Language: UR
مصفنہ نے اس کتاب میں زندگی گزارنے کے آداب کی تلاش میں دونوں بنیادی ماخذوں کی طرف رجوع کیا ہے۔ اول قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی آخری شریعت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اور دوم بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کے اقوال و افعال۔ کیونکہ آپ قرآن کریم کی مجسم تفسیر تھے۔ اور آپ کے اخلاق و عادات اور روزمرہ زندگی گزارنے کے اصولوں سے قرآن کریم کی تعلیمات کو درست ترین رنگ میں اخذ کیا جاسکتا ہے۔
آداب حیات
دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے ڈرتے رہو عقاب خُدائے جہان سے شاید تمھاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمھیں ہے وہ بدنما شاید تمھاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو! شاید وہ آزمائش رب غفور ہو بندوں میں اپنے بھید خُدا کے ہیں صد ہزار تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے ڈرتے رہو عقوبت رب العباد سے دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خُدا کے فضل سے جنت میں جائے گا وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا یہ ہے حدیث سیدنا سید الوری کلام ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ
آداب حیات
سپاس تشکر ممنون ہے جنہوں نے اپنے درج ذیل بزرگوں کی طرف سے اس کتاب کا خرچ ادا کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول فرمائے.فجزاهن اللہ تعالیٰ احسن الجزاء مکرم محترم جناب چوہدری تاج محمد صاحب کا ہوں آف چھور (رفیق حضرت مسیح موعود) ه نکرم محترم جناب محمد دین صاحب مرحوم آف تلونڈی مکرم محترم جناب چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم آف ساہیوال مکرم محترم جناب چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم (رفیق حضرت مسیح موعود) اللہ تعالیٰ ان محترم بزرگوں کو جنت کے اعلی ترین درجات سے نوازے.آمين اللهم آمين
انتاب اور خاکر اپنی اس کتاب کو اپنی نہایت قابل صد احترام چھوٹی آپا حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اطالع الله بعتاد ھا کے نام منسوب کر نتھی ہے.جن کی برکت محبت اور دعاؤں سے عاجزہ کو دینے کی محبت عطا ہوئی اور جون کی زیر تربیت گزارے ہوئے چار سال میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر و صحت میں بے انداز برکت دے اور آپ کے بابرکت وجود سے ہمیشہ فیضیاب کرے.آمین -
جِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرحيم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بے حد و حساب شکر ہے کہ اس نے لجنہ اماءاللہ کے شعبہ اشاعت کو صدک جشن تشکر کے موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کی ظاہری ربوبیت کے انتظامات کئے ہیں.اسی طرح روحانی پرورش کے لئے انبیاء مبعوث کئے ہیں.قرآن کریم اللہ تعالی کی آخری شریعت اور مکمل ضابطہ جات ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم كان خلقه القرآن گویا دونوں قوام اور ایک ہے.اور صلی وسلم اور ہی سیپ کے دو موتی ہیں.اس کتاب کے ماخذ بھی یہ دونوں موتی ہیں.انہی کی تعلیم کی روشنی میں آداب حیات" تلاش کئے گئے ہیں.محترمہ امتہ الرفیق ظفرصاحبہ نے شر تعلیم کے تحت انہیں ترتیب کی سیکرٹری تعلیم اور بہت سرگرم اور انتہائی پر خلوص رکن د تحریر کیا ہے ہیں.جزا الا اللہ تعالیٰ احسن الجزاء حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے فرمایا ہے.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان ایک قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر اور قسم کا پھول چنتا ہے پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھا دے.“ (الحکم ۲۱ جنوری نشده) نے مسند احمد بن حنسل جلد ۷ ماه مطبوعه مطبع میمنه مصر
قرآن کریم وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور سر ایک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قومی اور سلیم ہے.گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے.i برامین احمدیہ حصہ دوم ص ۹۲۰۹) نقش ثانی حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالٰی کی طرف سے کے متعلق ایک اصولی ہدایت موصول ہوئی جس کے تحت اس کی نظر ثانی کی گئی اب اس میں تمام حوالے درج کر دیئے گئے ہیں.اصولی ہدایت افادہ عام کے لئے درج کی جاتی ہے.یہ ایک مفید کتاب ہے جیسے دوسری زبانوں میں تراجم کے لئے استعمال کرنا مد نظر تھا لیکن اس میں جو بنیادی نقائص رہ گئے ہیں ان کی درستی ضروری ہے.قرآن کریم کے حوالوں میں سورۃ کا نام اور آیت نمبر وغیرہ دیا جانا چاہئیے جبکہ احادیث کے حوالوں میں کتاب کا پورا نام، پھر اندرونی ذیلی کتابوں کا نام اور پھر باب کا ذکر ہونا چاہیئے.مثلاً جامع الترمذی ابواب الصوم - باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، علاوه از بین باقی کتب کے حوالوں میں کتاب کا نام ، مصنف کا نام، جلد نمبر صفحہ نمبر سن اشاعت، ناشر وغیرہ کا ذکر کر کے مکمل حوالہ دینا چاہیئے.ان امور کے لحاظ سے بھی اسے پڑھ کر بہت کمی محسوس ہوئی ہے.باقی مواد جمع کرنے کے لحاظ سے بہت عمدہ کوشش ہے.بڑی محنت کی گئی
ہے.تاہم یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کی طرف توجہ دلائی ہے ان کو پیش نظر رکھ کر جب آپ اس کتاب پر نظر ثانی کریں گی توانشاء اللہ یہ بہت مفید اور بلند پایہ کتاب ثابت ہوگی.
عرض حال اسلام وہ واحد عالمگیر مذہب ہے جس نے انسان کی ہر شعبہ زندگیے.کے متعلق راہنمائی کی ہے.اس نے انسان کو روحانی، مذہبی ، علی ،اجتماعی، معاشرتی اور عائلی زندگی گزارنے کے طریقے نہایت احسن رنگ میں بنائے شریعت اسلامیہ کے تمام احکامات میں حکمت اور جامع ہدایات موجود ہیں.سب سے بڑی راہ آداب و مراتب کی راہ ہے.محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے.پُرسکون زندگی گزارنے کے لئے جتنے بھی اطوار و آداب تھے.وہ آپ کے اقوال وافعال سے صحابہ کرام نے سیکھے.اللہ تعالے نے آپ کے بابرکت وجود کو کائنات میں بننے والے ہر انسان کے لئے اسوہ حسنہ ٹھہرایا ہے، جیسا کہ وہ فرمانا ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُول الله أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب : ۲۲) کامل شریعت کے حامل بانی اسلام کی حیات طیبہ میں بیک وقت علم و عمل کی لازوال خوبیاں موجود ہیں.آپ قرآنی تعلیمات کا مرقع تھے.حضرت عائشہ آپ کے اخلاق و اطوارہ کی گواہی یوں دیتی تھیں.كان خلقه القرآن کہ آپ قرآن مجید کی عملی تصویر تھے.استد احمد بن حنبل جلد 4 ص ۹)
آپ کے اوصاف حمیدہ اور شمائل جلیلہ اور آداب حسنہ آج بھی ہمیں ایک کامیاب، مثالی جنتی زندگی گزارنے کا درس دے رہے ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کے تائے ہوئے احکامات اور فرمودات کی وجہ سے آج بھی عالمگیر نظام تربیت و تمدن کی اساس قائم ہے.رومانیہ کی بنیاد ادب پر موقوف ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ (آپ پر سلامتی ہو) فرماتے تھے.الطريقة كل ما ادب ملفوظات جلد سوم ص۴۵۵ ، نیا ایڈیشن ص ۶۲) روحانیت کی تمام تر بنیاد ادب پر ہے.روحانیت کی ترقی کے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلام کے پیش کردہ آداب کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں.تا وصال الہی کردہ آداب کو کے جام نوش کر سکیں.کتاب آداب خیاست میں جو آداب پیش کئے گئے ہیں ان کو قرآن مجید سنت نبوی اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے.خدا کرے کہ ہم آداب زندگی کے ان بہتے ہوئے دھاروں سے تنفیض ہو کر اپنی عادات و اطوار کو اسلامی سانچے میں ڈھال ہیں.ہمیشہ اسلامی معظمت وکٹرار کو اپنا ئیں.اور ادب و تادیب کے میدانوں سے گزرتے ہوئے اللہ تعالے اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کر سکیں.کیونکہ دین نام ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا.اللہ تعالٰے سے دُعا ہے کہ وہ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور ہمیں ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.آمین.
۹ فہرست مضامین نام مضمون قرآن مجید کی تلاوت کے آداب انبیاء کرام علیہم السلام کے اکرام کے آداب اکرام والدین کے آداب صفحہ نمبر ۲۱ ୯ ۵۹ 14 94 1.A نماز کے آداب جمعہ کے آداب مساجد کے آداب مجالس کے آداب راستوں کے آداب اور سر راہ نشست گاہوں کے استعمال کے آداب ۱۲۴ گفتگو کے آداب ١٣٢ 14A 1^.۱۹۴ ۲۰۵ ۲۱۹ ۲۴۱ ۲۴۹ ۲۶۳ ۲۷۲ سونے اور بیدار ہونے کے آداب باس کے آداب ملاقات کے آداب سلام کے آداب کھانے کے آداب پینے کے آداب دعوتوں کے آداب عیادت کے آداب تعزیت کے آداب سفر کے آداب نمبر شمار i 11 ۱۳ الم 14 K JA
قرآن مجید کی تلاوت کے آداب قرآن مجید تی و قیوم خدا کا وہ زندہ اور محفوظ پاک کلام ہے.جس کی ظاہری، پانی اور معنوی حفاظت خدا تعالٰی نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے جیسا کہ وہ سورۃ الحجر میں فرماتا ہے.إِنَّا عَن نَزَلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (سورة الحجر: 10) سنو ہم نے ہاں یقیناً ہم نے ہی اس شرف و عزت والے کلام کو آنحضرت لی اللہ علیہ وسلم پر آنا ہے.اورہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یقین ہم خود اس کی حفاظت کریں گے.قرآن مجید آسمانی ہدایت کا وہ مرضع تاج ہے جس پر تمام شریعتیں متفخر و نازاں ہیں.قرآن مجید ایک کامل اور جامع شریعت ہے اور ہدایت و حکمت کے ایسے دیے معاون اپنے اندر رکھتا ہے جس کے فرمینے بیش بہا اور کبھی نہختم ہونے والے ہیں.اس مقدس صحیفہ الہی کی عظمت و عزت اور ادب و احترام کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی ہدایات و آداب کے بارے میں معرفت رکھتے ہوں.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کیا خوب فرماتے ہیں.قرآں خدانم ہے خدا کا کلام ہے ہے اس کے معرفت کا حسین ناتمام ہے ر در ثمین صلاه مرتبه محمد یا بین صاحب شائع کرده را نا محمد یوسف سنتر)
۱۲ ذیل میں قرآن مجید کی ظاہری و باطنی عزت و تذکرہ کے متعلق قرآن مجید احادیث نبوتہ اور سنت سول کی روشنی میں آداب دا مور پیش کئے جاتے ہیں.- قرآن مجید عزت والا کلام ہے.اس لئے اسے پاکیزگی کی حالت میں چھوا 1 اور پڑھا جائے اللہ تعالیٰ سورۃ واقعہ میں فرماتا ہے.إِنه لَقُرانَ كَرِيم في كتب تَكْنُونِ O لا يَمَسُّهُ إِلا المُطَهَّرُونَ ) ر سورة الواقعه : ۷۸ تا ۸۰) جہاں اس کے معانی یہ ہیں کہ قرآن مجید کو وضو کر کے پڑھا جائے وہاں باطنی طور پر اس کے معانی یہ بھی ہیں کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف صرف اپنی لوگوں پر کھلتے ہیں جو دل کے پاک وصاف ہوں.بد کردار اور بد قماش اور گندے ذہن رکھنے والے لوگ قرآن مجید کے معارف اور بیش بہا حکمتوں سے بہرہ ور نہیں ہو سکتے اور جو لوگ گندے ارادوں سے اسے بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چاہیں وہ اس پاک کلام کو چھو نہیں سکتے.کیونکہ اس کتاب کے متعلق یہ دعوی ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ ایسے ہاتھوں میں رہے گی جو معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہوں گے.جیسا کہ سورۃ عبس میں آتا ہے.بادِى سَفَرَةٍ كرَام بَرَرَة (سورة عبس : ١٤١٩) قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم پاک حال اور پاک دل ہوکر قرآن مجید کو چھو دیں.جنبی مختلمہ ، حالفہ اور مستحاضہ ہونے کی حالت میں قرآن مجید کو نہ پکڑا جائے.قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے پہلے اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ
پڑھنا چاہیئے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل آیت 19 میں فرماتا ہے.فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ ! رسورة النحل : ٩٩).کہ اسے مخاطب ! جب تو قرآن مجیب پڑھے تو آمن بالله من ال قرآن مجید لازوال رحمتوں اور روحانی برکتوں کا خزانہ ہے جس کو مٹائے شیطان ہر وقت تیار رہتا ہے.بس اس فرزانہ کو کھولنے کے لئے اور شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے استعاذہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ قرآن پڑھنے والا شیطانی حملوں سے محفوظ ہو کر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں چلا جائے.سنت نبوی سے بھی یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت کے شروع میں اعوذ بالله من KNOWNLOAD NANGAN پڑھا کرتے تھے.ر سنت نبوی سے اَعُوذُ بِاللہ پڑھنا ثابت ہے) ۳.قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر تلفظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنا چاہیئے.کیونکہ پھر ٹھہر کر پڑھنے سے غلطی کا امکان نہیں رہنا.ہمیشہ رموز و اوقاف کا لحاظ رکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیئے حدیث میں آتا ہے.حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت انس سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر قرأت پڑھتے تھے.فقال كانت مد ا تو قَرَ المُمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ يَمُدُ بسم اللهِ وَيَمةُ بِالرَّحْمَنِ وَيَمْدُ بِالرَّحِيمِ بخاری کتاب فضائل القرآن باب مد القرأة انہوں نے جواباً فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرأت لمبی کر کے پڑھا کرتے تھے.اور پھرانہوں نے نبسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتائی.بسم اللہ کو اب کرکے
پڑھتے، الرحمن کو لمبا کر کے پڑھنے اور اسی طرح الرحیم کو لمبا کر کے پڑھتے تھے.حضرت اُم سیارہ سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا.قرءةٌ مُفَسَّرَةً حَرُفًا حَرْفًا ر ترمذی ابواب فضائل القرآن باب ما جأ كيف كانا قرأة البني) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت بالکل واضح ہوتی تھی اور ہر حرف جدا جدا ہوتا تھا.اسی طرح حدیث میں آتا ہے.كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقطعُ قِرَأَتَهُ يَقُولُ اَلحَمدُ لِلّهِ رَبّ الْعَالَمِينَ تُقِفُ ثُمَّ يَقُولُ الرَّحْمنِ الرَّحِيم تو يقف ترندی ابواب القرأة عن رسول الله) که نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم قرآن مجید جدا جدا کر کے پڑھتے تھے یعنی الحمد لله رب العالم تین پڑھ کر ٹھہر جاتے تھے پھر الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پڑھ کر پھر جاتے تھے.یعنی درمیان میں وقفہ فرماتے تھے.قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے بارہ میں ارشاد نبوی ہے يُقَالُ يصاحب القرآنِ اقْرَ أَوَاهُ مَا وَرَ تِلْ كَمَا كُنتَ تُريلُ في الدنيا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ الحَرايَةٍ نَقَرَاهَا.) مسند احمد بن حنبل جلد دوم 19 مطبع میمنته مصر).قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا چلا جا اور حبت کے درجات میں ترقی کرتا چلا جا اور ٹھہر ٹھہر کہ پڑھ جب کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے.
قرآن مجید کی ہر روز با قاعدگی کے ساتھ تلاوت کرنی چاہیے.اس کے پڑھنے کے لئے وقت کی تخصیص نہیں ہے.جب بھی وقت میسر ہو اس پاک کلام کو پڑھنا چاہیے جب کہ سورۃ المزمین میں ارشاد باری تعالی ہے.فَاقْرَرُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ القُرانِ (سورة المزمل : ٢١) کہ قرآن مجید میں سے جتنا بھی میسر ہو پڑھ لیا کرو.انسان جب چاہے اور جس وقت چلا ہے وہ کلام پاک کی تلاوت کر سکتا ہے لیکن فجر کے وقت قرآن مجید پڑھنا ایک مقبول عمل ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل میں فرمانا ہے ان قرانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً (سورة بنى اسرائيل : (۹) یقینا فجر کا قرآن پڑھنا اللہ کے حضور پیش ہونے والی چیز ہے.قرآن مجید پڑھنے والا جب قرآن مجید کا ایک دور مکمل کرتا ہے تو یہ دعا مانگتا ہے جو قرآن مجید کے آخر پر دعائے ختم القرآن لکھی ہے.وَارْزُشی تِلَاوَتَة ناء اليلِ وَأَنَاءَ النَّهَارِ (دعاء ختم القران) اے اللہ تعالیٰ مجھے قرآن مجید کی تلاوت کی توفیق بخش رات کی گھڑیوں میں اور دن کی گھڑیوں میں بھی.اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.وَاتْلُوهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ إِشَاء اللَّيْلِ وَأَمَا وَ النَّهَارِ قرآن مجید کی تلاوت کا جو حتی ہے اسی کے مطابق تلاوت کیا کرو.رات اور دن کے اوقات ہیں.(شعب الایمان للبی نفی جلد درم من ۳۵ مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
14 فرماتے ہوئے سُنا کہ قرآن مجید پڑھو.قیامت کے دن اپنے اصحاب کی شفاعت کرنے والا ہو گا.مسلم کتاب صلاة المسافرين وقصرها باب فضل قرأة القرآن في الصلوة وسورة البقرة ) حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا.جیس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا.وہ ایک نیکی ہے.اور نیکی دس گتے ہوگی.میں یہ نہیں کہتا کہ الد ایک حرف ہے بلکہ الف حرف ہے لام حرف ہے اور سیم حرف ہے.ترمذی ابواب فضائل القرآن باب ماجا في من قرأ حرفاً من القرآن ماله من اجبر ) -۵ قرآن مجید کو اس وقت تک پڑھتے رہنا چاہئیے جب تک کہ اس میں دل لگا ہے.حدیث میں آتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.نه.اقرء القُرانَ مَا انْفَلَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ يَا ذَا خَتَلَفْتُم فَقُومُوا د سنجاری و سلم - مشکواۃ کتاب فضائل القرآن) قرآن مجید کو اس وقت تک پڑھتے رہو جب تک اس میں دل لگا رہے ہیں جب طبیعت اکتا جائے تو اُٹھ کھڑے ہو.قرآن مجید کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا چاہیے کیونکہ قرآن مجید کی تلاوت دلوں کے زنگ دور کرتی ہے اور روحانی پجاریوں سے شفا حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے.قرآن مجید میں آتا ہے.ورتل القران ترتيلاً (سورة المزمل : ۵) حضرت براد بن عادت سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ن ينوا القران بأصوَاتِكُمُ (مشكوة كتاب فضائل القرآن) کہ تم قرآن مجید کو اپنی عمدہ آوازوں سے زینت دو.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.
14 لَيْسَ مِنَّا مَن لَّمْ تَغَنَّ بِالْقِرَاتِ دبخاری شریف مشکواة کتاب فضائل القرآن) کہ اس شخص کا ہم سے کوئی تعلق نہیں جو قرآن مجیب کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا.اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.حَسَنُوا الْقُرْآنَ بِاصْوَانِكُمْ فَإِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ يَزِيدُ القران حنا (مشكوة كتاب فضائل القرآن) اپنی عمدہ آوازوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کر و.کیونکہ اچھی اور عمدہ آواز قرآن مجید کو حسن میں بڑھا دیتی ہے.اسی طرح حضور فرماتے تھے.ما اذنَ اللهُ لِي مَا آذَنَ لِنَبِي يتغنى بالقرآن ( مشکوۃ کتاب فضائل القرآن) کہ نہ ہی اللہ نے اور نہ ہی بیٹی نے سوائے قرآن مجید کے کسی اور چیز کو نفٹنی سے پڑھنے اور سننے کو پسند فرمایا.قرآن مجید کی آیات میں انفصال اور مناسبت ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ترتیب اور ربط کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.قرآن مجید کے ظاہری الفاظ اور عبارت کی ترتیب بھی خود خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے الفظ قرآن کے معانی بھی چیزوں کو جمع کرتا اور آپس میں ملانا کے ہیں.لفظ قرآن فعلان" کے وزن پر ہے جو مبالغہ کے معنی دنیا ہے).قرآن مجید کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہیئے اور اس کا دور مکمل کرنا چاہیئے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے اور قرآن مجید کا دور مکمل فرماتے تھے.( مشکواة کتاب فضائل القرآن) - قرآن مجید کی تلاوت درمیانی آواز میں کرنی چاہیئے.نہ بہت بلند آواز سے اورنہ
بہت بھی آہستہ آواز سے قرآن مجید کی بلند ار منه فلا دت کرنے میں بھی اجر و ثواب ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے الجَامِرُ بِالقنواتِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالمُربِ الدوان المُسرِ بِالصَّدَقَة ( ترمذی ابواب فضائل القرآن) قرآن مجید کو بلند آواز سے پڑھنے والا علانیہ طور پر صدقہ دینے والے کی مانند ہوتا ہے اور آہستہ تلاوت کرنے والا خفیہ طور پر سرقہ دینے والے کی مانند ہے - قران مجید کی تلاوت خشوع و خضوع کے ساتھ کرنی چاہئیے.اللہ تعالیٰ سورۃ زمر میں فرماتا ہے.اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِها مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ اللَّذِينَ يَخشَوْنَ هُم ثُمَّ لينُ جُلُورُهُم و قُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكرِ اللَّهِ ذَابِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ (الزمر : ) ترجمہ : اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب اتاری ہے جو متشابہ ہے اور نہایت اعلیٰ ہے.جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں.ان کے جموں کے رونگٹے اس کے پڑھنے سے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر ان کے چھڑے اور دل نرم ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعہ سے ہدایت دیتا ہے.سورۃ انفال میں فرمانا ہے اِنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اينه ذادَتْهُ: ايمانا وَعَلَى بِهِ يَتَوَكُونَ ) (الانفال :۳)
مومن تو صرف رہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھردہ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سورۃ الحدید میں فرماتا ہے.السريان للذينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ.الحديد : ۱۷) کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے اور اس کلام کے لئے جو جو کے ساتھ اترا ہے جھک جائیں.حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اتي النَّاسِ اَحْسَنُ صَوْنَا الْقُرْآنِ وَاَحْسَنُ قِراةَ قَالَ إِذَا سَمِعْتَهُ يسرا أربتَ أَنَّهُ يَخْشَى الله ( مشکواة کتاب فضائل القرآن) کہ کون سا شخص اچھی آواز سے قرآن مجید پر فضا ہے اور کس کی قرات اچھی ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ جب تو اس سے قرآن مجید نے تو تو معلوم کرے کہ وہ اس جنگ میں تلاوت کر رہا ہے کہ اس کا دل خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے.حضرت ابو بکر صدیق کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ نہایت رقت اور خشیت کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اور آپ کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہوتی تھیں.ا بنجاری مناقب انصار باب المجرت ص۵۵۳) -۱۰ قران مجید کو همیشه سوزد گداز اور حضور قلب سے پڑھنا چاہیئے.قرآن مجید کو غور وفکر اور تدبر کے ساتھ پڑھنا چاہیئے تاکہ اس کے معانی اور مطالعہ سے واقفیت ہو سکے اور اوامر و نواہی پر عمل کیا جاسکے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.أفلا يتدبرُونَ الْفُوَانَ أَمْ عَلَى قُلُوبِ اثْفَالُهَا ) سورة محمد : ٢٥)
۲۰ کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے.کیا ان کے دلوں پر ایسے نفل ہیں جو ان کے دلوں کی پیداوار میں نیز فرمانا ہے انا امر ان قرانا عربياً لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورة يوسف (٣) یقینا ہم نے قرآن مجید کو جو اپنے مطالب کو خوب واضح کرنے والا سے اُتارا ہے تاکہ تم عقل اور تدبر سے کام لو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.وتَدَبَّرُوا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور تم اس کے معانی پر تدبر کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو.قرآن مجید کو قوالوں اور گولیوں کی طرز پر نہیں پڑھنا چاہیئے.اسی طرح قرآن مجید کو موسیقی کے ساتھ پڑھنا اور شعروں اور غزلوں کی طرح پڑھنا بھی تحسن نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا ہے.آپ فرماتے تھے اروا الفقر أن بِالعُونِ الْعَرَبِ وَاصْوَاتِهَا وَإِيَّاكُمْ وَتُحُونَ اِهْلِ العِشقِ وَلْحُوْنَ اَهْلِ الكِتابِينَ.وَسَجِنِي بَعْدِى قَوْم يُرْجِعُون بِالْقُرانِ تَرْجِيعَ العِنَاءِ وَ التَّوحِ لَا يُجَاوِةُ حَنَا جَرَهُمْ مَفْتُونَةٌ قلُوبُهُمْ وَقُلُوبُ الَّذِينَ يُعجبُهُمْ شَانُهُمْ (مشكوة كتاب فضائل القرآن) تم عربوں کے طریقہ اور ان کے لحن اور لہجہ پر قرآن مجید پڑھا کرو اور ان کی آوازوں کو اختیار کردہ تم عشاق ( غزل خواں) اور اہل کتب کا لحن اور لبہ اختیار کرنے سے بجو میں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو راگ اور گانے والوں اور نوحہ کرنے والوں کی طرح قرآن مجید بنا سنوار کر پڑھیں گے مگر قرآن مجید ان کی تصیلوں سے آگے نہیں اترے گا مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں پر اثر نہیں کرے گا.
۲۱ ٠١٢ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت خاموش رہنا چاہیے اور پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ قرآن مجید سنا چاہیئے تاکہ خدا تعالی کی رحمتوں اور یہ کتوں کو حاصل کیا جاسکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف میں فرماتا ہے.و إذا قرى الفرانُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَالْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ) الاعراف (۲۰۵) اور جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اُسے غور سے شنا کرد اور خاموش ہو جاؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے.قرآن مجید کی تلاوت کے وقت شور کہنا کافروں کا شیوہ تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورة حم السجدہ میں فرماتا ہے.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا القُرانِ وَالغَوافِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (حم سجده (٢٤) اور کافروں نے کہا کہ اس قرآن کو مت سنو.اور اس کے سنانے کے وقت شور مچاؤ تاکہ تم غالب آجاؤ.۱۳ قرآن مجید کو اس یقین کے ساتھ پڑھنا چاہیئے کہ اس کے اندر معارف اور علوم کے غیر محدود خزانے ہیں اور یہ شفَاءُ لِمَا فِي الصُّدُورِ (یونس : ٥٨) کا مصداق ہے اور فتنوں سے بچنے کا ایک بھاری ذریعہ ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وستم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عنقریب بہت سے فتنے پیدا ہوں گے.دریافت کیا گیا ان فتنوں سے خلاصی کی کیا صورت ہوگی اے جبرائیل.فرمایا فتنوں سے خلاصی کی صورت کتاب اللہ ہے.۱۴.قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت اگر سجدہ کی آیات آجائیں تو خواہ انسان کھڑا
۲۲ ہو یا بیٹھا ہوا سے سجدہ تلادت بجالانا چاہیئے.یہ سجدہ جتنا جلدی کیا جائے اتنا ہی اچھا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے وضو کا ہونا بھی کوئی اب ضروری نہیں.اس سجدہ میں تسبیحات مسنونہ کے علاوہ یہ دُعا مانگی جاتی ہے.سجد وجنى الَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوتِهِ تمندی ابواب الدعوات باب ما يقول في سجود القرآن جلد ۲ ص ۱) ترجمہ و میرا چہرہ سجدہ ریز ہے اس ذات کے سامنے جس نے پیدا کیا اور اپنی قدرت خاص سے اسے سنے اور دیکھنے کی قوت عطا کی.اللهُمَّ سَجَدَ لكَ سَوَادِي وَأمَن بِك فؤادی اے اللہ میراجسم تجھے سجدہ کرتا ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لانا ہے.اور سجدہ تلاوت میں یہ دعا بھی پڑھی جاتی ہے سَجَدَلكَ رُوحِی وَجَسَدِي وَجَنَانِي.نرمندی ما یقول في سجود القرآن جلد ۲ ص ۱۸) کہ اے اللہ ! سجدہ کیا تیرے لئے میری رح نے اور میرے ہم نے اور میرے دل نے.حضرت ابن عمرانہ کہتے ہیں کہ نبی کریم اگر ہمارے سامنے وہ سورۃ پڑھتے جس میں سجدہ ہوتا تو آپ سجدہ کرتے تھے اور ہم بھی اسی وقت سجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ ہم سے اماں سے اژدہام کے کوئی شخص پیشانی رکھنے کی جگہ نہ پاتا.تجرید بخاری (۲۲۹۵) امام اگر نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت کرے نو مقندی بھی ساتھ کہدہ بھائی کی.قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں قرآن مجید کی بعض سور نہیں حفظ بھی کرنی چاہئیں تاکہ خدا تعالیٰ کے نور سے ہم اپنے سینوں کو منور کر سکیں.حضور صلی اللہ علیہ دستم فرماتے تھے.ان الَّذِى لَيْسَ فِى جُونِهِ شَيْءٍ مِّنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الخَرِبِ ( ترمذی ابواب فضائل القرآن)
۲۳ جس شخص کے دل میں قرآن مجید کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ بمنزله ویران گھر کے ہے.پس ضروری ہے کہ کم از کم قرآن مجید کے بعض حصوں کو حفظ کر کے ہم اپنے گھروں کی آبادی در رونق کے سامان پیدا کریں ۱۶ قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنا چاہئے تاکہ ہم حاملین قرآن بین کر خدا تعالیٰ کے اہل شمار کئے جاسکیں.حدیث میں آتا ہے.اِنَّ لِلّهِ اَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ قال أهل القرآن أهْلُ الله وصَاحَتُهُ ابن ماجه مقدمه باب فضل من تعلم القرآن وعلمه باب ۱۴ ص۱۷) لوگوں میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کے اہل ہیں.صحابیہ نے دریافت فرمایا.یارسول اللہ وہ لوگ کون ہیں.آپ نے فرمایا.حاملین قرآن اللہ تعالٰی کے اہل اور اس کے خاص بندے ہیں.۱۷ قرآن مجید پڑھ کر، یا ترجمہ سیکھ کر یا حفظ کر کے بھلانا نہیں چاہیئے.حضرت سعد بن عبادہؓ سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَا مِن إمري يقرأ القرآن ثم لا إلا لقى الله يوم القِيَامَةِ أَجْدَم استن ابی داؤد باب نمبر 1ه الشديد في من حفظ القرآن ثم نسيه ص ۵۳۹) اردو ترجمہ علامہ وحید الزماں مطبع زاہد بشیر پر نروں ہور ) کہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں کہ جس نے قرآن مجید پڑھا اور اُسے سیکھا اور پھر اُسے پھیلا دیا تو وہ قیامت کے دن مجزوم ہونے کی حالت میں اللہ تعالٰی سے ملے گا.اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن باندھے ہوئے اونٹ کی
۲۴ مثل ہے اگر اس کی خبر داری کرو تو ڑ کا رہے گا اور اگر اس کو کھولا تو چلا جائے گا.ا مشكوة كتاب فضائل القرآن باب في مزاولة تلاوة القرآن) قرآن مجید کو بھولنے سے بچانا چاہیئے حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بات بڑی ہے کہ کوئی تم میں سے کہے کہ فلاں فلاں آیت بھول گیا.بلکہ یہ کہے کہ وہ آیت مجھ سے بھلادی گئی.اور قرآن یا درکھو کیونکہ دہ آدمیوں کے سینوں سے چلے جانے میں وحشی جانور سے زیادہ ہے.تجرید بخاری حصہ دوم ص ۳۸۳) ۱۸: قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے وقت مندرجہ ذیل کلمات جوا یا پڑھنے چاہئیں.مثلاً سورۃ الفاتحہ کے آخر میں ولا الضالین کے جواب میں امین کہنا مستحب ہے اس کے معانی ہیں.اے اللہ ! تو ہماری دعا قبول فرما.وائل بن حجرہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالين کہ کر امین کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے.ر مشکوة كتاب الصلاة باب القرأة في الصلوة) صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام امین کہے تم بھی امین کہو.جس کی امین فرشتوں کی امین سے مل جائے اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.بخاری کتاب الدعوات باب التأمين) واک سورة فتح میں مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کے جواب میں صلی اللہ علیہ وسلم کیا چاہئے.سورة الرحمن میں حباتى الآء ا بكُمَا تُكَذِّبَانِ کے جواب ہیں لَا بِشَيْءٍ مِن نِعْمَتِكَ نُكَذِّبُ يَا ربنا.اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کی بھی تکذیب نہیں کرتے.(ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سورة رحمن)
۲۵ سورۃ الواقعہ کے آخر میں نَسَبِّحُ بِاسْمِ رَابِكَ الْعَظِيمِ ہ کے جواب میں سُبحن ربي العظيم پاک ہے میرا رب بڑی عظمت والا.( تفسیر ابن کثیر جلد نمبر ۴ ص۳) " سورۃ بنی اسرائیل کی آخری آیت وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي يَعْتَخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلَى مِنَ الذُّل وَكَبَرُهُ تَكْبيراً اس کے جواب میں تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ پڑھ کر آگے آیت الحَمدُ لله الذي لم يتخذ ولدا.....پڑھی جائے.تفسیر ابن کثیر عربی مطبوعه مصر جلد نمبر ۳ صن سورۃ الملک کے آخر میں فَمَنْ يَّاتِيكُم بِمَاءٍ مَعِينٍ کے جواب میں اللهُ يَأْتِينَا بِه وهو الله رَبُّ العالمين (تفسیر جلالین ص ۲۹ مطبوعہ مطبع نظامی دہلی) اللہ اسے ہمارے پاس لائے گا اور وہ سب جہانوں کا پالنے والا ہے.سورۃ المزمل کے آخر میں واستغْفِرُ والله کے جواب میں استَغةِ الله میں اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتا ہوں.ص۴۳ ر تفسیر ابن کثیر جلد ۴ ص ۳م عربي مطبوعة مصر فيه غفور الرحيم لمن استغنو) سورۃ القیامة کے آخر میں ان بتحبى الموتى کے جواب میں بَلَى اِنَّهُ شاد على كل شي قدير ہاں یقیناً وہ ہر چیز پر پورا پورا قادر ہے تفسیر ابن کثیر جلد ۴ ص ۵۲) عربی مطبوعه مصر منجا ما قبل) سورہ مرسلات کے آخر میي فَيَانِ حَدِيثِ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ کے جواب میں آمنا باللہ ہم اللہ پر ایمان لائے.الاتقان جلد اول عربی صلا مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) سورۃ النبا کے آخر میں كُنتُ تُرابا کے جواب میں استَغْفِرُ اللہ میں اللہ سے
بخشش مانگتا ہوں.سورۃ الاعلیٰ کے شروع میں سبح اسمر بك الاعلىہ کے جواب میں سُبح ربی الاعلیٰ پاک ہے میرا رب جو بلندشان والا ہے.( جو اسر الاحسان تغییر سورة الاعلى ) سورۃ الغاشیہ کے آخرمی اِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمُہ کے جواب میں اللهُمَّ حَاسِبُنِي حِسَابًا تَسِيرًا (تفسیر کبیر جلد ۸ مش ۴ نیا ایڈیشن) ترجمہ ار اے اللہ ! میرا حساب آسان لیجیو.سورۃ التین کے آخر میں الیس الله با حكم الحَالِمِينَ ہ کے جواب مير بلى وأنا عَلَى ذلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ جواهر الاحسان تفسير سورة التين ترجمہ : ہاں اور میں اس بات پر گواہوں میں سے ہوں.اور سورة النصر کے آخر میں فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِره كے جواب میں سُبحنَكَ اللهُمَّ ربنا وبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا (بخاری کتاب التفسير تفسير سورة العصر ۱ - تلاوت کرتے وقت جہاں عذاب کا ذکر ہو رہاں یہ دُعا کرنی چاہیئے.اللهم لا تعد بنا اے اللہ ہم کو عذاب میں مبتلا نہ گرا در جہاں جنت کا ذکر ہو تو دعا کریں.اللهُمَّ اَدْخِلْنَا فِي / حميك (الاتقان جلد اول من اے اللہ ! ہم کو اپنی رحمت میں داخل فرما.- - ۲۰ - قرآن مجید پڑھانے کا معاوضہ نہ طلب کیا جائے ، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے.ولا نَسْتَعْجِلُو اثْوَابَهُ فَإِنَّ لَهُ ثواباً.البيهقی فی شعب الایمان جلد نمبر ۲ ص ۳۵ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
اس کا بدلہ (دنیا میں طلب نہ کردے.کیونکہ آخرت میں اس کے لئے بڑا اعبر ہے.۲ قرآن مجید کو عزت واحترام کے ساتھ بلند جگہ پر رکھنا چاہیئے تاکہ آتے بہتے ہوئے اس کی طرف پشت نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے يَا أَهْلَ الْقُوَّانِ لا تَتَوَسا، والقرآن البیہقی فی شعب الایمان جلد نمبر ٣ من ۳۵ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت اے اہل قرآن ! تم قرآن مجید کو تکیہ نہ نہار.یعنی اپنے سروں کے نیچے نہ رکھو.ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآنی ارشاد وَمَنْ يُعْظِمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَايْهَا مِنْ تَقُوى الْقُلُوبِ والحج : ٣٣ کے مطابق قران مجید کی عزت و تکریم کریں.- رکوع اور سجود میں قرآنی آیات کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے بلکہ عبودیت کے نک میں رنگین ہو کہ اپنی زبان میں دعائیں کرنی چاہئیں.سجدہ اور رکوع فروتی کا مقام ہے اور قرآن مجید بزرگ و برتر اور خدائے ذوالجلال والاکرام کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت کا تقاضا کرتا ہے.اس لئے نماز میں ہمیشہ کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الا و إني نهيت ان اقرأ القرآنَ رَ العَا اَرُ سَاجِدُ أَفَا مَّا الركوع فَعَظْمُوا فيه الرتِ وَا مَّا السجودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ فَقَمَن ان يُسْتَجَابُ لَكُم (مشكوة كتاب الصلوة باب الركوع) سنوا کہ میں منع کیا گیا ہوں اس سے کہ پڑھوں قرآن حالت رکوع یا سجدے ہیں.لیکن رکوع میں پر وردگار کی عظمت بیان کر دا در سجدہ میں دعا کی بہت کوشش کرد.پس سزا وار ہے کہ قبول کی جائے تم سے.۲۳.قبروں پر بیٹھے کہ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرنی چاہیئے اور احادیث سے بھی یہ
بات ثابت نہیں کہ کبھی صحابیہ نے حضراکرم صلی الہ علیہ سلم کی قبر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھا ہو.بلکہ نسائی جلد اول میں ہے قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِدَنْ يُجْلِسَ اَحَدُكُمْ صَلَّى عَلى جَهْرَةٍ حَتَّى تَحْرَقَهُ خَيْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ تَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ (سنن ابن ماجد کتاب الجنائز باب ما جاء في النهي عن المشي على القبور والجلوس عليها) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم میں سے کسی کا آگ کی چنگاری پر بیٹھ کر جلنا قبر پر بیٹھنے سے اچھا ہے.اس حدیث سے قبروں پر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھنے کی ایک قسم کی نہی مطلق کا استنباط ہوتا ہے ۲۴ (مسجد اله مجموعه فتادی احمدیہ جلدا صه المولفه مولوی محمد فضل صاحب چنگوی مطبوعه خادم التعلیم پریس لاہور) میت کے لئے صف بجھا کر اور بیٹھ کر قرآن مجید نہیں پڑھنا چاہیے.کیونکہ یہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت نہیں.یہ بدعت ہے اور رسم ہے اور نہ ہی روٹیوں پر قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہئیے یہ سب بدعت کے دروانے ہیں.-۲۵ - قرآن مجید کو ایک رکعت میں ختم نہیں کرنا چاہیئے.بعض لوگ جو ایک رکعت میں قرآن شریف ختم کرنا فخر سمجھتے ہیں وہ در حقیقت لاف مارتے ہیں دنیا کے پیشہ ور لوگ بھی اپنے اپنے پیشہ پر ناز کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طریق سے قرآن تم نہیں کی بلکہ چوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتا گیا.جواله مجموع فتاوی احمدیه مردان موافقه مولوی محمد فضل صاحب چنگوی مطبوعہ خادم التعلیم پریس لاہور) ہفتہ بھر میں قرآن مجید (پڑھنا) ختم کرنا حد ہے.
۲۹ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا.تو قرآن کیونکر ختم کرتا ہے.انہوں نے جواب دیا.سر رات آپ نے فرمایا.واقرء القرآن في كُلِّ شَهْرٍ اور قرآن مہینے بھر میں ختم کیا کرو.جب عبد اللہ بن عمرو نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے تو آپ نے انہیں فرمایا وَاقْرَأ فى كُلِّ سَع لِيَالٍ مَرَةٌ اور قرآن سات روز میں ختم کیا کر وہ کہتے ہیں پیس کاش کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت منظور کر لینا.کیونکہ اب میں بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہوں.اب وہ اپنے کسی گھر والے کو ساتوں حصہ قرآن کا دن میں سند لیتے.۲۶ تجرید بخاری حصه دوم ص ۳۰۴ ترجمه از مولوی فیروز الدین مطبوعہ کواپریٹو سٹیم پریس لاہور) قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو بے ادبی سے بچانے کے واسطے جلا دیا جائے تو کیا جائز ہے ؟ حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے فرمایا جائز ہے.حضرت عثمان نے بھی بعض اوراق جلائے تھے.نیت پر موقوف ہے اجوال مجموعه فتادی احمد به جلد دوم مثه مولفه محمد فضل صاحب سینگوی) ہیں چاہئے کہ ہم حاملین قرآن مجی دین کو اللہ کے اہل بن جائیں اور قرآن مجید کی تلاوت شب وروز کے اوقات میں کریں.اس کے معانی اور مفہوم پر غور وفکر کریں.اور اس کے تمام آداب کو مدنظر رکھیں.اسے حفظ کریں.اور اس نور سے اپنے گھروں کو رونق بخش میں تاقیامت کے دن قرآن مجید ہمارا شفیع بن جائے اور اس حدیث نبوی
کے مطابق خدا ہمیں اپنے ہاں سے اجر عظیم عطا کرے.آمین.يقول الرب تبارك وتعالى مَنْ شَعْل القرآن عن ذكرى و مسى أعطَيْتُهُ أَفْضَلُ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ ر ترمذی ابواب فضائل القرآن آخری حدیث) جس شخص کو قرآن کریم میں مشغولیت کی بنا پر ذکر کرنے اور دعامانگنے کی فرصت نہیں ملتی ہیں اس کو بہت دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں....
۳۱ انبیاء کرام علیہ السلام کے اکرام کے آداب اند تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو ملامت دیگر اہی سے بچانے کے لئے اور انہیں انسانی اقدار سے روشناس کرانے کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے بنی اور رسول مجھے جیسا کہ ان سورة النحل رکوع ہ میں فرماتا ہے.ولقد بعثن في كُلِّ أُمَّةٍ تَرَّ سُوة (الحل : ٣٤) اور یقینا ہم نے ہر ایک قوم میں رسول بھیجے انسان اس کائنات کا آخری نفط ہے.اللہ تعالیٰ جو رحیم دردود ہے.اس نے اُس کی روحانی ترقی کے لئے اپنے فرستادے بھیجے تا اُن کے ذریعہ سے انسانیت آزادی کا سانس لینے لگے اور نا انسان اپنے خالق ومالک سے ایک پختہ اور دائمی تعلق قائم کرے.اور حقیقت یہ ہے کہ نبی ایک عظیم الشان لیلۃ القدر ہوتا ہے جب تک وہ دنیا میں ظاہر نہ ہو.انسان کا قدم ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتا کیونکہ بنی کے ذریعہ قوم کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا جاتا ہے اور بنی نوع انسان میں نسلی امتیازات کو ختم کر کے سادات قائم کی جاتی ہے.اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے.پس جہاں انبیاء علیهم السلام آسمان روحانی کی زمینیت کے محافظ ہوتے ہیں وہاں وہ اس قرآنی دعوی كتب الله لاَ عَلَينَ أَنَا رَهُ سُلِي (المجادله (۲۲) کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میکے رسونی غالب رہیں گے کے
۳۲ مطابق یقین اور ایان کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں اور اپنی پاک روحانی تاثیرات سے اور خدائی نصرت سے اپنے دشمنوں اور مخالفوں پر غلبہ پاتے ہیں.سلسلہ ثبوت اور رسالت تمام اقوام میں جاری وساری رہ چکا ہے.انبیاء کے اس سلسلہ میں فخر دو جہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سماء روحانیت کا وہ سراج منیر ہیں جن کی منو پاکش کرنوں سے کائنات کا ذرہ ذرہ چمک اُٹھا.جن کے وجود اطہر سے تمام انبیار کی صداقتوں کو محفوظ کر دیا گیا اور جین کی بعثت تمام بنی نوع انسان کے لئے تھی.اللہ تعالیٰ نے خود آپ کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا.نُدْيَا يُّهَا النَّاسُ إِني رَسُولُ اللهِ الَكُمْ جَمِيعًا (سورة الاعراف (۱۵۹) کہ اسے لوگو یا میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس آج بھی اس زندہ نبی حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض جاری و ساری ہے.آج بھی آپ کے سکھائے ہوئے آداب و اطوارا در اخلاق کریمانہ ہیں ایک کامیاب اور مثالی اور جنتی زندگی گزارنے کا درس دے رہے ہیں.ذیل میں قرآن مجید اور سنت نبوی اور حدیث کی روشنی میں نئی سے فیض حاصل کرنے کے آداب درج کئے جاتے ہیں.انبیاء کرام کے نام پیشہ عزت واحترام کے ساتھ لئے اور تحریر میں لائے جائیں اللہ تعالیٰ سورہ منافقون میں فرماتا ہے.وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلكِنَّ المُنافِقِينَ لا يعلَمُونَ ) (منافقون : 9) حالانکہ عزت اللہ ہی کے لئے اور اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے لیکن یہ منافق نہیں جانتے.۰۲ انبیاء علیهم السلام کا نام لیتے اور لکھنے) پر علیم السلام ضرور کہا جائے.کہ خدا تعالیٰ کے ان برگزیدہ وجودوں پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ سلامتی اور
جمنیں نازل ہوتی رہیں.٣٣ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے 1 قلِ الْحَمدُ لِله وَسَلَّمُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى العمل : (۶۰) (4.تو کہ کہ ہر تعریف کا اللہ تعالیٰ ہی مستحق ہے اور اس کے وہ بندے جن کو ہر کا الہ تعالیٰ کو اُس نے چُن لیا ہے اُن پر ہمیشہ سلامتی نازل ہوتی ہے.نوٹ ، انبیاء کرام میں مدارج کا فرق ہے.اور حضرت موصل صلی الہ عیہ ستم نے عراج کی رات حضرت آدم کو پہلے آسمان پیر اور دوگر آسمان پر حضرت عیسی اور حضرت سیجی علیھا السلام کو اور تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام کو جو تھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام کو پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ اسلام کو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تھا.اور آپ سدرۃ المنتھی پر پہنچ گئے تھے ہیں حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور خاتم النبیین ہیں.دبخاری کتاب بنیان نلعبته باب المعراج ) آپ کا نام گرامی لینے سننے اور تحریر میں لانے پر صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بجالانے چاہئیں.ارشادِ باری تعالی ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيماً (الاحزاب ۵۷۰) اے مومنو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجتے رہو اور (خوب جوش و خروش سے) اس کے لئے اسلامتی کی دعائیں مانگتے رہا کرو.خود بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُمت کو یہ نصیحت کی ہے.حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہر یہ کہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میری قبر
۳۴ کو عید گاہ نہ بناؤ.اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ.البتہ مجھ پر درود بھیجو کہ یہ مجھے پہنچتا ہے جہاں بھی تم ہو ا مسند احمد بن حنبل جلد دوم ص ۳۶ مطبوعہ طبع میمنه مصر و حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما با خاک آلود ہو ناک اس شخص کی جس کے پاس میں ذکر کیا جاؤں اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے د مسند احمد بن حنیل فیلد دوم ص ۲۵۲ مطبوعہ مطبع میمنه (مصر) ۳.ہربنی نے اپنے قوم کو جو پیغام دیا وہ یہی تھا کہ اللہ کا تقوی اختیار کرد ادر میری اطاعت کرو جیت که قرآن مجید میں ہے فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (سورة الشعراء: ۱۳۲۰۱۲۷۲۱۰۸ ، ۱۸۰۰۱۶۴۰۱۴۵) کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کر و ا در میری اطاعت کرو.) خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا پہلا زینہ انبیا علیہم اسلام سے تعلق پیدا کرنا اور ان کی کامل اطاعت کرنا ہوتا ہے.جس پر چڑھ کر انسان رھاتی ترقی کے غیر متنا ہی مدارج حاصل کرتا ہے اور پھر خدا نما وجود بن جاتا ہے.پس بنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت کی جائے کیونکہ آپ کی اطاعت کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں کر سکتے.جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے.قل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَالله غَفورٌ رَّحِيم (العمران : ٣٢) تو کہہ دے کہ اے لوگو ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو.اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.اور اللہ ہت بخشنے والا اور بار با رحم کرنے والا ہے.
۳۵ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کو اللہ تعالی کی اطاعت کرنا کہا گیا ہے.من يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله (النساء : (٨) جو اس رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرے گا پس گویا اس نے اللہ تعالٰی کی اطاعت کی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے.بجز انکے جنہوں نے انکار کیا.عرض کیا گیا.یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا.فرمایا.جس نے میری پیروی کی.جنت میں داخل ہوا.اور میں نے میری نافرمانی کی.اس نے ابھی کیا (انکار کیا) د بخاری کتاب الاعتصام باب الاقتدا و لبن الرسول) ۴.انبیاء کے مقام ادب کو شناخت کیا جائے، یہ کہ سر نی راستباز تھا.ہر بنی پر سچا ایمان لایا جائے.جیسا کہ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ و إسمعيل وإسحقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِي مُوسَى وَعِيْنى وَمَا أُوتِي النَّبِيُّونَ مِنْ تَرَ بهِمْ ؟ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.(البقرة : ۱۳۷) تم ہو.ہم اللہ پر درجو کچھ ہماری طرف نازل کیا گیا اور جوکچھ ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا اور جو موٹی اور عیسی کو اور دے نیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں.ہم ان میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں.پھر ارشاد ہے.
امنوا بالله وله مسله ( سورة آل عمران آیت (۸۰) پس تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد ایمان میں سے یہ بات قرار دی ہے کہ تمام پیغمبروں اور ان کی کتابوں پر ایمان لایا جائے پس توحید کے بعد محمد کی رسالت کا دل و جان اور عمل سے اقرار کہ نا تو انسان کو جنت کا مستحق بنا دیا ہے.انبیاء علیہم السلام کی عزت کے لئے غیرت دکھائی جائے.ان کی عزت و عظمت کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہ کیا جائے اور نہ ان مجالس میں بیٹھا جائے جن میں ان کے خلاف دل آزار باتیں کی جارہی ہوں اور ان کا تمسخر کیا جارہا ہو.انبیاء آیات اللہ ہوتے ہیں.ان کی عزت دستان کی حفاظت کی جائے ، جیب کہ سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الكِتبِ آن إِذَا سَمِعْتُمُ ايَتِ اللهِ لكيف بها ويُسْتَها بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمُ (النساء : ۱۴۱) اور اس نے اس کتاب میں تم پر یہ حکم انار چھوڑا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کے متعلق اظہار انکار سنو یا ان سے استہزاء ہوتا ہوا سنو.تو تم ان کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں تم ان کے پاس بیٹھنے کی صورت میں ان جیسے سمجھے جاؤ گے..4 کمال ادب کا یہ تقاضا ہے کہ انبیاء کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کی جائے.ان کے محاسن و شمائل ان کی عادات واخلاق.ان کے اطوار زندگی کو اپنا یا جائے اور چونکہ انبیاء کی صفات و کمالات کا کامل نمونہ اور جامع وجود محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے.آپ صلی اللہ علیہ و سلم خدا تعالیٰ کے انوار کا خلاصہ ہیں اور فضل و ہدایت حاصل کرنے کا منبع ہیں.آپ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان
ایسے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ آپ کو واسطہ بنائے بغیر آپ کا وسیلہ حاصل کئے بغیر کوئی شخص خدا کا قرب اور فضل اور اس کی محبت حاصل نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ اپنے اس برگزیدہ رسول کو اسوہ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرُوا اللهَ وَاليَومَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيران ( سورة الاحزاب : ۲۲ ) تمہارے لئے (یعنی ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور اخروی دن سے ملنے کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں.اللہ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے رجس کی انہیں پیروی کرنی چاہئیے).آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں اور فیضان حیات کے مالک ہیں.آپ اتی سلسلہ انبیاء میں کامل اور عظیم المرتبت بنی ہیں.جن کی کامل متابعت میں قرب خداوندی حاصل کیا جاسکتا ہے.آپ تمام بنی نوع انسان میں اپنی تمام صفات حمیدہ اور کمالات عظیمہ کے لحاظ سے یکتا اور بے مثال وجود ہیں کہ آپ کی پیروی ذاتاً وصفاتاً قولاً و عقلاً ، فعلاً وحالاً حياً وكمالاً کی جائے.پس خدا تعالی کے بعد آپ سے ایسی شدید محبت کی جائے جو دوسری تمام محنتوں پر غالب آجائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که : اگر تمہارے باپ دادا تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے دوسرے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور مکان جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستہ میں جہاد کرنے کی نسبت سے زیادہ پیارے ہیں کہ تم انتظار کہ دیہاں تک کہ اللہ تعالے اپنے فیصلہ کو ظاہر کر دے اور اللہ اطاعت سے نکلنے والی قوم کو کبھی کامیابی کا راستہ نہیں دکھاتا.( سورة التوبه (۲۴)
قرآن پاک میں اس جاہ وجلال اے نبی اورحبیب کبریا سے فیض حاصل کرنے کے آداب بیان کئے گئے ہیں مومن جب کسی قومی مشورہ کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوں تو وہ بغیر اجازت کے آپ کی مجلس سے نہ جائیں.اگر وہ الیسا کریں گے تو وہ مومن نہیں ہوں گے.جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِيْنَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمر جَامِعَ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْنَا زِنْؤُهُ إِنَّ الَّذِينَ يَشَا دُونَكَ أولَئِكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُوله - (سورة التورا ۶۳) صرف وہی لوگ مومن کہلانے کے مستحق ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب کسی (قومی) کام کے لئے (اس) رسول کے پاس بیٹھے ہوں تو اٹھ کر نہیں جاتے.جب تک اس کی احیازت نہ لے لیں.وہ لوگ جو کہ اجازت لے کر جاتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں.سول کریم صلی الہ علیہ وسلم اپنے صحابیہ کو اس شدت کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کرنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ انہیں طبعی ضروریات کے لئے بھی مجلس سے بلا اجازت جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.ایسی حالت میں صحابہ سرک کر سامنے آجاتے با انگلی اٹھا دیتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھے جاتے کہ کوئی حاجت ہے اور ہاتھ کے اشارہ سے جواب دے دیتے.ا تفسير كبير سورة النور مر ۴۰ جلد ششم نیا ایڈیشن) رسول کی آواز کو عام لوگوں کی آواز کی طرح خیال نہیں کرنا چاہئیے مومن کا فرض ہے کہ جب اس کے کان میں رسول کی آواز آئے تو اس پر فورا لبیک کہے.اور اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑے.-
۳۹ اللہ تعالیٰ سورۃ النور میں فرماتا ہے.لا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ط ( النور : ۲۴) اے مومنو! یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا.بلکہ نبی کی آواز کا جواب دینے کے متعلق تو یہاں تک حکم ہے کہ اگر انسان اس وقت نماز پڑھ رہا ہو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے ہول کی آواز کا جواب دے لا تفسير كبير سورة النور جلد ششم مه ۴۰، ۴۰۹ نیا ایڈیشن) صحابہ کرام انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر پروانہ کی طرح آپ کے گرد جمع ہو جایا کرتے تھے ، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ حنین کے موقعہ پر جب اسلامی شکر میں بھگدڑ مچ گئی.اور کفار کا لشکر جو تین ہزار تیر اندازوں پر شمل تھا آپ کے دائیں بائیں پہاڑیوں پر چڑھا ہوا، آپ پر تیر برسا رہا تھا.اور آپ کے گرد سرف بارہ صحابی رہ گئے تھے.اس وقت بھی آپ آگے بڑھتے رہے اور جوش سے کہتے جاتے تھے.انا النبيُّ لا كَذِبُ - أَنَا ابْنُ عَبد المطلب ہوں.بخاری کتاب التفسیر باب و یوم حنين اذا اعجبتكم ) یعنی میں موعود نبی ہوں.چھوٹا نہیں ہوں.میں عبد المطلب کا بیٹا یعنی پونا ) آپ کے چچا حضرت عباس کی آواز بہت اونچی تھی.آپ نے ان کو فرمایا.عیاس.آگے آؤ.اور آواز دو.اور بلند آواز سے پکارو کہ اے سورۃ بقرہ کے صحابیو ! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ نو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے حسب اسلامی تشکرہ کا اگلا حقہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دور پڑیں اور جتنا ہم روکتے تھے اتنا ہی وہ
پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں.یہاں تک کہ عباسی کی آواز میدان میں گونجنے لگی کہ اسے سورۃ بقرہ کے صحابیواے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! خدا کا رسول تمہیں جاتا ہے." یہ آواز جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوں اور اسرائیل کا صور فضا میں گونج رہا ہے.ہیں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اس کا سر پیٹھ سے لگ گیا.لیکن وہ انشاید کا ہوا تھا کہ جونہی میں نے لگام ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا.اس پر میں اور میسر بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں.اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنا شروع کر دیا.اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا آپ کے گرد و جمع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اس نے دشمن کو تحس نحس کر دیا اور یہ خطر ناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بدل گئی.التفسير كبير سورۃ النور جلد ششم در ۴۰، ۴۱۰م نیا ایڈیشن) مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے رسول کے سامنے بڑھ بڑھ کہ باتیں نہ کیا کریں.اور نہ ہی وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر اپنی آرزؤں اور دلی خواہشوں کو ترجیح دیا کریں.حبیب کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات آیت نمبر ۲ میں فرماتا ہے.ايُّهَا الَّذِينَ امَولَا تَقدِمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ واتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ سَيْعُ عَلِيمٌ ٥ اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے.حابه کرام و حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع مقام کو جانتے تھے اور پاس ادب کرتے ہوئے حضور کے سوالوں کے جواب میں کہتے تھے.اللہ اور اس کا رسول ہم
۴۱ سے زیادہ جانتا ہے.فیض رسالت جذب کرنے کے لئے مومنوں کو یہ ادب بھی سکھا یا گیا کہ نبی کی آداز سے اپنی آواز اونچی نہ کیا کرو.اور نہ اس کے سامنے بلند آواز سے بات کرد.لیکہ اپنی آواز کو دھیما رکھو.اگر ایسا نہ کیا تو اعمال کے ضائع ہونے کا ڈر ہے.سورۃ الحجرات آیت ۳ اور ہ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ الذِي وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ أسحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوى لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَاجُرُ عَظِيم.(الحجرات ۴۰۳) ترجمہ اور اسے مومنو انٹی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے اس کے سامنے اس طرح بولا کہ و بھی طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے سامنے اونچا بولتے ہو.ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم جانتے بھی نہ ہو.دہ لوگ جو اپنی آوازوں کو رسول کے سامنے دیا کہ رکھتے ہیں، وہی ہیں جن کے دلوں کا اللہ نے تقویٰ کے لئے پوری طرح جائزہ لے لیا ہے اور ان کے لئے مغفرت اور بڑا اجر مقدر ہے.مومنوں کو چاہیے کہ وہ بغیر اجازت نبئی کے گھر نہ آئیں.مومنوں کو چاہیے کہ وہ نبی کا وقت ضائع نہ کیا کریں.اور بعد میں بیٹھ کر بھی باتیں نہ کیا کریں.سورة الاحزاب رکوع میں ان آداب کا ذکر کیا گیا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ امنو الاحد خُلق بيوت النبي الا ان تُونَ
۴۲ أكُمْ إِلى طَعَامِ غَير نظرِينَ إِنه وَلكِن إِذَا دُعِيمْ فَادْخُلُوا نا ذا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلا مُسْتَانِسِينَ لِحَدِيثُ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِتَى فَيَسْتَحْيِ مِنْكُمُ واللَّهُ لَا يَسْتَحْيِ مِنَ الْحَقِّ ( الاحزاب :۵۴) اے مومنو !انی کے گھروں میں سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے بلایا جائے ہرگز داخل نہ ہوا کرو.وہ بھی اس شرط سے کہ کھانا پکنے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہا کرد اور نہ باتیں کرنے کے شوق میں بیٹھا کرو.ہاں جب تم کو بلایا جائے تو پھر ضرور چلے جایا کر د پھر جب تم کھانا کھا چکو تو اپنے اپنے گھروں کو چلے جایا کرو.یہ امر یعنی بے فائدہ بیٹھنا یا پہلے آجانا نبی کو تکلیف دیتا تھا.مگر وہ تم سے حیا کرتا تھا مگر اللہ تعالی اچھی بات بیان کرنے سے باز نہیں رہتا.رسول سے مشورہ کرنے سے پہلے نذرانہ پیش کرنا چاہیئے.سورہ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا مَا جَيْهُمُ الرَّسُولَ فَقَدِ مُوا بَيْنَ يَدَى نحو لَكُمْ صَدَقَةً ، ذلِكَ خَير لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَم جدُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُور رحيم ه (المجادله (۱۳) اے ایمان دارو ! جب تم رسول سے الگ مشورہ کرنا چاہو تو اپنے مشورہ سے پہلے کچھ نذرانہ دیا کرو.یہ تمہارے لئے اچھا ہوگا اور دل کو پاک کرنے کا موجب ہوگا.اور اگر تم کوئی بھی چیز نہ پاؤ.پس یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.صدقہ سے مراد یہاں نذرانہ ہے.رسول سے کثرت کے ساتھ سوال ایسے نہیں کرنے چاہئیں.جو سنت اللہ اور قانون شریعت کے خلاف ہوں جن سوالات کا کوئی فائدہ نہ ہو اور جن سے وقت ضائع ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کثرت سوال سے منع فرمایا تھا.اور حضرت موسی کی قوم کی طرح کے سوال کرنے کی ممانعت فرمائی تھی.اللہ تعالی قرآن مجید
سورة البقرہ آیت نمبر 19 میں فرماتا ہے.قبل اَمْتُرِيدُونَ أَن تَسْتَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُلِلَ مُوسَى مِنْ کیا تم اپنے رسول سے اسی طرح سوال کرنا چاہتے ہو جس طرح اس سے پہلے سے ہو موسیٰ سے سوال کئے گئے.تورات سے پتہ چلتی ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسی سے بات بات پر سوال کرتے تھے اور قرآن مجید سورۃ نسار آیت ۱۵۴ میں آتا ہے.پس انہوں نے کہا (موسی سے) فَقَالُوا اَرانَا اللَّهَ جَهْرَةً سورة العناء : ۱۵۴ که تو خدا کو ہمارے آمنے سامنے لا کر دکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال پوچھے تا کہ ہم بھی سن لیں.گویا انہیں اس قدر وقار اور ضبط حاصل تھا کہ خود کوئی سوال پوچھنے کی جرات نہیں کرتے تھے.اور ادب کا کمال یہ ہے کہ رسول جو کچھ تم کوے دو لے لو اور وہ اختیار کرو اور میں سے منع کرے اس سے باز آجاؤ.جیسا کہ سورۃ الحشر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے.وَمَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا الحشر، (٨) اور جو کچھ تمہیں رسول دیتا ہے اسے لے لو.اور جس چیز سے تمہیں منع کرے اس سے باز آجاؤ.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم مجھے چھوڑے رکھو.جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم سے پہلے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے اپنے انبیاء پر سوال بہت کرتے اور اختلاف کثیر رکھتے ہیں جب تمہیں کسی چیز سے رد کوں تو رک جاؤ
୯୯ اور جب حکم دوں تو لیقدر اپنی طاقت کے اس کی تعمیل کرد.بخاری کتاب الاعتصام باب الاقتداء لبن الرسول حابہ کرام نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پیردی است از رنگ میں کی.حضرت عالیش این ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطا یے کو دیکھا کہ حجر اسود چومتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ میں جانتا ہوں کہ تو پھر ہے نہ نفع پہنچائے.نہ ضرر دے سکے.اگر ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیا.اسبخاری کتاب المناسك باب ما ذكر في البحر الاسود) عبد اللہ بن مفضل سے روایت ہے کہ رسول الی الہ علیہ تم نے شکار کرنے کیلئے پھر گولیاں پھینکنے سے منع فرمایا کہ جب اس سے نہ شکار مرے نہ دشن زخمی ہو.تو مضر ہے.ہاں بے شک آنکھ پھوڑتا اور دانت توڑتا ہے.استخاری کتاب الذباح والصيد والسمية باب الحذف والبنونة ابن مفضل کے ایک رشتہ دار نے ایسا کیا.آپ نے اسے منع فرمایا.وہ نور کا تو فرمایا.میں نے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا حکم بیان کیا.اور تم پھر بھی رہی کیا کرتے ہو ہیں تم سے عمر بھر کلام نہ کردوں گا.بخاری کتاب الذبائح والصيد والمقسميه باب الحذف والبندقة) نبی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے ذومعنی الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں.جن الفاظ کے مادہ میں ہے ادبی گستاخی اور اہانت پائی جائے ہمیشہ ادب کے الفاظ اور طریقے استعمال کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تَقُولُوا المَا وَقُولُوا الْفُرْنَا وَاسْمَعُوا وللكَافِرِينَ عَذَاب الیم (سورة بقره (۱۰۵) اے ایماندار و ! رسول کو مخاطب کر کے راعنا مت کہا کرو اور انتظر نا کہا کہ دو اور غور سے اس کی بات سنا کرو.اور منکروں کے لئے دردناک عذاب مقدر ہے
یہود کا مقصد مسلمانوں کے دلوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور ادب کو کم کرنا تھا.اس لئے وہ آپ کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جن میں جنک اور شرارت مد نظر ہوتی تھی.اور گستاخی پائی جاتی تھی.وہ بیچ دے کر اور لفظ کو بگاڑ بگاڑ کر راعنا کا لفظ استعمال کرتے تھے.گورا عنا کے معنی لغت کے لحاظ سے یہ ہیں کہ تو ہمارا خیال رکھے ہم تیرا خیال رکھیں گے لیکن وہ اپنی زبان کو پہنچے دے کر راعینا کا لفظ بولتے جس کے معنی ہیں اے ہمارے چروا ہے.اسرعنا لفظ بولتے جس کے معنی بے وقوف ، خود پسند انسان کے ہیں.گویادہ ہنسی اور مذاق کے طور پر یہ لفظ استعمال کرتے تھے چونکہ اس لفظ کے مادہ میں بے ادبی کا مفہوم پایا جاتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس لفظ کو استعمال کرنے سے منع کر دیا اور حکم دیا کہ انظرنا کے الفاظ بیولا کر وحیں میں بے ادبی کا کوئی احتمال نہیں اور جو رسول کی عزت و شان کے مطابق ہیں.اور ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسول کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار ایسے الفاظ اور طریقوں سے کرے جن میں سراسر ادب و احترام پایا جاتا ہو.
