Language: UR
یہ کتاب حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی وہ ایمان افروز تحریر ہے جو آپ نے مدیرہ رسالہ ’’مصباح‘‘ کی درخواست پر 1953میں تحریر فرمائی تھی۔ اس میں فرمان رسول ﷺ پر بنیاد رکھ کر مستورات کو ان کے بلند مقام اور عظیم ذمہ داریوں کی طرف ایک نئے اور دلنشین انداز میں متوجہ کیاگیا ہے۔ آپ کے پیش کردہ 10 سنہری گر دراصل ایک خزانے کی چابیاں ہیں۔الغرض بہت گہرے نفسیاتی مطالعہ اور ایک ترقی پذیر الٰہی جماعت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لئے دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے جس سے استفادہ کرنا اور یاددہانی کروانا آج بھی مفید ہے۔
له 2 اچھی مائیں تربیت اولاد کے دس سنہری گر حضرت مرزا بشیر احمد.ایم اے یکے از مطبوعات.پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے شعبہ تصنیف اشاعت کو صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ کا شمارہ نمبر پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ.زیر نظر مضمون بعنوان ” اچھی مائیں، حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی ایمان افروز تحریر ہے جو آپ نے مدیرہ صاحبہ مصباح کی درخواست پر 29 اگست 1953 کو تحریر فرمایا.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.مضمون کی بنیاد فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھی گئی ہے اور ماں کو اس کے مقام اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.ہمارا اس مضمون کو شائع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بار بار یہ تحریر نظروں سے گزرے.عمل کی تحریک ملے اور مائیں اپنے ذمہ دارانہ عمل سے بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت کر کے اپنا مقام الجنة تحت اقدام الامهات جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے، حاصل کر سکیں.آپ کے پیش کردہ دس سنہری گر گویا اس خزانے کی چابیاں ہیں.بہت گہرے نفسیاتی مطالعہ اور ایک ترقی پزیر الہی جماعت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لئے درد مند دعاؤں کے ساتھ یہ مضمون لکھا گیا ہے.ہمارا فرض ہے کہ مائیں خود اس کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور ہر بچی کو پڑھائیں.اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں کو جنت نظیر بنا دے.آمین خاکسار شعبہ تصنیف و اشاعت ضلع کراچی کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہے جو توجہ اور محنت سے ہماری تربیت کے لئے مائدہ پیش کرنے میں مصروف
4 3 عمل رہتی ہیں.عزیزہ امتہ الباری ناصر سیکرٹری شعبہ ہذا خاص طور پر ہم سب کی دعاؤں کی مستحق ہیں.جن کو خدا تعالیٰ نے علم و عمل کی نعمت سے نوازا ہوا ہے اور لجنہ کراچی ان کی اس خوبی سے مستفید ہو رہی ہے.یہ کتاب شعبہ اشاعت ربوہ سے منظور شدہ ہے.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال غالباً تین سال کے قریب عرصہ گزرا ہے جب کہ میرا دفتر لاہور میں ہوتا تھا.مجھے جماعت احمدیہ کے زنانہ اخبار ماہ نامہ مصباح کی ایڈیٹر صاحبہ کی طرف سے ایک خط پہنچا کہ ہمارا ایک خاص نمبر نکلنے والا ہے آپ بھی اس کے لئے کوئی مضمون لکھ کر بھجوائیں.اس موقع پر میں نے یہ مضمون لکھ کر بھجوایا جو اب اچھی مائیں“ کے عنوان کے ماتحت ناظرین اور ناظرات کے ہاتھ میں ہے.اتفاق سے چند ماہ ہوئے مجھے اس کا مسودہ مل گیا اور میں نے خیال کیا کہ اگر اسے ٹریکٹ کی صورت میں چھاپ دیا جائے تو انشاء اللہ تربیت اولاد کی غرض سے احمدی ماؤں کے لئے مفید ہو گا.سو کسی کسی جگہ مناسب تبدیلی کے ساتھ یہ مسودہ کاتب کے حوالہ کر دیا گیا اور اب اسے 'مصباح' کے نام سے منتسب کرتے ہوئے خدا کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ مُردہ الفاظ میں جان ڈالنے والا وہی ازلی ابدی آتا ہے خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه 1953 129
6 5 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اچھی مائیں تربیت اولاد کے دس سنہری گر جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام نے حقوق کے معاملہ میں مرد وعورت کے لئے برابر کا درجہ تسلیم کیا ہے اور واضح الفاظ میں اعلان فرمایا ہے کہ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ.یعنی ”مردوں کے ذمہ عورتوں کے اُسی طرح کے حقوق ہیں جس طرح کہ عورتوں کے ذمہ مردوں کے حقوق ہیں.لیکن حقوق کے معاملہ کو چھوڑ کر جہاں تک اولاد کی ابتدائی تربیت کا سوال ہے عورت کو اپنے فطری قومی اور اپنے جنسی حالات کی وجہ سے مرد کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داری کا مقام حاصل ہے.بے شک کئی جہات سے مرد کی ذمہ داریاں عورت کی ذمہ داریوں کی نسبت بہت زیادہ بھاری ہیں لیکن بچوں کی تربیت کا پہلو اتنا نازک اور اتنا اہم ہے اور اس کا اثر بھی اتنا گہرا اور اتنا وسیع ہے کہ جو عورت اس ذمہ داری کو کامیابی کے ساتھ ادا کرتی ہے اس کا وجود یقیناً قوم کے لئے بہت بڑی عزت اور بہت بڑے فخر کا موجب ہے اور اس جہت سے ہر قدر دان انسان کی عقیدت کے پھول اپنی ماؤں اور بہنوں کے قدموں پر نچھاور ہونے چاہئیں.عورت رسول خدا کی محبوب ہستی ہے عورت کے اسی مخصوص مقام کی وجہ سے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:- حُبّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ وَالطَّيِّبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصّلوةِ.د یعنی اے لوگو ! تمہاری دُنیا کی چیزوں میں سے دو چیزیں مجھے زیادہ محبوب ہیں ایک عورت اور دوسرے خوشبو.مگر میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے.“ اپنے آقا کے ان الفاظ پر عورت جس قدر بھی فخر کرے اس کا حق ہے.اور ہم اس فخر میں اس کے ہم نوا ہیں.مگر ظاہر ہے کہ خدا کی ہر نعمت اپنے ساتھ بعض مخصوص ذمہ داریاں بھی لاتی ہے اور جو عورت نعمت کے پہلو کو تو شوق کے ہاتھوں سے قبول کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ لگی ہوئی ذمہ داریوں کے پہلو کی طرف سے غافل رہتی ہے وہ خدا کے حضور ہرگز مقبول نہیں ہو سکتی اور نہ وہ محض نعمت کے پہلو کو حاصل کر کے ملک وقوم کی محسنہ بن سکتی ہے.پس میں اپنے اس مختصر سے نوٹ میں اپنی بہنوں کو ان کی اُن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اولاد کی تربیت کے تعلق میں اُن پر عائد ہوتی ہیں تا کہ وہ اچھی مائیں بن کر ایک طرف خدا کی نعمت کی قدر دان بنیں اور دوسری طرف قوم اور جماعت کی آئندہ نسل کو ترقی کے رستہ پر ڈال کر ملک وقوم کی محسنہ بننے کا شرف بھی حاصل کریں.مسلمان مردوں کی ہمیشہ دیندار عورتوں کے ساتھ شادی کرنی چاہیے
