Language: UR
حضرت میر ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کو برصغیر کے طول وعرض میں ایک غیرمعمولی زندگی گزارنے کا موقع ملا اور آپ کو قوت مشاہدہ و حافظہ کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے واقعات سے سبق اخذ کرنے کا ملکہ بھی خوب تھا، اس کتاب میں آ پ نے اپنی زندگی کے تجربات و حادثات کو قلمبند کیا ہے۔ اس قیمتی کتاب کو سب سے پہلے محترم محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے مرتب کرکے طبع کروایا تھا۔ اس کتاب میں درج یک صد سے زائد واقعات نہایت ہی دلچسپ اور بے حد پرلطف سچے افسانے ہیں جو اُ س زمانے کے عوام و خواص کی روزمرہ زندگیوں ، باہمی تعلقات اور سماجی رجحانات کا فوٹو بھی ہیں۔
آپ بیتی نہ ہو جو ہے وہ کہانی بے لطف گرچہ ہوں لفظ فصیح اور زباں ٹکسالی آپ بیتی نہایت ہی دلچسپ اور بے حد پُر لطف سچے فسانے ڈاکٹر میر محمد اسمعیل
پیش لفظ 12 اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لجنہ اماء اللہ صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں اشاعتِ کتب کا منصوبہ استقامت اور تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی شہرہ آفاق کتاب 'آپ بیتی، اس سلسلہ کی چھیاسی ویں کڑی ہے.فالحمد للہ علی ذالک حضرت میر صاحب کے رشحات قلم کو سمیٹتے ہوئے سعادت کی نئی راہیں کھلتی گئیں مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل کے بعد آپ کا منظوم کلام’ بخار دل بھی خوبصورتی سے طبع کروایا جا چکا ہے.اب 'آپ بیتی جیسی انمول نایاب کتاب زیور طبع سے آراستہ ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری مساعی کو قبول فرمائے اور مثمر بمراتِ حسنہ ہو.آمین ہم اس کتاب کے پہلے ناشر محترم محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کے لئے دعا گو ہیں جن کی مخلصانہ کاوشوں سے کتاب پہلی دفعہ طبع ہوئی.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور درجات بلند فرماتا چلا
3 عرض حال رحمن و رحیم رب العالمین اپنے خاص فضل و احسان سے کسی کو نتیجہ خیز سعی کی توفیق عطا فرماتا ہے انسان تو بے بس ہے.ہم حمد و شکر میں ڈوبے رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير كي تصوير بنے اُس کے فضلوں کی بارش برستے دیکھ رہے ہیں.آپ بیتی شائع کرنے کی سعادت عطا فرمانا بھی اُس کا احسانِ فالحمد للہ علی ذالک عظ ہے.ہے.سلسلہ کے لٹریچر میں یہ منفرد خدانما، سبق آموز من مومنی کتاب جو اپنی نایابی کے باعث گویا ثریا پر جا بیٹھی تھی اب آپ کے ہاتھوں میں ہے.ہم نے کوشش کی ہے کہ اسے ہر ممکن خوبصورتی سے مزین کیا جائے.سہو کتابت کی اصلاح کی الفاظ کھلے کھلے لکھوائے ہیں پہلی مرتبہ انڈیکس ترتیب دیا ہے.پہلے اس میں مزاحیہ نظمیں شامل تھیں مگر اب سب نظمیں 'بخارِ دِل میں یکجا کر دی گئی ہیں اس لئے اس نثری مجموعہ میں نظمیں شامل نہیں ہیں.ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ اغراض و مقاص پورے فرمائے جن کو مدنظر رکھ کر حضرت میر صاحب نے اپنی زندگی کے تجربات 2
و حوادث کو قلمبند کیا تھا.4 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 نمبر شمار 5 پیش لفظ.عرض حال.اندیکس عنوانات آپ بیتی انڈیکس پچاس روپے.سات خون.کایا پلٹ شرک کا ایک نمونہ کفایت شعاری کا کمال - صفحہ 1 3- 5- 11 14 17 18 19 بہن کی عقلمندی دو چور عورتیں آج بیاہ کل ماتم.ملیریا کی تباہ کاری.کرنیل صاحب.بڑا بول.و ہم کا اثر 20 23.25 27 29 30 2222222 20
70.73- 77 82- 84 84 85- 86 87 94 97 97 ∞ % 2 2 2 88 89 92 99 99 222 102- 104- 105 107- 7 35 33.36 35 37 37.38 40 39 41 40 43.41 45.42 48- 43 50.44 51 45 52 46 53- 47 57 48 58- 49 60.50 61 51 64.52 65 53 66.54 68.69.مضطرب کی دُعا کہ آئین جہاں گا ہے چنیں گا ہے چناں باشد.ریلوے چور ہر پیشے میں چالاک آدمی ہوتے ہیں.ایک سیکنڈ میں رخصت ہوا.یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں.اندھوں کی قسمیں - مختلف صحتیں.لینے کے دینے.گدھوں نے گھیر لیا.آه مظلوماں کا اثر.کفن چور ملا نے.غیبی امداد - دودھ گھی کی نہریں.ایک مولانا.حامله مرد عہد کا پکا مجبور - سڑک کے بھتنے.خدا کی ہستی کا ثبوت.سب کے پیر کاٹو.55 ، خانساماں کی درگت عورت کی وفاداری تعلی کا حشر.تھیڑ کا چسکا.واقعی وہ ہوشیار آدمی تھا.نجومی کی ذلت جھوٹا شیخی باز-- اولاد کی خواہش کالی.پیچ اقوام کی ذلت.فقیر کا اندوختہ صدموں سے آدمی پاگل ہو جاتا ہے.جنات کا کرشمہ.پولیس والوں کی انشاء و املا.آپ تو بچے بنیں اور ہم جھوٹ بولیں.کچی اصلاح.آچھیں.پلاؤ میں دانت.دواؤں کا مرتبان بوتل پر لیبل.14 15 16 17 18 19 20 21 23 22222 24 25 26 27 28 2222 29 30 31 33 33 32 بخار چڑھانے کی ترکیبیں.34 بہت چالا کی بھی نقصان دہ ہوتی
9 136- 137- 138- 140- 140-- 141- 143- 144 145-------- 146- 148- 152- 153- 154.155-- 157--- 158- 159- 161.162-- 165---- شفاخانہ اور تہوار.بھائی کی محبت.عورت دُنیا کی زندگی ہے.گھٹائی.نظر کا دھوکہ.ذراسی لا پرواہی کا نتیجہ حکمتیں اور پراپیگنڈہ.احمقانه راز داری - ذرا سا فرق موت کا فرشتہ تقیے کی شکل میں.جیل خانہ.خدائی فیصلہ ضدی 8 77 109--- 78 110- 79 113-- 80 114 81 115- 82 116- 83 117-- 84 118-- 85 119-- 86 120- ∞∞∞∞ 87 121 88 122--- 89 125- 126-- 2232 91 128- 92 129--- 93 130 94 131- 95 133-- 96 134-- 135- 90 حکیم صاحب کی حکمت امیروں کے نخرے.ملتانی منگواؤں عادت کا اثر صحت پر.آواز کا کھیل.دکانداری كوكين.97.بیویوں کے نوکر 63 64 65 66 2 2 2 2 3 56 57 58 59 60 61 62 مولوی کے کرتوت.مردہ زندہ ہو گیا.غیب دان پیر تندرستی اسے کہتے ہیں گھی سے زُکام.را بڑی.چنا.عجیب فیملی ہسٹیریا ہر ملکے وہر رہے.لاہور کا بچہ بلوچی رسوم 67 ملامتی صوفی 68 بچکی.73 74 75 76 23 69 70 71 72 سراغرساں مجرم کبھی یوں بھی ہوتا ہے.ہٹا کٹا بیمار - جھوٹ کی نحوست.ڈاؤن ایکسپریس زبان کے اختلاف کا فساد.دیہات کے ان پڑھ.پہلے کرتے ہیں پھر بھرتے ہیں.
11 (1) پچاس روپے 167 168-- 169-- 171 173- " 175- 180- 182-- 185- 187--- 188--- 189 191- 193- 194--- ایک دفعہ رات کے بارہ بجے گرمی کے موسم میں مجھے ایک شخص ایک مریضہ کو دیکھنے کے لئے بلانے آیا میں اپنے مکان سے جو سرکاری شفا خانہ میں تھا اُس کے ساتھ گیا.شہر میں جا کر دیکھا کہ مریضہ ایک نوجوان لڑکی تھی.جسے وضع حمل کی تکلیف تین دن سے ہو رہی تھی.میں نے تفصیلی معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ پہلا بچہ ہے اور پورے دن ہوچکے ہیں.تین دن سے درد ہے اور اب حالت نا قابل برداشت ہے.دائیاں سب جواب دے چکی ہیں.وجہ بچہ نہ ہونے کی یہ تھی کہ پیڑو کی ہڈیاں تنگ تھیں اور راستہ بچہ کے سائز سے بہت چھوٹا تھا.مگر بچہ ابھی تک پیٹ میں زندہ تھا اور ماں کی حالت بھی زیادہ خراب نہ تھی.میں نے کہا کہ بچہ سوائے آپریشن یعنی پیٹ چاک کئے بغیر نہیں نکل سکتا.وہ لوگ برہمن تھے کہنے لگئے ہم صلاح کر لیں.اور آپ فیس کیا لیں گے؟ میں نے کہا پچاس روپیہ آج کل ایسے آپریشن کے لئے لوگ دو تین سو سے کم نہیں لیتے مگر مجھے یہ خیال تھا کہ زیادہ فیس مانگنے سے یہ لوگ علاج نہیں کرائیں گے.اور ممکن ہے کہ صاحب وسعت بھی نہ ہوں.مریضہ کا سسر: تو آپ زچہ بچہ دونوں کے بچ جانے کی اُمید رکھتے ہیں؟ میں:- زچہ کی تو بہت اُمید ہے مگر بچہ کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا.اس کی جان بہر حال خطرہ میں ہے.وہ پھر ہم اپنی برادری سے صلاح کر کے آپ کو اطلاع دیں 196-- 198--- 204 212- 10 ہیجڑوں کی کرامت پگڑیوں پر ڈاکہ سانگلہ ہل ہردوار 98 99 100 101 102 سرکس میں سرکس.103 کیمیاگر 104 قابل رحم دولہا.105 افیونی.106 107 دعوئی اور چیز ہے اور حقیقت اور چیز 108 بیویوں میں عجیب اور نرالا انصاف.109 قتل کے بعض عجیب وجوہات 110 مسمریزم.111 کوڑی کا چکر 112 آزاد لڑکیاں.113 مچھلی کا کانٹا گلانا 114 آپریشن - دوخون.115 116 دق کا کیڑا
13 12 گے آپ تشریف لے جائیں.9966 اور ایک گھنٹہ کے بعد واپس آکر کہنے لگا کہ شہر کی سب دائیوں کے پاس پھر میں اپنی فیس جیب میں ڈال کر چلا آیا.رات تھوڑی سی باقی تھی اس آیا ہوں کوئی اس پاپ کی حامی نہیں بھرتی کہ پیٹ چاک کر کے بچہ باہر نکالے وجہ سے انتظار میں جاگتے ہی گزری کہ وہ لوگ اب آتے ہوں گے، اب آتے اور پھر پیٹ کو سی دے.ہاں وہ جو ایک مسلمان دائی پہلے ہسپتال میں کام کیا ہونگے ، مگر نہ آئے صبح کو میں شفاخانہ کے کام میں مصروف ہو گیا.دو پہر ہو گئی کرتی تھی اُس نے کہا ہے کہ میں یہ کام کردوں گی.لیکن لیکن لیکن..تو اُن کا پھر بھی کوئی پتہ نہ تھا.آخر شام کو خبر لگی کہ برادری نے کثرت رائے پچاس روپیہ دینے ہوں گئے.یہ سُن کر ساری برادری سناٹے میں آگئی اور سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ”پچاس روپیہ بہت بڑی فیس ہے ہم نے ایسی گراں رقم ہے رام ہے رام ” ہے رام کا غلغلہ بلند ہوا.بطور فیس کے کسی ڈاکٹر کو لیتے نہیں سنی.بعض نے کہا کہ ”موت زندگی تقدیر ایک اب کیا ہوگا.اس سے تو پچاس روپیہ ڈاکٹر ہی کو دے دیے ہوتے.کے ہاتھوں ہے.ایک صاحب بولے کہ ”سب کرموں کا پھل ہے جو کچھ ہوگا اب دو جانیں گئیں اور پھر بھی اتنا ہی ڈنڈ باقی ہے.ہے پر میشر ! دیکھا جائے گا.بچہ جو ہمارا تخم ہے وہی اگر خطرہ میں ہے اور نہ بیچ سکے تو بہو دوسرا: بھئی دیر ہوتی ہے.اونے پونے کسی طرح اُسے راضی کرو کب کے بچنے کا جو غیر کی لڑکی ہے ہمیں کیا فائدہ ہو گا.غرض بہت کا میں کائیں تک مُردے کو گھر میں رکھ کر پاپ کماتے رہو گے.ہو کر معاملہ ملتوی ہو گیا.مگر قدرت تو اپنا عمل پورا کر کے چھوڑتی ہے رفتہ رفتہ سب یک زبان ہو کر : ہاں بھائیو! اب تو کچھ بھی ہو.اس پاپ مریضہ کمزور اور بدحواس ہوتی گئی.آخر دن کو دس بجے اُس نے پران چھوڑ سے چھوٹنا ضروری ہے.جا بھئی منی رام تو جا اور دیکھ وہ دائی کچھ کم کر دے دیئے.اب تو موت ہو گئی تھی بقایا برادری بلکہ سارا شہر جمع ہو گیا اور مُردہ تو لے آ.جلانے کے لئے ارتھی تیار ہونے لگی کہ اتنے میں ایک پنڈت بولا.ایک پنڈت جی بولے: ارے یار کم کرنے یا نہ کرے تو اُسے لیتا ہی پنڈت جی بھائیو! یہ چھوکری بھرشٹ ہے.ہم اسے جلا نہیں آئیو.گرمی کا موسم ہے.اب جلدی بندوبست کرنا چاہیے.سکتے.جب تک اس کے پیٹ کے اندر بچہ ہے.بچہ نکلے گا تو شاستروں کی رُو سے یہ مسان میں جلنے کے قابل ہوگی.دوسرا برہمن:.ہاں جی ہاں پنڈت جی نے بالکل سچ فرمایا.شاستر ارتھ یہی ہے.اس پر سب پنڈتوں نے اتفاق رائے سے گھر والوں کو مجبور کیا کہ آخرمنی رام جی گئے تو دائی نے رقم کم کرنے سے بالکل انکار کر دیا مجبور ہو کر کہنے لگے.چل بھاگوان چل جو تو مانگے گی ہم دیں گے.وائی پنڈت جی مہربانی کر کے پینکی پچاس روپیہ یہاں رکھ دیں تو حاضر ہوں ورنہ کہیں اور سے بندوبست کر لیں.پنڈت جی پھر بڑ بڑاتے ہوئے گھر آئے.سب واقعہ سُنا کر پچاس کسی دائی کو بلا کر بچہ ماں سے علیحدہ کیا جائے.مجبوراً مرنے والی کا سر اُٹھا روپے لے کر دائی کے ہاں پہنچے اور اس کی فیس ادا کی اس کے بعد دائی صاحبہ تشریف لائیں.ایک چاقو جیب سے نکال کر اور رومال ناک پر رکھ کر پیٹ اور
