Abdur Raheem Diyanat

Abdur Raheem Diyanat

میاں عبدالرحیم صاحب دیانت

شادی، آپ کا حُسن سلوک، جدائی، صبر
Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان جماعت احمدیہ

Book Content

Page 1

شادی جدائی سیر

Page 2

مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش مرحوم کے خطوط اور خود نوشت حالات زندگی سے ماخوذ شادی آپس کا محسن سلوک جُدائی ، صبر الفضـ روزنامه ای انٹرنیشنل لندن میں شائع شدہ مضامین امته الباری ناصر

Page 3

اہم نکات ابا جان ہر سال ایک مہینہ وقف عارضی پر جماعت کے انتظام کے تحت جاتے تھے.ابا جان کے لئے یہ نیکی بھی امی جان کے تعاون سے ممکن ہوئی.صفحہ نمبر 14 الفضل انٹرنیشنل.4 جنوری 2022ء) جماعت کے لئے قربانی اور جدائی کو قبول کرنے والے کوئی الگ مخلوق نہیں ہوتے.جذبات میں آنے والے منہ زور طوفانوں کا خدا کی طرف رُخ پھیر کر آنسوؤں سے ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے.جدائی اور صبر کا جو امتحان شروع ہوا تھا اس کی طوالت کا اندازہ نہیں تھا.صفحہ نمبر 2 الفضل انٹرنیشنل - 7 جنوری 2022ء) اکتوبر 1947ء سے اپریل 1949 ء تک رتن باغ میں قیام رہا پھر حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ نے تازہ بستی ربوہ آباد کی.صفحہ نمبرن (الفضل انٹر نیشنل.11 جنوری 2022 ء) آپا کی شادی کے وقت ابا جان نے ہر جذباتی ریلے کا رُخ حمد وشکر کی طرف پھیر دیا.امی کو نصیحت کی کہ شادی پر زیادہ خرچ نہ کرنا.صفحہ نمبر 5 (الفضل انٹر نیشنل.14 جنوری 2022 ء ) آپ کی والدہ ماجدہ مبارکہ مقدسہ نے میری رائے کو ہمیشہ فوقیت دی ہے.خدا تعالیٰ نے الفضل انٹر نیشنل 18 جنوری 2022ء) ان کو ذہن رسا دیا تھا.صفحہ نمبر 15 65 اس وقت سلسلہ سے عشق و محبت یہ تقاضا کرتا ہے کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ.کسی چیز سے محبت نہ کر وصرف الہی سلسلے سے.کسی شحص کو ترجیح نہ دو بس خدا کے ہو جاؤ.صفحہ نمبر الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2022ء )

Page 4

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) شادی آپس کا حسن سلوک جدائی ،صبر یہ چند الفاظ جو عنوان بنائے ہیں میرے والدین کی مکمل داستان حیات ہے.جس میں ایک عہد کی پوری تاریخ ہے.جذبات کی قربانی کی دل گداز کہانی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے وابستگی کس طرح اسلام کے ابتدائی دور کے بدری صحابہ جیسی قربانیوں کا مزاج بنا دیتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کیسے ان کا اجر عنایت فرماتا ہے سب اس کہانی میں ملے گا.راقم الحروف اپنے والدین کے آٹھ بچوں میں چھٹے نمبر پر پیدا ہوئی.چھ سال کی تھی جب پاکستان آگئے جب ہوش سنبھالا ابا جان کو قادیان میں درویش پایا اور سادہ سی باوقار امی جان کو بچوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف دیکھا.دونوں کو ایک ساتھ رہتے سہتے دیکھنے کا بہت کم موقع ملا.پہلی دفعہ 1954ء میں ابا جان ربوہ آئے پھر 1980 ء تک کبھی کبھی مختصری چھٹی لے کر آیا کرتے تھے.اگر یہ سارا عرصہ شمار کریں تو کتنا بن جائے گا.یہی کوئی اڑھائی تین سال.بس مجھے ابا جان کا ساتھ اسی قدر میسر آسکا.3

Page 5

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ابا جان امی جان کی کہانی کا ایک مآخذ ابا جان کے خطوط ہیں.یہ خط عام طور پر بڑے بہن بھائی کے نام ہوتے ابا جان کی شکستہ پختہ تحریر پڑھنے میں امی جان کو دقت ہوتی دوسرے وہ خود جواب نہ لکھ سکتی تھیں اس لیے یہ ایک طرح کے کھلے خط تھے.اس میں امی جان کے نام پیغام ہوتے جواب بھی بچے ہی لکھتے.اس خط و کتابت اور پھر اس کی حفاظت کے لیے میں اپنی امی جان اور بڑے بہن بھائیوں کی شکر گزار ہوں.جب یہ خطوط پڑھتی ہوں تو لگتا ہے کئی زندگیاں اپنے والدین کے ساتھ گزاری ہیں.یہ ایک جانی ہوئی حقیقت ہے کہ مخطوط میں انسان تمام تر سچائی اور خلوص کے ساتھ دل کھول کے رکھ دیتا ہے.تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی ان خطوط میں سچے ، کھرے، حقیقی، بے لاگ جذبات کا ایک جہان ہے جو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے.دوسرا مآخذ ابا جان کی تحریر کردہ یادداشتیں ہیں اور تیسرا گھر اور خاندان کے بڑوں کی باتیں پھر اپنا مشاہدہ ہے.ان سب کو چشم تصور سے یک جا کر کے ایک سوانح مرتب کی ہے.اللہ تعالیٰ میرے والدین کے درجات بلند فرماتا رہے.آمین.شادی مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کی بیٹی تھیں جو ہتے ہالی (مشرقی پنجاب) نامی گاؤں میں رہتے تھے.آپ مشہور علم دوست شخصیت تھے.سکول ٹیچر تھے.پنجابی شاعر کی حیثیت سے معروف اور مقبول تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے، آپ کے دعوی سے پہلے کے عقیدت مند تھے.قادیان کے صحابہؓ کی 4

Page 6

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) فہرست میں آپ کا نام درج ہے: ”مولوی اللہ بخش صاحب دربان ولد میاں شاہ دین صاحب ہے ہالی ضلع و تحصیل گورداسپورسن بیعت 1905 سن زیارت 1880ء 6 ( تاریخ احمدیت جلد ششم صفحه (141) رجسٹر روایات صحابہ میں بھی آپ کی روایات درج ہیں.احمدیت قبول کرنے کے حالات پر ایک طویل پنجابی نظم کہی جو ایک تبلیغی دستاویز اور اس زمانے کے حالات کی عکاس ہے.حکیم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا.آمنہ بیگم سب سے چھوٹی تھیں.حکیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان سے بہت پیار تھا.احمدیت کی لذت سے آشنا ہو چکے تھے.بچی پیدا ہوئی تو سوچا کہ اس کی شادی احمدیوں میں کریں گے اس خیال سے اُن کا دھیان ایک احمدی دوست میاں فضل محمد صاحب کی طرف گیا جن کے ہاں نو عمر بیٹا تھا.اُن کو اپنی نوزائیدہ بیٹی کے لیے مناسب رشتہ مل گیا.حضرت منشی جھنڈے خان صاحب کو پیغام دے کر قادیان بھیجا کہ جا کر فضل محمد صاحب کو ہمارا سلام کہیں اور یہ پیغام دیں کہ آپ کا جو بیٹا عبدالرحیم ہے وہ آج سے ہمارا ہوا.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.منشی صاحب سے حکیم صاحب کا پیغام سن کر میاں فضل محمد صاحب نے کہا: " جزاکم اللہ احسن الجزاء.میں لڑکے کی والدہ کو آپ کے گاؤں بھیجوں گا.“ اس طرح اس رشتے کی بنیاد صرف اور صرف احمدیت کی محبت پر رکھی گئی.5

Page 7

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) آمنہ بیگم ابھی کم سن تھیں کہ والدہ کی وفات ہوگئی.بڑے بہن بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں گھر کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا نمی بچی کو گھر سنبھالنا پڑا.گھر کا کام کرنا بہت مشکل تھا روٹی بنائی نہیں آتی تھی آئے کے گولے سے بنا کر کوئلوں پر ڈال دیتیں پھر باپ بیٹی اوپر سے جلا ہوا حصہ چھیل کے کھالیتے.گاؤں میں احمدیت کی مخالفت بہت زیادہ تھی بعض دفعہ اشیائے خور و نوش حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا.ان حالات میں سکول جانا مشکل تھا ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکیں.مکرم عبدالرحیم صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے کے دوسرے بیٹے تھے.میاں صاحب اور ان کی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہ نے 1896ء میں احمدیت قبول کی تھی آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود نے ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے خدائے قادر کی طرف سے برکات کے دگنی ہونے کا مژدہ دیا تھا.حکیم صاحب کی طرف سے رشتے کی بات کے سات آٹھ سال بعد حضرت میاں صاحب کو خیال آیا کہ حکیم صاحب نے رشتہ بھیجا تھا ان کو ہاں تو کر دی تھی لڑکی کو دیکھنا بھی چاہیے.چنانچہ آپ کی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہ اپنی ایک قریبی عزیزہ کے ساتھ پیتے ہالی گئیں.بچی کو حسن صورت اور حسن سیرت سے مزین دیکھ کر خوش ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر بات پکی کر آئیں.کوئی رسم ادا نہ کی.والدہ صاحبہ نے گھر آ کر اپنے بیٹے عبدالرحیم کو اپنے پاس بلا یا گود میں لے کر بڑے پیار سے منہ چوما اور ہلکی سی پیار بھری تھکی لگاتے ہوئے کہا: 6

Page 8

وو شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جدائی بصبر ) بچے تیری بیوی دیکھ کر آئی ہوں لڑکی کیا ہے جنت کی حور ہے.“ رض حضرت برکت بی بی صاحبہ حضرت ام المومنین سے بہت محبت اور عقیدت رکھتی تھیں آپس میں سہیلیوں کی طرح پیار تھا ان کی خدمت میں رہنے کے لیے بار بار قادیان آتیں.آکر الدار میں ٹھہر تیں.آپ نے قادیان کے قریب آنے کی خواہش میں قادیان کے جنوب میں آدھ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں منگل باغباناں میں ایک مکان لیا اور بچوں کے ساتھ اُس میں منتقل ہو گئیں.قادیان قریب تر ہو گیا مگر اتنی دوری بھی گوارا نہ ہوئی اور بالآخر 1916 - 1917ء میں یہ خاندان ہجرت کر کے قادیان آبسا.قادیان کے جس محلے میں آپ نے مکان بنایا اس کا نام حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے محلہ دار الفضل، اور آپ کے مکان کا نام فضل منزل رکھا.قادیان آ کر آپ کا انتقال ہو گیا اللہ پاک نے پانچ بیٹیوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا.حضرت صاحب کی تحریک اور تجویز پر میاں صاحب کی دوسری شادی محترمہ صوباں بیگم صاحبہ سے ہوئی جن کے اپنے پہلے شوہر سے تین بچے تھے.دو بچے یہاں آ کر ہوئے.موصوفہ بہت نیک فطرت، خدا ترس، غریبوں کی ہمدرد اور ہر ایک سے حسنِ سلوک کرنے والی تھیں، آپ کے مزاج میں جو پیار محبت تھا اُس نے گھر میں پیار محبت کی فضا بنائی ہوئی تھی.عبدالرحیم بہت ذہین طالب علم تھے.جماعت چہارم میں وظیفہ کے امتحان کے لیے منتخب ہوئے.امتحان کی خوب تیاری تھی.ایک بزرگ استاد نے جائزہ لیا تو اس 7

Page 9

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک.جدائی ،صبر بات پر حیران ہو گیا کہ بچہ بڑے بڑے سوال آسانی سے زبانی ہی حل کرتا جارہا ہے.استاد صاحب نے شاگرد کو اپنی خوشنودی سے نوازتے ہوئے بازار سے تمباکو خرید کر لانے کی خدمت تفویض کر دی.اس خدمت کے دوران امتحان کا وقت نکل گیا یا یوں کہہ لیں کہ قدرت نے لائن تبدیل کر دی.مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے ساتھ جگہ ملی.ایک بزرگ استاد کلاس میں داخل ہوتے ہی پیارومحبت کے اظہار کے طور پر پچھلے بینچ پر بیٹھے طالبعلموں کو ایک ایک ہاتھ رسید کرتے ہوئے آگے نکل جاتے.یہ حسنِ سلوک عجیب لگا.والد صاحب سے ذکر کیا.انہیں اپنے کاروبار میں ایک مددگار کی ضرورت تھی.بڑے بھائی مدرسہ احمدیہ میں ہی پڑھ رہے تھے.فرمایا: ” بیٹا تم کاروبار میں میری مدد کیا کرو.“ اس طرح چھوٹی عمر میں ہی کا روباری ذمہ داریاں سنبھال لیں.میاں عبدالرحیم صاحب جب اکیس سال کے ہوئے تو 1924 ء میں ان کا نکاح آمنہ بیگم صاحبه بعمر انداز پندرہ سال سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے قادیان میں پڑھایا.شادی خانہ آبادی 26 جنوری 1925ء کو ہوئی.بارات شہر سے گاؤں لے کر جانے کے لیے بس کرائے پر لی گئی اُس زمانے میں یہ انوکھی بات تھی.عرصے تک چر چا رہا.گاؤں گئے تو معلوم ہوا کہ باراتیوں کے لیے کھانا ہند و باورچیوں سے بنوایا گیا ہے.کچھ تر ڈد کا اظہار کرنے پر سارا کھانا وہاں کے مقامی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا.کھانا نئے سرے سے مسلمانوں سے پکوایا گیا.گاؤں کی آن پڑھ کم عمر دلہن جو حسن فطرت اور حسن تربیت سے مزین تھی فضل منزل میں ایک بھرے 8

Page 10

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) پڑے بابرکت گھر میں داخل ہوئی.بیوی کو دیکھا تو اپنی والدہ صاحبہ کے الفاظ یاد آئے.وہ تو واقعی خور تھیں.صحن کے جنوب مشرقی کونے میں ایک کمرہ بنوایا گیا تھا.بڑے بیٹے حضرت عبدالغفور صاحب کی فیملی کے لیے بھی ایک کمرہ کا اضافہ ہوا تھا.دلہن کی بیماری اور شفا لہن کو شادی کے بعد شدید بیماری کا سامنا کرنا پڑا.ابا جان نے اپنی ڈائری میں اس کا احوال یوں لکھا ہے کہ ”دعوت ولیمہ ہو رہی تھی حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانی تشریف لائے ہوئے تھے میں نے بیوی کو کہا کہ آؤ دیکھو حضور تشریف لائے ہیں مگر اُس کو بخار چڑھ رہا تھا.اچھی طرح دیکھے نہ پارہی تھی پھر بخار بہت تیز ہو گیا اور خطر ناک صورت اختیار کر گیا.کسی طرح آرام نہ آ رہا تھا میں حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کرنے گیا.میری پریشانی دیکھ کر حضور نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو معائنہ کی ہدایت فرمائی آپ اُس وقت قادیان کے نواحی علاقے میں ٹینس کھیل رہے تھے حضور کا ارشاد سن کر میرے ساتھ تشریف لائے ڈاکٹر رشید الدین صاحب بھی تشریف لائے اور مشورہ سے نسخہ تجویز کیا.مکرم حکیم صاحب کو بھی ان کی بیٹی کی بیماری کی اطلاع دی گئی آپ نے سفر کے لئے ایک گھوڑا رکھا ہوا تھا گھوڑے پر قادیان آئے بچی کی حالت دیکھی خود حکیم تھے بیماری کی شدت کا اندازہ تھا افسردگی سے فرمایا: ”اچھا اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا میری بچی تو زندگی میں ہی جنت میں آگئی تھی.“ 9

Page 11

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) چند دن ٹھہر کر آپ واپس تشریف لے گئے آمنہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی.جس طرح میری والدہ صاحبہ کو وہ ایک نظر میں بھا گئی تھی میرے بھی دل میں گھر کر گئی تھی.ایک سچا عاشق جس طرح اپنے معشوق کی علالت میں تیمار داری کر سکتا ہے میں نے اس سے بڑھ کر کی.کوئی کسر نہ چھوڑی.آخر سب نا اُمید ہو کر تھک ہار کر بیٹھ گئے.تیمارداری، علاج معالجہ دیکھ پرداخت پر توجہ کم ہو گئی.مگر ایک میں تھا کہ راتوں کو جاگتا اور دن بھر پٹی سے لگا رہتا.بس نہ چلتا کہ خود کو قربان کر کے اُس کو بچالوں.ایک رات ایسی آئی کہ والد صاحب آئے نبض دیکھی اور مایوس ہو کر لیٹ گئے.سب گھر والےسو گئے.میں جاگ رہا تھا اور حسب معمول اللہ تعالیٰ سے اُس کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا.اُس کی بیماری نے مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا تھا.بیماری کو ایک ماہ چودہ دن ہو گئے تھے.اتنے لمبے عرصے کے بعد اُس نے آنکھیں کھولیں اور گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور کہا آپ ابھی تک بیٹھے ہیں سو کیوں نہیں جاتے ؟ میں نے بے ساختہ کہا تم کو اس حالت میں چھوڑ کر نیند کیسے آسکتی ہے؟ اس نے کہا: ”اچھا.جزاک اللہ.مجھے بھوک لگی ہے.“ پاس ہی یخنی پڑی تھی چند تی دیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے جا کر والد صاحب کو بتایا وہ بھی بے حد خوش ہوئے اور سجدہ شکر ادا کیا.اُس وقت میری بیوی نے مجھ سے پہلی فرمائش کی جس سے اُس کی قادیان سے محبت پھوٹی پڑتی ہے بے حد نحیف آواز میں کہا: 10

Page 12

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) " آپ مجھے مسجد اقصیٰ کے کنوئیں کا پانی پلا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام استعمال کیا کرتے تھے؟“ عقیدت و محبت کے عالم میں یہ پانی آب شفا بن گیا اور اللہ تعالیٰ نے آمنہ کونئی زندگی عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہم میاں بیوی کو آپس کی گہری محبت سے نوازا کچھ مدت کے بعد اُس کے بھائی میاں احمد دین صاحب اُسے گاؤں لے جانے کے لئے آئے تو بھیجنا مشکل ہورہا تھا.اُس کو گھوڑے پر سوار کر کے روانہ تو کر دیا مگر واپسی پر گھر کا فاصلہ اس قدر دراز اور بوجھل لگا کہ طبیعت قابو میں نہ رہی.حضرت نواب صاحب کے کنوئیں پر بیٹھ کر دل ہلکا کرنے کی کوشش کی پھر آنکھیں صاف کیں اور افسردگی سے گھر آکر کام میں مصروف ہو کر غم غلط کیا.امی جان نے اپنے سسرال میں اپنی اطاعت، فرمانبرداری، محبت اور خوش مزاجی سے سب کے دل جیت لیے.گھر کے کاموں میں محنت سے ہاتھ بٹا تیں.بڑوں کے احترام اور چھوٹوں سے پیار نے ان کو ہر دلعزیز بنا دیا.دادا جان کی دکان کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتیں اور دعائیں لیتیں.اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا.پہلی بیٹی امتة اللطیف کی پیدائش کے بعد سے امی جان ابا جان کو لطیف کے ابا کہنے لگیں پھر ہم نے ساری عمر ان کے منہ سے ابا جان کے لیے لطیف کے ابا ہی سنا.فضل منزل میں ماحول خوشگوار رہتا سب افراد خانہ ایک دوسرے سے بہت تعاون کرتے.گھر میں کبھی 11

Page 13

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر سگے سوتیلے کا سوال پیدا نہ ہوا.فضل منزل میں مجھ سے بڑی تین بہنیں اور دو بھائی پیدا ہوئے.اباجان دکان پر دادا جان کے ساتھ کام کرتے.کاروبار اچھا تھا.کام بڑھ گیا تو اباجان نے مسجد مبارک کے چوک میں ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی دکان کرایہ پر لے کر الگ کام شروع کیا اس دکان میں سولہ سال کام کیا جب الگ دکان شروع کی تو فاصلے کی وجہ سے روز آنا جانا مشکل لگتا.والدین کے مشورے اور اجازت سے ریتی چھلے کے سامنے دار الفتوح میں اپنا مکان بنایا اور اُس میں منتقل ہو گئے.بعد میں پہلی دکان کے بالکل سامنے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی دکان کرایہ پر لے کر کام کیا.( تا وفات یہ دکان آپ کے پاس رہی قریباً 46 سال) جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا برکت ہی برکت دیکھی.اعلیٰ ترین سرکاری ملازمین سے زیادہ کمایا.امی جان کو قادیان کا مقدس ماحول اور علمی ذوق رکھنے والا گھرانا نصیب ہوا.آپ نے مکرمہ استانی بیگم جی صاحبہ سے قرآن مجید پڑھا اردو پڑھنا بھی سیکھ لیا.خطبات، درس، لجنہ کے اجلاسوں میں کمال اہتمام و با قاعدگی سے شمولیت کی وجہ سے علم وسیع ہوتا چلا گیا.در ثمین اور الفضل شوق سے پڑھتیں.در ثمین اور کلام محمود کے اشعار کثرت سے زبانی یاد تھے.ابا جان کی طبیعت کو اس طرح سمجھتی تھیں کہ بسا اوقات انہیں کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی.اشارہ کرنے کی بھی نوبت نہ آتی اور ایک دوسرے کے منشا کے مطابق عمل 12