اکرام والدین کے آداب والدین وہ نعمت عظمیٰ ہیں جس کا کوئی بدل نہیں.ان کے اولاد پر اس قدر احسانات ہوتے ہیں کہ اولاد ان کا حق ادا نہیں کر سکتی.ان کا جتنا بھی ادب و احترام اور خدمت کی جائے وہ کم ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صرف ایک صورت میں والدین کا حق ادا ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ماں باپ کسی کے غلام ہوں اور اولاد انہیں خرید کر آزاد کر دیے.والدین اپنی اولاد سے سچی اور بے لوث محبت رکھتے ہیں.اور اس کو آرام و آسائش مہیا کر نے اور اس کی بہترین تربیت کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اولاد کی خوشی میں والدین کی خوشی ہوتی ہے اور اولاد کے غم میں والدین کا غم مضمر ہوتا ہے.والدین کے احسانات کا اندازہ لگانا ایک محال امر ہے.اسلام وہ اعلیٰ درجہ کا مذہب ہے جس نے والدین کے حقوق اور ان کی تکریم کے آداب سکھائے تاکہ اولاد ان کی بجا آوری سے جنت حاصل کر سکے اور ان کی دُعاؤں کے طفیل خدا تعالے کی خوشنودی پالے.آئیے قرآن مجید مسنت نبوی اور احادیث نبویہ کی روشنی میں والدین کی عزت و تحریم کے آداب ملاحظہ کریں.( 1 + والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے.قرآن مجید میں والدین کے ساتھ
۴۷ بھلائی سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے.حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے.اور توحید کے حکم کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا تاکیدی محکم آیا ہے.اللہ تعالے سورۃ النساء میں فرماتا ہے.وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (النساء : ۳۷) ترجمہ : اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو.پھر سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا.(بنی اسرائیل : ۲۴) اور تیرے رب نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو.سورۃ احقاف میں ارشاد ہے.وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا - (الاحقاف (۱۹) کہ ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا تاکیدی محکم دیا ہے.سورة عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا - (عنکبوت (۹) اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھا سلوک کرنے کا محکم دیا ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں.میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالے کو کونسا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا.وقت پر نماز ادا کرنا
میں نے پوچھا پھر کونسا عمل ؟ فرمایا والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا.میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا معمل ؟ فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا.بخاری کتاب مواقيت الصلواۃ باب فضل الصلواة لوقتها) حسن سلوک کے سلسلہ میں ماں کا درجہ باپ سے زیادہ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کو حمل اور وضع حمل کی تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں.بچے کی پرورش اور تربیت میں ماں کا دخل بہت زیادہ ہوتا ہے.سورة احقاف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ومتنا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهَا وَ وَضَعَتْهُ كُرها (الاحقاف : ۱۶) اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا تاکیدی محکم دیا.اس کی ماں نے میری مشقت کے ساتھ اُسے پیٹ میں اُٹھایا اور بیری مشقت کے ساتھ اُسے جنا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک ارشاد ہے.الجنة تحت اقدام الأمهات.(کنز العمال جز ۱۶ حدیث نمبر ۴۵۴۳۹) کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور سے یہ سوال کیا.کونسا آدمی زیادہ حق اس امر کا یہ کھتا ہے کہ اس سے مصاحبت نیک کروں؟ فرمایا.تیری ماں.عرض کیا پھر.فرمایا تیری ماں.عرض کیا پھر.فرمایا تیری ہاں موض کیا پھر.فرمایا تیرا باپ.د بخاری کتاب الادب باب من احق بحسن الصحة )
۴۹ ۲ - والدین کی اطاعت کرنی چاہیے.اور ان کے محکم کی تعمیل کرنی چاہیئے.لیکن اگر وہ خلاف شریعت حکم دیں تو ان کی بات نہ مانی جائے.جیسا کہ اللہ تعالے سورۃ لقمان میں فرماتا ہے.وَإِن جَاهِدُكَ عَلَى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلَه فَلَا تُطِعْهُمَا ( سورة لقمان : ۱۶) اور اگر وہ دونوں تجھ سے اس بات پر جھگڑا کریں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں.پس تو ان کی اطاعت نہ کر.والدین کی نافرمانی کو حدیث میں کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ( ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في حقوق الوالدین) ماں باپ کی فرمانبرداری میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.ماں باپ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے اور ماں باپ کی نافرمانی خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے د کنز العمال جلد ۱۶ حدیث نمبر ۴۵۴۷۹ ۳ - والدین کی خدمت کی جائے.اگر والدین تنگ دست ہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق ان کی ضروریات زندگی کو بھی پورا کیا جائے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ مَا الْفَقْهُ مِنْ خَيْرِ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ.(سورة البقرة : (۲۱۹) تو کہ کہ جو مال بھی تم خرچ کرو تو وہ والدین اور رشتہ داروں کے لئے ہے.والدین کی خدمت کرنے سے انسان جنت کو حاصل کر لیتا ہے.
حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اس شخص کی ناک خاک آلود ہو.یہ بات آپ نے تین دفعہ دہرائی جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا.یا ان دونوں میں سے ایک کو.اور جنت میں داخل نہ ہوا.اسلم كتاب البر والصلة باب رغم انف من ادرک ابویه ) ایک شخص نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا.تمہارے جنت دوزخ ہیں ابن ماجه ابواب الادب باب تبر الوالدين) مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کی رضامندی حاصل کر لو گے تو جنت میں جاؤ گے.اور اگر ان کی ناراضگی حاصل کی تو جنت سے محروم رہ جاؤ گے.اور دوزخ میں داخل ہو گئے.بعض حالات میں والدین کی خدمت جہاد سے بھی بالاتر ہوتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں جہاد پر آپ کی بیعت کرتا ہوں.حضور نے پوچھا.کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے.اُس نے کہاں.ہاں دونوں.آپؐ نے فرمایا.تو واپس جاؤ اور ان کی خدمت میں جدوجہد کرو.رياض الصالحين باب تبر الوالدين وصلة الارحام) حضرت اویس قرنی وہ خوش قسمت صحابی تھے جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھا نہ تھا.اپنی والدہ کی خدمت میں مصرف رہنے کی وجہ سے وہ حضور کی زیارت نہ کر سکے تھے لیکن اُنہیں ”صحابی“ ہونے کا شرف حاصل ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے.مجھے یمن کی طرف سے خوشبو آتی ہے (حضور نے ایک بار اس کے متعلق فرمایا تھا.اس کی ماں ہے وہ اس سے
۵۱ نیک سلوک کر نیوالا ہے وہ ایسا نیک بخت ہے کہ اگر اللہ پر قسم کھائے تو اللہ اس کی قسم سیتھی کر دے اسلم کتاب الفضائل.فضائل اویس قرنی ) اللہ تعالے کے ہاں والدین کی خدمت کو بہت مقبولیت حاصل ہے.اس بات کا اندازہ ایک حکایت سے ہوتا ہے.جو حضور نے ایک دفعہ بیان کی کہ تین شخص سفر پر گئے.رات کو ایک غار میں پناہ لی.ایک پتھر کے لڑھکنے خار کا دریا نہ بند ہو گیا.تب مسافروں نے اپنے نیک ترین عمل کے واسطہ سے خدا کے حضور التجا کی.ان میں سے ایک نے کہا.اے خدا.میرے والدین بوڑھے تھے.میں اُن سے پہلے نہ اپنے بیوی بچوں کو اور نہ لونڈی غلاموں کو خوراک دیتا تھا.ایک دن مجھے کسی سبب سے گھر آنے میں دیر ہوگئی.واپس آیا تو دیکھا کہ ماں باپ سوچکے ہیں.میں نے دودھ دوھا.مجھے گوارا نہ ہوا کہ ان سے پہلے کیں اپنے بیوی بچوں ، لونڈی اور غلاموں کو کھلاؤں.میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لے کر اُن کے سرہانے کھڑا ہو گیا کہ وہ جاگیں تو پئیں.اسی انتظار میں رات گزر گئی.صبح ہوئی تو ان کی آنکھ کھلی اور انہوں نے دودھ پیا.اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا تھا تو تو اس پتھر کی مصیبت کو دور کر دے.اس پر پتھر کچھ سرک گیا.(اس کے بعد باقی دو شخصوں نے بھی اپنے نیک ترین عمل کے ذریعہ خدا سے التجا کی اور دعاؤں سے وہ پتھر ہٹ گیا.) البخاری کتاب الادب باب اجابة الدعاء من بر الوالدين) پس جہاں تک ہو سکے والدین کی خدمت کی جائے.ان کی ناراضگی سے بچا جائے.کیونکہ والدین کی دعا شرف قبولیت پاتی ہے.حضور کا فرمان ہے.تین دعائیں بلا شبہ قبول ہوتی ہیں.(1) مظلوم کی دُعا.(۲) مسافر کی دعا
۵۲ (س) والد کی دُعا بیٹے پہ.ر ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی دعوت المسافر) هم والدین بہت عزت و احترام کے مستحق ہوتے ہیں.ان کے سامنے رحمت آمیز بجز اختیار کرنا چاہیے.سورۃ بنی اسرائیل میں یہ ہدایت دی گئی ہے.واخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ (من اسرائيل :(۲۵) کہ ان کے سامنے شفقت اور رحمت کے بازو مجھکا دے.حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اپنے والدین پر شفقت کی نظر ڈان ہے اس کے لئے ایک مقبول حج لکھا جاتا ہے.دکنز العمال جلد ۱۶ حدیث نمبر ۴۵۴۹۶) حضور اکرم صلی الہ عیہ وسلم کی دالر ماجدہ آپ کے بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں.آپ کی کنیز ام ایمیں نے آپ کی خدمت کی.آپ جب انہیں دیکھتے تو امی کہہ کر پکارتے اور فرماتے یہ میرے گھرانے کا بقیہ ہیں.آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ کے بعد اُم ایم منہ ہی میری والدہ ہیں.ایک بار حضرت اُم ایمن ص نے حضورہ کو دیکھا کہ آپ پانی پی رہے ہیں.انہوں نے حضور سے کہا کہ مجھے بھی پانی پلائیے.حضرت عائشہ بولیں.کیا تم حضور کو ایسا کہتی ہو؟ اُم ایمین نے کہا.تم نے مجھ سے بڑھ کر حضور کی خدمت نہیں کی.حضور نے فرمایا.یہ سچ کہتی ہیں.آپ پانی لائے اور اہم امیں یمن کو پلایا.البداية والنهاية جلد پنجم ص ۵۵ اردو مطبوعه نفیس اکیڈمی کراچی) صره حضور حضرت ام المین سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ابویی
۵۳ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عروض سے کہا کہ چلو - ممر امین کی زیارت کو.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اسکے ہاں جایا کرتے تھے.جب ہم اس کے ہاں پہنچے تو وہ روپڑی.پوچھا.کیوں روتی ہو ؟ کیا تم نہیں جانتیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس سے بہتر ہے.اس نے کہا.میں اس لئے نہیں روتی کہ میں یہ بات جانتی نہیں.بلکہ اس لئے روتی ہوں کہ وحی آسمان سے آنا منقطع ہو گئی.یہ سُن کر ابو بکر و عمریض کو بھی رونا آگیا.اور دونوں رونے لگے.ر مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل أم ايمن ۰۵۱ والدین کے ساتھ ہمیشہ مودبانہ گفتگو کرنی چاہیے.اُن کے ساتھ سخت کلامی نہیں کرنی چاہیے نہ اپنے منہ سے اور نہ ہی اپنے عمل سے انہیں دُکھ دینا چاہیے.اللہ تعالے سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے.إمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ اَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُما فَلَا تَقُلْ ان ولا تنهَى هُمَا وَحَل لَهُمَا قَوْلًا كَريما ( سورة بنی اسرائیل (۲۴) ترجمہ در اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر جبکہ وہ تیرے پاس ہوں ٹیڑھا یا آجائے تو تو انہیں دان کی کسی بات پہ ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ.اور نہ انہیں جھڑک اور اُن سے شریفانہ طور پر نرمی سے بات کرہ.قرآن مجید نے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور ان کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ کے احسان کی قدر کرنے سے انسان خدا تعانے کے احسان کی قدر کی حقیقت کو پالیتا ہے.اسلام نے ماں باپ کے ساتھ نرم اور پسندیدہ بات کرنے اور ان کی خدمت کے متعلق خاص ہدایت دی ہے.
۵۴ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.مَن أدرك أحد والديهِ ثُمَّ لَمْ يُغْفَرُ لَه مابعده الله عز وجل رواه احمد ر مسند احمد بن حنبل جلد ام ۳۴۲ مطبوعہ مطبع سیمینه مصر یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے پھر اس کے گناہ معاف نہ کئے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے.اللہ تعالے نے والدین کی احسانمندی کو اپنی احسانمندی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے.ان اسكولي وَلِوَالِدَيْكَ - (لقمان : ١٥) کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا بھی احسان مندرہ.خصوصا جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کا پورا ادب کیا جائے.اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکالی جائے جو انہیں میری معلوم ہو.انہیں نہ سنایا جائے اور نہ دُکھ دیا جائے بلکہ زمی اور تہذیب کے ساتھ ان کے ساتھ گفتگو کی جائے تاکہ ان کی رضامندی حاصل ہو.-4 والدین کے ادب واحترام کے ضمن میں انسان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ ایسا طرز عمل اختیار کرے کہ دنیا والے بھی اس کے والدین کے ساتھ عزت احترام سے پیش آئیں.اُسے چاہیئے کہ وہ دوسروں کے والدین کی عزت و تحریم کرے اور اُن کے ساتھ کبھی گستاخانہ کلام نہ کرے.حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے.صحابہ نے عرض کیا.کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے ؟ فرمایا.کوئی شخص کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے
ده اور وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے.بخاری کتاب الادب باب لا تسب الرجل والده ) - والدین کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئیے.اللہ تعالے نے والدین کے حقوق قائم فرماتے ہوئے ان کے لئے دُعا بھی سکھائی ہے جیسا کہ فرماتا ہے.وقل رب ارحمهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.رسورۃ بنی اسرائیل : (۲۵) اور تو کہہ کہ اے میرے رب ! تو ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت سے بچپن میں مجھے پالا ہے.نماز کی دعاؤں میں انسان اپنے والدین کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے اور اپنے کرب سے یوں گویا ہوتا ہے.ربنا اغفر لي وَلِوَالِدَى (ابراہیم (۲۲) اے میرے پروردگار مجھے اور میرے والدین کو بخش دے.والدین کے اقارب سے بھی محسن سلوک سے پیش آنا چاہئیے.اگر وہ ضرورتمند ہوں تو ان کی مدد کرنی چاہئیے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ ولم نے والدین کے قادر ہے محبت کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی تاکید فرمائی ہے.حضور فرماتے تھے کہ چچا باپ کی مثل ہوتا ہے.ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا.جس نے میرے چچا ر حضرت عباس ) کو ایذاودی اُس نے مجھے ایزاد دی.ترندی ابواب المناقب باب مناقب الى العضل عم النبي وهو العباس بن عبدالمطلب) ایک دفعہ آپ نے حضرت عباس کی زکوۃ اپنے پاس سے دی اور فرمایا چھا بھی تو باپ کی مثل ہوتا ہے.ر مسلم کتاب المذكورة باب ما يجب فيه الحشر و نصف الحشر)
۵۶ ایک دن ایک شخص آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے.کیا اس سے توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ آپ نے پوچھا.کیا تمہاری ماں زندہ ہے ؟ بولا نہیں.پھر پوچھا.کیا تمہاری خالہ ہے ؟ جواب دیا.ہاں.آپؐ نے فرمایا.تو اس سے نیکی کرو.ترندی ابواب البر والصلة باب ماجاء فی تبد الخالة) حضرت برا دین عادی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ خالہ بمنزلہ والدہ کے ہے.رتمندی ابواب البر والصلة باب ما جاء فی تبر الخالة) حضرت ام المومنین میمونہ نے ایک لونڈی آزاد کی.تو آپ نے انہیں فرمایا کہ اگر تو اپنے ماموں کو دے دیتی تو تجھے بڑا اجر ملتا.بخاری کتاب المحبته وفضلها والتحريص عليها ) -- والدین کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھنا چاہیے.حضور کا ارشاد ہے کہ بہترین نیکی یہ ہے کہ والد کے تعلقات کو زندہ رکھا جائے والد کے دوستوں کو چچا کے برابر اور والدہ کی سہیلیوں کو خالہ کے برای چکھنا چاہیے ابن دینار سے روایت ہے.ایک اعرابی ابن عریضہ کو مکہ کی راہ میں ملا.اسے حضرت عبداللہ بن عمر نے سلام کیا اور جس سواری پر سوار تھا.اس پر اسے سوار کر لیا.اور اپنے سر کی دستار سے دیدی.ابن دینار کہتا ہے ہم نے ابن عمر سے کہا.یہ اعرابی لوگ ہیں تھوڑی سی بخشش سے خوش ہو جاتے ہیں.ابن مریم نے کہا.اس کا حق ہے.کیونکہ اس کا باپ میرے باپ ( عمر بن خطاب ) کا دوست تھا اور میں نے سول کریم صل اللہ علیہ وسلم سے منا کہ فرماتے تھے.بڑی سعادت مندی یہ ہے کہ آدمی باپ کے دوستوں سے ملاپ اور نیک سلوک کرے.اسلم كتاب البرد الصلة باب فضل صلة اصدقاء الاب والام نحوها
حضرت عائش ہی نہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں میں سے کسی پر شک نہیں کیا.جیسے حضرت خدیجہ پر کیا.میں نے تو اُسے نہیں دیکھا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بہت ذکر فرمایا کرتے تھے اور اکثر بکری ذبح کر کے اس کے اعضاء اس کی سہیلیوں کو بھیجا کرتے.میں اکثر کہا کرتی.گویا دنیا میں فتہ مجرم کے سوا کوئی اور عورت ہی نہیں.آپؐ فرماتے.وہ ایسی نیک تھی.ایسی تھی.اور اس سے میری اولاد تھی.(بخاری کتاب المناقب باب ترویج النبي خدیجتة و فضلها) -۱۰ والدین کی خدمت گزاری اور ان کی احسانمندی کا حق ان کی زندگی میں ہی ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے.اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی نیکیوں کو جاری و ساری رکھے اور ہمیشہ نیکی کی راہوں یہ سر قدم مارے تا کہ اولاد کی نیکی کا ثواب والدین کو بھی پہنچتا رہے اور جنت میں ان کے درجات بلند ہوں ان کے لئے بخشش کی دعا مانگنے رہنا چاہیئے.حدیث میں آتا ہے بنو سلمہ میں سے ایک آدمی نے حضور سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا.ہاں.چار سلوک.ان کے جنازے کی نمازہ اُن کے لئے دعا و استغفار اُن کے وعدوں کو پورا کرنا.اُن کے دوستوں کی عزت کرنا.اور وہ صلہ رحمی جو صرف اُن کی وجہ سے ہو.یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے.رابو داؤد کتاب الادب باب في بر الوالدين ) بنو سلمہ کا ایک آدمی آپ کے پاس آیا.اس نے کہا.اے اللہ کے رسول.ماں باپ کے وفات پا جانے کے بعد ان کا کوئی حق باقی رہتا ہے.جسے میں ادا کردوں.آپؐ نے فرمایا.ہاں ان کے لئے دُعا و استغفار کرو.(ابو ان ابو داؤد کتاب الادب باب فی تبر الوالدین) تبر
ہم یہ لازم ہے کہ ہم قرآنی ارشادات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر اپنے والدین کی صدقِ دل سے خدمت کریں.اُن سے حسن سلوک سے پیش آئیں تا ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے اور ہم جنت کے حقدار بن جائیں.آمین.
۵۹ نماز کے آداب نماز فارسی زبان کا لفظ ہے.عربی زبان میں نماز کے لئے صلواۃ کا لفظ آتا ہے.صلوۃ کا لفظ.صلی سے نکلا ہے جس کے معانی ہیں آگ میں داخل ہونا.پس صلوٰۃ کے ایک معانی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں داخل ہوتا.لفظ الصلواۃ صلی سے مشتق بھی ہے جس کے معانی دُعا کرنے کے ہیں.الصلوۃ کے اصطلاحی معانی ہیں.ایسی عبادت جس میں رکوع وسجود ہوں گویا صلواۃ کے معانی نماز کے ہیں جو ایک مکمل دعا ہے الدعاء مخ العبادة ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء في فضل الدعاء) حد حیادت کا مغرف ہے.لفظ صلواۃ اپنے اندر وسیع معانی رکھتا ہے.اس کے دو کے معانی یہ ہیں.رحمت، شریعت استغفار، دعا، تعظیم اور برکت نبیح.نماز اسلام کی عمارت کا دوسرا رکن ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے.یہ وہ پُر مغر، عبادت ہے جو مومن اور کافر کے درمیان امتیاز پیدا کرتی ہے.نماز دہ اعلی درجہ کی عبادت ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنا خاص فضل کرتے ہوئے نازل کی ہے.اور جس کے بجا لانے سے انسان ہرقسم کی برائیوں پہلے جائیوں ، لغو باتوں اور ناپسندیدہ امور د حرکات سے بچ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ المُنكَرِ (سورة العنكبوت : ۴۶)
یقیناً نماز بے حیائیوں اور ناپسندیدہ کاموں سے روکتی ہے.حدیث شریف میں آتا ہے.الصلوةُ مِحْرَاحُ المُؤْمِنِ که نماز مومن کی معراج ہے.یہ وہ روحانی ترقی کا زینہ ہے جس پر چڑھ کر انسان خدا تعالیٰ کی ملاقات کا شرف حاصل کر لیتا ہے.نماز مومن کی روح کی غذا ہے اور جنت کی کلید ہے.نماز کا پڑھنا ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر فرض ہے.اسلامی نماز ایک ایسی جامع عبادت ہے جس میں تمام اقوام کے طریق عبادت کو جمع کر دیا گیا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نماز عقیدت و محبت اور ادب و احترام کے لحاظ سے بھی انسانی جذبات کی بہترین عکاس ہے.ذیل میں قرآن مجیبہ سنت نبویہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیئے گئے نماز کے آداب درج کئے جاتے ہیں تاکہ ہم ان پر عمل پیرا ہو کر اپنے محسن خدا کی زیارت کر سکیں.نماز جیسی عظیم الشان عبادت کو بیجا لانے کے لئے ضروری امر یہ ہے کہ پہلے اچھی طرح وضو کیا جائے کیونکہ وضو عینی طہارت نماز کی کنجی ہے.اور وضو سے پہلے حاجات ضروریہ سے بھی فارغ ہو لینا چاہیئے.I حدیث میں آتا ہے لا صَلوةَ....وَهُوَيدَافِعُهُ الْأَحْبَاتَانِ اسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوة باب كراهيته الصلوة بحضرة الطعام المرادا كله) یعنی اس حالت میں نماز نہیں ہوتی جب دو سخت نا پاک چیزیں (یعنی پیشاب اور پاخانہ اُسے روک رہی ہوں.وضو کرنے سے پہلے بسم الله الرحمن الرحیم پڑھنی چاہئے کیونکہ ہم الہ وضو کی کنجی ہے.وضو کرتے وقت کلمہ شہادت پڑھتے رہنا چاہیے (مسلم دنجاری) اور بعد میں یہ دُعا پڑھنی چاہیئے.اللهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلَنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ (کنز العمال جلد نمبر 9 کتاب الطهارة باب اذكار الوضوع ) :
اے اللہ مجھے تو بہ کرنے والوں میں سے نیا اور مجھے پاکیزگی اختیار کرنے والوں میں سے بنا.نماز ادا کرنے سے پہلے وضو کرنے کا حکم قرآن مجید میں چھٹے سیپارے کے چھٹے رکوع میں آیا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ امنوا إِذَا تُمْتُم إِلى الصَّلوة فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَايْدِيكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِكُمْ وَأَن جَنَّكُمْ إِلَى الكَعْبَيْنِ (سورة المائده :) اے مومنو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کیوں تیک دھولو.اور اپنے سروں کا مسح کر لیا کرو.اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھو لیا کرو.وضو کے لئے اگر پانی میسر نہ ہو.یا انسان بیمار ہو.یا بیمار ہونے کا خدشہ ہو تو پھر وضو کی بجائے تقسیم کا حکم آیا ہے.جب کہ ارشاد باری تعالی ہے.فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ (سورة المائده : ۷ پس تم پاک مٹی سے تمیم کر لیا کرو.اور اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا اس سے سے کر لیا کرو.حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما مَن تَوَضَّأَ فَاحْسَنَ الوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَطْفَارِ؟ ر مسلم كتاب الطهارة باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء) جو شخص اچھی طرح وضو کرے اس کے قصور اس کے جسم سے یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے اندر سے بھی نکل جاتے ہیں.
حضرت ابو سر یہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب سلمان اور مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا منہ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کی وہ تمام بدیاں ڈھل جاتی ہیں جن کا ارتکاب اس کی آنکھوں نے کیا ہو.پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھونا ہے تو پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ اس کی وہ تمام غلطیاں ڈھل جاتی ہیں جو اس کے دونوں ہاتھوں نے کی ہوں.یہاں تک کہ وہ گنا ہوں سے پاک وصاف ہو کر نکلتا ہے پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کی وہ تمام غلطیاں پانی یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دھل جاتی ہیں جس کا اس کے پاؤں نے ارتکاب کیا ہو.یہاں تک کہ وہ تمام گنا ہوں سے پاک وصاف ہو کر نکلتا ہے.مسلم کتاب الطهارة باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء) یا درکھنا چاہیے کہ ناز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ جو شخص وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جاتا ہے وہ نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے (کنز العمال عربی مطبوعہ مصر جلد ۷ ص ۲۹ حدیث نمبر (۱۸۹۶۴) ۲ نمازی کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاک و صاف لباس میں نماز ادا کرے اور جس جگہ وہ نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہو وہ بھی پاک وصاف ہو اور اس کا جسم بھی پاک ہو کیو نکہ خدا تعالیٰ جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے.اسی طرح وہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے.اصطبل، نتیجه ، قبرستان ، راستوں کے درمیان حمام ، اونٹوں کے بندھنے اور بیٹھنے کی جگہ اور خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا منع ہے.ترندی ابواب الصلوۃ باب ما جاء في كراهينه ما ليصل اليه وفيه ) قرآن مجید پارہ نمبر 1 رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
رطة دبي الطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرَّكَعِ السُّجُودِ (سورۃ الحج : ۲۷) اور پاک رکھ میرا گھر رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے.کنان بن الحصین سے مردی ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے.قبروں کی طرف نماز مت پڑھو.اور نہ ان پر بیٹھو.مسلم کتاب الصلوۃ باب النهي عن الجلوس القبر والصلوة عليه) حضرت عائش نہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا او السواك مَطْهَرَةُ لِلغَم مَرْضَاة للرب وستن شائی کتاب الطهارة باب السواك اذا قام من الليل) مسواک کرنامنہ کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب ہے.اوقات ممنوعہ میں نماز ادا نہ کی جائے کیونکہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے ان ادفات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے.سورج کے طلوع اور غروب کے وقت اور عین دوپہر کے وقت کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیئے نہ فرض نماز نہ نفل.ان اوقات میں نماز پڑھنے کی مانعت اس لئے کی گئی ہے کہ طلوع اور غروب آفتاب کے وقت مشرک اور بت پرست اپنے معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں..نماز وقت مقررہ پر ادا کی جائے کیونکہ وقت مقررہ پر نماز ادا کرنا وقت کی پابندی کا درس دیا ہے نیز اجتماعیت کی روح کو زندہ رکھنے کا موقعہ بھی ملتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.إنَّ الصَّلوة كَانَتْ عَلَى المُؤمِنِينَ كتابا موقوتاً (سورة النساء (۱۰۴) یقینا نماز مومنوں پر فرض مؤکدہ ہے.
۶۴ وقت پر نماز ادا کرنا اللہ تعالی کے نزدیک مقبول ترین عمل ہے.حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا.اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ساعمل زیادہ پسند ہے.آپ نے فرمایا.نماز جو وقت پر ادا کی گئی ہو.(تجرید بخاری حصہ اول (۱۳) عذر کے باعث دو نمازوں کو ملاکر پڑھنا جائز ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں سات دفعہ مغرب اور عشاء اور آٹھ دفعہ ظہر وعصر کو ملا کر پڑھا ہے.(یہ عذر کے باعث کیا تھا) دہ مواقع جن میں پیغمبر خدا نے نمازوں کو جمع کیا ( تجرید بخاری حصہ اول (۱۳۴) را، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کو جاتے وقت ظہر و عصر کو جمع کیا..اور پھر عرفات سے واپس ہو کر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کیا.فروه خندق میں آپ نے پانچوں نمازوں کو جمع کیا.,.آپ نے سفروں میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو جمع کیا.مجموعه فتادی احمدیه من جلد اول مرتبه مولوی محمد فضل صاحب چنگوی) اگر کوئی شخص نماز بھول جائے یا سو جائے اور وقت پر نماز نہ پڑھ سکے تو ہیں وقت یاد آئے یا بیدار ہو تو اس وقت وضو کر کے نماز پڑھ لے.بعد از وقت نماز ادا کرنے کو قضا کہتے ہیں.مومن کو چاہیئے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی نام نمازوں کی حفاظت کرے اور اس قرآنی ارشاد کو ہمیشہ مد نظر رکھے.حاتِظُوا عَلَى الصَّلَوتِ وَالصَّلوة الوسطى وَقُومُوا لِلَّهِ فَنِتِينَ رسورۃ بقره : ۲۳۹) ترجمه تم تمام نمازوں کا اور (خصوصاً) درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو.اور اللہ کے فرمانبدار ہو
کہ کھڑے ہو جاؤ.احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز وسطی سے مراد وہ نماز ہے جو کام کے درمیان آجائے نماز عصر کو بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز وسطی قرار دیا ہے لو جنگ احزاب میں عصر کی نماز سے کفار نے جب آپ کو روکا تو آپ نے فرمایا.خدا ان کے گھروں اور ان کی قبروں اور ان کے پیٹیوں کو آگ سے انہوں سے ہمیں صلوۃ وسطی سے روک دیا ہے) د بخاری کتاب التفسیر باب قول حافظوا على الصلوات والصلوة الوسطى حضرت انس بن مالک نبی کریم سے دادی ہیں کہ آپ نے فرمایا.جو شخص کسی نماز کو بھول جائے اُسے چاہیے کہ جب یاد آئے پڑھ لے اس کا کفارہ یہی ہے اللہ تعالیٰ فرمانا ہے ؟ اقم الصلوة الذكری " نماز قائم کر دمی کے ذکر کے ساتھ.) تجرید بخاری حصہ اول صدا۱۵).نماز ادا کرنے کے لئے قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے.قبلہ جیسے کعبہ اور بیت اللہ بھی کہتے ہیں.وہ مقدس عمارت ہے جسے خالص توحید کی خاطر بنایا گیا.اور جو مکہ مکرمہ میں ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بيكة - ( سورة ال عمران : ۹۷ یقیناً پہلا گھر جولوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے.این عیاش کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اس کے تمام گوشوں میں دعا کی.مگر نماز نہیں پڑھی.یہاں تک کہ آپ کعبہ سے نکل آئے پھر جب کعبہ سے نکل چکے تو آپ نے کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھ کر فرمایا.تجرید بخاری حصہ اول صلا) پس قبلہ کی تعظیم ضروری ہے اور اس کی طرف پاؤں کر کے سونا جائز نہیں کیونکہ یہ قبلہ ہے.
قبلہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَن يُعظِمُ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ (سورة الج (۳۳) روایت ہے کہ یہ مقدس گھر تمام انبیاء کا قبلہ ر ہا ہے ، حضرت آدم اور دوکر انبیا تو نے اس کا حج کیا.(طبری تاریخ الوفا ) قبلہ کو مقرر کر نے میں یہ حکمت مضمر تھی کہ مسلمانوں کے اندر یک جہتی اور اتحاد پیدا ہوا اور سب کی توجہ اور مقصد ایک ہی طرف ہے.یعنی توحید خالص کی طرف.جن لوگوں کو کعبہ کی عمارت نظر نہیں آتی.دُور ہیں یا دو کے ممالک میں رہتے ہیں.ان کا قبلہ.کعبہ اور مسجد الحرام کی جہت ہے.خوف کی حالت ہو یا انسان کسی ایسی سواری پر سفر کر رہا ہو جسے ٹھہرانا اس کے اپنے اختیار میں نہیں یا ٹھہرانا موجب حرج ہے اور چلتے ہوئے صحیح قبلہ کی طرف منہ کرنا خاصہ مشکل ہے یا سفر ہوائی جہاز کا ہے.ایسی تمام صورتوں میں مدھر آسانی ہو اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لینا جائز ہے.د اسلامی نماز از ملک سیف الرحمن (۲) اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے.وَلِلهِ المَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَشَمَ وَجُهُ اللَّه (سورة البقره : ۱۱۷) اور اللہ تعالیٰ کے لئے مشرق و مغرب ہیں ہیں جہاں کہیں تم اپنے رخ پھیرو گے وہیں اللہ کی توجہ ہو گی.نماز ادا کرنے سے پہلے نیت نماز کرے.نیت کے معنی اعدادہ کے ہیں یعنی وہ دل میں یہ ارادہ کرے کہ وہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے اور کتنی رکعت نماز شروع کرنے لگا
46 ہے.منہ سے نیت کے الفاظ ادا کرنے ضروری نہیں.البتہ توجیہ پڑھنا مناسب ہے اور الفاظ ادا البتہ توجیہ یہ ہے.إني وَجَهتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا ( سورة الانعام (۸۰) أنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ یقیناً میں نے اپنی توجہ اس ذات کی طرف کی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو سی کیا.خالص خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے یا موحد ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.ے.حیب اللہ اکبر کہ کہ نماز شروع کر دی جائے تو اس کے بعد کوئی اور کام نہ کیا جائے اور نہ بات کی جائے بلکہ نماز ادا کی جائے اور نماز پڑھتے ہوئے نظر سجدہ گاہ کی طرف رکھی جائے نماز میں ایک سے زیادہ دفعہ حرکت کرنا نماز کو مکروہ کر دیتا ہے.حضرت معینقیب سے مروی ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی نسبت جو سجدہ کرتے وقت میٹی برا یہ کرتا تھا یہ فرمایا کہ اگر تم یہ کرنا ہی چاہتے ہو تو ایک مرتبہ سے زیادہ نہ کرو - دستجرید بخاری حصہ اول ص ۲۴۷ ۲۴۶) ، حدیث شریف میں آتا ہے حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نماز کی کلید طہارت ہے ناز کی تحریم تکریم ہے.نماز کی تعلیل تسلیم ہے.یعنی للہ اکر کہنے کے بعد نماز کے علاوہ کوئی اور بات یا کام کرنا منع ہو جاتا ہے اور سلام کے بعد تمام وہ کام جو نماز میں منع تھے وہ جائز ہو جاتے ہیں.( ترمذی ابواب الطهارة باب ما جاران منفتاح الصلوة الطهور) نماز سے باہر دانے کی بات کی طرف توجہ کرنا اور بات کا جواب بھی دینا منع ہے بلکہ نماز میں سلام کرنا یا جواب دینا نا جائز ہے.حضور فرماتے تھے نہیں نماز میں سکوت کا حکم دیا گیا ہے.تجرید بخاری حصہ اول ص (۲۴۲)
4^ حضرت معاویہ بن حکم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نمازیوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی.میں نے اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہہ دیا یعنی اللہ تعالے تجھ پر رحم کرے.دو کے نمازی مجھے تیز نظروں سے دیکھنے لگے.میں نے کہا.تمہاری ماں مرے.تم مجھے اس طرح کیوں کچھ کر ہے ہو ؟ اس پر لوگ اپنی راتیں پیٹنے لگے جس طرح لوگ گھبراہٹ اور پریشانی میں کہتے ہیں.تب میں سمجھا کہ دراصل یہ لوگ مجھے چپ کرانا چاہتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ ہم نماز پڑھ چکے.تو آپ نے مجھے بلایا.میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں نے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آپ سے زیادہ اچھا اور مدل معلم کوئی دیکھا.خدا کی قسم ، آپ نے نہ مجھے چھیڑ کا نہ مارا نہ برا بھلا کہا بلکہ نرمی سے فرمایا.نماز میں باتیں کرنا ٹھیک نہیں نماز میں تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن مجید ہوتی ہے.میں نے کہا حضور میں نیا نیا مسلمان ہوا ہوں.مسلم کتاب الصلوۃ باب تحريم الكلام في الصلوة ) نمازی کے آگے سے سانپ یا بچھو وغیرہ ظاہر ہو تو اسے مار دینا چاہیئے.د مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ص ۲۳۳ مطبوعہ مطبع میمینه مصر) نماز میں ادھر ادھر دیکھنا منع ہے.اسی طرح نظر پھرانا.بلاوجہ کھانا ، ادھر ادھر ہنا بھی ناجائز ہے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں کا کیا خیال ہے جو اپنی آنکھیں نماز میں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں.حضور نے تاکید فرمائی کہ لوگ اس سے باز آئیں یا ان کی آنکھیں اُچک لی جائیں.و میخاری کتاب الاذان باب رفع البصر الى السماء في الصلوة) حضرت عائشہ سے روایت ہے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر اُدھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا.فرمایا.ایسا کرنا اختلاس ہے، شیطان بندہ کی نماز اچک
۶۹ لیتا ہے.د بخاری کتاب الاذان باب الالتفات في المصلوة) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں ادھر اُدھر نہ دیکھو کہ یہ ہلاکت ہے.اگر ضرورت ہی ہو تو فصلوں میں خیر، قرضوں میں بالکل نہیں.زنم مذی ابواب السفر باب ما ذكره في الالتفات في الصلوة ) -q نماز میں کسی چیز کا سہارا نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی ایک پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے بالیسا کرنا منع ہے.ہاں معذور شخص سہارا لے سکتا ہے.تکان کی حالت میں بیٹھ کر نماز پڑھے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا.(بخاری کتاب التهجد باب الحضر في الصلوة) حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی اکرم ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں) کہ ایک رستی دو ستونوں میں شک رہی ہے.آپ نے فرمایا.یہ رسی کیسی ہے.لوگوں تے عرض کیا یہ رسی زینب کی لٹکائی ہوئی ہے.جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں.نبی کریم نے فرمایا نہیں یہ ہرگز نہ چاہیئے اس کو کھول دو.تم میں سے ہر ایک اپنی طبیعت کے خوش رہنے پر نماز پڑھے.پھر جب کھڑا تھک جائے تو اسے بیٹھ جانا چاہیے.یعنی بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہیئے.دستجرید سخاری حصہ اول ص (۲۲) نماز کی تمام حرکات یعنی خیام، رکوع، سجود اور قعدہ کو صحیح طور پر ادا کیا جائے نماز کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو احسن رنگ میں سجا لائے.حدیث میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (یعنی اللہ اکبر کہہ کہ نماز شروع کرتے تھے.اس کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھتے جب رکوع کرتے تو نہ سر کو اُوپر اٹھا کر رکھتے نہ نیچے جھکاتے بلکہ بیٹھ کے برابر اور ہموار رکھنے اور جب رکوع سے اٹھتے تو سیدھے کھڑے ہو کر پھر سجدہ میں جاتے اور جب سمجھ
سے سر اٹھاتے تو پوری طرح بیٹھنے کے بعد دوسرا سجدہ کرتے.اور ہر دورکعتوں کے بعد تشہد کے لئے بیٹھتے.اپنا دایاں پاؤں کھڑار کھتے اور بایاں بچھادیتے اور اس طرح بیٹھ کر تشہد پڑھتے.اور شیطان کی طرح بیٹھنے یعنی ایڑیوں پر بیٹھنے سے منع فرماتے اور سجدہ میں بازد بجھانے سے منع فرماتے.جس طرح کہ کتا اپنے بازو بجھا کہ بیٹھتا ہے.آخر میں آپ السلام علیکم در حمہ اللہ کہ کہ ناز ختم کرتے.د مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص ۳ مطبوعہ مطبع میمنہ مصر) سجدہ کو سات ہڈیوں پر بجالانا چاہیئے کیونکہ حضور فرماتے تھے.مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے.پیشانی کے بل.اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنی تاک، دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں اور دونوں پیروں کی انگلیوں کی طرف اشارہ فرمایا.تجرید بخاری حصہ اول ص ۱۹) نماز کو ٹھہر ٹھہر کر اور سنوار کر پڑھنا چاہیئے.مقررہ عبادات، دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر عمدگی کے ساتھ پڑھی جانی چاہیے.نماز توجہ کے ساتھ ادا کی جانی چاہئیے اللہ تعالیٰ متقیوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.ويقيمون الصلوة (سورة البقرة :۴) کہ وہ اپنی تمام نمازوں کی درستگی کا خیال رکھتے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی درستگی کا بہت خیال فرمایا کرتے تھے.اور بہت سنوار کر اور عمدگی سے نماز ادا کیا کرتے تھے.حضرت عالیہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں پھیلی رات میں گیارہ رکعت سے زیادہ نفل نماز نہیں پڑھتے تھے.آپ چار رکعتیں پڑھتے ان کی خوبصورتی اور لمبائی کا نہ پوچھئے ریعنی نماز بہت سنوار کر اور لمبی پڑھتے پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے ان کی خوبصورتی اور لمبائی کا نہ پوچھئے.پھر اس کے بعد تین رکعتیں پڑھتے.
61 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا وتر ادا کرنے سے قبل آپ سوتے ہیں جضور نے فرمایا.اے عائشہ ! میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں لیکن دل نہیں ہوتا.البخاری کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان) جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نمازوں کو ستوار کر پڑھا کہ تنے تھے وہاں دوستوں کو بھی سنوار کر پڑھنے اور عمدگی سے ادا کرنے کی تلقین فرماتے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی.پھر وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا.آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا اور فرمایا.جاؤ دوبارہ نماز پڑھو.کیونکہ تمہاری نماز نہیں ہوئی.تین دفعہ ایسا ہوا کہ آپ نے اُسے دوبارہ نماز پڑھنے کے لئے کہا.تب اس نے آپ سے کہا.آپ ہی مجھے نماز پڑھنے کا مجھے طریق بتا دیں.اس پر آپ نے فرمایا.جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو پھر حسب توفیق قرآن پڑھو.پھر پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو.پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر اسے اطمینان کے ساتھ سجدہ کر دی پھر سجدہ سے اُٹھ کر پوری طرح بیٹھو.اس کے بعد دوسرا سیدہ کرد اس طرح ساری نماز ٹھہر ٹھہر کو سنوار کر پڑھو.استخاری کتاب الأذان باب أمر النبي الذي لا يتم ركوعه بالاعادة) ایسی نماز جس میں دل کہیں اور ہوا اور خیال کسی اور کی طرف ہو وہ قبول نہیں ہوتی بلکہ لعنت بن کر اس شخص پر پڑتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قول لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ.ر سورة الماعون : ۶۵) یعنی لعنت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں فاضل ہیں.تماز اگر سنوار سنوار کر اما کی جائے تو نماز نمازی کو دعا دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ تجھے
سنوارے کہ تو نے مجھے سنوارا.حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اچھی طرح کامل دھو کرے.پھر نماز کے لئے کھڑا ہو.اور نماز کا رکوع و سجود پورا کرے اور اس میں قرآت اچھی طرح پڑھے.اس کو نماز کہتی ہے.خدا تعالیٰ مجھے محفوظ رکھے جیسا کہ تو نے مجھے محفوظ رکھا.پھر نماز کو فرشتے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں.اور اس نماز میں روشنی اور نور ہوتا ہے اور اس نماز کے لئے آسمان کے دروازے کھوئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ خدا کے حضور میں پہنچ کر اپنے نمازی کے لئے سفارش کرتی ہے.اور حبیب کوئی نمازہ کار کوع اور سجود ضائع کرے اور اس میں قرآت ٹھیک نہ پڑھے تو نماز اس کو کہتی ہے خدا تعالیٰ تجھے ضائع کرے جیسا کہ تو نے مجھے ضائع کیا.پھر فرشتے اس کو اوپر لے جاتے ہیں اور اس نماز میں اندھیرا ہوتا ہے جب آسمان کے پاس پہنچتی ہے تو آسمان کے درخانے نے اس نماز کے آگے بند کئے جاتے ہیں پھر اس نماز کو پرانے کپڑے کی طرح پھیٹ کو فرشتے اس نماز کے پڑھنے والے کے منہ پر مارتے ہیں.مجموعه فتقادی احمدیہ جلد اول ص ۷ مرتبه مولوی فضل محمد خان صاحب جنگوی) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندے کے عمل میں سے سب سے پہلے جس عمل کا حساب ہوگا وہ نماز ہے اگر یہ درست نکلی تو وہ کامیاب دیا مراد ہوگیا.لیکن اگر یہی خراب نکلی تو وہ ناکام و نا مراد رہے گا.د ترندی البواب الصلوة باب ان اول ما يحاسب به العبد يوم القيامة الصلوة) -۱۳ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا چاہیے.اس لئے ضروری ہے کہ نماز کی عربی عبارات کا مفہوم اور معانی آتے ہوں اللہ تعالی سورۃ المومنون رکوع ما ایت نمیبر ۲ ۲ میں فرماتا ہے.
قَدْ اَفْلَحَ المُؤمِنونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (سورة المؤمنون (۳۰۲) یقیناً وہ مومن کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہیں نماز خشوع و خضوع کرنے والوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے.نماز کو چٹی سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہئے بلکہ اس یقین اور ایمان کے ساتھ پڑھنا چاہئیے کہ ہم اپنے محبوب خدا کی زیارت کر رہے ہیں.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اپنے رب کی زیارت ہے.اور زیارت اہلی ایک انعام ہے.اور کوئی عقلمند انسان اپنے محبوب کی زیارت کو چھٹی نہیں سمجھے گا.و تفسیر کبیر جلد چهارم ص۳۷۲ نیا ایڈیشن) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی شان یہ بتائی ہے صلی سلم بتائی كَانَكَ تَرَاهُ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ امسلم کتاب الایمان باب تعریف الاسلام و الایمان) کہ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تو سمجھے کہ تو تو خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اور اگر یہ حالت نہ ہو کہ تو اُسے نہیں دیکھ رہا تو تو یہ یقین رکھ کر نماز پڑھ کہ وہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے.گویا نماز رودیت الہی کا نام ہے.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے.۱۴ نماز کو ہمیشہ چستی اور ہوشیاری کے ساتھ ادا کیا جائے کیونکہ تماز کو سستی سے ا کر نا یا اس کی ادائیگی میں کو تاہی اور غفلت سے کام لینا منافقت کی علامت ہے اللہ تعالیٰ سورۃ النساء رکوع ۲۱ میں فرماتا ہے.وإذا قامُوا إِلَى الصَّلوةِ قَامُوا كَسَالَى (سورة النساء : ۱۴۳)
۷۴ اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں.۱۵ نمافہ میں اگر کسی سے ایسی غلطی سرزد ہو جائے جس سے نماز میں شدید نقص پڑ جائے مثلاً سھوا فرض کی ترتیب بدل جائے یا رکھتوں کی تعداد میں شک پڑ جائے یا کوئی واجب جیسے درمیانی قعدہ رہ جائے، تو اس غلطی کے تدارک کے لئے دو زائد سجدے کرنے ضروری ہوتے ہیں.اور یہ سجد سے نماز کے آخری قعدہ میں تشہد درود شریف اور دعاؤں کے بعد کئے جائیں جب یہ آخری دعا ختم ہو جائے تو تکبیر کہہ کر دو سجدے کئے جائیں.اور ان میں تسبیحات پڑھی جائیں.اس کے بعد بیٹھ کر سلام پھیرا جائے.ا نماز مرتبه مولانا ملک سیف الرحمن صاحب فاضل ص ۴۴۲۳) حدیث میں آتا ہے.عبداللہ بن مالک مجیبه ر جو قبیلہ آڑوشنواہ سے بنی عید منان کے حلیف اور بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے) کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی تو بھولے سے پہلی دو رکھتوں کے (بعد) کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں.چنانچہ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ نماز تمام کر چکے اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کے منتظر تھے تو آپ نے بیٹھے ہی تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے پھر اس کے بعد سلام پھیرا.تجرید بخاری حصہ اول ص ۱۹) امام اگر کوئی ایسی غلطی کرے جس سے سجدہ سہو لازم آتا ہو تو اس کے ساتھ مقتدیوں کو بھی سجدہ سہو بجا لانا ہو گا.لیکن اگر مقندی سے کوئی غلطی ہو جائے تو پھر امام کی اتباع کی وجہ سے اس کے لئے سجدہ سہو کرنا ضروری نہیں ہو گا.14.مسنون دعاؤں کے علاوہ نماز میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگنی چاہئیں.رکوع اور سجود میں قرآنی دعائیں اور آیات نہیں پڑھنی چاہئیں.
حضرت ابو بکر صدیق سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمائیے جسے اپنی نماز میں مانگوں.آپ تے فرمایا.یہ کہا کرو.اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلُمَا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اَنْتَ فَاغْفِرْ لِى مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُورُ ر تجرید بخاری حصہ اول (ص۱۹۲) الرحيم اے اللہ الیقیناً میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے بہت زیادہ اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا.پس تو مجھے اپنی جناب سے بخش دے.اور مجھ پر رحم کہ یقیناً تو ہی بہت بخشنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے.-1 منقش کپڑے پر نماز نہیں پڑھنی چاہیئے اور ایسے پردے پر جس پر تصویریں بنی ہوں ان کے سامنے نہیں پڑھنی چاہیئے، کیونکہ یہ نمازی کی توجہ کو پھر ادیتے ہیں.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم نے ایک ایسی خمیصہ پر نماز پڑھی جس میں نقش تھے.آپ کی نظر اس کے نفوش پر پڑی تو آپ نے نماز سے فارع ہو کر فرمایا.میری اس تخصیصہ کو ابو جہیم کے پاس لے جاؤا در ان کی انجانیہ مجھے لا دو.کیونکہ اس خمیدہ نے ابھی مجھے غافل کر دیا.تجرید بخاری حصہ اول ص ۱۰) حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائینہ کے پاس ایک پر وہ تھا جسے انہوں نے گھر کے ایک گوشے میں ڈال رکھا تھا.نبی کریم نے فرمایا.ہمارے پاس سے اپنا ہو پردہ ہٹا دو.کیونکہ اس کی تصویریں برابر میری نماز میں سامنے آرہی تھیں...تجرید بخاری حصہ اول مننا.نماز سے فارغ ہونے کے بعد استغفار اور دعائیں مانگنی چاہئیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کہا
کرتے تھے.64 - لا اله إلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرُ.اَللهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعتَ وَلا يَنفَعُ ذَا الْحَدِ مِنْكَ الْجَدُ.اسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوة باب استحباب الذكر بعد الصلوة وبيان صفته) ترجمہ وہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ اکیلا ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اس کے لئے بادشاہت ہے.اور اسی کے لئے کامل تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر پورا پورا قادر ہے اے میکے اللہ جسے تو عطا کرے اُسے کوئی روکنے والا نہیں.اور جس چیز کو تو رو کے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں.اور نہیں نفع دیتی کسی بزرگی والے کو تیرے مقابل کوئی بزرگی.حضرت لو بانی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تور تین بار استغفار کرتے پھر یہ دعا مانگتے.اللهم انت السَّلامُ وَمِنكَ السّلامُ نَبَارَكتَ مَا ذَا الْحَلالِ وَالْإِكْرَامِ ر مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ باب استجاب الذكر بعد الصلوة و بيان صنفته) اے میکے اللہ ! تو سلامتی والا ہے تیری طرف سے ہی سلامتی ملتی ہے.اے حلال اور عزت والے خدا تو برکتوں کا مالک ہے.حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا معاذ! خدا تعالیٰ کی قسم مجھے تم سے محبت ہے.میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ ذکر چھوٹنے نہ پائے.اللهم اعني عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسُنِ عِبَادَتِكَ را لو داد و كتاب الصلوۃ باب في الاستغفار ؟
66 اے میکے اللہ ! میری مدد فرما کہ تیرا ذکر کروں تیرا شکر ادا کروں اور عمدگی سے تیری عبادت بجا لاؤں.نماز سے فراغت کے بعد نبیح و تحمید سبجالانے کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس بارسمان الله ، تینتیس بار الحمد لله در تینتیس یار اللہ اکبر کے اور پھر سو پورا کرنے کے لئے یہ ذکر کرے.لا اله إلا الله وحده لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ است عَلَى كُلِّ شَي قدير.یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں دسی بادشاہ ہے اور مستحق حمد داننا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اس کے سب گناہ پیشش دیئے جائیں گے اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ایعنی بہت زیادہ ہی ہوں.اسلم كتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استجاب الذكر بعد الصلوة و بيان صفته) ہر فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا سنت نبوی کے خلاف ہے.۱۸ نمازوں کی ادائیگی ہمیشہ استقلال کے ساتھ بغیر کسی ناغہ کے کی جائے کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ النور میں فرماتا ہے.و ايمو الصلوة واتو الركوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُودَ ) سورة النور : ۵۷) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو امد اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرد نا کہ تم پر رحم کیا جائے.
