہ: اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور اپنی طرف خدا کی جناب سے آنے والے صدق کو جھٹلائے.اللہ تعالیٰ نے اول اپنی ذات کو صدق کامل کہا اور پھر اپنے کلام کو اور اس کے بعد آنے والی آیت میں قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر تمام مرسلین باری تعالیٰ کو اسی بنا پر ہی صدیق کا لقب دیا کہ وہ باری تعالیٰ کے صدق کامل کی تصدیق کرنے والے ہیں جیسا کہ فرمایا: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللهِ قِيلًا (النساء: 123) ترجمہ: اپنے بیان میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ اور کون سچا ہو سکتا ہے؟ فرمایا: وَالَّذِي جَاءَ بِالصِدْقِ وَصَدَّقَ بِة أوليكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (الزمر : 34) ترجمہ: اور وہ جو خدا کی طرف سے سچی تعلیم لے کر آئے یعنی آنحضرت اور جو اس تعلیم کی تصدیق کرے ایسے لوگ ہی متقی ہوتے ہیں.مرسلین باری تعالیٰ حقیقت میں فرمودات باری تعالیٰ کے مصدقین ہی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرسلین خدا کو اوّل متقی قرار دے کر اور اُن کی قرارگاہ کو ” مقعد صدق“ کہا ہے.فرمایا: إنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتٍ وَنَهَرٍ فِى مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكَ مُقْتَدِرٍ (القمر: 55-56) حضرت اقدس ” فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكَ مُقْتَدِرٍ “ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.” صدق کی نشست گاہ میں بااقتدار بادشاہ کے پاس ( دیکھو حضرت اقدس زیر آیت)

Page 184

165 ادب المسيح صدق کی نشست گاہ کا ذکر ہو رہا ہے.تو مجھے یاد آیا کہ خاکسار نے ایک مقالے میں انبیاء کے صدق کے تعلق میں دوا شعار پیش کئے تھے ان کی عظمت کی یاد میں اُس اقتباس کو دوبارہ پیش کرتا ہوں اوّل شعر تو اُس دہن مبارک سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ” صَدَّق بہ “ کے القاب سے نوازا ہے اور اپنی ہستی اور اپنے نبیوں کے سردار اور اپنی کتاب کے صدق کو ثابت کرنے کے لیے مبعوث کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ اس شعر میں حریم قدس کے پردوں کی سرسراہٹ ہے.صداقت عظمی کا جلال اور جمال ہے اور ایسی شان محبوبی ہے کہ اپنے حسن و جمال کی آپ ہی دلیل اور آپ ہی مثال ہے.فرماتے ہیں: من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است زہر باد صرصرم ترجمہ: میں وہ چراغ صداقت ہوں جو کہ حریم قدس میں روشن کیا گیا ہے میری ضیاء پاشی کی بادصرصر سے حفاظت خود خدا تعالی کا ہاتھ کر رہا ہے.ایک شعر حضرت خلیفہ اسی الثانی کا ہے.صادق اور مصدق کے عنوان میں ایسا بیان نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ کبھی آئندہ ہوگا عظیم الشان شعر ہے.ہر لفظی اور معنوی خوبی کا حامل اور میری ناقص رائے میں آپ کے اشعار کا حاصل کلام.فرماتے ہیں: یا صدق محمد عربی ہے یا احمد ہندی کی ہے وفا باقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی افسانے دو حریم قدس کے چشم و چراغ ہونے کے منصب عالی کی نسبت سے خاکسار نے بھی ایک شعر آپ حضرت کی نذر کیا ہے.اسی شمع حریم قدس سے روشن چراغ اپنا اُسی سے میرے قلب و جاں کی ہر تنویر کا رشتہ صدق کے لفظ کا حقیقی شعور ہمیں پیارے مسیح دوراں کی جناب ہی سے ملا ہے.جیسا کہ فرماتے ہیں: ”سب سے بڑا صدق لا الہ الا اللہ ہے اور پھر دوسرا صدق محمد رسول اللہ ہے ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 342.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ )

Page 185

المسيح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: 166 صدق مجسم قرآن شریف ہے اور پیکر صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات ہے اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے مامور ومرسل حق اور صدق ہوتے ہیں ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 243.جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اس حقیقت کو بھی ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ آپ حضرت کو صدق‘ کا منصب اللہ کی طرف سے خاص عنایت کے طور پر عطا کیا گیا تھا.آپ حضرت کا الہام ہے: يَا أَحْمَدُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَنَفَخْتُ فِيكَ مِنْ لَّدُنّى رُوحَ الصِّدْقِ.ترجمہ: اے احمد! تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہو جاؤ.میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے.تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 55 مطبوعہ 2004ء) یہ وہ صدق کی روح ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے احسانِ بے پایاں سے مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے متبعین کو دی جو کہ قرآنی فرمان کے مطابق وآخَرِينَ مِنْهُمُ کی جماعت ہے اور یہی وہ جماعت ہے جن کے ایمان بر رسالت نبی اکرم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت محبت سے دیکھا ہے اور ان کو اپنا بھائی کہا ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا اے لوگو ایمان کے لحاظ سے سب سے عجیب مخلوق کون سی ہے؟ صحابہ نے کہا نبی.تو فرمایا وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ اُن پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے.اس پر صحابہ نے کہا آپ کے صحابہ.تو فرمایا میرے صحابہ کیسے ایمان نہ لائیں.ایمان کے لحاظ سے عجیب قوم وہ ہے جو میرے بعد آئیں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے اور میری تصدیق کریں گے.حالانکہ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا ہوگا.یہ میرے بھائی ہیں.(المعجم الكبير للطبراني جلد 12 صفحه 87 حدیث نمبر 12560) ان معنوں میں حضرت اقدس نے کس قدر خوبصورتی سے فرمایا ہے: بیا مدم کہ رہے صدق را درخشانم بدلستاں برم آن را که پارسا باشد ترجمہ: میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں تا کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور جو بھی نیک اطوار ہے اس کو اُس کے محبوب تک پہنچا دوں

Page 186

167 ادب المسيح بیا مدم که در علم و رشد بکشائم بخاک نیز نماییم که در سما باشد میں اس لیے آیا ہوں تاکہ علم اور ہدایت کا دروازہ کھولوں اور اہل زمین کو وہ چیزیں دکھاؤں جو آسمان میں ہیں.اس مقام تک ہم نے قرآنِ کریم کی سند سے پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ صدق کو اول: اپنی ذات عزّ و جلّ دوم.رسول اکرم (فِداهُ أَبِى وَ اُمّی ) صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام کے لیے سوم.قرآن کریم کے لیے اختیار فرمایا ہے اور چہارم.تمام مومنوں کو صدیق کے لقب سے نوازا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِةٍ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِيقُونَ (الحديد: 20) حضرت اقدس اس آیت کے ترجمہ میں فرماتے ہیں ”جو لوگ خدا اور اُس کے رسول پر ایمان لائے وہی ہیں دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) جو خدا کے نزدیک صدیق ہیں.“ در اصل نور اور صدق کے الفاظ کو قرآن کریم اور حضرت اقدس نے ہم معنی علامت کے طور پر اختیار کیا ہے.کیونکہ صدق کامل ہی کا نام نور ہے اور الہی تجلیات نورہی ہوتی ہیں.تاہم صدق کے لفظ میں ایک اشارہ دلیری اور وفا اور استقامت کی طرف بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ فَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب : 24) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "خدا کے مُرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے بلکہ سچے مومن بھی بر دل نہیں ہوتے.بزدلی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے.صحابہ رضی اللہ نھم پر مصیبتوں نے بار بار حملے کیے مگر انہوں نے کبھی بُزدلی نہیں دکھائی.خدا تعالیٰ اُن کی نسبت فرماتا ہے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا یعنی جس ایمان پر انہوں نے کمر ہمت باندھی تھی اس کو بعض نے تو نبھا دیا اور بعض منتظر ہیں کہ کب موقع ملے اور سر خرو ہوں اور

Page 187

المسيح 168 انہوں نے کبھی کم ہمتی اور بے دلی نہیں دکھائی.“ (تفسیر حضرت اقدس الاحزاب : 24) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے کلام میں صدق کی علامت کو کامل طور پر صرف قرآن کریم کے اتباع میں اختیار کیا ہے.آپ تمام انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آفتاب صدق کہتے ہیں.فرمایا: ہر رسولے آفتاب صدق بود ہر رسولی بود میر انورے ترجمہ.ہر رسول سچائی کا سورج تھا.ہر رسول نہایت روشن آفتاب تھا آن همه از یک صدف صد گوہر اند متحد در ذات و اصل و گوہرے ترجمہ: وہ سب ایک سچی کے سو موتی ہیں جو ذات اور اصل اور چمک میں یکساں ہیں انبیاء روشن گهر هستند لیک هست احمد زاں ہمہ روشن ترے ترجمہ: تمام نبی روشن فطرت رکھنے والے ہیں مگر احمد اُن سب سے زیادہ روشن ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صدق کا عاشق بھی کہتے ہیں عاشق صدق و سداد و راستی دشمن کذب و فساد و هر شرے وہ صدق سچائی اور راستی کا عاشق ہے مگر کذب و فساد اور شر کا دشمن ہے آپ حضرت دوسرے درجے پر اپنی ماموریت کو ” صدق کی تجلی کا نام دیتے ہیں.فرماتے ہیں: کمال پاکی وصدق و صفا که گم شده بود دوباره از سخن و وعظ من بپا باشد پاکیزگی اور صدق کا کمال جو معدوم ہو گیا تھا وہ دوبارہ میرے کلام اور وعظ سے قائم ہوا ہے مرنج از سخنم ایکہ سخت بے خبری که اینکه گفته ام از وحی کبریا باشد اے وہ شخص جو بالکل بے خبر ہے میری بات سے ناراض نہ ہو کیونکہ جو میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے.اور فرماتے ہیں.بشنوید اے طالباں کز غیب بکنند ایں ندا مصلح باید که در هر جامفاسد زاده اند اے طالبو! سنو غیب سے یہ آواز آرہی ہے کہ ایک مصلح درکار ہے کیونکہ ہر جگہ فساد پیدا ہو گئے ہیں.صادقم و از طرف مولی با نشانها آمدم صد در علم و ہدگی بر روئے من بکشادہ داند میں صادق ہوں اور مولی کی طرف سے نشان لے کر آیا ہوں علم و ہدایت کے سینکڑوں در مجھ پر کھولے گئے ہیں

Page 188

169 ادب المسيح آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمیں این دو شاہد از پیئے تصدیق من استاده اند آسماں سے نشان برس رہے ہیں اور زمین کہہ رہی کہ یہی وقت ہے یہ دو گواہ میری تصدیق کی خاطر کھڑے ہیں اور عربی میں فرماتے ہیں.وَلِلَّهِ أَسْرَارٌ بِعَاشِقِ وَجُهِهِ فَسَلُ مَنْ يُشَاهِدُ بَعْضَ هَذَا التَّعَلُّقِ اور خدا کو اس کے عاشق کے ساتھ بھید ہیں.پس اُس شخص سے پوچھ جو اس سے تعلق رکھنے والا ہے.لِحِبِّي خَوَاصٌ فِي الْوِصَالِ وَ فُرْقَةٍ فَفِي الْقُرْبِ يُحْيِينِي وَ فِي الْبُعْدِ يُوبِقُ میرے دوست کے لیے وصال اور جدائی میں خواص ہیں.پس وہ قرب میں زندہ کرتا ہے اور دوری میں ہلاک کرتا ہے وَاعْطِيتُ عَلَمَ الْفَتْحِ عَلَمُ مُحَمَّدٍ وَ أُعْطِيتُ سَيْفًا جَزَّ اَصْلَ التَّخَلُّقِ اور میں فتح کا جھنڈا، جو آنحضرت کا جھنڈا ہے، دیا گیا ہوں اور میں وہ تلوار دیا گیا ہوں جس نے جڑ دروغگوئی کی کاٹ دی فَتِلْكَ عَلامَاتٌ عَلَى صِدْقٍ دَعْوَتِي فَإِن كُنتَ تَطْلُبُهَا فَفَتِّشُ وَ عَمِّقُ پس میرے صدق دعوی پر یہ علامتیں ہیں پس اگر تو ان علامتوں کو طلب کرتا ہے پس تفتیش کر اور سوچ اور فرماتے ہیں: انِي صَدُوقَ مُصْلِحْ مُتَرَدِّمُ سمٌ مُعَادَاتِي وَسِلْمِي أَسْلَمُ میں صادق اور مصلح ہوں میری مصلح ہوں میری دشمنی زہر اور میری صلح سلامتی ہے.إِنِّي أَنَا الْبُسْتَانُ بُسْتَانُ الْهُدَى تَأْتِي إِلَى الْعَيْنُ لَا تَتَصَرَّمُ میں باغ ہدایت ہوں میری طرف وہ چشمہ آتا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا.آپ حضرت قرآن کریم کو صبح صداقت کا لقب دیتے ہیں.فرماتے ہیں: از وحی خدا صبح صداقت بدمیده چشمے کہ ندید آں صحف پاک چه دیده خدا کی وحی سے صبح صداقت روشن ہوگئی ہے جس آنکھ نے یہ صحف پاک نہیں دیکھے اُس نے کچھ بھی نہیں دیکھا آن دیده که نورے نگرفت است زفرقاں حقا کہ ہمہ عمر ز کوری نہ رھیده وہ آنکھ جس نے قرآن سے نور اخذ نہیں کیا خدا کی قسم وہ ساری عمر اندھے پن سے خلاصی نہ پائے گی

Page 189

المسيح 170 خدا کی راہ میں صبر واستقامت اور وفا دکھانے کے معنوں میں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ” صدق کی علامتی تعر فرما دی.آپ حضرت کے الہام خداوندی میں اس مضمون پر بہت ہی خوبصورت اور دلر با اشعار ہیں.صادق آن باشد که ایام بلا میگذارد با محبت با وفا خدا کی نظر میں صادق وہ ہوتا ہے جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے گر قضاء را عاشقی گردد اسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنا اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہو تذکرہ صفحہ 255.مطبوعہ 2004ء) آپ حضرت صحابہ کرام کی وفا اور استقامت کو صدق کا نام دیتے ہیں.فرماتے ہیں: إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلُّهُمْ كَذَكَـاءِ قَدْ نَوَّرُوا وَجُهَ الوَرَى بِضِيَاءِ یقیناً صحابہ سب کے سب سورج کی مانند ہیں.انہوں نے مخلوقات کا چہرہ اپنی روشنی سے منور کر دیا تَرَكُوا أَقَارِبَهُمْ وَحُبَّ عِيَالِهِمْ جَاءُ وُا رَسُولَ اللَّهِ كَالْفُقَرَاءِ انہوں نے اپنے اقارب کو اور عیال کی محبت کو بھی چھوڑ دیا اور رسول اللہ کے حضور میں فقراء کی طرح حاضر ہو گئے ذُبحُوا وَ مَا خَافُوا الوَرَى مِنْ صِدْقِهِمْ بَلْ آثَرُوا الرَّحْمَنِ عِندَ بَلَاءِ وہ ذبح کیے گئے اور اپنے صدق کی وجہ سے مخلوق سے نہ ڈرے بلکہ مصیبت کے وقت انہوں نے خدائے رحمن کو اختیار کیا تَحْتَ السُّيُوفِ تَشَهَّدُوا لِخُلُوصِهِمْ شَهِدُوا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْأَمَلاءِ اپنے خلوص کی وجہ سے وہ تلواروں کے نیچے شھید ہو گئے اور مجالس میں انہوں نے صدق قلب سے گواہی دی حَضَرُوا الْمَوَاطِنَ كُلَّهَا مِنْ صِدْقِهِمْ حَفَدُوا لَهَا فِي حَرَّةٍ رَجُلَاءِ اپنے صدق کی وجہ سے وہ تمام میدانوں میں حاضر ہو گئے.وہ ان میدانوں کی سنگلاخ سخت زمین میں جمع ہو گئے.آپ حضرت عاشقانِ الہی کے سلوک کو صدق کا عمل قرار دیتے ہیں اور دوسرے مصرعے میں خدا تعالیٰ نے صدق کو سلوک سے مشروط فرما دیا کیونکہ یہ مصرعہ الہامی ہے.عزیزاں بے خلوص و صدق نکشایند را ہے را مصفا قطره باید که تا گو ہر شود پیدا ترجمہ: اے عزیز و بغیر خلوص اور سچائی کے کوئی راہ نہیں کھل سکتی مصفہ قطرہ چاہئے تا کہ موتی پیدا ہو.حضرت اقدس قرآن سے پیوستگی اور اعتقاد کی درستی اور آخرت کی تیاری کو صدق وسداڈ کہتے ہیں صدق و سداد کے ایک ہی معنی ہیں یعنی گفتار اور کردار کا درست ہونا.

Page 190

فرماتے ہیں: 171 قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے پیارے صدق وسدا د رکھنا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اردو زبان میں صدق کے لفظ کو عشق الہی سے تعبیر فرمایا.فرماتے ہیں: جو عشاق اُس ذات کے ہوتے ہیں وہ ایسے ہی ڈر ڈر کے جاں کھوتے ہیں وہ اُس یار کو صدق دکھلاتے ہیں اسی غم میں دیوانہ بن جاتے ہیں وہ جاں اُس کی رہ میں فدا کرتے ہیں وہ ہر لحظه سو سو طرح مرتے ہیں وہ کھوتے ہیں سب کچھ بصدق و صفا مگر اُس کی ہو جائے حاصل رضا دیوانگی عشق کا ہے نشاں ادب المسيح سمجھے کوئی اس کو جز عاشقاں اور آخر پر محبوب حقیقی کے عاشق صادق کی پہچان بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: صادقاں را صدق پنہانی نمے ماند نہاں نور پنہاں بر جبین مرد انوار آورد ترجمہ: صادقوں کا اندرونی صدق چھپا ہوا نہیں رہ سکتا مخفی نورانسان کی پیشانی پر چمک پیدا کر دیتا ہے هر که از دست کسے خور داست کاسات وصال ہر زماں رویش سرور واصلِ یار آورد ترجمہ: وہ شخص جس نے کسی کے ہاتھ سے شراب وصل کے پیالے پیسے ہوں اُس کا منہ ہر وقت اس یار کے وصل کا سرور ظاہر کرتا رہتا ہے.

Page 191

المسيح اور فرماتے ہیں: 172 صدق را ہر دم مدد آید ز رب العالمیں صادقاں را دست حق باشد نہاں در آستیں ترجمہ بسچائی کو ہر دم ربّ العالمیں سے مدد پہنچتی ہے صادقوں کی آستیں میں خدا کا ہاتھ پوشیدہ ہوتا ہے ہر بلا کر آسماں بر صادقی آید فرود آخرش گردد نشانی از برائے طالبیں ترجمہ ہر وہ بلا جو آسمان سے کسی صادق پر آتی ہے وہ آخر میں طالبانِ حق کے لیے ایک نشان ہو جاتی ہے ہم نے لفظ ”صدق“ کے علامتی معانی میں استعمال کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جیسے گزشتہ میں نور کا مضمون تشنہ رہ گیا تھا یہ تنگی اس مقام پر بھی ہے.ان علامات پر سیر حاصل نظر ڈالنے کے لیے ان کو ایک مستقل عنوان کے تحت لا کر تحقیق کرنی ہوگی کیونکہ دراصل حضرت اقدس کے کلام کے یہی محور ہیں یعنی باری تعالیٰ کے نور کی تجلی اور پھر اس صدق کا ابلاغ.ہماری کوشش میں یہ مضمون ذیلی موضوعات کے طور پر آیا ہے اس لیے بہت مختصر بیان ہوا ہے تاہم احساس نا تمامی ضرور ہے.اس صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے: سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ترجمہ: میں نے اپنا تمام سرمایہ تیری جناب میں پیش کر دیا ہے.کم و بیش کا حساب تو ہی جانتا ہے.☆

Page 192

173 ادب المسيح ادبی علائم ورموز گذشتہ میں بیان ہوا تھا کہ حضرت اقدس کے اشعار میں جو الفاظ مجاز اور علامت کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ان کا ایک نہایت درجہ مختصر جائزہ پیش کرنا حضرت اقدس کی شعری اور ادبی عظمت کے اظہار کے لیے بہت موزوں ہوگا.اس غرض کے لیے ہم نے شعری علامات اور رموز کے دو شعبے بنائے ہیں.ایک روحانی مضامین کے اور دوسرے ادبی مضامین کے علائم.روحانی مضامین کے اظہار میں ہم لفظ ” نور“ اور ”صدق“ کو بیان کر چکے ہیں.ادبی مضامین کے اعتبار سے ہم نے دولفظ انتخاب کئے ہیں.اول: بہار دوم : کربلا، گریبان اور جیب دوسر الفظ بظاہر ایک نہیں مگر ادبی دلالتوں کے اعتبار سے ایک مضمون ہی کے خدو خال رکھتا ہے.بہار : حضرت اقدس کے اردو اور فارسی کلام میں بہار کا لفظ بہت مقامات میں استعمال ہوا ہے.اور بہت سے مقامات میں لغوی معنوں سے متبائن اور متضاد معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور بہت خوبصورتی سے ہوا ہے لغوی اعتبار سے تو بہار کے معافی ماہ و سال کے ان ایام سے ہے جب کہ سرد ایام کے بعد نباتی حیات زندہ ہوتی ہے اور پودے پھولتے پھلتے ہیں.موسم کی اس نوعیت کے اعتبار سے ادبی اقدار میں بہار زندگی کی اور خزاں افسردگی اور موت کی علامت ہے اس لیے شعری ادب میں یہ متحارب موسم با ہم مخالف جذبات اور خیالات کے اظہار کی علامتیں ہیں.یہی وجہ ہے کہ اردو اور خصوصا فارسی ادب میں باغ و بہار اور گل و بلبل ایسے علامتی اشارے ہیں جو جذبات عشق ومحبت کے زندہ ہونے اور نئی تمناؤں اور اُمیدوں کے نمودار ہونے کے اظہار کے لیے اختیار کئے جاتے ہیں.اس لیے علامتی اعتبار سے مشرقی زبانوں میں گل محبوب ہے اور باغ اُس کا حسن و جمال ہے اور بلبل عاشق زار ہے.اور ان سب کیفیات اور احساسات کے زندہ اور متحرک ہونے کا باعث موسم بہار ہے.معلوم نہیں کس کا ہے مگر اس مضمون میں عظیم الشان شعر ہے.روشن کئے چراغ لحد لالہ زار نے اس مرتبہ تو آگ لگادی بہار نے

Page 193

ب المسيح 174 اگر لیہ کو خوابیدہ جذبات اور نا کام تمناؤں کی تمثیل سمجھا جائے.تو ایسے ہوا کہ بہار کی آمد نے ایسے لالہ زار پیدا کئے کہ جذبات اور تمناؤں کی چنگاریاں بھڑک اُٹھیں اور اس حالت میں یہ عالم ہوا کہ پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہو نگے اور جب خزاں آئی تو بہار کی یاد میں کہا: ہم وحشیوں نے صحن گلستاں سے اے خزاں تنکے بھی چن لیے کہ شریک بہار تھے حضرت اقدس علیہ السلام نے بہار کی علامت کو تمام ادبی اقدار کی نہایت حسین پاسداری کرتے ہوئے اختیار فرمایا ہے.آپ نے اس لفظ کو وحی الہی کے مطابق حقیقی معنوں میں بھی استعمال کیا ہے.زلزلے کی پیشگوئی میں فرماتے ہیں ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار کب یہ ہو گا ؟ یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر دی خبر مجھ کو کہ وہ دن ہوں گے ایامِ بہار ” پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی“ یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لواے ہوشیار ( تذکره صفحه 455-456 مطبوعہ 2004ء) بہار کے لغوی معنوں میں ایک اور الہام حضرت اقدس کا ہے پھر بہار آئی تو آئے خلیج کے آنے کے دن“ تذکرہ صفحہ 525 مطبوعہ 2004ء) آپ حضرت نے بہار کے معانی تو موسم بہار کے مطابق کئے ہیں.البتہ طلبہ ( جس کے لغوی معانی آسمانی برف اور ژالوں یعنی اولوں کے ہیں) کے بہت سے علامتی معانی فرمائے ہیں یعنی آفات سماوی کا نازل ہونا.یا اس کے برعکس اطمینان قلب ( ملح قلب ) حاصل ہو جانا مزید تحقیق کے لیے تذکرہ صفحہ 520 تا25 5 مطالعہ کرنا چاہئیے.

Page 194

175 ادب المسيح ان الہامات باری تعالیٰ سے ایک علامتی معنی تو ضرور ثابت ہوئے ہیں کہ بہار کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کی صداقت کے نشان کے طور سے اختیار کیا ہے کیونکہ موسم بہار میں زمین اپنی روئیدگی اور انسان اپنی تازگی کیساتھ زندہ ہوتا ہے اُسی طور سے حضرت کی صداقت کے نشان ایک نئی زندگی اور شعور پیدا کریں گے اور ایک قہری تجلی ہوگی مگر ادبی علامت کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت درجہ حسن وخوبی کیساتھ اس علامت کا الہام کیا اور فرمایا رسید مژده که ایام نو بہار آمد تذکرہ صفحہ 437 مطبوعہ 2004ء) حضرت اقدس نے اسی وحی الہی کو بہت ہی خوبصورت ادبی حسن و جمال کے ساتھ پیش کیا ہے اور یہ وضاحت کی ہے کہ اس بہار سے دنیا وی عشق و محبت کی بہار مراد نہیں بلکہ محبوب حقیقی کی محبت کا زندہ ہونا مراد ہے رسید مژده که ایام نو بہار آمد زمانه را خبر از برگ و بار خود بکنم ترجمہ: مجھے خوشخبری ملی ہے کہ پھر موسم بہار آ گیا تا کہ میں زمانہ کو اپنے پھلوں اور پتوں کی خبر کر دوں تعلقات دلآرام خویش بنمایم ہمائے اورج سعادت شکار خود بکنم ترجمہ: اور اپنے محبوب کے تعلقات کا اظہار کروں اور ہمائے اوج سعادت کو اپنا شکار بناؤں یہاں پر ایام نو بہار سے مراد وصال باری تعالیٰ اور قرب محبوب حقیقی ہے اور اس موقع پر آپ کی تمنا ہے کہ آپ اپنے محبوب کی واردات محبت کو بیان کریں اور عاشقانِ الہی میں جو انتہائی مقام سعادت ہے اُس کو شکار کریں ( حاصل کریں).دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ”بہار کو کس خوبصورت علامت کے طور پر قبول فرماتا ہے اور پھر حضرت اقدس کو دیکھیں کہ کتنی خوبصورتی سے اللہ تعالیٰ کے محبوبانہ التفات کو محسوس کرتے ہوئے کس والہانہ انداز میں اس کی محبت کو بیان کرتے ہیں.مشاہدہ کریں کہ آپ حضرت کی ”بہار کیا ہے.وصال باری تعالیٰ کا حصول اور اس کے حاصل ہونے پر محبت الہی کا حیات بخش جوش اور پھر اس نعمت عظمی کو حاصل کرنے کی ترغیب.فارسی ادب میں محبت الہی کے مضامین بہت ہیں مگر ” تعلقات دل آرام خویش کا ایسا والہانہ بیان کہیں

Page 195

المسيح 176 دستیاب نہیں ہوگا.اور یہ بیچ بھی ہے کیونکہ نہ ایسی بہار کسی پر آئی نہ اس نے اس بہار کے مزے لوٹے.یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت اقدس اپنی آمد اور اپنے وقت کو بہار کی آمد ، اور گل وگلز ار کا زمانہ کہتے ہیں.فرماتے ہیں: غافلان من نی یار آمده ام بچو باد بہار آمده ام ترجمہ: اے غافلو میں محبوب کے پاس سے آیا ہوں اور بادِ بہار کی طرح آیا ہوں این زمانم زمانه گلزار موسم لالہ زار و وقت بہار ترجمہ یہ میرا زمانہ گلزار کا زمانہ ہے.یعنی لالہ زار کا موسم اور بہار کا وقت ہے اور پھر محبوب حقیقی کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ تو ہی میری حقیقی بہار ہے.فصل بهار و موسم گل نایدم بکار کاندر خیال روئے تو ہر دم بگشتم ترجمہ: فصل بہار اور پھولوں کا موسم میرے لیے بیکار ہیں کیونکہ میں تو ہر وقت تیرے چہرے کے خیال کی وجہ سے ایک چمن میں ہوں.اپنی ماموریت اور بعثت کو کس شان اور یقین کیساتھ باغ اور اس کے اثمار کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں.فرماتے ہیں: مامورم و مرا چه درین کار اختیار رو این سخن بگو بخداوند آمرم! ترجمہ: میں تو مامور ہوں مجھے اس کام میں کیا اختیار ہے جا! یہ بات میرے بھیجنے والے خدا سے پوچھ اے آنکہ سوئے من بد ویدی بصد تبر از باغباں بترس که من شارخ مشمرم ترجمہ: اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑا ہے باغبان سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں اور اسی تشبیہ کے تسلسل میں حیرت سے فرماتے ہیں کہ اب جبکہ میرے باغ میں ہزاروں پھول کھل چکے ہیں تو پھر بہار کے انتظار میں کسی اور باغ کی طرف کیا دیکھنا.دگر کجا و چنیں قدر تے کرا باشد چو مہر انور و تاباں ھمے فشانم نور ترجمہ: میں روشن اور چمکدار سورج کی طرح نور پھیلا رہا ہوں.دوسرا کہاں ہے؟ اور ایسی قدرت کس میں ہے؟ زکار ہا کہ کنم و زنشاں کہ بنمایم عیاں شود که همه کارم از خدا باشد

Page 196

ادب المسيح 177 ترجمہ: وہ کام جو میں کرتا ہوں اور اُن نشانوں سے جو میں دکھاتا ہوں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ میرا سارا کاروبارخدا کی طرف سے ہے.کٹوں کہ در چمن من ہزار گل بشگفت گر از طلب بنشینی عجب خطا باشد ترجمہ: اب جبکہ میرے چمن میں ہزاروں پھول کھل چکے ہیں اگر تو طلب نہ کرے تو سخت غلطی ہوگی اور اسی حیرت اور تعجب کے اظہار میں فرماتے ہیں: کیوں عجب کرتے ہوگر میں آ گیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار قبل میں کہا گیا تھا کہ حضرت اقدس نے بہار کو متبائن اور متضاد معنوں میں بھی اختیار کیا ہے.یعنی یہ کہ ”بہار اور خزاں دو متضاد المعانی الفاظ ہیں.مگر آپ نے ان کے علامتی معنی کرتے ہوئے موسم خزاں میں بھی بہار کا نظارا کرا دیا اور بہت ہی خوب کروایا.فرماتے ہیں.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں ملاحت ہے عجب اس دلستاں میں ہوئے بدنام ہم اس سے جہاں میں عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یا رِ نہاں میں ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي یعنی ”بہار کی آمد آپ کی آمد ہے اور آپ سے غفلت اور دوری خزاں ہے مگر اس کے باوجود اس وقت خزاں میں بھی اللہ نے ہزاروں عاشقانِ الہی پھولوں کی طرح سے آپ کے دامن میں ڈال دیئے ہیں انہی معنوں میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرےاے ناخدا آگیا اس قوم پر وقت خزاں اندر بہار པོ

Page 197

ب المسيح 178 اے سونے والو! جا گو کہ وقت بہار ہے اب دیکھو آ کے در پہ ہمارے وہ یار ہے ہم بہت معذرت کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت کے کلام میں ”بہار کا مضمون بہت اختصار سے بیان کیا ہے.اس ادبی علامت کے لئے ایک مفصل تحقیقی مقالہ کی ضرورت ہے.کیونکہ آپ کے کلام کا شوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ آپ حضرت نے باغ و بہار اور گل و بلبل کو ان کی مکمل دلالتوں کے ساتھ اختیار فرمایا ہے اور ادبی شاہکار تخلیق کیے ہیں.شاید آخر پر آپ حضرت کے ذیل کے اشعار ہمارے اختصار کی کچھ تلافی کردیں.فرماتے ہیں: کیسے کا فر ہیں مانتے ہی نہیں ہم نے سو سو طرح سے سمجھایا اس غرض سے کہ زندہ یہ ہوویں ہم نے مرنا بھی دل میں ٹھہرایا بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا

Page 198

179 ادب المسيح کر بلا.گریبان اور جیب: گذشتہ میں کئی مرتبہ کہا گیا ہے کہ شعری زبان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ سراسر استعارہ ہے اور استعارہ لفظ کے معانی غیر لغوی کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے تاہم یہ لازم ہوتا ہے کہ معانی لغوی اور مجازی میں کوئی نہ کوئی تعلق ہو اور کوئی بات ایسی ضرور ہو جس سے ظاہر ہو کہ لفظ مجازی معنوں میں اختیار کئے گئے ہیں.اس بات اور عصر کو قرینہ کہتے ہیں.شعر میں ” قرینہ کا ثبوت مضمون کے اتحاد سے بھی ظاہر ہوتا ہے اور مضمون کی معنوی دلالتوں سے بھی قائم ہوتا ہے تا کہ معنی مستعار کا جواز پیدا کیا جائے ایک مشہور عام مثال ہے کہ جو کہ اغلبا حماسہ کے اس مصرع سے اخذ کی گئی ہے.وَلا أُخْمِدَتْ نَارٌ لَنَا دُونَ طَارِقٍ “ ترجمہ: اور رات کے آخر وقت میں بھی آنے والے مہمان کے لیے ہمارے مطبخ کی آگ جلتی رہتی ہے.گواس مثال میں لفظی قرینہ تو نہیں ہے تاہم معنوی قرینہ ضرور ہے کہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم بہت مہمان نواز ہیں اور ان معنوں میں ہی شعر کا حسن و جمال مضمر ہے.تا ہم یہ بھی درست بات ہے کہ قرینہ" کی پہچان اور اس کی موجودگی کے شعور کے لیے شعر نہی اور ذوق سلیم ضروری ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر اس کوچے میں قدم بھی نہیں رکھنا چاہیئے.کیونکہ شعر میں حسن و جمال اس کے مجازی دلالتوں سے ہی پیدا ہوتا ہے یہ تمہیدی گزارشات اس لیے کی گئی ہیں کہ ہم آپ حضرت کے ایسے شعر کا ادبی تجزیہ کرنا چاہتے ہیں جس نے گذشتہ ایک صدی سے مخالفین کو شک وشبہ میں مبتلا کر رکھا ہے.فرماتے ہیں: کر بلائے است سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم یہ شعر غزل کا نہیں.نظم اور مثنوی کے اسلوب میں وارد ہوا ہے.غزل میں ہر شعر ایک منفر د معانی رکھتا ہے.نظم اور مثنوی کے اشعار اپنے مضمون کو اشعار کے تسلسل میں بیان کرتے ہیں.اس لیئے ہمیں اول یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ حضرت کس تسلسل بیان میں اس شعر کو پیش کر رہے ہیں.

Page 199

المسيح 180 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ حضرت الہام باری تعالیٰ کی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ گوعشق محبوب کے دیدار سے پیدا ہوتا ہے مگر اس کے کلام اور گفتگو سے بھی عشق کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں خاص طور پر محبوب کی راز کی با تیں یہ خصوصیت رکھتی ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ ان راز و نیاز کی باتوں کے فدائی ایک دو یا ہزار نہیں بلکہ ایسے مقتول بے شمار ہیں اور محبوب حقیقی بھی ایسے مقتول پسند کرتا ہے اور محبوب حقیقی کے چہرے کا غازہ ان شہیدوں کا خون ہوتا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ سعادت (یعنی مورد الہام باری تعالیٰ ہونا ) جب آپ کی قسمت میں لکھی گئی تو آہستہ آہستہ آپ کی باری بھی آگئی اور پھر خدا تعالیٰ نے اس کثرت اور اس طرز سے الہامات سے نوازا کہ آپ کا ہر روحانی سفر کر بلا کی طرح سے جاں نثاری کا نمونہ پیش کرنے لگا اور آپ دم بدم حضرت حسینؓ کی طرح سے شہید ہونے لگے آپ کے اشعار کا مطالعہ کر لیں.عشق کو رونماید از دیدار نیز که که بخشیزد از گفتار وہ عشق جو دیدار سے پیدا ہوا کرتا ہے کبھی کبھی گفتار سے بھی پیدا ہوتا ہے بالخصوص آن سخن که از دلدار خاصیت دارد اندرین اسرار خاص کر دلدار کی وہ باتیں جو اسرار کے طور پر عشق پیدا کرنے والی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایں قتیلان او بروں ز شمار گشته او نه یک نہ دو نہ ہزار ان باتوں کے فدائی صرف ایک دو یا ہزار انسان ہی نہیں ہیں بلکہ اُس کے کشتے بے شمار ہیں ہر زمانے قتل تازه بخواست غازه روئے اُو دمِ شهداست ہر وقت وہ ایک نیا قتیل چاہتا ہے اس کے چہرہ کا غازہ شہیدوں کا خون ہوتا ہے ایں سعادت چو بود قسمت ما رفته رفته رسید نوبت ما یہ سعادت چونکہ ہماری قسمت میں تھی رفتہ رفتہ ہماری نوبت بھی آپہنچی صد حسین است در کر بلائے است سیر ہر آنم گریبانم کربلا میری ہر آن کی سیر گاہ ہے.سینکڑوں حسین میرے گریبان کے اندر ہیں مشاہدہ کریں کہ مضمون جنگ و جدال کا نہیں ہے.الہام باری تعالیٰ کی تاثیرات سے خدا تعالیٰ پر عاشق

Page 200

181 ادب المسيح ہونے کا ذکر ہے اور فرماتے ہیں کہ ایسے عاشق صرف آپ ہی نہیں بلکہ ہزاروں ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں اس مقام پر توقف کریں اور جائزہ لیں کہ کیا یہاں پر حضرت حسین کی شہادت کا ذکر ہور ہا اور کیا یہ مقتل حضرت حسین کا میدان کربلا ہے یا عاشقانِ الہی کی شہادت گاہ ہے.دونوں روحانی حادثات کی نوعیت بالکل مختلف ہے اس لیئے تقابل نہیں کیا جاسکتا آخری شعر میں کر بلا اور حضرت حسینؓ کی شہادت کا ذکر تو مثال کے طور پر آ گیا ہے.مقابلے کی غرض سے نہیں آیا کیونکہ مقابلہ ہمیشہ یکساں حادثات اور ہم نوع کیفیات میں ہوتا ہے.حضرت حسین کی خدا کی راہ میں عظیم الشان شہادت ہوئی مگر وہ تلوار سے ہوئی حضرت اقدس کی شہادت عشق الہی کے سمندر میں ڈوب کر ہوئی ہے اور ہزار بار ہوئی ہے.اس لیے اس شعر سے یہ مراد لینا کہ حضرت اقدس اپنے مقابل پر حضرت حسین کو کمتر منصب دے رہے ہیں یکسر غلط خیال ہے کیونکہ تقابل کے لوازمات نا پید ہیں یہ حقیقت بھی یادرکھنی چاہئیے کہ جب کوئی انسان اپنی شان و عظمت کی مثال دیتا ہے تو ایسے شخص سے دیتا ہے جو خود صاحب عظمت ہو اور ایسی مثال ہمیشہ مقام مدح پر ہوتی ہے نہ کہ مقام زم پر.اس لیے آپ حضرت کا امام حسین کی مثال دینا حضرت حسین کی عزت افزائی اور علو مرتبت کے لئے ہے.یہ بات کہ آپ حضرت نے محبت الہی کی راہ میں جو صبر اور استقامت دکھائی ہے اس کو کر بلا کیوں کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ کربلا کے لفظ سے حضرت کی مراد میدان کربلا نہیں بلکہ وہ کرب و بلا ہے جو آپ نے محبت الہی میں برداشت کئے.لغت میں اس کے معانی ”رنج اور آفت کا مقام کئے گئے ہیں.(فرہنگ آصفیہ) فارسی ادب میں کربلا کا لفظ اسی علامتی معنوں میں استعمال ہوا ہے حافظ شیرازی محبوب کے ہجر کے بیان میں کہتا ہے کہ اس مصیبت کی مثال کر بلا کے مصائب ہی سے دی جاسکتی ہے کہتا ہے.آنچہ جانِ عاشقان از دست هجرت می کشد کس نہ دیدہ ایں جہاں جز کشتگانِ کربلا ترجمہ: عاشقوں کی جان جو تیرے فراق میں برداشت کر رہی ہے اسکو کر بلا کے شہیدوں کے سوا کسی نے نہیں دیکھا اس بیان میں تو کر بلا کیساتھ حضرت حسین کا ذکر بھی آگیا کیونکہ کشتگان کربلا میں آپ صف اول میں تھے

Page 201

ب المسيح 182 قرۃ العین طاہرہ کہتی ہے کہ عشق میں اس کا ہر لمحہ ہزاروں وادی کر بلا کے مانند ہے.متظاهر است زہر دے دو ہزار وادی کربلا مشاہدہ کریں ایک وادی کر بلا نہیں بے شمار ہیں.صد حسین است در گریبانم“ کے فرمان پر غور کریں.فارسی زبان میں اور اردو میں بھی گریبان، قمیص کے اس حصے کو کہتے ہیں جو گردن کے نیچے ہوتا ہے فارسی میں اس لفظ کو مرکب سمجھتے ہیں یعنی گرے، بمعنی گردن اور ”بان بمعنی محافظ.فارسی میں ” جیب“ کے لفظ کو بھی انہیں معنوں میں استعمال کرتے ہیں.اگر اس لفظ کے لغوی معنوں کو ہی اختیار کرنا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ حضرت کی قمیص کے بالائی حصہ میں سوحسین قیام فرما ہیں.شاید اس قسم کے معانی کر کے شعری زبان سے نابلد احباب نے گذشتہ ایک صدی سے شور قیامت بپا کر رکھا ہے.شعری زبان کا حد درجہ معمولی شعور رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ شعر میں اس لفظ کے معانی ” دل ہیں اور گریبان چاک کرنے کے معنے دلی جذبات کا اظہار کرنا ہوتا ہے.تیری میر تقی میر کی مثال کو دیکھ لیں.کہتا ہے: اس نے کھینچا ہے میرے ہاتھ سے دامن اپنا کیا کروں ، گر نہ کروں چاک گریباں اپنا اس شعر میں دامن چھڑانا اور چاک گریبان کے کیا معنے ہونگے ؟ یہی کہ محبوب نے بے تعلقی کا اظہار کیا ہے تو میں دلی غم کا اظہار نہ کروں تو کیا کروں.فارسی اور اردو شعراء میں ہر شاعر اپنا گریبان چاک کئے ہوئے ہے.آپ سوئی دھاگہ لیکر کس کس کی بخیہ گری کریں گے بہتر ہے کہ اس کے علامتی معنوں کو قبول کر لیں.علامت اور استعارے کے تعلق میں اس امر کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئیے کہ ہر صاحب منصب شاعر اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے چند الفاظ کو قبول کر کے ان کو علامت کے طور پر کئی معنوں میں بار بار اختیار کرتا ہے.حضرت اقدس نے بھی گریبان کے لفظ کو صرف ایک بار استعمال نہیں کیا اور صرف حضرت حسین کے لیے

Page 202

ہی استعمال نہیں کیا.183 ادب المسيح اول مقام پر تو آپ حضرت نے اس لفظ کو باری تعالٰی کی دلی محبت اور وصال کامل کے معنوں میں بہت ہی خوبصورت اور حسین انداز میں اختیار فرمایا ہے.فرماتے ہیں: پر از نور داستان شد سینه ام شد ز دستے صیقل آئینه ام محبوب کے ٹور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا صیقل اسی کے ہاتھ نے کیا پیکرم شد پیکر یار ازل کار من شد کار دلدار ازل میرا وجود اُس یار از لی کا وجود بن گیا اور میرا کام اُس دلدار قدیم کا کام ہو گیا بسکه جانم شد نہاں در یارِ من ہوئے یار آمد ازیں گلزارِ من چونکہ میری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لیے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی از گریبانم برآمد دلبری نور حق داریم زیر چادرے ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے.وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا احمد احمید آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جامِ من است آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی دُنیا کے لیے) آخری جام ہے ایک اور مقام میں خدا تعالیٰ کے عشق کے بیان میں فرماتے ہیں: عشق تو به نقدِ جاں خریدیم تا دم نه زند دگر خریدار ہم نے نقدِ جان دے کر تیرا عشق خریدا ہے.تاکہ پھر اور کوئی خریدار دم نہ مار سکے غیر از تو که سرزدے زِ جیم! در يُرج دلم نماند دیار تیرے سوا اور کون میرے گریبان میں سے نمودار ہوتا جبکہ میرے دل میں اور کوئی بسنے والا ہی نہیں عمریست که ترک خویش و پیوند کردیم و دے جز از تو دشوار ایک عمر گذر گئی کہ ہم نے عزیزوں اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع کر لیا مگر تیرے بغیر ایک لحظہ گذار نا بھی مشکل ہے رسول اکرم سے کامل اتحاد اور عشق کے بیان میں فرماتے ہیں:

Page 203

المسيح 184 محور وئے اوشد است ایں روئے من بوئے او آید زبام و گوئے من یہ میرا چہرہ اُس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کو چہ سے اُسی کی خوشبو آرہی ہے بسکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم من ہمانم.من ہماں - از بسکہ میں اُس کے عشق میں غائب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او يابد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا! میری روح اُس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریہاں سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد شد پدید اسم من گردید آں اسم وحید احمد کی جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لیے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے اب دیکھ لیں اول مقام پر تو حضرت اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکمل ہم رنگ اور اُن میں محو وفتا ہونے کو کس طور سے بیان فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں کہ آپ کا آنحضرت سے اسقدر قرب اور تعلق ہے کہ گویا آنحضرت اور آپ ایک ہی وجود ہو گئے ہیں.اس وجہ سے آپ کے گریبان سے آنحضرت کے نور کا سورج طلوع ہوا ہے.یہاں پر گریبان کے کیا معنی کرینگے ؟ یہی کہ آپ کے دل و جان میں آنحضرت کا نور سرایت کر گیا ہے.یہی مضمون ذیل کے اشعار میں بھی بیان ہوا ہے کہ انبیاء خدا کی محبت اور پرستش میں اس قدر گم ہوتے ہیں کہ وہ خدائی صفات کے حامل ہو جاتے ہیں.فرماتے ہیں: ہمچنیں مے داں مقام انبیاء واصلان و فاصلال از ماسواء انبیاء کے مقام کی بھی یہی مثال سمجھ.وہ واصل باللہ ہیں اور اس کے غیر سے بے تعلق فانی اند و آله ربانی اند نُورِ حق در جامعه انسانی اند! فنا فی اللہ ہیں اور خدا کا ہتھیار ہیں.انسانی جامہ میں خدا کا نور ہیں سخت نہاں در قباب حضرت اند گم ز خود در رنگ و آب حضرت اند بارگاہ الہی کے گنبد میں بالکل مخفی ہیں خودی سے الگ ہو کر خدائی رنگ و روپ میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ اس مقام کی کیفیت کے بیان میں فرمایا ہے نور حق داریم زیر چادرے از گریبانم برآمد دلبری ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا ہے

Page 204

185 ادب المسيح اور دوسرے مقام پر آنحضرت سے یک جان اور متحد ہونے اور عشق کے بیان میں تو فرما چکے ہیں.جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا میری روح اُس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گر یہاں میں وہی سورج نکل آیا ہے.مشاہدہ کریں کہ حضرت ” گریبان کی علامت کو صرف حضرت حسین کے لیے اختیار نہیں فرمار ہے بلکہ اس کے علامتی معنوں کے اعتبار سے فرما رہے ہیں کہ آپ کے دل و روح میں محبت الہی اور محبت رسول کے سوا اور کچھ نہیں.ان امثال سے یہ حقیقت تو واضح ہوگئی کہ آپ حضرت گریبان کے لفظ کو علامت کے طور پر اختیار فرمار ہے ہیں تو پھر حضرت حسین کو ان علامتی معنوں سے کیوں محروم رکھا جائے اور کیوں نہ ان کو دیگر روحانی شخصیتوں کی طرح سے حضرت اقدس کا محبوب سمجھا جائے.یہ بات بھی پھرسُن لینی چاہئیے کہ حضرت اقدس.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری تجلی اور وارث رسول اللہ ہیں.اس نسبت سے اُن کو حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین سے ویسی ہی محبت ہے جیسی کہ آپ کے آقا اور محبوب کو تھی.اس محبت کے اظہار میں فرماتے ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم ثا ر کو چه آل محمد است میری جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں.اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.اور پھر ایک نادر اندازِ بیان میں اور نہایت درجہ محبت سے فرماتے ہیں.ہر کے اندر نماز خود دعائے مے کند من دعا ہائے بر و بار تو اے باغ بہار ہر شخص اپنی نماز میں (اپنے لیے ) دعا کرتا ہے مگر میں اے میرے آقا تیری آل و اولاد کے لیے دعا مانگتا ہوں یا نبی اللہ فدائے ہر سرِ مُوئے تو ام وقف را وتو کنم گر جاں دہندم صد ہزار اے نبی اللہ میں تیرے بال بال پر فدا ہوں اگر مجھے ایک لاکھ جانیں بھی ملیں تو تیری راہ میں سب کو قربان کر دوں آخر پر یہ گذارش ہے کہ ہم نے اس شعر کا تجزیہ ادبی اور اسالیب کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی ہے.حضرت اقدس نے ملفوظات جلد چہارم صفحہ 63 میں اس شعر کا علمی تجزیہ فرمایا ہے اس فرمان کو بھی پڑھ لینا ضروری ہے.اس مضمون میں ادبی علامت ”جیب“ کی سند بعد میں آئی ہے اس لیے بعد میں پیش کی جارہی ہے.فارسی اور اردو زبان میں ”جیب“ کا لفظ بھی گریبان کے معنوں میں مستعمل ہے.حضرت اقدس کا شعر بیان

Page 205

ب المسيح 186 ہو چکا ہے: غیر از تو کہ سرزدے زجیم در برج دلم نماند دیار ترجمہ: تیرے سوا اور کون میرے گریباں میں سے نمودار ہوتا جبکہ میرے دل میں اور کوئی بسنے والا ہی نہیں.جوسند بعد میں آئی ہے وہ غالب کی ہے.کہتا ہے: چاک مت کر جیب بے ایا م گل کچھ اُدھر کا بھی اشارہ چاہئے مشاہدہ کر لیں کہ ” جیب سے مراد گریبان ہی ہے جس سے مراد دل اور اس کی تمنا ئیں ہیں.اور غالب کے کہنے کے مطابق اُن کا اظہار موسم بہا رہی میں ہونا چاہیے.

Page 206

187 ادب المسيح حضرت اقدس کا کلام ایک منفر د مکتب ادب ہے گذشتہ میں بہت دفعہ کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا شعری خزانہ ایک جداگانہ اور منفر دمکتب شعر ہے یہ وہی مکتب ادب ہے جو حضرت داؤد کے مزامیر اور حضرت سلیمان کی غزل الغزلات کی صورت میں سفر کرتے ہوئے ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم کے موضوعات کے اتباع میں ہمارے پیارے مہدی آخر زمان اور مسیح دوراں تک پہنچا ہے.ان تمام مکاتیب ادب میں جو وجہ اشتراک اور یکجہتی ہے وہ منشاء باری تعالیٰ کی اطاعت میں انسان کو تعلیم دینا اور ان کے دلوں میں محبت الہی کو زندہ کرنا ہے یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد ایک دائرے کی طرح سے تمام مرسلین باری تعالیٰ کا کلام طواف کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت کے اشعار کے محاسن پیش کرنے سے قبل ہم نے ادب مرسلین کے محرکات تخلیق ادب اور ترجیحات قلبی کو متعدد اقدار ادبی کے موضوعات کے تحت بیان کرنے کی کوشش کی ہے.تا کہ ایسا ہو کہ اس مکتب شعر و ادب کی منفرد نوعیت کا شعور حاصل ہو جائے اور مرسلین کرام کے کلام کے محاسن کو اپنے دل و جان میں قبول کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو جائے مگر حضرت اقدس کے فرمان کے مطابق اس شعور اور صلاحیت کا پیدا ہونا اسی کو نصیب ہے جو سعید ہو اور جس کی ”فطرت نیک ہو جیسے فرمایا: لوائے ما پنہ ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد ہمارا جھنڈا ہر خوش قسمت انسان کی پناہ گاہ ہوگا اور کھلی کھلی فتح کا شہرہ ہمارے نام پر ہوگا اور اردو میں فرماتے ہیں : ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار اور فارسی میں نہایت درجہ خوبصورتی سے فرماتے ہیں: فروغ نور عشق او ز بام وقصر ما روشن مگر بیند کسے آں را که میدارد بصیرت را اس کے نور عشق کی تجلی سے ہمارے بام و قصر روشن ہیں لیکن اُسے وہی دیکھتا ہے جو بصیرت رکھتا ہو.ان اشعار میں ”لوا ” ندا“ اور ”آواز در اصل حضرت اقدس کا کلام ہے مگر اس کو دل و جان سے قبول

Page 207

ب المسيح 188 کرنے کے لیے محبت الہی کی سعادت اور نیک بختی اور بصیرت ضروری ہے.اصناف شعر میں ان کی ہیئت کے اعتبار سے غزل کی صنف ایسی ہے کہ وہ اپنے مواد میں محبوب کے حسن و جمال اور اس کی محبت کے بیان میں محدود ہے اس لیے مواد ادب کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ حضرت اقدس کا کلام محبوب حقیقی کے عشق کی ایک ایسی داستان ہے جو اصناف شعر کو تبدیل کرتی رہتی ہے مگر اپنے مواد اور ترجیحات قلبی کے اعتبار سے مستقل الحال اور قال ہے تو بالکل درست ہوگا.جیسے کہ کہا گیا ہے.عاشق زار در ہمہ گفتار سخن خود کشد بجانب یار عاشق زار اپنی تمام گفتار کا رُخ محبوب کی طرف موڑ لیتا ہے یہ وہ شرائط اور لوازم ہیں جن کا اثبات اس منفر د ادب عالیہ کے حقیقی فہم اور ادراک کے لیے ضروری ہے حضرت اقدس کے شعری کلام کو ان کے موضوعات کے تحت پیش کرنے سے قبل ان گذارشات کا پیش کرنا ضروری تھا.خواہ ان کی تکرا ر ہی کیوں نہ ہو ایک اور بات جس کا ابتدا میں ضمنا ذکر ہوا ہے قدرے تفصیل طلب ہے.ہم نے یہ کہا ہے کہ ادب مرسلین میں محبت الہی کا موضوع ایک مرکزی نقطہ ہے جس کے گردان صاحب اکرام ہستیوں کے کلام کے تمام موضوعات طواف کرتے ہیں.یہ حقیقت ایسی نہیں کہ دیدہ ور محبان الہی سے پوشیدہ ہو.کیونکہ آپ کے کلام میں جس قدر عنوانات آتے ہیں ان کا بیان دراصل اُس محبوب حقیقی کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ حضرت کے کلام کی اس خصوصیت کو ایک مثال کے ساتھ پیش کریں حضرت اقدس کے کلام کی ایک مخصوص اور دلبرانہ ادا یہ ہے کہ آپ (ایک ہی نظم یا غزل میں ) حمد و ثنا سے عشق رسول اور عشق رسول سے عشق قرآن اور پھر صداقت اسلام اور مناجات کی طرف اور پھر اس ترتیب کے برعکس بھی اس خوبصورتی سے گریز کرتے ہیں کہ یہ سب مضامین با وجود باہم دگر مختلف ہونے کے ایک ہی نظم میں ایسے کھل مل جاتے ہیں کہ جیسے رنگا رنگ پھولوں کو اس طور سے ترتیب دیا جائے کہ ان کا انفرادی حسن بھی قائم رہتا ہو اور اجتماعی حسن بھی ایک گلدستے کے طور پر اپنا حسن و جمال دکھا رہا ہو.اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ سب مضامین محبت الہی کے اظہار کی تجلیات ہیں آپ حضرت کے کلام کی یہ دلفریب ادا تینوں زبانوں میں عیاں ہے مگر کیونکہ آپ حضرت کے کلام کی اوّل مخاطب اردو زبان بولنے والی قوم ہے اس لیے آپ کی ایک اردو نظم کی مثال پیش کرتے ہیں.آپ حضرت کی ایک نظم شانِ اسلام" کے عنوان سے درمشین میں درج ہے.آپ اس عنوان کے تحت اوّل

Page 208

189 ادب المسيح قدم پر دین اسلام کی خوبیان بیان کرتے ہیں اور بہت نرمی اور درد سے فرماتے ہیں.اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدی یہی ہے اے سونے والو جاگو! شمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دینِ خُدا یہی ہے سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ اُس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے سو سو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بلا کر مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدعا یہی ہے اسی تسلسل میں دیگر ادیان پر اسلام کی برتری کو بیان کرتے ہوئے اسلام کی کتاب یعنی قرآن کریم کی یاد آجاتی ہے تو نعت قرآن کی طرف توجہ فرماتے ہیں.اور کتنی محبت سے فرماتے ہیں.شکرِ خُدائے رحماں! جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا یہی ہے کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے قرآن کریم کی یاد کیسا تھ ہی اُس پیاری ہستی جس پر ہم سب کے ماں باپ فدا ہوں کی محبت زندہ ہو جاتی ہے تو بہت ہی پیاری اور بے مثل نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر یار لامکانی وہ لیک از خدائے برتر خیرالورای یہی ہے دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہ نما یہی ہے

Page 209

ب المسيح 190 وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب وامیں ہے اُس کی ثناء یہی ہے اور پھر اپنے اصل موضوع یعنی محبوب حقیقی کی محبت کا جوش دل میں پیدا ہوتا ہے جس کی جناب سے یہ احسانات انسان پر کیے گئے اور جو حقیقی محور ہے ان تمام موضوعات کا.فرماتے ہیں.اے میرے رپ رحمس تیرے ہی ہیں یہ احساں مشکل ہو تجھ سے آساں ہردم رجا یہی ہے جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے منہ مت چُھپا پیارے میری دوا یہی ہے ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر مشت غبار اپنا تیرے لیے اُڑایا جیتا ہوں اس ہوس سے میری غذا یہی ہے جب سے سُنا کہ شرط مہر و وفا یہی ہے اس عشق میں مصائب سوسو میں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے حرف وفا نہ چھوڑوں.اس عہد کو نہ توڑوں اس دلبرے ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے حضرت اقدس کے کلام کی یہ ادائے خاص آپ کے تینوں زبانوں کے اشعار میں آشکار ہے.اب جبکہ ہم آپ حضرت کے تمام شعری کلام کا ایک مختصر تعارف کروانا چاہتے ہیں تو شعر کی ہیئت کے اعتبار سے آپ کی اس دلر با کیفیت کو قدرے تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہوگا.فنی اعتبار سے شعر میں ہیئت کو قائم رکھنا مشرقی ادب میں ہی نہیں بلکہ تمام انسانی ادب میں ایک لازمہ ہے اصطلاحی اعتبار سے اس کے ایک معانی یہ بھی ہیں کہ اظہار یا بیان کی خارجی صورت کی نوعیت کو قائم رکھا جائے یہ تو معلوم عام ہے کہ مثنوی غزل.قطعہ اور نظم کی ایک خارجی صورت ہے جس کے ذریعہ سے وہ ایک دوسرے سے ممیز ہوتے ہیں.مگر یہاں تک ہی شعر کی خارجی صورت کو متعین کرتی ہے (یعنی شعر کا وزن.قافیہ ردیف اور دیگر لوازم شعر ) مگر خارجی ہیئت کی اہمیت کے ساتھ ادبی فن پارہ ایک داخلی بیت بھی رکھتا ہے اس کا تعلق ادب کے مواد اور ادیب کے طمح نظر سے ہوتا ہے.اس داخلی ہیئت کو بھی اساتذ ہ انتقاد نے کم مرتبہ نہیں دیا بلکہ شعر کے حسن و خوبی کا

Page 210

191 ادب المسيح جائزہ لینے کے لیے ان دونوں اقدار ادب کو اہم قرار دیا ہے.حضرت اقدس نے خارجی ہیئت کے قیام میں بہت احتیاط برتی ہے اور وزن قافیہ اور ردیف کا بتا کید التزام کیا ہے.مگر داخلی بیت یعنی مواد ادب میں اصناف شعر کے مطابق اپنے کلام کومحدود اور مقید نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ حضرت کے کلام کا مواد ایک ہی ہے اور وہ محبت الہی ہے جو مختلف اصناف شعر میں صادر ہوا ہے مگر اصناف شعر کے مخصوص موضوعات شعر کو آپ حضرت نے درخوراعتنا نہیں سمجھا.یعنی یہ کہ اصناف شعر میں غزل ہو یا مثنوی اور قطعات کی ہیئت مگر مواد کو محبت الہی کے دائرے میں محدود رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے تمام کلام میں موضوعات شعری کی ایسی تعین نہیں ہے کہ اگر ابتداحمد وشاری نعت رسول سے ہوئی ہے تو دیگر روحانی اور دینی موضوعات کا ذکر نہ ہو.حضرت اقدس تمام روحانی موضوعات کا محور اور نقطه مرکزی محبت الہی میں سمجھتے ہیں.اس لیے آپ کے کلام میں یہ فنی احتیاط نہیں کہ نظم یا غزل ایک ہی موضوع میں مقید ہو.آپ کا کلام خواہ غزل کی صنف میں ہو یا مثنوی کی.اس کا مواد اور موضوع ایک ہی ہے اور وہ محبت الہی کا بیان ہے جو مختلف تجلیات الہیہ کے اظہار میں ظاہر ہوتا ہے.اگر تکرار نہ ہو تو عرض کروں کہ آپ حضرت کے کلام کی یہ خاص ادا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے اتباع نے پیدا کی ہے جہاں پر باری تعالیٰ نے تمام انبیاء کے کلام اور تعلیم کے فہم و ادراک کو حاصل کرنے کے لیے یہ شرط قائم کردی ہے کہ اس کے حصول کے لیے محبت الہی کا دل میں ہونا ایک لازم شرط ہے.جیسے کہ فرمایا.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ...الى الآخر (ال عمران: 32) آپ حضرت اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہولو اور میری راہ پر چلوتا خدا بھی تم سے پیار کرے (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) مشاہدہ کریں کہ اللہ تعالٰی نے قلب میں محبت الہی کو انبیاء کے عرفان اور تعلیم کو سمجھنے کے لیے شرط کے طور پر قائم فرمایا ہے.آپ حضرت کے اسلوب بیان کا ایک نمونہ اردو زبان میں دیا جا چکا ہے.ایک نمونہ فارسی مثنوی کا بھی دیکھ لیں ان اشعار کی مناجات سے ابتدا ہے فرماتے ہیں: اے خدا اے چارہ آزار ما اے علاج گریہ ہائے زار ما اے خدا.اے ہمارے دکھوں کی دوا.اے ہماری گریہ وزاری کا علاج

Page 211

المسيح 192 اے تو مرہم بخش جان ریش ما اے تو دلدار دل غم کیش ما تو ہماری زخمی جان پر مرہم رکھنے والا ہے.تو ہمارے غمزدہ دل کی دلداری کرنے والا ہے راس تسلسل بیان میں ایک عظیم الشان نعت رسول بیان کرتے ہیں.فرماتے ہیں: آں شہ عالم که نامش مصطفے سید عشاق حق شمس الضح وہ جہاں کا بادشاہ جس کا نام مصطفی ہے.جو عشاق حق کا سردار اور شمس الضحی ہے آنکہ ہر نُورے طفیل نُورِ اُوست آنکه منظور خُدا منظور اوست وہ وہ ہے کہ ہرٹو راسی کے طفیل سے ہے.اور وہ وہ ہے کہ جس کا منظور کردہ خدا کا منظور کردہ ہے اور پھر عاشقانِ الہی کی صفات بیان ہونے لگتی ہیں.فرماتے ہیں: عاشقاں در عظمت مولی فنا غرقه دریائے توحید از وفا عاشق مولیٰ کی عظمت میں فنا ہیں.اور وفاداری کی وجہ سے دریائے توحید میں غرق ہیں کین و مہر شاں ہمہ بہر خداست قہر شاں گر ہست آں قہر خداست ان کی دشمنی اور دوستی سب خدا کے لیے ہے.اگر ان کو غصہ بھی آتا ہے تو وہ خدا ہی کا غصہ ہے آنکه در عشق احد محو و فناست هرچه زو آید زذاتِ کبریا ست جو خدا کے عشق میں فانی اور محو ہے.جو کچھ بھی اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ ذات کبریا ہی کی طرف سے ہے اور آخر پر دین اسلام کی عظمت کو بیان کرتے ہیں.دین حق شہر خدائے امجد است داخل أو در امان ایزداست دین حق تو خدائے بزرگ و برتر کا شہر ہے.جو اس میں داخل ہو گیا وہ خدا کی امان میں آگیا در دمے نیک و خوش اسلوبے کند ہمچو خود زیبا و محبوبے کند وہ تو ایک دم میں نیک اور خوشخحصال کر دیتا ہے.اور اپنی طرح کا حسین اور محبوب بنا دیتا ہے ایک نمونہ عربی زبان میں بھی دیکھ لیں.ابتد احمد باری تعالیٰ سے فرماتے ہیں.يَا مَنْ أَحَاطَ الْخَلْقَ بِالْآلَاءِ نُقْنِي عَلَيْكَ وَ لَيْسَ حَوْلُ ثَنَاءِ اے وہ ذات جس نے (اپنی) نعمتوں سے مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تعریف کی طاقت نہیں ہے.

Page 212

193 ادب المسيح أنْظُرُ إِليَّ بِرَحْمَةٍ وَعَطُوفَةٍ يا مَلْجَنِي يَا كَاشِفَ الغَمَّاءِ مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر، اے میری پناہ! اے حزن و کرب کو دور فرمانے والے! أنْتَ الْمَلَاذُ وَأَنْتَ كَهُفُ نُفُوسِنَا في هذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْدَ فَنَاءِ تو ہی جائے پناہ ہے اور تو ہی ہماری جانوں کی پناہگاہ ہے اس دنیا میں بھی اور فنا کے بعد بھی.اور کیونکہ آپ کی حمد وثناء در حقیقت محبت الہی کا اظہار ہے اس لیے کلام کا رخ اس محور کی طرف موڑ لیتے ہیں.فرماتے ہیں.غَلَبَتْ عَلَى قَلْبِي مَحَبَّةُ وَجُهِهِ حَتَّى رَمَيْتُ النَّفْسَ بِالْإِلْغَاءِ میرے دل پر اس کے چہرے کی محبت غالب آگئی یہاں تک کہ میں نے اپنے نفس کو اور اس کی خواہشات کو باطل اور کالعدم بنا کر پھینک دیا.وَارَى الوَدَادَ أَنَارَ بَاطِنَ بَاطِنِي وَأَرَى التَّعَشُقَ لَاحَ فِي سِيمَائِي میں دیکھتا ہوں کہ محبت نے میرے باطن کے باطن کومنور کر دیا ہےاور میں دیکھتا ہوں کہ عشق میرے چہرے پر ظاہر ہو گیا ہے.مَا بَقِيَ فِي قَلْبِي سِوَاهُ تَصَوُّرٌ غَمَرَتْ آيَادِى اللَّهِ وَجْهَ رَجَائِي میرے دل میں اس کے سوا کوئی تصور باقی نہیں رہا.خدا تعالیٰ کے احسانات نے میری خواہشوں کے منہ کوڈھانپ لیا ہے.هَوْجَاءُ الْفَتِهِ أَثَارَتْ حُرَّتِي فَفَدَا جَنَانِى صَوْلَةَ الْهَوْجَاءِ اس کی الفت کی تیز ہواؤں نے میری خاک اڑادی پس میرا دل ان ہواؤں کی شہرت پر قربان ہو گیا.محبوب حقیقی کی محبت کے بیان کے ساتھ ہی اس محبوب کی یاد آجاتی ہے جس کی برکت اور دم قدم سے انسان کو محبت الہی نصیب ہوئی ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.فرماتے ہیں: يَا بَدْرَ نُورِ اللَّهِ وَ العِرفان تَهْوِى إِلَيْكَ قُلُوبُ أَهْلِ صَفَاءِ اے اللہ تعالیٰ کے نور و عرفان کے بدر کامل! اہل صفا کے دل تیری طرف ٹوٹے پڑتے ہیں.يَاشَمُسَنَا يَا مَبْدَءَ الْأَنْوَارِ نَوَّرُتَ وَجُهَ الْمُدْنَ وَالبَيْدَاءِ اے ہمارے آفتاب اور اے منبع الانوار ! تو نے شہروں اور ویرانوں کے چہرے منور کر دیے.إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّلِ شَانًا يَّفُوقُ شُيُونَ وَجُهِ ذُكَاءِ میں تیرے دسکتے ہوئے چہرے میں ایسی شان دیکھتا ہوں جو آفتاب کے چہرے کی شانوں سے بڑھ کر ہے.

Page 213

194 ب المسيح مَا جِتْنَا فِي غَيْرِ وَقْتِ ضَرُورَةٍ قَدْ جِئْتَ مِثْلَ الْمُؤْنِ فِي الرَّمْضَاءِ تو ہمارے پاس بے وقت اور بے ضرورت نہیں آیا تو ایسے آیا ہے جیسے شدید گرما میں بارش آجائے.إِنِّي رَأَيْتُ الْوَجْهَ وَجُهَ مُحَمَّدٍ وَجُهُ كَبَدْرِ اللَّيْلَةِ الْبَلْمَاءِ میں نے وہ چہرہ دیکھا ہے جو محمد کا چہرہ ہے.ایسا چہرہ جیسا چودھویں رات کا چاند ہو.شَمْسُ الْهُدَى طَلَعَتْ لَنَا مِنْ مَكَّةَ عَيْنُ النَّدَا نَبَعَتْ لَنَا بِحِرَاءِ ہدایت کا آفتاب ہمارے لئے مکہ سے طلوع ہوا.بخششوں کا چشمہ ہمارے لئے حراء سے پھوٹ پڑا.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں یعنی صحابہ کی تعریف میں فرماتے ہیں: وَاهَا لَأَصْحَابِ النَّبِيِّ وَ جُنْدِهِ حَفَدُوا إِلَيْهِ بِشِدَّةٍ وَرَخَاءِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور لشکروں پر آفرین ہو جو دکھ میں بھی اور سکھ میں بھی آپکی خدمت میں حاضر رہتے ہیں.عُمِسُوا بَبَرَكَاتِ النَّبِيِّ وَ فَيُضِهِ فِي النُّورِ بَعْدَ تَمَرُّقِ الْأَهْوَاءِ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور فیض سے خواہشات نفسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد نور میں ڈوب گئے.اور آخر پر آداب حمد وثناء کی پاسداری میں اپنے خدا کی جناب میں عرضداشت پیش کرتے ہیں.إِنَّ الْمُقَرَّبَ لَا يُضَاعُ بِفِتْنَةٍ وَالْأَجْرَ يُكْتَبُ عِنْدَ كُلَّ بَلَاءِ مقرب آزمائش سے ضائع نہیں کیا جاتا اور ہر بلا کے وقت اس کا اجر لکھا جاتا ہے.يَا رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا بِكَرَامَةٍ يَا مَنْ يَّرَى قَلْبِي وَ لُبَّ لِحَائِي اے ہمارے رب ! تُو ہمارے درمیان باعزت فیصلہ فرما.اے وہ ذات جو میرے دل کو میرے ظاہر کی اندرونی حقیقت کو دیکھ رہی ہے.يَا مَنْ أَرَى أَبْوَابَهُ مَفْتُوحَةً لِلسَّائِلِينَ فَلَا تَرُدَّ دُعَائِي اے وہ ذات! جس کے دروازے میں سائلوں کے لئے کھلے دیکھتا ہوں.میری دعا کو رد نہ فرما.آپ کے کلام سے محبت رکھنے والوں کے لیے آپ کے ادب کا منفر د مکتب ادب نام کوئی انوکھی بات نہیں ہے.ہم نے چند مثالیں پیش کر کے یہ حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کے کلام کی تر جیہات قلبی اور مقاصد تخلیق دنیوی ادب سے مختلف ہی نہیں بلکہ برعکس ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو آپ کے ادب کو ایک منفرد اور

Page 214

ممتاز مکتب بناتی ہے.195 ادب المسيح آپ حضرت کے اسلوب کے تعارف کے بعد ہم آپ کے اختیار فرمودہ موضوعات کے مطابق آپ کا کلام پیش کرتے ہیں.