Page 14

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ہو جاتا.خدا تعالیٰ کے فضل سے میاں بیوی کی باہم ناراضگی ، نا خوشی اور جھوٹ وغیرہ کا بالکل کوئی دخل نہیں تھا.وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق مضبوط اور گہرا ہوتا گیا.ایک دوسرے کے جذبات کا احترام گھر کے سکون میں اضافہ کرتا.دینی احکام کی کماحقہ تعمیل کرتیں.پردہ اور حیا اگر ایک احمدی عورت کا زیور اور خوبصورتی ہے تو آپ میں یہ جوہر بدرجہ کمال موجود تھا.دونوں کا اپنے اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی قابل رشک تھا.ابا جان کی کاروبار میں انہماک کی وجہ سے بعض نیک کاموں کی تحریک اور یاد دہانی بھی کرواتیں.ایک دفعہ دادی اماں نے پوچھا عبد الرحیم صبح نماز کے لیے اٹھتا ہے.امی کے جواب میں ذرا ہچکچاہٹ دیکھ کر انہوں نے کہا نہ اٹھے تو پانی کا ہلکا چھینٹا مار دیا کرو.امی جان نے کہنا مانا اور اگلی صبح چھینٹا ماردیا ابا جان نے حیرت اور خفگی سے امی کی طرف دیکھا تو آپ نے حجٹ کہہ دیا آپ کی اماں نے کہا تھا اس پر ابا جان خاموش ہو گئے اور اس کے بعد پانی کا چھینٹا مارنے کی نوبت نہ آئی.نماز با جماعت اور جمعہ پر جانے کا خاص اہتمام ہوتا.پہلے سے تیاری شروع کر دیتیں.جس کی وجہ سے غفلت کا امکان نہ رہتا.قادیان کے زمانے کی بات ہے.ابا جان کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں اکثر کبھی بٹالہ کبھی امرتسر جانا پڑتا تھا تحریک جدید کے اجرا سے پہلے کا زمانہ تھا جب کبھی موقع ملتا سینما بھی چلے جاتے جس کی وجہ سے واپسی میں دیر ہو جاتی.امی جان کو یہ بات پسند نہیں تھی مگر کوئی حل نظر نہیں آتا تھا.ایک جمعہ کے دن یہ پروگرام بنایا کہ جمعہ سے واپسی کے بعد امرتسر جائیں گے اور وہاں سے شوق سینما بینی پورا کر کے واپسی ہوگی.امی جان نے 13

Page 15

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر کہا کہ خدا کرے حضور آج کے خطبہ میں سینما جانے پر پابندی لگا دیں.دعا بھی کی.خدا کی قدرت حضور کے خطبہ کا موضوع سادہ زندگی تھا اور سینما بینی کی ناپسندیدگی کا اظہار تھا.آپ جمعہ پڑھنے مسجد گئی ہوئی تھیں خوش خوش واپس آئیں.ابا جان کی نظر میں آپ کا مقام اور زیادہ بڑھ گیا اور اس کے بعد اس شوق سے مکمل اجتناب اختیار کیا.یہ واقعہ امی جان سے سن ہوا تھا اب یہ مضمون لکھتے ہوئے تحریک جدید کے بارے میں خطبہ نکال کر دیکھا ہے یہ 23 نومبر 1934 ء کا خطبہ ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا تھا: " آج کل بڑا خرچ تماشوں وغیرہ پر ہوتا ہے اور یہ خرچ شہروں وغیرہ میں تو خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے.ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال کوئی احمدی کسی سینما، سرکس ، تھیٹر غرضیکہ کسی تماشا وغیرہ میں بالکل نہ جائے آج سے تین سال تک کے لئے میری یہ جماعت کو ہدایت ہے اور ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہے اس کے لئے سنیما یا کوئی اور تماشا وغیرہ دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا نا جائز ہے.“ ابا جان ہر سال ایک مہینہ وقف عارضی پر جماعتی انتظام کے تحت جاتے تھے.ابا جان کے لیے یہ نیکی بھی امی جان کے تعاون سے ممکن ہوئی.آپ حوصلہ بڑھاتیں اور گھر کی ذمہ داریاں عمدگی سے سنبھالتیں.اسی ماحول اور جذبہ نے بعد میں وقت پڑنے پر درویشی کی زیادہ بڑی نیکی کی توفیق عطا فرمائی.14

Page 16

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح فراخی تھی ایک مصدقہ دستاویز کے مطابق تقسیم ہند کے وقت درویش کی قادیان میں جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی.( یہ اس وقت کی بات ہے جب گندم 5 روپے من اور دیسی گھی ایک روپے سیر ملتا تھا) قربانی کی جھلک یہاں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے.جب حضور نے وقف جائیداد کا مطالبہ فرمایا تو وہ جائیداد جو موروثی یا پشتی نہیں تھی بلکہ واقعی طور پر گاڑھے پینے کی کمائی تھی پوری بشاشت کے ساتھ پیش کر دی.آپ کی آمد میں برکت تھی اور دل بھی کھلا تھا.خدمت خلق اور مہمان نوازی کا شوق تھا.بلکہ یہ شوق سانجھا تھا دونوں میاں بیوی کو ایتاء ذی القربیٰ کی بہت توفیق ملی بہت سے رشتہ داروں کو قادیان بلا کر بسنے میں مدد دی.کسی کو کوئی ہنر سکھا یا کسی کو دکان بنانے میں مدد دی.کئی بچیوں کے رشتے طے کرائے کئی شادیاں اپنے خرچ پر کروائیں.کئی نادار مریضوں کے علاج معالجے میں مدد فرماتے تھے.غرباء یتامی و مساکین کی دلجوئی اور خبر گیری بھی کرتے تھے.دار الشیوخ میں مقیم طلباء کو گاہے گاہے کھانا پکوا کر بھجوایا کرتے تھے ان سے فرمائش بھی پوچھتے اور من پسند کھانے کا سامان پیش کرنے میں خوشی محسوس کرتے.ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کرتے طلباء کی تعلیم کا خرچ بھی اُٹھاتے.حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال فراخ دلی والتزام کی وجہ سے مرکز سلسلہ احمدیہ قادیان میں ہمارا گھر سب رشتہ داروں کا مرکز بنا رہتا تھا.15

Page 17

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جدائی بصبر ) ایک یادگار واقعہ ابا جان کے الفاظ میں درج ہے: ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ کرام ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہورہے ہیں کیوں نہ ایسا پروگرام بناؤں کہ ہفتے دس دن بعد کسی ایک صحابی کو گھر پہ دعوت دوں تا کہ بیوی بچے پاکیزہ کلام، سیرت و سوانح ، ذکر حبیب سُن کر اپنے ایمان کو تازہ کریں.چنانچہ اس پر عمل شروع ہوا گھر کے افراد ان کے ارد گرد بیٹھ جاتے.مل کر کھانا کھاتے اور باتیں سن کر لطف اندوز ہوتے.ایک دن ہم دونوں میاں بیوی نماز جمعہ کے لئے مسجد میں موجود تھے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا اصحاب مسیح دیکھنے کو بھی نہ ملیں گے ایک ایک کر کے جدا ہوتے جا رہے ہیں.ان کی صحبت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.میں نے اس ارشاد سے بہت لطف لیا.شام کو گھر واپس آیا تو میری بیوی بڑے اہتمام سے میرا انتظار کر رہی تھی جیسے کوئی مبلغ ایک عرصہ تک دعوت الی اللہ کر کے واپس آرہا ہو اس کی خوشی کی ایک ادا یہ تھی کہ موتیے کے پھولوں کے ہار میری چارپائی کے پائیوں پر لٹکا دیتی اُس کے چہرے پر حیا اور مسرت کی ملی خیلی کیفیت ہوتی تھی.اس دن یہ سب اہتمام دیکھ کر میں نے پوچھا کیا بات ہے کس بات کی خوشی ہے؟ کہنے لگی آپ کے گھر آنے کی کم خوشی ہونی چاہیے؟ میں نے کہا کہ کیا میں امریکہ سے تبلیغ کر کے آیا ہوں؟ کہنے لگی ایسا ہی لگتا ہے.16

Page 18

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) پھر کھانا پیش کیا اور ساتھ ساتھ اپنی خوشی کا راز بھی بتایا کہ آج کے خطبہ سے میں بے حد خوش ہوئی کہ آپ نے ہمارے لئے پہلے سے صحابہ کرام حضرت مسیح موعود سے ملنے کا انتظام کر رکھا ہے.میں نے بتایا کہ میں بھی خطبہ سن کر ย بہت خوش ہو رہا تھا.یہ تھیں ہماری خوشیاں کہ خلیفتہ اسیح " کے ارشاد سے پہلے تعمیل ارشاد کی توفیق مل رہی تھی." امی جان کی دینداری کا ایک اور واقعہ ابا جان نے تحریر کیا: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری بیوی سکینت وراحت کا بے مثل نمونہ ہے.ان گنت واقعات میں سے ایک تحریر کرتا ہوں.باسط چھوٹا تھا.آموں کا موسم تھا.پٹھان کوٹ کے اچھے آم سرکنڈوں کی چوکور ٹوکریوں میں بکا کرتے تھے اُسے کھاری کہتے تھے ستے زمانے تھے ایک کھاری سے ہیں سے پینتیس سیر تک آم نکلتے تھے قیمت صرف دو اڑھائی روپے ہوتی.کھاری منڈی والوں کو واپس کر دیتے.ایک دفعہ کھاری خرید کر لایا تو آم بہت مزے دار تھے باسط چھوٹا تھا کھاری پر بیٹھ گیا اور آم کھانے لگا.اچھے لگے تو کچھ زیادہ ہی کھا گیا.پیٹ خراب ہو گیا پیچیش لگ گئی بے حد تکلیف تھی اُس کے لمبا کر کے 'ہائے اللہ کہنے سے دل دہل جاتا.بہت علاج ہوا مگر فائدہ نہ ہو رہا تھا اُدھر میرے وقف برائے دعوت الی اللہ کے دن قریب آ رہے تھے میں نے ایک ماہ وقف کیا ہوا تھا اور مکیریاں جانا تھا.بچہ بہت بیمار 17

Page 19

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) تھا اس لئے میرے جانے میں تاخیر ہونے لگی.ایک دن اس کی والدہ نے بڑے صبر اور توکل سے کام لیتے ہوئے کہا: لطیف کے ابا جب تک آپ گھر سے باہر نہ جائیں گے بچہ تندرست نہ ہو گا.آپ نے خدا کے راستے پر جانا ہے اس کو خدا کے حوالے کر دیں انشاء اللہ بچے کواللہ تعالیٰ صحت دے گا.یہ بات دل پر تیر کی طرح لگی رات کا وقت تھا صبح ہوتے ہی مکیریاں اپنے وقف کے لئے روانہ ہو گیا.چار دن کے بعد خط ملا کے بچہ آپ کے گھر سے جانے کے بعد ٹھیک ہونا شروع ہو گیا تھا.اب بالکل ٹھیک ہے.اُس حکیم مطلق نے میری اہلیہ کے توکل کی لاج رکھ لی.اللہ تعالیٰ کے پیار کے ایسے پیارے سلوک سے میری زندگی بھری پڑی ہے.الحمد للہ “ اب ایک واقعہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم بنت حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا تحریر کیا ہوا پیش کرتی ہوں جو امی جان کو قادیان کے زمانے سے جانتی ہیں: بھائی عبد الرحیم صاحب در ویش مرحوم کی بیگم صاحبہ نہایت ہی دین دار نیک اور پر خلوص خاتون تھیں.بہت ہی محبت کرنے والی، بہت ہی کم گو تھیں لیکن جب ملتیں مُسکراتے ہوئے چہرے سے ملتیں.عجیب سی معصومیت تھی اُن کے چہرے پر جو میں کبھی نہیں بھول سکتی مجھے تو زیادہ تر قادیان میں ہی اُن سے ملنے کا موقع ملا کیونکہ جمعہ کی نماز کا مستورات کا 18

Page 20

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) انتظام ہمارے گھر کی نچلی منزل میں ہوتا تھا اور پھر ہفتہ کے دن صبح قرآن کریم کا درس بھی حضرت فضل عمر وہیں پر دیتے تھے.وہ ہمیشہ بغیر ناغہ کے جمعہ کی نماز اور درس میں شریک ہونے کے لئے آتیں ویسے وہ گھر سے شاید بہت ہی کم نکلتی تھیں.ان کی زندگی کا مقصد اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ہی تھا اُنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت نہایت ہی اعلیٰ رنگ میں کی.دینی تعلیم بھی پھر خدمت دین کا جذ بہ اور دینی غیرت بھی ان کے اندر پیدا کی.اس پر بس نہیں کی بلکہ اپنی بچیوں کو گھر کا سلیقہ بھی خوب سکھایا.پھر شادی بیاہ کا بوجھ اُن پر ہی تھا ہر بچی کی شادی دین کو دُنیا پر مقدم رکھنے کے اصول پر کی.ما شاء اللہ اُن کی سب بچیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں دین بھی ہے اور دنیا بھی.بہت خوش ہوتی ہوں ان کی بچیوں سے مل کر.ماشاء اللہ وہ بھی اپنی والدہ کی تربیت کے نتیجہ میں اپنے بچوں کی ویسی ہی تعلیم و تربیت کر رہی ہیں اور خود بھی دینی کاموں میں پیش پیش ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو اور اُن کی قیامت تک کی نسلوں کو خادم دین اور سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ رکھے.“ اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں یہ واقعہ میرے بہت ہی بچپن سے تعلق رکھتا ہے میں بہت چھوٹی تھی اور نیا نیا سکول جانا شروع ہوئی تھی.ایک دن آدھی چھٹی کے وقت ہم سب لڑکیاں باہر کھڑی تھیں وہ بہت ہی ستا زمانہ تھا.بہت سی بچیوں کے والدین اپنی بچیوں کو ہر روز خرچ کے لئے ایک پیسہ دو پیسے دیتے تھے.کئی 19

Page 21

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر لڑکیاں صبح ناشتہ کے بغیر ہی جلدی میں سکول آجاتیں.اس طرح ایک لڑکی صبح ناشتہ کے بغیر ہی گھر سے سکول آگئی اور پیسے لانا بھی شاید بھول گئی اس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی جو ایک پیسے کے چنے خرید کر کھا رہی تھی اس لڑکی کو ساتھ کی لڑکی نے کہا جو پیسے نہیں لائی تھی کہ تمہارے پاس دو پیسے تھے ایک پیسے کے تم نے چنے کے لئے ایک پیسہ جو تمہارے پاس ہے مجھے دے دو میں پیسے لانا بھول گئی ہوں.وہ انکار کر رہی تھی کہ میں نہیں دے سکتی وہ لڑکی منت کرنے لگی کہ میں ناشتہ بھی نہیں کر کے آئی مجھے بھوک لگ رہی ہے میں کل تمہیں یہ پیسہ لا کر دے دوں گی جب وہ کسی طرح بھی رضامند نہ ہوئی تو اُس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ سفارش کر دیں مجھے بھوک لگی ہے میں کل لا دوں گی مجھے اُس لڑکی پر ترس آگیا میں نے کہا دے دو یہ کل لادے گی.میرے کہنے پر اُس لڑکی نے اُسے پیسہ دے دیا.وہ لڑکی ہر روز ہی جب دوسری لڑکی سے اپنا پیسہ مانگتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی اس طرح ہفتوں گزر گئے.وہ لڑکی ہر روز مجھے بھی کہتی کہ آپ نے اس کی سفارش کی تھی.اُن دنوں ہم بچوں کو اتنی چھوٹی عمر میں ہاتھ میں سوائے عید وغیرہ کے پیسے نہیں ملتے تھے.جس چیز کی ہم خواہش کرتے وہ منگوادی جاتی تھی.آخر ایک دن اُس لڑکی نے مجھے کہا کہ اگر فلاں دن تک پیسہ نہ دیا تو میں حضور کو تمہاری شکایت کر دوں گی.میں سخت گھبرائی اور بے حد پریشان ہوئی کہ سید نا ابا جان کو معلوم ہو گیا تو آپ کو اس بات کی سخت تکلیف ہوگی کیونکہ میں جانتی تھی کہ سید نا ابا جان کو قرض لینا برداشت ہی نہیں اور قرض لینے سے سخت نفرت تھی.تو میں نے رورو کر نماز میں دعا ئیں شروع کر دیں اور 20

Page 22

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) بہت پریشان رہنے لگی.آپا جان سید و امیم طاہر صاحبہ مجھے پریشان دیکھتیں اور نماز میں رو رو کر دعائیں کرتے دیکھ کر پریشان ہو جاتیں اور مجھ سے پوچھتیں کہ کیا تکلیف ہے مجھے بتاؤ لیکن مجھ پر اتنا خوف طاری تھا کہ میں اُن کو بھی نہ بتاتی صرف اس لئے کہ ان کو بھی بہت تکلیف ہوگی اس بات سے کہ اس نے اس لڑکی کو قرض کیوں دلوایا اور یہ ذمہ داری کیوں لی.اور اب تو وہ لڑکی جس نے بطور قرض کے پیسہ دیا تھا وہ مجھ سے کہنے لگی کہ اب تو میں ایک پیسہ نہیں لوں گی بلکہ چار آنے لوں گی اگر چار آنے نہیں دو گی تو میں حضور کو شکایت کر دوں گی.پھر تو کچھ نہ پوچھتے کہ میں نے کس طرح رو رو کر بلک بلک کر دعائیں کیں کہ یا اللہ تو میری مدد کر ایک دن میں سکول جانے کے لئے اپنے کمرہ میں تیار ہو رہی تھی کہ بھائی عبدالرحیم صاحب درویش کی بیگم صاحبہ میرے کمرہ میں آئیں اور مجھے ایک چوٹی دینے لگیں میں نے انکار کیا کہ سید نا ابا جان نے ہمیں کسی سے بھی کوئی بھی چیز لینے سے سختی سے منع کیا ہوا ہے.اس پر وہ کہنے لگیں یہ میں نہیں دے رہی آپ کی اقی نے آپ کو بھیجی ہے.میں نے حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھا اور کہا: میری امّی نے ؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟؟ اس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ آج رات میں نے خواب دیکھا کہ آپ کی اتمی بی بی امتہ اکھی میرے پاس آئیں اور مجھے ایک چونی دے کر کہنے لگیں کہ یہ میری بیٹی امتہ الرشید کو دے دینا وہ بہت پریشان ہے.میں نے وہ چونی لے کر اپنے سرہانے کے نیچے 21

Page 23

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر رکھ لی اور میری آنکھ کھل گئی مجھے یقین تھا سچ سچ وہ چونی مجھے دے گئی ہیں.میں نے تکیہ دیکھا اپنا بستر جھاڑا لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر ہر روز کے معمول کے مطابق میں اپنے کمرہ میں جھاڑو دینے لگی اور دروازے کی دہلیز پر پہنچی تو وہاں پر ایک چونی پڑی تھی اور میں وہ لے کر اُسی وقت آپ کے پاس آگئی ہوں کیونکہ یہ میری نہیں یقینا یہ وہی چوٹی ہے جو آپ کی امی آپ کے لئے دے گئی تھیں.میں نے وہ چوٹی لے لی اور اُس لڑکی کو جا کر دے دی اور اس طرح اپنی جان چھڑوائی.میرا ایمان ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ مجھ میں دعاؤں کا ذوق پیدا ہو اور قبولیت دُعا پر میرا ایمان اور یقین ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے اور یہ کہ جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگو وہ ناممکن کوممکن میں بدل دینے والا ہے.اس واقعہ کے چند دن بعد ہی ہمیں بھی روز کے دو پیسے اور جمعے کے دن ایک آنہ ملنے لگ گیا.بہت دن کے بعد یہ واقعہ میں نے آپا جان سیدہ اُئِم طاہر اور سید نا ابا جان کو بھی بتا دیا.وہ بھی اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ تم نے بہت اچھا کیا جو اپنے مولا سے مانگا اور بندوں کی طرف رجوع نہیں کیا.گھر کا ماحول آپس کی معاملہ نہمی سے بہت خوشگوار رہتا.پھوپھی جان صادقہ صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ”ہماری بھابی آمنہ بیگم، اللہ بخشے، بہت نیک مزاج، ملنسار اور سب کا دل خوش کرنے والی بھائی تھیں اماں جب بھی ان کے گھر جاتیں سب محبت سے بچھے جاتے ، بچے 22

Page 24

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) بھی آکر لپٹ جاتے ہمارے لئے ایک دن بہت خوشی کا ہوتا جب عید الفطر سے پہلے ایک دن بھائی بھابی بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آتے اور سویاں بنتیں اُس زمانے میں بازار سے سویاں لینے کا رواج نہ تھا گھروں میں مشینوں پر بنائی جاتیں.بھائی پہلے بتا جاتے کہ ہم فلاں دن آئیں گے.پھر سارا دن کوئی میدہ گوندھتا کوئی مشین چلاتا کوئی ڈوریوں پر سویاں سوکھنے کے لئے ڈالتا ہم بچے کھیلتے رہتے.اگلے دن اماں ساری سو یاں بھون کر بھائی کے گھر دے آتیں بھابی کی خواہش ہوتی کہ عید الفطر کی سویاں اور عیدی وغیرہ اور عید الاضحی کی قربانی کا گوشت اماں ہی بانٹیں اکثر اماں کو لے جایا کرتے کبھی بھابی یا کوئی بچہ بیمار ہوا اماں کچھ دن وہیں رہتیں.بھائی اماں کے بہت فرماں بردار اور خدمت گزار تھے.اس بات کا اماں کو بھی احساس تھا سارا دکھ دردان سے ہی کرتی تھیں.آخری بیماری اور وفات بھی بھائی کے گھر ہوئی.بھائی کی خدمت گزاری اور فرماں برداری کا نقش ابھی تک قائم ہے.اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے.بھابی نے بھی بہت خدمت کی، بعد میں بھی بہت یاد کرتی تھیں کہ ہم ساس بہو سہیلیوں کی طرح رہتے تھے.ہر دکھ سکھ کر لیا کرتے تھے آج کل سگی اولاد اتنا نہیں کرتی مگر اماں کے حسنِ سلوک نے اپنا عزت قدر کا مقام بنا لیا تھا.اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین.“ خاکسار کا قادیان میں جو وقت گزرا اپنی کم سنی کی وجہ سے زیادہ یاد نہیں ایک نقشہ جو ذہن میں محفوظ ہے اس سے ابا جان کا اپنے بیوی بچوں کو آرام دینے کا احساس اجاگر 23