8 7 اس تعلق میں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مبارک ارشاد میرے سامنے آتا ہے جو آپ نے بیوی کے انتخاب کے تعلق میں مردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:- تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لَا رُبَعٍ لِمَا لِهَا وَلِحَسَبِهَا وَ لِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ( بخاری کتاب النکاح باب اكفاء فی الدین) یعنی بیوی کا انتخاب چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے بعض لوگ مال و دولت کی بناء پر بیوی کا انتخاب کرتے ہیں.بعض حسب و نسب پر اپنے انتخاب کی بنیاد رکھتے ہیں.بعض عورت کے حسن و جمال کو دیکھتے ہیں اور بعض دین اور اخلاق کے پہلو کو مقدم کرتے ہیں.مگر اے مردِ مومن تو اخلاق اور دین کے پہلو کو مقدم کیا کر ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے.“ اس لطیف حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف مسلمانوں کے گھروں کی موجودہ خانگی خوشی کی بنیاد قائم فرما دی ہے بلکہ اُن کی آئندہ نسلوں کی بہتری اور بہبودی کے سوال کو بھی ایک مضبوط اور دائمی کڑے کے ساتھ باندھ دیا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں جانتا.ظاہر ہے کہ ایک اچھی اور نیک بیوی جو دیندار بھی ہو اور خوش اخلاق بھی ہو کیونکہ دین کے لفظ میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں ) صرف اپنے خاوند کے لئے ہی خوشی اور راحت کا موجب نہیں ہوگی بلکہ لازماً اپنی اولاد کی تربیت کے حق میں بھی بہت مبارک ثابت ہو گی اور اس طرح حال اور مستقبل دونوں کی خوشیوں کے مکمل ہونے سے ایسا گھر حقیقتا جنت کا نمونہ بن جائے گا.یہ خیال کرنا کہ اس حدیث میں تو صرف مرد کے لئے حکم ہے کہ وہ دیندار عورت سے شادی کرے اور عورت کے لئے کوئی حکم نہیں ایک بالکل باطل خیال ہے.کیونکہ جب مرد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نیک بیوی تلاش کرے تو لازماً اس حکم میں یہ ضمنی حکم بھی شامل ہے کہ مسلمان عورتیں بھی نیک اور دیندار بنیں.کیونکہ اگر دُنیا میں دیندار عورتیں ہوں گی ہی نہیں تو مردوں کو دیندار بیویاں میسر کیسے آئیں گی؟ پس اس حدیث میں دراصل یہ دُہرا حکم شامل ہے کہ :- (1) مسلمان عورتیں دیندار اور با اخلاق بنیں ورنہ کوئی دیندار مرد اُن کے رشتہ پر راضی نہیں ہو گا اور نہ اُن کی آئندہ نسل دیندار بن سکے گی.(2) مسلمان مرد دیندار اور با اخلاق عورتوں کے ساتھ شادی کریں تا کہ صرف ان کا اپنا گھر جنت کا نمونہ بنے بلکہ اُن کی اولاد کے واسطے بھی دائمی کا جنت کے دروازے کھل جائیں گے.یہ وہ دُہری غرض ہے جس کے ماتحت ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ زریں ارشاد جاری فرمایا ہے.لہذا مردوں اور عورتوں دونوں کو چاہیے کہ اس مبارک ارشاد کو اپنے لئے شمع ہدایت بنا کر دائمی راحت اور دائمی سرور اور دائمی برکت کا ورثہ پانے کی کوشش کریں.نیک ماں نیک اولاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے پس اولاد کی تربیت کے تعلق میں پہلی ہدایت اسلام کی یہ ہے کہ مرد دیندار عورتوں کے ساتھ شادی کریں اور ہر ماں خود دیندار بننے کی کوشش کرے کیونکہ بے دین ماں دینی تربیت کی اہلیت نہیں رکھتی.بیشک قرآن مجید یہ بھی فرماتا ہے کہ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ
10 9 الْحَيّ ( الروم : 21 ) ( یعنی خدا مردوں میں سے زندے پیدا کر دیتا ہے اور زندوں میں سے مُردے پیدا کر دیتا ہے ) اور اس طرح بعض اوقات بُرے ماں باپ کے بچے نیک ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات اچھے ماں باپ کے گھر میں بُرے بچے بھی جنم لے لیتے ہیں.بلکہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے اور دوسری طرف انہیں مایوسی سے بچانے کے لئے قرآن مجید میں اس کی بعض مثالیں بھی بیان کی ہیں کہ کس طرح ایک بُرے گھر میں اچھا بچہ پیدا ہو گیا اور ایک اچھے گھر میں بُرا بچہ نکل آیا مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے اور اولاد کو اچھی تربیت دینے کی جو اہلیت ایک نیک ماں رکھتی ہے وہ ہر گز ہرگز ایک بے دین ماں کو حاصل نہیں ہوتی.خاکسار راقم الحروف نے بڑے غور کی نظر سے ہزاروں گھروں کے حالات کو دیکھا ہے اور گویا اُن کے اندرونِ خانہ میں جھانک جھانک کر تجسس کی نظر دوڑائی ہے مگر میں اس کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ نیک اولاد پیدا کرنے اور نیک بچے بنانے میں ظاہری اسباب کے ماتحت توے فی صد حصہ دیندار ماؤں کا ہوتا ہے.اچھی ماؤں کی نگرانی میں پرورش پانے والے بچے نہ صرف دن رات اپنی ماں کے نیک اعمال (یعنی نماز، روزه ، تلاوت قرآن ، صدقہ و خیرات ، جماعتی کاموں کے لئے چندے ، خدا رسول ﷺ کی محبت ، دینی غیرت وغیرہ) کے نظارے دیکھتے ہیں بلکہ جس طرح وہ اپنی ماں کے اعمال کو دیکھتے ہیں اسی طرح ان کی ماں بھی شب و روز اُن کے اعمال کو دیکھتی ہے اور ہر خلاف اخلاق بات اور ہر خلاف شریعت حرکت پر اُن کو ٹوکتی اور شفقت و محبت کے الفاظ میں انہیں نصیحت کرتی رہتی ہے.ماں کا یہ فعل جو اس کی اولاد کے لئے ایک دلکش و شیریں اُسوہ ہوتا ہے اور ماں کا یہ قول جو اُس کے بچوں کے کانوں میں شہد اور تریاق کے قطرے بن کو اُترتا چلا جاتا ہے اُن کے گوشت پوست اور ہڈیوں تک میں سرایت کر کے اور ان کے خون کا حصہ بن کر انہیں گویا ایک نیا جنم دے دیتا ہے.کاش دُنیا اس نکتہ لو سمجھ لے.قوموں کے لیڈر اس نکتہ کو سمجھ لیں.خاندانوں کے بانی اس نکتہ کو سمجھ لیں.گھر کا آقا اس نکتہ کو سمجھ لے.اور کاش بچے ہی اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ اولاد کی تربیت کا بہترین فطری آلہ ماں کی گود ہے.