15 14 " 3966 بچہ دانی میں اتنا بڑا شگاف دیا کہ بچہ اُس میں سے نکل سکے.یہ عمل کر کے بچہ کو ہاں.ایک دن چھوٹی کو جو دودھ پالسی کی ضرورت ہوئی تو بڑی کے ہاں مانگنے ماں سے علیحدہ کیا.پھر چند ٹانکے لگا کر شکم کوسی دیا.باہر ہری ہر ہری ہر“ گئی.کیونکہ اس مہینہ میں بڑی بیوی کے پاس بھینس کی باری تھی.بڑی نے کا وظیفہ اونچی آوازوں سے ہو رہا تھا.دائی نے نوٹس دیا کہ ”تمہارا کام ہو گیا کچھ بے اعتنائی دکھائی جس سے چھوٹی پر غصہ کا جن سوار ہو گیا.بس پھر کیا تھا ہے اب میں جا رہی ہوں یہ کہہ کر وہ تو رخصت ہوئی اور مرنے والی اور بچہ کی آتے ہی ایک سکیم تیار کی اور جب بڑی کے تینوں بچے اس کے بچوں سے کھیلنے اتھی تیار ہو کر شمشان بھومی پہنچی اور وہی پچاس روپیہ جس سے غالباً ایک اور دو پہر کے وقت اُس کے گھر آئے تو کہنے لگی چلو آج سب کو جنگل میں جھٹر بیری شاید دو جانیں بھی بچ سکتی تھیں بے موقعہ اور برادری کے خوف سے خرچ ہوا اور کے بیر کھلانے لے چلوں یہ کہہ کر اپنے دونوں اور دوسری کے تینوں بچوں کو ہمراہ لیا اور گاؤں سے باہر چل پڑی سب بچے ہنسی ہنسی بھاگے چلے جا رہے نتیجہ نکلا.صفر - تک قلق اور صدمہ رہا.اور ابھی چند ماہ نہ گزرے تھے کہ چند ہزار مزید خرچ کر کے اس گھر تھے کہ گاؤں سے میل بھر پرے ایک کنوئیں پر پہنچے.وہاں جا کر وہ کہنے لگی کہ میں پھر ایک بہو نظر آنے لگی.مگر اُن پچاس روپوں کا ساری برادری کو مدتوں آؤ ہم سب ناچیں اور گائیں.یہ کہہ کر اپنے ساتھ سب کو کنوئیں کی منڈیر پر چڑھایا اور اپنے ہمراہ جو ایک بڑی چادر لائی تھی اُس میں خود اپنے تئیں باندھا.پھر دائیں طرف چادر کے پلو سے سوکن کے تین بچوں کو اور بائیں طرف کے پلو سے اپنے دونوں بچوں کو باندھ دیا اور کہنے لگی آؤ کو دیں اور (2) سات خون ایک روز ایک پولیس کانسٹیبل تھانہ سے رپورٹ لایا اور کہنے لگا کہ اُچھلیں.اور آپ بھی کود نے اُچھلنے لگی.بچے یہی کوئی 3، 4، 5 سال کی عمر کے پانچ لاشیں پوسٹ مارٹم کے لئے آئی ہیں.میں اُن کو سرکاری نعش خانہ میں تھے وہ بھی کو دنے لگے کہ اتنے میں وہ یکدم دھڑام سے کود کر کنویں کے اندر جا رکھوا آیا ہوں.میں نے پوچھا.”کیا کہیں لڑائی ہوئی؟ کہنے لگا ”نہیں خود کشی پڑی اور اُس کے ساتھ بندھے ہوئے سب بچے اندر پہنچ گئے.وہ گنواں گو کا معاملہ ہے.میں نے کہا اتنے آدمیوں کی اکٹھی خودکشی" کہنے لگا کہ معطل اور غیر مستعمل تھا مگر اُس میں پانی بہت زیادہ اور گہرا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ آپ پولیس کی رپورٹ پڑھ لیں.اس میں سارا ذکر ہے".بچے سارے تڑپ تڑپ کر ڈوب گئے مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ اس عورت کے میں نے رپورٹ پڑھنی شروع کی تو معلوم ہوا کہ ایک گاؤں میں جو گھگرے میں اندر کودتے ہوئے ہوا بھر گئی اور وہ گجری کی طرح پانی کے اوپر قریب ہی تھا ایک زمیندار شخص کی دو بیبیاں تھیں.چونکہ آئے دن اُن میں دنگا گویا کھڑی رہی.ہوا نے اُسے ڈوبنے نہ دیا کمر تک وہ پانی میں تھی اور باقی فساد رہتا تھا اس لئے اُس نے کچھ مدت سے اُن کو الگ الگ مکان میں رکھ دیا حصہ اوپر.کچھ دیر کے بعد اُس نے جو بے تحاشا چیچنیں مارنی شروع کیں تو تھا.بڑی کے تین بچے تھے اور چھوٹی کے دو.اور وہ شخص اتنا منصف مزاج تھا اتفاقاً کچھ مسافر جو پاس کے ایک راستہ پر سے گزر رہے تھے.چینیں سُن کر کہ ایک مہینہ بھینس کو بڑی بیوی کے ہاں رکھتا تھا اور ایک مہینہ دوسری کے کنوئیں پر آئے تو دیکھا کہ ایک عورت پانی پر بیٹھی ہے.وہ اپنی گڑیاں باندھ
17 16 کر اُسے نکالنے لگے تو بوجھ کے مارے نکال نہ سکے.آخر ایک نے گاؤں جا کر ہوا.خس کم جہاں پاک جیل کی جمعدارن جب ان عورتوں کے کپڑے لینے اطلاع کی وہ لوگ رہتے اور آدمیوں کو ساتھ لائے.تب بمشکل ایک عورت اور قفل کھول کر اندر کھسی تو اور ہی تماشا نظر آیا.مگر ملزمہ مر چکی تھی.اس کی لاش پانچ اُس کے ساتھ بندھے ہوئے بچے باہر نکالے گئے.ان بچوں کی لاشوں کے ایک ماہ بعد پھر میرے پاس ہی پوسٹ مارٹم کے لئے وہ سب تو مر چکے تھے مگر عورت بالکل چنگی بھلی تھی.اتنے میں اُس کا آئی.اور جب اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو رحم کے اندر سے ایک چار پانچ ماہ خاوند اور سوکن بھی خبر پا کر دوڑے ہوئے آئے.اُن کا رونا پیٹنا نا قابل بیان کے قریب کا بچہ اور نکلا اس طرح سات خون پورے ہو کر یہ ڈراما تکمیل کو پہنچا.تھا.گویا اولاد پر جھاڑو پھر گئی تھی.خیر پولیس کو اطلاع ہوئی اور اب اُن بچوں میرے لئے صرف ایک بات اس واقعہ میں قابلِ تعجب تھی.وہ یہ کہ کی لاشیں سرکاری لاش خانہ میں تھیں.جو شخص ایک دفعہ خود کشی کا اقدام کر لیتا ہے اور بچ جاتا ہے وہ پھر دوسری دفعہ میں پوسٹ مارٹم کے لئے وہاں پہنچا.عورت تو ضلع کے جیل میں تھی خود کشی نہیں کیا کرتا.یہاں یہ قاعدہ ٹوٹ گیا.غالباً اس عورت نے دیکھا کہ میں نے اُس وقت اُسے نہیں دیکھا.لیکن ان پانچ مُردہ بچوں کی قطار سنگدل میرا اب دُنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں رہا نہ کوئی ہمدرد.اور یوں بھی پھانسی ہی ملنی سے سنگدل انسان کے دل کو ہلا دینے کے لئے کافی تھی.خیر ملاحظہ ہوا اور نتیجہ ہے.تو چلو اپنے آپ کو خود ہی یہ سزا دے لو.یا یہ وجہ ہوگی کہ پہلی خودکشی کی یہی نکلا کہ سب کی موت غرقابی سے ہوئی ہے.عورت پر اقدام خودکشی اور قتل اصلی تمنی اُس نے چکھی نہ تھی یعنی کوئی غوطہ لگا نہ تھا.بلکہ صحیح سلامت یونہی نکل عمد دونوں جرائم کے مقدمے چلے.وہ اس وقت جیل میں بند تھی اور ساتھ ہی آئی تھی.دو اور ملزم عورتیں بھی بند تھیں.مقدمہ کی پیشیاں ہو رہی تھیں اور عدالت میں لوگ خونی آنکھوں سے اُسے دیکھتے تھے.خاوند نے اس کے لئے کوئی وکیل کھڑا نہیں کیا.خود عورت ہر بات کی اقبالی تھی اور بار بار عدالت سے مخاطب ہو کر 1911 ء میں جب امرتسر سول ہاسپٹل میں متعین تھا تو ایک عورت کو یہی کہتی تھی کہ ” مجھے پھانسی چڑھا دو.” مجھے پھانسی چڑھا دو.ایک دن یہ اس کے وارث یا شاید پولیس والے میرے پاس اس کی ضربات ملاحظہ کرانے اتفاق ہوا کہ دوسری دونوں عورتیں اپنے جرم سے بُری ہو کر جیل خانہ سے رہا ہو کے لئے لائے.کسی ناواجب جھگڑے میں اس عورت کے بعض سسرال والوں گئیں.صرف وہی اکیلی زنانہ وارڈ کے اندر رہ گئی.جو عورتیں چلی گئی تھیں اُن نے اس کو خوب پیٹا تھا.میلے اور خون کے بھرے ہوئے کپڑے جن کی بدبو کے سرکاری کپڑے ابھی وہیں اُسی کمرے میں پڑے تھے.اُس عورت نے اُن سے دماغ پھٹا جاتا تھا.منہ سارا سُوج کر گیا اور نیلا ہو رہا تھا.آنکھوں کے کی دونوں چادروں کو تیسری اپنی چادر کے ساتھ ملا کر اور گانٹھ کر ایک لمبا رتہ پپوٹے بوجہ ورم کے کھل نہ سکتے تھے.سر کے بال خون سے جسے ہوئے تھے.بنا لیا.پھر کسی طرح اونچی ہو کر روشندان کی سیخ سے اُس رستے کا ایک سرا باندھ ہونٹ متورم اور منہ سے رال ٹپک رہی تھی.غرض یہ کیفیت تھی جب میں نے دیا اور دوسرے سرے سے لٹک کر پھانسی لے لی.اس طرح اس کا قصہ تمام اس کی مکروہ شکل کا تفصیلی معائنہ کیا اور سرٹیفیکیٹ دے کر کہہ دیا کہ مرہم پٹی " (3) کایا پلٹ
19 18 کے لئے اسے داخل شفا خانہ کر دیا جائے.جب میں روزانہ شفا خانہ جایا کرتا علاقہ میں ایک مقبرہ رندانِ پیر کا ہے جو بہت بزرگ اور اہل اللہ سمجھے جاتے تو اس کے منہ پر پٹیاں بندھی پاتا تھا.آخر دس بارہ روز کے بعد اس کا بھائی ہیں.اس علاقہ کے رہنے والے اکثر بلوچ قوم کے تھے اور وہاں خدا کی طرح میرے پاس آیا کہ اب لڑکی اچھی ہے اسے گھر جانے کی اجازت دی جائے.رندان پیر کی بھی پرستش ہوتی تھی.خدا کی قسم جھوٹی کھانا معمولی بات تھی.مگر میں نے کہا اچھا میں پٹیاں گھلوا کر ایک نظر خود بھی اُسے دیکھ لوں.یہ کہہ کر رندان پیر کی قسم کھا کر جھوٹ بولنا تباہی کے مترادف تھا.اور مقامی عدالت میں میں نے اُسی آدمی کے ہاتھ ڈریسر کو مع مریضہ کے اپنے سامنے بلوا لیا.ڈریسر یا رندان کی قسم لی جاتی تھی یا وہاں کے نواب کے سر کی.ایسی قسم کے بعد پھر نے بھی کہا کہ ”اب زخم کوئی نہیں رہا.ورم سب اتر چکا ہے.پٹی کی کوئی کوئی گواہ جھوٹ نہیں بول سکتا تھا.ایک دن میرے شفا خانہ میں ایک مریض آیا حاجت نہیں رہی.خیر پٹی اُترنی شروع ہوئی.جب ساری اُتر گئی تو ڈریسر باتوں باتوں میں میں نے اُس سے پوچھا کہ ”تمہارے کتنے بیٹے ہیں؟ اس نے کہا کہ آپ دیکھ لیں اب یہ جا سکتی ہے یا نہیں؟ میں نے سر اُٹھا کر جو سوال پر وہ کچھ خاموش سا ہو گیا پھر چشم پر آب ہو کر کہنے لگا کہ ” رندان پیر نے اُس کے چہرہ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جیسے اندھیری رات میں چاند نکل آیا ہے.دو بیٹے دیے تھے رب نے کھسن لئے.یعنی رندان نے تو دو بیٹے دیے تھے مگر گورا رنگ کتابی چہرہ، رسیلی آنکھیں برف کی طرح سفید دانت ، ازحد خوبصورت خدا نے چھین لئے.یہ شرک کا ایک نمونہ تھا جو وہاں دیکھنے میں آیا.ناک، غرض چہرہ تھا یا حسن کی کان.میں جھجک کر رہ گیا اور بے ساختہ میری ,, (5) کفایت شعاری کا کمال زبان سے نکلا کہ یہ کس کو لے آئے ہو؟ ڈریسر سمجھ گیا اور اُس عورت کا بھائی میرے ایک مہربان دوست تھے جو قریباً قریباً میرے کلاس فیلو تھے.بھی، بھائی کہنے لگا کہ اسی کمبخت صورت نے تو اس کو پٹوایا اور مروایا تھا.اور یہ وہ بی.اے کے پرائیویٹ امتحان کے لئے لاہور تشریف لائے اور میرے رقابت کا تو نتیجہ ہی تھا کہ اس بدنصیب کو ہسپتال میں رہنے کی ذلت دیکھنی پڑی مکان پر ہی قیام فرمایا.مگر تھے نہایت جزرس اور کفایت شعار ایک دن میں تھی.آپ نے اس کو اُس وقت پٹی ہوئی حالت میں ملاحظہ کیا تھا آج یہ اچھی کالج سے گھر آیا تو دیکھا کہ جلیبیاں کھا رہے ہیں اور جلیبیاں بھی دو آنہ کی ہو کر اپنے پورے جو بن کے ساتھ کھڑی ہے.صاحب! کچھ تعجب نہ کیجئے.اکھٹی.حیران ہو کر میں نے پوچھا " کہ حضرت! یہ فضول خرچی کیسی؟ فرمانے ہمارے لئے تو اس کا حُسن ہی ایک قہر الہی بن گیا ہے.مگر میری نظر میں، دس لگے ”میں رات کو سوتا رہا، مطالعہ نہ ہو سکا، اس پر میں نے چاہا کہ اپنے نفس دن پہلے کی مکروہ شکل اور اس دن کی چمک، دمک، قلب ماہیت یا کایا پلٹ کا کے لئے کوئی سزا تجویز کروں پہلے تو خیال آیا کہ خدا کے نام پر دو آنے دے دوں.مگر دل نے کہا کہ خیرات سے تو تیرے نفس کو خوشی ہوگی کیونکہ نیک کام ہے.اس لئے زیادہ مناسب یہ معلوم ہوا کہ خود ہی دوآنہ کی جلیبیاں کھا لوں، ایک نمونہ تھی.ا (4) شرک کا ایک نمونہ میں ضلع ڈیرہ غازی خاں کے ایک مقام روجھان میں مقیم تھا.اس تا کہ نفس کو سخت اذیت اور دُکھ پہنچے اور آئندہ سستی نہ کرے.سُبحان اللہ ! دنیا