Page 25

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) ہوتا ہے.ہم سردیوں میں ایک کمرے میں دیواروں سے لگی چار پائیوں پر سوتے صبح جب آنکھ کھلتی درمیان کی خالی جگہ پر پتھر کے کوئلوں کی دیکتی ہوئی انگیٹھی ہوتی جو ابا جان نماز کے لیے جانے سے پہلے سلگا جاتے اور واپسی پر کمرے میں لے آتے.کمرہ گرم ہو جاتا پھر اسی کمرے میں سب بچے وضو کر کے نماز اور قرآن مجید پڑھتے اباجان درس دیتے، کوئی کتاب پڑھ کر سناتے.آخری کتاب جو ہجرت سے پہلے ابا جان سنا رہے تھے وہ سیرت حضرت ام المؤمنین تھی.پھر سب مل کر ناشتہ کرتے.ابا جان کھانے کی بہت لذیذ چیزیں لے کر آتے تھے.تقسیم برصغیر کے بعد قادیان کے احمدیوں کے لیے تقسیم برصغیر ایک بہت بڑا انقلاب لے کر آئی.قیامت جیسا ہوش ربا ، ہولناک وقت تھا.قادیان چھوڑنے کے فیصلے پر مجبور کرنے والے واقعات بہت دردناک تھے.قادیان کے اردگرد کے گاؤں دیہات سے ہزاروں افراد قادیان کو نسبتا محفوظ سمجھتے ہوئے قادیان آگئے.کچھ خاندانوں نے بالکل ہمارے گھر کے سامنے ڈیرہ ڈال لیا.بالکل بے سروسامانی اور کسمپرسی کی حالت دیکھ کر ابا جان نے انہیں اجازت دے دی کہ ہمارے گھر آ کر روٹی پکا لیا کریں.گھر سے مرتبہ اچار سالن وغیرہ مہیا کر دیا جاتا.ایک دن اُن خواتین کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی استفسار پر علم ہوا کہ اُن کی دو جوان لڑکیاں سکھ اُٹھا کر لے گئے ہیں.اس خبر کے بعد جان و آبرو بچانے کے لیے بیوی بچوں کو قادیان سے رُخصت کرنا ضروری ہو گیا.ابا جان کو خواب 24

Page 26

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) میں ایسا اشارہ بھی ملا تھا کہ ہجرت ہوگی.ایسے بے یقینی کے حالات میں آپ نے رضائے الہی کی خاطر قادیان میں ٹھہرنے کا اور اپنے بیوی بچوں کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا اس طرح ایک ہنستا بستا گھرانا دولخت ہو گیا.جماعت کے لیے قربانی اور جدائی کو قبول کرنے والے کوئی الگ مخلوق نہیں ہوتے جذبات میں اٹھنے والے منہ زور طوفانوں کو خدا کی طرف رخ پھیر کر آنسوؤں سے ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے.جدائی اور صبر کا جو سفر شروع ہوا تھا اس کی طوالت اور سختیوں کا اندازہ نہیں تھا.اس وقت امی جان کی عمر صرف پینتیس سال تھی گھر سے باہر کے کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا.پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے تھے تیسرا بیٹا کو کھ میں تھا سب سے بڑی بچی ہیں سال کی اور چھوٹی تین سال کی تھی.گھر کا ماحول ایسا تھا کہ لڑکیوں کا ماں باپ کی نگرانی کے بغیر زیادہ باہر نکلنا نہیں ہوتا تھا.مگر ایسی مجبوری آن پڑی کہ اللہ سے فریاد کر رہے تھے کہ کسی طرح کوئی بیوی بچوں کو لے جائے.ابھی بھی دھندلی سی یاد ہے.امی صبح سویرے ہمیں لے کر ایک سڑک کے کنارے بیٹھی ہوئی تھیں کہ کوئی سواری مل جائے.خوش قسمتی سے مکرم کیپٹن عمر حیات صاحب اور مکرم اشرف نسیم صاحب نے ٹرک کا انتظام کیا ہوا تھا ٹرک آیا اس پر انسان اور سامان کی گٹھڑیاں بری طرح لدی ہوئی تھیں.منتظمین انسانوں کو زیادہ سے زیادہ سوار کرنے کے لیے جگہ بنانے کی کوشش میں تھے اسی تگ و دو میں یکے بعد دیگرے ہم کسی نہ کسی طرح سوار ہو گئے بچوں کو کسی نے نیچے سے اُچھالا اور اوپر کسی نے دبوچ لیا.بھائی جان عبد الباسط کو ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ پائدان پر 25

Page 27

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) کھڑے ہونے کی جگہ ملی.جگہ کی تنگی کا یہ عالم تھا کہ جو جہاں تھا وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا.ایک بہن تو سامان میں اس طرح دب گئی کہ صرف بال نظر آرہے تھے.ٹرک چلنا شروع ہوا تو ابا جان ابراہیمی دعائیں پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ چلتے رہے.جان سے عزیز بیوی بچوں کو انتہائی مخدوش حالات میں رخصت کر رہے تھے.اتنے میں ایک چار پائی اٹھائے ہوئے کچھ لوگ گزرے جس سے کسی زخمی یا شہید کا خون ٹپک رہا تھا.سب کی آنکھوں میں آنسو تھے ٹرک کی رفتار قدرے تیز ہوئی ابا جان ان آنسوؤں کی دھند میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے.ابا جان پہ کیا گزری بعد میں پتا چلا کہ اسی دن قادیان پر حملہ ہوا تھا.ابا جان اور بڑے بھائی گولیوں کی زد سے بال بال بچے تھے گھر کا سامان لوٹ لیا گیا تھا.ابا جان نے لکھا: ” بیوی بچوں کو بھیج کر گھر واپس آئے تو عجیب وحشت پھیلی ہوئی تھی.میرا بڑا بیٹا عبدالمجید نیاز میرے ساتھ تھا.خالی گھر میں سامان بکھرا پڑا تھا.چاہت سے خریدا ہوا لکڑی کا فرنیچر جس میں اخروٹ کی لکڑی کی چیزیں بھی شامل تھیں تو ڑتوڑ کر پناہ گزینوں کو چولہا جلانے کے لئے دے رہے تھے.باہر کر فیو لگا ہوا تھا.دار الفتوح کے جس مکان میں ہم رہتے تھے.اُس کے نیچے کی دوڈ کا نیں باٹاشو اسٹور والوں نے کرایہ پر لے رکھی تھیں.شام کے وقت ملٹری کے سپاہی آئے گھر کے ارد گرد پہرہ لگا دیا.دو آدمی باٹا شوز اسٹور کھول کر اندر آ گئے اور اندر سے کنڈی لگا کر اپنی پسند کے جوتے بوریوں میں 26

Page 28

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) بھر نے لگے.مجید کو میں نے اندر سے دروازہ بند کرنے کو کہا اور خود چھت کے اوپر مٹی پر جا کر جائزہ لیا کہ کیا ہوسکتا ہے.میں نے دیکھا کہ ایک کیپٹن اور تھانیدار ہزارہ سنگھ قریباً چالیس ملٹری کے آدمیوں کے ساتھ کالج کی طرف جارہے ہیں میں نے اُن کو آواز دی کہ یہ کیسی ہماری حفاظت ہے کہ باہر آپ نے کرفیو گا یا ہوا ہے اندر اپنے آدمی نقب زنی اور لوٹ مار پر لگارکھے ہیں.کیپٹن انگریز تھا اُس نے پوچھا کہ یہ آدمی کیا کہتا ہے جب اُسے بتایا گیا تو اس نے مجھے نیچے بلایا اور ساری بات پوچھی وہ ایمان دار تھا.اُس نے زبر دستی باٹا شوز اسٹور کا دروازہ کھلوایا.اپنے سارے آدمیوں کو قطار میں کھڑا کر کے پوچھا کہ ان میں سے پہچانیں آپ کی چوری کس نے کی تھی.دو آدمی پہنچانے گئے اُس نے تھانیدار کو کہا کہ ان سے رائفلیں لے لیں اور پیٹیاں اُتار لیں اور مجھے کہا کہ آپ کے کسی ذمہ دار آدمی کے سامنے ہم ان کو سز اسنا دیں گے.چنانچہ سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر محترم مرزا عبدالحق صاحب کو بلو اکران چوروں کے خلاف فرد جرم لگائی اور پندرہ پندرہ دن کی سزا سنائی.اس بات سے اُس علاقے کے ملٹری والے میرے خون کے پیاسے ہو گئے جو گزرتا چوبارے کی طرف ضرور فائر کرتا.اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حفاظت سے مجھے ان کے حملوں سے محفوظ رکھا.الحمد للہ ثم الحمد للہ یہ واقعہ بہت مشہور ہوا بہت احباب میری خیریت پوچھتے اور دعا کرتے حی کے حضرت اماں جان بھی میرے لئے دعا کرتیں.“ 27

Page 29

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) 6 نومبر 1947 ء کے مکتوب میں تحریر کیا: محلہ وارقتل وغارت اور لوٹ مار کے بعد بورڈنگ کو خالی کرالیا گیا.اور قریباً تین من گندم پر نا جائز قبضہ کر کے ہم درویشوں کو اس سے محروم کر دیا یہ تو خدا کا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو ایک نان دکھا کر فرمایا کہ یہ تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے کہ اب تک خدا تعالیٰ اس دکھائے ہوئے نان سے وافر حصہ درویشوں کو عطا کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا اور اپنی رضا کی چادر میں چھپاتا رہے گا.ان شاء اللہ.دلخراش حالات ہیں.یہاں کے کتے بھی بھوکے روتے ہیں اور ان کو دے کر خود کھانے والوں کو یاد کرتے ہیں دل بھر آتا ہے جب خوب صورت بلیاں میاؤں میاؤں کرتی روتی پھرتی ہیں وہ جو گوشت کھانے کی عادی تھیں اب درویشوں کی سوکھی روٹی پر گزارا کرتی ہوئی کمزور اور بیمار ہوگئی ہیں.ان کو کہاں سے دیں بہت ترس آتا ہے ہماری بلی کیٹی پتا نہیں کہاں ہوگی اس کی بھوک کا سوچتا ہوں آبدیدہ ہو جاتا ہوں ہمیں نہ پا کر پریشان ہوگی اس طرف جا سکتا تو اس کا حال پوچھتا.مگر یہ مشکل ہے کچھ خدام دارالانوار کی طرف گئے تھے ان کو پولیس نے بہت مارا پیٹا ایک کی حالت زیادہ خراب ہے.سارے مکان خالی کرالئے ہیں سامان توڑ پھوڑ دیا ہے برتن ٹوٹے ہوئے کتابیں بکھری ہوئی ہیں جہاں دفتر الفضل تھا وہاں ہم رہتے ہیں بہشتی مقبرہ جاسکتے ہیں.امیر صاحب نے قریباً سو آدمیوں کا قادیان ٹھہر نا منظور کیا ہے جن میں میرا نام بھی ہے ایک 28

Page 30

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) تحریر پر دستخط لئے ہیں جس کی رُو سے اخیر دسمبر تک قادیان میں رہنا ہوگا وعدہ لیا ہے.امن صلح اور افسروں کی اطاعت اور ساتھیوں کو آرام پہنچاؤں گا وغیرہ وغیرہ کھانے کے لئے دونوں وقت پر چی کی تصدیق ہو کر پاس دکھا کر ایک قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں آدھا گھنٹہ کٹورا ہاتھ میں لئے آہستہ آہستہ قطار میں آگے بڑھ کر منزل پر پہنچتے ہیں دال کے ساتھ کبھی ایک کبھی ڈیڑھ اور کبھی دو روٹیاں مل جاتی ہیں جس میں پسائی کا درست انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مٹی ضرور ہوتی ہے.یہ محض خدا کا فضل ہے کہ صحت بحال ہے ورنہ ایسی روٹی کھا کر بیمار ہو جاتے.دال جب پیٹ میں کرتب دکھانے لگتی ہے تو فروٹ سالٹ پی کر اسے بہلاتا ہوں.گھر میں دال پکتی تو آپ میرے چہرے کی شکنیں گنے لگتیں اور میں بہانہ کر دیتا کہ مجھے بھوک نہیں ہے اب چار ماہ سے دال ہی دال کھا رہا ہوں.سو آدمیوں کے جن کا قادیان میں ٹھہر نا منظور ہوا ہے دس دس کے گروپ بنائے ہیں ان میں سے دو گروپ پندرہ میں بوریاں سروں پر اٹھا کر لے جاتے ہیں ہندو چوک میں آٹا پینے کی مشین ہے اس میں ڈال دیتے ہیں رات کو دوسرے دو گروپ اسی طرح سروں پر اٹھا کر آٹا لے آتے ہیں الحمد للہ بڑا سرور آتا ہے.اس بستی کی دیواروں کو مینار، مسجد مبارک، دار مسیح مقدس اور محبوب جگہوں کی اینٹوں کو آنسوؤں سے تر بوسہ دیتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں اس بستی میں رہنے نہیں دیتے اللہ تعالیٰ سے شکایت نہیں اپنے اعمال اس قابل نہ ہوں گے.الہی جماعتوں کے ایسے حالات کھاد کا کام کرتے ہیں یہی سنت 29

Page 31

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) الہی ہے ان شاء اللہ آپ کی جلد واپسی ہوگی یہ آسمان پر مقدر ہے روح القدس کو مدد کے لئے مقرر کر دیا گیا ہے.یہاں حالات بہت دردناک ہیں کہیں مری ہوئی ماں سے بچہ چمٹا ہوا ہے کہیں بدقماش لوگ باپ بھائی کے سامنے عورتوں کو بے عزت کر رہے ہیں کہیں کسی کی بیوی بیٹی بہن کو اٹھا کر لے جاتے ہیں کچھ عورتیں بھاگ کر واپس بھی آرہی ہیں.میں ایک بوری کندھوں پر ڈال کر نکلتا ہوں اُجڑے گھروں سے قرآن پاک کے اوراق جمع کرتا ہوں لا کر ترتیب دے کر جلد کرتا ہوں.آپ بھی کچھ کام کر کے اپنے پاس اتنے پیسے جمع کرلو کہ حضور پر بوجھ نہ ہو.اپنا خرچ ان پر نہ ڈالو.جانے سے پہلے میں آپ کو سیرت ام المؤمنین پڑھ کر سنا رہا تھا جو درمیان میں رہ گئی آپ خود پڑھ لیں...آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں آپ کو یوسف کی طرح نکالا گیا اللہ ہی حافظ ہے.وہ ساری دنیا آپ کے قدموں میں ڈال دے گا.اگر کوئی مشکل یا مصیبت یا ابتلا آبھی جائے تو صبر کرنا اور اگر دل قابو سے باہر ہو اپنے امام کی طرف دیکھنا روحانی لحاظ سے خلیفہ اور بادشاہ ہے لیکن ملک بدر ہے اور صرف اپنا نہیں لاکھوں آدمیوں بلکہ ساری دنیا کا اس کو غم ہے.اس وقت کو غنیمت جانو شکر ،صبر ورضا اور نماز سے مدد طلب کرو دین کی محبت تو آپ کی فطرت میں شامل ہے.باوجود مہاجر ہونے کے انصار کا جذ بہ اور ایثار دکھاؤ یہ خدا کے فضل کو جذب کرنے کے دن ہیں اور فضل کی فصل پک کر تیار ہے اب دن رات لگا کر اس کو کاٹ کر جمع کر لو بیماروں کی تیمارداری کرو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ محتاجوں کو بستر فراہم کرو اس سے دین اور دنیا سنور جائے گی.میں نے آپ کو اللہ کے حوالے 30

Page 32

کر دیا.“ شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جدائی بصبر ) 1948ء ہی کی بات ہے ایک سکھ بھگت سنگھ ابا جان کے پاس کچھ کتا بیں فروخت کرنے کے لیے لایا.ان میں ایک حضرت پیر منظور محمد صاحب والا قرآن کریم تھا.ابا جان لکھتے ہیں : ” جب میں نے ہاتھ میں لیا تو شدت جذبات سے میرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا.یہ قرآن میری پیاری بیوی آمنہ کا تھا.جس پر وہ ہر روز میرے سامنے بیٹھ کر تلاوت کیا کرتی تھی.میری حالت اُس سے چھپی نہ رہی وہ بڑا گھاک کاروباری آدمی تھا امرتسر میں کتابوں کی بڑی دکان تھی اس نے بہت زیادہ قیمت بتائی میں نے اس کی منہ مانگی رقم ادا کر کے قرآن پاک لے لیا اور پھر اُسے بذریعہ ڈاک ملے جلے جذبات کے ساتھ روانہ کر دیا.یہ سوچتا رہا کہ اپنا قرآن پاک اور میرے بھجوانے کے جذبہ سے متاثر ہو کر وہ نہ معلوم کتنی دفعہ سر بسجود ہو کر مجھ گنہگار کے حق میں بخشش کی دعائیں کرے گی.“ امی جان پر کیا گزری 29 ستمبر 1947ء کو قادیان اور ابا جان کو پیچھے چھوڑ کر ہجر نصیبوں کا یہ قافلہ سارا راستہ موت کے خطرے سے دوچار، سڑک کے دونوں طرف دردناک مناظر دیکھتے ہوئے.دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے سارے دن کا بھوکا پیاسا شام کے وقت رتن باغ لاہور پہنچا.ٹرک رکا تو اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی ڈال کر خواتین کا استقبال کرنے 31

Page 33

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر والی مادر مہربان حضرت سیدہ چھوٹی آپ تھیں.آپ نے ایک برآمدے میں ٹھہرانے کا انتظام فرمایا اور آپا لطیف کو خواتین کے قیام و طعام کی منتظم مقرر کر دیا.سب بالکل خالی ہاتھ آئے تھے یہ سلسلہ کی برکت اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا حسن تدبر تھا کی تعظیم کے ساتھ سب کو سنبھال لیا.ایک ایک روٹی فی کس لنگر خانے سے دی جانے لگی امی بتاتی ہیں کہ شروع میں کسی کے پاس ایک سے دوسرا جوڑا نہیں تھا.بچوں کو نہلا کر اپنے برقع میں لپیٹ لیتیں اور کپڑے دھو کر ڈال دیتیں.بچیوں کی تعلیم بھی بغیر وقت ضائع کیسے شروع ہوگئی.یکم دسمبر کو چھوٹا بھائی عبد السلام پیدا ہوا.جماعت کی طرف سے ہر زچہ کو ایک پاؤ گھی اور کچھ چینی ملتی تھی.آپا منتظم تھیں بتاتی ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے کمرے میں سامان تھا اس میں سے تول کر حصہ دیا کرتے تھے.بچے کے لیے حضرت صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ نے از راہ شفقت کچھ کپڑے تحفہ دیے.ان کسمپرسی کے حالات میں بھی امی جان کا حوصلہ قائم تھا بلکہ اباجان کی ہمت بندھاتی تھیں.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم صفحہ 21 پر چند احمدی خواتین کے پر از ایمان خطوط قادیان میں مقیم بہادر نوجوانوں کے نام، کے تحت آپ کا خط بھی شامل ہے.جو آپ نے اپنے محترم شوہر کو لکھا: استقلال اور ہمت سے ڈٹے رہیں.اور (قادیان) کو فتح کرنا آپ کا فرض ہے بہر حال جب تک حضور کا حکم نہ ہو آپ قادیان چھوڑ کر یہاں بالکل نہ آئیں.“ 32

Page 34

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) بیوی بچوں کی جدائی پر صبر ابا جان کے خطوط میں سے کچھ اقتباس حاضر ہیں جن پر کچھ اضافہ کرنا آسان نہیں :.....11 / پریل 1948ء اب قادیان کی ویرانی اور سنسانی سوہان روح ہو کے رہ جاتی ہے.دور اول کے صحابہ کرام کی قربانیاں یاد آتی ہیں.بدری صحابہؓ کا نمونہ سامنے رکھتے ہیں.خود کو کاموں میں مصروف رکھتا ہوں ہمارے نگران کہتے ہیں جس کام کے لئے اس کو بلاتے ہیں اس کے شایان شان نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ یہ ہر کام میں فٹ ہو جاتا ہے.خدمت کا آغاز کر دیا ہے انجام خدا جانے.میرے لئے دعا کریں فکر نہ کریں مجھ میں اللہ کے فضل سے فکر ، رنج، مصیبت، ابتلا کے برداشت کی صلاحیت ہے.“......12 /نومبر 1948ء ” میری پاک دامن مقدس بیوی ! میری عفیفہ رفیقہ حیات.میں مانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے اور میری تحریر اور خیر خیریت آپ کے لئے باعث صد مسرت ہے.میں پوچھتا ہوں کہ اگر کسی وقت کسی مجبوری کی بناء پر میں آپ کو نہ لکھ سکوں تو میری معذوری خیال کر کے درگز رہی بہتر ہے.ہوسکتا ہے کسی وقت جیب ہی خالی ہو.ڈاکخانہ جانا ہی محال ہو.طبیعت ہی گرمی ہو.آپ کا تصور ہی پریشان کر رہا ہو فرصت نہ ہو.یا کوئی دوسرا اہم کام آ پڑا ہو.دوسرے اب ہم کو آپ سے کیا نسبت؟ اگر مولا کو منظور ہوا تو ملاقات نصیب ہو جائے گی.جس کے بھروسے سے یہ 33

Page 35

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جدائی بصبر ) قربانی کی ہے اُسی سے راہ ربط رکھیں گے.اُم سلام آپ پر سلام، ہزار سلام.آپ نے میری غمگساری کی.میری دینی و دنیاوی حالت کو چار چاند لگا دیئے.مجھے آپ سے ہمیشہ راحت و آرام ملا.آپ نے مجھے ہر لغزش کے وقت تھام لیا.تیمار داری کی تو جان پر کھیل گئیں میرے لواحقین اور دوستوں سے جو حسنِ سلوک کیا تا زیست نہ بھولے گا آپ کے لطف وکرم اور پاک دامنی کی چادر نے میری پردہ پوشی کی.کیا فائدہ اب ایسی باتوں سے کچھ آپ پریشان ہوں گی کچھ میں آنسوؤں سے لا چار ہوں گا.میرا قرض اُتر گیا ہے.ایک کھدر کی قمیض چھ آنے سلائی دے کر سلوائی ہے ایک ملیشیا سفید ٹاٹا کا جو مضبوط اور موٹا ہوتا ہے سلنے کو دے رکھا ہے.سردی لگتی تھی.کافی سردی ہے.آج صبح دم دار ستارا نکلا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی خدمت میں میر اسلام اور درخواست دعا پہنچادیں.“ 1948......” میری ہاجرہ! میرا پنسل سے پرزوں پر لکھا ہوا خط ایک درویش کی طرف سے ہے.میں آپ کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں آقا کی خدمت میں سلام کہنا اور حضرت اماں جان کی خدمت میں کوئی تحفہ پیش کر کے سلام اور دعا کی درخواست کرنا.مومنانہ شان سے بہادری اور جرات سے دن گزاریں.آپ کا بچوں کی تربیت کرنا ان کا خیال رکھنا بھی جہاد ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.خوابوں میں ملاقات ہو جاتی ہے.“ 34