پس اے احمدیت کی فضا میں سانس لینے والی بہنو اور بیٹیو ! اور اے آج کی ماؤ اور اسے کل کو ماں بننے والی لڑکیو! اگر قوم کو تباہی کے گڑھے سے بچا کر ترقی کی شاہراہ کی طرف لے جانا ہے تو سنو اور یاد رکھو کہ اس نسخہ سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں کہ اپنی گودوں کو نیکی کا گہوارہ بناؤ.اپنی گودوں میں وہ جو ہر پیدا کرو جو بدی کو مٹاتا اور نیکی کو پروان چڑھاتا ہے.جو شیطان کو دُور بھگاتا اور انسان کو رحمن کی طرف کھینچ لاتا بچہ کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے ماں کی نیکی کے بعد خود اولاد کی تربیت کا سوال پیدا ہوتا ہے.اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت کا زمانہ کس وقت شروع ہونا چاہیے.اس معاملہ میں اکثر ماں باپ اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بچپن تو کھیل کود اور آزادی اور بے قیدی کا زمانہ ہے، جب بچہ ذرا بڑا ہو لے گا تو پھر اس کی تربیت کا وقت آئے گا.یہ نظریہ سخت مہلک اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیداً ارشاد فرمایا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں سب سے پہلی آواز اذان کی پہنچاؤ کیونکہ اذان کے الفاظ میں نہ صرف اسلام کی تعلیم کا خلاصہ آ جاتا ہے
12 11 بلکہ اس میں ایک زبردست دعوت کا رنگ بھی ہے جس میں گویا مخاطب کو آواز دے کر بلایا جاتا ہے کہ اے سُننے والے ادھر کان دھر اور صلوٰۃ او رفلاح کے رستہ پر قدم رکھتا ہوا اس طرف چلا آ.پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد میں یہ صریح اشارہ ہے کہ بچہ کی تربیت اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جانی چاہیے.یہ خیال کہ شروع میں تو بچہ کچھ سمجھتا ہی نہیں بالکل غلط اور باطل ہے.کیونکہ اول تو خواہ وہ الفاظ کو سمجھے یا نہ سمجھے بہر حال کسی نہ کسی رنگ میں اس کی ولادت کے ساتھ ہی اس کے تاثر و تاثیر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور دماغ کے غیر شعوری حصہ میں کچھ نہ کچھ نقش جمنے لگ جاتے ہیں.." علاوہ ازیں اس ہدایت میں والدین کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ خواہ تمہارے خیال میں بچہ کا یہ زمانہ غیر شعوری زمانہ ہی ہو تمہیں ابھی سے اس کی تربیت کی فکر ہونی چاہیے.کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس کے شعور کا زمانہ کب شروع ہوتا ہے.پس ممکن ہے کہ تم اُسے ایک گم صم بت سمجھ کر نظر انداز کر دو اور وہ اندر ہی اندر ماحول کا بُرا اثر قبول کر کے خراب ہونا شروع ہو جائے.بہر حال اسلامی تعلیم کے مطابق بچوں کی تربیت کا زمانہ ان کی ولادت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور وہ ماں باپ بڑے ہی بدقسمت ہیں جو اپنے بچہ کے چند ابتدائی سال اس غفلت میں گزار دیتے ہیں کہ ابھی وہ تربیت کے قابل نہیں ہوا.بچے کی آنکھوں کے سامنے زہر آلو د اور حیا سوز نظارے آتے ہیں اور نادانی سے خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی بچہ ان باتوں کا شعور نہیں رکھتا.بچہ کے کانوں میں خلاف اخلاق اور خلاف شریعت باتیں پہنچتی ہیں اور بیوقوفی سے فرض کر لیا جاتا ہے کہ بچہ ابھی ان باتوں کو نہیں سمجھتا اور نہیں جانتا.اور اس سارے عرصہ میں ایک زہریلی فصل کا بیچ بچہ کے دل و دماغ میں بویا جا رہا ہوتا ہے.بیشک بچہ بسا اوقات اس بیج کی مسمومیت کو نہیں پہچانتا مگر زہر پھر بھی زہر ہے اور اندر ہی اندر اپنا کام کرتا چلا جاتا ہے.پس اولاد کی تربیت کا دوسرا سبق یہ ہے کہ ان کی ولادت کے ساتھ ہی ان کی تربیت کا خیال شروع کر دو اور خواہ وہ بظاہر تمہاری بات سمجھیں یا نہ سمجھیں تم یہی سمجھو کہ وہ تمہارے ہر فعل کو دیکھ رہے اور ہر قول کوسُن رہے ہیں.یہ ایک نہایت لطیف نفسیاتی نکتہ ہے جو ہماری شریعت نے ہمیں سکھایا ہے اور ہر مسلمان باپ اور ہر مسلمان ماں کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے متعلق اپنے تربیتی پروگرام کو اس نکتہ کی روشنی میں مرتب کرے.دیکھو یہ ایک بہت موٹی سی بات ہے کہ جس مذہب نے یہ تعلیم دی ہے کہ خاوند اور بیوی بچہ کی ولادت سے بھی پہلے آپس میں ملتے ہوئے اپنے ہونے والے بچہ کے متعلق شیطان سے دُور رہنے اور خدا کی پناہ میں آنے کی دعا مانگیں کیا وہ بچہ کی ولادت کے بعد اُسے کئی سال تک تربیت اور اخلاقی نگرانی کے بغیر رہنے دے گا ؟ هَيْهَاتٌ هَيْهَاتَ لِمَا تَصِفُونَ قرآن ایمانی اور عملی تربیت کا مکمل ضابطہ ہے اس کے بعد بچہ کی بلا واسطہ تربیت کا زمانہ شروع ہوتا ہے.اس کے متعلق یہ سوال کہ بچے کو کیا تربیت دی جائے ایک مسلمان کے لئے طے شدہ سوال ہے.ہماری تربیت اخلاقی اور رُوحانی بلکہ ایک حد تک جسمانی اور مالی کا بھی مکمل ضابطہ قرآن شریف میں موجود ہے جس کی عملی تفسیر رسول خدا کی سنت اور قولی تشریح احادیث صحیحہ ہیں اور اسی کے احیاء اور تجدید کے لئے ہماری جماعت کے مقدس امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.پس ہمارے لائحہ عمل کا تو کوئی سوال نہیں وہ پہلے.سے موجود ہے اور اپنے متعلق
14 13 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلق بیان کرتے ہوئے ہماری مادر مشفق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ خُلْقَهُ كُلُّهُ الْقُرْآن یعنی " آپ ﷺ کا تمام خُلق قرآن تھا اور آپ قرآنی تعلیم کی مجسم تصویر بن کر آئے تھے.اور اسی کے پیش نظر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَة حَسَنَة....(33) الاحزاب : 22) یعنی ”اے مسلمانو ! تمہارے لئے رسول خدا کی زندگی میں ایک مکمل نمونہ موجود ہے.پس تربیت کے ضابطہ کی تلاش کا تو کوئی سوال نہیں ہاں یہ سوال ضرور ہے کہ بچوں کی تربیت سے تعلق رکھنے والی بہت سی باتوں میں سے کن باتوں کو مقدم کیا جائے.سو اس کے متعلق میں اپنے اس مختصر سے مضمون میں صرف ایک قرآنی آیت اور ایک حدیث پیش کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں کیونکہ اس سے زیادہ اس مضمون میں گنجائش نہیں.قرآن مجید کے بالکل شروع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ.الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ 0 (2: البقره: 4) یعنی یہ قرآن متقیوں کے لئے ہدایت نامہ بن کر آیا ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے (ہمارے رستہ میں) خرچ کرتے ہیں.