21 20 میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کو خود اپنا مٹھائی کھانا کفایت شعاری کی وجہ میں سو رہے تھے کہ رامو نے اپنے گھر سے اُن کے چھتر پر آہستہ آہستہ آ کر ہل سے سزا اور دُکھ معلوم ہوتا ہے.(6) تلخ تجربه جاتے.کئی حیادار ڈاکٹر اس طرح نقصان اُٹھاتے رہتے ہیں مگر دینے والے ٹھگوں کے نیک اعمال ڈاکٹروں کے اعمال ناموں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں.میرے خیال میں تو اس قسم کے سودے میں کوئی نقصان نہیں ہے.(7) بہن کی عقلمندی کا لوہا جسے پھل یا کھالی کہتے ہیں.سیدھا اس طرح مضروب کے اُوپر گرا دیا کہ وہ اُس کے پیٹ کے اندر گھس گیا مضروب نے غل مچایا.رامو کود کر واپس اپنے گھر میں اتر گیا.گاؤں میں ایک ڈاکٹر رہتا تھا اُس نے آکر وہ پھالی پیٹ آج کل تو چاروں طرف نوٹ ہی نوٹ چلتے ہیں.مگر میری ملازمت کے اندر سے کھینچ کر نکالی.پھر دو تین ٹانکے لگا کر پیٹ کوسی دیا اور پولیس کو کے زمانہ میں چاندی کے روپوں کی افراط تھی.لیکن ساری عمر یہی تلخ تجربہ رہا اطلاع دے دی.کیونکہ پیٹ کے ایسے زخم اکثر مہلک ہوا کرتے ہیں.خیر کہ جب لوگ گھر پر بلاتے تو اُن میں سے بہت سے اپنے گھر کے کھوٹے مضروب ہمارے شفاء خانہ میں آ گیا.جہاں وہ ایک دو ماہ زیر علاج رہا مگر روپے کھروں کے ساتھ ملا کر بطور فیس جیب میں ڈال دیا کرتے.یہ بات جاں بر نہ ہو سکا.اس کے سارے پیٹ میں پیپ بھر گئی اور دو دفعہ تو سیر سیر بھر ہمارے وقار کے خلاف تھی کہ اُسی وقت وہ روپے نکال کر اور بجا کر دیکھے نکالی گئی.جب وہ مر گیا تو پولیس نے رامو پر قتل کا مقدمہ چلایا.اس پر مضروب کی بیوی ریشم نے برادری کو جمع کیا اور کہا کہ مرنے والا تو مر گیا.اب اگر مقدمہ چلا تو را مو بھی پھانسی پا جائے گا اور ایک کی جگہ دوسگی بہنیں رانڈ ہو جائیں گی.ہم جوان ہیں جب سر پر کوئی محافظ نہ رہے گا تو ہماری بُری طرح مٹی پلید ہو گی.میری یہ تجویز ہے کہ جو گواہ بھی مقدمہ میں شہادت کے لئے بلایا جائے وہ عدالت میں اپنے پہلے بیان سے جو پولیس میں دیا تھا منحرف ہو جائے.نتیجہ یہ ہوگا ہم دونوں بہنوں کا ایک سرپرست اور محافظ تو رہے گا ورنہ ہماری عزتوں کا خدا ہی مالک ہے.برادری نے اس کی اس عقلمندانہ تجویز پر صاد کیا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شہادت تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے رامو بیچ کر چلا آیا.اور دونوں بہنیں برباد ہونے سے بچ گئیں.کیونکہ ہندوؤں میں شادی بیوگان تو ہوتی ہی نہیں اگر کوئی بیوہ جوان اور خوبصورت رہ جائے تو اس کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے.اس عورت نے اپنی بہن کو بیوہ ہونے سے اور اپنے تئیں بے یار و مددگار ہونے سے لیا.ایسے ہوتے ہیں دیہات کے 1916ء کا ذکر ہے.میں پانی پت میں تھا کہ ایک دن عصر کے وقت پولیس ایک مضروب کو لائی اور حسب ذیل قصہ اُس کے ساتھ لکھا ہوا آیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”مضروب کی بیوی دو بہنیں تھیں بیوی کا نام فرض کرو ریشم تھا اور سالی کا چاندنی.دونوں ایک ہی گاؤں میں بیاہی ہوئی تھیں، بلکہ دیوار بیچ دونوں کے گھر تھے.چاندنی کے میاں کا نام فرض کرو رامو تھا.اُن کے بیاہوں کے کچھ دن بعد سالی بہنوئی یعنی مضروب اور چاندنی میں مذاق ہونے لگا.پھر ناجائز تعلق ہو گیا.رفتہ رفتہ گاؤں میں اس کا چرچا ہوا.پھر تو چاندنی کے خاوند رامو کو بھی غیرت آ گئی گرمی کا موسم تھا مضروب اور اُس کی زوجہ ریشم اپنے صحن پالیٹیکس (Politics).66
23 22 جن قوموں نے ریت یا خون بہا کے مسئلہ کو جائز رکھا ہے اُن کو ایسے گھنٹہ کے اندر اندر وہ سب پیڑے غائب تھے.اب ہم نے دونوں کو دیکھنا موقعوں پر دقت پیش نہیں آتی.مگر افسوس ہے کہ موجودہ قانون میں ایسی کوئی شروع کیا کہ کس پر روغن جمالگوٹہ کا اثر ہوتا ہے.جوئے کرے یا جسے اسہال دفعہ نہیں.(8) دو چور عورتیں جاری ہو جائیں.بس وہی چور ہے.آدھ گھنٹہ کے بعد برآمدہ میں سے دائی کی چینیں سُنائی دیں کہ ہائے میں مری.میرے کلیجہ میں درد ہے.پاس گئے تو اسے پہلے تو اُبکائی آئی.پھر اُس نے سب کھایا پیا نکال دیا.اس کے بعد ہر پانی پت میں میرے ہاں جب پہلی لڑکی (مریم صدیقہ) پیدا ہوئی تو تھوڑے وقفہ کے بعد اسے استفراغ ہوتا رہا میں نے بیوی سے کہا ” یہی چور اُن دنوں انفلوئنزا زوروں پر تھا.لڑکی پیدا ہونے کے بعد اُس کی ماں نہایت ہے.خیر معلوم ہو گیا.اب تم اسے کچھ دہی پلا دو اسے آرام آجائے گا.مگر وہ سخت بیمار ہو گئی.ادھر شہر میں موتا موتی لگ رہی تھی ادھر ہمارے گھر میں سب عورت یہی کہتی رہی کہ میرے کھانے کے ساتھ مکھی نگلی گئی ہے.یہ اُبکائی اسی بیمار پڑے ہوئے تھے.خدا کی قدرت کہ لڑکی ابھی ہفتہ بھر کی تھی اور برلب گور، وجہ سے ہے.دو منٹ کے بعد میں برآمدہ سے نکل کر صحن میں آیا تو کیا دیکھتا کہ ایک لاوارث عورت وضع حمل کے لئے شفا خانہ میں آ گئی.رات کو اُس کے ہوں کہ پاخانہ میں سے کھلائی بڑھیا چیچنیں مار رہی تھی.”ارے کوئی سنبھالو میں ہاں بھی لڑکی پیدا ہوئی.پھر تو ہم نے اسے معقول تنخواہ اور کھانے کپڑے کے مری میری بیوی نے پاخانہ کا دروازہ کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُسے اتنا بڑا وعدہ پر اپنے گھر دوسرے دن ہی بلا لیا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میری لڑکی کی دست آیا کہ بیت الخلاء کا سارا فرش خراب ہو گیا ہے اور اُس کا تمام پاجامہ بھی حالت سنبھلنے لگی اور وہ خدا کے فضل سے پل گئی.ورنہ جب پہلی دفعہ اُسے دائی تر بتر ہے اور اسہال کا سلسلہ ایسا جاری ہے گویا کسی نے نلکا کی ٹونٹی کھول دی کے سامنے لٹایا گیا تھا تو دائی نے پوچھا کہ لڑکی کا کیا نام ہے کسی نے کہا مریم.ہو.بے چاری بڑھیا ایک درجن دستوں میں ہی نڈھال ہو گئی.اُس وقت دھ پلانے والی کہنے لگی.تمہارے بچے اسی طرح سوکھ سوکھ کر مر جاتے لگا کہ کمبخت دونوں برابر کی چور تھیں.خیر شام تک لشٹم پشٹم دونوں اچھی ہو ہوں گے جو مریم نام رکھا ہے.خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا.وہ دائی تو لڑکی کو دودھ گئیں.اور اُن کو بھی ہماری حکمت کا پتہ لگ گیا.اس کے بعد انہوں نے پھر پلاتی تھی مگر ایک اور عورت لڑکی کے کھیلانے پر بھی رکھ لی گئی.یہ دونوں عورتیں کبھی کوئی چیز چرا کر نہیں کھائی اور ایک ہی نصیحت اُن کے لئے کارگر ہو گئی.از حد چور تھیں.گھر میں کوئی چیز کہیں پڑی ہو نظر جھپکنے میں غائب ہو جایا کرتی ور نہ گھر میں کسی خوردنی شے کا کھلا رکھنا محال ہو گیا تھا.تھی.ہم سخت تنگ اور حیران تھے.پتہ نہ لگتا تھا کہ دونوں میں سے کون چور ہے؟ آخر ایک دن ہمارے ہاں کہیں سے کچھ پیڑے آئے.میں نے اُن میں سے چند پیڑے لے کر اُن پر ایک ایک قطرہ جمالگوٹہ کے تیل کا ڈال کر ایک (9) آج بیاه کل ماتم پتہ میاں الہی بخش ایک نوجوان روجھان میں میرے پاس کمپاؤڈر ہوا کرتا رکابی میں رکھ دیے.اور رکابی کارنس پر رکھ دی پھر خود اس کمرہ سے ٹل گیا دو تھا.اس کا اصلی وطن راجن پور تھا.نہایت شریف اور فرمانبردار کار کن تھا ایک
25 24 وو " دن کہنے لگا کہ حضور ایک ہفتہ کی رخصت درکار ہے.میں نے پوچھا کا وقت آگیا.اُس طرح دلہن کو ڈولے میں بٹھا کر ہمارے ہاں بھیج دیا گیا.کیوں؟ کہنے لگا ” میرا بیاہ ہے اور گھر راجن پور جانا ہے.خیر میں نے جب وہ سسرال میں آئی تو نیم بے ہوش تھی.رات بھر میں اُسے پٹیاں کس کس اُسے رخصت دے دی.چار پانچ دن بعد جو میں شفا خانے صبح کے وقت آیا تو کر باندھتا رہا.آدھی رات کو وہ بے ہوش ہوگئی اور صبح اللہ میاں کے ہاں کیا دیکھتا ہوں کہ میاں الہی بخش منہ لٹکائے بیٹھے ہیں اور چہرہ سخت مغموم ہے.سدہاری.میں روتا پیٹتا یہاں چلا آیا.میں نے کہا.”میاں الہی بخش کیا بیاہ کر آئے؟ ابھی تو دو تین دن تمہاری حسن نکھرنے کی جگہ اُسے قبر میں کھینچ کر لے گیا.اور جنسی میں پھنسی رخصت کے باقی ہیں.اتنی جلدی کیوں کر آ گئے؟ یہ کہنے کی دیر تھی کہ بچارہ ہوگئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.میاں الہی بخش بیا ہے بھی گئے اور اسی دن رونے لگا بلکہ شاید کچھ چینیں بھی نکل گئیں.میں نے کہا " کیا معاملہ ہے؟ کیا رنڈوے بھی ہو گئے.بیاہ ملتوی ہو گیا ؟ کہنے لگا ”نہیں سائیں بیاہ تو ہو گیا تھا“." میں نے کہا.”پھر کیا؟ رو کر کہنے لگا.وہ مر بھی گئی، میں تو حیران رہ گیا.میں نے پوچھا ” کیوں کر کہنے لگا ”سارا قصہ سُناؤں گا تو آپ سمجھیں گئے، پھر اُس نے سنایا.(10) ملیریا کی تباہ کاری کرنال کے ضلع میں غالباً سب اضلاع سے زیادہ ملیریا ہوتا ہے.کیونکہ پانی کی فراوانی ہے.اور ہر گاؤں میں اتنے اتنے بڑے جو ہر ہیں کہ ان آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں دلہنوں کو مائیوں بٹھانے کی کی وجہ سے ملیریا نہ صرف وہائی رنگ میں پھوٹتا رہتا ہے بلکہ بہت سے دیہات رسم ہے یہ رسم سارے ہندوستان میں رائج ہے مگر ڈیرہ غازی خاں کے ضلع میں میں تو مستقل رہائش اختیار کر لیتا ہے.رفتہ رفتہ ایسے گاؤں کی آبادی جس میں اس کے ساتھ ایک اور مصیبت بھی ہے.ہمارے ہاں کے لوگ سیاہ فام زیادہ ملیریا کی اس قدر زیادتی ہو کم ہو جاتی ہے.مرد اکثر مرجاتے اور عورتیں بیوہ رہ ہوتے ہیں اس لئے ایک مہینہ دلہن کو مائیوں بٹھا کر پھر عین رُخصت والے دن جاتی ہیں.اور جو ذکور باقی رہ جاتے ہیں وہ زندہ درگور، پیلا رنگ ، آنکھیں اس کی فصد کھولی جاتی ہے.اور فصد بھی نائی یا جراح نہیں لیتا بلکہ خاص عورتیں یرقان زدہ، پیٹ ایسا کہ تلی بڑھ جانے سے گویا نو ماہ کا حمل ہے.کام کاج کھیتی جو اس کام کی کاریگر ہیں وہی فصد لیتی ہیں اور اتنا خون نکال دیتی ہیں کہ دلہن باڑی کی طاقت نہیں.اور سب سے بڑی بات یہ کہ اولاد ہونی بند ہو جاتی ہے.کا رنگ سیاہی سے زردی کی طرف آ جائے تاکہ وہ نازک اور گوری معلوم اسی طرح کا ایک گاؤں کرنال کے ضلع میں بھی تھا.ایک دن سُننے میں آیا کہ ہونے لگے.چنانچہ بد بخت فصد لینے والی نے جب میری دُلہن کی فصد لی تو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا ڈیرہ وہاں ایک دو دن میں آنے والا ہے.(غالباً وہ نشتر گہرا اندر چلا گیا اور ورید کٹ کر اُس کے نیچے جو بڑی شریان تھی وہ بھی زخمی لطیفی صاحب تھے ) خیمے تنبو لگ گئے مگر گاؤں سے میل بھر پرے.ڈپٹی کمشنر ہو گئی.پھر کیا تھا خون اُبلنے لگا.کئی دفعہ پٹی باندھی مگر پٹی کے اندر سے بھی نکلتا صاحب آئے اور حکم دیا کہ صبح اس گاؤں کے نمبر دار وغیرہ ہم سے ملنے آئیں.رہا.غرض پٹی پر پٹی خون سے بھرتی تھی اور اُتار کر بدلی جاتی تھی.آخر رخصتانہ وقت دیا تھا دس گیارہ بجے کا مگر ! ابھی آٹھ بھی نہیں بجے تھے کہ باہر شور وغل
27 26 ہونے لگا.صاحب گھبرا کر خیمہ سے باہر نکل آئے.کیا دیکھتے ہیں کہ چپڑاسیوں اس گاؤں میں صرف رانڈ عورتیں ہی رہ جائیں گی مرد ایک نہیں رہے گا.اور گاؤں کے بعض لوگوں میں تو تو میں میں ہو رہی ہے اور باقی اہل دیہہ جو بہتیرا ضلع کی کچہریوں میں رو پیٹ آئے مگر آج حضور نے اپنی آنکھوں پچاس ساٹھ کے قریب تھے ایک لائن باندھ کر فوجی طرز پر کھڑے ہیں.ہماری حالت دیکھ لی.اب یا ہم کو نیا گاؤں کسی اور ضلع میں بسانے دیں یا صاحب بولے.”کیا معاملہ ہے؟ چپڑاسی بولے."حضور! یہ زبردستی وقت سب کو گولی مار دیں.سے پہلے حضور کے سلام کو آگئے ہیں.اور بہت بیہودگیاں کر رہے ہیں.جب ڈپٹی کمشنر نے اُن سے وعدہ کیا کہ ”میں گورنمنٹ میں کوشش کروں گا صاحب ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ کہنے لگے کہ ”صاحب! بندوق کہ تمہاری یہ درخواست منظور ہو جائے.اب گھروں کو جاؤ“ پھر مجھے معلوم نہیں لے کر کل تو شکار کرتا پھرا ہے.پہلے ہمیں مار دے.ہمارا شکار کیوں نہیں کرتا.کہ اس قضیہ کا کیا حشر ہوا.ہم تو آپ مرنے کے لئے آئے ہیں.گولی مارگولی.اس زندگی سے تو مر جانا اچھا“.صاحب گھبرا سے گئے.پوچھنے لگے ” آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ ایک دو جو آگے کھڑے تھے وہ صاحب کو گاؤں والوں کی اُس لائن کے پاس لے (11) کرنیل صاحب میں میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا.غالبا1905ء کی بات ہے کہ گئے.ان کے وہاں پہنچتے ہی ساری لین والوں نے کرتے اُٹھا کر اپنے پیٹ ہم کئی طلبہ اکٹھے ایک جگہ جمع ہو کر رہنے لگے.ایک اُن میں سے ”کرنیل ننگے کر دیئے.صاحب حیران رہ گئے.تو ان کا نمائندہ بولا ”اب تو دیکھ لیا.صاحب کے نام سے مشہور تھے.ایک دفعہ اُن کو کھانا ٹھیک نہ ملنے کی شکایت دیکھ تو بڑا صاحب ہے.اس گاؤں میں کل یہ پچاس مرد ہیں جو تیرے سامنے پیدا ہوئی تو انہوں نے شام کو کھانا کھانا ہی ہمارے میس (MESS) سے چھوڑ کھڑے ہیں.اور دوسوعورت گاؤں کے اندر رانڈ بیٹھی ہے.یعنی بیوہ دیا کچھ دن کے بعد کسی نے اُن سے پوچھا ”کرنیل صاحب! آج کل شام کا صاحب نے پوچھا: ”اور بچے؟“ بڑھا جاٹ بولا کہ ”سات سال کھانا کہاں کھاتے ہو؟ کہنے لگے تمہیں کیا؟ لڑکے بھی آخر لڑ کے ہوتے سے اس گاؤں میں کسی کے ہاں بچہ نہیں ہوا.اب تو ہی دیکھ لے ان مردوں ہیں.پتہ لگا ہی لیا کہ یہ ذات شریف روز شام کے قریب کسی اعلی انگریزی کے پیٹ میں دو دو بچے ہیں.یہ تلیاں ہیں تلیاں.منہ ان کے جیسے ہوٹل میں چلے جاتے تھے اور وہاں دریافت کرتے کہ ”چائے کا کیا لو گے؟“ برسات کا زرد مینڈک ہیں نا یہ گولی مارنے کے لائق؟ بندوق نکال لا اور ان کو جیسا کہ رواج ہے خانساماں کہہ دیتے تھے کہ ایک روپیہ آپ فرماتے تھے.مار دے“.یہ سُن کر وہ سب چلا اٹھے ”گولی مار دے گولی مار دے گولی مار لے آؤ اور کونے کی ایک میز پر بیٹھ جاتے تھے اُن دنوں رواج تھا کہ انگریز ہی اکثر ہوٹلوں میں چائے پیتے تھے ہندوستانی بہت ہی کم ہر چیز چائے کے 66 ڈپٹی کمشنر یہ حالت دیکھ کر سخت متاثر ہوا.کہا.کیا مانگتے ہو؟“ وہ ساتھ آتی تھی اور بڑی عزت اور قرینہ کے ساتھ آتی تھی.یعنی چائے دانی کہنے لگے.اگر ہم کو سرکار کسی اور ضلع میں زمین نہ دے گی تو ایک دو سال میں بھری ہوئی.دودھ دانی مصری دان لبالب مکھن دانی جس میں پوری ٹکیہ مکھن کی