Page 215

ب المسيح 196 حمد و ثناء باری تعالیٰ باری تعالیٰ جل شانہ کی ایسی لا یدرک الابصار اور وراء الوری عظمت اور شان ہے کہ اس کی جناب سے آنے والے انبیاء اور مرسلین بھی اس کو بیان کرنے کا یہی طریق اختیار کرتے ہیں کہ جو اس عالی جناب نے اپنی شان میں کہا ہے اس کی وہی حقیقی شان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی حقیقی عظمت کو جانتا ہے اور انسان کو یہ عرفان اس کی استعداد کے مطابق دیا جاتا ہے اور یہ عرفان اُسی میں محقق ہوتا ہے جو عاشق الہی ہو بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ثنائے باری تعالیٰ کا سب سے بڑا محرک اور فجر امحبت الہی ہی ہے جس کو اللہ نے ایک شرط کے طور پر قائم کیا ہے.فرمایا:.قُل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبُكُمُ اللهُ...الى الآخر (ال عمران: 32) حضرت اقدس اس فرمان الہی کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہولو اور میری راہ پر چلو تا خدا بھی تم سے پیار کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ بخشندہ اور رحیم ہے“ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) روحانیت کی نشو ونما اور زندگی کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.وہ اتباع رسول ہے قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو وہ یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو اشد حبا لله (البقرہ: 166 ) کے مصداق ہو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران: (32) پر عمل کرو اور ایسی فناء اتم تم پر آجائے کہ تبلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (المزمل : 9) کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ.اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کرلو.دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ال عمران : 32) قرب الہی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے باری تعالیٰ کی عظمت و شان کا حقیقی مشاہدہ کرنے والے انبیاء علیہ السلام ہی ہوتے ہیں اور زمرہ انبیاء میں قرب الہی میں سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہمارے پیارے آقا اور مطاع پاک محمد مصطفے نبیوں کے سردار ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرفان کو سب سے اوّل بیان کیا ہے.

Page 216

فرماتے ہیں: 197 ادب المسيح 66 لا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ “ (مسلم كتاب الصلاة باب مايقول في الركوع والسجود) (اے اللہ ) میں تیری ثناء کا حق ادا نہیں کر سکتا.تیری ثناء وہی ہے جو تو نے خود کی ہے.آپ صلعم کے نائب اور مہدی آخر زمان نے بھی آپ ہی سے تعلیم پا کر وہی بات کی ہے آپ فرماتے ہیں.اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ڈوالمن شکر و سپاس عربی میں فرماتے ہیں.وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار يَا مَنْ أَحَاطَ الْخَلْقَ بِالْآلَاءِ تُقْنِي عَلَيْكَ وَ لَيْسَ حَوْلُ ثَنَاءِ اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں لیکن تعریف کی طاقت نہیں پاتے.اسی کمی کی وجہ سے خدا کی حمد کے لیے خدا تعالیٰ سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں.بكَ الْحَوْلُ يَا قَيُّومُ يَا مَنْبَعَ الْهُدَىٰ فَوَفِّقْ لِي أَن أُثْنِي عَلَيْكَ وَ أَحْمَدَا اے قیوم! اے سرچشمہ ہدایت ! تجھ ہی سے طاقت ملتی ہے.پس مجھے توفیق دے کہ میں تیری ثنا کروں اور حمد کروں ان فرمودات کے بعد یہ امر تو ثابت ہے کہ باری تعالیٰ کی حمد وثنا کے مضمون میں کچھ بیان کرنا اس کو زیب دیتا ہے جو محبوب الہی ہو اور جس کو دیدار اور گفتار باری تعالیٰ نصیب ہوا ہو.جیسے فرماتے ہیں.دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی ان گذارشات کی روشنی میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ حمد و ثناء کے معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا راہنمائی فرمائی ہے.اول قدم پر آپ حضرت نے الحمد للہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ “ خدا تعالیٰ کا اسم ذات ہے اور

Page 217

المسيح 198 یہ اسم اعظم ہے اور وہ موصوف ہے اپنی اُن تمام صفات کا جو اس نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں.فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے“ ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) حضرت اقدس لفظ ” حمد“ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں.وما تعلم ما الحمد و التحميد و لم اعلى مقامه الرب الوحيد و کفی لک من عظمته ان الله ابتدء به كتابه الكريم.ليبين للناس عظمة الحمد و مقامه العظيم.وانه لايـفـور مـن قلب الا بعد الهويّة والذوبان.ولا يتحقق إلا بعد الانسلاخ و دوس اهواء النفس الثعبان ولا يجرى على لسان الا بعد اضطرام نار المحبة في الجنان.بل لا يتحقق الا بعد زوال اثر الغير من الموهوم و الموجود.ولا يتولد الا بعد الاحتراق في نار محبة المعبود.اور تجھے کیا خبر ہے کہ حمد کہتے کس کو ہیں اور کیوں اس کا بلند پایہ ہے.اور اُس کی عظمت سمجھنے کے لئے تجھے یہ کافی ہے کہ خدا نے قرآن شریف کی تعلیم کو حمد سے ہی شروع کیا ہے تا لوگوں کو حمد کے مقام کی بلندی سمجھا وے جو کسی دل میں سے بجز گدازش اور محویت کے جوش نہیں مارسکتی.اور اسی وقت متحقق ہوتی ہے جب کہ مارنفس امارہ کچلا جائے.اور نفسانی چولہ اتار لیا جائے.اور یہ حمد کسی زبان پر جاری نہیں ہوسکتی بجز اس کے کہ پہلے دل میں محبت کی آگ بھڑ کے.بلکہ یہ وجود پذیر ہی نہیں ہوسکتی جب تک کہ غیر کا نام ونشان بھی زائل نہ ہو جائے اور پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ ایک شخص آتش محبت معبود حقیقی میں جل نہ جائے.( نجم الہدیٰ صفحہ 12 ، ر.خ جلد 14 ) حمد کی تعریف کے بعد حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ حمد و ثناء باری تعالیٰ میں سب سے اعلیٰ منصب ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ فرماتے ہیں: وضمخه بعطر نعمه ازيد مما ضمخ احدا من الانبياء و علمه من لدنه و فهمه من لدنه و عرفه من لدنه و طهره من لدنه و ادبه من لدنه و غسله من لدنه بماء

Page 218

199 ادب المسيح الاصطفاء.فوجب عليه حمد هذا الرب الذى كفل كل امره بالاستيفاء.ادخله تحت رداء الايواء و اصلح كل شانه بنفسه من غيره منة الاساتذ الأباء و الامراء.و اتم عليه من لدنه جميع انواع الألاء و النعماء فحمده روح النبي بحمد لا يبلغ فكر الى اسراره ولاتدرک ناظرة حدود انواره.و بالغ في الحمد حتى غاب و فنا فی اذکاره.اور خدا تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے عطر سے اسقدر آنجناب کو معطر کیا کہ اس سے پہلے کوئی نبی اور رسول نہیں کیا گیا.خدا نے اپنے پاس سے آپ کو علم دیا اور اپنے پاس سے فہم عطا کیا.اور اپنے پاس سے معرفت بخشی.اور اپنے پاس سے پاک کیا.اور اپنے پاس سے ادب سکھلایا اور برگزیدگی کے پانی سے اپنے پاس سے نہلایا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُس خدا کی تعریف کرنا واجب ہو گیا جو اس کے ہر ایک کام کا آپ متکفل ہوا.اور اپنی پناہ کی چادر کے نیچے جگہ دی.اور ہر ایک کام آنحضرت کا اپنی توجہ خاص سے بغیر توسط استادوں اور باپوں اور امیروں کے بنایا.اور اپنے پاس سے اُس پر ہر ایک قسم کی نعمت پوری کی.پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نے خدائے تعالیٰ کی وہ تعریف کی جو کوئی فکر اُس کے بھیدوں تک نہیں پہنچ سکتا اور کوئی آنکھ اُس کے نوروں کی حدود کو پا نہیں سکتی.اور اس نے خدا کی تعریف کو کمال تک پہنچایا یہاں تک کہ اُس کے ذکروں میں گم اور فنا ہو گیا.( نجم الہدی صفحہ 4، 5، رخ جلد 14) ان عنایات بے پایاں کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی وہ بے مثال تعریف کی کہ کسی اور کو نصیب نہیں.فرماتے ہیں: ففار قلبه لتحميد هذا المحسن حتى صار الحمد عين مراده.و هذه مرتبة ما اعطاها الله لغيره من الرسل والانبياء و الابدال و الاولياء.فانهم وجدوا بعض معارفهم و علومهم و نعمهم بوساطة العلماء و الأباء و المحسنين و ذوى الألاء.و اما نبينا صلى الله عليه وسلم فوجد كل ما وجد من حضرة الكبرياء.پس اُس محسن کی تعریف کے لئے اُس کے دل نے جوش مارا اور خدا تعالیٰ کی تعریف اُس کی

Page 219

المسيح 200 دلی مراد ہو گئی.اور یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز اس کے کسی کو رسولوں اور نبیوں اور ابدالوں اور ولیوں میں سے عطا نہیں ہوا.کیونکہ ان لوگوں نے اپنے بعض معارف اور علوم اور نعمتیں بتوسط عالموں اور باپوں اور احسان کرنے والوں کے پائی تھیں.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پایا جناب الہی سے پایا.نجم الہدی صفحہ 6 ، ر خ جلد (14) اس عظیم الشان حمد و ثناء باری تعالیٰ کے بعد ایک علوی نکتہ معرفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تعریفوں کو انعام کے طور پر واپس کر دیتا ہے اور حامد کومحمود بنادیتا ہے.فرماتے ہیں: و کذالک جرت سنتـه بـكـل صـديـق وحـيـد.فحمد محمدنا في الارض و السماء بامر رب مجيد.وفي هذا تذكرة للعابدين و بشرى لقوم حامدين.فان الله يردّ الحمد الى الحامد و يجعله من المحمودين.فيُحمد في العالمين.اور تمام یگا نہ صدیقوں سے اُس کی یہی عادت ہے کہ وہ حامد کو محمود بنادیتا ہے.پس ہمارا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم زمین و آسمان میں تعریف کیا گیا اور اس قصے میں پرستاروں کے لئے یاد رکھنے کی بات ہے.اور خدا کے ثنا خوانوں کو اس میں بشارت ہے.کیونکہ خدا تعریف کرنے والے کی تعریف کو اُسی طرف ردّ کر دیتا ہے.اور اُسکو قابل تعریف ٹھیر دیتا ہے.پس وہ دنیا میں تعریف کیا جاتا ہے.نجم الہدی صفحہ 8، رخ جلد 14) اور پھر فرماتے ہیں وہی ہے جس کو اول احمد کے نام سے پکارا جاتا کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کی عظیم الشان تعریف کی ہوتی ہے اور اس کی جزا میں اللہ تعالیٰ اسکومحمد کا نام دیتا ہے تا کہ اس کی تعریف ہو.فرماتے ہیں: و هـوا لـذي يدعى في السماء باسم احمد و يقرب و يدخل في بيت العزة و قصارة الدار.و هى دار العظمة و الجلال يقال استعارة ان الله بناها لذاته القهار.ثم يعطيه لحمّاد وجهه فيكون له كالبيت المستعار.فيحمد هذا الرجل في السماء والارض بامر الله الغفّار.ويدعى باسم محمد في الافلاک و البلاد والديار.و معناه انه حَمّد حَمُدًا كثيرًا و اتفق عليه الاخيار من غير الانكار و ان هذين الاسمين قد وضعا لنبيّنا من يوم بناء هذه الدار.

Page 220

201 ادب المسيح اور وہی شخص ہے جس کو آسمان میں احمد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور قریب کیا جاتا ہے اور عزت کے گھر اور قصارة الدار میں داخل کیا جاتا ہے اور وہ عظمت اور جلال کا گھر ہے جو بطور استعارہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے اس کو اپنی ذات کیلئے بنایا پھر اس گھر کو بطور مستعار اُس کو دے دیتا ہے جو اس کی ذات کا ثنا خوان ہو.پس یہ شخص زمین و آسمان میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ساتھ تعریف کیا جاتا ہے.اور آسمانوں اور زمین میں محمد کے نام سے پکارا جاتا ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا.اور یہ دونوں اسم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ابتدا دنیا سے وضع کئے گئے.( نجم الہدی صفحہ 14،13، رخ جلد 14 ) اور آخر پر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی کے بعد حمد و ثناء باری تعالیٰ کی قبولیت کا یہ منصب اس کو بھی دیا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور اظلال ہو.فرماتے ہیں: ثم يعطيان للذى صار له كالاظلال والآثار.و من أعطى من هذين الاسمين بقبس فقد انير قلبه بانواع الانوار.و قد جرى على شفتي الرسول المختار.ان الله يرزق منهما عبدا له في اخر الزمان كما جاء في الاخبار.فاقرء واثم فکروایا اولی الابصار.پھر بعد اس کے اس شخص کو بطور مستعار دیے جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور اظلال و آثار ہو.اور جس شخص کو ان دونوں ناموں سے ایک چنگاری دی گئی تو اس کا دل کئی قسم کے نوروں سے روشن کیا گیا.اور رسول مختار کے لب مبارک پر جاری ہوا تھا کہ خدا تعالی آخری زمانہ میں ایک اپنے بندے میں یہ دونوں صفتیں جمع کر دیگا جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے.پس اے دانشمند و ! ان حدیثوں کو پڑھو اور سوچو.( نجم الہدی صفحہ 14، رخ جلد 14 ) میہ وہی معرفت ہے جو حضرت اقدس نے سورۃ القصص کی ذیل کی آیت کی تفسیر میں بیان کی ہے.وَهُوَ اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تَرْجَعُونَ (القصص: 71)

Page 221

202 المسيح فأَما فَيهِ إِلى أَحمدَين وَجَعَلَهُمَا مِن نُعَمَائِهِ الكَاثِرَةِ.فَالاَوَّلُ مِنْهُمَا أَحْمَدُن المُصطَفى وَرَسُولُنَا المُجتَبى وَ الثَّانِى اَحمد اخِرِ الزَّمَانِ الَّذِي سُمِّيَ مَسِيحًا وَ مَهْدِيَّا مِّنَ اللهِ المَنَّان.وَقَد استنبطَتْ هذِهِ التُكتَةُ مِن قَولِهِ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.فَلْيَتَدَبَّرُ مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبِّرِينَ ( ترجمہ از مرتب) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمدوں کا ذکر فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفے اور رسول مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرا احمد احمد آخر الزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے اخذ کیا ہے.پس ہر غور وفکر کرنے والے کو غور کرنا چاہیئے.اس مضمون کی مزید وضاحت میں فرماتے ہیں: (اعجاز مسیح ، ر خ جلد 18 صفحہ 139) فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَانِ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ أَحْمَدَيْنِ فِي صَدْرِ الْإِسْلَامِ وَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ.وَأَشَارَ إِلَيْهِمَا بِتَكْرَارِ لَفْظِ الْحَمْدِ فِى اَوَّلِ الْفَاتِحَةِ وَ فِي آخِرِهَا لِاَهْلِ الْعِرْفَانِ وَ فَعَلَ كَذَالِكَ لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ.وَاَنْزَلَ أَحْمَدَيْنِ مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُونَا كَالْجِدَارَيْنِ لِحِمَايَةِ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ.( ترجمه از مرتب ) پس خلاصہ بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دواحمد پیدا کئے ایک اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور ایک آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہل عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظاً ومعنا تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لئے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو احمد آسمان سےاُتارے تا وہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لئے دود یواروں کی طرح ہو جائیں.(اعجاز امسح ، رخ جلد 18 صفحہ 198) اس مضمون کو حضرت اقدس نے ایک نہایت درجہ حسین اور جاں فزا نظم میں بیان کیا ہے.دونوں احمد وں کا ذکر بھی ہے اور عیسائیوں سے خطاب بھی ہے کہ انہوں نے خدائے واحد کی عظمت وشان کو بھلا کر وہ منصب ابن مریم کو دے دیا ہے فرماتے ہیں.زندگی بخش جامِ احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے

Page 222

لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا 203 بڑھ کر مقا' ادب المسيح میرا بستاں کلام احمد ابن مریم کے ذکر کو چھوڑ و اس سے بہتر غلام احمد ہے مشاہدہ کریں کہ جام احمد میں کیا ہے.خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی کبریائی کا آب زمزم ہی تو ہے.یہی وہ ثمر ہے جو آپ نے اپنے آقا کے باغ سے نوش فرمایا اور اس کی برکت سے الہی عظمت وشان اور مدح و ثناء کو حضرت عیسی سے چھین کر باری تعالیٰ کے قدموں میں ڈال دیا.اس طور سے آپ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے بن گئے حمد و ثناء کے عنوان میں حضرت اقدس کے الفاظ میں اس موضوع کی ” تعریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نائب اور وارث کا حمد باری تعالیٰ کی نسبت سے منصب بیان کرنے کے بعد ہم رسول اکرم کے فرمان لا أحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ.أَنْتَ كَمَا اَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ کی طرف لوٹتے ہیں.اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام عظمتوں اور صفات حسنہ کا احاطہ نہیں کر سکتا مگر جیسا کہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا ہے کہ انسانوں میں جس کو سب سے اعلیٰ ثناء باری تعالیٰ کرنے کا افتخار ملا ہے وہ ہمارے مولی و آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ آقاءِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اس منصب علوی کے بیان میں فرماتے ہیں: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ لا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَ حُسُنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحُهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِى.(بخارى كتاب التفسير سورة بنی اسرائیل باب قوله ذرية من حملنا مع نوح) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے محامد اور ثناء کے معارف اس طور پر کھولے ہیں کہ مجھ سے قبل کسی اور شخص پر اس طرح نہیں کھولے گئے.باری تعالیٰ کی حمد کی نسبت آپ کا مقام سب سے اعلیٰ ہے مگر اس فرمان کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی بے حد وانتہاء عظمتوں کا عرفان رکھتے تھے اور خوب سمجھتے تھے کہ کسی انسان سے ان عظمتوں کا احاطہ

Page 223

ب المسيح 204 کر لینا ممکن نہیں.اسی عرفانِ ذات باری تعالیٰ کے اظہار میں فرمایا: لا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ.أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ (مسلم كتاب الصلوة باب ما يقول في الركوع والسجود) اس فرمان کے اتباع میں اور رہنمائی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم ثناء باری تعالیٰ کے مضمون کو فرمودات قرآن اور ارشا د رسول اکرم ( اور ان دونوں ماخذوں کی جو تعبیر و تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے) کے دائرے میں محمد و درکھیں.در اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان نے جس ثناء کی طرف اشارہ کیا ہے وہ قرآن کریم میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے محامد ہیں.چنانچہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات میں بے انتہا اختصار سے پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی حمد و ثناء کس طور سے کی ہے اول مقام پر حضرت اسم اللہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں.اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کا ملہ کا مجمع ہے.کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں.اور تفصیلاً فرماتے ہیں: ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.الحمد لله - تمام محامد اس ذات معبود برحق مجمع جمیع صفات کا ملہ کوثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے.قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اُس ذات کامل کا نام ہے جو معبودِ برحق مجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رزائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لیے اُس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کا ملہ پر مشتمل ہے پس خلاصہ مطلب الحمد للہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اُس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ! ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 224

205 ادب المسيح اس فرمان کی روشنی میں اللہ باری تعالیٰ کا اسم ذات ہے اور قرآن میں جو دیگر صفات خداوندی بیان ہوئی ہیں وہ اسم اللہ ہی کی ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اسم اللہ جو کہ اس کا اسم ذات اور اسم اعظم ہے دو ہزار سے زائد مرتبہ بیان ہوا ہے اور اگر ہم اسم ذات کے صفاتی اسماء باری تعالیٰ کا شمار کرنے لگیں تو وہ شمار میں اس قدر ہیں کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ قرآن شریف اللہ تعالیٰ کے اسماء علوی پر ہی مشتمل ہے.سورۃ الفاتحہ کی اس آیت کو یہ فخر بھی ہے کہ اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مرتبہ مکمل الفاظ میں ارشاد کیا ہے.جیسے فرمایا فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : 46) وَاخِرُ دَعُونَهُمْ آنِ الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (يونس: 11) فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِيْنَ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (المومن : 66) وَسَلَّمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الصافات : 182-183) بہت مختصر بات یہ ہوئی کہ قرآن کریم میں ثناء باری تعالیٰ اسم ذات اور اسماء صفات کے معانی اور عرفان پر مشتمل ہے ان مناقب باری تعالیٰ کا حقیقی اور جامع بیان تو سورۃ الفاتحہ میں ہوا ہے جس میں اسم ذات کے ساتھ اللہ کی چار صفات بیان ہوئی ہیں جن کو حضرت اقدس نے ام الصفات قرار دیا ہے اور فرمایا کہ دیگر تمام صفات ان چار صفات کے ذیل میں آتی ہیں.فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ میں اُس خدا کا نقشہ دکھایا گیا ہے جو قرآن شریف منوانا چاہتا ہے اور جس کو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے چنانچہ اس کی چار صفات کو ترتیب وار بیان کیا ہے جو امہات الصفات کہلاتی ہیں جیسے سورۃ فاتحہ ام الکتاب ہے ویسے ہی جو صفات اللہ تعالیٰ کی اس میں بیان کی گئی ہیں وہ بھی ام الصفات ہی ہیں اور وہ یہ ہیں.رب العالمین الرحمان الرحیم ملک یوم الدین ان صفات اربعہ پر غور کرنے سے خدا تعالیٰ کا گویا چہرہ نظر آ جاتا ہے.( تفسیر حضرت اقدس زمر آیت) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور حضرت مسیح موعود کی قرآنی تفسیر و تعبیر کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بیان سے بھرا ہوا ہے بلکہ در حقیقت قرآن کا یہی موضوع ہے جو مختلف انداز میں بیان ہوا ہے کبھی اپنی صفات کی عظمت و شان کو ظاہر کر کے اور کبھی اپنی ذات کی عبادت کی تلقین فرما کر.جیسا کہ سورہ ہود میں فرمایا:

Page 225

المسيح 206 الرُكِتُبُ أَحْكِمَتْ أَيْتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ - أَلَا تَعْبُدُوا إِلَّا الله إنَّني لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ (هود: (2-3) حضرت ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں.الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے.یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا الله.خدا تعالیٰ کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِبَ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريات : 57) ان ارشادات عالیہ کے اتباع میں ہم نہایت درجہ عاجزی سے عرض کرتے ہیں کہ گو قر آن کریم ذات باری تعالی کے بیان سے مملو ہے مگر اختصار کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس مضمون کو اس طور سے ترتیب دیا ہے کہ اول ان قرآنی فرمودات کو بیان کیا جائے جہاں پر باری تعالیٰ نے عمومی اور اصولی طور پر اپنی تسبیح وتحمید کی ہے اور دوسرے مقام پر ان فرمودات کو پیش کیا جائے جہاں باری تعالیٰ نے اپنی ذات کی ثناء کی ہے اور تیسرے مقام پر ان فرمودات کو پیش کیا جائے جہاں باری تعالیٰ نے اپنی صفاتی عظمت کو بیان فرمایا ہے.اصولی ثناء باری تعالیٰ کے عنوان میں اول سورۃ بنی اسرائیل کی آیت پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّماتُ السَّيْحُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل: 45) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.وہ خدا جس کا پتہ قرآن شریف بتلاتا ہے اپنی موجودات پر فقط قہری حکومت نہیں رکھتا بلکہ موافق آیہ کریمہ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (الاعراف: 173) کے ہر یک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے.اس کی طرف جھکنے کے لئے ہر یک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے.اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں اور یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ ہر یک چیز کا خالق ہے کیونکہ نور قلب اس بات کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کے لئے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلاشبہ اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ قرآن شریف نے اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ

Page 226

207 ادب المسيح بحمده یعنی ہر یک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے.اگر خدا ان چیزوں کا خالق نہیں تھا تو ان چیزوں میں خدا کی طرف کشش کیوں پائی جاتی ہے.ایک غور کرنے والا انسان ضرور اس بات کو قبول کر لے گا کہ کسی مخفی تعلق کی وجہ سے یہ کشش ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس مضمون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت اقدس سورۃ الجمعہ زیر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.يُسحُ لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ القُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (الجمعة: 2) قرآن کہتا ہے کہ یہ نہیں کہ زمین تقدیس سے خالی ہے بلکہ زمین پر بھی خدا کی تقدیس ہو رہی ہے نہ صرف آسمان پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (بنی اسرائیل: 45) يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور تقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ ان میں ہے وہ تحمید اور تقدیس میں مشغول ہے.پہاڑ اس کے ذکر میں مشغول ہیں.دریا اس کے ذکر میں مشغول ہیں.درخت اس کے ذکر میں مشغول ہیں اور بہت سے راست باز اس کے ذکر میں مشغول ہیں اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اُس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا اُس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا وقد ر الہی فروتنی کرا رہی ہے اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت درجہ اطاعت کر ہے ہیں.یہی تعریف زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اُس کی اطاعت کر رہی ہے ایک پتہ بھی بجز اُس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بجز اُسکے حکم کے نہ کوئی دوا شفا دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہوسکتی ہے اور ہر ایک چیز غایت درجہ کے تذلل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اس کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے.پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر یک جز اُن کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اُس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرما یا يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الارض یعنی جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے زمین پر بھی ہر ایک چیز

Page 227

المسيح 208 اُس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) قرآن کے فرمودات کے مطابق حضرت اقدس نے ثناء باری تعالیٰ کے معنوں کو لامتناہی وسعتوں سے ہمکنار کر دیا ہے.اور کائنات کے ہر ذرہ کو اس کے قانونِ قدرت کی اطاعت سے سرِ مو انحراف نہ کر سکنے کو اس کی شاء کرنے اور اس کی کبریائی کو قبول کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور ایسا ہی لازم بھی تھا کیونکہ جس طور سے اس کی لامتناہی عنایات ہیں ویسے ہی اس کی ثناء بھی لامتناہی ہوگی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بہت مقامات میں بیان کیا ہے.سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحديد :2) سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر :2) سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الصف:2) فارسی زبان میں حضرت اقدس باری تعالیٰ کی اس اصولی اور آفاقی ثناء کے بیان میں بہت ہی خوبصورتی اور محبت سے عرض کرتے ہیں.حمد و شکر آں خدائے کردگار کز وجودش ہر وجودے آشکار خدائے کردگار کی حمد اور شکر واجب ہے جس کے وجود سے ہر چیز کا وجود ظاہر ہوا ایں جہاں آئینہ دار روئے اُو ذره ذره ره نماید سوئے اُو جہان اس کے چہرے کے لیے آئینہ کی طرح ہے.ذرہ ذرہ اُسی کی طرف راستہ دکھاتا ہے کرد در آئینه ارض و سما آں رُخ بے مثل خود جلوہ نما اس نے زمین و آسمان کے آئینہ میں اپنا بے مثل چہرہ دکھلا دیا ہر گیا ہے عارف بنگاه او دست ہر شاخ نماید راه او اس کا ہر پتہ اس کے کون و مکان کی معرفت رکھتا ہے اور درختوں کی ہر شاخ اُسی کا راستہ دکھاتی ہے نُورِ مهر و مه ز فیض نُور اوست ہر ظہورے تابع منشور اوست چاند اور سورج کی روشنی اُسی کے نور کا فیضان ہے ہر چیز کا ظہور اسی کے شاہی فرمان کے ماتحت ہوتا ہے ہر سرے سرے ز خلوت گاہ او ہر قدم جوید در با جاه أو ہر سر اُس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے اور ہر قدم اُسی کا باعظمت دروازہ تلاش کرتا ہے

Page 228

209 ادب المسيح مطلب ہر دل جمال روئے اُوست گھر ہے گرہست بہر کوئے اُوست اُسی کے منہ کا جمال ہر ایک دل کا مقصود ہے اور کوئی گمراہ بھی ہے تو وہ بھی اُسی کے کوچہ کی تلاش میں ہے جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شناء اپنی ذات کی عظمت اور صفات کے حسن و جمال کے اظہار میں بیان کی ہے اس لئے ثناء کے مضمون میں قرآن کریم کے اصولی بنیادی فرمودات پیش کرنے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کے ان فرمودات کو پیش کرتے ہیں جن میں باری تعالیٰ نے اپنی ذات گرامی کی عظمت کو بیان کیا ہے اس عنوان میں ہم نے اول سورۃ البقرۃ کی آیت الکرسی کا انتخاب کیا ہے اور دوم سورۃ الاخلاص کا.یہ انتخاب در اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جیسا کہ آپ نے اس آیت کریمہ کو سيدة آية القرآن یعنی آیات قرآنیہ کی سردار کہا ہے.اور سورۃ اخلاص کے بارے میں فرمایا: قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ القُرآن یعنی سورۃ الاخلاص قرآن کریم کا ثلث ہے.( ترمذی کتاب فضائل القرآن ) (ترمذی کتاب فضائل القرآن اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيٍّ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِ الْعَظِيمُ (البقرة:256) حضرت اقدس اس آیت کریمہ کے معانی اور تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یعنی وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں وہی ہر ایک جان کی جان اور ہر ایک وجود کا سہارا ہے.اس آیت کے لفظی معنے یہ ہیں کہ زندہ و ہی خدا ہے اور قائم بالذات وہی خدا ہے.پس جبکہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اُسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جوز مین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے.فرماتے ہیں: ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) حقیقی وجود اور حقیقی بقا اور تمام صفات حقیقیہ خاص خدا کے لیے ہیں کوئی اُن میں اُس کا شریک نہیں وہی بذاتہ زندہ ہے اور باقی تمام زندے اُس کے ذریعہ سے ہیں.اور وہی اپنی

Page 229

المسيح 210 ذات سے آپ قائم ہے اور باقی تمام چیزوں کا قیام اس کے سہارے سے ہے اور جیسا کہ موت اُس پر جائز نہیں ایسا ہی ادنی درجہ کا تعطل حواس بھی جو نیند اور اونگھ سے ہے وہ بھی اُس پر جائز نہیں.مگر دوسروں پر جیسا کہ موت وارد ہوتی ہے نیند اور اونگھ بھی وارد ہوتی ہے.جو کچھ تم زمین میں دیکھتے ہو یا آسمان میں وہ سب اُسی کا ہے اور اُسی سے ظہور پذیر اور قیام پذیر ہے کون ہے جو بغیر اُس کے حکم کے اُس کے آگے شفاعت کر سکتا ہے وہ جانتا ہے جولوگوں کے آگے ہے اور جو پیچھے ہے یعنی اس کا علم حاضر اور غائب پر محیط ہے اور کوئی اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتا لیکن جس قدر وہ چاہے.اس کی قدرت اور علم کا تمام زمین و آسمان پر تسلط ہے وہ سب کو اُٹھائے ہوئے ہے یہ نہیں کہ کسی چیز نے اُس کو اٹھا رکھا ہے اور وہ آسمان وزمین اور اُن کی تمام چیزوں کے اُٹھانے سے تھکتا نہیں اور وہ اس بات سے بزرگ تر ہے کہ ضعف و ناتوانی اور کم قدرتی اُس کی طرف منسوب کی جائے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور فرماتے ہیں وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ یعنی خدا کی کرسی کے اندر تمام زمین و آسمان سمائے ہوئے ہیں اور وہ اُن سب کو اٹھائے ہوئے ہے ان کے اٹھانے سے وہ تھکتا نہیں ہے اور وہ نہایت بلند ہے کوئی عقل اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی اور نہایت بڑا ہے اس کی عظمت کے آگے سب چیزیں بیچ ہیں.یہ ہے ذکر کرسی کا اور یہ محض ایک استعارہ ہے جس سے یہ جتلا نا منظور ہے کہ زمین و آسمان سب خدا کے تصرف میں ہیں اور ان سب سے اس کا مقام دور تر ہے اور اس کی عظمت نا پیدا کنار ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دوسرے نمبر پر باری تعالیٰ کی ثناء ذاتی کے اظہار کے لیے ہم نے سورۃ الاخلاص کا انتخاب کیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ حضرت اقدس اس سورۃ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں (الاخلاص : 2-5 ) حُسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدہ سے طبعا محبت پیدا ہوتی ہے تو حسنِ باری تعالیٰ اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور

Page 230

211 ادب المسيح صفات ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے فرمایا ہے قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں سب اس کے حاجت مند ہیں.ذرہ ذرہ اسی سے زندگی پاتا ہے.وہ گل چیزوں کے لئے مبداء فیض ہے اور آپ کسی سے فیض یاب نہیں.وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ.اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں.قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمت دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کو مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ایک اور مقام پر اس سورۃ کی نہایت درجہ عارفانہ تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.قرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خداوند وحید وحمید جو بالذات تو حید کو چاہتا ہے اُس نے اپنی مخلوق کو متشارک الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہ قراردیا ہے تا کسی فردِ خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات و افعال و اقوال اور صفات کے متعلق ہے اس دھوکہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنی بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی خاصیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اصلاً و نہ ظلاً اس کا شریک نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لاشریک ہے چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کر رہی ہے کہ احدیت ذات وصفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے.دیکھو اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ثناء باری تعالیٰ کے مضمون میں اللہ تعالیٰ کے اسم ذات کے حوالہ سے قرآن کریم کے بیان فرمودہ دواہم نمونے پیش کرنے کے بعد ہم ان فرمودات کو پیش کریں گے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء صفاتی میں اپنی عظمت وشان اور حسن و جمال پیش کیا ہے.چنانچہ ہم گذشتہ میں باری تعالیٰ کے اسم ذات اللہ کے عنوان میں عرض کر چکے ہیں کہ اللہ کا اسم گرامی قرآن کریم میں کئی ہزار مرتبہ بیان ہوا ہے.اُس طور سے اگر باری تعالیٰ کے اسماء صفاتی کو شمار کرنے لگیں تو اس تعداد میں ہیں کہ اگر ان کو بے حد وشمار کہا جائے تو درست ہوگا.شاید ہی کوئی آیت قرآنیہ ایسی ہوگی جس کے اول آخر میں کسی صفاتی اسم باری تعالیٰ کا ذکر نہ ہو اور اکثر آیات تو ایسی ہیں جنھوں نے کئی صفات باری تعالیٰ کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے.اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے قرآن کریم کے اسماء صفاتی کے بیان میں بھی صرف دو فرمودات قرآن کو اختیار کیا ہے.

Page 231

ب المسيح 212 جن میں اوّل سورۃ الفاتحہ ہے اور دوم درجہ پر سورۃ الحشر کی آخری تین آیات ہیں.یہ انتخاب ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے تحت ہے سورۃ الفاتحہ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ تمام قرآن کی سورتوں میں عظیم تر سورۃ ہے یہی قرآن العظیم اور سبع المثانی ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث مبارکہ میں فرمانِ رسول ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ المُعَلَّى قَالَ كُنْتُ أُصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمُ أَجِبُهُ فَقُلْتُ يَارَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أَصَلَّى فَقَالَ اَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ اِسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ثُمَّ قَالَ لِي لَا عَلَمَنَّكَ سُوْرَةً هِيَ اَعْظَمُ السُّوَرِ فِى الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ قُلْتُ لَهُ اَلَمْ تَقُلْ لَا عَلِمَنَّكَ سُوْرَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِى الْقُرْآن قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبُعُ الْمَثَانِي وَ الْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أَوتِيتُهُ.(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن ) ترجمہ: ابن سعید بن معلی سے روایت ہے : انہوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں ایک دن نماز ادا کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طلب فرمایا.میں نماز سے فارغ ہو کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نماز میں تھا، اس لیے حاضر ہونے میں تاخیر ہوئی.آپ نے فرمایا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ جب تم کو اللہ کا رسول بلائے تو فوراً اُس کی خدمت میں پہنچو.اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا ، قبل اس سے کہ میں مسجد سے جاؤں، تم کو قرآن پاک کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو کہ ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑی ہے.پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور باہر جانے لگے.میں نے یاد دہانی کرائی تو ارشاد ہوا کہ وہ الحمد کی سورت ہے.اور اس میں سات بار بار دہرائی جانے والی آیات ہیں جن کو سبع مثانی کہتے ہیں.اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا فر مایا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس سورت کی شان اور اس میں ثناء باری تعالیٰ کے بیان میں فرماتے ہیں:

Page 232

213 ادب المسيح انَّ للُفَاتحة اسماءً أخرى منها سورة الحمد بما افتتح بحمد ربنا الاعلى و منها ا أُمُّ الْقُرْآنِ بِمَا جَمَعَتْ مَطَالِبَهُ كُلَّهَا بِأَحْسَنِ الْبَيَانِ.وَتَأَبَّطَتْ كصدف درر الفرقان و صارت كَعُشِ لطيرِ الْعِرُفَانِ سورۃ فاتحہ کا دوسرا نام سورۃ الحمد : سورۃ فاتحہ کے اور نام بھی ہیں جن میں سے ایک سورۃ الحمد بھی ہے کیونکہ یہ سورۃ ہمارے رب اعلیٰ کی حمد سے شروع ہوتی ہے.سورۃ فاتحہ کا تیسرا نام اُم القرآن: سورۃ فاتحہ کا ایک نام ام القرآن بھی ہے کیونکہ وہ تمام قرآنی مطالب پر احسن پیرایہ میں حاوی ہے اور اس نے سیپ کی طرح قرآن کریم کے جواہرات اور موتیوں کو اپنے اندر لیا ہوا ہے اور یہ سورۃ علم و عرفان کے پرندوں کے لیے گھونسلوں کی مانند بن گئی ہے اور ایک مقام پر فرماتے ہیں (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس کا نام ام الکتاب بھی ہے کیونکہ قرآن شریف کی تمام تعلیم کا اس میں خلاصہ اور عطر موجود ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ومن الممكن ان يكون تسمية هذه السورة بأمِّ الكِتبِ نَظَرًا الى غاية التعليم في هذا الباب.فَإِنّ سُلوك السالكين لايتم الا بعد ان يستولى على قلوبهم عزة الربوبية وذلة العبودية و لن تجد مرشدا فى هذا الامر كهذه السورة من الحضرة الاحدية الاترى كيف اظهر عزة الله و عظمته بقوله الحمد لله ربّ العلمين الى مالك يوم الدين.سورۃ فاتحہ کا چوتھا نام : اس سورۃ کا چوتھا نام ام الکتاب رکھنے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ امور روحانیہ کے بارے میں اس میں کامل تعلیم موجود ہے، کیونکہ سالکوں کا سلوک اُس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ ان کے دلوں پر ربوبیت کی عزت اور عبودیت کی ذلت غالب نہ آجائے.اس امر میں خدائے واحد و یگانہ کی طرف سے نازل شدہ سورت فاتحہ جیسا رہنما اور کہیں نہیں پاؤ گے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ اُس نے کس طرح الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سے لے کر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ تک کیسے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کیا ہے.دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 233

ب المسيح 214 ایک اور مقام میں فرماتے ہیں.و من اسماء هذه السورة السبع المثاني.وسبب التسمية انها مثنى نصفها ثناء العبد للرب ونصفها عطاء الرب للعبد الفاني.وقيل انها سميت المثاني بها انها مستثناة من سائر الكتب الالهية و لا يوجد مثلها في التوراة ولا في الانجيل و لا في الصحف النبوية.سورة فاتحہ کا پانچواں نام السبع المثانی: اس سورۃ کے ناموں میں سے ایک نام سبع مثانی ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کے دو حصے ہیں ، اس کا ایک حصہ بندہ کی طرف سے خدا کی ثناء اور دوسرا نصف فانی انسان کے لیے خدا تعالیٰ کی عطا اور بخشش پر مشتمل ہے.بعض علماء کے نزدیک اس کا نام السبع المثانی اس لیے ہے کہ یہ سورۃ تمام کتب الہیہ میں امتیازی شان رکھتی ہے اور اس کی مانند کوئی سورۃ تورات یا انجیل یا دوسرے صحف انبیاء میں نہیں پائی جاتی.اس مضمون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) کما لا يخفى على اهل الدهاء و اما تخصيص ذكر الربوبية و الرحمانية والمالكية في الدنيا و الآخرة فلاجل ان هذه الصفات الاربعة امهات لجميع الصفات المؤثرة المفيضة ولاشك انها محركات قوية لقلوب الداعين.جیسا کہ عقلمندوں پر پوشیدہ نہیں لیکن ان چاروں صفات ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت کا ذکر جن کا تعلق دنیا و آخرت سے ہے خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ چاروں خدا کی تمام صفات کی اصل ہیں اور بلاشبہ کہ یہ چاروں صفات خدا کی باقی تمام موثر اور مفیض صفات کے لیے بطور اصل کے ہیں.اور بلاشبہ یہ دعا کرنے والوں کے دلوں میں زبر دست تحریک پیدا کرنے والی ہیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی صفاتی ثناء کے بارے میں یہ وضاحت تو ہوگئی کہ سورۃ الفاتحہ کی تین آیات الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلاتِ يَوْمِ الذين اصولی طور پر باری تعالیٰ کی تمام صفات حسنہ کا اصل اور منبع ہیں.اس لئے جب ان صفات اربعہ کا بیان حضرت اقدس کی تفسیر و تعبیر کے مطابق ہو گیا تو گویا تمام صفات حسنہ باری تعالیٰ میں جو ثناء ہوئی ہے اس کا بیان ہو گیا ہے.

Page 234

215 ادب المسيح سورۃ الفاتحہ اور اس میں بیان شدہ اتم الصفات کے بارے میں اس حقیقت کا اظہار کرنا بھی اشد ضروری ہے کہ اس مضمون میں حضرت اقدس کے فرمودات دراصل ان کے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہیں.جیسا کہ ذیل کی حدیث نبوی میں بیان ہوا ہے کہ سورۃ الفاتحہ ام القرآن ہے.اور اس میں بیان شدہ صفات اربعہ دراصل حمد و ثناء باری تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہے کہ ان کو پیش کرنے والے کی ثناء کو محبت سے قبول فرماتا ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عن ابي هريرة عن النبي الا الله قال من صلَّى صَلَاةً لم يقرأُ فيها بام القرآن فهي حِدَاجٌ ثَلاثًا غَيْرُ تَمَامِ فقيل لأبي هريرة انا نكون وراء الامام فقال اقرأ بها في صلى الله نفسک فانی سمعت رسول الله لا يقول قال الله تعالى قَسَمُتُ الصَّلوةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِى نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبُدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ قَالَ اللهُ تَعَالَى حَمِدَنِي عَبْدِى وَ إِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللهُ تَعَالَى أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي وَ إِذَا قَالَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَى عَبْدِى فَإِذَا قَالَ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِى فَإِذَا قَالَ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صَرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴾ قَال هَذَا لِعَبْدِي وَ لِعَبْدِي مَا سَأَلَ (مسلم کتاب الصلوة) ترجمہ: ابو ہریرۃ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اُس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی.یہ جملہ آپ نے تین بار ارشاد فرمایا.لوگوں نے پوچھا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟ ابو ہریرا نے جواباً کہا اس وقت تم لوگ آہستہ سورۂ فاتحہ پڑھ لیا کرو.کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عز وجل کا یہ قول بیان فرماتے سُنا ہے کہ نماز میرے اور میرے بندہ کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہو چکی ہے.اور میرا بندہ جو سوال کرتا ہے وہ پورا کیا جاتا ہے.جب کوئی شخص الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہتا ہے تو اللہ عز وجل کہتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی.اور نمازی جب الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری توصیف کی.اور جب نمازی ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے کہ میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی.اور یوں بھی کہتا ہے کہ میرے بندہ نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دیے

Page 235

المسيح 216 ہیں.اور جب نمازی اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پڑھتا ہے.تو اللہ عز وجل کہتا ہے یہ میرے اور میرے بندہ کا درمیانی معاملہ ہے میرا بندہ جو سوال کرے گا وہ اس کو ملے گا.پھر جب نمازی اپنی نماز میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندہ کے لیے ہے اور جو کچھ طلب کرے گا وہ اُسے دیا جائے گا.مگر اس خیال کے پیش نظر کہ ان صفات اربعہ کی ذیل اور تفصیل میں باری تعالیٰ نے جو اپنی ثناء اپنا حسن و جمال دکھایا ہے اس کو بھی ظاہر کرنا چاہیے.ہم چند ایک فرمودات قرآن پیش کرنا چاہتے ہیں.قبل میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ قرآن کریم کی بیشتر آیات میں خدا تعالیٰ کی صفاتی عظمت وشان بیان ہوئی ہے.اس لئے درحقیقت تمام فرمودات قرآن در اصل باری تعالیٰ کی شاء ہی کا مضمون بیان کر رہے ہیں اور یہی قرآن کریم کا اسلوب بیان ہے کہ جس حکم اور علم کا بیان ہو رہا ہو اس کی محرک صفت الہی کا اظہار کر دیا جائے مگر بعض مقامات قرآن ایسے ہیں جس پر اللہ جل شانہ نے غایت درجہ جلال اور جمال سے اپنی عظمت وشان بیان کی ہے.اس مضمون کی ابتدا میں ہم سورۃ بنی اسرائیل اور آیت الکرسی اور سورۃ الجمعہ کی آیات کو پیش کر چکے ہیں.ان کا شمار بھی ایسی ہی آیات میں آتا ہے مگر اس مقام پر ہم سورۃ الحشر کی آیات 23 ،24 ، 25 پیش کرنا چاہتے ہیں.باری تعالیٰ فرماتے ہیں.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ القَدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ.هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.میہ وہ آیات ہیں جن کی عظمت وشان اور ان کی برکات کے ذکر میں ہمارے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر مومن تعوذ کے بعد ان آیات کو صبح کے وقت پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے ستر ہزار فرشتے مقررفرمادے گا اور اگر شام کو پڑھے گا تو صبح تک ایسا ہی ہوگا اور اگر اس دوران اس پر موت وارد ہو جائے تو اس کی موت شہادت کی موت ہوگی.عن معقل ابن يسار عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من قال حين يصبح

Page 236

217 ادب المسيح ثلاث مرات اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم و قرأ ثلاث آيات من آخر سورة الحشر وَكَّلَ الله به سبعين الف ملك يصلون عليه حتى يُمْسِي و ان مات في ذلك اليوم مات شهيدًا و من قالها حين يمسى كان بتلك المنزلة (ترمذی کتاب فضائل القرآن عن رسول الله) ترجمہ: معقل بن یسار سے مروی ہے آپ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجیم پڑھ کرسورۃ حشر کی آخری تین آیات پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر ہزار فرشتوں کو مقرر کرتا ہے جو اس کے لیے شام تک دعائیں کرتے رہتے ہیں.اور اگر وہ اُس دن مرجائے تو اس کی موت شہید کی موت ہوگی.اور یہ بھی کہ جس نے رات کو ایسا کیا اس کے لیے رات بھر اسی کے مطابق ہوگا.حضرت اقدس نے ان آیات کی بہت تفصیلی اور پر معارف تفسیر فرمائی ہے جو آپ کی تفسیر میں سورۃ الحشر کے تحت بیان ہے.ہم اختصار کے پیش نظر ان آیات میں بیان شدہ صفات باری تعالیٰ کا وہ ترجمہ پیش کرتے ہیں جو حضرت اقدس نے کیا ہے.هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں ہے.پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سراپا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سرا پاد یکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ علم الشھادۃ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.پھر فرمایا ھو الرحمن یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کے پاداش میں اُن کے لیے سامانِ راحت میتر کرتا ہے جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنادیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ رحمان کہلاتا ہے اور پھر فرمایا کہ الرحیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزاء دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 237

ب المسيح 218 هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں ہے.ہے.پھر فرمایا السَّلامُ یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.اور پھر فرمایا الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ یعنی وہ سب کا محافظ اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کام بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے.هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنى وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے.وہ مصور ہے یعنی صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اسی کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں یعنی جمیع صفات کاملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کر سکتی ہے اسکی ذات میں جمع ہیں.لہذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلی کمال ہے.اور پھر فرمایا يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) حمد وثناء باری تعالیٰ کا مضمون دراصل جان ہے تمام روحانی اور جسمانی نظام زندگی کی.جیسے فرمایا وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمُ إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل: 45) جس کی تفسیر میں حضرت اقدس کا بیان ہے: ہر یک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے اس کی طرف جھکنے کے

Page 238

219 ادب المسيح لیے ہر یک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے.اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) اس لیے تمام معمولات زندگی اس مرکزی مضمون کے گرد طواف کرتے ہیں.اگر یہی حقیقت ہے اور یقیناً ہے تو اس مضمون کی وسعتوں کا اندازہ بھی ایسا ہی ناممکن ہے جیسا کہ باری تعالیٰ جل شانہ کی ثناء کا احاطہ کرنا ممکن نہیں.ہمارے پیارے مسیح علیہ السلام نے کتنی محبت سے یہی بات کی ہے.يا من احاط الخلق بالالاء نشنی علیک و لیس حول ثنائی اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے مخلوق کا احاطہ کر رکھا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں مگر تعریف کی طاقت نہیں پاتے اس صورت میں ہم نے اول تو یہ دستور بنایا ہے کہ حمد و ثناء کے مضمون کو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات تک محدود رکھیں.کیونکہ عرفان باری تعالیٰ کے ان سرچشموں کے سوا تو سب غیر ہیں اور غیر کو غیر کی خبر کیا ہو دور کارگر کیا ہو اس احتیاط کو قائم رکھتے ہوئے ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ثناء باری تعالیٰ کے ان تیزی سے بہتے ہوئے چشموں سے اصولی فرمودات کے چلو بھر عنوانات لیے ہیں.کیونکہ اگر اختصار کی کوشش نہ کی گئی تو یہ عنوان تو بے انتہاء ہے.اس مقام تک ہم نے ثناء باری تعالیٰ کی تعریف عمومی ثناء اور باری تعالیٰ کی ذات اور صفات کے عنوانات پیش کئے ہیں.اس تسلسل میں ایک بہت اہم عنوان باقی رہ گیا ہے اُس کا نام ذکر الہی ہے اس عنوان کو اہم اس لیے گردانا گیا ہے کہ اول بیان کردہ مضامین در اصل علمی مضامین ہیں جن میں باری تعالیٰ کی عظمت وشان اور حسن و جمال کا ذکر علمی اور معلوماتی طور پر ہوا ہے.مگر ” ذکر الہی کا مضمون ایک عملی مضمون ہے.جس میں شاء باری تعالیٰ کرنے کے آداب.اس کی تلقین اور اس کی برکات کا ذکر ہوگا.سب سے اول تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر الہی کے بارے میں کیا فرمایا ہے.دوار شاد پیش خدمت ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

Page 239

المسيح 220 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا اے مومنوں اللہ کا ذکر بہت کیا کرو اور صبح شام اسکی تسبیح کیا کرو اور فرماتا ہے.(الاحزاب : 43،42) فَاذْكُرُونِي اَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة: 153) حضرت اقدس اس آیت کے معانی اور تفسیر میں فرماتے ہیں.اور مجھے کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا.اور میرا شکر کرو اور مجھ سے دعا مانگو.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اے میرے بندو تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھونگا اور میرا شکر کیا کرو میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اُس سے غفلت کا نام کفر ہے پس جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات صاف ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) تم مجھ کو یاد رکھو یں تم کو یا درکھوں گا یعنی آرام اور خوشحالی کے وقت تم مجھ کو یا درکھواور میرا قرب حاصل کرو تا کہ مصیبت میں تم کو یا درکھوں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اول بیان شده فرمان قرآن ہی کی تفسیر و تعبیر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں کہ اور فرمایا: اور فرمایا: تم اتنی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو کہ لوگ تم کو دیوانہ کہنے لگیں“ (حصن حصین) 66% تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہنی چاہیئے (حصن حصین) اللہ کا ذکر کرنے والے اور نہ ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور مردے کی سی ہے“ (حصن حصین ) ذکر الہی کے عنوان میں ہم سورۃ الفاتحہ میں بیان فرمودہ صفا اربعہ کا ذکر کر چکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت درجہ پیاری حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سورۃ الفاتحہ کی ثناء کسقد رقبول خاطر ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ جس طور سے قرآن کریم باری تعالیٰ کے اسماء حسنہ سے معمور ہے اُسی طور پر احادیث نبوی میں

Page 240

221 ادب المسيح بھی بے شمار اذ کا رالہی مذکور ہیں.جو کہ تمام تر ثناء باری تعالی ہی ہے.تا ہم ایک فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں جن از کارکا تاکید احکم ہے پیش کرتے ہیں.فرماتے ہیں: عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اذا مررتم برياض الجنة فارتعوا قلت يا رسول الله و ما رياض الجنة قال المساجد قلت و ما و الرتع يا رسول الله قال سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله و الله اكبر (سنن ترمذی کتاب الدعوات عن رسول الله ) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تو جنت کے باغوں میں سے گزرو تو ان میں چرو.میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جنت کے باغ کون سے ہیں.آپ نے فرمایا مسجد میں.میں نے عرض کی اور چرنا کیا ہے؟ فرمایا سبحان الله والحمد لله و لا اله الا الله و الله اکبر کا ورد کرنا.ان اذکار کے متعلق یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انتخاب قرآن کریم کے فرمودات کے مطابق ہی کیا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اکثر و بیشتر مقامات میں اللہ تعالیٰ کی ثناء انہی مبارک کلمات سے کی گئی ہے.اشارہ ہم ہر کلمہ کی نسبت سے فرمودات قرآن کو پیش کرتے ہیں (1) سبحان اللہ کے تحت باری تعالیٰ فرماتے ہیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (الاحزاب: 43،42) اللهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُوْنَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوتِ اور پھر ذکر ا کثیرا کی تفسیر وتعبیر میں فرمایا فَسُحْنَ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُوْنَ (الروم: 18 ،19) پس اللہ کی تسبیح کرو جب تم شام کے وقت میں داخل ہو یا صبح کے وقت میں داخل ہو اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کی تعریف ہے اور بعد دو پہر بھی اُس کی تسبیح کرو اور اسی طرح عین دو پہر کے وقت بھی.

Page 241

ب المسيح (2) الحمد للہ“.باری تعالیٰ فرماتے ہیں.222 وَهُوَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: (71) حضرت اقدس اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس کے لیے تمام محامد ثابت ہیں اور دُنیا و آخرت میں وہی منعم حقیقی ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہر یک حکم ہے اور وہی تمام چیزوں کا مرجع و تاب ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) (3) ” ولا الہ الا اللہ.باری تعالیٰ فرماتے ہیں.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ حضرت اقدس لا اله الا اللہ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و ہی ایک سب کا رب ہے“ (الحشر: 23) (سورۃ الحشر کی آیت 23-24-25 کی تفسیر حضرت اقدس گزشتہ میں بیان ہو چکی ہے) (4) اللہ اکبر“ کے تحت باری تعالیٰ فرماتے ہیں.فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبَّ السَّمَوتِ وَ رَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجاثية : 38،37) پس اللہ جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور تمام جہانوں کا رب ہے اور آسمانوں اور زمین میں سب بڑائی بھی اُسی کی ہے اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.ثناء باری تعالیٰ کے تعارف کے اس نہ ختم ہونے والے مضمون کو ہم اس حد تک بیان کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شعری ثناء کے چند منتخب نمونے پیش کرتے ہیں.اسی پیش کش سے قبل یہ یاد دہانی بہت ضروری ہے کہ ہم گذشتہ میں بہت تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ آپ حضرت کے ادبی شاہ پاروں کی خصوصیت اور محور محبت الہی ہے اس لیئے ثناء باری تعالیٰ میں گو آپ باری تعالیٰ کی ذات وصفات کی حمد و تعریف بھی کرتے ہیں مگر اس کا حقیقی محرک محبت الہی ہے.جس نے باری تعالیٰ کی عظمت اور حسن و جمال کو صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس کی محبت میں مبتلا ہو کر بیان کیا ہے.یہی وہ چیز ہے جو آپ کے کلام کو دیگر شعراء

Page 242

223 کے کلام سے ممتاز کرتی ہے.الهام حضرت اقدس: در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخله نیست تیرے کلام میں ایک ایسی چیز (خوبی) ہے جو شاعروں کو نصیب نہیں ہوئی ) ادب المسيح

Page 243

ب المسيح 224 ثناء باری تعالی اردو زبان میں مشرقی یا اسلامی ادب میں دستور ادبی کے مطابق اکثر شعراء نے اپنے کلام کی ترتیب میں اس کا التزام کیا ہے کہ وہ مجموعہ کلام اول قدم پر شناء باری تعالیٰ سے شروع ہو.اس لیے اردو شعراء میں یہ صنف شعر کافی معروف اور مقبول ہے.مگر تمام دواوین اور مجموعہ ہائے اردو ادب کی چھان بین کر لیں ثناء باری تعالیٰ میں حضرت کی اس نظم کے چندا شعار ہی اِن سب پر بھاری ہوں گے.فرماتے ہیں: حمدوثنا اُسی کو جو ذاتِ جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اُسکے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اسکی عظمت لرزاں ہیں اہلِ قُربت کروبیوں پہ ہیبت ہے عام اسکی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اسکی صنعت اس سے کرو محبت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اسکی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جو کچھ ہمیں ہے راحت سب اس کی جو د ومنت اُس سے ہے دل کو بیعت دل میں ہے اسکی عظمت بہتر ہے اُس کی طاعت طاعت میں ہے سعادت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا

Page 244

225 ادب المسيح اُس بن نہیں گزارا غیر اُس کے جھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ چند بند آپ حضور کی نظم بعنوان ”محمود کی آمین کا ابتدائیہ ہے اور دعائیہ نظم ہونے پر دستور ادب کے مطابق اول اشعار ثناء باری تعالیٰ کے ہیں.یہ وہ بند ہیں کہ جن کی بندش اور بیان کے حسن و خوبی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کہ اردو ادب کے اسلوب کے لحاظ سے بے انتہا نرم و نازک کلام اور سہل ممتنع کا ایک نادر نمونہ ہیں.اور ثناء کے ساتھ ساتھ محبت الہی ایسی ہے جیسے ایک شفاف صراحی سے قطرہ قطرہ آب کوثر ٹپک رہا ہے.درحقیقت ان کی کچھ ایسی ہی تاثیر ہے جس نے ان کو ہر احمدی کا حرزِ جان بنا دیا ہے.ان کا کوئی خوشی کا موقع اور قومی تہوار ایسا نہیں جہاں پر یہ بند بغرض دعا و برکت پڑھے نہ جاتے ہوں.اس نوعیت کے چند ثناء کے اشعار خاکسار کو بہت پیارے ہیں.یہ اشعار حضرت اقدس نے بزبان حضرت اماں جان اظہار تشکر میں رقم فرمائے ہیں: ہے عجب میرے خُدا میرے پہ احساں تیرا رکس طرح شکر کروں اے میرے سُلطاں تیرا ایک ذرہ بھی نہیں تونے کیا مجھ سے فرق میرے اس جسم کا ہر ذرہ ہو قُرباں تیرا سر سے پا تک ہیں الہی ترے احساں مجھ پر مجھ پہ برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا فضل سے اپنے بچا مجھ کو ہر اک آفت سے صدق سے ہم نے لیا ہاتھ میں داماں تیرا کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیرا طالب ہے کوئی رُسوا نہیں ہوتا جو ہے جویاں تیرا آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں کوئی جس نے دل مجھ کو دیا ہوگیا سب کچھ اُس کا ہو جائے اگر بندہ فرماں تیرا سب شنا کرتے ہیں جب ہووے ثناخواں تیرا

Page 245

المسيح 226 اس جہاں میں ہے وہ جنت میں ہی بے ریب وگماں وہ جو اک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا دیکھ لیں.عجز ہے.انکساری ہے.انہیں میں لپٹا ہوا شکر اور حمد ہے محبان الہی پر خدا تعالیٰ کے انوار کا یقین کامل ہے اور مشاہدہ کریں کہ آپ حضرت کا یہ مضمون کہ خدا تعالی حمد کرنے والے کو محمود بنا دیتا ہے کس خوبی سے بیان ہوا ہے.جس نے دل تجھ کو دیا ہو گیا سب کچھ اُس کا سب ثنا کرتے ہیں جب ہووے ثنا خواں تیرا بہت مرتبہ بیان ہوا ہے کہ حضرت اقدس کا اسلوب شعر یہ ہے کہ ہر موضوع شعر میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی محبت جلوہ گر ہو جاتی ہے.اس لیے آپ کا تمام کلام در اصل ثناء باری تعالی ہی ہے.تاہم خالص حمد و ثنا کی صنف شعر میں بھی آپ نے ایک نظم رقم فرمائی ہے.جو اردو ادب میں ایک درخشندہ ستارے کی طرح سے ہمیشہ درخشاں و تاباں رہیگی.میداردوادب کا شاہ کار ہے.اردو ادب پر واجب ہے کہ اس پر ناز کرے.فرماتے ہیں: کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا اس بہارِ حُسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا تو نے خود رُوحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اُس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھتے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا

Page 246

227 تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں ادب المسيح کس سے گھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا خو برویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سوسو حجاب ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تیرے ملنے کے لیے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی گل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا گھٹی جاتی جاں ہے جیسے دل کھٹے بیمار کا شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا 66 اس شنا کی ادبی خوبی اور محسن بیان کا ذکر تو ہم نے چند الفاظ میں بے انتہا اختصار سے کر دیا ہے.ادبی شعر کے اسالیب کو سمجھنے والے اس عظیم الشان سہل ممتنع کا ادبی اقدار کی روشنی میں تنقیدی تجزیہ کر کے اس کے محاسن کی مزید نقاب کشائی کر سکتے ہیں مگر جس خوبی اور حسن کا ہم ذکر کرنا چاہتے ہیں وہ اس ثناء کا اتباع قرآن ہے کیونکہ حمد و ثناوہ موضوع ہے جس کے بارے میں ہمارے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم یہ عارفانہ فیصلہ صادر کر چکے ہیں کہ حقیقی ثناء باری تعالیٰ وہی ہے جو ہمارے خدا نے اپنی ذات والا صفات کے لیے کی ہے.اس لیے کسی بھی حمد وثنا کے حسن و خوبی کے تعین میں ہماری میزان اور کسوٹی قرآن کریم کے فرمودات ہی ہونگے اور جو ثنا ان فرمودات کے اتباع میں اور ان ہی کا عکس ہوگی وہی ہمارے لئے محترم اور محبوب ہوگی اس معیار کی روشنی میں اگر اس ثنا کا تجزیہ کیا جائے تو اول کے تین شعر یعنی

Page 247

المسيح 228 کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا اس بہار محسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تارکا تو مکمل طور پر باری تعالیٰ کی اس شنا کی تفسیر وتعبیر معلوم ہوتے ہیں.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (النور: 36) حضرت اقدس اس فرمان کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی اُسی کے فیض کا عطیہ ہے“.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) مشاہدہ کریں مطلع کے اشعار نظم میں وہی بیان کر رہے ہیں جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: ان اشعار کے بعد ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف سے لے کر جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا تمام اشعار خدا تعالیٰ کے ذیل کے فرمان کی تفسیر ہے.تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسِحُ بِحمدِم وَلكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل: 45) اس آیت کی تفسیر میں حضرت اقدس فرماتے ہیں یعنی ہر ایک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے.مشاہدہ کریں کہ یہ مضمون وہی ہے جو درج بالا اشعار میں بیان ہوا ہے.اور

Page 248

229 ادب المسيح چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے“ سے لے کر آخری دلفریب شعر تک شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا خدا تعالیٰ کی ثناء اس کی محبت کے اظہار کی نسبت سے کی گئی ہے.اور یہ شعر خدا تعالیٰ کے فرمان فَاذْكُرُ وا اللهَ كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة: 201) حضرت اقدس اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یعنی اپنے اللہ جل شانہ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو یاد کیا جاتا ہے“ ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یا د رکھنا چاہیے کہ مخدوم اس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غایت درجہ شدت واقع ہو جاتی ہے ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہی پسند کیا کہ اس کی یاد اور اُس کا ذکر اور ثنا ایسی محبت سے کرو جیسی کہ اپنے باپوں بلکہ اُن سے بڑھ کر کی جاتی ہے.گذشتہ کے تقابل سے یہ امر ثابت ہو گیا کہ اللہ جلّ شانہ نے ثنا کے یہی اسالیب بیان کئے ہیں.اول:.اس کی ذات کا حسن و جمال بیان ہو.دوم:.اس کی عظمت اور کبریائی کا ذکر ہو.سوم :.اس کی محبت کا دل و جان سے اقرار ہو.چہارم :.دعا اور مناجات ہو.کیونکہ یہ اس کی کبریائی اور انسانی عبودیت کا عملی ثبوت ہے.یہ بات درست ہے کہ آپ حضرت نے ان موضوعات کو لازما اس ترتیب سے اختیار نہیں فرمایا مگر اس بیان میں صداقت ہے کہ آپ حضرت کی ثناء کے یہی عناصر اربعہ ہیں.اور یہی وہ دستور اور اسلوب ہے جو حضرت اقدس نے باری تعالیٰ کی حمد وثنا کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اس کا التزام آپ حضرت نے اپنے اردو اور عربی فارسی کلام میں کیا ہے.ان گذارشات کی روشنی میں ہم اپنے قارئین سے عرض کریں گے کہ دیگر زبانوں کی حمدوثنا کو اسی معیار کے تحت مشاہدہ کریں.کیونکہ ایک ہی بات کو بار بارد ہرا نا زیب نہیں دیتا.

Page 249

ب المسيح 230 فارسی زبان میں ثناء باری تعالیٰ فارسی زبان میں اصولی اور آفاقی شناء باری تعالیٰ کا ایک بہت ہی باوقار اور محبت بھرانمونہ گذشتہ میں بیان ہو چکا ہے.اس مضمون کی ترتیب کو قائم رکھنے کی غرض سے ادب پارے کے آخری دو شعر دوبارہ پیش کئے جاتے ہیں.فرماتے ہیں.ہر سرے سرے زخلوت گاہ اوست ہر قدم جوید در با جاه اوست ہر سر اس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے ہر قدم اُسی کی باعظمت بارگاہ کی تلاش میں ہے مطلب ہر دل جمال روئے اُوست گھر ہے گر ہست بہر کوئے اُوست اُسی کے منہ کا جمال ہر ایک دل کا مقصود ہے اگر کوئی گمراہ بھی ہے تو وہ بھی اسی کے کوچے کی تلاش میں ہے باری تعالیٰ کی آفاقی شنا میں یہ اشعار شاہکار ہیں یہ تو کہا جا چکا ہے کہ فارسی زبان بولنے والے ادیبوں نے اسلام کا پیغام قبول کرنے پر بہت جلد اپنا موضوع ادب محبت الہی اور عشق رسول بنالیا تھا اس لیے اس زبان میں ان مضامین کو بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی.اس بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ گو حضرت اقدس کا حقیقی موضوع کلام محبت اور عظمت الہی کے بیان ہی میں ہے مگر فارسی زبان میں یہ موضوع آپ کا دل پسند عنوان ہے اس لیے آپ ہر قدم پر اس کی طرف بار بار لوٹ کر آتے ہیں اور بے انتہا ادبی شان اور دلی جذبے سے اس کو بیان کرتے ہیں.آپ حضرت کے حمد وثنا کے کلام کے جو اسالیب ہم نے بیان کیے ہیں ان کے مطابق ذیل کی عظیم الشان اور لاثانی شنا کا مشاہدہ کریں.دو نمونے پیش کرتا ہوں.اول.سخن نزدم مرال از شہر یارے کہ ہستم بر درے اُمید وارے میرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکر نہ کر کیونکہ میں تو ایک اور دروازہ پر امیدوار پڑا ہوں کریم و خالق و خداوند یکہ جاں بخش جهان ست بدیع پروردگارے وہ خدا جو دنیا کو زندگی بخشنے والا ہے اور بدیع اور خالق اور پروردگار ہے و قادر و مشکل کشائے رحیم و محسن و حاجت برارے کریم و قادر ہے اور مشکل کشا ہے رحیم ہے.محسن ہے اور حاجت روا ہے فتادم بر درش زیر آنکه گویند برآید در جہاں کارے ز کارے میں اُس کے دروازہ پر آپڑا ہوں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دنیا میں ایک کام میں سے دوسرا کام نکل آتا ہے

Page 250

231 ادب المسيح دوم دولم چواں یار وفادار آیدم یاد فراموشم شود هر خویش و یارے جب وہ یار وفادار مجھے یاد آتا ہے تو ہر رشتہ دار اور دوست مجھے بھول جاتا ہے بغیر او چهاں بندم دل خویش کہ بے رویش نمے آید قرارے میں اُسے چھوڑ کر کسی اور سے کس طرح دل لگاؤں کہ بغیر اُس کے مجھے چین نہیں آتا در سینه ریشم مجوئید کہ بستیمش بدامان نگارے دل کو مرے زخمی سینے میں نہ ڈھونڈ کہ ہم نے اُسے ایک محبوب کے دامن سے باندھ دیا ہے دل من دلبرے را تخت گا ہے سر من در ره یارے شارے میرا دل دلبر کا تخت ہے اور میرا سر یار کی راہ میں قربان ہے چه گویم فضل او بر من چگون ست که فضل اوست نا پیدا کنارے میں کیا بتاؤں کہ مجھ پر اُس کا فضل کس طرح کا ہے کیونکہ اس کا فضل تو ایک نا پیدا کنار سمندر ہے عنا یتنہائے اورا چون شمارم که لطف اوست بیروں از شمارے میں اُس کی مہربانیوں کو کیونکر گنوں کہ اُس کی مہربانیاں تو حد شمار سے باہر ہیں مرا کاریست با آن داستانی ندارد کس خبر زاں کاروبارے مجھے اُس دلبر سے ایسا تعلق ہے کہ کسی کو بھی اس معاملہ کی خبر نہیں بنالم بردرش زاں ساں کہ نالد بوقت وضع حملے بارداری میں اُس کے دروازے پر اس طرح روتا ہوں جس طرح بچہ پیدا ہوتے وقت حاملہ عورت روتی ہے.مرا با عشق او وقتے ست معمور چه خوش وقتے چه خرم روزگارے میرا ہر لمحہ اُسی کے عشق سے بھر پور ہے واہ کیا اچھا وقت ہے اور کیا عمدہ زمانہ ہے؟ ثناء با گوئمت اے گلشن یار که فارغ کردی از باغ و بہارے اے یار کے گلزار تیرے کیا کہنے تو نے مجھے دنیا کے باغ و بہار سے بے پرواہ کردیا اے دلبر و دلستان و دلدار والے جانِ جہان و تور انوار اے دلبر.محبوب اور دلدار اے جہاں کی جان اور نوروں کے نور لرزاں ز تجلیت دل و جاں حیراں ز رخت قلوب و ابصار جان و دل تیرے جلال سے کانپ رہے ہیں قلوب اور نظریں تیرے رُخ کو دیکھ کر حیران ہیں

Page 251

المسيح 232 در و در ذات تو جو تحیرے نیست ہنگام نظر نصیب افکار ! تیری ذات کے بارے میں حیرت ہی حیرت ہے.غور وفکر سے جب بھی دیکھا جائے ر غیبی و قدرت ہویدا پنهانی کار تو نمودار ! تو آپ غیب میں ہے مگر تیری قدرت ظاہر ہے تو مخفی ہے مگر تیرے کام نمایاں ہیں دوری و قریب تر ز جاں ہم نوری و نہاں تر از شب تار تو دور ہے مگر جان سے بھی زیادہ نزدیک ہے تو نور ہے مگر اندھیری رات سے زیادہ پوشیدہ آں کیست کہ منتہائے تو یافت واں گو کہ شود محیط اسرار وہ کون ہے جس نے تیری انتہا کو پایا اور وہ کون ہے جو تیرے بھیدوں پر حاوی ہو گیا کردی دو جہاں عیاں ز قدرت بے مادہ و بے نیاز انصار تو نے محض قدرت سے دونوں جہان پیدا کر دیئے بغیر ماہ کے اور بغیر مددگاروں کی امداد کے و این طرفه که هیچ کم نه گردد با آنکہ عطائے تُست بسیار پھر لطف یہ ہے کہ ان نعمتوں میں کوئی کمی نہیں پڑتی باوجود یکہ تیری بخششیں بے حد ہیں حسن تو غنی کند ز ہر حسن! میر تو بخود کشد ز هر یار! تیرا حسن ہر حسن سے بے نیاز کر دیتا ہے اور تیری محبت ہر دوست کو چھڑا کر اپنی طرف کھینچ لیتی ہے نمکیت ار نه بودے از حُسن نہ بودے بیچ آثار نمکین حسن نہ ہوتا تو دنیا میں حسن کا نام ونشان نہ ہوتا شوخی ز تو یافت روئے خوباں رنگ از تو گرفت گل محبوبوں کے چہروں نے تجھ سے رونق پائی پھول نے چمن میں تجھ سے رنگ حاصل کیا سیمیں ذقناں کہ سیب دارند آمدن ہماں بلند اشجار حسینوں کے پاس جو سیب جیسے رخسار ہیں.یہ انہی اونچے درختوں سے آئے ہیں.ایں ہر دو ازاں دیار آیند گیسوئے بتان و مشک تاتار یہ دونوں بھی اُسی ملک سے آتے ہیں.حسینوں کے گیسو اور تاتار کا مشک نمایش جمالت ! چیز آئینه دار! ہمہ تیرے جمال کی نمایش کے لئے میں ہر چیز کو آئینہ سمجھتا ہوں از اگر تیرا بیر بینم به گزار

Page 252

برگ صحیفه ہر 233 ادب المسيح ہر جوہر و عرض شمع ہدایت بردار ہر پتا ہدایت کی ایک کتاب ہے.ہرذات وصفت تجھے دکھانے کے لئے متعلیمی ہے ہر نفس بتو رہے نماید ہر جان بدهد صلائے این کار ہر نفس تیرا راستہ دکھاتا ہے اور ہر جان بھی اس بات کی ہی آواز دیتی ہے ہر ذرہ فشاند از تو نوری ہر قطره براند از تو انہار ہر ذرہ تیرا نور پھیلاتا ہے.ہر قطرہ تیری توصیف کی نہریں بہاتا ہے ہر سو از عجائب تو شورے ہر جا ن غرائب تو اذکار! تیرے عجائبات کا ہر طرف شور ہے اور تیرے غرائب کا ہر جگہ ذکر از یاد تو کو رہا بہ بینم! در حلقة عاشقان خونبار ہے میں تیرے ذکر کی برکت سے انوار دیکھتا ہوں آہ وزاری کرنے والے عاشقوں کی جماعت میں چشم دیگر نشنید اغیار آنکس که به بند عشقت افتاد وہ شخص جو تیری قید محبت میں گرفتار ہو گیا.پھر اس نے دوسروں کی نصیحت نہ سُنی اے مونس جاں چہ داستانی کز خود پریودیم به یکبار! اے میرے مونس جاں! تو کیسا دلستاں ہے کہ دفعتا تو نے مجھے مدہوش کر دیا از یاد تو این دلے به غم غرق دارد گہرے نہاں صدف وار تیری یاد میں میرا دل غم میں غرق ہو کر صدف کی طرح ایک موتی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے و سر ما فدائے رویت و دل ما بتو گرفتار جان میری آنکھ اور سر تجھ پر قربان ہیں اور میرے جان و دل تیری محبت میں قید عشق تو به نقد جاں خریدیم تا دم نه زند دیگر خریدار ہم نے نقدِ جان دے کر تیرا عشق خریدا ہے.تاکہ پھر اور کوئی خریدار دم نہ مار سکے غیر از تو که سرزدے زیم! برج دلم نماند دیار تیرے سوا اور کون میرے گریبان میں سے نمودار ہوتا جبکہ میرے دل میں اور کوئی بسنے والا ہی نہیں عمر یست که ترک خویش و پیوند کردیم و دیے جز از تو دشوار ایک عمر گذرگئی کہ ہم نے عزیزوں اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع کر لیا مگر تیرے بغیر ایک لحظہ گذار نا بھی مشکل ہے.در

Page 253

د المسيح 234 نظم کی صنف میں یہ قدرے طویل ہیں.خیال تھا کہ ان کے چیدہ چیدہ اشعار کا انتخاب کر کے پیش کر دیں گے مگر ایسا عمل ممکن نہیں ہوا.اول تو اس لیے کہ کوئی بھی شعر ایسا نہیں تھا جس کو نظر انتخاب درخوراعتناء نہ بجھتی ہو اور قبول نہ کرتی ہو اور دوم اس لیے کہ نظم ایک ایسی صنف ہے جس کا ہر شعر باہم مربوط اور منظم ہوتا ہے.اور اس کا حسن تسلسل بیان میں ہی ہوتا ہے.تاہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ آپ حضرت کے اسالیب ثنا کے تحت اس کلام کے حسن و خوبی کو پیش کریں.اول نظم کے ابتدائی تین اشعار سخن نزدم مراں از شہر یارے سے لیکر رحیم و محسن و حاجت برارے میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا ذکر ہے اور ایسے جوش و جذبے سے ہے کہ فارسی زبان میں ایسی مثال تلاش کرنا بے سود ہوگا.وو اس ابتدا کے بعد جو دراصل اس نظم کا مطلع ہے.آپ محبت باری تعالیٰ کو بیان کرتے ہیں اور چوں آں یار وفادار آیدم یاڈ سے لیکر ” مرا با عشق او وقت ست معمور تک خدا تعالیٰ پر محبت سے فدا ہونے کا بہت ہی خوبصورت بیان ہے اور اس کے احسانات کی یاد ہے مشاہدہ کریں.دلم در سینه ریشم مجوئید که سیمش بدامان نگارے دل من دلبرے را تخت گا ہے سر من در ره یارے تارے مرا با عشق او وقتے ست معمور چه خوش وقتے چہ ختم روزگارے بہت ہی خوبصورت اور محبت کے جوش سے بھر پور کلام ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے باری تعالیٰ اپنے کامل حسن و جمال کے ساتھ آپ کے روبرو ہو اور آپ محبت میں بیتاب ہو کر اور اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے ہوئے یہ عرض کر رہے ہوں چه خوش وقتے چه حرم روزگارے

Page 254

235 ادب المسيح دوسرے نمبر کی ثنا بھی اوّل ثنائیہ نظم کے تمام محاسن اور ادبی عظمت اور شان رکھتی ہے ایسا ہونا لا زم بھی تھا کیونکہ دونوں میں محبوب مشترک ہے اور اس کا حسن و جمال بھی مشترک.تا ہم اول نظم میں ایک عاشقانہ ترنگ ہے ایک نعرہ مستانہ ہے.عشق کے جذبے کی بے ساختہ اور بے قابو نمود ہے.دوسری نظم بھی ان تمام خوبیوں کی حامل ہے.باری تعالیٰ کی عظمت کا اظہار بھی ہے.اپنے عشق کا بیان بھی ہے مگر بیان باوقار اور سنجیدہ ہے.اسلوب عالمانہ ہے.”اے دل بر و دلستاں و دلدار سے لے کر ہر سوز عجائب تو شورے تک باری تعالیٰ کی ذات وصفات کی عظمت کا بیان ہے اور بہت ہی عالمانہ اور باوقار انداز سے ہے اور آخری اشعار میں بے انتہا خوبی اور ادیبانہ انداز میں اپنے عشق کا اظہار ہے.دوبارہ سُن لیں.از یاد تو نو رہا بینم نہ در حلقه عاشقان خونبار چشم و سر ما فدائے رویت جان و دل ما بتو گرفتار عشق تو به نقد جاں خریدیم تادم زند دگر خریدار در يُرج دلم نماند دیار غیر از تو کہ سرزدے ز جیبــــــم فارسی ادب میں حمد وثنا کا موضوع سخن بہت عام ہے.سعدی.جاتی.اور سنائی اس صنف شعر کے اساتذہ سمجھے جاتے ہیں.آپ ان کے دواوین کی چھان بین کر لیں.آپ حضرات ان دو ادبی شاہکاروں کے مقابل تو کیا ان کے قریب سے بھی نہیں گذرتے.ایسا ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ حمد وثنا کا سو تا عشق ومحبت سے پھوٹتا ہے اور آپ حضرت سے بڑھ کر عاشق الہی کون ہوگا اور کون یہ کہہ سکے گا.عشق تو به نقد جاں خریدیم تادم نه زند دگر خریدار یعنی میں نے تیرا عشق اپنی جان قربان کر کے خریدا ہے تاکہ کوئی اور خریدار میرے مقابل پر نہ آسکے.