LA سورة الشور علی رکوع ہم میں اللہ تعالٰی مومنوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.و الذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُ الصَّلوةَ ) سورۃ الشورى : ۳۹ ) اور مومن وہ ہیں جو اپنے رب کی آواز کو قبول کرتے ہیں اور نمازوں پر کاربند رہتے ہیں.ترک نماز انسان کو دوزخ کی آگ کا مستحق بنا دیتی ہے.جیسا کہ سورۃ المدثر کوئی میں آتا ہے مَا سَلَكُمْ فِي سَقَرِه قَالُوا لَمْنَكُ مِنَ الْمُصَلِينَ ) ) سورة المدثر (۴۳، ۴۴) کہ کیا چیز تم کو دوزخ کی طرف لے گئی ، وہ کہیں گے ہم نماز یں نہیں پڑھا کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو ترک کرنا شرک اور کفر کی علامت قرار بارہے آپ فرماتے تھے.العَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلوةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ ر ترندی ابواب الایمان باب ماجاء في ترك الصلوة) کہ ہمارے اور کفار و مشرکین کے درمیان جو طرہ امتیاز ہے وہ نماز ہے جس نے نماز کو ترک کیا اس نے کفر کیا.حضرت جابر سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو إن بَيْنَ الرَّجُل وَالشِّرْكِ وَالكُفْرَتَرُكُ الصَّلوة ر مسلم کتاب الایجان باب اطلاق الكفر على تارك الصلوة) کہ ایک انسان اور شرک وکفر کے درمیان صرف نماز کو چھوڑنے کا ہی فرق ہے نماز بالکل چھوڑ دیا دوزخ کی راہ ہموار کرنا اور بہت بڑا گناہ ہے.
49 بیماری و لاچاری کی صورت میں بھی نماز نہیں چھوڑنی چاہیئے.بیٹھ کر الیٹ کر یا سر، انگلی اور آنکھوں کے اشارے سے ہی نماز ادا کر لی جائے.-19 فرض نمازوں کے علاوہ قرب خدا وندی حاصل کرنے کے لئے نوافل بھی ادا کرنے چاہئیں.کیونکہ یہ ایک زائد انعام ہے.قرض نمازوں کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین نماز رات کی نماز (نماز نتیجہ) کو قرار دیا ہے.ابو داؤد کتاب الصوم باب في صوم المحرم) خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کے پہلے حصہ میں سویا کرتے اور آخری حصہ میں اٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ رات کو نماز تہجدہ میں اتنی شدت فرمایا کرتے تھے کہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں مبارک سُوج جایا کرتے تھے.ایک بار حضرت عائشہ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کے تو لگے اور پچھلے گناہ سب اللہ نے خیش دیئے ہیں.آپ کو اتنی شدت اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے ، تو آپ نے جواب دیا.انا الون عَبْدًا شَكُورًا بخاری کتاب التهجد قام النبی اللیل حتی ترم قدماه ) تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.آپ نے رانوں کو اُٹھ اُٹھ کہ نمازیں پڑھنے کو جنت میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے آپ نماز تہجد کی برکت کے متعلق فرماتے تھے.ورات کے دوران ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اگر ایک مسلمان کو دو گھڑی میسر آجائے اور وہ اس میں اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے بارہ میں کوئی سوال
A کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری کر دیا ہے.اور ایسا ہر رات ہوتا ہے.اسلم كتاب الصلوة المسافرين وقصرها باب الصلوة الليل مثنى مثنى والوتر ركعته من آخر الفيل) حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میکے قریب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں.اور جب میں اس کو اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں.جس سے دو سنتا ہے.اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں حین سے وہ دیکھتا ہے.اس کے پاؤں بن جانا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.یعنی میں ہی اس کا کار ساز ہوتا ہوں.اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دنیا ہوں.اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں.دینجاری کتاب الرقاق باب التواضع) تمیم داری نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کی ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جاوے گا اسکی نماز ہوگی پس اگر اس نے اپنی نماز پوری کی ہوگی تو اس کے لئے بخشش لکھی جاوے گی اور اگر اس نے نماز پوری نہ کی ہو گی تو خدا تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ میکے بندے کا کوئی نفل پاؤ تو اس کے ساتھ اس کے ضائع شدہ قرض کو پورا کر و.پھر اس کے سارے عملوں کا حساب اسی مناسبت سے لیا جاوے گا.مجموعه فنادی احمدیہ جلد اول صباه مرتبه مولوی محمد فضل صاحب جنگوی ) جب دستر خوان پر کھانا چن دیا جائے تو پہلے کھانا کھانا چاہیئے.اس کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے کیونکہ ایسے وقت نماز شروع کرنا اُسے خراب کرنے کے مترادف ہے حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب دستر خوان بچھ جائے اور کھانا چن دیا جائے تو نماز شروع کرنا ائے
Al خراب کرنے کے مترادف ہے.(مسلم کتاب الصلوۃ باب كراهية الصلوة بحضرة الطعام ) ۲۱.نمازی کو چاہیئے کہ وہ ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں سے کسی کے گزرنے کا امکان نہ ہو.اور اگر کسی کے گزرنے کا امکان ہو تو اپنے آگے کوئی چیز بطور سترہ رکھے.نمازی کے آگے سے بوقت مجبوری دو سجدے کے فاصلے سے گزرنا جائز ہے لیکن اس کے بالکل آگے سے گزرنا گناہ - ہے.حدیث میں آتا ہے ابو ہم کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لینا کہ اس پر اس قدر گناہ ہے تو بے شک اُسے چالیس روز تک کھڑا رہنا بھلا معلوم ہوتا اس بات سے کہ اس کے سامنے سے گزرے.راوی حدیث کہتے ہیں.میں نہیں جانتا کہ چالیس دن کہا.باچائیں مہینے یا چالیس سال تجرید بخاری حصہ اول (ص ۱۳) ۲۲ مردوں کے لئے سوالے کسی عذر و مجبوری کے نماز یا جماعت ادا کہنا ضروری ہے.حدیث شریف میں آیا ہے.جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے.اسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوة باب فضل صلاة الجماعة) حضور فرماتے تھے یہ یا جماعت نماز کے لئے کوئی جتنے قدم چل کر آئے گا اتنا ہی زیاد اُسے ثواب ملے گا." بخاری کتاب الأذان باب فضل الصلوۃ الفجر في جماعة ) جو شخص گھر میں دھو کر کے مسجد کی طرف نماز کے لئے روانہ ہو تو ایک قدم پر اس کا ایک گناہ جھڑنا ہے.اور دو کے قدم پر اس کا نیکی میں ایک درجہ بڑھ جانا ہے.اسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوة باب المشي إلى الصلوة ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر اور عشا کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے
ثواب کے بارے میں فرمایا.جو شخص عشاء کی نماز یا جماعت پڑھے تو اسے نصف رات تک نماز پڑھنے کا اور جو فجر کی نماز با جماعت پڑھے اُسے پوری رات نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے.(موطا كتاب الصلوة باب ماجاء في العتمة والصبيح) پھر فرمایا : منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے بھاری کوئی نماز نہیں.اگر وہ جانتے ہوتے کہ ان کا کتنا ثواب ہے تو وہ پڑھنے کے لئے آتے خواہ انہیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑتا.مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلواۃ باب فضل الصلوة الجماعة والشديد في التخلف عنها) نمازی کو چاہیے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد اپنی جگہ پر سیح، تمجید کے -۲۳ تا اس کے لئے ملائکہ بھی دعائیں مانگتے رہیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ نمازی جب تک اپنی جگہ پر بیٹھا رہے فرشتے اس کے لئے یہ دعائیں مانگتے ہیں.اللهم العفولة - اللهم الرحمة (مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوة باب فضل الصلوة المكتوبه في جماعة وفضل انتظارها اے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اس پر رحم فرما.اور ان کی یہ دعا اس کے لئے جاری رہتی ہے جب تک وہ با وضو رہتا ہے.۲۲.جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس وقت فرض نماز کے سوا کوئی اور نماز نہ پڑھی جائے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے سوا اور نماز پڑھنا جائز نہیں.ا مسلم کتاب صلوة المسافرين وقصرها باب كراهته الشروع في نافلة بعد شروع المؤذن بالا قامتة) ۲۵.نماز کے لئے وقار اور ادب کے ساتھ چل کر جایا جائے.دوڑ کہ نماز میں شامل
نہیں ہونا چاہیئے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.جب ناز کھڑی ہو جائے تو تم دور کر اس میں شامل نہ ہوا کرو.بلکہ وقار اور آرام سے چل کر آؤٹ، نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے پڑھ لو ابو رہ جائے اُسے بعد میں پورا کرو.اسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوۃ باب استحباب اتيان الصلوة بوقار و سكينته) ۲۶.نماز کے لئے صفیں سیدھی بنانی چاہیئں کیونکہ صفوں کی درستگی بھی نماز کی تکمیل کا ایک حصہ ہے.حضرت ابن عمرض بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفوں کو سیدھا رکھو.کندھے سے کندھا ملاؤ.درمیانی فاصلہ بند کرو اور اپنے بھائیوں کے پہلوری کیلئے نرم ہو جاؤ.شیطان کے لئے درمیان میں خالی جگہ نہ رہنے دو.اور جوصف میں مل کر کھڑا ہوا اللہ تعالٰی اس کو ملائے اور میں نے صف توڑی اللہ تعالیٰ اس کو توڑے.رسنن ابو داؤد الصلوۃ باب تسوية الصفوف ) حضرت ابو سعود الضاری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نماز کی منوں کو سیدھا رکھنے کے لئے ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھتے اور فرماتے صفیں سیدھی بناؤ.اور آگے پیچھے نہ ہو.ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف بھر جائے گا.میرے قریب زیادہ علم والے سمجھدار لوگ کھڑے ہوں.پھر وہ (لوگ) جو رتنے ہیں) ان سے قریب ہوں پھر وہ لوگ جو اُن سے قریب ہوں.(مسلم کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف ) آپ فرماتے تھے.تمہیں اپنی صفیں سیدھی رکھنی چاہئیں.ورنہ اللہ تمہارے چہروں میں اختلاف کا بیج ڈال دے گا.استجاری کتاب الأذان باب تسوية الصفوف مننا
AN امام کی حرکت سے پہلے کوئی حرکت نہ کی جائے بلکہ اس کی کامل مشایعت کی جائے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تم میں سے امام الصلوۃ سے پہلے سراٹھالیتا ہے وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر کی طرح بنا دے.مسلم کتاب الصلوة باب التحريم عن سبق الامام بركوع وسجود) ۲.امام کو چاہیے کہ وہ نماز میں تخفیف کا خیال رکھے حضور صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا.پس جو شخص تم میں سے لوگوں کو تاز پڑھائے تو اسے چاہئیے کہ تخفیف کرے.کیونکہ مقتدیوں میں کمزور بھی ہوتے ہیں.بوڑھے اور حاجت مند بھی.تجرید بخاری حصہ اول کام پڑھے.آپ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو پھر جتنی میں چاہیے د بخاری کتاب الأذان باب از اصلی لنفسه فلبیغول مات آر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تخفیف فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ بعض اوقات میں نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لیسی نماز پڑھاؤں.لیکن جب میں کسی بچے کا رونا سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کہ دیتا ہوں.اس در سے کہیں اس کی ماں کو گھبراہٹ اور پریشانی نہ ہو.د بخاری کتاب الله ذان باب من اخف الصلوة عند بكاء القبتي) امام فجر کی فرض نماز کی دونوں رکھتوں میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دونوں رکعتوں میں قرآت بالجھر کرے یعنی بلند آواز سے پڑھے اور باقی رکھتوں میں نیز ظہر و عصر کی پوری نماز میں قرآت سر ا یعنی آیت آواز سے پڑھے.میں وقت امام قرآن پڑھ رہا ہو تو مقتدی خاموشی سے سنیں.البتہ سورۃ
۸۵ فاتحہ امام کے ساتھ ساتھ منہ ہیں پڑھتے جائیں.(المستدرك للحاكم كتاب الصلوة باب اذا قرأ الامام فلا تقرأ والا بام القرآن فانه لا صلوة لمن لم يقراء بها ) اگر امام کوئی آیت بھول جائے تو مقتدی دہ آیت اونچی آواز سے پڑھ دیں.لیکن امام گر کوئی اور بات بھول جائے تو مقتدی سیمان اللہ دینی آواز سے کہہ دیں.اور اگر مقتدی عورتیں ہوں تو وہ سبحان الله یو لنے کی بجائے تالی بجائیں.(بخاری وسلم) ۳۲.عورت عورتوں کی امامت کرواسکتی ہے لیکن پہلی صف کے درمیان کھڑی ہو کر.۳۳ - نماز میں اگر سجدہ تلاوت آجائے تو سجدہ تلاوت کیا جائے.کیونکہ یہ واجب ہے.د بخاری کتاب التهجد باب التصفيق للنساء) ۲۴.جب ایک مقتدی ہو تو امام کی دائیں طرف مل کر کھڑا ہو.اگر دوسرا مقتدی آجائے تو دونوں امام کے پیچھے ہو جائیں.اگر اکیلی عورت مقندی ہو تو وہ امام کے پیچھے کھڑی ہو.ہاں اگر اکیلی عورت امام کی محرم ہو تو اس کی دائیں طرف کھڑی ہو سکتی ہے ر ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الرحیل تصیلی معہ رجال و نساء ) -۳۵ اگر کسی نے اکیلئے نماز پڑھ لی ہو اور بعد میں اُسے نماز با جماعت مل جائے تو وہ جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لے ( ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء في الرجل يصلي وحده ثم يبدك الجماعة ) اللہ تعالیٰ نہیں احسن رنگ میں نماز کے آداب بجانا نے کی توفیق دے اور پوری محویت ادر حضور قلب سے ہم اپنی نمازیں ادا کریں تاروح القدس کا ہم پر نزول ہو اور ہم دیدار الہی کرسکیں.آمین.:
14 جمعہ کے آداب جمعہ کا لفظ مجمع سے مشتق ہے.اس کے معانی اکٹھا ہونے کے ہیں جمیعتہ الی ارک کا دن ایک عظیم انسان اسلامی تہوار ہے مسلمانوں کے لئے روز جمعہ عیادت کا دن ہے.قرآن مجید میں اس دن کو خاص طور پر مسلمانوں کے اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا دن قرار دیا گیا ہے.روز جمعہ کی فضیلت اس بات سے عیاں ہے کہ قرآن مجید میں ایک خاص سورۃ سورۃ الجمیعہ آئی ہے جس کے شروع میں مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے زمانہ کا ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں بتایا کہ اس کے زمانہ میں تجارت کی کثرت کی وجہ سے نماز جمعہ کی ادائیگی میں تغافل یہ نا جائے گا.لیکن مسلمانوں کو یہ باور کھنا چاہیئے کہ ان کی ترقی اور کامیابی کا راز جمعہ کی ادائیگی میں مضمر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کی عظمت یوں بیان فرمائی ہے.خَيْرُ يومٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمْعَةِ فِيهِ خَلَقَ آدَمُ يَوْمِ وَ فِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا - (مسلم کتاب الصلوه باب فضل يوم الجمعة ) ونوں میں سے بہترین دن جس دن سورج چڑھتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم پیدا کئے گئے.اس دن جنت میں لے جائے گئے اور اسی دن جنت سے - نکالے گئے.یعنی بہشت سے باہر مخلوقات کے پھیلانے کا ذریعہ ہوئے.اس خون کی عظمت کے متعلق آنحضرت نے ایک جمعہ میں فرمایا تھا.اے مسلمانوں کی جماعت ! یہ دن ایسا ہے کہ اسے خدا نے خوشی (عید) کا دن بنایا ہے المعجم الصغير للطبراني باب الحاء من اسمه الحسن)
A6 ذیل میں قرآن مجید ، سنت نبوی اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں روز جمعہ اور نماز جمعہ کے آداب بیان کئے جاتے ہیں.ا جمعہ کے دن ہر بالغ کے لئے غسل کرنا ضروری ہے استحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ، غُسل الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلّ مُحْتَ اسلم كتاب الجمعة باب وجوب غسل المجمعة ) کہ جمعہ کے دن نہانا ہر بالغ مسلمان کے لئے واجب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جمعہ کے دن ضر در غسل فرماتے تھے.آپ کے صحابی حضرت فاکہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن عرفہ کے دن یعنی نویں ذو الحجہ کو عید الاضحی اور عید الفطر کے دن ضرور نہاتے تھے.(مسند احمد بن حنبل جلد چهارم مت، مطبع میلمینیه مصر) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کو جائے تو مسل کر لیا کرے.(مسلم کتاب الجمعة ) آنحضرت فرماتے تھے کہ جمعہ کے دن غسل کرو اور اپنے سروں کو دھوڑ.چاہے تم ) تجرید بخاری حصہ اول ص۱۹۹) جنبی نہ ہو.اسی طرح آپ فرماتے تھے جمعہ کے دن مثل غسل جنایت خوب اچھی طرح مثل کرنا چاہیئے.۲.جمعہ کے دن مسواک کرنی چاہیئے.حضرت ابوسعید خدری بیان فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہر بالغ پر جمعہ کے دن اگر میسر ہو سکے تو نہانا مسواک کرنا خوشبو
AA لگانا ضروری ہے.تجرید بخاری حقه اول مش ۱۹) جمعہ کے دن خوشیونگا کر مسجد میں جانا چاہیئے.یہ سنت ہے..جمعہ کے دن صاف ستھرے کپڑے پہنے چاہئیں.یہ سنت ہے.حدیث میں آتا حضرت یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے.کہ وہ اپنے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے جمعہ کے لئے بنائے.(موطا كتاب الصلوۃ باب البیته و تخطی الرقاب و استقبال الامام يوم الجمعه) امام جب خطبہ دے تو خاموشی کے ساتھ خطبہ سننا چاہیئے.البتہ امام اگر کوئی -> بات پوچھے تو جواب دینا چاہئیے.خطبہ کے دوران بات نہیں کرنی چاہیئے.اور اگر کسی کو خاموش کرانا ہو تو اشارہ کے ساتھ چُپ کروایا جائے.اور خطبہ کے وقت کنکریوں اور تنکوں سے بھی نہیں کھیلنا چاہیئے.کیونکہ خطبہ بھی نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے.ایک اور حدیث شریف میں آداب جمیعہ کا بیان یوں آتا ہے.حضرت مسلمان فارسی کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جوشخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جس قدر اس کے امکان میں ہو طہارت کر کے اپنا تیل لگائے یا اپنے گھر کی خوشبو استعمال کیے اور پھر نماز جمعہ کے لئے نکلے اور ایسے دو آدمیوں کے کے درمیان (جو مسجد کے اندر بیٹھے ہوں) تفریق نہ کرے اور جس قدر اس کی قسمت ہو نماز پڑھے بعد ازاں جس وقت امام خطبہ پڑھنے لگے تو خاموش رہے.پس اس کے وہ گناہ ہو اس جمعہ اور دوکر جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں بخش دیئے جائیں گے.تجرید بخاری حقه اول ۱۹۹) اور ایک روایت میں ہے اور تین دن اور بھی زیادہ.اور جو خطبہ کے دقت کنکریوں سے کھیلے وہ بھی بعد کا مرتکب ہوا.امسلم کتاب الجمعة باب فضل من استمع وانصت للخطية)
٨٩ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمِ الجُمُعَةِ انْصِتُ وَالْإِمَامُ يَخْطَبْ فَقَدُ ای خرید بخاری حصہ اول ۲۰) خَوْتَ.جمعہ کے دن جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو.اگر تو اپنے پاس والے سے یہ کہے کہ چپ رہ.تو بے شک تو نے لغو حرکت کی.حضرت عثمان اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے.اے لوگو سنو اور خاموش بیٹھے رہو کیونکہ خاموش رہنے والے کے لئے جو خطبہ سن نہیں سکتا اتنا ہی ثواب ہے جتنا خاموشی سے خطبہ سننے والے کے لئے.(موطا كتاب الصلوۃ باب ما جاء في الانصات يوم الجمعته والامام يخطب) جمعہ کے دن تمام کام چھوڑ کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جانا چاہیئے.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.سورۃ الجمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يايها الذين امنوا إذا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ تعلمون 0 ( سورة الجمعة : ١٠) (اے مومنو! جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے لئے بلایا جائے ربیعنی نماز جمعہ کے لئے تو اللہ کے ذکر کے لئے جلدی جایا کرو.اور خرید اور فروخت کو چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو؟ جمعہ کے لئے اول وقت مسجد میں آنا چاہئیے.اور اول وقت آنے کا ثواب بہت زیادہ ہے.حدیث میں آتا ہے.جو اول وقت میں آتا ہے تو گویا اُسے ایک اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے جو دے کر وقت میں آتا ہے تو اُسے گائے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے.جو تیسرے وقت میں
۹۰ آتا ہے تو اُسے دُنبے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے جو چوتھے وقت میں آتا ہے تو ا سے مرغی کی قربانی کا ثواب ملتا ہے.اور جو پانچویں وقت میں آتا ہے تو اُسے انڈے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوتی جمعہ کے دن مثل غسل جنابت کے غسل کرے.بعد ازاں نماز کے لئے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ صدقہ کیا.جو دوسری گھڑی میں چلے.گویا اس نے ایک گائے صدقہ کی.جو تیسری گھڑی میں چلے گویا اس نے ایک سنگھارا ہوا مینڈا صدقہ کیا.جو چو تھی گھڑی میں چلے تو اس نے گویا ایک مرغی صدقہ میں دی اور پانچویں گھڑی میں چلے گویا اس نے ایک انڈا صدقہ میں دیا.کیونکہ جس وقت امام خطبہ پڑھنے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لئے اندر آجاتے ہیں.تجربہ بخاری حصہ اول م۱۹۹) ۹.جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر باتیں نہ کی جائیں.آنحضرت نے حلقہ میں بیٹھ کر باتیں کرنے سے منع فرمایا ہے.( ابو داؤد کتاب الصلوة باب التخليق يوم الجمعة قبل الصلوة) جب سایہ ڈھل جائے تو نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے.اس وقت پہلی اذان کہی جاتی ہے اور جب امام مصلی پر آجائے تو موذن دوسری اذان کہے.حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دن ڈھلتے ہی نماز جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے.حضرت انس کہتے ہیں کہ جب سردی خوب ہوئی تھی تو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ سویر ے پڑھتے تھے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تھی تو نماز (جمعہ) ٹھنڈک کے بعد پڑھتے تھے.ا تجرید بخاری حصہ اول ص ۲۰۲ ).H نماز جمعہ کے لئے جماعت کی شرط ہے.امام کے سوا کم از کم دو آدمی ہوں توخات
۹۱ جمعہ ہو سکتی ہے.نماز جمعہ کی دو رکعت فرض ہیں.افقه احمدیہ حصہ عبادت صلالا ، مث۱۶ ، ص۱۶۲) - نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری میں المنافقون ا مسلم کتاب الجمعة باب ما يقراء في صلوة المجمعة) یا پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ مسلم کتاب الجمعة باب ما يقرأ في صلاة الجمعة) اور جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں السجدہ اور دوسری رکعت میں سورۃ الدھر پڑھنا مسنون ہے ابخاری کتاب الجمعة باب ما يقراء في صلاة الفجر يوم الجمعة ) حضرت ایو پر یہ کام کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزیل اور کل آئی عَلَى الاِثْنَانِ پڑھتے تھے.تجرید بنجاری حصه اول مرا ۲۰) حضرت نعمان ابن بشیر سے روایت آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ تلاوت فرمایا کرتے تھے.ر سنن ابو داؤد كتاب الصلوة باب ما يقرأ به في المجمعة) احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت جمعرات کو بھی عشاء کی پہلی رکعت میں اس کو پڑھا کرتے تھے پس ہر ہفتہ میں دوبار جہری قرآت کے ساتھ آپ نے سورۃ جمعہ کو لوگوں تک پہنچایا.جمعہ کی نماز سے پہلے اور بعد چار چار رکعت نماز سنت پڑھی جائے.بعد میں چار کی بجائے دورکعت نماز سنت بھی پڑھی جاسکتی ہے.رستن ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب الصلوة بعد الجمعه)
۹۲ جب خطبہ شروع ہو جائے تو دورکعت نماز سنت ادا کی جائے.حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں آیا.نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے.آپ نے پوچھا کیا تو نماز پڑھ چکا ہے ؟ اس نے عرض کی نہیں.آپ نے فرمایا.آٹھ دو رکعت نماز پڑھ لے.( تجرید بخاری حصہ اول مت (۲) ۱۴ - خطبہ کے دوران پہنچنے والے شخص کو چاہیے کہ وہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے، وصفوں کو پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش نہ کرے.اور نہ ہی کسی کو اس کی جگہ سے ہٹا کر خود وہاں بیٹھے.حضرت ابن عرض کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص ایسا نہ کرے کہ اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہٹائے اور خود اس کی جگہ بیٹھ جائے بعض کی کئی کیا یہ بات جمعہ کے لئے مخصوص ہے ؟ آپ نے فرمایا.نہیں جمعہ کے علاوہ اور نمازوں کا بھی یہی حال ہے.تجرید بخاری حصہ اول ص ۲۰) ۱۵- جمعہ کے دن امام کے خطبہ پڑھنے کی حالت میں گوٹھ مار کر نہیں بھنا چاہیئے حضرت معاذ بن انسانی سے روایت ہے کہ نبی کریم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ پڑھنے کی حالت میں اختبار گوٹھ مار کر) کی صورت میں بیٹھنے سے منع فرمایا.-10 ر ابو داؤد کتاب الصلوة باب الاعتبار والا عام يخطب ) ۱۲ امام پہلے خطبہ کے بعد دو منٹ کے لئے خاموش ہو کر بیٹھے جائے پھر خطبہ ثانیہ پڑھے اور خطبہ ثانیہ کے بعد اقامت کہہ کر دو رکعت یا جماعت نماز ادا کی جائے.حضرت ان عمر کہتے ہیں کہ نبی کرم صلی الہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے بعد اس کے کچھ بیٹھ جائے اور پھر کھڑے ہو جاتے جیسا کہ تم اب کرتے ہو -14 د تجرید بخاری حصہ اول ص ۲۰۲، ۲۰۵ جمعہ کی نماز کی کوئی قضا نہیں.اگر وقت کے اندر نہ پڑھا جاسکے تو پھر نماز ظہر بھی جائے.امام کو چاہیے کہ وہ خطبہ مختصر دے اور نماز میں پڑھے.
۹۳ حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انسان کا لمبی نماز پڑھنا اور مختصر خطبہ دنیا اس کے فہم و فراست کی دلیل ہے.پس نماز لیبی کرد در خطبه مختصر مسلم کتاب المجمعه باب صلاة الجمعه وخطبتها ) - 19 جمعہ کے روز کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں.کیونکہ اس دن میں ایک ایسا وقت آتا ہے جس میں دُعائیں قبول ہوتی ہیں.حضرت ابو سر یہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا ذکر کیا ار فرمایا اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو ایسی گھڑی ملے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو دعا مانگے وہ قبول کی جاتی ہے.آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہ گھڑی بہت ہی مختصر ہوتی ہے.اسلم كتاب الجمعه باب صلوة الجمعه وخطبتها) ۲۰.جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا چاہیئے.حضرت اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھے پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درد د میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے.رابو داؤد کتاب الصلوۃ باب تفریح ابواب المجمعة ) ۲۱.جمعہ کے دن عبادت کرنے کا خاص ثواب ہے اس لئے اس دن کی عظمت فضیلت کے پیش نظر کثرت سے نیکیاں بجالانی چاہئیں.جس شخص کو اس دن نماز جمعہ، نماز جنازہ ، خطبہ نکاح اور کسی بیمار کی عیادت کی توفیق نصیب ہو تو اس کو جنت کی خوشخبری ہو.ر نماز مترجم مش ۲ از مجید احمد ماسٹر مطبوعہ مکتبہ نبض عام ربوه)
۹۴ ۲۲ نماز جمعہ تمام بالغ تندرست مسلمانوں پر واجب ہے.البتہ ہمار، سافرا پانچ تا بینیا اور مغدور اسی طرح عورتوں پر واجب نہیں لیکن اگر وہ نماز جمعہ میں شامل ہو جائیں تو مستحسن ہے اور ان کی نماز جمعہ ہو جائے گی.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے چار آدمیوں کے عیلام جو ماتحت ہو، یا عورت یا بچہ یا بیمار آدمی را بو داؤد کتاب الصلوة باب الجمعة للملوك والمرة) ۲۴.جمعہ کی نماز بغیر کسی عذر کے ہر گز نہیں چھوڑنی چاہئیے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو جمعہ کی پرواہ نہیں کرتا اس کے دل کا ہم حصہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دو جمعہ کے ترک سے نصف اور چار جمعہ کے ترک سے سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے.اور اس طرح گویا عبادت کی لذت ہی باقی نہیں رہتی حضور فرماتے جو شخص تین جمعہ کی نماز بلا وجہ چھوڑے.اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے.ابن ماجه ابواب فرض الجمعه باب فيمن ترك جمعه من غير عدد) پھر آپ فرماتے تھے.جو جمعہ سے تخلف کرتے ہیں.میرے جی میں آتا ہے کہ ان کے گھروں میں آگ لگا دی جائے ر مشكوة كتاب الصلوة باب وجوب الجمعة الفصل الثانی) ۲۵.جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرنی چاہئے.کیونکہ آنحضرت صل اللہ علیہ نے جمعہ میں فتنِ دجال سے ڈرایا ہے.آپ فرماتے تھے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھ لیا کرد.نہیں تو کم از کم پہلی اور آخری دس آیات.ر ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في فتنة الدجال )
۹۵ اللہ تعالٰی ہمیں جمعہ کی برکات اور پاک تاثیرات سے بہرور کرے.اور ہم اس دن کی عظمت و فضیلت کو پہچانتے ہوئے نیکیوں کی طرف قدم ماریں ، تا جنت کی خوشخبری حصل کرسکیں.آمین.
۹۶ مساجد کے آداب مساجد کا واحد مسجد اور مسجد ہے مسجد کے معانی ہیں ہر وہ جگہ جہاں سجدہ کیا جائے اور عبادت کی جائے.اور مسجد کے معافی مطلق عبادت کی جگہ کے ہیں خواہ اس میں سجدہ کیا جائے یا نہ.(اقرب) مساجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں.مساجد در حقیقت خانہ کعبہ کا ظل ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے، نیز تمام عبادت گاہوں کے تقدس دحرمت کو بر فرار اور قائم کنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے.وكولا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وسيع و صَلَواتُ وَ مَسجِدُ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثيراء وَلَيَنْصُرَتَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ (سورة الحج : (الله) عَزِيزه اور اگر ال ان ریعنی کفارہ میں سے بعض کو بعین کے ذریعے سے اشرارت سے باز نہ رکھتا تو گر ہے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے.برباد کر دیئے جاتے اور اللہ یقیناً اس کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کرے گا.اللہ یقیناً طاقت درا در غالب ہے.مساجد خدا تعالیٰ سے دعائیں اور مناجات کرنے کی جگہیں ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے انوارا در برکات کی نخلی گاہ ہیں.یہ مومنین کے اکٹھے ہونے کی جگہ اور انہیں ایک مرکتہ متحد رکھنے کا ذریعہ ہیں.
۹۷ پس بیت اللہ کا بہت ادب و احترام کرنا چاہیئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا چاہیئے جو ان کے تقدس اور احترام کے خلاف ہو.ذیل میں قرآن مجید، سنت نبوی اور احادیث نبویہ کی روشنی میں بیت اللہ کی حرمت اور پاسبانی کے لئے آداب درج کئے جاتے ہیں.ا.مسجد میں پاک وصاف ہو کر صاف ستھرا لباس پہن کر اور باوضو ہو کر جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف میں فرماتا ہے.يبني أَدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا ولا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ.(سورۃ الاعراف (۳۲) اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے قریب زینت ( کے سامان) اختیار کر لیا کرو.اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہو بھی خوب پاک وصاف ہو کر کسی مسجد کی طرف جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے.ابو داؤد كتاب الصلوۃ باب في فضل المشى الى الصلوة) جنبی مرد کا اور حیض و نفاس کی حالت میں عورت کا مسجد میں داخل ہونا منع ہے.۲.مسجد میں داخل ہوتے وقت مسجد میں پہلے دایاں پاؤں رکھنا چاہیئے.انسانی فطرت میں وائیس کو بائیں پر ترجیح دینار کھا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کی قطرت نہایت درجہ پاک تھی.آپ فرماتے تھے.الْأَيْمَنُ فَالْأَيْمَنُ ر بخاری کتاب الاشربة باب الالمين فالائمين في الشرب)
۹۸ دایاں دایاں ہی ہے.مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیئے.بِسمِ اللهِ الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ اللهُمَّ اغْفِرُ لي ذُنُونِي وَافْتَحُ لِي النواب يحميك (ابن ماجہ ابواب المساجد والاجتماعات باب الدعاء عند دخول المسجد ) اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اللہ کے رسول پر سلامتی ہو.اے میے اللہ میرے میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروانے سے مجھ پر کھول دے.۴ مسجد سے باہر نکلتے ہوئے السلام علیکم کہیں اور پہلے بایاں پاؤں باہر نکا لیں اور پھر یہ دعا پڑھیں.بسم الله الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهُمَّ اغفرلي ذُنوبي وافتح لي ابوابَ فَضْلِكَ د مسند احمد بن حنبل جلد ششم ص ۲۸ مطبع مہمینہ مصر ) حضرت فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں داخل ہوتے ہوئے اور مسجد سے باہر نکلتے وقت یہ دعائیں پڑھا کرتے تھے.د.ر ابن ماجه ابواب المساجد والاجتماعات باب الدعاء عند دخول المسجد) مجید میں داخل ہوتے وقت بھی حاضرین کو اسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ کہا جائے حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے.ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سے گزرے عورتوں کی ایک جماعت وہاں بیٹھی تھی.آپ نے (علاوہ قول کے) ہاتھ کے اشارہ سے سلام کیا.تمر مندی ابواب الاستیذان والادب باب ما جاء في التسليم على العشاء)
۹۹ جب مسجد میں داخل ہوں تو دو نفل ادا کرنے چاہئیں.ا مشكوة باب المساجد ومواضع الصلوة ) یہ نماز تحیة المسجد کہلاتی ہے.حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے.رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے.تو نہ بیٹھے.جب تک دو رکعت نماز نہ پڑھ لے.بخاری کتاب الصلواۃ باب اذا دخل احد المسجد فلير كع ركعتين ) مسجد میں بلند آواز سے باتیں نہیں کرنا چاہیئے.خاموشی سے وقت گزارنا چاہیئے.اگر مجبوری سے کوئی دینی بات کرنی ہو تو آہستگی سے کرنی چاہیئے تا نمازیوں کی نماز میں حرج نہ ہو.مساجد میں سنتا بھی نہیں چاہیئے.حضرت السائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھے کنکر مارا.جب میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب تھے.فرمایا.جاؤ ان دو شخصوں کو میرے پاس لاؤ ہمیں انہیں لایا.پوچھا تم کہاں سے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا.ہم طائف کے لوگوں میں سے ہیں.عمر فر نے کہا.اگر تم شہر والوں سے ہوتے تو میں تم کو سنا دیا.کیونکہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز بلند کرتے ہو.د بخاری کتاب الصلوۃ باب رفع الصوت في المسجد) مساجد میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا اور ادھر اُدھر کی فضول باتیں کرنا سخت ناپسندیدہ حرکت ہے.کیونکہ مساجد خد اتعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں.ضرورت محسوس ہونے پر مذہبی سیاسی، قضائی اور تمدنی امور پر بھی مساجد میں گفتگو ہو سکتی ہے (تفسیر کبیر جلد دوم صن کا نیا ایڈیشن) مساجد کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے.اور مساجد میں بیٹھنے کے بعد لغویات
سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیئے.لیکن وہ تمام کام جو قومی فائدے کے ہوں وہ بھی ذکر الہلی اور دین کی خدمت کے تحت آتے ہیں.چنانچہ رسول کریم کے زمانہ میں مساجد میں ہی تعلیم ہوتی تھی.قضا بھی وہیں ہوتی تھی اور لڑائیوں کے فیصلے بھی وہیں ہوتے تھے.۹ مساجد میں بیٹھ کر ذکر الہی اور تلاوت قرآن پاک کی جانی چاہیئے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.إنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى وَقِراءة القرآن مسلم کتاب الطهارة باب وجوب ازالته النجاسات اذا حصلت في المسجد) کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن مجید پڑھنے کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں.۱۰.مسجد میں لہسن ، پیاز اور بدبو دار سینری کھا کر نہیں آنا چاہیئے کیونکہ فرشتوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جو شخص پیاز یا لہسن کھائے ہماری مسجد میں نہ آئے.اور نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے.(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ باب البنى اكل الثوم والبصل ونحوها عند حضور المسجد مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص پیاز لہسن یا گند نا کھائے وہ مسجد میں نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے.حضرت عمر بن خطاب نے خطبہ پڑھا اور کہا.اے لوگو ! تم پیاز اور لہسن کھاتے ہو.میں تو انہیں خبیث جانتا ہوں.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب مسجد میں کسی شخص سے ان دونوں کی بُو پاتے تو فرماتے کہ اس کو نکال دو.وہ آپ کے فرمان سے بقیع کی طرف نکالا جاتا.مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلواة باب النهي الكل الثوم والبصل ونحوها عند حضور المسجد
1•1 جوان دونوں کو کھائے تو لازم ہے کہ پکا کران کی بو زائل کر لیا کرے.(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوة باب النهي اكل الثوم والبصل ونحوهها عند حضور المسجد) مساجد میں بیٹھ کر خرید و فروخت کی باتیں نہیں کرنی چاہیئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسجد میں کسی کو بیچا یا خرید تا دیکھو تو اس کو کہو کہ خدا تعالیٰ تیرے سودے میں تجھے نفع ر ترمذی ابواب البيوع باب النهي عن البيع في المسجد) ندے.۱۲ مسجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے.اس لئے مسجد میں کھوئی ہوئی چیز تلاش کرنے کی بھی ممانعت آئی ہے.حضرت ابو سر یہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نا.جو شخص مسجد میں کسی کو کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈتا ئنے ، تو کہے اللہ تعالیٰ تجھے وہ چیز واپس نہ دے.اس لئے کہ مسجد میں اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں.اسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوة باب النهي عن نشد الضالة في المسجد) حضرت بریدہ سے روایت ہے.ایک شخص مسجد میں تلاش کرتا ہوا کہنا تھا کہ کون ہے جو سرخ رنگ اونٹ کا پتہ بتلائے ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ کے تو اس کو نہ پائے مسجدیں توجس کام کے لئے بنائی گئی ہیں اسی کے لئے ہیں لئے - (مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوة باب النهي عن نشد الضالة في المسجد) ۱۳.مساجد میں شعر خوانی نہیں کرنی چاہیئے.حضرت عمر دین شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مسجد میں مشاعرہ کے رنگ میں اشعار پڑھے جائیں.ا مشكوة باب المساجد ومواضع الصلواة)
۱۴ مساجد میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے اور باتیں کرنے کی بھی ممانعت ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن نماز سے پہلے لوگ حلقے بنا کر بیٹھے باتیں کریں.ابو داؤد كتاب الصلواة باب التحليق يوم الجمعة قبل الصلوة) ۱۵.مساجد کو ہر قسم کی گندگی سے پاک صاف رکھنا چاہیے کیونکہ مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ سورۃ الحج رکوع ۴ میں فرماتا ہے وطَهَرُ بَيْتِي لِلطَّائفين والقاعي والركع السجود.( سورة الحج : ۲۷) اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور کھڑے ہو کہ عبادت کرنے والوں کیلئے اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک کر حدیث میں آتا ہے.مسجد میں تھوکنا گناہ ہے.اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو دیا دیا چاہئے.اسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوة باب النهي عن البصاق في المسجد) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف دیوار میں ناک کا پانی پاکھنکار دیکھا تو اسے کھرچ دیا.اسلم كتاب المساجد و مواضع الصلوة باب النهي عن البصاق في المسجد) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں میں بول یا گندگی نہیں چاہیئے.یہ تو اللہ کے ذکر کے لئے ہیں اور قرآن کے پڑھنے کے لئے ہیں.ر مسلم کتاب الطهارة باب وجوب ازالة النجاسات اذا حصلت في المسجد حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے
١٠٣ سامنے میری اُمت کے اعمال پیش کئے گئے اچھے اور بڑے بھی.......اور اس کے بڑے اعمال میں سے یہ عمل بھی نظر آیا کہ کوئی شخص مسجد میں کھنگار (علیمی) پھینکے اور اسے لوگوں کی نظر سے اوجھل نہ کرے یعنی مسجد کو گندہ کرے.مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوة باب النهي عن البصاق في المسجد).مساجد میں بدبو اور عفونت کو دور کرنے کے لئے سعود (اگر بتی جلانی چاہیئے.مساجد کی تطہیر لازم ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مساعید کو صاف رکھو اور اس میں عود وغیرہ جلاتے رہو.-K (تفسیر کبیر جلد دوم صن! نیا ایڈیشن) مساجد میں تصویریں نہیں بنانی چاہیں.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضر تمجید اور حضرت ام سلیم نے عیش میں ایک گرجا دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں.انہوں نے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا.ان لوگوں میں سے کوئی نیک مروجب مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصویریں بنا دیتے.یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین خلقت ہیں.تجرید بخاری حصہ اول حث (۱۱) ۱۸ - مساجد میں باجماعت نمازوں کو ادا کرنا چاہیئے.کیونکہ مسجدوں کی اصل زینت نمازیوں کے ساتھ ہے نہ کہ عمارتوں کے ساتھ.احادیث میں مساجد میں ادائے نماز کی بہت فضیلت آئی ہے.حضرت او سر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جماعت کی نماز، اپنے گھر کی نماز اور اپنے بازار کی نماز پر چلپیس دیجھے (ثواب نصیحت) زیادہ رکھتی ہے.اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھا وضو کرے.اور مسجد میں محض نماز کے ہی ادا کرنے کو آئے.تو وہ جو قدم رکھتا ہے اس پر اللہ ایک درجہ اس کا بلند کر دیتا ہے.یا ایک گناہ اس کا معاف فرماتا ہے.یہاں تک کہ وہ مسجد
۱۰۴ میں داخل ہو جائے اور جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے.تو نماز میں سمجھا جاتا ہے جیب یک که نماز اسے روکے اور فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں.جب تک کہ وہ اس مقام میں رہے.جہاں نماز پڑھتا ہے.فرشتے یوں دعا کرتے ہیں.اَللهُمَّ اعْمَلَهُ اللَّهُوَ ارْحَيْهُ اے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اس پر رحم کر.یہ دعا اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے.دستجرید بخاری حصہ اول ص ۱۲) گویا مساجد میں جانے اور نماز ادا کرنے سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ ملائکہ کی دعاؤں سے حصہ پاتا ہے.۱۹ مساجد میں صف بندی کا خیال رکھنا چاہیئے اور نماز ادا کرنے کے وقت صفوں کو ضرور درست کرنا چاہیئے کیونکہ صنفوں کی درستی نماز کی تکمیل کا ایک ضروری جزو ہے.حضرت عمان میں بیٹر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم اپنی صفوں کو بابر کہ لو.ورنہ اللہ تمہارے چہرے میں تغیر کرے گا.ا تجرید بخاری حصہ اول ص ۱۷۲) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا.صفوں کو درست کردہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں.دستجرید بخاری حصہ اول ص ۱۷۲) حضرت ابومسعود کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی الہ علیہ وسلم ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے.برابر ہو جاؤ.اور جدا جدا مت ہو کہ تمہارے دل حدا جدا ہو جائیں گے.ا مسلم كتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف دا قامتها و فضل الاول فالاول منها ) آپ فرمایا کرتے تھے جو صف کو ملائے گا.اس کو اللہ تعالے ملائے گا اور توصف -
۱۰۵ توڑے گا.اللہ اس کو قطع کر دے گا.(ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے صفوں کی دہنی طرف والوں پر رحمت بھیجتے ہیں.د ابو داؤد كتاب الصلوة باب من يستحب أن علي الامام في الصف وكراهية الناصر صفوں کی درستگی کے ساتھ ساتھ پہلے پہلی صف کو پورا کیا جائے پھر دوسری صف کو اور پھر ترتیب کے ساتھ باقی صفوں کو.اور حدیث میں آتا ہے کہ پہلی صف میں سمجھدار اور بزرگ لوگ کھڑے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے.چاہیے کہ تم میں سے سمجھدار لوگ ہی کے نزدیک کھڑے ہوں، پھر تو اُن سے قریب ہوں، پھر جو ان سے قریب ہوں.امسلم کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف واقامتها) صف اول میں نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گروگ جان لیں کہ اذان رکہتے ہیں اور پہلی صف میں کیا تو اب ہے.پھر رجب صف اول میں جگہ) نہ پاتے مگر یہ کہ اس پر قرعہ ڈالا جائے تو وہ ضرور قرعہ ڈالتے.تجرید بخاری حصہ اول صد (۱۵) ۲۰.مساجد میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے اور اس کی عبادت بجالانے کے لئے کسی کو نہیں روکنا چاہیئے.کیونکہ اللہ کے نزدیک ایک کرنے والا بہت بڑا ظالم ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَلَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلا خَالِقِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا
خرى وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) (سورة البقره : (١١٥) اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جس نے اللہ کی مساجد سے لوگوں کو روکا کہ اس میں اس کا نام لیا جائے اور اس کی ویرانی کے در پے ہو گیا.ان لوگوں کے لئے مناسب نہ تھا کہ ان مساجد کے اندر داخل ہوتے مگر خدا تعالے سے ڈرتے ہوئے.ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب مقدر ہے.خود بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے میچوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی.زا والمعاد عربی جلد دوم صفحہ ۳۵ مطبوعہ میجمینة بمصر میں لکھا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بحران کا عیسائی وقد آیا تو وہ لوگ عصر کے بعد مسجد نبوی میں آئے اور گفتگو کرتے رہے.گفتگو کرتے کرتے ان کی عبادت کا وقت آگیا (غالباً وہ اتوار کا دن ہو گا چنانچہ وہ وہیں مسجد میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.لوگوں نے چاہا کہ وہ انہیں روک دیں.مگر رسول کریم نے فرمایا.ایسا مت کرد.چنانچہ انہوں نے اسی جگہ مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنے طریق کے مطابق عیادت کی.پس مساجد میں اللہ کی عبادت سے روکنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا.اور جیسے رسول کریم نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا.۰۲۱ (زاد المعاد جلد دوم ص ۳۵ مطبع بیمینہ بمصر مساجد کا قیام تقوی کو مد نظر رکھ کر کیا جائے.ان کو فتنہ و فساد کی بنیاد رکھنے کی جگہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی بغاوت کرنے کا ذریعہ بنایا جائے کیونکہ یہ بہت بڑا ظلم ہے.پس مساجد امن کے لئے روحانیت کی ترقی کے لئے اور دلوں کی تسکین کے لئے بنائی جانی چاہئیں.تاکہ مساجد سے مسافر بھی شہر میں رہنے والے بھی.توحید کامل پر قائم رہنے والے لوگ کبھی فائدہ اٹھائیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر سکیں.
1.6 حضرت عثمان بن عفان نے بیان کرتے ہیں کہ میں نے استحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد تعمیر کر تا ہے.اللہ تعالیٰ بھی اس کے لئے جنت میں اس جیسا گھر تعمیر کرتا ہے.مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوة باب فضل بناء المسجد والحث عليها )
۱۰۸ مجالس کے آداب مجالس مجلس کی جمع ہے.اس کے معنی بیٹھنے کی جگہ کے ہیں.یہ ظرف مکال ہے.معاشرہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے مجالس کا انعقاد ضروری ہونا ہے.مجالس کے قیام سے جہاں جماعتی طور پر افراد تر قی کی منزل کی طرف گامزن ہوتے ہیں وہاں وہ تعاون با ہمی کرتے ہوئے ایک دوسے کی تکالیف کو دور کرنے میں کوشاں رہتے ہیں.جماعتی خوش حالی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ افراد کا آپس میں گہرا اور مضبوط تعلق ہو.اس کے لئے وہ گا ہے یہ گا ہے مجالس منعقد کریں اور مجالس کے آداب اور دار کو ملخظ رکھ کر اپنے علم، ایمان اور روحانیت میں ترقی کریں کیونکہ علم اور ذکر کی مجالس تو جنت کے باغ ہیں.جن کے پھل کھانے کی ہدایت تو آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خو دی.بے شک مجلسی آداب تمام اقوام میں پائے جاتے ہیں لیکن اسلام نے مجالس کے جو آداب بیان کئے ہیں وہ اتنے مکمل اور بہترین ہیں حین پر عمل کرنے سے مجالس جنت کے باغوں کا نمونہ بن سکتی ہیں.آئیے قرآن مجیب را در سنت نبوی سے حاصل کردہ آداب سیکھ کر اپنی مجالس کو جنت کے باغ بنائیں.-1 مجالس میں کھل کر بیٹھنا چاہیئے.مجالس میں کشادگی اور فراخی کے سامان پیدا کئے جائیں.اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے.يليها الذين أمنوا إذا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَحُوا فِي المَجَالِي فَاشْحُوا لفتح الله لكم (سورة المجادلة : ١٣)
1.9 اسے مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجالس میں کھل کر بیٹھورا اور دوسروں کو جگہ (و) تو کھل کر بیٹھ جایا کرو.الہ بھی تمہارے لئے کشادگی کے سامان پیدا کرے گا.معلم اخلاق حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے.16 خَيرُ المَجَالِي اوسعها " د ابو داؤد کتاب الادب باب فی المجلوس بالطرقات) بہترین مجالس وہ ہیں جو کشادہ اور فراخ ہوں.اور لوگ کھل کر بیٹھ سکیں.اور بوقت ضرورت آنے والوں کو جگہ دیں..اور جب مجلس میں سے کسی شخص کو چلے جانے کے لئے کہا جائے تو اسے فورا اُٹھ کر چلے جانا چاہیے، کیونکہ اصل چیز اطاعت اور فرمانبرداری ہے.اور اسلام کے معنی بھی ہیں ہیں کہ فرمانبرداری کی روح کو اختیار کیا جائے.اللہ تعالیٰ سورۃ المجادلہ میں فرماتا ہے.اذا قيل انتروا فَانتُذُوا مَرفَعَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ و الَّذِينَ أوتُوا العِلْمَ دَرَجَتِ ) سورة المجادلة : (۱۲) اور جب تمہیں کہا جائے کہ اُٹھ جاؤ تو اُٹھ جایا کرو.اللہ ان کو جو کہ مومن ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجات میں بڑھائے گا.مجلس میں داخل ہوتے ہوئے حاضرین کو اسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ کہنا چاہئے.اسی طرح مجلس سے باہر جاتے ہوئے بھی اسلام علیکم ورحمتہ الہ و برکاتہ کہنا چاہیئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے توچاہیئے کہ سلام کے اگر میٹھنا ہو تو بیٹھ جائے پھر جب اُٹھے تو چاہیے کہ سلام کہے.پہلی بار سلام کہنا چھپہلی بار سلام کہنے سے زیادہ تاکید کی بات نہیں.ابو داود د کتاب الادب باب فی السلام اذا قام من المجلس)
11.۴ مجلس میں کسی شخص کو اٹھا کر خود اس کی جگہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے.یہ نا پسندیدہ بات ہے.حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی کسی دوسے گھر کو اس کی جگہ سے اس مرض سے نہ اٹھائے کہتا وہ خود اس جگہ میٹھے.وسعت قلبی سے کام لو اور کھل کر بیٹھو.مسلم کتاب السلام باب تحریم اقامته الانسان من موضعه الذي سبق اليه) حضرت ابن عمر کا یہ طریق منھا کہ آپ اس شخص کی جگہ پر کبھی نہیں بیٹھتے تھے جو آپ کو اپنی جگہ دینے کے لئے اٹھتا تھا.( ترمذی ابواب الادب والاستیذان باب ما جاء في كرا عصبه أن يقام الرجل من مجلس به تم مجلس قبيه ہر شخص کسی ضرورت کے تحت مجلس سے اٹھ کر جائے.اور پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ کا زیادہ حقدار ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.جب تم میں سے کوئی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو اور پھر واپس آجائے تو اس جگہ کادی زیادہ حقدار ہے.مسلم کتاب السلام باب اذا قام من مجلسه ثم عاد فهو احق به مجلس میں جہاں جگہ ہے وہیں بیٹھ جانا چاہیئے.لوگوں کے کندھوں سے پچھانگ کر آگے جگہ لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے.اور نہ ہی دو آدمیوں کے درمیان جگہ بنا کر خود بیٹھنا چاہیئے ، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہیں کرتا تو یہ بات اس کے گناہ معاف کرنے میں مدد دیتی ہے.ابخاری کتاب الجمعة باب الدمن للجمعة )
مجلس میں اگر لوگ حلقہ بنا کر بیٹھے ہوں تو حلقہ کے درمیان میں اگر میٹھنا نا پسندیدہ حرکت ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اس شخص پر جو حلقہ کے درمیان بیٹھے.را ابو داؤد کتاب الادب باب فی التعلیق) ۸ مجلس ، مسجد اور مجمع میں لہسن پیاز اور کوئی بدبو دار چیز کھا کر نہیں جانا چاہیئے.حضرت جائیہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کچا اسن یا پیاز کھا یا ہو وہ ہم سے اور ہماری مسجدوں سے الگ ہے.یعنی یہ بدبو دار چیزیں کھا کر ملیں یا مجمع یا مسجد میں نہ آئے.د بخاری کتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم والبقل) مسلم کی روایت میں ہے کہ جس نے کچا لہسن اور پیاز یا گندہ نا کھایا ہو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے.کیونکہ جس چیز کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف پہنچے.اس سے فرشتے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں.b" مجلس میں اگر تین آدمی ہوں تو سر گوشیاں نہ کی جائیں.کیونکہ یہ شیطانی کام ہے.قرآن مجید میں آتا ہے.إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَنِ " (سورة المجادلة : (1) کہ خفیہ مشورے کرنے کا طریق شیطان کی طرف سے آیا ہے حضرت ابن عمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تین آدمی ایک جگہ میں ہوں تو دو بغیر تیسرے کے اذن کے باہم سرگوشی نہ کریں.مسلم کتاب السلام باب تحریم مناجاة الاثنين دون الثالث) این مسعود کی روایت میں ہے.سرگوشی نہ کریں.یہاں تک کہ تم لوگوں میں مختلط نہ
ہو جاؤ.کہ یہ کام اس تیسرے کو رنج میں ڈالتا ہے.ر مسلم کتاب السلام باب تحریم مناجاة الأثنين دون الثالث) - مجالس میں بیٹھ کر ناشائستہ کلام نہیں کرنا چاہیئے اور نہ ہی بے ہودہ گوئی کرنی چاہیئے.لیکن اگر کوئی شخص بے ہودہ گوئی کر بیٹھے تو اسے مجلس میں سے اُٹھنے سے پہلے یہ دعا ضرور پڑھنی چاہیئے.سُبحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ استغْفِرُكَ واتوب اليك.ر ترمذی ابواب الدعوات باب ما يقول اذا قام من مجلسه) اے اللہ ! تو پاک ہے اپنی سچی تعریف کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.میں تجھ سے راپنے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں.حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھ کر بے ہودہ گوئی کر بیٹھے اور اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے تو جو کچھ ملس میں اس سے سرزد ہوا.وہ بخشا جاتا ہے.ترندی ابواب الدعوات باب ما يقول اذا قام من مجلسه) مجلس میں جمائیاں نہیں لینی چاہئیں.اگر جمائی آجائے تو جہاں تک ہو سکے اُسے روکا جائے.اللہ تعالیٰ جمائی کو مکروہ اور ناپسندیدہ چیز قرار دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ دستم فرماتے تھے.بھائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہونگے.اس کو روکے.کیونکہ جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان اس سے بنتا ہے.جائی آئے تو لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم پڑھنا چاہئے.بخاری دلم مجلس میں اگر چھینک آئے تو جہاں تک ہو سکے آواز کو دبایا جائے.حضرت الو ریہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ کو جھینگ
١١٣ آتی تو اپنا ہاتھ یا کپڑا منہ کے سامنے رکھ لیتے اور جس قدر ہو سکتا تو آواز کو دبائے.رتمندی کتاب الاستیذان باب ما جاء فى خفض الصوت دو تخمير الوجه ۱۲- اگر مجلس میں چھینک آ جائے تو چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا چاہیئے اور جو شخص سن رہا ہو تو اسے جواب میں ير حمد اللہ کہنا چاہیے.ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ چھنے کنے کو پسند فرماتا ہے اور جمائی کو مکروہ.( ترمذی ابواب الاستیذان باب ما جامع ان الله یحب العطاس دبكره التشاب) جب تم میں سے کوئی چھینکے اور الحمد للہ کہے تو ہر مسلمان پر جو اس کو سُفنے لازم ہے کہ یہ ملک اللہ کہے.یعنی اللہ تم پر رحم کرے.اور جب چھینک مارنے والا به جواب سُنے تو يهديكم الله ويصلح بالکم کہے یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات اچھے کپڑے.دترندی ابواب الاستیدان والادب باب ما جاء كیف میثمت العاطس) ۱۴ - مجلس میں پاؤں پیار کے نہیں بیٹھنا چاہیئے حضورصلی الہ علیہ وسلم جب میں میںبیٹھتے تو آپ کے زانو کبھی ہم نشینوں سے آگے نکلے ہوئے نہ ہوتے -10 ر تمه ندی ابواب صفة القیامۃ باب نمبر (۴۶) -۱۵ مجلس میں یا مجلس کے پاس سے کوئی ہتھیار، تیر، چاقو چھری وغیرہ لے کر نہیں گزرنا چاہیئے.اگر کوئی ایسا ہتھیار ہو تو اس کا پھل اپنے ہاتھ میں پکڑ لینا چاہئیے تاکہ دورے کو نقصان نہ پہنچے حضرت ابوموسی اشعری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ہا تھ میں تیرے کہ مجلس یا بازار سے گزرے تو اس کا پھل اپنے ہاتھ میں پکڑے تاکہ وہ کسی کو زخمی نہ کرے.آپ نے یہ ارشاد تاکید کی تعرض سے تین
دفعہ دہرایا.۱۱۴ -14 ر مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن الاشارة بالسلاح الى السلم ) -14 مجلس میں مقصر کی بات ہمہ تن گوش ہو کر سننی چاہیئے.اور تقریر کے دوران شور نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ ایسا کرنا اسلامی روایات کے خلاف ہے.اور جب مجلس میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق خاموشی سے اُسے سنا جائے تاکہ خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہو.وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَالْمنَ العَلَكُمْ تُرْحَمُونَ رسورة الاعراف : (۲۰۵ اور جب قرآن مجید پڑھا جائے تو تم اس کو غور سے سنو.اور خاموش رہو تا کرم پر رحم کیا جائے ، احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں حاضرین ادب سے سر جھکائے بیٹھے رہتے.خود حضور مؤدب ہو کر بیٹھتے.اور جب بات فرماتے تو مجلس پرستان چھا جاتا اور ہر شخص پیکر تصویر نظر آتا.حضرت براڈ سے مروی ہے کہ ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر گئے.آپ تشریف فرما ہوئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے.اور ہم اس طرح خاموش بیٹھے تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے ہیں.کال دستن نسائی کتاب الجنائز باب الوقوف للجنائز) مجلس میں تقریر کے دوران مقرر کی بات کو قطع نہیں کرنا چاہیئے.ہوٹنگ کرنا اسلامی طریق نہیں ہے.حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ عادت تھی کہ آپ کسی کی بات کاٹ کر گفتگو نہ فرماتے جو بات ناپسند ہوتی اس سے تغافل فرماتے تھے.بعض اوقات حضور کی مجلس میں کوئی بدو آجاتا اور آداب مجلس سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ آپ سے عین سلسلہ تقریر میں کوئی بات پوچھتا تو آپ تقریر جاری رکھنے اور فارغ ہو کر اس کی
طرف توجہ کرتے.ایک دفعہ آپ تقریر فرمارہے تھے ایک بدد آیا اور آنے کے ساتھ اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی.آپ تقریر کرتے رہے.حاضرین سمجھے کہ آپ نے نہیں سنا.کسی نے کہا سنا لیکن آپ کو ناگوار ہوا.آپ گفتگو سے فارغ ہو چکے تو دریافت فرمایا کہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ بدو نے کہا میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا.جب لوگ امانت کو ضائع کرنے لگیں گے.بولا.امانت کیونکر ضائع ہوگی.فرمایا جب نا اہلوں کے ہاتھ میں کام آئے گا.بخاری کتاب العلم باب من سئل علما و هو شتغل في حديثه ) ۱۸- مجالس میں فضول سوالات نہیں پوچھنے چاہئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نغو سوالات کو نا پسند فرماتے تھے.بعض لوگ مجلس میں حضور سے معمولی اور بے مقصد باتیں پوچھتے تھے مثلاً یا رسول اللہ امیر باپ کا نام کیا ہے ؟ میرا اونٹ کھو گیا ہے وہ کہاں ہے ؟ آپ ان باتوں کو ناپسند فرماتے تھے.حضرت ابو موسی الم سے روایت ہے کہ ایک قصہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے مزاج کے خلاف تھیں.پ نے کچھ جواب نہ دیا ) مگر جب ان سوالات کی آپ کے سامنے کثرت کی گئی تو آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا.جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو.اس پر ایک شخص نے عرض کی میرا باپ کون ہے.آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے.پھر دوسرا شخص کھڑا ہو گیا اور کہا.بارسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا مولی.پھر جب عریض نے آپ کے چہرے مبارک پر غضب کے آثار دیکھے تو عوض کی یارسول الله ! ہم خدائے بزرگ بلند سے تو بہ کرتے ہیں.التجرید سخاری حصہ اول ص ۴۴۲۳ 19 مجلس میں صدر مجلس سے بہت زیادہ سوال نہ کئے جائیں.کیونکہ کثرت سوال سے انسان کی ذہنی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں.حابه کرام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض صحبت سے تربیت یافتہ تھے.