Page 36

شادی.آپس کا حسنِ سلوک.جدائی ،صبر ” میری رفیقہ حیات آپ پر ہزاروں ہزار بلکہ لاکھوں لاکھ رحمتیں ہوں آمین.ہر کام میں حضرت اقدس سے مشورہ کریں یہ امتحان کا وقت ہے بھوک پیاس بھی امتحان ہے حضرت ایوب کی کہانی پڑھنا اور بچوں کو سنانا اور پیش نظر رکھنا اور حتی الامکان مشکلات اور مصائب تحریر نہ کرنا بلکہ خندہ پیشانی سے برداشت کر کے دعا کیا کرنا خدا تعالیٰ فضل کرتا ہے تنگی ترشی گرمی سردی عسر یسر سب اس کی نعمتیں ہیں اس کی رضا پر راضی رہنا مناسب ہے گھبراہٹ سے سر پھوڑ کر کیا ہوگا.میرے یہاں رہنے، بچے قربان کرنے، بھوک پیاس برداشت کرنے سے کمزور اور تعلیم سے محروم رہ جائیں میں اور آپ اسی طرح دور رہتے ہوئے ختم ہو جائیں مگر اسلام احمدیت کا غلبہ ہو جائے تو عین مراد ہے اللہ تعالیٰ ہماری خطائیں معاف فرمائے اور فضل فرماتا رہے.آمین.“ 66 برائے خدا میرے سب جگر گوشوں کو الگ الگ کھڑا کر کے فوٹو کھنچوا کے ارسال کریں.ملتمس ہوں کہ جلدی اس کارِ خیر کو سرانجام دیں.اب تو خدا شاہد ہے تصورات بھی ان کو سامنے لا کر مشاہدہ کی صورت پیدا نہیں کرتے نہ حمیدہ کی صورت جما سکتا ہوں نہ رشیدہ کو آنکھیں بند کر کے دیکھ سکتا ہوں باری کی بھولی تصویر بھی بڑی دیر بعد اور پوری توجہ سے دھندلی سی پھنچتی ہے شکور کی تصویر بھی صاف سامنے لانے سے قاصر ہوں.دیکھے بغیر راحت اور ٹھنڈ کیسے حاصل ہو.دکان میں تو چند گھنٹے گزرتے تھے باقی وقت تو اپنے گلشن کی سیر کرتا تھا اب تو اس گلشن میں ایک پھول سے بیٹے کا اضافہ بھی ہو گیا ہے.“ 66 35

Page 37

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) 14 / جنوری 1949ء ” میری خوش اسلوب پاک دامن رفیقه! آپ نے وعدہ کیا تھا کہ محسر یسر میں میرا ساتھ دیں گی.اب نبھانے کا وقت آ گیا ہے.میں اپنے بعض فرائض دوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتا وہ بھی آپ ہی کو کرنے ہیں.میرا قطعاً انتظار نہ کریں.آپ اہلِ بصیرت ہیں قوت فیصلہ بھی ہے.ہر کام میں حضور اور حضرت میاں صاحب سے مشورہ لیں.اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمائے.آپ کے اداس ہونے کی کیا وجہ ہے اگر میری جدائی حیران کرتی ہے تو حضرت خنساء کی مثال سامنے رکھیں اگر عورتیں لڑتی جھگڑتی ہیں تو ان سے کنارہ کش رہا کریں.اگر کوئی وجہ تسکین نہ ملے تو میری مثال اپنے وجود پر اثر انداز کریں.کہ میں نے آپ کا کبھی ایک رات بھی کسی جگہ ٹھہر نا پسند نہیں کیا تھا.مگر اب خدا کی خاطر، اپنی بھلائی کی خاطر خیال بھی نہیں آنے دیتا.بچوں کو اور اُن کے والدین کو جب پیار کرتے دیکھتا ہوں تو اگر فضل خدا نہ ہو تو صبر کیسے آئے ایک دن ایک ماں اپنی بچی کو پوچھ رہی تھی کس کی بیٹی ہو.ماں کی پیانانی کی...مجھے معا شکور یاد آ گئی آبدیدہ ، سینہ پر ہاتھ رکھ کر گھر آ گیا.آج جمعہ ہے صبح بیت الدعا میں آپ سب کے لئے نام بنام دعائیں کیں.صبح اجتماعی دعا کے بعد واپس آیا ہوں.اعلان دعا کا بورڈ پر لکھا فرداً فرداً بھی بہت عاجزی سے دعا کے لئے کہا.چائے تو نماز سے قبل ہی بنالی تھی وقار عمل سے پہلے پی لیتا ہوں ایک روٹی چھ بجے ناشتہ کے لئے ملتی ہے.چائے کے گھونٹ سے کاٹ کاٹ کر کھا لیتا ہوں.36

Page 38

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) میری رفیقہ ! میں آپ سے خوش ہوں.آپ نے خوب تعاون کیا آپ سے یہی امید تھی.یہ تو ایک عظیم الشان کامیابی کے لئے پرچہ ملا ہے دعا کے ساتھ.لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْتَنَا کے ساتھ اسی کی توفیق سے حل کرتی جائیں“..27 / جون 1949ء " عزیزہ لطیف! آپ کی والدہ نے خربوزہ میٹھا نکلنے پر مجھے یاد کیا میں نے یہاں خربوزے لے کر کھا لئے میں خدا کے احسان سے بخیریت تمام ہوں اور کوئی گھبراہٹ نہیں ہے.میں گوتم بدھ کو بھی خدا کا مامور مانتا ہوں.اُس نے راج پاٹ اولا د بیوی سب چھوڑ چھاڑ کر محض عبادت ہی عین مقصود بالذات کر لیا تھا.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور اس عرصہ امتحان کو کم سے کم کر دے مگر میرے لعل ! اگر یہ عرصہ اُس کی منشاء سے لمبے سے لمبا بھی ہو جائے تو آپ کے ابا کے پاؤں انشاء اللہ لغزش نہ کھائیں گے.اب وہ آپ سے ملا دے اور حضور کا دیدار کرا دے اُس کی مہربانی ہے.ورنہ حالات تو بد سے بدتر ہی خیال کئے جا سکتے ہیں.دکان کے اندر اصحاب کہف کی طرح رہتا ہوں اندھیرا بہت ہے بارشوں میں پانی اندر آ کر سیلن ہو جاتی ہے.خدائی نان جن کو مسیحا کے لنگر کی چنے کی دال لذیذ بنادیتی ہے کھا کر مہمان خانے کے چشمے سے پانی پی لیتا ہوں سبحان اللہ کیسی خوشگوار زندگی ہے موت تفصیلی پر ہے مالک حقیقی کے سوا کوئی ڈر نہیں وہ مجھے سب بتادیتا ہے.یہیں پرسب دکھا دیتا ہے آپ کیسے رہتے ہیں کیا کھاتے ہیں کیا باتیں کرتے ہیں سب بتا دیتا ہے 37

Page 39

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) رات کا انتظار کرتا ہوں آنکھیں بند کرتا ہوں وہ میرے قریب آجاتا ہے راز و نیاز کرنے لگتا ہے دلاسا دیتا ہے.بہت قریب آجاتا ہے.آپ کی امی ہی کی ہمت تھی اپنے کام بھی کرتی اور مجھے بھی چوکس بیدار رکھتی.میں تو اُن کے بغیر مٹی کا ایک ڈھیلا بھی نہیں اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل و کرم سے اپنی ستاری سے عمل کی ہمت دے.یاد آتی ہیں.دعا کرتا ہوں.دعا کرتا ہوں دعا کرتا ہوں.ربَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ * رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْبِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (ابراهیم : 38 )...25 / مارچ 1949ء رات حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا خط بنام میاں وسیم احمد صاحب مسجد میں پڑھ کر سنایا گیا.عجیب الفاظ میں تحریر تھا.میں اس وقت سجدہ میں تھا ضبط کا دامن چھوٹ گیا ہچکی بندھ گئی خوب دعا کا موقع ملا.آپ قادیان کی جدائی میں بے قرار ہیں مگر آپ کی آنکھیں یہاں کے اجڑے بازاروں اور گرے ہوئے مکانوں کو نہیں دیکھتیں اور کان ان کی نوحہ خوانی نہیں سنتے ہمیں تو پرانی گہما گہمی اور پرکیف نظارے نظر آتے ہیں جو رلا دیتے ہیں.مسجد اقصیٰ مسجد مبارک سوئی سوئی ہیں مجلس عرفان کی یاد تر با دیتی ہے الدار میں عام لوگ آجارہے ہوتے ہیں.بہشتی مقبرہ جاتا ہوں تو راستے میں مکان پکڑ پکڑ کر کہتے ہیں ہم اُجڑ گئے ہمارے ساتھ شریک ماتم ہو.اللہ کرے سب دعائیں 38

Page 40

- شادی - آپس کا حسن سلوک - بدائی بصبر ) سنی جا ئیں بہت جلد مرکز کی رونقیں بحال ہو جا ئیں.آمین الحسم آمین." دار الخواتین ربوہ میں قیام اکتوبر 1947 ء سے اپریل 1949 ء تک رتن باغ میں قیام رہا.پھر حضرت فضلِ عمر نے تازہ بستی ربوہ آباد کی.ہجرت کے بعد جب لاہور سے دارا بھرت ربوہ منتقل ہوئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے درویشان کے خاندانوں کو اپنی نگرانی میں دار الخواتین میں ٹھہرایا.یہ 24 کمروں اور وسیع صحن پر مشتمل تھا اس کا انتظام آپا امتہ اللطیف صاحبہ کے سپر دتھا جس میں امی جان کا تعاون حاصل تھا ایک موقع پر خود حضرت صاحب نے آپ کو دارالخواتین کا نگران مقرر فرمایا." آپ خواتین اور بچیوں کی تعلیم قرآن، تربیت اور پابندی نماز کے لئے خاص طور پر سرگرم رہتیں.حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ نے کئی دفعہ اس امر کا اظہار فرمایا کہ لطیف کو کام کا موقع ملنے میں اس کی امی کا تعاون شامل ہے.“ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد 2 صفحہ (1) بچوں کی یاد اور بارڈر پر ملاقات کی صورت بچوں سے جدائی میں باپ کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے الفاظ : کیا بتاؤں میں نے اپنی بچیوں کو کس قدر عزیز رکھا جس کا خمیازہ بھگت رہا ہوں.دل چاہتا ہے بچوں کو وصیت کروں کہ اولاد سے اس قدر محبت نہ کرنا کہ آنکھوں پر ہی بٹھا 39

Page 41

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) لو.مگر دوسری جانب اخلاق ، رحم، شفقت ، متقاضی ہے کہ خوب پیار کیا جائے.باری تو میرے ساتھ ہی رات بھر سو کے صبح کرتی ہے.اس جگر پارے کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر دو ایک دفعہ کھلا کر پھر او پر اٹھا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنا کہ ابا کے پاس جانا ہے اگر یہ اقرار کرے تو وہاں سے چھوڑ دینا کہ اُڑتی اڑاتی میرے پاس پہنچ جائے پھر میں اس کو لفافے میں بند کر کے بھیج دوں گا اگر اس نے واپس جانا چاہا.میرا یہ خط سن کر خوش ہو تو کہنا ابا کے لئے دعا کرو.“ ” میری نور نظر میری لخت جگر ! آپ کو الگ اس لئے خط نہیں لکھتا کہ میری رقیق القلب بیٹی اس کو پڑھ بھی سکے گی آپ مجھے یقین دلا دیں کہ آپ خط کو پڑھتے وقت ضبط اور کنٹرول رکھ لیں گی تو انشاء اللہ لکھا کروں گا آپ کو سوار کیا تھا اب تک آپ کے ابا اس دوری کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں آپ کی آنکھیں بھی آنسو سنبھال نہیں پا رہی تھیں دعا کرتا رہا مولا جلدی ملا دینا جلدی واپس لانا.“ با جی امتہ الرشید بتاتی ہیں کہ ابا جان کو قرآن کریم حفظ کروانے کا بے حد و حساب شوق تھا ہم بچوں کوکوئی سورت یاد کرنے کو کہتے اور شام کو کام سے آ کر سُنتے صحیح حفظ پر آپ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا.تلفظ، ادائیگی ، حفظ ہر پہلو پر توجہ دیتے اور خوش ہوتے.انعام بھی دیتے.ایک دفعہ مجھے آخری پارہ حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا اور وہ انعام تھا مخمل کا جوڑا مخمل کے جوڑے کا تصور جنت کے حصول سے کم خوشگوار نہیں تھا.سورتیں یاد کرتی رہی اور ابا جان کو سناتی رہی پھر جدائی کا 40

Page 42

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) زمانہ شروع ہو گیا حالات ایک دم پلٹ گئے.فقر وفاقہ و درویشی میں مخمل کے جوڑے کا وعدہ تو یا در با استطاعت نہ رہی.کبھی اتنی رقم نہ ہوئی کہ وعدہ پورا کر سکتے ہر محنت کے کام کے ساتھ یہ تصور ابھرتا اور ڈوبتارہا.پھر ایک کھدر کی قمیض بھیجی ساتھ ملا لکھا کہ غریب کے لعل فی الحال اس کو مخمل سمجھ لو اور ساتھ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی دعا ئیں تھیں.جو ساری عمر ساتھ رہیں.ابا جان کا تو کل، قناعت، سادگی ایسا درس تھا جس نے اسی دنیا کو جنت بنا دیا جو ہزار محمل کے جوڑوں سے زیادہ قیمتی ہے اللہ تعالیٰ میرے ابا جان کو غریق رحمت فرمائے.آمین.معجزانہ ملاقات کی صورت.....4 اپریل 1950ء اللہ پاک نے ابا جان سے ایک معجزانہ ملاقات کی صورت پیدا کی.ہوا یوں کہ بعض درویشوں کے اہل وعیال قادیان واپس جا رہے تھے.آپا جان انتظامی امور کے سلسلے میں ان کے ہمراہ لاہور گئیں ان کے ساتھ بھائی جان عبدالباسط بھی تھے انہوں نے کوشش کی کہ ابا جان کو پتہ چل جائے کہ ہم بارڈر تک جا رہے ہیں کسی طرح ابا جان بھی آجائیں تو ملاقات ہو جائے بارڈر پر پہنچ کر قادیان سے آنے والے درویشوں کو پوچھا کہ ابا جان کو ہمارے یہاں آنے کی اطلاع ہے یا نہیں.کوئی درویش اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا.فضل الہی خان صاحب نے کہا کہ جب میں قادیان سے آیا ہوں تو تمہارے ابا کام میں مصروف تھے.اور لگتا ہے کہ انہیں آپ کے آنے کی کوئی خبر نہیں 41

Page 43

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) ملی.لیکن میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ یہاں ان کا انتظار کریں کیونکہ وہ تو غیر معمولی تگ و دو اور دعا کر کے بظاہر غیر ممکن کو ممکن کر ہی لیا کرتے ہیں...بھائی جان بتاتے ہیں کہ میں بار بار اٹھ کر اٹاری سڑک پر نظر دوڑا تا آخر لمبے انتظار کے بعد دیکھا کہ دور سے سر پر دھوپ کی وجہ سے چھتری لگائے ہاتھ میں کوئی چیز پکڑے کوئی تیز تیز آرہا ہے فاصلہ کی وجہ سے میں ابا جان کو پہچان تو نہ سکا مگر ان کی مخصوص چال، مستعدی اور تیزی دیکھ کر میرا دل کہ رہا تھا کہ ابا جان آرہے ہیں.میرے اس اندازے کی تصدیق ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی وہ بھی اسی آس پر نکلے تھے کہ شاید کوئی آیا ہو.چند منٹوں کے بعد ہم انتظار، پیار، بیتابی ، شفقت کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے.ابا جان کے ہاتھ میں آم تھے جو نہر کے پانی میں ٹھنڈے کر کے کھائے اور خوب خوب باتیں کیں.خوب خوب مزے لیے.جماعت نے 1950ء میں یہ انتظام کیا کہ پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر پر ء سے بچھڑے ہوئے خاندان کچھ گھنٹوں کے لیے مل سکتے ہیں دونوں طرف بہت زیادہ انتظار تھا.ابا جان نے اپنے تیسرے بیٹے کو پہلی دفعہ دیکھنا تھا اشتیاق میں لکھا: میں انشاء اللہ چار بجے قادیان سے روانہ ہو کر امرت سر رات ٹھہروں گا اور نو بجے دن آپ بارڈر پر تشریف لے آئیں.والد صاحب محترم کو ضرور لاویں.اگر ہو سکے تو سب میرے قریبی رشتہ داروں کو میرے آنے کا پروگرام بتا دیں کہ پھر خدا جانے کب ملاقات نصیب ہو انشاء اللہ 42

Page 44

شادی.آپس کا حسنِ سلوک.جدائی ،صبر رشیدہ اور حمیدہ سے ملاقات ہو گی.شکور بھی ابا کو دیکھے گی سلام ہمیں سلام کرے گا.باسط میاں والدہ کے بغیر نہ آئیں.اُن سے بھی ملاقات ہو 66 جائے گی.“ خاردار تاروں سے گھرے ہوئے ایک میدان میں فاصلے فاصلے سے چادر میں بچھا کر بیٹھے سینہ چاکان وطن سے سینہ چاک ملے اور کچھ گھنٹوں کے بعد پھر غیر معینہ مدت کے لیے بچھڑ گئے.ہمارے والد ہمارے مربی جماعت کی محبت کا درس آپ کے ہر عمل اور رد عمل سے مترشح تھا.سوچ کے زاویوں کو بھی بھٹکنے نہیں دیتے تھے.جب بھائی جان عبدالمجید نیاز صاحب اور عبدالباسط صاحب جامعہ احمدیہ میں پڑھتے تھے جو اس وقت احمد نگر میں تھا.کسی وجہ سے بھائی جان باسط کا وظیفہ روک لیا گیا.ابا جان کا طبعی رد عمل تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میں درویش ہو گیا ہوں بیوی بچے اللہ تعالیٰ کے سپرد کیے ہیں جماعت نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے کہ میرے بچے کا وظیفہ روک لیا.وغیرہ وغیرہ.مگر ایک فنافی اللہ متوکل انسان کا رد عمل دیکھیے.تحریر کرتے ہیں:......13 ستمبر 1950ء عزیز باسط کے وظیفہ کی فکر کیسی.احمدی ہے یار کی رضا میں راضی رہے.یہ تو ہے بھی اللہ والا.اگر وظیفہ بند ہوا اس پر بھی خوش ہونا چاہیے.یہ وقت تو انشاء اللہ گزرجائے 43

Page 45

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) گا.سلسلہ سے زیادہ قابل امداد اس وقت کون ہے؟ بدحالی اور بے بسی پر گھبراہٹ ایک احمدی کو تو ہو ہی نہیں سکتی.جب تک مٹی کا برتن آگ میں نہ جلے پانی لے کر دوسرے کو فیض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح انسان مشکلات سے نہ گزرے تو نہ خود کھڑا رہ سکتا ہے نہ زندہ اور باقی رہ سکتا ہے اور نہ دوسروں کو فیض پہنچا سکتا ہے سو وہ اگر معرفت اور قرب اور عرفان چاہتا ہے تو اس راستہ پر متبسم ہو کر چلے.کہ شکل بھی مشتبہ دیکھ کر وہ راستہ سے الگ نہ کر دے.“ امی جان اس مشکل وقت میں قدرتی طور پر یہ سوچ کر پریشان ہو گئیں کہ بچے بھوکے نہ ہوں.تعلیم میں حرج نہ ہو چھوٹے سلام کو ساتھ لے کر احمد نگر چلی گئیں کچھ عرصہ خود وہاں رہیں.اور بچوں کی پریشانی میں ساتھ دیا.یہ ان کا بڑا جرأت مندانہ اقدام تھا.ابا جان کی حکیمانہ دوراندیشی کی ایک اور بات لکھتی ہوں جور بوہ کے ایک بزرگ نے کئی دفعہ سنائی کہ ایک دفعہ بھائی جی اپنے ایک بچے کو ہمراہ لے کر میری دکان پر رکے اور اسے ایک جو تا خرید کر دیا.میں نے ان سے کہا کہ بھائی جی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے یہ سستا جو تا خرید کیا ہے...کہنے لگے کہ یہ ٹھیک ہے کہ مجھ پر اللہ تعالی کا فضل ہے مگر میں نے اس بچے کی زندگی وقف کی ہے اسے سادگی کی عادت ہونی چاہیے ان کی نیک نیت کی برکت سے اس بیٹے کو کئی ممالک میں خدمت دین کی توفیق ملی.44

Page 46

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی پدرانہ شفقت بفضل الہی جماعت کی برکت سے ہمارے خاندان کو حضرت اقدس علیہ السلام کے خاندان کے قابل صد احترام بزرگوں اور خواتین مبارکہ کی شفقت حاصل رہی یہاں خاص طور صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی مہربانیوں کا ذکر ہے جو ناظر خدمت درویشاں رہے.آپ ہمارے ہر کام پر ، ضرورت پر اور مشکل پر نگاہ رکھتے خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا.جس وقت بھی ضرورت پڑتی ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جب لوٹتے تو نہ صرف کام اور ضرورت پوری ہو جاتی بلکہ آپ کی ملاقات سے ایسا اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی جو کبھی کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی.ایک سردیوں کے موسم کی بات ہے رات کو دروازہ کھٹکا.امی نے پوچھا: کون ؟ جواب ملا: "بشیر احمد “ آپ نے ایک لحاف تھماتے ہوئے فرمایا: 66 سردی زیادہ ہو گئی ہے میں نے سوچا پتا نہیں بچوں کے پاس لحاف ہے کہ نہیں.“ کیا حق ادا فرمایا درویشوں کی خدمت کا اور یہ بھی کہ امی نے کیسے دعائیں دی ہوں گی.سبحان اللہ.کیا خدا ترسی اور عاجزی تھی.سردی لگی تو درویش کے بچوں کو یاد کیا پھر کسی ملازم کے ہاتھ نہیں بھیجا خود تشریف لائے.اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے.1947 ء کے بعد قادیان سے ابا جان کے خط دو سال تک آپ کی معرفت آتے 45