Page 255

ب المسيح 236 عربی زبان میں ثناء باری تعالیٰ اسلامی ادب میں حمد وثنا اور نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے موضوع ہیں جن کو فارسی اور اردو زبان کے شعراء نے بہت محبت سے قبول کر کے نغمہ سرائی کی ہے.یہ قبولیت صرف جستہ جستہ شعر کہنے تک محدود نہیں بلکہ بہت سے ایسے بلند مرتبہ شاعر ہیں جنہوں نے ان موضوعات کو اپنا خاص اور مستقل موضوع سخن بنالیا تھا.عربی زبان میں ایسی روایت قائم نہیں ہو سکی شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی ادب میں ان موضوعات کا تعارف قرآن کریم کی برکت سے ہوا ہے اور ایسی عظیم الشان ادبی شان وشوکت کے ساتھ ہوا ہے کہ سب ادیب دم سادھ کر بیٹھ رہے اور کسی کو گویائی کا یارا نہ ہوا.اس خیال کی تائید میں یہ واقعہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت لبیڈ سے ان کا تازہ کلام سُنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے جوابا کہا کہ قرآن کے نزول کے بعد آپ نے شعر کہنا ترک کر دیا ہے.(سیرۃ النبی شبلی نعمانی) مگر خاکسار کے خیال میں عربی ادب میں یہ حادثہ اس لیے پیش آیا کہ اسلامی تاریخ میں ایک امام آخر زمان نے آنا تھا اور یہ افتخار اُسی کے نصیب ہونا تھا کہ عربی شعر میں ان موضوعات کو حرز جان بنائے اور عربی ادب میں ان کو اپنے کلام کا محور اور مقصود بنائے جیسا کہ آپ حضرت فرماتے ہیں.انْتَ الْمُرَادُ وَ اَنْتَ مَطْلَبُ مُهْجَتِي و علیک كُلُّ تَوكَّلِي وَ رَجَائِي تو ہی میری مراد اور تو ہی میری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور اُمید ہے أنتَ الذي قد كان مَقْصِدَ مهجتى في كل رَشُح القلم و الاملاء تو ہی میری جان کا مقصود تھا قلم کے ہر قطرہ اور لکھائی ہوئی تحریر میں اس فرمان کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ آپ حضرت کا عربی شعری کلام کبھی بلا واسطہ اور کبھی بالواسطہ ان ہی پر مشتمل ہے.اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت و شان.اس کی محبت اور اس کی جناب میں مناجات موضوعات پر سے بھر پورر ہے نہایت اختصار کے پیش نظر ہم آپ کی حمد و ثنا کے چند نمونے پیش کرتے ہیں.اول: آپ معبود حقیقی کی جناب میں عرض کرتے ہیں.لک الحمد یا ترسی و حرزی و جوسقی بحمدک يروى كل من كان يستقى اے میری پناہ اور میرے قلعہ ! تیری تعریف ہو، تیری تعریف سے ہر ایک شخص جو پانی چاہتا ہوسیراب ہو جاتا ہے

Page 256

237 ادب المسيح بذکرک یجرى كل قلب قد اعتقى بحبک یحیی کل میت ممزق تیرے ذکر کیساتھ ہر ایک دل ٹھہرایا ہوا جاری ہو جاتا ہے اور تیری محبت کے ساتھ ہر ایک مردہ زندہ ہو جاتا ہے و باسمک یيحفظ كل نفس من الردا و فضلك يُنجى كل من كان يزبق اور تیرے نام کے ساتھ ہر ایک شخص ہلاکت سے بچتا ہے اور تیر افضل ہر ایک قیدی کو رہائی بخشتا ہے وما الخير الا فیک یا خالق الوری وما الكهف الا انت يا متكأ التقى اور تمام نیکی تیری طرف سے ہے.اے جہان آفرین! اور تو ہی پر ہیز گاروں کی پناہ ہے و تعنوا لک الافلاک خوفا و هيبة و تجرى دموع الراسيات و تثبق اور تیرے آگے خوفزدہ ہو کر آسمان جھکے ہوئے ہیں اور پہاڑوں کے آنسو جاری اور رواں ہیں وليس لقلبی یا حفیظی و ملجأی سواک مريح عند وقت التازق اور میرے دل کے لئے.اے میرے نگہبان اور پناہ! کوئی دوسرا آرام پہنچانے والا نہیں جب تنگی وارد ہو يميل الورى عند الكروب الى الورى و انت لنـا كهف كبيت مسردق دکھ کے وقت خلقت خلقت کی طرف توجہ کرتی ہے اور تو ہمارے لئے ایسی پناہ ہے جیسے نہایت مضبوط گھر حمد وثنا کے یہ عربی اشعار اپنے حسن و خوبی اور اسلوب شعر عربی میں ایک شاہکار کلام ہے.اور ادب عربی میں اس عظمت وشان کی ثنا کہیں دستیاب نہیں ہوگی.اس میں وہ تمام عناصر تنا جو اس موضوع کی جان ہوتے ہیں بدرجہ اتم موجود ہی نہیں بلکہ تاباں اور رخشاں ہیں.باری تعالیٰ کی عظمت و شان کا بیان بہت ہی پُر شوکت اور سراسر محبت میں ڈوبا ہوا ہے.ابتدا کے تین اشعار میں تو ایسا جوش ہے جیسے بہت بلندی سے محبت الہی کا دریا رواں دواں ہو اور اُس کو دنیا کی کوئی دیوار روک نہ سکے شاید اسی جوش محبت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے: و تعنوا لک الافلاک خوفا و هيبة و تجری دموع الراسيات و تثبق اور تیرے آگے خوفزدہ ہو کر آسمان جھکے ہوئے ہیں اور پہاڑوں کے آنسو جاری اور رواں ہیں.اور آخر پر بہت ہی خوبصورت.بہت عاجزی کے انداز میں عرض کرتے ہیں کہ آپ کا سہارا اور پناہ تو صرف باری تعالیٰ ہے.فرماتے ہیں: يميل الورى عند الكروب الى الورى وانت لنا كهف كبيت مسردق دکھ کے وقت خلقت خلقت کی طرف توجہ کرتی ہے اور تو ہمارے لئے ایسی پناہ ہے جیسے نہایت مضبوط گھر

Page 257

ب المسيح 238 وسرے مقام پر بھی ثنا کو مشاہدہ کریں.يَا مَنْ أَحَاطَ الْخَلْقَ بِالأَلَاءِ نُثْنِي عَلَيْكَ وَ لَيْسَ حَوُلُ ثَنَاءِ اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے مخلوق کا احاطہ کیا ہوا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں لیکن تعریف کی طاقت نہیں پاتے.انظر الى برحمة و عطوفة یا ملجئى يا كاشف الغمّاء مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر، اے میری پناہ! اے حزن و کرب کو دور فرمانے والے! انت الملاذ و انت کهف نفوسنا في هذه الدنيا و بعد فناء تو ہی جائے پناہ ہے اور تو ہی ہماری جانوں کی پناہ گاہ ہے اس دنیا میں بھی اور فنا کے بعد بھی.انا رئینا في الظلام مصيبة فارحم و انزلنا بدار ضياء ہم نے تاریکی کے زمانہ میں مصیبت دیکھی ہے.تو رحم فرما اور ہمیں نور کے گھر میں اتار دے.تعفو عن الذنب العظيم بتوبة تنجی رقاب الناس من اعباء تو تو بہ سے بڑے گناہوں کو (بھی) معاف فرما دیتا ہے تو (ہی) لوگوں کی گردنوں کو بھاری بوجھوں سے نجات دیتا ہے.انت المراد و انت مطلب مهجتی و علیک کل توکلی و رجائی تو ہی مراد ہے اور تو ہی مری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور امید ہے.أعطيتني كأس المحبة ريقها فشربت رَوْحَاءً عَلَى رَوْحَاءِ تو نے مجھے محبت کی بہترین ئے کا ساغر عطا کیا ہے تو میں نے جام پر جام پیا.إنِّي أموت ولا يموت محبّتى یدری بذکرک فی التراب نِدَائِی میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.( قبر کی ) مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائے گی.مطلع میں اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں عرض کرتے ہیں کہ حمد وثنا کا کوئی حق ادا نہیں کرسکتا اور پھر مناجات اور دعا ہے اور آخر پر بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں.یہ شعر کس قد رعشق اور محبت سے لبریز ہے.انی اموت ولا يموت محبتى یدری بذکرک فی التراب نِدَائِي میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.( قبر کی مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائے گی.

Page 258

239 ادب المسيح اس شعر کو ذکر الہی کے زمرے میں شمار کریں.ذکر الہی ہو تو ایسا ہو مگر ایسا ذ کر آپ حضرت ہی کا منصب ہے.یہ بات بھی یادر ہے کہ آپ حضرت نے فرمایا ہے کہ اس قصیدے کے لکھنے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی خارق عادت مدد کی ہے اور یہ بھی وہی بات ہے کہ حقیقی شنایا تو خدا تعالیٰ کرتا ہے یا اس کی مدد سے کی جاتی ہے.حمد وثنا کے مدارج میں اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے اس کا شکر بجالانا بھی ایک حد ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو علم و معرفت آپ کو عطا ہوئی ہے اس کے شکر میں بیان کرتے ہیں.علمى من الرحمن ذى الألاء بالله حزت الفضل لا بدهاء میر اعلم خدائے رحمان کی طرف سے ہے جو نعمتوں والا ہے.میں نے خدا کے ذریعہ فضل الہی کو حاصل کیا ہے نہ کہ عقل کے ذریعہ كيف الوصول الى مدارج شكره نشنـی عـلـيـه و ليس حول ثناء ہم اس کے شکر کی منزلوں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں کہ ہم اس کی ثنا کرتے ہیں اور ثنا کی طاقت نہیں في هذه الدنيا و بعد فناء الله مولانا و کافل امرنا خدا ہمارا مولیٰ ہے اور ہمارے کام کا متکفل ہے اس دنیا میں بھی اور فنا کے بعد بھی لولا عنــایتــه بـــزمـن تطلبی كادت تعفيني سيول بكاء اگر میری جستجوئے پیہم کے دور میں اس کی عنایت نہ ہوتی تو قریب تھا کہ آہ وزاری کے سیلاب مجھے نابود کر دیتے بشرى لنا انا وجدنا مونسا ربا رحيما كاشف الغماء ہمارے لئے خوشخبری ہے کہ ہم نے مونس و غم خوار پالیا ہے جو رب ورحیم ہے اور غم ومصیبت کا دور کر نیوالا ہے وله التفرد في المحامد كلها وله علاء فوق كل علاء اور اسے تمام صفات میں یگانگت حاصل ہے اور اسے ہر بلندی سے بڑھ کر بلندی حاصل ہے الْعَاقِلُونَ بِعَالَمِينَ يَرَوْنَه وَالْعَارِفُونَ بِهِ رَأَوُا أَشْيَاءِ عقلمند لوگ تو کائنات کے ذریعہ اسے دیکھتے ہیں اور عارفوں نے اس کے ذریعہ اشیاء کو دیکھا ہے هذَا هُوَ الْمَعْبُوْدُ حَقًّا لِلْوَرى فَرُدْ رَّحِيدٌ مَّبْدَءُ الْأَصْوَاءِ یہی مخلوقات کے لئے معبود برحق ہے وہ ایک یگانہ و یکتا ہے اور سب روشنیوں کا مبداً ہے یہی محاسنِ کلام کا حاصل بیان ہے.عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کیا ہے اور کیا ہی خوبصورت

Page 259

المسيح 240 انداز میں عارف باللہ انسان کی معرفت کے حصول کا ذریعہ بیان کیا ہے.فرماتے ہیں: الْعَاقِلُونَ بِعَالَمِينَ يَرَوْنَه وَالْعَارِفُونَ بِهِ رَأَوُا أَشْيَاءِ عقلمند لوگ تو کائنات کے ذریعہ اسے دیکھتے ہیں اور عارفوں نے اس کے ذریعہ اشیاء کو دیکھا ہے خدا تعالی کے شکر کا ایک اور انداز بھی مشاہدہ کریں أَيَا مُحْسِنِي اثْنِي عَلَيْكَ وَ اَشْكُرُ فِدَى لَكَ رُوحِيَ أَنْتَ تُرسِي وَ مَأْزَرُ اے میرے محسن ! میں تیری ثنا اور شکر کرتا ہوں.میری روح تجھ پر فدا ہو.تو میری ڈھال اور قوت ہے بِفَضْلِكَ إِنَّا قَدْ غَلَيْنَا عَلَى الْعِدَى بنَصْرِكَ قَدْ كُسِرَ الصَّلِيْبُ الْمُبَطِرُ تیرے فضل سے ہم نے دشمنوں پر غلبہ پایاہے اور تیری نصرت سے ہی اترانے والی صلیب تو ڑ دی گئی ہے فَتَحْتَ لَنَا فَتْحًا مُّبِينًا تَفَضَّلًا بِفَوْجِ إِذَا جَاءُ وُا فَزَهَقَ التَّنَصُّرُ تو نے ہمیں اپنی مہربانی سے فتح مبین عطا کی ایسی فوج سے کہ جب اس کے سپاہی پہنچ تو عیسائیت بھاگ نکلی سَقَانِى مِنَ الْأَسْرَارِ كَاسًا رَوِيَّةً وَإِنْ كُنْتُ مِنْ قَبْلِ الْهُدَى لَا أَعْثَرُ اس نے مجھے اسرار کا سیر کن پیالہ پلایا اگر چہ میں اس راہنمائی سے پہلے (اس سے) آگاہ نہیں تھا غَيُورٌ يُدُ الْمُجْرِمِينَ بِسُخْطِهِ غَفُورٌ تُنَجِّى النَّائِبِينَ وَيَغْفِرُ وہ غیرت مند ہے.اپنے غضب سے مجرموں کو ہلاک کر دیتا ہے.وہ بخشتا ہے، تو بہ کرنے والوں کو نجات دیتا ہے اور بخش دیتا ہے وَحِيْدٌ فَرِيدٌ لَّا شَرِيكَ لِذَاتِهِ قَوِيٌّ عَلِيٌّ مُسْتَعَانٌ مُقَدَّرُ وہ یگانہ و یکتا ہے، اپنی ذات میں لاشریک ہے، قوی ( اور ) بلند مرتبہ ہے، اسی سے مدد مانگی جاتی ہے ( اور ) تقدیر بنانے والا ہے لَهُ الْمُلْكُ وَ الْمَلَكُوتُ وَالْمَجْدُ كُلُّهُ وَكُلٌّ لَهُ مَا بَانَ فِيْنَا وَيَظْهَرُ اسی کے لیے حکومت، بادشاہی اور ساری بزرگی ہے اور سب اسی کا ہے جو ہم میں ظاہر ہوا اور ظاہر ہوگا وَدُودْ يُحِبُّ الطَّائِعِينَ تَرَحُما مَلِيكٌ فَيُزْعِجُ ذَا شِقَاقٍ وَّ يَحْصِرُ وہ بہت محبت کرنے والا ہے.فرمانبرداروں سے از راہ شفقت پیار کرتا ہے.وہ بادشاہ ہے سو وہ مخالف کو مضطرب کر دیتا ہے اور گھیرے میں لے لیتا ہے

Page 260

ادب المسيح 241 يُحِيطُ بِكَيْدِ الْكَائِدِينَ بِعِلْمِهِ فَيُهْلِكُ مَنْ هُوَ فَاسِقٌ وَّ مُزَوَّرُ وہ اپنے علم سے مکاروں کے مکر کا احاطہ کر لیتا ہے سو وہ اس شخص کو جو فاسق اور فریبی ہو ہلاک کر دیتا ہے وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَّلَا كُفُولَّهُ وَحِيْدٌ فَرِيدٌ مَّا دَنَاهُ التَّكَثُرُ نہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے.وہ یگانہ اور یکتا ہے.کثرت اس کے قریب بھی نہیں آئی وَمَنْ قَالَ إِنَّ لَهُ إِلَهَا قَادِرًا سِوَاهُ فَقَدْ نَادَى الرَّدَى وَ يُدَمَّرُ اور جو شخص کہے کہ اس کا ایک قادر معبود اس کے سوا ہے تو اس نے ہلاکت کو پکارا اور وہ ہلاک کیا جائے گا خدا تعالیٰ کے انعامات اور احسانات کو بیان کر کے شکر ادا کرتے ہیں.مگر ایک واصل باللہ انسان کی طرح کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی عنایات ہیں وگرنہ خدا سے ہدایت پانے سے قبل آپ کے پاس کوئی علم نہیں تھا.یہ مضمون مرسلین باری تعالیٰ کے علم و عرفان کا صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا ہے.یہی معانی آپ حضرت نے امی“ اور ” مہدی“ کے مناصب کے کئے ہیں.☆.

Page 261

ب المسيح 242 نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس طور سے ہمارے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے محبوب ہیں اُسی طور سے آپ کی نعت بھی آپ کی اُمت میں تینوں زبانوں کے شاعروں نے کثرت سے بیان کی ہے گو اس کی ابتدا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد ہی سمجھی جاتی ہے مگر حق تو یہ ہے کہ آپ کی اول اور حقیقی نعت آپ کے اس فرمان سے شروع ہوتی ہے كُنتُ نَبِيًّا و الآدمَ بَيْنَ الْمَاءِ والطين یعنی آپ تقدیر الہی میں اس وقت بھی نبوت کے منصب کے حامل تھے جبکہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھا ( تخلیق نہیں ہوا تھا) اور منصب نبوت ہی آپ کی نعت اور مناقب کا محور اور مرکزی نقطہ ہے.نعت عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی مدح و تعریف کے ہیں.اردو زبان میں یہ صنف شعر اور یہ اصطلاح فارسی سے آئی ہے کیونکہ عربی میں شاء رسول اکرم کو مدح یا اوصاف رسول اکرم کا عنوان دیا جاتا ہے اور یہ بھی ہے کہ فارسی اور اردو میں نعت شعری کلام ہی کو کہتے ہیں.مگر عربی میں نظم و نثر دونوں میں مناقب رسول کا عنوان مدحت و توصیف رسول اکرم ہے.اسلامی ادب میں ایک مقبول صنف شعر ہونے کی وجہ سے اس پر بہت نقد و نظر ہوا ہے اور اس کے حقیقی منصب کو قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے.ابتدا میں بیان ہو چکا ہے کہ ہر صنف شعر کا اپنا اسلوب اور طرز بیان ہوتا ہے اور شاعر اپنے کلام کو اس دائرہ قید و بند کی پاسداری کے ساتھ ہی تخلیق کرتا ہے غزل کو قصیدے کے انداز میں اور قصیدے کو مرثیہ گوئی کی طرز میں تخلیق نہیں کیا جاتا کیونکہ غزل کے موضوع عشق و محبت کی واردات ہیں اور قصیدہ کسی کی مدح وستائش اور مرثیہ کسی وفات پر غم واندوہ کے اظہار کا نام ہے اور ان سب کی جدا گا نہ لفظی اور معنوی علامات اور مجاز ہے.اس تقسیم اسالیب شعر کے ہونے پر بھی صرف ایک صنف شعر ایسی ہے جو تمام اصناف شعر کے اسلوب میں بیان ہو سکتی ہے اور ہوئی ہے وہ نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس کا موجب یہ حقیقت ہے کہ مضمون کی مناسبت سے نعت میں عشق رسول غزل کے انداز میں اور قصیدے کے اسلوب میں آپ کی عظمت و شان اور مرثیہ کے اسلوب پر آپ کی وفات کا الم بیان کیا گیا ہے اور بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا گیا ہے جیسے کہ محسن کاکوروی کا شوق وارادہ ہے.اپنے مشہور عالم لامیہ قصیدے میں کہتا ہے :

Page 262

243 سب سے اعلیٰ تیری سرکار ہے سب سے اول ادب المسيح میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مُجمل ہے تمنا کہ رہے نعت سے میرے خالی نہ میرا شعر نہ قطعہ نہ قصیده نه غزل یہ اشعار تو دستور ادب کے بیان میں آگئے ورنہ قصیدے کی صنف میں ابوطالب کے اس نعتیہ شعر کا کون مقابل ہو سکتا ہے.وَأَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْعَمَامُ بِوَجْهِهِ تُمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْارَامِل وہ روشن و تابناک چہرے والے جن کے صدقے میں بادلوں سے پانی مانگا جائے وہ قتیموں کے والی اور بیواؤں کی پناہ ہیں.ابن ہشام کے حوالے سے ہے کہ مدینہ منورہ میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بارش کے برسنے اور قحط کے آثار اُٹھنے پر آنحضرت فداہ ابی و امی نے فرمایا کہ اگر ابوطالب یہ دیکھتے تو بہت خوش ہوتے کسی نے پوچھا کہ کیا حضور کا اشارہ ان کے اس شعر کی طرف ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ایسا ہی ہے.اس طرز سے یہ شعر ان نعتیہ اشعار میں اول مقام پر فائز ہو گیا جس کی صداقت کو آپ حضرت نے قبول فرمایا ہے.بیت کے انداز میں حضرت مسیح موعود کا شعر مشاہدہ کریں.زعشاق فرقان و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم ہم قرآن اور رسول اکرم کے عاشق ہیں اسی کے ساتھ آئے ہیں اور اُسی کے ساتھ جائیں گے اس تسلسل میں خاکسار اپنی محترم مکرم اور پیاری پھوپھی حضرت نواب مبارکہ بیگم ( جو حضرت اقدس علیہ السلام کی دختر نیک اختر تھیں) کی عظیم الشان اور نادر نعت رسول کا یہ ٹیپ کا شعر فراموش نہیں کر سکتا فرماتی ہیں.بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار (مصرع ثانی الہام حضرت اقدس ہے ) میں اس شعر کو ایک مکمل نعت رسول اکرم کے طور پر شمار کرتا ہوں اس کا اول مصرع خدا تعالیٰ کے فرمان صلو علیہ وسلموا تسلیما کا بے انتہا ء خوبصورت ترجمہ ہے اور دوسرا مصرع بھی اپنے حسن و خوبی کے اعتبار سے آپ حضرت کے روحانی منصب کی بہترین تعبیر ہے.جو خدا تعالیٰ نے خود فرمائی ہے.اب جبکہ آپ حضرت کی دختر

Page 263

ب المسيح 244 نیک اختر کا ذکر چل نکلا ہے تو میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی ادبی شان کے بیان میں کچھ کہے بغیر آگے نکل جاؤں.ایام جاہلیہ کے کسی شاعر نے بہت خوب کہا: وَمِنْ مَذْهَبِى حُبُّ الدِّيارِ لَا هُلِهَا و للناس في ما يعشقون مذاهب میرے مذہب میں محبوب کی محبت میں اس کے گھر سے محبت کرنا لازم ہے اور لوگوں کے اپنے عشق کے مذاہب مختلف ہوتے ہیں.اردو زبان کی اقدار ادبی اور اسالیب شعر کی روشنی میں آپ کا کلام ان تمام ادبی محاسن کا حامل ہے جو اساتذہ اردو شعر نے مقرر کئے ہیں بلکہ ان کا ہم پلہ ہے اور اگر موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یقینا ان سب پر فائق ہے.ایسا ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ آپ نے حضرت مسیح موعود کی گود میں بیٹھ کر ادب حاصل کیا تھا اور اُسی درس گاہ میں ادب کے حقیقی موضوعات کی تعلیم پائی تھی نعت رسول میں آپ کا سلام اور درود ایسا ہے کہ دل میں اترتا جائے پاکیزہ بات اور خوبصورت بیان ہے صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا.صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٌ کے عنوان سے جو نعت پیش کی ہے وہ دنیائے نعت کے شاہکاروں میں سب سے اول رکھی جاسکتی ہے خاص طور پر ہر بند کا اوّل کا مصرعہ تو حسن دلبر کی میں بے نظیر ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مناقب میں فرماتی ہیں اسوۂ پاک خلق ربانی منتہائے صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٌ اور فرماتی ہیں عکس یزدانی منتہائے صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ اور کہتی ہیں منبع جود و فضل ربانی منتہائے کمال انسانی کمال انسانی کمال انسانی صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ اور آخر پر سلام عرض کرنے میں تو صیف و منقبت کو ایسی محبت سے پیش کرتی ہیں کہ دریائے حسن کلام اور محسن معافی بہنے لگتا ہے.اور ٹیپ کے شعر میں کہتی ہیں میر عالم طبیب روحانی منتہائے صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٌ انسانی کمال

Page 264

245 ادب المسيح اسی طور سے آپ کی نعت پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار کے عنوان سے ہے جس میں بیان ہے کہ ضلالت اور تاریکی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا سورج طلوع ہوتا ہے تو انسانیت کا ہر طبقہ اس سے رکس طور پر فیض پاتا ہے ایک عظیم الشان نعت ہے خاص طور پر جہاں عورت‘‘ مخاطب ہے.الغرض نعت مناجات دین اسلام اور حضرت مسیح موعود کی محبت میں جس قدر بھی موضوعات ہیں سب اردو ادب کے شاہکار ہیں آپ کے کلام کا مجموعہ در عدن“ کے نام سے اشاعت پاچکا ہے جو یقیناً اس قابل ہے کہ احمدی بچے اور جوان اس کو حفظ کریں اور اپنے سینوں میں محفوظ کر لیں.ان چند الفاظ میں آپ سیدہ کے کلام کے محاسن پیش کرنے کے بعد ہم اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں.اور قطعہ کی صنف میں سعد کی علیہ الرحمہ کا مشہور عالم اور امت میں بہت مقبول قطعہ پیش کرتے ہیں:.بلغ الـعــلــى بـكـمـالـه كشف الــدجـــي بـجـمــالــه آپ کو بلندی میں کمال حاصل تھا.آپ کے حُسن نے تاریکیوں میں اجالا کردیا سُنَتْ جَمِيعُ خصاله صلو عليه و آله آپ کے تمام خصائل حسین تھے.اس پر اور اس کی آل پر درود بھیجو قطعات میں حضرت اقدس کو یہ نعتیہ قطع بہت پسند تھا فرمایا: پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے.محمد عربی بادشاہ ہر دوسرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اُسے خدا تو نہیں کہہ سکیں پہ کہتا ہوں کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 302) قطعات میں مرثیہ بیان کرنے کا حقیقی منصب تو حضرت حسان بن ثابت کے نصیب میں آیا.فرماتے ہیں كنت السواد لـنــاظـرى فعمی علیک الناظر آپ میری آنکھ کی پہلی تھے.آپ کی وفات پر میری آنکھ اندھی ہوگئی من شاء بعدک فلیمت فعلیک کـــنــــت احــــاذر آپ کے بعد جو چاہے وفات پائے.مجھے تو آپ کی وفات کا خطرہ تھا

Page 265

ادب المسيح 246 روایت ہے کہ آپ حضرت ان اشعار کو پڑھ کر زارو قطار روتے تھے اور کہتے تھے کہ کاش یہ شعر آپ نے کہے ہوتے اور مرنیے کے انداز میں فاطمہ زہرا بتول کے یہ دو اشعار بھی ہمیں بہت محبوب ہیں.فرماتی ہیں.ماذا علـى مـن شـم تـربة احمد ان لايشم مدى الزمان غواليا جس نے احمد (ﷺ) کے قبر کی مٹی سونگھی اور اگر وہ عمر بھر کوئی عطر نہ سونگھے تو اس کا کیا نقصان ہوگا؟ ( یعنی عمر بھر اس کو کسی عطر کے سونگھنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی ) صبت على مصائب لو انها صبت على الايام صرن لياليا مجھ پر وہ مصائب پڑے ہیں کہ اگر دنوں پر یہ مصائب ڈالے جاتے وہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے.نعت رسول کریم ایسے صاحب انصاف اور صاحب بصیرت لوگوں نے بھی بیان کی ہے جن کا آپ حضرت سے روحانی رشتہ بھی نہیں تھا اور مصاحبت بھی نہیں تھی.ان ہستیوں میں جو سب سے زیادہ محبوب ہستی ہے اور جس کی برجستہ نثری نعت کو آپ کی امت نے ایسا قبول کیا ہے کہ آج تک اُس کا نام عاشقان رسول اکرم کے حلقوں میں احترام اور محبت سے یاد کیا جاتا ہے اور اس نثر پر ہزار نظم قربان کی جاسکتی ہے.ایک بادیہ نشین صحرا گزین خاتون تھی جن کا نام ام معبد تھا.ہمارے پیارے آقا اور مطالع سے ان کی ملاقات ایسے ہوئی کہ جب آپ حضرت مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف سفر کر رہے تھے تو سر راہ اُن کا خیمہ تھا.آپ کے قافلے نے وہاں قیام کیا اور خاتون سے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ کھانے پینے کو ہے تو دو.اس خاتون نے کہا کہ افسوس ہے کہ کچھ پیش کرنے کو نہیں ہے.بکریاں صحرا میں چرنے کے لیے جاچکی ہیں.آنحضرت نے ایک بکری کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اس بکری کا دودھ ہی کافی ہوگا.اس پر خاتون کہنے لگی کہ یہ تو ایک کمزور بکری ہے اسی وجہ سے اس کو ریوڑ کے ساتھ روانہ نہیں کیا گیا.آپ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں.اُس نے کہا کہ ضرور ایسا کریں.آنحضرت نے بسم اللہ پڑھ کر اس کے تھن پر ہاتھ رکھا اور ایک برتن مانگا تو اس کا دودھ لبریز ہوکر زمین پر گر نے لگا.آپ نے خود بھی نوش فرمایا اپنے ساتھیوں کو بھی پلایا اور بہت سا باقی ماندہ ام معبد کو بھی دیا.کچھ دیر کے بعد جب اس کا خاوند آیا اور اس نے دودھ سے لبریز برتن دیکھا تو استفسار کیا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے.اس سوال کے جواب میں ( میرے یقین کے مطابق ) اس خاتون کی زبان اور چشم بصیرت کو اللہ نے خاص برکت سے نوازا اور اس نے آپ کے حسن و جمال اور آپ کے وقار اور تمکنت اور آپ کے غلاموں کی اطاعت کو ایسی فصاحت و بلاغت اور ایسی بصیرت سے بیان کیا کہ آثار اور روایت میں رسول اکرم کا ایسا سراپا کوئی پیش نہ

Page 266

247 ادب المسيح کر سکا.اس نے کہا: میں نے ایک انسان دیکھا پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، ہموار شکم، سر میں بھرے ہوئے بال، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں مردانگی و شیرینی، گردن موزوں، روشن اور چمکتے ہوئے دیدہ سرنگیں آنکھ، باریک اور پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے گیسو، جب خاموش رہتے تو چہرہ پر وقار معلوم ہوتا، جب گفتگو فرماتے تو دل ان کی گئے طرف کھنچتا، دور سے دیکھو تو نور کا ٹکڑا، قریب سے دیکھو تو حسن و جمال کا آئینہ، بات میٹھی جیسے موتیوں کی لڑی.قد نہ ایسا پست که کمتر نظر آئے ، نہ اتنا دراز کہ معیوب معلوم ہو.بلکہ ایک شارخ گل ہے، جو شاخوں کے درمیان ہو.زبیند و نظر، والا قدر، ان کے ساتھی ایسے جو ہمہ وقت ان کے گرد و پیش رہتے ہیں ، جب وہ کچھ کہتے ہیں تو یہ خاموش سنتے ہیں.جب حکم دیتے ہیں تو تعمیل کو جھپٹتے ہیں، مخدوم ومطاع نہ کو تا پن اور نہ فضول گو.(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية صفحه 130 تا134) اور غزل کے انداز میں ہمارے پیارے مسیح علیہ السلام کے مقابل پر کیا ہوگا.فرماتے ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است میری جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں.اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جلال محمد است میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمد کے جلال کا شہرہ ہے ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم یک قطره ز بحر كمال محمد است معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں.یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے این آتشم ز آتش مهر محمدی ست وایں آب من ز آب زلال محمد است یہ میری آگ محمد کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمد کے مصفا پانی میں سے لیا ہوا ہے مختصر اور غزل کے انداز میں تخلیق کئے ہوئے اشعار تو نعت رسول اکرم کے اسلوب شعر اور اس کی ہیئت کے تعلق میں ہے ( ہیئت سے مراد اشعار کی خارجی صورت ہے ) مقصد یہ ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ نعت رسول اکرم ہی ایک ایسی صنف شعر ہے جس کو ہر اسلوب اور انداز میں رقم کیا گیا ہے اور بہت خوبی سے کیا گیا ہے مگر اس کے مضامین اور انتخاب الفاظ کے اعتبار سے ہر نعت گو پر لازم ہے کہ آداب نعت کا التزام کرے.

Page 267

ب المسيح 248 اصولی طور پر آداب نعت کے دو بنیادی عناصر اور شرائط ہیں.اول:.نعت کے مضامین میں رسول اکرم کی عظمت اور شان اور ان سے محبت کے اظہار میں ایسا اعتدال ہو کہ کسی صورت میں ان میں شرک کا شائبہ نہ ہو اور مافوق الفطرت صفات کو بیان نہ کیا جائے دوم :.الفاظ کے انتخاب میں ایسا وقار اور تہذیب جو حضرت رسالت مآب کے روحانی منصب کو سزاوار ہے یہ وہ اقدار نعت رسول اکرم ہیں جن کو عاشقانِ رسول نے اور زبان دانوں نے دل و جان سے قبول کیا ہے تاہم ان کی مکمل پاسداری اور احتیاط کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ ہدیہ نعت پیش کرنے والے کو حضرت سرور انبیاء کے روحانی منصب کا شعور ہو اور آپ کی سیرت طیبہ کا تفصیلی علم ہو اول مقام پر تو رسول اکرم کے قرب الہی کا مقام اور آپ کی سیرت کا علم باری تعالیٰ کو ہی ہے جس نے آپ کو نبوت کے کمالات کے اعتبار سے اور انسان کامل ہونے کے اعتبار سے خود تخلیق کیا ہے.قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں مراتب کے بیان سے بھرا ہوا ہے.ہم اختصار کے پیش نظر دو مقامات کو حضرت مسیح موعود کی تفسیر کیسا تھ پیش کرتے ہیں اول مقام پر باری تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُورٌ وكِتب مُّبِينٌ (المائدة : 16) اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا (الاحزاب : 47) آپ حضرت فرماتے ہیں.انبیاء مجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قد جَاءَ كَمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتُبٌ مُّبِينٌ (الجز: 6) وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا (الجز : 22) یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) مشاہدہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی اور فطرتی مقام کو کن خوبیوں کیساتھ تخلیق

Page 268

249 ادب المسيح فرمایا ہے یہی موضوعات آپ کی نعت کے ہیں.دوسرے مقام پر اس دنیا میں آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام قرب الہی کو تو وہی پیش بیان کرسکتا ہے جو واصل باللہ ہو اور جس کو یہ عرفان خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوا ہو اور جس کو باری تعالیٰ کی جناب سے نائب اور وارث رسول کا خطاب ملا ہو اور وہ نیابت اور وراثت کے اعتبار سے آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری تجلی ہو جیسے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.یسے انبیاء گرچه بوده اند من بعرفاں نہ کمترم ز کسے اگرچہ انبیاء بہت ہوئے ہیں مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں وارث مصطفی شدم به یقیں شدہ رنگیں برنگِ یار حسیں میں یقیناً مصطفے کا وارث ہوں اور اُس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں اور اس عرفان الہی اور اتحاد کامل کی بنا پر سیرت رسول اکرم کا حقیقی علم و شعور ہونا بھی آپ ہی کا منصب ہے جو کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے.فرماتے ہیں: تا مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر جب سے مجھے اُس کے حسن کی خبر دی گئی ہے.میرا دل اُس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے منکہ مے بینم رخ آں دلبرے جاں فشانم گر دہد دل دیگرے میں اُس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں.اگر کوئی اُسے دل دے تو میں اُس کے مقابلہ پر جان نثار کر دوں ساقی من ہست آں جاں پرورے ہر زماں مستم کند از ساغری وہی روح پرور شخص تو میرا ساتی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے محو روئے او شد است اس روئے من ہوئے او آید ز بام و گوئے من یہ میرا چہرہ اُس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اُسی کی خوشبو آرہی ہے بسکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم.من ہمانم.من ہماں از بسکہ میں اُس کے عشق میں غایب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا! میری روح اُس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گر یہاں سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد شد اسم من گردید آں اسم وحید پدید

Page 269

المسيح 250 احمد کی جان کے اندر احمد ظاہر ہو گیا اس لیے میرا وہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے اس مضمون کے اختتام پر حضرت مسیح موعود کا ایک نثری فرمان بھی سن لیں جو کہ الہام الہی ہے فرماتے ہیں.كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ الله فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ (ترجمہ: ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے پس بڑا مبارک وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی ) فرماتے ہیں: یعنی یہ مخاطبات اور مکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہے یہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا طفیل ہے اور اسی لئے یہ آپ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں.جس قدر تا خیرات اور برکات وانوار ہیں وہ آپ ہی کے ہیں..(دیکھو تفسیر حضرت اقدس الاحزاب: 41) ان گذارشات سے یہ حقیقت تو واضح ہو گئی کہ نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرنے کا حقیقی حقدار کون ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی ثابت ہو گیا کہ نعت کے دوہی عنوانات ہیں.اول یہ کہ باری تعالیٰ سے قرب کی نسبت سے آپ کا منصب عالی کیا ہے دوم یہ کہ انسان ہونے کے اعتبار سے آپ کے اخلاق اور فضائل عالی کیا ہیں.اپنے دستور کے مطابق ہم اول قرآن کریم کے فرمودات کو پیش کرتے ہیں.اول عنوان کے تحت ہم عرض کرتے ہیں کہ دراصل یہ قرآن کریم کا حقیقی موضوع ہے جو تمام موضوعات اور مقاصد قرآن کریم کا محور ہے جیسا کہ سورۃ ھود کی ابتدائی آیات میں فرماتا ہے الركتُبُ أحْكِمَتْ أَيْتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيْرٍ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا الله اِنَّنِي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرُ حضرت اقدس ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات پکی اور استوار ہیں (هود: 3،2) الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللہ خدا تعالیٰ کے سوا ہر گز ہر گز کسی کی پرستش نہ کر واصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات : 57) فرماتے ہیں ” عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر

Page 270

251 ادب المسيح قسم کی قساوت اور کبھی کو دور کر کے زمین کو ایسا صاف کر دے جیسے زمیندارز مین کو صاف کرتا ہے.اور فرمایا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہوکر نشو ونما پائیں گے.اور وہ انمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے جو اُحُلُهَا دَ آبِعُ (الرعد: 36) کے مصداق ہوں گے“.( تفسیر حضرت زیر آیت ھود ) اور عبادت نام ہے محبت کے انتہائی مقام کا.یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا تو ان کو ایسا قرب الہی عطا کیا گیا کہ وہ ہر اتباع کرنے والے کو واصل خدا بنا سکیں چنانچہ اول عنوان کے تحت یہ فرمانِ الہی پیش کیا جاتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيم (ال عمران: 32) حضرت اقدس اس فرمانِ الہی کی تفسیر میں فرماتے ہیں: سوال مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہئے ”میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندے ہو کہ میں تمہیں آرام دونگا.اور یہ کہ میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں میں زندگی اور راستی ہوں“.کیا بانی اسلام نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کیے ہیں.الجواب: قرآن شریف میں صاف فرمایا گیا ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يحبكُمُ الله - الخ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تاخُدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے.یہ وعدہ کہ میری پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے مسیح کے گذشتہ اقوال پر غالب ہے.کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے.پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنا دیتا ہے اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ایک اور مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب عالی کے بیان میں فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوب الہی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی جیسا کہ فرمایا قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ

Page 271

المسيح 252 فَاتَّبِعُونِي يُعْبُكُمُ الله یعنی ان کو کہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا.اب غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع محبوب الہی تو بنادیتی ہے.پھر اور کیا چاہیے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ایک اور مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب الہی ہونے اور ان کے متبعین کو محبت الہی کے عطا کرنے کی برکات کے بیان میں ایک عظیم الشان فرمانِ حضرت اقدس ہے: دو قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اوّل: اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي - دوم: يَأَيُّهَا الَّذين امنوا صلوا عليه و سلّموا تسليمًا.تیسرا: موهبت الهی ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 38 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو خدا تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے بغیر اس کے یہ مقام مل ہی نہیں سکتا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اسی مضمون کے تسلسل میں یہ فرمان الہی بھی ہے کہ رسول اکرم کے اسوہ کے سوا خدا تعالیٰ کا قرب اور وصال حاصل نہیں ہو سکتا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب : 22) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ کے اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا ر ہے گوہر مقصود اس کے ہاتھ میں نہیں آسکتا چنانچہ سعدیؒ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بتاتا ہے.بزہد و ورع کوش و صدق وصفا ولیکن میفزائے مصطف پر زہد و ورع میں کوشش کرو مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق یہاں تک روحانی اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی منصب و مقام کا ذکر ہوا ہے.اب انسانِ

Page 272

253 ادب المسيح کامل ہونے کے اعتبار سے آپ کے خصائلِ مبارکہ اور اخلاق حسنہ کو قرآن کریم کے فرمان کے تحت پیش کرتے ہیں.اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبة: 128) حضرت اقدس مسیح موعود اس فرمانِ قرآن کی تفسیر میں فرماتے ہیں.جذب اور عقد ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتا ہے اور ظل اللہ بنتا ہے پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لیے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لیے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنتُم یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں.ایک اور مقام پر فرماتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) فَأَشَارَ اللَّهِ فِي قَولِهِ عَزِيزٌ وَّ فِي قَولِهِ حَرِيصٌ إِلَى أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَظْهَرُ صِفَتِهِ الرَّحْمنِ بِفَضْلِهِ الْعَظِيمِ لِأَنَّهُ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِيْنَ كُلِهِمْ وَ لِنَوْعِ الْإِنسَانِ وَ الْحَيَوَانِ وَاَهْلِ الْكُفْرِ وَالْإِيْمَانِ.ثُمَّ قَالَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ فَجَعَلَهُ رَحْمَانًا وَّ رَحِيمًا.ترجمہ از مرتب: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عزیز اور حریص کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے فضل عظیم سے اس کی صفت رحمن کے مظہر ہیں کیونکہ آپ کا وجود مبارک سب جہانوں کے لیے رحمت ہے.بنی نوع انسان حیوانات.کافروں.مومنوں سبھی کے لیے.پھر فرمایا بالمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِیم اور اس میں آپ کو رحمان اور رحیم کے نام دیئے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور اس مضمون کے تسلسل میں باری تعالٰی کا یہ فرمان بھی تو ہے فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : 108)

Page 273

المسيح 254 اور تجھ کو ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام عالم پر نظر رحمت کریں اور نجات کا راستہ اُن پر کھول دیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کرنے کے لئے تجھے نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جاوے پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے رسول ہیں اور تمام دنیا کے لئے رحمت ہیں اور آپ کی ہمدردی تمام دنیا سے ہے نہ کسی خاص قوم سے.مزید فرماتے ہیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) تمام دنیا پر رحم کر کے ہم نے تجھے بھیجا ہے اور عالمین میں کافر اور بے ایمان اور فاسق اور فاجر بھی داخل ہیں اور اُن کے لئے رحم کا دروازہ اس طرح پر کھولا کہ قرآن شریف کی ہدایتوں پر چل کر نجات پاسکتے ہیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور رحمتہ للعالمین ہونے کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلق عظیم عطا کیا.جیسے فرماتا ہے.إنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم :5) حضرت اقدس اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں.تو اے نبی ! ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متم و مکمل ہے کہ اُس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورہ عرب میں اُس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.اور مزید تفصیل سے فرماتے ہیں : (دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) خدا تعالیٰ نے بیشمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دئے سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کو ٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر

Page 274

255 ادب المسيح کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے اُن کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بسترا اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نانِ جو یا فاقہ اختیار کیا.دُنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دُنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا.اور اُس دن سے جو ظہور فر مایا تا اُس دن تک جو اپنے رفیق اعلی سے جاملے بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلے پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا خالصا خدا کے لئے کھڑے ہو کر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی.غرض جود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردمی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دُنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہ ہمارے آقا اور سیدی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (فدا امی وابی ) کی روحانی اور فطرتی مناصب علوی تھے جن کی بنا پر باری تعالیٰ نے صرف یہ حکم ہی نہیں صادر فرمایا کہ آپ حضرت کے نمونے کو اختیار کرو بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ اس رسول پر صلوات و درود بھیجتے ہیں اس لیئے ہر مومن پر لازم ہے کہ آپ حضرت پر درود و سلام بھیجے.باری تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ وَمَلَيْكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) خدا اور اس کے سارے فرشتے اُس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں.اے ایماندار و تم بھی اُس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس فرمانِ خداوندی کی تفسیر میں حضرت اقدس فرماتے ہیں: دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا جس کا نام ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم.إن اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا

Page 275

المسيح 256 گیا صرف ہم اُن نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے جیسے حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد، حضرت عیسی علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ایک اور مقام پر عظیم الشان نکتہ نعت رسول اکرم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے آپ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی.یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالے نے فضل کیا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِن الله وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا الله تعالى اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو تم درود و سلام بھیجو نبی پر.اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے پیروں تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کی رُوح میں وہ صدق وصفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) باری تعالیٰ کے فرمودات اور حضرت اقدس کی تفسیر و تعبیر سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ نعت رسول اکرم کے حقیقی اور بنیادی موضوعات دو ہیں یعنی آپ کا تعلق باللہ اور اپنے متبعین میں اس تعلق کو قائم کرنے کا منصب اور دوسرے آپ کا ہمدردی خلق کا جذبہ اور شوق مگر ایک بہت ہی اہم موضوع جس کا تعلق مومنین کی محبت اور عشق رسول سے ہے.ہم نے جو آیات منصب رسول اکرم کے بیان میں پیش کی ہیں ان میں یہ معانی بھی مضمر ہیں کہ روحانی منصب اور اخلاق حسنہ کے حصول کے لئے عاشقانہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کے فرمان میں واضح ہے کہ محبت الہی کا وصیلہ آپ کا اتباع ہے جو محبت رسول سے ہی حاصل ہوسکتا ہے.

Page 276

257 ادب المسيح اور یہ فرمان کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيمًا واضح کر رہا ہے کہ ایسا قلبی درود و سلام محبت کے بغیر کیسے نصیب ہو سکتا ہے.دراصل اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم اور مومنین کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ قائم فرمایا ہے.جیسے کہ فرماتا ہے: اَلنَّبِيُّ أولى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجَةَ أَمَّهُتُهُم...الى الآخر (الاحزاب : 7) ترجمہ: نبی مومنوں سے ان کی جان کی نسبت بھی زیادہ قریب ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں.اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ تم باری تعالیٰ کو ایسی محبت سے یاد کرو ( بلکہ اس سے بھی بڑھ کر) جیسے تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة: 201) حضرت اقدس باپ بیٹے کے رشتہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا یعنی اپنے اللہ عزّ و جلّ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو یاد کیا جاتا ہے.یا درکھنا چاہیے کہ مخدوم اُس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غایت درجہ شدت واقعہ ہو جاتی ہے اور حُبّ جو ہر یک کدورت اور غرض سے مصفا ہے دل کے تمام پردے چیر کر دل کی جڑھ میں اس طرح سے بیٹھ جاتی ہے کہ گویا اُس کی جز ہے تب جس قدر جوش محبت اور پیوند شدید اپنے محبوب سے ہے وہ سب حقیقت میں مادر زاد معلوم ہوتا ہے اور ایسا طبیعت سے ہمرنگ اور اُس کی جز ہو جاتا ہے کہ سعی اور کوشش کا ذریعہ ہرگز یاد نہیں رہتا اور جیسے بیٹے کو اپنے باپ کا وجود تصور کرنے سے ایک روحانی نسبت محسوس ہوتی ہے ایسا ہی اس کو بھی ہر وقت باطنی طور پر اُس نسبت کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جیسے بیٹا اپنے باپ کا حلیہ اور نقوش نمایاں طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر رکھتا ہے اور اُس کی رفتار اور کردار اور خو اور بو بصفائی تام اُس میں پائی جاتی ہے علی ہذا القیاس یہی حال اس میں ہوتا ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی تو ہے کہ باپ اور اولا داور تمام انسانوں سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا شرط ایمان ہے.

Page 277

ادب المسيح فرماتے ہیں.258 لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى اَكُونَ احَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِينَ (بخاری کتاب الايمان ، باب حبّ الرسول من الايمان) ترجمہ : ”تم میں سے کوئی کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے والد اور اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے“ اس مقام تک ہم نے نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب اور اس کے اسالیب ادب کی تعین میں گزارشات کی ہیں اور آپ کی منقبت میں اللہ تعالیٰ کے فرمودات پیش کئے.نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان میں ہم نے بہت اختصار سے آنحضرت کے وہ مناقب اور عظمت بیان کی ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمان کی ہے اور یہی وہ حقیقی اور صداقت پر مبنی عظمت رسول ہے جو آپ کی شایانِ شان ہے.مگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کے مناقب کے ذیل میں اور اس کی روشنی میں آنحضرت نے جو اپنی عظمت وشان بیان کی اور اس کو بھی چند الفاظ میں پیش کر دیں احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مناقب کے بیان سے بھر پور ہیں ہم ان فرمودات میں سے صرف تین اقتباسات پیش کرتے ہیں.اول مقام پر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرض منصبی کو بیان کرتے ہیں جس کی بجا آوری کے لیے آپ کو اور دیگر تمام انبیاءعلیھم السلام کو مبعوث کیا گیا ہے جیسا کہ گذشتہ میں سورہ ھود کی آیت نمبر 2 اور 3 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کیسا تھ بیان ہوا ہے کہ آپ کو خدائے واحد پر ایمان اور صرف اس کی عبادت کے قیام کے لیے مبعوث کیا گیا ہے.اس منصب عالی کے بیان میں آپ فرماتے ہیں کہ نوع انسانی میں سب سے اوّل آپ کو واحد خدا کی شناخت کا عطیہ دیا گیا اور منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے.فرماتے ہیں:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ الا الله مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوةُ قَالَ وَادَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَ الْجَسَدِ (ترمذی ابواب المناقب) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے.صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ نے فرمایا اس وقت جب کہ حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے.

Page 278

259 ادب المسيح حضرت اقدس اس منصب عالی کے بیان میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوال الَستُ بِرَبِّكُمُ “.کیا میں تمہارا خدا نہیں؟ کے جواب میں سب سے اول ”بلی“ کہنے والی روح آنحضرت کی تھی اس لیئے آپ آدم تو حید ہیں.فرمایا: روح او در گفتن قول ”بلی“ اوّل کے آدم توحید و پیش از آدمش پیوند یار ترجمہ: قول بلی کہنے میں اس کی روح سب سے اول ہے وہ توحید کا آدم ہے اور آدم سے بھی پہلے یار (اللہ) سے اس کا تعلق تھا یہی وہ اولین منصب رسول اکرم ہے جس کی ذیل میں آپ کی تمام اسماء ذاتی اور صفاتی آتے ہیں.جیسا کہ حضرت ابوطفیل سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.”میرے رب کے نزدیک میرے دس نام ہیں.میں محمد احمد فاتح.خاتم ابوالقاسم.حاشر.عاقب.ماحی.ٹیس اور طہا ہوں“ ( خصائص الکبری زیر باب آنحضرت کے اسماء صفاتی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر بھی اپنے مناقب بیان فرمائے ہیں وہ سب برحق ہیں اور ہم ان سب کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں.مگر دو فرمودات تو ایسے دلربا ہیں کہ ان میں آپ کی شان کے تعلق میں تمام عظیم الشان مناقب جمع ہو گئے ہیں اور ان میں ہمارے لیے ایک نوید جانفزا بھی ہے کہ آپ جیسا رحیم اور درگزر کرنے والا نبی ہماری شفاعت کرے گا انشاء اللہ تعالیٰ.فرماتے ہیں: الا وَ أَنَا حَبِيبُ الله وَلَا فَخْرَ وَ اَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَوَانَا أَوَّلُ شَافِعِ وَاَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لَا فَخْرَوَانَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حَلْقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِى فَيُدْخِلْنِيْها وَ مَعِيَ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَوَانَا اكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخَرِيْنَ وَلَا فَخْرَ (ترمذی ابواب المناقب) ترجمہ سن لو! میں اللہ کا حبیب ہوں اور کوئی فخر نہیں.میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور کوئی فخر نہیں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائیگی اورکوئی فخر نہیں.سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہوں اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے داخل کریگا میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہونگے اور کوئی فخر نہیں.میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرم ہوں لیکن کوئی فخر نہیں.

Page 279

المسيح 260 اسی مضمون میں ایک اور بہت پیاری روایت ہے فرماتے ہیں: ابي سعيــد قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : اَنَا سِيِّدُ وُلْدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ بِيَدِى لِوَاءُ الْحَمْدِ وَ لَا فَخْرَ ، وَمَامِنُ نَبِيِّ يَوْمَئِذٍ - آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ _ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِيُّ ، وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ (ترمذی ابواب المناقب باب ما جاء في مناقب النبي) ترجمہ: ابی سعید سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا ”میں قیامت کے دن بنی آدم کا سردار ہوں گا مگر کوئی فخر نہیں ہے اور میرے ہاتھ میں حمد باری تعالیٰ کا جھنڈا ہوگا اور کوئی فخر نہیں ہے اور نبیوں میں سب کے سب ( آدم اور اس کے سوا) میرے جھنڈے تلے ہونگے اور کوئی فخر نہیں ہے ورسب سے اول میرے لیے زمین شق کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں ہے.اس مضمون میں ایک اور فرمان بھی سُن لیں.فرمایا: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ ثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بُنُ حَرْبِ عَنْ لَيْثٍ عَنِ الرَّبِيعِ بنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ الله : اَنَا اَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا وَ أَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا وَفَدُوا وَ أَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا يَنسُوا وَ لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أكْرَمُ وُلْدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي وَلَا فَخْرَ (ترمذی باب المناقب ) ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے میں ہی اٹھنے والا ہوں.جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا وہ نا امید ہوں گے تو میں ہی ان کو خوشخبری سنانے والا ہوں گا اس دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں اپنے رب کے ہاں اولاد آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں گا اور اس پر مجھے فخر نہیں اُردو زبان میں اب بمحضرت اقدس کی نعت ہائے رسول کے نمونے پیش کرتے ہیں ابتدا آپ کی اردو نعت سے کرتے ہیں جوار دوزبان میں نعت کا عظیم الشان نمونہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مقام کے بیان میں اور آپ حضرت کے فیض اور آپ سے محبت کے اظہار میں نہایت درجہ سادہ اور سہل زبان میں مگر معارف سے بھری ہوئی نعت سرور عالی مقام ہے.

Page 280

261 وہ پیشوا ہمارا جس ہے نور سارا ނ ادب المسيح نام اُس کا ہے محمد دل بر میرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر.اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الورای یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں ایک قمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے.بدر الدیجی یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پاراُس نے ہیں اُتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے وہ یار لامکانی وہ دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے دلبر نهانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس راہ نما یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب و امیں ہے اس کی ثناء یہی ہے حق سے جو حکم آئے سب اُس نے کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم العطاء یہی ہے آنکھ اسکی دور میں ہے دل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وه دلبر یگانہ علموں کا ہے وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے خزانه باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے

Page 281

المسيح 262 وو سب ہم نے اُس سے پایا شاھد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے ہم تھے دلوں کے اند ھے سو سو دلوں میں پھندے مشاہدہ کریں کہ کیسا اتباع قرآن کریم ہے پھر کھولے جس نے جندے وہ مجتبی یہی ہے مطلع قد جاء کم من الله نور سے شروع ہوا ہے اور بہت دلفریب انداز میں بیان ہوا ہے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے ”نور“ سارا نام اُس کا ہے محمد دل بر مرا یہی ہے اور بعد کے تین شعر انبیاء علیہم السلام کے مقابل پر آپ کے منصب کے بیان میں ہیں یعنی ” پہلوں.خوب تر ہے“ سےلیکر پر دے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے“ تک آپ کا وہ مقام بیان ہوا ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ نے الہاما بتایا تھا ”پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار“ آگے بڑھ کر وہ پیار لا مکانی وہ دلبر نہانی“ سے لیکر ”جور از دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقام بیان ہوا ہے جو باری تعالیٰ نے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب : 22) کے فرمان میں بیان کیا ہے دوبارہ مشاہدہ کر لیں نہایت درجہ حسین اور دلر با کلام ہے.وہ یا ر لا مکانی وہ دلبر نہانی سے لیکر دیکھا ہے ہم نے اس سے بس راہ نما یہی ہے اور آخر پر اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں سے لیکر ہم تھے دلوں کے اندھے سوسودلوں میں پھندے تک ایک والہانہ اظہار محبت ہے اور آنحضرت کے روحانی فیوض کا نذرانہ تشکر ہے.

Page 282

فرماتے ہیں: 263 ادب المسيح ہم تھے دلوں کے اندھے سوسو دلوں میں پھندے پھر کھولے جس نے جندے وہ مجتبی یہی ہے اس اسلوب پر ایک اور عظیم الشان نعت کا بھی مشاہدہ کریں.اس نعت میں ایک ندرت بیان یہ بھی ہے کہ اس کا مطلع صداقت اسلام کے بیان میں ہے.نعت رسول میں یہ اس لحاظ سے نادر بات ہے کہ حقیقت میں آنحضرت کی نعت و منقبت کا مدار اسی پر ہے کہ آپ حضرت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری دین اور آخری کتاب کیساتھ مبعوث کیا ہے اس حقیقت کو آپ نے بہت ہی حسین انداز میں پیش کیا ہے اور یہی آپ حضرت کی نعت کا نقطہ مرکزی ہے.فرماتے ہیں : ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ قمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کرکے دیکھا نور ہے نور اُٹھو دیکھو سُنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے اور آگے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونور الہی کے حامل ہونے کا بیان ہے اور پھر آپ کی محبت میں اس نور سے نہایت درجہ حصہ پانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عاشقانہ دعا ہے.مصطفے پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت فرماتے ہیں: جس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے لو تمھیں طور تسلی کا بتایا ہم نے آؤ لوگو! کہ یہیں نور خدا پاؤ گے!!

Page 283

المسيح 264 آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں مصطفے دل کو اِن نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے ترا بیحد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خُدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اُس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے اور عشق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے محامد میں بیان کرتے ہیں.فرماتے ہیں: تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے تیری اُلفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے دلبرا ! مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش جب سے دل میں یہ ترا نقش جمایا ہم نے دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے ہم ہوئے خیر ام تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے

Page 284

265 ادب المسيح قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر تیرے کوچہ میں مچایا ہم نے آپ کے مناقب میں بے انتہا پر معرفت اور فرمانِ قرآن کی اتباع میں یہ پر عظمت شعر فر مایا.ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل یہ شعر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ترجمہ ہے: تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران: 111) ہم نے اختصار کی غرض سے شانِ اسلام اور نعت رسول اکرم کی نظم سے صرف نعتیہ اشعار کو اختیار کیا ہے کیونکہ ہم شانِ اسلام سے متعلق اشعار کو ایک جداگانہ موضوع کے طور پر پیش کریں گے.گو یہ نظم اس شان کی ہے کہ اس کا مکمل طور پر مطالعہ کرنا بہت لطف دیتا ہے.آخر پر ایک چھوٹی سی صرف چار اشعار پر مشتمل نعت ہے بہت ہی سادہ و پُر کار ہے.نعت کے تمام مضمون اس میں جمع ہیں.محبت رسول بھی ہے.منصب رسول بھی ہے.اور شانِ قرآن کریم بھی.اور آخر پر بہت پیارے انداز میں فرمایا ہے وو ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے غلام احمد اضافت کیسا تھ بہت ہی خوبصورت موازنہ ہے جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء ربانی بنی اسرائیل کے انبیاء کا منصب رکھتے ہیں.اور غلام احمد نام کے طور پر بھی حسین ہیں کیونکہ آپ مسیح الزمان ہیں ان معنوں ہی میں آپ پر خدا کا الہام ہوا اور باری تعالیٰ کی نہایت درجہ حسین نعت ظہور میں آئی.الهام حضرت: برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے سبحان اللہ.اس نعت کا کون مقابل ہوگا.

Page 285

المسيح 266 پوری نظم پیش ہے.زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا ہے би ہوں انبیاء مگر بخدا بڑھ کر مقام احمد ہے باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے این مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے

Page 286

267 ادب المسيح حضرت اقدس کی نعت رسول اکرم فارسی زبان میں بہت درست کہا گیا ہے کہ فارسی زبان کا مزاج روحانی ہے.یہ حقیقت فارسی ادب کی تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ ابوالسعید ابوالخیر سے لے کر سعدی.رومی.جاتی.اور سنائی تک بلکہ اس منصب کے اور بہت سے اساتذہ نے ثناء باری تعالیٰ اور نعت رسول اکرم اور محبت الہی کے موضوعات کو اپنے ادب کا نصب العین بنالیا تھا یہ فارسی زبان کی قابل ناز خوش نصیبی ہے شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ابناء فارس میں سے ایک امام آخر زمان نے آنا تھا اور اس نے اس زبان میں اہل زبان کی طرح سے حقیقی محبت الہی کی ذیل میں تمام روحانی موضوعات پر کلام تخلیق کرنا تھا.اس زبان سے محبت رکھنے والوں کے لئے تو یہ مناسبت بہت موزوں اور عزیز ہوگی.اس بیان کے اثبات میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس نے نعت رسول کو فارسی زبان میں بہت کثرت سے بیان کیا ہے اور ہر صنف شعر میں بیان کیا ہے.نعت، قصائد ، مثنوی ، ابیات ، غزل اور نظم میں بھی ہے.یہ صورت تو خاص اس موضوع کے تحت کلام کی ہے وگرنہ آپ حضرت کے دستور کلام کے مطابق تو ہر روحانی موضوع یکے بعد دیگرے اول آخر پر کروٹ بدلتا رہتا ہے.اس لیے عشق رسول اکرم کے تحت نعتیہ کلام سے آپ کی زبانِ مبارک تر رہتی ہے.بات سے بات نکل رہی ہے معلوم نہیں کس کا ہے مگر دلفریب ہے.ما طفل کم سواد سبق قصہ ہائے دوست صد بار خوانده و دگر از سر گرفته ایم ہم ایسے نالائق طفل مکتب ہیں کہ دوست کے قصے کو سو بار پڑھا ہے مگر اس کو پھر سے پڑھنے لگتے ہیں اس کثرتِ بیان کے ہوتے ہوئے ہم نے یہ دستور اختیار کیا ہے کہ ہر صنف کلام سے نعت کے مضامین کے تحت کلام کو پیش کریں ابتدا آپ کے عظیم الشان دعائیہ قصیدے سے کرتے ہیں.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ کے بیان کو بہت محبت اور جوش سے شروع کرتے ہیں اور قصیدے کی اقدار ادب کے مطابق بہت ہی تمکنت اور عالمانہ انداز میں فرماتے ہیں: در دلم جوشد ثنائے سرورے آنکه در خوبی ندارد ہمسرے میرے دل میں اُس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا

Page 287

المسيح 268 آنکه جانش عاشق یار ازل آنکه روحش واصل آن دلبری وہ جس کی جان خدائے ازلی کی عاشق ہے وہ جس کی روح اُس دلبر میں واصل ہے آنکه مجذوب عنایات حق است بری ہمچو طفلے پروریده در وہ جو خدا کی مہربانیوں سے اُس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے آنکه در پر و کرم بحر عظیم آنکه در لطف اتم یکتا ڈرے وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے آنکه در جود و سخا ابر بهار آنکه در فیض و عطا یک خاورے جو بخشش اور سخاوت میں ابرِ بہار ہے اور فیض و عطا میں ایک سورج ہے آن کریم و جودِ حق را مظہرے وہ وہ اں رحیم و رحم حق را آیتے رحیم ہے اور رحمت حق کا نشان ہے وہ کریم ہے اور بخشش خداوندی کا مظہر ہے آن رخ فرخ که یک دیدار او زشت رو را می کند خوش منظری اُس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اُس کا ایک ہی جلوہ بد صورت کو حسین بنا دیتا ہے آں دل روشن که روشن کرده است صد درون تیره را چون اختری وہ ایسا روشن ضمیر ہے جس نے روشن کر دیا سینکڑوں سیاہ دلوں کو ستاروں کی طرح آں مبارک ہے کہ آمد ذاتِ أو رحمتے زاں ذات عالم پرورے وہ ایسا مبارک قدم ہے کہ اُس کی ذات خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہے احمد آخر زمان کز نور او شد دل مردم ز خور تاباں ترے اس احمد آخر زماں کے نور سے لوگوں کے دل آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئے از بنی آدم فزوں تر در جمال وز لالی پاک تر در گوھرے وہ تمام بنی آدم سے بڑھ کر صاحب جمال ہے اور آب و تاب میں موتیوں سے بھی زیادہ روشن ہے بر لبش جاری ز حکمت چشمه در دلش پر از معارف کوثرے اس کے منہ سے حکمت کا چشمہ جاری ہے اور اُس کے دل میں معارف سے پر ایک کوثر ہے اور قرآن کے فرمان کے مطابق آپ کے خدمت خلق کے جذبے کو بیان کرتے ہیں.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمُ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ ( التوبة : 128) ترجمہ : ” یعنی یہ رسول تمہاری تکلیف کو دیکھ نہیں سکتا.وہ اس پر سخت گراں ہے.اور اُسے ہر

Page 288

269 ادب المسيح وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں“.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) خواجه و مر عاجزان را بنده بادشاه و بیکساں را چاکرے وہ اگر چہ آتا ہے مگر کمزوروں کا غلام ہے.وہ بادشاہ ہے مگر بیکسوں کا چاکر ہے آں ترحمها که خلق از وے بدید کس ندیده در جہاں از مادرے وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اُس سے دیکھیں.وہ کسی نے اپنی ماں میں بھی نہیں پائیں.از شراب شوق جاناں بیخودی در سرش بر خاک بنہادہ سرے وہ محبوب کے عشق کی شراب میں بیخود ہے اُس کی محبت میں اُس نے اپنا سر خاک پر رکھا ہوا ہے روشنی از وے بہر قومی رسید تور أو رشید بر هر کشوری اُس ہر کو روشنی پہنچی.اُس کا نور قوم آیت رحمان برائے ہر بصیر ہر ملک پر چپکا حجت حق بہر ہر دیدہ ورے وہ ہر صاحب بصیرت کے لئے آیت اللہ اور ہر اہل نظر کے لیے حجت حق ہے ناتواناں را برحمت دستگیر خستہ جاناں را به شفقت غمخورے کمزوروں کا رحمت کے ساتھ ہاتھ پکڑنے والا اور ناامیدوں کا شفقت کے ساتھ غم خوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کے اظہار میں فرماتے ہیں: گرفتد کس را برآں خوش پیکرے یک نظر بہتر ز عمر جاوداں ہمیشہ کی زندگی سے ایک نظر بہتر ہے اگر اُس پیکرِ حُسن پر پڑ جائے منکه از حسنش ہے دارم خبر جاں فشانم گر وہر دل دیگرے میں جو اُس کے حسن سے باخبر ہوں اُس پر اپنی جان قربان کرتا ہوں جبکہ دوسرا صرف دل دیتا ہے یاد آن صورت مرا از خود برد ہر زمان مستم کند از ساغری اُس کی یاد مجھے بیخود بنا دیتی ہے.وہ ہر وقت مجھے ایک ساغر سے مست رکھتا ہے پریدم سوئے کوئے او مدام من اگر مے داشتم بال و پرے میں ہمیشہ اُس کے کوچہ میں اُڑتا پھرتا اگر میں پر و بال رکھتا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے منصب کو بیان کر کے اپنا سلام پیش کرتے ہیں.