“ ایمانی تربیت کا مرکزی نقطہ ایمان کے متعلق یہ آیت بیان کرتی ہے کہ ایمانیات کی بنیا د غیب پر ہے.یعنی بعض ایسی نہ نظر آنے والی چیزوں پر ایمان لانا جو انسان کے اخلاق اور روحانیت کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں.یہ چیزیں اسلام کی تعلیم کے مطابق خدا اور اُس کے فرشتے اور اس کی کتابیں اور اس کے رسول اور یوم جزا وسزا اور تقدیر خیر وشر ہیں.ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان سب چیزوں پر جو جسم کی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتیں مگر دل اور دماغ کی روشنی سے دیکھی جاتی ہیں ایمان لائے کیونکہ ان پر ایمان لانے کے بغیر انسان کے دین کی عمارت اور انسان کے عمل صالح کی بنیاد مکمل نہیں ہو سکتی.پس احمدی ماؤں کا پہلا فرض اپنی اولاد کا اس بنیادی ایمان پر قائم کرنا ہے.ہر احمدی بچے کے دل میں ن راسخ ہونی چاہیے کہ میرا ایک خدا ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور جو میرا حاکم و مالک ہے اور مجھے اس کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنا چاہیے.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے خدا نے فرشتے بنائے ہیں جو بظاہر نظر نہ آنے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں نیکیوں کی تحریک کرتے اور بدیوں سے روکتے ہیں.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ خدا نے دُنیا میں وقتا فوقتا لوگوں کی ہدایت کے لئے مختلف کتابیں نازل کی ہیں اور ان سب میں سے آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن مجید ہے جس پر عمل کرنے کے بغیر انسان نجات نہیں پاسکتا.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہو نی چاہیے کہ لوگوں کو پیغام ہدایت پہنچانے اور ان کے لئے پاک نمونہ بننے کے لئے خدا ہر زمانہ میں اپنے رسول بھیجتا رہا ہے اور ان میں سے آخری صاحب شریعت رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو تمام نبیوں کے سردار اور خاتم النبیین اور افضل الرسل ہیں.جن کے دین کی خدمت اور تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا ہے.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ موت کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جس میں جزا سزا کی تیاری کے لئے انسان کو اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑے گا
16 15 اور بالآخر ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات بھی راسخ ہونی چاہیے کہ رُوحانی ہدایت ناموں کے علاوہ دُنیا کا مادی کارخانہ بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے قانونِ قضا و قدر کے ماتحت چل رہا ہے خواہ وہ قانون خیر سے تعلق رکھتا ہے یا شر سے.یہ باتیں ہر احمدی بچے کے دل میں بچپن سے ہی اس طرح راسخ ہونی چاہئیں کہ بعد کی زندگی کا کوئی طوفان خواہ وہ کتنا ہی خطرناک ہی ہو اسے اس عقیدہ سے متزلزل نہ کر سکے.اور احمدی بچوں کے دلوں میں حسنِ قول اور حسنِ فعل کے ذریعہ یہ ایمان پیدا کرنا احمدی ماؤں کا کام ہے.اگر پانی جیسی سیال چیز قطرہ قطرہ گر کر پتھر جیسی سخت چیز میں دائمی نقش پیدا کر سکتی ہے تو ماں کی شب و روز کی نصیحت بچوں کے دلوں میں کیوں یہ غیر فانی ایمان پیدا نہیں کر سکتی ؟ مگر آ جا کے بات وہیں آجاتی ہے کہ ماں خود نیک اور دیندار ہو.ہمارے الله رسول ﷺ پر خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں آپ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:- علیک بذات الدین تربت یداک یعنی اے مسلمان مرد ! تیرا فرض ہے کہ دیندار با اخلاق بیوی سے شادی کر ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے.“ عمل کے میدان میں دو بنیادی نیکیاں! ایمان کے بعد اعمال کا مرحلہ ہے جن میں سے اوپر کی آیت میں دو بنیادی عملوں کو منتخب کیا گیا ہے.ان میں ایک نماز ہے اور دوسرے انفاق فی سبیل اللہ ( یعنی خدا کے رستہ میں خرچ کرنا ) ہے.اور حق یہ ہے کہ یہ دو عمل حقیقہ اسلام کی جان ہیں اور باقی سب اعمال انہی دو عملوں کی شاخیں اور انہی دو نہروں کے راجبا ہے ہیں.نماز خدا کا حق ہے جو خدا کے ساتھ بندے کا ذاتی تعلق قائم کراتا اور اس کے عظیم الشان پاورسٹیشن کے ساتھ بندے کے دل کی تاروں کا جوڑ ملا کر اس کے سینہ میں ایک دائمی شمع روشن کر دیتا ہے.اور دوسری طرف فی سبیل اللہ بندوں کا حق ہے جس کے ذریہ نہ صرف جماعت اور قوم کے مشترکہ کاموں یعنی تبلیغ اور تعلیم وغیرہ کا بوجھ اُٹھایا جاتا ہے بلکہ امیروں کی دولت کا ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی حالت کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے.اور اگر غور کیا جائے تو یہی دو باتیں یعنی نماز اور انفاق فی سبیل اللہ ساری اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہیں.خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرو اور جماعتی کاموں میں حصہ لو.دل میں خدا کی محبت کی کو لگاؤ اور خدا کے دیے ہوئے رزق میں سے قوم کا اور اپے غریب بھائیوں کا حصہ نکالو.پھر مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ یعنی نیک لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں) کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ صرف اپنے مال میں سے ہی خرچ کرنے کی طرف دھیان نہ رکھو بلکہ ہر وہ چیز جو تمہیں خدا کی طرف سے رزق کے طور پر ملی ہے اس میں سے خدا کا اور بندوں کا حق ادا کرو.اب دیکھو کہ جس طرح مال خدا کا رزق ہے اسی طرح انسان کے قویٰ بھی خدا کا رزق ہیں.انسان کے اوقات بھی خدا کا رزق ہیں اور انسان کا علم بھی خدا کا رزق ہے پس مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کی ہدایت کا تقاضا ہے کہ ان تمام قسم کے رزقوں میں سے خدا کا اور اس کے بندوں کا حصہ نکالا جائے.مال میں سے زکوۃ اور صدقہ اور چندہ دیا جائے.دل و دماغ کی طاقتوں کے ذریعہ ملک وقوم کی خدمت کی جائے.وقت کا کچھ حصہ دینی اور جماعتی کاموں میں لگایا جائے اور خدا کے دیے ہوئے علم سے دُنیا کو فائدہ پہنچایا جائے.