29 28 ہوتی تھی کچھ بسکٹ کچھ ٹوسٹ کچھ کیک دو انڈے جام کی بوتل وغیرہ وغیرہ.کر بجھ گیا دو تین دفعہ اُس نے پھر جلانے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی.آخر یز لوگ تو ایک دو پیالی، برائے نام دودھ، اور ذرا سی شکر ڈال کر ایک دو ادھر اُدھر کے لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ بوتل تو کرنیل صاحب نے مع ٹوسٹ یا ایک بسکٹ کے ساتھ ناشتہ کر لیا کرتے تھے باقی سب چیزیں قیف کے اپنے لئے رات کے وقت پیشاب کرنے کو رکھی ہوئی تھی.اور بجائے خانساماں لوگ واپس لے جاتے تھے.اور پینے والے ایک روپیہ فی کس اس مٹی کے تیل کے درحقیقت اس میں روغن بول تھا وہ لڑکا بیچارا بڑا خفیف ہوا.چائے کی قیمت ادا کر کے چلے جاتے تھے.کرنیل صاحب نے جب اتنا سامان پھر جو دوسری الماری میں دیکھا تو روزنامہ سول ملٹری گزٹ کی کئی بڑی بڑی دیکھا تو منہ میں پانی بھر آیا اور خیال کیا یہ سب مال تو ایک روپیہ میں مفت پڑیاں بندھی رکھی پائیں.انہیں بڑے شوق سے کھولا گیا تو کچھ نہ پوچھو کیا ہے.خیر ان کے آگے حسب رواج جب چائے آتی تھی.تو پہلے تو وہ سارا نکلا.کرنیل صاحب کا..فضلا ! بنڈل بسکٹوں کا نوش فرماتے.پھر سب ٹوسٹ.پھر ساری مکھن دانی چٹ کر کے انڈے کھا کر چمچے سے سارا جام وغیرہ اُڑا جاتے.اس کے بعد تمام دودھ اور مصرمی ساری چائے میں ملا کر مع کیک کے ہضم کرتے.غرض اُن کے آگے (12) بڑا بول 1907ء میں لاہور میو ہاسپٹل میں ہاؤس سرجن تھا کہ میری بڑی سالی سے جب ٹرے اُٹھتی تو ایک ذرہ بھی کسی چیز کا باقی نہ ہوتا تھا.جب ایک ہوٹل ہمارے ہاں اپنی بہن سے ملنے آئیں شاید مہینہ بھر یا کم و بیش وہ ہمارے ہاں ٹھہریں.وہ نہ صرف میری سالی ہی تھیں بلکہ پھوپھی کی بیٹی بھی تھیں.آئی وہ کے نوکر ان کی یہ حالت دیکھ کر بے اعتنائی کرنے لگتے تو آپ دوسرے ہوٹل میں جا کر وہی عمل وہاں شروع کر دیتے.یہی وجہ تھی کہ انہوں نے گھر پر کھانا اس طرح تھیں کہ اُن کے ہاں ایک لڑکی ہوئی تھی جو کچھ مہینے زندہ رہ کر مرگئی تھی.اُس کے مرنے کے صدمہ کو بھلانے کے لئے وہ اپنی چھوٹی بہن یعنی کھانا ترک کر دیا تھا.آخر تابہ کے لاہور میں ان دنوں چند ہی بڑے ہوٹل تھے.جب سب جگہ اُن کی اس کم خوری“ کا چرچا ہو گیا تو ہوٹل میں گھستے ہی میری بیوی کے پاس آ گئیں.یہاں آکر وہ ایک بات کا بار باز ذکر کیا کرتی خانساماں کہہ دیا کرتے کہ ” صاحب چائے تیار نہیں ہے.اس طرح خدا خدا تھیں.یعنی یہ کہ اگر میرے بہنوئی ڈاکٹر صاحب (یعنی خاکسار) میرے پاس کر کے ان کی وہ ہوٹل گردی بند ہوئی.آخر تعلیمی سیشن ختم ہو گیا اور اُن کے کمرہ ہوتے تو میری لڑکی نہ مرتی.جب انہوں نے کئی دفعہ اس قسم کا ذکر کیا تو مجھے خدا تعالیٰ کے متعلق بڑی غیرت آئی اور میں نے کہا کہ اب اُن کے ہاں ضرور ایک لڑکا پیدا ہو گا اور وہ میرے زیر علاج رہ کر میرے ہی ہاتھوں میں مرے گا“.بات گئی آئی ہوئی.1913ء میں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا.اُس کا چلہ کر کے وہ اپنی بہن سے ملنے کے لئے مع اپنے بچہ کے میں کوئی اور طالب علم آ گیا اور یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ کرنیل صاحب ایک بھری ہوئی مٹی کے تیل کی بوتل الماری میں چھوڑ گئے ہیں.اُن دنوں لاہور میں مال روڈ کے سوا دیگر کوٹھیوں اور مکانوں میں بجلی نہیں تھی.شام ہوئی تو اُس لڑکے نے خود یا نوکر سے اپنا لمپ اُسی تیل سے بھروا لیا.مگر جب جلا کر مطالعہ شروع کیا تو لمپ نے روشن ہونے سے انکار کر دیا اور تھوڑی دیر میں چڑ چڑ ہو ہمارے ہاں تشریف لائیں.
31 30 " تھر ماس بوتلیں اُن دنوں میں نئی نئی نکلی تھیں.اور اُن کو یہ علم نہ تھا کہ طاعون کے بیماروں کو دیکھنے کا نتیجہ یہی ہونا تھا.سر میں درد ہونے لگا.ان بوتلوں میں گرم دودھ پھٹ جایا کرتا ہے.چنانچہ گرم دودھ جو اس چھوٹے طبیعت زیادہ گھبرا گئی.پھر تھرما میٹر جھٹک کر نوکر سے ڈھلوا کر لگایا تو وہی کے لئے انہوں نے تھرماس میں رکھا تھا وہ پھٹ گیا اور سارے سفر میں بچہ 105 بلکہ کچھ نکلتا ہوا.” ہے رام رام.یقیناً یہ پلیگ ہے.بدن کا رواں وہی پھٹا ہوا دودھ وہ اپنے بچہ کو پلاتی ہوئی ہمارے ہاں آئیں.دوسرے دن رواں جلنے لگا آنکھیں گویا سر میں سے باہر نکلی پڑی تھیں.آدھ گھنٹہ میں پھر سے لڑکے کو سبز دست آنے لگے.دس یا پندرہ دن تک میں نے جو بھی ہوسکا تھرما میٹر لگایا تو ذرا سا اور زیادہ ہی نکلا.ہے پر میشر کیا کروں! بیوی بچے اُس بچہ کا علاج کیا اور دوسرے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ لیا مگر بچہ کو نہ اچھا بھی وطن گئے ہوئے ہیں.اپنا یہاں کوئی بھی نہیں ہے.ارے بدھو جا کر ذرا ہونا تھا نہ ہوا اور دو ہفتہ بیمار رہ کر وفات پا گیا.اُن کے ہاں چونکہ اولاد کی کمپاؤڈر کو تو بلا لا.وہ بچارا آیا تو دور ہی سے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ” بھٹی کمی تھی اور بچہ بھی فرزند نرینہ تھا اس لئے ماں کو سخت صدمہ ہوا.اُس وقت نتھو رام! مجھے پلیگ ہو گئی ہے.بخار بہت تیز ہے اور اب تو دائیں ران میں مجھے وہ بات یاد آئی جو میں نے چھ سات سال پہلے لاہور میں کہی تھی کہ اُن گلٹی کے مقام پر درد بھی ہو رہا ہے.سر میں درد سخت بخار اور گلٹی اوپر سے کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا اور وہ میرے ہاتھوں میں مرے گا تاکہ اُن کا شرک شہر میں پلیگ موجود اور کئی روز سے اس بیماری کے مریض بھی دیکھ رہا ہوں.غرض کوئی شبہ نہیں رہا.مہربانی کر کے فوراً میرے گھر میں بذریعہ تار ٹوٹے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.(13) وہم کا اثر اطلاع دے دو کہ ڈاکٹر صاحب کو طاعون ہو گیا ہے اور حالت نازک ہے.اور تم یہ تھرما میٹر تو جھٹک کر اُتار دو.ارے بدھو ذرا یہ تھرما میٹر تو دھو لا.ایک ڈاکٹر صاحب ایک شہر کے سول ہاسپٹل کے انچارج تھے.اور بدھو تھرما میٹر دھو لایا.لگایا تو 106 ہائے باپ رے باپ میں مرا.معلوم ہوتا به سبب ضلع کا صدر ہونے کے وہاں سول سرجن بھی موجود تھا.قضارا پلیگ کا ہے کہ دوسری طرف کی گلٹی بھی نمودار ہونے لگی ہے، ادھر بھی بہت سخت جلن دور دورہ اُس شہر میں شروع ہو گیا.ڈاکٹر صاحب شہر میں جا کر پلیگ کے اور درد ہے.کمپاؤڈر بھی گھبرا گیا اور کہہ گیا کہ ” تار تو ابھی دے دیتا ہوں بیماروں کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے.کیونکہ ایسے بیماروں سے معمول کی نسبت اور سول سرجن صاحب آنے والے ہیں انہیں بھی خبر کر دیتا ہوں“.یہ کہہ کر دُگنی فیس مل جایا کرتی تھی.کچھ مدت کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک دن صبح وہ تو چلا گیا اُدھر ڈاکٹر صاحب کی حالت لحظہ بہ لحظہ خراب ہونے لگی.ہائے اُٹھ کر اپنے نوکر سے کہا کہ ” میری طبیعت کچھ خراب ہے.شاید بخار ہو گیا وائے بے قراری، درد، غرض، گھنٹہ بھر تک گھر کو سر پر اُٹھائے رکھا.ہسپتال ہے.تو ذرا یہ تھرما میٹر دھو کر لے آ.جب نوکر تھرما میٹر دھو کر لایا تو ڈاکٹر کے عملہ کے لوگ برابر آتے جاتے رہے.مگر ڈر کے مارے دُور ہی کھڑے صاحب نے اُسے اپنے منہ میں لگا لیا.دو منٹ کے بعد جو دیکھا تو ٹمپریچر رہتے تھے کہ اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ سول سرجن صاحب تشریف لا ایک سو پانچ ! ڈاکٹر صاحب وہمی بھی تھے، خیال ہوا کہ طاعون ہو گیا.آخر رہے ہیں.چلمن اُٹھی اور وہ اندر آ گئے.آتے ہی کہا.”ویل ڈاکٹر صاحب
33 32 کیا حال ہے؟ ڈاکٹر صاحب بولے.حال کیا ہے پلیگ ہو گئی ہے موت نہیں بچوں گا.“ سر پر کھڑی ہے ایک سو چھ بخار ہے.دونوں طرف ران میں گلٹیاں نمودار ہیں سر پھٹا جاتا ہے عقل کچھ کام نہیں کرتی.ہائے مرا ہائے مرا.سول سرجن صاحب نے چہرہ دیکھا تو کوئی تغیر نہ پایا نبض دیکھی تو تندرستوں جیسی و (14) عورت کی وفاداری روجھان ضلع ڈیرہ غازی خاں کا ذکر ہے کہ ایک دن ایک جوان بدن ٹھنڈا بخار کی کوئی علامت نہیں تھرما میٹر جھٹک کر اتارا پھر نوکر سے دھلوا عورت جس کی گود میں شاید دو سال کی ایک لڑکی تھی شفا خانہ میں آئی.اُس کر منگایا.تو وہی ایک سو چھ (106) یہ کیا؟ ارے بدھو تھرما میٹر کہاں کے گلے میں بڑا سا گھیگہ جسے پنجابی میں گلہڑ اور انگریزی میں (Goitre) دھوتا ہے؟ حضور غسل خانہ میں جو گرم پانی کا بمبا ہے اُس کی ٹونٹی سے کہتے ہیں موجود تھا.ایک مرد بھی اُس کے ساتھ تھا.اُس نے کہا ” یہ عورت بیوہ دھوتا ہوں“.”اچھا ذرا گڑوی میں ٹھنڈا پانی تو لے آ.جب اس پانی سے ہے میں اس کا عزیز ہوں اور یہ اپنے گھیگہ کا آپریشن کرانے آئی ہے.صرف دھو کر اور جھٹک کر لگایا اور دیکھا گیا تو 98 یعنی نارمل بات تیری پلیگ کی بدصورتی کی وجہ سے ورنہ اسے تکلیف کوئی نہیں ہے“.میں نے اُس عورت کو ایسی کی تیسی غسل خانہ میں بمبا جا کر دیکھا تو اس کا پانی سخت گرم تھا.اب شفا خانہ میں داخل کر لیا اور دوسرے یا تیسرے دن اُس کا آپریشن کر کے وہ پتہ لگا کہ یہ بمبے کے گرم پانی سے ہر دفعہ تھرما میٹر چڑھ جایا کرتا تھا.ڈاکٹر گلہڑ نکال دیا.آپریشن نے زیادہ وقت لیا اور خون بھی کافی نکلا.پھر یہ کہ سخت صاحب کا مزاج واقعی کچھ کسل مند تھا مگر بخار طاعون کا بخار نہ تھا.سول سردی کا موسم تھا چنانچہ مریضہ کو چار پانچ روز کے بعد ڈبل نمونیہ ہو گیا اور وہ سرجن صاحب ہنس پڑے.پھر کہا کہ ”گلٹیاں تو ذرا دکھائیے.وہاں دیکھا بھی سخت قسم کا.خیر علاج ہوتا رہا اور وہ خدا کے فضل سے بچ گئی.اور زخم بھی تو کچھ بھی نہ تھا صرف وہم علیہ اللعنہ تھے اور بس.اب سر کا درد بھی جاتا رہا اچھا ہو گیا.مگر تقریباً ایک ماہ اُس کے علاج میں لگ گیا.جب وہ اچھی ہوئی تو اور ڈاکٹر صاحب بھی ہنس کر اُٹھ بیٹھے کہنے لگے میں بھی کتنا بے وقوف ایسی کمزور زرد رنگ اور بے رونق ہو گئی تھی جیسے مہینوں کا بیمار جوان عورت تھی مگر ہوں.اگر آپ تشریف نہ لاتے تو میں تو مر ہی چلا تھا.ارے نتھو رام گھر اب اُس کی خوبصورتی باقی نہ رہی تھی.آواز میں شعف تھا اور سوکھ کر کانٹا بن گئی تھی.مگر خیر تندرست ہو چکی تھی.میں جو ایک دن اُس کے پاس حسب معمول تار دے دے کہ سب خیریت ہے.مگر افسوس کہ دوسرا تار وقت پر نہ پہنچ سکا اور ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ، بچے اور والدہ روتے پیٹتے دوسری صبح اُن کے پاس روزانہ خیریت پوچھنے گیا تو بچاری رونے لگی.میں نے کہا ” کیا ہوا؟ کہنے لگی پہنچ گئے.پھر ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے مل کر خوش ہوئے یا جو آدمی میرے ساتھ آیا تھا وہ کہتا تھا کہ ” آج شام کو میں چلا جاؤں گا“.ان کی بے ہودگی پر لعنت ملامت کرتے رہے.ہاں اتنا ہوا کہ پھر ڈاکٹر میں نے کہا: وہ پھر آکر تجھے لے جائے گا.ابھی تو کمزور بھی ہے صاحب نے کسی طاعون کے مریض کو باوجود ڈبل فیس پیش ہونے کے بھی کچھ دن یہاں ٹھہر جا.کہنے لگی وہ کہتا تھا کہ اب میں تجھے لینے نہیں آؤں نہیں دیکھا.اور کہا کرتے تھے کہ بابا ایک دفعہ تو بچ گیا ہوں مگر اب کے " گا.