Page 289

المسيح 270 چه می دارد بمدح کس نیاز مدح او خود فخر ہر مدحت گرے اُسے کسی کی تعریف کی کیا حاجت ہے اس کی مدح ہر مدحت گر کے لئے باعث فخر ہے ت او در روضه قدس و جلال و از خیال مادحاں بالا ترے وہ پاکیزگی اور جلال کے گلستان میں متمکن ہے اور تعریف کرنے والوں کے وہم سے بالا تر ہے اے خدا بر وے سلام ما رساں ہم بر اخوانش ز ہر پیغمبرے اے خدا ہمارا سلام اس تک پہنچا دے نیز ہر پیغمبر پر جو اس کا بھائی ہے اور آخر پر تمام انبیا اور خاص طور پر رسول اکرم کے طفیل ایک نہایت ہی مؤثر اور عاجزانہ مناجات کرتے ہیں.し پیغمبران را چاکریم! ہمچو خاکے اوفتاده پر درے ہم تو سب پیغمبروں کے غلام ہیں اور خاک کی طرح اُن کے دروازہ پر پڑے ہیں ہر رسولے کو طریق حق نمود جان ما قرباں برآں حق پرورے ہے ہر وہ رسول جس نے خدا کا راستہ دکھایا ہماری جان اُس راستباز پر قربان اے خداوندم به خیل انبیا کش فرستادی به فضل اوفرے اے میرے خدا ان انبیاء کے گروہ کے طفیل جن کو تو نے بڑے بھاری فضلوں کے ساتھ بھیجا ہے معرفت ہم وہ چو بخشیدی دلم ئے بدہ زاں ساں کہ دادی ساغرے مجھے معرفت عطا فرما، جیسے تو نے دل دیا ہے شراب بھی عطا کر جبکہ تو نے جام دیا ہے کش شدی در هر مقامے ناصرے اے خداوندم مصطف خداوندم بنام اے میرے خدا.مصطفے کے نام پر جس کا تو ہر جگہ مددگار رہا ہے دست من گیر ازره لطف و کرم در مهم باش یار و یاورے اپنے لطف و کرم سے میرا ہاتھ پکڑ اور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا تکیه بر زور تو دارم گرچه من ہنچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگر چہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر دوسرا را ئیہ قصیدہ بھی مشاہدہ کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب الہی کے بیان میں فرماتے ہیں: چوں زمن آید ثنائے سرورِ عالی تبار عاجز از مدحش زمین و آسمان هر دو دار مجھ سے اس عالی قدر سردار کی تعریف کس طرح ہو سکے جس کی مدح سے زمین و آسمان اور دونوں جہان عاجز ہیں و

Page 290

271 ادب المسيح آں مقام قرب کو دارد بدلدار قدیم کس نداندشان آن از واصلان کردگار قرب کا وہ مقام جوده محبوب از لی کے ساتھ رکھتا ہے اُس کی شان کو واصلان بارگاہ الہی میں سے بھی کوئی نہیں جانتا اں عنایت ہا کہ محبوب ازل دارد بدو کس بخوابے ہم ندیده مثل آں اندر دیار وہ مہربانیاں جو محبوب از لی اس پر فرما تا رہتا ہے.وہ کسی نے دنیا میں خواب میں بھی نہیں دیکھیں سرور خاصانِ حق شاہ گروه عاشقاں آنکه روحش کرد کے ہر منزل وصل نگار خاصانِ حق کا سردار اور عاشقانِ الہی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی روح نے محبوب کے وصل کے ہر درجہ کو طے کر لیا ہے یا نبی اللہ توئی خورشید رہ ہائے بدی بے تو نارد رو برا ہے عارف پرہیز گار اے نبی اللہ تو ہی ہدایت کے راستوں کا سورج ہے تیرے بغیر کوئی عارف پر ہیز گار ہدایت نہیں پاسکتا یا نبی اللہ لب تو چشمہ جاں پرور است یا نبی اللہ توئی در راه حق آموزگار اے نبی اللہ ! تیرے لب زندگی بخش چشمہ ہیں اے نبی اللہ! تو ہی خدا کے راستہ کا رہنما ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے ذکر میں فرماتے ہیں.زندگانی چیست جاں کردن براه تو فدا رستگاری چیست در بند تو بودن صید وار زندگی کیا ہے یہی کہ تیری راہ میں جان کو قربان کر دینا.آزادی کیا ہے؟ یہی کہ تیری قید میں شکار بن کر رہنا تا وجودم هست خواهد بود عشقت در دلم تا دلم دوران خون دارد به تو دارد مدار جب تک میرا وجود باقی ہے تیرا عشق میرے دل میں رہیگا جب تک میرے دل میں خون دورہ کرتا ہے تب تک اس کا دارو مدار تجھ پر ہے.یا رسول الله برویت عهد دارم استوار عشق تو دارم از اں روزے کہ بودم شیر خوار یا رسول اللہ میں تجھ سے مضبوط تعلق رکھتا ہوں اور اُس دن سے کہ میں شیر خوار تھا مجھے تجھ سے محبت ہے.در دو عالم نسبتی دارم بتو از بس بزرگ پرورش دادی مرا خود همچو طفلی در کنار دونوں جہانوں میں میں تجھ سے بے انتہا تعلق رکھتا ہوں.تو نے خود بچے کی طرح اپنی گود میں میری پرورش فرمائی.یادکن وقتیکه در کشفم نمودی شکل خویش یاد کن ہم وقت دیگر کآمدی مشتاق وار وہ وقت یاد کر جب تو نے کشف میں مجھے اپنی صورت دکھائی تھی اور ایک موقع بھی یاد کر جب تو میرے پاس مشتاقانہ تشریف لایا تھا

Page 291

المسيح 272 یاد کن آن لطف و رحمتها که با من داشتی وہ آں بشارت ہا کہ میدادی مرا از کردگار ان مہربانیوں اور رحمتوں کر یاد کر جو تو نے مجھے پر کیس اور اُن بشارتوں کو بھی جو خدا کی طرف سے تو مجھے دیتا تھا یاد کن وقتے چو بنمودی به بیداری مرا آں جمالے آں رُنے آں صورتے رشک بہار وہ وقت یا دکر جب بیداری میں تو نے مجھے دکھایا تھا.اپنا جمال وہ چہرہ اور وہ صورت جس پر موسم بہار بھی رشک کرتا ہے.ابیات اور مثنوی کی صنف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے رہبر کامل ہونے کی برکات کے بیان میں فرماتے ہیں.عظیم الشان نعتیہ کلام ہے.آں شہ عالم که نامش مصطفے در معارف سید عشاق حق شمس الضح وہ جہاں کا بادشاہ جس کا نام مصطفے ہے جو عشاق حق کا سردار اور شمس الضحی ہے.آنکہ ہر نورے طفیل نور اُوست آنکه منظور خدا منظور اوست وہ وہ ہے کہ ہر نوراسی کے طفیل سے ہے اور وہ وہ ہے جس کا منظور کردہ خدا کا منظور کردہ ہے.آنکہ بہر زندگی آب رواں ہچو بحر بیکراں اس کا وجود زندگی کے لیے آب رواں ہے اور حقایق اور معارف کا ایک نا پیدا کنارسمندر ہے.آنکه بر صدق و کمالش در جہاں صد دلیل و حجت روشن عیاں وہ کہ جس کی سچائی اور کمال پر دنیا میں سینکڑوں دلیلیں اور روشن براہین ظاہر ہیں.آنکہ انوار خدا بر روئے اُو مظهر کار خدائی کوئے اُو وہ جس کے منہ پر خدائی انوار برستے ہیں اور جس کا کوچہ نشانات الہی کا مظہر ہے.آنکہ جملہ انبیاء و راستان خادمانش ہمچو خاک آستاں وہ کہ تمام نبی اور راست باز خاک در کی طرح اس کے خادم ہیں.آنکه مهرش می رساند تا سما می کند چون ماه تاباں در صفا وہ کہ جس کی محبت آدمی کو آسمان تک پہنچاتی ہے اور صفائی میں چمکتے ہوئے چاند کی طرح بنادیتی ہے.از طفیل اوست نور ہر نبی! نام ہر مرسل بنام او جلی ہر نبی کا نور اسی کے طفیل سے ہے اور ہر رسول کا نام اس کے نام کی وجہ سے روشن ہے..

Page 292

مصطفے آئینہ روئے خدا سرت 273 ادب المسيح س در وے ہماں خوئے خداست مصطفے تو خدا کے چہرہ کا آئینہ ہیں ان میں خدا تعالیٰ کی ہی تمام صفات منعکس ہیں گرند بدستی خدا او را ببین مَنْ رَانِي قَدْ رَأَى الْحَق ایں یقیں اگر تو نے خدا کو نہیں دیکھا تو انہیں دیکھ یہ حدیث یقینی ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا“ غزل کی صنف میں ایک بہت ہی خوبصورت اور دلر با نعت ایسی ہے کہ اس کا حسن و خوبی بیان نہیں ہوسکتی.سادہ اور دلفریب مختصر مگر پر معارف.عشق رسول میں ڈوبی ہوئی نعت ہے.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است میری جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جلال محمد است میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمد کے جلال کا شہرہ ہے ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره ز بحر كمال محمد است معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں.یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے این آتشم ز آتش مهر محمدی ست و ایس آب من ز آب زلال محمد است یہ میری آگ محمد کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمد کے مصفا پانی میں سے لیا ہوا ہے غزل میں ایک اور پر معارف صدق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں ایک بہت ہی مؤثر نعت ہے.عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمد کی کان میں ایک عجیب و غریب لعل ہے ز ظلمت با دلے آنگه شود صاف که گردد از محبان محمد دل اُس وقت ظلمتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد صلعم کے دوستوں میں داخل ہو جاتا ہے عجب دارم دل آن ناکسان را که رو تابند از خوان محمد میں ان نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد صلعم کے دستر خوان سے منہ پھیر تے ہیں ندانم بیچ نفسی در که دارد شوکت و شان محمد دونوں جہان میں میں کسی شخص کو نہیں جانتا جو محمد کی سی شان و شوکت رکھتا ہو ذیل مستان محمد اگر تو نفس کی بدمستیوں سے نجات چاہتا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مستانوں میں سے ہو جا رو عالم اگر خواہی نجات از ہستی نفس! بیا در

Page 293

المسيح 274 اگر خواهی که حق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوان محمد اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو تہ دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مدح خواں بن جا محمد اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد بست برہان اگر تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تو اس کا عاشق بن جا کیونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی خودمحمد کی دلیل ہے آپ کے عشق رسول کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے بھی یہ شعر تخلیق فرما کر الہام کیا.از تیغ بران محمد الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس اے نادان اور گمراہ دشمن ہوشیار ہوجا اور محمد کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر ره مولی که گم کردند کردند مردم بجو در آل و اعوان محمد خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور انصار میں ڈھونڈھ الا اے منکر از شان محمد هم از نور نمایان محمد خبر دار ہو جا ! اے وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نیز محمد کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر ز ن غلمان محمد اگر چه کرامت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے ایک لاجواب قطعہ فَاتَّبِعُونِي يُحْسِبُكُمُ الله کے فرمان کے مطابق مشاہدہ کریں.محمد است امام و چراغ ہر دو جہاں محمد است فروزنده زمین و زمان محمد ہی دونوں جہانوں کا امام اور چراغ ہے محمد ہی زمین و زماں کا روشن کرنے والا ہے خدا نگونمش از ترس حق مگر بخدا خدا نماست وجودش برائے عالمیاں میں خوف خدا کی وجہ سے اُسے خدا تو نہیں کہتا مگر خدا کی قسم اس کا وجود اہل جہان کے لیے خدا نما ہے اور آخر پر عشق رسول اکرم کے اظہار میں چند نہایت درجہ خوبصورت اور دل ہلا دینے والے اشعار کا مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم خدا کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں ہر تاروپود من بسراید بعشق أو از خود تهی و از غم آن دلستاں پُرم میرے رگ وریشہ میں اُس کا عشق رچ گیا ہے میں اپنی خواہشات سے خالی اور اس معشوق کے غم سے پُر ہوں

Page 294

275 ادب المسيح من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است زہر بادِ صرصرم میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اُسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے یارب بزاریم نظرے کن بلطف وفضل جز دست رحمت تو دگر کیست یاورم اے میرے رب میری گریہ وزاری کو دیکھ کر لطف و کرم کی ایک نظر کر کہ تیری رحمت کے ہاتھ کے سوا اور کون میر امددگار ہے جانم فدا شود بره دین مصطفے ! این است کام دل اگر آید میترم! میری جان مصطفے کے دین کی راہ میں فدا ہو.یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش میتر آجائے

Page 295

ب المسيح 276 نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عربی زبان میں جیسا کہ ہم نے آپ حضرت کی فارسی نعت کے تعلق میں کہا ہے کہ وہ اس قدر تفصیل سے ہے کہ مکمل نعتیہ قصائد طوالت کے خوف سے پیش کرنے مشکل ہیں اس لیے ہم آپ کے قصائد میں سے بنیادی اقدار نعت کے چند نمونے پیش کرینگے.اسی دستور کو قائم رکھتے ہوئے ہم عربی میں اول اُس قصیدے کے نمونے پیش کرتے ہیں جس کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ: 1.یہ قصیدہ آپ کی دینی کاوش اور ذاتی محنت سے تحریر نہیں ہوا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی تائید اور راہنمائی سے تخلیق ہوا ہے 2.اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کا ادبی اسلوب اور محاسنِ کلام بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے.یہ قدرتِ کلام آپ کی صداقت کا ایک نشان ہے.آپ حضرت اس نعت کی ابتدا میں آنحضرت کے ذاتی صفات آپ کی عظمت و شان میں فرماتے ہیں.ياعين فيض الله والعرفان يسعى الیک الخلق كالظمان اے اللہ کے فیض و عرفان کے چشمے ! خلقت تیری طرف پیاسے کی طرح دوڑ رہی ہے.تهوی الیک الـزمـر بـالكيزان يا بحر فضل المنعم المنان ائے انعام و احسان کرنے والے خدا کے فضل کے سمندر الوگوں کے گروہ کوزے لئے ہوئے تیری طرف لپکے آرہے ہیں.یاشمس ملک الحسن و الاحسان نورت وجـه البـر و الـعـمـران اے حسن و احسان کے ملک کے آفتاب ! تو نے بیابانوں اور آبادیوں کے چہرے کو منور کر دیا ہے قوم رأوك و امة قد اخبرت من ذلك البدر الذي اصبـانـي ایک قوم نے تو تجھے دیکھا ہے اور ایک امت نے خبر سنی ہے اس بدر کی جس نے مجھے (اپنا) عاشق بنا دیا ہے يبكون من ذكر الجمال صبابة وتألما من لوعة الهجران وہ تیرے حسن کی یاد میں بوجہ عشق کے ( بھی ) روتے ہیں اور جدائی کی جلن کے دُکھ اُٹھانے سے بھی دوسرے قدم پر آپ کا مظہر صفات باری ہونے کا منصب بہت ہی خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ سے محبت کا یہی موجب ہے اس لیے محبت کا اصل حق آپ ہی کا ہے اور بہت ہی عظیم الشان بات کہتے ہیں کہ آپ تمام اول و آخر مقربانِ الہی سے افضل ہیں اور یہ فضیلت آپ کے کار ہائے نمایاں اور اعمال

Page 296

277 ادب المسيح صالحہ پر موقوف ہے نعت کے حقیقی مصادر اور اطلاق کے بیان میں یہ عظیم الشان معرفت کا نکتہ ہے.فرماتے ہیں: أرسلت من رب كريم محسن في الفتنة الصماء والطغيان تو ربّ کریم محسن کی طرف سے خوفناک فتنے اور طغیان اور سرکشی کے وقت بھیجا گیا يا للفتى ما حسنه و جماله رياه يصبى القلب كالريحان واہ! کیا ہی جوان مرد ہے! کیسے حسن و جمال والا ہے! جس کی خوشبو دل کو ریحان کی طرح موہ لیتی ہے وجه المهيمن ظاهر في وجهه و شــونــه لـمـعـت بهذا الشأن آپ کے چہرہ میں خدا کا چہرہ نمایاں ہے اور خدا کی صفات ( آپ کی ) اس شان سے جلوہ گر ہو گئیں فلذا يحب و يستحق جماله شغفا به من زمرة الاخدان سواسی لئے تو آپ سے محبت کی جاتی ہے اور آپ کا ہی جمال اس لائق ہے کہ دوستوں کے گروہ میں سے صرف آپ ہی سے بے پناہ محبت کی جائے سجح كريم باذل خل التقى خرق وفاق طوائف الفتيان آپ خوش خلق معز بنی ، تقوی کے بچے دوست، فیاض اور جواں مردوں کے گروہوں پر فوقیت رکھنے والے ہیں فاق الورى بكماله وجماله و جلالـه و جـنــانـه الـريـان آپ ساری خلقت سے اپنے کمال اور اپنے جمال اور اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گئے ہیں لا شک ان محمدا خير الورى ريق الكرام ونخبة الأعيان بے شک محمدصلی اللہ علیہ وسلم خیر الورای معززین میں سے برگزیدہ اور سر داروں میں سے منتخب وجود ہیں تمت عليـــه صـفـات كل مزية ختمت بـه نـعـمـاء کل زمان ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ پر کمال کو پہنچ گئیں اور ہر زمانہ کی نعمتیں آپ پر ختم ہو گئیں ہیں والله ان محمدا كردافة وبه الوصول بسدة السلطان بخدا! بے شک محمد ( خدا کے ) نائب کے طور پر ہیں اور آپ ہی کے ذریعہ در بارشاہی میں رسائی ہو سکتی ہے هو فخر كل مطهر و مقدس و به يباهي العسكر الروحاني آپ ہر ایک مظہر اور مقدس کا فخر ہیں اور روحانی لشکر آپ پر ہی ناز کرتا ہے هو خير كل مقرب متقدم والفضل بالخيرات لا بزمان آپ ہر مقرب اور ( راہ سلوک میں) آگے بڑھنے والے سے افضل ہیں اور فضیلت کار ہائے خیر پر موقوف ہے نہ کہ زمانہ پر.

Page 297

المسيح 278 تسلسل نعت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ ہونا اور اپنا امام الزمان ہونا بیان کرتے ہیں.اور ایک دلفریب اور والہانہ انداز میں اپنے عشق و محبت کو پیش کرتے ہیں اور نہایت درد سے شکایت کرتے ہیں کہ قوم نے آپ کے عشق کے باوجود آپ کو کافر کہ کر تکلیف پہنچائی ہے.فرماتے ہیں: ونبينا حی و انــی شـاهـد وقد اقتطفت قطائف اللقيان اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور بے شک میں گواہ ہوں اور میں نے آپ کی ملاقات کے ثمرات حاصل کئے ہیں.و رأيت في ريعان عمرى وجهه ثم النبي بيقظتی لاقاني میں نے تو (اپنے ) عنفوانِ شباب میں آپ کا چہرہ مبارک دیکھا.پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیداری میں بھی مجھے ملے ہیں.انى لقد أحييت من احيائه واها لاعجاز فما أحياني بے شک میں آپ کے زندہ کرنے سے ہی زندہ ہوا ہوں.سبحان اللہ! کیا اعجاز ہے اور مجھے کیا خوب زندہ کیا ہے! في هذه الدنيا و بعث ثان يارب صل علی نبیک دائمًا اے میرے ربّ! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ.اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی یا سیدی قد جئت بابک لاهفا و القوم بالاكفار قد اذاني اے میرے آقا! میں تیرے دروازے پر مظلوم و مضطر فریادی کی حالت میں آیا ہوں جبکہ قوم نے ( مجھے ) کافر کہہ کر ایذا دی ہے یفری سهامک قلب کل محارب و يشج عزمك هامة الثعبان تیرے تیر ہر جنگجو کے دل کو چھید دیتے ہیں اور تیرا عزم اثر دھا کے سر کو کچل ڈالتا ہے أنت السبوق و سيد الشجعان لله درك يا امام العالم آفرین تجھ پر اے دنیا کے امام! تو سب پر سبقت لے گیا ہے اور بہادروں کا سردار ہے انظر الى برحمة وتحنن یا سیدى انا احقر الغلمان تو مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر.اے میرے آقا! میں ایک حقیر ترین غلام ہوں پرر يا جب انك قد دخلت محبة في مهجتی و مدارکی و جنانی اے میرے آقا! تو از راہ محبت میری جان، میرے حواس اور میرے دل میں داخل ہو گیا ہے

Page 298

279 ادب المسيح لم اخل في لحظ ولا في أن من ذكر وجهک یا حديقة بهجتی اے میری خوشی کے باغ ! تیرے چہرے کی یاد میں ایک لحظہ اور آن کے لئے بھی خالی نہیں رہا جسمى يطير الیک من شوق علا یالیت كانت قوة الطيران میرا جسم تو شوق غالب سے تیری طرف اڑنا چاہتا ہے.اے کاش! مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی آخری تین اشعار میں آپ کی محبت کا اظہار دیکھو ایسا محبت بھرا کلام اور ایسی قدرت زبان اور یہ جذ باب نعت میں کہاں دستیاب ہو نگے آخری شعر دوبارہ سُن لیں یہ نعت کا حقیقی محور اور چشمہ ہے.جسمى يطير الیک من شوق علا یالیت کانت قوة الطيران میرا جسم تو شوق غالب سے تیری طرف اڑنا چاہتا ہے.اے کاش! مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی ایک بہت خوبصورت نعت چھوٹی بحر میں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت سے لبریز ملا حظہ کریں: يَا قَلْبِي اذكر أَحْمَدَا عَيْنَ الْهُدَى مُفْنِى الْعِدَا اے میرے دل ! احمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر جو ہدایت کا سرچشمہ اور دشمنوں کو فنا کرنے والا بَحْرَ الْعَطَايَا وَالْجَدَا امحُسِنَا ہے نیک ، کریم ، محسن، بخششوں اور سخاوت کا سمندر نِيرٌ زَاهِرٌ فِي كُلّ وَصُفٍ حُمدَا وہ چودھویں کا نورانی روشن چاند ہے.وہ ہر وصف میں تعریف کیا گیا ہے إحْسَانُهُ يُصْبِي الْقُلُوبَ وَحُسْنُهُ يُروى الصَّدا اس کا احسان دلوں کو موہ لیتا ہے اور اس کا حسن پیاس کو بجھا دیتا ہے نُورٌ مِّنَ اللَّهِ الَّذِي أَحْيَى الْعُلُوْمَ تَجَدُّدَا وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کردیا الْمُصْطَفَى وَالْمُجْتَبى والمُقْدَا وَالْمُجْتَدَا وہ برگزیدہ ہے، چنا ہوا ہے، اس کی پیروی کی جاتی ہے، اس سے فیض طلب کیا جاتا ہے جُمِعَتْ مَرَابِيعُ الْهُدَى فِي وَبُلِهِ حِيْنَ النَّدَى ہدایت کی بارشیں سخاوت کے وقت اس کی موسلا دھار بارش میں جمع کر دی گئیں

Page 299

ب المسيح 280 یہ غزل بھی دیکھیں نَفْسِي الْفِدَاءُ لِبَدْرٍ هَاشِمِي عَرَبِی ایسا خوبصورت مطلع ہے کہ انسان اس پر فدا ہو جائے.چند اشعار سن لیں نَفْسِي الْفِدَاءُ لِبَدْرٍ هَاشِمِي عَرَبِي وَدَادُهُ قُرَبِّ نَاهِيْكَ عَنْ قُرَبِ میری جان فدا ہو اس کامل چاند پر جو ہاشمی عربی ہے.آپ کی محبت قربتوں کا ایسا ذریعہ ہے جو تجھے باقی قربت کے ذرائع سے بے نیاز کر دینے والا ہے نَجَّا الْوَرَى مِنْ كُلِّ زُورٍ وَّ مَعْصِيَةٍ وَمِنْ فُسُوقٍ وَّ مِنْ شِرْكِ وَّ مِنْ تَبَبِ آپ نے مخلوق کو ہر جھوٹ اور گناہ سے نجات دی اور فسق سے ، شرک سے ، اور ہلاکت سے بھی فَنُوِّرَتْ مِلَّةٌ كَانَتْ كَمَعْدُومٍ ضُعْفًا وَّ رُحِمَتُ فَرَارِى الْجَآنَ بِالشُّهُبِ پس منور ہوگئی وہ ملت جو معدوم کی طرح تھی ضعف میں.اور شیطان کی ذریت شہابوں سے سنگسار کی گئی وَزَحْزَحَتْ دَخُنَّا غَشَّى عَلَى مِلَلٍ وَسَاقَطَتْ لُؤْلُؤًا رَطْبًا عَلَى حَطَبِ اور اس ملت نے ان تاریکیوں کو دور کر دیا جو قوموں پر چھائی ہوئی تھیں اور سوکھی لکڑیوں پر تر و تازہ موتی برسا دئے.وَنَضَّرَتْ شَجُرَ ذِكْرِ اللَّهِ فِي زَمَن مَحْلٍ يُمِيتُ قُلُوبَ النَّاسِ مِنْ لَعِبِ اور اس ملت نے شاداب کر دیا اللہ کے ذکر کے درخت کو ایسے خشک سالی کے زمانے میں جو دلوں کو کھیل کو د سے مردہ کر رہا تھا.فَلاحَ نُورٌ عَلَى أَرْضِ مُّكَدَّرَةٍ حَقًّا وَّ مُرِّقَتِ الْأَشْرَارُ بِالْقُضُبِ پس ظاہر ہوا ایک نور تاریک زمین پر یقینی طور پر اور پارہ پارہ کر دیے گئے شریر کاٹنے والی تیز تلواروں سے.وَمَا بَقَى أَثَرٌ مِنْ ظُلْمٍ وَّ بِدْعَاتٍ بِنُورِ مُهْجَةِ خَيْرِ الْعُجُمِ وَالْعَرَبِ اور ظلم اور بدعات کا کوئی نشان باقی نہ رہا عرب و عجم میں سے بہترین شخص کی جان کے نور کی وجہ سے کرامات الصادقین میں اپنے دعاوی کے دلائل کو پیش کرتے ہوئے بہت ہی خوبصورت نعت میں فرمایا کہ آپ نے خدا تعالیٰ کو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حاصل کیا ہے اور پھر آپ کے محاسن بیان کئے ہیں.رَتَيْنَاهُ مِنْ نُورِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَى وَلَوْلَاهُ مَا تُبْنَا وَلَا نَتَقَرَّبُ ہم نے اس (خدا) کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے ذریعہ پالیا.اگر وہ نبی نہ ہوتا تو نہ ہم رجوع الی اللہ ) کرتے اور نہ ہم ( خدا کے ) مقرب بنتے.

Page 300

281 ادب المسيح لَهُ دَرَجَاتٌ فِي الْمَحَبة تامة لَهُ لَمَعَاتٌ زَالَ مِنْهَا الْغَيْهَبُ اس نبی کو محبت الہی میں کامل درجات حاصل ہیں.اس کو ایسی شعاعیں ملی ہیں جن کے ذریعہ تاریکی دور ہو گئی ہے ذُكَاءٌ مُّبِيرٌ قَدْ آنَارَ قُلُوبَنَا وَلَهُ إِلَى يَوْمِ النَّشُورِ مُعَقِّبُ وہ روشنی کرنے والا آفتاب ہے اس نے ہمارے دلوں کو روشن کر دیا ہے اور اس کا قیامت کے دن تک کوئی نہ کوئی جانشین ہوتا رہے گا وَ فِي اللَّيلِ بَعْدَ الشَّمْسِ قَمَرٌ مُّنَوَّرٌ كَمَا فِي الزَّمَانِ نُشَاهِدَنُ وَ نُجَرِّبُ اور رات کو سورج کے بعد روشن چاند ہوتا ہے جیسا کہ ہم زمانہ میں مشاہدہ کرتے اور تجربہ رکھتے ہیں وَلِلَّهِ الْطَاقِ عَلَى مَنْ أَحَبَّهُ فَوَابِـلُـهُ فِي كُلِّ قَرْنٍ يَسْكَبُ اور خدا کی اس شخص پر مہربانیاں ہیں جو آپ سے محبت کرے پس آپ کی موسلا دھار بارش ہر صدی میں برسا کرتی ہے وَشِيْمَتُهُ قَدْ أَفْرَدَتْ فِي فَضَائِل وَقَدْ فَاقَ أَحْلَامَ الْوَرى أَفَتَعْجَبُ اور آپ کا خُلق فضائل میں یکتا ہو گیا ایسے حال میں کہ آپ اپنے اخلاق میں) مخلوق کی عقلوں (کے اندازے پر بھی فوقیت لے گئے.پس کیا تو حیران ہو رہا ہے کرامات الصادقین کے ایک اور قصیدے میں قرآن کریم کے فرمان بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (التوبة: 128) کا اتباع کرتے ہوئے آنحضرت کو صاحب حوض کوثر اور نائپ خدا کہتے ہیں.تَخَيَّرَهُ الرَّحْمَنُ مِنْ بَيْنِ خَلْقِهِ ذكَاءٌ بِجَلْوَتِهِ وَبَدَرٌ مُنَوَّرُ اسے خدائے رحمان نے اپنی مخلوق میں سے منتخب کر لیا ہے وہ اپنے جلوے میں سورج ہے اور چودھویں کا روشن چاند وَكَأَنَّ جَلَالٌ فِي عَرَانِينِ وَبُلِهِ خَفَى الْفَارَ مِنْ أَنْفَاقِهِنَّ الْمُمْطِرُ اس کی موسلا دھار بارش کے اوائل میں ہی عظیم الشان برسنے والے بادل نے چوہوں کو ان کے بلوں سے نکال دیا روفٌ رَّحِيمٌ كَهُفُ أُمَمٍ جَمِيعِهَا شَفِيعُ الْوَرَى سَلَّى إِذَا مَا أَضْحِرُوا وہ مہربان.رحیم ہے.سب قوموں کی پناہ ہے.مخلوق کا شفیع ہے.جب وہ تنگی میں پڑ جائیں تو تسلی دیتا ہے

Page 301

282 المسيح الا مَا هَرَفْنَا فِي فَنَاءِ رَسُولِنَا لَهُ رُتْبَةٌ فِيهِ الْمَدَائِحُ تُحْصَرُ سنو! ہم نے اپنے رسول کی تعریف میں مبالغہ نہیں کیا.اسے تو ایسا مرتبہ حاصل ہے جس میں تعریفیں ختم ہو جاتی ہیں فدًا لَّكَ رُوحِي يَا حَبِيبِي وَ سَيِّدِى فِدَا لَّكَ رُوحِي اَنْتَ وَرُدٌ مُّنَضْرُ میری روح تجھ پر قربان ! اے میرے پیارے اور میرے سردار ! میری جان تجھ پر فدا ہو.آپ تو تر و تازہ گلاب ہیں وَ مَا أَنْتَ إِلَّا نَائِبُ اللَّهِ فِي الْوَرَى وَاعْطَاكَ رَبُّكَ هَذِهِ ثُمَّ كَوْثَرُ اور تو ہی مخلوق میں اللہ کا نائب ہے اور خدا نے تجھے یہ نعمت بھی دی ہے اور کوثر بھی وَيَعْجَزُ عَنْ تَحْمِيدِ حُسْنِكَ مُؤْمِنُ فَكَيْفَ مُحَمِّدُكَ الَّذِي هُوَ يَكْفِرُ اور تیرے حسن کی تعریف کرنے سے تو مومن بھی عاجز ہے پھر کفر اختیار کرنے والا شخص تیری تعریف کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے؟ انجام آتھم میں تحریر شدہ عظیم الشان قصیدے میں بہت ہی درد بھری اور محبت رسول سے لبریز نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رقم فرمائی ہے.اس کا مطلع یہ ہے عِلْمِي مِنَ الرَّحْمَنِ ذِي الْآلَاءِ بِاللَّهِ حُزتُ الْفَضْلَ لَا بِدَهَاءِ میر اعلم خدائے رحمان کی طرف سے ہے جو نعمتوں والا ہے.میں نے خدا کے ذریعہ سے فضل الہی کو حاصل کیا ہے نہ کہ عقل کے ذریعہ فرماتے ہیں: مَنْ مُخْبِرٌ مِّنْ ذِلَّتِى وَ مُصِيبَتِي مَوْلَايَ خَتْمَ الرُّسُلِ بَحْرَ عَطَاءِ کوئی ہے جو میری ذلت اور مصیبت کی خبر دے میرے مولا خاتم الرسل کو جو بخشش کا سمندر ہیں يَا طَيِّبَ الْأَخْلَاقِ وَالْأَسْمَاءِ أفَأَنْتَ تُبْعِدُنَا مِنَ الْآلَاءِ اے پاکیزہ اخلاق اور پاک ناموں والے نبی ! کیا تو ہمیں اپنی نعمتوں سے دور رکھے گا أنتَ الَّذِي شَغَفَ الْجَنَانَ مَحَبَّةٌ أَنْتَ الَّذِي كَالرُّوحِ فِي حَوْبَائِي تو وہ ہے جس کی محبت دل میں گھر کر گئی ہے.تو وہ ہے جو میرے بدن میں روح کی طرح ہے انْتَ الَّذِي قَدْ جُذِبَ قَلْبِي نَحْوَهُ أنتَ الَّذِي قَدْ قَامَ لِلإِصْبَاءِ تو وہ ہے کہ جس کی طرف میرا دل کھچا ہوا ہے تو وہ ہے جو میری دلبری کے لئے کھڑا ہے

Page 302

283 ادب المسيح أنتَ الَّذِي بِوَدَادِهِ وَبِحُبِّهِ يَدْتُ بِالْإِلْهَامِ وَالْإِلْقَاءِ تو وہ ہے کہ جس کی محبت اور دوستی کے باعث میں الہام اور القاء الہی سے تائید یافتہ ہوا مزید فرماتے ہیں.إِنَّ الْمَحَبَّةَ لَا تُضَاعُ وَ تُشْتَرَى إِنَّا نُحِبُّكَ يَا ذُكَاءَ سَخَاءِ محبت ضائع نہیں ہوتی بلکہ اس کی قیمت پڑتی ہے.اے آفتاب سخاوت ! یقینا ہم تجھ سے محبت رکھتے ہیں.يَا شَمْسَنَا انْظُرُ رَحْمَةً وَتَحَتُنا يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلْقُ لِلِارُكَاءِ اے ہمارے آفتاب ! رحمت اور مہربانی کی نگاہ ڈالئے مخلوق آپ کی پناہ کے لئے دوڑی آرہی ہے أنْتَ الَّذِي هُوَ عَيْنُ كُلِّ سَعَادَةٍ تَهْوِى إِلَيْكَ قُلُوبُ أَهْلِ صَفَاءِ تو ہی ہے جو ہر سعادت کا چشمہ ہے.اہل صفاء کے دل تیری طرف مائل ہورہے ہیں أنتَ الَّذِي هُوَ مَبْدَءُ الأَنْوَارِ نَوَّرُتَ وَجُهَ الْمُدَن وَ الْبَيْدَاءِ تو ہی ہے جو مبدء انوار ہے تو نے شہروں اور بیابان کے چہرے کو منور کر دیا ہے إِنِّي أَرَى فِي وَجُهِكَ الْمُتَهَدِّلِ شَانًا يَّفُوْقَ شُونَ وَجُهِ ذُكَاءِ میں تیرے روشن چہرے میں دیکھ رہا ہوں ایسی شان جو آفتاب کے چہرے کی شانوں سے بھی بڑھ کر ہے شَمْسُ الْهُدَى طَلَعَتْ لَنَا مِنْ مَّكَّة عَيْنُ النَّدَى نَبَعَتْ لَنَا بِحِرَاءِ ہمارے لئے مکہ سے ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا اور ہمارے لئے بخشش کا چشمہ غار حراء سے پھوٹا ضَاهَتْ آيَاةُ الشَّمْس بَعْضَ ضِيَائِهِ فَإِذَا رَتَيْتُ فَهَاجَ مِنْهُ بُكَائِي آفتاب کی روشنی آپ کی روشنی سے کچھ ہی مشابہت رکھتی ہے.جب میں نے ( آپ کو ) دیکھا تو اس سے میری گریہ وزاری میں جوش آگیا اور آخر پر ایک بہت ہی دلفریب قطعہ مشاہدہ کریں.پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار کی جناب میں سلام ارسال کیا ہے اس طور پر محبت بھر اسلام کس نے بھیجا.حَمَامَتُنَا تَطِيرُ بِرِيشِ شَوْقٍ وَفِي مِنْقَارِهَا تُحَفُ السَّلَامِ ہماری کبوتری چونچ میں سلامتی کے تھے لئے ہوئے شوق کے پروں کے ساتھ اڑ رہی ہے إلى وَطَنِ النَّبِيِّ حَبِيبِ رَبِّي وَسَيِّدِ رُسُلِهِ خَيْرِ الْأَنَامِ میرے رب کے محبوب اور نبیوں کے سردار سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن کی طرف

Page 303

ب المسيح 284 مدحت و ترغیب دینِ اسلام اُردو زبان میں حضرت اقدس کے موضوعات شعری کے ضمن میں ہم نے عرض کیا تھا کہ آپ حضرت کے بہت سے موضوعات شعر ایسے ہیں جن کا اسلامی تعلیم و تہذیب سے بہت گہرا تعلق ہونے کے باوجود اسلامی ادب کے شعری سرمایہ میں ان کا نام و نشان نہیں ملتا.مثلا زیر قلم موضوع اور مدح قرآن اور مدح صحابہ ہے اور اعمال میں تقوی.صدق اور عجز وانکساری.یہ سب مضامین آپ حضرت کے کلام میں مستقل موضوعات کے طور پر اختیار فرمائے گئے ہیں.اسلامی ادب میں ان اہم مضامین کو پیش کرنے کا افتخار ہمارے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کے نصیب میں ہی لکھا تھا کیونکہ آپ امت مسلمہ کے مسیح دوراں اور امام آخر زمان تھے.زیر قلم موضوع کے تعلق میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امت مسلمہ میں مسجد دین کرام اور اصفیاء اور علماء ربانی نے اپنے قول اور فعل سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کا فریضہ بہت احسن طریق سے ادا کیا ہے اور ان ہی کی مساعی سے اسلام کی ترقی اور فروغ ہوا ہے.مگر اس موقع پر ہم اسلامی ادب کی بات کر رہے ہیں کہ آپ کے سرمایہ شعر میں تبلیغ و ترغیب اسلام کو ایک جداگانہ موضوع کے طور پر اختیار کیا گیا ہے.جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اس مضمون کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کا افتخار بھی آپ حضرت ہی کا ہے.یہ ہونا بھی تھا کیونکہ الہام الہی میں آپ ہی کے لیے یہ مقدر تھا کہ آپ احیاء دین اور قیام شریعت کریں گے.الهام حضرت اقدس يُحْيِ الدِّينَ وَ يُقِيمُ الشَّرِيعَةَ زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت دین کا لفظ دراصل ”اسلام“ کا مترادف ہے جیسا کہ فرمایا تذکرہ صفحہ 55 مطبوعہ 2004ء) اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَام اور پھر یہ پر تمکنت اور پر شکوہ الہام بھی تو ہے الہام حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام : چو دور خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند جب فارسی الاصل بادشاہ کا دور شروع ہوگا.تو نام نہاد مسلمانوں کو از سر نو مسلمان کیا جائے گا

Page 304

مقام او میں از راه تحقیر 285 ادب المسيح ناز کردند بدورانش رسولاں اس کے مقام کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھو کہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ناز کیا ہے مصرع نمبر 1 تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 514-516) اور خدا تعالیٰ کی جناب سے جو منصب آپ کو احیاء اسلام کی نسبت سے دیا گیا تھا.اس کا پر شوکت اور جری اللہی فرمان بھی قابل دید ہے.مجھ کو خود اس نے دیا ہے چشمہ توحید پاک تا لگا دے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے خیرگی پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار بدگمانی اس قدر اچھی نہیں ان دنوں میں جب کہ ہے شورِ قیامت آشکار ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامن اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بفرق ایں جدار در اصل اسلام ہی وہ دین ہے جس کو تمام انبیاء لے کر آئے اور حضرت ابراہیم کو تاکیداً فرمایا ہے.إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةٌ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة: 132) جب اس کے رب نے اس سے کہا کہ ہماری فرمانبرداری اختیار کر تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو تمام جہانوں کے رب کی فرمانبرداری اختیار کر چکا ہوں.اور فرمایا: وَوَفَّى بِهَا إِبْرَهِمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِى إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الَّذِينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (البقرة: 133) ترجمہ: اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے بھی اپنے بیٹوں کو اس بات کی تاکید کی

Page 305

المسيح 286 اور کہا اے میرے بیٹو اللہ نے یقیناً اس دین کو تمہارے لیے چن لیا ہے پس ہرگز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم اللہ کے پورے فرمانبردار ہو.اور پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا.مِلَّةَ أَبِيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَشْكُمُ الْمُسْلِمِينَ (الحج : 79) مومنو! اپنے باپ ابراہیم کے دین کو اختیار کرو.اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.اور اسی فرمان کی تفصیلی وضاحت میں خدا تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا.فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 163 - 164) آپ حضرت اس آیت کا ترجمہ فرماتے ہیں: " ( مخالفین کو ) کہہ دے ( میں جان کو عزیز نہیں رکھتا) میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا خدا کے لیے ہے وہی حق دار خدا جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے“ اور وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا باعث یہ ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے اس لیے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور اول المسلمین ہیں“ دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہ وہ نو ر اسلام ہے جو روز اول سے انبیاء کی تعلیم میں منزل بہ منزل سفر کرتا ہوا ہمارے آقا اور مطاع محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور آپ کے بعد آپ کے مہدی اور نائب کو عطا کیا گیا.اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ حضرت کا تمام کلام خواہ تحریر ہو یا تقریر تمام تر صداقت اسلام اور تبلیغ اسلام ہی کے گرد طواف کرتا ہے.آپ کے اوّل مخاطب عیسائی اور ہندو تھے کہ آپ کے وقت میں ان دو مذاہب کے ماننے والے سب سے بڑے مخالف اسلام تھے اور ان کے بعد آپ کے مخاطب خود مسلمان تھے کیونکہ انہوں نے حقیقی اسلام کو پس پشت ڈال کر من گھڑت عقائد بنالیے تھے اور تعلیم قرآن اور سنت رسول اکرم کے خلاف اسلام کو اختیار کر لیا تھا.ان عنوانات میں ہم اپنے مضمون ”ابلاغ رسالت میں آپ کا کلام پیش کر چکے ہیں اس لیے زیر نظر مضمون

Page 306

287 ادب المسيح میں صرف وہ کلام پیش کیا جائے گا جس میں آپ حضرت نے اسلام کی حمایت اور اس کی کسمپرسی کے غم اور فکر کا اظہار کیا ہے اور اسلام کے روحانی منصب عالی کو بیان کیا ہے.دینِ اسلام کی شان میں آپ کا کس قدر خوبصورت شعر ہے مصطفی پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اور فرمایا.اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ان تعارفی الفاظ کے بعد ہم اپنے دستور کے مطابق اول اس عنوان کے تحت قرآنِ کریم کے اصولی فرمودات کو پیش کرینگے یہ اس لیے کہ در حقیقت قرآن کریم کی تمام تعلیم دین اسلام کی دعوت وتبلیغ ہی ہے کیونکہ یہ مختصر مضمون اس تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیئے ہم نہایت اختصار کو لخوض رکھتے ہوئے اوّل قدم پر قرآن کریم کے اصولی اور بنیادی فرمان پیش کرتے ہیں.إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : 20) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزت پانے کے لائق نہیں.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن تُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ (ال عمران : 86) ان دونوں فرمودات کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ حضرت فرماتے ہیں: قرآن کریم نے اسلام کی نسبت جس کو وہ پیش کرتا ہے یہ فرمایا ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الإِسْلَامُ (سپاره 3 رکوع 10 ) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ تُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخُسِرِينَ ( سپاره 3 رکوع 17) ترجمہ: یعنی دین سچا اور کامل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اور جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا تو ہرگز قبول نہیں کیا جاوے گا.اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دوسرے مقام پر اسلام کی عظمت اور شان کے بیان میں قرآن کریم نے فرمایا ہے:

Page 307

المسيح 288 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِي الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 4) آپ حضرت اس فرمان کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں آج میں نے تمہارے لیے دین تمہارا کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو پسندیدہ کر لیا.اس فرمانِ خداوندی کی مزید تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) غرض یہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُم مسلمانوں کے لیے کیسے فخر کی بات ہے.....المال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی.وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقل مند اور با اخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیا.اور تطہیر نفس.تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرا دئے ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس مقام تک ہم نے تین فرمودات باری تعالی پیش کئے ہیں اوّل فرمان ایک اعلانِ عام کی صورت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں حقیقی دین صرف اسلام ہے اور دوسرے فرمان میں ایک تنبیہ ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین رکھنے والا مقبول نہیں ہوگا اور نقصان اُٹھائیگا.اور تیسرے فرمان میں دین اسلام کی خوبی کو بیان کر کے اس کو انسانیت کیلئے نعمت قرار دیا ہے مشاہدہ کریں کہ ان تین مضامین کو ہمارے پیارے مسیح دوراں نے کس خوبصورتی اور قلبی درد کیساتھ پیش کیا ہے اور اس بیان میں آپ حضرت کا اتباع قرآن بھی دیدنی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپ ان آیات کا شعر میں ترجمہ فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں: اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدی یہی ہے اے سونے والو جا گو! شمس الضحی یہی ہے کو قسم خُدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دینِ خُدا یہی ہے وُہ دِلستاں نہاں ہے کس رہ سے اُس کو دیکھیں مشکلوں کا یارو! مشکل گشا یہی ہے ان

Page 308

289 ادب المسيح اگر آیت إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران (20) کو سامنے رکھ کر ان اشعار کو پڑھیں تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ اتباع لفظ و معانی کس کو کہتے ہیں.جیسے کہ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دينا ( ال عمران : 86) کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے فرماتے ہیں: اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پٹے مرضی خدا یہاں پر غَيْرَ الْإِسْلامِ دِینا کے یہی معانی ہیں کہ خدا کی رضا کے خلاف دین.حقیقی اسلام کو حضرت نے موت قرار دیا ہے فرماتے ہیں.جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات اسی طور سے دیگر فرمودات قرآن کا اتباع ہے جو معمولی ذوق ادب رکھنے والے کے لیے بھی واضح ہو گا.فرماتے ہیں: اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سُورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن کا یہی ہے کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اُس سے بچنا عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے ملتی بادشاہی اس دیں سے ہے آسمانی اے طالبان دولت! ظل ہما یہی ہے سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ اُس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے سو سو نشاں دیکھا کر لاتا ہے وہ بلا کر مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدعا یہی ہے کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے

Page 309

ب المسيح 290 یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ اے گرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے کس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے دیں کی میرے پیارو!زریں قبا یہی ہے دوسرے مقام پر آپ کی عالیشان نظم ہے.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دیکھلائے یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا ٹور ہے اور اُٹھو دیکھو سُنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں ٹور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہی باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لیے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ نکلا یا ہم نے اس طور سے کلام کہنا اور باغ محمد سے روحانی اثمار نوش کرنا اُسی کے نصیب ہوسکتا ہے جو واصل باللہ ہو اور جس کو باری تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت کے نشان دکھائے ہوں.آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلّی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلا یا ہم نے جب سے یہ نور ملانور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے چولہ بابا نانک کی نظم میں بھی اسی صداقت کو پیش کر رہے ہیں کہ بابا صاحب کو الہام میں بتایا گیا تھا کہ جس خدا کی وہ تلاش کر رہے ہیں وہ اُن کو اسلام میں ہی ملے گا.وہ ہے مہربان و کریم و قدیر قسم اُس کی، اُس کی نہیں ہے نظیر جو ہوں دل سے قربانِ رب جلیل نہ نقصاں اُٹھاویں نہ ہوویں ذلیل اسی سے تو نانک ہوا کامیاب کہ دل سے تھا قربان عالی جناب

Page 310

291 ادب المسيح بتایا گیا اس کو الہام میں کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں یقیں ہے کہ نانک تھا ملہم ضرور نہ کر وید کا پاس اے پر غرور! دیا اس کو کرتار نے وہ گیان کہ ویدوں میں اُس کا نہیں کچھ نشاں اس نظم میں مزید فرماتے ہیں: تو ڈرتا ہے لوگوں سے اے بے ہنر خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟ یہ تحریر چولہ کی ہے اک زباں! سنو وہ زباں سے کرے کیا بیاں که دمین خُدا دین اسلام ہے جو ہو منکر اُس کا بد انجام ہے دین اسلام کے غم میں فرماتے ہیں: اے میرے یار یگانہ! اے میری جاں کی پناہ! کر وہ دن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن پھر بہار دیں کو دکھلا اے میرے پیارے قدیر! کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سُورج دکھا اس دیں کے چپکانے کے دن دل گھٹا جاتا ہے ہر دم جاں بھی ہے زیروز بر چہرہ اک نظر فرما که جلد آئیں تیرے آنے کے دن وکھلا کر مجھے کر دیئے غم سے رہا کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے کیا مرے دلدار تو آئے گا مرجانے کے دن ڈوبنے کو ہے یہ ہے یہ کشتی آمرے اے ناخُدا آگئے اس باغ پر اے یار مُرجھانے کے دن تیرے ہاتھوں سے میرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ دیں میت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن

Page 311

ب المسيح 292 اک نشان دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں دل چلا ہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دن اسلام کے غم میں ایک اور مناجات بھی سُن لیں: دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سُورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے خاک میں ہوگا یہ سر گر تو نہ آیا بن کے یار فضل کے ہاتھوں سے اب اسوقت کر میری مدد کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر تا نہ خوش ہو دشمنِ دیں جس پہ ہے لعنت کی مار مرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کو سُن میں ہوگیا زار و نزار دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفے مجھکو کر اے میرے سُلطاں کامیاب و کامگار کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مُراد یہ تو تیرے پر نہیں اُمید اے میرے حصار یا الہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سُن لے پکار قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے چھا رہا ہے ابر پاس اور رات ہے تاریک و تار ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے مولی اسطرف دریا کی دھار

Page 312

293 ادب المسيح مدحت و ترغیب اسلام فارسی زبان میں جیسا کہ ہم نے کہا ہے.دراصل شعر اس وقت تخلیق ہوتا ہے جب جذبات قلبی محبت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں.آپ حضرت کے قلبی جذبات اور رجحانات محبت الہی.محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے گرد ہی طواف کرتے ہیں اور یہی آپ کے شعر کے بنیادی موضوعات ہیں اور آپ حضرت نے انہی تینوں زبانوں میں قلبی محبت سے کلام فرمایا ہے اور ان سب کے ادبی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے فرمایا ہے مگر روحانی احساسات اور جذبات کے بیان میں فارسی زبان کے اشعار میں آپ کی حسن بیان کی لفظی اور معنوی خوبی سب زبانوں پر فائق نظر آتی ہے.شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ فارسی زبان نے بہت قدیم سے روحانی موضوعات کو اختیار کر کے اِن کے اظہار کا ایک عظیم لفظی اور مجازی سرمایہ مرتب کر لیا تھا اس وجہ سے ان جذبات کا اظہار اس زبان میں بہتر طور سے ہوسکتا تھا مگر ایک اہم وجہ یہ بھی تو ہے کہ آپ فارسی الاصل ہیں اور آپ کے شعر کی خوبی اور دیگر شعراء پر فائق ہونے کی حیثیت کو اللہ تعالیٰ نے فارسی ہی میں بیان کیا ہے.فرمایا (الهام حضرت اقدس) در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخله نیست ترجمہ: تیرے کلام میں ایک ایسی چیز (خوبی ) ہے جو شاعروں کو نصیب نہیں ہوئی.( تذکرہ صفحہ 508 - مطبوعہ 2004ء) گو یہ بات بہت مرتبہ کہی جاچکی ہے مگر ہمارے لیے اس تکرار میں ایک مزا ہے جو ہم بار بار چاہتے ہیں.اس کوشش میں ہی ہم اسی حقیقت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں.کیونکہ اس موضوع کا تعلق بھی آپ کے اشعار کا بنیادی عنوان ہے اس لیے فارسی زبان میں بھی آپ حضرت نے اس مضمون کو بار بار اختیار فرمایا ہے اور نظم کی ہر صنف میں اس کو بیان کیا ہے.حمایت و اعانت اسلام ابیات میں بھی موجود ہے.قصیدے میں اور نظم اور غزل میں بھی ہے ہم کوشش کریں گے کہ ان کو نفس مضمون کے مطابق ترتیب سے لکھیں.اول مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ حضرت نے دینِ اسلام کی صداقت کو پانے کے لیے بہت محنت اور کاوش کی ہے.

Page 313

ادب المسيح فرماتے ہیں: 294 بہر مذھبے غور کردم ایسے! شنیدم بدل محجبت ہر کسے میں نے ہر مذہب پر خوب غور کیا اور ہر شخص کی دلیل کو توجہ سے سُنا بخواندم ز ہر ملتے دفتری بدیدم ز ہر قوم دانشورے میں نے ہر مذہب کی بہت سی کتابوں کو پڑھا اور ہر قوم کے عقلمندوں کو دیکھا ہم از کودکی سوئے ایں تاختم دریس شغل خود را بینداختم بچپن سے ہی میں نے اس (راہ) کی طرف توجہ کی اور اپنے تئیں اسی شغل میں ڈال دیا ہمہ اندریس باختم دل از غیر این کار پرداختم! جوانی به داد اپنی جوانی بھی میں نے اسی میں خرچ کی اور دل کو اور کاموں سے فارغ کردیا بماندم دریں غم زمان دراز نخفتم ز فکرش شبان دراز میں ایک لمبا عرصہ اسی غم میں مبتلا رہا اور اس بات کی فکر میں راتوں نھیں سویا نگه کردم از روئے صدق و سداد بترس خدا و بعدل و میں نے حق اور راستی کو مدنظر رکھ کر اور خدا کا خوف کر کے عدل وانصاف کے ساتھ خوب غور کیا چو اسلام دینے قوی و متین ندیدم که بر منبعش آفرین تو میں نے اسلام کی مانند قوی اور مضبوط دین اور کوئی نھیں پایا.اس کے منبع پر آفرین ہو اور دین اسلام کے صدق کو قبول کر کے فرماتے ہیں.الله الله چه پاک دین ست این رحمت رب عالمین ست این اللہ اللہ یہ کیسا پاک مذہب ہے جو سراسر ربّ العالمین کی رحمت ہے آفتاب ره صواب است ایں بخدا ز آفتاب ست این یه راه راست کا سورج ہے.خدا کی قسم یہ دین سورج سے بھی بہتر ہے ے بر آرد ز جهل و تاریکی! سوئے انوار قرب و نزدیکی جہالت اور اندھیرے سے نکال کر قرب و وصل کے انوار کی طرف لاتا ہے دسین پاک ست ملت اسلام از خدائیکه هست علمش تام پاک دین صرف اسلام کا دین ہے اور یہ اُس خدا کی طرف سے ہے جس کا علم کامل ہے به

Page 314

295 ادب المسيح زیں کہ دیں از برائے آں باشد که ز باطل بحق کشاں باشد چونکہ دین اس لیے ہوتا ہے کہ باطل سے چھڑا کر حق کی طرف کھینچ کر لے جائے فرماتے ہیں نیچے دین کی یہ خوبی ہے کہ باطل سے حق کی طرف کھینچتا ہے اور اس سے ”لقاء باری تعالیٰ حاصل ہوتی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جو بجز اسلام کے دیگر ادیان میں پائی نہیں جاتی.فرماتے ہیں.دین ہماں باشد که نورش باقی است و از شراب دید ہر دم ساقی است دین وہی ہے جس کا نور قائم دائم ہے اور ہر وقت شراب معرفت کے جام پلاتا ہے اور فرماتے ہیں.جان کنی صد کن بكين مصطفى راه نه بینی جز به دین مصطفی مصطفی کی دشمنی میں صد بار تیری نوبت جانکنی تک پہنچ جائے پھر بھی تو مصطفی کے دین کے سوا سیدھا راستہ نہ پائے گا اور فرماتے ہیں: تا نه نور احمد آید چارہ گر کس نمی گیرد از تاریکی بدر جب تک احمد کا نور چارہ گر نہ ہو تب تک کوئی تاریکی سے باہر نہیں آسکتا دینِ اسلام کی اسی خوبی کو کہ اولیاء اور واصلین باری تعالیٰ صرف اس دین میں ہوتے ہیں حضرت بیان بست کرتے ہیں.الغرض ذات اولیاء کرام مخصوص ملت اسلام خلاصہ کلام یہ ہے کہ اولیاء کرام کی ذات مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہے خدمت دین کے شوق کا اظہار بھی مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: یا رب بزاریم نظرے کن بلطف وفضل جز دست رحمت تو دگر کیست یاورم اے میرے رب میری گریہ وزاری کو دیکھ کر لطف و کرم کی ایک نظر کر کہ تیری رحمت کے ہاتھ کے سوا اور کون میر امددگار ہے.جانم فدا شود بره دین مصطفیٰ این است کام دل اگر آید میترم میرے جان مصطفے کے دین کی راہ میں فدا ہو یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش میسر آجائے

Page 315

المسيح اور فرماتے ہیں: 296 چوں گمانے کنم اینجا مددِ روح قدس که مرا در دل شاں دیو نظر می آید میں یہاں روح القدس کی مدد کا گمان کیونکر کر سکتا ہوں کہ مجھے تو ان کے دل میں دیو بیٹھا ہوا نظر آتا ہے این مرد هاست در اسلام چو خورشید عیاں کہ بہر عصر مسیحائے دگر می آید اسلام میں یہ امداد سورج کی طرح ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کے لئے نیا مسیحا آتا ہے آپ کے وقت میں اسلام کی بیکسی کے غم میں ایک بہت ہی مؤثر اور دردناک نظم میں فرماتے ہیں.بیکیسے شد دینِ احمد پیچ خویش و یار نیست ہر کسے در کار خود بادین احمد کار نیست دین احمد بیس ہو گیا کوئی اس کا غم خوار ہیں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے احمد کے دین سے کچھ واسطہ نہیں ہر طرف سیل ضلالت صد ہزاراں تن ربود حیف بر چشمے کہ اکنوں نیز ہم ہشیار نیست گمراہی کا سیلاب ہر طرف لاکھوں انسانوں کو بہا کر لے گیا اُس آنکھ پر افسوس جواب بھی ہشیار نہیں ہوئی اے خدواندان نعمت ایں چنیں غفلت چر است بیخود از خوابید یا خود بخت دیں بیدار نیست اے دولت مندو! اس قدر غفلت کیوں ہے.تم ہی نیند سے بے ہوش ہو یا دین کی قسمت سو گئی ہے اے مسلماناں خدا را یک نظر بر حال دیں آنچہ مے بینم بلاہا حاجتِ اظہار نیست اے مسلمانو! خدا کے لیے دین کی طرف ایک نظر تو دیکھ لو میں جو بلائیں دیکھ رہا ہوں ان کے اظہار کی حاجت نہیں خونِ دیں بینم رواں چوں کشتگانِ کربلا اے عجب این مرد مانرا مهر آن دلدار نیست کشتگان کربلا کی طرح میں دین کا خون بہتا ہوا د یکھتا ہوں مگر تعجب ہے کہ ان لوگوں کو اس محبوب سے کچھ بھی محبت نہیں مزید فرمایا: ہر زماں از بهر دیں درخونِ دل من می تپد محرم این دردما نجو عالم اسرار نیست میرادل دین کی خاطر ہر وقت خون میں تڑپ رہا ہے ہمارے اس درد کا واقف خدا کے سوا اور کوئی نہیں آنچه بر ما می رود از غم که داند جو خدا زہر مے نوشیم لیکن زہرہ گفتار نیست غم جو ہم پر گذر رہا ہے اسے خدا کے سواکون جان سکتا ہے ہم زہر پی رہے ہیں لیکن بولنے کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ شعر بھی سُن لیں.جانم فدا شود بره دین مصطفٰے این است کام دل اگر آید میترم! میری جان ن مصطفی کے دین کی راہ میں فدا ہو یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش میتر آجائے

Page 316

297 ادب المسيح اور فرماتے ہیں: بروئے یار کہ ہرگز نہ رتبتے خواهم مگر اعانت اسلام مدعا باشد خدا کی قسم میں ہر گز کوئی عزت اور مرتبہ نہیں چاہتا میرا مطلب تو صرف تائید اسلام ہے سیاه باد رخ بخت من اگر به دلم دگر غرض بجز از یار آشنا باشد میری قسمت کا منہ کالا ہو اگر میرے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی غرض ہو ره خلاص کجا باشد آن سیه دل را آں که با چنیں دل من درپئے جفا باشد اُس سیاہ دل انسان کو نجات کیونکر مل سکتی ہے جو میرے جیسے دل والے پر ظلم کرنے کے درپے ہو غزل کے انداز میں بہت درددل سے اسلام کی خدمت کی دعوت فرماتے ہیں.دوستاں خود را ثارِ حضرتِ جاناں کنید در ره آن یار جانی جان و دل قرباں کنید اے دوستو اپنے تئیں محبوب حقیقی پر قربان کردو اور اس جانی دوست کی راہ میں جان و دل نثار کردو آں دل خوش باش را کاندر جہاں جو ید خوشی از پئے دین محمد کلبه احزاں کنید اس آرام پسند دل کو جو اس جہان میں خوشیاں ڈھونڈتا ہے محمد کے دین کی خاطر بیت الحزن بنادو از تعیش ہا بروں آئید اے مردانِ حق خویشتن را از پئے اسلام سرگرداں کنید اے مردانِ خدا عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ دو اور اب اپنے آپ کو اسلام کی خاطر سر گرداں کرو دین محمد کی محبت میں کس قدر پیارا فرمان ہے کہ اس دل کو جو دنیا کی خوشیاں تلاش کرتا رہتا ہے.دین محمد کی محبت میں غم کدہ بنا دو.ایک نہایت درجہ مؤ ثر نظم میں تلقین فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تم نے دینِ اسلام کی خدمت کی تو خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہارا صحابہ رسول سے ایک تعلق پیدا ہو جائے گا.بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا اے جوانو ! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہوا اور ملتِ اسلام کے باغ میں بہار اور رونق آئے اگر یاراں کنوں بر غربت اسلام رحم آید با صحاب نبی نزد خدا نسبت شود پیدا اے دوستو! اگر اب تم اسلام کی غربت پر رحم کرو تو خدا کے ہاں تمہیں آنحضرت کے صحابہ سے مناسبت پیدا ہو جائے پھر خدمت گزارانِ اسلام کو دعا دیتے ہیں.فرماتے ہیں:

Page 317

المسيح 298 کریما صد گرم کن بر کسے گو ناصر دین است بلائے او بگر داں گر گئے آفت شود پیدا اے خداوند کریم سینکڑوں مہربانیاں اس شخص پر کر جو دین کامددگار ہے اگر کبھی آفت آئے تو اس کی مصیبت کو ٹال دے چناں خوش دار اورا اے خدائے قادر مطلق که در هر کاروبار و حال او جنت شود پیدا اے خداوند قادر مطلق اُسے ایسا خوش رکھ کہ اس کی حالت اور سب کا روبار میں ایک جنت پیدا ہو جائے اور اس نظم کے آخر پر فرماتے ہیں کہ کیا آپ کی اس نصیحت سے یہ ظاہر نہیں ہو گیا کہ آپ کو صلح امت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے.عجب دار یداے نا آشنایاں غافلاں از دیں که از حق چشمہ حیواں درمیں ظلمت شود پیدا اے دین سے غافل اور نا واقف انسا نو کیا تمہیں تعجب آتا ہے کہ اس اندھیرے میں خدا کی طرف سے ایک چشمہ حیات پیدا ہو گیا ہے چرا انسان تعجب با کند در فکر این معنی که خواب آلودگاں را رافع غفلت شود پیدا آدمی یہ بات سوچ کر کیوں حیران ہو کہ نیند کے متوالوں کے لیے ایک غفلت کا دور کرنے والا پیدا ہو گیا فراموشت شداے قوم احادیث نبی اللہ که نزد ہر صدی یک مصلح امت شود پیدا اے میری قوم.تو رسول اللہ کی حدیثوں کو بھی بھول گئی کہ ہر صدی کے سر پر امت کے لیے ایک مصلح پیدا ہوا کرتا ہے اور اسی مضمون میں ہے کہ آپ کی بعثت احیاء دین اسلام کے لیے ہوئی ہے.فرماتے ہیں: ہر کہ آمد بدو بصدق و صفا یابد از وے شفا بحکم خدا وشخص اس کے پاس صدق و صفا کے ساتھ آتا ہے وہ خدا کے حکم سے شفا پاتا ہے از خدائے علیم مخفیات گفت پیغمبر ستوده صفات ستودہ صفات پیغمبر نے غیب دان علیم خدا پر سیر ہر صدی برون آید علم پاکر کہا ہے ہے شاید آنکه این کار را کہ ہر صدی کے سر پر ایسا شخص ظاہر ہوتا ہے جو اس کام کے لائق ہوتا ہے برکات تا شود پاک ملت از بدعات تا بیابند خلق زو تا کہ مذہب بدعات سے پاک ہو جائے.اور مخلوق اس سے برکتیں حاصل کرے

Page 318

299 ادب المسيح الغرض ذاتِ اولیائے کرام ہست مخصوص ملت اسلام خلاصہ کلام یہ کہ اولیائے کرام کی ذات مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہے ترتیب کے اعتبار سے آخر پر مگر موضوع کے اعتبار سے سب سے اول وہ قصیدہ پیش کیا جاتا ہے.جو آپ حضرت نے دینِ اسلام کی بے بسی اور پریشان حالی کے بیان میں تحریر فرمایا ہے.جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ قصیدہ سعدی کے قصیدے کے جواب میں ہے جو انہوں نے خلافت عباسیہ کی شکست وریخت کے غم میں تحریر کیا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ خلافت عباسیہ کے خاتمے سے اسلام کی عظمت وشان ختم ہوگئی ہے.کہتے ہیں: آسماں راحق بودگر خوں ببارد برزمین بر زوال ملک مستعصم امیرالمومنین آسمان پر فرض ہے کہ مستعصم امیر المومنین کی تباہی پر زمین پر خون برسائے آپ حضرت نے سعد کی ہی کی زمین اور قافیہ میں اُس کا جواب پیش کیا ہے اور فرمایا کہ خون کے آنسو رونے کا مقام تو یہ ہے کہ اسلام بے یارو مددگار ہو گیا اور مسلمانوں میں کوئی اس کا حامی اور مدگار نہ رہا.فرماتے ہیں: می سزد گر خوں بارد دیدہ ہر اہلِ دیں بر پریشاں حالیءِ اسلام و قحط المسلمیں و مناسب ہے کہ ہر دیندار کی آنکھ خون کے آنسو روئے.اسلام کی پریشان حالی اور قحط المسلمین پر دین حق را گردش آمد صعبناک و سهمگیں سخت شورے اوفتاد اندر جہاں از کفر و کیس خدا کے دین پر نہایت خوفناک اور پر خطر گردش آگئی.کفر وشقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہو گیا آنکه نفس اوست از هر خیر و خوبی بے نصیب مے تراشد عیبها در ذات خیرالمرسلین و شخص جس کا نفس ہر ایک خیر وخوبی سے محروم ہے وہ بھی حضرت خیر الرسل کی ذات میں عیب نکالتا ہے آنکه در زندان ناپاکی ست محبوس و اسیر هست در شانِ امام پاکبازاں نکتہ چیں! وہ جو خود ناپاکی کے قید خانے میں اسیر و گرفتا ہے وہ بھی پاکبازوں کے سردار کی شان میں نکتہ چینی کرتا ہے تیر بر معصوم سے بارد خیٹے بد گہر آسما نرا می سزد گرسنگ بارد بر زمیں بداصل اور خبیث انسان اُس معصوم پر تیر چلاتا ہے آسمان کو مناسب ہے کہ زمین پر پتھر برسائے پیش چشمان شما اسلام در خاک اوفتاد چیست عذرے پیش حق اے مجمع لمتنعمیں تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلام خاک میں مل گیا.پس اے گروہ امرا تمہارا خدا کے حضور میں کیا عذر ہے

Page 319

ب المسيح 300 ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہیچو زین العابدین افواج یزید کی مانند ہر طرف کفر جوش میں ہے اور دین حق زین العابدین کی طرح بیمار و بیکس ہے اور اسلام کی اس دردناک حالت کے بیان کے بعد فرماتے ہیں کہ اسلام کی عظمت اور شوکت اول بھی اس کے دین کی صداقت اور روحانیت کی بنا پر تھی اور آج بھی اُسی طور سے دوبارہ قائم ہوگی.فرماتے ہیں: آن زمان دولت اقبال ایشان در گذشت شومئی اعمال شاں آورد ایا مے چنیں ان کے دولت و اقبال کا زمانہ تو گذر گیا.اب ان کے اعمال کی نحوست ایسے دن لے آئی از ره دین پروری آمد عروج اندر نخست باز چوں آید بیاید ہم ازیں رہ بالیقیں پہلے جو ترقی ہوئی تھی وہ دین پروری کے راستہ سے ہوئی تھی پھر بھی جب ہوگی یقیناً اسی راہ سے ہوگی یا الہی باز کے آید ز تو وقت مدد باز کے بینیم آں فرخندہ ایام وسنیں اے خدا پھر کب تیری طرف سے مدد کا وقت آئے گا اور ہم پھر وہ مبارک دن اور سال کب دیکھیں گے این دو فکرِ دین احمد مغز جان ما گداخت کثرت اعدائے ملت قلت انصار دیں دین احمد کے متعلق ان دو فکروں نے میری جان کا مغر گھلا دیا اعدائے ملت کی کثرت اور انصار دین کی قلت اے خدا زود آو بر ما آب نصرت با بیار یامرا بر دار یارب زیں مقام آتشیں اے خدا جلد آ اور ہم پر اپنی نصرت کی بارش برساور نہ اے میرے رب اس آتشیں جگہ سے مجھ کو اٹھا لے اے خدا نور ہدگی از مشرق رحمت برار گمرہاں را چشم گن روشن ز آیاتے مبیں اے خدا رحمت کے مطلع سے ہدایت کا نور طلوع کر اور چمکتے ہوئے نشان دکھلا کر گمراہوں کی آنکھیں روشن کر