ن کا قاعدہ تھا کہ صلی الہ علیہ وسلم سے بہت کم مسائل پوچھتے تھے.اور جب کوئی نبی حضور سے بے محابا سوال کرنا تھا تو متعجب ہوتے تھے.۲۰ مجلس میں کسی بھائی کے عیوب نہیں بنانے چاہئیں ، کیونکہ خدائے ستار اس بات کو نا پسند فرماتا ہے.اگر کسی بھائی میں کوئی عیب پایا جاتا ہے تو وفاداری اسی میں ہے اور اس کے ساتھ محبت کا تقاضا یہی ہے کہ نہایت احتیاط کے ساتھ خلوت میں جاکر اس کے عیوب سے اسے مطلع کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے إِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ اليم في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (سورة النور آیت (۲) جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بدکاری کا چرچا ہو.ان کے لئے دنیا اور آخرت میں عذاب متقدّر ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کوئی بندہ کسی بندے کی پردہ پولنی نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا.(مسلم کتاب البر والصلة والادب باب بشارة من سنتر اللہ تعالی علیہ في الدنيا بأن يشر عليه في الاخرة) ۰۲۱ مجالس میں دقیق مباحث جنس کی تہہ تک عوام الناس نہ پہنچ سکیں نہیں کرنے چاہئیں.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل مسائل اُٹھا نے سے منع فرمایا ہے (شرح العین) حضور اس بات کو نا پسند فرماتے تھے.چنانچہ ایک روز صحابیہ کی مجلس میں مسئلہ تقدیر پر گفتگو ہورہی تھی.آپ نے سُنا تو مجرے سے نکل آئے.آپ کا چہرہ مبارک اس قدر سُرخ ہوگیا تھا گویا عارض مبارک پر کسی نے انار کے دانے نچوڑ دیئے ہیں.آپ نے صحابہ
116 کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا.کیا تم اسی لئے پیدا کئے گئے ہو ؟ قرآن کو باہم مکرا ہے سو گزشتہ امتیں انہیں باتوں سے برباد ہوئیں.ر ابن ماجه المقدمة باب القدر) ۲۲.اگر کسی مجلس میں کسی مسلمان کے خلاف ناحق تہمت لگائی جارہی ہو.تو اس کا واجبی جواب دینا چاہیے کیونکہ انسان کی عزت سب سے قیمتی متاع ہے.صحابہ کرائٹر کو اس بات کی تاکید کی گئی تھی کہ وہ کسی کی شکایت با عیوب حضور تک پہنچا ہیں.آپ فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف جاؤں.ر ابو داؤد کتاب الادب باب في رفع الحديث من المجلس) -۲۳ - مجالس میں ہدایت، ارشاد، آداب، اخلاق ، قرآنی علوم و معارف اور تزکیہ نفوس کی باتیں کرنی چاہئیں.کیونکہ اسلام خود نیک بنے اور دوسروں کو نیک بنانے کا حکم دیتا ہے.جیسا کہ ارشاد ربانی ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ( سورة ال عمران : (11) کہ تم وہ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے (فائدہ کے) لئے پیدا کی گئی ہے.تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو.۲۲- مجالس میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید ضرور کرنی چاہیئے نیز کثرت سے استغفار کرنا چاہیئے اور درود پڑھتے رہنا چاہیئے.کیونکہ اللہ تعالے کے بزرگ فرشتے ذکر کی مجالس کی تلاش میں لگے رہتے ہیں.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا.اے لوگو یا جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو.
JA ہم نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! جنت کے باغ سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں.صديقة" الصالحین مثات الع کرده شعبه اشاعت وقف جدید) اللہ تعالیٰ قرآن مجیب میں فرماتا ہے.وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي نَاتٌ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكَا وَتَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أعمى.( سورة طه : ۱۲۵) اور جو شخص میری یاد سے اعراض کرے تو اس کے لئے تنگ زندگی ہے اور لئے تنگ زندگی قیامت کے دن ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مجلس میں بیٹھنے تو ستر سے زائد بار آپ استغفار کرتے تھے.۲۵ مجلس میں شگفتہ مزاجی اور ہلکا پھلکا مزاح کا رنگ بھی اختیار کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں.حضور مہذب ظرافت اور ہنسی میں خود بھی شریک ہوتے تھے.حضور اکرم اور صحابہ کرام کی مجالس شگفتہ مزاجی کے اثر سے خالی نہ تھیں.ایک دن حضور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ جنت میں خدا سے ایک شخص نے کھیتی کرنے کی خواہش کی.خدا نے کہا.کیا تمہاری خواہش پوری نہیں ہوئی ہے.اس نے کہا.ہاں لیکن میں چاہتا ہوں کہ فوراً بوؤں اور ساتھ ہی تیار ہو جائے.چنانچہ اس نے بیج ڈالے فورا دانہ اُگا ، بڑھا اور کاٹنے کے قابل ہو گیا.ایک بدو سیٹھا ہوا تھا.اس نے کہا.یہ سعادت صرف قریشی یا انصاری کو نصیب ہوگی جو زراعت پیشہ ہیں.لیکن ہم لوگ تو کاشتہ کار نہیں.آپ ہنس پڑے.ربخاری کتاب الرد على الجمعيه وغيرهم الوحيد باب كلام الحرب مع اهل الجنة ) ایک دفعہ ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں تباہ ہو گیا.
114 ارشاد ہوا.کیوں ؟ بولے.میں نے رمضان میں بیوی سے ہمبستری کی.آپؐ نے فرمایا.ایک غلام آزاد کرد - بولا.غریب ہوں.غلام کہاں سے لاؤں.ارشاد ہوا ۲ مہینے کے روزے رکھو.بولا.یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا.فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ.کہا اتنا مقدور نہیں.اتفاق سے کہیں سے زنبیل مجھر کر کھجوریں آگئیں.آپ نے فرمابا بفر ہوں کو خیرات کہ آؤ بعض کی.اس خدا کی قسم ! جس نے آپ کو پیغمبر بنایا ہے.سارے مدینہ میں مجھ سے شہد کو کوئی غریب نہیں.آپ بے ساختہ مہنس پڑے اور فرمایا.اچھا تم خود ہی کھا لو.ابخاری کتاب النفقات باب نفقة العسر على اهله) - مجلس میں جب ایک مسئلہ ملے ہو جائے تو دوسرا مسئلہ پیش کرنا چاہیئے.حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی مجلس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا.تمام حاضرین ادب سے سر جھکائے بیٹھے رہتے.کوئی شخص ہوتا تو جب تک وہ چپ نہ ہو جائے دوسرا شخص نہیں بولنا تھا.۲۷.مجلس سے بلا عذرا در مجبوری کے نہیں اُٹھنا چاہیئے کیونکہ ایسا شخص لیا اوقات فیض سے محروم ہو جاتا ہے.حضور صلی الہ علیہ وسلم ایسے لوگوں پر جو مجالس میں آکر واپس چلے جاتے تھے.ناراض ہوتے تھے.آپ ایک مرتبہ صحابہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ تین شخص آئے.ایک شخص نے حلقہ میں تھوڑی سی جگہ خالی پائی.وہیں بیٹھ گئے.دو کے صاحب کو درمیان میں موقعہ نہیں ملا.اس لئے سب کے پیچھے بیٹھے.لیکن تیسرے صاحب واپس چلے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ان میں سے ایک نے خدا کی طرف پناہ لی.خدا نے اس کو بھی پناہ دی.ایک نے جیا کی.خدا بھی اس سے شرمایا.ایک نے خدا سے منہ پھیرا.خدا نے اس سے بھی منہ پھیر لیا.امسلم کتاب السلام باب جلوس في المجلس)
۲۸ مجلس کے آداب کو مد نظر رکھ کر یہ بات ضروری ہے کہ صدر مجلس کی اجازت لے کر مجلس سے باہر جائے.۲۹.مجلس میں معزز شخص کے آنے پر اس کی پوری تعظیم کی جانی چاہیئے.حضور فرمایا کرتے تھے.اكْرِ مُو اكريم كُلِّ قوم ر ابن ماجد ابواب الادب باب اذا اتاکم کریم قوم خاکر موه) کہ ہر قوم کے معزز آدمی کی عزت و تکریم کردو.آپ خود بھی اس پر کاربند تھے.جب کسی قبیلہ کا معزز شخص آنا آپ حسب رتبہ اس کی تعظیم فرمائے.آپ فرماتے تھے.جس کو یہ پسند آتا ہے کہ اس کے سامنے لوگ تعظیم سے کھڑے رہیں اس کو اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈھنی چاہیئے.ابو داؤد کتاب الادب باب يقوم الرجل للرجل يعظمه بذالك آپ جوش محبت سے حضرت فاطمیہ کے آنے پر پیشوائی کی خاطر کھڑے ہو جاتے اور پیار سے ان کی پیشانی چومتے.ایک دفعہ آپ کے رضاعی بھائی آئے تو ان کی پیشوائی فرمائی اور ان کو اپنے سامنے بٹھایا.حضرت حلیمہ سعدیہ کے لئے بھی اُٹھ کر اپنی چادر بچھا دیتے تھے.ابو داؤد کتاب الادب باب فی تبر الوالدین ) مجلس میں اگر کوئی چیز تقسیم کرنی ہوتو ہمیشہ دائیں طرف سے تقسیم کر نا شروع کیا جائے کیونکہ اس میں برکت ہوتی ہے حضور اکرم جب کوئی چیز مجلس میں تقسیم کرنا چاہتے تو ہمیشہ دائیں جانب شروع فرماتے.اور اگر اس قدر ہوتی کہ صرف ایک آدمی کو کفایت کرتی تو اُسے دیتے جو دائیں جانب بیٹھا ہوتا حضور اس بات کا اتنا لحاظ رکھتے تھے کہ حضرت انس فرماتے
ہیں." میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک بکری کا جو گھر میں رہتی تھی دودھ دوھا اور اس کے دودھ میں اس کنویں سے پانی ملایا گیا جو میکے گھر میں تھا.پھر رسول کریم کو وہ پیالہ دیا گیا.اس وقت آپ کے بائیں جانب حضرت ابو بکرانہ اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا.آپ نے اس میں سے کچھ پیا.پھر جب پیالہ منہ سے بتایا تو حضرت عمر نے اس خوف سے کہیں اس اعرابی کو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھا نہ دے دیں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، ابو بکر آپ کے پاس بیٹھے ہیں.انہیں دے دیجئے گا لیکن آپ نے اس اعرابی کو جو آپ کے دائیں جانب بیٹھا تھا وہ پیالہ دیا.اور فرمایا کہ دایاں دایاں ہی ہے حضرت سھل ابن سعید فرماتے ہیں کہ آنحضرت کے پاکسس ایک پیالہ لایا گیا جیں میں سے آپ نے کچھ حصہ پیا.اس وقت آپ کی دائیں جانب ایک نوجوان بیٹھا تھا جو سب حاضرین مجلس میں سے صغیر احسن تھا اور آپ کے بائیں طرف بوڑھے سردار بیٹھے تھے.پس آپ نے اس نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان ! کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں.اس نوجوان نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! میں آپ کے تبرک کے معاملہ میں کسی اور کے لئے اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا.اس پر آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا.(بخاری جلد اول کتاب المساقاة - باب فی الشرب ایجواله سیرت خیر الرسل ص ۱۲۰ مصنفہ حضرت خلیفة المسیح الثانی الناشر شرکۃ اسلامیہ ربوہ) ۳۱.مجالس کا انعقاد ناغہ دے کرہ کیا جائے تاکہ آدمی اکتاہٹ محسوس نہ کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعظ و نصائح کی مجالس ناغہ دے کر متعقد فرماتے تھے بخاری میں ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ہم لوگوں کو ناقہ دے کر نصیحت فرماتے تھے کہ ہم لوگ اکتا نہ جائیں.بخاری کتاب العلم باب ما كان النبي يتجول بالموعظة والعلم) ۲۲ مجلس میں خودت فکر اور اصابت رائے کے لئے کبھی کبھار حاضرین مجلس سے
سوالات بھی کرنے چاہئیں.حضور اکرم مجالس میں امتحان کے طور پر صحابہ سے سوال بھی کرتے تھے حضرت عبد اللہ بن عمریضہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ نے پوچھا وہ کون سا درخت ہے جس کے ہتے نہیں جھڑتے اور جو مسلمانوں سے مشابہت رکھتا ہے.لوگوں کا خیال جنگلی درختوں کی طرف گیا بی کے ذہن میں آیا کہ کھجور کا درخت ہو گا.لیکن میں کم سن تھا.اس لئے جرات نہ کر سکا.بالآخر لوگوں نے عرض کی کہ حضور بتائیں.ارشاد فرمایا کھجور " عبد الله ب عمر کو تمام عمر حسرت رہی کہ کاش میں نے جرات کر کے اپنا خیال ظاہر کر دیا ہوتا.استن این ماجه المقدمه باب فضل العلماء) ۳۱.مجلس سے اٹھتے ہوئے بھی دعائیں مانگنی چاہئیں.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت جب کبھی کسی مجلس سے اٹھتے تو آپ دعا فرماتے.اللَّهُمَّ اقْسِمُ لَنَا مِن خَشْيَتِكَ مَا تَحول بِهِ بَيْنَنَا وَبَيْنَ معاصيك وَمِن طَاعَتِكَ مَا بَلِغْنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنَ الْيَقِيْنِ مَا تَهَونَ بِهِ علينا معيات الدُّنْيا ، اللهُمَّ مَنْعُنَا بِاسْمَلمَنَا وَابْصَارِنَا وَقُوتِنَا مَا احْيينا - وَاجْعَلْهُ الوارث منَا - وَاجْعَلَ ثَارَنَا عَلَى مَا خَلَمْنَا.وَالْصُرُنَا عَلَى مَن.عادَانَا.وَلَا تَجْعَلْ مُصْبتْنَا فِي دِينِنَا وَلَا تَجْعَل الدُّنْيا اكبر همنا ، وَلاَ سَلَغَ علمنا ، وَلا تُسَلّط علينا من لا يَرحَمْنَا دتر مذی کتاب الدعوات باب في جامع الدعوات ) اے میکے اللہ ! تو نہیں اپنا خوف عطا کر جسے تو ہمارے اور گناہوں کے درمیان روک بنا دے.اور ہم سے تیری نافرمانی سرزد نہ ہو.اور ہمیں اطاعت کا وہ مقام عطا کرخین کی وجہ سے تو نہیں جنت میں پہنچا دے اور انسالیقین بخش کہ جس کی وجہ سے دنیا کے مصائب تو ہم پر آسان کر دے.اے ہے اللہ.ہمیں اپنے کانوں اپنی آنکھوں اور اپنی
١٢٣ طاقتوں سے زندگی بھر صحیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.اور نہیں اس بھلائی کا وارث بنا اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے تو ہمارا انتظام ہے جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کے بر خلاف ہماری مدد فرما.اور دین میں کسی انتہاء کے آنے سے بچا.اور ایسا کہ کہ دنیا ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ ہو.اور نہ یہ دنیا ہمارا مبلغ علم ہو.یعنی ہمارے علم کی پہنچے صرف دنیا تک محدود نہ ہو.اور ایسے شخص کو ہم پر مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے اور مہربانی سے پیش نہ آئے.پس ہیں چاہیے کہ ہم آداب جلیس کو ملحوظ رکھتے ہوئے علم دعرفان کی مجالس سے استفادہ کریں.اور قرآنی ارشاد كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبه : ١١٩ کہ سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرد.پر عمل پیرا ہوں کیونکہ ہی وہ لوگ ہیں جن کے تعلق اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے مطابق حديث قدى إِنَّهُمْ قَومُ لا يشقى جليسهم کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے وال کبھی بد بخت نہیں ٹھہرتا.حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالی ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے.وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں.ساری فضا ان کے سایہ برکت سے معمور ہو جاتی ہے.جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا.وہ کہتے ہیں ہم نے ایک میں دیکھی تھی جس میں لوگ تیری تسبیح وتحمید اور تیرا ذکر کر رہے تھے.مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا.تو اللہ فرماتا ہے.نہیں وہ بھی انہی میں سے تھا.کیونکہ هُم القوم لا يشقى بِهِمُ جَنسِيهُمْ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہنا مسلم کتاب الذكر باب فضل مجالس الذكر ص ) ۲۲۸
۱۲۴ راستوں اور سر او نشست گاہوں کے استعمال کے دب ہادی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق است کو ہدایات اور نصائح فرمائی ہیں.آپ کی یہ زریں نصائح زندگی کے ہر میدان میں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.جہاں سرور دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خدا تک پہنچنے کا رستہ دکھایا وہاں آپ نے عام چلنے والے راستوں اور ان پر موجود نشست گاہوں کے استعمال کے آداب بھی کھائے تاکہ سلمان کے ہاتھ ، زبان یہاں تک کہ نظر سے بھی کسی کو دُکھ یا تکلیف نہ پہنچے.آئیے ان راستوں کے استعمال کے آداب سیکھ کر اپنی زندگی و صراط مستقیم پر گامزن کریں تاکہ خدا اور اس کا رسول ہم سے خوش ہو.ا رائتے کے درمیان حلقہ باندھ کر کھڑے ہونا یا بیٹھنا آداب کے منافی ہے اس سے پر ہیز کرنا چاہیئے.حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطَّرِقَاتِ ر مسلم کتاب السلام باب حقن الجلوس على الطريق ورد السلام ) خبر دار راستوں پر نہ بیٹھنا.صحابہ نے کہا.یا رسول اللہ ! ہیں ان مجلسوں سے چارہ نہیں.ہم ان میں باتیں کرتے ہیں.فرمایا.اگر تم رہ نہیں سکتے تو رستہ کا حق ادا کرو.ا مسلم کتاب السلام باب حق الجلوس على الطريق رد السلام )
۱۲۵ راستوں یا سر راہ نشست گاہوں میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے.نہ ہی کوئی ایڈا دینے والی چیز پھر یا چھلکے وغیرہ پھینکے جائیں.بلکہ اگر کوئی کانٹا، میری چھلکے یا کوئی تکلیف چیز اور راستہ میں رکاوٹ ڈالنے والی چیز پڑی ہو اُسے ہٹا دینا چاہیئے کیونکہ یہ نیکی اور اب کا کام ہے اور نفس کو دوزخ کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہے.حضرت عائشہ سے روایت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بینی آدم کے ۳۶۰ جوڑ ہیں.جو اللہ اکبر، الحمد للہ لا الہ الا الله سبحان الله استغفر الله ۳۶۰ بار کہے اور لوگوں کے رستے سے پتھر، کانٹا، ہڈی دور کر دے یا اسی قدر نیکی کرے برائی سے روکے تو اس نے اپنا نفس دوزخ کی آگ سے بچا لیا.مسلم کتاب الزكوة باب كل نوع من المعروف صدقة) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان کے کچھ اوپر ستر یا کچھ اوپر ساتھ شعبے ہیں.ان میں سے سب سے افضل لا الله اوپرس الا اللہ کہنا ہے اور چھوٹے سے چھوٹا رستے سے ایدار کا ہٹا دیا ہے اور حیاء ایمان کی جزو ہے.(مسلم کتاب الایمان باب الحجيا شعبة من الایمان) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں نے ایک آدمی کو بہشت میں سیر کرتے دیکھا.اس عمل کے ثواب ہیں کہ ایک درخت مسلمانوں کی راہ میں ایذاء دیتا تھا.اس نے اس ایذاء دینے والی شاخ کو کاٹ کر الگ کر دیا.مسلم کتاب الادب باب فضل از الته الاذى عن الطريق) نشست گاہ اگر سر راہ ہو تو مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کے گزرتے وقت وہ اپنی نگاہیں نیچی کر لیا کریں تاکہ دلوں کی پاکیزگی قائم رہے اور شیطان ان پر حملہ نہ کر سکے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
قل لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ) سورة النور (۳) تو مومنوں سے کہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کو غض بصر کی ہدایت فرمائی اور اُسے راستہ کا حق قرار دیا.ر احمد بن حنبل جلد ۳ ص ۳۶) شریعت نے عورت کو بھی باہر نکلنے کی اجازت دی ہے لیکن اُسے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جب وہ باہر نکلے تو پر وہ میں نکلے.اور اپنی زینت کو غیر مردوں کے لئے ظاہر نہ کرے اور زینت کا اصل مقام عورت کا چہرہ ہوتا ہے.اس لئے اُسے چہرہ کا پردہ کرنے کا حکم دیا گیا اور اپنی آنکھوں کو نیچی رکھنے کی تاکید کی گئی.تاکہ برائی کا استد باب ہو سکے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ (سورة النور : ۳۲) على جو يمن اور تو مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں.سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہے اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اس کو ڈھانک کر پہنا کریں.۵.عورتوں کو بازار یا مردوں کے اجتماعات میں سے گزرنے کا احتمال ہو تو وہاں انہیں خوشبوں گا کر نہیں جانا چاہیئے.گھروں میں عورتوں کے لئے خوشبو کا استعمال کرنا پسندیدہ امر ہے.
۱۲۷ حضرت بستر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں آئے تو خوشبو لگا کر نہ آئے.(موطا كتاب الصلوة باب ما جاني خروج النساء الى المساجد) -4- آنے جانے والے اگر سہر راہ بیٹھنے والوں کو سلام کریں تو انہیں لازم ہے کہ وہ سلام کا جواب ضرور دیں.قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیا ہے.گیا وَإِذَا حَيْتُم بِتَحِيَّةٍ نَحِبُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّ وهَا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَى حَسيباً (سورة النساء : ٨٤) اور جب تم کوئی دُعا دیئے جاؤ تو تم بھی دعا دو بہتر اس سے یا لوٹا دو اسی کو بے شک اللہ ہر امر کا محاسبہ کرنے والا ہے..راستے میں ایک دوسے کو سلام کرنا چاہیے.خواہ آپس میں پہچان بھی نہ ہو کیونکہ سلام ایک نیک دعا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ کلمات ہیں.صحابہ کرام نیکیاں کمانے کے اتنے مشتاقی تھے کہ وہ بازاروں میں نکل جاتے اور ہر ملنے والے، آنے جانے والوں کو سلام کرتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مباركة افُشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ پر عمل کرتے.حضرت طفیل بن ابی کعبہ کہتے ہیں.میں عید اللہ بن عمر کے پاس صبح کو آتا اور ان کے ساتھ علی الصباح بازار میں جاتا.جب ہم بازار میں جاتے تو عبد اللہ کسی مشتقاط کے پاس سے گزرتے یا بڑے دوکاندار کے پاس سے یا کسی مسکین یا کسی آدمی کے پاکس سے تو اسے السلام علیکم کہتے.ایک روز جب میں عبداللہ بن عمر کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا.میں نے کہا.بازار میں جا کر کیا کرو گے ؟ نہ کسی سودے پر ٹھہرتے ہو.نہ کسی اسباب کو پوچھتے ہو.نہ سودا چکاتے ہو.نہ بازار کی مجلس میں بیٹھتے ہو یہیں بیٹھے صاحب ! باہم باتیں کرتے ہیں.ابن عمر فرمانے لگے.اسے بڑے پیٹ والے.ہم
۱۲۸ تو سلام کے لئے جاتے ہیں.جو ہمارے سامنے آئے گا.ہم اُسے سلام کہیں گے.موطا كتاب الجامع باب جامع السلام ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقف یا نا واقف ہوا سے سلام کرنے کو اسلام کی بہترین خصلت قرار دیا ہے.د مسلم کتاب الایمان باب بیان تفاضل الاسلام وای اموره افضل) سوار کو پیدل چلنے والے شخص کو اور پیدل چلنے والے شخص کو بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہئیے حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان ، مشرکین ، بت پرست یہود سب ملے جگے میٹھے تھے.آپ ، ، نے ان کو السلام علیکم کہنا.(بخاری کتاب الاستیذان باب التسليم في المجالس فيه اخلاط من المسلمين والمشركين ) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوار پیدل کو سلام کرنے اور پیدل بیٹھنے والے کو ا ور تھوڑے بہتوں کو سلام کیا کریں.مسلم کتاب السلام باب حقن الجلوس على الطريق - والسلام 9 اسلام ہر حالت میں عبادات بجالانے کا حکم دیتا ہے.راستے میں اگر بلندی یا پستی آئے تو بھی آہستہ آواز کے ساتھ تکبیر و تہلیل اور تسبیح کرنی چاہیئے.حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ ہم (حج میں) رسول خدا کے ساتھ تھے ہیں جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے تو زور کے ساتھ لا اله الا الله والله اکبر کہتے تھے.پس جب ہماری آوازیں بلند ہوئیں تو بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا."اے لوگو! اپنی جانوں پر اک نی کردو.کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکاتے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے.بے شک وہ سنتا اور قریب ہے.(تجرید بخاری حصہ دوم ص )
۱۲۹ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے کہتے ہیں کہ جب ہم بلندی پر چڑھتے تھے تو اللہ اکبر کہتے تھے اور جب پتی میں اُترتے تھے تو سبحان اللہ کہتے تھے.تجرید بخاری حصہ دوم ص ۷۳۷۲) ۱۰.راستے میں اگر کسی کو سواری میں مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرنی چاہیئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا.ہر روز جس میں آفتاب نکلتا ہے.آدمیوں کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ ہے دو شخصوں میں انصاف کرنا صدقہ ہے.کسی کی سواری میں مدد کرنا اسے سواری پر چڑھا دینا صدقہ ہے یا کسی کا اسباب اس کے جانور پر لد دا دینا صدقہ ہے.و سلم كتاب الزكواة باب كل نوع من المعروف صدقة) ا راستہ پوچھنے والوں کو راستہ بتانا بھی نیکی ہے.۱۲ - بازار یا رستہ میں چلتے پھرتے کوئی چیز نہیں کھانی چاہیئے.۱۳ راستوں اور سایہ دار درختوں کے نیچے بول و براز نہیں کرنا چاہیئے تاکہ مسافر کو تکلیف نہ ہو.یہ لعنتی کام ہے.حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علہ ستم نے فرمایا.دو لعنتی کاموں سے بچو.صحابہ نے عرض کیا.لعنت کا مستحق بنانے والے وہ دو کام کون سے ہیں.آپ نے فرمایا.لوگوں کی گزرگاہ میں پاخانہ پھرنا.یا ایسی سایہ دار جگہ میں پاخانہ کرنا جہاں لوگ آکر آرام کے لئے بیٹھتے ہوں.مسلم کتاب الطهارة باب کر ابنة النيرز في الطريق) -۱۴- راستہ میں کوئی ہتھیار کھلے طور پر لے کر نہیں گزرنا چاہیے تاکہ راہ گیر کو کوئی نقصان نہ پہنچے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہماری مسجدوں یا بازاروں میں
گندے اور اس کے پاس تیر ہوں تو لازم ہے کہ بند کر کے گزرے یا ہاتھ سے ان کی نوک پکڑے.تاکہ کسی مسلمان کو نوک بچھ جائے.استنجاری کتاب الصلوة باب المرور في المسجد ) 10.اگر راہ چلنے والوں میں کوئی اعتراض کی بات دیکھیں تو پیار اور نرمی سے انہیں منع کریں.کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مومن کا شیوہ ہے.سورة ال عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے.كُنتُمْ خَيْر أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالمعترف و نهون عَنِ المُشكو (سورة ال عمران : 111 کہ تم وہ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے بنائی گئی ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (سورة التوبة : ٢١) - کامرون اور مومن مرد اور مومن عورتوں میں بعض ان کے دوست ہیں بعض کے واحکم کرتے ہیں نیکی کا اور وہ روکتے ہیں بڑائی ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو.نہیں تو تم پر عذاب نازل ہوگا.اور تمہاری دعا قبول نہ ہو گی.ر ترندی ابواب الفتن باب ما جاء في الامر بالمعروف والنهي عن المنكر) حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو
۱۳۱ شخص نیکی تتلائے.اس کو نیکی کرنے والے کی مثل اجر ملتا ہے.(مسلم کتاب الامارۃ باب فضل امانة الغازي في سبيل الله تعالى) پس ہر شخص کے لئے ناصح بن کر نیکی کی طرف قدم مارنا چاہیئے.۱۹.راستہ کے کناروں پر بیٹھے ہوئے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی مجلس میں کوئی ناشائستہ کلام نہ کریں بلکہ ایسی گفتگو کریں میں سے دل نیکی کے کاموں کی طرف راغب ہوں اور آنے والے وہاں سے کچھ حاصل کر کے ہی جائیں نہ کہ گنوا کر.پس ان مجلسوں میں بھی نیکی اور ذکر الہی کی باتیں کرنی چاہیں تاکہ ملائکہ اس مجلس کو ڈھانپ لیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت ان پر نازل ہو.حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنی بزم میں یاد کرتا ہے جو اپنی مجلس میں خدا کو یاد کرتے ہیں.رتمه مذی ابواب الدعوات باب ما جاء في القوم يجلسون فيذ كردن الله ما لهم من نفضل )
۱۳۲ گفتگو کے آداب جسمانی اعضاء میں سے زبان وہ جزو اعظم ہے جس کی حفاظت کو دین کی جڑ قرار دیا گیا ہے.زبان وہ آلہ ہے جو انسان کی دلی حالت اور اس کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے.یہ وہ عضو ہے جس کے ذریعہ سے انسان جنت و دوزخ کی راہ استوار کرتا ہے.یہ وہ مفتاح ہے جس کے ذریعہ سے انسان نجات کا دروازہ اپنے اوپر کھوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کی خدا تعالیٰ کے ہاں باز پرس ہوگی.اس لئے ہمیشہ پاکیزہ اور نیک کلمات بولنے چاہئیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا يَلْفِظُ مِنْ قَولِ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيد (سورة ق : 19) اور انسان کوئی بات نہیں کرے گا کہ اس کے پاس اس کا نگران با محافظ نہ ہو.حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بہت زیادہ توجہ کے لائق ہے.آپ فرماتے ہیں.صبح ہوتی ہے تو انسان کے سب اعضاء اس کی (زبان کی) گوشمالی کرتے ہیں کہ دیکھ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.تو سیدھی ہوئی تو ہم بھی سیدھے ہیں اور تو ٹیڑھی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہیں.رياض الصالحين كتاب الامور المنتهى عنها باب تحريم الغيبة والامر يحفظ اللسان)
۱۳۳ زبان کا باہمی تعلقات پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے.نیک کلام کے اندر ایک مقناطیسی کشش ہوتی ہے.مومن کی زبان گندے اور غلیظ کلام سے محفوظ رہتی ہے.کا کی اس کا کلام پاکیزہ ہوتا ہے ملحدیث میں مومن کی یہ صفات بیان ہوئی ہیں کہ وہ طعنہ زن نہ بہت بد دعا کرنے والا ، نہ بے حیا اور نہ گندہ زبان ہوتا ہے.وہ حیا دار ہوتا ہے.اور حیا دار شخص کی زبان اس کے قابو میں رہتی ہے.اتر ندى ابواب البر والصلة باب ما جاء في اللعنة) ذیل میں کلام رگفتگو کے آداب قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں بیان کئے جاتے ہیں تا کہ اسلام کی اس جامع ہدایت که اپنی زبان کی حفاظت کو ہر عمل پرا ہو کر ہم افضل مسلمان بن سکیں.اگر کوئی بات کہو تو ہمیشہ سچ بات کہو پیچدار بات نہ کرو.توحید کے بعد سب سے بڑی نیکی سیچ اختیار کرنا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَولاً سَدِيدًا ٥ ) سورۃ الاحزاب : ١) اے مومنو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرد اور وہ بات کہو جو سچی ہو.پھر سچی بات کہنے کا نتیجہ یہ بتا یا کہ يصلح لكم أعْمَا لَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ 0 لَكُمُ ) سورۃ الاحزاب : ۷۲) اور اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.آنحضرت نے منافق کی ایک علامت یہ بتائی ہے کہ اِذَا حَدَّثَ كذب کہ جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے.- گفتگو عام فہم اور وضاحت سے کرنی چاہیئے.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو نہایت شیریں اور دل آویز ہوتی تھی.آپ بہت ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے اور جب کسی بات پر زور دنیا ہوتا تو آپ اُسے دو تین بار دہراتے تاکہ سُننے والوں کو یاد ہو جائے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ایا کھلا کھل ہوتا کہ جو سُنتا سمجھ لینا.ر ابو داؤد کتاب الادب باب الهدى في الكلام ) حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کلام کیا کرتے تو ایک کلمہ کو تین تین بارا عادہ فرماتے تاکہ خوب ذہن نشین ہو جائے اور جب کسی قوم کے پاس تشریف لاتے تو تین بار سلام کہتے د بخاری کتاب الاستیذان باب التسليم والاستيدان ثلاثة) پاکیزہ گفتگو کرنی چاہیے.کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے.(اور آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہے.) استخاری کتاب الادب باب طیب الکلام ) عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آگ سے بچاؤ کر لو.اگر چہ چھوہارے کا ٹکر خرچ کرنے سے ہو سکے.اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پاکیزہ کلامی ہی سہی.ر مسلم کتاب الزكوة باب الحث على الصدقة وانواعها وانها حجاب من النار ركل نوع من المعروف صدقة الله عمدہ اور پاکیزہ بات کہنا خدا تعالیٰ کا حکم ہے جیسا کہ وہ سورۃ بنی اسرائیل لے انڈیکس میں کل نوع من المعروف صدقہ کا ذکر ہے اور اصل باپ کا حدیث والے صفحہ پر ذکر ہے.
۱۳۵ میں فرماتا ہے.وقل لعِبَادِي يَقُولُوا لَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَنَ يَنزَ بَيْنَهُمُ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيناه (سورۃ بنی اسرائیل : ۵۴) اور تو میرے بندوں سے کہہ دے کہ وہ دہی بات کیا کریں جو سب سے زیادہ اچھی ہو.کیونکہ شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے.شیطان انسان کا کھلا کھلا مین ہے پاکیزہ کلام خدا کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے جیسا کہ اللہ سورۃ الفاطر میں فرمانا ہے.إِلَيْهِ يَصْعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ (سورة الفاطر: 11) پاک کلمات اس کی طرف چڑھ کر جاتے ہیں - تکلف اور تصنع کے بغیر گفتگو کرنی چاہیئے اور نہ ہی زبان کو موڑ کر گفتگو کرنی چاہیئے.یہود کا یہ طریق تھا کہ وہ اپنی زبان کو بیچ دے کے اور لفظ کو بگاڑ کر گفتگو کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی اس شرارت کا ذکر سورہ نساء آیت ۷ہم میں فرمایا ہے مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَتَرَاعِنَا لَيَّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَ طعنا في الدين (سورة النساء ) طَعْنَّا یعنی یہودیوں میں سے بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو ان کی جگہوں سے ادھر اُدھر بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور کہتے ہیں.ہماری باتیں سن تجھے خدا کا کلام کبھی نہ سنایا جائے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ را عنا یعنی ہمارا لحاظ کر.مگر یہ بات اپنی زبانوں کو پینچ دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے کہتے ہیں.
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہود سے یہ عہد لیا تھا کہ وَقُولُو الِلنَّاسِ حُسناً (سورة البقره : ۸۴) کہ تم لوگوں کے ساتھ ملاطفت کے ساتھ کلام کیا کرو.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالی لوگوں میں سے اس شخص کو برا جانتا ہے جو اپنی زبان کو کلام کرتے ہوئے پہنچ دے جیسے گائے زبان کو پریچی دیتی ہے.را بو داد د کتاب الادب باب في التشدق في الكلام ) آپ نے فرمایا جو لوگ گفتگو کے وقت زبان کو مروڑ مروڑ کر باتیں کرتے ہیں قیامت کے دن ایسے لوگ مجھ سے دُور رہیں گے.( ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في معالى الاخلاق) - گفتگو میں مبالغہ سے کام نہیں لینا چاہیئے.لیا حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مبالغہ سے تکلف کرنے والے ہلاک ہوئے.آپ نے یہ تین بار فرمایا ر مسلم کتاب العلم باب هلك المتنطمون) بے ہودہ بکواس اور فحش کلامی نہیں کرنی چاہیئے.حضرت عبدالل من عمر ا نے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ تو آپ فاحش تھے اور نہ قصداً فحش گوئی کرتے تھے.دبخاری کتاب الادب باب لم يكن البنى فاحشاً ولا متفحشا) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگی.جب آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ قبیلے کا بڑا بھائی یا بیٹا ہے.جب وہ بیٹھ گیا تو آپ خندہ پیشانی اور کشادہ روٹی سے ملے.جب وہ چلا گیا تو
حضرت عائشہ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جب آپ نے اس آدمی کو دیکھا تو اس اس طرح فرمایا.پھر آپ خندہ پیشانی اور کشادہ روٹی کے ساتھ ملے.رسولِ کریم نے فرمایا ، اسے عائشہ ! تم نے مجھے فحش گو کب دیکھا ؟ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا حال اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہو گا جس کو لوگ اس کی برائی سے اور بے حیائی سے محفوظ رہنے کے لئے چھوڑ دیں.بخاری کتاب الادب باب لم يكن النبى فاحشاً ولا متفحشا) ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن فحش کہنے والا، بد زبان اور بد گو نہیں ہوتا.ر ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في اللعنة) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فحش جس میں ہو اسے عیب ناک کر دیا ہے.اور حیاء حسن میں ہوا سے سنوار دینی ہے د ترندی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى الفحش) مومن کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ بے حیائی اور بے ادبی کا کلام کرے بلکہ وہ بے ہودہ باتوں سے اجتناب کرتا ہے.اور اللہ تعالی ان محسنوں سے محبت کرتا ہے جیسا محسنوں سے کہ وہ حسنین کا خاصہ بیان کرتا ہے کہ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ ر سورة الشواری : ۳۸) اور وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پر ہیز کرتے ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ حیاء ایمان کی شاخ ہے اور فحش گوئی منافقت کی شاخ ہے.فحش گوئی بہت بڑا گناہ ہے.فحش گو کی تو یہ قبول نہیں ہوتی جب تک کہ مظلوم خود معاف نہ کرے.البتہ اس کا ایک کفارہ ہے اور وہ یہ کہ وہ مظلوم کے حق میں دعا کرتا
ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم نے فرمایا.إِنَّ اللهَ يَبْغِضُ الفَاحِشَ الْبَدِي ( ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فی حسن الخلق کہ یقینا اللہ تعالی برا جانتا ہے ہے جبار اور گندہ زبان آدمی کو فحش کلامی سے بچنا چاہیے کیونکہ فحش کلام اور بے ہودہ گوئی سے اخلاق میں بے ہودگی پیدا ہوتی ہے.جسے نہ صرف لوگ ناپسند کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی وہ شخص مبغوض ہو جاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا بادی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ دو بے ہودہ کلام ترک کردے.ترندی ابواب الزهد باب ما جاء من تكلم بكلمة الناس) پس بخش گوئی سے بچنا چاہیئے اور کثرت سے استغفار کرنا چاہئیے.آنحضرت کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری زبان پر فخش بہت چڑھا ہوا ہے.آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو استغفار کیوں نہیں کرتا.این ناحیه ابواب الادب باب الاستغفار ) زبان کا سارے اخلاق پر گہرا اثر پڑتا ہے.اس لئے مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سخت زبانی نہ کرے.بڑے نام سے نہ پکارے اور نہ ہی کسی پر لعنت کرے گالی گلوچ نے.کیونکہ یہ وہ بد خلقی ہے جو انسان کے ایمان کو غارت کر دیتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ مومن پر لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے.بنجاری کتاب الادب باب ما مینی من السباب واللعن) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومن بندوں کی صفت یہ بیان فرمائی ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (سورۃ المومنون (۴)
اور وہ لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سورۃ القصص میں فرماتا ہے.وإذا سمعوا اللغوا عرَضُوا عَنْهُ (القصص (۵۲) کہ جب وہ کوئی لغویات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں.طعن و تشنیع کرنا اور بُرے ناموں سے پکارنا گناہ ہے اور مومنوں کو اس سے روکا گیا ہے.سورۃ الحجرات میں آتا ہے.وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالا نقاب (الحجرات : ۱۲ اور نزنم ایک دو کے پر طعن کیا کرد.اور نہ ایک دوسے کوئے ناموں سے یاد کیا کرو.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ایک درسے کو برا کہنے والے جو کچھ کہیں اس کا وبال ابتدار کرنے والے پر ہوتا ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ نکلے.رمسلم کتاب البر والصلة والأدب باب النهي عن السباب) آپ نے فرمایا جس نے مسلمانوں پر سختی کی اس پر اللہ سختی کرے گا.تمه ندی ،ابواب البر والصلة باب الخيانة والغش) ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا.جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے کرائے کا فی توان دونوں میں سے ایک پر کفر ضرور آتا ہے.اگر وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، تو اس پر.ورنہ کہنے والے پر کفر لوٹے گا.مسلم کتاب الایمان باب حال ایمان من قال لأخيه المسلم یا کافر) حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم سے سنا کہ جو شخص کسی دوگر کو کفر کے ساتھ نسبت کرے یا اسے کہے.اسے عدو اللہ اور وہ ایسا نہ
IN.ہو.تو یہ الفاظ الٹ کر اسی پر آتے ہیں.مسلم کتاب الایجان باب حال ایمان من قال لأخيه السلم یا کافر) جہاں لعنت کے معنی خدا تعالیٰ سے دوری کے ہیں وہاں لعنت کے معانی بد دعا دینے کے بھی ہیں.بد دعا دینے سے پر ہیز کرنا چاہیے.آنحضرت پر کفار نے ان گنت مظالم ڈھائے.بہت دکھ دیے مگر آپ کی زبان مبارک پر ان کے لئے کبھی بد دعا نہ آئی بلکہ رَبّ اغْفِرْ قَوْمِي فَإِنَّهُمُ لَا يَعْلَمُونَ ر احمد بن حنبل جلد نمبرا منت ، ص ۴۳۲ کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ میر مقام کو نہیں پہچانتی.کے الفاظ سے آپ دعا گو ہے.حدیث میں ہے کہ اگر کسی کو بد دعا دی جائے اور وہ اس بد دعا کا سرا دار نہ ہو تو اس کا اثر بد دعا دینے والے پر پلٹ آتا ہے.(ابو داؤد کتاب الادب باب فی اللعن) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کہے کہ لوگ ہلاک دنیر یاد ہوئے زلوگوں کے عیب و برائیاں ان کو حقیر و ذلیل سمجھ کر تعلی سے بیان کرے) تو وہ خود سب سے زیادہ ہلاک و برباد ہونے والا ہے مسلم کتاب البر والصلة باب النحى عن قول ملك الناس) مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے.اس لئے گفتگو میں غیبت جیسی گھناؤنی برائی کرنے سے بچا جائے مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَلَا يَغْتَب بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَا كُلَ لَحْمَ كمان أخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهتموه (سورة الحجرات (۱۳) :١٣) b
۱۴۱ کہ تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں.کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا بلاگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے تو تم اس کو نا پسند کر دگے.سورۃ الھمزہ میں ارشاد ہے وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ تُمَرة ) ( سورة الهمزة : ٢) ہر غیبت کرنے والے اور عیب چینی کرنے والے کے لئے عذاب ہی عذاب ہے.پر حقیقی یا فرضی عیوب بیان کرنا اور سفیانہ کلام کرنا گناہ ہے محض طعن اور مغرور کی وجہ سے ایسا کرنا گناہ ہے لیکن دین کے دشمنوں اور غداروں کے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور اہل فساد کی برائی کا بیان جائز ہے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی کریم کے حضور حاضری کی اجازت چاہی.فرمایا.اس کو اذن دے دو.یہ اپنی قوم کا برا آدمی ہے اسخاری کتاب الادب باب يجوز من اغتياب اہل النساء) جب کسی سے مشورہ مانگا جائے تو اس کے علم میں جو صحیح بات ہے پیش کرنی چاہیئے.حضرت فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ میں رسول کریم کے پاس آئی اور کہا کہ ابو جہیم اور معادیہ نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے.آپ نے فرمایا.معادیہ مفلس فلاکش ہے.اس کے پاس کچھ مال نہیں اور ابو جہیم اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارنا ( مارنے والا یا اکثر سفر میں رہتا ہے) (مسلم کتاب الطلاق باب المطلقة البائن لا نفقة لها) چغلی کرنا تہمت لگانا.اور نسب میں طعن کرنا کفر کی علامت ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا.و گفتگو کے دوران کسی کی حقارت کے ساتھ ہنسی نہ اُڑائی جائے.اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس برائی سے روکتے ہوئے فرماتا ہے.
۱۴۲ ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرُ قَومُ من قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَاء عَلى أن يكن خَيْرًا مِنْهُنَّ : ( سورة الحجرات : ١٢ ) اے مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے اسے حقیر سمجھ کر ہنسی مذاق نہ کیا کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہو.اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں سے ان کو حقیر سمجھ کر ہنسی ٹھٹھا کیا کریں ممکن ہے کہ وہ عورت نہیں ان سے بہتر ہوں.دائلہ بن الاسقع روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اپنے مسلمان بھائی کی شکائت نہ کر یعنی مہنسی نہ اُڑا.ایسا نہ ہو کہ اللہ اس پر رحم کردے اور تجھے اُس دُکھ میں مبتلا کر دے.ر ترمذی ابواب صفۃ القیامة باب نمبر (۵۲) - گفتگو میں اگر کبھی مزاح کا رنگ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں.لیکن ایسا مزاح نہ کیا جائے جو گھٹیا ہوا در دور کی دل شکنی کا باعث بنے.حضور صلی اله علیه دستم شگفتہ مزاج تھے اور کبھی کبھی ظرافت کی باتیں بھی.فرماتے.ایک دفعہ حضرت انس کو پکارا تو فرمایا." اور دوکان والے.“ ترندی ابواب المناقب باب مناقب انس بن مالک) اس میں یہ تک یہ بھی تھا کہ حضرت انسان نہایت اطاعت شعار تھے اور ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر کان لگائے رکھتے.حضرت انس کے چھوٹے بھائی کا نام ابو عمر تھا وہ کم سن تھے.اور ایک مولا پال رکھا تھا.اتفاق سے وہ مر گیا.ابو عمیر کو بہت دُکھ ہوا.آپ نے ان کو غمزدہ دیکھا تو فرمایا - يَا أَبَا عُمَيْرُ مَا فَعَلَ المُخَيرُ اے ابو عمیر تمہارے نمونے نے یہ کیا گیا.ابتخاری کتاب الادب باب الانبساط الى الناس)
۱۴۳ ایک شخص نے حضرت اقدس سے عرض کی کہ آپ مجھے کوئی سواری عنایت فرمائیں.آپ نے فرمایا.میں تم کو اونٹنی کا بچہ دوں گا.انہوں نے کہا.یا رسول اللہ ! میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا.فرمایا کہ کوئی اونٹ ایسا بھی ہوتا ہے جوان نشنی کا بچہ نہ ہو.د ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى المزاح ) ایک بڑھیا حضور اقدس کی خدمت میں آئی اور دعا کے لئے کہا کہ دعا کریں مجھے بہشت نصیب ہو.آپؐ نے فرمایا.بوڑھی عورت میں بہشت میں نہیں جائیں گی.وہ عورت پر سن کر روتی ہوئی واپس چلی گئی.آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اس کو کہ دو کہ بوڑھی عورتیں جوان ہو کر جنت میں داخل ہوں گی.ترمذی باب صفة مزاح رسول الله ) حضور اقدس بڑے مزاح کو نا پسند فرماتے تھے.آپ فرماتے تھے.لا تُمَارِ أَخَاكَ وَلَا تُمَازِحُهُ الله ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في المرآدم کہ اپنے مسلمان بھائی سے کچھ بھی نہ کر اور اس سے بڑا مزاح نہ کر بہت زیادہ کلام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کثرت کلام سے بسا اوقات لوگوں میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے.حضور فرماتے تھے.اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام ن کرد - اللہ کے ذکر کے بغیر کثرت کلام سے دل سخت ہو جاتا ہے اور سنگ دل آدمی اللہ سے سب کے مقابلہ میں دور تر ہوتا ہے.دریاض الصالحين كتاب الامور النهي عنها باب تحريم الغيبة والامر بحفظ اللسان) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.الہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا بہت کام نہ کرو.کیونکہ بہت کام کرنے سے جو اللہ کے ذکر
۱۴۴ کے بغیر ہو دل سخت ہو جاتا ہے اور سخت دل اللہ تعالٰی سے سب سے زیادہ دور ترندی ابواب الزهد باب ما جاء في حفظ اللسان) ہے.روتاره حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیںکہ میں نے رسول کریم سے عرض کیا نجات کیا چیز ہے؟ فرمایا.اپنی زبان کو بند رکھ اور تجھے تیرا گھر گنجائش دے اور اپنی خطا کاریوں پر اتر مذی ابواب الزهد باب ما جاء في حفظ اللسان) حضرت معاذ سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ کیا میں دین کی جو نہ تمہیں بتاؤں ؟ حضرت معارف نے کہا.کیوں نہیں یا رسول اللہ ! تو آپ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا.تو اپنے پر اس کو بند رکھ میں نے عرض کیا.کیا ہم ان باتوں کے سبب پکڑے جائیں گے جو زبان سے کہتے ہیں.فرمایا.تیری ماں تجھے روئے.دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ان کی زبانوں کے پھل ہی گرائیں گے.(ترمذی ابواب الايمان في حرمة الصلوة) بات مختصر اور موقع محل کے مطابق کرنی چاہیے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وصف کامل خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا تھا.آپ تحدیث نعمت کے طور پر فرماتے تھے.انا افصح العرب میں فصیح ترین عرب ہوں أُعْطِيتُ جَوامِعُ الجلوم کہ مجھے کلمات جامعہ عطا کئے گئے ہیں.مهندسی ابواب السير باب التحريق والتخريب) -۱۳- سوچ سمجھ کر اور عقل کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیئے، بات کرتے وقت مزاج شناسی کر لینی چاہیئے خوامخواہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جسے سن کر دوسرا مشتعل ہو جائے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے أدع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمُ
۱۴۵ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ.) سورة النحل : ۱۲۶) ترجمہ ، اپنے رب کی راہ کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ لیا.اور ان سے بہترین بات کے ساتھ مباحثہ کر.حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو آدمی بے سوچے سمجھے منہ سے بات نکالتا ہے وہ آگ کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ (مسلم کتاب الزهد باب حفظ اللسان) ہے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا.انسان بعض اوقات بے خیالی میں اللہ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لیے نہتا درجات بلند کر دیتا ہے اور بعض اوقات وہ لاپر واہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی بات کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے دور جہنم میں جا گرتا ہے.د بخاری کتاب الله فاق باب حفظ انسان) یعنی اللہ تعالی سے ہر وقت نمائی اور ہدایت کی توفیق مانگتے رہنا چاہیئے کہ وہ ہمیشہ نیک پھلی بات ہی منہ سے نکلوائے.صدیقہ الصالحین ایڈیشن اول ص ۳۵ شعبه اشاعت وقف جدید) ۱۴ ایسے طریق سے کلام کرنا چاہیئے جو مخاطب کے فہم کے مطابق ہو میں سے وہ بات کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کی غلط فہمی دور ہو جائے.حدیث میں آتا ہے صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں سے ان کے فہم اور اور اک کے مطابق کلام کیا کرو.(دیمی) حضور تو نباض اعظم تھے.آپ ہمیشہ آدمی کی طبع کا اندازہ لگا کر جواب دیتے تھے صحابہ کرام جب بھی آپ سے کوئی سوال یا مسئلہ پوچھتے آپ ہمیشہ ان کی سمجھے اور حالت کے مطابق جواب دیتے تھے.