Page 47

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر رہے جس وقت خط آتا آپ فوراً بھجوا دیتے اور اکثر ایسا ہوا کہ اگر کوئی پاس نہیں ہے تو یہ سوچ کے خود خط دینے کے لیے تشریف لے آتے کہ بچوں کو انتظار ہو گا.ایک بارا اپنی کمزوری صحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب بات کرنے اور ہلنے کو دل نہیں چاہتا ایک وہ دن تھا کہ تمہاری ڈاک خود پہنچا آیا کرتا تھا.اللہ الہ کس قدر عظیم ہستی تھی آپ کو دوسروں کے احساسات کا کس قدر خیال تھا.ایک دفعہ لطیف آپا آپ کی خدمت میں اپنی کسی بہن کے رخصتانہ کی دعا میں شمولیت کی درخواست کرنے کے لیے حاضر ہوئیں.آپ نے فرمایا کہ میں آؤں گا انشاء اللہ.آپا نے دوبارہ سے کہا تو نہایت شفقت سے فرمایا: تم کیسی باتیں کرتی ہو میں انشاء اللہ ضرور آؤں گا.میں تو تمہارا ڈاکیہ بھی رہ چکا ہوں تو کیا آج تمہاری بہن کی شادی پر نہ آؤں گا.“ 1950ء میں بھی ایک دفعہ آپ ہمارے گھر تشریف لائے.آپا لطیف سے فرمایا: میں ایک کام سے آیا ہوں.ہماری بڑی ہمشیرہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو خواب آیا ہے کہ حضرت نواب صاحب مرحوم تشریف لائے ہیں اور کچھ کھانے کی خواہش کی ہے اس لیے انہوں نے آج پلاؤ اور زردہ کی دیگیں پکوائی ہیں وہ تم کو بھجوادی جائیں گی.مستحقین میں تقسیم کروا دینا.لیکن اس طرح نہیں کہ لوگ ہاتھوں میں تھالیاں پکڑے ہوئے آکرلیں بلکہ ہر ایک کوٹرے میں رکھ کر دینا.“ ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم کے حصول میں جماعت کا تعاون رہا جس میں آپ 46

Page 48

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) ذریعہ بنے.خاکسار کو یاد ہے سکول کالج میں جب ہمارا نتیجہ آتا خوشی خوشی حضرت میاں صاحب کو دکھانے جاتے.آپ بڑی شفقت سے پیش آتے.اگلی کلاس کی فیس بھی معاف کر دیتے ہماری تعلیمی ترقی سے باخبر رہتے.اور ابا جان کو اطلاع بھی دیتے.الحمد لله بچوں کے رشتے کرنے میں بھی امی جان آپ سے مشورہ کرتیں گھر میں پہلی شادی بڑی بہن لطیف آپا کی تھی.جب آپا کا مکرم شیخ خورشید احمد صاحب سے نکاح ہو اس سال پہلی دفعہ جلسہ سالانہ پر پاکستان سے محدود تعداد میں شاملین کو جانے کی اجازت ملی تھی.آپ نے ہم بہن بھائیوں اور امی جان کو بھجوانے کی بجائے شیخ صاحب کو بھجوایا اور ابا جان کو خط لکھا کہ میں آپ کے داماد کو بھجوا رہا ہوں میرا خیال ہے آپ کو ان سے مل کر زیادہ خوشی اور اطمینان حاصل ہو گا یہ بعض لحاظ سے آپ کے لیے بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہیں.آپا لطیف کی شادی 1951ء میں ہوئی.گلشن عبدالرحیم اور آمنہ میں یہ پہلی شادی تھی.جذبات میں تموج قدرتی تھا اللہ تعالی اور اس کے پیارے بندوں نے سہارا دیا.نکاح حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے پڑھایا اور رخصت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان حضرت اقدس کے کئی محترم خواتین و حضرات فرما رہے تھے.الحمد لله ایک واقعہ آپا لطیف نے بتایا کہ جب ربوہ میں زمینیں الاٹ ہونے لگیں تو یہ سنا تھا کہ زمین اور مکان بنانے کے لیے رقم جمع کرانی ہوگی.آپ حضرت میاں صاحب کے 47

Page 49

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) پاس گئیں کہ زمین کی قیمت ہم کسی نہ کسی طرح جمع کرا دیں گے لیکن مکان کی رقم مشکل ہوگی.آپ نے فرمایا کہ زمین کی رقم جمع کرا دو مکان بھی بن جائے گا.تم لوگ گارا بنا دینا.میں اینٹیں لگا تا جاؤں گا.الحمدللہ کیسے شفقت کے نظارے دیکھے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مکان بھی بنواد یا واقعی ایسے سامان ہوا جیسے فرشتے مددکر نے آگئے ہوں.(مصباح قمر الانبیاء نمبر صفحہ 73) باجی رشید ایک نوعمر بچی تھیں کسی کام سے آپ کے گھر گئیں.فرمایا: کھانا کھا لو.”جی میں کھانا کھا کر آئی ہوں.“ باجی نے بصد ادب جواب دیا.آپ نے دریافت فرمایا : کیا کھایا تھا.عرض کی : کھمبیاں“ آپ نے فرمایا: ”ابھی جاؤ اور میرے لیے بھی لاؤ مجھے بہت پسند ہیں.حضرت امان جان برسات میں ضرور چکھا یا کرتی تھیں.ہے تو چھوٹی سی بات لیکن دلداری کے کئی پہلو دیکھے جاسکتے ہیں.کمال ذرہ نوازی بظاہر دوری مگر قدم قدم ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان کو دوری کے باوجود قرب کے احساس سے نوازا یہ سب ہمارے والدین کے قلبی تعلق سے ممکن ہوا.امی جان ہر کام ابا جان کی اجازت سے کرتیں اور اگر خود کوئی فیصلہ کرتیں تو ابا جان کو مطلع کرتیں.ابا جان اپنے خطوط کے 48

Page 50

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جدائی بصبر ) ذریعے سب حالات سے باخبر رکھتے.....21 /اگست 1951ء ”میری رفیقہ حیات میری دکھیا پر دین! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ شدید گرمی کا موسم ہے بارش ہوئے دیر ہوگئی دھوپ میں کام کرتے ہوئے سر سے پیر تک پسینہ بہتا ہے.مگر باوجود پسینے اور تلملا ہٹ کے طبیعت پر بوجھ نہیں بلکہ لطف ہے سبحان اللہ ایک ہی کام میں سکھ بھی ہے دکھ بھی.کتابیں اس لئے بھیجتا ہوں نایاب ہیں چھپیں گی تو دنیا کو فائدہ ہوگا دوسرے خرچ کی مشکل ہو تو فروخت کر لینا.ہم نہ رہے تو کام آئیں گی.بچوں کے لئے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ان کو والدہ کی فرمانبرداری کی توفیق دے اور نیک متقی اور صالح بنائے وہ قادر ہے میری جان عجیب مشکل میں ہے چاہتا ہوں بیوی بچے اچھی ستھری زندگی گزاریں مگر حالات کہتے ہیں صرفہ کریں.میری رفیقہ ! آپ کو یاد ہے کپڑے کی دکان سے سب سے اعلیٰ کپڑا خرید تا تا کہ آپ اچھا سے اچھا پہنیں اور ہم دیکھیں.میں نے کچھ اشعار کہے ہیں : اے مری روح رواں اے میری جان اچھی تو ہو مخزن مهر و وفا کی تاج دار اچھی تو ہو نرگسی آنکھیں ہیں کیوں یوں اشک بار اچھی تو ہو ہے طبیعت میں یہ کیسا انتشار اچھی تو ہو 49

Page 51

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک.جدائی ،صبر کیوں عیاں ہے چہرہ پرنور سے یہ اضطراب اے مری سرمایہء صبر و قرار اچھی تو ہو چاند سے چہرے پہ کیوں افسردگی کا ہے دھواں قلب نازک پر ہے یہ کیسا غبار اچھی تو ہو آپا کی شادی کے موقع پر ابا جان نے ہر جذباتی ریلے کا رخ محمد والکر کی طرف پھیر دیا.امی کو نصیحت کی کہ شادی پر زیادہ خرچ نہ کرنا.سادگی سے بغیر کسی قسم کے تکلف کے رخصت کرنا.قرض نہ لینا.سلسلے سے نہ مانگنا اگر کوئی میری بچی کو طعن دے گا تو خدا کی خاطر، میری خاطر برداشت کر لینا.بیٹی کو نصیحت کی: دولعل میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بہت بابرکت کرے.آمین.ہوسکتا ہے آپ کو خیال آئے کہ ابا نہیں بھائی موجود نہیں.میں آپ کی طرف سے پرامید ہوں کہ کمال حوصلہ برداشت اور ہمت و استقلال سے خدا تعالیٰ کی مدد طلب کرتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اچھا نمونہ پیش کرو گی.اور خود وہ دن کیسے گزارا پندرہ اکتوبر 1951 کو دن بھر جب دل بھر ا دروازہ بند کر لیا.آنسوؤں سے ہلکا کیا خوشی بھی تھی خاندان کے افراد کی شمولیت باعث رحمت ہے.آپ خود خاص طور پر حضرت اقدس کے حضور حاضر ہو کر میری طرف سے سلام کے بعد اُن کی شفقت ، مدد اور 50

Page 52

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) پیار کا شکریہ ادا کریں.امیر صاحب کے کمرہ میں الفضل پڑھا وہیں دونوں نے دعا کی وہاں سے سوا بارہ بجے مسجد مبارک جا کر دو نفل ادا کئے خوب رقت سے دعا کی پھر بیت الدعا میں جا کر دعا کی.پھر تینوں مساجد میں دعا کے اعلان کا بندوبست کرنے میں لگ گیا.نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں پڑھ کر خوشی کے آنسو بہائے نماز کے بعد سب سے پہلے مسجد مبارک میں نفل ادا کئے سب درویشوں نے گلے مل کر دعائیں اور مبارکباد دی.مسجد مبارک کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے.“ سات سال بعد پہلی بارر بوہ آمد کا احوال ابا جان کی ڈائری سے 22 فروری 1954ء میں صبح کی اذان کے ساتھ پہلی بارر بوہ گیا اُس وقت میری اہلیہ اور بچے دارالخواتین میں رہتے تھے میرا ایک بچہ جو جدائی کے تین ماہ بعد 1947ء میں لاہور میں میری غیر موجودگی میں پیدا ہوا تھا میرے پاس لایا گیا اور اُس سے پوچھا گیا یہ کون ہیں؟ بچے نے کہا پھوپھا جی تب اس کو میری وہ تصویر دکھائی گئی جسے دکھا کر ابا جان کے پاس جانے کی ضد میں بہلایا کرتے تھے تب میرے ذہین بچے نے فورازور دار آواز میں ابا جی کہہ کر میرے گلے میں باہیں ڈال دیں پھر باپ نے بیٹے کو کیسے چمٹایا اور پیار کیا ہو گا.چشم تصور سے دیکھ لیں محسوسات کا اندازہ کر لیں.میرے بچوں میں صبر وشکر، سیر چشمی اور قناعت شامل ہونے کی وجہ اُن کی والدہ محترمہ کی تربیت تھی.درویشانہ فقیرانہ کس مپرسی میں عزت نفس کا احساس زندہ رکھا.واقعہ تو ایک بچے کی معصومیت کا ہے مگر میں اس کو کئی زاویوں سے دیکھتا ہوں.میری اہلیہ 51

Page 53

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) نے بتایا کہ ایک دن ایک بچہ مجھ سے پو چھنے لگا کہ ای کلی میں یہ کپڑے والے قلفی والے اور دوسری چیزیں بیچنے والے کیوں آتے ہیں جب کہ ان سے کوئی لیتا ہی نہیں ہے اور یونہی چکر لگا کر چلے جاتے ہیں.میں خوش بھی ہوئی افسردہ بھی کہ دیکھو اس بچے نے یہ خیال کیا کہ ہم ان سے کوئی چیز نہیں خریدتے تو کوئی بھی نہیں خریدتا ہوگا.اللہ کا شکر کیا کہ اگر ان حالات میں دوسرے بچوں کی طرح یہ مجھ سے بار بار پیسے مانگتے ضد کرتے تو میرے لئے کس قدر مشکل ہوتی.میں نے بھی یہ واقعہ سن کر بہت شکر کیا اور اپنی اولاد میں سیر چشمی صبر اور قناعت میں اضافے کی دعا کی.“ امی جان سے خط لکھنے کی فرمائش جیسا کہ ذکر ہو چکا امی جان پڑھنا تو جانتی تھیں لکھنے کی مشق نہیں تھی.ابا جان چاہتے تھے کہ امی خود لکھیں بچوں سے لکھوائے ہوئے خط اور بچوں کو دیے ہوئے جواب سے تشنگی رہتی.اکثر خطوط میں اس کا ذکر ہے.بھائی جان باسط کے نام خط میں لکھا جو قادیان جا کر ابا جان سے مل کر آئے تھے: خدا کرے آپ کی والدہ مکرمہ مقدسہ آپ سے مل کر اتنا ہی خوش ہوں جس قدر میں نے پتھر دل پر رکھ کر آپ کو جُدا کیا.یہ امر قابل افسوس ہے کہ میں اس دکھ کو الفاظ کی صورت میں آمنہ پر ظاہر نہیں کر سکتا اور اسی طرح وہ اپنا مافی الضمیر ادا نہیں کر سکتی مگر بیٹے اس کی اطاعت اور خدمت گزاری اور دور اندیشی نے پیتل کو سونا بنا رکھا ہے اور جس کے 52

Page 54

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر لئے ہم اس کے بے حد ممنون اور زیرا احسان ہیں.“ ” میری رفیقہ ء حیات! میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد لکھنا پڑھنا سکھا دے آنکھیں روروکر خراب نہ کریں جس اُمید پر آپ جیتی ہیں اگر وہی فوت کر لی تو کیا فائدہ؟ اگر جان پریشانیوں سے ہلاک ہوگئی تو مجھے کیسے دیکھو گی ؟ کمال صبر اور صلوٰۃ سے دن گزارو.حضرت یعقوب کو یوسف کا غم تھا انہوں نے صبر سے کام لیا تو سب کو پالیا دیکھو غلط سلط ہی سہی خط خود لکھا کرو اور کسی کو دکھائے بغیر ڈال دیا کرو.اگر آپ کو ہم سے لگاؤ ہوگا تو جلد لکھنا آجائے گا اسی لگاؤ کے نتیجہ میں فرہاد نے پہاڑ سوہنی نے دریا اور کسی نے نتھل چیر کر رکھ دیا آپ لکھنا سیکھ لیں“ ابا جان کا گا ہے ما ہے ربوہ آنا پہلی دفعہ سات سال بعد 1954ء میں ربوہ آنا ممکن ہوا.پھر کبھی کبھی ویزا اور چھٹی ملنے پر ربوہ آتے مگر 1962ء میں ایک نادانستہ غلطی پر پکڑ ہو گئی.حکومت نے پاسپورٹ واپس لے لیا.مصلحتنا زیرزمین جانے کی کیفیت ہوگئی.امی جان کو علم ہوا تو فکرمند ہوئیں اور قادیان جانے کے ارادہ سے میاں صاحب کے پاس اجازت کے لیے گئیں.میاں صاحب نے فرمایا میں نے خط لکھا ہوا ہے حالات سے آگا ہی ہو تو پھر جانا چند دن کے بعد میاں صاحب نے فرمایا اب تو آپ کو جانا ہی چاہیے.نیز فرما یا اُن سے کہہ دیں کہ میں میاں عبد الرحیم کو جانتا ہوں.وہ بہت مخلص ہے.سہو منہ سے غلط نعرہ نکلا ہے.یہ بھی 53

Page 55

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) کہیں کہ اُن کے کیس کے لیے یہاں لڑیں وہاں لڑیں او پر لڑیں مگر اس کو قادیان سے باہر نہ بھیجیں اور اگر باہر بھیجنا ہے تو میرا بندہ مجھے واپس بھیج دیں.امی جان نے جا کر یہ پیغام دیا تب یہ بلاٹلی.ایک لمبی کہانی ہے ابتلاؤں اور پریشانیوں کی.بالآخر ضبط شدہ پاسپورٹ 1968ء میں واپس ملا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات درست ہوئے.ان وجوہات سے پاکستان کا سفر مشکل ہو گیا.جب آپ تشریف لاتے اور کچھ دن ہمارے ساتھ گزارتے بڑے سہانے دن ہوتے.اچھے اچھے پروگرام بنتے.دعوتیں ہوتیں امی جان بھی خوش خوش خاطر داری میں لگی رہتیں.باورچی خانے میں کھانا کھانے کا وقت بڑا پر لطف ہوتا پرانی طرز کے چولھوں میں لکڑیاں جلتیں امی جان کھانا بناتیں ابا جان پیڑھی پر بیٹھے ہوتے کوئلوں پر سکی گرم روٹی اترتے ہی ابا جان ہمیں آواز میں دینا شروع کر دیتے سب اپنی اپنی پیڑھی چوکی پر سامنے تہائی رکھ کر بسم اللہ پڑھ کے بیٹھ جاتے تقسیم کا کام ابا جان کرتے امی خوشگواری خفگی سے کہتیں لطیف کے ابا روٹی اترتے ہی بانٹ دیتے ہیں پکا تو لینے دیا کریں.ہلکی پھلکی نوک جھونک مزے دار مزاح کی باتیں کوئی قصہ واقعہ سب ساتھ چلتا.ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ کی خوشی میں سرشار رہتے.اباجان خود بھی مختلف مزے دار چیزیں پکاتے قیمے کے پراٹھے، پکوڑے، مٹھائیاں اور آئس کریم کھلا کر خوش ہوتے.گھر میں ہمارے سامنے آئس کریم بناتے ہم سب ارد گرد بیٹھ جاتے ایک سادہ سی مشین میں برف اور نمک ڈالتے جاتے اور اس ڈبے کو گھماتے جس میں اپنی خاص ترکیب سے 54

Page 56

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) تیار کیا ہوا گاڑھا دودھ ڈالتے پھر ہمارے مزے لے لے کر کھانے سے لطف لیتے.جو بے تکلف مہمان اور رشتے دار ملنے آتے انہیں بھی باورچی خانے میں ہی بلا لیا جاتا ملاقات ہو جاتی اور کھانا بھی پیش کر دیا جاتا.یہ انتظام بڑا آرام دہ تھا.ابا جان ربوہ کی ترقی دیکھ کر بہت خوش ہوتے.مساجد میں جاتے پرانے ملنے والے قادیان کی یادیں تازہ کرتے.قادیان کے حالات سنتے دونوں طرف تشنگی تھی جو ان ملاقاتوں سے سیرابی میں بدل جاتی.جس دن حضرت خلیفہ السیح الثانی پر حملہ ہوا تھا ابا جان مسجد مبارک میں موجود تھے.بہت تکلیف میں تھے.رقت انگیز لہجے میں بآواز بلند قرآنی دعائیں پڑھتے اور ہمیں بھی دعاؤں کی تلقین کرتے.امی جان کا ذوق عبادت اور قبولیت دعا امی جان کا دعا کا اپنا انداز تھا.دعا میں ہلکی سی گنگناہٹ جیسی آواز آتی.تضرع اور عاجزی سے نماز پڑھتیں ان کے چہرے پر ایک تقدس تھا.سفید ململ کا دوپٹہ پھیلا کر اوڑھتیں.تہجد کی پابند تھیں.اشراق کے نوافل بھی ادا کرتیں.ان کی سجدہ گاہ پتا نہیں ان کی کون کون سی مناجاتوں اور درد کی داستانوں کی امین تھی.ان کے روزمرہ کے کاموں کی تقسیم اوقات ایسی ہوتی کہ عین نماز کے وقت وہ جائے نماز پر ہوتیں نماز کے وقت سے پہلے ہی تیار ہو کر انتظار میں دعائیں پڑھتی رہتیں.رمضان المبارک کا بہت اہتمام کرتیں نماز ، درس القرآن، نماز تراویح سحری افطاری، گھر میں اور محلے میں قرآن پاک کے دور میں ہر جگہ شوق سے جاتیں.اہتمام سے اعتکاف بیٹھتیں.میرے میاں 55

Page 57

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ناصر صاحب نے یہ سب بھاگ دوڑ دیکھ کر کہا لگتا ہے تمہاری امی کمانڈو ہیں.کبھی کبھی امی جان جلسہ سالانہ قادیان پر یا ویسے ملنے کے لیے ویزا لگوا کر قادیان جاتیں وہاں ان کا ذوق عبادت دیدنی ہوتا.بہت خواہش تھی کہ بیت الدعا میں تہجد ادا کریں مگر ہر وقت مردوں کی آمد ورفت کی وجہ سے موقع نہ ملتا.آپ حضرت صاحبزادہ مرز وسیم احمد کے پاس گئیں کہ عورتوں کے لیے بھی کچھ انتظام ہونا چاہیے.چنانچہ آپ نے انتظام کروادیا.ابا جان کہتے تھے اب تک جو خواتین اس سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں اس کا اجر امی جان کو ملے گا.ہماری تعلیم و تربیت کے لیے امی نے گھر کے صحن میں ایک امی سکول بھی کھولا ہوا تھا.ربوہ میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی سورج غروب ہونے کے ساتھ اندھیرے پھیل جاتے.یہ سکول ہمارے گھر کے کچے صحن میں چاند تاروں کی چھاؤں میں بچھی چارپائیوں پر قائم تھا.اس کا نصاب سورتیں یاد کرنا، انبیا کرام کی کہانیاں، احمدیت کی سچائی کے دلائل ، بیت بازی ، ناصرات کے کورسز سب کچھ بڑے خوشگوار ماحول میں اس سکول میں پڑھایا جاتا.آج تک صحن میں چھڑکاؤ کی تازگی.موتیا کی خوشبو.کہکشاں کا نظارہ سب امی کی یاد میں شامل ہو جاتے ہیں.مڑ کر دیکھا جائے تو امی جان نے 35 سال کی عمر سے ساری ذمہ داریاں سنبھالیں اور بفضل الہی کامیابی سے ادا کیں میرے والدین جو ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے مسابقت فی الخیرات کے جذبہ سے زندگی حاصل کرنے لگے.اگر امی جان میں ایمان و 56