Page 320

301 ادب المسيح مدحت و ترغیب دینِ اسلام عربی زبان میں جیسا کہ بہت مرتبہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت اقدس کے ادبی شاہ پاروں کی ایک عظیم الشان خوبی یہ ہے کہ وہ ہر زبان کے ادب عالیہ کے اقدار کی پاسداری کیساتھ بیان ہوئے ہیں اور پاسداری بھی ایسی کہ تینوں زبانوں کے اساتذہ شعر آپ کے موضوعات میں اپنی ہی زبان میں آپ کے کلام کے مقابل پر نہیں آسکتے عربی زبان کا کلاسیکی دستور ا دب جاہلیہ نے متعین کیا ہے اور اس کی اول پہچان مبارزت ہے یعنی زندگی کے تمام جذبات کے اظہار میں تقابل اور تفاخر.باجود اس کے کہ آپ حضرت کے موضوعات ادب جاہلیہ سے کوئی اشتراک نہیں رکھتے.آپ حضرت نے عربی کی اس ادبی قدر کو بہت احسن انداز میں برقرار رکھا ہے زیر نظر موضوع کی امثال کو مشاہدہ کریں تو یہ حقیقت بہت واضح ہو جائے گی حمایت اسلام میں فرماتے ہیں: شَمْسُ الْهُدَى طَلَعَتْ لَنَا مِنْ مَكَّةَ عينُ النَّدَا نَبَعَتْ لَنَا بِحِرَاءِ ہدایت کا آفتاب ہمارے لئے مکہ سے طلوع ہوا.بخششوں کا چشمہ ہمارے لئے حراء سے پھوٹ پڑا ضَاهَتُ أَيَاةُ الشَّمْسِ بَعْضَ ضِيَائِهِ فَإِذَا رَأَيْتُ فَهَاجَ مِنْهُ بُكَائِي سورج کی شعاعیں اس کی ضیاء کے ایک حصہ سے مشابہ ہیں جب میں نے (اس سورج کو ) دیکھا تو اس سے میرے رونے میں ہیجان پیدا ہو گیا أَعْلَى الْمُهَيْمِنُ هِمَمَنَا فِي دِينِهِ نَبْنِي مَنَازِلَنَا عَلَى الْجَوْزَاءِ خدائے مہمن نے اپنے دین کے بارہ میں ہماری ہمتوں کو بلند کیا ( چنانچہ ) ہم اپنی منزلیں ستارہ جوزاء پر بنا رہے ہیں تَسْعَى كَفِتيَانِ بِدِينِ مُحَمَّدٍ لَسْنَا كَرَجُلٍ فَاقِدِ الْأَعْضَاءِ ہم محمد کے دین کے لئے نوجوانوں کی طرح سعی و کوشش کرتے ہیں.ہم اس آدمی کی طرح نہیں جس کے اعضاء ہی مفقود ہو گئے ہوں نِلْنَاثُرَيَّاءَ السَّمَاءِ وَ سَمُكَهُ لِنَرُدَّ إِيمَانًا إِلَى الصَّيْدَاءِ ہم آسمان کے ثریا اور اس کی بلندیوں تک پہنچ گئے تا کہ ہم ایمان کو زمین پر واپس لے آئیں إِنَّا جُعِلْنَا كَالسُّيُوفِ فَنَدْمَعُ رَأْسَ اللَّـنَـامِ وَهَامَةَ الْأَعْدَاءِ ہمیں تلواروں کی طرح بنایا گیا ہے سو ہم کمینوں کے سر اور دشمنوں کی کھوپڑیاں توڑ ڈالتے ہیں

Page 321

المسيح 302 دین اسلام کی زبوں حالی کے بیان میں فرماتے ہیں : عَلى جُدُرِ الْإِسْلَامِ نَزَلَتْ حَوَادِتْ وَذَاكَ بِسَيِّئَاتٍ تُذَاعُ وَ تُنْشَرُ اسلام کی دیواروں پر حوادث نازل ہو چکے ہیں اور یہ ان برائیوں کی وجہ سے جو عام ہو رہی ہیں اور پھیلائی جارہی ہیں وَ فِي كُلِّ طَرُفٍ نَارُ فِتَنِ تَأَجَّجَتْ وَفِي كُلَّ ذَنْبٍ قَدْ تَرَاءَى التَّقَعُرُ ہر طرف فتنوں کی آگ بھڑک رہی ہے اور ہر گناہ میں گہرائی دکھائی دے رہی ہے وَ مِنْ كُلَّ جِهَةٍ كُلُّ ذِئْبٍ وَ نَمْرَةٍ يَعِيْتُ بِوَتُبِ وَالْعَقَارِبُ تَابَرُ اور ہر طرف سے ہر بھیڑیا اور چیتا حملے کے ذریعہ تباہی ڈال رہا ہے اور بچھو کاٹ رہے ہیں وَعَيْنُ هِدَايَاتِ الْكِتَابِ تَكَدَّرَتْ بِهَا الْعِيْنُ وَالْأَرَامُ يَمْشِي وَيَعْبُرُ اور کتاب اللہ کی ہدایتوں کا چشمہ گدلا ہو گیا ہے.اس چشمے میں جنگلی گائیں اور ہرن چل اور گذر رہے ہیں تَرَاءَتْ غَوَايَاتٌ كَرِيحٍ عَاصِفٍ وَ أَرْحَى سُدُولَ الْغَيِّ لَيْلٌ مُكَذِرُ گمراہیاں شند ہوا کی طرح نظر آ رہی ہیں اور تاریکی پیدا کرنے والی رات نے گمراہی کے پردے لٹکا دیئے ہیں وَلِلدِّينِ أَطْلَالٌ أَرَاهَا كَلَاهِفٍ وَدَمْعِى بِذِكْرِ قُصُورِهِ يَتَحَدَّرُ اور دین کے صرف کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں جنہیں میں افسردہ شخص کی طرح دیکھ رہا ہوں اور میرے آنسو اس کے محلات کی یاد میں بہ رہے ہیں أَرَى الْعَصْرَ مِنْ نَّوْمِ الْبَطَالَةِ نَائِمًا وَكُلُّ جَهُولِ فِي الْهَوَى يَتَبَخْتَرُ میں زمانہ کو باطل پرستی کی نیند میں سویا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ہر جاہل اپنی خواہشوں میں اترا رہا ہے حمایت دین کے لیے آپ کی تڑپ اور جوش کو مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: نَسْعَى كَفِتْيَانِ بِدِينِ مُحَمَّدٍ لَسُنَا كَرَجُلٍ فَاقِدِ الْأَعْضَاءِ ہم جوانوں کی طرح دین محمد کے لئے کوشاں ہیں.ہم ایسے آدمی کی طرح نہیں جو بے دست و پا ہو أَعْلَى الْمُهَيْمِنُ هِمَمَنَا فِي دِينِهِ نَبْنِي مَنَازِلَنَا عَلَى الْجَوْزَاءِ خدا ئے نگہبان نے ہماری ہمتوں کو دین کے بارے میں بلند کر دیا ہے.ہم اپنی منزلیں برج جوزاء پر بنا رہے ہیں

Page 322

303 ادب المسيح إِنَّا جُعِلْنَا كَالسُّيُوفِ فَنَدْمَعُ رَأْسَ اللَّـتَـامِ وَهَامَةَ الْأَعْدَاءِ ہم کو تلواروں کی طرح بنا دیا گیا ہے پس ہم کمینوں کے سر اور دشمنوں کی کھوپڑی پھوڑ دیتے ہیں اس مضمون میں مزید فرماتے ہیں.وَلِدِينِهِ فِي جَذْرٍ قَلْبِي لَوْعَةٌ وَإِنَّ بَيَانِي عَنْ جَنَانِي يُخْبِرُ اور آپ کے دین کے لیے میرے دل کی گہرائیوں میں ایک تڑپ ہے اور یقیناً میرا بیان میرے دل کی حالت کی خبر دے رہا ہے وَرِثْتُ عُلُوْمَ الْمُصْطَفَى فَاخَذْتُهَا وَ كَيْفَ اَرُدُّ عَطَاءَ رَبِّي وَ أَفْجُرُ میں مصطفے کے علوم کا وارث ہوا سو میں نے ان کو لے لیا اور میں اپنے رب کی عطا کو کیسے رد کروں اور گنہگار بنوں وَكَيْفَ وَلِإِسْلَامِ قُمْتُ صَبَابَةٌ وَابْكِي لَهُ لَيْلًا نَّهَارًا وَّ أَضْجَرُ اور یہ ہو کیسے سکتا ہے حالانکہ اسلام کی تائید کے لئے میں ازراہ عشق کھڑا ہوں اور اسی کے لیے رات دن روتا ہوں اور کڑھتا ہوں وَعِنْدِي دُمُوعٌ قَدْ طَلَعْنَ الْمَاقِيَا وَ عِنْدِي صُرَاحٌ مِثْلَ نَارٍ مُّسَمَّرُ اور میرے آنسو آنکھوں کے کونوں سے باہر آگئے اور میری چیخ و پکار بھڑ کائی ہوئی آگ کی طرح ہے دین اسلام کی حقیقی خوبی اور عظمت کے بیان میں فرماتے ہیں: وَ ذَلِكَ لِلدِّينِ الْقَوِيمِ كَرَامَةً إِذَا مَا تَبِعْتَ هُدَاهُ فالله يُؤْثِرُ اور یہ امر سچے دین کے لئے بطور کرامت کے ہے کہ جب تو اس کی ہدایت کی پیروی کرے تو اللہ ( تجھے ) برگزیدہ کردے گا وَيَشْغِفُكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ مَحَبَّةً وَيَأْخُذُ قَلْبَكَ حُبُّ حِبِّ وَّ يَأْطِرُ اور خدائے عزیز تجھ کو اپنی محبت سے شیفتہ کر دے گا اور محبوب کی محبت تیرے دل کو لے لے گی اور مائل کرلے گی فَطُوبَى لِمَنُ صَافِى صِرَاطَ مُحَمَّدٍ وَ كَمِثْلِ هَذَا النُّورِ مَابَانَ نَيِّرُ خوشی اس شخص کے لئے جس نے نہ دل سے محمدصلی اللہ علیہ سلم کی راہ کو چاہا اور اس نور کی مانند کوئی نور دینے والا ظاہر نہیں ہوا وَصَلْنَا إِلَى الْمَوْلَى بِهَذِي نَبِيِّنَا فَدَعُ مَا يَقُولُ الْكَافِرُ الْمَتَنَصِّرُ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے مولیٰ سے جاملے.پس چھوڑ دے اس بات کو جو نصرانی کا فر کہتا ہے

Page 323

المسيح 304 اور فرماتے ہیں کہ دین اسلام کے احیاء کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے إِنِّي صَدُوقٌ مُصْلِحْ مُتَرَدِّمُ سَمُّ مُعَادَاتِي وَسِلْمِي أَسْلَمُ میں صادق اور مصلح ہوں اور میری دشمنی زہر اور میری صلح سلامتی ہے إِنِّي أَنَا الْبُسْتَانُ بُسْتَانُ الْهُدَى تَأْتِي إِلَيَّ الْعَيْنُ لَا تَتَصَرَّمُ میں باغ ہدایت ہوں.میری طرف وہ چشمہ آتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا رُوحِي لِتَقْدِيسِ العَلِيِّ حَمَامَةٌ أَوْ عَندَلِيبٌ غَارِدٌ مُتَرَبِّمُ میری روح خدا کی تقدیس کے لئے ایک کبوتر ہے یا بلبل ہے جو خوش آوازی سے بول رہی ہے مَا جِئْتُكُمْ فِي غَيْرِ وَقْتٍ عَابِيًّا قَدْ جِئْتُكُمْ وَالْوَقْتُ لَيْلٌ مُظْلِمُ میں تمہارے پاس بے وقت نہیں آیا.میں اس وقت آیا کہ ایک اندھیری رات تھی صَارَتْ بِلَادُ الدِّينِ مِنْ جَدْبِ عَتَا أَقْوى وَ أَقْفَرُ بَعْدَ رَوضِ تَعْلَمُ دین کی ولایت بباعث قحط کے، جو غالب آ گیا ، خالی ہو گئی بعد اس کے جو وہ ایک باغ کی طرح تھی هَلْ بَقِيَ قَوْمٌ خَادِمُونَ لِدِينِنَا اَمُ هَلْ رَتَيْتَ الذِينَ كَيْفَ يُحَطَّمُ کیا وہ قوم باقی ہے جو ہمارے دین کی خدمت کریں اور کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دین کو کس طرح مسمار کیا جاتا ہے فاللَّهُ أَرْسَلَنِي لِأُحْيِيَ دِينَهُ حَقٌّ فَهَلْ مِنْ رَاشِدِ يَسْتَسْلِمُ سوخدا نے مجھے بھیجا تا کہ میں اس کے دین کو زندہ کروں یہ سچ ہے.پس کیا کوئی ہے جو اطاعت کرے جَهدُ الْمُخَالِفِ بَاطِلٌ فِي أَمْرِنَا سَيْفٌ مِنَ الرَّحْمَنِ لَا يَتَكَلَّمُ مخالف کی کوشش ہمارے امر میں باطل ہے یہ خدا کی تلوار ہے جس میں رخنہ نہیں ہوسکتا فِي وَجْهِنَا نُورُ الْمُهَيْمِنِ لَائِحٌ إِنْ كَانَ فِيكُمْ نَاظِرٌ مُتَوَسِمُ ہمارے منہ میں خدا تعالیٰ کا نور واضح ہے اگر کوئی تم میں دیکھنے والا ہو الْيَوْمَ يُنْقَضُ كُلُّ خَيْطِ مَكَائِد لِينٌ صَحِيلٌ أَوْ شَدِيدٌ مُبْرَمُ آج ہر ایک مکر کا تاگا توڑ دیا جائے گا، نرم اک تارہ ہو یا سخت دو تارہ ہو اور آخر پر خدمت اسلام کو احسن طریق سے بجا لانے کے لیے خدا تعالیٰ کی جناب میں ایک درد ناک مناجات میں فرماتے ہیں.فَخُذُ بِيَدِى يَا رَبِّ فِي كُلِّ مَوْطِنٍ وَايَدُ غَرِيبًا يُلَعَنَنُ وَيُكَفَّرُ اے میرے رب ! ہر معرکہ میں میرا ہاتھ پکڑا اور اس بے یارومد گار کی تائید فرما جو لعنت اور تکفیر کیا جارہا ہے

Page 324

305 ادب المسيح آتَيْتُكَ مِسْكِينًا وَّ عَوْنُكَ أَعْظَمُ وَجِتُكَ عَطْشَانًا وَّ بَحُرُكَ أَزْخَرُ میں مسکین ہو کر تیرے حضور آیا ہوں اور تیری مددسب سے بڑی ہے اور میں پیاسا ہو کر تیرے پاس آیا ہوں اور تیرا سمندر بہت موجزن ہے قَدِ انْدَرَسَتْ آثَارُ دِينِ مُحَمَّدٍ فَاشْكُرُ إِلَيْكَ وَ اَنْتَ تَبْنِي وَ تَعْمُرُ دین محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نشان مٹ چکے ہیں.پس میں تیرے حضور شکایت کرتا ہوں، تو ہی تعمیر کرتا اور آباد کرتا ہے ارى كُلَّ يَوْمٍ فِتنةٌ قَدْ مُدِّدَتْ وَمِتْنَا وَ اَمْوَاتُ الْاعَادِي بُعْثِرُوا میں ہر روز ایک فتنہ دیکھتا ہوں جو پھیلایا گیا ہے اور ہم مر گئے ہیں اور دشمنوں کے مُردے جی اٹھے ہیں وَقَدْ اَزْمَعُوا أَنْ يُزْعِجُوا سُبُلَ الْهُدَى وَكَمْ مِّنْ اَرَاذِلَ مِنْ شَقَاهُمْ تَنَصَّرُوا اور انہوں نے عزم کر لیا ہے کہ ہدایت کے راستوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں اور بہت سے کمینے اپنی بدبختی سے عیسائی ہو گئے ہیں أَرى كُلَّ مَحْجُوبِ لِدُنْيَاهُ بَاكِيًا فَمَنُ ذَا الَّذِي يَبْكِي لِدِينِ يُحَقَّرُ میں دین سے ہر بے بہرہ کو اپنی دنیا کے لئے رونے والا پاتا ہوں.پس کون ہے وہ جو روئے اس دین کے لئے جس کی تحقیر کی جارہی ہے فَيَا نَاصِرَ الْإِسْلَامِ يَا رَبَّ أَحْمَدَا اغِتُنِي بِتَائِيدٍ فَإِنِّي مُدْخَرُ اے اسلام کے ناصر ! اے احمد کے ربّ! تائید کے ساتھ میری فریاد رسی کر.میں تو ذلیل کیا گیا ہوں

Page 325

ب المسيح 306 مدحتِ قرآن کریم اس کتاب میں حضرت اقدس کے موضوعات شعر کے عنوان میں بیان ہو چکا ہے کہ آپ حضرت کے بعض موضوعات شعر ایسے ہیں جنکا آپ سے قبل یا ما بعد اسلامی ادب میں کوئی نام و نشان نہیں ملتا اور یہ بھی کہ اگر کسی شاعر نے اُن موضوعات پر کچھ کہا بھی ہے تو مختصر اور سرسری انداز میں ہے یعنی یہ کہ کسی نے ان موضوعات کو اپنے کلام کا مستقل اور اہم موضوع نہیں بنایا.ان موضوعات میں سرفہرست مدحت وستائش قرآن ہے.گوامت محمدیہ میں ان گنت صلحاء واصفیاء گذرے ہیں اور اُن سب نے قرآن کریم کی صداقت اور اسکی ترویج و تبلیغ میں عظیم الشان خدمات کی ہیں اور دین اسلام کا چراغ روشن رکھا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی نے اس موضوع کو اپنے شعری کلام کا اہم عنوان نہیں بنایا.شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ قرآن کریم کی حقیقی اور کامل برکات کا ظہور دو ہی ہستیوں پر ہونا تھا اور اُن دو کو ہی یہ سعادت نصیب ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی برکات کو حقیقی اور قلبی طور پر حاصل کریں اور پھر اس کے فضائل بیان کریں.ان دو ہستیوں میں اول اور ہر مقام پر اول ہستی تو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسری آپ کی دوسری تجلی ہے جس نے آپ ہی کی پیشگوئی کے مطابق مہدی آخر زمان کے طور پر آنا تھا یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام.حضرت اقدس آیت اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَب العلمین کی تفسیر میں فرماتے ہیں.فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَانِ اَنَّ اللَّهَ خَلَقَ أَحْمَدَيْنِ فِي صَدْرِ الْإِسْلَامِ وَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَ أَشَارَ إِلَيْهِمَا بِتَكْرَارِ لَفْظِ الْحَمْدِ فِى اَوَّلِ الْفَاتِحَةِ وَ فِي آخِرِهَا لِاهْلِ الْعِرُفَانِ.وَ فَعَلَ كَذَالِكَ لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ.وَ أَنْزَلَ أَحْمَدَيْنِ مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُونَا كَالْجِدَرَيْنِ لِحِمَايَةِ الْاَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) ترجمه از مرتب: پس خلاصہ بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو احمد پیدا کئے (ایک) اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور (ایک) آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہل عرفان کے لیے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظاً ومعنا تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی تردید کے لیے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو احمد آسمان سے اتارے تاوہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لیے دو دیواروں کی طرح ہو جائیں.

Page 326

307 ادب المسيح چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات کا محور قرآن کریم کی اطاعت اور اُس کی محبت ہے اور اسی پیغام ربانی کی علمی اور عملی اشاعت آپ کی بعثت کا مقصد تھا.جیسے کہ باری تعالیٰ فرماتے ہیں: الركتُبُ أحْكِمَتْ أَيْتُه ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (هود: (2) حضرت اقدس ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور فرمایا: یہ کتاب الہی ہے کہ اس کی آیات پکی اور استوار ہیں“ (هود:3) أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے.یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللہ خدا تعالیٰ کے سوا ہر گز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريات: 57) پھر فرمایا اننى لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَّ بَشِيرٌ - چونکہ یہ تعبد نام کا عظیم الشان کام انسان بڑوں کسی اُسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ کے اور کسی قوت قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کر سکتا تھا اس لئے رسول اللہ صلعم فرماتے ہیں کہ میں اُسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر ہو کر آیا ہوں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور پھر خدا تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی وحدانیت کے قیام کے لیے تن من کو قربان کرنے کے لیے باری تعالیٰ کا یہ فرمان بھی تو ہے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 163 ، 164) ترجمہ: تو (ان سے) کہدے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ( اور ) اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس (امر) کا حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں.اسی طور پر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور نائب ہیں کہ آپ جناب قرآن کے عاشق صادق ہیں

Page 327

ب المسيح فرماتے ہیں: 308 ز عشاق فرقان و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم ترجمہ: ہم قرآن اور پیغمبر ( علیہ الصلوۃ والسلام) کے عاشقوں میں سے ہیں.اسی (عشق) کے ساتھ ہم آئے ہیں اور اسی کے ساتھ جائیں گے.اس شعر میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عشق قرآن آپ کو اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور محبت سے نصیب ہوا ہے.اور پھر اس عشق کا یہ والہانہ انداز بھی دیکھیں.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے اور عربی میں فرماتے ہیں: و جَاءَ بِقُـرانٍ مَّجِيدٍ مُّكَمَّل مُيْرٍ فَنَوَّرَ عَالماً و يُنَوِّرُ ترجمہ: اور وہ مکمل قرآن مجید لے کر آیا جو روشنی بخشنے والا ہے.سو اس نے ایک دنیا کو منور کر دیا اور آئندہ بھی منور کرتارہے گا.وہ ایک عزت والی کتاب ہے جو تمام فضیلتوں کی جامع ہے.معارف کے جام پلاتی ہے.و إِنَّ سُرُورِئُ فِي إِدَارَةِ كَأْسِهِ فَهَلْ مِن النَّدَامَىٰ حَاضِرٌ مَّنْ يُكَرِرُ ترجمہ: اور میری خوشی اس پیمانے کو گردش میں لانے میں رہی ہے.کیا میرے ہم مجلسوں میں کوئی ہے جو بار بار پلائے.یہاں تک تو بات ہوئی قرآن کریم کے نزول اور مقصد اعلیٰ کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاک محمد مصطفی نبیوں کے سردار اور آپ کے نائب مسیح دوراں اور امام آخر الزماں کی.اب ہم اپنے دستور کے مطابق اوّل یہ پیش کریں گے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے حسن و خوبی اور اس کی صفات کو کس طور سے بیان کیا ہے.قرآن کریم نے اول تو باری تعالیٰ کی ہستی کو نور کی علامت قرار دیا ہے.جیسے کہ فرمایا اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ...الى الآخر (النور: 36) سچ بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی ذات علوی کے بعد اگر تو اتر اور تکرار سے کسی کے اوصاف بیان کیے ہیں تو ان میں اول قرآن کریم اور انبیاء یھم السلام ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان صفات کو موقع اور محل کے تحت بیان کیا ہے اس لیے ان صفات کی حقیقی عظمت تو تسلسل بیان

Page 328

309 ادب المسيح کی روشنی میں ہی آشکار ہو سکتی ہے.مگر اس تفصیل بیان کی یہ کوشش متحمل نہیں ہوسکتی اس لیے حصولِ برکت کی غرض سے اُن میں سے چند ایک صفات بیان کر دئیے ہیں.صداقت.لاریب.نور.شفاء.رحمت.مبارک.موعظہ اور ذکر یہ چند قرآن کریم کے ذاتی اوصاف ہیں.اور تاثیرات قرآن کے اعتبار سے بھی اس کی صفات بیان ہوئی ہیں.یہ سب صفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کی منقبت اور عظمت کے بیان میں ہیں اور ابھی بہت سی اور بھی ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر تین بنیادی صفات قرآن کریم کو حضرت اقدس کی تعبیر وتفسیر کیساتھ پیش کرتے ہیں.اول نور دوم.ہدایت سوم.تأثیرات قرآن

Page 329

ب المسيح 310 نور مدحتِ قرآن.اردو زبان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات علوی کے لیے ”نور“ کی علامت کو اختیار فرمایا اور اس نور کی تجلیات خاص میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شمار کیا ہے.دراصل قرآن کریم کی مدح و توصیف میں یہ مقام بہت اعلیٰ اور مکرم ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے نور کی تحلبی خاص ہے.فرمایا: (النور: (36) اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِى يَوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ دُرِّيٌّ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيَّ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ نُوْرُ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ خدا آسمان وزمین کا ٹو ر ہے یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ پہنی ہے.خواہ خارجی.اُسی کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبداء ہے اور تمام انوار کاعلت العلل اور تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) اس فیض عام کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فیض خاص کو بیان فرماتا ہے حضرت اقدس کہتے ہیں : خداوند تعالیٰ نے اوّل فیضانِ عام کو ( جو بدیہی الظہو ر ہے ) بیان کر کے پھر اُس فیضانِ خاص کو بغرض کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ....الخ ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور پھر فرمایا وحی قرآن اسی نور کو پکارتی ہے: سوقرآن شریف بھی اسی طر ز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدّت و رحمت و ہیبت و

Page 330

311 ادب المسيح شفقت و نرمی و درشتی ہے.سو اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وحي فرقان اس شجرہ مبارک سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے نہ غربی.یعنی طبیعت معتدلہ محمدیہ کے موافق نازل ہوا ہے جس میں نہ مزاج موسوی کی طرح درشتی ہے نہ مزاج عیسوی کی مانند نرمی.بلکہ درشتی اور نرمی اور قہر اور لطف کا جامع ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) اور پھر بہت واضح طور پر فرماتے ہیں تمام انوار کامل ہونے کے بعد آنحضرت پر نور وحی الہی وارد ہوا.نُورٌ عَلى نُور - نور فائض ہو انور پر (یعنی جب کہ وجو د مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نو ر جمع تھے.سو اُن نوروں پر ایک نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اُس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نو روحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے تاریکی پر وارد نہیں ہوتا کیونکہ فیضان کیلئے مناسبت شرط ہے اور تاریکی کونور سے کچھ مناسبت نہیں بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ان فرمودات خداوندی اور تفسیر حضرت اقدس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اوّل: نور خدا تعالیٰ کی ہستی ہے.دوم : اس نور کی تجلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی.سوم: آنحضرت پر نو روحی الہی یعنی قرآن کریم نازل ہوا.ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورُ وَكِتُبٌ مُبِينٌ حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: (المائدة : 16) قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاء كُم مِنَ اللهِ نُورٌ وَكِتَبُ مُّبِينٌ (المائدة: 16) وَدَاعِيَّا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا (الاحزاب : (47) یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لیے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اُس کا رسول اور اس کی کتاب ہے خدا اُس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اُس کی خوشنودی کے

Page 331

المسيح 312 خواہاں ہیں سوان کو خدا کی ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے: ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا التَّوْرَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةً أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ حضرت اقدس اس فرمان کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (الاعراف: 158) پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے.اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس نور کی مدد کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ہدایت ہمارے نزدیک قرآن کریم میں اس کتاب کی عظمت و شان کے بیان میں عمومی طور پر جو حقیقی صفت بیان ہوئی ہے وہ ہدایت ہے.یعنی قرآن کریم کو ایک ہدایت کہا گیا ہے.ہم دو بنیادی اور اصولی فرمودات پیش کرتے ہیں.قرآنِ کریم نے اول قدم پر اپنی صفات میں صفت ہدایت کو پیش کیا ہے اور حضرت اقدس نے اس صفت کو قرآن کی علت غائی قرار دیا ہے.الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (البقرة : 32) حضرت اقدس فرماتے ہیں: الله جل شانہ نے قرآن کریم کے نزول کی علت عالَى هُدًى لِلْمُتَّقِينَ قرار دی ہے اور قرآن کریم سے رشد اور ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے با تخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے الم ذلك الكتب لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: اور ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ آیات ممدوحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ الم ذَلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اُس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے اس

Page 332

313 ادب المسيح لیے یہ کتاب ہر ایک شک وشبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لیے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لیے یہ کتاب متقین کے لیے ایک کامل ہدایت ہے اور ان کو اُس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لیے آخری مقام ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) صفت ہدایت کے تحت دوسرا فرمان یہ ہے.اِنَّ هُذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا حضرت اقدس اس صفت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: (بنی اسرائیل : 10) یہ قرآن اُس سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے جس میں ذرا کچھی نہیں اور انسانی سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اور در حقیقت قرآن کی خوبیوں میں سے یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک کامل دائرہ کی طرح بنی آدم کی تمام قومی پر محیط ہو رہا ہے.اور آیت موصوفہ میں سیدھی راہ سے وہی راہ مراد ہے کہ جو راہ انسان کی فطرت سے نہایت نزدیک ہے یعنی جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اُن تمام کمالات کی راہ اس کو دکھلا دینا اور وہ راہیں اس کے لئے میتر اور آسان کر دینا جن کے حصول کے لئے اُس کی فطرت میں استعدا درکھی گئی ہے اور لفظ أَقْوَمُ سے آیت يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ میں یہی راستی مراد ہے.تاثیرات قرآن ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تاثیر کے اعتبار سے بہت مقامات میں ذکر فرمایا ہے.ہم اختصار کے طور پر دو بہت اہم فرمودات پیش کرتے ہیں.اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ حضرت اقدس تفسیر میں فرماتے ہیں: (الزمر:24) يَعْنِي ذَالِكَ الْكِتَبُ كِتَابٌ مُّتَشَابَة يَشْبَهُ بَعْضُهُ بَعْضًا لَيْسَ فِيهِ تَنَاقُضٌ وَّلَا

Page 333

المسيح رو 314 اخْتِلاتٌ مَنى فِيهِ كُلُّ ذِكْرِ لِيَكُونَ بَعْضُ الذِكرِ تَفْسِيرًا لِبَعْضِهِ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمُ يَعْنِى يستولى جَلالُه و هيبته على قلوب العشاق لتقشعر جلودهم من كمال الخشية و الخوف يجاهدون في طاعة الله ليلاً و نهاراً بتحریک تأثيرات جلالية و تنبیهات قهرية من القرآن ثم يبدل الله حالتهم من التألم الى التلدذ ( تفسیر حضرت اقدس زمر آیت) ( ترجمہ ایڈیٹر الحق) یعنی یہ کتاب متشابہ ہے جس کی آیتیں اور مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں.ان میں کوئی تناقض اور اختلاف نہیں.ہر ذکر اور وعظ اس میں دو ہرا کر بیان کئے گئے ہیں جس سے غرض یہ ہے کہ ایک مقام کا ذکر دوسرے مقام کے ذکر کی تفسیر ہو جائے.اس کے پڑھنے سے ان لوگوں کی کھالوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی اس کا جلال اور اس کی ہیبت عاشقوں کے دلوں پر غالب ہو جاتی ہے اس لئے کہ ان کی کھالوں پر کمال خوف اور دہشت سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں.وہ قرآن کی قہری تنبیہات اور جلالی تاثیرات کی تحریک سے رات دن اللہ تعالی اطاعت میں بہ دل و جان کوشش کرتے رہتے ہیں.پھر ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس حالت کو جو پہلے دُکھ دوم.درد کی حالت ہوتی ہے لذت اور سرور سے بدل ڈالتا ہے.(الحشر: 22) لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِعَا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ترجمہ از حضرت اقدس: یہ قر آن جو تم پر اتارا گیا اگر کسی پہاڑ پرا تارا جاتا تو وہ خشوع اور خوف الہی سے ٹکڑہ ٹکڑہ ہو جاتا اور یہ مثالیں ہم اس لئے بیان کرتے ہیں کہ تا لوگ کلام الہی کی عظمت معلوم کرنے کے لئے غور اور فکر کریں.اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.ایک تو یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور دوسرے اس کے معنے

Page 334

315 ادب المسيح یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اوّل تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اُونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دُور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جُدا ہو جاتی ہے ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) اللہ تعالیٰ نے جو صفات قرآن بیان کی ہیں ان کا ایک نہایت درجہ مختصر اور محدود ذکر کرنے کے بعد ہم اپنے پیارے آقارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرمودات نعتِ قرآن کے تعلق میں پیش کرتے ہیں مشاہدہ کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کس قدر قرآن کریم کے فرمودات کے اتباع میں ہیں اول قدم پر ہم اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیثِ “ کے قرآنی فرمان کے اتباع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بہت ہی حسین احادیث کو پیش کرتے ہیں.فرماتے ہیں: حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے حسین کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے حسین ہدایت محمد کی ہدایت ہے.(نسائی کتاب السهو) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کی خوبیوں کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ قرآن پڑھتا ہے؟ (مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار في مسند عائشة) دیکھ لیں کہ ” نور“ اور ہدایت دونوں صفات بیان ہو گئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تم میں دو عظیم الشان چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے پس اللہ کی کتاب سے چمٹ جاؤ اور اسے پکڑ لو آپ نے اس پر بہت ترغیب دلائی پھر فرمایا میرے اہل بیت.دار می کتاب فضائل القرآن اور پھر قرآن کریم سے محبت اور اس کو پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھاۓ.(ترمذی کتاب فضائل القرآن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے سینہ میں قرآن کا کچھ حصہ بھی نہ ہو

Page 335

المسيح 316 وہ ویران گھر کی طرح ہے.ایک روایت میں ہے کہ ایسا ویران گھر جس میں کوئی رہ نہ سکے.دار می کتاب فضائل القرآن حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگوں میں سے اہل اللہ ہیں عرض کیا گیا وہ کون ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا : قرآن والے.(دارمی کتاب فضائل القرآن) زیر نظر مضمون میں اب ہم اس مقام تک پہنچے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت قرآن کے نمونے پیش کریں اور مشاہدہ کروائیں کہ آپ حضرت کی مدح و منقبت قرآن کس قدر قرآن کریم اور ہمارے پیشوا صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور نقش قدم پر ہے اول مقام پر تو یہ عظیم الشان نعت ہے کہ خالص طور پر لفظا و معنا قرآن کریم اور حدیث کا اتباع ہے.فرماتے ہیں: جمال وحسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بستاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر ٹوٹوئے عثماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی سخن میں اُس کے ہمتائی، کہاں مقدور انساں ہے بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نُورِ حق کا اُس پہ آساں ہے اسی انداز بیان اور قلبی محبت سے فرماتے ہیں: نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا

Page 336

317 حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب یہ چشمه اصفی نکلا یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا پہلے سمجھے تھے کہ موسی کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ صد نیر بیضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دُنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعمی نکلا جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا منقبت قرآن میں اس شعر کی عظمت کا مشاہدہ کریں حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے چشمه اصفی نکلا ادب المسيح صفت نو رسب سے نمایاں ہے مگر صفت ہدایت کو آپ حضرت نے اسلام کے پودے کی آبیاری کے لئے قرآن کریم کو زندگی اور تر و تازگی بخش مصفی چشمہ کہا ہے.کس قدر خوبصورت کلام ہے اور اپنے دامن میں ہزار معانی کو سمیٹے ہوئے ہے.ایک اور مقام پر قرآن کریم کے فضائل کے بیان کیسا تھ دیگر کتب سماوی کا تقابل بھی فرمایا ہے.

Page 337

المسيح 318 فرماتے ہیں: شکر خدائے رحماں! جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے آب گل کھلا یہی ہے کیا وصف اس کے کہنا ہرحرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خواہیں خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ھدی یہی ہے اُس نے خُدا ملایا وہ یار اُس سے پایا را تھیں تھیں جتنی گزریں اب دن چڑھا یہی ہے اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بلائے سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن خوبی و دلبری میں سب سے سوا یہی ہے يوسف تو سُن چکے ہو اک چاہ میں گرا تھا یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے اس کلام میں قرآن کے تین بنیادی اوصاف بیان ہوئے ہیں جو کہ ہر بچے دین میں پائے جانے ضروری اول قرآن کریم تمام دینی علوم کو مفصل بیان کرتا ہے جبکہ دیگر کتب میں یہ خوبی نہیں ہے.فرمایا: دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خواہیں خالی ہیں اُن کی قامیں خوانِ ھدی یہی ہے دینی راہنمائی کی دعوت میں دیگر ادیان کی قابوں کا خالی ہونا اور قرآن کی ہدایت کے مائدہ کا دستر خوان بھر پور ہونا بہت ہی خوبصورت مثال ہے.دوم قرآن کریم کے وسیلے سے وصالِ باری تعالیٰ حاصل ہوتا ہے.غنچے: تورات، انجیل، زبور وغیرہ

Page 338

فرمایا: 319 ادب المسيح اُس نے خُدا ملایا وہ یار اُس سے پایا راتیں تھیں جتنی گزریں اب دن چڑھا یہی ہے یعنی گذشتہ کتب میں یہ خوبی ناپید ہوگئی تھی.مگر قرآن کے نور نے طلوع شمس کیا اور ہزاروں لاکھوں واصل باللہ پیدا ہوئے اس فوج کے اول سالار ہمارے پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کے سردار ہیں اور دوم جری اللہ فی حلل الانبیاء ہیں.تیسری صفت یہ ہے صرف قرآن ہی لفظا ومعنا محفوظ ہے جبکہ دیگر کتب میں تحریف اور تبدیلی کا عمل ہو چکا ہے جیسے فرمایا: پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے ایک اور مقام پر قرآن کریم کی یہ خوبی شان سے بیان ہوئی ہے کہ وہ محبوب حقیقی کی بقاء اور وصال کا ذریعہ بن سکتا ہے.بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان ہوئی ہے اور فرمایا کہ وہ تمام روحانی انعامات جو صحیفہ قرآن کریم ہی کی برکت سے عطا ہوئے ہیں.ہمارے خیال میں آپ کی یہ نظم قرآن کریم کے فضائل و برکات میں ایک لاجواب شاہکار ہے.تمام ادبی محاسن کی حامل اور عقل اور معرفت سے بھر پور اور محبت الہی میں سرشار اور تاثیرات قرآن کا ایک مفصل بیان ہے: فرماتے ہیں: ہے شکر رب عز وجل خارج از بیان جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہو گیا وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہو گیا اس نے درخت دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا

Page 339

ب المسيح 320 اُس سے خدا کا چہرہ نمودار ہو گیا شیطاں کا مکر و وسوسہ بے کار ہو گیا وہ رہ جو ذات عز و جل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے وہ رہ جو یار گم شدہ کو کھینچ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقیں کا پلاتی ہے وہ رہ جو اس کے ہونے پر محکم دلیل ہے دہ رہ جو اُس کے پانے کی کامل سبیل ہے اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا افسردگی جو سینوں میں تھی دُور ہوگئی ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہوگئی جو دور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے چلنے لگی نیم عنایات یار جاڑے کی رُت ظہور سے اس کے پلٹ گئی ނ عشق خدا کی آگ ہر اک دل میں آٹ گئی جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے موجوں سے اُسکی پردے وساوس کے پھٹ گئے جو کفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے قرآن خُدا نما ہے خُدا کا کلام ہے! بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے

Page 340

321 ادب المسيح اور آخر میں قرآن کریم کو حرز جان بنانے اور اس سے محبت کا رشتہ باندھنے کے لیے ایک نہایت درجہ درد دل سے بیان کی ہوئی نصیحت ہے.فرماتے ہیں: قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہِ عرفاں جو اسکے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں اُن پر خُدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خُدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرآن کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا اکسیر فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا ہے پیارے صدق و سداد رکھنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي

Page 341

ب المسيح 322 مدحت قرآن کریم فارسی زبان میں گزشتہ میں تعین کی گئی ہے کہ ہم قرآن کریم کی بے شمار صفات اور عظمت وشان میں اس کی ان تین صفات کو پیش کرتے ہیں جو کہ قرآن میں بنیادی صفات کے طور پر بار بار بیان ہوئی ہیں.وہ صفات اوّل.نور دوم.ہدایت سوم.قرآن کی تاثیرات ہیں.مدح قرآن میں حضرت اقدس کے کلام میں بھی یہی بنیادی عناصر ہیں.یہی عناصر ثلاثہ آپ کے تینوں زبانوں کے کلام میں روشن اور عیاں ہیں.اردو زبان کے نمونے پیش کئے جاچکے ہیں اب فارسی اور عربی کے کلام کو پیش کیا جائیگا.اول قدم پر ہم آپ حضرت کی ایک عظیم الشان غزل نما نعت قرآن پیش کرتے ہیں جس میں ان تینوں صفات کا بیان بھی ہے اور قرآن کریم سے والہانہ محبت کا اظہار بھی.فرماتے ہیں: از نور پاک قرآن صبح صفا دمیده بر غنچہ ہائے دلہا باد صبا وزیده قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہوئی اور دلوں کے غنچوں پر بادصبا چلنے لگی.ایں روشنی و لمعال شمس الضحیٰ ندارد وائیں دلبری و خوبی کس در قمر نہ دیدہ ایسی روشنی اور چمک تو دو پہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں يوسف بقعر چاہے محبوس ماند تنہا وایس یوسفی که تن با از چاه برکشیده یوسف تو ایک کنویں کی تہ میں اکیلا تھا مگر اس یوسف نے بہت سے لوگوں کو کنوئیں میں سے نکالا ہے مشرق معانی صدہا دقایق آورد قد ہلال نازک زاں ناز کی خمیده منع حقایق سے یہ سینکڑوں حقایق اپنے ہمراہ لایا ہے.ہلالِ نازک کی کمر ان حقایق سے جھک گئی ہے کیفیت علومش دانی شان دارد شہدیست آسمانی از وحی حق چکیده تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے آن نیز صداقت چون رو به عالم آورد ہر بوم شب پرستے در گنج خود خزیده یہ سچائی کا سورج جب اس دنیا میں ظاہر ہوا تو رات کے پجاری اتو اپنے اپنے کونوں میں جا گھسے

Page 342

323 ادب المسيح روئے یقیں نہ بند ہرگز کسے بدنیا الا کیسے کہ باشد بارویش آرمیده دنیا میں کسی کو یقین کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا.مگر اسی شخص کو جو اس کے منہ سے محبت رکھتا ہے آنکس که عالمش شد شد مخزن معارف واں بیخبر ز عالم کیں عالمے ندیده جو اس کا عالم ہو گیا وہ خود معرفت کا خزانہ بن گیا اور جس نے اس عالم کو نہیں دیکھا اُسے دُنیا کی کچھ خبر ہی نہیں باران فضل رحماں آمد بمقدم او! بد قسمت آنکه از وے سوئے دگر دویده رحمان کے فضل کی بارش ایسے شخص کی پیشوائی کو آتی ہے بدقسمت وہ ہے جو اسے چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا میل بدی نباشد الا رگے ز شیطان آن را بشر بدانم کز ہر شرے رہیدہ بدی کی طرف رغبت ایک شیطانی رگ ہے میں تو اُسے بشر سمجھتا ہوں جو ہر شر سے نجات پائے اے کانِ دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی کیں خلق آفریدہ اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے ریمخلوقات پیدا کی میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق بندر با اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریادرس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے مشاہدہ کر لیں کہ اس میں ” نور“ اور ” ہدایت کا مضمون بھی ہے اور قرآن کریم کی ایسی تاثیر کا ذکر بھی ہے جو اس سے محبت والفت پیدا کرتی ہے.محبت کے اظہار میں دو شعر دوبارہ سُن لیں وو اے کانِ دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی کیں خلق آفریدہ اے حسن کی کان میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے مخلوقات پیدا کی میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریادرس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے دوسرے مقام پر ایک طویل مثنوی میں قرآن کے حسن و خوبی کو تفصیل کیسا تھ بیان فرماتے ہیں.فرماتے ہیں: نور فرقاں نه تافت است چناں کو بماندے نہاں ز دیدہ وراں قرآن کا نور ایسا نہیں چمکتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نظر سے مخفی رہ سکے اں چراغ ہدی ست دنیا را رہبر و رہنماست دنیا را وہ تو تمام دنیا کے لیے ہدایت کا چراغ ہے اور جہاں بھر کے لیے رہبر اور رہنما رحمتے از خداست دنیا را نعمتے از سماست دنیا را وہ خدا کی طرف سے دنیا کے لیے ایک رحمت ہے اور آسمان سے اہل جہان کے لیے ایک نعمت

Page 343

المسيح مخون 324 راز ہائے ربانی از خدا آله خدا دانی وہ خداوند کے اسرار کا خزانہ ہے.اور خدا کی طرف سے خدا شناسی کا آلہ ہے از پایه بشر بکمال دستگیر قیاس و استدلال وہ اپنے کمالات میں انسان کے مرتبہ سے بالا تر ہے اور قیاس اور استدلال کی دستگیری کرتا ہے کارساز اتم بعلم و عمل تختش اعظم و اثر اکمل وہ علم و عمل میں ہمارے لیے کامل کارساز ہے اُس کی دلیل پختہ اور اس کا اثر نہایت کامل ہے اس مضمون میں اوصاف قرآن بیان فرماتے ہیں کہ قرآن علم دین کا آفتاب ہے اور انسان کو شک سے نکال کر یقین کی طرف لے جاتا ہے.اور حبل المتین ہے.فرماتے ہیں: ہست فرقاں آفتاب علم و دیں تا برندت از گماں سوئے یقیں قرآن مجید علم اور دین کا سورج ہے اور وہ تجھے شک سے یقین کی طرف لے جائیگا ہست فرقان از خدا حبل المتین تا کشندت سوئے ربّ العالمیں قرآن خدا کی مضبوط رسی ہے اور وہ تجھے رب العالمین کی طرف کھینچ کر لے جائیگی دہندت روشنی دیده با ہست فرقان روز روشن از خدا داروئ شک ست قرآن خدا کی طرف سے ایک روشن دن ہے تاکہ تجھے روحانی آنکھوں کی روشنی بخشے حق فرستاد این کلام بے مثال تا رسی در حضرت قدس و جلال خدا نے اس بے نظیر کلام کو اس لیے بھیجا ہے تا کہ تو اس پاک اور ذوالجلال کی درگاہ میں پہنچ جائے الهام خدا کال نماید قدرت تام خدا خدا تعالیٰ کا الہام شک کی دوا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی کامل قدرت کو ظاہر کرتا ہے ہر کہ روئے خود ز فرقاں در کشید جان او روئے یقیں ہرگز ندید جس نے قرآن سے روگردانی اختیار کی اُس نے یقین کا منہ ہرگز نہیں دیکھا وحي فرقاں مُردگان را جان دهد صد خبر از کوچه عرفاں دہد قرآن کی وحی مُردوں میں جان ڈالتی ہے اور معرفت الہی کی سینکڑوں باتیں بتاتی ہے از یقیں یا می نماید عالمی! کاں نہ بیند کس بصد عالم ہے اور یقینی علوم کا ایسا جہاں دکھاتی ہے جو کوئی سو جہانوں میں بھی نہیں دیکھ سکتا ایک بہت ہی مؤثر اور دلفریب نعت بھی سُن لیں قرآن سے اپنی وابستگی اور محبت کو بیان کر کے ان لوگوں پر

Page 344

325 ادب المسيح افسوس کرتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں.فرماتے ہیں: از وحی خدا صبح صداقت بدمیده چشمیکه ندید آن صحف پاک چه دیده خدا کی وجی سے صبح صداقت روشن ہو گئی جس آنکھ نے یہ صحت پاک نہیں دیکھے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا کار دل ما شد ز ہماں نافہ مُعطر واں یار بیامد که زما بود رمیده ہمارا دل اُس نافہ سے معطر ہے اور وہ یارجو ہم سے بھاگا ہوا تھا پھر آگیا آں دیدہ کہ نورے نگرفت ست زفرقاں حقا کہ ہمہ عمر ز کوری نہ رہیدہ وہ آنکھ جس نے قرآن سے نور اخذ نہیں کیا خدا کی قسم وہ ساری عمر اندھے پن سے خلاصی نہ پائے گی آن دل که بجز از وے گل گلزار خدا جست سوگند تواں خورد که بولیش نشمیده وہ دل جس نے اُسے چھوڑ کر گل گلزار خدا ڈھونڈا.خدا کی قسم کہ اس شخص نے اس کی خوشبو بھی نہیں سونگھی با خور ندهم نسبت آں نور که بینم صد خور که به پیرامن او حلقه کشیده میں سورج سے اس نور کو تشبیہ نہیں دے سکتا کیونکہ دیکھتا ہوں کہ اس کے گرد سینکڑوں آفتاب حلقہ باندھے کھڑے ہیں بے دولت و بدبخت کسانیکه ازاں نور سرتافته از نخوت و پیوند بریده وہ لوگ بد قسمت اور بدنصیب ہیں جنہوں نے اس نور سے تکبر کی وجہ سے روگردانی کی اور تعلق توڑ لیا تاثیرات قرآن پر ایک اور مؤثر کلام بھی سُن لیں.آں کتا بے ہمچو خور دادش خدا کز رخش روشن شد ایں ظلمت سرا خدا نے اُسے سورج کی طرح ایک ایسی کتاب عطا کی کہ اُس کے روئے روشن سے یہ اندھیرا جہان چمک اٹھا بست فرقاں طیب و طاہر شجر از نشانہا سے دہد ہر دم شمر فرقان ایک پاک اور طیب درخت ہے اور ہر زمانہ میں نشانات کے پھل دیتا ہے نشانِ راستی در وی پدید نے چو دین تو بنایش برشنید سچائی کے سینکڑوں نشان اس میں ظاہر ہیں تیرے دین کی طرح اُس کی بنیاد شنید پر نہیں ہے پر ز اعجاز است آن عالی کلام نور یزدانی در و رشد تمام وہ بزرگ کتاب معجزات سے بھری ہوئی ہے اُس میں خدائی نور پورا پورا چمکتا ہے از خُدائی با نموده کار را! دریده پرده کفار را ! اُس نے خدائی طاقتوں کے ساتھ کام کیا ہے اور کفار کے پردے پھاڑ کر دکھائے ہیں صد پر

Page 345

المسيح 326 آفتاب است و کند چون آفتاب گر نه کوری بیا بنگر شتاب وہ خود آفتاب ہے اور دوسروں کو بھی آفتاب کی طرح بنا دیتا ہے اگر تو اندھا نہیں ہے تو جلدی آاور دیکھ فرماتے ہیں کہ جو صحابہ میں روحانی انقلاب آیا اور انہوں نے دنیا کو یکسر بھلا دیاوہ تاثیرات قرآن ہی تھیں.بود آں جذبہ کلام خُدا که دل شاں ربود از دنیا یہ کلام الہی کی کشش ہی تو تھی.جس نے اُن کے دلوں کو دنیا کی طرف سے ہٹا دیا سینہ شاں ز غیر حق پرداخت و از مئے عشق آں لگاں پُر ساخت ان کے سینہ کو غیر اللہ سے خالی کردیا.اور اُس یگانہ کی محبت کی شراب سے بھر دیا چوں شد آں نور پاک شامل شاں تافت از پرده بدر کامل شاں جب وہ پاک نور ان میں رچ گیا.تو پردہ میں سے بدر کامل چپکا دور شد ہر حجاب ظلمانی شد وہ ظلمت کے حجابوں سے دور سراسر وجود نورانی ہو گیا اور سراسر نورانی وجود بن گیا کرد مائل نہ عشق ربانی خاطر شاں بجذب پنهانی اُن کے دل کو ایک مخفی کشش سے خدا کی طرف مائل کردیا حضرت اقدس کی قرآن سے محبت اور اس کے فیوض کا ایک بہت دلفریب بیان بھی سُن لیں فرماتے ہیں.ماست الغرض فرقان مدار دین ماست أو انیس خاطر غمگین الغرض قرآن ہمارے دین کی بنیاد ہے.وہ ہمارے غمگین دل کو تسلی دینے والا ہے.ے تو اں دیدن ازو روئے خدا نور فرقاں میکشد سوئے خدا فرقان کا نور خدا کی طرف کھینچتا ہے.اس کے ذریعہ خدا کا چہرہ دیکھا جاسکتا ہے ماچہ ساں بندیم زاں دلبر نظر ہمچو روئے اُو کُجا روئے دگر میں اس محبوب سے اپنی آنکھیں کیونکر بند کرسکتا ہوں.اس کے خوبصورت چہرے کے مقابل کونسا چہرہ ہے روئے من از نور روئے او بتافت یافت از فیضش دل من هر چه یافت میرا چہرہ اس کے منہ کے نور سے چمک اٹھا.میرے دل نے جو پایا اسی کے فیض سے پایا آخر پر آپ حضرت کی قرآنِ کریم سے محبت اور مسلمانوں کی اس طرف سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کے بیان میں آپ حضرت کی ایک بہت ہی درد ناک نظم پیش کرتے ہیں.اس نظم کے مضمون کے تعلق میں ایک

Page 346

327 ادب المسيح خوبصورت بات یہ بھی ہے کہ قرآن کریم نے بھی اس دردناک پکار کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کہا ہے کیونکہ آنحضرت کی قوم نے قرآن کریم کو مہجور کی طرح سے پس پشت ڈال دیا ہے.جیسے فرمایا: وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: (31) ترجمہ: اے میرے رب میری قوم نے تو اس فرقان کو بیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے.گویا کہ اول یہ دردناک پکار حضرت اقدس کے آقا اور مطاع کی طرف سے خدا تک پہنچی ہے اور پھر آپ کے نائب اور وارث کی طرف سے اس غم کا اظہار ہوا ہے.فرماتے ہیں: دردا که حسن صورت فرقاں عیاں نماند آں خود عیاں مگر اثر عارفاں نماند افسوس کہ قرآن کے چہرے کی خوبصورتی ظاہر نہ رہی مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ خود تو ظاہر ہے لیکن اس کے قدر شناس نہ رہے مردم طلب کنند که اعجاز آں کجاست صد درد و صد دریغ کہ اعجاز داں نماند لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا اعجاز کہاں گیا ( اعجاز تو ہے ) لیکن سخت رنج اس کا ہے کہ کوئی اعجاز داں نہیں رہا یوسف شنیده ام که شدش کارواں معیں ایں یوسفے کہ بیچ کسش کارواں نماند میں نے یوسف کی بابت سنا تھا کہ قافلہ نے اُس کی مدد کی تھی اور یہ یوسف ہے جس کا کوئی کارواں نہیں ہے جانم کباب شد ز غم ایں کتاب پاک چنداں بسوختم که خود امید جاں نماند اس کتاب کے غم میں میری جان کباب ہوگئی اور میں اس قدر جل گیا ہوں کہ بچنے کی کوئی امید نہیں اے سید الورا کی مددے وقت نصرت است در بوستاں سرائے تو کس باغباں نماند اے مخلوقات کے سردار مددفرما یہ نصرت کا وقت ہے کیونکہ تیرے باغ میں کوئی بھی باغباں نہیں رہا صد بار رقص با کنم از خرمی اگر بینم کہ حسن دلکش فرقاں نہاں نماند میں خوشی کے مارے سینکڑوں دفعہ رقص کروں.اگر یہ دیکھ لوں کہ قرآن کا دل کش جمال پوشیدہ نہیں رہا یارب چه بهر من غم فرقاں مقدر است یا خود در یں زمانہ کیسے رازداں نماند اے رب کیا میری تقدیر میں ہی فرقان کے لیے غم کھانا کھا ہے یا اس زمانہ میں میرے سوا اور کوئی واقف حقیقت ہی نہیں دیدم کہ زاہداں رہ فرقاں گذاشتند ناچار در دلم اثر میر شاں نماند میں نے دیکھا کہ زاہدوں نے قرآن کا راستہ چھوڑ دیا ہے اس لیے میرے دل میں بھی ان کی محبت کا نشان باقی نہیں رہا

Page 347

المسيح 328 اے خواجہ پہنچ روز بود لطف زندگی کس از پیئے مدام دریں خاکداں نماند اے خواجہ ! زندگی کا لطف چند دن کے لیے ہے کہ کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہا امروز گر دل از پنے قرآں نسوزدت عذرے دگر ترا بجناب یگاں نماند اگر آج کے دن تیرا دل قرآن کے لیے نہیں جلتا تو پھر خدا کی درگاہ میں تیرا کوئی عذر باقی نہیں رہا اور اس نظم کے مقطع میں قرآن کریم کی خدمت کی تلقین فرما کر سعدی کے مصرعے کو زندہ و جاوید کر دیتے ہیں.اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر به بند زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند اے بے خبر فرقان کی خدمت کے لیے کمر باندھ لے اس سے پہلے کہ یہ آواز آئے کہ فلاں شخص مر گیا 1 سعدی کا مصرع ہے

Page 348

329 ادب المسيح مدحت قرآن کریم عربی زبان میں جیسا کہ کہا گیا ہے کہ نعت قرآن میں ہم ان تین صفات کا ذکر کریں گے جو قرآن کریم میں بار بار بیان ہوئی ہیں.یعنی اول نور دوم.ہدایت سوم.تاثیرات اول ہم عربی میں ایک نعت پیش کرتے ہیں جس میں یہی درج بالا تمام موضوعات آجاتے ہیں اور بہت مؤثر اور مفصل طور پر آ جاتے ہیں.فرماتے ہیں: ނ هَلُمَّ إِلى كِتَابِ اللَّهِ صِدْقًا و إِيمَانًا بِتَصْدِيقِ الْجَنَانِ خدا کی کتاب کی طرف.صدق اور دلی ایمان آجا شَغَفْتُمُ أَيُّهَا النُّوكَى بِشَوي وَأَعْرَضْتُمْ عَنِ الزَّهْرِ الْحِسَانِ وقوفو! تم کانٹوں پر فریفتہ ہو گئے.اور خوبصورت پھولوں سے کنارہ کیا وَاثَرْتُمْ أَمَاعِزَ ذَاتَ صَخْرٍ عَلى مُخْضَرَّةٍ قَاعٍ هِجَانِ اور تم نے کنکریوں اور بڑے پتھروں والی زمین جو بہت سخت ہے اختیار کی.اور ایسی زمین کو ہے چھوڑا جو پر سبزہ اور نرم اور نہایت عمدہ اور قابلِ زراعت ہے وَمَا الْقُرْآنُ إِلَّا مِثْلَ دُرَرٍ فَرَائِدَ زَانَهَا حُسُنُ الْبَيَانِ اور قرآن در حقیقت بہت عمدہ اور یکدانہ موتیوں کی طرح ہے.جوحسنِ بیان سے اور بھی اس کی زینت اور خوبصورتی نکلی ہے وَمَا مَسَّتْ اَكُقُ الْكَاشِحِيْنَا مَعَارِفَهُ الَّتِي مِثْلَ الْحِصَان اور دشمنوں کی ہتھیلیاں ان معارف کو چھوٹی بھی نہیں.جو قرآن میں ایسے طور پر چھپی ہوئی ہیں جیسے پردہ نشین پارسا عورت چھپی ہوئی ہوتی ہے بِهِ مَا شِئْتَ مِنْ عِلْمٍ وَعَقْلٍ وأَسْرَارٍ وَّابُكَارِ الْمَعَانِي اس میں ہر یک وہ علم اور عقل ہے جس کا تو طالب ہے.اور انواع واقسام کے بھید اورٹی صداقتیں اس میں بھری ہیں

Page 349

المسيح 330 يُسَكِّتُ كُلَّ مَنْ يَعْدُو بِضِغْنِ يُبَيِّتُ كُلَّ كَذَّابٍ وَّ جَانِـي ہر یک ایسے دشمن کا منہ بند کرتا ہے جو مخالفانہ طور پر دوڑ پڑتا ہے.اور ہر ایک ایسے شخص پر اتمامِ حجت کرتا ہے جو دروغگو اور گناہگار ہے.رَبَّيْنَا دَرَّ مُزُنَتِهِ كَثِيرًا فَدَيْنَا رَبَّنَا ذَا الْأَمْتِنَانِ ہم نے اس کے مینہ کا پانی بہت ہی دیکھا ہے.سو ہم اس خدا پر قربان ہیں جس نے ایسے احسان کئے وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقُرْآنُ فَيْضًا خَفِيرٌ جَالِبٌ نَحْوَ الْجِنَانِ اور تو کچھ جانتا ہے کہ قرآن فیض کے رو سے کیا شے ہے؟ وہ ایک راہبر ہے جو بہشت کی طرف کھینچتا ہے لَهُ نُوْرَانِ نُورٌ مِّنْ عُلُومِ وَ نُورٌ مِّنُ بَيَانٍ كَالْجُمَانِ اس میں دونور ہیں ایک تو علوم کا نور اور دوسرے.فصاحت اور بلاغت کا نور جو دانہ نقرہ کی طرح چمکتا ہے كَلامٌ فَائِقٌ مَا رَاقَ طَرْفِى جَمَالٌ بَعْدَهُ وَ النَّيْرَان وہ ایک ایسا کلام ہے جو ہر ایک کلام سے فوقیت لے گیا ہے.اور اس کے بعد مجھے کوئی جمال اچھا معلوم نہ ہوا اور آفتاب اور قمر بھی اچھے دکھائی نہ دیئے.آيَاةُ الشَّمْسِ عِنْدَ سَنَاهُ دَخْنٌ وَمَا لِلَّعُلِ وَالسَّبُتِ الْيَمَانِي آفتاب کی روشنی اس کی چمک کے آگے ایک دھواں سا ہے.اور لعل سے بری کے سرخ چمڑے کو نسبت ہی کیا ہے گویمن کی ساخت ہو.وَ أَيْنَ يَكُونُ لِلْقُرآنِ مِثل وَلَيْسَ لَهُ بِهَذَا الْفَضْلِ ثَانِي اور قرآن کی مثال کوئی دوسری چیز کیوں کر ہو.کیونکہ وہ تو اپنے فضائل میں بے مثل ہے وَرِثْنَا الصُّحُفَ فَاقَتْ كُلَّ كُتُبِ وَ سَبَقَـتْ كُلَّ أَسْفَارٍ بِشَأْنِ ہم اس کتاب کے وارث بنائے گئے جو سب کتابوں پر فائق ہے.ایسی کتاب جو اپنے کمالات میں تمام کتابوں پر سبقت لے گئی ہے.وَجَاءَتْ بَعْدَ مَا خَرَّتْ خِيَامٌ وَحُرِّبَتِ الْبُيُوتُ مَعَ الْمَبَانِي اور اس وقت آئی جبکہ سب پہلے خیمے منہ کے بل گر چکے تھے.اور تمام گھر مع بنیاد کی جگہوں کے خراب ہو چکے تھے.محَتْ كُلَّ الطَّرَائِقِ غَيْرَ بِرٍ وَجَدَّتْ رَأْسَ بِدُعَاتِ الزَّمَانِ ہر یک راہ کو بغیر نیکی کے راہ کے معدوم کر دیا.اور ان تمام بدعتوں کا سرکاٹ دیا جو زمانہ میں شائع تھیں

Page 350

331 ادب المسيح كَأَنَّ سُيُوفَهَا كَانَتْ كَنَارِ بِهَا حُرِقَتْ مَخَارِيقُ الْآدَانِي گویا اس کی تلوار میں ایک آگ کی طرح تھیں.ان سے تمام گد کے جل گئے جو سفلہ لوگوں کے ہاتھ میں تھے.إِذَا اسْتَدْعَى كِتَابُ الله مثلا فَعَيَّ الْقَوْمُ وَ اسْتَتَرُوا كَفَانِي جب کتاب اللہ نے اپنے مثل کا مطالبہ کیا.سو قوم مقابلہ سے عاجز ہوگئی اور فناشدہ چیز کی طرح چھپ گئی وَسُلِبَتْ جُرُعَة الْإِسْنَافِ مِنْهُمُ مِنَ الْهَوْلِ الَّذِي حَلَّ الْجَنَانِ اور پیشقدمی کی ہمت اس سے مسلوب ہوگئی.اور یہ ہیبت الہی تھی جو ان کے دل میں بیٹھ گئی فَمِنْ عَجَبٍ أَكَبُوا مِثْلَ مَيْتٍ وَقَدْ مَرَنُوا عَلَى لُطْفِ الْبَيَانِ سو یہ تعجب کی بات ہے کہ وہ مردہ کی طرح منہ کے بل جا پڑے.حالانکہ وہ فصیح کلمات کی مشق اور عادت رکھتے تھے.وَاَنْزَلَهُ مُهَيْمِنُنَا حُدَيَّا فَفَرُّوْا كُلُّهُمْ كَالْمُسْتَهَانِ اور خدا تعالیٰ نے اس کو بیمثل اور طالب معارض نازل کیا.پس کفار اس کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے اور سرگردان ہو کر بھاگ گئے.وَصَارَتْ عُصْبُهُمْ فِرَقًا تُبَيِّنًا فَمِنْهُم مَّنْ آتَى بَعْدَ الْحَرَانِ اور ان کی جماعتیں کئی فرقوں میں متفرق ہو گئے.پس بعض ان میں سے تو سرکشی سے باز آ گئے وَمِنْهُم مَّنْ تَلَبَّبَ مُسْتَشِيطًا لِحَرْبِ الصَّادِقِينَ وَلِلطَّعَانِ اور بعض نے قرآن کے مقابلہ سے عاجز آ کر ہتھیار باند ھے.اور غضب میں آکر راستبازوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.اور فرماتے ہیں کہ تمام انوار قرآن ہی میں ہیں: وَكُلُّ النُّورِ فِي الْقُرْآنِ لَكِن يَمِيلُ الْهَالِكُونَ إِلَى الدُّخَانِ اور تمام ہر قسم کے نور قرآن ہی میں ہیں.مگر مرنے والے دھوئیں کی طرف دوڑتے ہیں به نِلْنَا تُرَاكَ الْكَامِلِينَا بِهِ سِرْنَا إِلَى أَقْصَى الْمَعَانِي ہم نے اس کے وسیلہ سے کاملوں کی وراثت پائی.ہم نے اس کے وسیلہ سے حقیقتوں کے اخیر تک سیر کیا فَقُمْ وَاطْلُبُ مَعَارِفَهُ بِجُهد وَ خَفْ شَرَّ الْعَوَاقِبِ وَالْهَوَان پس اٹھ اور کوشش کے ساتھ اس کے معارف طلب کر.اور انجام بد اور ذلت کی بدیوں سے خوف کر

Page 351

المسيح 332 ذیل کی نعت میں مشاہدہ کریں کہ کس قدر اتباع قرآن ہے.اوّل سے آخر تک اول: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الاعراف : 186) دوم : أُحكِمَتْ أَيْتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ (هود:2) سوم : لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة : 80) بہت ہی خوبصورت نعت ہے اور فرماتے ہیں کہ آپ نے اس کتاب کی برکات سے فیض اٹھایا ہے.هَلِ الْعِلْمُ شَيْءٌ غَيْرُ تَعْلِيمِ رَبَّنَا وَأَيُّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ نَتَخَيَّرُ کیا وہ علم کوئی چیز ہے جسے ہمارے رب نے نہ سکھایا ہواور کونسی بات ہم اس کے بعد اختیار کر سکتے ہیں؟ كِتَابٌ كَرِيمٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ وَحَيَاتُهُ يُحْيِي الْقُلُوبَ وَيُزُهِرُ وہ کتاب کریم ہے اس کی آیات محکم ہیں اور اس کی زندگی دلوں کو زندہ اور روشن کرتی ہے يَدُعُ الشَّقِيَّ وَلَا يَمَسُّ نِكَاتَهُ وَ يُروى التَّقِيُّ هُدًى فَيَنْمُهُ وَيُثْمِرُ وہ بد بخت کو دھکے دیتی ہے اور وہ اس کے نکات کو نہیں چھوسکتا اور وہ پر ہیز گار کو ہدایت سے سیراب کرتی ہے سودہ نشو ونما پاتا ہے اور پھل دیتا ہے وَمَتَّعَنِى مِنْ فَيُضِهِ لُطْفُ خَالِقِى وَإِنِّي رَضِيعُ كِتَابِهِ وَ مُخَفَّرُ اور میرے رب کی مہربانی نے اپنے فیض سے مجھے بہرہ ور کیا ہے.میں اس کی کتاب کا شیر خوار ہوں اور اس کی حفاظت میں ہوں كَرِيمٌ فَيُؤْتِي مَنْ يَّشَاءُ عُلُومَهُ قَدِيرٌ فَكَيْفَ تُكَذِّبَنَّ وَتَهُـ وہ کریم ہے.وہ جسے چاہتا ہے اپنے علوم دیتا ہے ، وہ قدیر ہے.سوتو (اس بات کی ) کیسے تکذیب کرتا ہے اور کیسے (اس پر) تعجب کرتا ہے وَ إِنِّي نَظَمُتُ قَصِيدَتِي مِنْ فَضْلِهِ لِتَعْلَمَ فَضْلُ اللَّهِ كَيْفَ يُخَيْرُ اور میں نے خدا کے فضل سے اپنا قصیدہ منظوم کیا ہے تا کہ تو جان لے کہ اللہ کا فضل کس طرح برگزیدہ بنا دیتا ہے اور آخر پر ایک بہت ہی موثر نمونہ نعت قرآن مشاہدہ کریں اس میں قرآن کریم کی تمام تاثیرات کو بیان کیا گیا ہے اور بہت ہی خوبصورتی سے کہا گیا ہے.آخری شعر کو مشاہدہ کریں کیسی محبت اور فدائیت ہے.

Page 352

333 ادب المسيح وَهَذَا هُدَى اللَّهِ الَّذِي هُوَ رَبُّنَا فَإِن كُنتَ تَرْغَبُ عَنْ هُدًى لَا نَرْغَبُ اور یہ اس اللہ کی ہدایت ہے جو ہمارا رب ہے سوا گر تو ہدایت سے اعراض کرتا ہے تو ہم اعراض نہیں کریں گے.وَإِنَّ سِرَاجِي قَوْلُهُ وَ كِتَابُهُ فَإِنْ أَعْصِهِ فَسَنَاهُ مِنْ أَيْنَ اَطْلُبُ اور میرا چراغ تو اس کا فرمودہ اور اس کی کتاب ہے اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اس کی روشنی کہاں سے طلب کروں.وَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ بَحْرُ مَعَارِفٍ وَ نَجدَنَّ فِيهِ عُيُونَ مَا نَسْتَعْذِبُ اور بے شک اللہ کی کتاب تو معارف کا سمندر ہے اور ہم اس میں ضرور ایسے چشمے پاتے ہیں جنہیں ہم شیر میں پاتے ہیں.وَكَمْ مِنْ نِكَاتٍ مِثْلَ عِيْدٍ تَمَتَّعَتْ بِهَا مُهْجَتِى مِنْ هَدَى رَبِّي فَجَرَبُوا اور بہت سے نکتے نازک اندام دلر باؤں کی طرح ہیں کہ لطف اندوز ہوئی ان سے میری جان اپنے رب کی رہنمائی سے.پس تم بھی تجربہ کرو.إِذَا مَا نَظَرْتُ إِلَى ضِيَاءِ جَمَالِهِ فَإِذَا الْجَمَالُ عَلَى سَنَا الْبَرْقِ يَغْلِبُ جب میں نے اس کے جمال کی روشنی کو دیکھا تو نا گاہ اس کا حسن بجلی کی روشنی پر بھی غالب آرہا تھا.رَتَيْتُ بِنُورِ نُورَهُ فَتَبَيَّنَتْ عَلَيَّ حَقَائِقُهُ فَفِيْهَا أَقَلَّبُ میں نے نور (بصیرت) کے ذریعہ قرآن کا نور دیکھا تو ظاہر ہوگئے مجھ پراس کے حقائق اور نبی پر میں غور کرتارہتاہوں.يَصُدُّ عَنِ الطَّغْوَى وَيَهْدِي إِلَى التَّقَى خَفِيرٌ إِلَى طُرُقِ السَّلَامَةِ يَجُلِبُ وہ سرکشی سے روکتا ہے اور تقوی کی طرف رہنمائی کرتا ہے.وہ پناہ دینے والا ہے ( اور ) سلامتی کی راہوں کی طرف کھینچتا ہے.يَجُرُّ إِلَى الْعُلْيَا وَ جَاءَ مِنَ الْعُلَى كَمَا هُوَ أَمْرٌ ظَاهِرٌ لَيْسَ يُحْجَبُ وہ بلندی کی طرف کھینچتا ہے اور بلندی سے آیا ہے جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے پردہ میں نہیں.وَسِرٌّ لَطِيفٌ فِي هُدَاهُ وَنُكْتَةٌ كَنَجُمِ بَعِيدٍ نُورُهَا تَتَغَيَّبُ وہ اپنی ہدایت میں ایک لطیف بھید اور ایک نکتہ ہے دور کے ستارے کی طرح جس کا نور چھپا رہتا ہے.وَمَنْ يَّاتِهِ يُقْبَلُ وَ مَنْ يُهْدَ قَلْبُهُ إلَى مَأْمَنِ الْفُرْقَانِ لَا يَتَذَبْذَبُ اور جو اس کے پاس آتا ہے قبول کیا جاتا ہے اور جس کے دل کی رہنمائی کی جائے وہ فرقان کی امن گاہ کی طرف ( آنے میں ) مذبذب نہیں ہوتا.

Page 353

المسيح 334 يُضِيءُ الْقُلُوبَ وَ يَدْفَعَنَّ ظَلَامَهَا وَ يَشْفِي الصُّدُورَ سَوَادُهُ وَ يُهَدِّبُ وہ دلوں کو روشن کرتا اور ان کی تاریکیوں کو دور کرتا ہے اور اس کی تحریر سینوں کو شفا دیتی ہے اور مہذب کرتی ہے.فَقُلْتُ لَهُ لَمَّا شَرِبْتُ زُلَالَهُ فِدَى لَكَ رُوحِي أَنْتَ عَيْنِي وَمَشْرَبُ پس میں نے قرآن سے کہا جب میں نے اس کا صاف پانی پیا.تجھ پر میری جان قربان ہو کہ تو میرا چشمہ اور گھاٹ ہے.