ایک صحابی نے پوچھا کہ میر لئے سب سے زیادہ اندیشہ کی کیا چیز ہے ؟ حضور نے زبان کو ہاتھ سے پکڑ کر فرمایا."یہ" ( ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء فی حفظ اللسان) ایک صحابی نے کہا کہ مجھے نصیحت کیجئے.فرمایا.ہمیشہ پیچ بولو.۱۵ غصے اور جوش میں آکر تیزی سے جلد جلد بات نہیں کرنی چاہیئے.بلکہ حمل کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے کیونکہ بے جا غصہ میں کہی گئی بات اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے غصہ کو قابو میں رکھ کر باتیں کرنا حوصلہ مندی اور مردانگی کا ثبوت ہے.حضرت ابو ہریرکا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا.یارسول اللہ ! مجھے نصیحت فرمائیے.آپ نے فرمایا غصہ مت کرہ.اس نے سوال بار بار دہرایا.آپ نے یہی فرمایا.غصہ مت کر.بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب) قرآن مجید میں مومنین کی ایک صفت کاظمین الغیظ بیان ہوئی ہے کہ وہ غصہ پی جانے والے ہیں.اور نرمی اور ملا طقت سے بات کرنے والے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں تحمل اس قدر پایا جاتا تھا کہ ایک بار حضور کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ ایک بدو آیا اور اس نے آپ کی چادر کو پکڑ کر اتنی شدت سے کھینچا کہ آپ کے کندھے پر نشان پڑ گیا.پھر دہ گھرے لہجے میں بولا.یا محمد با تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے مجھے کچھ دلوائیے.حضور نے اس کی طرف دیکھا مسکرائے اور حکم دیا کہ اسے کچھ دیا جائے.حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑتا ہے بلکہ وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے.د بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب)
۱۴ حضرت عمر کا قول ہے کہ دودھ یا شہد کے ہر گھونٹ سے غصہ کا گھونٹ بہتر ہے.رکستر العمال كتاب الثالث الباب الاول في الاخلاق الافعال المحمودة کے تحت باب نظم الحفیظ) پس جب بھی کوئی تنازعہ پیش آئے تو اس کا فیصلہ تحمل کے ساتھ کرنا چاہیئے.ایسے موقعہ پر بے لگام لکھتے چلے جانا اور منہ پھٹ ہونا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا.یہ تو منافقوں کا شیوہ ہے.جو اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اہل اسلام کو نقصان پہنچاتا چاہتا ہے.۱۶ اگر موقع نہ ہو یا کہنے کو اچھی بات نہ ہو تو پھر خاموش رہنا چاہیئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر چپ رہتے اور بے ضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے تھے.آپ فرماتے تھے جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے.وہ پھیکی بات کہے یا خاموش ہو رہے.اربعین نوی حدیث نمبر ۱ ص ۱۳ از شیخ محمد اقبال ابن شیخ سکندر الدین ہوا -1 آپ فرماتے تھے کہ خاموشی حکمت ہے اور اس پر عمل کرنے والے کم ہیں.ا بیهقی شعب الایمان حدیث نمبر (۵۰۲) حدیث میں ہے جو خاموش ہوا اس نے نجات پائی د مشکواۃ کتاب الاداب باب حفظ اللسان الغیبته واشتم) الہ تعالی نے دو جسے اللہ تعالیٰ نے دو جبڑوں اور ٹانگوں کے شرسے بچا یا دہ جنت میں داخل درباض الصالحين كتاب الامور المنهى عنها باب تحريم الغيبة والامر حفظ اللسان) سنی سنائی بات کو آگے نہیں پھیلانا چاہیئے.افواہیں پھیلنے سے معاشرہ
۱۴۸ کی سالمیت اور امن کو سخت نقصان پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں فرماتا ہے.آيَاتُهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَ كُمُ فَاسِقُلْ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا ان تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتَصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَبِمِينَ.(سورة الحجرات : ) اے مومنو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرد ایسا نہ ہو کہ تم نا واقعی سے کسی قوم پر حملہ کر دو.اور پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہو جاؤ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو بے سوچے سمجھے پھیلا دینا انسان کے لئے بڑا جھوٹ بن جاتا ہے ابو داؤد کتاب الادب باب التشديد في الكذب) ایک دور سے بات سن کر بغیر تحقیق کے باتیں پھیلا دینا گناہ ہے کیونکہ اس طرح ایک آدمی کی عزت پر ناحق حملہ ہو جاتا ہے اور وہ بدنام ہو جاتا ہے.حدیث میں ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہوگا.حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جس کو تم نے (معراج کی رات میں) دیکھا تھا کہ اس کے جبڑے چیرے جارہے تھے وہ بہت بڑا جھوٹا تھا اور اس طرح جھوٹ باتیں اڑاتا تھا کہ دنیا کے تمام گوشوں میں دکھیل جاتی تھیں.قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے گا.بخاری کتاب الجنائز باب ما قيل في ادلاد المشركين) -۱۸ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اور جھوٹ کو سچائی کے رنگ میں بھی پیش نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ چھوٹ ایک زہر ہے جس سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے.اور
۱۴۹ جہنم میں جا پہنچتا ہے.اگر انسان ہنسی مذاق میں ہی جھوٹ کی عادت ڈال دے تو پھر وہ سنجیدہ جھوٹ میں منتقل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.واجْتَنِبُوا قول النُّورِ (سورة الحج : ۳۱) جھوٹ بولنے سے بچو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ صادق القول اور راستباز تھے.آپ جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے تھے اور فرماتے تھے.وہ جھوٹ حرام ہے جو محض ہنسانے اور خوش کرنے کے لئے ہو.آپ فرماتے تھے.ہلاکت ہے اُس شخص کے لئے جو بات کر تا ہے اور اس میں جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو منائے.اس کے لئے ہلاکت دنیا ہی ہے پھر اس کے لئے ہلاکت دتیا ہی ہے.د ابو داؤ د کتاب الادب باب التشديد في الكدب) حضرت اسماڑ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا.یا رسول اللہ ! میری ایک سکوت ہے.بیس کیا یہ امر گناہ ہے کہ میں اپنے خاوند کی طرف سے ان نوازشات کا اظہار کر دی جو مجھ پر نہیں ہوائیں و حضور نے فرمایا.اس چیز کو ظاہر کرنے والا جو اس کو نہیں دی گئی ایسا ہی ہے جیسے جھوٹ کے کپڑے پہنے والا.( جو کسی کے ہوں اور اپنے جائے بھید کھلنے پر شرمندہ ہو) ر مسلم کتاب اللباس والہ نیفته باب النهي عن التزوير في اللباس وغير ) جھوٹی گواہی کبھی نہیں دینی چاہیئے خواہ وہ اپنے ماں باپ حقیقی بھائی بارشتہ وار کے متعلق ہو.کیونکہ جس شخص کی جھوٹی گواہی کا ایک بار تجربہ ہو جائے تو اس کی گواہی.19 قابل قبول نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفت یہ بیان فرمائی ہے.والَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ التروس (سورة الفرقان : ٢٣) النُّور ۷۳)
۱۵۰ اور وہ لوگ جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے.حق بات کہتے ہیں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیئے.آپ فرماتے تھے.کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا بہت بڑا جہاد ہے.ترمذی ابواب الفتن باب افضل الجهاد كلمته عدل عن سلطان جائم جب کسی معاملہ میں شہادت دینی پڑے تو جھوٹی گواہی نہیں دینی چاہیئے.کیونکہ جان بوجھ کر جھوٹا بیان دینا اور جھوٹی قسم کھانا اتنا بڑا گناہ ہے جو شرک کے قریب جاپہنچتا ہے.آپس کے معاملات میں ہمیشہ سچی بات کہنی چاہیئے اور سچی گواہی کو چھپاتے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے.وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ، وَمَن يَكْتُههَا فإنه اثم قلبه ( سورة البقره : ۲۸۴) اور تم گواہی کو کبھی مت چھپاؤ.اور جو اسے چھپائے گا وہ یقیناً ایسا شخص ہے جس کا دل گنہگار ہے جھوٹی قسم بھی نہیں کھانی چاہیئے.۲۰ بات بات میں قسم نہیں کھانی چاہئیے.بعض لوگوں کو عادتاً باللہ واللہ کہنے کی عادت ہوتی ہے.قرآنی آیت لا يُؤَاخِذُ كُمُ اللَّهُ بِاللَّغُونِي أَيْمَانِكُمُ (سورۃ المائده : ۹۰) کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری لغو قسموں کے بارے میں مؤاخذہ نہیں کرے گا.لیکن قرآن مجیب میں مومن کی یہ صفت بیان ہوئی ہے.هُمُ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ کہ وہ لغو قسم کی باتوں سے اعراض کرتے ہیں.غیر اللہ کی اور ناحق قسم کبھی نہیں کھانی چاہیئے.(المومنون (۴) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول کریم نے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے
۱۵۱ بالوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے.یہ جو مکھنی چاہے تو خدا کی قم کھا ئے در چپ ہے.مسلم کتاب الایمان باب البنى من الحلف بغیر اللہ تعالیٰ ر النهي عن ) حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا جو شخص امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں.(ابو داؤد کتاب الایمان باب که اهته الحلف بالامانته ) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا لا و اللعبة " این عمر نے کہا بغیراللہ کی قسم نہ کھاؤ میں نے رسول اللہ سے سنا جو غیر اللہ کی قسم کھائے وہ کافر ہوا یا مشرک ( ترمذی ابواب النذور الایمان باب فی کراهته المحلف بغیر الله) حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جوشخص تم کھائے اور کہے کہ میں اسلام سے بیزار ہوں.اگر وہ چھوٹا ہے تو وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا اور اگر وہ سچا ہے تو اسلام کی طرف سلامت نہ پھرے گا.را بو داؤد کتاب الایمان والنذور باب في الحلف بالبراءة من ملة غير السلام ) ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مسلمان کے مال پر ناحق قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سوال کرے گا.اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا.پھر رسول کریم نے یہ آیت پڑھی.إن الذين يرون بِعَهْدِ اللَّهِ وَايْمَانِهِمْ فَمَا قَلِيلاً - ) سورة آل عمران : (۷۸) جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ساتھ تھوڑا مال خریدتے ہیں.(مسلم کتاب الایمان والنذور باب قول الله تعالیٰ ان الذین بیشترون بعهد الله) حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کر زیادہ قسم کھانے سے اور سودا بیچنے میں قسم کھانے سے بچو کہ اس سے گو بکری پہلے
۱۵۲ سے بڑھ جاتی ہے.مگر آخر برکت گھٹ جاتی ہے.ر مسلم كتاب المساقاة والمزارعة باب النخص عن الخلف فى البيع سمرہ کہتے ہیں مجھے رسول کریم نے فرمایا.جب تو کسی کام پر قسم کھائے اور پھر اس کا غیر بہتر معلوم ہو تو جو بہتر ہو وہ کرے اور قسم کا کفارہ دے دے.ا مسلم کتاب الایمان باب ندب من حلف يميناً قراى غيرها خير أمنها) آنحضرت فرماتے تھے کہ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر سامان فروخت کرنے والے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا.مسلم کتاب الایمان باب بسان غلط حضور نے ہمیں غموس جھوٹی قسم جس کے ذریعہ انسان کسی مسلمان کا حق مارے) کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے.د بخاری کتاب الایمان والنذور باب يمين الغموس ولا تتخذوا بما نكم ) یہ بہت بُری خصلت ہے کہ انسان میں کے پاس جائے اس کی بات کرے.یہ منافقت ہے.ادھر کی بات سن کر ادھر اور ادھر کی بات سن کر ادھر نہیں بتانی چاہیئے کیونکہ اس سے فساد پھیلتا ہے.حضرت ابو ہریہ کا سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا.قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا اللہ کے نزدیک وہ ہوگا جو دو رخا ہو.اس طرف آئے تو ایک چہرہ کے ساتھ اور اس طرف جائے تو دو کر چہر ے کے ساتھ.ان کے پاس اگر کچھ کہتا ہے، دوسروں کے پاس جا کہ کچھ کہتا ہے.۲۳ بخاری کتاب الادب باب ما قيل في ذى الوجهين) کسی کی تعریف کرتے ہوئے مبالغہ اختیار نہ کیا جائے.ایسی مدح مکروہ ہے حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وستم نے ایک شخص کو کسی کی تعریف کرتے ہوئے سُنا اور اس کی تعریف میں مبالغہ کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا.کہ تم نے بلاک کر دیا یا اس آدمی کی کمر توڑ دی دبخاری کتاب الادب باب ما يكره من التخارج) حضرت ابوبکر کم سے روایت ہے کہ نبی کر یم کے حضور ایک شخص کا ذکر کیا گیا.ایک شخص نے اس کی تعریف کی.نبی کریم نے فرمایا.وائے تجھ کو تو نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی.اگر تم میں سے کسی کو کسی کی مدح ضرور ہی کرنی ہو تو چاہیے کہ کہے میں اس کو ایسا گمان کرتا ہوں.اور اللہ تعالیٰ اس کا حبیب ہے اور یقین سے نہ کہے کہ فلاں اللہ کے نزدیک اچھا ہے.اسلم كتاب الزهد باب النهي عن الافراط في المدرح اذا حيف منه فتنة المدوخ ) اپنے شخص کی مرح جائز سے جو کامل معرفت والا ہو.لیکن مبالغہ آمیز مدح کرنے سے حضور منع فرماتے تھے.آپ فرماتے تھے.میری اس قدر مبالغہ آمیز مدرج نہ کیا کرد.جس قدر نصاری ابن مریم کی کیا کرتے ہیں.میں تو خدا کا بندہ اور فرستادہ ہوں.ا بخاری کتاب الانبیاء باب و اذکر فی الکتاب مریم اذا نبذت من اهلها ) معوذ بن عفراء کی بیٹی ربیع کی شادی پر جب آپ تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے گاتے ہوئے یہ مصرعہ گایا.فينَا نَى يَعْلَمُ مَا فِي عد.کہ ہم میں ایسا ہی ہے جو ضرورت کے موقعہ پر) کل کی بات جانتا ہے.آپ نے فرمایا یہ چھوڑ دو اور دیسی کہو جو پہلے کہ رہی تھیں.دیبخاری کتاب المغازی باب شهود الملشکر بدراً) -۲۴ - گفتگو کے دوران اسلامی شعار کو اپنا نا چاہیئے.جزاکم اللہ ، انشاء اللہ ماشاءاللہ انا للہ استغفر الله ، الحمد للہ کے الفاظ ادا کرنے چاہئیں.ایک دفعہ دو شخص مجلس اقدس میں حاضر تھے.ایک نے جب چھینک آئی تو اسلامی شعار کے مطابق الحمد للہ
۱۵۴ کہا.آپ نے حسب معمول اسے یرحمک اللہ کہا.دو شخص نے جس نے چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہا تھا.آپ سے شکایت کی.آپ نے فرمایا کہ اس نے خدا کو یاد کیا تو میں نے بھی کیا.تم نے خدا کو بھلا دیا تو میں نے بھی تم کو بھلا دیا د بخاری کتاب الادب باب لا یشمت العاطس اذالم محمد الله ) گفتگو کی ابتدار ہمیشہ السلام علیکم کے الفاظ سے کرنی چاہیئے.ا ترمذی ابواب الاستیذان باب ما جاء فی السلام قبل الكلام ) ۲۵- گفتگو کے دوران کسی کی بات کاٹتی نہیں چاہیے.جب ایک شخص گفتگو کر رہا ہو.تو اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی بات سننی چاہیئے.حضور صلی الہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ آپ کسی کی بات کاٹ کر کبھی گفتگو نہ فرماتے تھے.آپ توجہ کے ساتھ معروضات سنتے اور ان کی حاجت براری فرماتے.۲۶.اخلاق کی درستگی کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ جب دو شخص باہم گفتگو کر رہے ہوں اور وہ اس بات کو ناپسند کرتے ہوں کہ کوئی شخص ان کی گفتگو سُنے تو تجسس نہیں کرنا چاہیئے اور نہ ہی کان لگا کر ان کی بات سننی چاہیئے.حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس نے کسی کی گفتگو پر کان لگائے اور وہ اس بات کو نا پسند کرتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ ڈالا جائے گا.ابخاری کتاب التعبير باب من كذب في حلمه) حضرت انس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بھلائی ہے اس کے لئے جس کے اپنے عیب ( کی تکر) نے اسے دوسروں کے عیب سے بے توجہ رکھا.۲۷.بزرگوں کے سامنے اونچی آواز کے ساتھ بات چیت نہیں کرنی چاہیے.بلکہ
۱۵۵ ادب کے ساتھ ان سے گفتگو کی جائے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حضور اکرم کے سامنے اُونچی آواز سے بولنے سے منع فرمایا، جب کہ سورۃ الحجرات میں فرمایا.ياتِهَا الَّذِينَ آمَنُو الا تقدِمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ سَمْعُ عَلِيم 0 ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَهْوَ الْكُمُ فَوْقَ صَوتِ النَّبِي وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالقَولِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ اعمالكم وانتم لا تَشْعُرُونَ (الحجرات : ٣٤٣) اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کیا کرو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.اے مومنو یا نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کیا کرو.اور نہ بلند آواز سے اُس کے سامنے اس طرح بولا کر جس طرح آپس میں ایک دوسے کے سامنے اونچا بولتے ہو.ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں.اور تم جانتے بھی نہ ہو.صحابہ کراہ رسول کریم کے سامنے مؤدب بیٹھتے.۲۸ اگر کوئی مجلس میں نامناسب گفتگو کرے تو ا سے مطلع کر دینا چاہیے.اور اگر کوئی شخص اچھی بات کہے تو اس کی داد دینا بھی جائز ہے.حضور اکرم کی مجلس میں جب کبھی کوئی شخص اچھی بات کہتا تو آپ تحسین فرماتے اور نامناسب گفتگو کرتا تو اس کو مطلع فرما دیتے.(شمائل ترندی باب ما جاء فی تواضع الرسول الله ) - اگر بیت الخلاء میں ہوں تو کسی سے گفتگو نہیں کرنی چاہیئے
۱۵۷ عرب میں جائے ضروریہ نہ تھے.لوگ میدانوں میں رفع حاجت کے لئے جایا کرتے لیکن پردہ نہیں کرتے تھے بلکہ آمنے سامنے بیٹھ جایا کرتے اور ہر قسم کی بات چیت کرتے.آنحضرت نے اس کی سخت ممانعت کی اور فرمایا کہ خدا تعالی اس سے ناراض ہوتا ہے.این ناحیه ابواب الطهارة باب النهي عن الاجتماع على المخلاء والحديث عنده حضور کا معمول تھا کہ آپ رفع حاجت کے لئے اس قدر دور نکل جاتے کہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے.آپ جب بیت الخلاء تشریف لے جاتے تو فرماتے اللهُمَّ إِلَى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ د سبخاری کتاب الوضو باب ما يقول عند الخلاء ے اللہ تعالیٰ میں تیری پناہ چاہتا ہوں.نقصان پہنچانے والے گندے خیالات اور جراثیم سے اور نقصان پہنچانے والی گندگیوں اور بیماریوں سے.(حدیقہ الصالحین ص ۲۳۳ پہلا ایڈیشن شائع کرده شعبه اشاعت وقف جدید پس ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں.اپنے ہا تھ اور اپنی زبان سے کسی کو دکھ نہ دیں مثل مشہور ہے کہ تلوار کے زخم تو مندمل ہو جاتے ہیں لیکن زبان سے دیئے گئے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے.الہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خوشی کو حاصل کرنے کا یہ طریقہ اپنائیں کہ جب باتیں کریں تو سچ بولیں.ہیں چاہیئے کہ ہم راست گفتار بن جائیں اور کلام کے سب آداب کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ رفق و ملاطفت کے ساتھ گفتگو کریں.ناخدائے کلیم کے پاک کلام اور خوشخبریوں سے ہم اس دنیا میں بھی مشرق ہو سکیں اور اگلے جہان میں اس کا یہ فرمان سلام قول من رب رحیم ہمیں نصیب ہو.اے اللہ تو ایسا ہی کر.آمین.
۱۵۷ غیبت اور چغلی کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزبية کے خطبات سے اقتباسات.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ياَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيْرًا مِّنَ (الحجرات : ۱۳) اے ایمان والو اندازے لگانے سے اجتناب کیا کرو.الظَّنْ اور بہت زیادہ عادت جو سے تخمینوں کی کہ یہ ہوا ہوگا ، اور یہ ہوا ہوگایہ ایک ایسی مہلک عادت ہے کہ ان اندازوں میں سے یقینا بعض گناہ ہوتے ہیں.پس تم ایک ایسے میدان میں پھرتے ہو جس میں خطر ناک گڑھے ہیں یا جنگل کے درندے ہیں تم سمجھتے ہو کہ تم دیکھ بھال کر قدم اٹھا رہے ہو مگر جو ایسے خطرے مول لیتا ہے یقینا اس کا پاؤں کہیں نہ کہیں رپٹ جاتا ہے.غلطی سے کسی گڑھے میں پڑ جاتا ہے یا کسی درندے کے چھپنے کی جگہ کے قریب سے گزرتا ہے اور اسے حملے کی دعوت دیتا ہے تو مراد یہی ہے کہ ٹرین گناہ نہیں ہے، یہ درست ہے بعض ظن جو درست ہوں، حقیقت پر مبنی ہوں وہ خدا کے نزدیک گناہ نہیں لیکن خطمن کرنے کی عادت خطر ناک ہے اور اس کے نتیجے میں سرگز بعید نہیں کہ تم سے بعض بڑے گناہ سرزد ہوں.دوسری بات یہ فرمائی کہ تختی بھی نہ کیا کہ وطن کا جو تعلق سے دی جس سے بہت گہرا ہے.جب انسان کو یہ شوق ہو کہ کسی کی کوئی کمزوری معلوم کرے تو اس وقت جو ظن ہیں وہ زیادہ گناہ کے قریب ہوتے ہیں کیونکہ انسان اپنے بھائی یا بہن میں بدی دھند رہا ہوتا ہے اور جس کی عادت اگر فن کی عادت کے ساتھ مل جائے تو بہت بڑا احتمال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ شخص گنہگار ہو گا.پس اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ فرمایا.اور کوئی تم میں سے کسی دوسرے شخص کی غیبت میں نیت نہ کرے یعنی اس کی غیور بیت
۱۵۸ میں، اس کی عدم موجودگی میں انس پر تبصرے نہ کیا کرے.تجس کا مطلب ہے اُسے شوق ہے کچھ معلوم کرنے کا تجسس کا مطلب ہے کہ اسے شوق ہے کچھ معلوم کرنے کا اس لئے بے وجہ طن نہیں کر رہا.یونہی الفافا ظن نہیں کر رہا.بلکہ اس کا ظن کسی خاص مقصد کی تلاش میں ہے.اور ایسے موقع پر وہ نتیجہ نکان جو غلط ہے اور محض اپنے تبت کے شوق میں اس نے نکالا ہے یہ ایک طبعی بات ہے.ایسا احتمال بہت بڑھ جاتا ہے.تیسری صورت میں اگر نجت کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے.بنیادی طور پر اس کو اپنے بھائی یا بہن سے کوئی دی ہوئی محفی نفرت ہوتی ہے.وہ پسند نہیں ہوتا اور غیبت اسی کی کی جاتی ہے جو پسند نہ ہو.کبھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ماں باپ بیٹھے کہ بچوں کی غیبت کر رہے ہیں یا بچے بیٹھ کر ماں باپ کی غیبت کر رہے ہیں.اگر ایسا ہو تو بنیادی طور پر ان کے تعلقات کے نظام میں کوئی ایسا رخنہ ہے جسے پاگل پن کہا جا سکتا ہے.مگر غیبت اور کسی شخص سے پر خاش رکھنا کوئی اس کے متعلق حسد کا پیدا ہونا، اس قسم کے محرکات ہیں جو جتی کی پہلے عادت ڈالتے ہیں اور پھر تبتی جب ان کے سامنے کوئی تصورات پیش کرتا ہے.حقائق نہیں بلکہ وہ طن جو ان کی عادت میں داخل ہے تختی کے نتیجے میں یہ اندازے لگاتا ہے کہ ہم یہاں تک تو پہنچ گئے ہیں.اندر کمرے میں جا کر تو نہیں دیکھا.مگر صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ ہوا ہو گا.اور چونکہ بدنیتی سے ہی اس سفر کا آغاز ہے اس لئے ہو بھی ماحصل ہے وہ یقینی ہو یا غیر یقینی ہو.وہ اسے آگے مجالس میں بیان کر کے اس کے چسکے لیتے ہیں.یہ ایک پورا نفسیاتی سفر ہے جو غیبت کرنے والا اختیار کرتا ہے جس کو قرآن کریم نے سلسلہ یہ سلسلہ اسی طرح بیان فرمایا ہے جس طرح انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے.لیکن غیبت کی صرف یہ وجہ نہیں ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ اس کے
۱۵۹ سوا اور کوئی غیبت نہیں ہے.غیبت بغیر تختی کے بھی پیدا ہوتی ہے.غیبت ایک شخص کی بدی جو کھل کر سامنے آئی ہے اور تحیت کے نتیجے میں نہیں.اس کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس میں دور کرنے کی بجائے ان لوگوں کو پہچان کر جو اس کو سن کر اس شخص سے اور دُور ہٹ جائیں گے.اور اس کی اس شخص سے دشمنی میں اس کے طرفدار ہو جائیں گے.یہ نیت بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ حقائق پر مبنی غیبتیں بھی کی جاتی ہیں.اور ہر نیت کا ٹیڑھا ہونا لازم ہے.ورنہ گناہ نہیں.برانی کی نیست غیبت کا لازمی حصہ ہے اس نیت سے خواہ برائی کی تلاش کی جائے یا برائی اتفاق نظر آجائے اور پھر اس نیت سے ان باتوں کو دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے اس پر بیان کرنے والے کو ایک قسم کی فوقیت مل جائے کہ دیکھو میں بلند ہوں اس بات سے اور نیت یہ ہو کہ دیکھو یہ آدمی کیسا ذلیل اور گھٹیا ہے اور اس کے ساتھ اس بات کا خوف بھی دامن گیر ہو کہ یہ بات اس شخص تک نہ پہنچ جائے.یہ خوف دامن گیر ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ چھپ کر حملہ کرنا چاہتا ہے.وہ جب موجود نہیں پیچھے سے حملہ کرنا چاہتا ہے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے.اگر یہ نیت ہو تو یہ بہت بڑا گناہ ہے.اور اس کی مثال دیتے ہوئے قرآن کریم بیان فرماتا ہے.احِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا (الحجرات : ۱۳) کیا تم میں سے کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے.تم تو کراہت کرنے لگے ہو.دیکھو دیکھو تم یہ بات سنتے ہی سخت کر اہت محسوس کرتے ہو.اب کیسی کر بہت جبکہ عملاً اپنی زندگی میں تم نے یہی وطیرہ اختیار کر
14.رکھا ہے.جب اپنے بھائی اپنی بہن یعنی مومنوں کے تعلقات کی بات ہو رہی ہے.سگے بھائی یا بہن کی بات نہیں.ان کے خلاف جب تم باتیں کرتے ہو تو مرد سے کا گوشت کھانے والی بات ہے لیکن کراہت کے ساتھ نہیں جسکے لے لے کر مثال تو ایک ہی ہے ایک جگہ تم چسکے لیتے ہو.ایک جگہ تم کہ بہت محسوس کرتے ہو.یہ تمہاری زندگی کا تضاد ہے جو درست نہیں ہے.حالانکہ دونوں کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا چاہئیے.اس نصیحت اور اس مثال کے بعد پھر بھی انسان غیبت کے مزے اٹھاتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بعض باتوں کی کراہت کو جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا.وہ مثال سنتا ہے ایمان لے آتا ہے.اللہ نے فرمایا سے ٹھیک ہی ہو گا لیکن جہاں تک، وہ سوچتا ہے ، میری ذات کا تعلق ہے، مجھے تو مزا آ رہا ہے.مجھے بھائی کے گوشت والی کراست ذرا اس میں محسوس نہیں ہو رہی.جس کا مطلب ہے اس کا تناظر بدل گیا ہے.وہ جس پہلو اور جس زاویے سے چیزوں کو دیکھ رہا ہے وہ خدا کا پہلو نہیں خدا کا زاویہ نہیں ہے.غیبت جھوٹی بات کو نہیں کہتے دو طرح سے غیبت کا احتمال ہے.ایک سے بدنیتی کے ساتھ حملہ کرنے کی خاطر جھوٹی بات کرنا.ایک سچی بات کو بد نیتی سے دشمنی کے نتیجے میں پھیلانا.جو جھوٹی بات ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک فن ہے ظن کے پردے میں شک کا فائدہ اپنے لئے اٹھاتے ہوئے کہ شاید سچ ہو، اس لئے میں جھوٹ نہیں بول رہا.یہ حصہ ہے جو زیادہ غیبت سے تعلق رکھتا ہے.جو واضح جھوٹ بولا جارہا ہے اس کو غیبت نہیں کہتے اس کا کچھ اور نام ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، یہ روایت مسلم کتاب البر میں درج
ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا.اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اپنے بھائی کا اس کی پیچھے اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہیں کرتا.عرض کیا گیا اگر وہ بات جو کہی گئی ہے وہ سچ ہو اور میرے بھائی میں وہ موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہو گی.آپ نے فرمایا اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تو نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیب ہے.اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے وہ اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو یہ بہتان ہے.جو اس سے بھی بڑا گناہ ہے.بہتان تراشی معصوم پر تو ایسا سخت گناہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کی بہت سخت سزا بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے.تو دونوں صورتوں میں جواز کوئی نہیں رہتا اور سچ ہے تو غیبت ہے اگر جھوٹ ہے تو بہتان جو اس سے بھی زیادہ بڑا گند ہے.اگر پیچ ہے تو غیبت ہے ان معنوں میں کہ بھائی مر چکا اور مرے ہوئے بھائی کو ڈیفینس کا موقع نہیں دیا گیا.اس کی عدم موجودگی میں اس پر حملہ کیا گیا.گویا اس کا گوشت کھایا گیا اور اس کے مزے اڑائے گئے.اور بہتان کا مطلب ہے کسی کو قتل کر دنیا یعنی روحانی دنیا میں بہتان قتل کے مشابہ ہے.تو یہ تو مرور MURDER (قتل) کا گناہ ہے.جو مرے ہوئے کا گوشت کھانے سے زیادہ کر وہ تو نہیں مگر زیادہ بڑا ظلم ضرور ہے اور زیادہ قابل مواخذہ ہے.اس کسوٹی پر اپنی اندرونی حالتوں کا جائزہ لیں جب تک آپ کا ذوق درست نہیں ہوتا اور خدا کی وہ محبت دل میں پیدا نہیں ہوتی اور وہ نظر آپ کو عطا نہیں ہوتی جس نظر سے خدا اپنے بندوں کو دیکھتا ہے.اس وقت تک آپ کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ آپ غیبت کرتے ہیں تو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں اور اس سے کراہت کا نہ ہونا آپ کے بگڑے ہوئے ذوق کی نشانی ہے پس اتنی کھلی کھلی.
۱۹۲ ایک نشانی آپکے ہاتھوں میں تھما دی ہے کہ اس کسوٹی پر اپنی اندرونی حالتوں کا جائزہ لینا ایک فرضی بات نہیں رہی بلکہ ایک یقینی حقیقت بن چکا ہے پس جس حد تک ہم اس کسوئی کے ظاہر کردہ نتیجے کی رو سے ناکام ہو رہے ہیں اس حد تک ہیں اپنی فکر کرنی چاہئے یہ کسوٹی وہ ہے جو جھوٹ نہیں بولتی.یہ دیکھیں کہ کیا غیبت سے آپ کو مزا آتا ہے پس اپنے ذوق درست کریں تو پھر آپ کو خدا سے محبت ہو گی.اپنے ذوق درست کریں پھر آپ کو رسول سے محبت ہو گی.اپنے فوق درست کریں تب گناہوں سے دوری ہو سکتی ہے اور نیکیوں سے پیار ہو سکتا ہے ورنہ نہیں ہو سکتا.پس غیبت کے حوالے سے میں اگلا آپ سے تقاضا یہ کر سکتا ہوں کہ اپنے دل کا یہ جائزہ لیں کہ آپ کو غیبت میں کتنا مزا آکرتا ہے.اگر ایک دم یہ نہیں چھپتی منہ سے اور رفتہ رفتہ جائزہ لیں تو آپ کے دل میں اس کا ذوق شوق کم ہوتا چلا جارہا ہے کہ نہیں.اگر کم ہو رہا ہے تو شکر ہے آپ بچ رہے ہیں.آپ روبہ صحت ہیں اگر زور لگا کر نصیحت سن کر آپ کہتے ہیں کہ میں نے غیبت نہیں کرتی اور پھر آپ کرتے ہیں اور مزا اتنا ہی آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی اصلاح کوئی نہیں ہوئی.زبردستی تعلق کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے.اور جو طبیعی رحجانات ہیں ان کے رستے زبر دستی بند نہیں ہوا کرتے.کچھ دیر تک ہوں گے پھر کھل جاتے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر بعض دفعہ بدیوں کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے.اس لئے غیبت کے معاملے کو اہمیت دیں اور اس کو گہرائی سے دیکھیں جس طرح میں نے آپ کے سامنے اس کو کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی ہے.اور یقین کریں کہ اگر ہم غیبت سے مبرا ہو جائیں بحیثیت جماعت تو ہمارا نظام بھی محفوظ ہو جائے گا.ہمارے معاشرتی تعلقات بھی محفوظ ہو جائیں گے.ہمارے اندر جیتنی رخنہ پیدا کرنے والی باتیں ہیں.
دہ اگر سب دور نہیں ہوتیں تو ان میں غیر معمولی کمی پیدا ہو جائے گی اور وہ بد نتائج جو روزانہ شادیوں کی ناکامی کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں ان پر بھی غیر معمولی ثبت ور میں ہیں دکھائی دیتے ہیں ان پربھی اثر ظاہر ہوگا.مجلس کی امانت کا حق رکھنا بعض دفعہ غیبت کی بجائے مجلس کی امانت کا حق نہ رکھا تو وہ بھی غیبت بن جاتی.ہے.ہم جب آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ ایک شخص نیست کی نیت سے نہیں بلکہ بعض حوالوں کی وجہ سے ایک شخص کا ذکر کر دیتا ہے جسے سب جانتے ہیں.اس کی کوئی چھپی ہوئی بدی بیان نہیں کی جاتی جس کا ان کو علم نہ ہو.بلکہ کسی گفتگو کے حوالے سے از خود یہ بات جاری ہو جاتی ہے.اگر کوئی شخص اس بات کو اٹھائے اور باہر بیان کر دے تو یہ امانت میں خیانت ہے کیونکہ یہ امانتیں ہیں.اور ان کی بات بغیر اجازت کے بغیر حق کے باس کرنا ایک گناہ ہے.اور یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے.لیکن میں اصول بتا دیا ہوں کہ کہاں امانت ہے کہاں ایک ایسی نصیحت ہے جس کا بنی نوع انسان کی بہتری سے تعلق ہے بھلائی سے تعلق ہے ایسی بات ہے جس کو سن کر ایمان تازہ ہوتا ہے تو یہ وہ امانت نہیں ہے جس کو آپ پوچھے بغیر آگے بیان نہیں کر سکتے.اس کے متعلق فرمایا کہ جو حاضر شاہد ہے وہ غائب کو یہ باتیں بیان کرے کیونکہ اچھی باتیں ہیں اور ان کے نیچے میں خبر پھیلتی ہے.مگر اگر اس مجلس میں کسی ایک شخص کا ذکر آیا ہے اور اس کو اگر دور سرش میں بیان کیا جائے تو اس شخص کے خلاف دلوں میں نفرت پھیلے گی.تو اس کو دوسروں میں بیان کرنا بھی نا جائزہ اس تک بات پہنچانا بھی نا جائز.اگر کسی مقصد مجبوری سے بات کرنی ہو تو لازم ہے کہ اس سے اجازت لی جائے جس نے ایک مجلس میں یہ بات بیان ہے
۱۹۴ کی تھی.اگر ہم پوری طرح اس اصول پر کاربند ہو جائیں تو غیبت کے سارے رستے بند ہو جاتے ہیں.خطبه ۱۸ نومبر ۱۹۹۴ء ، الفضل ۱۳ دسمبر (۱۹۹۴) بدترین آدمی وہ ہے جو دو منہ رکھتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا بد ترین آدمی تم اُسے پاؤ گے جو دو منہ رکھتا ہے.ایک کے پاس جا کر کچھ کہتا ہے دوسروں کے پاس جا کہ کچھ اور کہتا ہے.جہاں تک یہ نتیجہ نکالنے کا تعلق ہے کہ اس سے چغل خوری مراد ہے تو یہ بعید نہیں ہے.کیونکہ چغل خوری کے ساتھ یہ لعنت ضرور لگی رہتی ہے اور اس کا ایک لازمی جزو بن جاتی ہے.ایک انسان ادھر کچھ بات کرتا ہے اُدھر کچھ بات کرتا ہے.جتنے بھی چغل خوری کے نتیجے میں فساد پھیلتے ہیں اور قریبی قریبیوں سے لڑ پڑتے ہیں اور بعض دفعہ وہ فساد لیے ہو کہ رشتوں کے انقطاع تک پہنچ جاتے ہیں.رشتے ٹوٹ جاتے ہیں.خونی رشتے بھی ایسے ٹوٹتے ہیں کہ پھر ان کا جوڑنا مشکل ہو جاتا ہے.ان پر آپ سب نے کبھی نہ کبھی نظر ڈالی ہوگی.جو میں اپنی یادداشت سے یہ باتیں مستحضر کہ رہا ہوں اپنے ذہن میں ان دونوں باتوں کا بہت گہرا تعلق مجھے دکھائی دے رہا ہے.وجہ یہ ہے کہ ایک شخص یا خصوصا خواتین میں یہ بات زیادہ پائی جاتی ہے اس لئے خواتین سے معذرت کے ساتھ میں ایک خاتون کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک خاتون نے کوئی بات کی وہ بات اس خاتوں تک پہنچی ہیں کے متعلق بات کی گئی تھی.اور ایسے رنگ میں پہنچی جس میں کچھ زیادہ تلخی پائی گئی بجائے اس کے کہ لعینہ اس طرح پہنچتی.اور بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ بعینہ اس طرح پہنچا دی جاتی ہے مگر بات ایسی ہے جس کے نتیجے میں لازماً ان دونوں کے تعلقات میں خرابی پیدا ہوئی.جب وہ سننے والی یہ بات سنتی ہے تو پہلے یہ عہد کر کے سنتی ہے کہ میں آگے کسی سے
140 بات نہیں کروں گی تو سب سے پہلے تو اس کے دومنہ ہو جاتے ہیں.یعنی وہ بات سنتی ہے اور پھر طیش میں آکر بلا توقف دوسری خاتون پر حملہ آور ہوتی ہے.دھاوا بول دیتی ہے اس پر.اور اس کا سارا عہد کہ خاموش رہوں گی اپنے تک محدود رکھوں گی جھوٹا ثابت ہوتا ہے.تو اس کے دومنہ بن گئے اور جو سنانے والی ہے اس کے پہلے ہی دومنہ ہو چکے ہیں.کیونکہ جب وہ مجلس میں میٹھی تھی تو امانت کے لحاظ سے بات ہو رہی تھی اور اگر واضح طور پر یہ نہیں بھی کہا گیا تھا تو ایک عام دستور سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک انسان جب کسی تیسرے شخص کے متعلق کسی سے بات کرتا ہے جو کچھ نا پسندیدہ پہلو رکھتی ہے نو اس یقین اور اعتماد پر کر تا ہے کہ یہ بات آگے نہیں پہنچائے گا اور نہ اگر پہنچانی ہو تو وہ کیوں نہ پہنچا دے.تو دومنہ سے بات شروع سے ہی چل رہی رہے.ایک سننے والے کے دومنہ جس نے آگے دوسرے منہ سے بات پہنچائی پھر جس نے اس سے بات سنی اُس کے دومنہ بن گئے اور پھر جب وہ پاس پہنچے گی لڑنے کے لئے تو پھر یہ دو منہ آگے دومنہ آگے دو دومنہ بنتے چلے جائیں گے.وہ کہے گی جھوٹ بول رہی ہے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا.میں نے تو یہ کہا تھا.اور وہاں سے پھر جھوٹ کا تیسرا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اس نے کہا بھی ہو تو پھر دوسرے معنے پہنانے کی کوشش کرتی ہے.بعض وقعہ پھرا سے بھی جھوٹا کر دیتی ہے پھر وہ آتی ہے لڑتی ہوئی کہ تم نے یہی کہا تھا ، وہ کہتی ہے میں نے یہ نہیں کہا تھا.تو ایک منہ جب پھٹ کے دومنہ بنتا ہے تو پھر پھٹتا چلا جاتا ہے اس کا پھر ایک منہ بننا بہت ہی مشکل کام ہے اور ایسے منادات میں سب سے زیادہ مشکل پڑتی ہے فیصلہ کرنے کی.کیونکہ ہر گواہی مٹی ہوئی ہے اور اگر وہ مان بھی جائے کچھ حصہ تو کہے گا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا.میرا تویہ تھا.
144 تلخی پیدا کرنے والی سچی باتیں بھی آگے نہ پہنچاؤ.ایسی باتیں جود دوسرے کے لئے تلخی کا موجب ہوں اگر سچی ہوں تو آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہیں وہ سچی باتیں دوسرے تک پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے.اگر جھوٹی باتیں ہوں تو وہ افترا ہے چغلی کا مضمون ہی سچی باتوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس سچ میں جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے.یہ الگ مسئلہ ہے.مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ ہے کہ اگر بات کرنے والے نے سچا عیب بیان کیا ہو اور اس بچے یب کو سن کر اس شخص تک بات پہنچا دی جائے جس کے متعلق وہ بات بیان ہوئی تھی تو کہنے والا بھی سچا دوسرا جو وسیلہ بنا وہ بھی سچا ہے.لیکن شرکت معیوب اور جھوٹی اور گندی ہے.ایسی گندی حرکت ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںکہ گویا کی نے کسی کی طرف تیر پھینکا اس کے سینے کا نشانہ باندھا لیکن وہ اس کو لگا نہیں.اس کے قدموں میں جا پڑا.ایک شخص نے سچائی کے نام پردہ تیر اٹھایا اور اس کے سینے میں گھونپ دیا کہ نشانہ تو یہاں کا تھا.اس تیر کو یہاں کرنے کا کا حق ہے.وہ بھی قاتل ہے بلکہ زیادہ مکروہ قاتل ہے.پہلے تو شاید کسی غصے کی وجہ سے کسی وجہ سے خواہ وہ جائز تھی یا ناجائز تھی.ایک طبعی جوش سے مجبور ہو کر یہ حرکت کی.اس ظالم نے تو بغیر کسی جوان نے ایک شخص، معصوم شخص کی جان لی ہے.بدظنی سخت قسم کا جھوٹ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اور یہ سلم باب تحریم الظن و بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.باطنی سے بچو کیونکہ ہنی سخت قسم کا جھوٹ ہے.ایک دوسرے کی عیب کی ٹوہ میں نہ رہو.اپنے بھائی
146 کے خلاف تجسس نہ کرو.اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو احمد نہ کرو.دشمنیاں نہ رکھو لیے راضی نہ یہ تو جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بن کر رہو.اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تقویٰ یہاں ہے.تقوی یہاں ہے.مراد یہ ہے کہ میرے دل میں ہے.اگر دل کا حوالہ ہے تو یہ مراد ہے کہ تقویٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں ہے.آپ کا سینہ تقوی کے نور سے روشن ہے.اگر تم نے تقوی سیکھنا ہے تو آنحضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی سیکھو اور کوئی راہ نہیں ہے تقویٰ کی حقیقت کو سمجھنے کی.ر خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ مطبوعه الفصل یکم جنوری ۱۱۹۹۵)
14A سونے اور بیدار ہونے کے آداب نیند یعنی سونا اللہ تعالے کے انعامات میں سے ایک انعام ہے اور جسمانی علاجوں میں سے ایک موثر علاج بھی ہے.اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے.وجَعَلْنَا لَو مَلهُ سُباتاه سورة النبا : ١٠) کہ ہم نے تمہاری نیند کو موجب راحت اور آرام بنایا ہے.نیند ایک طرح کی موت کی حالت ہوتی ہے جس میں انسان کی رُوح کچھ دیس کے لئے قبض کرلی جاتی ہے.اس لئے سونے سے پہلے دُعائیں کرنے کی تلقین کی گئی ہے پھر نیند سے بیدار ہونے پر بھی خدا تعالے کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے آپنے اپنے آقا فخر دو جہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے جن کی زندگی اور موت خدائے رب العالمین کے لئے تھی.سونے اور بیدار ہونے کے آداب سیکھیں تا کہ ہم بھی اپنی ز ندگی اور موت کو خدا تعالے کی ذات اور اس کے با برکت نام سے وابستہ کریں.1- اگر ہو سکے تو سونے سے پہلے نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت التزاما قرآن مجید کی کوئی سورۃ پڑھ کر سوتے.
149 سورة بنی اسرائیل، سورۃ زمر سورة حديد سورة حشر سورة صف سورۃ تغابن یا جمعہ پڑھ کر سوتے تھے.ابو داؤد کتاب الادب باب ما يقول عند النوم ) ۲.رات کا اندھیرا پھیلنے کے وقت بچوں کو گھروں میں روک لینا چاہئیے اور انہیں باہر بے مقصد پھرنے کے لئے جانے نہ دیا جائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند فرماتے تھے.حضرت جائز سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رات کا اندھیرا مجھک آئے تو تم اپنے لڑکوں کو گھروں میں روک لو کیونکہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں.پھر جب کچھ حصہ رات کا گزر جائے تو لڑکوں کو چھوڑ دو یعنی عشاء کے بعد سونے دو اور اپنا دروازہ بند کر لو.تجرید بخاری ما احصه (دوئم) سونے سے پہلے رات کو آگ بجھا دیتی چاہیے.حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ میں رات کے وقت ایک مکان رہنے والوں کے سمیت کل گیا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بنایا گیا تو آپ نے فرمایا.آگ تمہاری دشمن ہے.جب تم سونے لگو تو اُسے بجھا دیا کرو؟ د تجرید بخاری صاه حصہ دوم ۴ رات کو سوتے وقت بسم اللہ پڑھ کر گھر کے دروازے بند کر کے سونا چاہیے.اسی طرح چراغ گل کر کے سونا چاہیئے.اور خدا تعالے کا ذکر کیا جائے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اَغْلِقُ بَابَكَ واذكر اسعَ اللهِ وَأَطْفِي مِصْبَاحَكَ واذكر الله - تجرید بخاری صدا ( حصہ دوئم) )
16" نام لو.☑- اپنا دروازہ بند کر لو اور اللہ کا نام لو.اور اپنا چراغ گل کردو.اور اللہ کا رات کو سونے سے پہلے پانی اور کھانے کے برتن ڈھک کر سونا چاہیئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے پانی کا برتن ڈھک دو اور اللہ کا نام لو اور کھانے کا برتن ڈھانکئے اور اللہ کا نام لو.اور اگر کوئی چیز پوری بند کرنے کے لئے نہ ملے تو کوئی چیز اس کے عوض میں لکھ دو.تجرید بخاری ص ۱۲۰۰۱۱ حصہ دوم ) خواب گاہ میں جانے سے پہلے اور بستر پر لیٹنے سے پہلے وضو کر لینا چاہیے.حضرت برادین عادی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تو اپنے بچھونے پر آئے تو وضو کرے جیسا کہ نماز کے لئے وضو کرتے ہیں.ر سلم كتاب الذكر باب ما يقول عند النوم واخذ المصحيح - بستر پر لیٹنے سے پہلے بستر کو جھاڑ لینا چاہیے تاکہ سوتے وقت بے آرامی محسوس نہ ہو.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بچھونے پر آئے تو پہلے اپنے بستر کو جھاڑے کیونکہ معلوم نہیں کہ اس کے پیچھے اس میں کیا پڑا ہو.پھر یہ دُعا پڑھے.باشيك رَبِّي وَضَعتُ جنبي وباسمك ارفع عين امسكت نَفْسِي فَارْحَمُهَا وَاِن اَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفُفُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالحين - اسلم كتاب الذكر باب ما يقول عند النوم واخذا المضيبيع ) توجہ نور تیرے ہی نام کے ساتھ اے میرے رب میں اپنا پہلو رکھتا ہوں اور تیرے ہی نام کے ساتھ اس کو اٹھاؤں گا.اگر تو میری جان کو روک لے دیعنی
181 روح قبض کرے، تو اس پر رحم کیجیو.اور اگر چھوڑ دے تو ان کی حفاظت کیجیو.جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے.عشاء سے پہلے سوتا نہیں چاہیئے اور عشاء کی نماز کے بعد بے مقصد باتیں نہیں کرنی چاہیے.لیکن وعظ و نصائح اور علمی مذاکرات کرنا جائزہ ہیں.حضرت ابو برزہ سے روایت ہے کہ حضور عشاء سے قبل سو جانے کو اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے.د ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء في كراهية النوم قبل والعشاء والسحر بعدها ) حضرت ان سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آدمی رات کے قریب آئے اور عشاء کی نماز پڑھائی.راوی کہتا ہے پھر ہم کو آپ نے وعظ فرمایا.کہ لوگ نماز پڑھ کہ سو گئے ہیں.اور تم جب تک منتظر رہے نماز میں رہے.استجاری کتاب مواقيت الصلوۃ باب وقت الصلوة الى نصف الليل) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وعظ و نصیحت کی باتیں کرنا اور علمی مذاکرات اور مباحثات کرنا جائز ہے.- دائیں پہلو پر لیٹنا چاہئیے اور دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر سونا چاہیے اور دعائیں پڑھنی چاہئیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دائیں پہلو پر لیٹتے تھے اور یہ ڈھا بھی پڑھتے تھے.اللهُمَّ اسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجَهتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ وَالجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ رَعْبَة وَرَهْبَة لا ملجأ ولا منجا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ أَمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِى انقلتَ وَ نَتَكَ الَّذِى اَرْسَلْتَ.استخاری کتاب الدعوات باب النوم على شق الايمين)
ترجمه : اے اللہ ! میں نے اپنی جان کو تیرے سپرد کیا ہے اور میں نے تیری طرف اپنا رخ کیا ہے اور اپنا کام تجھے سونپ دیا اور میں نے تجھ کو اپنا پشت و پناہ بنایا.نیزی طرف رغبت کرتے ہوئے اور خوف کرتے ہوئے تیرے جلال کے سوا کوئی مادی اور ملجا نہیں.میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور اس نبی پر جو تو نے بھیجا.حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خواب گاہ میں جاتے تو اپنا ہاتھ رخسار کے پیچھے رکھ کر فرماتے.اللهم بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَاحْى ابخاری کتاب الدعوات ماذا يقول اذا نام ) اے اللہ ! میں تیرے نام (کی برکت) کے ساتھ سوتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ اٹھوں گا.10.سوتے وقت اللہ تعالے کا ذکر ضرور کرنا چاہیے.ا- حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص خواب گاہ میں لیٹے اور اللہ کو یاد نہ کرے.اس پہ اللہ کی طرف سے افسوس.ابو داؤد کتاب الادب باب ما يقول عند النوم ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب خواب گاہ میں جاتے تو دونوں ہاتھوں میں معوذات (سورۃ کافرون، سورۃ اخلاص سورة فلق اور سورۃ الناس پڑھ کر پھونکتے اور وہ ہاتھ بدن مبارک پر پھیر لیتے.ر ابو داؤد کتاب الادب باب ما يقول عند النوم ) اور بعض حدیثوں میں آتا ہے.سورۃ اخلاص کے بعد معوذتان یعنی سورۃ فلق اور سورۃ الناس پڑھ کر بدن پر پھونک کر سو جاتے.را ابو داؤد کتاب الادب باب ما يقول عند النوم )
16 ۱۱ - پیٹ کے بل نہیں لیٹنا چاہیے.پشت پر لیٹنے میں کوئی حرج نہیں.حضرت یعیش سے روایت ہے کہ میرے باپ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ ناگاہ ایک شخص نے مجھے پاؤں سے بلا کر کہا کہ اس صورت پر لیٹنے کو خدا تعالے ناپسند فرماتا ہے.میں نے آنکھ کھولی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے.ر ابو دا د د کتاب الادب باب فی الرجل ينطح على بطنه حضرت عبداللہ بن یزید سے روایت ہے میں نے رسول کریم صلی الہ عیہ علم کو مسجد میں ایک پاؤں دوسرے پر رکھ کر پشت پر لیٹے ہوئے دیکھا.د بخاری الصلوة باب الاستلقاء في المسجد ومد الرجل) ۱۲.سوتے وقت اگر کوئی اچھا خواب دیکھے تو آنکھ کھل جانے پر اسے اللہ تعالے کی حمد کرنی چاہیے اور اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اُسے اعوذ باللہ پڑھنا چاہیئے اور کروٹ بدل لینی چاہیئے.حضرت ابوسعید الخدری سے روایت ہے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جس کو پسند کرتا ہو تو وہ خدا کی جانب سے ہے اس کو چاہیے کہ اس پر اللہ کی حمد کرے.اور لوگوں سے ذکر کرے.دبخاری کتاب التعبير باب اذا را می مایکره فلا یخبر بها ویذکر ها) اور ایک روایت میں ہے کہ اس کا ذکر اسی شخص کے پاس کرے جس سے اس کو محبت ہے.د بخاری کتاب التعبير باب اذارا ای مایکره فلا بخبر بها و یذکرها) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تم میں سے کوئی خواب دیکھے جس کو مکروہ جانتا ہے تو چاہیے کہ بائیں طرف
تین بار تھوک دے اور اللہ کی جناب میں تین بار شیطان سے پناہ مانگے اور جس کروٹ پر لیٹا ہو اس کو بدل کر دوسری کروٹ پر پڑ جائے.(مسلم کتاب الرویا ) ۱۳- اگر صحت ہو تو رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نماز تہجد ادا کر نی چاہئیے.یہ نماز اگر چہ قرض نہیں لیکن خدا تعالے اور سول کریم اللہ کی اس نے اسے پڑھنے کی تاکید کی ہے.تیجہ کے معنی سو کر اٹھنے اور نیند کو ہٹا کر کھڑے ہونے کے ہیں.تہجد کی نماز سے پہلے سونا ضروری ہے.تہجد کی نمازہ احسان الہی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدُ بِهِ نَافِلَةٌ لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ تبك معا ما محموداه (سورة بنی اسرائیل : ۸۰) اور رات کو بھی تو اس (قرآن مجید) کے ذریعہ کچھ سو لینے کے بعد شب بیداری کیا کہ جو تجھ پہ ایک زائد انعام ہے.عین ممکن ہے کہ تیرا رب تجھے حمد والے مقام پر کھڑا کر دے.وَمِنَ اللَّيْل فَاسْجُدُ لَهُ وَسَبْعَهُ لَيْلا طويلاط (سورة الدهر : ۲۶) رات کو اٹھ کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ گہر اور کافی رات گئے تک اس کی پاکیزگی بیان کمر - رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.ترندی ابواب الصلوة ماجا فی فضل صلاة الليل فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے.}
160 اللہ تعالے نے قرآن مجید میں نماز تہجد کی فضیلیت سورۃ مزمل ہیں.یوں بیان فرمائی ہے.ان ناشئة اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُ وَلا وَ أَقْوَهُ قِبْلاط ) سورة المزمل : 6) بے شک رات کے وقت اٹھنا نفس کو خوب زیر کرتا ہے اور دعا بھی ٹھیک دل سے نکلتی ہے.رسول کریم ملی علیہمام نے فرمایا کہ دل تعالی ہر رات کو جب اس کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے سب سے پہلے آسمان پر اُترتا ہے اور کہتا ہے کہ کون مجھ سے دُعا مانگتا ہے تاکہ میں اس کی دُعا قبول کروں.کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اض کا سوال پورا کروں.کون مجھ سے بخشش چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کردوں.ترندی ابواب الصلوۃ باب نزول الرتب تبارك و تعالى الى السماء الدنيا) ایک اور موقع پر حضور نے فرمایا کہ ہر رات ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں اس کا بندہ اسی سے دینی و دنیا دی یا جس قسم کی بھلائی مانگے.اللہ تعالے اس کو دے دیتا ہے.( احمد بن خلیل جلد ۴ ص حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پہلی رات سوتے تھے اور آخر رات میں اُٹھ کہ نماز تہجد ادا کرتے تھے.حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ آدھی رات کے بعد آپ اٹھتے تھے.اسنن ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب في صلوة الليل) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت نماز رات کو پڑھتے تھے.سجدہ اس قدر لمبا ہوتا جتنے میں کوئی تمہارا پچاس آیتیں ہی ہے.اور دو رکعت فجر کی نماز سے پہلے پڑھتے پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ نماز کے لئے بلانے والا آتا.بخاری کتاب التهجد باب طول السجود فی قیام البیلی)
144 حضرت عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے لوگو ! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ.رات کو اس وقت نماز پڑھو جبکہ عام لوگ سور ہے ہوں.تو جنت میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ گے.( ترمذی ابواب صفة القيامة) یہ وہ مبارک ارشا د ہے جو مدینہ میں تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا.کاریب تہجد کی نماز ادا کرنا یعنی صلوا والناس بسیار پر عمل کرنا مسلمان کا شعار ہے.اور جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہونے کا ذریعہ ہے.حضرت ابو ہریہ سے روایت ہے اللہ تعالے اس مرد پہ رحم کرے جو رات کو اٹھ کر نمانہ پڑھے اور اپنی اہلیہ کو بھی جگائے اور اگر نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے.(ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب قیام الیل) نیند کے بعد بیدار ہونا ایک نئی زندگی سے ہمکنار ہوتا ہے.اس لئے ラ ۱۴ سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے.الْحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَا نَا بَعْدَ مَا آمَا تَنَا وَالَيْهِ النُّشُورُ.دبخاری کتاب الدعوات باب ما یقول اذا نام تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں زندہ کیا ہمارے مر جانے کے بعد اور اسی کی طرف ہمارا حشر ہوگا.۱۵ بیدار ہونے کے بعد مسواک کرنا سنت نبوی ہے.اس لئے نیند سے اٹھ کر مسواک کرنی چاہیے.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز جماعت
166 سے پڑھ کر گھر میں چلے آتے اور یہاں چار رکعتیں پڑھ کر خواب راحت فرماتے.وضو کا پانی اور مسواک سرہانے رکھ دی جاتی سو کر اٹھتے پہلے مسواک فرماتے.رستن ابو داؤد باب في صلاة الليل - كتاب الصلوة ) حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نیند سے اُٹھتے تو اپنے منہ میں مسواک کرتے.(مسلم کتاب الطهارة باب السواك) 14 - صبح اٹھ کر بسم اللہ الر حمن الرحیم کہ کر وضو کرنا چاہیئے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کے بعد وضو فرمایا کرتے تھے.وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھونا چاہیے.حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی تم میں سے اپنی نیند سے بیدار ہو تو وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوئے کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں پھرتا رہا ہے تجرید بخاری ص ۶۲ حصہ اول) ہ صبح کے وقت اٹھ کر وضو کے بعد نماز پڑھنی چاہیے.ان قران الفجر كان مشهوڈا (سورۃ بنی اسرائیل : 29) کے محکم میں صبح کی نمازہ کی فرضیت کا ذکر ہے.احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح کی نمانہ کے وقت دن کے فرشتے آتے ہیں اور رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں.وہ فرشتے جب خدا کے پاس جاتے ہیں تو دریافت کرنے پر کہتے ہیں کہ جب ہم دنیا میں گئے تو تیرے بندوں کو نماز پڑھتے ہی دیکھا اور واپس آئے تو نماز پڑھتے ہی چھوڑ کر آئے ہیں.بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب فضل صلواة الحصر)
ICA صبح کی نمانہ خاص طور پر خدا کے حضور پیش کی جاتی ہے.رسول کریم اللہ یہ علم فراتے ہیں سونے کی حالت میں شیطان تمہارے سر میں تین گرھیں لگا دیتا ہے جب انسان جاگتا ہے اور اللہ تعالے کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل بھاتی ہے.اگر وضو کر لیتا ہے تو دوسری گرہ بھی گھل جاتی ہے اور اگر اٹھ کر نمانہ پڑھ لیتا ہے تو تیسری گر بھی کھل جاتی ہے.ر بخاری کتاب التهجد باب عقد الشيطان على قافيته الراس اذا لم يصل با دیل) ۱ صبح اُٹھ کر گھر والوں کو سلام کرنا چاہئیے.کیونکہ یہ وہ قولِ سلام ہے جو اللہ کی طرف سے ایک پاکیزہ اور مبارک دُعا ہے.اور بہشت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے.حضور فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ملے تو چاہیے کہ اس کو سلام کہے.اگر ان کے درمیان درخت یا دیوار یا پتھر مائل ہو جائے اور پھر ملاقات ہو تو چاہیے کہ پھر السلام علیکم کہے.(ابو دا د د کتاب السلام باب في الجبل بيفارق الحيل لم لا يسلم عليه) 19.صبح اُٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت بھی کرنی چاہیئے.کیونکہ صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنا خدا تعالے کے ہاں ایک پسندیدہ عمل شمار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.ان قُرانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (سورة بنی اسرائیل : (٤٩) صبح کے وقت قرآن پڑھنے کوبھی لازم سمجھ کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا اللہ کے ہاں ایک مقبول عمل ہے.اور یہ خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے.-۲۰ - صبح بیدار ہونے پر ذکر الہی کرنا چاہیئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئیے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الشرعیہ سلم نے فرمایا.ہر روز جس میں آفتاب
169 نکلتا ہے.آدمیوں کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ ہے.امسلم کتاب الزكوة باب كل نوع من المعروف صدقة) حضرت عائشہ منہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا.بنی آدم کے 4 جوڈ ہیں جو الله اكبر اَلْحَمْدُ لله ، لا اله الا الله ، سبحان الله استغفر الله بار بار کہے.اور لوگوں کے راستے سے پتھر، کانٹا ، بڑی دور کر دے یا اسی قدر نیکی کا امر کرے، برائی سے روکے تو اس نے اپنا نفس دوزخ کی آگ سے بچالیا.مسلم کتاب الزكوة باب كل نوع من المعروف صدقة) پس ہمیں چاہیے کہ ہم سوتے اور بیدار ہوتے وقت ذکر الہی کریں.اور اُسوہ محمدی پر عمل پیرا ہو کہ اپنی روحانیت کو ترقی دیں.تا ہماری دنیا اور ہماری آخرت سنور جائے.آمین.
{A.لباس کے آداب باس کے معنی ستر یعنی پردہ پوشی کے ہیں.بس جسم کی حفاظت کا ذریعہ ہے.باس جہاں انسان کے عیوب ڈھانپنے اُسے سردی دگرمی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے کام آتا ہے.وہاں وہ اس کے لئے زینت کے سامان بھی مہیا کر تا ہے.باس کا حکم اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ہے.پاس اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کا ذکرالہ تعالی سورۃ الاعراف میں فرماتا ہے.بي المعد أنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْ اتِكُمْ دَي بيا وَ لبَاسُ التَّقوى ذلِكَ خَير ذَلِكَ مِنْ أَيْتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذْكُرُونَ (سورة الاعراف : ۲۷) اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمہارے لئے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری چھپانے والی جگہوں کو چھپاتا ہے اور زینت کا موجب بھی ہے.اور تقویٰ کا لباس تو سب سے بہتر لباس ہے.یہ لباس کا حکم اللہ کے احکام میںسے ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرد.سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالی ہے.وَجَعَلَ لَكُمُ سَرَابِيلَ نَيْكُمُ الْحَرَّمَ سَرَائِيلَ نَقِيكُمْ بِأسَكُمْ (سورة النحل ۲۰) for اُس نے تمہارے لئے گرمی سردی کے ضرر سے بچانے کے لئے قمیضیں بنائیں اور بعض ایسی قمیضیں بنائیں جو ہمیں جنگ کی سختی سے بجاتی ہیں.