Page 58

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) توکل اور سادگی و صبر کی عادت نہ ہوتی تو ابا جی درویشی کی سعادت ہرگز نباہ نہ پاتے امی جان نے کمال ہمت حو صلے اور صبر سے بااحسن ادا ئیگی کا ہر چیلنج قبول کیا بلکہ ابا جان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں اور کبھی پریشانی طعن و تشنیع اور کم حوصلگی کا مظاہرہ نہ کیا.امی جان نے بڑے سخت وقت دیکھے مگر بڑے وقار کے ساتھ ان سے عہدہ برآ ہوئیں.ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک بیٹی کی بیماری شدت اختیار کرگئی.دوا اس لیے نہ دلا سکی تھیں کہ ہسپتال میں دو پیسے کی پرچی بنوانی پڑتی تھی اور اس وقت بچی کے علاج کے لیے مامتار و پیسے بھی مہیانہ کر پائی تھی.امی جان سے اللہ پاک کا بڑے پیار کا سلوک تھا.اللہ پاک آپ کو بہت دلا سے دیتا.اپنے قرب کا احساس دلاتا.آپ کو اس تعلق کے اظہار کی عادت نہیں تھی.زیادہ تر خاموش رہتیں.جو ہمارے علم میں آجاتے ان بے شمار ایمان افروز واقعات میں سے کچھ بطور مثال پیش کرتی ہوں امی جان نے بتایا کہ وہ بہت چھوٹی تھیں جب ان کی والدہ صاحبہ والد صاحب کے قبول احمدیت سے پہلے فوت ہو گئی تھیں، امی کو قلق رہتا والدہ کی مغفرت کے لیے بہت دعا کرتیں.ایک دن جائے نماز پر ہی یہ نظارہ دیکھا کہ والد صاحب والدہ صاحبہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے آرہے ہیں کہتے ہیں فکر نہ کرو تمہاری اماں میرے ساتھ ہے.میں چھوٹی تھی امی جان نے مجھے دفتر سے وظیفہ کی رقم لینے کے لیے بھیجا.اس وقت ہمیں ایک مہینے کے لیے پندرہ روپے ملتے تھے.میں نے روپے لیے اور دوپٹے کے پلو 57

Page 59

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) سے باندھ لیے راستے میں بدقسمتی سے بے احتیاطی سے دی گئی گرہ کھل گئی اور رقم کہیں گر گئی.ظاہر ہے کہ ان حالات میں ان کی قیمت پندرہ ہزار کے برابر ہوگی.امی جان کو بہت تکلیف ہوئی.دعا بھی کی خدا کی قدرت گھر میں پالے ہوئے چوزوں میں سے ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر مر گیا.ہم بچے اسے دفن کرنے کے لیے باہر لے کر گئے.باہر ریت ہی ریت تھی ایک جگہ قبر کھودی تو وہاں پندرہ روپے کی وہی رقم پڑی ہوئی ملی.خدا نے اپنی ایک عاجز بندی کی دعا منظور فرمائی اور اس کی تکلیف دور کرنے کا غیب سے سامان فرمایا.ایک دفعہ امتحان میں ایک بہن کا پرچہ توقع کے مطابق نہیں ہوا.امی جان جو معمولاً ہر بچے کے لیے دعا کرتی تھیں زیادہ توجہ سے دعا کرنے لگیں.خواب میں انہیں نمبر بتائے گئے مگر انگریزی ہندسوں میں لکھے ہونے کی وجہ سے سمجھ نہ سکیں.سجدہ گاہ کے قریب زمین پر انگلی سے ایک ہندسہ کا نشان بنالیا صبح اٹھ کر بتایا کہ شروع کا ہندسہ ایسا تھا.یہ بڑی خوشخبری تھی کہ تین سو سے زائد نمبر حاصل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے نتیجہ نکلنے پر پتہ چلا کہ نمبر تین سو سے زائد ہی ہیں.ایک دفعہ جب میں لاہور یونیورسٹی میں پڑھتی تھی امی کو لکھا کہ کبھی کبھی پڑھتے ہوئے کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے کھانے کے لیے جاؤں تو بہت وقت لگ جاتا ہے اگر کوئی پنجیری وغیرہ بنا کر بھجوا دیں تو مجھے بڑی سہولت ہوسکتی ہے.امی جان کے پاس کچھ چیز میں تو تھیں گھی نہیں تھا اور نہ پیسے تھے.درویش کی بیوی خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوگئی 58

Page 60

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوئی تھیں کہ ایک پڑوسن کی آواز آئی یہ گھی چھوڑے جارہی ہوں نماز کے بعد اسے سنبھال لیں سلام پھیر کر دیکھا تو گھی کا بھرا ہوا ایک کٹورا تھا اس سے پنجیری تیار کر کے لاہور بھجوا دی.بعد میں اس مہربان نے بتایا کہ اسے دیسی گھی کا تحفہ ملا تھا خدا نے اس کے دل میں ڈالا کہ اس میں سے آدھا اپنی درویش بہن کو دے آؤں.سبحان اللہ.ایک واقعہ حیدر آباد کا ہے.ایک دفعہ چھوٹے بیٹے کے پاس حیدر آباد گئیں.شام ہوئی تو خیال آیا کہ ان کے پاس کوئی زائد چار پائی نہیں ہے سوتے وقت مشکل پیش آئے گی اور بچے میرے آرام کی خاطر خود تکلیف اٹھا ئیں گے کیا ہی اچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ غیب سے چار پائی مہیا فرمادے.ابھی یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ کسی نے باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپ کے ہاں مہمان آئے ہیں آپ کو چار پائی کی ضرورت ہو گی یہ چار پائی لے لیں.اس غیبی تائید کا ذریعہ بننے والے فرشتہ سیرت بزرگ مکرم مرزا محمد ادریس صاحب سابق مربی انڈونیشیا کے والد محترم مرز امحمد اسماعیل صاحب تھے.امی کی کوئی لگی بندھی آمد نہیں تھی.اللہ پاک غیب سے سامان کرتا قناعت، سیر چشمی اور کفایت سے گزارا کرتیں.ایسے بھی ہوا کہ شدید ضرورت پڑنے پر اللہ پاک کی طرف رخ کرنے کے لیے قرآن مجید پڑھنے بیٹے گئیں.کھولا تو اس میں سے افضل الہی کبھی کے رکھے ہوئے روپے ملے.بچوں کے رشتوں میں اللہ پاک کی مدد کی ایک مثال لکھتی ہوں: 59

Page 61

شادی.آپس کا حسنِ سلوک.جدائی ،صبر ابا جان کی صحت کمزور ہورہی تھی امی جان چاہتی تھیں کہ پانچویں بیٹی کی شادی کی ذمہ داری ادا ہو جائے تو وہ قادیان جا کر کچھ عرصہ رہ سکیں.سب کی شادیاں ہو چکی تھیں.گھر میں امی جان اور چھوٹی بہن ہی رہتی تھیں آپ نے نماز میں دعا مانگی کہ اللہ پاک اپنے فضل سے کوئی مناسب رشتہ گھر بھجوا دے.ابھی نماز میں ہی تھیں کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا.بہن نے دروازہ کھول کر مہمانوں کو بٹھایا.یہ مہمان خدا نے بھیجے تھے جو چھوٹی بیٹی کے رشتہ کے لیے آئے تھے.انہوں نے بتایا کہ ہم نے مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ سے رشتے کے لیے پوچھا تو انہوں نے آپ کے گھر بھیجا ہے کہا ہے کہ درویش کی بیوی نے بچیوں کو گلے سے لگا کر ان کی کمائی کا لالچ نہیں کیا اور صحیح عمر میں بچیوں کے رشتے کر دیے ہیں.آپ قسمت آزمالیں.امی جان نے اسے اپنی دعاؤں کا جواب سمجھا اور مہمان خاتون کے اصرار پر اگلے روز ان کے ہاں گئیں.واپس آئیں تو دروازہ بھائی جان باسط نے کھولا جو ان دنوں ملتان میں مربی تھے اور اچانک آئے تھے.بھائی جان کو دیکھ کر غیر معمولی خوشی کا اظہار کیا.کہنے لگیں بیٹی کا رشتہ دیکھ کر آرہی تھی سوچ رہی تھی کہ اس کے ابا جان تو قادیان ہیں میں گھر میں اکیلی ہوں اس سلسلے میں کس سے مشورہ کروں گی اور پھر میں نے آتے آتے دعا کی کہ خدا کرے میرے گھر پہنچنے پر دروازہ میرا بیٹا کھولے اور خدا کی شان ہے کہ دروازہ کسی اور نے نہیں بلکہ تم نے ہی کھولا.الحمد للہ.مذکورہ حالات میں پانچ بیٹیوں کی شادی ایک بہت ہی کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا.خدا 60

Page 62

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کی برکت سے بڑے وقار اور عمدگی سے اپنے اپنے وقت میں امی جان نے بیٹیوں کو دین اور دنیا کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ گھر داری کے سارے سلیقے سکھائے سلائی کڑہائی بنائی جیسے ہنر سکھائے.فارغ بیٹھنا پسند نہیں کرتی تھیں نہ ہی فارغ بیٹھنے دیتیں.ہم نے امی کو گرمی کی لمبی دو پہروں میں چرخہ کاتے دیکھا.گھر کے سارے کام ہم بہنوں میں بانٹے ہوئے تھے.ہماری پڑھائی کے خیال سے اکثر کام خود ہی کرلیتیں.سال بھر کی اجناس لینا صاف کر کے سنبھال کے رکھنا.سب بہنوں نے اپنے اپنے وقت پر سکول کالج میں پڑھا یا.مگر تنخواہ کے لیے شادی میں دیر نہیں کی.پردے کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ خود بھی جیٹھ اور دیوروں سے پردہ کیا اور ہمیں بھی کزنز اور بہنو ئیوں سے پردہ کرایا.اور یہ کئی لحاظ سے بہت اچھا کیا.درویش کی امانت کو کما حقہ ذمہ داری سے سنبھالا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمیں پردے کے لیے کہنا نہیں پڑا بلکہ امی کا نمونہ دیکھ کر عمل کیا.قرآن پاک کے اوامر ونواہی پر عمل کرتیں اور کرا تیں.اُٹھتے بیٹھتے چھوٹی چھوٹی باتیں سکھا دیتیں کبھی کھانے کی چیز یا کاغذ زمین پر پڑا ہو تو امی فوراً اُٹھانے کو کہتیں.سنی سنائی بات آگے بڑھانے سے منع کرتیں.چیزیں سنبھال کے استعمال کرنا ، ضائع ہونے سے بچانا اور نعمتوں پر شکر کرنا ہماری فطرت میں شامل کر دیا.آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.خاص طور پر کسی کو ضرورت مند دیکھ کر ہر ممکن مدد کر نے کو فرض منصبی سمجھ لیتیں تحمل سے جھگڑے نبٹانے میں بہت ماہر تھیں.ہم نے کسی سے انہیں تلخ کلامی یا بے رخی برتتے نہیں دیکھا.بڑی خندہ پیشانی سے وقت گزارا.61

Page 63

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر آٹھ بچوں کے رشتے ، شادیاں پھر سدھیوں سے حسن سلوک پھر اپنی اگلی نسل کے بچوں کی پیار محبت سے تربیت کا بھر پور کردار ادا کیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم پانچ بہنیں امی جان کی تربیت کی خوشبو ساتھ لیے اپنے اپنے گھروں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں.ایک مثالی بیوی کی حسن کارکردگی پر شوہر کی گواہی خدا تعالی کے فضل سے دونوں میں باہمی افہام و تفہیم وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے بڑھتی رہی.درویشی کی وجہ سے تعلق میں تقدس و عقیدت کا رنگ آ گیا.ہم نے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ پایا.دونوں نے ایک دوسرے کی بہت قدر کی.ابا جان ہمیں ماں کی عزت اور اطاعت کرنے کا درس دیتے.اور اس بات کی ہمیشہ تعریف کرتے کہ امی جان نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جان مار محنت کی ہے.آپ اکثر یہ بات دُہرایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ کسی لمبے سفر پر جاتے ہوئے اشرفیوں کی تھیلی اپنی بیوی کو امانتا دے گئے.کئی سالوں کے بعد واپس آکے ادھر ادھر کی باتوں میں اشرفیوں کا ذکر بھی آیا اس خاتون نے کہا کہ جلدی کیا ہے آپ کو سب کچھ بتاؤں گی پہلے نماز پڑھ آئیں وہ بزرگ مسجد میں نماز پڑھنے گئے وہاں ایک نوجوان کو درس دیتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی کہ بڑے بڑے لوگ عقیدت و احترام سے اس کے حلقہ درس میں شامل ہیں گھر آکر اس نوجوان کی تعریف کی اس خاتون نے کہا کہ آپ کی اشرفیاں اس نوجوان کی جو آپ کا بیٹا ہے تعلیم و تربیت پر خرچ ہوئی ہیں.62

Page 64

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اس خاتون نے ایک بچے کی تعلیم و تربیت کی جبکہ اشرفیوں کی تھیلی بھی اس کے پاس موجود تھی مگر میری بیوی نے میرے آٹھ بچوں کی تعلیم و تربیت کی جب کہ میں تو اسے کوئی تفصیلی بھی نہ دے سکا تھا.قدردانی کے تحریری ثبوت دیکھئے: تمہاری امی نے میرا وہ ساتھ دیا.وہ احسان کئے.وہ وفا کی وہ دلجوئی کی ایسی غمگساری دکھائی کہ میں ساری عمران کے سامنے شرمندہ رہا اور احسان مند رہا اور اب بھی تازیست دعا گو ہی رہوں گا.میرا گھر ان کی آمد سے برکتوں سے بھر گیا میری ساری اُمیدیں ان کی دعاؤں سے پوری ہو ئیں میرے غم میں دل سے شریک ہو کر بے مثال غمگساری کرتیں میں ان کی یاد میں آنسو ہی نہیں خون کے آنسو بہاتا ہوں.“ ”اپنی والدہ کا ادب ملحوظ رکھیں اس کا درجہ رابعہ بصری جیسا ہے.بڑی ہی صالح عورت ہے گو آپ کے باپ نے اتنی قدر نہ کی جو حق تھا لیکن اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ کس قدر اخلاق فاضلہ کی مالک ہے اللہ تعالیٰ ہی جزا دے.میں تو اس کا ممنون احسان ہوں اس نے میری دنیا بسادی ہے بلکہ بنادی ہے.اس نے مجھے دین میں پیش پیش کیا جو کچھ ہوا اس کا اور جو کچھ ہوگا اس کا.ہاں اگر مجھے کچھ ملا ہے تو اس کے طفیل.انشاء اللہ حالات بدلیں گے زمانہ کروٹ لے گا اپنی نیرنگیاں دکھائے گا مگر بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا اور آمنہ اس کی مثال ہے“ 63

Page 65

8 ستمبر 1963ء وو شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) یہ خط میں مسجد مبارک کے شمالی حصہ میں چار چادروں میں گھرا ہوا خدا کی گود سے تحریر کر رہا ہوں اعتکاف کا پہلا دن ہے اور دعا کی یہ حالت ہے کہ سر خالی خالی سامعلوم ہوتا ہے.آپ کی اور میری محبوب ترین ہستی بھی اعتکاف پر جا چکی ہوگی اللہ تعالیٰ اس کی سعی کو قبول فرمائے جس عورت نے خاوند کی جان اور اپنی جان کو ایک کر دیا میں نے آنکھ بند کر کے اُس کی پیروی کی.جنت پالی.ہماری عید پر کیا پروگرام ہے روٹی لنگر سے چائے خود.رات عید ہونے کا فیصلہ ساڑھے دس بجے ہوا.اعتکاف بیٹھا تھا.بستر وغیرہ لانے میں قریباً بارہ بج گئے سونے کے لیے لیٹا تو مسجد سے ساتھ آنے والے کھٹملوں نے سونے نہ دیا کہنے لگے اتنی راتیں جاگتے رہے ہو آج کیوں سوتے ہو.تیز روشنی کا بلب جلا کر ان کا صفایا کیا قرآن پاک کا ایک پارہ باقی تھا مکمل کیا.جلدی سے جا کر صبح کی نماز با جماعت مشکل سے لی.اللہ تعالیٰ کی شان، یوں معلوم ہوتا تھا فر شتے میرے لئے رات بھر عید کی خوشیاں جمع کرتے رہے ہیں عید سے قبل عید کرنے والا میں ہی تھا.اللہ تعالیٰ عید کو میرے لئے میری قوم اور خاندان اور ملک کے لئے سارے جہاں کے لئے با برکت فرمائے شکر ہے اعتکاف خیریت سے گزرا میرے خیمہ میں سارے معتلف جمع ہو کر کھانا کھاتے تھے مجھے بھی خدا نے اُن کی خدمت کا موقع دیا.ایسے مواقع کا ثواب نعمت کا خورشید بن کر میرے چاندوں پر چمکے گا انشاء اللہ.عید پر اہتمام کرتا ہوں اور 64

Page 66

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) تکبیرات سے آپ کو اللہ تعالیٰ سے قریب تر کرنے کا چارا.سوخدا تعالیٰ آپ کو اپنی رضا کی چادر میں ایسا چھپالے کہ کوئی ذرہ فنافی اللہ اور فنافی الرسول سے باہر نہ رہے آمین یہ حج کا دن ہے اور ایسی دعا میں آج قبولیت حاصل کرتی ہیں.” آپ کی والدہ ماجدہ مبارکہ مقدسہ نے میری رائے کو ہمیشہ فوقیت دی ہے خدا تعالیٰ نے ان کو ذہن رسا عنایت کیا تھا.بچوں کی تربیت میں سارا دخل خدا کے فضل سے ان کا ہی ہے اور یہ میری خوش بختی ہے کہ یہ میرے شریک حال ہوئیں الحمد للہ.اللہ تعالیٰ اس کو اور سب اولا د کو شرف اور رضا سے نوازے اور الطاف واکرام سے مالا مال کرے آمین.میں کمزور تھا میرے ہر غم اور تھکان میں انہوں نے میری یوں مدد کی کہ حد بیان سے باہر ہے یہ الگ بات ہے کہ میں نے مناسب قدر نہ کی اور نہ کر سکتا تھا.“ 8 اگست 1966ء اس کی قیمت مجھ سے ادا ہی نہ کی گئی.جب ایسا وقت آیا کہ کچھ خدمت کر سکوں تو قدرت نے الگ کر دیا میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن میں اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں خدا کا شکر ہے کہ اس نے بہت صابر دل دے کر پیدا کیا ہے.خواب میں دیکھا کہ حضرت نواب صاحب کی چھت پر ایک طیارہ آیا ہے میں آنسوؤں سے دعا کر رہا ہوں کہ اب تو آمنہ کو آجانا چاہئے اب تو وہ آجائے.خدا کی شان دیکھو کہ ڈاک دیکھی تو اس میں خبر تھی کہ ایک دلر با خوب صورت جاذب نظر روحانیت سے بھر پور گہری سوچ بچار میں ڈوبی آمنہ آنے والی ہے سبحان اللہ 65

Page 67

ایک اور خط میں لکھا: شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) یہ در حقیقت میری محسنہ ہیں.میرے ساتھ جس حسنِ سلوک سے زندگی گزاری اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے مجھ سے تو قدر نہ ہوسکی...پیارے بچو اگر صبر اور صلوٰۃ سے کام لوتو اللہ تعالیٰ ضرور راستہ نکال دیتا ہے تقویٰ اور صبر تو آپ کی امی کا شعار ہے..میرے بچوں نے اس کی گود میں ذکر الہی کی لوری لی.باوضو خاتون کا دودھ پیا.آپ سب بھی اس کے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں تو درویشی میں بادشاہی کا لطف آجائے.اپنی والدہ سے کہیں فکر نہ کریں راضی برضا رہا کریں.“ جہانِ فانی سے رخصتی امی جان بہت حوصلے والی تھیں مگر ایک وقت ایسا آیا کہ ہم سب نے انہیں سخت متفکر و پریشان دیکھا اور ایسا اس وقت ہوا جب ابا جان کے ہاتھ پہ تکلیف دہ دانہ نکلا.ابا جان کی تکلیف سے آپ بے چین ہو گئیں سب بچوں کو تاکید کرتیں کہ ابا جان کو زیادہ با قاعدگی سے خط لکھیں بزرگوں کے پاس جا کر دعا کی درخواست کرتیں قادیان سے مسلسل رابطہ رکھا خود وہاں جا کر تیمار داری کا فرض ادا کرنے کی خواہش مند تھیں وہ اپنے خاوند کے لیے ہی اتنی پریشان و بے قرار نہ تھیں کیونکہ انہیں وہ عملاً جوانی کی عمر میں ہی خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑ آئی تھیں یہ پریشانی و فکر ایک درویش خاوند کو ایک درویش بیوی کا نذرانہ محبت و عقیدت تھا.بروز سوموار بتاریخ 9 / مارچ 1976 ء گول بازار کی طرف رہنے والے تین چار رشتہ 66