Page 354

335 ادب المسيح مدح صحابہ کرام اسلامی شعری ادب میں یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس کو مسلمان شعراء نے اپنے ادب میں مطلقاً اختیار نہیں کیا.قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ افتخار حضرت اقدس ہی کو ملا ہے.آپ نے عربی زبان میں (جو کہ صحابہ کرام کی زبان تھی ) صحابہ کی مدح و توصیف کہی ہے.اوّل حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق کی مدح بیان کی ہے اور پھر عمومی طور پر تمام صحابہ کی مدحت میں اشعار پیش کئے ہیں.ہم اپنے دستور کے مطابق اقول قرآن کریم کی مدح صحابہ کو پیش کرتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ مدحت و ثناء کے مضمون میں قرآن کریم صرف تین ہستیوں ہی کو یہ اعزاز دیتا ہے کہ ان کی مدح وستائش کی جائے.ان میں اول مقام تو ہستی باری تعالیٰ کا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ اس کی تسبیح وتحمید میں مشغول ہے جیسے فرمایا: تُسَبِّحُ لَهُ الموتُ السَّيْ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسِحُ بِحمدِم وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل: 45) ساتوں آسمان اور زمین اور جو اُس میں بسنے والے ہیں اس کی تسبیح کرتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہوئی اس کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں یقینا وہ حلیم اور غفور ہے.اور دوسرے مقام پر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کو ظاہر کرنے والے اور اس کی منشاء اور تعلیم کو پہنچانے والے ہوتے ہیں.تیسرے مقام پر وہ ہستیاں ہیں جن کو ہم صحابہ کرام کہتے ہیں جنہوں نے انبیاء سے تعلیم حاصل کر کے تربیت پائی اور اپنے عمل سے باری تعالیٰ کی ہستی اور انبیاء اور ان کی تعلیم کی صداقت کا ثبوت فراہم کیا یہ وہ صداقت ہے جس کو ہم نے حضرت اقدس کے اس فرمان سے حاصل کیا ہے.فرمان حضرت اقدس : قرآن شریف کے لئے تین تجلیات ہیں.وہ سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے.وَ لِكُلِّ اَمْرٍ وَقَتٌ مَّعْلُومٌ.اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہو ا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے

Page 355

المسيح 336 ظہور کی تکمیل ہوئی.( براہین احمدیہ جلد پنجم صفحہ 66 حاشیہ ) یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.فرماتا ہے: لَقَدْ مَنَّ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ التِهِ وَيُزَكِيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ (ال عمران: 165) لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ ترجمہ اللہ نے مومنوں میں سے ایک ایسا رسول بھیج کر جو انہیں اس کے نشان پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناًا ان پر احسان کیا ہے اور اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے.صحابہ نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو ایسے احسن طریق سے قبول کیا کہ اللہ نے اُن کا حسن اطاعت دیکھ کر فرمایا: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ (ال عمران: 111) ترجمہ: تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لیے پیدا کیا گیا ہے.تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو.اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.حضرت اقدس اس فرمان کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں اس بارہ میں شہادت دینا تسلی بخش امر نہیں ہے کیا اس نے صحابہ کرام کے حق میں نہیں فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو امم سابقہ سے جمیع کمالات میں بہتر اور برتر و بزرگ تر ٹھہراتا ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) اور صحابہ کرام کی امت کو ( کیونکہ قرآن کے اول مخاطب وہی تھے ) ان اعمالِ صالحہ اور اطاعت رسول کو کمال تک پہنچانے پر فرماتا ہے.رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أو ليكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلة: 23)

Page 356

337 ادب المسيح حضرت اقدس اس فرمان کی تفسیر میں فرماتے ہیں." جو جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر تھی اور جس نے آپ کی قوت قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لئے قرآن شریف میں آیا ہے رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ اس کا سب کیا ہے؟ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا نتیجہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجوہ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت تیار کی.میرا دعوی ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لیکر آخر تک کسی کو نہیں ملی اور فرماتے ہیں: وہ جماعت ( جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمالِ صالحہ کیسے کہ خدا تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے ) صرف ترک بدی ہی سے نہ بنی تھی انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیج سمجھا.خدا تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا تب جا کر ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آئی رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المجادلة:23) ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) مزید فرماتے ہیں: صحابہ کی جو تعمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خودان کی نسبت فرماتا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ اور پھر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ فَرمایا.صحابہ کرام رضوان اللہ میم کی مدح میں دو عظیم الشان فرمودات قرآن بھی ہیں اوّل کا تعلق صحابہ کے اخلاق اور عبادت الہی کے آثار سے ہے.جیسے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ تَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمُ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ حضرت اقدس اس فرمان قرآن کی تفسیر میں فرماتے ہیں: (الفتح : 30) محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا رسول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی

Page 357

المسيح 338 کفاران کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور ان کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس آیت کے دوسرے حصے کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے اور جن کے حق میں فرمایا ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ان میں آثار سجود اور عبودیت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالے کے وعدوں میں خطا اور تخلف نہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دوسرے فرمان کا تعلق صحابہ کی جاں نثاری اور کامل فدائیت کے بیان میں ہے.فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمُ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب : 24) اس آیت کی تفسیر میں حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں صحابہ کی تعریف و توصیف میں یہ آیت اول مقام پر ہے.فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوامَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنتَظِرُ پاره 21 رکوع 19 - مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا.سو اُن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے ہیں اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں.صحابہ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اُسوہ حسنہ نہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) صحابہ کی یہ وفا اور ان کے ایمان کا صدق اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس نے ان میں ایسی صفات

Page 358

339 ادب المسيح پیدا کر دیں جن کو خدا تعالیٰ نے بھی قبول فرمایا.حضرت اقدس صحابہ کے اس منصب کو صرف اطاعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ثمرہ سمجھتے ہیں.سورۃ ال عمران کی آیت قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران: 32) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں اڑہ اور نفی اثبات کے ذکر نہیں کئے تھے بلکہ ان کے پاس ایک اور بھی چیز تھی.وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں محو تھے.جو نور آپ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ کے قلب پر گرتا تھا اور ماسوا اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا.تاریکی کے بجائے ان سینوں میں نور بھرا جاتا تھا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس نور کو حاصل کرنے پر ہی صحابہ کرام کا یہ منصب ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيْهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ ترجمہ.میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں.ان میں سے جس کا بھی اتباع کرو گے ہدایت پاؤ گے.یہی وہ نو ر تھا جو اصحاب نبی سے مخصوص ہوا اور دین اسلام کی خدمت کرنے والوں کے لئے ضروری ہوا کہ ان کے نمونے اور اسوہ کو اختیار کریں تا اللہ کے نزدیک عزت کا مقام حاصل ہو.حضرت اقدس فرماتے ہیں: بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا اے جوانو ! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہو اور ملتِ اسلام کے باغ میں بہار اور رونق آئے اگر یاراں کنوں برغربت اسلام رحم آرید با صحاب نبی نزد خدا نسبت شود پیدا اے دوستو! اگر اب تم اسلام کی غربت پر رحم کرو تو خدا کے ہاں تمہیں آنحضرت کے صحابہ سے مناسبت پیدا ہو جائے نفاق و اختلاف ناشناسان از میاں خیزد کمال اتفاق و خُلت و الفت شود پیدا نا اہل لوگوں کا آپس میں اختلاف اور نفاق دور ہو جائے اور کمال درجہ کا اتفاق دوستی اور محبت پیدا ہو جائے به جنبید از پئے کوشش که از درگاه ربانی زبیر ناصران دین حق نصرت شود پیدا

Page 359

ب المسيح 340 کوشش کے لیے حرکت میں آؤ کہ خدا کی درگاہ سے مدد گارانِ اسلام کے لیے ضرور نصرت ظاہر ہوگی اگر امروز فکر عزت دیں در شما جو شد شما را نیز والله رتبت و عزت شود پیدا اگر آج دین کی عزت کا خیال تمہارے دل میں جوش مارے تو خدا کی قسم خود تمہارے لیے بھی عزت ومرتبت پیدا ہو جائے اور اسی اطاعت رسول اکرم کے تحت آنحضرت کے نائب اور مہدی دوراں بھی یہی فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول کا مقام حاصل کرنے کے لیے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ کی اطاعت بھی لازمی ہے.فرماتے ہیں: وہ آیا منتظر جس کے تھے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات دکھائیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دے دیں شہادات پھر اس کے بعد کون آئیگا ہیہات خُدا سے کچھ ڈرو چھوڑ و معادات خُدا نے اک جہاں کو یہ سُنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي مسیح وقت اب دُنیا میں آیا خُدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مُبارک وہ جو آب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا و ہی ئے اُن کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِى عربی زبان میں مدح صحابہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلَّهُمْ كَذَكَـاءِ قَدْ نَوَّرُوا وَجُهَ الوَرَى بِضِيَاءِ یقیناً صحابہ سب کے سب سورج کی مانند ہیں.انہوں نے مخلوقات کا چہرہ اپنی روشنی سے منور کر دیا

Page 360

341 ادب المسيح تَرَكُوا أَقَارِبَهُمْ وَحُبَّ عِيَالِهِمْ جَاءُ وُا رَسُولَ اللَّهِ كَالْفُقَرَاءِ انہوں نے اپنے اقارب کو اور عیال کی محبت کو بھی چھوڑ دیا اور رسول اللہ کے حضور میں فقراء کی طرح حاضر ہو گئے ذُبِحُوا وَ مَا خَافُوا الْوَرَى مِنْ صِدْقِهِمْ بَلُ اثَرُوا الرَّحْمَانَ عِنْدَ بَلَاءِ وہ ذبح کئے گئے اور اپنے صدق کی وجہ سے مخلوق سے نہ ڈرے بلکہ مصیبت کے وقت انھوں نے خدائے رحمان کو اختیار کیا تَحتَ السُّيُوفِ تَشَهَّدُوا لِخُلُوصِهِمُ شَهِدُوا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْامَلَاءِ اپنے خلوص کی وجہ سے وہ تلواروں کے نیچے شہید ہو گئے اور مجالس میں انہوں نے صدق قلب سے گواہی دی حَضَرُوا الْمَوَاطِنَ كُلَّهَا مِنْ صِدْقِهِمْ حَفَدُوا لَهَا فِي حَرَّةٍ رَجُلَاءِ اپنے صدق کی وجہ سے وہ تمام میدانوں میں حاضر ہو گئے.وہ ان میدانوں کی سنگلاخ سخت زمین میں جمع ہو گئے الصَّالِحُونَ الْخَاشِعُونَ لِرَبِّهِمْ الْبَاتِتُونَ بِذِكْرِهِ وَ بُكَاءِ وہ صالح تھے، اپنے رب کے حضور عاجزی کرنے والے تھے وہ اس کے ذکر میں رو رو کر راتیں گذانے والے تھے قَوْمٌ كِرَامٌ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَهُمْ كَانُوا لِخَيْرِ الرُّسُلِ كَالْأَعْضَاءِ وہ بزرگ لوگ ہیں.ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے.وہ خیرالرسل کے لیے بمنزلہ اعضاء کے تھے مَا كَانَ طَعْنُ النَّاسِ فِيْهِمْ صَادِقًا بَلْ حَشْنةٌ نَشَاتْ مِنَ الْأَهْوَاءِ لوگوں کے طعن ان کے بارے میں بچے نہ تھے بلکہ وہ ایک کینہ ہے جو ہوا و ہوس سے پیدا ہوا ہے إِنِّي أَرى صَحِبَ الرَّسُول جَمِيعَهُمُ عِندَ المَلِيْكِ بِعِزَّةٍ فَعَسَاءِ میں رسول کے تمام کے تمام صحابہ کو خدا کے حضور میں دائمی عزت کے مقام پر پاتا ہوں تَبِعُوا الرَّسُولَ بِرَحْلِهِ وَثَوَاءِ صَارُوا بِسُبُلِ حَبِيْبِهِمْ كَعَفَاءِ انہوں نے رسول کی پیروی کی سفر اور حضر میں اور وہ اپنے حبیب کی راہوں میں خاک راہ ہو گئے نَهَضُوا لِنَصْرِ نَبِيِّنَا بِوَفَاءِ عِنْدَ الصَّلَالِ وَفِتْنَةٍ صَمَّاءِ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے لئے وفاداروں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے گمراہی اور سخت فتنہ کے وقت میں وَتَخَيَّرُوا لِلَّهِ كُلَّ مُصِيبَةٍ وَتَهَلَّلُوا بِالْقَتْلِ وَالْإِجَلَاءِ اور انہوں نے اللہ کی خاطر ہر مصیبت کو اختیار کر لیا اور قتل اور جلا وطنی کو بھی بخوشی قبول کر لیا اَنْوَارُهُمْ فَاقَتْ بَيَانَ مُبَيِّنٍ يَوَدُّ مِنْهَا وَجُهُ ذِي الشَّحْنَاءِ ان کے انوار بیان کرنے والے کے بیان سے بھی بالا ہو گئے.کینہ ور کا چہرہ ان انوار کے مقابلہ میں سیاہ ہو رہا ہے

Page 361

ب المسيح 342 اور صحابہ کرام کے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: رُوَيْدَكَ لَا تَهْجُ الصَّحَابَةَ وَ احْذَرِ وَلَا تَقْفُ كُلَّ مُزَوِرٍ وَ تَبَصَّرِ سنبھل جا.صحابہ کی ہجو نہ کر اور ڈر اور ہر فریبی کے پیچھے نہ چل اور بصیرت سے کام لے وَلَا تَتَخَيَّرُ سُبُلَ غَيْ وَّ شِقْوَةٍ وَلَا تَلْعَنَنُ قَوْمًا أَنَارُوا كَنَيْرِ گمراہی اور بدبختی کے راستوں کو اختیار نہ کر اور ایسے لوگوں پر لعنت نہ کر جو آفتاب کی طرح روشن ہوئے أُوْلَئِكَ أَهْلُ اللَّهِ فَاخْشَ فِنَاءَ هُمُ وَلَا تَقْدَحَنُ فِي عِرْضِهِمْ بِتَهَوُّرٍ یہ لوگ اہل اللہ ہیں.سوان کے صحن میں داخل ہونے سے ڈر اور دیدہ دلیری سے ان کی عزت و آبرو پر طعنہ زنی نہ کر أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ حُفَّاظُ دِينِهِ وَإِبْدَاءُ هُـمْ إِبْدَاءُ مَوْلًى مُؤْثِرِ یہ سب اللہ کا گروہ ہیں اور اس کے دین کے محافظ ہیں اور ان کو ایذا دینا انہیں پسند کرنے والے مولی کو ایذا دینا ہے تَصَلَّوا لِدِينِ اللهِ صِدْقًا وَّ طَاعَةً لِكُلِّ عَذَابٍ مُحْرِقٍ أَوْ مُدَمِّر وہ تیار ہو گئے دین الہی کی خاطر صدق اور اطاعت سے، ہر جلانے والے یا مہلک عذاب کے اٹھانے کے لئے وَطَهَّرَ وَادِى الْعِشْقِ بَحْرَ قُلُوبِهِمُ فَمَا الزَّبَدُ وَ الْغُثَاءُ بَعْدَ التَّطَهر عشق کی وادی نے ان کے دلوں کے سمندر کو پاک کر دیا پس جھاگ اور میل کچیل پاک ہو جانے کے بعد باقی نہیں رہی وَ جَاءُ وُا نَبِيَّ اللَّهِ صِدْقًا فَنُوِّرُوا وَ لَمْ يَبْقَ أَثْرٌ مِّنْ ظَلَامٍ مُّكَدِرِ اور وہ اللہ کے نبی کے پاس صدق دل سے آئے تو روشن کر دیئے گئے اور کدورت پیدا کرنے والی تاریکی کا کوئی اثر باقی نہ رہا بأجْنِحَةِ الأَشْوَاقِ طَارُوا إِطَاعَةً وَصَارُوُا جَوَارِحَ لِلنَّبِيِّ الْمُوَكَّرِ وہ فرمانبرداری کرتے ہوئے شوق کے پروں کے ساتھ اڑے اور بھی محترم کے لئے وہ دست و بازو بن گئے

Page 362

343 ادب المسيح حضرت ابوبکر کی شان میں عظیم الشان منقبت بیان کرتے ہیں: وَ إِنِّي أَرَى الصِّدِّيقَ كَالشَّمْسِ فِي الضَّحَى مَائِرُهُ مَقْبُولَةٌ عِندَ هُو جِرٍ میں (ابوبکر صدیق کو چاشت کے سورج کی طرح پاتا ہوں آپ کے مناقب و اخلاق ایک روشن ضمیر انسان کی نگاہ میں مقبول ہیں وَ كَانَ لِذَاتِ الْمُصْطَفَى مِثْلَ ظِلِهِ وَمَهُمَا أَشَارَ الْمُصْطَفَى قَامَ كَالُجَرِى وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کے سائے کی مثل تھا اور جب بھی مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ کیا تو وہ بہادر کی طرح اٹھ کھڑا ہوا وَ أَعْطى لِنَصْرِ الدِّينِ أَمْوَالَ بَيْتِهِ جَمِيعًا سِوَى الشَّيْءِ الْحَقِيرِ الْمُحَقَّرِ اور اس نے دین کی نصرت کے لئے اپنے گھر کے سب اموال دے دیئے سوائے نا چیز اور معمولی اشیاء کے وَلَمَّا دَعَاهُ نَبِيِّنَا لِرِفَاقَةٍ عَلَى الْمَوْتِ أَقْبَلَ شَائِقًا غَيْرَ مُدْبِرِ اور جب ہمارے نبی نے اسے رفاقت کے لئے بلایا تو وہ موت پر شوق کے ساتھ آگے بڑھا اس حال میں کہ وہ پیٹھ پھیر نے والا نہ تھا وَ لَيْسَ مَحَلَّ الطَّعْنِ حُسْنُ صِفَاتِهِ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ أَزْمَعْتَ جَوْرًا فَعَيْرِ اور اس کی اچھی صفات طعن کا محل نہیں.اگر تو نے ظلم سے ارادہ کیا ہے تو عیب لگاتا رہ أَبَادَ هَوَى الدُّنْيَا لِإِحْيَاءِ دِينِهِ وَ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ مِنْ كُلِّ مَعْبَرٍ اس نے دنیا کی خواہشات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے احیاء کی خاطر مٹا دیا اور رسول اللہ کے پاس ہر گزرگاہ سے آیا عَلَيْكَ بِصُحُفِ اللَّهِ يَا طَالِبَ الْهُدَى لِتَنْظُرَ اَوْصَافَ الْعَتِيقِ الْمُطَهَّر اے طالب ہدایت! اللہ کے صحیفوں کو لازم پکڑتا تو اس پاک شریف النفس کے اوصاف دیکھے وَ مَا إِنْ أَرَى وَاللَّهِ فِي الصَّحُبِ كُلِّهِمْ كَمِثْلِ أَبِي بَكْرٍ بِقَلْبٍ مُّعَطَّرِ اور خدا کی قسم! میں تمام کے تمام صحابہ میں کوئی شخص ابوبکر کی طرح معطر دل والا نہیں پاتا تَخَيَّرَهُ الْأَصْحَابُ طَوْعًا لِفَضْلِهِ وَلِلْبَحْرِ سُلْطَانٌ عَلَى كُلِّ جَعْفَرٍ صحابہ نے بخوشی اس کی بزرگی کی وجہ سے اس کا انتخاب کیا.اور سمندر کو غلبہ حاصل ہے ہر دریا پر وَيُثْنِي عَلَى الصِّدِيقِ رَبِّ مُّهَيْمِنٌ فَمَا أَنْتَ يَا مِسْكِينُ إِنْ كُنْتَ تَزْدَرِى اور رب تصمیمن صدیق کی مدح کر رہا ہے.پس اے مسکین ! تو کیا چیز ہے؟ اگر تو عیب لگاتا ہے

Page 363

ب المسيح 344 لَهُ بَاقِيَاتٌ صَالِحَاتٌ كَشَارِقٍ لَهُ عَيْنُ آيَاتٍ لِهَذَا التَّطَهُرِ سورج کی طرح اس کے باقیات صالحات موجود ہیں اس پاکیزگی کی وجہ سے اس کے لئے نشانات کا ایک چشمہ موجود ہے تَصَلَّى لِنَصْرِ الدِّينِ فِي وَقْتِ عُسْرَةٍ تبدى بِغَارِ بِالرَّسُولِ الْمُؤَخَّرِ دین کی تنگی کے وقت اس نے اس کی مدد کی ذمہ داری لی.اس نے تائید یافتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں جانے میں پہل کی مَكَيْنْ أَمِينُ زَاهِدٌ عِندَ رَبِّهِ مُخَلَّصُ دِينِ الْحَقِّ مِنْ كُلِّ مُهْجِرٍ وہ اپنے رب کے حضور میں صاحب مرتبہ، امانتدار اور تارک دنیا ہے.دینِ حق کو خلاصی دینے والا ہے ہر ایک بیہودہ گو سے وَمِنْ فِتَنِ يُخْشَى عَلَى الدِّينِ شَرُّهَا وَمِنْ مِّحَنٍ كَانَتْ كَصَخْرٍ مُّكَسِرِ اور خلاصی دینے والا ہے دین کو ایسے فتنوں سے جن کے شر سے دین کو خوف تھا اور ایسے دکھوں سے جو توڑنے والے پتھر کی طرح تھے وَلَوْ كَانَ هَذَا الرَّجُلُ رَجُلًا مُنَافِقًا فَمَنُ لِلنَّبِيِّ الْمُصْطَفَى مِنْ مُّعَزَرٍ اگر یہ آدمی کوئی منافق آدمی تھا تو پھر نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدد گار کون تھا ؟ حضرت عمر فاروق کی شان میں فرماتے ہیں: وَشَابَهَهُ الْفَارُوقُ فِي كُلِّ خُطَّةٍ وَسَاسَ الْبَرَايَا كَالْمَلِيكِ الْمُدَبِّرِ اور ( عمر ) فاروق ہر فضیلت میں ان کے مشابہ ہوا اور اس نے ایک مد بر بادشاہ کی طرح رعایا کا انتظام کیا سَعَى سَعْيَ اِخْلَاصِ فَظَهَرَتْ عِزَّةٌ وَشَأْنْ عَظِيمٌ لِلْخِلَافَةِ فَانُظُرِ اس نے اخلاص سے کوشش کی تو ظاہر ہوگئی خلافت کے لئے عزت اور شانِ عظیم.سود یکھ تو سہی وَ صَبَّغَ وَجْهَ الْأَرْضِ مِنْ قَتْلِ كَفْرَةٍ فَيَا عَجَبًا مِنْ عَزْمِهِ الْمُتَشَمِّرِ اور اس نے زمین کی سطح کو کفار کو قتل کر کے رنگ دیا پس اس کا عزم مصمم کیا ہی عجیب تھا وَصَارَ ذُكَاءً كَوْكَبٌ فِي وَقْتِهِ فَوَاهَا لَهُ وَلِوَقْتِهِ الْمُتَطَهِّرِ اور اس کے عہد میں ستارہ سورج بن گیا تھا.پس آفرین ہے اس پر بھی اس کے پاک وقت پر بھی وَ بَارَى مُلُوكَ الْكُفْرِ فِي كُلِّ مَغْرِكِ وَ أَهْلَكَ كُلَّ مُبَارِرٍ مُّتَكَبَرِ اور اس نے کافر بادشاہوں سے ہر معرکے میں مقابلہ کیا اور ہر متکبر جنگجو کو ہلاک کر دیا

Page 364

345 ادب المسيح ارَى ايَةً عُظمى بِايْدِ قَوِيَّةٍ فَوَاهَا لِهَذَا الْعَبْقَرِي الْمُظَفَّر اس نے قومی ہاتھوں سے بڑا نشان دکھایا.پس آفرین ہے اس صحیح مند جوانمرد پر إِمَامُ أُناسٍ فِي بِجَادٍ مُرَقَّعٍ مَلِيْكَ دِيَارٍ فِي كِسَاءٍ مُّغَبَّرٍ وه پیوند شدہ کمبل میں لوگوں کا امام تھا اور غبار آلود چادر میں ملکوں کا بادشاہ تھا وَأُعْطِيَ أَنْوَارًا فَصَارَ مُحَدَّنًا وَكَلَّمَهُ الرَّحْمَنُ كَالمَتَخَيَّرِ اور اسے انوار الہی دیئے گئے سو وہ خدا کا محدث بن گیا اور خدائے رحمان نے اس سے برگزیدوں کی طرح کلام کیا مَاثِرُهُ مَمْلُوَّةٌ فِي دَفَاتِرٍ فَضَائِلُهُ أَجَلَى كَبَدْرٍ الْوَرِ اس کی خوبیوں سے دفاتر بھرے پڑے ہیں اور اس کے فضائل بدرانور کی طرح زیادہ روشن ہیں فَوَاهًا لَّهُ وَلِسَعُيْهِ وَلِجُهْدِهِ وَ كَانَ لِدِينِ مُحَمَّدٍ خَيْرَ مِغْفَرٍ پس آفرین ہے اس کے لئے اور اس کی کوشش اور جدوجہد کے لئے وہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہترین خود تھا وَ فِي وَقْتِهِ إِفْرَاسُ خَيْلٍ مُحَمَّدٍ أَثَرُنَ غُبَارًا فِي بَلَادِ التَّنَصُّرِ اور اس کے عہد میں محمد صلعم کے شاہسواروں کے گھوڑوں نے عیسائیوں کے ملک میں غبار اڑائی وَ كَسَرَ كِسْرَى عَسُكُرُ الدِّينِ شَوْكَةً فَلَم يَبْقَ مِنْهُمْ غَيْرُ صُوَرِ التَّصَوُّر اور دین کے لشکر نے کسرائی کو شوکت کے لحاظ سے توڑ ڈالا پس ان (اکا سرہ ) میں سے خیالی صورتوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا اور آخر پر خدا تعالیٰ کی جناب میں مناجات کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کے طفیل ہم پر رحم فرما.يَارَبِّ فَارُحَمُنَا بِصَحُبِ نَبَيِّنَا وَاغْفِرُ وَاَنْتَ اللَّهُ ذُو اَلَاءِ ے میرے رب ! ہم پر بھی نبی کے صحابہ کے طفیل رحم کر اور ہماری مغفرت فرما اور تو ہی نعمتوں والا اللہ ہے وَ اللهُ يَعْلَمُ لَوْ قَدَرُتُ وَ لَمُ اَمُتُ لَا شَعُتُ مَدْحَ الصَّحُبِ فِي الْأَعْدَاءِ اللہ جانتا ہے اگر میں قدرت رکھتا تو میں مرتے دم تک صحابہ کی تعریف ان کے تمام دشمنوں میں خوب پھیلا کر چھوڑتا إن كُنتَ تَلْعَنُهُمُ وَ تَضْحَكُ خِسَّةً فَارُقُبُ لِنَفْسِكَ كُلَّ اسْتِهْزَاءِ اگر تو ان کو لعنت کرتا رہا اور کمینگی سے ہنستا رہا تو اپنے لئے ہر استہزاء کا انتظار کر مَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ فَقَدْ رَدى حَقُّ فَمَا فِي الْحَقِّ مِنْ إِخْفَاءِ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو گالی دی تو بے شک وہ ہلاک ہو گیا.یہ ایک سچائی ہے سواس سچائی میں کوئی اختفاء نہیں

Page 365

ب المسيح 346 محبت الہی اگر قرآن کریم کی تعلیم کا مقصد اوّل و آخر اس حقیقت کو کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اس غرض کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اُس سے ایسی محبت کرے جو عبادت کی حد تک پہنچی ہوئی ہو تو فرمودات قرآن کے مطابق یہ برحق بیان ہوگا.یہی وجہ ہے کہ باری تعالیٰ نے اس منشاء کے حصول کے لیے انسان کی پیدائش کے اول مرحلے پر ہی انسان کے دل میں اپنی محبت کا چراغ روشن کر دیا ہے.جیسے فرمایا: (الاعراف: 173) وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أنفُسِهِم اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غُفِلِينَ نجات کا تمام مدار خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ پر ہے اور محبت ذاتیہ اس محبت کا نام ہے جو روحوں کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق ہے پھر جس حالت میں ارواح پر میشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پھر ان کی فطری محبت پر میشر سے کیونکر ہوسکتی ہے اور کب اور کس وقت پر میشر نے ان کی فطرت کے اندر ہاتھ ڈال کر یہ محبت اس میں رکھ دی یہ تو غیر ممکن ہے.وجہ یہ ہے کہ فطرتی محبت اس محبت کا نام ہے جو فطرت کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہو اور پیچھے سے لاحق نہ ہو جیسا کہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قول ہے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (الاعراف : 173) یعنی میں نے روحوں سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا پیدا کنندہ نہیں ہوں تو روحوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی روح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے.پس روح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعا محبت ہے اس لیے کہ وہ اس کی پیدائش ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) قرآن کریم کے اس فرمان کو ہمارے پیارے مسیح نے کس قدر خوبصورتی سے بیان کیا ہے فرماتے ہیں: تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا

Page 366

347 اور اس نمک پاشی کے بعد جو عاشقانِ الہی کا حال ہے اس کو بھی سُن لیں.شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر فارسی میں فرماتے ہیں: ٹوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا ادب المسيح جاں فدائے آنکہ او جاں آفرید دل شار آنکه زو شد دل پدید جان اس پر قربانی ہے جس نے اس جان کو پیدا کیا ہے دل اس پر نثار ہے جس نے اس دل کو بنایا.جال از و پیداست زین می جویدش رَبُّنَا الله رَبُّنَا الله گویدش جان چونکہ اس کی مخلوق ہے اس لیے اسے ڈھونڈتی ہے اور کہتی ہے کہ تو ہی میرا رب ہے تو ہی میرا رب ہے گر وجود جاں نبودے ، زو عیاں کے شدے مہر جمالش نقشِ جاں اگر جان کا وجود اس کی طرف سے ظاہر نہ ہوتا.تو اس کے حسن کی محبت جان پر کس طرح نقش ہوتی جسم و جاں را کرد پیدا آں لگاں زین دود دل سوئے او چوں عاشقاں جسم اور جان کو اسی یکتا نے پیدا کیا ہے اسی لیے عاشقوں کی طرح دل اس کی طرف دوڑتا ہے ایک اور مقام پر درج ذیل فرمانِ خداوندی کی تفسیر میں فرماتے ہیں.فِطْرَتَ اللهِ انَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : 31) اسلام انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے انسان کو اسلام پر پیدا کیا اور اسلام کے لئے پیدا کیا ہے یعنی یہ چاہا ہے کہ اپنے تمام قوی کے ساتھ اس کی پرستش ، اطاعت اور محبت میں لگ جائے اسی وجہ سے اس قادر کریم خدا نے انسان کو تمام قومی اسلام کے مناسب حال عطا کئے ہیں.انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں یا جو کچھ قو تیں عنایت ہوئی ہیں اصل مقصود ان سے خدا تعالیٰ کی معرفت اور پرستش اور خدا تعالیٰ کی محبت ہے ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہی وہ محبت ذاتیہ باری تعالیٰ ہے جسکو آپ حضور کمال قلبی اور ادبی حسن و جمال کے ساتھ پیوند جاں“ کہتے ہیں.اردوزبان کے اسلوب میں محبت الہی کے مضمون میں ایسا بیان کہاں ملے گا.ایسے ادبی شاہکار تو قلب و جان کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں اور نکلے ہیں.فرماتے ہیں: مجھے اس پار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے

Page 367

ب المسيح 348 بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْآعَادِي ہم نے ” محبت ذاتیہ“ کا لفظ حضرت اقدس ہی سے اخذ کیا ہے.آپ حضرت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذریات : 57) کی تفسیر میں فرماتے ہیں.میں نے پرستش کے لئے ہی جن وانس کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ پرستش اور حضرت عزت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یکطرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تابجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں.محبت ذاتیہ اور عشق حقیقی کا ایک بیان اور سُن لیں.فرماتے ہیں: کسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات کہا نیند کی وہ (دیکھو تفسیر زیر آیت) وہ نسخہ بتا جس سے جاگے تو رات ہے دوا سوز و ورد کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زرد آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں وہ خود دل نہیں جو کہ پریاں نہیں تو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا تجھے کیا خبر عشق ہوتا ہے کیا؟ مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز مگر کون پوچھے بجز عشق باز

Page 368

349 ادب المسيح جو برباد ہونا کرے کرے اختیار خُدا کے لیے ہے وہی بختیار جو اُس کے لیے کھوتے ہیں پاتے ہیں جو مرتے ہیں وہ زندہ ہو جاتے ہیں آپ حضرت محبت کے لفظ کے معانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور اس سوال کی تیسری جزیہ ہے کہ قرآن شریف میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انسان انسان کے ساتھ محبت کرے.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے اس جگہ بجائے محبت کے رحم اور ہمدردی کا لفظ لیا ہے کیونکہ محبت کا انتہا عبادت ہے اس لئے محبت کا لفظ حقیقی طور پر خدا سے خاص ہے.اور نوع انسان کے لئے بجائے محبت کے خدا کے کلام میں رحم اور احسان کا لفظ آیا ہے کیونکہ کمال محبت پرستش کو چاہتا ہے اور کمال رحم ہمدردی کو چاہتا ہے.اس فرق کو غیر قوموں نے نہیں سمجھا.اور خدا کا حق غیروں کو دیا.میں یقین نہیں رکھتا کہ یسوع کے منہ سے ایسا مشرکانہ لفظ نکلا ہو.بلکہ میرا گمان ہے کہ پیچھے سے یہ مکروہ الفاظ انجیلوں میں ملا دیئے گئے ہیں.محبت کا لفظ جہاں کہیں باہم انسانوں کی نسبت آیا بھی ہو اس سے در حقیقت حقیقی محبت مراد نہیں بلکہ اسلامی تعلیم کی رو سے حقیقی محبت صرف خدا سے خاص ہے.اور دوسری محبتیں غیر حقیقی اور مجازی طور پر ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس محبت کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے جو راہنمائی فرمائی ہے.اُس کے لیے اول یہ فرمان قرآن ہے.قُلْ إنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبَكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (ال عمران: 32) ترجمه از حضرت اقدس : ان کو کہہ دو کہ تم اگر چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دیئے جاویں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو.اور فرماتے ہیں: اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نور ایمان.محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے.اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کو موجب ہوتا ہے.اسی

Page 369

المسيح 350 دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے.اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے اس کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَدَمِی یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہریک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا.ہاں جو لوگ بیگا نہ ہیں.وہ یگانہ حضرت احدیت کو شناخت نہیں کر سکتے.جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف: 199) یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں.پر تو انہیں نظر نہیں آتا.(دیکھو تفسیر اقدس زیر آیت) آپ حضرت نے اس نثری فرمان کی تصدیق میں کتنا خوبصورت کلام پیش کیا ہے.فرماتے ہیں: مصطفے پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جانِ محمدؐ سے میری جاں کو مدام اور مزید فرماتے ہیں.دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے روحانیت کے نشو ونما اور زندگی کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پر عمل کرو ایسی فناء اتم تم پر آ جاوے کہ تَبَتَّلُ إِلَيْهِ تبیلا کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ.اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کرلو.(دیکھو تفسیر اقدس زیر آیت) یہی وہ فرمودات حضرت اقدس ہیں.جن کی پر نور راہ نمائی میں ہم نے ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کا مقصد اعلیٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کی جائے جو عبادت کا مقام رکھتی ہو اور جبکہ قرآن کریم کا یہ مقصد ہے تو پھر تمام صحف مقدسہ اسی مقصد کو لیکر نازل ہوئے ہیں کیونکہ قرآن کریم ان تمام صحف کا منتظم ہے

Page 370

351 ادب المسيح اور اسی طور سے تمام انبیاء اور مرسلین کی تعلیم وتربیت محبت الہی کے حصول کے محور کے گرد ہی طواف کرتی ہے.محبت الہی کا یہی مقام ہے جس کو حاصل کرنے کی تلقین آپ حضرت کسقدرخوبصورتی اور صدق سے بیان کر رہے ہیں.فرماتے ہیں: کبھی نصرت نہیں ملتی در مولی سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو و ہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلا ؤ سب کمندوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر تو اللہ تعالیٰ نے محبت الہی کا جذ بہ قلب میں ہونے کو آپ کی رسالت پر ایمان لانے کے لئے ایک شرط کے طور پر قائم کر دیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تم سے محبت کرے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرو کیونکہ قُل إن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبُكُمُ الله (ال عمران:32) کے فرمان میں یہ بات مضمر ہے کہ اگر ایسا نہیں تو تمہارا یہ حال ہوگا کہ وَتَريهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف : 199) حضرت اقدس اس فرمان کی کس قدر خوبصورت تفسیر فرماتے ہیں.اس کا مرنا اور جینا اپنے لیے نہیں بلکہ خدا ہی کے لیے ہو جائے تب وہ خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ پیار کرتا آیا ہے اپنی محبت کو اس پر اتارتا ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اسی لیے خون ہوا کہ دنیا نے ان کو نہیں پہچانا وہ اسی لیے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نورانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی جیسا کہ فرمایا يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُنصرون یعنی وہ جو منکر ہیں تیری طرف دیکھتے تو ہیں مگر تو انہیں نظر نہیں آتا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 371

ب المسيح 352 جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ محبت الہی کا حصول ہی وہ مقصد اعلیٰ ہے جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا.اور جس کو قلب میں زندہ کرنے کے لیے قرآن کریم اور دیگر صحف سماوی نے انسان کی راہ نمائی کی ہے اور اسی طور پر انبیاء نے بھی اپنے پیغام الہی کے ماننے والوں کی ایسی ہی تعلیم وتربیت کی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کرنا پسند فرماتا ہے.“ اور یا دالہی کی تلقین میں فرماتے ہیں: (بخاری کتاب الذكر) تم اتنی کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو کہ لوگ تم کو دیوانہ کہنے لگیں“ (حصن حصین) محبت الہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کس قدر جامع اور آپ کی زندگی کے تمام لمحات کو اپنے دائرہ میں لیے ہوئے ہے.اللہ کی جناب میں عرض کرتے ہیں.رَبِّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَ حُبَّ عَمَل ، مَنْ يُحِبُّكَ وَ حُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ وَ قَالَ رَسُولُ اللهِ لا إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَ تَعَلَّمُوهَا.(سنن ترمذی) ترجمہ.اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا طلبگار ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی محبت جو میرے دل میں تیری محبت زندہ کر دے اور آپ نے فرمایا یہی حق ہے اور اُسی کی تعلیم و تدریس کیا کرو.اور پھر حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا بھی ہے جو ہمارے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز تھی.عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ علا الله كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ حُبَّكَ وَ حُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَ الْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلُ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَّفْسِى وَاَهْلِى وَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ.(سنن ترمذی) ترجمہ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ داؤد کی دعاؤں میں سے ایک یہ دعا تھی کہ اے میرے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا طلب گار ہوں اور اسکی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی محبت جس کی وجہ سے میں تجھ سے محبت کرنے لگوں.اے اللہ اپنی محبت میرے

Page 372

353 ادب المسيح لیے اپنی جان سے اور اپنے عزیز واقرباء سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب کر دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو مشاہدہ کریں کہ باوجود محبوب الہی ہونے اور دوسروں کو محبوب الہی بنانے کے محبت الہی کی پیاس نہیں بجھتی.انبیاء کی یہی شان ہے.جیسے فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 164،163) کہ نماز میری اور عبادتیں میری اور زندگی میری اور موت میری اس اللہ کے واسطے ہیں جو رب ہے عالموں کا.جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی درجہ کے حاصل کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اسی محبت میں وہ مبتلا ہوتے ہیں اور اسی کو زندہ کرنے کے لیے ان کو مبعوث کیا جاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور وارث کامل کی دعا کو بھی مشاہدہ کریں کہ لفظ اور معنا اُس محبت کو پانے کی دعا کر رہے ہیں جو کہ آپ کے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کی یہ اتباع رسول اکرم کا کامل نمونہ ہے.فرماتے ہیں: اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش اے میرے خداوند! میرے گناہ بخش دے اور اپنی درگاہ کی طرف مجھے رستہ دکھا روشنی بخش در دل و جانم پاک کن از گناه پنهانم میرے جان اور میرے دل میں روشنی دے اور مجھے میرے مخفی گناہوں سے پاک کر دل ستانی و دلبر بائی کن به نگا ہے گرہ کشائی کن دل ستانی کر اور دل رُبائی دکھا اپنی ایک نظر کرم سے میری مشکل کشائی کر در رو عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی دونوں عالم میں تو ہی میرا پیارا ہے اور جو چیز میں تجھ سے چاہتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے بے انتہا ء خوبصورت اور عشق الہی میں ڈوبا ہوا کلام ہے اس قدر مؤثر کہ ہر عاشق الہی کی حرز جان ہے اور ادبی اعتبار سے اپنے موضوع میں فارسی کا شاہکار ہے.صرف فارسی ہی میں نہیں بلکہ کسی بھی زبان میں اس کے مقابل پر کچھ بھی پیش کرنے کو نہیں.

Page 373

المسيح 354 آپ حضرت کی ان مناجات کا حضرت داؤد کی دعا سے ایک رشتہ یہ بھی ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا کہ آپ کا روحانی مشرب داؤدعلیہ السلام کے نقش قدم پر ہے اور حضرت داؤڈ کا مشرب تو آپ کی دعا سے ظاہر ہے کہ صرف اور صرف محبت الہی کا حصول تھا.آپ کا الہامی شعر ہے.طریق زہد و تعبّد نه دانم اے زاہد خدائے من قدمم راند بر ره داؤد ترجمہ.اے زاہد میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے تذکرہ صفحہ 93.مطبوعہ 2004ء) وہ کشفی نظارہ جس کے اختتام پر یہ شعر الہام ہوا ہے.ایسا دلفریب ہے کہ اُس کا مطالعہ از بس ضروری ہے اس تسلسل بیان میں حضرت اقدس کا یہ شعر بھی تو ہے.اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار داؤدی صفت کے پھل محبت الہی ہی کے تو ہیں جو آپ کے شجر طیہ پر لگے.اور اردو میں آپ حضرت کے دل کا راز بھی سُن لیں کہ وہ کمل اور تمام تر محبت الہی میں گرفتار فرماتے ہیں: لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار اے مرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو نیک دن ہوگا ؤ ہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار جس طرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار نیک ظن کرنا طریق صالحانِ قوم ہے لیک سوپر دے میں ہوں اُن سے نہیں ہوں آشکار بیخبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بد یا نیک مرد میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرہ وار ابن مریم ہوں مگر اُتر ا نہیں میں چرخ سے نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا ئے دیار تاج و تختِ ہند قیصر کو مبارک ہو مدام اُن کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار

Page 374

355 ادب المسيح مجھکو کیا ملکوں سے میر املک ہے سب سے جدا مجھکو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار اس موضوع کا تعارف ( با وجود اختصار کی کوشش کے ) قدرے طویل ہو گیا ہے.اس کا ایک باعث تو یہ ہے کہ جہاں کلام کے حسن و جمال کی ہزار تجلیات ہوں وہاں اُن کے انتشار رنگ و بو میں چند ایک کا انتخاب کرنا مشکل کام ہے.مظہر جانِ جاناں کا یہ شعر اسی مشکل کو بیان کر رہا ہے.ز فرق تا بقدم هر کجا می بینم کرشمہ دامن دل می کشد که جان این جا است ترجمہ.محبوب کے چہرے سے لیکر اُس کے قدموں تک جہاں بھی نظر پڑتی ہے اُس کا حسن و جمال دل کو اُسی مقام پر فدا ہونے کو کہتا ہے.اس طوالت کی دوسری وجہ اس مضمون کا عنوان ہے.یعنی محبت الہی.یہ ایک ایسا موضوع ہے جو تمام صحف سماوی اور انبیاء کی تعلیم و تربیت کی جان اور ان کی روح رواں ہے.اُسی جذ بے کو زندہ کرنے کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اور اسی جذبہ کو انسان کی سرشت میں رکھا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس موضوع کی ابتدا ہی باری تعالیٰ کے اس فرمان سے کی ہے.اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (الاعراف: 173) حضرت اقدس اس فرمان کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے ساتھ تو انسان کا فطری تعلق ہے کیونکہ اسکی فطرت خدا تعالیٰ کے حضور میں الَستُ بِرَبِّكُمْ “ کے جوب میں قَالُوا بکی کا اقرار کر چکی ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ان خصوصیات کی وجہ سے حضرت اقدس کا تمام کلام در اصل محبت الہی کا ہی اظہار ہے کبھی بلا واسطہ اور برملا اور کبھی بالواسطہ اور پوشیدہ.اس صورت میں مضمون کا قدرے مفصل ہونا لا زم تھا.در حقیقت یہ معذرت بلاضرورت تھی کیونکہ طوالت کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ حضرت کے ادب عالیہ میں اس

Page 375

المسيح 356 مضمون کی ہمہ گیرا ہمیت کا بیان ہو گیا.اُردو زبان میں اب ہم اپنے دستور کے مطابق اس مضمون میں حضرت اقدس کے اردو کلام کے نمونے پیش کرتے ہیں.اول قدم پر ایک ایسا قطعہ کلام ہے جس کا حسن و جمال بیان کرنے کے لئے کسی قلم میں طاقت نہیں ہے.یہ کلام اپنے جذبے اور تاثیر میں اپنی قلبی تمنا کے اظہار میں اور اردو ادب کے اسالیب کی پاسداری میں ایک بے مثال اور شاہرکا را شعار کا نمونہ ہے.محبت الہی کے مضمون میں ہزار تلاش کرنے پر بھی ایسا کلام نہیں ملے گا اور مل بھی نہیں سکتا کیونکہ نہ کوئی باری تعالیٰ کا ایسا عاشق ہوگا اور نہ اُس کے قلب سے ایسا کلام جاری ہوگا.فرماتے ہیں.مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے بیان اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے کیا احسان ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي تری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے کیا احساں ترے ہیں میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاعَادِي ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي محبت الہی کے بیان میں دوسرا شاہکار کلام بھی ہر ادبی خوبی اور قلبی جذبات محبت کے اظہار میں اپنی مثال نہیں رکھتا.اس کی تاثیر تو ایسی ہے کہ آپ کی جماعت نے گذشتہ ایک صدی سے اس کلام کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی جناب میں دعا کی باریابی کا تعویذ بنارکھا ہے.کوئی جماعتی اجتماع اور خاندانی تقریب ایسی نہیں ہوتی کہ اس کلام

Page 376

357 ادب المسيح کو حصول برکات کیلئے نہایت محبت اور ترنم سے پڑھا نہ جائے.فرماتے ہیں.حمدوثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اسکے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یارجانی سب دل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اسکی عظمت لرزاں ہیں اہلِ قُربت کروبیوں پہ ہیبت ہے عام اسکی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اسکی صنعت اس سے کر و محبت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اسکی غیرت اور فرماتے ہیں: یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس دل میں تیرا گھر ہے تیری طرف نظر ہے تجھ سے میں ہوں منور میرا تو تو قمر ہے تجھ پر مرا توکل در پرترے یہ سر ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جب تجھ سے دل لگایا سو سو ہے غم اٹھایا تن خاک میں ملایا جاں پر وبال آیا شکر اے خدایا! جاں کھو کے تجھ کو پایا پر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي دیکھا ہے تیرا منہ جب چکا ہے ہم پہ کو کب مقصود مل گیا سب ہے جام اب لبالب تیرے کرم سے یا رب میرا کر آیا مطلب یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اور اس محبت کے اظہار کو دیکھیں.ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تیرے ملنے کے لیے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا

Page 377

ب المسيح 358 ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر یہ بیان ایک اور بارسُن لیں.فرماتے ہیں: خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار اے مرے پیارے بتا تو رکس طرح خوشنود ہو نیک دن ہوگاؤ ہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار جس طرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار اور وصال الہی کی تمنا کو برلانے کے لیے محبت کا مقام بھی سُن لیں.بہت سادہ اور مؤثر کلام ہے.خدا کو پانے کی یہی ایک ہی راہ ہے اور قرآن کریم نے یہی پیغام دیا ہے.فرماتے ہیں: دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار کوئی ره نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار اُسکے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائیگا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازو! نہ ہونا سُست اس میں زینہار ہے یہی اک آگ تائم کو بچاوے آگ سے ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار

Page 378

359 ادب المسيح اس سے خود آکر ملے گا تم سے وہ یار ازل اس سے تم عرفانِ حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار وہ کتاب پاک و برتر جس کا فرقاں نام ہے وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار محبت اور وفا میں ایسا پیوند ہے کہ اگر اسکو پیوند جان کہیں تو درست ہوگا کیونکہ محبت کا ثبوت وفا سے ہے اگر وفانہیں تو محبت خام ہی نہیں بلکہ معدوم ہے.فرماتے ہیں: جلد آ مرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے منہ مت چھپا پیارے میری دوا یہی ہے کہتے ہیں جوش الفت یکساں نہیں ہے رہتا دل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر جیتا ہوں اس ہوس سے میری غذا یہی ہے دنیا میں عشق تیرا، باقی ہے سب اندھیرا معشوق ہے تو میرا عشق صفا یہی ہے مشت غبار اپنا تیرے لیے اُڑایا جب سے سُنا کہ شرط مہر و وفا یہی ہے دلبر کا درد آیا حرف خودی مٹایا جب میں مرا چلایا جام بقا یہی ہے اس عشق میں مصائب سو سو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اس نے مجھکو دیا یہی ہے حرف وفا نہ چھوڑوں اس عہد کو نہ توڑوں اس دلیر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے

Page 379

ب المسيح 360 اور پھر اس وفا کے بعد محبوب حقیقی کی وفا بھی دیکھیں.فرماتے ہیں: اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے دن دیکھا نہیں کوئی بھی بار غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار وصال باری تعالیٰ کی تلاش یعنی سلوک کی تعلیم و تربیت کو بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: اس جہاں میں خواہش آزادگی بے سود ہے اک تری قید محبت ہے جو کردے رستگار دل جو خالی ہو گدازِ عشق سے وہ دل ہے کیا دل وہ وہ ہے جس کو نہیں بے دلبر یکتا قرار فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود پس کرو اس نفس کو زیروز بر از بهر یار تلخ ہوتا ہے ثمر جبتک کہ ہو وہ ناتمام اسطرح ایماں بھی ہے جبتک نہ ہو کامل پیار تیرے منہ کی بھوک نے دل کو کیا زیر و زبر اے مرے فردوس اعلیٰ اب گرا مجھ پر ثمار اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار

Page 380

361 ادب المسيح باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہوجانا غبار فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود ذیل کے شعر میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے.فرماتے ہیں.اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لیے فنا ترک رضائے خویش ہے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات اور عاشقانِ باری تعالیٰ کی علامات اور صفات بھی سن لیں.خُدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر بنار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟ اُسے دے چکے مال چکے مال و جان بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک ނ و ہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے اور آخر پر ایک تلقین عام ہے کہ محبت کے قابل صرف ایک ہی ہستی ہے اور اگر کہیں وفا ہے تو اُسی محبوب حقیقی میں ہے.فرماتے ہیں: وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں

Page 381

ب المسيح 362 سورج پہ غور کرکے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس یار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اسی کو یارو! بُتوں میں وفا نہیں اس جائے پُر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بُتاں سرا نہیں اور اس مضمون کے اختتام پر ایک دلفریب قطعہ سُن لیں فرماتے ہیں: اگر وہ جاں کو طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی بلا سے کچھ تو نیٹ جائے فیصلہ دل کا اگر ہزار بلا ہو تو دل نہیں ڈرتا ذرا تو دیکھیئے کیسا ہے حوصلہ دل کا

Page 382

363 ادب المسيح محبت الہی کا بیان فارسی اشعار میں بہت مرتبہ کہا جا چکا ہے کہ فارسی زبان کا مزاج روحانی ہے.اس لیے ان مضامین کے بیان کرنے کی اس میں صلاحیت بھی ہے اور مناسبت بھی.یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے حضرت اقدس مسیح موعود کا فارسی کلام محبت الہی کے اظہار سے بھر پور ہے اور اس قدر بھر پور ہے کہ اس لالہ زار سے چند ایک پھولوں کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہے.اس کوشش میں کہ انتخاب کی خوبی قائم رہے اور اختصار کا نقص بھی ظاہر نہ ہو ہم نے آپ کی طویل نظموں میں سے صرف محبت الہی کے اشعار کو اختیار کیا ہے.اول قدم پر ہم خدا تعالیٰ کے فرمان اَلَستُ بِرَبِّكُمُ قَالُوا بَلی کے اتباع میں حضرت کا وہ کلام پیش کرتے ہیں جو اس مضمون کو بیان کر رہا ہے کہ محبت الہی انسان کی فطرت میں ہے.بہت ہی خوبصورت اور محبت بھرا کلام ہے.فرماتے ہیں: چهره دکھلا دیا حمد و شکر آں خدائے کردگار کز وجودش هر وجودے آشکار اس خدائے کردگار کی حمد اور شکر واجب ہے جس کے وجود سے ہر چیز کا وجود ظاہر ہوا ایں جہاں آئینہ دار روئے اُو ذره ذره ره نماید سوئے اُو یہ جہان اس کے چہرے کے لیے آئینہ کی طرح ہے ذرہ ذرہ اُسی کی طرف راستہ دکھاتا ہے کرد در آئینه ارض و سما آں رُخ بے مثل خود جلوہ نما اس نے زمین و آسمان کے آئینہ میں اپنا بے مثل ہر گیا ہے عارف بنگاه او شاف نماید راه او دست ہر گھاس کا ہر پتہ اس کے کون ومکان کی معرفت رکھتا ہے اور درختوں کی ہر شاخ اُسی کا راستہ دکھاتی ہے تُورِ مُهر و مه زِ فیضِ نُورِ اوست ہر ظہورے تابع منشور اوست چاند اور سورج کی روشنی اُسی کے نور کا فیضان ہے ہر چیز کا ظہور اسی کے شاہی فرمان کے ماتحت ہوتا ہے ہر قدم جوید در باجاه او ہر سر اُس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے اور ہر قدم اُسی کا باعظمت دروازہ تلاش کرتا ہے ہر سرے بڑے ز خلوت گاہ او

Page 383

المسيح 364 مطلب ہر دل جمال روئے اوست گمر ہے گرہست بہر کوئے اوست اُسی کے منہ کا جمال ہر ایک دل کا مقصود ہے اور کوئی گمراہ بھی ہے تو وہ بھی اُسی کے کوچہ کی تلاش میں ہے اور فرماتے ہیں: جاں فدائے آنکه او جاں آفرید دل شار آنکه زو شد دل پدید جان اُس پر قربان ہے جس نے اس جان کو پیدا کیا دل اُس پر نثار ہے جس نے دل کو بنایا جال از و پیداست زین می جویدش رَبُّنَا الله رَبُّنَا الله گویدش جان چونکہ اس کی مخلوق ہے اس لیے اسے ڈھونڈتی ہے اور کہتی ہے کہ تو ہی میرا رب ہے تو ہی میرا رب ہے گر وجودِ جاں نبودے زو عیاں کے شدے مہر جمالش نقشِ جاں اگر جان کا وجود اس کی طرف سے ظاہر نہ ہوتا.تو اس کے حسن کی محبت جان پر کس طرح نقش ہوتی جسم و جاں را کرد پیدا آں لگاں زین دود دل سوئے او چوں عاشقاں جسم اور جان کو اسی یکتا نے پیدا کیا ہے اسی لیے عاشقوں کی طرح دل اس کی طرف دوڑتا ہے.یہ بات تو ہوگئی کہ محبت الہی انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے.اب یہ بات ہے کہ انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کا عشق الہی میں اس فطرتی جوش کا مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: محبت تو دوائے ہزار بیماری است بروئے تو کہ رہائی دریں گرفتاری است تیری محبت ہزار بیماریوں کی دوا ہے تیرے منہ کی قسم کہ اس گرفتاری ہی میں اصل آزادی ہے.پناہ روئے تو جستن نه طور مستاں است که آمدن به پناهت کمال ہشیاری است تیری پناہ ڈھونڈھناد یوانوں کا طریقہ نہیں ہے بلکہ تیری پناہ میں آنا ہی تو کمال درجہ کی عظمندی ہے متاع مہر رخ تو نہاں نخواهم داشت که خفیه داشتن عشق تو ز غداری است میں تیری محبت کی دولت کو ہرگز نہیں چھپاؤں گا.کہ تیرے عشق کا مخفی رکھنا بھی ایک غداری ہے برآں سرم کہ سروجاں فدائے تو بکنم کہ جان بیار سپر دن حقیقت یاری است میں تیار ہوں کہ جان و دل تجھ پر قربان کردوں کیونکہ جان کو محبوب کے سپر دکر دینا ہی اصل دوستی ہے

Page 384

365 ادب المسيح اور پھر اس محبت کے اظہار کے شوق کو بھی دیکھیں.فرماتے ہیں: بهردم از دل و جاں وصف بار خود بکنم من آں نیم که تغافل ز کار خود بکنم میں ہر دم دل و جان سے اپنے خدا کی تعریف کرتا ہوں میں وہ نہیں ہوں کہ اپنے کام سے غفلت کروں بہر زماں بدلم ایں ہوس ہے جوشد کہ ہرچہ ہست نثار نگار خود بکنم ہر وقت میرے دل میں یہ شوق جوش مارتا ہے کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ اپنے محبوب پر قربان کر دوں اگر چه در ره جاناں چو خاک گردیدم دلم تپد که فدایش غبار خود بکنم اگر چہ میں محبوب کی راہ میں خاک کی طرح ہو گیا ہوں مگر میرا ادل تڑپتا ہے کہ اپنا غبار بھی اُس پر فدا کر دوں روم بگلشن دلدادگاں کزاں باغم چرا بکوچه غیرے قرار خود بکنم میں عاشقوں کے گلشن میں جاتا ہوں اس باغ کو چھوڑ کر میں کسی غیر کے کوچہ میں کیوں اپنا مسکن بناؤں رسید مژده که ایام نو بهار آمد زمانه را خبر از برگ و بار خود بکنم مجھے خوشخبری ملی ہے کہ پھر موسم بہار آ گیا تا کہ زمانہ کو میں اپنے پھلوں اور پتوں کی خبر کر دوں تعلقات دلارام خویش نمایم ہمائے اوج سعادت شکار خود بکنم اور اپنے محبوب کے تعلقات کا اظہار کروں اور ہمائے اوج سعادت کو اپنا شکار بناؤں آخری دو شعر تو ایسے دلفریب ہیں کہ ان کا حسن و خوبی بیان نہیں ہو سکتا ہے فرماتے ہیں.کہ بہار آئی ہے تو میں بھی اپنی محبت کے برگ و بار دکھاؤں اور اپنے محبوب کے تعلقات کو بیان کروں اور عطا سعادت علمی کے ہما کو شکار کروں.سبحان الله ! ایسا عا شقانہ کلام کہاں ملے گا یہاں پر دیکھیں دنیاو مافیہا سے تعلق تو ڑ کر اپنے خدا سے رشتہ باندھا ہے.فرماتے ہیں: اے دلبر و دلستان و دلدار و اے جان جہان و و نور انوار میرے محبوب اور دلدار اور اے جان جہاں اور نوروں کے نور لرزاں ز تجلیت دل و جان حیراں ز رخت قلوب و ابصار جان و دل تیرے جلال سے کانپ رہے ہیں.قلوب اور نظریں تیرے رخ کو دیکھ کر حیران ہیں

Page 385

المسيح 366 از یاد تو نُور با به بینم! در حلقه عاشقان خونبار میں تیرے ذکر کی برکت سے انوار د یکھتا ہوں آہ وزاری کرنے والے عاشقوں کی جماعت میں پسند اغیار آنکس که به بند عشقت افتاد دیگر نشنید وہ شخص جو تیری قید محبت میں گرفتار ہوگیا.پھر اس نے دوسروں کی نصیحت نہ سُنی اے مونس جاں چہ دلستانی کز خود بر بودیم به یکبار! اے میرے مونس جاں! تو کیسا دلستاں ہے کہ دفعتا تو نے مجھے مدہوش کردیا از یاد تو این دلے بہ غم غرق دارد گہرے نہاں صدف وار تیری یاد میں میرا دل غم میں غرق ہو کر صدف کی طرح ایک موتی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے و سر ما فدائے رویت جان و دل ما بجو گرفتار میری آنکھ اور سر تجھ پر قربان ہیں اور میرے جان و دل تیری محبت میں قید تادم نه زند دیگر خریدار چشم عشق تو نقد جاں خریدیم به در ہم نے نقد جان دے کر تیرا عشق خریدا ہے.تاکہ پھر اور کوئی خریدار دم نہ مار سکے غیر از تو که سرزدے ز جیم! برج دلم نماند دیار تیرے سوا اور کون میرے گریبان میں سے نمودار ہوتا جبکہ میرے دل میں اور کوئی بسنے والا ہی نہیں عمریست که ترک خویش و پیوند کردیم و دے جز از تو دشوار ایک عمر گذرگئی کہ ہم نے عزیزوں اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع کر لیا مگر تیرے بغیر ایک لحظہ گذار نا بھی مشکل ہے.آخری شعر کو دوبارہ سن لیں.اسی کو کامل رجوع الی اللہ کہتے ہیں.عمریست که ترک خویش و پیوند کردیم و دے جز از تو دشوار ایک عمر گذرگئی کہ ہم نے عزیزوں اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع کر لیا مگر تیرے بغیر ایک لحظہ گذار نا بھی مشکل ہے.محبت کے آثار کا بھی مشاہدہ کریں.اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی اے محبت تو نے عجیب رنگ دکھائے تونے یار کی راہ میں زخم اور مرہم برابر کر دیئے

Page 386

367 ادب المسيح ہمہ مجموع دو عالم تو پریشاں کردی ہمہ عشاق تو سرگشته و حیراں کردی دونوں جہان کے مجموعہ کو تو نے پراگندہ کر دیا اور سب عاشقوں کو تو نے دیوانہ اور حیران کر دیا ہوشمندان جہاں را تو کنی دیوانہ اے بسا خانہ فطنت کہ تو ویراں کردی دنیا کے عظمندوں کو تو دیوانہ بنا دیتی ہے اور بہت سے عقلمندی کے گھروں کو تو نے ویران کر دیا جان خود کس ندهد بهر کس از صدق و وفا راست این ست که این جنس تو ارزاں کردی کوئی کسی کے لیے اپنی جان عشق اور وفاداری کے ساتھ نہیں دیتا.لیکن سچ یہ ہے کہ اس جنس کو تو نے بہت سستا کیا ہے بر تو ختم ست همه شوخی و عیاری و ناز بیچ عیار نباشد که نه نالاں کردی شوخی چالا کی اور ناز سب تجھ پرختم ہیں.کوئی ہوشیار آدمی ایسا نہ ہوگا جسے تو نے رُلا نہ دیا ہو تا نه دیوانه شدم ہوش نیا مد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احساں کر دی میں بھی جبتک دیوانہ نہ ہو گیا میرے ہوش ٹھکانے نہ ہوئے.اے جنونِ عشق تجھ پر قربان ! تو نے کتنا احسان کیا ہمہ جا شورِ تو بینم چہ حقیقت چه مجاز سینہ مشرک ومسلم ہمہ بریاں کردی میں سب جگہ تیرا ہی شور دیکھتا ہوں خواہ حقیقت ہو یا مجاز.تو نے تو مشرک اور مومن سب کے سینے جلا ڈالے آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی کہ ازیں خاک مرا آں کردی وہ مسیح جس کا مقام آسمان پر بیان کرتے ہیں تو نے مہربانی فرمائی کہ ای زمین میں سے مجھے وہی مسیح بنادیا محبت الہی میں وفا اور محبوب کی رضا کو عزیز رکھنا بھی دیکھیں.باری تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ آپ تو محبت اور وفا کو نہیں جانتے تھے اس جذبے کو تو نے ہی میرے دل میں بھر دیا ہے.بہت ہی پاکیزہ کلام ہے.آخری دو شعر تو وہی کہہ سکتا ہے جس کو آداب و فامحبوب حقیقی نے عنایت کئے ہوں.قربانِ تست جانِ من اے یار محسنم بامن کدام فرق تو کردی که من کنم اے میرے محسن دوست میری جان تجھ پر قربان ہے تو نے مجھ سے کونسا فرق کیا ہے کہ میں تجھ سے کروں ہر آرزو که بود بخاطر معینم ر مطلب و مراد که می خواستم ز غیب ہر ہر مراد اور دعا جو میں نے غیب سے طلب کیا.اور ہر خواہش جو میرے دل میں تھی از جود داده ء ہمہ آں مدعائے من و از لطف کرده گذر خود بمسکنم تو نے اپنی مہربانی سے میری وہ مرادیں پوری کر دیں اور مہربانی فرما کر تو میرے گھر تشریف لایا

Page 387

المسيح 368 بیچ آگهی نبود ز عشق و وفا مرا خود ریختی متاع محبت بدانم مجھے عشق و وفا کی کچھ بھی خبر نہ تھی تو نے ہی خود محبت کی یہ دولت میرے دامن میں ڈال دی يارب مرا بہر قدمم استوار دار واں روز خود مباد کہ عہد تو بشکنم اے رب مجھے ہر قدم پر مضبوط رکھ اور ایسا کوئی دن نہ آئے کہ میں تیرا عہد توڑوں در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسیکه لاف تعشق زند منم! اگر تیرے کو چہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعوی کرے گا وہ میں ہوں گا اور یہ عہد کیا ہے یہی کہ محبت میں استوار رہنا اور وفا دکھانا.ان دو اشعار کو دوبارہ پڑھ لیں.ایسی وفا اور اُس کے حصول کی دعا کہاں دستیاب ہوگی اور پھر اسی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے صدق و وفا کے داب کی تعلیم دی اور الہاما فرمایا.میگزارد با محبت باوفا صادق آن باشد که ایام بلا صادق وہ ہوتا ہے کہ ابتلا ؤں کے دن محبت اور وفاداری سے گزارتا ہے بوسد آن زنجیر را کز آشنا گر قضا را عاشقی گردد اسیر اگر قضائے الہی سے عاشق قید ہو جاتا ہے تو وہ اُس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہو.تذکرہ صفحہ 255.مطبوعہ 2004ء) اور اس تعلیم کی روشنی میں آپ نے محبت الہی میں اپنا مسلک بیان کیا اور محبوب حقیقی سے محبت کے آداب سکھائے.سینہ می باید تهی از غیر یار! دل ہے باید پر از یاد نگار! یار کے سوا ہر چیز سے سینہ خالی ہونا چاہئیے اور دل محبوب کی یاد سے بھرا رہنا چاہیئے جاں ہے باید براہِ اُو فدا سر ہے باید بپائے او شار جان اُس کی راہ میں قربان ہونی چاہئیے اور سر اُس کے قدموں میں شمار ہونا چاہیئے هیچ دانی چیست دین عاشقاں گوئمت گر بشنوی عشاق دار کیا تجھے معلوم ہے کہ عاشقوں کا دین کیا ہوتا ہے؟ میں تجھے بتا تا ہوں اگر تو عاشقوں کی طرح سُنے از همه عالم فرو بستن نظر لوح دل شستن ز غیر دوستدار وہ یہ ہے کہ سارے جہاں کی طرف سے آنکھ بند کر لینا اور دوست کے سوا ہر چیز سے دل کی سختی کو دھوڈالنا اس مقام پر عاشق الہی یہی کہتا ہے.

Page 388

در رو عالم مرا عزیز توئی 369 و ار آنچه می خواهم از تو نیز توئی ، المسيح دونوں جہانوں میں تو ہی مجھے عزیز ہے.اور جو میں تجھ سے طلب کرتا ہوں وہ تو ہی ہے.اور اپنا مذھب عشق بیان کر کے اپنے عشق کی کیفیت سناتے ہیں کہ میرے لیے دوا تجویز نہ کر محبت کے رنج و غم میں ہی میرا اعلاج ہے.مرانہ زہد و عبادت نه خدمت و کاری است ہمیں مرا است که جانم رہینِ دلداری است میرے پاس نہ زہد ہے نہ عبادت نہ خدمت نہ اور کوئی کام.صرف ایک بات ہے کہ میری جان اس دلدار کے پاس گرو پڑی ہوئی ہے چہ لڈ تے است برویش کہ جاں فدایش باد چه راحت است بگولیش اگر چه خوں بارے است اس کے چہرہ میں ایسی لذت ہے کہ جان اس پر قربان ہے اس کی گلی میں عجیب لطف ہے اگر چہ وہاں خون کی بارش ہوتی ہے مسیح وقت مرا کرد آنکه دید ایں حال بہ میں دلائلِ دعوای اگرچہ بریکاری است خدا نے جب میرا یہ حال دیکھا تو مجھے مسیح الزمان بنا دیا اب تو میرے دعوے کے دلائل دیکھ گو (تیرے نزدیک ) یہ بیکار ہے.روائے عشق نخوا ہم کہ آں ہلاکت ماست شفائے ما بہ میں رنج و درد و آزاری است میں عشق کا علاج نہیں چاہتا کیونکہ اس میں ہماری ہلاکت ہے ہماری شفا تو اس رنج و درد اور بیماری میں ہے اور آخر پر دیکھیں کہ کیسا دل گداز فیصلہ کرتے ہیں فرماتے ہیں: ہماں یہ کہ جاں در ره او فشانم جہاں راچہ نقصاں اگر من نمانم یہی بہتر ہے کہ میں اُس کی راہ میں جان قربان کر دوں.اگر میں نہ رہوں تو دنیا کا کیا نقصان ہے

Page 389

ب المسيح 370 محبت الہی عربی اشعار میں عربی زبان میں محبت الہی کے اشعار کا انتخاب کرنے میں وہی مشکل ہے جو اردو اور فارسی اشعار میں تھی.یعنی یہ کہ اس موضوع کے اشعار اتنی کثرت سے ہیں کہ ان میں سے چند ایک کا انتخاب مشکل ہے.کوئی بھی موضوع کلام ہو چند اشعار کے بعد محبت الہی نقاب کشا ہو جاتی ہے.یہی بات آپ حضرت فرما رہے ہیں: انْتَ الَّذِي قَدْ كَانَ مَقْصِدَ مُهْجَتِي فِي كُلِّ رَشْحِ الْقَلَمِ وَ الْإِمْلَاءِ ترجمہ: تو ہی تو میری جان کا مقصود تھا قلم کے ہر قطرہ ( روشنائی ) اور لکھائی ہوئی تحریر میں.اس صورت میں ہم نے یہاں بھی کوشش کی ہے کہ بہتر سے بہتر کلام کے نمونے پیش کئے جاسکیں.عشق الہی میں اول ان اشعار کا مشاہدہ کریں.انْتَ الْمُرَادُ وَ اَنْتَ مَطْلَبُ مُهْجَتِى وَ عَلَيْكَ كُلُّ تَوَكَّلِيْ وَ رَجَائِي تو ہی مراد ہے اور تو ہی مری روح کا مطلوب ہے اور تجھ پر ہی میرا سارا بھروسہ اور امید ہے.أَعْطَيْتَنِي كَاسَ الْمَحَبَّةِ رَيْقَهَا فَشَرِبُـتُ رَوْحَــاءً عَلَى رَوْحَاءِ تو نے مجھے محبت کی بہترین ئے کا ساغر عطا کیا ہے تو میں نے جام پر جام پیا.إِنِّي أَمُوتُ وَلَا يَمُوتُ مَحَبَّتِى يُدْرِي بِذِكْرِكَ فِي التُّرَابِ نِدَائِي میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی.( قبر کی ) مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز پہچانی جائے گی.مَا شَاهَدَتْ عَيْنِي كَمِثْلِكَ مُحْسِنًا يَا وَاسِعَ الْمَعْرُوفِ ذَا النَّعَمَاءِ میری آنکھ نے تجھ سا کوئی ) محسن نہیں دیکھا.اے احسانات میں وسعت پیدا کرنے والے اور ائے نعمتوں والے أنتَ الَّذِى قَدْ كَانَ مَقْصِدَ مُهْجَتِي فِي كُلِّ رَشْحِ الْقَلَمِ وَ الْإِمْلَاءِ تو ہی تو میری جان کا مقصود تھا قلم کے ہر قطرہ ( روشنائی) اور لکھائی ہوئی تحریر میں.لَمَّا رَأَيْتُ كَمَالَ لُطْفِكَ وَ النَّدَا ذَهَبَ الْبَلَاءُ فَمَا أُحِسُّ بَلَائِي جب میں نے تیرے لطف کا کمال اور بخششیں دیکھیں تو مصیبت دور ہوگئی اور (اب) میں اپنی مصیبت کو محسوس ہی نہیں کرتا.