SAI قرآن مجید میں لباس کے مقاصد ستر پوشی ، موسم کی سختی سے سجاؤ، دشمن سے حفاظت اور زینت بیان کئے گئے ہیں.اور انہیں مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہترین لباس تقویٰ ہے میں تقویٰ کے احساس کو کبھی کتے نہ دیتا.اور اپنی عائلی ازدواجی زندگی میں تقویٰ کا جامہ بہین کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرو هُن لباس لكمة هُنَّ لِبَاسٌ لَكُم وَ انتُم لباس لهن کہ وہ عمور میں تمہارا لباس ہیں اور غم مردان کا لباس ہو.(البقره : ۱۸۸) اس آیت میں بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے خوبصورتی بخشتا ہے اسی طرح تمہارا آپس کا تعلق بھی باعث راحت وزینت ہو.پس لباس شرم و حیا کی حفاظت کا دوسرا نام ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم باکس کے متعلق بے اعتدالیاں نہ کریں بلکہ ہادی برحق حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں سے آداب سیکھ کر اس نعمت کی قدر کریں.ا لباس ہمیشہ صاف تھا اپنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند فرماتا ہے.ان الله جميل و يُحِبُّ الجَمَالَ (احمد بن حنبل جلد ۴ (۱۵) اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِرِينَ ) سورة البقره : ۲۲۳) یقینا اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے..سورۃ المدثر میں اللہ تعالی فرماتا ہے و ثِيَابَكَ فَطَهْرُ ) سورة المدثر : ۵)
TAY اور اپنے کپڑوں کو پاک وصاف رکھو.حقیقت یہ ہے کہ صاف ستھرے باس میں انسان معزز لگتا ہے.نماز جوڑ ھانی ترقیات کا سرچشمہ ہے اس کی ادائیگی کے لئے لباس کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے.۲ لباس ایسا تنگ نہیں پہننا چاہیئے کہ ہاتھ اور پاؤں نہ بلائے جاسکیں.بادی اعظم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے روکا ہے کہ چاور یوں لپیٹ کر اور ھی جائے کہ ہاتھ نماز یاکسی اور کام کے لئے نکل سکیں.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ ص ۲۹۳ مطبوعه مطبع میمینه مصر.اب اس کی اصل غرض پردہ پوشی ہے.اس لئے ایسا لباس پہنا جائے جو کا ملی متر پوش ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ وہ عورتیں جو کپڑوں میں بھی عریاں ہیں.غیر مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیں اور انہیں دعوت میلان دیتی ہیں وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو ہی پائیں گی.حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے آئے گی.موطا کتاب الجامع باب ما يكره النساء لباسه من الشياب وہ عورت میں جو لباس کا حق بجا نہیں لاتیں ان کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیا میں کتنی ہی ایسی ملبوس عورتیں ہیں جو قیامت کے دن ننگی ہوں گی.ا موطا کتاب الجامع باب ما يكره النساء لباسه من الثياب بمر ایک مرتبہ حضرت حفصہ بنت عبدالرحمن حضرت عائشہ کے پاس آئیں.حفصہ باریک اوڑھنی پہنے ہوئے تھیں.حضرت عائشہ نے اسے لے کر چاک کر دیا اور حفصہ کو موٹی اور بھنی پہنائی.(موطا کتاب الجامع باب ما يكره للنساء بأسه من الشباب)
IAW نیم عریانی قائل اخلاق ہے.اس لئے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.۴.لباس میں ہمیشہ سادگی کو ملحوظ رکھنا چاہیئے.لباس میں بے جا آرائش اور تصنع و تکلف مردوں کو شایاں نہیں.ہادی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ لباس فاخرہ ترک ایمان کا ایک حصہ ہے.(ریاض الصالحين كتاب اللباس باب تحریم لباس الحرير على الرجال ) حضرت معاذ بن انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تواضعا ملہ یادجو و قدرت کے لباس فاخرہ چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کو ان لوگوں کے روبرو کر کے فرمائے گا.ایمان کے لباس میں سے جو لباس تو چاہتا ہے پسند کر کے پہن لے.رتمندی ابواب صفته القیامه باب نمبر (۳۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی آپ کے قول مبارک مَا أَنَا مِنَ الْمُتَّقِينَ رکر میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ) کے مطابق گزری.لیاس میں بھی آپ تکلف کو نا پسند فرماتے تھے.آپ کا عام لباس قمیص، تہمد اور چادر ہی ہوتا تھا.آپ کی وفات کے وقت آپ کا لباس فقط ایک پیوند کی ہوئی چاد را در ایک موٹا تہد تھا.سلم کتاب اللباس باب التواضع في اللباس) لباس میں بے جا نمائش کو آپ نا پسند فرماتے تھے.یہی سادگی امتحات المومنین بن کی ساری زندگی پر چھائی نظر آتی ہے.ه باکس پر فضول خرچ کرنا نہیں چاہیئے کیونکہ اسلام باس کے بارے میں اسراف سے روکتا ہے اور میانہ روی کا حکم دیتا ہے.اللہ تعالٰی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا.جیسا کہ سورۃ الاعراف میں ارشاد ربانی ہے.إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ O (سورۃ الاعراف : ۳۲)
پھر سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے.اِنَّ المُبَذِّرِينَ كَانُوا اخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ۲۸) لِرَبِّهِ كَفُوراً اسراف کرنے والے لوگ شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بہت ہی ناشکر گزار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے.كُل ما شئت والبسُ مَاشِئتَ مَا أَخْطَاتُكَ وَاثْنَتَانِ سرف او مخيْلَةٌ (بخاری کتاب اللباس پہلی حدیث) یعنی جو چاہے کھا اور جو چاہے پہن جب تک دو باتیں تجھ میں پیدا نہ ہو.ایک اسراف در کر تکبیر، ابو داؤد اور احمد نے اس کو روایت کیا ہے اور بخاری نے اسکے متعلق بتایا ہے کہ کھا اور پی اور بہن اور خیرات کر بغیر اسراف کے اور بغیر گھمنڈ کے.- لباس فقط ضرورت پھر بنانا چاہئیے.فالتو اس سے بھی احتراز کرنا چاہیئے.کیونکہ یہ بھی اسراف میں شامل ہے.آنحضرت کے اس ارشاد کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ جس نے مقدرت کے باوجود محض تواضع کے خیال سے کوئی فالتو لباس چھوڑا.اللہ قیامت کے دن اسے سب لوگوں کے سامنے بلا کر اختیار سے گا کہ ایمان کا جو لباس چاہے چین سے رياض الصالحين كتاب اللباس باب استجاب ترك الترفع في للباس تواضعاً) لباس زینت بخش ہونا چاہیے.قرآنی ارشاد ہے.مني المحدق ان يُنَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الاعراف : ۳۲) اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے قریب زینت کے سامان اختیار کر لیا کرو جہاں خدا تعالے کے گھر میں جانے سے پہلے دلوں کی پاکیزگی کا حکم دیا گیا ہے وہاں پاس کی ظاہری صفائی اختیار کرنے کبھی نام ہرایاگیا.کیونکہ اس کا باطن پرگرا
۱۸۵ اثر پڑتا ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ اس امر کو پسند فرماتا ہے کہ بندہ پر اس کی نعمت کا اثر دکھائی دے (یعنی لباس حسب حیثیت پہنے) ر ترندی ابواب البر والصلة باب ما جاء في الاحسان والعضو) A وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّتُ.(سورة الضحى آیت نمبر ۱۳۲) اور تو اپنے رب کی نعمت کا ضرور اظہار کرتا رہ اہی فرمان کے مطابق نعمت کے اثرات کی قدر کرنی چاہیئے.اور اس نعمت کا اظہار کرنا اپنے رب کے انعامات کا شکر یہ ادا کہتا ہے.ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھٹیا لباس میں آئے.آپ نے پوچھا.کیا تمہارے پاس مال ہے ؟ اس نے جواب دیا.ہاں.اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ اور بکریاں دیتے ہیں.فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تجھے مال دیا ہے تو اس مال کے اور اللہ تعالٰی کی نعمت کے اثرات سمجھ پر نظر آنے چاہئیں.ا ترندی ابواب البر والصلة باب ماجاء في الاحسان والعفو) حضرت عمرہ کا بھی ایک قول ہے کہ جب خدا نے تمہیں کشائش دی ہے تو اپنے پر کشائش ظاہر کر د ر موطا کتاب الجامع باب ما جاء في لبس الثياب).سفر میں بھی لباس کی درستگی کا خیال رکھنا چاہیے.ایک سفر میں حضور صلی اللہ علیہ دستم کی نظر ایک خادم پر پڑی جس کے بدن پر پھٹا ہوا لباس تھا.آپ نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس اور لباس نہیں.جواب ملا ہے.آپ نے خادم کو حکم دیا کہ اچھے کپڑے پسند (موطا کتاب الجامع باب ما جاء في لبس الثياب) آپ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے پاس جاتے ہو تو اپنا سامان سفر اور پوشاک درست کرد.تاکہ تم معروز نظر آئی کیونکہ للہ تعالی کو خش اور نخش ربے حیائی ناپسند
JAY ہے.ریاض الصالحین کتاب اللباس باب صفقه حلول الخميص) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا.تم اپنے بھائیوں کے پاس آنے والے ہو.اپنے اونٹوں کے بجائے درست کر لو اور اپنے لباس سنتوا لو کہ تم لوگوں میں ایسے دکھائی دو.جیسے بدن میں خال دکھائی دیتا ہے.ر ابو داؤد کتاب اللباس باب ما جاء في اسبال الازار) کپڑے یعنی آزا را در دامن کو گھسیٹ کر نہیں چلنا چاہیے، کیونکہ کپڑے گھسیٹ کر چلنا تکبر اور غرور کی علامت ہے.تکبر اور بڑائی صرف خدا تعالیٰ کو زیب دیتی ہے.حدیث قدسی ہے ایک نو یاد ردائی کہ کبر میری چادر ہے.ر ابن ماجه کتاب الزهد باب برأة من الكبر والتواضع) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص تکبر و غرور سے کپڑا گھیٹ کر چلے.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس کی طرف نظر تک نہ کرے گا.ابوبکر نے کہا یارسول اللہ ! میرا تہبند ڈھیلا ہو کر ٹک جاتا ہے، مگر یہ کہ اس کا خیال رکھوں حضور نے فرمایا.آپ ان میں سے نہیں جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں.ابخاری کتاب المناقب باب مناقب ابو بکر رض) عرب میں یہ رواج تھا کہ امراد اپنی شان نمایاں کرنے کے لئے تہمبند کو اتنا لمبا کھتے تھے کہ وہ زمین پرگھسٹتی چلی جاتی تھی حضور اکرم نے اس حرکت کو سخت ناپسند بلکہ حرام قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا.کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر نظر نہیں ڈالے گا جو اپنی پوشاک گھسیٹ کر چلتے ہیں.ر ترندی ابواب اللباس باب ما جاء في كراهيته جبر الازار) آپ نے بتایا کہ ایک شخص غرور سے اپنی ازار لٹکائے چلا جاتا تھا وہ زمین میں جنس گیا.قیامت تک دھنستا چلا جائے گا.ا بخاری کتاب اللباس باب من حب توبة عن الجهلاء)
IAL حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ازار ٹخنوں سے نیچے ہو.دہ آگ میں ہے.استخاری کتاب اللباس باب ما استقل والعين ففي النار) حضرت ابو ڈر سے روایت ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن سے خدا کلام نہیں کرے گا قیامت کے دن اور نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا.اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے.ابوذر نے پوچھا.ان کا بڑا ہو وہ کون ہیں یارسول الله ؟ فرمایا ایک ازار لٹکانے والا دوسرا وہ احسان کرنے والا جو احسان جتائے تیسرا جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنا سودا بیچنے والا اسلم کتاب الایمان باب اسبال الازار والمتن بالخطية وتنفيق السلحة بالحلف) تہہ بند لنکانے والے شخص کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی تہہ بند لگائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا.رسول کریم نے اس کو فرمایا.جاؤ پھر وضو کر کے آؤ.اس نے جاکر وضو کیا.آیا تو پھر فرمایا.جا پھر نوکر.ایک شخص نے پوچھا.یا رسول اللہ ! کیا سبب ہے کہ آپ نے اس کو دھو کرنے کا امر کیا ؟ آپ نے کچھ دیر چپ رہ کہ فرمایا.وہ نہ بند لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالی تہہ بند ننکانے والوں کی نماز قبول نہیں کرتا.(ابو داؤد کتاب اللباس باب ما جاء في اسبال الازار) ابوھری جابر بن سلیم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت کی تھی.اپنی آزار نصف ساق تک اونچی رکھا کر اگر یہ نہ ہو تو دشمنوں تک کرے اور سکے نہیں.کیونکہ یہ تکبر کی نشانی ہے اور اللہ تعالیٰ غرور سے خوش نہیں.(ابو داؤد کتاب اللباس باب ما جاء في اسبال الازار) ابه کرام حو صل للہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار اور ہر حکم پر لبیک کہنے والے وجود
IAA تھے.فریم الاسدی صحابی رسول کو جب یہ خبر پہنچی کہ حضور نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ خزیم الاسدی بہت خوب آدمی ہے اگر اس کے بال لمبے نہ ہوں اور اس کا نہ بنڈلٹ کا یوانہ ہو ، تو انہوں نے اسی وقت چھری لے کر سر کے بال کاٹ کر کانوں کے براہ کر دیئے اور نہ بند کو پنڈلیوں کے نصف تک اٹھایا.رابو داؤد کتاب اللباس باب ما جاء في اسبال الازار مردوں اور عورتوں کے لباس میں فرق ہونا چاہیئے.کیونکہ مردوں اور عورتوں کو ایک دورکر کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے.اہم مضمن میں باکس کا حکم بھی آجاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو مرد عورتوں کا اور جو عور نہیں مردوں کا نشہ کریں.ان پر لعنت ہے.رابو داؤد کتاب اللباس باب في لباس النساء) الہ زیور کی اجازت بھی عورتوں کو ہے.لیکن مردوں کے لئے سونے کے زیور ممنوع ہیں.آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھیں، آپ نے اتار کر پھینک دی اور رائے انگارہ سے تشبیہ دی مسلم کتاب اللباس باب تحریم خاتم الذهب على الرجال) ہاں چاندی کی انگوٹھی مرد کو پہنتا جائنہ ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول خدا نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول اللہ کھد دایا.اور فرمایا.ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں محمد رسول اللہ کھدوایا ہے.کوئی ایسا اپنی انگھوٹی پر یہ نقش کندہ نہ کرے.تجرید بخاری ص ۴۵ حصہ دوم) ۱۲.مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننے کی ممانعت آئی ہے.ایک دفعہ مدینہ میں ایک ریشمی حملہ کہنے آیا.حضرت عمر نے آنحضور سے عرض کیا کہ آپ اسے خرید لیں
اور جمعہ کے دن اور دنوں کی آمد پر پہنیں.آپ نے فرمایا.اس کو وہ شخص پہنے گا جو آخرت میں بے نصیب ہو.کچھ عرصہ کے بعد آپ کے پاس کہیں سے ایٹمی ملتے آئے.ان میں سے ایک حملہ آپ نے حضرت علڑ کو دیا.انہوں نے عرض کیا.ریشمی کتے کے بارے میں آپ جو کچھ فرما چکے ہیں اس کے پیش نظر مجھے کیوں عطا فرماتے ہیں.جواب دیا کہ میں نے تمہیں پہننے کے لئے نہیں دیا اسے بیچ کر حاجت میں لاؤ.ا مسلم کتاب اللباس باب تحریم الذهب والحرير على الرجال وا باحته است آن) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے نہیں ٹیم اور دیباج پہننے سے منع فرمایا تھا.اور فرمایا کہ یہ اس دنیا میں دوسروں کے لئے ہمیں لیکن آخرت میں تمہارے لئے ہوں گے اسلم کتاب اللباس باب تحریم استعمال الذهب والحرير للرجال ) حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ریشم کا کپڑا نہ پہنو.جو مرد دنیا میں ریشم پہنے گا.آخرت میں نہیں پہنے گا.(بخاری مسلم) حضرت علییؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کو دائیں ہاتھ میں لیا اور سونے کو بائیں ہاتھ میں اور فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری اُمت کے مردوں پر حرام ہیں.ابو دا د د کتاب اللباس باب في الحرية للنساء) اور ترندی میں بروایت ابو موسیٰ الاشعری ہے کہ عورتوں کے لئے حلال ہیں.حضور سوتی کپڑے کو اور خصوصاً دھاری دھار کپڑے کو زیادہ پسند فرماتے تھے.دسیرت خیر الرسل صت از حضرت خلیفہ اسیح الثانی شائع کردہ الشرکة اسلامیہ لمیٹیڈ ہاں کسی بیماری کی جیسے مرد کو ریشم پہننے کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت زبیر اور عبد الرحمن بن عوف کو خارش کی وجہ سے ریشیم
19.پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی.اور یہ لباس اس مرض کے لئے مفید ہے.اسلم کتاب اللباس والزینته باب لبس الحرير الرجل اذا كان بمحكمة ) ۳.درندوں کے چھپڑوں سے بنی ہوئی پوسٹ کی استعمال نہیں کرنی چاہیئے.حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوالملح سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے در نوں کے چھیڑوں سے نہیں فرمائی ہے ١٤..را بو داؤد کتاب اللباس باب في جلود النمور سفید کپڑوں کو اپنا لباس بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے.کیونکہ سفید رنگ حضور کو بہت پسند تھا.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.البوا مِنْ نِيَا بِكُمُ البياض فَانها من خيرِ ثِيَا بِكُمُ وَكَفَنُوا فيها موتكم ر ابو داؤد کتاب اللباس باب في البياض) سفید کپڑے پہنا کر دو.کیونکہ یہ بہترین لباس ہے.اسی طرح سفید کپڑوں میں ہی کفن دیا کرو.ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا.سفید کپڑوں سے اپنا لیاس بناؤ.یہ بہت پاکیزہ اور ستھرا ہے.(شمائل ترمندی باب ما جاء فى اللباس رسول الله ) حدیث میں آتا ہے حضرت رسول کریم تین کپڑے سفید سمولی روٹی کے بنے ہوؤں میں گفتن دیئے گئے.ان میں کرتہ اور پگڑی نہ تھی.ر مسلم کتاب الجنائز باب تكفين الميت) -۱۵ مردوں کو زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے منع ہیں.
191 حضرت انس سے روایت ہے کہ بنی کریم نے مرد کو زعفرانی رنگ کرنے سے منع فرمایا ہے.د تجرید بخاری حصہ دوم ص ۴۷) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ رستم نے مجھ پر دو کپڑے کسم کے رنگے ہوئے دیکھ کر فرمایا.تیری ماں نے تجھے ایسا پہننے کا حکم دیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ حضور ان کو صاف کر ڈالوں ؟ فرمایا بلکہ ان کوجیلا ر مسلم کتاب اللباس والزینته باب النهي عن لبس الرجل الثوب العصفر ) در ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ دونوں کفار کے کپڑے ہیں تو ان کو نہ پہنا کر.مسلم کتاب اللباس والزینته باب النهي عن ليس الرجل الثوب العصفر) -۱- ایک پاؤں میں جوتا پہننا منع ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا.کوئی تم میں سے ایک جوتی پہن کر نہ چھلے چاہئے کہ -14 دونوں پہنے یا دونوں آنار - تجرید بخاری حصہ دوم ص ۴۴) ۱۷.لباس پہنتے ہوئے دائیں اور بائیں کی ترتیب کا خیال رکھنا چاہیئے.پہنتے وقت دائیں سے ابتداء کی جائے.اور انار تے وقت بائیں سے.اُسی طرح جوتیاں پہنتے وقت بھی پہلے دائیں جوتی پہنی جائے اور اُتارتے وقت پہلے بائیں پاؤں کی جوتی اناری جائے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب کا ہمیشہ لحاظ رکھا کرتے تھے.آپ لباس پہنتے تو میشہ پہلے دایاں ہاتھ یا دایاں پاؤں ڈالتے پھر بایاں.مشکوۃ کتاب اللباس الفصل الثاني) جوتی پہنتے تو پہلے دایاں پاؤں پہنتے.اتارتے تو پہلے بایاں پاؤں اتارتے تاکہ شروع
١٩٢ ا در آخر دونوں حالتوں میں برکت ہی برکت نازل ہو.ز مشکوۃ باب التعال الفصل الاول) حضرت ابو ہریرہ سے نقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص جو تیاں پہنے اُسے چاہیئے کہ اول داہنی پہنے اور جب آتا ہے تو پہلے بائیں آتا ہے تا کہ داہنا پاؤں پہننے میں اول ہو اور نکالنے میں آخر ہو.ا تجرید بخاری حصہ دوم ص ۴۴ ۴۵۰) - اپنے کپڑوں کو پیشاب اور گندگی کے چھینٹوں سے بچانا چاہئیے.اور پیشاب کے بعد ضرور طہارت کرنی چاہیئے.عرب میں پیشاب کے بعد طہارت کرتے اور اپنے کپڑوں کو پیشاب سے بچانے کا مطلق دستور نہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ راستہ میں جا رہے تھے.دو قبریں نظر آئیں.فرمایا کہ ان میں سے ایک یہ اس لئے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو پیشاب سے محفوظ نہیں رکھتا تھا.استجاری کتاب الجنائز باب عذاب القبر من الغيبه والبول ر ئاو آپ فرماتے تھے الطَّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ امسلم كتاب الطهارة باب فضل الوضوء ) کہ پاکیزگی ایمان کا ایک حصہ ہے.۱۹- نیا کپڑا پہنتے وقت دُعا کرنی چاہیئے.-19 حضرت ابوسعید خدیدی بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے مثلاً عمامہ (پگڑی) قمیص.چادر.پھر آپ دعا کرتے.اللهم لك الحمد أنت كَسَوْنَنِيْهِ، أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ مَا الْحَمْدُ منع له.واعوذ بِكَ مِنْ شَرِهِ وَشَرِّ مَا صُنْعَ لَهُ رتمندی کتاب اللباس باب ما يقول اذا ليس ثوباً جديداً)
١٩٣ اے میرے اللہ ! تقومی تعریف کا متفق ہے تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ہے.ہمیں مجھ سے اس کپڑے کے فائدے مانگتا ہوں اور اس کی خیبر چاہتا ہوں اور اس کی بھی جس کے لئے یہ بنایا گیا اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کپڑے کے نقصان اور مقصد کے شر سے جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے ) صدیقہ الصالحین ص ۲۲ پہلا ایڈیشن شائع کردہ شعبه اشاعت وقف جدید ۲۰ عید کے دن نہا کہ نیا اور مد لباس پہننا چاہیے.یہ سنت ہے (فقہ احمدیہ حصہ عبادات مشا) پس نہیں چاہیے کہ ہم لباس کو مقصود فی الذات نہ بنائیں اور تفاخر نہ کریں.خدا تعالی کے حکم کے مطابق ایمان اور تقویٰ کے لباس کو اختیار کریں.ہمارا اوڑھنا اور بھونا خدا کے حبیب حضرت محمد مصطفے صلی الہ علیہ وسلم کی زندگی کے مین مطابق ہو.خدا کرے کہ ہم خدا تعالیٰ کے اس بیشتر فرمان کا لباسُهُمْ فِيهَا حَديد ( سورة النج (۲۴) : کہ مومنوں کا پاس ان جنتوں میں ریٹیم کا ہوگا) کے مصداق نہیں اور روز قیامت خدائے ورور دونان ہم سے یہ کہے کہ ایمان کے لباسوں میں سے جو لباس تم چاہتے ہو وہ چن لو اور بہن لو.آمین.
195 ملاقات کے آداب اسلامی معاشرہ کی تکمیل میں باہمی میل اور ملاقات، سمدردی واخوت کو بہت بڑا دخل ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إنما الونَ إِخوة (سورة الحجرات (1) کہ تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں.اور رُحَمَاء بَيْنَهُمُ (سورة الفتح : ۳) کی صفت کے مطابق وہ آپس میں رحم کا پیکر ہوتے ہیں.پس انہیں آپس میں ایسے روابط رکھنے چاہئیں جن سے برائیوں کا سد باب ہو سکے اور نیکی کی اشاعت ہو سکے اور ایک دور کے کو نفع پہنچایا جاسکے.پس اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے رسول کا خادم اور مومنوں کا خیر خواہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام نے تمدنی زندگی گزارنے کے لئے جو اعلی درجہ کی ہدایات دی میں ان پر عمل پیرا ہو کہ آپس میں مہر و محبت کی فضا قائم کی جائے.اور روحانی اور معاشرتی برائیوں سے بچا جائے.ذیل میں قرآن مجید سنت نبوی اور احادیث نبویہ کی روشنی میں ملاقات کے آداب درج کئے جاتے ہیں جو اجنبیت کے احساسات کو ختم کرنے اور تعلقات محبت کو بڑھانے میں ممد و معادن ثابت ہو سکتے ہیں.ملاقات کی ابتداء السلام علیکم کے الفاظ سے کی جانی چاہیئے نیز سلام کرنے میں سبقت اختیار کرنی چاہیے.۲ آپس میں خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرنی چاہیئے.کیونکہ انسانی جذبات ایک دوکر پر نہایت تیزی سے اثر انداز ہوتے ہیں.اس لئے بشاش صورت دیکھ
۱۹۵ کر خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے.کشادہ چہرہ کے ساتھ پیش آنا نیکی ہے.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.لا تحجرنَ مِنَ المعروف شياً وَدَوَان تَلقَى أَخَاكَ يوجه طليق (مسلم کتاب البر والصلة والادب باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء) کہ تم معمولی نیب کی کو بھی حقیر نہ سمجھو.اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے.حضرت علی آنحضرت کے اخلاق کے متعلق فرماتے تھے کہ آپ خندہ جبیں ، نرم خو اور مہربان طبع تھے ر شمائل ترمذی باب ما جاء في خلق رسول الله) خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دورکر سے ملاقات کرنی چاہیئے اور انس و محبت سے پیش آنا چاہیئے.کیونکہ خدا تعالیٰ ایسے اشخاص کو اپنا دوست رکھتا ہے جو اس کے حلال و محبت کی خاطر آپس میں میل جول رکھتے ہیں لانو اری سے روایت ہے.دمشق کی مسجد میں معاذ بن جبل سے میں نے کہا.میں آپ سے محبت محض اللہ کے لئے رکھتا ہوں.معاذ نے کہا.کیا خاص اللہ کے لئے ؟ میں نے کہا.ہاں.پھر کہا.کیا خاص اللہ کے لئے.میں نے کہا ہاں.تب انہوں نے میری چادر کا کونہ پکڑ کر کھینچا اور فرمایا.خوش ہو جاؤ کہ میں نے رسول کریم سے منا الله تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ میری محبت واجب ہوئی ان لوگوں سے جو محض میرے لئے باہم محبت رکھتے ہیں اور محض میرے لئے مل کر بیٹھتے ہیں محض میرے لئے ایک دوک کی ملاقات کو جاتے اور محض میرے لیئے اپنا جان و مال خرچ کرتے ہیں).(موطا كتاب الجامع باب ما جاء في المتحابين في الله ) حدیث میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھائی کے پاس ملاقات کے لئے اللہ کی خوشنودی کی خاطر جاتا ہے تو ایک آواز دینے والا اُ سے آواز دنیا ہے کہ تو بھی مرغوب
194 ہے.اور تیرا چلنا پھرنا بھی مرغوب ہے.تو نے جنت میں اپنا گھر بنا دیا رتمندی ابواب البر والصلة باب ماجاء في زيارة الاخوان) حضرت رسول کریم اپنے صحابہ کرام کے گھروں میں ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت ہم سے ملتے جلتے رہتے تھے.یہاں تک کہ میرے ایک چھوٹے بھائی سے فرماتے کہ اسے ابو عمیر تغیر کو کیا ہوا.بخاری کتاب الادب باب الانسباط الى الناس) - فیض لوگ باطنی کی طرف جلد مائل ہو جاتے ہیں.اس لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں ملاقات کے لئے بغیر اجازت اور سلام کے داخل نہ ہوا جائے جیسا کہ سورۃ النور میں آتا ہے.بايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُونَكُمْ حَتَّى نَسَانو وَسَامُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْر لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ 0 (سورة النور : ۲۸) ترجمہ : اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دور سے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک اجازت نہ لے لو.اور داخل ہونے سے پہلے ان گھروں میں بسنے والوں کو سلام کرو.یہ تمہارے لئے اچھا ہوگا تاکہ تم نصیحت حاصل کرد.حضور صلی اللہ علیہ وسلم حب خود کسی سے ملنے جاتے تو اسی طرح اجازت انگتے اور کوئی شخص اس طریقہ کے خلاف کرتا تو اسے واپس کر دیتے.ایک دفعہ صفوان بن امیہ نے جو قریش کے رئیس تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کلدہ کے ہاتھ ، دودھ، ہرن کا بچہ اور لکڑیاں بھیجیں.کلدہ یوں ہی بے اجازت چلے آئے.آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور سلام کر کے اندر آؤ.(ابو داؤ د کتاب الادب في الاستيذان)
196 سھل بن سنڈ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذن مانگنا اس لئے ہے تا نا محرم پر نظر نہ پڑے سلم کتاب الاداب باب تحریم النظر فی بیت غیر م ) ۵- اگر گھر والے کہیں باہر گئے ہوں.تو باہر ہی ان کی واپسی کا انتظار کرنا چاہیئے.کیونکہ ان کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہونا معیوب ہے اور اسلام نے اس سے روکا ہے.قرآنی ارشاد ہے.فَإِن لم تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُونَنَ لَكُمُ (سورة النور : (۲۹) اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تب بھی ان میں داخل نہ ہو جب تک کہ تم ہمیں گھر والوں کی طرف سے اجازت نہ مل گئی ہو..جب کسی کے گھر ملاقات کے لئے جائیں تو عین دروازہ کے سامنے نہ کھڑے چوں بلکہ دروازہ کے ایک طرف کھڑے ہو کر اسلام علیکم کہ کر اذن طلب کریں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ آپ جب کسی کے گھر جاتے تعمیر دروازہ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے اور اسلام علیکم کہ کر اذن طلب فرماتے.ابوداود کتاب الادب باب كم مرة يسلم الرجل في الاستيدان) اگر کسی کے گھر طاقات کے لئے جائیں تو مر وازہ کو زور زور سے نہ کھٹکٹا ہو اورنہ گھنٹی بجاتے چلے جائیں بلکہ وقفہ وقفہ سے تین بار اسلام علیکم کہ کر اجازت طلب کریں.حضرت ابو ولی الاشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ دوست نے فرمایا.اذن مانگنا تین بار ہے.اگر اذن دیا گیا تو فیھا ورنہ واپس لوٹ جاؤ.( مسلم و نجاری
حدیث میں آتا ہے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ کے گھر تشریف لائے اور باہر کھڑے ہو کر اذن طلبی کے لئے السلام علیکم ورحمہ اللہ کہا.سعد نے اس طرح آہستہ سلام کا جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا حضرت سعد کے فرزند قیس بن سعد نے کہا.آپ رسول اللہ کو اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے.حضرت سعد نے کہا.چپ رہو.رسول اللہ بار بار سلام کریں گے جو ہمارے لئے برکت کا سبب ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اسلام علیکم کہا ادر سعد نے پھر اسی طرح جواب دیا.آنحضرت نے تیسری دفعہ پھر اسی طریقہ سے اذن طلب کیا.اور جب کوئی جواب نہ ملا تو آپ واپس چلے.حضرت سعد نے جب آپ کو واپس جاتے دیکھا تو دوڑ کر گئے اور عرض کی کہ میں آپ کا سلام سن رہا تھا لیکن آہستہ جواب دینا منھا کہ آپ بار بار سلام فرمائیں.را ابو داؤد کتاب الادب باب كم مرة يسلم الرجل في الاستيذان) - اگر گھر والے ملاقات نہ کرنا چاہیں تو بغیر بُرا منائے واپس لوٹ آنا چاہیئے.جیسا کہ سورۃ النور میں آتا ہے.مان قيل لكم الى جعُوا فَارَجِعُوا هُوَ ان كى لكم والله بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ.(سورۃ النور آیت نمبر ۲۹) اور اگر تمہیں کہا جائے کہ اس وقت چلے جاؤ تو تم چلے آؤ.یہ تمہارے لئے " زیادہ پاکیزہ ہوگا.اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے.صحابہ کرام کے اندر احکام شریعیت پر عمل کرنے اور نیکیاں حاصل کرنے کا اس قدر جوش پایا جاتا تھا کہ حضرت عمر بن الخطاب فرماتے ہیں کہ مجھے سالہا سال خواہش رہی کہ میں کسی کے ہاں جاؤں اور وہ مجھے کہے کہ واپس چلے جاؤ تا کہ ھو از کی لکھ کے ماتحت میں ثواب حاصل کر سکوں مگر مجھے کبھی ایسا موقع نہیں ملا.رفتح البلدان جلد ت.
149 - اُمراء یا سرداران قوم سے ملاقات کی اجازت طلب کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ تعارفی کارڈ یا رقعہ لکھ کر خادم کے ذریعہ اندر اطلاع بھجوائی جائے اور پھر ملاقات کے وقت اسلام علیکم کہا جائے.حضور اکرم ہمیشہ ملاقات کی استدار السلام علیکم کے الفاظ سے کرتے تھے.ملاقات کے لئے اگر کسی کے گھر جائیں تو دروازوں کی درزوں میں سے جھا سکتا نہیں چاہیئے.یہ بہت بُری حرکت ہے اور حضور اکرم اسے سخت نا پسند فرماتے تھے.حضرت سہل بن سعد سے بیان ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ ہوتم کے مجروں میں سے کسی ایک مجرے میں جھانک کر دیکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں سر کھلانے کا آلہ تھا جس سے آپ اپنا سر کھلا رہے تھے.آپ نے فرمایا.کہ اگر میں جانتا کہ تو جھانک کر دیکھے گا تو میں اس سے تیری آنکھ میں مارنا.اجازت غیر محرم کے دیکھ لئے جانے ہی کی وجہ سے مقرر کی گئی ہے.دبخاری کتاب الاستیذان باب الاستيدان من اجل البصر) حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں میں سے کسی ایک جھرے میں دیکھا.آپ تیر کا ایک پھلا ہے کر یا کئی پہلے لے کر اس کی طرف لگے اور حضرت انسان کا بیان ہے کہ گویا آپ اس شخص کو ڈھونڈ ر ہے ہیں تاکہ اس کو وہ پچھلے ماریں.بخاری کتاب الاستیذان باب الاستیذان من اجل البصر) 11.گھروالے اگر پوچھیں کہ کون ملنے کے لئے آیا ہے ؟ تو جواب میں اپنا نام بنانا چاہیے میں کے لفظ میں جواب نہیں دینا چاہئیے.حضرت جابر سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس قرض کے سلسلہ میں حاضر ہوا جو میرے والد پر تھا.میں نے دروازہ کو کھٹکھٹا یا.آپ
۲۰۰ نے فرمایا.کون ہے ؟ میں نے کہا ئیں ہوں.آپ نے فرمایا یہیں ہیں.گویا کہ آپ نے اُسے ناپسند فرمایا.(بخاری کتاب الاستیذان باب اذا قال من ذا فقال أنا ) ۱۲.ملاقات کے لئے کسی کے گھر اگر جایا جائے تو ممتاز مقام پر بیٹھنے سے پر ہیز کرنی چاہیئے.نیز اہل خانہ نے اگر اپنے لئے کوئی نشست مخصوص کی ہو تو اس پر بیٹھنے سے اجتناب کیا جائے.سوائے اس کے اہل خانہ خود وہ جگہ پیش کرے.حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و ستم جب کسی کے گھر تشریف ہے.جاتے تو ممتاز مقام پر بیٹھنے سے پر بہیتر فرماتے.ایک بار آپ حضرت عبد اللہ بن عمر کے مکان پر تشریف لے گئے.انہوں نے آپ کے بیٹھنے کے لئے چمڑے کا ایک گدا ڈال دیا.لیکن آپ زمین پر بیٹھ گئے اور گدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبید اللہ بن عمرہ کے درمیان آگیا.بخاری کتاب الاستیذان باب من القى له وسادة) ۱۳ طلاقات کے لئے ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے.رم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق کی معراج پر تھے.آپ کے حسن اخلاق کی گواہی قرآن مجید میں ان الفاظ سے دی گئی ہے إنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمُ (سورة القلم : ٥) : ۵) کہ آپ اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر فائز ہیں آپ خود فرماتے تھے.بعثت لاتمم مكارم الاخلاق (موطا كتاب الجامع باب ماجاء فی حسن الخلق ) کہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں.
۲۰۱ خوش خلقی سے پیش آنا بہت بڑی نیکی ہے اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہے حضور فرماتے تھے ہیں جنت کی بلندی میں اس شخص کے لئے ایک گھر کا زیر تھے کی لئے لیتا ہوں جو اپنے خلق کو خوش نما بنائے ر ابو داؤد کتاب الادب باب فی حسن الخلق) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ مومن خوش خلقی سے روزہ دار قیام کرنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے.ابوداود کتاب الادب باب فی حسن الخلق) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملتے وقت ہمیشہ پہلے خود سلام کیا کرتے.آپ نہایت خوش اخلاق تھے.اگر کوئی شخص مجھک کر آپ کے کان میں کچھ بات کہتا تو اس وقت تک اس کی طرف سے رُخ نہ پھیر تے جب تک وہ خود منہ نہ ہٹائے.این ماحبه ابواب الادب باب اکرام الرحيل جلیسه) حضرت جریر بن عبد اللہ وہ خوش نصیب صحابی تھے جن کو دیکھ کر آپ محبت سے مسکرا دیا کرتے تھے.ان کا بیان ہے کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا ہوں.اور آپ نے مسکرانہ دیا ہو.(صحیح مسلم ر مناقب جریر بن عبد اللها ۱۴.ملاقات کے وقت مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی سنت نبوی ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وستم کا معمول تھا کہ جب کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک وہ خود نہ چھوڑ دے اس کا ہاتھ نہ چھوڑتے تھے.ر ابن ماجه ابواب الادب باب اکرام الرجل جليسه) ابن مسعود نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم نے تشہد سکھایا اور میرا ہا تھ آپ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا، ابخاری کتاب الاستیذان باب المصافحه)
٢٠٢ ا در کعب بن مالک نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.طلو بن عبید اللہ شیری طرف جلدی سے اُٹھ کر آئے.یہاں تک کہ مجھے سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی.ربخاری کتاب الاستیذان باب المصافحه) عمرو بن عاصم قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے انس منہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا.انہوں نے کہا.ہاں.ا بخاری کتاب الاستیذان باب المصافحه) حضرت عبد اللہ بن ہشام سے مردی ہے.انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک مرتبہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ اُس وقت حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے دینجاری کتاب الاستیذان باب المصافحه) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب اہل میں آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا.تمہارے پاس اہل ہمیں آئے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مصافحہ کو رواج دیا تھا.(ابو داؤد کتاب الادب باب فی المصافحہ) ایک دفعہ حضور اکرم نے حضرت ابو ذر صحابی کو بلا بھیجا.تو وہ گھر میں نہ ملے.تھوڑی دیر کے بعد وہ حاضر خدمت ہوئے.تو آپ لیٹے ہوئے تھے.ان کو دیکھ کہ آپ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے سینہ سے لگا لیا.رابو داؤد - کتاب الادب باب المعالقه) حضرت جعفر حب حبشہ سے واپس آئے تو آپ نے ان کو گلے لگا لیا اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا.ابو داؤد کتاب الادب باب في قبلة ما بين العينين)
۲۰۳ ۱۵.ملاقات کے بعد مجلس سے یا گھر سے اہل خانہ کی اجازت کے ساتھ واپس جانے کے لئے اٹھنا چاہیئے اور جب اہل خانہ اُٹھ جائے تو پھر اُٹھ کر واپس چلے جانا چاہئے.-14.دوپہر کے وقت کسی کے گھر ملاقات کے لئے نہیں جانا چاہیئے.آنحضرت سلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جانے سے اجتناب فرماتے تھے حضرت عائشہ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے والدین کو دیندار ہونے کے سوا کچھ نہیں پایا اور کوئی روز ایسا نہیں گزرتا تھا جس کے دونوں کناروں یعنی صبح وشام کے وقت نبی کہ تم میرے والدین کے پاس تشریف نہ لاتے ہوں.میں ایک دن حضرت ابو بکر کے گھر میں ٹھیک دوپہر کے وقت بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی نے کہا کہ رسول کریم ایسے وقت میرے پاس تشریف لارہے ہیں کہ اس وقت کبھی نہیں آئے حضرت ابو بکرہ نے فرمایا کہ ایسے وقت میں آپ کسی ضروری اور اہم کام کے سبب سے تشریف لہ ہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم مل گیا ہے.از بخاری کتاب الادب باب هل يزور صاحبه كل يوم او بكرة وعشيا ) راشد ضرورت پڑنے پر دوپہر کے وقت جایا جاسکتا ہے) ۱۷.بزرگوں کی ملاقات کے لئے جائیں تو ادب کے ساتھ ان کو سلام کریں اور ان کی گفتگو کا بھی ادب کے ساتھ جواب دیں.ملاقات کے وقت ان کے گھٹنوں اور پاؤں کو ہاتھ لگا کر چھونا نہیں چاہیئے کیونکہ یہ نفس کی ذلت کی حالت ہے.ہاں برکت کی خاطر ان کے ہاتھوں کو بوسہ دینا جائز ہے.اور ان کو نذرانہ پیش کرنا بھی جائز ہے.کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور دعا کرنے کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.۱۸.ناراضگی کی وجہ سے تین رات سے زیادہ ترک کلام و ملاقات نہیں کرنی چاہیئے.حضور کا ارشاد ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن رات سے زیادہ ترک ملاقات کرے.(بخاری کتاب الادب باب الهجرة)
لیکن نافرمانی کرنے والے شخص سے ملاقات ترک کرنا جائز ہے.استبخاری کتاب الادب باب ما یجوز من الهجران لمن عصى جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت کعب بن مالک نے جنگ تبوک میں اپنی سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تو حضور اکرم نے مسلمانوں کو ان سے میل ملاقات اور گفتگو کرنے سے منع فرمایا تھا.اسبخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک) ابو خراش سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرم سے سُنا جو اپنے بھائی سے ایک سال جدائی کرے گا گویا کہ اس نے خون کر دیا.ر احمد بن جنبل جلد ۴ ص ۲۲ مطبوعہ مصر) میل ملاقات انسانی معاشرہ کی ایک شاخ ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ افراد کا تعلق آپس میں قائم رہنے سے ہی اس معاشرہ کی سالمیت برقرار رہ سکتی ہے اس ہمیں چاہیئے کہ ابن مسعود کے اس قول کے مطابق کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح میں حویل رکھو کہ تمہارا دین مجروح نہ ہونے پائے.(بخاری کتاب الادب باب الانسباط الى ان اکس) اپنے روزمرہ کے میل جول میں ملاقات کے ان آداب کو ہمیشہ مد نظر رکھیں اور اسلامی تعلیم پر عمل کریں.اورخدا کی خوشنودی کی خاطر آپس میں ملاقات کریں ناخدا تعال کی دائمی محبت کے وارث مظہریں.آمین
۲۰۵ سلام کے آداب ہمارا مذہب اسلام جہاں ہمیں جسمانی اور مالی عبادات بجا لانے کا حکم دیا ہے وہاں زبانی عبادت بجا لانے کو بھی بہت بھاری نیکی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ نیک بات کہنا بھی صدقہ ہے.معراج کی رات حضرت جبرائیل" جب حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کے دربار میں لے کر گئے تو حضرت محمد مصطفے نے اپنے حبیب اور پیارے خدا کی شان و عظمت ان الفاظ میں پیش کی التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّيت کہ اسے میں کہ رب ا نام زبانی عبادتیں تمام یمنی عبادتیں اور تمام مالی باتیں تیرے ہی لئے ہیں.خدائے ذوالجلال نے آپ کے ان تعریفی کلمات کو قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے السلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الَّذِي وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کہ اے نبی ! ہر قسم کی سلامتی تجھے پر ہمیشہ نازل ہوتی ہے.اور اللہ کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں سبھی سمجھ پر نازل ہوتی رہیں.اللہ تعالی اور پیارے محمد کے درمیان اس مؤدبانہ اور پیار بھری گفتگو کوشن کر حضرت جبرئیل نے یوں شہادت دی.اَشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ واشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّد عَبدُهُ وَرَسُولُهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.
سلام کے معنی امن براستی اور رحمت و برکت کے ہیں.یہ وہ عظیم الشان دُعا اور تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے جس کا نام اسلام ہے.جو تمام دنیا کو امن دینے والا اور سلامتیوں کا سرچشمہ ہے حضرت محمد کو عطا کیا.اور پھر محسن اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس قول خیر کو پھیلانے کا حکم دیا تا کہ معاشرہ کی فضا سلامتی کی دعاؤں سے بھر جائے اور روحانی بیماریوں کیبنہ لنبض، حسد سے انسان کو نجات حاصل ہو جائے.اور مسلمان حقیقی معنوں میں ایک درہ کے نیچے خیر خواہ بن جائیں.کیونکہ مسلمان کی تعریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے.المسلم من سَلِمَ المُسلِمُونَ بِيَدِهِ وَلِسَانِه از نریزی ابواب الایجان باب ما جاء السلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ) کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دو کے مسلمان محفوظ رہیں.آئیے.اس زبانی عبادت کو بجا لانے کے لئے قرآنی ارشادات ، سنت نبوی اور احادیث نبویہ کو اسوہ بنائیں.☑1 دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے اسلام علیکم کہ کر اجازت لیتی چاہیئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى سَنَانِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى اَهْلِهَا : ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمُ (سورة النور : (۲۸) تذكرُونَ اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دو کر گھروں میں داخل نہ ہوا کرو حب تک کہ اجازت نہ لے تو.اور داخل ہونے سے پہلے ان گھروں میں لینے والوں کو سلام کرو.یہ تمہارے لئے اچھا ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم (تنبک باتوں کو ہمیشہ) یاد رکھو گے انتیناس لعینی اجازت حاصل کرنے کے ساتھ اسلام علیکم کہنا بہت ضروری
ہے.احادیث میں آتا ہے.ربعی بن خراش سے روایت ہے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہا.آپ اس وقت گھر میں تھے.میں نے کہا.اندر آجاؤں ؟ آپ نے اپنے خادم کو ارشاد فرمایا.جاؤا سے اذن مانگنا سکھاؤ اسے کہو کہ پہلے السلام علیکم کہے.پھر کہے کہ میں اندر آجاؤں.آدمی نے سن لیا اور ایسا ہی کہا.تو آپ نے اجازت فرمائی رابو داؤد کتاب الادب باب فی الاستیذان) کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بیدوں سلام کے اندر چلا گیا.آپ نے فرمایا واپس چلا جا اور کہہ اسلام علیکم.کیا میں آجاؤں.ر ابو داؤد کتاب الادب باب فی الاستیذان) گھرانوں کی طرف سے اگر ایک دفعہ اسلام علیکم کا جواب نہ ملے تو وقفہ وقفہ کے بعد تین دفعہ السلام علیکم کہنا چاہیئے حضرت رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ آپ جب کسی قوم کے پاس تشریف لاتے تو تین بار سلام کہتے.د بخاری کتاب الاستیذان باب التسليم والاستیذان ثلاثا ).اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت بھی گھر والوں کو سلام کہنا چاہیے.کیونکہ سلام کرنے والے پر اور سلام کئے جانے والوں پر خدا تعالیٰ برکتیں نازل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.فَإذَا دَخَلَم بُيُوتًا فَسَلَمُوا عَلَى أَنفُسِكُم مَحيَّةٌ مِّنْ عِنْدِ " اللهِ مُبرَكَةً طيبة (سورة النور : ۶۲) ترجمہ : پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے عزیزوں یا دستوں پر
۲۰۸ سلام کہ لیا کر و.یہ الہ کی طرف سے ایک بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہے.حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بیٹیا جب تو اپنے گھر والوں کے پاس جایا کرے تو سلام کہا کہ تجھ پر اور تیرے گھر والوں پر برکت ہوگی.ترمندی ابواب الاستیذان باب فی التسليم اذا دخل بيته) -۴- سلام کے لفظ میں کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے اس لئے اگر گھر میں کوئی شخص موجود نہ بھی ہو تو بھی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے نفس پر سلام بھیجنا چاہیئے.روایت میں آتا ہے جَاءَ رَجُلُ إِلَى النَّبِي عَلَيْهِ السَّلَامُ وَشَكَ إِلَيْهِ الْفَقْرَ فَقَالَ إِذَا دَخَلْتَ بَيْنَكَ فَسَلَّمُ إِنْ كَانَ فِيهِ أَحَدٌ وَ إِنْ لمْ يَكُن فِيْهِ اَحَدَّ فَسَلّمْ عَلى نَفْسِكَ وَاقْرَأْكُلُ هُوَ اللهُ اَحَدُ مَرَّةً وَاحِدَةٌ ر روح البیان تفسیر سورة اخلاص جلد ۱۰ ص ۵۲ مطبوعه استنبول ۱۰ یعنی ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی محتاجی کی شکایت کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ جب تم گھر میں داخل ہوا ور گھر میں کوئی موجود ہو تو اس کو اسلام علیکم کہا کرو اور اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو اپنے نفس پر سلام بھیجو اور اس کے بعد سورۃ قل ھو اللہ احد ایک دفعہ پڑھو.روایات میں آتا ہے کہ اس شخص نے آپ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا.چنانچہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف اس کی غربت دور ہو گئی بلکہ اس کے پاس روپیہ اور مال کی اتنی کثرت ہو گئی کہ وہ اپنے پڑوسیوں اور ہمسایوں کی بھی مدد کیا کرتا تھا.ر روح البيان تفسير سورة اخلاص جلد ۱ ص ۵۲ مطبوعه (استنبول)
۲۰۹ آپس میں ایک دوسر سے ملتے وقت بھی السلام علیکم کے الفاظ کہنے چاہئیں.آداب وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیں.کیونکہ شریعت نے سلام کو ایک اسلامی شعار قرار دیا ہے.سب سے پہلی دعا اور تحفہ جو بندے کو اپنے رب کی ملاقات کے وقت حاصل ہوگا وہ یہی سلام " کا تحفہ ہے.احادیث میں آتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام جب حضور صل اللہ علیہ ستم کے پاس آتے تو آپ کو سلام کہنے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو دیکھ کر سلام کہتے.سی بن جعفر، عبد الرزاق، معمر، همام ، حضرت ابو ہر نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کیا تو کہا کہ جاؤ اور ملائکہ کی اس جماعت کو جو میٹھی ہے سلام کرو اور سنو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا.چنانچہ انہوں نے کہا.اسلام علیکم -4 نے کہا.السلام علیکم درحمہ اللہ ان فرشتوں نے لفظ رحمہ اللہ زیادہ کیا (صحیح بخاری شریف مترجم اردو - کتاب الاستبندان ۴۳۵ باب بداء السلام ) سلام کا جواب ضرور دینا چاہیے بلکہ بہتر طور پر اس کا جواب دینا چاہیئے.بہتر رنگ میں سلام کا جواب دینے سے انسان کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قران مجید میں فرماتا ہے.وَإِذَا حُتِيمُ بِتَحِيَّةٍ فَحَدُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أُورُدُّرُهَا إِنَّ الله عَلى كُل شي حسينا (سورة النسام (٨) اور جب تمہیں کوئی دُعا دی جائے اسلام کہا جائے) تو تم اس سے اچھی دُعا دو.یا کم سے کم اسی کو لوٹا دو.یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے.
۲۱۰ حضرت عمران بن الحسین کیانی کا لایا اور اسلام علیکم ہا، آپ صلی الہ علیہ سلم نے فرمایا دس نیکیاں مچھر دوسرا آیا اور کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ آپ نے اسے جواب دیا.اور فرمایا میں پھر تیسرا آیا اور کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و یہ کا نتہ.آپ نے اسے جواب دیا اور فرمایا.تمہیں ابو داؤد کتاب الادب باب کیف السلام ) سلام کا جواب دنیا راستے کا حق ادا کرنا ہے.سلام ہمیشہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ " کے الفاظ میں کہنا چاہیئے.حضرت ابو جرئی روایت کرتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور آیا اور میں نے کہا.علیک السلام یا رسول الله - فرمایا علیک السلام نہ علیک السلام تو مردوں کا سلام ہے...(کتاب الادب باب کراھیۃ ان یقول علیک السلام) سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرنی چاہیئے بسلام میں ابتدا کرنے والے شخص کو زیادہ ثواب ملتا ہے.حضرت ابو امامہ سے روایت ہے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمی جو ایک دوسے سے ملیں تو ان میں سے پہلے سلام کون کہے.آپ نے فرمایا.جو اللہ کے بہت نزدیک ہو.( ترمذی ابواب الاستیذان والادب باب فی فضل من بداء بالسلام ) حضرت ابوامامہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت نند یک لوگوں سے ساتھ اللہ کے وہ ہے جو پہلے کہے ان میں سلام.ابو داؤ د کتاب الادب باب فی فضل من بداء بالسلام ) حضرت ابو ایوب سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
۲۱۱ کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن تک اس طرح ترکی ملاقات کرے کہ جب دونوں مقابل پہ آئیں تو ایک اس طرف اور دوسرا اس طرف منہ پھیرے ہوئے ہو.اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کر ہے.بخاری کتاب الاستيدان باب السلام للمعرفة وغير المعرفة) -4 سلام کو عام کرنا چاہیے کیونکہ سلام کو رواج دینے اور پھیلانے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن سات باتوں کو بجالانے کا حکم دیا ان میں سے ایک سلام کو پھیلانا ہے.استجاری کتاب الاستیندان باب افشاء السلام ) آپ نے فرمایا انشو السلام بينكم رمسلم کتاب الایمان باب لا يدخل الجنة الا المؤمنون) کہ آپس میں سلام کو پھیلاؤ.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں داخل نہ ہو گے.جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور ایمان دار نہ ہو گئے جب تک آپس میں محبت نہ کرو گے اور کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جس کے کرتے سے آپس میں محبت ہو ؟ آپس میں السلام علیکم پھیلاؤ.ر مسلم کتاب الایمان باب لا يدخل الجنة الا المؤمنون).ابویوسف عبد الله بن سلام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں.میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.فرماتے تھے کہ اسے لوگو یا سلام کو افشا کیا کرو.اور کھانا کھلا یا کمر را در رشتہ دار قرابتیوں سے ملاپ کر و.جب لوگ رات کو سوئے پڑے ہوں
تو تم نماز پڑھو.تم سلامتی سے بہشت میں داخل ہو جاؤ گے.) تم مذی ابواب صفة القيامة).خواہ واقف ہو یا نا واقف اُسے سلام کرنا چاہیئے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہنے کو اخوت اسلامی کے قیام کے لئے ضروری قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں.سَلّمْ عَلى مَنْ عَرَفتَ وَمَن لَهُ أَعْرِفُ یعنی سب کو سلام کہو خواہ کوئی واقف ہو یا نا واقف ہو.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا.کون سی خصلت اسلام کی بہتر ہے.فرمایا یہ کہ توکھانا کھلائے اور تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو نسب کو سلام کرتے.(بخاری کتاب الاستیذان باب السلام للمعرفة وغير المعرفة) صحابہ کرام کو اس نیکی کی حد درجہ نگہداشت کرتے تھے.اور اس کے اس قدر پابند تھے کہ وہ بازاروں میں صرف سلام کرنے کے لئے جاتے تھے.حدیث میں آتا ہے.ایک وقعہ ایک صحابی دورے صحابی کے پاس آئے اور کہنے لگے آؤ بازار ملیں.اس صحابی نے سمجھا کہ کوئی کام ہوگا.لیکن وہ بازار میں سے گھوم کہ یونہی چلے آئے.نہ کسی دکان پر ٹھہرے نہ کوئی چیز خریدی.دو تین دن کے بعد پھر آئے اور کہنے لگے.آؤ بازار چلیں.اس صحابی نے کہا.کیا آج کوئی خاص کام ہے.یا یونہی ساتھ لے جانا چاہتے ہو.پھر بازار جا کر کیا کرو گے.نہ کسی سودے پر پھرتے ہو نہ نہ کسی اسباب کا پوچھتے ہو.نہ سودا چکاتے ہو.نہ بازار کی مجلس میں بیٹھتے ہو.انہوں نے کہا.میں بازار اس لئے جاتا ہوں کہ کئی دوست ملتے ہیں.ہم تو سلام کے لئے جاتے ہیں.جو ہمارے سامنے آئے گا.ہم اُسے سلام کہیں گے ر موطا كتاب الجامع باب جامع السلام
۲۱۳ ملاقات کے وقت اسلام علیکم کہنے کے بعد اگر درمیان میں کوئی چیز مائل ہو جائے تو دوبارہ ملاقات کے وقت پھر السلام علیکم کہنا چاہئیے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ملے تو چاہیے کہ اس کو سلام کہے.اگر ان کے در میان درخت یا دیوار یا پھر حائل ہو جائے اور پھر ملاقات ہو تو چاہیے کہ پھر السلام علیکم کہے.رابوداود کتاب الادب باب في الجبل يفارق الرجل ثم بلقاء يسلم عليه کسی مجلس میں بیٹھنے سے پہلے اسلام علیکم کہنا چاہیئے اس طرح جب مجلس سے اُٹھ کر جانا پڑے تو بھی اسلام علیکم کہ کہ جانا چاہیئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیئے کہ سلام کے.اگر بیٹھنا ہو تو بیٹھ جائے پھر جب اُٹھے تو چاہیے کہ سلام کہے.پہلی بار سلام کہنا پھلی بار سلام کہنے سے زیادہ تاکید کی بات نہیں.ر ابو دا د د کتاب الادب باب في السلام اذا قام من الجالس) ۱۳ بڑوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سلام کریں.اور چھوٹوں پر بھی لازم ہے کہ دہ اپنے بڑوں کو سلام کریں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سلام کرتے ہیں پیشقدمی فرماتے تھے.علی بن جعد سیار، ثابت بنائی حضرت انس بن مالک نے سے روایت کرتے ہیں.انہوں نے بیان کیا کہ ان بیجوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہی معمول تھا.ا بخاری کتاب الاستيدان باب التسليم على الصبيان)
۲۱۴ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا چھوٹا بڑے کو سلام کرے.تجرید بخاری حصہ دوم ص ۴۲) -۱۲ سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل کو سلام کرے.اسی طرح پیدل چلنے والوں کو بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرنا چاہیئے.اور تھوڑے آدمی زیادہ تعداد والوں کو سلام کیا کریں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سوار پیدل چلنے والوں کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد زیادہ تعداد کو سلام کرتے.-10 استخاری کتاب الاستیذان باب يسلم الراكب على الماشی) -۱۵ مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو جب اسلام علیکم کہا جائے تو مجلس میں سے ایک کا با چند اشخاص کا اسلام کا جواب دینا سب کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے.۱ مردوں کا (واقف) عورتوں کو اور عورتوں کا واقف مردوں کو سلام کرنا جاتا ہے.حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے.ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سے گزرے.عورتوں کی ایک جماعت وہاں بیٹھی تھی.آپ نے علاوہ بلند آواز کے ہاتھ کے اشارہ سے بھی سلام کیا.ترمندی ابواب الاستيدان والادب باب ما جا وفي التسليم على الستار) عبدالله بن مسل حضرت سهل بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم کو جمعہ کا دن آنے کی بہت خوشی ہوتی تھی.میں نے پوچھا کیوں ؟ انہوں نے کہا.ایک بڑھیا تھی جو بضاعہ کے پاس نہیں بٹھاتی تھی.ابن مسلمہ نے کہا کہ یضاعہ مدینہ میں کھجوروں کا ایک باغ ہے.وہ بڑھیا چقندر کی چیریں اکھاڑ کر ایک ہانڈی میں ڈالتی اور اس میں جو کے
۲۱۵ چند دانے ڈال کر پکاتی.جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے اور اس کے پاس جاتے تو اس کو سلام کرتے وہ ہمارے سامنے وہی رکھانا، پیش کرتی اس لئے ہم بہت خوش ہوتے اور ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی قیلولہ کرتے اور کھانا کھاتے تھے.استخاری کتاب الاستیذان باب التسليم الرجال على النساء) ابو سلمہ بن عبد الرحمن ، حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں.انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے عائشہ ، یہ جبرئیل ہیں.تم کو سلام کہہ رہے ہیں.حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا وعلیہ السلام ورحمتہ اللہ.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ ہم سے کہا کہ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو السلام علی درحمہ اللہ جواب میں کہا تھا.اس لئے سلام کے جواب میں السلام علیک کہنا چاہیئے.بخاری کتاب الاستیذان باب من رو فقال علیک السلام) حضرت اُم ہانی سے روایت ہے کہ میں فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وستم کے پاس آئی.آپ غسل فرما رہے تھے اور فاطمہ آپ کو ایک کپڑے پردہ کئے ہوئے تھی.میں نے آپ کو سلام کیا مود مسلمان کو چاہیے کہ وہ یہود و نصار ملی کو سلام کرنے میں پہل نہ کریں.حضرت ابو ہریہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا و نصاری کو پہلے سلام نہ کیا کہ وہ اور جب تم ان میں سے کسی کو رستہ ہیں بل جاؤ تو اسے تنگ رستے کی طرف مضطر کرد.ر مسلم كتاب الصلاة المسافرین وقصرها باب استحباب صلاة الضحى ) -۱۸ جس مجلس میں مسلمان ، مشرک بت پرست اور یہود و نصاری سب بیٹھے ہوں تو ر مسلم کتاب السلام باب النهي عن الابتدا و اهل الكتاب بالسلام )
۲۱۶ 14 اس مجلیس کو سلام کرنا جائز ہے.حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے.آپ نے اپنے پیچھے اُسامرین زید کو بٹھایا.آپ حضرت سعد بن عباد ا کی عیادت کو چاہنے تھے.یہ جنگ بدر سے پہلے کا قصہ ہے.اس اثناء میں آپ ایک مجلس کے پاس سے گڑے جس میں مسلمان ، مشرکین اور یہود بیٹھے تھے.ان میں عبد اللہ ابی بن سلول بیسی تھا اور عبداللہ بن رواحہ بھی اس مجلس میں تھے نبی کریم نے ان لوگوں کو سلام کیا.پھڑک کر سواری سے اتر پڑے اور ان کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن پڑھ کر سنایا.بخاری کتاب الاستیذان باب السليم في المجلس فيه اختلاط من اسلمين والمشركين ) گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو اس وقت تک سلام نہیں کرنا چاہیئے اور نہ ہی اس کے سلام کا جواب دینا چاہیئے جب تک کہ اس کے تو یہ کے آثار نہ ظاہر ہوں.حضرت کعب ابن مالک کا بیان ہے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا.اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کو سلام کرتا پھر میں اپنے جی میں کہتا یعنی دیکھنا کہ آپ سلام کے جواب کے لئے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں یا نہیں.یہاں تک کہ پچاس انہیں گزرگئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالے نے ہماری تو یہ قبول کی.استخاری کتاب الاستیذان باب من لم يسلم على اقترف دنیا ) ۲۰.اہل کتاب کے سلام کے جواب میں صرف " علیکم کہنا چاہیئے.حضرت عائشہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہود کی ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا اقسام علیک العینی تم
۲۱۷ پر ہلاکت ہو ) میں نے اس کو سمجھ لیا تو میں نے کہا علیکم السامر و اللعنة ، تمہیں پر ہلاکت اور لعنت ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عالیہ چھوڑو بھی اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی پسند فرماتا ہے.میں نے عرض کیا.یا رسول اللہ کیا آپ نے سنا نہیں جو ان لوگوں نے کہا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے بھی تو علیکم کہہ دیا تھا.د بخاری کتاب الاستیذان باب کیف الرد على اہل الذمة السلام ) حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کو اہل کتاب سلام کریں.تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو.اسلم كتاب السلام باب النهي عن الابتداء اہل الکتاب بالسلام وكيف به وعلیهم ) پس سلامتی اور امن کی یہ تو بد جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے سلام کی طرف سے لا کر تمام دنیا کو دی ہے.ہم اسے اختیار کریں.اور اجنبیت کی فضا کو دور کرتے.اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرنے اور آپس میں محبت و مودت بڑھانے کے لئے سلامتی کی راہوں پر چلتے ہوئے ہم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ کو ڈارج دیں.اور پھر اپنے آقائے نامدار حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر یہ دعا بکثرت پڑھتے رہیں.اهم انت السّلامُ وَمِنكَ السّلَامُ تَبارَكتَ يَاذَ الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ رتمندی ابواب الصلوۃ باب ما يقول اذا سلم) کہ اے اللہ ! تو سلامتی دینے والا ہے.تجھ ہی سے سلامتی مانگی جاتی ہے اے عزت اور جلال دانے خدا تو بڑا ہی بابرکت ہے.تا اپنے اعمال صالحہ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم اس الہی انعام کے حقدار ٹھہر ہیں اور اس خوشخبری سے سخط اٹھائیں.