18 17 نماز اور خدا کے رستہ میں خرچ کرنا پس ایمان قائم کرنے کے بعد ماؤں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں میں یہ دو بنیادی نیکیاں راسخ کرنے کی کوشش کریں یعنی ایک تو ان کے دل میں بچپن سے ہی نماز کا شوق پیدا کریں اور اس کا عادی بنائیں اور دوسرے بچوں میں یہ عادت پیدا کریں کہ وہ جماعتی کاموں میں حصہ لیں اور کچھ نہ کچھ رقم خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو اپنے ہاتھ سے چندہ کے طور پر دیا کریں.نماز پڑھتے ہوئے ان کے دل میں یہ احساس ہو (اور اس احساس کا پیدا کرانا ماؤں کا کام ہے ) کہ ہم خدا کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں.وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم اُسے دیکھ رہے ہیں.اور چندہ دیتے ہوئے وہ یہ محسوس کریں کہ ہم اپنی قوم اور جماعت کا بوجھ بٹا رہے ہیں.اگر یہ دو ظاہری عمل اور یہ دو باطنی جذ بے احمدی ماؤں کے ذریعہ احمدی بچوں میں قائم ہو جائیں تو خدا کے فضل سے ہماری جماعت کا مستقبل محفوظ ہے.اسی لئے قرآن مجید نے اس حکم کو اپنے بالکل شروع میں بیان کیا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ یہ دو عمل اسلام کی جان ہیں جن سے مسلمان بچوں کی تربیت کا آغاز ہونا چاہیے.ہر احمدی بچہ نماز کا پابند اور اس کا شائق ہو.اور ہر احمدی بچہ اپنے آپ کو ایک خدائی جماعت کا فرد سمجھتے ہوئے اس کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی تڑپ رکھے.یہ وہ دو زبر دست کھونٹے ہیں جن کے ساتھ بندھ کر ہر بچہ تمام قسم کے خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے اس کی ایک تار خدا سے ملتی ہے جو ایک نہ ٹوٹنے والا دائمی سہارا ہے.اور اس کی دوسری تار جماعت سے ملتی ہے جو اس کے لئے ایک آہنی قلعہ سے کم نہیں.پس اے احمدی ماؤ! اے اسلام کی بیٹیو! آج سے اس بات کا عہد کرو کہ تم نے اپنے بچوں میں یہ دو نیکیاں بہر حال پیدا کرنی ہیں تم نے انہیں نماز اور دُعاؤں کا پابند بنانا ہے اور ان میں ایک خدائی جماعت کا فرد ہونے اور اس کے لئے وقت اور مال کی قربانی کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے.دیکھو ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضمانت دی تھی مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس کی قدر نہیں کی.آپ نے فرمایا تھا کہ جو مسلمان مجھے اپنے دو عضووں کی ذمہ داری دے وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا تو میں ایسے مسلمان کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں.مگر یہاں تمہارے آقا کا بھی آقا دُنیا کا واحد خالق و مالک خدا جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں ہیں ایک ابدی ضمانت دیتا ہے اسے تو قبول کرو.فرماتا ہے:.الَّذِينَ.....وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ......أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ) (البقره:54) یعنی جو لوگ نماز کو قائم کرتے اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں....وہی ہماری طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یقیناً وہی بالآخر بامراد ہوں گے.“ اے احمدی ماؤ! یہ وہ تعویذ ہے جو تمہارے بچوں کی دائمی حفاظت کے لئے زمین و آسمان کا خدا پیش کرتا ہے.اسے شوق کے ہاتھوں سے قبول کرو کہ اس سے زیادہ پختہ اور اس سے زیادہ ستا سودا تمہیں کہیں نہیں ملے گا.یہ تعویذ کیا ہے؟ نماز اور خدا کے رستہ میں خرچ کرنا.