Page 390

371 ادب المسيح إِنِّي تَرَكْتُ النَّفْسَ مَعَ جَذَبَاتِهَا لَمَّا أَتَانِي طَالِبُ الطَّلَبَاء میں نے نفس کو اس کے جذباب سمیت چھوڑ دیا جب میرے پاس طالبوں کا طالب آیا.مُتُنَا بِمَوْتِ لَا يَرَاهُ عَدُونَا بَعُدَتْ جَنَازَتُنَا مِنَ الْأَحْيَاءِ ہم ایسی موت سے مرچکے ہیں جس کو ہمارا دشمن نہیں دیکھ سکتا.ہمارا جنازہ زندوں سے بہت دور ہو گیا ہے.غَلَبَتْ عَلَى قَلْبِي مَحَبَّةُ وَجْهِهِ حَتَّى رَمَيْتُ النَّفْسَ بِالْإِلْغَاءِ میرے دل پر اس کے چہرے کی محبت غالب آگئی یہاں تک کہ میں نے اپنے نفس کو اور اس کی خواہشات کو باطل اور کالعدم بنا کر پھینک دیا.وَ أَرَى الوَدَادَ أَنَارَ بَاطِنَ بَاطِنِي وَأَرَى التَّعَشْقَ لَاحَ فِي سِيمَائِي میں دیکھتا ہوں کہ محبت نے میرے باطن کے باطن کو منور کر دیا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ عشق میرے چہرے پر ظاہر ہو گیا ہے.مَا بَقِيَ فِي قَلْبِي سِوَاهُ تَصَرُّرٌ غَمَرَتْ آيَادِى اللَّهِ وَجُهَ رَجَائِي میرے دل میں اس کے سوا کوئی تصور باقی نہیں رہا.خدا تعالیٰ کے احسانات نے میری خواہشوں کے منہ کو ڈھانپ لیا ہے.هَوْجَاءُ الْفَتِهِ أَثَارَتْ حُرَّتِي فَفَدَا جَنَانِى صَوْلَةَ الْهَوْجَاءِ اس کی الفت کی تیز ہواؤں نے میری خاک اڑادی پس میرا دل ان ہواؤں کی شدت پر قربان ہو گیا.دوسرے مقام پر اس عظیم الشان محبت بھری ثناء باری تعالیٰ کا لطف لیں.جوش محبت سے بھرا ہوا کلام ہے.ایسا جوش جس کو قابو میں لانا مشکل ہو.فرماتے ہیں: لَكَ الْحَمْدُ يَا تُرسِي وَ حِرْزِى وَ جَوْسَقِى بِحَمْدِكَ يُرُوى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْتَقِى اے میری پناہ اور میرے قلعہ! تیری تعریف ہو، تیری تعریف سے ہر ایک شخص جو پانی چاہتا ہو سیراب ہو جاتا ہے بذِكْرِكَ يَجْرِى كُلُّ قَلْبِ قَدِ اعْتَقَىٰ بحُبِّكَ يَحْيَى كُلُّ مَيْتٍ مُمَزَّقٍ تیرے ذکر کیساتھ ہر ایک دل ٹھہرایا ہوا جاری ہو جاتا ہے اور تیری محبت کے ساتھ ہر ایک مردہ زندہ ہو جاتا ہے

Page 391

المسيح 372 وَبِاسْمِكَ يُحْفَظُ كُلُّ نَفْسٍ مِنَ الرَّدَا وَ فَضْلُكَ يُنْجِي كُلَّ مَنْ كَانَ يُزْبَقِ اور تیرے نام کے ساتھ ہر ایک شخص ہلاکت سے بچتا ہے اور تیرا فضل ہر ایک قیدی کو رہائی بخشتا ہے وَمَا الْخَيْرُ إِلَّا فِيْكَ يَا خَالِقَ الوَرَى وَمَا الكَهُفُ إِلَّا أَنْتَ يَا مُتَّكَأُ التَّقِى اور تمام نیکی تیری طرف سے ہے.اے جہان آفرین! اور تو ہی پر ہیز گاروں کی پناہ ہے وَتَعنُوا لَكَ الْأَفَلَافُ خَوْفًا وَ هَيْبَةً وَ تَجْرِي دُمُوعُ الرَّاسِيَاتِ وَتَثْبَقُ اور تیرے آگے خوفزدہ ہو کر آسمان جھکے ہوئے ہیں اور پہاڑوں کے آنسو جاری اور رواں ہیں وَ لَيْسَ لِقَلْبِي يَا حَفِيظِي وَ مَلْجَائِي سِوَاكَ مُرِيحٌ عِندَ وَقْتِ التَّازُقِ اور میرے دل کے لئے.اے میرے نگہبان اور پناہ! کوئی دوسرا آرام پہنچانے والا نہیں جب تنگی وارد ہو يمِيلُ الْوَرِى عِنْدَ الْكُرُوبِ إِلَى الْوَرَى وَأَنْتَ لَنَا كَهُفٌ كَبَيْتٍ مُسَرُدَقٍ دُکھ کے وقت خلقت خلقت کی طرف توجہ کرتی ہے اور تو ہمارے لیے ایسی پناہ ہے جیسے نہایت مضبوط گھر.اور محبت الہی کے اس بیان کو دیکھیں کہ فرماتے ہیں کہ آپ نے اللہ کی محبت کو اختیار کیا تو تمام وابستگیوں کو ختم کر دیا ہے.فَقُمْ شَاهِدًا لِلَّهِ إِنْ كُنْتَ عَاشِعًا وَاكْرَمُ نَاسِ عِنْدَهُ فَاتِكَ تَقِى پس اگر تو خدا کے لئے خشوع رکھتا ہے تو للہ گواہی کے لئے کھڑا ہو جا اور خدا کے نزدیک بزرگ آدمی وہی ہے جود لیر اور نیک بخت ہے وَقَدْ كُنْتُ لِلَّهِ الَّذِي كَانَ مَلْجَائِي وَذَلِكَ سِرُّ بَيْنَ رُوحِي وَ مُزْعَقِى اور میں اس خدا کے لئے ہو گیا جو میری پناہ ہے اور یہ بھید ہے مجھ میں اور میری فریادگاہ میں رَتَيْتُ وُجُوْهَا ثُمَّ اثَرْتُ وَجْهَهُ فَوَاهَا لَهُ وَلِوَجْهِهِ الْمُتَالِقِ میں نے کئی منہ دیکھے پس اس کا منہ اختیار کر لیا.پس کیا اچھاوہ ہے اور کیا اچھا ہے اُس کامنہ چمکنے والا أحِبُّ بِرُوحِي فَالِقَ الْحَبِّ وَ النَّوَى وَ إِنِّي لَأَوَّلُ مَنْ نَوَى كُلِّ مُلْزَقِ میں اپنی جان کے ساتھ اس کو دوست رکھتا ہوں جو دانہ اس کے جرم سے علیحدہ کرنے والا ہے اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے ہر ایک پیوستہ کو پھینک دیا ہے.اور دیگر وابستگیوں کو ترک کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے وصول کی کیفیت کا مشاہدہ کریں.

Page 392

373 ادب المسيح فرماتے ہیں: سَعَيْتُ وَ مَا وَنَيْتُ بِشَوْق رَبِّي إلى أَنْ جَاءَ نِي رَيَّا الْوِصَالِ میں نے اپنے رب کے اشتیاق میں کوشش جاری رکھی اور کوئی سستی نہ کی یہاں تک کہ مجھے وصال الہی کی خوشبو آگئی وَقَدْ أُشْرِبُتُ كَأْسًا بَعْدَ كَأْسٍ إلى أَن لَّاحَ لِى نُورُ الْجَمَالِ اور مجھے پیالے پر پیالہ پلایا گیا یہاں تک کہ مجھ پر جمال حقیقی کا نور جلوہ گر ہو گیا وَقَد أُعْطِيتُ ذَوْقًا بَعْدَ ذَوقِ وَنَعْمَاءِ الْمَحَبَّةِ وَالدَّلال اور مجھے ذوق پر ذوق دیا گیا اور محبت اور ناز کی نعمتیں بھی دی گئیں وَجَدْتُ حَيْوَةَ قَلْبِي بَعْدَ مَوْتِي وَعَادَتْ دَوْلَتِي بَعْدَ الزَّوَالِ میں نے اپنی فنا کے بعد دل کی زندگی کو پالیا اور میری دولت جاتے رہنے کے بعد لوٹ آئی.اور محبوب حقیقی کے وصال کو حاصل کرنے کے لیے آپ کے مجاہدہ اور کوشش کو بھی دیکھیں وَلِي فِي حَضْرَةِ الْمَوْلَى مَقَامٌ وشأن قَدْ تَبَاعَدَ مِنْ خَيَالِ اور میرا، مولیٰ کریم کی جناب میں، ایک بلند مقام ہے اور ایسی شان ہے کہ خیال سے بلند تر ہے وَصَافَانِي وَ وَافَانِي حَبِيبِي وَارُوَانِي بِكَأْسَاتِ الْوِصَالِ میرے حبیب نے مجھ سے محبت کی اور وہ مجھے ملا اور مجھے وصال کے پیالوں سے سیراب کیا أَرَانِيُّ الْحُبُّ مَوْتِي بَعْدَ مَوْتِى وَانْأَى تُرْبَتِي فَبَدَا زُلالِي ( خدا کی ) محبت نے مجھے موت کے بعد موت دکھائی اور میری گرد کو مجھ سے ) دور کر دیا ہے تو میرا آب زلال ظاہر ہو گیا وَجَدْنَا مَا وَجَدْنَا بَعْدَ وَجُدٍ وَإِقْبَالِي أَتَى بَعْدَ الزَّوَالِ ہم نے جو کچھ بھی پایا ہے، غم کے بعد ہی پایا ہے اور میرا اقبال (میرے) مٹنے کے بعد آیا ہے إِذَا أَنْكَرْتُ مِنْ نَّفْسِي بِصِدْقٍ فَوَافَانِي حَبِيْبِيُّ رَوْحُ بَالِي جس وقت صدق کے ساتھ میں نے نفس کی (اطاعت) سے انکار کر دیا تو میرا حبیب، جو میرے دل کا آرام ہے، میرے پاس آ گیا أَطَعْتُ التَّوْرَحَتَّى صِرْتُ نُورًا وَلَا يَدْرِى خَصِيمٌ سِرَّ حَالِـي میں نے نور کی اطاعت کی یہاں تک کہ خود نور ہو گیا اور جھگڑنے والا دشمن میرے حال کے بھید سے واقف نہیں

Page 393

المسيح 374 طَلَعْتُ الْيَوْمَ مِنْ رَّبِّ رَّحِيم وَجَلَّتْ شَمْسُ بَعْنِي فِي الْكَمَالِ میں نے آج رب رحیم کی جانب سے طلوع کیا ہے اور میری بعثت کا آفتاب کامل ہو کر روشن ہوا ہے اور آخر پر وصال باری تعالیٰ کے حصول کے بعد کی دعا تو آپ زر سے لکھنے والا کلام ہے.بہت دلفریب اور محبت سے لبریز.باری تعالیٰ کی جناب میں عرض کرتے ہیں.امِتُنِي فِي الْمَحَبَّةِ وَالْوَدَادِ وَكُنْ فِي هَذِهِ لِى وَ الْمَعَادِ مجھے اپنی محبت میں ہی وفات دے اور اس دنیا اور آخرت میں تو میرا ہوجا وَلَمْ يَبْقَ الْهُمُومُ لَنَا فَإِنَّا تَوَكَّلُنَا عَلَى رَبِّ الْعِبَادِ اور ہمیں کوئی غم نہیں کیونکہ ہم نے ربّ العباد پر توکل کیا ہے.رہے.( تذكرة صفحه 779 مطبوعہ 2004ء)

Page 394

375 تقویٰ ادب المسيح حضرت اقدس کے کلام کا یہ موضوع بھی ان موضوعات میں شمار ہوتا ہے جن کا نام ونشان اسلامی ادب میں نہیں ملتا.نیکی کی ترغیب اور برائی سے پر ہیز کا مضمون تو اکثر فارسی اور اردو اساتذہ شعر میں جستہ جستہ بیان کے طور پر ضرور ملتا ہے مگر قرآن کریم کے فرمودات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء کرام کے ارشادات کے مطابق جس صفت کو تقوی کہتے ہیں وہ قرآن کریم اور اسوہ رسول کی رضا جوئی اور اطاعت میں کئے گئے نیک اعمال کو کہتے ہیں.جیسے فرمایا: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة: 28) اس فرمان کے ترجمہ میں حضرت فرماتے ہیں: اللہ صرف متقیوں کی قربانی قبول کیا کرتا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور فرماتے ہیں: و منتقی وہی ہیں کہ خدا سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الہی کے خلاف ہیں“.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) حضرت اقدس کا ” تقومی“ یہی ہے اور یہ وہ مضمون ہے جو دیگر شعراء میں نا پید ہے.اپنے دستور کے مطابق جب ہم نے اس عنوان میں قرآن کریم کے فرمودات کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا که قرآن کریم نے تقوی کے مضامین کو اس تواتر سے بیان کیا ہے کہ شاید ڈیڑھ صد سے زائد مقامات میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے.ہم نے اختصار کے پیش نظر دواہم فرمودات کو اختیار کیا ہے اول فرمان الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة:32) آپ حضرت فرماتے ہیں: پھر دیکھو کہ تقوی کو ایسی اعلیٰ درجہ کی ضروری شے قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی علت غائی اسی کو ٹھہرایا ہے چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے تو یوں ہی فرمایا ہے الم ذلك الكتب لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 395

ب المسيح 376 ہم نے اس آیت کو اس لیے بھی انتخاب کیا ہے کہ حضرت اقدس نے اس آیت کی تفسیر میں بہت تفصیل سے تقوی کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے اس مضمون میں اس آیت کے تحت تفسیر حضرت اقدس کے فرمودات کا مطالعہ از بس ضروری ہے.آپ حضرت فرماتے ہیں کہ تقویٰ قرآن شریف کی علت غائی ہے.قرآن شریف تقوی ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے اگر انسان تقوی اختیار نہ کرے تو اُس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہوسکتی ہیں چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے کلید در دوزخ است آن نماز که در چشم مردم گذاری دراز وہ نماز دوزخ کے دروازہ کی کنجی ہے جو کہ لوگوں کے سامنے لمبی لمبی کر کے پڑھی جائے ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) فرماتے ہیں: ساری جڑ تقوی اور طہارت ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے اور نفسانی جذبات دیتے ہیں.ایک اور مقام پر فرماتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) تقوی کے مضمون پر ہم کچھ شعرلکھ رہے تھے اس میں ایک مصرع الہامی درج ہوا.وہ شعر یہ ہے: ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے جہاں تقوی نہیں وہاں حسنہ حسنہ نہیں اور کوئی نیکی نیکی نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.قرآن بھی اُن لوگوں کے لیے ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو تقوی اختیار کریں.ابتدا میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقوی یہ ہے کہ جہالت اور حسد اور بخل سے قرآن شریف کو (نہ) دیکھیں بلکہ نور قلب کا تقوای ساتھ لیکر صدق نیت سے قرآن شریف کو پڑھیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) تقوی کے مضمون میں دوسرا فرمانِ قرآن یہ ہے: إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل : 129)

Page 396

377 ادب المسيح آپ حضرت اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرنے والے ہیں.تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.عجب.خود پسندی.مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقوی ہے جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (حم السجدة : 35 ) اس آیت کی بہت عارفانہ تفسیر کرتے ہوئے تقوی کی اہمیت کو بیان فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقوی اختیار کریں.تقوی کہتے ہیں بدی سے پر ہیز کرنے کو.اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پر ہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں.اور پھر یہ بھی فرمایا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنَى (یونس : 27) - یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کرتے ہیں.مجھے یہ وحی بار بار ہوئی إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ اور اتنی بار ہوئی کہ میں گن نہیں سکتا.خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ.اور اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب کچی تقوی ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہی وہ فرمودات قرآن ہیں جن کی تفسیر وتعبیر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جامع اور فیصلہ کن فرمان جاری کیا ہے.خَيْرُ الزَّادِ التَّقْوى“ یعنی خدا تعالیٰ کی جناب میں جو چیز مقبول ہوگی وہ تقوی ہی ہے.اسی زادِ راہ کا ذکر حضرت اقدش کر رھے ہیں اور فرماتے ہیں: اے دوستو پیارو! عقبے کو مت بسارو کچھ زادِ راہ لے لو کچھ کام میں گزارو دنیا ہے جائے فانی دل سے اِسے اُتارو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اب ہم اردو زبان میں حضرت اقدس کا تقوی کے مضمون میں عالی شان کلام جو اردوادب میں شاہکارنمونہ ہیں اور بے انتہا مؤثر اور دل گرمانے والے اشعار ہیں ، پیش کرتے ہیں.

Page 397

المسيح فرماتے ہیں: 378 ہمیں اُس یار سے تقوای عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے یہی آئینہ خالق که به حاصل ہو جو شرط لقا ہے نما ہے یہی اک جوہر سیف دُعا ہے ہر اک نیکی کی جڑ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے یہی اک فیر شانِ اولیاء ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے اگر سوچو، یہی دار الجزاء ہے مجھے تقوی سے اُس نے یہ جزادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ سنو! ہے حاصل اسلام تقویٰ خُدا کا عشق کے اور جام تقویٰ مسلمانو! بناؤ تام تقویٰ کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ یہ دولت تُو نے مجھ کو اے خُدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي

Page 398

379 ادب المسيح قرآن کریم کے فرمودات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سننے کے بعد حضرت کا یہ فرمانا.ہمیں اُس یار سے تقوی عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کس قدر صاحب عظمت ہونے پر بھی عاجزانہ ہے اور اس میں یہ عرفان بھی دیا ہے کہ حقیقی تقویٰ احسان باری تعالی ہی سے حاصل ہوتا ہے.یہی وہ احسان باری تعالی ہے جس کی برکت سے آپ کی یہ کیفیت ہے.ہوئے ہم تیرے اے قادر توانا ترے در کے ہوئے اور تجھ کو جانا ہمیں بس ہے تیری درگہ پہ آنا مصیبت سے ہمیں ہر دم بچانا کہ تیرا نام ہے غفا ر و ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اس کیفیت قلب کو تقوی کی روح کہتے ہیں.اب یہ بھی سُن لیں کہ آپ حضرت نے تقوی کا کیا منصب بیان کیا ہے اور اس کی کیا تعریف کی ہے.یہ بھی کہ اس مقام کو حاصل کرنے کی کیا شرائط ہیں.فرماتے ہیں: زندہ وہی ہیں جو کہ خُدا کے قریب ہیں مقبول بن کے اُس کے عزیز و حبیب ہیں وہ دُور ہیں خُدا سے جو تقوی سے دُور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں تقوی یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لیے رہ عشرت کو چھوڑ دو

Page 399

ب المسيح 380 لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو تکنی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش کے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے اے کرم خاک! چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرتِ ربّ غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑو غرور وکبر کہ تقوی اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولے اسی میں ہے تقوی کی جڑ خُدا کے لیے خاکساری ہے عفت جو شرط دیں ہے وہ تقوی میں ساری ہے جو لوگ بد گمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقوی کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں تقوی کے مضمون میں تمام مقدسوں اور پاکبازوں کی تعظیم کرنا بھی ایک شرط ہے.فرماتے ہیں: ہم بد نہیں ہیں کہتے ان کے مقدسوں کو تعلیم میں ہماری حکم خدا یہی ہے

Page 400

381 ادب المسيح ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی تقویٰ کی جڑھ یہی ہے صدق وصفا یہی ہے عاشقانِ الہی کے لئے راہ سلوک کو روشن کرنے والا ایسا کلام کہاں ملے گا.آسان فہم اور سہل ممتنع بے انتہاء مؤثر اور دل ہلانے والا کلام ہے.یہی وہ نور ہے جس کے بیان میں آپ فرماتے ہیں.آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا یاؤ گے لو تمہیں طور نسلی کا بتایا ہم نے اور آخر پر فرماتے ہیں کہ تقوی خدا تعالیٰ کے عشق سے حاصل ہوتا ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر ” کون ہے جسکے عمل ہوں پاک بے انوار عشق کون کرتا ہے وفا بن اُسکے جس کا دلفگار رنگ تقوی سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار کو چڑھے سُورج نہیں بن رُوئے دلبر روشنی یہ جہاں بے وصل دلبر ہے شب تاریک و تار اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بینظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے اُمید وار کون ہے جسکے عمل ہوں پاک بے انوار عشق کون کرتا ہے وفا بن اُسکے جس کا دلفگار غیر ہوکر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل وشرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر عشق ہے جو سر جُھکا دے زیر تیغ آبدار

Page 401

المسيح 382 عربی زبان میں حضرت اقدس کے تقوی کے مقام علوی اور اس کے حصول کے لیے مجاہدہ اور ریاضت کے بیان کوسُن لیں.محبت الہی کے مضمون میں جس کو آپ حضرت نے تقوی کا جزو اعظم کہا ہے ایسا بیان کہاں دستیاب ہوگا.کون محبوب حقیقی کی جناب سے ایسی محبت لے کر آئے گا اور ہم انسانوں کو اس کی کیفیات سے روشناس کرے گا یہ بھی مشاہدہ کریں کہ آخری شعر میں اپنے آقا اور اول مقام کے محبوب الہی کے فرمان کو بھی کتنے پیار سے پیش کرتے ہیں.فرماتے ہیں: نَزَلْنَا مَنْزِلَ الْأَضْيَافِ مِنْكُمْ فَنَرْجُو أَنْ تَقُولُوا لِى نَزَالِ ہم تمہارے پاس مہمانوں کی طرح اترے ہیں پس ہم امید رکھتے ہیں کہ تم لوگ مجھے کہو آیسے تشریف لائیے“ وَلِي فِي حَضْرَةِ الْمَوْلَى مَقَامٌ وَشَأْنْ قَدْ تَبَاعَدَ مِنْ خَيَالِ اور میرا، مولیٰ کریم کی جناب میں، ایک بلند مقام ہے اور ایسی شان ہے کہ خیال سے بلند تر ہے وَصَافَانِي وَ وَافَانِي حَبِيْبِي وَ أَرْوَانِي بِكَأْسَاتِ الْوِصَالِ میرے حبیب نے مجھ سے محبت کی اور وہ مجھے ملا اور مجھے وصال کے پیالوں سے سیراب کیا أَرَانِي الْحُبُّ مَوْتِي بَعْدَ مَوْتِى وَانأَى تُرْبَتِي فَبَدَا زُلالِي ( خدا کی محبت نے مجھے موت کے بعد موت دکھائی اور میری گرد کو ( مجھ سے ) دور کر دیا ہے تو میرا آب زلال ظاہر ہو گیا وَجَدْنَا مَا وَجَدْنَا بَعْدَ وَجُدِ وَإِقْبَالِي أَتَى بَعْدَ الزَّوَالِ ہم نے جو کچھ بھی پایا ہے، غم کے بعد ہی پایا ہے اور میرا اقبال (میرے) مثلنے کے بعد آیا ہے إِذَا أَنْكَرْتُ مِنْ نَّفْسِي بِصِدْقٍ فَوَافَانِي حَبِيبِيُّ رَوْحُ بَالِي جس وقت صدق کے ساتھ میں نے نفس کی (اطاعت) سے انکار کر دیا تو میرا حبیب، جو میرے دل کا آرام ہے، میرے پاس آ گیا أَطَعْتُ النُّورَحَتَّى صِرْتُ نُورًا وَلَا يَدْري خَصِيمٌ سِرَّ حَالِي میں نے نور کی اطاعت کی یہاں تک کہ خود نور ہو گیا اور جھگڑنے والا دشمن میرے حال کے بھید سے واقف نہیں طَلَعْتُ الْيَوْمَ مِنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ وَجَلَّتْ شَمْسُ بَعْنِي فِي الْكَمَالِ میں نے آج رب رحیم کی جانب سے طلوع کیا ہے اور میری بعثت کا آفتاب کامل ہو کر روشن ہوا ہے

Page 402

383 ادب المسيح فَلا تَقْعُطُ مِنَ اللَّهِ الرَّءُ وُفِ وَقُمْ وَ بِتَوْبَةٍ نَحْوِى تَعَالِ پس خدائے مہربان کی طرف سے ناامید مت ہو.اٹھ اور تو بہ کے ساتھ میری طرف آ قَرَيْنَا مِنْ كَمَالِ النُّصْحَ فَاقْبَلُ قِرَانَا بِالتَهَلُلِ كَالرِّجَالِ ہم نے کمال خیر خواہی سے تمہاری ضیافت کی ہے پس تو ہماری مہمانی کو مردوں کی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کر وَخَيْرُ الزَّادِ تَقْوَى الْقَلْبِ لِلَّهِ فَخُذْ إِيَّاهُ قَبْلَ الْإِرْتِحَالِ اور بہترین تو شہ دل کا خدا سے ڈرنا ہے پس (دنیا سے) کوچ کرنے سے پہلے اسے لے لے وَفَكِّرُ فِي كَلامِي ثُمَّ فَكِّرُ وَلَا تَسُلُكُ كَمَرِءٍ لَا يُبَالِي اور میرے کلام میں غور کر اور ایسے آدمی کا طریق اختیار نہ کر جو لا پرواہی کرتا ہے دوسرے مقام میں آپ اپنی جناب کو وارث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر پیش کر کے فرماتے ہیں کہ انسان کا حسب نسب اُس کے تقویٰ کے معیار پر ہوتا ہے.فرماتے ہیں: وَإِنَّا وَرِثَنَا مِثْلَ وُلْدِ مَتَاعَهُ فَلَى ثُبُوتٍ بَعْدَ ذَلِكَ يُحْضَرُ اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی وراثت پائی.پس اس سے بڑھ کر اور کون سا ثبوت ہے، جو پیش کیا جائے؟ لَهُ خَسَفَ الْقَمَرُ الْمُنِيرُ وَ إِنَّ لِي غَسَا الْقَمَرَانِ الْمُشْرِقَانِ أَتُنكِرُ اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا.اب کیا تو انکار کرے گا؟ وَكَانَ كَلامٌ مُعْجِز آيَةً لَّهُ گذلِكَ لِي قَولِى عَلَى الْكُلِّ يَبْهَرُ اس کے معجزات میں سے معجزانہ کلام بھی تھا.اسی طرح مجھے وہ کلام دیا گیا جو سب پر غالب إذا الْقَوَمُ قَالُوا يَدَّعِرُ الْوَحْيَ عَامِدًا عَجِبْتُ فَإِنِّي ظِلُّ بَدْرٍ يُنَوِّرُ جب قوم نے کہا کہ یہ تو عمداً وحی کا دعوی کرتا ہے.میں نے تعجب کیا کہ میں تو رسول اللہ کا ظل ہوں وَ أَنَّى لِظِلَّ أَنْ يُخَالِفَ أَصْـلَـهُ فَمَا فِيهِ فِي وَجُهِيَ يَلُوحُ وَيَزْهَرُ اور سایہ کیونکر اپنے اصل سے مخالف ہو سکتا ہے.پس وہ روشنی جو اس میں ہے وہ مجھ میں چمک رہی ہے وَأَنَّى لَدُونَسَبٍ كَاصْلٍ أُطِيعُهُ وَمِنْ طِينِهِ الْمَعْصُومِ طِيْنِى مُعَطَّرُ اور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ذو نسب ہوں.اور اس کی پاک مٹی کا مجھ میں ضمیر ہے

Page 403

المسيح 384 كَفَى الْعَبُدَ تَقْوَى الْقَلْبِ عِنْدَ حَسِينَا وَلَيْسَ لِنَسَبٍ ذُو صَلَاحٍ مُعَيَّرُ اور بندہ کو دل کا تقوی کافی ہے اور ایک صالح کو.اس لئے سرزنش نہیں کر سکتے کہ اس کی نسب اعلی نہیں اور خدا تعالیٰ کے فرمان اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَكُمُ کی بنیاد پر فرماتے ہیں کہ آپ کا فخر ہدایت اور تقوی کی وجہ سے ہے اور دنیا میں کوئی مال مصفی قلب سے بہتر نہیں.فرماتے ہیں: أَحَاطَتْ بِنَا الْأَنْوَارُ مِنْ كُلِّ جَانِبِ وَمِنْ أَفْقِنَا شَمْسُ الْمَحَاسِنِ تُشْرِقِ ہر ایک طرف سے ہمیں نور محیط ہو گئے ہیں اور ہمارے افق سے آفتاب محاسن طلوع کرتا ہے وَيَنْمُو مِنَ الرَّحْمَنِ حَقٌّ مُطَهَّرٌ وَمَا كَانَ مِنْ غُولٍ فَيُفْنِي وَيُمْحَقُ اور خُدا کی بات نشو و نما پاتی ہے اور جو شیطان کی طرف سے ہو وہ فنا ہو جاتا ہے اور نقصان پذیر ہو جاتا ہے وَوَاللَّهِ إِنِّي مُؤْمِنٌ وَ مُحِبُّهُ ا انتَ عَلَيْنَا بَابَ ذِي الْمَجْدِ تُغْلِقِ اور بخدا ! میں مومن اور محبّ خدا ہوں کیا تو ہم پر خدا تعالیٰ کا دروازہ بند کرتا ہے وَتَذْكُرُنِي كَالْمُفْسِدِينَ مُحَقِّرًا تَقُولُ فَقِيرٌ مُفْلِسٌ بَلْ كَمُدْحَقِ اور مجھے تحقیر سے تو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک محتاج مفلس بلکہ ایسے آدمی کی طرح ہے جو بالکل بے نصیب ہو اَنفُخُرُ يَا مِسْكِيْنُ مِنْ قِلَّةِ النُّهَى بِمَالٍ وَأَوْلَادِ وَ جَاهِ وَ نُسُتَقِ اے مسکین ! کیا کم عقلی کی وجہ سے مال اور اولاد اور مرتبہ اور نوکر چاکروں سے فخر کرتا ہے وَمَا الْفَخْرُ إِلَّا بِالثَّقَاةِ وَبِالْهُدَى وَلَا مَالَ فِي الدُّنْيَا كَقَلْبٍ يَتَّقِى اور فخر محض پر ہیز گاری کے ساتھ ہے اور دُنیا میں کوئی مال پر ہیز گار دل کی طرح نہیں اور آخر پر ایک عظیم الشان شناء باری تعالیٰ میں فرماتے ہیں کہ اللہ ہی متقیوں کی پناہ ہوتا ہے.فرماتے ہیں: لَكَ الْحَمْدُ يَا تُرسِی وَ حِرْزِئُ وَ جَوْسَقِى بِحَمْدِكَ يُرْوَى كُلُّ مَنْ كَانَ يَسْتَقِى اے میری پناہ اور میرے قلعہ تیری تعریف ہو، تیری تعریف سے ہر ایک شخص جو پانی چاہتا ہو سیراب ہو جاتا ہے بِذِكْرِكَ يَجْرِى كُلُّ قَلْبِ قَدِ اعْتَقَى بحُبِّكَ يَحْيَى كُلُّ مَيْتٍ مُمَزَّقٍ تیرے ذکر کیساتھ ہر ایک دل ٹھہرایا ہوا جاری ہو جاتا ہے اور تیری محبت کے ساتھ ہر ایک مُردہ زندہ ہو جاتا ہے وَ بِاسْمِكَ يُحْفَظُ كُلُّ نَفْسٍ مِنَ الرَّدَا وَفَضْلُكَ يُنْجِي كُلَّ مَنْ كَانَ يُزْبَقِ اور تیرے نام کے ساتھ ہر ایک شخص ہلاکت سے بچتا ہے اور تیر افضل ہر ایک قیدی کو رہائی بخشتا ہے

Page 404

385 ب المسيح وَمَا الْخَيْرُ إِلَّا فِيْكَ يَا خَالِقَ الوَرى وَمَا الكَهْفِ إِلَّا أَنْتَ يَا مُتَّكَأُ التَّقِى اور تمام نیکی تیری طرف سے ہے.اے جہان آفرین! اور تو ہی پر ہیز گاروں کی پناہ ہے آپ حضرت کے فارسی اشعار میں اسلوب بیان کے اعتبار سے تقوی کے مضامین عشق الہی اور صدق کے موضوعات کے تحت پیش کیا گیا ہے ان دونوں موضوعات کو ہم محبت الہی اور صدق“ کے عنوانات کے تحت بیان کر چکے ہیں.قارئین سے درخواست ہے کہ اسکا مطالعہ فرمائیں.

Page 405

ب المسيح 386 عاجزی اور خاکساری اس کتاب میں ہم نے ایک مضمون ” حضرت کا ادب ایک منفر د مکتب ادب ہے“ کے عنوان سے باندھا ہے جس میں ہم نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر ادب کا ایک دوسرے سے ممتاز صح نظر اور جدا گانہ ترجیحاتِ ادبی ہوتی ہیں اس لئے اُس کے حسن و خوبی کو پسند کرنے اور دل میں جگہ دینے کے لیے لازم ہے کہ سامع اور مخاطب کی بھی وہی تر جیحات زندگی ہوں اور وہی دلی تمنائیں ہوں جو ادیب کی ہیں.اس حقیقت کی وضاحت میں غالب کا ایک شعر پیش کیا تھا جواد بی تجزیہ اور انتقاد میں تاثیر کے اعتبار سے ایک عظیم الشان اور زندہ جاوید بیان ہے.کہتا ہے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے یعنی شعر میں لذت اور تاثیر اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ شعر کا مضمون سننے والے کے قلبی رجحانات اور ذہنی ترجیحات کے مطابق ہو.ادبی اعتبار سے یہی اصل الاصول ہے جس کی بنا پر ذہنی رجحانات رکھنے والے زمینی ادب کے شیدائی ہوتے ہیں اور آسمانی یعنی روحانی رجحانات رکھنے والے خدا تعالیٰ اور انبیاء اصفیاء کے کلام پر فدا ہوتے ہیں.ادب عالیہ کی یہ باہم دگر ممتاز نوعیت ایک طرف سامع کی ترجیحات زندگی کی نقاب کشائی کر رہی ہوتی ہے وہاں پر دوسرے اعتبار سے اُس کے جذبات کی تربیت اور رجحانات کو صیقل بھی کر رہی ہوتی ہے.اول عمل تو زمینی ادب کی کارفرمائی ہوتی ہے.مگر دوسرا عمل جس میں سامع کے روحانی جذبات کی تربیت اور قلبی رجحانات کو صیقل کرنا شامل ہے.خالصۂ روحانی ادب کا تخلیقی منشا اور مدعا ہوتا ہے.جب ہم اس زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم اور دیگر صحف سماوی اور انبیاء کا کلام روحانی جذبات اور اخلاق کو زندہ کرنے اور ان کی تعدیل ہی کی غرض سے تخلیق ہوا ہے.اور اگر ہم یہ کہیں کہ ان کا منشاء ایک روحانی اور اخلاقی شخصیت اور کردار پیدا کرنا ہے تو یقیناً بجا ہوگا.قرآن کریم کے ادب عالیہ سے جو سب سے اعلیٰ وارفع صاحب اخلاق حسنہ شخصیت پیدا کی ہے (جس پر ہمارے ماں باپ فدا ہوں ) وہ ہمارے آقا اور مطاع محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جسکو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیا.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبه: 128)

Page 406

387 ادب المسيح حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جذب اور عقدِ ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتا ہے اور ظلّ اللہ بنتا ہے پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لیے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لیے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) یہ وہ صفات اور انداز ہیں جن کی بنا پر آپ میں خاکساری.عاجزی اور مقابل پر عفو و درگذر کی صفات پیدا ہوئیں.یہی وہ غریبی میں فخر کا انداز ہے کہ آپ نے ایک شخص کو (جو آپ کے رعب اور تمکنت سے بہت مرعوب ہوکر کانپنے لگا تھا) فرمایا کہ ایسے خائف نہ ہو جاؤ میں تو ایک ایسی ماں کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کا ٹکڑا چبا کر اپنی بھوک مٹاتی تھی.یہی وہ ہمدردی اور رحم ہے جس پر آپ نے ایک مزدور کا کٹا پھٹا ہاتھ چوم لیا اور غریبی اور بے آرام زندگی کو اختیار کیا اور دعا کی کہ اللہ آپ کو غریبوں اور مسکینوں میں رکھے اور انہی میں سے اُٹھائے اور یہی وہ کر دار علوی تھا جس کی بنا پر آپ نے فرمایا کہ مجھے القاب نہ دو میرا لقب ”عبد“ ہے اور اس طرح سے اس سفلی دنیا کے تفاخر اور تمنا سے بے تعلق ہو گئے.اللهم صل علی سیدنا محمد و علی ال محمد و بارک و سلّم انک حمید مجید.اس مضمون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم بھی ہوا کہ عفو کو اختیار کرو اور جاہلوں سے اعراض کرو اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں اعلیٰ اخلاق دکھائے.فرمایا: خُذِ الْعَفْوَ وَأمُرُ بِالْعُرْفِ وَاعْرِضْ عَنِ الجهلِينَ (الاعراف : 200) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بُری طرح ستایا گیا.مگر ان کو أَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ کا ہی فرمان ہوا.خود اُس انسانِ کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بُری تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں.بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خلق مجسم نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا.اُن کے لیے دعا کی.اور چونکہ اللہ تعالے نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر

Page 407

ب المسيح 388 حملہ نہ کر سکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ہمارے مضمون پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے اعتبار سے قرآن کریم کا ذیل کا فرمان اور اس کی تفسیر حضرت اقدس بہت موزوں ہے.فرمایا: لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ أَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِ عَا مِنْ نَخَشْيَةِ اللهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَشْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (الحشر: 22) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ایک تو اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اُتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اوّل تکبر کوتوڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اُونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہیئے کہ تمام تکبیر اور بڑائی کے خیالات کو دُور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُتَصَدِّعًا ہوجاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جُدا ہو جاتی ہے ایسا ہی اسکے تمام پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الہی نارضامندی تھے وہ سب ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کی رہ جائیں.اور یہ فرمان بھی تو ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجُهِلُونَ قَالُوا سَلمًا حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: (الفرقان: 64)

Page 408

389 ادب المسيح وَ عِبادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا....الخ هَون یعنی کسی دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلحکاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا.خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں.(تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور فرمایا: وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّ وَاكِرَامًا (الفرقان: 73) حضرت اقدس اس فرمان کی تفسیر میں فرماتے ہیں.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے.اس لئے آرام اسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو.سد باب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو.زبان بند رکھو.گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے سے گزر جاؤ گویا سنا ہی نہیں اور ان لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لئے قرآن شریف نے فرمایا ہے وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُ وا كِرَامًا.اگر یہ باتیں اختیار کر لو گے تو یقیناً یقیناً اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بن جاؤ گے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت ) یہی وہ اخلاق واطوار علوی ہیں جن کی نشاندہی میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو عظیم الشان الفاظ میں یاد کیا.فرمایا: إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5) حضرت اقدس اس فرمان خداوندی کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ جلّ شانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے سو اس تشریح کے مطابق اس کے معنے ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت ، عدل، رحم ، احسان ،صدق ، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں.غرض جس قدر انسان کے دل میں قوتیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب ، حیا، دیانت، مروت، غیرت، استقامت، عفت، ذہانت، اعتدال، مواسات یعنی ہمدردی.ایسا ہی شجاعت، سخاوت ، عفو، صبر، احسان، صدق ، و فاوغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا.معاشرتی اخلاق کے مضمون میں قرآن کریم کی بے شمار ہدایات ہیں.ہم نے ان میں سے چند ایک کا انتخاب

Page 409

المسيح 390 کیا ہے.اس احتیاط کے ساتھ کہ تفسیر و تعبیر حضرت اقدس کی ہو.اب ہم اخلاقی موضوعات پر چند ایک فرمودات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے ہیں.خاکساری اور درگذر کے عنوان میں فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَ مَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بَعَفْوِ إِلَّا عِزَّا وَ مَاتَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ.(مسلم كتاب البر والصلة باب استحباب العفو و التواضع) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.عاجزی کے عنوان میں فرمایا: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ عَه : وَلَا أُخْبِرُكُم بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ؟ تَحْرُمُ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ لَيِّنٍ سَهْلٍ (ترمذی كتاب صفة القيامة) حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا میں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے.یعنی نفرت نہیں کرتا ، ان سے نرم سلوک کرتا ہے.ان کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے.تکبر کے بارے میں فرمایا: عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِي لا قَالَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرِ فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ ، اَلْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ.(مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانه) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں نہیں داخل ہونے دے گا.ایک شخص

Page 410

391 ادب المسيح نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، جوتی اچھی ہو، وہ خوبصورت لگے.آپ نے فرمایا یہ تکبر نہیں.آپ نے فرمایا اللہ تعالی جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے.تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے لوگوں کو ذلیل سمجھے ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح سے پیش آئے.اور دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں فرمایا: عَنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ قَالَ: نَامَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَ قَدْ أَثْرَ فِي جَنْبِهِ، قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً فَقَالَ: مَالِيٍّ وَ لِلدُّنْيَا؟ مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبِ اسْتَطَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَ تَرَكَهَا.(ترمذی کتاب الزهد) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سو رہے تھے.جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلو مبارک پر نظر آئے.ہم نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے نرم سا گدیلہ بنادیں تو کیا اچھا نہ ہو؟ آپ نے فرمایا.مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق؟ میں اس دنیا میں اس مشتر سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے ستانے کے لئے اترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا.اور عیب جوئی کے بارے میں فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ الله : يُبْصِرُ أَحَدُكُمُ الْقَذَاةَ فِي عَيْنِ اَخِيُهِ وَ يَنْسَى الْجِذْعَ فِي عَيْنِهِ.(الترغيب والترهيب، باب الترهيب من ان يامر بمعروف و ينهي عن المنكر و ینسی نفسه، صفحه 15/ 4 بحواله ابن حبان في صحيح) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتا ہے.بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے ( کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

Page 411

ب المسيح 392 معاشرتی اعتبار سے یہ وہ اخلاق و اطوار ہیں جن کو اپنانے کی تلقین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور یہی وہ اخلاق اور طرز زندگی ہے جس کو حضرت اقدس نے اپنے کلام میں بار بار بیان کیا ہے کہ ان کو اختیار کئے بغیر قرب الہی حاصل نہیں ہو سکتا.ہم نے ان موضوعات کو ترتیب دینے کی غرض سے درج ذیل عنوانات بنائے ہیں.عاجزی اور خاکساری تکبر اور خود پسندی ترک آسائش و آرام دنیا سے بے رغبتی عیب جوئی و بدگمانی اب ہم ان موضوعات پر حضرت اقدس کا کلام پیش کرتے ہیں.اردوزبان میں ایک نہایت خوبصورت بیان سُن لیں.فرماتے ہیں: تکبر سے نہیں ملتا وہ دلدار ملے جو خاک سے اُسکو ملے یار کوئی اس پاک جو دل لگاوے ނ کرے پاک آپکو تب اُسکو پاوے پسند آتی ہے اُس کو خاکساری تذلل عجب ناداں ہے وہ مغرور و گمراہ ہے رہ درگاه باری کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

Page 412

اور فارسی میں حضرت کی خاکساری کو دیکھیں.393 ادب المسيح خاکساریم و سخن از رو غربت گوئیم يَعْلَمُ الله کہ بکس نیست غبارے مارا ہم تو خاکسار ہیں اور فروتنی سے بات کرتے ہیں.خدا شاہد ہے کہ ہمیں کسی سے عداوت نہیں ما نہ بیہودہ پیئے ایس سروکارے برویم جلوه حسن کشد جانب یارے مارا ہم فضول اس مقصد کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے بلکہ حجتی حسن ہمیں محبوب کی طرف کھینچے لیے جارہی ہے.اور عربی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عاجزی اور خاکساری کو پسند فرماتا ہے.وَإِنِّي بَرِيءٌ مِّنْ رَيَاحِينِ غَيْرِهِ وَعَذَابُ شَوْلٍ مِّنْهُ عَذَبٌ وَّ طَيِّبُ میں اس کے غیر کی طرف سے آنے والی ) خوشبوؤں سے بھی بیزار ہوں اور اسکی طرف سے کانٹے کی تکلیف بھی (میرے نزدیک ) شیریں اور عمدہ ہے يُحِبُّ التَّذَلُّلَ وَالتَّوَاضُعَ رَبُّنَا وَمَنْ يُنْزِلَنُ عَنْ فَرْسِ كِبْرٍ يُرْكَبُ ہمارا رب تو عاجزی اور انکساری کو پسند کرتا ہے.جو تکبر کے گھوڑے سے نیچے اتر آئے وہی شاہ سوار بن جاتا ہے وَلِلصَّابِرِينَ يُوَسِعُ اللَّهُ رَحْمَهُ وَيَفْتَحُ أَبْوَابَ الْجَدَا وَيُقَرِّبُ اور صبر کرنے والوں کے لئے خدا اپنے رحم کو وسیع کرتا ہے اور عطا کے دروازے کھول دیتا ہے اور قرب بخشتا ہے تَعَرَّفْتُهُ حَتَّى أَتَتْنِي مَعَارِفُ وَإِنَّ الْفَتَى فِي سُؤْلِهِ لَا يَلْعَبُ ( مجاہدہ سے ) میں نے پے در پے رب کو طلب کیا یہاں تک کہ میرے پاس معارف آگئے اور یقیناً با ہمت انسان سوال کرنے میں نہیں تھکتا اردو میں بہت ہی پیارا کلام بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما عاشق جو ہیں وہ یار کو مر مر کے پاتے ہیں جب مر گئے تو اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے دلبر کی مرنے والوں پہ ہر دم نگاہ ہے ہمارے پیارے مسیح کی عاجزی اور انکساری کا عالم مشاہدہ کریں کہ باوجود منصب رسالت اور مجددیت پر

Page 413

ب المسيح 394 فائز ہونے کے کس قدر عاجزی سے فرماتے ہیں: کام جو کرتے ہیں تیری راہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار فارسی میں فرماتے ہیں کہ بجز و نیاز وصال باری تعالیٰ کی شرط ہے.فرماتے ہیں: از خدا باشد خدا را یافتن نے بہ مکر و حیله و تدبیر و فن خدا کی مدد مدد سے ہی خدا کو پاسکتے ہیں نہ کہ چالاکی ، حیلہ اور مکر و فریب کے ساتھ تانیا ئی پیش حق چوں طفل خورد هست جامِ تو سراسر پر ز درد جب تک تو چھوٹے بچے کی طرح خدا کے سامنے نہ آئیگا.تب تک تیرا جام صرف تلچھٹ سے ہی بھرار ہیگا شرط فیض حق بود عجز و نیاز کس ندیده آب بر جائے فراز خدا کے فیضان کے لیے بجز و نیاز شرط ہے.کسی نے پانی کو اونچی جگہ ٹھہر تے نہیں دیکھا حق نیازے جوید آنجا ناز نیست از پر خود تا درش پرواز نیست خدا کو عاجزی پسند ہے وہاں فخر کام نھیں آتا.اپنے پروں سے اُس تک اڑ کر نہیں پہنچ سکتے عاجزان را ذاتِ اجل پرورد سرکشاں محروم و مردود ازل وہ بزرگ ذات عاجزوں کی پرورش کرتی ہے.اور سرکش ہمیشہ محروم و مردود رہتے ہیں چوں نیائی زیر تاب آفتاب کے فتد بر تو شعاعی در حجاب جب تک تو سورج کی روشنی کے سامنے نہیں آتا.تو پردہ کے پیچھے تجھ پر اس کی روشنی کیونکر پڑسکتی ہے اس مضمون میں ایک مفصل اور عارفانہ کلام کا دوبارہ مشاہدہ کریں.

Page 414

فرماتے ہیں: 395 اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لیے فنا ترک رضائے خویش ہے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے اے کرم خاک! چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرتِ ربّ غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقوی اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولے اسی میں ہے تقویٰ کی جو خدا کے لیے خاکساری ہے عفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے جو لوگ بد گمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقوی کی راہ سے وہ بہت دور جاتے ہیں بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے اور بہت درد سے فرمایا: اک دم میں اس علیم کو بیزار کرتی ہے اک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت ہوتے ہیں اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے رہِ عشرت کو چھوڑ دو ادب المسيح

Page 415

ب المسيح 396 ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ دو کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تا تم پر ہو ملائکہ عرش کا نزول اور اپنی جماعت کے لیے ایک دردمندانہ نصیحت کو بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: اے مرے پیارو! شکیب وصبر کی عادت کرو وہ اگر پھیلائیں بدھ تم بنو مُشک تتار نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دمار جس نے نفس دُوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفندیار گالیاں سُن کر دُعا دو پاکے دُکھ آرام رو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوا ئیں وہ ایسے اشتہار چپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم دم نه مارو گر وہ ماریں اور کر دیں حال زار دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو ، هدت گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار اور آخر پر ہمارے آقا اور مطاع محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی اور انکساری کا بھی مشاہدہ کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں فرماتے ہیں: عاشق صدق و سداد و راستی دشمن کذب و فساد و ہر شرے وہ صدق.سچائی اور راستی کا عاشق ہے.مگر کذب.فساد اور شر کا دشمن ہے

Page 416

397 ادب المسيح خواجه و مر عاجزان را بنده بادشاه و بیکساں را چاکرے وہ اگر چہ آتا ہے مگر کمزوروں کا غلام ہے.وہ بادشاہ ہے.مگر بیکسوں کا چاکر ہے اں ترحمها که خلق از وے بدید کس ندیده در جہاں از مادرے وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اُس سے دیکھیں وہ کسی نے اپنی ماں میں بھی نہیں پائیں از شراب شوق جاناں بیخودی در سرش برخاک بنہادہ سرے وہ محبوب کے عشق کی شراب میں بیخود ہے اُس کی محبت میں اُس نے اپنا سر خاک پر رکھا ہوا ہے روشنی از وے بہر قومی رسید نور او رشید بر هر کشوری اُس سے ہر قوم کو روشنی پہنچی.اُس کا نور ہر ملک پر چپکا آیت رحمان برائے ہر بصیر حجت حق بہر ہر دیدہ ورے وہ ہر صاحب بصیرت کے لئے آیت اللہ اور ہر اہل نظر کے لیے حجت حق ہے برحمت دستگیر خستہ جاناں را به شفقت غمخورے ناتواناں را کمزوروں کا رحمت کے ساتھ ہاتھ پکڑنے والا اور ناامیدوں کا شفقت کے ساتھ غم خوار حسن رولیش به نه ماه و آفتاب ز خاک گولیش به ز مشک و عنبرے اُس کے چہرہ کا حسن شمس و قمر سے زیادہ ہے اور اُس کے کوچہ کی خاک مشک و عنبر سے بہتر ہے تکبر اور خود پسندی اردو میں ایک خوبصورت نظم خود پسندی اور تکبر کے مضمون میں مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو و ہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلا ؤ سب کمندوں کو

Page 417

ب المسيح 398 اگرچہ یہ اشعار عاجزی اور خاکساری کے عنوان کے تحت آچکے ہیں مگر ان کا تکبر کے مضمون سے بھی قومی تعلق ہے.نہیں ملتا وه دلدار ملے جو خاک اسکو ملے یار کوئی اس پاک جو دل لگا وے کرے پاک آپکو تب اُسکو پاوے پسند آتی ہے اُس کو خاکساری ہے ره درگاه باری تذلل ناداں ہے وہ مغرور و گمراه اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ بدی غیر کی ہر دم نظر ہے بے خبر ہے فارسی میں فرماتے ہیں: مگر اپنی بدی سے بے من آں شاخ خودی و خود روی از پیخ برکندم کہ مے آرد نی ناپاکی بر نفرین و لعنت را میں نے خودی اور خودرائی کی اس شاخ کو جڑ سے کاٹ ڈالا جو اپنی ناپاکی سے نفرین اور لعنت کا پھل پیدا کرتی ہے اگر از روضه جان و دل من پرده بردارند به بینی اندران آن دلبر پاکیزه طلعت را اگر میرے جان و دل کے چمن سے پردہ اٹھایا جائے تو تو اُس میں اُس پاکیزہ طلعت معشوق کا چہرہ دیکھ لے گا.فروغ نور عشق أو زبام و قصر ما روشن مگر بیند کسے آن را که میدارد بصیرت را اُس کے نور عشق کی تجلی سے ہمارے بام وقصر روشن ہیں لیکن اُسے وہی دیکھتا ہے جو بصیرت رکھتا ہو نگاہِ رحمت جاناں عنایتها بمن کردست وگرنہ چوں منے کے یا بد آں رشد و سعادت را محبوب کی نگاہ ورحمت نے مجھ پر بڑی عنایتیں کی ہیں ورنہ مجھ جیسا انسان کس طرح اس رشد و ہدایت کو پاتا نظر بازانِ علم ظاہر اندر علم خود نازند! ز دست خود نگنده معنی و مغز و حقیقت را ظاہری علوم کے واقف اپنے علم پر نازاں ہیں انہوں نے اپنے ہاتھ سے اصلیت اور حقیقت اور مغز کو پرے پھینک دیا

Page 418

399 ادب المسيح همه فهم و نظر در پردہ ہائے کبر پوشیدند چناں خواہند ایں خمرے کہ پاکاں جام قربت را انہوں نے تکبر کے پردوں میں اپنی عقل و دانش کو چھپا دیا اور اس شراب کے ایسے خواہشمند ہیں جیسے پاک لوگ قرب الہی کے عربی زبان میں آپ حضرت کی تکبر سے دوری کو مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: وَوَاللَّهِ إِنِّي مَا ادَّعَيْتُ تَعَلَّيًا وَابْغِي حَيَانًا مَّا يَلِيْهَا التَّكَبُرُ اور بخدا! میں نے تعلی کی راہ سے دعوی نہیں کیا.اور میں ایسی زندگی چاہتا ہوں جس پر تکبر کا سایہ ہی نہ ہو وَقَدْ سَرَّنِي أَنْ لَّا يُشَارَ بِإِصْبَعِ إِلَيَّ وَ الْقَى مِثْلَ عَظْمٍ يُعَفِّرُ اور میری یہ خوشی رہی کہ میری طرف انگلی کے ساتھ اشارہ نہ کیا جاوے اور میں ایسا پھینک دیا جاؤں جیسا کہ ایک ہڈی خاک آلودہ فَلَمَّا أَجَزْنَا سَاحَةَ الْكِبْرِ كُلَّهَا أَتَانِي مِنَ الرَّحْمَنِ وَحْيٌ يُكَبِّرُ پس جبکہ ہم تکبر کے میدان سے بہت دور نکل گئے اور سب میدان طے کر لیا.تب خدا کی وحی میرے پاس آئی جس نے مجھے بڑا بنا دیا.وہ فارسی میں خود پسندی اور تکبر کو خدا سے دوری کا موجب قرار دیا ہے.خود پسنداں بعقل خویش اسیر فارغ از حضرت علیم و قدیر خود پسند اور اپنی عقل کے اسیر ہیں اور خدائے علیم و قدیر سے بیگانہ ہیں آنکه خود بین و معجب افتاد است حضرت اقدسش کجا یاداست شخص جو خود پسند اور متکبر ہے خدائے پاک اُسے کہاں یاد ہے خوئے عشاق عجز هست و نیاز نشنیدیم عشق و کبر انباز عاشقوں کی عادت تو عجز و نیاز ہے ہم نے کبھی عشق اور تکبر کو ساتھ ساتھ نہیں پایا گر بجوئی سوار ایں رہ راست اندر آنجا بجو که گرد بخاست اگر تو اس سیدھے راستے کے سوار کی تلاش میں ہے.تو وہاں ڈھونڈھ جہاں گرد اڑ رہی ہے اندر آنجا بجو کہ زور نماند خود نمائی و کبر و شور نماند اسے ایسی جگہ ڈھونڈ جہاں زور نہیں رہا.شیخی نہیں رہی تکبر اور شور نہیں رہا

Page 419

المسيح فانیاں را جہانیاں نرسند 400 جانیاں را زبانیاں نرسند اس دنیا کے لوگ فانی لوگوں کو نہیں پہنچ سکتے اور زبانی مدعی سچے عاشقوں کو نہیں پہنچ سکتے اور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی خزانے اپنے احسان سے عطا کئے ہیں.اور اس لیے دیئے ہیں کہ آپ تکبر سے دور ہو گئے ہیں.اللهُ أَعْطَانِي حَدَائِقَ عِلْمِهِ لَوَلَا الْعِنَايَةُ كُنْتُ كَالسُّفَهَاءِ اللہ نے مجھے اپنے علم کے باغ عطا فرمائے ہیں.اگر اللہ کی عنایت نہ ہوتی تو میں بھی بے وقوفوں کی طرح ہوتا إِنِّي دَعَوْتُ اللَّهَ رَبَّا مُحْسِنًا فَارَى عُيُونَ الْعِلْمِ بَعْدَ دُعَائِي میں نے اپنے اللہ رب محسن سے درخواست کی تو میری دعا کے بعد اس نے ( مجھے علم کے چشمے دکھا دئیے إِنَّ الْمُهَيْمِنَ لَا يُعِزُّ بِنَخْوَةٍ إِنْ رُمتَ دَرَجَاتٍ فَكُنْ كَعَفَاءِ بے شک خدائے نگہبان تکبر پر عزت نہیں دیتا.اگر تو درجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو خاک کی طرح ہو جا خودی اور خودروی اللہ کو پسند نہیں.بہت ہی خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں.جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے جو جلتا ہے وہی مُردے چلاوے ہے دُور کا کب غیر کھاوے چلو اوپر کو وہ نیچے نہ آوے نہاں اندر نہاں ہے کون لاوے غریق عشق وہ موتی اُٹھاوے وہ دیکھے نیستی رحمت دکھاوے خودی اور خودروی کب اسکو بھاوے مجھے تُو نے یہ دولت اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي

Page 420

401 ادب المسيح ترک آسائش و آرام اس عنوان میں بہت ہی خوبصورت بیان اردو میں سن لیں.فرماتے ہیں: تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزّت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تا تم پر ہو ملائکہ عرش کا نزول عربی میں فرماتے ہیں کہ عیش و آرام کی زندگی اصل دشمن ہے.فرماتے ہیں: اطِعُ رَبَّكَ الْجَبَّارَ أَهْلَ الْأَوَامِرِ وَ خَفْ قَهْرَهُ وَ اتْرُكُ طَرِيقَ التَّجَاسُرِ اپنے رب کی ، جو جبار اور احکام دینے کا حقدار ہے ، اطاعت کر اور اس کے قہر سے ڈر اور بے جا دلیری کا طریق چھوڑ دے وَكَيْفَ عَلَى نَارِ النَّهَابِرِ تَصْبِرُ وَأَنتَ تَاذْى عِنْدَ حَرِّ الْهَوَاجِرِ اور تو جہنم کی آگ پر کیسے صبر کر سکے گا حالانکہ تو تو دو پہروں کی تپش سے بھی تکلیف محسوس کرتا ہے و حُبُّ الْهَوَى وَ اللَّهِ صِلُّ مُّدَمِرٌ كَمَلُمَسِ أَفْعَى نَاعِمٌ فِي النَّوَاظِرِ اور ہوا و ہوس کی محبت، خدا کی قسم ! ایک مہلک سانپ ہے جو سانپ کی کینچلی کی طرح بظاہر نرم دکھائی دیتی ہے اس مضمون میں فارسی زبان میں ایک عالیشان پر عظمت و شوکت کلام ہے.اس میں ایک مصرعے کا ایک حصہ الہامی ہے.کہ مے خواہد نگار من تهیدستانِ عشرت را

Page 421

المسيح 402 یہ الہام حضور اقدس کو ایک کشفی نظارے کے دوران ہوا تھا جس میں ایک فرشتے نے آپ حضور کو باری تعالیٰ کی بارگاہ تک رسائی پانے کی شرط بتائی تھی تمہید ستانِ عشرت را یعنی وصال باری تعالیٰ کے لیے عیش وعشرت کی زندگی کو ترک کرنا ہوگا اور آپ حضرت کو یہ پیغام الہی ایسا پیارا لگا کہ آپ نے اس کو ایک شعر میں شامل کر کے محفوظ کر لیا ہم چاہتے ہیں کہ حصول برکت کے لیے حضرت اقدس کے الفاظ میں اس واقعہ کو درج کر دیں.فرماتے ہیں: ۱۸۷۲ء (قریبا) میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے اس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل ہی کی طرح کا پہنا ہوا ہے گویا کہ دُنیا سے الگ ہوا ہوں.اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھے پوچھتا ہے کہ میرزا غلام احمد میرزاغلام مرتضی کا بیٹا کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ میں ہوں.کہنے لگا کہ میں نے آپکی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے، یہ تعریف سنگر ملنے آیا ہوں.مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا.اس پر اُس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے.ایک آنکھ اوپر تھی اور ایک نیچے، اور اُس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے:.د تهی دستان عشرت را اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا جب تک کہ وہ اپنے او پر ایک ذبح اور موت وارد نہ کرے.اس مقام پر عرب صاحب نے حضرت کا یہ شعر پڑھا جس میں یہ کلمہ منسلک تھا کہ مے خواہد نگار من تهی دستان عشرت را ( ترجمه از مرتب) کیونکہ میر امحبوب آرام طلبی کی زندگی سے الگ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے.فرماتے ہیں: ( تذکرہ ، ایڈیشن چہارم صفحہ 13 ،14 ) به نخوت ہانمی آید بدست آں دامن پاکش کسے عزت از و یا بد که سوزد رخت عزت را اُس کا مقدس دامن تکبر سے ہاتھ نہیں آتا.اُس کے ہاں اسی کو عزت ملتی ہے جو لباس عزت جلا دیتا ہے اگر خواہی رہ مولے زلاف علم خالی شو که ره ند هند در گویش اسیر کبر و نخوت را اگر مولا کی راہ چاہتا ہے تو علم کی شیخی ترک کر کہ اُس کے کوچہ میں اسیر کبر ونخوت کو گھسنے نہیں دیتے

Page 422

403 ادب المسيح منہ دل در تمیم ہائے دُنیا گر خدا خواہی کہ مے خواهد نگار من تهیدستانِ عشرت را اگر خدا کا طلبگار ہے تو دنیوی نعمتوں سے دل نہ لگا کہ میرا محبوب ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عیش کے تارک ہوں مصفا قطره باید که تا گوہر شود پیدا کجا ببیند دلِ نا پاک روئے پاک حضرت را پانی کا مصفا قطرہ چاہئیے تا کہ اس سے موتی پیدا ہو.نا پاک دل خدا کے پاک چہرہ کو کہاں دیکھ سکتا ہے ن باید مرا یک ذرہ عزتہائے ایں دُنیا منه از بهر ما کرسی که ماموریم خدمت را مجھے ذرہ بھر بھی دُنیا کی عزت درکار نہیں.ہمارے لیے کرسی نہ بچھا کہ ہم تو خدمت پر مامور ہیں محبت الہی میں عیش و آرام کی زندگی کو ترک کرنے کا ارادہ بھی مشاہدہ کریں: اردو میں فرماتے ہیں: ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر جیتا ہوں اس ہوس سے میری غذا یہی ہے دُنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا معشوق ہے تو میرا عشق صفا یہی ہے مشتِ غبار اپنا تیرے لیے اُڑایا جب سے سُنا کہ شرط مہر و وفا یہی ہے دلبر کا درد آیا حرف خودی مٹایا جب میں مرا جلایا جام بقا یہی ہے اس عشق میں مصائب سو سو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے حرف وفا نہ چھوڑوں اس عہد کو نہ توڑوں اس دلیر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے فارسی میں آپ حضرت کی خاکساری عاجزی اور عشق الہی کا مشاہدہ کریں.امروز قومِ من نشناسد مقامِ من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم آج کے دن میری قوم میر ادرجہ نہیں پہچانتی لیکن ایک دن آئیگا کہ وہ رو رو کر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی

Page 423

المسيح 404 اے قوم من بصبر نظر سوئے غیب دار تا دست خود به عجز ز بهر تو گسترم! اے میری قوم صبر کیسا تھ غیب کی طرف نظر رکھتا کہ میں اپنے ہاتھ ( خدا کی درگاہ میں ) تیری خاطر عاجزی کے ساتھ پھیلاؤں گر ہمچو خاک پیش تو قدرم بود چه باک چوں خاک نے کہ از خس و خاشاک کمترم اگر تیرے نزدیک میری قدر خاک کے برابر بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے خاک تو کیا میں کوڑے کرکٹ سے بھی زیادہ حقیر ہوں لطف است وفضل او که نوازد وگرنه من کرمم نه آدمی صدف استم نه گوھرم! یہ اس کا فضل اور لطف ہے کہ وہ قدردانی کرتا ہے ورنہ میں تو ایک کیڑا ہوں نہ کہ آدمی.سیپی ہوں نہ کہ موتی ز انگو نه دست او دلم از غیر خود کشید گوئی گہے نبود دگر در تصورم اس کے ہاتھ نے اس طرح میرے دل کو غیر کی طرف سے کھینچ لیا گویا اس کے سوا اور کوئی بھی میرے خواب و خیال میں نہ تھا بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم خدا کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں ہر تار و پود من بسراید بعشق أو از خود تهی و از غم آں دلستاں پُرم میرے ہر رگ وریشہ میں اُس کا عشق رچ گیا ہے میں اپنی خواہشات سے خالی اور اس معشوق کے غم سے پُر ہوں من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است ز هر بادِ صرصرم میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اُس کا ہاتھ ہر باد صر صر سے میری حفاظت کرنے والا ہے.دنیا سے بے رغبتی فارسی میں فرماتے ہیں کہ اس دل کو جود نیا کا آرام ڈھونڈتا ہے محمد کے دین کی خاطر غم کدہ بنا دو.دوستان خود را نثار حضر جاناں کنید در ره آن یار جانی جان و دل قرباں کنید اے دوستو اپنے تئیں محبوب حقیقی پر قربان کر دو اور اس جانی دوست کی راہ میں جان و دل نثار کر دو آں دل خوش باش را کاندر جهان جوید خوشی از پئے دین محمد کلبه احزاں کنید اس آرام پسند دل کو جو اس جہان میں خوشیاں ڈھونڈتا ہے محمد کے دین کی خاطر بیت الحزن بنادو

Page 424

405 ادب المسيح از تعیش با بروں آئید اے مردانِ حق خویشتن را از پیئے اسلام سرگرداں کنید اے مردانِ خدا عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ دو اور اب اپنے آپ کو اسلام کی خاطر سر گرداں کرو اردو میں دنیا سے بے رغبتی کی نصیحت کو سُن لیں.فرماتے ہیں: کہاں تک حرص و شوق مال فانی! اُٹھو ڈھونڈو متاع آسمانی کہاں تک جوش آمال و امانی سو سو چھید ہیں تم میں نہانی تو پھر کیونکر ملے وہ یار جانی کرو کہاں غربال میں رہتا ہے پانی فکر ملک جاودانی ملک و مال جُھوٹی بسر کرتے ہو غفلت میں جوانی ہے کہانی مگر دل میں یہی تم نے ہے ٹھانی خُدا کی ایک بھی تم نے نہ مانی ذرا سوچو یہی خُدا نے اپنی ره ہے زندگانی؟ مجھ کو بتادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي اور حب جاہ والوں سے خطاب بھی سُن لیں.فرماتے ہیں: اے حب جاہ والو! یہ رہنے کی جا نہیں اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں دیکھو تو جاکے اُن کے مقابر کو اک نظر سوچو کہ اب سلف ہیں تمھارے گئے کدھر

Page 425

ب المسيح 406 اک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے اک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے اک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے پھر دفن کر کے گھر میں تاسف سے آئیں گے اے لوگو! عیش دُنیا کو ہر گز وفا نہیں کیا تم کوخوف مرگ و خیالِ فنا نہیں سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے کس نے بُلالیا وہ سبھی کیوں گزر گئے وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے ڈھونڈ و وہ راہ جس سے دل وسینہ پاک ہو نفس دَنی خُدا کی اطاعت میں خاک ہو ایک بہت پیار کلام جو حقیقت میں اس مضمون کی جان ہے اور حضرت اقدس کے واصل باللہ ہونے کا ثبوت ہے اس کو بھی سُن لیں.تاج و تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام اُن کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر کو بہت دُنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار داغ لعنت ہے طلب کرنا زمیں کا عز و جاہ

Page 426

407 ادب المسيح جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار کام کیا عزت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض گروہ ذلت سے ہو راضی اُس پر سو عزت شار ہم اُسی کے ہوگئے ہیں جو ہمارا ہو گیا چھوڑ کر دُنیائے دُوں کو ہم نے پایا وہ نگار دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش رب العالمیں قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار اور اس مضمون میں ایک بہت پیارے انداز میں کی گئی نصیحت کو بھی سن لیں.بہت ہی سادہ مؤثر اور دلفریب کلام ہے.فرماتے ہیں: اے دوستو پیارو! عقبی کو مت پسارو کچھ زادِ راہ لے لو، کچھ کام میں گزارو دُنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اُتارو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جی مت لگاؤ اس سے دل کو چھڑاؤ اس.فارسی میں فرماتے ہیں : ޏ رغبت ہٹاؤ اس سے بس دُور جاؤ اس سے یارو ! بید اثر دھا ہے جاں کو بچاؤ اس سے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سرت عیش دنیائے دُوں دے چند ست آخرش کار با خداوند اس ذلیل دُنیا کا عیش چند روزہ ہے بالآخر خدا تعالے سے ہی کام پڑتا ہے ایس سرائے زوال و موت و فناست ہر کہ بنشست اندرین برخاست یہ دُنیا زوال موت اور فنا کی سرائے ہے جو بھی یہاں رہا وہ آخر رخصت ہوا

Page 427

المسيح 408 یک دمے کو بسوئے گورستاں و از خموشان آن به پرس نشاں کے لیے قبرستان میں جا اور وہاں کے مردوں سے حال پوچھ تھوڑی دیر که مال حیات دنیا چیست ہر کہ پیدا شد ست تا کے زیست کہ دُنیا کی زندگی کا انجام کیا ہے.اور جو پیدا ہوا وہ کب تک جیا ہے ترک کن کین و کبر و ناز و دلال تانه کارت کشد بسوئے ضلال کینہ.تکبر.فخر اور ناز چھوڑ دے تاکہ تیرا خاتمہ گمراہی پر نہ ہو عیب جوئی و بدگمانی بہت ہی خوبصورت اور مؤثر بیان ہے.فرماتے ہیں: جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دور جاتے ہیں بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے اک دم میں اس علیم کو بیزار کرتی ہے اک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں پھر شوخیوں کا پیج ہر اک وقت ہوتے ہیں اور مزید فرماتے ہیں.عجیب مؤثر کلام ہے: تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے ڈرتے رہو عِقاب خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ تمہیں ہے وہ بدنما نہ ہو جو تمہیں شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو! شاید وہ آزمائش رب غفور ނ پھر تم تو بدگمانی اپنی ہوئے ہلاک خود سر پہ اپنے لے لیا خشم خدائے پاک ہو

Page 428

409 مناجات.دعا ادب المسيح مناجات کے عنوان میں سب سے اول تو وہ مناجات ہے جو ہمارے آقا سیدی حضرت مسیح موعود نے حضرت منشی احمد جان صاحب کے ہاتھ خانہ کعبہ کے سامنے پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی تھی.گو وہ نظم میں نہیں مگر ایسی ہے کہ اس کا جواب جناب باری تعالیٰ نے نظم یعنی شعر میں دیا تھا اور اس کو محبت سے قبول کیا تھا.جیسا کہ الہام حضرت اقدس سے ظاہر ہے.دلم مے بلرزد چو یاد آورم مناجات شوریده اندر حرم میرا دل کانپنے لگتا ہے جب میں یاد کرتا ہوں ایک عاشق کی مناجات کو جو اس نے حرم میں کی تھی تذکرہ صفحہ 341 مطبوعہ 2004ء) ہم اس الہام خداوندی کی برکت کو حاصل کرتے ہوئے اپنے مضمون کو شروع کرتے ہیں اور قارئین سے گذارش کرتے ہیں کہ اس واقعہ کی تفصیل تذکرہ صفحہ 342،341 سے حاصل کریں.لغوی اعتبار سے مناجات کے معنے یہ ہیں کہ ایسی نظم جس میں خدا تعالیٰ کی تعریف کر کے دعا مانگی جائے.اس لیے ہم نے اس مضمون کے عنوان کو ہی مناجات و دعا کے ساتھ منسلک کیا ہے تا کہ اس کے معنی کی طرف بھی اشارہ ہو جائے.حضرت اقدس کی تعلیم وتربیت میں جس امر پر بے انتہا تاکید و تلقین کی گئی ہے وہ باری تعالیٰ کی جناب میں دعا کرنا ہے.یہاں تک کہ اپنی دعاوی کی صداقت کے بارے میں بھی فرمایا کہ دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے تصدیق حاصل کرو.فرمایا: عزیزاں مے دہم صد بار سوگند بروئے حضرت داوار سوگند اے دوستو میں تمہیں سینکڑوں قسمیں دیتا ہوں اور جناب الہی کی ذات کی قسمیں دیتا ہوں که در کارم جواب از حق بجوئید به محبوب دل ابرار سوگند کہ میرے معاملہ میں خدا سے ہی جواب مانگو.میں تمہیں نیکوں کے دلوں کے محبوب کی قسم دیتا ہوں آپ نے دعا کے آداب اور اس کی تا ثیر اور نتائج کے مضمون میں جو تعلیم دی ہے وہ بنیادی طور پر قرآن کریم کے ذیل کے فرمودات کی تفسیر وتعبیر پرمشتمل ہے.اوّل فرمانِ خداوندی ہے.