۲۱۸ لَهُمُ دار السلم عِنْدَ بهِمُ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ވ ވ (سورة الانعام : ۱۲۸) کر ان کے لئے ان کے رب کے ہاں سلامتی کا گھر ہے اور وہ خدا ان کا دوست ہے اس وجہ سے کہ وہ (نیک) اعمال بجالاتے رہے.
٢١٩ آداب الطعام.کھانے کے آداب غذا انسان کی زندگی اور صحت کے لئے نہایت ضروری ہے.غذا انسان کے اخلاق و اطوار پر نہایت گہرا اثر ڈالتی ہے جس قسم کے اثرات غذا میں پائے جاتے ہیں.دیسے ہی اثرات اور تغیرات انسان کے اندر پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.انسان کے اعمال اس کے ذہن کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالت کا غذا سے ایک پختہ اور گہرا تعلق ہے.اسلئے انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی طاقتوں کے ظہور اور نشو و نما کے لئے پاکیزہ غذا کے استعمال کا حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ جو رازق اور هُوَ خَير الرازقين (سورة المومنون : ٢٣) ہے جو اپنے بندوں پر لے لینا مہربان ہے.اس نے اپنے بندوں کی حیحانی صحت کی سلامتی کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی زندگی کا سامان پیدا کرنے اوران کے اخلاق و عادات کی درستگی کے لئے یہ حکم دیا.كُلُوا مِن حَلَيتِ مَارَى قُتُكُم (البقرة : (۵۸) (البقرة: (۱۷۳) (الاعراف : (۱۶۱) رطه : ۸۲) کہ ہم نے ہو تمہیں رزق حلال دیا ہے اس میں سے کھاؤ، مذہب اسلام کو به امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس میں کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا کہ اس نے صرف حلال چیزوں کے کھانے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ طیب اشیاء کے استعمال کرنے کی واضح ہدایت دی ہے.پھر حرمت وحلت کے مسائل کے
۲۲۰ علاوہ طبیب اور مکروہ چیزوں کے متعلق بھی احکامات صادر کئے.اللہ تعالٰی مومنوں کے لئے مکروہ چیزوں کے استعمال کرنے کو ناپسند فرماتا ہے.کیونکہ حرام اشیاء ہی گرتے گرتے مکروہ تک پہنچ جاتی ہیں.شریعت اسلامیہ میں حرام اور ممنوع چیزوں کے کھانے سے منع کیا گیا ہے.قرآن مجید میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 1 میں ان چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے.انَّمَا حَرَّ مَ عَلَيْكُمُ المَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ يُروما اهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاعٍ وَلَا عَادٍ فَلَا عَليه ا ت اِنَّ اللهَ غَفُور رحيم (سورة البقره : ۱۷۴) ترجمہ واکس نے تم پر صرف مردار، خون اور سور کے گوشت کو اور ان چیزوں کو جنہیں اللہ کے سوا کسی اور سے نامزد کر دیا ہو حرام قرار دیا ہے مگر جو شخص ان چیزوں سے قراردیا کے استعمال پر مجبور ہو جائے اور وہ نہ تو قانون کا مقابلہ کر نے والا ہو.اور نہ حدود سے آگے نکلنے والا ہو.اس پر کوئی گناہ نہیں.اللہ یقیناً بہت بخشنے والا اور باز بار رحم کرنے والا ہے.ان چار حرام چیزوں کے علاوہ باقی اشیاء ممنوعہ کہلاتی ہیں گو عام استعمال میں یہ چیزیں بھی حرام میں داخل ہیں.جیسے کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کھلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کو کھانا ممنوع قرار دیا ہے ، سلم کتاب الصيد والذبا سے باب تحریم اکل کل ذی ناب من السباع) اسی طرح آپ نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا ہے.ا مسلم کتاب الصيد والذبائن باب تحريم الحل لحم الحمر لا نسيتة ) پس نہیں چاہیئے کہ ہم قرآن مجید کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ طیب اور
۲۲۱ حلال اشیاء کو اپنی غذا بنائیں.آئے قرآنی تعلیم اور حسن اعظم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور فرمودات مبارکہ سے کھانے پینے کے آداب سیکھ کر اپنی عادات سنواریں.اپنے اخلاقی کو حسن بخشیں اور خیر و برکت کے سامانوں سے اپنی روحانیت کو ترقی دیں.ا.کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ اچھی طرح دھو لینے چاہئیں کیونکہ ہاتھوں پر لگا ہوا سے پہلے دھو لینے کیونکہ پر ہوا گردو غبار کھانے کے ساتھ مل کر جب انسان کے معدہ کے اندر جاتا ہے تو وہ بیمار پڑ جاتا ہے.اسی طرح کھانے پینے کے برتنوں کو بھی صاف ستھرا رکھنا چاہیئے.نباض اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.النَّطَافَةُ مِنَ الإِيْمَانِ ، اَلطَّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ اسلم كتاب الطهارة باب فضل الوضوء) کہ صفائی ایمان میں سے ہے اور پاکیزگی اختیار کرنا ایمان کا ایک حصہ ہے.-۲- کھانا شروع کرتے وقت اللہ تعالٰی کا نام لینا چاہیئے اور یہ دعا پڑھنی چاہیئے.بسمِ اللهِ عَلى بركة الله ردعائیہ سیٹ از محمد اعظم اکبر طاه شائع کرده احمد اکیڈمی) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے کھا نا شروع کرے تو اللہ تعالیٰ کا نام ہے لہے.را به داد د کتاب الاطعمة باب التسميته على الطعام) حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک لڑکی اور اس کے بعد ایک اعرابی نے آکر بغیر خدا کا نام لینے کے کھانے میں ہاتھ ڈالنا چاہا تو آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا.ر مسلم کتاب الاشربة باب آداب الطعام والشراب واحكامها) حضرت جابر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم سے سنا.فرماتے تھے
آدمی جب اپنے گھر میں آتا ہے اور آنے کے وقت اللہ کا نام لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ نہ رات کو رہنے کی جگہ اور نہ رات کا کھانا.اور جب آدمی اپنے گھر میں آئے اور اللہ کا نام داخل ہونے کے وقت نہ لے تو شیطان کہتا ہے تمہیں رات رہنے کی جگہ مل گئی اور جب کھانے کے وقت بھی اللہ کا نام نہ لے تو کہتا ہے رات رہنے کے علاوہ کھانے کا سامان بھی ہو گیا.-+ اسلم کتاب الاشربہ باب آداب الطعام والشراب و احکامها) کھانا شروع کرتے وقت اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کہنا چاہیئے کہ وہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرے.عبد اللہ بن یوسف ابونعیم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وستم کے پاس کھانا لایا گیا اور آپ کے پاس آپ کے ربیب عمرو بن ابی ساری تھے.آپ نے فرمایا.اللہ کا نام ہے.بسم اللہ پڑھ (بخاری کتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين والا كل مايليه) اگر کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی بھول جائیں تو باد آنے پر شو اللهِ اَولِهِ وَآخِرِہ پڑھ لینا چاہیئے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ابتداء میں بسم اللہ کہنا بھول جاتے تو باد آنے پر کہے.بِسْمِ اللَّهِ اوَّلِهِ وَاخِرِه.ابو داؤد کتاب الاطعمه باب التسمیہ علی الطعام) حدیث میں آتا ہے امیہ بن نفی سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اور ایک شخص بغیر بسم اللہ کے کھانا کھا رہا تھا جب کھانے سے ایک لقمہ رہ گیا اور اس نے منہ اوپر کی طرف اٹھایا اور کہ، بسمِ اللهِ أَولِهِ وَاخِرِه
۲۲۳ رسول کریم ہنسے اور فرمایا کہ شیطان اس کے ساتھ کھانا کھانا تھا.جب اس نے اللہ کا نام لیا توشیطان نے کھانا اپنے پیٹ سے لے کر دیا.ابو داؤد کتاب الاطعمة التسمية على الطعام ) کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لینے سے کھانے میں برکت اور زیادتی پیدا ہو جاتی ہے حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم اپنے چھ اصحاب کے ساتھ کھانا کھائے ہے تھے.ایک اعرابی آیا اور بیٹھتے ہی دو لقمے کھا گیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر یہ شخص بسم اللہ پڑھ لیتا تو تم سب کے لئے کافی ہوتا.رتمندی ابواب الاطعمة باب ماجاء فی التسمية على الطعام ).کھانا ہمیشہ داہنے ہاتھ سے کھانا چاہئے کیونکہ حضور اکرم صلی الہ علیہ سلم فراتے تھے.تم میں سے کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ پیئے.کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھانا پینا ہے (ترمذی ابواب الا طعمہ باب ما جاء في النهي عن الاكل والشرب بالشمال) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانے کے لئے تھا اور بایاں ہاتھ خلا وغیرہ کے لئے (ابو داؤد کتاب الطهارة باب كرا حبته مس الذكر باليمين في الاستبرأ حضرت حفصہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو کھانے پینے اور کپڑے پہننے کے لئے استعمال فرماتے اور بائیں ہاتھ سے اس کے سوا دو کر کام کرتے.ر ابو داود كتاب الطهارة باب كراهيته من الذكر باليمين في الاستبرا ) کھانا ہمیشہ اپنے آگے سے کھانا چاہیئے، کیونکہ کھانے کے درمیانی حصے میں برکت نازل ہوتی ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.
۲۲۴ البَرَكَةُ تَنْزِلُ وسَطَ الطَّعَامِ فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ وَلَا تَاكُوا مِنْ وَسَطِه.ا تم ندی کتاب الاطعمة باب ما جاء فی کر احقيته الاكل من وسط الطعام کہ کھانے کے درمیانی حصے میں برکت نازل ہوتی ہے.اس لئے کنارے سے لینی ایک طرف سے کھا یا کروا در در میان سے کھانے سے اجتناب کرو.حضرت عمرو بن ابی سرایہ جو بچپن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہتے تھے اور کھانا کھاتے وقت سارے پیالے میں ان کا ہاتھ پھرتا تھا.حضور نے ان کی یہ عادت دیکھ کر انہیں فرمایا.يَا غُلَامُ سَم الله تعالى وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُل مِمَّا بِلِيكَ سبخاری کتاب الاطعمته باب التسميته على الطعام والا كل باليمين و الاكل ما يلي ) کہ اے لڑکے.کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھا کرو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.حضرت عمرو بن ابی سلیمی نے حضور کی اس نصیحت کو ہمیشہ یاد رکھا اور اس کے مطابق کھانا کھایا.- جب کھانا کھانے کے لئے بیٹھا جائے تو کھانے کی طرف متوجہ ہو کر بٹھنا چاہئے کھانے سے بے نیاز ہو کر بیٹھنا متکبرانہ طریقہ ہے حضور ہمیشہ کھانے کی طرف متوجہ ہو کر کھانا کھاتے تھے.حضور فرماتے تھے.خدا تعالیٰ نے مجھے بندہ کریم بنایا ہے اور جبار و سرکش دستگیر نہیں بنایا.(ابو داؤد کتاب الاطعمية باب في الاكل من اعلى الصحفة ) کھانا ٹیک لگا کہ یا تکیہ لگاکر نہیں کھانا چاہیے حضور اکرم صلی الہ علی رستم
۲۲۵ فرماتے تھے کہ مجھے یہ متکبرانہ رویہ پسند نہیں کہ بعض لوگ ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہیں گویا وہ کھانے سے سنتی ہیں.حضرت ابو جحيفة وهب بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ میں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا.د بخاری کتاب الاطعمه باب الاکل مشکلا) حضرت انس سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم کو دیکھا کہ حضور لصورت اقعاء میٹھے ہوئے کھجوریں کھا رہے تھے.مسلم کتاب الاشر به باب اكل العشاء بالرطلب) اقعاء یہ ہے کہ آدمی اپنے سرین زمین پر ٹیک کہ پنڈلی کھڑی کر کے بیٹھے) - کھانا تین انگلیوں سے کھانا چاہیئے.حضور اکرم تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے.ا مسلم کتاب الاشربة باب استجاب لعق الاصابع والقحصة والأكل اللقمة الساقطة) -1.کھانا کھانے کے بعد تینوں انگلیوں کو چاٹ کر صاف کر لینا چاہیئے.حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ تین انگلیوں سے کھانا کھاتے تھے اور فارغ ہونے کے بعد انگلیاں چاٹ کر صاف کر لیتے تھے.(مسلم کتاب الاشر به "باب استجاب لعق الاصابع والقصصه والا كل اللقمة الساقطة) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو انگلیوں کو نہ پو نچھے جب تک خود چاٹ نہ لے.(مسلم کتاب الاشربة باب استجاب لعن الاصابع والقصة والد كل اللقمة الساقطة)
!!.کھانے کا برتن صاف کرنا چاہیئے.حضرت جائز سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الہ علیہ وسلم نے انگلیوں اور برتن کے چاٹنے کا امر کیا اور فرمایا تم نہیں جانتے.تمہارے کون سے کھانے میں برکت مسلم کتاب الاشربه باب استجاب لعق الا صابع والقصة والاكل النقمة الساقطة) ۱۲.اگر کھانا کھاتے وقت کوئی لقمہ گر جائے تو صاف کر کے اُسے کھا لینا چاہیئے.حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ت میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسکو اٹھا ئے.اور کچھ انس وغیرہ اس کے ساتھ لگی ہو تو اس کو دور کر کے کھالیا کرو.اور وہ لقمہ شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور نہ اپنا ہاتھ انگلیاں چاٹنے سے پہلے رومال سے پونچھ لے.کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ کون سے کھانے میں برکت ہے.و مسلم کتاب الاشر به باب استجاب لحق الاصابع والقصة والاكل العقبة الساقطة) کھانے کے بعد کلی کرنی چاہئیے.اور دانتوں کو صاف کرنے کے لئے مسواک یا برش کرنا چاہیئے.سوید بن نعمانی سے روایت ہے کہ ہم رسول کریم کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے جب ہم مقام ہار پہنچے تو آپ نے کھانا طلب فرمایا صرف ستو پیش کئے گئے چنانچہ ہم نے بھی کھایا.آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے کلی کی ہم نے بھی نکلی کی.د بخاری کتاب الاطعمة باب المضمضة بعد الطعام ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ دوستم میٹر کھانے کے بعد مسواک فرمایا کرتے تھے.کھانا کھانے کے بعد دعا پڑھنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے.
۲۲۷ حدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم کھانے سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے.اَلحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ المُسلِمِين ( ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول اذا فرغ من الطعام) سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے نہیں کھلایا اور پلایا اور مسلمان لعینی اطاعت شعار بنایا.حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ نبی کریم کے آگے سے جب دستر خوان اٹھایا جاتا تو فرماتے.الحَمدُ لِلَّهِ حَمْداً كثيراً طيباً مُبَارَكَا فِيهِ غَيْرَ مَلُفِي وَ لا مُسْتَغْنِي عَنْهُ لابنا د بخاری کتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه) اور ایک حدیث میں غیر مکفی کے بعد وَلَا سُودَع وَلَا مُسْتَغْنِي عَنْهُ لا بنا کے الفاظ آتے ہیں.شمائل ترمذی باب ما حیاء فی صفه وضو رسول الله عند الطعام ) ترجمہ و سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں.بہت بہت تعریفیں ، پاک تعریفیں، اور برکت والی تعریفیں کہ جو ایک دو کر پریس کرنے والی نہ ہوں.جو چھوڑی نہ جائیں جن کی عادت ہمیشہ رہے.اسے ہمارے رب! اور نہ ہی تعریف کرنے پر غفلت یا نے ایزی برتی جائے اور یہ کہ آج کے انعام پر ہی لیں نہ ہو، بلکہ اسے ہمارے رب یا تو ہمیشہ ہم پر انعام کو تازہ.بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ کبھی ان الفاظ میں دُعا مانگا کرتے تھے.الحمد لله الذي كَفَانَا وَار رانا عير سكني ولا مَكْفُورٍ ابخاری کتاب الاطعمة باب ماذا يقول اذا فرغ من طعامه)
۲۲۸ یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہماری بھوک اور پیاس دور کی.ہمارا دل اس کی تعریف سے کبھی نہ بھرے اور ہم اس کی کبھی ناشکری نہ کریں.حضرت معاذ بن انس روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا.جوشخص کھانا کھانے کے بعد کہے.اَلحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَى هَذَا وَرَنَا قَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنى ولا قوة ( ابوداؤ د کتاب اللباس باب اول ترجمہ و تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے کھانا کھلایا اور جس نے یہ کھانا بغیر میرے خیلے اور قوت کے عطا کیا.تو اس کے اگلے پچھلے گناہ سمجھتے جاتے ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ شکر گزار کھانے والا صبر کرنے والے روزہ دار کی مانند ہوتا ہے.بخاری کتاب الاطعمته باب الطاعم الشاكر مثل الصائم الصايم ) -۵- کھانا تیار کرنے والے اور کھانا لانے والے خادم کو بھی کھاتے ہیں سے حلقہ دینا چاہیئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے پاس اس کا خادم کھانا لے کر آئے اور وہ اس کو اپنے ساتھ نہ بٹھائے تو اس کو ایک یا دد لقتے دے دے اس لئے کہ اس نے دریا در چی خانہ کی گرمی اور اس (کھانا) کی تیاری کی مشقت برداشت کی ہے.-14 دستیخاری کتاب الاطعمة باب الاكل مع الخادم ) ۱۷ رات کا کھانا سامنے آجائے تو عشاء کی نماز میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے.حضرت انس بن مالک بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب رات کا کھانا آ جائے اور نماز کی تکبیر کہی جائے تو پہلے کھانا کھا لو.ایوب نافع سے
۲۲۹ بواسطه این عمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عمرف ایک دفعہ رات کا کھانا کھا رہے تھے حالانکہ انہیں امام کی قرات سنائی دے رہی تھی.(بخاری کتاب الا طعمه باب اذا حضر العشاء ولا يعمل عن عشائه ۱۷ بلا ضرورت کھڑے ہو کر کھانا نہیں چاہیے.لیکن بوقت ضرورت کھڑے ہو کر کھایا جاسکتا ہے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں هم بوقت ضرورت چلتے ہوئے کھا پی لیتے تھے..JA (ترمذی ابواب الاشربہ باب ما جارتي المختص في الشرب قائماً ) پیٹ بھرنے سے پہلے کھانا چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ مومن کم خور ہوتا ہے.حضور اکرم کی خوراک بہت کم اور سادہ تھی.اس بات کی شہادت حضرت ابو ہر بریانی یوں دیتے ہیں کہ آنحضرت اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر کبھی جو کی روٹی بھی بیٹ مھر کر نہ کھائی.د تجر به بخاری حصہ دوم من الم) حضرت ابن عمرض سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک آنٹ بھر کھانا ہے اور کا فرسات آنتوں میں کھاتا ہے.تجرید بخاری جمعه دوم هش (م) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص بہت پر خور تھا.پھر وہ سلمان ہو گیا تو بہت کم کھانے لگا.جب یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت بھر کھانا ہے اور کافرسات آنتوں میں کھاتا ہے.ربخاری کتاب الاطعمة باب المؤمن يأكل في معنى واحد) نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کہ ایک مسکین ان کے پاس نہیں لایا جاتا تھا جو ان کے ہمراہ کھانا کھائے.چنانچہ
۲۳۰ وہ شخص آیا اور بہت زیادہ کھا گیا.ابن عمر نے کہا.اسے نافع ! اب تو می پاس اس کو نہ لانا ہیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مومن ایک آنت بھر ہیں کھاتا ہے اور کا فرسات انت بھر کھاتا ہے.د بخاری کتاب الاطعمه باب المومن ياكل في معنى واحد ) ۱۹.کھانے میں کبھی نقص نہیں نکالنا چاہیے کیونکہ اس سے لپکانے والے کی دل شکنی -19 ہوتی ہے.حضرت ابو سر یہ فرماتے ہیں.مَاعَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلِيهِ وَسَلَّمَ طَعَا مَاتَ اِنِ اشْتَهَاهُ اكَلَهُ وَإِن كَرِعَهُ تَرَكَة دستجاری کتاب الاطعمته باب ما عاب البنى طعاماً قط ) کہ آپ نے کیا کھانے کو انہیں یا اگر امام ہوتا توکھالیتے اور اگرچھا نہ معلوم ہوتا تو نہ کھاتے.حضرت خالدبن ولیڈ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم کے ساتھ میمونہ کے ہے وہ پاس جو ان کی اور ابن عباس کی خالہ تھیں گئے.ان کے پاس بھتا ہوا سوسمار (گوہ) دیکھا.میمونہ نے آنحضرت کے سامنے سوسمار پیش کیا اور بہت کم ایسا ہوتا کہ آپ اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف بڑھاتے جب تک کہ آپ سے بیان نہ کر دیا جاتا یا تبلا نہ دیا جاتا کہ کیا ہے.چنانچہ آپ نے اپنا ہا تھ سوسمار کی طرف بڑھایا.جو عوز میں آپ کے سامنے حاضر تھیں ان میں سے ایک نے آپ کو بتا دیا کہ حضور یہ سوسمار ہے.آپ نے اپنا ہا تھ کھینچ لیا.خالد بن ولید نے عرض کیا.یارسول اللہ.کیا سوسمار حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں.لیکن میر ملک میں نہیں پایا جاتا.اس لئے میری طبیعت اس کو نا پسند کرتی ہے.خالد بن ولیہ کا بیان ہے کہ میں نے اس کو آنحضرت کے سامنے سے کھینچ لیا اور میں نے اس کو کھایا حالانکہ رسول اللہ میری طرف دیکھ رہے تھے.استخاری کتاب الاطعمة باب ما كان البنى لا یا کل حتی بیمی را قبعلم ماهو
۲۳۱ ۲۰ - اکٹھے بیٹھ کر کھانا تناول کرنا چاہیئے.کیونکہ مل کرکھانا کھانے نہیں برکت ہوتی ہے.جب اکٹھے مل کر کھانا کھایا جائے تو حرص اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے ، وحشی بن حرب سے روایت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے عرض کیا.یارسول اللہ ! ہم کھاتے ہیں اور سیر نہیں ہوتے.فرمایا شاید تم اکیلے اکیلے کھاتے ہو.انہوں نے کہا جی ہاں.فرمایا کھا نام کر کھایا کردا رسم اللہ پڑھ کر کھایا کہ وہ تمہارے لئے اس کھانے میں برکت ہوگی.ابو داو و کتاب الاطعمة باب في الاجتماع على الطعام) حضرت ابو سر یہ کہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.دو آدمی کا کھانا تین کو کفایت کرتا ہے اور تین کا چار کو.سلم کتاب الاشربة باب فضيلة المواساة في الطعام القليل) اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک آدمی کا کھانا دو کو اور دو کا چار کو اور چار کا آٹھ کو.(مسلم کتاب الاشربة باب فضيلة المواساة في الطعام القبيل) کھانا پیش کرتے وقت دائیں پہلو کا لحاظ رکھنا چاہئے."3.سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب کا اس قدر لحاظ رکھا کرتے تھے کہ اگر آپ کے پاس اس قدر چیز ہوتی جو صرف ایک آدمی کے لئے کافی ہوتی تو اسے دیتے جو دائیں جانب بیٹھا ہوتا.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم کو دائیں طرف سے کام کرنا سب کاموں میں پسند تھا.بخاری کتاب الاطعمه باب القيمين في الاكل وغیرہ) ۲۲ سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا نہیں کھانا چاہیئے.
حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی مانعت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ اس دنیا میں دسترن کے لئے ہیں اور آخرت میں تمہارے لئے ہوں گی اسی طرح ہیں ریشم اور دیباج پہنے سے بھی منع فرمایا.د مسلم کتاب الاشتر به باب تحریم الذهب والحرب على الرجال) ۲۳ - پاکیزہ اور طیب اشیاء کھانی چاہئیں.لیکن یہ مد نظر رکھا جائے کہ غریبوں کا حق نہ مارا جائے اور کسی کو اس کے استعمال سے ایدار نہ پہنچے اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے.ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَى عَنكُمْ وَاشْكُون بِاللَّهِ إن كُنتُم إِيَّاهُ تَعبُدُونَ (سورة البقرة : ١٤٣) کہ اے مومنو! پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو دی ہیں کھاؤ.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرد.اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو.پھر سورۃ البقرہ میں ہی ارشاد باری تعالی ہے ياتهَا النَّاسُ كُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطن ، إِنَّهُ لَكُمْ عَدُ وينة (سورة البقرة : (۱۷۹) اے لوگو ! زمین میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو - یقیناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.مومنوں پر لازم ہے کہ وہ غذائی معاملات میں طیبات کو ترجیح دیں.تاکہ دہ منہیات سے بچ جائیں اور اعمال صالحہ بجالا کہ خدا تعالے کے شکر گزار بندے بن جائیں.اسلام ہی وہ مذہب ہے جو بیا تا ہے کہ اگر کسی حلال چیز سے کسی کو دکھ یا ایزدار
۲۳۴۳ پہنچے تو اس خاص وقت میں اس کا استعمال بھی حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ حضور نے فرمایا ہے مَن أكل من هذه الشَّجَرِ لعنى الشَّوْمَ فَلَايَا مِن المَسَاجِدَ مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوة باب النهي اكل الثوم والبصل ونحوهما عند حضور المسجد) جو اس درخت یعنی لہسن سے کھائے تو وہ مساجد میں نہ آئے پھر ایک دوسری حدیث میں اس کی وجہ یوں بیان فرمائی.دو فات الملائكة تَاذِي مِمَّا تَادَى مِنْهُ الإِنى مسلم کتاب المساعيد ومواضع الصلوة باب النهي الكل الثوم والبصل ونحوهما عند حضور المسجد) کہ طلانکہ سبھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں.انتہائی مجبوری کی حالت میں حرام اور ممنوعہ چیزوں کا تھوڑا سا استعمال جن سے اور مینہ آدمی کی جان بچی بلئے کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد تو یہ استغفار کثرت سے کرنا چاہیے، تا غفور یہ گناہ بخش دے اور آئندہ ان گناہوں سے محفوظ رکھے.گلی سری چیزیں اور ایسی چیزیں جن سے طبیعت انقباض محسوس کرے نہیں درحیم به کھائی جائے.-۲۴ پر تکلف کھانوں سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ تعیش کی عادت نہ پڑھائے.ایک دفعہ حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم راستہ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک بکری بھون کر لوگوں نے رکھی ہوئی ہے اور دعوت منا رہے ہیں.رسول کریم کو دیکھ کر ان لوگوں نے آپ کو بھی دعوت دی.مگر آپ نے انکار کر دیا.د بخاری کتاب الاطعمه باب ما كان البنى واصحابه ياكلون)
۲۳۴ آپ کے انکار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اس قسم کے تکلف کو نا پسند فرماتے تھے کہ لوگ غریب اور بھو کے پھرنے والے آدمیوں کے سامنے بکرے بھوں بھون کر کھا رہے ہوں.حقیقت یہ تھی کہ حضور اکرم کی غذا بہت سادہ تھی.آپ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھا یا تھا.اور حدیث میں آتا ہے کہ آل محمد نے کبھی گہیوں کی روٹی تین دن تک متواتر سیر ہوکر نہیں کھائی تھی.یہاں تک کہ حضور اللہ تعالیٰ سے جاملے.ابخاری کتاب الاطعمة باب ما کان النبی و اصحابه یا کلون آنحضرت نے پر تکلف کھانے عمر بھر نہیں کھائے." حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم نے تلی روٹی اور بکری بھنی ہوئی کبھی مرتے دم تک نہیں کھائی.ابخاری کتاب الاطعمة الخبز الرق والا كل على الخوان والسفرة) ۲۵ جن کھانوں پر اللہ تعالی کا نام بلند نہ کی گیا ہو.ان کا کھانا حرام ہے.اسلام میں نذر و نیاز کے کھانوں کا کھانا گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے.إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير و ما أصل يغير الله يه (سورۃ النحل : ۱۱۹) کہ جن کھانوں پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو.اور ان کھانوں کو غیر الہ کے ساتھ نامزد کیا گیا وہ تم پر حرام ہے.پھر پارہ نمبر ہ اور رکوع میں ارشاد ہے.نَطُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِايَتِهِ مُؤْمِنِينَ.(سورۃ الانعام : 119) پس کھاؤ جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کے نشانات پر ایمان لانے والے ہو.
۲۳۵ پس شریعت اسلامیہ نذر و نیاز کے کھانے حرام قرار دیتی ہے، کیونکہ حرام چیزوں کے استعمال سے انسان یدی کی طرف جھک جاتا ہے اور نیکی کی راہوں سے دُور ہو جاتا ہے.اور حرام کھانے والے شخص کی دُعا بھی قبول نہیں ہوتی.٢٤ کھانے میں اسراف سے کام نہیں لینا چاہئیے.ارشاد باری تعالیٰ ہے كلوا واشربوا ولا تُسْرِفُوا (سورة الاعراف :۳۲) کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرد.۲۷ سخت گرم کھانا تناول نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ انحضرت صلی اللہ علیہ ستم نے سخت گرم کھانے کو پلیٹوں میں آگ بھرنے کے مترادف قرار دیا ہے.
پینے کے آداب ا پانی پینے سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھنی چاہیے.حضرت ابن عباسش کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ہو تو بسم اللہ پڑھ کر پیو اقه مندی ابواب الاشربة باب ما جاء في التنفس في الاناء -۲ پینے کا برتن ہمیشہ ماہنے ہاتھ میں پکڑ کر پینا چاہیے کیونکہ داہنے ہاتھ میں برکت ہوتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و ستم بھی ہمیشہ داہنے ہاتھ سے کھاتے اور پیتے تھے.ابخاری کتاب الاطعمة باب التيمن في اللاكل وغیرہ) صحابہ اور بچوں کو بھی داہنے ہاتھ کے استعمال کی تاکید فرماتے تھے.ابخاری کتاب الاطعمه باب التسمية على الطعام والاكل باليمين) ۲ پینے کے بعد الحمد للہ کہہ کر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب برتن اٹھا دو تو الحمد ید کہو.تمندی ابواب الدعوات باب ما يقول اذا فرغ من الطعام ) بلا ضرورت کھڑے ہو کر پانی پینا نہیں چاہئے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ضرورت کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا.مسلم کتاب الشربة باب في الشرب قائما ) ضرورت کے وقت کھڑے ہو کر پانی پیا جائے تا ہے.اسی طرح احادیث ہیں
کھڑے ہو کر پانی پینے کی مکمل طور پر ممانعت نہیں آتی حضرت ابن عمر یہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سم بوقت ضرورت چلتے ہوئے بھی کھا پی لیتے تھے اور کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے.ا تمه ندی کتاب الاشربہ باب ما جاء في المرخصة في المشرب قائما ) حدیث میں آتا ہے حضرت علی کرم اللہ وجھہ مسجد کو نہ میں تشریف لائے اور کھڑے ہی کھڑے پانی پی کر فرمایا.سر ایک شخص اس طرح کھڑکے ہو کر پینے کو مکروہ سمجھتا ہے.حالا نکہ میں نے خود بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پیتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح تم اب مجھے دیکھ رہے ہو.(بخاری کتاب الاشربہ باب الشرب قائماً ) حضرت ابن عیاسی کہتے ہیں کہ نبی کریم نے (آب زمزم کھڑے ہو کر پیا.تجرید بخاری حققه دوم ص ۴۳۳) ه - پانی پیتے وقت درمیان میں تین دفعہ سانس لینی چاہیئے.اس میں ایک طبی حکمت ہے کہ اگر پانی یک دوم پیا جائے تو زیادہ پیا جاتا ہے اور اس سے معدہ خراب ہو جاتا ہے حضرت انش بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے درمیان تمین بار دم لیتے تھے.مسلم کتاب الا مشربة باب كراهقة النفس في الاناء) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر اونٹ کی مانند ایک دم مت پیا کرو.بلکہ دو تین دوم ہے کہ نرمندی ابواب الاشربة باب ما جاء في التنفس في الاناء) پانی پیتے وقت برتن کے اندر سانس نہیں لینا چاہیے بلکہ برتن کو ایک طرف کر کے اس کے با ہر سانس لینا چاہیئے حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن ہیں
سانس لینے سے منع کیا.اسلم کتاب الاشربة باب كراهة النفس في الاناء) ایک شخص کے یہ پوچھنے پر کہ ایک دم میں سیر نہ ہوں تو حضور پھر کیا کریں.فرمایا دم لینے کے لئے منہ سے پیالہ علیدہ کر دیا کرد.نرمندی ابواب الاشربہ باب ما جاءنی کراحیتہ النفخ في الشراب) پینے کی چیز میں پھونک نہیں مارنی چاہیئے.حضرت ابوسعید الخدری سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی چیز میں پھونک مارنے سے منع فرمایا.ایک شخص نے عرض کیا.برتن بھی تنکے دنکے دیکھے جائیں تو پھر ؟ پانی گرا کر صاف کرے) ( ترمذی ابواب الاشربہ باب ما جاء في كراهيته النفخ في الشراب) - مشکیزہ کا منہ کھول کر منہ لگا کر پانی نہیں چنا چاہئیے.حضرت ابوسعید الخدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ مشکیزہ کا منہ کھول کر منہ لگا کر پانی پیا جائے.اسلم و بخاری) حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول کریم نے مشک یا سقہ کے منہ سے پینے کو منع فرمایا ہے.تجرید بخاری حصہ دوم ص ۴۳) و سونے اور چاندی کے برتنوں میں پانی یا کوئی پینے کی چیز نہیں پینی چاہیئے.حضرت أم سلام زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا.الذي يشربُ فى انِيَةِ الفِضَّةِ إِنَّمَا يَجَرُ جِرُ فِي بَطنِهِ نَارَ ܟܢܳܐ ا مسلم کتاب اللباس والزینته باب تحریم استعمال اوافي الذهب والفضة) کہ جو شخص چاندی کے برتن میں پیتا ہے گویا وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی
۲۳۹ اگ ڈال رہا ہوتا ہے.حضرت عبداللہ بن زید سے روایت ہے کہ ہمارے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.ہم نے آپ کے لئے کانسی کے برتن میں پانی ڈال دیا.اس سے آپ نے وضو کیا.(بخاری کتاب الوضو باب الوضوء من الثور) عبد الرحمن بن ابی لیلی سے مروی ہے کہ ہم لوگ خلیفہ " کے پاس بیٹھے تھے.انہوں نے پانی مانگا.ایک مجوسی ان کے پاس پانی لے کر آیا.جب یہ پیالہ ان کے ہاتھوں میں رکھا تو انہوں نے اس کو پھینک دیا اور کہا کہ اگر میں اس کو ایک یا دو مر تبہ منع نہ کر چکا ہوتا تو البا نہ کرتا ( یعنی پیالہ کو نہ پھینکتا میں نے آنحضرت کو فرماتے ہوئے سنا کہ ریشم اور دیباج نہ پہنو اور نہ سونا چاندی کے برتن میں پانی پیو اور نہ ان کی رکا ہوں میں کھاؤ.اس لئے کہ دنیا میں یہ کفار کا سامان ہے اور ہمارے لئے آخرت میں ہے.دبخاری کتاب الاشربة باب الشرب في اليفة الذهب) ا.پینے کی چیز اگر پیش کرنی ہو تو ہمیشہ دائیں جانب سے اس کی ابتدا کرنی چاہیئے.کیونکہ دائیں جانب بیٹھنے والے شخص کا حق پہلے ہے.حضرت سھل بن سعد سے روایت ہے کہ آنحضرت کی خدمت میں پینے کی چیز لائی گئی.آپ نے اس میں سے پیا.آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا اور باتیں طرف بوڑھے بوڑھے آدمی بیٹھے تھے.آپ نے اس لڑکے سے پوچھا کیا اجازت ہے کہ میں ان بڑی عمر والوں کو دے دوں ؟ لڑکے نے عرض کیا.نہیں.بحضور جو عطبہ مجھے آپ سے ملے.وہ میں کسی کو نہیں دینے کا.پس رسول کریم نے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.ا مسلم کتاب الاشربہ باب استحباب ادارة الماء واللين على اليمين المبتدى) پینے کی چیزوں کو بھی ڈھک کر رکھنا چاہیئے.
۲۴۰ حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ ابو حمید انصاری موضع نقیع سے ایک برتن میں نبی کریم کے لئے دودھ لائے تو آپ نے فرمایا.اس کو ڈھک کر کیوں نہیں لائے (اور نہیں تو) ایک چوڑی سی تختی ہیں اس پر رکھ لینی تھی.تجرید بخاری حصہ دوم ص ۴۳۲ ۱۳ - حرام اشیاء کے پینے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیئے.اور ایسی چیزیں جو نشہ آور ہوں ان کا استعمال ناجائز ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں شراب کو رجيس من عمل الشيطان ناپاک اور شیطانی کام ہے کہا ہے.۱۳ میزبان یعنی پیش کرنے والے شخص کو آخر میں نوش کرنا چاہیئے کیونکہ حضور کا ارشاد ہے کہ قوم کے ساقی کی باری آخر میں ہوتی ہے.(ترمذی ابواب الاشربہ باب ما جاء ان ساتی القوم اخر هم شرباًا ) حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا.لوگوں کو پلانے والا سب سے پیچھے پیا کرے.رتمندی ابواب الاشربة باب ماجا و أن ساتي القوم اخرهم شهريا)
۲۴۱ دعوتوں کے آداب اسلامی تمدن کی بنیاد حقیقی مودت و اخوت پر ہے.اس محنت اور اخوت کو بڑھانے کے لئے اور آپس میں برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے.شادی بیاہ کے مواقع ہوں یا خوشی کی تقاریب ہوں انسان اپنی خوشیوں میں اپنے عزیز و اقارب، ہمایوں اور ملنے جلنے والوں.کو شریک کرنے کے لئے دعوتیں کرتا ہے.وہ اپنی خوشیوں کو صرف اپنے ایک محدود نہیں رکھتا بلکہ اپنی خوشیوں کو تقسیم کرتے ہوئے محبت اور تعاون کی فضاء میں وہ دعوتوں کا اہتمام کرتا ہے.پارٹیاں اور دعوتی جلسے ہماری معاشرت کا ایک اہم حصہ ہیں.محلہ داری کا بھی یہ اہم فریضہ ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً دعوتوں کے سامان پیدا کرے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محبت بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا ہے.دعوتی جلسوں کا قیام اسلامی تمدن پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور معاشرہ کی بھی احسن رنگ میں تکمیل ہوتی ہے اس لئے اسلام نے دعوتوں اور تقاریب کے لئے بھی آداب سکھائے تاکہ انسان ان آداب پر عمل پیرا ہو کر اپنی دعوتوں کو حقیقی کہ جنگ میں خوشیوں کی تقاریب بنا سکے.-1 جب کوئی شخص دعوت پر بلائے تو اس کی دعوت کو قبول کرنا چاہئیے کیونکہ دعوت کا قبول کرنا انسان کی باہمی محبت کی علامت ہے اور آپس میں پیار کے اظہار کی نشانی ہے.
۲۴۲ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانے کے لئے دعوت دیا جائے تو قبول کرے.اور اگر روزہ دار ہو تو ان کے حق میں دعا کرے (اور اگر روزہ دار نہ ہو تو) کھانا کھالے اسلم كتاب النکاح باب الامر باحجابة الداعي الى دعوة) بن بلائے دعوت میں شریک نہیں ہونا چاہیئے.دعوت کے لغوی معنی ہی بلانے اور پکارنے کے ہیں..اگر کوئی شخص دعوت پر جاتے ہوئے ساتھ ہولے تو پھر صاحب خانہ سے اس کے لئے اجازت طلب کی جائے.ابو مسعود البدری سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم کی دعوت کی.پانچ کی دعوت تھی.ان کے پیچھے ایک اور غیر مد و شخص ہو لیا.جب دروازے پر پہنچے تو آپ نے صاحب دعوت سے کہا کہ یہ شخص ہمارے ساتھ ہو لیا ہے اگر چاہو تو اذن دے دو.ورنہ واپس چلا جائے.اس نے عرض کیا.میں اذن دیتا ہوں اس کو یا رسول الله ! مسلم كتاب الاشربة باب بالفعل الضيف اذا تبعه غیر من دعا صاحب الطعام ) دعوت کے لئے وقت پر جانا چاہیے.پہلے جا کر بیٹھنانا مناسب ہے کیونکہ اہل خانہ کو اس سے پریشانی اٹھانی پڑتی ہے.وہ آپ کو اپنی پوری توجہ اور وقت نہیں دے سکتا اور بجائے محبت بڑھنے کے مغائرت کا احساس دلوں پر غالب آنے لگا ہے.۵ قرآنی محكم فَسَلِّمُوا عَلى الكُمُ کے مطابق کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو سلام کہو.سلام کرنا چاہیے اور مصافحہ کرنا چاہیئے.
۲۴۳ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرنے اور مصافحہ کرنے کو باہمی اتحاد کا ذریعہ قرار دیا ہے.سلام کہنا بہت بڑی نیکی ہے اور پاکیزہ معا ہے.اور اخوت اسلامی کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ دعوتوں اور تقاریب میں آپس میں سلام اور مصافحہ کو رواج دیا جائے.4 ہاتھ دھو کر اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا جائے اور کھاتے وقت صفائی کا خاص خیال رکھا جائے..کھانے میں نقص نہ نکالے جائیں اور نہ ہی مذمت کی جائے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دستر خوان پر جو کھانا آتا اگر نا پسند ہوتا تو اس میں ہاتھ نہ ڈالتے لیکن اس کو برا نہ کہتے.- (بخاری کتاب الاطعمه باب ما عاب النبی طعاماً قط) - منہ میں لقمہ ہو تو باتیں نہیں کرنی چاہئیں.- کھانے کی میز پہ اگر بزرگ بیٹھے ہوں تو کھانے میں جلدی نہیں کرنی چاہئیے بلکہ جب تک وہ کھانا شروع نہ کریں باقیوں کو کھانا شروع نہیں کرنا چاہیئے.حضرت حذیفہ سے روایت ہے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کھانے پر جمع ہوتے تو ہم کھانے میں ہاتھ نہیں ڈالتے تھے.جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا شروع نہ کریں.ا مسلم کتاب الاشربہ باب اداب الطعام والشرب واحكامها ۱ چھری کانٹے اگر میز پر ہوں تو ان کا استعمال کیا جائے.اسلام نے ان سے منع نہیں فرمایا.تکلف اور ایک فعل پر زور دینے سے منع کیا ہے تاکہ غیر قوم سے مشابہت نہ ہو جائے.اسلام سادگی کو پسند کرتا ہے اور گوشت وغیرہ کو دانتوں سے بھی کھایا جاسکتا ہے.
۲۴۴ حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ اپنے والد عمرو بن امیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ بجری کا ایک شانہ آپ کے دست مبارک میں تھا جسے آپ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے.پھر نماز کے لئے اذان کہی گئی تو اس شانہ اور چھڑی کو جس سے گوشت کاٹ رہے تھے ایک طرف ڈال دیا اور کھڑے ہو گئے.پھر نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا.ابخاری کتاب الاطعمه باب قطع اللحم بالتشكين) یما جب کوئی شخص کھانے کی دعوت دے اور پھر خود کسی کام میں مشغول ہو جائے تو کیا نہیں منانا چاہیے کہ وہ ہمارے پاس ضرور کیوں نہیں آ کر بیٹھا.حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ میں کہیں تھا.سول کریم صلی للہ عیہ علم کیساتھ چلا جار ہا تھا کہ رسول کریم صل اللہ صل وسلم اپنے ایک دینی غلام کے گھر میں داخل ہوئے تو اس نے ایک پیالہ پیش کیا جس میں کچھ کھانے کی چیز بھی اور اس میں کندہ تھا.رسول کریم صلی الہ علیہ سلم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے تھے.جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے آپ کے سامنے کرو جمع کرنا شروع کیا اور وہ غلام اپنے کام میں مشغول ہو گیا.حضرت انس کا بیان ہے کہ جب سے میں نے رسول اللہ کو اس طرح کرتے دیکھا اسی دن سے میں کو پسند کرنے لگا.د بخاری کتاب الاطعمه باب من اصناف رجلاً على طعام واقبل وھو علی عملہ ) ۱۲- ایک میز سے یا ایک دستر خوان سے کھانا دوسرے دستر خوان یا میز یک م ٹھا کر نہیں دینا چاہیئے.محمد بن یوسف نے کہا میں نے محمد بن اسماعیل کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جب چند لوگ دستر خوان پر بیٹھے ہوئے ہوں تو جائز نہیں کہ ایک دستر خوان والے دوسرے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیں لیکن ایک ہی دستر خوان پر بیٹھے ہوئے
۲۴۵ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کو دینے یا نہ دینے کا اختیار ہے.اسبخاری کتاب الاطعمه باب من نادل او قدم على صاحبه على المائدة تنيعا ) ۱۳ - کھانا آنے پر بے صبری، جلدی بازی اور حرص کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بڑے وقار کے ساتھ مہذبانہ طریقے سے کھانا کھانا چاہیئے، اور نہ ہی کھاتے وقت منہ سے آوازیں نکالنی چاہئیں.کیونکہ اس سے دوسرے شخص کو کوفت ہوتی ہے.۱۴- جب کسی دعوت میں جائیں تو اپنے نزدیک اور سامنے کے کھانے سے حصہ لینا چاہیئے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو سالن سامنے ہوتا اُسی میں ہاتھ ڈالتے ادھر اُدھر ہاتھ نہ بڑھاتے تھے ، اور اس سے اوروں کو بھی منع فرماتے تھے.اور فرماتے گُل مِمَّا یلیک کہ جو تیرے سامنے ہے اسے کھا.رریاض الصالحين كتاب الطعام باب الأمر في الأكل من جانب القصة....) ۱۵ دعوت میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئیے جس سے دوسروں کو گھن آئے صلی اللہ کی ولی کار کو ان رہتے تھے اور فرماتے تھے کہ اتنا زیادہ کیوں کھا جاتے ہو.دعوتوں میں کھانے کو ضائع نہیں کریں اپنی پلیٹ میں اتنا ہی ڈالیں جتنی آپ کو کھانے کی چاہت ہے اور پھر اپنی پلیٹ کو صاف کریں اس میں کھانا نہ بچائیں.-14 ر ابن ماجہ کتاب الاطعمة باب الاقتصاد في الأكل وكراهته الشجع) حضرت جابر بن عبد اللہ منہ سے روایت کہ نبی کریم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کھانے کے بعد یدین کو چاٹ کر صاف کر دیتا ہے تو وہ برتن اس کے حق میں پڑھا کرتے ہیں دار می کتاب الاطعمۃ باب فی الحق الصفحة) کھانے سے فارغ ہونے کے بعد الحمد للہ پڑھنی چاہیے اور صاح خانہ کے لئے دُعا کرنی چاہیئے.۱۸- کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دو پہر تک وہاں نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ
۲۴۶ صاحب خانہ سے اجازت لے کر جلد واپس چلے جانا چاہیے.صاحب خانہ جھجک کی وجہ سے تم سے واپس چلے جانا کا نہیں کہنا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا - سورة احزاب : ٥) کہ جب تم کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ.حضرت انس سے روایت ہے کہ پردہ کی آیت نازل ہونے کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں.ابی بن کعب بنے مجھ ہی سے پوچھتے تھے سول کریم صلی الہعلیہ وسلم کی شادی زینب بنت جحش سے نئی نئی ہوئی تھی اور ان سے نکاح مدینہ ہی میں کیا تھا.دن چڑھنے کے بعد لوگوں کو کھانے کے لئے مدعو کیا.رسول کریم صلی الہ علیہ سلم بیٹھ گئے جب کچھ لوگ کھا کر فارغ ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ یہ علم بھی کہاکہ فارغ ہوئے اور چلنے لگے تو ہم بھی آپؐ کے ہمراہ چل پڑے.یہاں تک کہ حضرت عائشہ کے حجرہ کے دروازہ پر پہنچ گئے تو خیال کیا کہ لوگ چلے گئے ہونگے میں بھی آپؐ کے ساتھ واپس ہوا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں.پھر آپ واپس ہو گئے.میں بھی آپؐ کے ساتھ دوسری مرتبہ واپس آیا تو دیکھا کہ لوگ پہلے گئے ہیں.آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا.اسی وقت پہ دہ کی آیت نازل ہوئی.استخاری کتاب الاطعمة باب قول الله عز و جل فاذا طعمتم فانتشروا ) ۱۹ - امیر لوگ جب دعوت کریں.تو انہیں غریب شخص کو بھی دعوت میں لاز قابلگانا چاہیئے.حضرت ابو ہر میں یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم فرماتے تھے کہ بدترین دعوت شده -19 ہے جس میں امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر اندانہ کر دیا جائے.د بخاری کتاب النکاح باب من ترك الدعوة فقد عصى الله ورسوله)
۲۴۷ ۲۰ اگر کوئی غریب شخص دعوت کرے اور وہ مراد کو بلائے تو اُمراء پر نادم ہے کہ وہ اس کی دعوت میں شریک ہوں.اگر وہ امیر غریب کی عزت کی وجہ سے دعوت کو ر ڈ کر دے تو ایسا شخص خدا اور اس کے رسول کا نافرمان شمار ہوگا.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.كور عيتُ إلى كراع لا جنت ر شمائل ترمذی باب ما جاء فی تواضع رسول الله ) یعنی اگر کوئی غریب شخص بکری کا ایک گھر یا پا یہ پکا کر بھی مجھے اپنے گھر پر بلائے تو میں اس کی دعوت کو ضرور قبول کروں گا.اسلامی تعلیم عزیوں اور امیروں کے درمیان تمدنی تعلقات کو فروغ دینے اور انہیں ایک ہی خاندان کا فرد سمجھنے کے لئے ایسے شہری اصول قائم کرتی ہے جو معاشرے کی سالمیت اور باہمی محبت کے لئے ضروری ہیں.۳۱ دعوتوں میں اپنے ہمسایوں کو بھی ضرور بلانا چاہئیے انہیں اپنی خوشیوں میں ضرور شریک کرنا چاہئیے.حضور اکرم صلی الہ علی کل فرماتے تھے کہ قرابت نواز کی حسن خلق اور خوشگوار ہمسائیگی سے بتیاں آیا د ہوتی ہیں اور تحریں دراز ہوتی ہیں.(کنز العمال کتاب الثالث باب في الاخلاق والافعال المحمودة باب صلة الرحم والترغيب فيها والترهيب من قطعها ) ( ۲۲ ) دعوتوں میں تکلف اور اسراف سے کام نہیں لینا چاہیئے.کیونکہ اسراف کرنا شیخی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُختَالِ فَخَورِه (سورۃ لقمان : (۱۹) اللہ تعالے پر سختی کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا.
پس دعوتی خدا تعالے کی یہ کتوں کی سبیل ہیں.پس اپنی جسمانی صحت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ روحانی صحت کا خاص خیال رکھیں.حرام اور منہیات سے بچتے ہوئے ہمیشہ ملال طیب غذاؤں کا استعمال کریں تا اخلاق بھی پاکیزہ ہو جائیں.
۲۴۹ عیادت کے آداب اللہ تعالیٰ روف درحیم ہے.اس کی رحمت کی کوئی حد نہیں ہے.جیسا کہ وہ نخود فرماتا ہے.رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُل شي ( سورة الاعراف : ۱۵۷) کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.اپنے بندوں پر اس کا لطف واحسان اور فضل وکرم بے انتہا ہے.اور بیمار بندوں پر اس کی شفقت ورحمت اس طرح عیاں ہے کہ اس نے انہیں بعض فرائض کی ادائیگی میں ان کی بیماری اور تکلیف کے بڑھ جانے کے سبب رخصت دے دی.جیسا کے سورۃ المائدہ آیت نمبرے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِن كُنتُم مَّرَضى.........که اگر تم بیار ہو تو میم کر لیا کر و یعنی تم پاک مٹی کا قصد کرو اور اس سے کچھٹی لے کر اپنے مونہوں اور اپنے ہاتھوں کو لو.اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی نگی نہیں کرنا چاہتا.پھر سورۃ المزمل آیت نمبر ۲۱ میں بیماروں کو نماز تہجد کو ادا کرنے میں سہولت عطا فرمائی اور فرمایا عَلِمَ اَن سَيَكُونَ مِنْكُم مَّرْضى (سورة المزمل : (۲۱) کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے کچھ بیمار بھی ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفات کا منظر اتم تھے.آپ مخلوق خدا کی ہمدردی و شفقت میں مہرباں ماں سے بھی بڑھ کر شفیق تھے.آپ نے مسلمانوں کو بیماروں کی عبادت کرنے کی خاص تاکید فرمائی اور اس کے آداب بھی سکھائے عیادت ایک مذہبی فریضہ ہے اور مذہبی حیثیت سے کھل کر اس کی ابتدار انس
۲۵۰ وقت ہوئی جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے.ذیل میں سنت نبوی اور احادیث مبارکہ کے تحت عبادت کے آداب پیش کئے جاتے ہیں.ا.بیماروں کی عیادت کرنے میں دوست، دشمن ، مومن کافر کسی کی تخصیص نہیں کرنی چاہیئے.حدیث میں آتا ہے.الخلق عيال الله (کنز العمال جلد نمبر ۶ حدیث نمبر ۱۷۱۷۱) که ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی ال اولاد ہے.پس خواہ انسان کا تعلق کسی بھی عقیدے کے ساتھ ہو ان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی رکھنا مومن کا فرض ہے حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم بلا تخصیص مذہب و ملت بیماروں کی عیادت کرتے تھے.حضرت انسؓ سے روایت ہے ایک یہودی لڑکا نبی کریم کی خدمت کیا کرتا تھا بیمار ہوگیا.نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اس کی مرض الموت میں عیادت کو آئے.اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا مسلمان ہو جا.اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے پاس تھا.اس نے کہا.بیٹے ابو القاسم کی بات مان ہے.وہ لڑکا مسلمان ہو گا.نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے اُسے آگ سے نجات دی.بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبيبتي قمات هل لیستی علیہ) غریب سے غریب بیمار ہوتا تو آپ اس کی عبادت کو تشریف لے جاتے تھے.(شمائل ترمذی باب ما جاء فی التواضع الرسول الله خدا تعالی کی خوشنوری اور محبت کی خاطر بیمار کی عیادت کرنی چاہیئے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ کے لئے کسی کی عیادت کی جائے تو خدا تعالیٰ اپنے اس بندے پر بہت خوش
۲۵۱ ہوتا اور اس کی جزا خود بن جاتا ہے ، حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا.اسے ابن آدم ! میں بیجار موا تو نے میری عبادت نہ کی.بندہ کہے گا اے پروردگار با تو رب العالمین ہے.میں تیری عبادت کیونکر کر سکتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.کیا تجھے علم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا.تونے اس کی عبادت نہ کی.کیا تو جانتا نہیں کہ اگر تو اس کی عبادت کرتا تو تو تجھے وہاں پانا اسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض).ایک مسلمان کا حق ہے کہ وہ عیادت کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم - نے صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا کہ وہ بیمار کی عیادت کریں.بخاری کتاب المرضى باب وجوب عيادة المريض) حضور کریم بڑے رقیق القلب اور متاثر الطبع تھے.دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کہ بہت دکھی ہو جاتے اور عبادت میں بڑا تعہد رکھتے ایک دفعہ حضرت سعد بن عبادہ بیمار ہوئے.آپ عبادت کو تشریف لے گئے.اُن کو دیکھ کر آپ پر رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے.آپ کو روتا دیکھ کر سب رو پڑے.د بخاری کتاب الجنائز باب البكاء عند المريض) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا.بیمار پرسی کا جنازوں کے پیچھے جانے کا پھینکنے والے کو جواب دینے کا اور کمزور کی مدد کا اور سلام کو افش کرنے کا اور قسم کھانے والے کو سچا کرنے کا.د بخاری کتاب الاستیذان باب افشاء السلام ) عیادت کا بہت ثواب ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مریضی
۲۵۲ کی عیادت کرتا ہے.....تو ایک آواز دینے والا اُسے آواز دیتا ہے کہ تو بھی مرغوب ہے اور تیرا چلنا پھرنا بھی مرغوب ہے.تو نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا.( ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فی زیارة الاخوان) عبادت صرف ایک بار ہی نہ کی جائے بلکہ جہاں تک ہو سکے.بیمار کی نبارداری اور مزاج پرسی کے لئے جتنی بار ہو سکے جائے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ جب حضرت سعد کو خندق کے روز تیبر لگا تو حضور صلی الہ علیہ وسلم نے ان کا خیمہ مسجد میں لگوا دیا.اور حضور ان کی بار بار عیادت فرماتے تھے.(ابو داؤد کتاب الجنائز باب العيادة مراراً) حضرت زید بن ارقم روایت کرتے ہیں مجھے آشوب چشم کی تکلیف ہوئی تو حضور بار بار میری عبادت فرماتے تھے.ابو داؤد کتاب الجنائز باب العياده على الرمد ) - صبح اور شام کے اوقات میں عبادت کرنے کا بہت زیادہ ثواب ہے حضور فرماتے ہیں کہ محب کوئی صبح کو کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اسی کے لئے جنت میں ایک باغ مقرر کیا جاتا ہے اور جب وہ شام کو عبادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کے لئے بارگاہ الہی میں اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور اُس کے لئے جنت میں ایک باغ مقرر کیا جاتا ہے.ر سنن ابی داود کتاب الجنائز باب في فضل العيادة على الوضوء) دوسری روایت میں ہے کہ عیادت کرنے والے کے لئے ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں.یہاں تک کہ شام کرے.اگر پچھلے پہر عیادت کرے تو صبح تک تمه ندی ابواب الجنائز باب ما جاء في عيادة المريض)
۲۵۳ حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان جب مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپس لوٹنے ایک بہشت کی میوہ خوری ہیں ہوتا ہے.وسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المراضي مریض کی عیادت کے لئے جب جایا جائے تو اس کے پاس بیٹھ کر اسے نسلی دی جائے.اور محبت کے ساتھ اس سے گفتگو کی جائے اور اچھی باتوں کے ساتھ اس کا دل بہلایا جائے کیونکہ بیماری میں انسان بہت حساس ہو جاتا ہے.اس کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں.ایسی صورت میں اپنے ہمدرد دوست کی تسلی و تشفی کے چند الفاظ بھی اس کی مرض اور تکلیف کی شدت کو کم کرنے کا موجب بن جاتے ہیں.مراض کو یوں تسلی دی جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ ہو.زبخاری کتاب الطب باب ما أنزل الله من داره الا انزل له شفاعة) اور یہ کہ اس کی بیماری سے اس کے گناہ جھڑ جائیں گے.جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے مومن کو جو بھی دکھ یا تکلیف یا بیماری یا رنج پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کی کمزوریوں اور غلطیوں کا کفارہ کر دیا ہے.یعنی بڑے بڑے نقصانات اور آخرت کی گرفت سے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیتا ہے.ر مسلم کتاب البر والصلة باب ثواب المؤمن فيها يصيبه) حضرت رسول کریم فرماتے تھے کسی مسلمان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی مگر اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت کے پتے.بخاری کتاب المرضى باب ما يقال المريض وما يحبيب ) سفر السادات میں ابو سعید سے روایت ہے کہ جب تم کسی مریض کی عیادت
۲۵۴ کے لئے جایا کر دو تومریض کے سامنے اس کی درازی عمر کے متعلق بات کرو.حالانکہ ایسا کہنا تقدیر کو ٹال نہیں سکتا لیکن مریض کا دل خوش ہو جاتا ہے.مریض کی جب عیادت کی جائے تو اس کے ہاتھ اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھے کر اس کو نسلی دی جائے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اپنے بعض اہل کی عیادت کرتے تو اپنا دایاں ہاتھ لگاتے د بخاری کتاب المرضى باب وضع اليد على المريض) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی رشتہ دار کی عبادت کے لئے آتے تو اپنا دایاں ہاتھ اس کے سر پر پھیرتے.وسلم کتاب السلام باب استجاب الرقيقة المريض) عائشہ بنت سعد کے والد نے کہا کہ میں مکہ میں بہت سخت بیمار ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری عبادت کو تشریف لائے.آپ نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا.پھر میکے چہرے اور پیٹ پر میرا ہاتھ پھیرا اور دعا کی کہ اللہ سفر کو شفائے اور اس کی ہجرت کو مکمل کردے میں اس وقت سے اب تک اپنے جگر میں اس کی ٹھنڈک محسوس کرتا ہوں.( بخاری کتاب المرضى باب وضع اليد على المراعي) - مریض کی عیادت کے لئے جب جایا جائے تو اس کی صحت یابی کے لئے دُعا بھی مانگی جائے.حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض اہل کی عیادت کرتے اپنا دایاں ہاتھ لگاتے اور کہتے.