20 19 تین سب سے بڑے گناہ دین کی بنیاد کو اوپر کی تعلیم کے ذریعہ پختہ کرنے کے بعد آنحضرت ایک ایسی ہدایت فرماتے ہیں جس کی تہہ میں گویا اصلاح نفس کے تمام فلسفہ کی کنجی ہے.فرماتے ہیں:.اَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ثَلَاثَاً ـ قَالُوا بَلَى يَا رَسُوْلَ اللهِ - قَالَ الْإِشْرَافُ بِاللَّهِ وَ عَقُوقُ الوَالِدَيْنِ وَكَانَ مُتَّكِاً فَجَلَسَ فَقَالَ أَلَا وَ قَوْلَ لِلنُّورِ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ ( بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین) مطلع یعنی کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں پر نہ کروں ؟ اور آپ نے یہ الفاظ تین دفعہ فرمائے.صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ آپ ضرور ہمیں مطلع فرمائیں.آپ نے فرمایا تو پھر سنو کہ سب سے بڑا گناہ خدا کا شرک کرنا ہے.اور اس کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی خدمت سے غفلت برتنا ہے.اور پھر (اور یہ کہتے ہوئے آپ تکیہ کا سہارا چھوڑ کر اُٹھ بیٹھے اور جوش کے ساتھ فرمایا کہ پھر ) جھوٹ بولنا سب سے بڑا گناہ ہے.اور آپ نے الفاظ اتنی دفعہ دہرائے کہ راوی بیان کرتا ہے کہ ہم نے آپ کی تکلیف کا خیال کر کے دل میں کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جائیں اور زیادہ تکلیف نہ فرمائیں.“ ظاہری اور باطنی شرک یہ لطیف حدیث تین ایسی اصولی ہدایتوں پر مشتمل ہے جو بچوں کی تربیت میں عظیم الشان اثر رکھتی ہیں.پہلی بات شرک ہے یعنی خدا کی ذات یا صفات میں اس کا کوئی شریک یا برابر ٹھہرانا.خوش قسمتی سے اس زمانہ میں بھوں اور دیوتاؤں کے سامنے سر جھکانے والا شرک تو اسلامی توحید کے اثر کے ماتحت دنیا سے آہستہ آہستہ مٹ رہا ہے لیکن بدقسمتی سے شرک کی ایک مخفی قسم ایسی ہے جس میں بہت سے مسلمان بھی مبتلا ہیں.مخفی شرک سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی ایسی عزت کی جائے جو صرف خدا کی کرنی چاہیے یا کسی چیز کے ساتھ ایسی محبت رکھی جائے جو صرف خدا کے ساتھ رکھنی چاہیے.یا کسی چیز پر ایسا بھروسہ کیا جائے جو صرف خدا پر ہونا چاہیے.اسلام دین و دنیا کے مختلف کاموں کے لئے ظاہری تدبیروں کے اختیار کرنے سے ہر گز نہیں روکتا بلکہ ان کی ہدایت فرماتا ہے مگر ان پر بھروسہ کرنے اور انہیں ہی کامیابی کا آخری سہارا سمجھنے سے ضرور روکتا ہے اور بڑی سختی سے روکتا ہے.پس احمدی ماؤں کا ہاں نیک اور دیندار ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں سے اس مخفی شرک کو جو اس زمانہ میں لا تعداد رُوحوں کو تباہ کر رہا ہے بیخ و بن سے نکال کر پھینک دیں اور انہیں ہر حال میں مادی تدبیریں اختیار کرنے کے باوجود خدا کی طرف دیکھنے اور خدا پر بھروسہ کرنے کی تعلیم دیں.خاکسار راقم الحروف نے ایسی نیک مائیں دیکھی ہیں ( اور کاش کہ سب مائیں ایسی ہی ہوں ) کہ وہ ایک طرف اپنے بیمار بچے کو دوا دے رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف اسے تھپک تھپک کر سمجھاتی جاتی ہیں کہ بچے یہ دوائی پی لو.خدا کا حکم ہے اس لئے پی لو.مگر شفا دینے والا صرف خدا ہے اس لئے دوائی بھی پیو اور خدا سے دُعا بھی مانگو کہ وہ تمہیں اچھا کر دے.ان کے بچے کا امتحان سر پر ہوتا ہے وہ اسے محبت کے ساتھ سمجھاتی ہیں کہ برخوردار وقت ضائع نہ کرو اور کتابیں پڑھو مگر ساتھ ہی یہ الفاظ بھی کہتی جاتی ہیں
22 21 کہ دیکھو نا ! پاس تو تم نے صرف خدا کے فضل سے ہی ہونا ہے مگر یہ اسباب کا سلسلہ بھی تو خدا کا ہی پیدا کیا ہوا ہے اس لئے پڑھائی بھی کرو اور خدا کا فضل بھی مانگو.یہ وہ نو نہال ہیں جن کے دلوں میں بچپن سے ہی توحید کی بنیاد قائم ہوتی ہے اور بعد کا کوئی طوفان اسے مٹا نہیں سکتا.ماں باپ کی خدمت سے کوتاہی کرنا دوسری طرف ہدایت اس حدیث میں ماں باپ کی خدمت سے غفلت برتنے کے متعلق ہے جسے اسلام میں گویا شرک کے بعد دوسرے نمبر کا گناہ قرار دیا گیا ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ عقوق الوالدین سے ماں باپ کی نافرمانی ہی مراد نہیں بلکہ ان کا واجبی ادب نہ کرنا اور ان کی خدمت کی طرف سے غفلت برتنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس جگہ ماں باپ کا لفظ بھی دراصل مثال کے طور پر رکھا گیا ہے ورنہ جیسا کہ دوسری حدیثوں میں صراحت کی گئی ہے مراد یہ ہے کہ علی قدر مراتب سب بزرگوں کا ادب اور احترام ملحوظ رکھنا چاہیے جن میں یقیناً والدین کو خاص مقام حاصل ہے.پس نیک ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولا د کو بچپن سے ہی نہ صرف ماں باپ کا بلکہ سارے بزرگوں کا ادب کرنا سکھائیں.دادا دادی ، چچا چی ، پھوپھا پھوپھی ، خالہ خالو ، نانا نانی ،ماموں ممانی ، بڑا بھائی بڑی بہن ، ہمسایہ کے بزرگ ، قوم کے بزرگ، ملک کے بزرگ ، ہر ایک کا ادب ملحوظ رکھنا اور اُن سب سے عزت کے ساتھ پیش آنا اسلامی اخلاق کی جان ہے اور احمدی ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں میں اس خُلق کو راسخ کرنے کی کوشش کریں.یہ مقولہ کتنی گہری صداقت پر مبنی ہے کہ الطريقة كلّها ادب یعنی دین کا رستہ سب کا سب ادب کے میدان میں سے ہو کر گزرتا ہے.اور حق یہ ہے کہ ادب اصلاح نفس کا بھی بھاری ذریعہ ہے کیونکہ جو بچے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں وہی ان کی نصیحتوں کو سنتے اور اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.پس خوش قسمت ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کے اندرادب کا سلیقہ قائم کرنے میں کامیاب ہوں کیونکہ اس قدم سے ہی ان کے تربیتی سفر کا تیسرا حصہ کٹ جاتا ہے.جھوٹ بولنا تیسری بات اس حدیث میں جھوٹ بولنا بیان کی گئی ہے جسے اسلام نے گویا تیسرے نمبر کا گناہ شمار کیا ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے اس قدر نفرت تھی اور آپ کے دل میں مسلمانوں کے اندر صداقت اور راست گفتاری کی عادت پیدا کرنے کا اتنا جوش تھا جیسا کہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے آپ جھوٹ کے خلاف نصیحت فرماتے ہوئے جوش کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ الفاظ دہرائے کہ :- اَلا وَ قَوْلَ النُّورِ اَلاَوَ قَوْلَ النُّورِ یعنی کان کھول کر سُن لو.