Page 429

ب المسيح 410 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِني قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَانِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187) اول مقام پر حضرت اقدس اس فرمان کے تحت فرماتے ہیں کہ دعا کا قبول ہو نا خدا کی ہستی پر دلیل ہے.فرماتے ہیں: یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ میں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں.میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آسکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دُعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی سُنتا ہوں اور اپنے الہام سے اُس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپا یہ یقین پہنچتا ہے.لیکن چاہئیے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں.اور نیز چاہیے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جوان کو معرفت تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے.کیونکہ جوشخص ایمان لاتا ہے اس کو عرفان دیا جاتا ہے..اور فرماتے ہیں: ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبر دست ثبوت ہے چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.وَإِذَا سَانَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہد و کہ وہ بہت ہی قریب ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتا ہوں.یہ جواب کبھی رویا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے جب کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے.اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنے مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی

Page 430

411 ادب المسيح ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاویگا.اور فرمایا کہ دعا انسان کا خدا تعالیٰ سے رشتہ قائم کر دیتی ہے.(تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی یہ دعا ایسی شی ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے.اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے.اور دعا کی تاثیر کے بارے میں فرمایا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دعار بوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے اگر دعاؤں کا اثر نہ ہوتا تو پھر اُس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.اور دعا کی اہمیت کے بارے میں فرمایا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اسلام کی صداقت اور حقیقت دعا ہی کے نکتہ کے نیچے مخفی ہے کیونکہ اگر دعا نہیں تو نماز بے فائدہ ،زکوۃ بے سود اور اسی طرح سب اعمال معاذ اللہ لغو ٹھہرتے ہیں.( تفسیر حضرت اقدس) اور فرمایا کہ دعا کرنا قرآن کریم نے فرض قرار دیا ہے اور اس کے اسباب بیان فرمائے ہیں.دُعا جو خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں (۱) ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر تو حید پر پختگی حاصل ہو.کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مُرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ تا دُعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو.(۳) تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے.(۴) چوتھے یہ کہ دعا کی قبولیت کا الہام اور رویا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے.(تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور آخر پر سب سے اچھی دعا کی نشاندہی میں فرماتے ہیں: سب سے عمدہ دُعا یہ ہے کہ خدا کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو.کیونکہ

Page 431

المسيح 412 گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے.ہماری دعا یہ ہونی چاہیے.کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں.دور کر دے.اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس مضمون میں دوسری آیت قرآنیہ میں فرمان ہے.أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَالهُ مَعَ اللهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل: 63) حضرت اقدس اس فرمان کی تفسیر میں فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خداوہ خدا ہے جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اور حیا والا گمان کر سکتا ہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اور محض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی رُوحانیت نہیں.میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی بچے ایمان والا ہر گز نہیں کرے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کی صفت پر غور کرنے سے سچا خدا پہچانا جاتا ہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خدا تعالیٰ پر یقین آتا ہے.اس مضمون میں تیسر افرمانِ قرآن یہ ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِ سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دُخِرِينَ (المؤمن : 61) حضرت اقدس اس آیت کی تفسیر میں دعا کی تاثیر کے بیان میں فرماتے ہیں کہ ” تمام انبیاء اور اولیاء نے جو معجزات اور کرامات دکھا ئیں وہ دراصل باری تعالیٰ کی جناب میں دعا ہی کے نتیجہ میں صادر ہوئیں اور ان سب انبیاء کے معجزات میں سب سے اول اعلیٰ اور روشن معجزہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی ایسی تجلتی عظمی دکھائی کہ جو پہلے کبھی نہیں دکھائی گئی تھی اور نہ ہی آئندہ دکھائی جائے گی.کیونکہ آپ خاتم الانبیاء ہیں.“

Page 432

413 ادب المسيح ہمارے پیارے اور مطاع اور آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں حضور کا یہ فرمان آنحضرت کی نعت میں ایک شاہکار کلام ہے اس کی بھی ایسی شان ہے کہ ایسا کلام نہ پہلے ظہور میں آیا اور نہ بعد میں آئے گا.فرماتے ہیں: اللهم صل على محمد و على عبده المسيح الموعود یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی بازنہ تعالیٰ وہ دع عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اُس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیر میں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں منجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اَللَّهُمَّ صَلّ وَ سَلَّمَ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَ غَمِّهِ وَ حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَ انْزِلُ عَلَيْهِ انْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ.اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم اللہ شیر نہیں جیسی کہ دعا ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت)

Page 433

ب المسيح 414 اور آخر پر تاثیر اور قبولیت دعا کا ایک بے نظیر تیر بہ ہدف نسخہ بھی ہمارے پیارے مسیح سے سُن لیں.فرماتے ہیں: قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اوّل: إِنْ كُنتُم تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي - دوم: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيمًا - تیسرا: موہبت الہی.یعنی اول اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دوم عشق رسول اور درود و سلام ہو سوم خدا تعالی کی عنایت دعا کی اہمیت اور تا ثیر کو قرآن کریم کے فرمودات اور حضرت اقدس کی تفسیر کے مطابق بیان کر کے ہم اس دعا کو پیش کرتے ہیں جو قرآن کریم نے اپنے اوّل فرمان میں تعلیم دی ہے جو تمام دعاؤں کی سرتاج اور سرخیل ہے یعنی سورۃ الفاتحہ.سب سے اول ہم اپنے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور ایک قدسی حدیث پیش کرتے ہیں.سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ الا الله يَقُولُ قَالَ اللهُ تَعَالَى قَسَمُتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَ لِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللهُ تَعَالَى حَمِدَنِي عَبْدِي وَ إِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي وَ إِذَا قَالَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ، قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ﴾ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صَرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَ لِعَبْدِي مَا سَأَلَ.(مسلم کتاب الصلوة) حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے دعا کو اپنے اور اپنے غلام میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور میرے غلام کو وہ دونگا جو اس نے مجھ سے مانگا“.

Page 434

415 ادب المسيح اس لئے جب میرا غلام الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ “ کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے کہ میرے غلام نے میری حمد کی اور جب میرا غلام الرَّحْمنِ الرَّحِیم “ کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے کہ میرے غلام نے میری ثناء کی اور جب کہتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّين “ تو اللہ کہتا ہے میرے غلام نے میری مجد کی ہے ( اور ایک بار فرمایا میرے غلام نے یہ کام میرے سپر د کر دیا ہے ) اور جب وہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “ تو اللہ کہتا ہے کہ یہ میرے اور میرے غلام کے درمیان بات ہے اور میرے غلام کے لیے وہ ہے جو اُس نے مانگا اور جب وہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صَرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين “ تو اللہ کہتا ہے کہ یہ میرے غلام کا سوال ہے اور میرے غلام کے لیے وہی ہے جو اس نے سوال کیا ہے.فرماتے ہیں: اور یہ فرمان بھی تو ہے کہ بہترین دعا الحَمدُ لِلهِ.ہے.عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ : أَفْضَلُ الذِّكْرِ : لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ وَ اَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلَّهِ (ترمذى كتاب الدعوات باب دعوة المسلم مستجابة) ترجمہ: حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بہترین ذکر کلمہ توحید ہے یعنی اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بہترین دعا الحمد اللہ ہے.اپنے آقا اور مطاع کے اتباع اور آنحضرت کے فرمان کی تفسیر میں حضرت اقدس بھی ایسا ہی بیان کرتے ہیں.فرماتے ہیں: سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے.چنانچہ اس دعا کو اللہ تعالی نے یوں سکھایا ہے.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم....الى الآخر یعنی دعا سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی جاوے جس سے اللہ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو.اس لیے فرمایا الحمد للہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں.رَبِّ الْعَالَمِينَ سب کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا.اَلرَّحْمَان جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرَّحِیم

Page 435

المسيح 416 پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.مَالِكِ يَوْمِ الدین ہر بدلہ اس کے ہاتھ میں ہے.نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو مَالِكِ يَوْمِ الدِّين تسلیم کرتا ہے.دیکھو حکام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے.اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے.ان کی اطاعت ضروری ہے.مگر ان کو خدا ہرگز نہ بناؤ.انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ الخ ہم کو سیدھی راہ دکھا.یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے.اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے.ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے.ایک اور مقام میں فرماتے ہیں : ( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) نماز کا مغز اور روح بھی دعا ہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے.جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہتے ہیں تو اس دُعا کے ذریعہ سے اُس نور کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے اُترتا اور دلوں کو یقین اور محبت سے منور کرتا.ورمحبت سے منور کرتا ہی (تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اس مقام تک ہم نے خدا تعالیٰ کے فرمودات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نائب کی راہنمائی کے تحت مناجات یعنی اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کے منصب کو بیان کیا ہے.ان فرمودات عالیہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ اول.دعا کی قبولیت خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلیل ہے دوم.خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے.سوم.سب سے اعلیٰ درجہ کی دعا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے سورۃ الفاتحہ کی دعا ہے.سورۃ الفاتحہ کی دعا کی عظمت و شان کے بیان میں ہم نے فرموداتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام پیش کئے ہیں مگر اس مضمون میں ایک بات کا ذکر ( جو کہ ترتیب بیان کے اعتبار سے اس مقام پر ہی ہو سکتا تھا ) کرنا ادبی اسلوب بیان اور تأثیر دعا کے اعتبار سے بہت ضروری ہے گوگذشتہ کے فرمودات مرسلین کرام میں دعا کی تأثیر اور اہمیت کے بیان میں اشارہ اس کے اسلوب بیان کی اہمیت کا ذکر بھی شامل ہے مگر کیونکہ ہم

Page 436

417 ادب المسيح اس وقت مناجات کے ادبی شاہکار پیش کر رہے ہیں اس لیے سورۃ الفاتحہ کی دعا کی ادبی ترتیب کا قدرے وضاحت سے بیان کرنا ضروری ہے.ادب پاروں میں جہاں ادبی مواد کی اہمیت ہوتی ہے وہاں پر اس اسلوب بیان کی بھی اسی قدرقدرو منزلت ہوتی ہے.ادب ان دو عناصر کے حسین اختلاط اور ارتباط سے تخلیق پاتا ہے اگر مضمون یا مواد کواد بی حسن و جمال سے آراستہ نہ کیا جائے تو وہ حسنِ بیان کے زمرے میں نہیں آتا ہے.سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں مضمون کی عظمت وشان کو بیان کیا ہے وہاں پر مناجات اور دعا کے اسلوب کا التزام بھی کیا ہے.مناجات کے اسلوب بیان کو گذشتہ میں پیش کردہ قدسی حدیث بھی واضح کر رہی ہے اور یہاں پر حضرت مسیح موعود کا یہ فرمان اس ترتیب بیان کی اہمیت کو ظاہر کر رہا ہے.فرماتے ہیں: وَمِنَ الْمُمْكِن اَنْ يَكُونَ تَسْمِيَةُ هَذِهِ السُّورَةِ بِأَمِّ الْكِتَبِ نَظَرًا إِلَى غَايَةِ التَّعْلِيمِ فِي هذَا الْبَابِ.فَإِنَّ سُلُوكَ السَّالِكِينَ لَا يَتِمُّ إِلَّا بَعْدَ أَنْ يَسْتَوْلِيَ عَلَى قُلُوبِهِمْ عِزَّةُ الرُّبُوبِيَّةِ وَذِلَّةُ الْعُبُودِيَّةِ وَلَنْ تَجِدَ مُرْشِدًا فِى هَذَا الْأَمْرِ كَهْذِهِ السُّورَةِ مِنَ الْحَضْرَةِ الأحدِيَّةِ الاتَرى كَيْفَ أَظْهَرَ عِزَّةَ اللهِ وَ عَظُمَتَهُ بِقَوْلِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ إِلَى مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.ثُمَّ اَظْهَرَ ذِلَّةَ الْعَبْدِ وَ هَوَانَهُ وَ ضُعْفَهُ بِقَوْلِهِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اس سورۃ کا چوتھا نام ام الکتاب رکھنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ امور روحانیہ کے بارے میں اس میں کامل تعلیم موجود ہے، کیونکہ سالکوں کا سلوک اُس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ ان کے دلوں پر ربوبیت کی عزت اور عبودیت کی ذلت غالب نہ آجائے.اس امر میں خدائے واحد و یگانہ کی طرف سے نازل شدہ سورت فاتحہ جیسا رہنما اور کہیں نہیں پاؤ گے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ اُس نے کس طرح الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ سے لے کر مَالِكِ يَوْمِ الدین تک کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی عزت اور عظمت کو ظاہر فرمایا ہے.پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہ کر بندہ کے بجز اور کمزوری کو ظاہر کیا ہے.(دیکھو تفسیر حضرت اقدس سورۃ الفاتحہ) یہ فرمان دراصل ادب میں مناجات کی صنف کے اسلوب اور ترتیب کو بیان کر رہا ہے یعنی یہ کہ مناجات کا دستور

Page 437

المسيح 418 بیان اللہ تعالیٰ نے ایسے قائم فرمایا ہے کہ اوّل خدا تعالیٰ کی عظمت و شان کا بیان ہو اور پھر انسان کی عجز و کمزوری کا اظہار ہو اور آخر پر التجا اور مطلوب کو پیش کیا جائے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مناجات کا یہی اسلوب بیان ہے.اور آپ کی اسی ادبی شان کو واضح اور روشن کرنے کے لیے ہی ہم نے گذشتہ کی معروضات کو پیش کیا ہے.اول ہم اُردو زبان میں آپ حضرت کی شاہکار مناجات اور دعا کو پیش کرتے ہیں مشاہدہ کریں کہ کسقدرالہی اسلوب مناجات کی پاسداری ہے.اول باری تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہے اور پھر اپنی عاجزی اور انکساری ہے اور آخر پر یہ التجا اور اظہار مطلب ہے.بہت ہی عظیم الشان اور بے مثال کلام ہے.صرف اپنی سلبی اولاد کے لیئے ہی نہیں بلکہ اپنی روحانی اولاد کے لیئے بھی ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ کی جماعت نے اس کو حرز جاں بنا رکھا ہے اول حمد و ثناء باری تعالیٰ میں فرماتے ہیں.حمدوثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اُسکے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اسکی عظمت لرزاں ہیں اہلِ قُربت کروبیوں پہ ہیبت ہے عام اسکی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اسکی صنعت اس سے کرو محبت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اسکی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي دوسرے قدم پر اپنی عاجزی اور عبودیت کو بیان کرتے ہیں.فرمایا: آشکارا سب کا وہی سہارا رحمت ہے ہم کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا

Page 438

419 اُس بن نہیں گذارا غیر اُس کے جُھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یارب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایماں تو ہر زماں نگہباں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تیسرے مقام پر خدا کا شکر ہے.کیونکر ہو شکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا ٹو رآیا جا تا رہا اندھیرا سید روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تو نے دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا اور آخر پر التجا ہے.دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنائیں گایا صدشکر ہے خُدایا صد شکر ہے خُدایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے قادر و توانا! آفات سے بچانا ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا غیروں سے دل غنی ہے جب سے ہے تجھ کو جانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي فکروں میں دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے ہر غم سے دور رکھنا تو رپ عالمیں ہے سیہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ادب المسيح

Page 439

ب المسيح 420 اقبال کو بڑھانا اب فضل لے کے آنا ہر رنج سے بچانا دُکھ درد سے چھڑانا خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا ! یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يُرَانِي اُردو زبان کی مناجات میں یہ دو بند بھی مشاہدہ کریں.خدا تعالیٰ کی جناب میں عاجزی کو بھی دیکھیں اور دعا اور مناجات کی قبولیت پر یقین کا مشاہدہ بھی کریں.بہت پیارا اور دلنشین کلام ہے.فرماتے ہیں: ہوئے ہم تیرے اے قادر توانا ترے در کے ہوئے اور تجھکو جانا ہمیں بس تری درگه ہے آنا مصیبت سے ہمیں ہردم بچانا کہ تیرا نام ہے غفا ر و ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاعَادِي تجھے دُنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي دعا اور مناجات کی تلقین کا بھی مشاہدہ کریں.فرماتے ہیں: دعا کرتے رہو ہر دم پیارو ہدایت کے لیے حق کو پکارو دُعا کرنا عجب نعمت دعا ہے پیارے سے آلگے کشتی کنارے

Page 440

421 ادب المسيح اگر اس محل کو طالب لگائے تو اک دن ہو رہے برتھا نہ جائے ہمارا کام تھا وعظ و منادی سو ہم سب کر چکے والله هادی فارسی زبان میں مشاہدہ کریں.اول تقریبا پچاس اشعار خدا تعالیٰ کی عظمت و شان میں بیان کر کے اپنی محبت اور عبودیت کو بیان کرتے ہیں.اور آخر پر اپنا طلب اور مدعا اس طور سے بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی زبان میں ایسی درد بھری.محبت الہی سے لبریز دعا اور ایسی حسن طلب دستیاب نہیں ہوگی.میں سمجھتا ہوں کہ آپ حضرت کے اشعار میں مناجات کے آخری چند شعر مناجات میں آپ کا شاہکار اور حاصل کلام ہیں.اول حمد و ثنا میں فرماتے ہیں: هردم از کاخ عالم آوازیست که یکش بانی و بنا سازیست یہ نظامِ عالم اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس جہان کا کوئی بانی اور صانع ضرور ہے کس او را شریک و انبازیست نے بکارش دخیل و ہمرازیست کہ کوئی اُس کا شریک ہے نہ سا جھی.نہ اُس کے کام میں کوئی دخیل ہے نہ کوئی اُس کا ہمراز ہے این جہاں را عمارت انداز بیست و از جہاں برتر است و ممتاز بیست وہ اس جہان کا بنانے والا ہے.مگر خود جہاں سے بالاتر اور ممتاز ہے وحده لاشریک کی و قدیر لم يزل لایزال فرد و بصیر اکیلا لاشریک زندہ اور قادر ہے.ہمیشہ سے ہے.ہمیشہ رہے گا.یگانہ اور باخبر ہے اور پھر اظہار عبودیت اور محبت میں فرماتے ہیں: نہ ہے.هست یادت کلید ہر کارے خاطرے بے تو خاطر آزارے تیری یاد ہر مشکل کی کلید ہے.تیرے بغیر ہر خیال دل کا دکھ ہر کہ نالد بدر گہت نیاز بخت گم کرده را بیابد باز جو تیرے حضور میں عاجزی سے روتا ہے وہ اپنی گم گشتہ قسمت کو دوبارہ پاتا ہے لطف تو ترک طالباں نکند کس بکار رہت زیاں نکند تیری مہربانیاں طالبوں کو نھیں چھوڑتیں کوئی تیرے معاملے میں نقصان نہیں اٹھاتا

Page 441

ب المسيح ہر کہ باذات تو سرے دارد 422 پشت پر روئے دیگری دارد ہر شخص صرف تجھ سے تعلق رکھتا ہے وہ دوسرے کی طرف پیٹھ پھیر لیتا ہے زینکه چون کار بر تو بگذارد رو ༤ اغیار از چه رو آرد کیونکہ جب وہ اپنا معاملہ تجھ پر چھوڑ دیتا ہے تو پھر کیوں غیروں کی طرف توجہ کرے ذات پاکت بس هست یار یکے دل یکے جاں یکے نگار یکے تیری ذات پاک کا ہمارے لیے دوست ہونا کافی ہے.دل بھی ایک ہے.جان بھی ایک ہے.محبوب بھی ایک ہونا چاہیئے اور آخر پر آپ کا عشق الہی اور مناجات میں شاہکار اور بے مثال کلام ہے.دعا اور مناجات کے مضمون میں ان اشعار کی جسقدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہو گی.اس کو مناجات عابد بھی کہتے ہیں.فرماتے ہیں: اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش اے میرے خدا میرے گناہ بخش دے.اپنی بارگاہ تک میری رسائی کر پاک کن از گناه پنهانم روشنی بخش در دل و جانم میرے دل و جان میں روشنی کردے اور گناہ پوشیدہ سے مجھے پاک کردے دلستانی ور و دلربائی کن نگاه گرہ کشائی کن اپنے حسن سے میرے دل کو چھین لے.ایک نظر سے میری مشکل کشائی کردے عالم مرا عزیز توئی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی رو دونوں جہانوں میں تو ہی میرا پیارا ہے.اور جو چیز میں تجھ سے مانگتا ہوں وہ تو ہی ہے مناجات میں باری تعالیٰ کی محبت اور اس کے احسانات کا ذکر جزو اعظم کے طور پر ہوتا ہے احسانات پر شکر اور خدا کی محبت کا اظہار ہی تو دوا ایسے عناصر ہیں جو خدا تعالیٰ کے رحم اور بخشش کو جذب کرتے ہیں.اس مضمون میں اردو زبان کے اشعار مشاہدہ کریں بہت دلفریب کلام ہے.فرماتے ہیں: اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار

Page 442

423 کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار بدگمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ کر دیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مُجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف وکرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر مجھکو دی ہے خلعت قرب و جوار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے میرے حاجت برار اے مرے یار یگانہ اے مری جاں کی پینہ بس ہے تو میرے لیے مجھکو نہیں تجھ بن بکار میں تو مرکر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خُدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی بار غمگسار ادب المسيح

Page 443

ب المسيح 424 لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگہ میں بار آخری شعر کی عاجزی اور انکساری کو دیکھیں کہ اپنے محبوب حقیقی کی عنایات پر ہزار جان سے فدا ہور ہے ہیں.اور حیران ہیں کہ یہ کیسے ظہور میں آگئیں عاجزی ہو تو ایسی ہو اور اس پر احسان ہو تو ایسا ہو.فارسی زبان میں اسی انداز سے باری تعالیٰ کی محبت اور اس کے احسانات کا ذکر ہے.فرماتے ہیں: اے خدا اے چارہ آزار ما اے علاج گریہ ہائے زار ما اے خدا.اے ہمارے دکھوں کی دوا.اور اے ہماری گریہ و زاری کا علاج اے تو مرہم بخشِ جانِ ریش ما اے تو دلدار دل غم کیش ما تو ہماری زخمی جان پر مرہم رکھنے والا ہے.اور تو ہمارے غمزدہ دل کی دلداری کرنے والا ہے از کرم برداشتی هر بار ما و از تو ہر بار و بر اشجار ما تو نے اپنی مہربانی سے ہمارے سب بوجھ اٹھا لیے ہیں اور ہمارے درختوں پر میوہ اور پھل تیرے فضل سے ہے حافظ و ستاری از جود و کرم بیکساں را یاری از لطف اتم تو ہی مہربانی اور عنایت سے ہمارا محافظ اور پردہ پوش ہے اور کمال مہربانی سے بے کسوں کا ہمدرد ہے بنده در مانده باشد دل تپاں ناگہاں درمان بر آری از میاں جب بندہ مغموم اور درماندہ ہو جاتا ہے تو تو وہیں سے اس کا علاج پیدا کر دیتا عاجزی را ظلمت گیرد براه نا گہاں آری برو صد مهر و ماه جب کسی عاجز کو رستے میں اندھیرا گھیر لیتا ہے تو تو یکدم اس کے لیے سینکڑوں سورج اور چاند پیدا کر دیتا ہے ہے حسن و خلق و دلبری بر تو تمام صحیح بعد از لقائے تو حرام حسن و اخلاق اور دلبری تجھ پر ختم ہیں تیری ملاقات کے بعد کسی سے تعلق رکھنا حرام ہے اور عربی میں بھی ایسا ہی انداز بیان اور عجز وانکسار ہے.فرماتے ہیں:

Page 444

425 ادب المسيح وانت كريم الوجه مولى مُجامل فلا تطرد الغلمان بعد التخير تو کریم و مہربان ہے.آقا اور حسن سلوک فرمانے والا ہے.پس تو ان غلاموں کو منتخب فرمانے کے بعد نہ دھتکار و جئناک کالموتی فاحی امورنا و نستغفرنک مستغیثین فاغفر ہم تیرے پاس مُردوں کی طرح آئے ہیں پس ہمارے معاملات کو زندگی بخش.ہم تجھے بخشش مانگتے ہیں مدد کی درخواست کرتے ہوئے.پس معاف فرما.الی ای باب یا الهی تـردنـی اتتركني فی کف خصم مخسر کس دروازے کی طرف.اے میرے معبود! تو مجھے دھکیلے گا؟ کیا تو مجھے نقصان رساں دشمن کے ہاتھوں میں چھوڑ دے گا ؟ الهی فدتك النفس انت مقاصدی تعال بفضل من لدنک و بشر اے میرے معبود! میری جان تجھ پر فدا ہو.تو ہی تو میرا مقصود ہے.اپنے فضل کے ساتھ آ.اور مجھے خوشخبری دے.ا اعرضت عنى لا تكلم رحمة و قد كنت من قبل المصائب مخبرى کیا تو نے مجھ سے منہ پھیر لیا ہے (جو) تو شفقت کے ساتھ مجھ سے کلام نہیں فرماتا.تو تو ان مصائب سے پہلے میرا مخبر تھا و كيف اظن زوال حبك طرفة ويأطر قلبي حبك المتكثر اور میں تیری محبت کے زوال کا ایک لحظہ کے لئے بھی کیسے گمان کر سکتا ہوں.جب کہ تیری بہت بڑی محبت میرے دل کو ( تیری طرف جھکا رہی ہے وجدت السعادة كلها في الطاعة فوفق لاخر من خلوص و يسر اے خدا! میں نے ساری کی ساری خوش بختی اطاعت میں پائی ہے.پس دوسروں کو بھی خلوص کی توفیق دے اور آسانی پیدا کر الهی بوجھک ادرک العبد رحمةً تعال الى عبد ذليل مكفّر اے میرے خدا! اپنی ذات کے طفیل اس بندے کی رحم کے ساتھ دستگیری فرما اور اپنے ) کمزور اور عاجز بندے کی طرف جو تکفیر کیا گیا ہے، آجا و من قبل هذا كنت تسمع دعوتى و قد كنت في المضمار ترسی و مازری اور اس سے پہلے تو میری دعائیں سنتا رہا ہے اور تو میدان میں میری ڈھال ہے اور پناہ بنارہا ہے

Page 445

المسيح 426 اغثنی یا الهی آمدنی وبشر بمقصودى حنانا و خبر اے میرے خدا! میری فریا درسی کر.اے میرے خدا! میری مددکر اور مہربانی سے میرے مقصود کی بشارت دے اور آگاہ کر انرنی بنورک یا ملاذی و ملجای نعوذ بوجهک من ظلام مدعثر مجھے اپنے نو رو سے منور کر دے.اے میرے ملجاً و مالی! ہم تیری ذات کی پناہ لیتے ہیں چھا جانے والی تاریکی سے فارسی زبان میں ایک دل ہلا دینے والی اور خوف خدا کو انگیخت کرنے والی مناجات ہے.اسلامی ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی کیونکہ اس میں آپ حضرت نے اپنے صدق دعویٰ پر خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہرایا ہے.یہ ایک یک طرفہ مباہلہ ہے.اللہ تعالیٰ سے مناجات ہے کہ اگر میں تیری جناب سے اس منصب پر قائم نہیں کی گیا تو مجھ سے مؤاخذہ کر اور بہت دل ہلا دینے والی دعا کی ہے کہ اس صورت میں.فرماتے ہیں: اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما! اے قادر اور آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! اے رحیم.مہربان اور رستہ دکھانے والے اے کہ مے داری تو بر دلها نظر اے کہ از تو نیست چیزے مستتر اے وہ جو کہ دلوں پر نظر رکھتا ہے اے وہ کہ تجھ سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں گر تو می بینی مرا پُر فسق و شر گر تو دیداستی کہ ہستم بد گہر اگر تو مجھے نافرمانی اور شرارت سے بھرا ہوا دیکھتا ہے اور اگر تو نے دیکھ لیا ہے کہ میں بدذات ہوں پاره پاره کن من بدکار را شاد کن ایس زمرہ اغیار را تو مجھ بدکار کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈال اور میرے ان دشمنوں کے گروہ کو خوش کر دے بر دل شاں ابر رحمت با بیار ہر مراد شاں بفضل خود برآر ان کے دلوں پر اپنی رحمت کا بادل برسا اور اپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر آتش افشان بر در و دیوار من! منم باش و تبه کن کار من میرے در و دیوار پر آگ برسا میرا دشمن ہو جا اور میرا کاروبار تباہ کردے اور اگر ایسا نہیں اور میں آپ کی طرف سے مسیح اور مہدی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور تیری بندگی اور اطاعت میں سرشار ہوں تو اس صورت میں.فرماتے ہیں:

Page 446

427 ادب المسيح ور مرا از بندگانت یافتی قبلة من آستانت یافتی لیکن اگر تو نے مجھے اپنا فرمانبردار پایا ہے اور اپنی بارگاہ کو میرا قبلہ مقصود پایا ہے در دل من آں محبت دیده کز جہاں آں راز را پوشیده اور میرے دل میں وہ محبت دیکھی ہے جس کا بھید تو نے دنیا سے پوشیدہ رکھا ہے با من از روئے محبت کار گن اند کے افشائے آں اسرار گن! تو محبت کی رُو سے مجھ سے پیش آ.اور اُن اسرار کو تھوڑا سا ظاہر کردے خود پروں آ از پئے ابراء من اے تو کہف وملجاً و مأوائے من تو آپ میری بریت کے لیے باہر نکل.تو ہی میرا حصار ااور جائے پناہ ہے اور ٹھکانا ہے اور فرماتے ہیں کہ ایسا کر کہ اس اندھی دنیا کی آنکھ کھول دے اور اے سخت گیر خدا اپنا زور دکھا چشم بکشا ایس جہان کور را اے شدید البطش بنما زور را اس اندھی دنیا کی آنکھیں کھول اور اے سخت گیر خدا تو اپنا زور دکھا جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ ایسی مناجات کی مثال کسی کلام میں نہیں ہوگی کیونکہ اس کی تخلیق کے لیے ایک صادق مرسل خدا ہونا ضروری ہے جس کو اپنے صدق پر کامل یقین ہو.ایک اور بات جو اس مناجات اور یکطرفہ مباہلہ سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی مناجات باری تعالٰی کی جناب میں قبول ہوئی ہے اور یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کے بچے مرسل تھے.کیونکہ آپ نے اللہ کی جناب میں اپنی مدد اور تائید کو اپنی صداقت سے مشروط کیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج آپ کی جماعت اور آپ کا پیغام اکناف میں پھیل چکا ہے اور آپ کے روحانی مقاصد میں برکت اور ترقی ہے اور آپ کے ماننے والوں کی تعدا در روز افزوں ترقی کر رہی ہے.اگر ہم اس خیال کو حضرت اقدس کے اشعار میں بیان کریں تو ہم کہیں گے کہ اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسیح موعود اور ان کی جماعت سے ایسی محبت اور عنایات کا سلوک آپ کے اشعار میں یوں بیان ہوا ہے.یہ میرے ربّ سے میرے لیے ایک گواہ ہے یہ میرے صدق دعوای پر مہر الہ ہے میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے میرے لیے یہ شاہد رب جلیل ہے پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا اور حضرت اقدس کے اپنے اشعار میں خدا تعالیٰ کے فضل و احساں کا ذکر بھی سُن لیں اور یہ کہ آپ حضرت

Page 447

ب المسيح 428 ان احسانات کو اپنی صداقت کا نشان سمجھتے ہیں.فرماتے ہیں: پر وہ جو مجھکو کاذب و مگار کہتے ہیں اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں اُن کے لیے تو بس ہے خُدا کا یہی نشاں یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہر زماں دیکھو! خُدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا! گم نام پاکے فبرة عالم بنا دیا! جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا دُنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی جو اُس نے مُجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی اسی اندار میں عربی اشعار میں یہ مناجات ہے اس کا حسن و خوبی مشاہدہ کریں.سئمنا تكاليف التطاول من عدا تمادت ليالي الجور يا ربي انصر ہم نے ظلم کی تکلیفیں دشمنوں سے اٹھا ئیں.اور ظلم کی راتیں لمبی ہو گئیں.اے خدا ! مددکر و جئناك كالموتى فاحى أمورنا نخر امامک کالمساکین فاغفر اور مُردوں کی طرح تیرے پاس آئے ہیں پس ہمارے کاموں کو زندہ کر.ہم تیرے آگے مسکینوں کی طرح گرتے ہیں پس ہمیں بخش دے الهی فدتك النفس انک جنتی وما ان ارى خلدا كمثلك يثمر اے خدا! میری جان تیرے پر قربان ، تو میری بہشت ہے.اور میں نے کوئی ایسی بہشت نہیں دیکھی کہ تیرے جیسا پھل لاوے طردنا لوجهك من مجالس قومنا فانت لنا جب فريد و مؤثر اے میرے خدا! تیرے منہ کیلئے ہم اپنی قوم کی مجلسوں سے رد کر دیئے گئے.پس تو ہمارا یگانہ دوست ہے جو سب پر اختیار کیا گیا

Page 448

429 ادب المسيح الهی بوجھک ادرک العبد رحمة وليس لنا باب سواک و معبر اے میرے خدا! اپنے منہ کے صدقہ اپنے بندہ کی خبر لے.اور ہمارے لئے تیرے سوا نہ کوئی دروازہ اور نہ کوئی جائے گذر ہے الی ای باب یا الهی تردنی و من جئتـه بـالــرفق يُزر و يصعر اے میرے خدا! تو کس دروازہ کی طرف مجھے رڈ کرے گا.اور میں جس کے پاس نرمی کے ساتھ جاؤں وہ بد گوئی کرتا اور منہ پھیر لیتا ہے صبرنا على جور الخلائق كلهم ولكن على هجر سطا لا نصبر ہم نے تمام دنیا کا ظلم برداشت کر لیا.مگر تیری جدائی کی ہمیں برداشت نہیں تعال حبيبي انت روحی و راحتی و ان كانت قد انست ذنبی فستر آمیرے دوست! تو میری راحت اور میرا آرام ہے.اور اگر تو نے میرا کوئی گناہ دیکھا ہے تو معاف کر بفضلك انا قد عصمنا من العدا و ان جمالک قاتلی فات و انظر تیرے فضل سے ہم دشمنوں سے بچائے گئے.مگر تیرے جمال نے ہمیں قتل کر دیا.پس آاور دیکھ و فرج کروبی یا الهی و نجنی و مزق خصیمی یا نصیری و عفر اور میرے غم ! اے میرے خدا! دور فرما.اور دشمن میرے کو ، اے میرے مددگار! پارہ پارہ کر اور خاک میں ملا وجدناک رحمانا فما الهم بعدَهُ رئیناک یا حبـی بـعـيـن تـنـور ہم نے تجھے رحمان پایا.پس بعد اس کے کوئی غم نہ رہا.دیکھا ہم نے تجھ کو اس آنکھ سے جو روشن کی جاتی ہے انا المنذر العريان يا معشر الورى اذکر کم ایام ربّی فابصروا اے لوگو! میں ایک گھلا نذیر ہوں.خدا کے دن تمہیں یاد دلاتا ہوں.اور اس مضمون میں دینِ اسلام کی حمایت اور درد میں کی گئی مناجات کو دیکھ لیں.دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پہ رات ہے اے مرے سُورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار

Page 449

ب المسيح 430 اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اے ساریاں جگ کی مہار کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے خاک میں ہوگا یہ سر گر تو نہ آیا بن کے یار فضل کے ہاتھوں سے اب اسوقت کر میری مدد کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر تا نہ خوش ہو دشمنِ دیں جس پر ہے لعنت کی مار میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کو سُن میں ہو گیا زار و نزار دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دینِ مصطفے مجھکو کراے میرے سُلطاں کامیاب و کامگار کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مُراد یہ تو تیرے پر نہیں امید اے میرے حصار یا الہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سُن لے پکار قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے مولی اسطرف دریا کی دھار اس مقام تک ہم نے آپ کی ا) محبت الہی کی مناجات (۲ (۳ اللہ کے شکر و احسان کی مناجات اور آپ کے صدق دعوای کی مناجات پیش کی ہیں.اب ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ آپ

Page 450

431 ادب المسيح حضرت نے اپنی دعاؤں اور مناجات کی قبولیت کا کیا منصب بیان کیا ہے.سب سے اول ہم آپ کے شاہکار اور بے مثال قصیدے کے آخری اشعار کو پیش کرتے ہیں.یہ قصیدہ واصلین باری تعالیٰ کی شان اور مناقب کے بیان میں ہے.آپ اپنی دعا کی تاثیر اور قبولیت کی شان کے بارے میں فرماتے ہیں.ره خلاص کجا باشد آں سیه دل را کہ با چنیں دل من در پئے جفا باشد اُس سیاہ دل انسان کو نجات کیونکر مل سکتی ہے جو میرے جیسے دل والے پر ظلم کرنے کے درپے ہو چوسیل دیدہ کا بیچ سیل و طوفاں نیست بترس زیں کہ چنیں سیل پیش پا باشد ہماری آنکھ کے سیلاب کی طرح کا اور کوئی سیلاب نہیں اس بات سے ڈر کہ کہیں یہ سیلاب تیرے سامنے ہی نہ ہو ز آه زمرة ابدال بایدت ترسید على الخصوص اگر آه میرزا باشد تجھے ابدالوں کی جماعت کی آہوں سے ڈرنا چاہیئے.خصوصا اگر مرزا ( غلام احمد ) کی آہ ہو اور اردو میں فرماتے ہیں : کو ہو کیوں ستاتے سو افترا بناتے بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے اور عربی میں فرماتے ہیں: إِلَيْكُمْ يَا أُولِـي مَـجْـدٍ إِلَيْكُمْ وَإِنْ لَّمْ تَنْتَهُوا فَالْوَقْتُ لَاحُ باز آجاؤ اے بزرگو! باز آجاؤ.اگر تم باز نہ آؤ تو وقت ملامت کرے گا وَلِيْ قَدْرٌ عَظِيمٌ عِنْدَ رَبِّي وَسُخْلِى لَا يُرَدُّ وَلَا يُزَاحُ اور میرے رب کے حضور میں میرا بڑا مرتبہ ہے اور میری دعا رد نہیں کی جاتی اور نہ ہی ٹالی جاتی ہے وَ مِثْلِى حِيْنَ يَبْكِيْ فِي دُعَاءِ فَيَسْعَى نَحْوَهُ فَضْلٌ مُّتَاحُ اور میرے جیسا آدمی جب دعا میں روتا ہے تو اس کی طرف فضل مقدر دوڑ کر آتا ہے °

Page 451

ب المسيح 432 وَكَادَتْ تَلْمَعَنُ أَنْوَارُ شَمْسِى فَيَتْبَعُهَا الْوَرَى إِلَّا الْوَقَاحُ اور قریب ہے کہ میرے سورج کے انوار چمکیں اور پھر سوائے بے شرم کے سارا جہان ان کے پیچھے چلے گا وَيَأْتِي يَوْمُ رَبِّي مِثْلَ بَرْقٍ فَلا تَبْقَى الْكِلابُ وَلَا النِّبَاحُ اور میرے رب کا دن بجلی کی طرح آئے گا.پس نہ کتے باقی رہیں گے نہ ہی ان کا بھونکنا وَلِى مِنْ لُطْفِ رَبِّي كُلَّ يَوْمٍ مَرَاتِبُ لِلْعِدَا فِيهَا افْتِضَاحُ اور میرے لئے اپنے رب کی مہربانی سے ہر روز ایسے مدارج ہیں کہ دشمنوں کے لئے ان میں رسوائی ہی رسوائی ہے وَ نُورٌ كَامِلٌ كَالْبَدْر تَامٌ وَوَجُهُ يَسْتَنِيرُ وَلَا يُلَاحُ اور مجھے چودھویں کے چاند کی طرح کامل نور حاصل ہے اور ایسا چہرہ حاصل ہے جو چہکتا ہے اور متغیر نہیں کیا جاسکتا اور عربی میں ایک دعائیہ قطعہ ہے.ایسا کہ دل اس پر ہزار جان سے قربان ہو تو بھی اس کا حق ادا نہ ہو.فرماتے ہیں: آمِتُنِي فِي الْمَحَبَّةِ وَالْوَدَادِ وَكُنْ فِي هَذِهِ لِي وَ الْمَعَادِ اپنی محبت میں ہی وفات دے اور اس دنیا اور آخرت میں تو میرا ہوجا.وَلَمْ يَبْقَ الْهُمُومُ لَنَا فَإِنَّا تَوَكَّلْنَا عَلَى رَبِّ الْعِبَادِ اور ہمیں کوئی غم نہیں رہے.کیونکہ ہم نے ربّ العباد پر توکل کیا ہے.

Page 452

433 ادب المسيح حضرت اقدس کا روحانی منصب اور مقام خیال تھا کہ حضرت اقدس کے ادب عالیہ کی خدمت کو اس طور سے ترتیب دیا جائے کہ اس کتاب کا آخری موضوع مناجات اور دعا ہو مگر دوران خدمت گزاری یہ خلش دل میں رہی کہ ایک عنوان یہ بھی ہونا چاہیئے کہ آپ حضرت نے اپنے روحانی منصب کو کیسے بیان کیا ہے.چنانچہ اس محبت کے جذبے سے مجبور ہو کر ہم نے یہ عنوان باندھا ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت اقدس کا تمام کلام اور اس کے تمام موضوعات چودھویں کے چاند کی طرح سے آپ کے روحانی منصب ہی کی ضوفشانی کر رہے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں آپ کے قرب الہی ہی کو پیش کر رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہر انسان کے شعور کی حدود تک ہی محدود ہوتی ہے یعنی یہ کہ جس قدر اس کے سمجھ آئی اُسی قدر اس کو قبول کر لیا اس لیئے اگر آپ حضرت کے اپنے کلام میں آپ کے روحانی منصب کو بیان کیا جائے تو وہ آپ کے روحانی منصب اور قرب الہی کی عظمت کی حقیقی ترجمانی ہوگی.مگر آپ کے بیان سے بڑھ کر جو کلام آپ کے روحانی منصب اور مقام کی ترجمانی کرنے کا حقدار ہے وہ بارگاہ الہی کا یہ فرمان ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأَمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمُ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة: 4،3) حضرت اقدس ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوسِ انسانی علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہوگئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دُور جا پڑے تھے تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اتمی بھیجا اور اس رسول نے اُن کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے اُن کو ملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقین کامل تک پہنچایا اور خداشناسی کے ٹور سے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا.وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہونگے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ اُن کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اُن کا صدق اور یقین بھی صحابہؓ کے

Page 453

ب المسيح 434 صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَو كَانَ الإِيمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اُٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اُس کو واپس لائے گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پید ا ہو گا.اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اُٹھایا جائے گا.یہی وہ زمانہ ہے جو سیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام سیح موعود ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) دوسرے مقام پر اپنے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کے بارے میں فرماتے ہیں: اور آیت آخرین منھم میں بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلمی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہوگا اور دو مشابہتیں اُس کے وجود میں ہوں گی ایک مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ حضرت کو ان پیشگوئیوں کا مصداق بنا دیا.فرماتے ہیں: خدا کے کلام میں یہ امر قرار یافتہ تھا کہ دوسرا حصہ اس امت کا وہ ہوگا جو مسیح موعود کی جماعت ہوگی.اسی لیے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو دوسروں سے علیحدہ کر کے بیان کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی اُمت محمدیہ میں سے ایک اور فرقہ بھی ہے جو بعد میں آخری زمانہ میں آنے والے ہیں اور حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کی پشت پر مارا اور فرمایا لَو كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس اور میری نسبت پیشگوئی تھی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس

Page 454

435 ادب المسيح پیشگوئی کی تصدیق کے لیے وہی حدیث بطور وحی میرے پر نازل کی اور وحی کی رُو سے مجھ سے پہلے اس کا کوئی مصداق معتین نہ تھا اور خدا کی وحی نے مجھے معین کر دیا.فالحمد للہ.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) اور فرماتے ہیں کہ و آخرین منھم کے فرمان میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں اور یہ کہ بروزی رنگ میں آپ کا بار بار تشریف لا نا کوئی عار نہیں.روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم تمام نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ میں اس زندگی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس کا یہی مطلب ہے کہ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانہ میں ہوگا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آرہا ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ی ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دُنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا اظہار بھی کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت آتی ہے.( تفسیر حضرت اقدس زیر آیت) ہم نے دانستہ طور پر آپ حضرت کے روحانی منصب اور مقام کے تعلق میں خدا تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ حضرت کی وحی کے مطابق جو فرمودات ہیں ان کو قدرے تفصیل سے پیش کیا ہے.یہ اس لیے ہوا کہ آپ حضرت کے روحانی منصب اور مقام کی یہی اساس ہے.دیگر تمام مناصب اسی فرمانِ خدا وندی اور حدیث رسول اکرم کے ذیل میں اور تفصیل میں ہیں.ان تفصیلی مناقب میں سب سے اول تو ذیل کے دو الہامی اشعار ہیں کہ جن کے شاہانہ انداز اور حسن وخوبی کو بیان کرنا مشکل ہے.چو دور خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلمان باز کردند جب ہمارا شاہی زمانہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا گیا

Page 455

المسيح 436 مقام او میں از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند اس کے درجہ کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ کہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ناز کیا ہے (الهام حضرت اقدس) مشاہدہ کریں کہ کلام الہی کی کیسی عظمت وشان ہے کہ دوا شعار میں آپ کا روحانی مقام اور اس کا موجب اور باعث بھی بیان کر دیا یعنی مسلماں را مسلمان باز کردند اور اس خدمت گزاری کے صلے میں آپ کا روحانی منصب اور مقام بھی عطا فر مایا فرمایا مقام او مبین از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند اس فرمانِ خداوندی کی روشنی میں اگر ہم یہ کہیں کہ حضرت اقدس کا تمام کلام مسلماں را مسلماں باز کردند ہی کی غرض سے صادر ہوا ہے تو یقیناً درست ہوگا کیونکہ امت مسلمہ کی اصلاح احوال دوطور سے ہی ہوسکتی تھی اول اِن میں محبت الہی کو زندہ کر کے اور دوم ان کے عقائد اور نظریات کی اصلاح کر کے.اور یہی موضوعات آپ کے اشعار میں ہیں.یعنی حمدوثنا میں خدا تعالی کا صحیح تصور بیان ہوا ہے نعت رسول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حقیقی منصب بیان ہوا ہے اور نعت قرآن میں تعلیم قرآن کی تعلیم کی عظمت بیان ہوئی ہے اور اسی طور سے دیگر موضوعات اسلام کی تعلیم کا صحیح تصور پیش کرتے ہیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس قطعہ کے دوسرے شعر مقام او میں از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند اس کے مقام کوکم تر نہ سمجھو.کیونکہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ناز کیا ہے میں در حقیقت باری تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر وتعبیر بیان ہوئی ہے جیسا کہ الہام ہے.جَريُّ الله في حُلل الانبياء“ جری اللہ نبیوں کے حلوں میں ( تذکرہ صفحہ 63 مطبوعہ 2004ء) آپ حضرت اپنے اس منصب کو کس قدر خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آدمم نیز احمد مختار اور برم جامیہ ہمہ ابرار میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی میرے جسم پر تمام ابرار کے خلعت ہیں

Page 456

کار ہائے کہ کرد با من یار وہ 437 ادب المسيح برتر آن دفتر است از اظهار ہ کام جو خدا نے میرے ساتھ کیے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے آنچه داد است هر نبی را جام داد آن جام را مرا بتمام جو جام اس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور سے مجھے بھی دیا ہے اردو میں فرمایا: غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اُسکے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جسکو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پر میرا سب مدار مثیل انبیاء ہونا اور اُن کے عرفانِ باری تعالیٰ کا مکمل وارث ہونا ہی دراصل آپ کا منصب عالی ہے اور یہی وہ مقام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے جرى الله فِي حُلل الانبیاء “اور ” بدورانش رسولاں ناز کردند میں بیان کیا ہے.یہاں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ حضرت اقدس نے تاکید سے بیان کیا ہے کہ یہ مناصب آپ کو آپ کے آقا اور مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور وراثت میں ملے ہیں.جیسے فرمایا ہے: انبیاء گرچه بوده اند بسے من بعرفان نه کمترم ز کسے اگرچہ انبیاء بہت ہوئے ہیں مگر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں وارث مصطفى شدم به یقیں شده رنگیں برنگِ یار حسیں میں یقیناً مصطفے کا وارث ہوں اور اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہوں اردو زبان میں فرماتے ہیں: آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے

Page 457

ب المسيح 438 آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے جب سے یہ ٹور ملا ٹور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفیٰ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے اس مقام پر ہم اس امر کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ مخالفین حضرت اقدس نے آپ کے اس شعر پر ایک صدی سے واویلا کر رکھا ہے.کربلا است سیر ہر آنم صد حسین است در گریبانم کربلا میری ہر آن کی سیرگاہ سینکڑوں حسین میری گریبان کے اندر ہیں گاہ ہے.مگر اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ سیر تصوف کی اصطلاح ہے.اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی تلاش میں مجاہدہ اور اُس کے قرب کا مقام ہے دوسرے الفاظ میں آپ ” حضرت حسین کے مجاہدہ کر بلا کو ایک روحانی مجاہدہ قرار دے رہے ہیں اور اپنے مجاہدات کو حضرت حسین کے مجاہدات سے تشبیہ دے رہے ہیں.اور اگر صد حسین است در گریبانم پر ناراضگی ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ حضرت کو تمام انبیاء کے گلے پہنا دیئے ہیں اور اس اعزاز پر آپ فرماتے ہیں زنده بہ پیرهنم شد ہر نبی آمدنم ہر رسولے نہاں ہرنبی میرے آنے سے زندہ ہو گیا اور ہر رسول میرے پیراہن میں پوشیدہ ہے مخالفین کو اس حقیقت کا ادراک مشکل ہو گیا ہے کہ جو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.وہ گذشتہ کے تمام مرسلین اور واصلین باری تعالیٰ کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے.ان تمام گذارشات کے ساتھ اس حقیقت کو حضرت اقدس نے تاکیڈا بیان کیا ہے کہ یہ سب مناصب آپ کو آپ کے آقا اور مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور وراثت میں ملے ہیں.آپ اس اعزاز کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

Page 458

ہم چنین عشقم بروئے مصطفے 439 ادب المسيح دل پرد چوں مُرغ سوئے مُصطفے ایسا ہی عشق مجھے مصطفے کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفے کی طرف اُڑ کر جاتا ہے تا مرا دادند از حُسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر جب سے مجھے اُس کے حسن کی خبر دی گئی ہے.میرا دل اُس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے منکہ مے بینم رخ آں دلبرے جاں فشانم گردید دل دیگرے میں اُس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں.اگر کوئی اُسے دل دے تو میں اُس کے مقابلہ پر جان نثار کر دوں ساقی من ہست آں جاں پرورے ہر زمان مستم کند از ساغری وہی روح پرور شخص تو میرا ساتی ہے جو ہمیشہ جامِ شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے مجو روئے اُو شد است ایں رُوئے من بوئے اُو آید زبام و کوئ من میرا چہرہ اُس کے چہرہ میں محو اور گم ہو گیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اُسی کی خوشبو آرہی ہے بسکه من در عشق او هستم نہاں من همانم - من بمانم - من ہماں از بسکہ میں اُس کے عشق میں غایب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او يابد غذا از گریبانم عیاں شد آں ذکا! میری روح اُس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریباں سے وہی سورج نکل آیا ہے احمد اندر جان احمد محمد پدید اسم من گردید آں اسم وحید احمد کی جان کے اندراحمد ظاہر ہو گیا اس لیے میر او ہی نام ہو گیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے عربی زبان میں فرماتے ہیں: وَإِنِّي وَرِثْتُ الْمَالَ مَالَ مُحَمَّدٍ فَمَا أَنَا إِلَّا آلُهُ الْمُتَخَيَّرُ اور میں محمد کے مال کا وارث بنایا گیا ہوں.پس میں اس کی آل برگزیدہ ہوں جس کو ورثہ پہنچ گیا وَ كَيْفَ وَرِثْتُ وَلَسْتُ مِنْ أَبْنَائِهِ فَفَكِّـرُ وَ هَلْ فِي حِزْبِكُمْ مُّتَفَكِّرُ اور میں کیونکر اس کا وارث بنایا گیا ہوں جب کہ میں اس کی اولاد میں سے نہیں ہوں پس اس جگہ فکر کر کیا تم میں کوئی بھی فکر کرنے والا نہیں؟ اَتَزَعَمُ أَنَّ رَسُولَنَا سَيِّدَ الْوَرى عَلى زَعْمِ شَانِيهِ تُوَفِّيَ اَبْتَرُ کیا تو گمان کرتا ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے اولاد ہونے کی حالت میں وفات پائی ؟ جیسا کہ دشمن بد گو کا خیال ہے

Page 459

المسيح 440 فَلَا وَالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ لَاجُلِهِ لَهُ مِثْلُنَا وَلَدٌ إِلَى يَوْمِ يُحْشَرُ مجھے اس کی قسم جس نے آسمان بنایا کہ ایسا نہیں ہے.بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میری طرح اور بھی بیٹے ہیں اور قیامت تک ہوں گے وَإِنَّا وَرِثْنَا مِثْلَ وُلْدٍ مَتَاعَهُ فَلَى ثُبُوتِ بَعْدَ ذَلِكَ يُحْضَرُ اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی وراثت پائی.پس اس سے بڑھ کر اور کون سا ثبوت ہے، جو پیش کیا جائے؟ اور فرماتے ہیں.وَلِدِينِهِ فِي جَذْرٍ قَلْبِي لَوْعَةٌ وَ إِنَّ بَيَانِي عَنْ جَنَانِي يُخْبِرُ اور آپ کے دین کے لیے میرے دل کی گہرائیوں میں ایک تڑپ ہے اور یقیناً میرا بیان میرے دل کی حالت کی خبر دے رہا ہے وَرِثْتُ عُلُوْمَ الْمُصْطَفَى فَاخَذْتُهَا وَ كَيْفَ اَرُدُّ عَطَاءَ رَبِّي وَ أَفْجُرُ میں مصطفے کے علوم کا وارث ہوا سو میں نے ان کو لے لیا اور میں اپنے رب کی عطا کو کیسے رد کروں اور گنہگار بنوں وَ كَيْفَ وَ لِلِإِسْلَامِ قُمْتُ صَبَابَةً وَابُكِي لَهُ لَيْلًا نَّهَارًا وَّ أَضْجَرُ اور یہ ہو کیسے سکتا ہے حالانکہ اسلام کی تائید کے لئے میں از راہ عشق کھڑا ہوں اور اسی کے لیے رات دن روتا ہوں اور کڑھتا ہوں اور فرماتے ہیں کہ ہم نے خدا کو آپ کے نور کے ذریعہ سے پایا ہے.رَتَيْنَاهُ مِنْ نُّورِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَى وَلَوْلَاهُ مَا تُبْنَا وَلَا نَتَقَرَّبُ ہم نے اس (خدا) کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کے ذریعہ پالیا.اگروہ نبی نہ ہوتا تو نہ ہم رجوع الی اللہ ) کرتے اور نہ ہم ( خدا کے ) مقرب بنتے لَهُ دَرَجَاتٌ فِي الْمَحَبَّةِ تَآمَةً لَهُ لَمَعَاتٌ زَالَ مِنْهَا الْغَيْهَبُ اس نبی کو محبت الہی میں کامل درجات حاصل ہیں.اس کو ایسی شعاعیں ملی ہیں جن کے ذریعہ تاریکی دور ہوگئی ہے ذُكَاءٌ مُنِيرٌ قَدْ آنَارَ قُلُوبَنَا وَ لَهُ إِلَى يَوْمِ النُّشُورِ مُعَقِّبُ وہ روشنی کرنے والا آفتاب ہے اس نے ہمارے دلوں کو روشن کر دیا ہے اور اس کا قیامت کے دن تک کوئی نہ کوئی جانشین ہوتا رہے گا

Page 460

441 ادب المسيح وَ فِي اللَّيْلِ بَعْدَ الشَّمْسِ قَمَرٌ مُنَوَّرٌ كَمَا فِي الزَّمَانِ نُشِاهِدَنُ وَ نُجَرِّبُ اور رات کو سورج کے بعد روشن چاند ہوتا ہے جیسا کہ ہم زمانہ میں مشاہدہ کرتے اور تجربہ رکھتے ہیں وَلِلَّهِ الْطَاقِ عَلَى مَنْ أَحَبَّهُ فَوَابِلُهُ فِي كُلّ قَرُنِ يَسْكَبُ اور خدا کی اس شخص پر مہربانیاں ہیں جو آپ سے محبت کرے پس آپ کی موسلا دھار بارش ہر صدی میں برسا کرتی ہے اور فرماتے ہیں کہ اللہ کی سنت ہے کہ سورج کے بعد چاند ستارے چمکتے ہیں.وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ شَمُسٌ مُّنِيرَةٌ وَبَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ بَدْرٌ وَّ كَوْكَبُ اور بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو روشنی دینے والے سورج ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں کا چاند اور ستارے ہیں جَرَتْ عَادَةُ اللَّهِ الَّذِي هُوَ رَبُّنَا يُرِى وَجْهَ نُورٍ بَعْدَ نُورٍ يَّذْهَبُ اللہ تعالیٰ جو ہمارا رب ہے اس کی یہ عادت جاری ہے کہ وہ ایک نور کے جانے کے بعد دوسرے نور کا چہرہ دکھا دیتا ہے گذلِكَ فِي الدُّنْيَا نَرَى قَانُونَهُ نُجُومُ السَّمَاءِ تَبْدُو إِذَا الشَّمْسُ تَغْرُبُ اسی طرح دنیا میں ہم اس کا قانون پاتے ہیں کہ جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو آسمان کے ستارے ظاہر ہو جاتے ہیں خَفِ اللَّهَ يَا مَنْ بَارَزَ اللَّهَ مِنْ هَوَى وَإِنَّ الْفَتَى عِندَ التَّجَاسُرِ يَرْهَبُ اللہ سے ڈر.اے شخص! جس نے ہوائے نفسانی سے خدا کا مقابلہ کیا اور بے شک جواں مرد ایسی دیدہ دلیری دکھاتے ہوئے خوف کھاتا ہے اس مقام تک ہم نے آپ حضرت کے روحانی منصب اور مقام کے بیان میں اوّل: حضرت اقدس کے الہامات ربانی کو پیش کیا ہے دوم : آپ کا مثیل انبیاء ہونا پیش کیا ہے.سوئم : آپ کا وارث رسول اکرم ہونا پیش کیا ہے اب ہم بہت اختصار سے آپ کا عشق الہی اور عشق رسول کا منصب و مقام پیش کرتے ہے نے ہیں.فرماتے ہیں:

Page 461

المسيح 442 امروز قومِ من نشناسد مقام من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں پہچانتی لیکن ایک دن آئیگا کہ وہ رو رو کر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی اے قوم من بصبر نظر سُوئے غیب دار تا دست خود به عجز ز بهر تو گسترم! اے میری قوم صبر کیسا تھ غیب کی طرف نظر رکھ تاکہ میں اپنے ہاتھ ( خدا کی درگاہ میں ) تیری خاطر عاجزی کے ساتھ پھیلاؤں گر ہمچو خاک پیش تو قدرم بود چه باک چوں خاک نے کہ از خس و خاشاک کمترم اگر تیرے نزدیک میری قدر خاک کے برابر بھی نہیں تو کیا مضائقہ ہے خاک تو کیا میں کوڑے کرکٹ سے بھی زیادہ حقیر ہوں لطف است و فضل او که نواز د وگرنه من کرمم نه آدمی صدف استم نہ گوہرم! یہ اس کا فضل اور لطف ہے کہ وہ قدردانی کرتا ہے ورنہ میں تو ایک کیڑا ہوں نہ کہ آدمی.سیپی ہوں نه که موتی زانگونه دست او دلم از غیر خود کشید گوئی گہے نبود دگر در تصورم اس کے ہاتھ نے اس طرح میرے دل کو غیر کی طرف سے کھینچ لیا گویا اس کے سوا اور کوئی بھی میرے خواب و خیال میں نہ تھا بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم خدا کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں ہر تار و پود من بسراید بعشق أو از خود تهی و از غم آن دلستاں پُرم میرے ہر رگ وریشہ میں اُس کا عشق رچ گیا ہے میں اپنی خواہشات سے خالی اور اس معشوق کے غم سے پُر ہوں من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است ز هر بادِ صرصرم میں درگاہ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اُس کا ہاتھ ہر بادصر صر سے میری حفاظت کرنے والا ہے.فرماتے ہیں.بہت ہی دلفریب اشعار ہیں مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے و ہی جنت و ہی دارالاماں ہے

Page 462

443 ادب المسيح بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے اور فرماتے ہیں.یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ترے کوچہ میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دُنیائے مادی عربی زبان میں فرماتے ہیں : فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي بِوَجُهِكَ مَا أَنُسَى عَطَايَاكَ بَعْدَهُ وَ فِي كُلِّ نَادٍ نَبا فَضْلِكَ اَذْكُرُ تیری ذات کی قسم ! اس کے بعد میں تیرے احسانات کو نہ بھولوں گا.اور ہر مجلس میں تیرے فضل کی عظیم الشان خبر کا ذکر کرتا رہوں گا تُلتِيْكَ رُوحِي دَائِمًا كُلَّ سَاعَةٍ وَ إِنَّكَ مَهُمَا تَحْشُرُ الْقَلْبَ يَحْضُرُ میری روح ہمیشہ ہر گھڑی تجھے لبیک کہتی ہے.اور بے شک تو جب بھی میرے دل کو بلاتا ہے وہ حاضر ہو جاتا ہے وَ تَعْصِمُنِي فِي كُلِّ حَرُبٍ تَرُحُمًا فِدًى لَّكَ رُوحِي أَنْتَ دِرْعِي وَ مِعْفَرُ اور تو مجھے از راہ تر تم ہر لڑائی میں بچالیتا ہے.میری روح تجھ پر قربان جائے.تو ہی میری زرہ اور خو د ہے يُنَوِّرُ ضَوْءُ الشَّمْسِ وَجُهَ خَلَائِقِ وَلَكِنْ جَنَانِي مِنْ سَنَاكَ يُنَوَّرُ سورج کی روشنی تو مخلوق کے چہرے کو منور کرتی ہے.لیکن میرا دل تیرے نور سے منور ہو جاتا ہے گذشتہ کے عنوانات کے تحت حضرت اقدس کا منصب و مقام پیش کرنے کے بعد ہم چند ایک بہت ہی دلفریب نمونے پیش خدمت کرتے ہیں.

Page 463

المسيح 444 فارسی زبان میں اپنے قرب الہی کے بیان میں بے انتہا حسین اور دلر با اشعار ہیں.فرماتے ہیں: هر که در عهدم ز من ماند جدا می گند بر نفس خود جور و جفا جو میرے زمانہ میں مجھ سے جدا رہتا ہے تو وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.پر ز نور داستان شد سینه ام شد نے دستے صیقل آئینه ام ز محبوب کے نور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا صیقل اسی کے ہاتھ نے کیا پیکرم شد پیکر پار ازل کار من شد کار دلدار ازل میرا وجود اُس یار از لی کا وجود بن گیا اور میرا کام اُس دلدارِ قدیم کا کام ہو ہو گیا بسکه جانم شد نہاں در یار من ہوئے یار آمد ازیں گلزارِ من چونکہ میری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لیے یار کی خوشبو میرے گلزار سے آنے لگی از گریبانم برآمد دلبری ہماری چادر کے اندر خدا کا نور ہے.وہ دلبر میرے گریبان میں سے نکلا ہے.احمد آخر زمان نام من است آخریں جامے ہمیں جامِ من است احمد آخر زماں میرا نام ہے اور میرا جام ہی دُنیا کے لیے ) آخری جام ہے.نور حق داریم زیر چادرے غزل کی صنف میں فرماتے ہیں : الا اے دشمن ناداں و بے راہ بنترس از تیغ بران محمد اے نادان اور گمراہ دشمن ہوشیار ہو جا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر ره بجو در مولی که گم کردند مردم آل و اعوان محمد خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور انصار میں ڈھونڈھ الا اے منکر از شان محمد هم از نور نمایان محمد خبر دار ہو جا! اے وہ شخص جو محمد کی شان نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر نے غلمان محمد ز اگر چہ کرامت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے

Page 464

445 اس نظم کی خوبی اور اسلوب زبان کو دیکھیں اور غلام احمد کی شان کا مشاہدہ کریں.ادب المسيح زندگی بخش جامِ احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سے بڑھ کر مقام احمد ہے باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے آپ حضرت کی شان میں اس الہامی شعر کو ہمیشہ یا درکھنا ضروری ہے.برتر گمان دو ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے دنیا سے بے رغبتی اور رجوع الی اللہ کو دیکھیں: (تذکرہ صفحہ 583 - مطبوعہ 2004ء) ابن مریم ہوں مگر اُترا نہیں میں چرخ سے نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا ئے دیار تاج و تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام اُن کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار مجھکو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا مجھکو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

Page 465

ب المسيح 446 ان اشعار کی شان کو مشاہدہ کریں.صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامن اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بفرق ایں جدار آپ کے عشق الہی کا منصب دیکھیں يارب مرا بہر قدیم استوار دار واں روز خود مباد کہ عہد تو بشکنم اے رب مجھے ہر قدم پر مضبوط رکھ اور ایسا کوئی دن نہ آئے کہ میں تیرا عہد توڑوں در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم! اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعوی کرے گا وہ میں ہوں گا اور آخر پر باری تعالیٰ کی محبت اور اس سے قرب کو سمجھ لیں.من نه واعظ که عاشق زارم آید از طور واعظاں عارم میں ایک واعظ نہیں بلکہ عاشق زار ہوں اور واعظوں کے طریق سے مجھے عار ہے نزد بیگانگاں جنوں زده ام نزد معشوق نیک ہشیارم خدا سے دور لوگوں کی نظر میں میں دیوانہ ہوں مگر معشوق کی نظر میں میں بہت ہوشیار ہوں حضرت اقدس کا روحانی منصب اور مقام تو آپ کی نثر کے ہر فقرے اور نظم کے ہر شعر میں ثابت اور عیاں ہے ہم نے نہایت اختصار سے کام لیتے ہوئے چند نمونے پیش کئے ہیں جو اس مضمون کا حق تو ادا نہیں کر سکتے البتہ یہ اظہار ضرور کر سکتے ہیں کہ ہم آپ کے عاشقوں میں سے ہیں اور آپ کی ہر تجلی اور ادائے محبوبی ہمیں جان و دل سے عزیز ہے.یہ شعر ایک بار اور پیش خدمت ہے.سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را میں نے اپنا تمام سرمایہ تیری جناب میں پیش کر دیا ہے.کم و بیش کا حساب تو ہی جانتا ہے.

Page 466

209 ادب المسيح 447 انڈیکس آیات قرآنیہ الله لا اله الا هو الحي القيوم....256 ال عمران: 306-204 الفاتحة: الحمد لله رب العالمين...2 تا 5 البقرة: الم ذلك الكتاب لا ريب فيه...2 تا 3 قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني....32 351-349-339-251-196-191 375-312 ومن يتبع غير الاسلام دينا....86 291-289 111....336-265 284 165.336 کنتم.امة اخرجت للناس 24 129-12-10-9 ان كنتم في ريب مما نزلنا.وان من الحجارة لما يتفجر....75 قولو ا للناس حسنا....84 انا ارسلنک بالحق بشيرا ونذيرا...119 142 ان الدين عند الاسلام.....20 18 القد منّ الله على المومنين.84 النساء: اذقال له ربه اسلم قال اسلمت...132 285 ووصى بها ابراهیم بنيه ويعقوب...133 فمن اصدق من الله قيلا.....123 164 يا يها الناس قد جاء كم برهان من ربكم...175 المائدة : اليوم ا م اکملت لكم دينكم...4 157 288-160 قد جائكم من الله نور و کتاب مبين...16 311-248-155 انما يتقبل الله من المتقين....28 375 68....54 بلغ ما انزل الیک.285 220 196 410 18 201 257-229 فاذکرونی اذکرکم...153 اشد حبا لله....166 واذا سالک عبادی عنی....187 ان الله يحب المحسنين....196 فاذكروا الله كذكركم آبائكم.

Page 467

الانعام: فقد كذبوا بالحق لما جاء هم...6 بديع السموات والارض انى يكون....102 ادب المسيح ما على الرسول الا البلاغ 100....ما قلت لهم الا ما امرتني به....118 448 يونس : 54 | الحمد لله رب العالمين.....11 31 فقد لبثت فيكم عمراً...17 142 اللذين احسنو االحسني...27 واتل عليهم نبأ نوح اذقال...72 205-145 5 377 143 143 قل ان صلاتي ونسكي ومحياي....164-163 353-346-307-286-46 کتاب احكمت آياته.....4-2 الاعراف : 332-307-250-207-206-47 الرسول النبي الامي...158 312-28 واذ اخذ ربک من بنی آدم...173 363-355-346-206 الرعد: اكلها دائم.....36 ابراهيم وما ارسلنا من رسول الا بلسان...5 251 71-58 ولله الاسماء الحسنى فادعوه بها...181 فبای حدیث بعده يومنون....186 17 الم تر كيف ضرب الله مثلا كلمة...26-25 332 النحل: وتراهم ينطرون اليك وهم لا يبصرون....199 هذالسان عربي مبين 341 21 104..104-9 ان الله مع الذين اتقوا...129 377-376 313 بنی اسرائیل: ان هذا القرآن يهدى...10 تسبح له السموات السبع والارض...45 335-228-207-206 387 197 خذ العفو وامر بالعرف واعرض...200 التوبة قل ان كان اباؤكم وابناء كم...24 لقد جاء كم رسول من انفسكم...128 386-281-268-253

Page 468

327 ادب المسيح وقل لعبادى يقولوالتي هي احسن...54 قل لئن اجتمعت الانس والجن...89 قل ادعو الله او ادعو الرحمن...111 الله لا اله الا هوا له الاسماء الحسن...9 449 18 الفرقان: وقال الرسول يرب ان قومى...31 10-9 وعباد الرحمن الذين يمشون...64 18 واذا مر و باللغو مرواكراماً.....73 17 النمل: ء اله مع الله.....61 388-387 389 10 10 412 |222-201 96-29 امن يجيب المضطر اذا دعاه...63 القصص: له الحمد في الاولى والآخرة...71 الروم: فسبحان الله حين تمسون 18-19.....221 347 17 257 262 فطرت الله التي فطر الناس عليها...31 السجدة: الذي احسن كل شيء خلقه...8 الاحزاب النبى اولى بالمومنين....7 لقد كان لكم...22 92 92 253 37 286 18 والقيت عليك محبةً مني...40 الانبياء: هل هذا الا بشر مثلكم....4 قل ربي يعلم القول...5 وما ارسلنک الا رحمة للعلمين....108 الحج: وهدو الى الطيب من القول...25 ملة ابيكم ابراهيم هو سمكم...79 المومنون: فتبارک الله احسن الخالقين....15 النور: الله نور السموات والارض...36 310-308-228-154

Page 469

222 144 46-44 337 450 الجاثية 338-167 فلله الحمد رب السموات...38-37 221-220 محمد ذلك بان الله مولى الذين...12 فاعلم انه لا اله الا الله...20 الفتح: ادب المسيح من المومنين رجال صدقوا...24 يايها الذين امنواا ذكر الله...43-42 و داعيا الى الله باذنه وسراجا منيرا....47 311-248-155 414-256-255-252 ان الله وملئكته يصلون...57 الصفت و سلم على المرسلين..رب العالمين...183-182 محمد رسول الله...30 الذاريت: وما خلقت الجن والانس...57 النجم: 348-307-206 54-32 64 164-33 332 267 145 205 الزمر: الله نزل احسن الحديث...24 فمن اظلم ممن كذب على الله...34-33 313-38-22-9 164 ما ينطق عن الهوى...5-4 المومن: وانذرهم يوم الأزفة...19 وان یک کاذباً فعلیه کذبه...29 وقال ربكم ادعوني استجب لكم...61 وصور كم فاحسن صوركم...65 القمر: 143 ولقد يسرنا القرآن للذكر...41 143 ان المتقين في جنت ونهر...56-55 412 الواقعة: لا يمسه الا المطهرون.....80 الحديد: 18 205 سبح لله مافي السموات والارض...2 الم يان للذين أمنوا...17 377 الحمد لله رب العالمين....66 حم السجدة: ادفع باالتي هي احسن...35

Page 470

ادب المسيح والذين أمنوابا الله ورسوله...20 ويجعل لكم نورا تمشون به...29 المجادلة: 451 الحاقة: 167 انه لقول رسول كريم...44-41 163 ولو تقول علينا بعض الاقاويل...47-45 كتب الله لا غلبن انا ورسلي...22 رضی الله عنهم و رضوا عنه...23 الحشر: سبح لله مافي السموات والارض...2 10 الجن: 336-337 209 الا بلغاً من الله ورسلته...24 علم الغيب فلا يظهر على غيبه...29-27 56 96 31 30 لو انزلنا هذالقرآن على جبل...22 المزمل: 388-314 تبتل إليه تبتيلا......هو الله الذي لا اله الا هو...25-23 196 222-218-217-216 المدثر: الصف : ذرني ومن خلقت وحيداً....12 144 سبح لله مافي السموات والارض...2 208 القيمة: الجمعة بل الانسان على نفسه بصيرة يسبح لله مافي السموات ومافي الارض...2 15-16...144 207 الانفطار : واخرين منهم لما يلحقوا بهم...4 الذي خلقك فسوک فعدلک...8 433-163-75 16 القلم: الاخلاص : انک لعلی خلق عظيم....قل هو الله احد 2......211-210 389-254

Page 470