۲۵۵ - اللهُمَّ رَبَّ النَّاسِ اذْهَبِ الْبَاسَ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ الأَشْفَاءُكَ شِفَاءٌ لَّا يُغَادِرُ سَقَماً د بخاری کتاب الطب باب مسبح التراقي في الوجع بيده اليمنى ) اے اللہ لوگوں کے رب تکلیف دور کرا در تندرستی عطاکر تو ہی شفا دینے والا ہے.کوئی شفا نہیں مگر تیری شفا.ایسی شفا جو بیماری نہ چھوڑے.(بخاری وسلم) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جو شخص بیمار کی عیادت کرے توسات بار کہے اسال الله العظيمَ رَبَّ العَرْشِ الْعَظِيمِ ان يشفيك رابو داؤد کتاب الجنائز باب الدعا للمريض عند العيادة) ترجمہ میں سوال کرتا ہوں اللہ عظمت والے سے جو کہ عرش عظیم کا رب ہے تنتجھ کو تندرستی عطا کرے ، اللہ اس مرض سے شفا دے گا اگر اس کی اجل مقدر نہیں.البوسعید الخدری سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل حضرت نبی کریم کے پاس آئے اور کہا یا محمد یا آپ بیمار ہیں.فرمایا.ہاں.تو اس نے کہا جِسمِ اللَّهِ ارْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُوزِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْعَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِسمِ اللَّهِ ارْتِكَ اللہ کے نام کے ساتھ میں تعویذ کرتا ہوں تجھ کو ہر ایک تکلیف دینے والی چیز سے ہر ایک نفس کے شر سے یا ہر ایک حاسد کی آنکھ سے اللہ تجھ کو شفا دے میں اللہ کے نام کے ساتھ تجھ کو تعویذ کرتا ہوں.مسلم کتاب السلام باب الطلب والمرض والرقی) - مریض کی جب عیادت کی جائے تو اس کی توجیہ دعا کی طرف بھی پھرائی جائے کہ آنحضرت صلی الہ علیہ دستم بیار کی عبادت کا بہت اچھی طرح خیال رکھتے تھے اور دعا کی طرف اُسے متوجہ بھی فرماتے تھے.حضرت عثمان بن ابی العاص کا بیان ہے کہ اس نے رسول کریم کے پاس اپنے درد
کی شکایت کی جو اس کے جسم میں ہو رہا تھا تو رسول کریم نے فرمایا.اپنا دایاں ہاتھ رکھ یہاں درد ہو رہا ہے اور تین بار بسم اللہ پڑھ اور سات بار پڑھ اَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَ تدريهِ مِن شَرِّ مَا أَجِدُ وَ أَحَاذِرُ مسلم کتاب السلام باب استحباب وضع يده على الموضع الالم مع دعا) میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور قدرت کی پناہ پکڑتا ہوں اس مشر اور تکلیف سے جس کو میں پانا ہوں اور میں بچاؤ کرتا ہوں.-1.۱۰ - مریض کو چاہیے کہ وہ بے صبری کے کلمات نہ کہے اور نہ ہی موت کی تمنا کرے.اور زندگی سے مایوس نہ ہو.حدیث میں آتا ہے.انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا اس مصیبت کی وجہ سے نہ کرے جو اسے پہنچتی ہے.اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی سمجھے تو یہ کہے اسے اللہ یا جب تک میرا زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہے.اس وقت تک نہیں زندہ رکھے اور مجھے وفات دے.اگر کر جانا میرے لئے بہتر ہے.(بخاری کتاب المرضى باب نہی تمنى المريض الموت) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے.اس لئے کہ یا تو نیکو کار ہوگا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی میں اضافہ کرے اور اگر بد کار ہے تو امید ہے کہ وہ تو بہ کرنے.دسبخاری کتاب المرضى باب بنی تمنى المراض الموت) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت کو اس حال میں کہ مجھے پر سہارا نگائے ہوئے تھے فرماتے ہوئے سنا کہ اللهُمَّ اغْفِرْ لِي وَالحَمنِي وَالْحِقْنِي بِالرفيق - کہ اے میر
۲۵۷ اللہ ! مجھ کوبخش دے اور مجھ پر رحم کر.اور مجھ کو رفیق (اعلیٰ) سے ملائے.د بخاری کتاب المرضى باب بنی تمنی المريضن الموت) ال.مریض کی شفایابی کے لئے جہاں اس کی عبادت کے وقت دُعا کی جانی چاہیے وہاں اس مریض کے لئے نائی نہ دعائیں بھی مانگنی چاہئیں کیونکہ خلوص دل سے مانگی جانے والی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا شرف حاصل کر لیتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی دعا اتنی سرعت سے قبول نہیں ہوتی یقینی کہ غائبانہ دھا.( ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فى دعوة الأخ لأخيه بظهر الغيب) عیادت کے وقت اپنے بیمار بھائی کو دم کرنا بھی جائز ہے لیکن دکم اور درود کو پیشہ اور کمائی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میر ایک ماموں تھے جو بچھو کا دم کرتے تھے حضور نے جب دم کرنے سے منع فرمایا تو وہ حضور کے پاس آئے اور عرض کیا.لیے اللہ کے رسول ، آپ نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے اور میں بچھو کا دم کرتا ہوں.اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے.اس پر آپ نے فرمایا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو کوئی فائدہ پہنچا سکے وہ ضرور پہنچائے.اسلم کتاب السلام باب استحباب الرقية من العين والعملة والحمة) مقصد یہ ہے کہ دم درود کو پیشہ اور کمائی کا ذریعہ نہ بنایا جائے.اگر کسی کے اس بابرکت دعائیہ کلمات ہیں جنہیں کس قسم کا شرک نہیں پایا جاتا تو ہر وہ ان کے ذریعہ سے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت کے کچھ صحابہ سفر میں تھے وہ عرب کے ایک قبیلے کے پاس سے گزرے اور ان کا مہمان بننا چاہا لیکن انہوں نے
مہمانی نہ کی اس رات اس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا وہ ان صحابہ کے پاس آئے اور پوچھا تم میں سے کوئی وہم کر سکتا ہے ؟ صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا.ہاں میں کر سکتا ہوں.چنانچہ وہ بیمار کے پاس آئے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا.اس پر وہ سردار اچھا ہو گیا اور خوش ہو کر بکریوں کا ایک چھوٹا سا ریور ان کو بطور انعام دیا لیکن انہوں نے یہ یور قبول نہ کیا اور کہا کہ جب تک آنحضرت سے پوچھ نہ لوں یہ ریوڑ نہ لوں گا.چنانچہ آنحضرت کے پاس وہ آئے اور اس واقعہ کا ذکر کیا اور ساتھ ہی عرض کیا اے اللہ کے رسول کا ہمیں نے صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا.اس پر حضور نے نیسم فرمایا اور پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ دم ہے.پھر فرمایا.تم اس قبیلہ سے بکریاں لے لو اور میرا حقہ بھی ان بکریوں میں رکھو.مقصد یہ ہے کہ اس صورت حال میں جو انعام یا نذرانہ انہوں نے دیا ہے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں.ر مسلم کتاب السلام باب جواز اخذ الاجرة على الرقية سورة فاتحہ کا ایک نام سورۃ الرقیہ بھی ہے جس کے معنی ہیں دم کرنے والی سورت قرآن مجید میں شفاء کا لفظ چھ مقام پر آیا ہے.اگران چھ آیات کو پڑھ کر دم کیا جائے تو اللہ تعالے اپنے فضل سے شفا دیتا ہے.وہ چھ آیات یہ ہیں.ياَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُو مَوْعِظَةٌ مِّن مَّا يَكُمُ وَشِفَا لِمَا نِي الصدري وَهُدًى وَمَا حَمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ٥ وَرَحْمَةٌ (سورۃ یونس : (۵۸) اے لوگو با یقینا تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آچکی ہے.اور وہ شفا ہے اس کے لئے جو سینوں میں ہے اور ہدایت اور رحمت ہے مومنوں کے لئے.تم على مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسُلِكَى سُبُلَ رَبِكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَاب مُختلف الوَانُهُ فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ
۲۵۹ لايَةُ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورة النحل : ٢٠) ترجمہ ، پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھا اور اپنے رب کے راستوں پر جو تیرے لئے آسان کئے گئے ہیں چل.ان (مکھیوں) کے پیٹیوں میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے.یقیناً اس بات میں غور فکر کرنے والی قوم کے لئے البتہ نشان ہے.وَنُنَزِّلُ مِنَ العُثرانِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَ حُمَةٌ لِلْمُؤْمِنينَ لا وَلَا يَزيدُ الظَّالِمِينَ الأَخَساره (سورة بنی اسرائیل : ۸۳) ترجمہ ، اور ہم قرآن میں سے اُتارتے ہیں جو شفا ہے اور رحمت ہے مومنوں کے لئے ، اور یہ بات ظالموں کو گھاٹے میں پڑھاتی ہے.-٤ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ كَشفِينِ O (سورة الشعراء : (۸) - اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (خدا) مجھے شفا دیتا ہے.-٥ وَلَوَجَعَلْنَهُ قُراناً اَعْياً تَقَامُوا لولا فضلت الله وَاعْجَمِي وَعَربي ، قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاء وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرُ وَ هُوَ عَلَيْهِمْ عَلَى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مكان بعيده ) سورة حم مسجد ۵، ۴۵) ترجمیہ ، اور اگر ہم اس قرآن کو اعجمی بناتے تو وہ (مکہ والے) کہتے.اس کی آیتیں کھول کر نہیں بیان کی گئیں.کیا اعجمی زبان اور عربی نبی کوئی بھی مشابہت رکھتے ہیں ؟ تو کہ دے وہ مومنوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے.اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے اُن کے کانوں میں بہرا پن ہے اور اس کی حقیقت ان پر مخفی ہے.وہ لوگ ایسے ہیں جیسے کسی کو دور کی جگہ سے پکارا جائے.4.- قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمُ وَيُخْزِهِمُ وَيَنْصُرُكُم
۲۶۰ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (سورة التوبه (۱۴) ترجمہ و ان سے لڑو.اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دلائے گا اور ان کو رسوا کرنے گا.اور تمہیں ان پر غلبہ دے گا اور اس ذریعہ سے مومن قوم کے دلوں کو صدمہ اور خوف سے) سنجات دے گا.انحضرت دم کرنے کے لئے یہ دعا پڑھا کرتے تھے.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی آدمی کسی شے کی شکایت کرتا.پھوڑا ہوتا یا زخم - تونبی کریم اپنی انگلی سے یوں کرتے.رادی نے اپنی انگلی زمین پر رکھی اور پھر اُٹھائی اور فرماتے بِسْمِ اللهِ مُربَةُ اَرْضِنَا مرئيّة بَعْضِا ليشفى بِهِ سَفِينَا بِإِذْنِ رَ بنَا مسلم کتاب السلام باب استجاب رقیة المريض اللہ کے نام کے ساتھ یہ مٹی ہماری زمین کی ہے.ہمارے بعض کے لعاب کے ساتھ ملی ہوئی ہے.تاکہ شفا دیا جائے.اس کے ساتھ ہمارا بیمار ہمارے رب کے حکم کے ساتھ.۱۳.بے ہوش آدمی کی بھی عبادت اور تیمار داری واجب ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں ایک بار بیمار ہوا تو میت و پاس نبی کریم اور حضرت ابو بکر عیادت کے لئے تشریف لائے.دونوں پیادہ پا تھے.دونوں نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا تو نبی کریم نے وضو کیا.پھر وضو کا بچا ہوا پانی مجھے پر چھڑ کا جس سے مجھے ہوش آگیا.میں نے دیکھا کہ نبی کریم ہیں.میں نے عرض کیا.یارسول اللہ میں اپنے مال کو کیا کروں تو آپ نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی.يُوصِيبُكُمُ اللهُ فِي اولادكو استخاری کتاب المرضى باب عيادة المغشى عليه )
عبد اللہ بن ثابت جب بیمار ہوئے حضور ان کی عبادت کو گئے تو ان پر غشی طاری تھی آواز دی دو سن نہ سکے، فرمایا.افسوس البو الربیع.تم پر سہارا زور اب نہیں چلتا.یسن کہ عورتیں بے اختیار چیخ اٹھیں اور رونے لگیں.لوگوں نے روکا.آپ نے ارشاد فرمایا.اس وقت رونے دو.مرنے کے بعد البتہ رونا نہیں چاہئیے.عبد اللہ میں ثابت کی لڑکی نے کہا مجھ کو ان کی شہادت کی امید تھی.کیونکہ جہاد کے سب سامان تیار کر لئے تھے.آپ نے فرمایا.ان کو نیت کا ثواب مل چکا.(ابو داؤد کتاب الجنائز باب في فضل من مات بالطاعون ) -۱۴ عورتوں کا مردوں کی عیادت کرنا جائز ہے.حضرت اُم در دائر نے ایک انصاری مرد کی عبادت کی جو مسجد میں رہتے تھے.-in د بخاری کتاب المرضى باب عيادة النساء الرجال) حضرت عائش یہ کا بیان ہے کہ جب نبی کریم مدینہ میں تشریف لائے تو حضرت بو بکر اور حضرت بلال کو بہت تیز بخار ہوگیا تو وہ دونوں کی عبادت کو گئیں اور پوچھا انے والد بزرگوار یا آپ کا کیا حال ہے ؟ اور اسے بلال ! آپ کا کیا حال ہے؟ د بخاری کتاب المرضى باب عباده العشاء الرجالی) دا.مریض کے پاس اس کی طبیعت یا بیماری کے مطابق تحفہ پھل یا کھانا لے کر جانا بھی محبت و مودت کے تعلق میں مزید اضافہ کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے.تم آپس میں تھے دیا کرد.باہم محبت بڑھے گی.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو خوشبو دار گھاس یا پھول دیا جائے.اس کو رد نہ کرے کیونکہ یہ سبک اور خوشبو دار چیز ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد دوئم ص ۳۲ مطبع میهمینه مصر)
مریض کے پاس جا کر زیادہ باتیں اور شور نہیں کرنا چاہیئے اور اگر مریض کہے کہ میرے پاس سے اُٹھ کر آپ چلے جائیں تو بغیر بُرا منائے اٹھ کر چلے جانا چاہیئے، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آنحضرت کی وفات سے دو تین دن قبل گھر میں بہت سے لوگ تھے جن میں حضرت عمر بن خطاب بھی تھے حضور نے فرمایا.کاغذ لاؤ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں.تاکہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نبی کریم کو درد کی سخت تکلیف ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے.اس وقت حاضرین میں اختلاف ہوا.اور جھگڑنے لگے.......اور جب شور حضور کے پاس ہونے لگا تو آپ نے فرمایا.یہاں سے اُٹھ جاؤ.د بخاری کتاب المرضى باب قول المريض قومواعتی) " پس معاشرہ میں محبت کی فضا کو قائم رکھنے اور یک جہنی پیدا کرنے کے لئے بیمار کی تیمار داری کرنا بہت ضروری ہے.یہ وہ مقدس مذہبی فریضہ ہے جس پرعمل کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو حاصل کر لیتا ہے.اور جنت میں اپنا گھر بنا لیتا ہے اور ملائکہ کی دعاؤں سے فیض یاب ہونے لگتا ہے.پس تمہیں چاہیے کہ ہم اس فریضہ کی ادائیگی میں کبھی کو تا ہی نہ برتیں.بلکہ اپنے بھائی بندوں کی تکلیف کی گھڑیوں میں ان کے دکھ بانٹیں.اور ان کے لئے ہمیشہ دعا گو ہوں تا خدا کے قرب کا شرف حاصل کر سکیں.آمین
تعزیت کے آداب موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو قرار نہیں.قرآنی ارشاد كُل نفس ذائقة الموت کے مطابق ہر جان کو موت سے ہمکنار ہوتا ہے جبوت انسان کے لئے دوسرے عالم میں جانے کا ایک دروازہ ہے.جس سے ہر ذی رح کو گزرنا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کی موت مقررہ وقت پر خدا تعالے کی تقدیر اور حکمت کے مطابق ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالے سورۃ الحدید میں فرماتا ہے.ما أَصَابَ مِنْ مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي انْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتب منْ قَبْلِ أَن شَبْعَاهَا إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللهِ يَسيره لكيلا تا سوا عَلى مَا فَاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِمَا أتكم والله لا يُحِبُّ كُل مُختَالٍ فَخُورِه (سورۃ الحدید : ۲۴۰۲۳) b ترجمه و زمین میں کوئی مصیبت نہیں آتی اور نہ تمہاری جانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے لیکن اُس کے ظہور سے پہلے ہی ہم نے اسے مقرر کر دیا ہوتا ہے.یہ بات اللہ تعالے کے لئے بالکل آسان ہے تاکہ تم کو اپنی کوتا ہی پر کوئی افسوس نہ ہو اور نہ اس پر تم خوش ہو جو اللہ تم کو دے دے اور اللہ کسی سینی خود سے اکٹر باز کو پسند نہیں کرتا.مصائب اور مشکلات کے نزول کے وقت اسلام صبر اور دعا کی تعلیم دیتا ہے.اور یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے.
۲۶۴ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں.اگر ایک مسلمان کو دکھ یا تکلیف ہو تو تمام مسلمان اس کے دکھ اور درد کی وجہ سے غم میں مبتلا ہو جاتے ہیں.دُکھ کی ان انتہائی تکلیف دہ گھڑیوں میں ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دکھی بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کے ساتھ تعزیت کرے.تعزیت سے مراد ہے مرنے والے کے عزیزوں سے ہمدردی کرنا.جب تعربیت کے لئے جائیں تو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے.جب کسی کی موت کی خبر نہیں تو اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے الفاظ کہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں.(ابو داؤد کتاب الجنائز باب فی الاسترجاع ) جو شخص مصیبت کے وارد ہونے پر سچے دل سے یہ الفاظ انا لله وانا إلَيْDOWNLOAD NAW کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کے دکھوں کا ازالہ کسی اور کہ جنگ میں فرما دیتا ہے.اور ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے.اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے.وبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لله وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ، أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَونَ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمة وأوليككَ هُمُ المُهتَدُونَ.سورة البقره : ۱۵۶ ۱۵۷) ترجمه در اور تو ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں اور رحمت نازل ہوتی ہے.اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.
۲۷۵ ۲.تعزیت کے لئے مرحوم کے رشتہ داروں کے پاس جانا چاہیے اور انہیں تستی دینی چاہئیے.اور صبر کی تلقین کرنی چاہیئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی مثالیں دے کر انہیں دلاسہ دینا چاہیے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رقیق القلب تھے.اعزہ کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوتا تھا.آپ ان کے گھروں میں تشریف لے جاتے تھے اور انہیں صبر کی تلقین فرماتے.حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی نے ایک آدمی کو بھیج کہ آپ کو بلا بھیجا اور کہلایا کہ بچہ حالت نزع میں ہے.آپ نے اسی آدمی سے کہا.واپس جاؤ اور کہدو کہ اللہ تعالیٰ کا ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا.ہر چیز اس کے نزدیک ایک وقت مقرریک ہے.اسے کہو کہ صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو.مسلم کتاب الجنائز باب البكاء على الميت قرآنی ارشاد واصْبِرُ عَلى مَا أَصَابَكَ جو تجھے تکلیف پہنچے اس پر صبر کر ( سورة لقمان : ۱۸ کے مطابق تکلیف پر صبر سے کام لینا چاہیے.کیونکہ خدا تعالے صابرین سے محبت رکھتا ہے اور ان کا دوست بن جاتا ہے.(۳) میت کے پاس جب بیٹھے ہوں تو بجز خیر کے کلمات کے دوسری باتیں نہیں کرنی چاہئیں.حضرت اُم ساریہ سے روایت ہے جب نزع کے وقت ابو ساریہ کی آنکھ کھل گئی اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے.آپ نے اس کی آنکھ بند کی اور فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو آنکھ اس کے تابع
ہوتی ہے.گھر والے رونے لگے تو فرمایا کہ تم اپنے نفسوں پرنہ بکر خیر کے دوسری دُعامت کرو.کیونکہ فرشتے جو کچھ تم کہتے ہو.اس پر آمین کہتے ہیں.پھر آپؐ نے فرمایا.اسے اللہ ابو ساریہ کو بخش اور اس کا درجہ ان لوگوں میں بلند کر جن کو ہدایت کی گئی ہے اور اس کے پچھلوں میں تو اس کا خلیفہ ہو.اور ہم کو اور اس کو اے رب العالمین بخش اور اس کے لئے اس کی قبر میں فراخی دے اور اس کی قبر میں اس کے لئے روشنی کر.ا مسلم کتاب الجنائز باب ما يقال عند المريض والمبيت واعماص المبيت) میت کا ذکر خیر کرنا چاہیے.حضور نے فرمایا.جو شخص میت کو نہلائے اور اس کی پردہ پوشی کرے.اللہ تعالے اس کی چالیس بار مغفرت کرتا ہے.(مسلم) تعزیت کے لئے جائیں تو وہاں فضول باتیں نہ کریں اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت یا بات کریں جس سے مرحوم کے اعزہ کو یہ خیال گزرے کہ یہ لوگ ہمارے دُکھ میں شریک ہونے نہیں آئے بلکہ معنی رسما آئے ہیں.- جزع فزع کرنا اسلام میں منع ہے.تعربیت کے وقت چھاتی کوٹنا، سر کے بال کھول کر رونا اور چلانا ، گریبان پھاڑنا اور بے مہری کے کلمات کہنا سب جاہلیت کی رسمیں ہیں.جھوٹا دیکھا گیا ہے کہ ماتم پرسی کرنے والے ہمسائے اور رشتہ دار صبر کرنے کی تلقین کرنے کی بجائے مرحوم کے اعزہ کے ساتھ مل کر رونے پیٹنے میں شریک ہو جاتے ہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ ان باتوں سے اللہ تعالٰے اور اس کا رسول ناراض ہو جاتے ہیں.اور انسان کا ایمان اور ثواب ضائع ہو جاتا ہے.حضور نوحہ اور ماتم کو نا پسند فرماتے تھے.حضرت جعفر جو آپ کے چچازاد بھائی تھے.اُن سے آپ کو بہت محبت تھی.جب ان کی شہادت کی خبر آئی.تو آپ مجلس ماتم میں بیٹھے.اسی حالت میں کسی نے کہ کہا کہ جعفر کو عورتیں رو رہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ جاکرہ منع کر دو.وہ گئے اورایس
آکر کہا کہ میں نے منع کیا لیکن وہ باندہ نہیں آتیں.آپ نے دوبارہ منع کر بھیجا.پھر بھی وہ باز نہ آئیں.سہ بار منع کرنے پر بھی جب وہ نہ مانیں تو فرمایا کہ جاکر ان کے منہ میں خاک ڈال دو.استخاری کتاب الجنائز باب النهي عن النوح والبكاء) حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے چلانے والی اور سننے والی عورت پر لعنت کی ہے.(ابو داؤد کتاب الجنائز باب في النوح ) حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صل للہ علی کلم نے فرمایا کہ وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کا ساچلانا چادے.اسلم کتاب الایمان باب تحریم ضرب الحدود وشق الجنوب والدعاء بدعوى الجاهلية) حضرت ابی مالک اشعری کا بیان ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میری امت میں سے چار باتیں گھر کی باتوں میں سے میں لوگ ان کو نہیں چھوڑتے.ان میں سے آپ نے چلا کر رونے کا ذکر فرمایا کہ اگر ملا کر رونے والی عورت نے اپنے مرنے سے قبل تو بہ نہ کی توقیامت کے دن اس حالت میں اُٹھے گی کہ اس کا لباس تارکول کا ہو گا اور اوڑھنی خارش کی ہوگی.السلم كتاب الجنائز باب تحریم النياحة) حضرت ابن عمر سے دو ایسے کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم نے اس جنازہ کے ساتھ جانے سے منع فرمایا جس کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی عورت ہو.از این ما چیه ابواب الجنائز باب تحریم النياحة) حضرت ابو یہ درہ کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انا برى ممَّنْ حَلَقَ وَصَلَقَ وَخَرَقَ مسلم کتاب الایمان باب تحریم ضرب الخدود وشق الجيوب)..
YYA کہ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو سر کے بال نوچے اور آوازہ نکال کر روئے اور گریبان پھاڑ ہے.بعض لوگوں میں یہ جاہلانہ رسم بھی ہے کہ خود کرنے والا اپنے عزیز و اقارب کو رونے پیٹنے کی تحریک کر جاتا ہے.ایسے مردے پہ اور اس پر نوحہ کرنے والے کو بھی عذاب دیا جائے گا.حضرت مغیرہ بن شعبہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منا فرماتے تھے جس مُردہ پر نوحہ ہوا.قیامت کے دن اسی بات کے ذریعہ اسے عذاب دیا جائے گا.ریعنی جو بات بیٹھنے والی عورت کہتی تھی.وہی بات قیامت کے دن فرشتے کہ کہہ کر عذاب دیں گے کہ تو ایسا تھا.ایسا تھا.) ا مسلم کتاب الجنائز باب الميت لعنب بيگاه اصله) 4 غم ایک قدرتی احساس ہے جو کسی کی تکلیف اور دکھ کو دیکھ کر انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے.غم کی وجہ سے انسان کا دل بوجھل ہو جاتا ہے اور آنسو بہنے لگتے ہیں.آنر بہانے سے عذاب نازل نہیں ہوتا.اللہ تعالے اس غم سے منع کرتا ہے جس سے انسان کے جو اس ختم ہو جائیں اور اس کی غفل ماری جائے اور کام کرنے کی قوت مفلوج ہو جا.حضور اکرم کی الہ عیہ وسلم اسے بڑھ کر شعیق درحیم تھے یہ آپ کی آنکھیں کسی کی تکلیف دیکھ کر بے ساختہ آنسو بہانے لگیں.حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ کی عبادت کی.آپ کے ساتھ عبد الر حمن بن عوف سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن مسعود تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور آپ کو روتے دیکھ کر اور لوگ بھی رونے گئے.آپؐ نے فرمایا.کیا تم سنتے نہیں.اللہ تعالے آنسو بہانے سے اور دل غمگین ہونے پر عذاب نہیں کرتا.ہاں زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.اس وجہ سے عذاب
۲۶۹ کرتا ہے یا رحم.حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم امسلم کتاب الجنائز باب البكاء على المبيت) کے پاس اس کی نزع کے وقت تشریف لائے.آپؐ کے آنسو نکل آئے.عبدالرحمن بن عوف نے کہا رسول اللہ.آپؐ اور یہ حالت ؟ فرمایا.یہ تو رحمت ہے.پھر اس کے بعد دوسری بار آنسو نکلے تو فرمایا.ال العين تدمعُ وَالقَلْبُ يَحْزُنُ وَلَا تَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى ربُّنَا وَ إِنَّا بِعاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمَ لَبَحْرُ وَنُونَ دستیخاری کتاب الجنائز باب قول البنى انا بك لمخرولون) آنکے آنسو بہاتی ہے.اور دل غمگین ہے اور ہم وہی بات کہتے ہیں جس سے ہمارا رب رامنی ہو.اور اسے ابراہیم.ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں.حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا لڑکا حالت نزع میں آپ کے پاس لایا گیا.اسے دیکھ کر رسول کریم ملالہ یک کم کی آنکھوں میں پانی بھر آیا.سعد نے کہا یا رسول اللہ ! یہ کیا ؟ آپ نے فرمایا.یہ اللہ کی رحمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے.اور اللہ تعالے نرم دل رحم کرنے والے بندوں پر رحمت کرتا ہے.امسلم کتاب الجنائز باب البكاء على المبت) ہے.اسلام ہمدردی کا مذہب ہے.جب کسی بھائی یا ہمسائے کے گھر ماتم ہو جائے تو برادرانہ ہمدردی کی راہ سے کھانا تیار کر کے اس کے گھر بھجوایا جائے.حدیث میں آتا ہے.حضرت عائشہ بلینسر جو ایک قسم کا کھانا ہے اور جسے حضور بھی بہت پسند فرماتے تھے ، تیار کر کے اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھجوایا کرتیں تھیں.(بخاری کتاب الطب باب التلبينة)
۲۷۰ -A - تعربیت کے لئے جائیں تو موت فوت کے متعلق بدعات اور رسومات سے قطعی پر ہیز کریں.مجلس فاتحہ خوانی قل خوانی دجو مرنے والے کی وفات کے تیسرے دن کی جاتی ہے) میں شامل نہ ہوں.یاسر بنتا ہیں.سول کریم صلی الہ علیہ وسلم آپ کے خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کے زمانے میں ان کی کوئی سند نہیں ملتی.آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (مسلم كتاب الجمعة باب خطيبته في الجمعة ) کہ ہر بدعت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے بدعت کے بے پناہ داغوں نے آج مسلمانوں کو گمراہی کے راستوں کی طرف دھکیل دیا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ میت کو صرف دُعا اور صدقہ پہنچتا ہے.تعزیت کے لئے جائیں تو عورتوں کو چاہیے کہ وہ جنازوں کے ساتھ نہ جائیں.حضرت ام عطیہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ ہمیں جنازوں کے پیچھے پیچھے جانے سے منع کیا گیا.مگر اس باب میں ایسا تشدد نہیں کیا گیا.ر مسلم کتاب الجنائز باب النهي النساء عن اتباع الجنائية ) جنازہ کے ساتھ توجہ اور ماتم کرتے ہوئے جانا ایک نہایت نازیبا حرکت ہے اسلام نے اس سے روکا ہے.حضور نے تو اس جنازہ کے ساتھ صحابہ کو جانے سے منع کر دیا جس پر کوئی صورت نوحہ کر رہی ہو.ر این ماجه ابواب الجنائز باب في النهي عن النياحة) جنازہ جب جائے تو تعظیماً کھڑے ہو جانا چاہیئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازہ جاتا تو کھڑے ہو جاتے تھے.بخاری میں روایت ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جنازہ جاتا ہو تو اس کے
ساتھ جاؤ.ورنہ کم از کم کھڑے ہو جاؤ اور اس وقت تک کھڑے رہو کے جنازہ سامنے سے نکل جائے.ربخاری کتاب الجنائز باب متى يقعد اذا قام الجنازة)
۲۷۲ سفر کے آداب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے سرفرانہ کیا.اور اسے ان گنت نعمتوں سے نوازا.اُس نے انسان کے سفر کو آسان کرنے کے لئے سواری دنیا کی.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَالَّذِي خَلَقَ الأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ تَكُو مِنَ الْفُلْكِ وَالاَنْعَامِ مَا تَرَكَبُونَ.(سورة الزخرف : ۱۳) اس نے تمہارے لئے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے ہیں.اور اُس نے تمہارے لئے کشتیاں بنائیں اور چوپائے پیدا کئے.جن پر تم سوار ہوتے ہو.دینی و دنیاوی نعماد سے متمتع ہونے کے لئے انسان سفر اختیار کرتا ہے اور بسا اوقات وہ سیر و تفریح اور عبرت اور تجربہ حاصل کرنے کے لئے بھی سفر کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے.سِيرُوا فِي الأَرضِ (سورة ال عمران : (۱۳۸) (النحل : (۳۷) (النمل (۷۰) (الانعام :۱۲) (العنکبوت : (۲۱) (المردوم ۴۳۰) کہ تم زمین میں گھو مو پھیرو.آئے قرآنی ارشادات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے استفادہ سے راہ پاتے ہوئے سفر کے آداب سیکھیں.کوشش کی جائے کہ سفر دن کے پہلے پہر میں کیا جائے.
٢٤٣ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حج ، عمرہ اور زیادہ تر جہاد کی وجہ سے سفر کی ضرورت پیش آتی تھی.آپؐ سفر کے لئے صبح کے تڑکے روانہ ہوتے اور افواج کو بھی صبح صبح روانہ فرماتے تھے.حضرت محربن وداعہ منہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ ! میری اُمت کے لئے ان کے دن کے پہلے پہر میں برکت دے.اور جب کوئی سریہ یا لشکر بھیجتے تو پہلے پہر کو روانہ فرماتے.را ابو داؤد كتاب الجهاد باب الابتكار في السفر) جمعرات کے دن اگر ممکن ہو تو سفر اختیار کیا جائے.کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے روز سفر کرنا پسند فرماتے تھے.حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے سوا کم ہی سفر کو نکلتے تھے.ابخاری کتاب الجهاد باب من اراد غزوة قورى بغيرها.حضرت عروہ کا بیان ہےمیں نے سول کریم ال علی کل سے عمر کی اجازت مانگی کہ چین آپ نے مجھے اذن دیا اور فرمایا.پیارے بھائی اپنی دعاؤں میں ہیں نہ بھولنا.یہ آپ نے ایسا محکم فرمایا کہ اس کے عوض تمام دنیا مل جائے تو بھی مجھے ایسی خوشی نہ ہو.و ترندی ابواب الدعوات احادیث کشتی فی ابواب الدعوات) حضرت این کمر سے روایر ہے کہ رسول کریم صل ال علی وسلم جب فر فرماتے اور رات ہو جاتی تو یہ کلمات فرماتے يا اَرْضُ رَبّى وَكتك الله اَعُوذُ بالله مِن شَرِك ما فيك وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ وَثَر مَا يَدُبُّ عَلَيْكِ اَعُوذُ بِالله بِكَ مِنْ أسَدِوَ اَسْوَدَ وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ سَاكِنِي الْبَلَدِ وَ مِنْ
والد وما وُلِدَ - ر ابو داؤد کتاب الجہاد باب ما يقول الرجل اذا نزل المنزل) ترجمہ اے زمین میرا اور تیرا رب اللہ ہے.میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی تیری برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو تجھے میں ہے.اور پناہ مانگتا ہوں اس شرارت سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے.اور جو تجھ پر چلتی ہے.میں پناہ مانگتا ہوں شیر اور کا لے سانپ اور بچھو کے شر سے اور زمین کے رہنے والوں سے اور والد اور مولود سے حضرت خولہ بنت حکیم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی العلی ولا مینا کہ جو شخص منزل میں اتر نے اور کہے اعوذ بكلماتِ الله الثامَاتِ مَنْ شَرِّ مَا خَلَقَ اسلم كتاب الذكر باب القوذ من سوء القضا و درک اشفا وشره میں اللہ کے کلمات کاملہ کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں.ان تمام چیزوں کے شرسے ہو اس نے پیدا کی ہیں اسے کوئی چیز مضر نہیں دیتی.وس سواری پر پڑھتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنی چاہیے.پھر سوار ہو کر تین بازنجیر اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے ، کہنی چاہیے پھر یہ قرآنی دعا پڑھی جائے.بحْنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ دانا إلى ربنا لنقَلِبُونَ (سورة الزخرف : ۱۵۱۴) ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے تابع کر دیا.حالانکہ ہم اس کو جکڑنے والے نہ تھے.اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے وانے ہیں.قرآن مجید میں سواری پر چڑھنے کے لئے یہ دعا بھی آئی ہے جو حضرت نوح کو اللہ تعالے نے سکھائی تھی.
۲۷۵ لمِ اللهِ مَجْرٍ هَا وَمَن سُهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيدُه (سورۃ ہود : ۴۲) اس (سواری) کا چلنا اور اس کا ٹھہرایا جانا اللہ تعالے کے نام کی برکت سے ہو گا.میرا رب یقینا بہت ہی بخشنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سواری آتی اور رکاب میں قدم مبارک رکھتے تو بسم اللہ کہتے اور جب زمین پر سوار ہو جاتے تو تین بار ہجیر کہتے.اس کے بعد یہ آیت پڑھتے.سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَ مَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ وإنا إلى ربنا لمنقلبون.(سورة الزخرف : ۱۵۱۱۲) پھر یہ دعا کرتے اللَّهُمَّ اِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا البِرَّ وَالتَّقوى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوْنَ عَلَيْنَا فِي سَفَر نَا هَذَا وَاهُو عَنَا بَعْدَهُ اللَّهُمَّ اَنتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفْرِفَ الْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ اللهُمَّ إِلى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعَشَاء الشَّعَرِ وَكَابَة المَنظر وَسُوءِ الْمُنقَلبِ فِى الْمَالِ وَالْاَهْلِ وَالولد مسلم کتاب الحج باب ما يقول اذاء کب علی سفر الحج) توجمہ: اے اللہ ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ مانگتے ہیں اور وہ عمل جس سے تو راضی ہو جائے.اے اللہ ! ہمارے اس سفر میں تو ہمارے لئے آسانی پیدا کر.اور اس کی دُوری اور مسافت ہمارے لئے پیٹ دے.اے اللہ ! تو ہی اس سفر میں ہمارا ساتھی اور تو ہی ہمارے گھر والوں کے لئے ہمارا قائمقام ہے.اے اللہ ! میں تجھ سے اس سفر کی شدت سے
پناہ مانگتا ہوں اور میرے منظر سے اور گھر بار کی طرف گبری واپسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں..دوران سفر بھی دعائیں مانگتا رہنا چاہیے.کیونکہ سفر میں کی گئی دعائیں بولیت کا رنگ اختیار کر لیتی ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک ذکر الہی سے تو رہتی اور سفر میں آپ کثرت سے دعائیں مانگا کرتے تھے.حضرت عبد اللہ بن برجس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو سفر کی شدت اور پھرنے کے رنج اور زیادتی کے بعد نقصان احق ہونے اور مظلوم کی دعا اور اہل و مال میں بری نظر سے تعوذ کیا کرتے تھے.(مسلم کتاب الحج استحباب الذکر ازار کعب دابته) حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تین دعائیں بہایہ قبولیت جگہ پاتی ہیں.مظلوم کی دعا.مسافر کی دعا.اور باپ کی بکہ دھا بیٹے کے خلاف.(باپ کی دعا بیٹے کے حق میں) ترمذی ابواب الدعوات باب ما حباء في دعوة المسافر) -0 سفر میں اگر کوئی بلند جگہ آئے یا کسی چوٹی پہ چڑھیں تو تجیر یعنی اللہ اکبر " کہنی چاہیے.اور جب نیچے اتریں تو تسبیح کرنی چاہیئے.حضرت جابر سے روایت ہے کہ جب ہم بلند جگہ پر چڑھتے تھے تو تبجیر کہتے اور جب نیچے اُترتے تو تسبیح کہتے.بخاری کتاب الجهاد باب التسبيح اذا احبط دادیا) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.ایک شخص نے کہا.یا رسول اللہ ! ہمیں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں.آپ مجھے وصیت فرمائیے.فرمایا.تجھے لازم ہے کہ
اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور جب کسی بلندی پر چڑھے تو ہجیر کہے جب اس نے پیٹھ پھیری تو فرمایا.اَللَّهُمَّ اهوِلَهُ الْبُعْدَ وَهَونَ عَلَيْهِ السَّفَرَ.ترندی ابواب الدعوات باب ماذا يقول اذاد دع انسانا) اے اللہ ! اس کے لئے مسافت کو لپیٹ دے اور سفر اس پر آسان کرے.-4 بسفر میں کثرت سے استغفار کرنی چاہیئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں استغفار کرتے اور یہ دعا مانگتے تھے.سُبْحَانَكَ إِلى ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُنُوب الا انت.ا بو داد و کتاب الجهاد باب مالقول الرجل اذا ركب) اسے اللہ تو پاک ہے.میں نے اپنی جان پر کلم کیا.پس تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا اور کوئی گناہ بخشنے والا نہیں.جب کسی آبادی میں داخل ہوں تو دعا پڑھنی چاہیئے.جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آبادی میں داخل ہونا چاہتے تو یہ عاپڑھتے.اللَّهُمَّ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبِيعِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَرَبِّ الأَرضين البيع وَمَا اَقْلَكن وَرَبِّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَهْلَانَ وَرَبٌ الرِّيَاحِ وَمَا زرين اسألكَ خَيْرَ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَخَيْرَ أَهْلِهَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ اهْلِهَا وَشَرِّ مَا فِيْهَا - (المستدرک للی کم جلد نمبر ص ۲۴۶ کتاب المناسك الدعاء عند رؤية قرية سميد دخوله) اے اللہ ! اے ساتوں آسمانوں اور اُن تمام چیزوں کے پر ور دگار جن پر وہ سایہ انگن ہیں.اے ساتوں زمینوں اور ان تمام مخلوقات کے پیر ویہ دیگار
۲۷۸ جو ان پر موجود ہیں.اے شیاطین اور اُن تمام نفوس کے پر ور دگار جن کو وہ گراہ کرتے ہیں.اے ہوا اور اُن تمام چیزوں کے پروردگار جن کو وہ اڑاتی ہیں.میکس مجھ سے اس گاؤں اور اس گاؤں کے رہنے والوں کی بھلائی کی درخواست کرتا ہوں.اور اس گاؤں اور اِس گاؤں کے رہنے والوں کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچتے تو پہلے مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا فرماتے.د بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک ) اگر ہو سکے تو گھر میں سفر سے اپنی واپسی کی اطلاع بھجوائی جائے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر میں اپنے آنے کی اطلاع دیتے اسی طرح آپ نے صحابہ کراہیم کو حکم دیا تھا کہ وہ سفر سے آنے کے ساتھ ہی گھر کے اندر نہ چلے جائیں تاکہ عورتیں اطمینان کے ساتھ سامان درست کرلیں.رابو داؤد کتاب الجہار باب في الطروق) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے بہت دنوں تک گھر سے جدا رہے تو رات کو اپنے گھر والوں کے پاس نہ آئے.- A اسلم كتاب الاماراة باب كراهة الطروق وصوالا حول ليبلا لمن درد من السفر) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور گھر میں پہلے یا پچھلے پہر آیا کرتے تھے.مسلم کتاب الاماراة باب کراهته الطروق وهو الا خول لیبل المن درد من السفر -9 رات کے وقت اگر کسی جگہ پر پڑاؤ کرنا پڑے تو راستہ کے کنارے پر بہ ظہر ا جائے بلکہ راستہ سے ہٹ کر فروکش ہوا جائے.و حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے."
۲۷۹ اور جب تم رات اتر و.تو رستہ سے کنارہ پر ہو کر.کیونکہ وہ چھپاؤں اور حشرات الارض کی جگہ ہے.اسلم كتاب الامارۃ باب مراعاة مصلحة الاداب في السير) ۱۰.سفر کے دوران کسی جگہ پر اگر قیام کرنا پڑے تو پھر اکٹھے ہی ایک جگہ ٹھہرا جائے.نہ کہ متفرق ہو کر جگہ جگہ قیام کیا جائے.حضرت ابو ثعلبہ کا بیان ہے کہ لوگ جب کسی منزل میں فروکش ہوتے تو پہاڑوں کے دروں اور نالوں میں متفرق اور منتشر ہو کر ان پڑتے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تفرقہ ایک شیطانی حرکت (غلطی) ہے.اس کے بعد لوگ اُترتے تو ایک دوسرے سے متصل ہو گراتی ہے.را ابو داؤ د كتاب الجهاد باب ما لو مر من النضمام العسكر) دلا.رات کے وقت اکیلے میں سفر کرنے سے پر ہیز کر نا چاہیے.حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر لوگ تنہا چلنے میں نقصان جانتے جیسا میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات کو تنہا نہ چلے.(بخاری کتاب الجهاد باب السیر وحده ) حضور فرماتے تھے کہ تین سوار سوار ہیں.د ترندی ابواب الجهاد باب ما جاء فی کر امیتر ان عیسافر الرجل وحده) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضورہ فرماتے تھے کہ بہترین ساتھی چار ہیں.(ابوداؤ د کتاب الجهاد باب فيما يستحب من الجيوش والرفقاء والسرايا ۱۴- تین آدمی اگر سفر کریں تو چاہیے کہ ایک آدمی کو اپنے میں سے امیر مقر کر لیں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جب تین آدمی سفر کو نکلیں تو لازم ہے کہ ایک کو اپنا امیر بنالیں.دا بو داد و کتاب الجہاد باب فی القوم لیسافرون یؤمرون احدهم )
۲۸۰ ۱۳- سفر میں زادِ راہ ساتھ لے جانا چاہیے.لیکن یاد رکھنا چاہیے.اِن خَيرَ الزَّادِ التَّقْوى (سورة البقره : ۱۹۸) کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.اور کہا یا رسول اللہ ! آپ مجھے زاد راہ عطا کیجیئے ؟ فرمایا زَوَدَكَ اللهُ التَّقُوى رتمندی ابواب الدعوات باب ما جاء ما لقول اذا ور درع انسانا) الله تقومی کو تیرا نداد راہ کرے.-۱۴- دوران سفر اپنے دوسرے مسافر بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ان کی مدد کرنا.ان کو کھانے میں سے دینا ان کا حق بنتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.وَاتِ ذَا الْقُرُ فِى حَقَهُ وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلا تُجدد تبذيرا - (سورة بنی اسرائیل ، ۲۷) اور تو قریبی رشتہ دارہ کو اس کا حق دے اور مسکین کو اور مسافر کو.اور و اسکا.فضول خرچی نہ کر.ابوسعید الخدری کا بیان ہے کہ ہم سفر میں تھے.جو ایک آدمی اونٹ پر آیا.اور دائیں بائیں دیکھنے لگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس کے پاس سواری زائد ہو اسے دیدے اور جس کے پاس سواری نہیں کھانا زائد ہے تو وہ اسے دیدے.اسی طرح آپ نے متعدد چیزیں گنوائیں.یہاں تک کہ ہم سمجھے.زائد مال میں ہمارا کچھ حق نہیں.سلم کتاب اللقطة باب استجاب المواساة لفضول المال)
حضور دوران سفر صحابہ کرام کا خیال رکھا کرتے تھے حدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ ملک سلم سفر میں چلتے پیچھے ہو جایا کرتے.کمر اور سواری کو ہانکتے اور کسی کو اپنے پیچھے چڑھا لیا کرتے اور ضعیف کے لئے دعا کرتے.ارا بود او د کتاب الجہاد باب في المزوم الساقة) حضرت جابہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ کا ارادہ کیا.پس فرمایا.اے مہاجرو! اے جماعت انصار تمہارے بھائیوں میں سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس مال نہیں اور نہ ان کی برادری ہے پس مناسب ہے کہ تم میں سے ہر ایک دو دو، تین تین آدمی اپنے ساتھ ملالے پس ہم میں سے کسی کے پاس سواری نہ تھی.مگر یہ کہ ایک دوسرے کے بعد باری باری سوار ہوتے تھے.(ابو داؤد کتاب الجہاد باب الرجل تجمل بمال غيره يغزوا) ۱۵ - جس مقصد کے لئے سفر اختیار کیا گیا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو جلد گھر واپس لوٹ آنا چاہیے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سفر عذاب کا کیڑا ہے.تم کو کھانے پینے سونے سے روکتا ہے.سو جب اپنا مطلب پورا کر لو تو گھر کو واپس آنے میں جلدی کیا کرو.014 دبخاری کتاب العمرة باب السفر قطعة من العذاب) سفر کے دوران بھی نماز ادا کرنی ضروری ہے.سفر میں اگر پانی نہ ہو تو تیم کے ساتھ ہی نماز ادا کی جائے.سفر میں وتر اور فجر کی دوسنتوں کے علاوہ باقی نہیں معاف ہو جاتی ہیں.نفل پڑھے یا نہ پڑھے یہ انسان کی مرضی ہے.سفر میں نمازہ جمع کرنا بھی جائز ہے.قبلہ اگر معلوم نہ ہو سکے تو جدھر سواری کا رخ ہو اس طرف ہی منہ کر کے نماز پڑھ لینی چاہیے.
۲۸۲ ارشادِ خداوندی ہے.ايما تُوَلُو الثَّمَّ وَجُدُ اللهِ (سورة البقره : ۱۱۶) ترجمہ ا کہ جہاں کہیں تم پھرو گے وہاں اللہ کی توجہ ہوگی.اگر مسافر کا پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو ظہر - عصر اور عشاء کی نماز کے چار فرضوں کی بجائے دو فرض ادا کرے گا.اگر اہم مقیم ہو اور مسافر اس کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہو اس صورت میں سافر کو پوری نماز امام کی اتباع میں پڑھنی ہوگی.اور اگر امام مسافر ہو تو وہ دو رکعت نماز پڑھے گا اور اس کے مقیم مقتدی کھڑے ہو کر بقیہ رکھتیں پوری کر کے سلام پھیریں گئے حضرت ابن عباس سے بڑی ہے کہ رسول خدا صل اللہ علیہ وسلم حالت سفر میں تھانہ ظہر و عصر کو اور نماز مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھ لیا کرتے تھے.د تجرید بخاری حصہ اول (ص ۲۳) حضرت ابن عمر یہ فرماتے ہیں کہیں نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کیا تو سفر میں بہت رہا ہوں گمرہ میں نے آپؐ کو سفر میں نمانہ نفل پڑھتے نہیں دیکھا اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب : ۲۲) ہے تک تمہارے لئے اللہ تعالے کے رسول کے افعال ایک اچھی اقتدا ء ہے تجرید بخاری حصہ اول (۲۳۲) حضرت عامر بن رہیں نہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سول کریم صلی الہ علیہ سلم کو دیکھا کہ آپ رات کو سفر میں اپنی سواری پر نفل نماز پڑھا کر تے تھے.جس طرف وہ جارہی تھی.داگر چہ اس کا رخ غیر قبلہ ہو جاتا) ) تجرید بخاری حصہ اول صب (۲۳۳)
۲۸۳ حضرت انس سے بڑی ہے کہ نبی کریم ملالہ علی کل کے ہمراہ مدینہ سے مکہ پر گئے تو آپ برابر دو رکعت نماز پڑ ھتے رہے.یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ لوٹ آئے کسی نے اس کی نسبت پوچھا کہ آپ نے مکہ میں کتنے روز قیام کیا.آپؐ نے فرمایا.دس روز د تجربه بخاری حصہ اول ص ۲۳) سفیر حج میں رسول کریم صلی علیہ وسلم و حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ یا جماعت نماز قصر ادا کرتے تھے.سبخاری ابواب التقصير الصلوة باب الصلوة بمبنى) ۱۷.عورت کو چاہیے کہ وہ ایک رات اور دن کی مسافت کا سفر بغیر محرم کے نہ کرے.حضرت ابو ہر یہ کہتے ہیںکہ نبی کریم صلی الہ علیہ سلم نے فرمایا جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اُسے جائزہ نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت کا سفر ایسے حال میں کرے کہ اس کے ہمراہ کوئی محرم نہ ہو.دستجرید بخاری حقیقه اول ص ۲۳) ۱۸ به سفر یہ جانے سے پہلے اجتماعی دعا کی جائے اور دعا کے ساتھ وداع کیا جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی شکر روانہ کرتے تو اس کو دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے.لشکر کے امیر کو خاص طور پر اپنے رفیقوں کے ساتھ نیکی کرنے کی ہدایت فرماتے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے.حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمریض سفر کا ارادہ کرنے والے شخص سے کہتے.میرے نزدیک ہو.میں تجھے وداء کروں جیسا کہ رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم ہم کو وداع کیا کرتے تھے.پس آپؐ کہتے.
YAM استودع الله دِينَكَ وَأَمَا نَتَكَ وَخَوَاسْمَ عَمَلِك ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء ما ذا لقول اذا درع انساناً ) میں تیرے دین اور امانت اور تیرے عملوں کے خاتمے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں.حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم جب کسی شکر کو روانہ فرماتے تو انہی الفاظ سے دعا دیتے تھے.را ابو داؤ د كتاب الجهاد باب في الدعا عند الوداع) -19 جب سفر سے واپس لوٹیں تو یہ دُعا پڑھنی چاہیے.اسيون تابونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ مسلم کتاب الحج باب ما توا ليقول اذا رجع من سفر المج) ہم لوٹنے والے ہیں.تو بہ کرنے والے ہیں.عبادت کرنے والے ہیں.اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں.حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آتے تو یہ دُعا پڑھا کرتے تھے.پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سفروں میں سفر کے آداب کو ملحوظ رکھیں اور دعاؤں میں لگے رہیں.اور خدا تعالے سے دین ودنیا کی بھلائی مانگیں.کیونکہ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر ہم مقیم میں تو ہمیں چاہیے کہ ہم مسافر کے ساتھ حسن سلوک کریں.اس کا اکرام کریں.اور اس کا حق ادا کریں.اور اس کی خدمت کریں کیونکہ مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے دُنیا سے فتنے فساد اور منافرت اور جھگڑے سٹ جانے کا موجب بن جاتے ہیں.مسافر کے حق کے متعلق تو حضور اکرم صلی الہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا کہ جب تم کسی بستی میں جاؤ تو تین دن تک کی ضیافت کا تم کو حق ہے.
ا اخلاق حسنه حضرت خلیفة المسیح الرابع کا خطبه ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ و بمقام لندن مقدس ورثه بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی پہلی کتاب سہارا لیکچر سیالکوٹ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب ی چشمه زمزم بچوں کے لئے سیرت نبوئی کے سلسلہ کی دوسری کتاب سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب اس میں تصویروں غنچہ کے ساتھ وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے.لی ضرورة العام اور کچو لدھیانہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں 14 ۲۲ 14 ۴۰ THE NAZARENE HASHMIRI CHRIST" دنیا پور کی مجلس عرفان ۴۰ و قواریر قوامون اصلاح معاشرہ پر کتاب - M - دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب مکمل نماز با ترجمہ ایک با برکت انسان کی سرگذشت حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کے حالات -۱۲ افاضات ملفوظات (طبع دوم) حضرت مسیح موعود کے الملفوظات سے اقتباسات ۱۳- اصحاب فیل بیجوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب.۱۴- بیت بازی در ثمین ، کلام محمود، در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار -۱۵ پانچ بنیادی اخلاق حضرت خلیفہ المسیح الرابع کا خطبہ ۲۴ نومبر شد - تذكرة الشهار مین اور پیغام صلح حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں -۱۷ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے صد ساله تاریخ احمدیت بطرز سوال و جواب -16 -19 فتوحات AA $ 7 } ۲۱۲ ۲۴ ۲۴ ۹۲ ۴۸۰ بے پردگی کے خلاف جہاد جلسہ سالانہ از خواتین سے سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا خطاب ۲۸ واب حیات قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں -۲۲ مجالس عرفان (طبع دوم حضرت خلیفة المسیح الرابع کی مجالس سوال وجواب واقفین کو کے والدین کی رہنمائی کے لئے ۲۲- برکات الدعاء اور سیح ہندوستان میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال وجواب کی شکل میں ۲۵- بدرگاه ذیشان منتخب تعتوں کا مجموعہ صد سالہ جشن شکره نمبر ۱۹۸۹ء المحراب المحراب سودان جا لانہ نمبر ۱۹۹۱ ۲۸ پیاری مخلوق بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلے کی چوتھی کتاب ۲۹ دعوت الی الله BILAL بچوں کیلئے انگریزی میں حضرت سیدنا بلال کی زندگی کے حالات ۳۱ خطبه لقاء SAYYEDNA -۳۲ حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ خطابات حضرت خلیفة المسیح الرابع ۳۳.میرے بچپن کے دن ۳۴- دی الانبياء عہدیداران کے لئے نصائح خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع ۳۶ گانه سيرة وسوانح حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وستم ( بطرز سوال و جواب) ۲.دعائے مستجاب ۳۹ میری کہانی ۴۰ کلام طائر ام انبیاء کا موعود حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث -۲۳ ترکیبیں آسان کم فرج ، خالص استیار بنانے کی ترکیبیں ۴۴ قندیلیں سبق آموز واقعات م ۲۲ ۲۴ ۱۴۴ ۲۰۴ ۲۵۲ ۳۰ 14.KA ۱۵۲ ۲۰ ۱۲۰ ۲۹۰ ۱۹۲ ۱۲۰ ۱۴۴ ۷۲ ۱۹۲