Page 68

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر داروں سے پیدل جا کر مل کر عصر کے وقت واپس آئیں تھکی ہوئی تھیں لیکن اس کے با وجود باقی رشید کو ملنے فیکٹری ایریا چلی گئیں مغرب کے بعد واپس آئیں تو کچھ گھبرائی ہوئی تھیں پاؤں کی ایڑی میں درد تھا.آپا لطیف کو بتا یا پھر اپنے کمرے میں چلی گئیں.ربوہ میں ہمارے گھر اس طرح ہیں کہ ایک پلاٹ کے چار حصے ہیں آدھے حصے میں بھائی جان مجید کی فیملی اور امی.ایک چوتھائی حصے میں بھائی جان باسط اور ایک چوتھائی حصے میں آپا کا گھر تھا.گھروں کے درمیان راستہ تھا.منگل کی صبح آپا کو بتایا کہ رات طبیعت خراب ہو گئی تھی پسینہ بہت آیا ضعف محسوس ہوا خود ہی قطروں والی دوا ڈال کر پی لی تھی آپا نے کہا آپ میرے پاس ہی ٹھہریں مگرامی اپنے کمرے میں سونا پسند کرتی تھیں جہاں معمولاً تہجد، فجر اور اشراق کی نماز ادا کرتیں.اگلے دن حکیم فاروقی صاحب کو گھر پر بلا یا انہوں نے دوائیں دیں.کئی عزیز ملنے آتے رہے.جمعہ کی صبح کو مکرم مولوی محمد شریف صاحب ( مبلغ بلا د عر بیہ ) ملنے آئے ان کو خواب آیا تھا جس میں کسی نیک عورت کی وفات کی طرف اشارہ تھا آپ کا دھیان امی کی طرف گیا اور ملنے آگئے.جمعہ کی شام بے چینی محسوس ہورہی تھی گلے پر بائیں طرف ہاتھ لگا کر بتایا کہ سانس میں مشکل ہورہی ہے.آدھی رات کو ڈاکٹر لطیف صاحب نے آکر دیکھا.ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے.انجیکشن دیا اور صبح ای سی جی کرانے کا کہا.ربوہ میں موجود تین بہنیں دو بھا بھیاں اور بچے امی جان کے پاس تھے.اس تکلیف میں امی جان نے بڑے بیٹے مجید کو یاد کیا وہ کیا کرے گا اس کا خیال رکھنا پھر آپا حمیدہ کو یاد کیا جو ان دنوں 67

Page 69

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) افریقہ میں تھی پھر آپا کی طرف دیکھ کر کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کومشکل میں ڈالا ہے.انہوں نے تسلی دلائی کہ کوئی بات نہیں بس اللہ کرے آپ ٹھیک ہوجائیں.مارچ کا مہینہ تھا سب بچوں کے سالانہ امتحان ہورہے تھے.مگر اس وقت سب اماں جی کے ارد گرد تھے.صبح کی نماز کے وقت امی کی حالت بگڑ گئی پھر ڈاکٹر لطیف صاحب کو بلا یا اللہ کا شکر ہے کہ وہ جلدی ہی آگئے.ڈاکٹر صاحب امی کو دیکھ کر نسخہ لکھ رہے تھے کہ امی کی طرف نظر گئی.تشویش کے ساتھ آگے بڑھے دل کی مالش شروع کی دل میں انجیکشن دیے.سب اللہ شافی کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کر رہے تھے.چچا جان مکرم صالح محمد صاحب اور چچا جان مکرم محمد عبد اللہ صاحب کو بھی بلا لیا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی مولیٰ کریم نے ساری تکلیف سے نجات دے دی.13 / مارچ 1976ء کو صبح ساڑھے سات بجے اچانک امی جان کا دھڑکتا ہوا دل خاموش ہو گیا.راضی بہ رضا خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.ان دنوں ٹیلی فون مشکل سے ملا کرتا تھا کوشش کے باوجود مجھے کراچی میں اور بھائی جان مجید کو حیدرآباد میں بروقت اطلاع نہ مل سکی.ربوہ پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی شکر ہے آخری دیدار نصیب ہوا.میرے سامنے میری پیاری امی جان کو اُٹھا کر لے گئے.یہاں دو تین باتیں لکھتی ہوں جو امی جان کی وفات کے ساتھ اکثر یاد آ جاتی ہیں.بھائی جان عبد الباسط صاحب نے بتایا تھا کہ امی کہا کرتی تھیں بلکہ وعدہ لیا تھا کہ ان کی 68

Page 70

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر تجهیز و تکفین و تدفین وہ اپنے ہاتھوں سے کریں مگر جب اس کا وقت آیا وہ افریقہ میں تھے.امی جان نے انہیں اللہ کے حوالے کیا ہوا تھا.جب پاکستان سے روانہ ہور ہے تھے تو بھا بھی جان محمودہ صاحبہ کے چہرے پر اداسی دیکھ کر امی جان نے کہا تھا کہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں زندگی کا کوئی اعتبار نہیں تاہم اسے اللہ پاک کی رضا کے لیے ہمت سے روانہ کر رہی ہوں.تم بھی ہمت سے کام لو.اس طرح امی جان نے اس بیٹے کو پہلے ہی الوداع کہہ دیا ہوا تھا.اور فی سبیل اللہ وقف بیٹے کے لیے کسی بے چینی اور گھبراہٹ کے اظہار کی ان کے پختہ ایمان اور یقین کے ساتھ کوئی مناسبت نہ ہوتی.امی جان کے حجاب و حیا پر مہر کرتا ہوا یہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ جب آخری بار منہ دیکھنے کے لیے رشتہ داروں کو بلایا گیا تو مکرم چچا جان صالح محمد صاحب نے کہا میں بھابھی کے لیے دعا کروں گا مگر منہ نہیں دیکھوں گا انہوں نے ساری عمر حیا داری اور پردے میں گزاری ہے.اس کا مان رکھوں گا.اعلان وفات الفضل ربوہ نے ذکر خیر کیا: افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان دل کے عارضہ سے نہایت مختصر علالت کے بعد 13 / مارچ بروز ہفتہ صبح ساڑھے سات بجے بعمر 67 سال ربوہ میں وفات پا کر محبوب حقیقی سے جاملیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.69

Page 71

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) مرحومہ نہایت نیک، عابدہ زاہدہ اور دعا گو خاتون تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت حکیم اللہ بخش صاحب آف پتے ہالی ضلع گورداسپور کی بیٹی تھیں.مرحومہ کے خاوند محترم در ویش تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی قادیان میں بطور درویش مقیم ہیں.مرحومہ نے گذشتہ 29 برس کا یہ طویل عرصہ بڑے صبر وشکر کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اپنے شوہر کی جدائی میں گزارا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے خاص فضلوں سے نوازا.اس عرصہ میں آٹھ بچوں کی شادیاں ہوئیں وہ سب پھلے پھولے.اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد سے اور دیگر دینی و دنیوی نعمتوں سے نوازا اور آپ نے اپنے وسیع خاندان کے درمیان ایک مرکزی شخصیت کی حیثیت سے زندگی گزاری.تین بیٹوں میں سے ایک مکرم مولوی عبد الباسط صاحب شاہد بطور مبلغ اسلام کینیا ( مشرقی افریقہ) میں دینی خدمات بجالا رہے ہیں.دو بیٹے مکرم عبدالمجید صاحب نیاز اور مکرم عبدالسلام صاحب طاہر حیدرآباد (سندھ) میں مقیم ہیں.پانچ بیٹیاں (امتہ اللطیف صاحبہ اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر روز نامہ الفضل ربوہ، امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ صادق محمد صاحب ایم اے ٹیچر احمد یہ سیکنڈری سکول بو سیرالیون، امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ عبدالسلام صاحب ظافر ایم اے پر نسپل احمد یہ سیکنڈری سکول وار و سیرالیون، امتہ الباری صاحبہ اہلیہ ناصر احمد صاحب قریشی ڈائریکٹر محکمہ ٹیلیفون کراچی.امتہ الشکور صاحبہ اہلیہ محمد ارشد صاحب ایم ایس سی کیمبیا سیرالیون ) اور بہت سے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں مرحومہ کی یادگار ہیں.70

Page 72

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز علالت طبع کی وجہ سے نماز جنازہ نہ پڑھا سکے اس لئے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے 14 / مارچ کی صبح ساڑھے دس بجے گول بازار میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے.مرحومہ موصیہ تھیں اس لئے مقبرہ بہشتی ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.تدفین مکمل ہونے پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.احباب جماعت دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور مرحومہ کے شوہر محترم میاں عبد الرحیم صاحب دیانت درویش کو اور دیگر تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور ان کا خود حافظ و ناصر ہو.آمین.“ الفضل ربوہ 17 / مارچ 1976 ء صفحہ 6) تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحہ 488 پر آپ کی وفات کی اطلاع کے ساتھ ذکر خیر ان الفاظ میں ہے: ہجرت کے ابتدائی ایام میں تین سال تک مہاجر خواتین پہلے ہزاروں کی تعداد میں اور سینکڑوں کی تعداد میں آتی رہیں ان ایام میں لجنہ مرکزیہ کی زیر نگرانی مرحومہ، حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر انگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا تقسیم کرتی رہیں.تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی آپ کے خاوند بطور درویش قادیان میں مقیم رہے.مرحومہ نے 29 برس کا طویل عرصہ بڑے صبر وشکر کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر ان کی جدائی میں گزارا.71

Page 73

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) اپنے آٹھوں بچوں کی تربیت و تعلیم اور شادیاں بہت اچھی طرح سرانجام دیں.اپنے بچوں کو خدمت سلسلہ میں وقف دیکھنے کی تڑپ تھی خود بھی لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اپنی پانچوں بیٹیوں کو بچپن سے ہی لجنہ کے کاموں میں لگا دیا اور ہمیشہ کام کرتے رہنے کی تاکید کی.“ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحہ 488) تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آمنہ بیگم صاحبہ کا نمبر 722 ہے.(صفحہ 37) ابا جان کو چہیتی بیوی کی وفات کی خبر دو وجود بظاہر الگ الگ رہ کر بھی ایک ہی تھے.باہم افہام و تفہیم اور عقیدت و احترام کا یہ عالم تھا کہ جدائی جدائی نہیں بلکہ قرب و وصال کے لیے باعث رشک بن گئی تھی لیکن دست قضا نے دونوں کے جہان ہی بدل دیے.ایک مہجور کے لیے زندگی کے ساتھی کی رحلت کی خبر پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے مترادف ہوسکتی ہے مگر درویش کا صبر و حوصلہ اور توکل علی اللہ دیکھیے، تہتر سال عمر، صحت کمزور، بچوں سے دور، کوٹھری میں تنہا، مگر راضی بہ رضا ہونے کا مثالی رد عمل دکھایا.یہ بھی درویش مرحوم سے اللہ تعالیٰ کا خاص سلوک تھا کہ اطلاع ایسے وقت میں ملی جب آپ اللہ تعالیٰ ہی کے گھر میں تھے اور نیک ساتھی غمگساری کرنے کے لیے موجود تھے.ڈاک کے نظام کی وجہ سے وفات کی اطلاع چار دن بعد ملی جبکہ امی کی تدفین بھی ہو چکی تھی.دلگداز تحریر پڑھیے: 72

Page 74

عزیزان! شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) آج مورخہ 17 مارچ 1976 ء کو مسجد مبارک میں نماز کے بعد حضرت امیر صاحب نے محراب میں سے مجھے آواز دی میں گیا تو آپ نے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کا خط سب کو بٹھا کر سنایا جس میں آپ کی والدہ صاحبہ کی وفات حسرت آیات کا ذکر تھا سب سے بڑی خوشی یہ ہوئی یہ خبر میں نے مسجد مبارک میں سنی جس کے متعلق خدا کا الہام ہے کہ سب کام جو اس میں ہوں گے مبارک ہوں گے.سبحان اللہ مرنا کس نے نہیں لیکن ایسی مبارک ساعت اور موت قابل صدر شک ہے.میں تو ایک عرصہ سے منذر خوا ہیں دیکھ رہا تھا.9 مارچ 1976ء کو جو حضرت اقدس کا میرے خط کا جواب ملا اس کا ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ خوابوں کے مندر پہلو سے محفوظ رکھے میں خود بھی علیل رہا اور اچانک میرا دایاں ہاتھ ہی علیل ہوا.میرے ہاتھ کو اب آرام ہے اور خدا کے فضل سے صحت بھی اچھی ہے.آپ سب کے خط بھی ملے.عزیز مجید کا مرسلہ جائے نماز ملا بڑی اچھی فال اور دور اندیشی کی سوجھی مسجد سے آکر فجر کے بعد سجدہ اُس پر کیا دعائے مغفرت کی اور اُس خلا اور انقلاب کو اچھے رنگ میں بدلنے کی دعا کی....اللہ تعالیٰ اُس کو غریق رحمت کرے اور آپ سب کو صبر اور استقلال کی توفیق دے آمین.کتبہ اُن کی امانت سے پیسے نکلوا کر اعلیٰ درجہ کا جس پر کم از کم چار پانچ صد روپیہ لگے لگوا دینا.دعا میری طرف سے بھی کر دینا میں خدا کے فضل سے صابر ہوں.احمدی ہوں.میری تو تبلیغ کا نکتہ یہ ہے کہ خدا کے فیض کو بند کرنے والا ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا اور اسی طرح محمد 73

Page 75

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض کو بند کرنے والا کون ہے یہی تو خدائی ہے موت آگے پیچھے آکر ہی رہتی ہے پھر واویلا کیوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.“ اللہ تعالیٰ نے ابا جان کو جس بے مثال صبر کی توفیق دی اُس کا اجر تو خود خدائے عظیم و برتر ہے اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ صابرین کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے بندے حضرت صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد نے اپنے مکتوب میں آپ کے صبر کو سراہا فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اس شدید صدمہ کو بڑی پامردی اور مومنانہ ثبات قدم سے برداشت کیا اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کا عمدہ نمونہ پیش کیا فالحمد للہ.خدا تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور اُن کی سب اولا د اور آپ کو اُن کے لئے ایسے کام کرنے کی توفیق دے جو مرحومہ کے لئے صدقہ جاریہ ہوں وہاں میرا سلام سب کو پہنچا دیں.مرز ا وسیم احمد ابا جان کا آنکھ اور دل پر قابو 15 اپریل 1976ء "3-4-1976 میں نے اس وقت کے لئے 1947 ء سے صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی خدا نے میری مدد کی اور مجھے اس طرح صبر و قرار کی دولت سے نوازا جس طرح یہ عظیم الشان انعام دیا تھا.یہ تو مولا کریم کا بے پایاں احسان ہے کہ اُس نے مجھے اس انعام کی 74

Page 76

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر رفاقت عطا کی.اگر چہ میں قادیان اور ور بوہ میں تھی مگر احسان الہی سے فیض یاب رہا.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اس عظیم مہربانی کے قابل نہیں سمجھتا تھا.میری قلم قاصر ہے میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں خدا کے اس فعلی انعام پر شکر گزاری کا حق ادا کر سکوں.سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ.یہ انعام جاری رہے گا.اس باغ کی قلمیں قیامت تک پھل پھول لائیں گی میرا سینہ پرسکون ہے اللہ تعالیٰ نے باری، باسط اور دیگر پھل سیرت صورت سے بے انتہا خوبصورت عطا کر کے دین و دنیا سنوار دی.اللہ تعالیٰ نے اُس کو بغیر کسی تکلیف کے بلالیا یہ کوئی کم احسان ہے.میں کس طرح، کن الفاظ کس دل کس دماغ سے آپ کو رونے کی اجازت دوں اور اس احسان کو بھلا دوں بے صبری سے آنے والے انعامات کو ضائع نہ کرنا.شکر کریں الحمد للہ کرمیں صدقہ خیرات سے اُس کے درجات کی بلندی کا سامان کریں.کوئی لفظ قلم یا زبان سے ایسا نہ نکلے جو پون صدی کی اس عنایت پر دم واپسیں ناشکری والا ہو آنکھ اور دل قابو میں رکھنا مشکل ہے میں نے اُس کا بھی حل نکالا ہے خط کسی کے حوالے کر دئے کہ دوبارہ ویسی حالت نہ ہو.“ عزیزی عبدالمجید نیاز مرحومہ کی جن خوبیوں کا آپ نے سب بچوں نے سب لوگوں نے اور سب تعزیت کرنے والوں نے ذکر کیا ہے وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں.مگر کیا ہم ناشکر گزار نہ ہوں گے اور آنے والی نعمتوں اور افضال کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرنے والے نہ ہوں 75

Page 77

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر گے اگر بے صبری کا کوئی لفظ ادا ہو گیا.کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشادسامنے رکھیں ؎ بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر میرے بچے آپ کو خاص طور پر ہدایت ہے.بڑے ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ پاس کریں.صبر والانسخہ آزما کر دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود نے بٹالے میں صبر کا نمونہ دکھایا تو خدا تعالیٰ نے کیسی عزت بخشی فرما یا بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے سبحان اللہ ہم کب اس قابل تھے کہ آمنہ جیسی نعمت ملتی پھر بچوں کی صورت میں جو احسانِ عظیم ہوا وہ زبان اور قلم وہ دماغ اور دل کہاں سے لاؤں جس سے شکر کا حق ادا کر سکوں.بس الحمد لل ثم الحمد للہ یہی ورد کچھ حق ادا کر سکتا ہے.“......13 مئی 1976ء عزیزم مکرم عبدالمجید نیاز خط لمبے لمبے نہ لکھا کریں مبادا منتشر جذبات میں بہہ کر ایسا لفظ سپرد قلم ہو جائے جس سے شرک کا پہلو نکلتا ہو.جب کسی کے سامنے بیان دینے کا وقت آئے تو جس قدر کم بولا جائے اچھا رہتا ہے.کس کو انکار ہے کہ یہ وقت بڑا صبر آزما ہوتا ہے اور پھر آپ کے لئے تو اور بھی زیادہ المیہ رکھتا تھا کئی وجوہات کی بناء پر مگر جب زیادہ دُکھ والا واقعہ سامنے آجائے تو صبر بھی اُسی کے مطابق دکھانا موجب انعام ہوا کرتا ہے کہتے ہیں 76

Page 78

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) کوئی رو رہا تھا ایک بزرگ نے پوچھا کیوں رو ر ہے ہو فر مایا میرا دوست فوت ہو گیا ہے.جواب دیا پھر آپ نے فوت ہونے والے کو دوست بنایا کیوں تھا.سوجس قدر، جتنا عرصہ، جب تک خدا نے اور جس مطلب کے لئے خلق کیا تھا پورا کر لیا.تو ہر شے اس کے بعد جب وہ کام کر لیتی ہے سنبھال لی جاتی ہے.بعض لوگ جن پر میں حیران ہوں لکھتے ہیں صحت اچھی تھی.پھر لکھتے ہیں جلدی فوت ہو گئی.نہیں میں تو خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے اتنا بڑا انعام شدید ترین ماحول میں بھی اتنا عرصہ دئے رکھا میں عرصہ دراز سے اُن کی اور صفات کے ساتھ صابرہ بھی لکھا کرتا تھا سو خدا نے اس کو اس کی رضا پر صبر کرنے کے نتیجے میں بہت زندگی دی.الحمد للہ.میں نے آپ سے کئی بار اور دوسروں کو بھی تحریر کیا ہے کہ میں تو پہلے سے ایسے حادثہ کی خبر سننے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتارہتا تھا.اکتوبر ہمارے خاندان کے لئے اور باقی سال سے ذرا تکلیف دہ ہوا کرتا ہے جب ہی ہم سب یعنی ہماری والدہ مقدسہ بھی اور والد صاحب بزرگوار بھی اس ماہ میں صدقہ خیرات اور حفظانِ صحت کا زیادہ خیال رکھتے.اور رکھنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے.میں بھی دسمبر میں علیل ہوا پھر جنوری میں زیادہ ہی علیل ہو گیا پھر میں نے جلدی جلدی اپنی خوابوں کی بناء پر روز دوسرے چوتھے باخذ رسید اور خاموش صدقہ دینا بھی شروع کر دیا مگر اس طرف خیال جاتا ہی نہ تھا کہ ہونا یہ ہے.میں نے ان کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی.4 مارچ 1976 ء کولکھا گرم سرد کپڑے میرے پاس کافی ہیں ہاں ایک اچھی سی خوبصورت گرم چادر کی کمی ہے میں نے سب سے قیمتی جو اُس وقت اُس دکان 77

Page 79

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) میں تھی خرید کر بھیج دی یہ بھی یاد آرہا ہے کہ دکان پر اُس کو لے جاتا اور کپڑا پسند کرنے کو کہتا پھر یہ پسند کر کے ہاتھ لگا کے واپس آجاتی میں خرید کر لے آتا.دوسری طرف یہ بھی اگر میں نے کسی وقت خود اُن کے لئے کوئی لباس خریدا تو اُنہوں نے بھی اس کو خوشی سے اور خوش کرنے کے لئے پہن لیا.سنا ہے اس چادر کو ایک دفعہ یا دو دفعہ اپنے پاؤں پر لپیٹا تھا اور مجھے لکھا کہ زندگی اور صحت رہی تو اگلے سال اوڑھ لوں گی.مگر تقدیروں پر ہمارا ایمان ہے اور یہی ڈیوٹی ہے.دو چار روز سے کام میں بڑا مصروف ہوں اور صحت اچھی ہے لطیف نے لکھا کہ اب آپ کی ڈیوٹی ہے کہ ایک جوڑا روز بدلا کریں.میں نے تو عرصہ سے اپنا ایک اصول بنایا ہوا ہے کہ مصروف ، مصروف، مصروف کہ دھیان بس عبادت ریاضت میں رہے اور آپ سب کی یاد میں نہ اُلمجھوں.آپ سب کی خوشی کے لئے وہ سب کچھ انشاء اللہ کروں گا جو مرحومہ کرتی تھیں گو میں اُس کی گرد کو بھی نہ پاسکوں گا مگر جذ بہ ضرور رکھتا ہوں."......6 جون 1976ء عزیزہ باری پیاری میں نے سلسلہ احمدیہ میں پڑھا تھا کہ حضرت مسیح موعود ساری عمر جب بھی اپنی والدہ صاحبہ کا ذکر فرماتے یا سنتے تو جذبات کو یوں دباتے کہ صاف دکھائی دیتا کہ اندر ایک تلاطم ہے اور آب دیدہ ہو جاتے ماں، ماں، ماں اور پھر آمنہ ماں آپ کے دل کا 78