35 34 میں نے پوچھا ” کیوں؟ کہنے لگی اصل قصہ یہ ہے کہ جب میں شام سے پہلے اُس عورت کا نکاح ملا نے شفا خانہ میں ہی آ کر پڑھا دیا اور بیوہ ہو گئی تو اس شخص نے مجھ سے عدت کے بعد کہا کہ میں تجھ سے شادی کر دوسرے دن وہ بمعہ اپنی پہلی بچی کے تھم تھم کرتی اور ہمیں دعائیں دیتی اپنے لیتا مگر تیرا گھیگا مجھے بدصورت لگتا ہے.اگر تو روجھان والے ڈاکٹر سے اس کا دولہا کے پیچھے پیچھے گھر کی طرف جا رہی تھی.خدا نے جیسے اُس کے دِن آپریشن کرا لے اور تیری یہ بدصورتی جاتی رہے تو پھر میں ضرور تیرے ساتھ پھیرے ویسے ہی سب کے پھیرے.آمین (15) تعلی کا حشر ایک دفعہ میں ریل کے سفر میں تھا کہ امرتسر کا اسٹیشن آ گیا.اُس درجہ نکاح کرلوں گا میں راضی ہو گئی.پھر آپ نے دیکھ لیا کہ کس طرح میں نے اس کی خاطر تکلیف اُٹھائی.نمونیہ ہوا.مہینہ بھر زندگی اور موت کے درمیان لٹکتی رہی.میرے چہرے کا روپ اور جسم کا گدرا پن سب جاتا رہا.اور جب میں اس کی خوشی کے لئے ہر طرح کی موت قبول کر چکی تو اب وہ کہتا ہے کہ تیری میں کئی شرفا بیٹھے تھے کہ اُن میں سے ایک صاحب خود بخود سب کو مخاطب کر شکل اچھی نہیں رہی.تو بدصورت ہو گئی ہے میں تجھ سے شادی نہیں کروں گا اور کے اپنی مدح سرائی کرنے لگے کہ ”بھائیو! آج کل سفر میں بہت ہوشیار رہنا آج شام کو گاؤں چلا جاؤں گا.میں نے اُسی وقت ادھر اُدھر آدمی بھیج کر اُس چاہیے.اسٹیشنوں کے سودے والے مسافروں کو خوب لوٹتے ہیں اور ہم کو بے وقوف بناتے ہیں اس درجہ میں کسی صاحب کو سودا لینا ہو تو میں کھڑکی کے پاس کو ڈھنڈوا کر بلایا اور اُس کے سامنے سارا قصہ اُس عورت سے دوبارہ کہلوایا اور پوچھا کہ: "کیا یہ سچ کہتی ہے؟ وہ بولا: ”ہاں سچ کہتی ہے.ہیں.ایک واقعہ یہاں ایسا ہوا ہے.آپ کے ذرا سے دباؤ سے وہ و سے وہ بیوقوف ہوں میری معرفت خریدے.ہم میں سے ایک جنٹلمین اس درجہ کے دروازے سے منہ نکالے باہر " میں نے کہا کہ: ”ارے ظالم ایک دو ماہ میں اس پر پھر وہی رنگ و دیکھ رہے تھے کہ انہوں نے پلیٹ فارم پر ایک سودا بیچنے والے کو دونوں میں روپ چڑھ جائے گا.تو گھبرا نہیں.مگر اُسے انکار ہی رہا.آخر میں نے لوکاٹ رکھے ہوئے بیچتے دیکھا.نیا موسمی پھل تھا.فوراً آواز دے کر ایک دونا خریدا اور اندر بیٹھ کر کھانے لگے.ساتھ ہی درجہ والوں کے آگے دونا بڑھا کر روجھان کے تمندار نواب سر بہرام خان کو پیغام بھیجا کہ آپ علاقہ کے رئیس انہوں نے کہا کہ ” صاحبان نیا پھل کھائیے.مسافروں نے کہا ”آپ ہی ہماری بات مان سکتا ہے.اگر ایک دفعہ وہ یہاں سے چلا گیا تو عورت بیچاری کھائیے.ہمارا دل بھی لوکاٹ نئے کرنے کو چاہتا ہے وہ لوکاٹ والا اب کے کی ساری قربانی ضائع ہو جائے گی اور بدنام الگ ہو گی.نواب صاحب نے پھر ادھر سے گزرے گا تو ہم بھی لیں گئے.اتنے میں خود پسند صاحب بولے فوراً اُس شخص کو بلا کر ڈانٹا کہ تو بڑا پاجی ہے تو نے اس عورت کی جان کو خطرہ کہ ” صاحبان آپ نے دیکھا ان کے لوکاٹ کچے اور خراب ہیں.جو دونا چاہا میں ڈالا اور جب اُس نے تیری بات مان لی تو تو عہد شکنی کرتا ہے.جا ابھی دکاندار نے اُن کے حوالے کر دیا آپ صاحبان مجھے کہیے میں انتخاب کر کے ایسے عمدہ لوکاٹ آپ کو کھلاؤں گا کہ آپ بھی کیا یاد کریں گے.میں نے اُس اس سے نکاح کر ورنہ تجھے جیل خانہ میں ڈالتا ہوں.نتیجہ یہ ہوا کہ اُسی دن
37 36 کی چھابڑی میں اچھے اچھے پھل بھی دیکھے ہیں مگر وہ ہمارے ان دوست کو تو سے آٹھ آنہ کی جگہ ہیں آنہ وصول کروں گا.گاڑی کے مسافر ہنس پڑے ایک نے تو کہہ دیا کہ وہ تو آپ کا بھی اُستاد نکلا“.فرمانے لگے ”میں اس خبیث سے وصول کر کے چھوڑوں گا.پیسوں کا فکر نہ کیجئے.لوکاٹ کھائیے.دیکھئے فریب دے کر چلتا ہوا.اب ذرا اسے پھر آ لینے دیں.اس پر چند آدمیوں نے کہا کہ ”ہاں! ضرور آپ ہی ہمیں ایک ایک دونا خرید دیں اور یہ لیس پیسے.چنانچہ کئی طرف سے پیسے اُن کی خدمت میں میں نے کیسا اول درجہ کا پھل لے کر دیا ہے.ان صاحب کے لوکاٹ تو بالکل پیش ہوئے.فرمانے لگے ٹھہر جاؤ! میں سب سے حساب کر کے لے لوں گا.تھرڈ کلاس تھے.تھرڈ کلاس“.فی الحال میں اپنا روپیہ لوکاٹ والے سے بھنا لوں.اولوکاٹ والے! ادھر آ ہم یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا ” صاحبان کو آٹھ رونے آٹھ آنہ کے دے دے.اور دیکھ (ایک لوکاٹ کی طرف اشارہ اپنا اپنا رونا اُٹھا لیجئے.یہ سُن کر اُن کے پاس والے مسافر نے اوپر کا دونا کر کے سب لوکاٹ ایسے عمدہ اور نفیس ہوں اوّل درجہ کے ورنہ تیری رپورٹ کر اُٹھالیا.جب دوسرے نے ہاتھ بڑھایا تو نمبر دو دونے کو جو پہلے کے نیچے تھا بالکل خالی پایا.ہیں یہ کیا بدذاتی" تیسرا بھی خالی سور کا بچہ ! چوتھا بھی خالی کتا! دوں گا“.لوکاٹ والے نے اچھا کہہ کر اُن سے روپیہ لے لیا اور کہنے لگا کہ پانچواں بھی خالی کنجر! چھٹا بھی خالی بہن کی گالی ساتواں بھی خالی ماں کی گالی! ” مجھے روپے کی ریز گاری بھی کسی سے لینی ہے اور لوکاٹ بھی چھانٹ کر اوّل بس صرف اُوپر والا دونا عمدہ لوکاٹوں سے بھرا تھا.گاڑی میں بھر نکل چکی تھی.درجہ کے دینے ہیں.یہاں گاڑی کے پاس تو بھیڑ ہے.ذرا سامنے نلکا کے پورے سات دو نے خالی اور آٹھ آنے کے پیسے الگ ہضم ! پاس بیٹھ کر رونے نئی طرح کے بنا کر لاتا ہوں.اور ریز گاری کا بندوبست بھی کرتا ہوں“.آگے میں بیان نہیں کر سکتا.آپ خود ہی خیال کر لیں کہ کس قدر اُس شخص کی حالت غصہ اور شرم کے مارے ہوئی ہو گی.اور درجہ والوں کا یہ حال غرض سب کی نظر کے سامنے ہی کچھ فاصلہ پر وہ لوکاٹوں کی سارٹ کہ ہنس ہنس کر پسلیاں دُکھنے لگیں.(16) تھیئیٹر کا چسکا میرا لاہور میڈیکل کالج میں آخری سال ڈاکٹری کا تھا میں اور میرا Sort کرنے لگا اور انتظار کرنے لگا کہ کب گارڈ جھنڈی ہلائے.گاڑی چھٹنے ہی کو تھی کہ خریدار صاحب نے پھر چیخنا شروع کیا.یہاں تک کہ گاڑی حرکت میں آگئی.لوکاٹ والا بھی پیچھے بھاگا.اُس کے دونوں ہاتھوں میں آٹھ دونے اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے جو دوڑ کر اُس نے خریدار کے ہاتھ میں پکڑا دیے اور ایک ملازم چراغ نامی چوک متی کے ایک مکان میں رہتے تھے.جاڑے کا موسم چلتا ہوا.اب یہ صاحب چلائے ”ارے او اٹھنی تو دے جا.او بدمعاش میری تھا کہ میرے دو مکرم عزیز اپنے وطن سے لاہور اس نیت سے آئے کہ ایک ہفتہ اٹھنی جلدی لا اٹھنی.مگر دکاندار نے سنی ان سنی کر دی.آخر شرمندگی اور غصہ کی یہاں رہ کر نیوالفرڈ کمپنی کا تھیئیر دیکھیں.یہ کمپنی اُن دنوں بمبئی سے لاہور آ کر آمیزش میں فرمانے لگے کہ حرامزادے جاتا کہاں ہے میں واپسی پر بچہ جی بہت شہرت پارہی تھی.ہفتہ بھر تک وہ دونوں اور میں روز رات کو ٹو بجے سے ،
39 38 ایک بجے تک نئے نئے تماشے دیکھتے رہے.میرا ملازم چراغ بھی ہمارے ہمراہ چراغ "آج بجائے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے چار آنہ والے درجہ ہوتا تھا.اسے بھی ہم تماشا میں لے جاتے تھے تاکہ وقت بے وقت کسی میں ہم دونوں بیٹھ جائیں گئے“.ضرورت پر کام آئے.میں: (سختی سے) ” جا جا کے سو میں ہرگز نہیں جاؤں گا“.بیچارہ پھر جب ہفتہ ختم ہو گیا تو وہ مکرم عزیز واپس گھر کو تشریف لے گئے اُن کا او پر چلا گیا.مگر پانچ منٹ کے بعد پھر کوٹھے پر سے آگیا.مقصد صرف تھیٹر کو بغرض علم دیکھنا تھا.انہیں رخصت کر کے دوسرے دن سے میں بھی اپنی پڑھائی میں مشغول ہو گیا.جب رات ہوئی اور آٹھ بجے تو میاں چراغ اب تو صرف دس منٹ تماشا میں رہ گئے ہیں.میں: ”پھر میں کیا کروں؟ ارے پاگل! میں ہر گز نہیں جاؤں گا جا چراغ دوسری منزل پر سے دھم دھم کرتے اُترے میں لیمپ کے آگے پڑھ رہا اوپر جا کر سورہ.چراغ چلا تو گیا.مگر راستہ میں سے ہی پھر اُتر کر آ گیا اور تھا.فرمانے لگے.چراغ ”میاں آج ہریش چندر کا تماشا ہے.میں: ” ہو گا ہم دونوں تو اُسے دیکھ چکے ہیں.چراغ " آج سنا ہے کہ نئی وردیاں ایکٹروں کی ہوں گی.میں: ” تماشہ تو وہی ہے“.چراغ " آج شاید آخری دفعہ دکھایا جائے گا.بڑے جوش سے کہنے لگا.”میاں! اچھا آپ نہیں جاتے تو نہ جائیں.اب تو بہت ہی تھوڑا وقت تماشا میں رہ گیا ہے مجھے تو ایک چونی دے دیں.میں تو ہو آؤں“.یہ سن کر مجھے اُس پر سخت غصہ آیا اور نفسی بھی مگر میں نے خطگی کے لہجہ میں اُسے کہا کہ فوراً اُوپر چلا جا.اور وہ بیچارہ بھی یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ ”نہ آپ جاتے ہیں نہ مجھے جانے دیتے ہیں“.میں: ”آخری دفعہ ہو یا اول دفعہ اب ہم بہت تماشے دیکھ چکے ہیں نوٹ: جیسے آج کل سینما کے بغیر لوگ رہ نہیں سکتے اُسی طرح اُس جا او پر جا کر سورہ.یہ سُن کر بیچارہ نا امید ہو کر چلا گیا مگر تھوڑی دیر میں بے زمانہ میں تھیٹر ہوا کرتے تھے.مگر چونکہ کبھی کبھی آتے تھے.اس لئے اس قدر قرار ہو کر پھر اُترا.چراغ ”میاں کو یہ اشتہار تماشا کا“.میں: ”اسے لے کر کیا کروں؟ تباہی نہ تھی.مگر اس ظالم کھیل کی چاٹ بڑی سخت ہوتی ہے.جب میں اوّل مرحوم کے اول لاہور تعلیم کے لئے اسکول میں داخل ہوا تو خواجہ کمال الدین صاحب ہاں رہا کرتا تھا.اُن کے والد مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے.اُن :چراغ یہ سب تماشوں میں اچھا تماشا ہے اسے ضرور ایک دفعہ اور دنوں میری عمر چودہ سال کی تھی.ایک دن فرمانے لگے.”برخوردار! لاہور میں تو آپ آئے ہیں مگر میری ایک نصیحت اپنے پلے باندھ لیں.اور جو جی چاہے میں: ”ارے بھئی! ہفتہ بھر تو تماشے دیکھ لئے.بڑا وقت ضائع ہوا کرنا مگر تھیئیٹر نہ دیکھنا ہم کو اس کا تجربہ ہے پہلے تو ہم اپنے پیسے خرچ کرتے رہے.پھر والدہ سے مانگ مانگ کر گزارا کیا.پھر اُن کی نقدی کی سند و قیچیاں دیکھنا چاہیے.ہے.اب پڑھنا چاہیے.ہمارا آخری سال ہے کالج کا“.