ہاں پھر کان کھول کر سُن لو کہ اسلام میں شرک اور عقوق الوالدین سے اُتر کر سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے.“ 66 دراصل جھوٹ صرف اپنی ذات میں ہی ایک نہایت ذلیل قسم کا گناہ نہیں ہے بلکہ دوسرے گناہوں کے پیدا کرنے اور ان پر پردہ ڈالنے کی ایک گندی مشینری بھی ہے.جو لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں وہ فورا! جھوٹ بول کر اپنے گناہوں کو چھپا جاتے ہیں اور اس طرح انہیں آئندہ گناہ کرنے کے لئے مزید دلیری پیدا ہوتی ہے اور گناہ کا ایک ایسا نا پاک چکر قائم ہو جاتا ہے کہ اس میں پھنس کر کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا.اسی لئے ایک دوسری
24 23 حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ میں کمزور ہوں اور یک لخت سارے گناہوں پر غلبہ پانے کی طاقت نہیں رکھتا آپ مجھے فی الحال کوئی ایک گناہ ایسا بتا دیں جسے میں فوراً چھوڑ دوں.آپ نے بے ساختہ فرمایا.” جھوٹ چھوڑ دو اور چونکہ اس کے بعد وہ اپنے گناہوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا تھا اس لئے اس زریں ارشاد کی برکت سے وہ شخص گویا ایک ہی قدم میں سارے گناہوں پر غلبہ پا گیا.پس احمدی ماؤں کا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں میں جھوٹ سے ایسی نفرت پیدا کریں کہ خواہ کتنا ہی نقصان ہو یا کتنا ہی لالچ دیا جائے ان کے سامنے بچے ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح سچ پر قائم رہیں.یہ ایک ایسا بنیادی خلق ہے جو بچے کے کیریکٹر کو چار چاند لگا دیتا ہے اور سچ بولنے والے بچے کا سر کبھی نیچا نہیں ہوتا بلکہ ہر موقع پر اور ہر مجلس میں بلند رہتا ہے.حق یہ ہے کہ احمدیت اور سچ بولنا ہم معنی الفاظ ہونے چاہئیں اور ایک شخص کا احمدی ہونا اس بات کی ضمانت سمجھی جانی چاہیے کہ وہ خود مٹ جائے گا مگر جھوٹ کا کلمہ کبھی زبان پر نہیں لائے گا.کاش ایسا ہی ہو اور کاش احمدیت اور صداقت ہماری لغت میں مترادف الفاظ بن جائیں.اولاد کے لئے ماں باپ کی دعائیں یہاں تک میں نے صرف ظاہری اسباب کے لحاظ سے اسلامی تربیت کا خلاصہ پیش کیا لیکن چونکہ ہر ظاہری نظام کے مقابلہ پر ایک باطنی اور رُوحانی نظام بھی ہوتا ہے اس لئے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت سے اس باطنی اور روحانی نظام کی طرف بھی اپنی امت کو توجہ دلائی ہے چنانچہ فرماتے ہیں.ثَلَاثَ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكٍّ فِيهِنَّ : دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَ دَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَ دَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلِدِهِ ( ترمذی کتاب الدعوات باب ما ذکر فى دعوة المسافر) یعنی تین دعائیں خدا کے فضل سے ضرور قبول ہوتی ہیں.اوّل مظلوم شخص کی دُعا جو اپنے ظلموں سے تنگ آ کر خدا کو پکارتا ہے.دوسرے مسافر کی دُعا جو وہ سفر کی پریشانیوں اور کوفتوں میں گھرے ہوئے خدا کے حضور کرتا ہے اور تیسرے ماں باپ کی دُعا جو وہ اپنے بچوں کی بہتری کے لئے تڑپ تڑپ کر کرتے ہیں.“ حق یہ ہے کہ ماں باپ کی دُعا اولاد کے حق میں اکسیر کا رنگ رکھتی ہے کیونکہ دُعا کی قبولیت کے لئے جس قسم کے قلبی جذبہ اور ذہنی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ماں باپ کی دُعا میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.پس تربیت کے ظاہری اسباب کو اختیار کرنے کے علاوہ اسلام یہ زرین ہدایت بھی فرماتا ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لئے ہر وقت دُعا میں لگے رہیں اور ان کے لئے خدا کے آستانہ پر گرے رہ کر دین و دنیا کی حسنات کے طالب ہوں، میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیندار ماں اپنی اولاد کے لئے دُعا مانگنے میں غفلت سے کام لیتی ہو لیکن اگر کوئی ماں ایسی ہے تو اس سے بڑھ کر شقاوت اور محرومی میرے خیال میں نہیں آ سکتی.کاش احمدی مائیں دُعا کی قدر اور دُعا کی طاقت کو پہچانیں اور اس رُوحانی نسخہ کے ذریعہ اپنے بچوں کی دین و دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کریں.یہ نسخہ بہت مجرب اور بہت پرانا ہے اور سارے نبیوں اور سارے ولیوں کا آزمایا ہوا ہے پس :- ” اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
26 25 25 تربیت اولاد کے دس سنہری گر خلاصہ کلام یہ کہ بچوں کی صحیح تربیت کے لئے اسلام مندرجہ ذیل باتوں کا تاکیدی حکم دیتا ہے اول مسلمان مرد دیندار اور با اخلاق بیویوں کے ساتھ شادیاں کریں.تاکہ نہ صرف ان کا گھر ان کی اپنی زندگی میں جنت کا نمونہ بنے بلکہ اولاد کے لئے بھی نیک تربیت اور نیک نمونہ میسر آنے سے دائمی برکت کا دور قائم ہو جائے گا.دوم ہر عورت خود بھی دیندار بنے اور دین کا علم سیکھے.اور پھر دین کے احکام کے مطابق اپنا عمل بنائے تاکہ وہ گھر کی چاردیواری میں دین کا چرچا رکھنے دین کی تعلیم دینے اور دین کے مطابق عملی نمونہ پیش کرنے کے ذریعہ اپنے بچوں کی زندگیوں کو بچپن سے ہی دینداری اور نیکی کے رستہ پر ڈال سکے.اچھی اولاد کے لئے اچھی ماں کا وجود ایک بالکل بنیادی چیز ہے اور اکسیر کا حکم رکھتی ہے.کاش دنیا اس حقیقت کو سمجھے.سوم بچوں کی تربیت کا آغاز ان کی ولادت کے ساتھ ہی ہو جانا چاہیے اور خواہ وہ بظاہر ماں باپ کی بات سمجھیں یا نہ سمجھیں بلکہ خود وہ بظاہر اپنی آنکھیں اور کان استعمال کر سکیں یا نہ کر سکیں ماں باپ کو یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمارے ہر فعل کو دیکھ رہے اور ہمارے ہر قول کو سن رہے ہیں.اسلام نے بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دلا کر اسی نفسیاتی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے.چهارم ماؤں کا فرض ہے کہ بچپن میں ہی اپنے بچوں کے دلوں میں ایمان بالغیب کا تصور راسخ کر دیں اور ان کی طبیعت میں یہ بات پختہ طور پر جما دیں کہ اس دنیائے شہود میں رُوحانی اور مادی نظام کی حقیقی تاریں ایک پردہ غیب کے پیچھے سے کھینچی جا رہی ہیں جس کا مرکزی نقطہ خدا ہے اور باقی ارکان فرشتے اور کتابیں اور رسول اور یوم آخر اور تقدیر خیر وشر ہیں.جس شخص نے اس نکتہ کو پا لیا اس کے لئے فلسفہ موت و حیات ایک کھلا ہوا منشور بن کر سامنے آ ہے.ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی نماز کا پابند بنائیں.کیونکہ عمل کی زندگی میں نماز خالق اور مخلوق کے درمیان کی وہ کڑی ہے جس سے دل کا چراغ روشن رہتا ہے اور انسان گویا روحانیت کی مخفی تاروں کے ذریعہ خدا کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جس ماں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنا دیا اور اُن کے دل میں نماز کا شوق پیدا کر دیا اس نے اس کے دین کو ایک ایسے کڑے کے ساتھ باندھ دیا جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا.ایسے بچے خدا کی گود میں ہوتے ہیں اور ان کی مائیں خدا کے دائی سایہ کے نیچے عمل کے میدان میں یہ بچوں کا سبق نمبر 1 ہے اور نتائج کے لحاظ سے پوری کتاب درس.ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں میں بچپن سے ہی انفاق فی سبیل اللہ اور دین کے لئے خرچ کرنے کی عادت ڈالیں اور ان میں یہ احساس پیدا کرائیں کہ ہر چیز جو انہیں خدا کی طرف سے ملی ہے خواہ وہ مال ہے یا دل و دماغ کی
28 27 طاقتیں ہیں یا علم ہے یا اوقات زندگی ہیں ان سب میں سے خدا اور جماعت کا حصہ نکالیں اور خصوصاً انہیں بچپن میں ہی اپنے ہاتھ سے چندہ دینے اور غریبوں کی مدد کر نے اور جماعتی کاموں میں اپنے وقت کا حصہ خرچ کرنے کا عادی بنائیں.یہ حکم نماز کے بعد اسلام کا دوسرا ستون ہے اور اس کے بغیر کوئی شخص حکومت الہی کی لڑی میں پرویا نہیں جا سکتا.ہفتم ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو ہمیشہ شرک خفی کے گڑھے میں گرنے سے ہوشیار رکھیں.دنیا کی ظاہری تدبیروں کو اختیار کرنے کے باوجود ان کا دل ہر وقت اس زندہ ایمان سے معمور رہنا چاہیے کہ ساری تدبیروں کے پیچھے خدا کا ہاتھ کام کرتا ہے اور ہشتم وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے بچوں کو ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کا ادب سکھایا جائے.خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار اور ہمسایہ ہوں یا اجنبی.ادب دینی طریقت کی جان ہے.اور پھر بچوں کے اندر خصوصیت سے والدین کی اطاعت اور خدمت اور احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے.اس کی طرف سے غفلت برتنے کو ہمارے آقا نے اسلام میں گناہ نمبر 2 شمار کیا ہے.تہم ہر احمدی ماں کا فرض ہے کہ وہ بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا کرے.صداقت تمام نیکیوں کا منبع اور جھوٹ تمام بدیوں کا مولد ہے سچ بولنے والا بچہ خدا کا پیارا اور قوم کی زینت اور خاندان کا فخر ہوتا ہے اور قول زور سے بڑھ کر اخلاق میں پستی پیدا کرنے والی اور بدی کے ناپاک انڈوں کو سینے والی کوئی چیز نہیں.دہم ماں باپ کا فرض ہے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے خدا کے حضور دُعا کرتے رہیں کہ وہ انہیں نیکی کے رستہ پر قائم رکھے اور دین و دنیا کی ترقی عطا کرے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.یہ وہ دس بنیادی باتیں ہیں جو اولاد کی تربیت کے لئے نہایت ضروری ہیں.اور یہ وہ بیج ہے جو احمدی ماؤں کے ہاتھوں سے ہر احمدی بچے کے دل میں بویا جانا ضروری ہے ورنہ گو خدا کے رسول تو بہر حال غالب ہو کر رہتے ہیں.مگر کم از کم جہاں تک انسانی کوشش اور ظاہری اسباب کا تعلق ہے جماعت کی ترقی ایں خیال است و محال است و جنوں احمدی ماؤں سے دردمندانہ اپیل پس اے احمدی ماؤ ! تم پر ایک بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.تمہارے ہاتھوں میں قوم کے وہ نونہال پلتے ہیں جو آج کل کے جوان ہیں.آج کے بیٹے اور کل کے باپ ہیں.آج کے تابع اور کل کے متبوع ہیں.آج کے محکوم اور کل کے حاکم ہیں.عنقریب ان کے ہاتھوں میں سلسلہ کے کاموں کی باگ ڈور جانے والی ہے.پس اپنی اس نازک ذمہ داری کو پہچانو اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو ایسے قالب میں ڈھال دو کہ جب ان کا وقت آئے تو وہ آسمانِ ہدایت پر ستارے بن کر چمکیں تم شاید خود بھی اپنی قدر کو نہ پہچانتیں مگر تمہارے رسول نے تمہاری قدر کو پہچانا ہے اور تمہیں اپنی محبوب ہستی قرار دیا
30 30 29 ہے پس اس عظیم الشان نعمت کی قدر کرو کہ تم محبوب خدا کی محبوب ہو اور اس ذمہ داری کو ادا کرو جو خدا نے تمہارے کندھوں پر ڈالی ہے.یہ ذمہ داری بہت بھاری ہے مگر یقین رکھو کہ اس رستہ کے ہر قدم پر خدا کے فضل و رحمت کا سایہ تمہارے سر پر ہو گا اور اس کے رسول اور اس کے مسیح علیہ السلام کی پاک دُعائیں تمہارے ساتھ ساتھ چلیں گی.اے ہمارے خالق و مالک ! اے ہمارے آسمانی آقا ! ہماری کمزور کشتیوں کے طاقتور ناخدا ! تو ہر احمدی ماں کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دے کہ وہ اپنی اولاد کو تیری ایک مقدس امانت سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کو ایسی بنیادوں پر قائم کر دے جو تیری رضا اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کا موجب ہو اور تو احمدی بچوں کو بھی یہ تو فیق عطا کر کہ وہ اپنی نیک ماؤں کی تربیت کے نقوش کو صالح اور سلیم بچوں کی طرح قبول کریں.وَرَبَّنَاهَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً (الفرقان : 75) رَبَّنَا آتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادة (ال عمران : 195) آمين يا ارحم الراحمين و آخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين خاکسار راقم آثم مرزا بشیر احمد آف قادیان حال ربوه جنوری 1953ء نام کتاب شمارہ نمبر...تعداد.............اچھی مائیں ( تربیت اولاد کے دس سنہری گر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اول 1000