Page 80

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) حال سمجھتا ہوں.ایک دفعہ عزیز و شکور کے رخصتانہ کے موقع پر میں نے کہا مشہور ہے کہ ماواں دھیاں ملن لگیاں چارے کنداں چبارے دیاں ہلیاں بیٹی کی رخصتی پر جب ماں نے بیٹی کو رخصت کرنے کے لئے گلے سے لگایا تو گھر کی چاروں دیوار میں ملنے لگیں ) تم نے پانچ بیٹیاں رخصت کی ہیں تمہارا کیا حال ہوا ہو گا.واقعی دل گردہ تھا، برداشت تھی، حوصلہ تھا، فضل تھا خدا کی دین تھی ، فراخ دلی تھی، نیکی تھی ، تقویٰ تھا، بھروسہ تھا، دور اندیشی تھی ، معاملہ نہی تھی، محبت و شفقت تھی ،صلہ رحمی کا بے مثال نمونہ تھی.اپنوں سے دوسروں سے گھر، پڑوس، محلہ شہر، مضافات اور دوسرے ملکوں تک اس کے حُسنِ سلوک کی کئی کئی مثالیں دے سکتا ہوں اس کا وجود با برکت تھا.اُسے میری حلیمہ ماں برکت بی بی نے پسند کیا تھا صبر تحمل صورت وسیرت میں ممیز تھیں پھر میرے والد صاحب خدا کے فضل سے فضل محمد جن کی اُس نے بہت خدمت کی تھی.“......7 جون 1976ء 66 باری پیاری کا خط بہت ہی خوب مضامین پر ملا.خوشی ہوئی اس میں عزیزہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہماری امی اور ہمارا حق ہے کہ اُن کے اوصاف بیان کئے جائیں جب کہ آپ نے کڑا بند باندھ رکھا ہے.نہیں لعل ! شوق سے سنو میرا ہر خط اُس کے اوصاف حمیدہ سے بھرا پڑا ہے.دیکھ تو لو زندگی میں جب میں صادقہ، صابرہ شاکرہ، 79

Page 81

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) قانہ اور نہ معلوم کیا کیا لکھا کرتا تو بعض لوگ برا مناتے مرحومہ بھی کہتی ایسے نہ لکھا کریں.مگر میں تو لکھ ہی دیا کرتا تھا.اگر آپ نے وہ خط سنبھال کر رکھے ہیں تو سارا مضمون کھل جائے گا.کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جیسے جملے ودیعت ہوتے ہیں جب میں بورڈ پر اعلان لکھا کرتا تھا باسط مجید گرد ہو جاتے کہ آج ابا کیا لکھنے لگے ہیں جماعت کے اکابرین نے کئی مرتبہ میرے سامنے کہا بھائی جی ان اعلاقوں کو نوٹ کر لیا کریں آپ کی اولاد کے لئے یاد گار ہوں گے.حضرت خلیفہ اسیح " حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان تک بھی تعریف فرماتے اور میرے اعلانات کو شہر کا عجوبہ قرار دیتے.آپ کی امی کی ذات میں بہت برکت تھی بعض دفعہ اس کی سرسری باتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہو جاتیں اُس کے مشوروں پر عمل میں برکت ہی برکت تھی.طبیعت میں خاکساری تھی.کبھی کمزوری میں بھاری چیز صحن سے کمرے میں یا کمرے سے صحن میں لانی ہوتی تو مجھے ہی کہتی مگر تھکی ہوئی آواز میں منت شامل ہوتی.چاول نفیس پرانے منگواتی اب تک چاول کے ذکر کے ساتھ آپ کی امی کی چاولوں کی پرکھ یاد آ جاتی 24 ستمبر 1976ء عزیزه لطیف آج اٹھائیسواں روزہ ہے میں مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.اُمید ہے آج عید کا چاند نکل آئے گا.خط لکھنا آسان نہیں ہے.کوئی نہ کوئی یاد 80

Page 82

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جدائی بصبر ) تازہ ہو جاتی ہے جس سے سارا مضمون معطل ہو کے رہ جاتا ہے.میں آپ کی امی کو رابعہ ایک خواب کی بنا پر کہتا تھا.میں نے خواب دیکھا تھا کہ چینی کا ایک بے مثال سفید پیالہ ہے اُس میں خوبصورت لمبے لمبے سفید چاول پکے ہوئے ہیں بیچ بھی چمکتا ہوا سفید ہے میرے سامنے خلیل احمد ( جہلمی ) ہے کہتا ہوں اس کو کھا لیں یہ رابعہ بصری کا پس خوردہ ہے.اور میری مراد آمنہ مرحومہ سے ہے.سونچے میں اُس کی سیرت کی وجہ سے اُسے رابعہ ہی سمجھتا ہوں میں ایک کمزور اور گرا ہوا انسان ہوں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ کے الطاف و اکرام دیکھو کہ ہر خط کوئی نہ کوئی خوشخبری لے کر آتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ“......12 / اگست 1976ء عزیزه باری..........! آپ کا ملے جلے جذبات سے لبریز خط ملا.میں نے بھی اُسے ملے جلے جذبات سے پڑھا.بہر حال شکر گزاری نعمت عظمی ہے.میں بستر تو بارش سے بچا کر اندر لے آیا مگر خط میری آنکھوں کی بارش سے نہ بچ سکا.شکر گزاری کے جلسے پانی سے گندھا ہوا خط پڑھ کر سجدہ شکر ادا کیا.اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت اُسی کی عطا ہوتی ہے اپنی کوشش کا رُخ اُس کی طرف کر دیں صحت، رجحان ، طاقت سب صفت رحمانیت کے تحت آجاتی ہے.یہ سب اُس کی دین ہے.درود شریف سے طاقت حاصل کریں.میرا تجربہ ہے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بھی بیان فرمایا ہے کہ دعا کے آگے پیچھے درود شریف لگا دیں کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ درود شریف سُن لے اور دعارہ کر دے.81

Page 83

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر آپ نے لکھا ہے بچے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کو اپنا دل کیسے دکھاؤں جو خانہ زنبور بن گیا ہے مگر اُس کی رحمت کے حصار میں رہا ہے.کسی نے حضرت اقدس مسیح موعود سے پو چھا کہ آپ کے سر میں سکری نہیں ہے.حالانکہ آپ کو اتنے ہم ولم ہیں آپ نے جواب دیا جب فکر میرے پاس آتے ہیں میں منہ دوسری طرف کر لیتا ہوں.میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ عجیب سلوک ہے.ساری زندگی ایسا ایسا کرم دیکھا ہے کہ بیان کرنے لگوں تو کتابیں لکھ دوں.“......26/جون 1978ء ”میرا بصری (باسط ) آیا دیرینہ خواہش خدا نے پوری کی باپ بیٹا کس قدر خوشی کے عالم میں ہوں گے.دن اور پھر رات برسات کے باعث کبھی کمرے میں نلکے کے پاس دونوں چار پائیاں صاف ستھرا بستر لنگر کا متبرک اور پھر قادیان دارالامان کہاں تک لکھتا جاؤں اس کی وضاحت اور نقشہ تو الفاظ میں پیش کرنا میرے بس کی بات نہیں میری تعلیم بھی واجبی اور قوی بھی کمزور.خدا رحیم و بزرگ و برتر نے اپنی خاص مشیت سے میرے جسم کو محبت ، الفت، رحم شفقت، کے نمیرے سے گوندھا ہے.اس سے جو بھی رونکلتی ہے.وہ خود محبت سے گزر کر دوسرے عناصر پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی جہاں خدا نے مجھے یہ لا زوال دولت تا زیست بخش کر احسان فرمایا.وہاں صبر سکون اور قوت تو کل سے بھی خوب نہال کیا اور حقیقت تو یہ ہے کہ محض بطفیل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت 82

Page 84

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ، صبر ) احمد، کسی عمل و علم کی بناء پر نہیں محض اپنی صفت کریمانہ سے کیا کچھ نہ دیا.عید مسجد اقصیٰ میں ہوئی.سارا ہفتہ ضروری وقار عمل کرتا رہا.پکوڑے بنائے، گلاب جامن پر بچے بہت یاد آئے بچوں کا تقاضا بے چین کرتا رہا.آپ کی والدہ کو دہی میں بوندیاں ڈال کر بہت پسندیدہ تھیں دن بھر رُلاتی رہیں.جذبات لا انتہا، رات مشاعرہ ہوا.عصر کے بعد کھیلیں.غم غلط کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں.مگر عید کیا ہو؟ دیکھو میرے بچو سلسلہ اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے.اس وقت سلسلہ سے عشق و محبت یہ تقاضا کرتا ہے کہ مرنے سے پہلے مرجاؤ کسی چیز سے محبت نہ کرو.صرف الہی سلسلہ سے.کسی شخص کو ترجیح نہ دو بس خدا کے ہو جاؤ مختصر یہ کہ عید حضور نے نہ پڑھائی اپنے نظر نہ آئے غم ہی غم تھا اس کا ضبط کرنا ایک اور پہاڑ غم.الحمد للہ دار الامان نصیب تھا.“ شام زندگی اوائل اپریل 1979ء میں قادیان سے خالہ زاد بہن مکرمہ ناصرہ بیگم کا خط آیا جس سے ابا جان کی شدید علالت کا علم ہوا.آیا لطیف اولین کوشش کر کے قادیان پہنچیں.ابا جان بہت کمزور ہو چکے تھے ان کو دیکھ بھال کی ضرورت تھی جبکہ پاکستان سے وہاں جا کر زیادہ دن ٹھہر انہیں جا سکتا تھا.ایک دن جب حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ابا جان سے ملنے تشریف لائے تو آپانے اُن سے آپ کو علاج کے لیے پاکستان لے جانے کی اجازت لے لی.ابا جان قادیان چھوڑ نا نہیں چاہتے تھے.جس مقدس 83

Page 85

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ، صبر بستی میں زندگی گزاری تھی اس کی خاک انہیں مرغوب تھی.لیکن جتوفیق الہی قادیان پہنچانے کے وعدہ سے آپ مان گئے انہی دنوں ابا جان کے دانت میں تکلیف ہوئی جس کے علاج کے لیے امرتسر جانا پڑا مگر یہ تکلیف مالا يطاق تھی.حالت مزید خراب ہو گئی بھائی جان عبد المجید نیاز صاحب چھوٹا بھائی عبد السلام باجی رشید اور پھوپھی جان حلیمہ قادیان پہنچے.ابا جان کی خدمت کی توفیق ملی.حضرت میاں وسیم احمد صاحب بھی مسلسل خیال رکھ رہے تھے.بھائی جان کو ایک خط میں تحریر فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کا قادیان آنا، یہاں کے شعائر اللہ کی زیارت اور وہاں دعائیں کرنا خدا تعالیٰ آپ کو مبارک کرے.اسی طرح آپ کے لئے یہ امر بھی موجب سعادت ہے خدا تعالیٰ اسے قبول فرمائے کہ آپ نے کچھ عرصہ قادیان میں قیام کر کے اپنے بزرگ والد محترم، ہمارے درویش بھائی محترم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت کی خدمت کی توفیق پائی اور اس کی دعائیں لیں.اللہ تعالیٰ ان کی دعا ئیں آپ کے حق میں پوری فرمائے.آپ کی بڑی ہمشیرہ اس معاملہ میں آپ سب پر سبقت لے گئی ہیں خدا کرے آپ کے دوسرے بھائی بہن بھی اپنے والد محترم کی خدمت کی توفیق پائیں.ہمارا سلام سب کو پہنچا ئیں.خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے فضل سے آپ سب کو احمدیت کا سچا خادم اور وفادار بندہ بننے کی توفیق دے.کمزوری بڑھ جانے کی وجہ سے ابا جان کو امرتسر کے ہسپتال میں داخل کیا گیا بھائی مرز ا وسیم احمد 84

Page 86

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر جان مجید اور سلام ساتھ تھے پھوپھی جان حلیمہ صاحبہ بھی امرتسر آئیں.ابا جان ان سے مل کر بہت خوش ہوئے بھائی جان باسط برائے تبلیغ اسلام زیمبیا روانہ ہونے والے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے خصوصی اجازت حاصل کر کے مختصر وقت کے لیے ابا جان سے ملنے آئے.حسب توفیق سب نے خدمت کی.خاص طور پر بھائی جان مجید نے ابا جان کی بہت خدمت کی.سب کو صحت کی اطلاع بھی دیتے رہے.پھر ابا جان کا ویزا لگ گیا اور دونوں بھائی بہت خیال اور محنت سے ابا جان کو حیدرآباد پاکستان لے آئے.ابا جان پہلی دفعہ حیدر آباد آئے تھے اور اپنے بیٹے کا ہنستا بستا گھر دیکھا تھا اسلام اور اس کی بیوی مبارکہ اور بچوں نے خوب خدمت کی پھر آپ پہلی دفعہ ہمارے پاس کراچی آئے کمزور تھے مگر فارغ نہ رہتے.بچوں کو دلچسپ کہانیاں سناتے.صبح کچن کی کھڑکی سے دھوپ آتی تو میں وہاں ابا جان کے لیے کرسی رکھ دیتی.آپ دھوپ میں بیٹھ جاتے میں کام میں لگ جاتی.ساتھ ساتھ ہم باتیں کرتے ایک دن فرش پر پانی گرا ہوا دیکھ کر فرمایا بیٹی دیکھنا فرش پہ پانی ہے گر نہ جانا.میں اس وقت پانچ بچوں کی ماں تھی ایک دم لگا پاؤں پاؤں چلنے والی چھوٹی سی بچی ہوگئی ہوں اس کے بعد زندگی میں ہر پرخطر موقع پر باپ کی شفقت سے لبریز یہ جملہ بہت رلاتا ہے.دسمبر میں ربوہ آئے راحت منزل میں امی جان والے کمرہ میں قیام تھا ابا جان کہتے تھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور تمہاری امی کی روح مجھے یہاں لے آتی ہے.اسی کمرے میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آپ سے ملنے تشریف لائے اور محبت 85

Page 87

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر بھرے انداز میں ایک درویش قادیان کو پیار کیا.جلسے کے مہمانوں سے مل کر خوش ہوئے.بھائی جان مجید کی بیٹی عزیزہ راشدہ کی شادی میں شمولیت کی.زمانے کے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے ملنے کے غیر معمولی سامان ہوئے.نہ جانے آپ نے کس درد سے دعائیں کی ہوں گی جو اس طرح پوری ہو ئیں.ابا جان کی عام صحت تو ٹھیک تھی مگر کمزوری بہت بڑھ گئی تھی چچا جان صالح محمد صاحب اور چاجان عبداللہ صاحب بھی دیکھنے آئے.بھائی بہنوں کے سب موجود بچوں نے خدمت کی اور دعائیں لیں.بھابی منصورہ صاحبہ کو بھی خدمت کا موقع ملا.6 فروری کی رات سب ابا جان کے قریب بیٹھے تھے کہ چراغ زندگی کی کو مدھم پڑنے لگی دھیمی آواز میں بات کر رہے تھے پھر آہستہ آہستہ سانس ہلکا ہونے لگا اور پھر یہ ڈوری بھی ٹوٹ گئی.دارالامان سے ہمارے گرد دعاؤں کے حصار بنائے رکھنے والا وجود ہمارے ابا جی ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے اور اُس خالق حقیقی سے جاملے جو سب سے پیارا بُلانے والا ہے.انا للہ و انا اليه راجعون.حضرت خلیفتہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے حاضر جنازہ پڑھایا.آخری خواہش، کہ قادیان میں دفن ہونا ہے، غیر معمولی رنگ میں پوری ہوئی.آپا لطیف اور سب عزیز جنازہ لے کر لاہور پہنچے پھوپھی زاد بھائی مکرم فاروق احمد صاحب نے بہت تعاون کیا ہم نے لاہور جا کر آخری دیدار کیا دارالذکر میں نماز جنازہ پڑھائی گئی جسد خاکی کو لے کر بارڈر کر اس کرنے سے پہلے کئی مشکل مراحل سے گزرنا تھا جو بخیر وخوبی انجام پائے.86

Page 88

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ) بارڈر پر قادیان سے احباب جنازہ لینے کے لیے آئے ہوئے تھے.12 فروری کو حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے اپنے اس درویش بھائی کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ دارلامان کی مقدس مٹی میں حضرت اقدس مسیح موعود کے قدموں میں آسودہ خاک ہو گئے.آپ کا وصیت نمبر 3061 تھا.آپ 1/3 کے موصی تھے.قطعہ نمبر الف میں مدفون ہیں.تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و مسا جوار مرقد شاہ زماں میں رہتے ہو اخبار بدر میں اعلان م فسوس ! مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت درویش وفات پاگئے.قادیان تبلیغ (فروری...آج ہی لاہور سے بذریعہ ٹیلی گرام یہ انتہائی افسوسناک اطلاع موصول ہوئی کہ مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت در ویش عرصہ قریباً آٹھ نو ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد کل 7/2/80 بروز جمعرات بعمر تقریباً 76 سال وفات پا کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اناللہ وانا الیہ راجعون.لاہور سے مرحوم کا جنازہ 11-2-80 کو براستہ واہگہ بارڈر قادیان لایا جا رہا ہے.مکرم عبدالرحیم دیانت مرحوم حضرت اقدس مسیح موعود کے رفیق محترم حضرت میاں فضل محمد صاحب متوطن ہر سیاں ضلع گورداسپور بعدہ مہاجر قادیان کے فرزند تھے ملکی تقسیم سے بہت عرصہ قبل مکرم بھائی جی مرحوم نے قادیان میں مٹھائی ،سوڈا واٹر ، اور برف وغیرہ 87

Page 89

شادی.آپس کا حسنِ سلوک - جُدائی ،صبر کی دکان کھولی اور پھر اپنی انتھک محنت ،لگن اور تندہی کے باعث اس چھوٹے پیمانے کے کاروبار سے انہوں نے قادیان میں ایک معقول جائیداد بنائی جو تقسیم ملک کے بعد قادیان میں بحیثیت درویش قیام رکھنے کے باوجود محکمہ کسٹوڈین نے اپنے قبضہ میں لے لی اور ہر ممکن قانونی چارہ جوئی کے باوجود واگزار نہیں کی.آپ نے اس نقصان کو نہایت صبر و تحمل اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور حسب معمول اپنی ذمہ داریوں اور عہد درویشی کو انتہائی صدق وصفا اور اخلاص کے ساتھ نبھاتے رہے.مرحوم نہایت درجہ نیک متقی ، پابند صوم وصلوٰۃ عبادت گزار اور دعا گو بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری خوبیوں کے بھی مالک تھے.طبیعت نہایت درجہ سادگی پسند اور نرم خو واقع ہوئی تھی.ہر فن مولا ہوتے ہوئے بھی محنت و مشقت سے کبھی عار محسوس نہ کی حضرت اقدس مسیح پاک سے متعلق بہت سی ایمان افروز روایات جو انہوں نے اپنے والد محترم اور سلسلہ کے دوسرے بزرگان کی زبانی سن رکھی تھیں اپنے حلقہ احباب میں بڑے دلچسپ اور روح پرور انداز میں بیان کرتے بیشتر مذہبی اور متنازعہ مسائل پر عبور رکھنے کے باعث طبیعت میں تبلیغی جذ بہ وشوق بھی کارفرما تھا جس کی بنا پر بار ہا تحریک وقف عارضی کے تحت دور دراز علاقوں کے تبلیغی سفر بھی اختیار کئے اور زمانہ درویشی میں عرصہ قریباً آٹھ نو ماہ تک لوکل انجمن احمد یہ میں بطور سیکریٹری تبلیغ و تربیت خدمات بھی بجالاتے رہے.قریباً 8-9ماہ قبل بیماری کا شدید حملہ ہونے پر بغرض علاج اسپتال امرتسر میں داخل کیا گیا جہاں تشخیص سے معلوم ہوا کہ ملٹی پل میلوما ہو چکا ہے.کافی عرصہ امرتسر میں علاج 88

Page 90

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر ہوتا رہا.ازاں بعد ان کے عزیزان انہیں بغرض علاج و خدمت گزاری اپنے ہمراہ پاکستان لے گئے جہاں ہر ممکن علاج اور خبر گیری کی جاتی رہی مگر افسوس کہ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی بالآخر تقدیر الہی غالب آئی اور مرحوم بھائی جی ہمیشہ کے لئے اس دار فانی کو چھوڑ کر دار قرار میں جامکین ہوئے.مرحوم نے اپنے پیچھے نہایت ہونہار، تعلیم یافتہ اور سلسلہ کے ساتھ اخلاص و محبت رکھنے والی جو اولاد بطور یادگار چھوڑی ہے ان میں مرحوم کے تین فرزند مکرم عبدالمجید صاحب، مکرم مولوی عبد الباسط صاحب مربی سلسلہ اور مکرم عبد السلام صاحب نیز مرحوم کی پانچ بیٹیاں، محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ ایڈیٹر ماہنامہ مصباح محترمہ امۃ الرشید صاحبہ، محترمہ امتہ الحمید صاحبہ محترمہ امتہ الباری صاحبہ اور محترمہ امۃ الشکور صاحبہ شامل ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے جذبہ اخلاص اور قربانیوں کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے انہیں اپنے قرب خاص میں بلند درجات سے نوازے اور تمام پسماندگان کو اس گہرے صدمے کو پورے صبر وقتل کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.“ (ایڈیٹر بدر ) وہ پھول جومرجھاگئے محترم بدرالدین عامل صاحب اپنی کتاب ”وہ پھول جو مرجھا گئے“ حصہ دوئم میں لکھتے ہیں کہ: 1942ء میں پہلی دفعہ وہ میاں عبدالرحیم صاحب کے ساتھ تبلیغی ٹرپ پر 89

Page 91

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر گورداسپور کے پاس ایک گاؤس میں گئے تھے اور ان کی پر لطف گفتگو سے اس قدر محفوظ ہوئے تھے کہ اگلے سال بھی آپ کی معیت میں یوم تبلیغ منا نے گھوڑے واہ گئے...آپ بڑے طباع اور ذہین تھے.دکان کے سامنے دلچسپ اور جاذب نظر بورڈ لکھ کر آویزاں رکھا کرتے اپنی بنائی ہوئی مٹھائیوں کی تعریف میں بورڈ لکھتے جس میں آپ کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا.اس جدت طرازی سے کام اچھا چل نکلا.تلاش و جستجو آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا.کئی کام کئے اور ہر کام کو کرتے ہوئے ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں مد نظر رہا.بظاہر معمولی کئی اہم کام کئے مگر ان کی تہہ میں جا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ روپیہ اُن پر عاشق تھا.اس قدر معمولی کاموں سے تقسیم ملک کے وقت وہ کم و بیش دولاکھ روپے کی جائیداد کے مالک تھے.“ 90 (صفحه 100 تا 102 )

Page 92

شادی.آپس کا حُسنِ سلوک - جُدائی ،صبر در ولیش قادیان محترم ولد حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے ) 91

Page 93

Page 93