41 40 کھولیں.آخر میں گھر کے برتن بیچ بیچ کر تماشے دیکھے.تم اگر اس میں پڑ گئے تو شیخیاں!“.تیسرا بولا ”ا جی کچھ مسافر جو اُترے ہیں تو کوئی ننگے پیروں والا پہن تباہ ہو جاؤ گئے.مجھے پر اُس دن سے ایسی دہشت تھیئیٹر کی بیٹھی کہ آج تک اس کر چلا گیا ہے.غرض جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں.ہوتے ہوتے جب مذاق کا شوق نہیں ہوا.ہاں یوں کبھی کبھار بے شک دیکھا ہے: بہت بڑھ گیا تو وہ شخص سیدھا کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.”بھائیو! پہلے میری عقلمندی (17) واقعی وہ ہوشیار آدمی تھا دیکھ لو، پھر جتنا جی چاہے مذاق اُڑا لینا.یہ کہہ کر اُس نے اوپر کے تختہ سے اپنا ٹرنک آگے کو کھینچ کر اُسے کھولا اور ایک جوڑا نئی جوتی کا فرش پر رکھ کر اور کالج کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ہم دہلی جارہے تھے.ایک ہمیں دکھا کر فوراً پہن لیا.اور کہنے لگا کہ حضرات ہم ہار ماننے والے آدمی صاحب! امرتسر اسٹیشن پر ہمارے انٹر کے درجہ میں آبیٹھے.جس میں اور بھی کئی نہیں ہیں کوئی چور خواہ کتنا ہی زبردست ہو ہم جیسے پولیس والوں کو نیچا نہیں دکھا لوگ سفر کر رہے تھے بیٹھتے ہی تھوڑی دیر میں وہ سب پر چھا گئے اور اپنی تقریر سکتا.یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اُتر کر پانی پینے چلا گیا اور کہتا گیا کہ دیکھ لیا میں بار بار کہتے تھے کہ سفر میں بڑی ہوشیاری اور سمجھ درکار ہے.میں نے اپنی ننگے پیر تو نہیں رہے“.ساری عمر پولیس کی ملازمت میں چوکنے رہ کر کائی ہے اور کبھی چور ہے اور کبھی چور یا بدمعاشوں سے چکر نہیں کھایا.وجہ یہ ہے کہ آنکھیں اور کان کھول کر رکھتا ہوں.اور ہوشیار رہتا ہوں.اور ہر مشتبہ مسافر پر نظر رکھتا ہوں.(18) نجومی کی ذلت 1917ء کا ذکر ہے کہ میں اپنی دوسری شادی کی تقریب پر دہلی کے غرض اسی طرح کی لچھے دار تقریریں کرتے جالندھر چھاؤنی کا اسٹیشن کارونیشن ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا.وہاں میرے کئی بزرگ اور دوست بھی موجود آ گیا.امرتسر سے جالندھر تک تمام راستہ ان کا خودستائی میں گزرا طرح طرح تھے.رات کو معلوم ہوا کہ ہمارے ایک عزیز کے پاس جو نواب کہلاتے تھے دن کی ترکیبیں عقل و فکر کی سنتے سنتے آخر لوگ بھی تنگ آگئے جالندھر چھاؤنی پر کو ایک نجومی اسی ہوٹل میں آیا اور اُن سے ایسی باتیں کر گیا کہ نواب میاں اُن گاڑی کھڑی ہوئی تو کہنے لگے کہ میں ذرا نیچے اتر کر پانی پی آؤں سب کی غیب دانی کے نہایت درجہ قائل ہو گئے.وہ کل پھر آنے کا وعدہ کر گیا ہے.رفیقوں نے کہا کہ ضرور دو چار مسافروں کے اترنے کے بعد انہوں نے بھی میں نے ان نواب صاحب کو کہلا بھیجا کہ کل جب وہ آدمی آئے تو مجھے بھی بلا اپنی جگہ سے پیر اُتارے تو دیکھا کہ جوتا غائب! ”بھئی دیکھنا میرا جوتا ابھی لیجئے گا.خیر دوسرے دن گیارہ بجے کے قریب وہ آیا اور ہم سب لوگ جو تھوڑی دیر ہوئی تو اُتارا تھا.بھئی ذرا اپنے اپنے بنچوں کے نیچے تو دیکھنا“.چوبیس کے قریب تھے ایک کمرے میں جمع ہو گئے.نواب صاحب نے میری غرض ایک غل بچ گیا مگر جوتا نہ ملا سب لوگ بے اختیار ہنسنے لگے.کسی نے کہا طرف اشارہ کر کے اُس نجومی سے کہا کہ یہ صاحب آپ کی غیب دانی کے کہ جیسے آپ نامی سراغرساں ہیں ویسا ہی وہ نامی چور بھی ہو گا جو آپ کا جوتا قائل نہیں ہیں.آپ ان کو اپنا کمال منوا دیں گے تو پھر میں بھی آپ سے کچھ اُتار لے گیا.کسی نے کہا ”یہ آپ کی خودستائی کی سزا ہے اور ماریے ضروری سوالات کروں گا“.
43 42 وہ بڑا چالاک آدمی معلوم ہوتا تھا.کہنے لگا ”جو جی آئے پوچھئے میں اس وقت زندہ موجود ہیں.میں نے کہا: بھائی صاحب اب میری جرح بھی سُن لیجئے.ان تینوں حاضر ہوں.میں نے کہا کہ لوگ آپ سے آئندہ کی خبریں ہی پوچھتے ہیں مگر ہمیں خبر نہیں کہ وہ سچ ہوں گی یا جھوٹ میرے نزدیک آپ کے جواب سب سوالوں کے جواب کو اس مجلس کا ہر فرد ذاتی طور پر جانتا ہے.اس لئے غلط غلط ہوتے ہیں اور آپ کے نزدیک سب صحیح.اس لئے یہ مناسب ہوگا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.بعض گزشتہ باتوں کے متعلق صرف تین سوال آپ سے کروں اگر جواب صحیح ہوا (1) پہلے سوال کا صحیح جواب یہ ہے کہ ” میں وکیل نہیں ڈاکٹر ہوں“.تو ہم گمان کر سکتے ہیں کہ آئندہ کے متعلق بھی آپ کے جواب صحیح ہوں گے.کیوں صاحبان ! ٹھیک ہے یا غلط؟ سب نے کہا ٹھیک ہے." اور میں ایسے موٹے سوال کروں گا جن کے جواب یہ چوہیں دوست جو اس کمرہ (2) دوسرے کا یہ کہ میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ الحمد للہ دونوں میں موجود ہیں سب جانتے ہیں.پس آپ اطمینان رکھیں کہ میں جھوٹ موٹ آپ کے جواب کا انکار اتنے گواہوں کے رُوبرو نہیں کر سکوں گا“.وہ منجم بولا.ہاں یہ اچھا طریقہ امتحان کا ہے.آپ اپنے سوال فرمائیے! میں نے کہا کہ: (1) میرا پہلا سوال یہ ہے کہ میرا پیشہ کیا ہے؟ (2) دوسرا یہ کہ میرے والدین زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ (3) تیرے یہ کہ میری کتنی اولاد اس وقت زندہ موجود ہے؟ زندہ ہیں.اور حضرت والد صاحب تو یہ سامنے تشریف ہی رکھتے ہیں.اس کی بھی سب نے تصدیق کی." اب غیب داں صاحب کا یہ حال ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں.چپکے سے اُٹھ کر سلام کر کے چل دیئے.نواب صاحب کہنے لگے.یہ خبیث کچھ دل لگتی باتیں سنا کر کل مجھ سے کچھ رویے لوگ کر لے گیا تھا.اگر آپ آج یہاں نہ ہوتے تو شاید کوئی بڑی رقم مار لیتا.کیونکہ مجھے اس پر بڑا حُسنِ ظن ہو اس پر اُس شخص نے میری ہتھیلیاں دیکھیں بعض باتوں کے جواب گیا تھا.مگر اس وقت ایک سوال کا جواب بھی نہ دے سکا اور برا جھوٹ کا پتلا پوچھے.سُن اور تاریخ پیدائش دریافت کی.اور خدا جانے کیا کیا دیکھا اور پوچھا نکلا کم بخت! بے ایمان ! پھر اپنا حساب اور اندازہ لگا کر ایک فاتحانہ انداز میں کہنے لگا.” لیجئے سنیئے : (1) پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ وکیل ہیں: (19) جھوٹا شیخی باز کالج کی تعلیم کے زمانہ میں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ریل میں سفر (2) دوسرے کا یہ کہ آپ کے والدین فوت ہوچکے ہیں.(اس پر سب حاضرین نے قہقہہ لگایا.میرے والد بزرگوار بھی اسی مجلس میں موجود کر رہا تھا.گاڑی میں ایک صاحب سفید پوش پیر مرد کوئی بچپن یا ساٹھ سال عمر تھے.فرمانے لگے: ” او خبیث ! میں اور اس کی والدہ ہم دونوں زندہ کے، معقول صورت آکر بیٹھ گئے اور آتے ہی کہنے لگے.”صاحبان میں فلاں محکمہ کا انسپکٹر پنشنرز ہوں.بڑی دُنیا دیکھی.بڑا تجربہ حاصل کیا.بُرا بھلا سارا ہیں.) (3) تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے دولڑ کے اور تین لڑکیاں زمانہ دیکھا سرد گرم چشیدہ ہو کر پنشن لی.اب یادِ خدا کرتا ہوں اور دن رات
45 44 مخلوق کی خیر خواہی کے سوا اور کوئی کام نہیں ہمارے تجربہ میں دیانت اور خانه نزدیک اور ریل چلنے کو تیار غرض وہ اور اُن کا سامان دونوں چڑھ گئے مگر اُنہوں نے بھی قلی کو ایک پیسہ نہ دیا.اور یہی کہتے رہے کہ "بابو کے حکم سے تم ایمانداری سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں آئی.غرض تھوڑی دیر میں انہوں نے مسافروں پر اپنا سکہ جما لیا.اتفاق اسباب لائے ہو ان سے پوچھو.میں غریب بچارہ تم کو کیوں کر پیسے دوں“.ایسا ہوا کہ ڈاک گاڑی ایک گھنٹہ کے بعد کسی ٹکٹ چیکنگ اسٹیشن پر ٹھہری اور غرض قلی بھی روتا پیٹتا چلا گیا.اور ہمارے درجہ والوں نے پھر جو اُن چیکر بلائے بے درماں کی طرح ہمارے خانہ میں آ گھسا.سب کے ٹکٹ کی نقلیں کرنی شروع کیں.تو کئی اسٹیشن تک اُنہی کا ذکر خیر جاری رہا.(20) اولاد کی خواہش دیکھے، انٹر کلاس کے تھے.اُن صاحب کو جو دیکھا تو تھرڈ کا.ہمراہی سب حیران ہو کر ہنسنے لگے کہ ابھی تو اپنی ساری عمر کا تجربہ، دیانت اور ایمانداری کو بتا رہے تھے اور اب سارے خانہ میں یہی بددیانت اور بے ایمان ثابت ہو رہے ہیں.واہ ری دُنیا! اور واہ رے اس کے جُھوٹ !! جهاندیده بسیار گوید دروغ سرسہ ضلع حصار کا 1915ء کا ذکر ہے کہ ایک دن ایک معزز گھرانے کی دو خاتو نیں بہت بُری طرح پٹی ہوئی میرے ملاحظہ اور علاج کے لئے لائی گئیں.کئی ہڈیاں اُن کی شکستہ تھیں اور ایک کے سر پر تو لاٹھیوں کے پانچ چھ ٹکٹ کلکٹر نے اُن سے پوچھا کہ ”آپ کا ٹکٹ تو تھرڈ کا ہے اور بڑے بڑے زخم بھی تھے اور دونوں کے بدن ڈنڈے کی مار سے نیلے ہو رہے بیٹھے ہیں انٹر میں؟ فرمانے لگے.” بھائی! ہم ان پڑھ انگریزی سے ناواقف تھے.خیر میں نے ان کو دیکھا.پولیس کو رپورٹ بھیجی ڈریسنگ وغیرہ کیا اور دیہاتی لوگ بھلا کیا جانیں کہ انٹر کیا بلا ہوتا ہے.اور تھرڈ کیا.میں تو سمجھا نہیں، بہت دنوں تک جب تک وہ اچھی نہ ہوئیں اُن کا علاج کرتا رہا.اب سارا آپ ہی سمجھا دیجئے.اس پر اور قہقہہ پڑا.پھر کہنے لگے.”میں نے ٹکٹ واقعہ اُن کی مصیبت کا مختصر طور پر لکھتا ہوں.کے پیسے کسی اپنے عزیز کو دیے تھے وہ یہاں بٹھا گیا ہے.میں کیا جانوں مجھے یہ دونوں عورتیں برہمن اور آپس میں نند بھاوج تھیں.نند بیوہ تھی کہاں بیٹھنا چاہئے.ٹکٹ بابو کو کچھ شرم آ گئی.اُس نے کہا کہ اس گاڑی فرض کرو اُس کا نام شانتی تھا.اور بھاوج سہاگن تھی مگر بے اولاد فرض کرو اس سے اُتر و اور دوسرے خانہ میں جا کر بیٹھو.فرمانے لگے.”تو پھر آپ کو مجھے کا نام لاجونتی تھا.شہر میں ایک رئیس کا بیٹا ایک سال کی عمر کا اتفاقاً فوت ہو جہاں بٹھانا ہے بٹھا دیجئے میں تو کچھ جانتا نہیں.بابو اُن کو ہاتھ پکڑ کر لے گیا.اُس دن دیوالی تھی.ہندوؤں میں بڑی عمر کے لوگ مرنے پر جلائے چلا.تو کہنے لگے.اور میرا اسباب؟‘ غرض بیچارے بابو نے قلی کو بلا کر اُس جاتے ہیں مگر بچے اور سادھو دفن کئے جاتے ہیں.پر اُن کا اسباب لا دا اور کہا کہ ”جا ان کو تھرڈ کے خانہ میں بٹھا دے.کہنے لگے چنانچہ اُس لڑکے کو بھی شہر سے ایک میل کے فاصلہ پر ہندوؤں کی ”بابو جی مجھے غریب کے پاس تو قلمی کو دینے کے لئے پیسے بھی نہیں ہیں.سرکار شمشان بھومی میں دفن کر دیا گیا.ساتھ ہی کسی نے اُس رئیس سے یہ بھی کہلایا ہی مجھے چڑھائے گی.تو کام بنے گا“.اُن کا اسباب قلی کے سر پر تھا.تھرڈ کا کہ لالہ جی آج ہندوؤں کا بڑا تہوار ہے ایسے موقعے جادو ٹونے وغیرہ کے
47 46 لئے موزوں ہوتے ہیں آپ احتیاطاً بچے کی قبر پر دو مضبوط آدمیوں کا پہرہ بٹھا گئے اور لٹھ لئے دبے پاؤں پیچھے سے ان عورتوں کے سر پر پہنچ گئے.دیں.تا کہ کوئی اس کی نعش کو خراب نہ کر سکے.چنانچہ لالہ جی نے گھر جا کر دو ہمراہی عورت نے جو فاصلہ پر بیٹھی تھی اُن کو مع ان کی لاٹھیوں کے مسلمانوں کو اس کام کے لئے بھیج دیا کہ رات بھر مرگھٹ میں پہرہ دیں.اُس دیکھ لیا اور سرپٹ شہر کو بھاگی اُدھر ان پہرہ داروں نے یک دم دونوں عورتوں دن آندھی اور تاریکی بھی بہت تھی.وہ پہرے دار قبر سے کسی قدر فاصلہ پر بیٹھ کے سر پر اپنے ڈنڈے برسانے شروع کر دیے اور مار مار کر بھرکس نکال دیا.گئے اور موٹی موٹی لاٹھیاں اپنے پاس رکھ لیں.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ کسی بڑھیا حتی کہ وہ بے ہوش ہو گئیں.پھر یہ خیال کر کے کہ کہیں کسی مقدمہ میں نہ عورت نے نند بھاوج سے جا کر کہا کہ ”آج تہوار کا دن ہے اور ایک لڑکا پکڑے جائیں وہاں سے بھاگ گئے.ان عورتوں کی رفیقہ نے جو قبرستان فلانے لالہ کا مرکز یہاں کے مرگھٹ میں دفن کیا گیا ہے.اگر لاجونتی اولاد بھاگی تھی اور انہیں مار کھاتے بھی دیکھ لیا تھا.سیدھا شہر میں آکر دم لیا اور گھر چاہتی ہے تو آج موقع ہے تم دونوں مرگھٹ میں جا کر اور قبر اکھیڑ کر اُس بچہ کو والوں سے کہا کہ شانتی اور لاجونتی ماری گئیں.پھر اُن کا سب حال مفصل سُنایا.نکالو.پھر لاجونتی بچہ کے منہ میں اپنا پستان بطور دودھ پلانے کے دے اور اتنی اس پر اُن عورتوں کے گھر والے مرد لاٹھیاں لے کر مرگھٹ کی جانب دوڑے دیر یہ منتر پڑھتی رہے.پھر بچہ کو زمین پر لٹا کر اُس کی چھاتی پر بیٹھ کر خود اشنان گئے اور لالٹینوں کی روشنی میں دیکھا کہ دونوں عورتیں بے ہوش پڑی ہیں.کرے.بعد ازاں اُسے وہیں دفن کر کے چلی آوے.یہ نسخہ اولاد ہونے کے لاجونتی تو بالکل برہنہ ہے کیونکہ اشنان کر کے مُردہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور لئے بے خطا ہے.ایک سال کے اندر اندر اُس کے ہاں بالک ضرور پیدا شانتی کے بدن پر کپڑے موجود ہیں اور بچہ بھی وہیں قبر سے باہر پڑا ہے.اتنے ہو جائے گا.یہ ترکیب اُس غریب عورت سے سُن کر وہ دونوں فوراً تیار ہو میں اُن پہریداروں نے جو بھاگ گئے تھے لالہ جی سے جو متوفی بچہ کے باپ گئیں کہ اس پر عمل کریں.شانتی تو بیوہ تھی وہ ہمراہی کے طور پر اور لاجونتی تھے اسی وقت آدھی رات کو جا کر سارا معاملہ عرض کر دیا.وہاں سے لالہ جی اولاد کی امیدوار کے طور پر رات کو دس بجے مرگھٹ کی طرف اُسی عورت کے نوکروں کا ایک لشکر اور کچھ لالٹینیں لے کر مسان آ پہنچے.آگے دیکھا تو ایک ہمراہ روانہ ہوئیں اور ایک بالٹی پانی کی اُسے اُٹھوا دی تا کہ اشنان کیا جا سکے.پارٹی برہمنوں کی پہلے سے موجود تھی وہاں جا کر ساری حقیقت کھلی.رات کو گیارہ بجے کے قریب اُن دو پہریداروں نے ان تینوں عورتوں کو آتے پہلے تو فریقین میں خوب تو تو میں میں ہوئی پھر یہ دیکھ کر کہ دونوں دیکھ لیا.ایک مدہم سی لالٹین عورتوں کے پاس تھی.اُس بڑھیا نے بچہ کی قبر اُن خاندان شہر کے رئیس اور معزز لوگ ہیں.اور اصلی غلطی اور جرم اُن طالب اولاد کو دکھا دی اور خود کوئی سو گز پیچھے ہٹ کر آ بیٹھی.شانتی اور لاجونتی نے قبر کی عورتوں کا ہی ہے.آخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ چلو جو ہوا سو ہوا.اب اس مٹی ہٹا کر اس مُردہ بچے کو نکالا پہلے اُس کی چھاتی پر بیٹھ کر لاجونتی نے اشنان معاملہ کو طول نہ دیا جاوے.بلکہ بڑے لوگوں کی عزت کی خاطر دبا دیا جاوے کیا.پھر اُسے گود میں لے کر اپنی چھاتی اُس کے منہ میں دے کر بیٹھ گئی.اتنے چنانچہ ایسا ہی ہوا.اگر چہ شانتی ایک ماہ اور لاجونتی تین ماہ تک بستر پر پڑی میں وہ پہریدار جو پہلے ایک طرف ڈر کر چھپ گئے تھے.سارے معاملہ کو سمجھ اپنے زخموں پر پٹیاں لگواتی رہیں.
49 48 (21) کالی کے سامنے یہ کہہ دیتی ہے کہ لوگو! یہ عورت کالی ہے (یعنی بدکار ہے) اور فلاں شخص اس سے ناجائز تعلق رکھتا ہے.اسی وقت سے سارے علاقہ میں یہ پنجاب کی مغربی سرحد پر بلوچوں کی کئی منداریاں یعنی جاگیریں قائم خبر آگ کی طرح پھیل جاتی ہے کہ فلاں عورت کالی ہو گئی ہے یعنی لوگوں کی ہیں.وہاں کے رسم ورواج عجیب ہیں.ایک دفعہ مجسٹریٹ علاقہ نے مجھے لکھا زبان پر اُس کی بد چلنی مشہور ہو گئی ہے.اس اعلان کے بعد اس کالی عورت کہ ”مہربانی کر کے فلاں جگہ جائیں اور ایک قبر کھود کر مُردہ کی نعش نکال کر کے باپ یا بھائی کا (نہ کہ خاوند کا) یہ فرض ہو جاتا ہے کہ اُسے اپنے ہاتھ سے پوسٹ مارٹم کریں.کیونکہ ایک عورت ”کالی“ ہو گئی تھی اور یہ مخبری ہوئی ہے کہ قتل کر دیں دوسرا کوئی یہ کام کرنے کا مجاز نہیں.پھر وہ اُسے جنگل میں لے جا وہ اس قبر میں دفن ہے“.میں سب انسپکٹر پولیس کی ہمراہی میں اُس مقام پر کر تلوار سے قتل کر دیتے ہیں.مگر چونکہ یہ فعل زیادہ مکروہ اور بے رحمانہ ہوتا پہنچا وہاں ایک شخص نے نشان دہی کی کہ ”یہ قبر ہے خیر اُسے گھر وایا گیا تو تھا اس لئے عموماً ایسی عورتیں اب یوں کرتی ہیں کہ نہا دھو کر اپنے بہترین بجائے کفن پوش مُردہ کے اس میں سے ایک نوجوان عورت کی نعش نکلی جو لباسِ کپڑے پہن کر جنگل میں خود ہی کسی درخت پر چڑھ کر گلے میں رستہ ڈال کر " عروسی سے آراستہ تھی.یعنی ریشمی رنگین شلوار.گوٹہ طلا لگا ہوا گر تہ اور سرخ خود کشی کر لیتی ہیں.پھر باپ یا بھائی اُس کی نعش اُتار کر بغیر غسل و کفن کے دو پٹہ، بال گندھے ہوئے تھے اور خوب سنکھی چوٹی اور زینت کی ہوئی تھی میں اُنہی کپڑوں میں اُسے دفن کر دیتے ہیں.اپنے اس فعل سے گویا وہ عورت نے نعش نکلوا کر اُس کا پوسٹ مارٹم کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پھانسی لے کر مری اقراری مجرم کی طرح اپنے گناہ کی تصدیق کر دیتی ہے.اس کے بعد اُس کے ہے.اور اسی طرح بغیر غسل کے انہی کپڑوں میں دفن کر دی گئی ہے.نعش باپ یا بھائیوں کا یہ بھی فرض ہے کہ اُس شخص کا پیچھا کریں جس سے اُسے منہم دیکھتے ہی وہاں کے لوگ بول اُٹھے کہ ” کالی ہے ” کالی ہے“.کیا گیا تھا.اور عموماً وہ اُسے بھی قتل کر ڈالتے ہیں.شاذ و نادر وہ شخص علاقہ اپنا کام ختم کر کے میں نے سب انسپکٹر سے پوچھا کہ ”کالی کا کیا چھوڑ کر غیر علاقہ میں بھاگ بھی جایا کرتا ہے ایسا آدمی اگر دس سال کے بعد مطلب ہے اور یہ عورت غسل اور کفن کے بغیر اپنے بہترین کپڑوں میں کیوں واپس آئے تو پھر اُس کا پیچھا نہیں کیا جاتا ورنہ اس سے پہلے جب بھی ملے تو ملبوس ہے؟ اس پر انہوں نے ایک بلوچی رسم کا ذکر یوں سنایا.و, ہر ملک اور ہر قوم میں نیک چلن عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بد چلن لڑکی والوں کا فرض ہے کہ اُسے مارڈالیں ایک دفعہ اسی طرح ایک اور مقدمہ میں جب عورت کو قتل کر کے اُس کے بھائی نے عورت کے یار کو ایک کھیت بھی.اس علاقہ میں اگر کوئی عورت مخفی طور پر بدچلن ہو جائے تو اُسے نہ کوئی میں جا لیا اور قتل کرنا چاہا تو اُس یار نے اُس بھائی کا مقابلہ کیا اور عورت کا بُرا کہتا ہے نہ اُس پر کوئی گرفت کی جاتی ہے اور مدتیں اسی طرح گزر جاتی ہیں بھائی مارا گیا.دُنیا کا عام قانون تو یہ ہے کہ اپنے بچاؤ اور ڈیفنس میں جو شخص آخر اتفاقاً کسی دن اس خاندان کی کسی عورت کی کسی دوسرے خاندان کی قاتل کو مار دے اُس پر کوئی گناہ نہیں مگر بلوچی جرگہ کا یہ قانون ہے کہ ایسا عورت سے تکرار یا لڑائی ہو جاتی ہے تو دشمن عورت پکار کر سب گاؤں والوں نالائق شخص جس نے حفاظت خود اختیاری میں اپنی جان کو بچایا تھا اور حملہ آور
51 50 کو قتل کر دیا تھا سات یا دس سال کے لئے مع اپنے کنبہ اور عزیزوں کے ملک منہ کے بل اوندھا قبر میں لٹا کر دفن کر دیتے ہیں بظاہر تو یہ کہتے ہیں کہ : ” چمار بدر کیا جاوے.یہ اُس کی نالائقی ہے کہ وہ چونکہ زنا کار تھا اور عورت زنا کی کی رُوح کہیں بھوت بن کر پھر گاؤں میں واپس نہ آجائے.اس لئے ہم اُسے سزا میں قتل ہو چکی تھی پھر اُس نے اپنے تئیں کیوں نہ قتل ہونے دیا.بلکہ الٹا اوندھا دفن کراتے ہیں، مگر دراصل یہ بھی نیچ اقوام کے ذلیل رکھنے کی ایک ترکیب ہے.اور وہ جاٹ اس لئے وہاں دفن کرتے وقت کھڑے رہتے ہیں کہ قاتل کو قتل کر دیا.اس واسطے اس کے لئے ضبطی جائداد کے علاوہ چند سال کی جلا وطنی بھی ضروری ہے.اور جرگوں کے مقدمات میں اسی قسم کے فیصلے کوئٹہ کہیں چہار اپنے مُردہ کو سیدھا دفن نہ کر دیں.(23) فقیر کا اندوخته بت ایک فقیر سوئی بٹ کے ریلوے اسٹیشن پر بھیک مانگا کرتا تھا.ایک دن وہ تھرڈ کلاس ویٹنگ روم میں مرا ہوا پایا گیا.پولیس اُس کی نعش کا ملاحظہ کرانے کے لئے میرے پاس لے آئی.بیچارہ بڑھا اور مریض سا آدمی تھا.قدرتی اسباب سے مر گیا تھا.مگر چونکہ اسٹیشن پر مرا ہوا پایا گیا اس لئے تفتیش ہوئی ضروری تھی.میں جب لاش خانہ میں گیا تو پوچھا کہ ”اس کے کپڑوں یا جیبوں میں تمباکو یا اور کوئی چیز پائی گئی ہے؟ پولیس والے سپاہی نے کہا کہ سوائے اس دھوتی اور کرتہ کے اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا.نہ اور کوئی چیز.خیر یہ کپڑے بھی اُتار دیے گئے اور نعش چیرنے والا ڈسپنسر چاقو لے کر لغش کاٹنے لگا.اتنے میں میں نے دیکھا کہ مُردے کی پنڈلی پر ایک پٹی بندھی ہوئی ہے خیال ہوا کہ کوئی پرانا زخم ہو گا.شاید اس سے کوئی وجہ موت کی اور فورٹ منرو وغیرہ میں ہوتے رہتے ہیں.گویا پرانی مشہور سنگساری والی میزا کے بدلہ وہ ” کالی عورت تلوار سے قتل کی جاتی ہے یا کہہ دیتی ہے کہ مجھے قتل نہ کرو میں خود ہی پھانسی لے لیتی ہوں.اور فریق ثانی جو مرد ہوتا ہے اس کے لئے بھی مناسب ہے کہ جب عورت کا بھائی یا باپ اُسے قتل کرنے آوے تو ان کو اپنے فعل کے کرنے میں سہولیت بہم پہنچاوے بغیر کالی ہونے کے اعلان کے یعنی کسی مخالف یا دشمن کے کہہ دینے کہ فلاں عورت فلاں مرد سے کالی ہے.خواہ وہ ساری عمر اپنا منہ کالا کراتی رہے اُس پر کوئی گرفت نہیں ہے یا کالی نامراد ہو کر اگر ایسی عورت اپنی قوم کے تمندار کے دارلخلافہ میں بھاگ کر آجاوے تب بھی اُسے امن مل جاتا ہے اور وہاں پھر اُسے کوئی قتل نہیں کر سکتا.گویا وہ حرم میں آگئی لیکن ایسا بہت شاذ ہوتا ہے.(22) پیچ اقوام کی ذلّت جنوبی پنجاب کے ہندو جاٹوں کے دیہات میں ہندو تو مرنے کے معلوم ہو جائے.میں نے مہتر کو کہا کہ ”پٹی اُتار دے.کھولتے کھولتے یکدم بعد جلائے جاتے ہیں اور مسلمان دفن کئے جاتے ہیں.مگر چمار وغیرہ پیچ اقوام میز پر کھنا کھن آٹھ روپے گر پڑے.زخم قطعاً کوئی نہ تھا.معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ایک عجیب سلوک کیا جاتا ہے جو نہی کوئی چمار مرجاتا ہے اور اُسے دفن غریب فقیر کی یہی کمائی تھی.اور اس کی حفاظت کی صورت اس نے یہی نکالی کرنے کے لئے اس کے وارث قبر کھودتے ہیں تو ضروری ہے کہ ایک دو معتبر تھی کہ پنڈلی کے گرد پٹی کے اندر اپنا اثاثہ رکھ کر باندھ لے تا کہ لوگ اسے سمجھیں اور کوئی اس کی جمع پونجی کو چرانہ لے.بعد میں پوسٹ مارٹم کرنے جاٹ وہاں کے باشندے اس قبر کے پاس موجود رہیں.پھر اس چمار کی نعش کو
53 52 سے معلوم ہوا کہ وہ فقیر مرض سل و دق سے فوت ہوا تھا.رکھا.آٹھویں دن جب پٹی کھولی تو دونوں آنکھیں تارا سی روشن تھیں.اور (24) صدموں سے آدمی پاگل ہو جاتا ہے آنکھیں بنواتے ہی دُھوپ میں تین میل جانے سے اور تین میل آنے سے ایک بڑھا آدمی ایک دن مجھ سے آنکھیں بنوانے آیا.اس کی دونوں آنکھیں موتیا بند سے نابینا ہو چکی تھیں.وہ اکیلا بھی تھا.میں نے اُس کی دونوں آنکھیں بیک وقت بنا دیں.اور پٹی باندھ کر چار پائی پر لٹا دیا.ساتھ ہی اُسے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا تھا.(25) جنات کا کرشمہ! میں سرسہ ضلع حصار میں تھا.یہ غالباً 1914ء کا واقعہ ہے.ایک دن شفاخانہ کے عملہ والوں سے کہدیا کہ یہ شخص بغیر ساتھی کے ہے اس کو کسی طرح ایک پولیس کانسٹیبل ایک عورت کو ڈاکٹری ملاحظہ کے لئے لایا.میں نے پولیس کی تکلیف نہ ہونے پائے.بار بار پوچھتے اور دیکھتے رہنا." " رپورٹ پڑھی تو اُس میں لکھا تھا کہ ” مستمی فتح محمد موضع فلاں نے پولیس میں ہے شفا خانہ کا کام ختم کر کے گھر آ گیا.ایک گھنٹہ کے بعد عملہ کا ایک رپورٹ کی کہ ”میرے موضع کے ایک شخص مستمی جھنڈو نے جو میرا مخالف آدمی بھاگا ہوا آیا وہ آنکھوں والا اپنی پٹی کھول کر چار پائی پر پھینک گیا ہے اور میری بیٹی مسمات نوری عمر میں سال پر جو ابھی ناکتخدا ہے کوئی عمل جن بھوت خود غائب ہے یہ خبر پا کر میں باہر نکلا اور لوگوں کو جمع کر کے مختلف راستوں پر وغیرہ کا کرایا ہے اور ایک منصوری پیسہ پڑھوا کر میری لڑکی کی طرف بذریعہ بھیجا کہ اُسے تلاش کر لائیں.دو گھنٹہ کے بعد وہ پکڑا ہوا آیا.وہ لوگ جو اُسے مؤکل بھیجا ہے جو نہایت زور سے لڑکی کی پیشانی پر لگا اور اس کے بعد وہ جن پکڑنے کے لئے میں نے بھیجے تھے کہنے لگے کہ ”ہم نے یہاں سے تین میل پر لڑکی پر سوار ہو گیا.اب لڑکی پر بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں اور وہ کہتی ہے اُسے جا پکڑا ہے.یہ اپنی لاٹھی لئے آنکھیں کھولے اپنے گاؤں کی طرف چلا جا کہ مجھ پر ماموں مولا بخش سوار ہیں.ہم نے بہت سے عامل بلائے مگر کوئی اس رہا تھا.میں نے اُس سے پوچھا کہ ”بابا تو نے یہ کیا غضب کیا؟“ کہنے لگا.مولا بخش کو نہ اُتار سکا اب عرض یہ ہے کہ لڑکی کا ملاحظہ ڈاکٹری کرایا جائے اور " مجھے خبر نہ تھی کہ تو مجھے پٹی باندھ کر یوں چار پائی پر قید کر دے گا؟ ڈاکٹر مجھے جھنڈو کو قرار واقعی سزا دی جائے یا اس کی ضمانت لی جاوے کیونکہ معاملہ قابلِ تو خفقان ہے، میں تو نیم دیوانہ ہوں، مجھے تو صدموں نے ہلاک کر دیا ہے.دست اندازی پولیس ہے.آخر میں لکھا تھا کہ ”لڑکی کو اس کے والد کے ہمراہ میرے سات جوان بلند و بالا خوبصورت بیٹے تھے اور ساتوں کے ساتوں گزشتہ برائے ملاحظہ طبی بھیجا جاتا ہے.مطلع فرماویں کہ اس پر جن چڑھا ہوا ہے یا سال کی ہیضہ کی وباء میں ایک ہی دن میں مرگئے.اب میں بے اولاد ہوں اور نہیں ؟ اور خفیف ہے یا شدید؟ بے عقل، خفقانی ہوں اور پاگل.میں بھلا عشرہ تک چار پائی پر قید رہ سکتا ہوں.میں نے اُسے تسلی دی اور مسکن دوا بھی حیران ہوا.سپاہی سے پوچھا کہ ”جب یہ مارکٹائی کا معاملہ نہیں ہے تو میں پلائی.پھر پٹی اُس طرح باندھ دی اور آٹھ روز دن رات برابر اُس پر پہرہ ضربات کیا لکھوں؟ میرے محکمہ کو جنات سے کیا واسطہ! وہ احمق کہنے لگا کہ آنکھوں پر پٹی بندھوا کر ہفتہ میں نے جب یہ پڑھا تو پولیس کی رپورٹ لکھنے والے کی عقل پر سخت
55 54 ’ جناب ! لڑکی اپنے ماتھے پر عمل کا پیسہ لگنا بیان کرتی ہے.یہ تو صاف ضرب اس لڑکی کے سر پر چڑھا ہے؟ مگر اس لڑکی نے کسی بات کا جواب نہیں دیا.آخر کی قسم ہے.اس کے بعد سے وہ بے ہوش ہے.اور اس کے سر پر جن بولتا تنگ آکر میں نے ایک بڑی بوتل چوڑے منہ کی لے کر اُس میں ایمونیا کارب ہے.یہ اس ضرب کا ہی اثر ہے.آپ جیسا مناسب سمجھیں لکھ دیں.مجھے فتح AM.Carb بھرا اور بوتل کا منہ اُس کی ناک پر لگا کر سر کو اس طرح پکڑ لیا محمد مدعی سے بہت زیادہ خود پولیس والوں پر تعجب تھا مگر چونکہ جنات کا معاملہ تھا کہ وہ حرکت نہ کر سکے.لڑکی نے شروع میں تو بڑی ہمت دکھائی اور کچھ نہ بولی اس لئے میں اُٹھ کر باہر نکلا.دیکھتا کیا ہوں کہ دس بارہ آدمی سڑک پر ایک مگر آخر تا بگے.پہلے تو ناک سے پھر آنکھوں اور منہ سے بھی پانی جاری ہو گیا.چھکڑا لئے کھڑے ہیں اور اس میں ایک جوان مضبوط مسٹنڈی عورت لیٹی ہوئی مجبور ہو کر چیخنے لگی کہ ”چھوڑو چھوڑو میں نے کہا ”نہیں پہلے یہ بتا کہ تو کون ہے جس کی آنکھوں سے وحشت برس رہی ہے.بہتیرا اُس سے پوچھا گچھا مگر ہے؟ اور کس لئے اس لڑکی کے سر پر چڑھا ہے؟“ وہ کہنے لگا کہ ”میں جن وہ کچھ نہ بولی.آخر میں نے اُس کے رشتہ داروں سے کہا کہ اسے چھکڑے پر ہوں اور مستمی جھنڈو نے عمل کرا کے ایک منصوری پیسے کو پڑھ کر مجھے اُڑایا ہے.سے اُتار کر اندر آپریشن والے کمرے میں لے چلو.چنانچہ دو آدمیوں نے اُس اس عمل کے زور سے وہ پیسہ اس لڑکی کے ماتھے پر آ لگا اور میں اس کے سر پر کا سر پکڑا دو نے پیر درمیان میں کسی نے سہارا بالکل نہیں دیا.مگر وہ لڑکی ایسی چڑھ گیا.اب میں اسے چھوڑ نہیں سکتا چاہے تم کچھ بھی کرو“.میں نے کہا.سیدھی اور اکڑی رہی گو یا لکڑی کا ایک تختہ ہے.” بھائی! اس غریب لڑکی کو پکڑنے سے کیا فائدہ؟ تم کسی زبردست سے جا کر غرض ان آدمیوں نے لکڑی کے گندے کی طرح اُسے اُٹھایا کمرے زور آزمائی کرو.کہنے لگا تو زور لگائے.میں نے ایک تولیہ لے کر دوا کی میں لے جا کر آپریشن کی میز پر لٹا دیا.میں نے جب لڑکی کو دیکھا تو پتا لگ گیا بوتل کے منہ کے چاروں طرف اس طرح لگا دیا کہ ناک اور منہ میں تازہ ہوا کہ کس قسم کا جن ہے.اس کے ساتھی مرد مضبوط اور تندرست زمیندار جاٹ بالکل نہ جا سکے.اس طرح جب دوا پوری تیزی سے اُس کے دماغ میں کھسی تو تھے.میں نے اُن میں سے چھ کو انتخاب کر کے باقیوں کو کمرہ سے باہر بھیج دیا وہ عورت بے قرار ہو کر چیخنے لگی.میں نے کہا.” یہ ہماری تمہاری زور آزمائی اور یہ کہا کہ ”اب میں اُس جن کو بلانے لگا ہوں تم پوری قوت کے ساتھ میری ہے یا تو اسے چھوڑ کر چلتے بنو نہیں تو میں تم کو زندہ نہیں چھوڑوں گا“.کچھ لمحہ مدد کرنا اور اسے ہلنے نہ دینا.چنانچہ ایک آدمی نے ایک ہاتھ لڑکی کا پکڑ لیا صبر کر کے پھر وہ عورت چلائی کہ اچھا اب میں جاتا ہوں.پھر خاموش ہو دوسرے نے دوسرا.دونے ٹانگیں اور باقی نے باقی حصہ جسم کا میز پر اپنی پوری گئی.میں نے آواز دی.نوری نوری نوری، تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا قوت سے دبا لیا تاکہ وہ ذرہ بھی حرکت نہ کر سکے.اور انہیں سمجھا دیا کہ ”خواہ اُدھر اُس کے پکڑنے والوں نے غلطی سے سمجھ لیا کہ جن اُتر گیا ہے.انہوں یہ عورت کتنا ہی تڑپے تم اسے ملنے نہ دینا.ورنہ خطرہ ہے کہ جن اسے چھوڑ کر تم نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی.گرفت نرم کرنے کی دیر تھی کہ وہ تو سانپ کی طرح پر چڑھ جائے گا.غرض اس طرح اُس کو چومیخا کر کے میں نے پہلے تو اُس بل کھا کر ان چھ آدمیوں کے ہاتھوں میں سے نکل اُٹھ بیٹھی اور کہنے لگی ” مجھے لڑکی کے ساتھ زور زور سے باتیں کرنی شروع کیں کہ تو کون ہے؟ اور کیوں کون نکال سکتا ہے؟ ہٹ جاؤ.دُور ہو جاؤ گردن مروڑ دوں گا“.غرض ایک
57 56 دفعہ آزاد ہو کر اُس نے ان سب لوگوں کو نئے سرے سے مرعوب کر لیا اور ہمارا میں نے کہا: ” تو خود ہی اس میز پر سے اتر کر پیدل باہر جا اور اپنے عمل سب بیکار ہو گیا.مگر میں نے اُن سے کہا کہ جلدی اسے قابو کرو اب یہ چھکڑے پر سوار ہو جا.چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا.جن نکلنے پر آیا ہے.اس وقت ذرا بھی غفلت کی تو میری اور تمہاری دونوں کی میں نے اُس کے باپ سے پکار کر کہا کہ ”جب کبھی پھر یہ جن خیر نہیں“.غرض یہ ہزار دقت انہوں نے اُسے پھر پکڑ کر گرایا اور پوری قوت تمہارے ہاں آئے تو پولیس میں رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں.تم فوراً کے ساتھ اس طرح میز پر دبایا کہ ہلنے کی گنجائش نہ چھوڑی.میں نے پھر اپنا سیدھے اسے یہاں لے آنا.اور پولیس والوں کو میں نے جواب دیا کہ ”مسماۃ عمل شروع کیا.اور اب کی دفعہ ہوا کو چاروں طرف سے بند کر کے بوتل کو ہلا نوری پر واقعی سخت جن چڑھا ہوا تھا میں نے بمشکل اُس کو اپنے عمل سے اُتار دیا کر اس طرح اُسے منہ اور ناک پر فٹ کر دیا کہ دو منٹ میں ہی اُس کی عقل ماری گئی.پانی کے شرائے اُس کی ناک سے آنکھوں سے اور منہ سے بہنے لگے امید ہے کہ آئندہ پھر وہ اس پر نہیں چڑھے گا.مگر اس مسمی جھنڈو نے اور موت کا مزا آ گیا.آخر جب معاملہ اُس کے ضبط سے نکل گیا تو جن کہنے لگا اس کی طرف نہیں بھیجا تھا بلکہ جنوں کا ایک بادشاہ ہسٹیریا (Hysteria) نام کہ ” تم کیا چاہتے ہو؟“ میں نے کہا ”بس یہی کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ دو.کہنے کوہ قاف میں رہتا ہے اس نے اس جن کو اس لڑکی پر بھیجا تھا.جھنڈو بے قصور لگا ”اچھا.میں نے کہا " پہلے بھی تم نے ہمیں دھوکا دیا تھا اور ایک منٹ کے ہے.اور اگر خدانخواستہ وہ جن پھر کبھی اس عورت پر آجائے تو اسے دوبارہ بعد پھر واپس آگئے تھے اس لئے اب تم یہ وعدہ کرو کہ میں جاتا ہوں اور پھر میرے پاس بھیج دینا تا کہ اس جن کو اسم اعظم کے عمل کے ساتھ انگلی جلا کر کبھی عمر بھر اس کے سر پر نہیں آؤں گا اس پر تھوڑی دیر وہ خاموش رہا.مگر پھونک دیا جائے.خاموش رہنا اس خوفناک دوا کی وجہ سے ناممکن تھا.مجبوراً اُس نے کہہ دیا کہ میں جاتا ہوں، پھر کبھی اس لڑکی پر نہیں آؤں گا.یہ میرا پکا قول و قرار ہے“.اس پر میں نے اُن لوگوں سے جو اُسے پکڑے ہوئے تھے کہا کہ ”اب لڑکی کو (26) پولیس والوں کی انشاء و املا ذیل میں پولیس کے نقشہ مضروبی کی تحریر کا ایک نہایت اعلیٰ اور منشیانہ چھوڑ دو جب اُسے چھوڑ دیا گیا تو دو منٹ تک وہ بدحواس سی رہی.مگر جب نمونہ درج کیا جاتا ہے.اور پھر ایسی تحریروں پر فخر کیا جاتا ہے کہ ”بھئی واہ میں نے نوری نوری“ کہہ کر آواز دی تو جواب دیا ”جی“.میں نے کہا: ”کیا حال ہے؟“ کہا ” اچھی ہوں“.داروغہ صاحب تو بے نظیر منشی ہیں جو لکھ دیا بس پتھر کی لکیر ہے ان کے ہاتھ میں پھنسا ہوا کبھی پھانسی سے نہیں بچ سکتا خواہ وکیل لوگ ہائی کورٹ تک زور لگا میں نے پوچھا ”جن اب بھی ہے؟ کہنے لگی چھوڑ گیا“.پھر مجھے لیں.منشی ہے نانشی ! اب ان منشیوں کا نمونہ تحریر بھی ملاحظہ ہو : - دیکھ کر سلام کیا.اور اپنے باپ کو دیکھ کر اُس کے گلے میں باہیں ڈال کر رونے لگی اور کہنے لگی ” چلو گھر چلو“." بخدمت جناب ڈاکٹر صاحب مضروب مستمی گنڈا سنگھ آپ کی ڈاکٹری کرانے کے لئے ہمراہ کانسٹیبل نمبر ارسال ہے مضروب کے بدن پر
59 58 حسب ذیل نشانات ضرب موجود ہیں.ہے.میں رخصت پر یہاں گھر آیا تھا کہ ایک مقدمہ کا جھگڑا کھڑا ہو گیا.ایک (1) یک نشان نیلگوں بر گوڑہ چپ (یعنی چوٹ کا ایک نیلا نشان دو مہینے اس کے نپٹانے میں لگیں گے.آپ مہربانی فرما کر اپنی فیس لے لیں بائیں گھٹنے پر ) (2) یک نشان دند وڈ نے کا بر دکھی جانب راست (یعنی دانت کاٹنے کا نشان دائیں پسلیوں پر ) سے اور مجھے دو ماہ کی رخصت بیماری کی لکھ دیں ورنہ میرا بڑا نقصان ہو گا.میں نے عرض کیا ”پھر میں نجاست کیوں کر کھاؤں؟“ کہنے لگے.” تو بہ تو بہ ! بھلا میں ایسی بے ادبی کر سکتا ہوں؟ آپ کی تو قلم کی ایک کشش سے میرا کام بن (3) پشت پر کھڑ نچیں اور جھر ٹیاں نامعلوم السبب (یعنی پیٹھ پر کچھ خراشیں سکتا ہے.یہ کہہ کر انہوں نے کچھ روپے میرے سامنے رکھ دیئے.میں نے کہا ،، اور رگڑیں جن کی وجہ معلوم نہیں ) کہ اتنے سے روپے کے بدلے تو کسی آدمی کے لئے بھی نجاست کھانا مشکل مضروب کہتا ہے کہ میں مستیان لال و گلاب کے دروازے کے آگے ہے.کہنے لگا ”اچھا دور پیہ اور لے لیں.میں نے کہا پھر بھی نجاست کیوں سے گزر رہا تھا.وقت کو ڈھ ویلے کا تھا کہ میں نے ایک راس بولد اُن کے کر حلق سے اُترے گی؟ حیران سے رہ کر پوچھنے لگے ”حضرت کون سی دروازه بر بستہ دیکھا میں نے اپنی لکڑی سے اُسے ہٹایا کہ برائے گزر راستہ نجاست؟“ میں نے کہا کہ ”آپ نے آتے ہی فرمایا تھا کہ جھوٹ بولنا اور گو صاف ہو جائے.میری اس حرکت معقولہ سے مستمیان مذکورہ گھر میں سے برآمد کھانا برابر ہے.اس لئے میں سچ سچ ساری بات عرض کر دیتا ہوں.گویا آپ ہو کر من مدعی کی خورۀ و ملکہ وکٹھن سے خاطر تواضع کرنے لگے.عالی جاہا تو راستباز ہیں.جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا برابر سمجھتے ہیں.مگر میرے لئے چند التفتيش والتحقيقات معامله راست راست و بے کم و کاست سچا معلوم ہوتا روپے لے کر وہی نجاست کھانا ضروری ہے.تشریف لے جائیے.جب میری ہے.لہذا نقشہ مضروبی ہمراہ مرسل ہے.ضربات کی رپورٹ عنایت فرمائی فطرت ایسی مسخ ہو جائے گی کہ نجاست کھانے میں مجھے کوئی عذر نہ ہو گا.پھر جاوے.مضروب کو بسواری چار پائی شفا خانہ بھیجا جاتا ہے.“ میں ایسے سرٹیفیکیٹ لکھ دیا کروں گا.آپ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کر کے اور مجھے یہ وہ فن تحریر ہے جو ایک قرن تک پولیس میں رائج رہا اور اس کو دھوکا دے کر تو سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتے تھے.کیوں کہ ڈاکٹر بھی دھوکا کھا سکتے بڑے فخر کے ساتھ منشیانہ طرز کہا جاتا تھا.شاید اب کم ہو گیا ہوگا.ہیں.لیکن میرے منہ پر یہ کہہ کر کہ جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا برابر ہے.اس عندا (27) آپ تو نیچے بنیں اور ہم جھوٹ بولیں لئے میں تو یہ گندا کام نہیں کر سکتا.بلکہ سچ سچ ساری حقیقت بیان کر دیتا ہوں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص میرے پاس رخصت کا سرٹیفیکیٹ البتہ جس نجاست کو میں نے ترک کیا ہے وہ آپ ضرور کھا لیں یہی مطلب ہے لینے آیا.کہنے لگا.” جناب ! آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا نا آپ کا؟ کہنے لگے ”آپ تو لفظوں کو پکڑتے ہیں، میں نے کہا ”کیا برابر ہے.بھلا آپ کے سامنے ہم غلط بیانی کر سکتے ہیں.مگر معاملہ ضروری آپڑا آپ کا گلا پکڑ لوں.اجازت ہے؟“ بے چارے خاموش ہو کر چلے گئے.اس قسم کی باتیں ہر ڈاکٹر کو اکثر پیش آتی ہیں.لوگ منہ پر گالیاں بھی
61 60 دے جاتے ہیں.اور سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب رفع دفع ہو گیا بجائے انفرادی سزا کے ایک قوم کی اصلاح ہوگئی اور گناہ کا اُن سے کہو کہ " کیا اس نجاست کے نوش جان کرنے کے لئے آپ نے اس سدِ باب بھی ہو گیا.خاکسار کو ہی منتخب فرمایا ہے؟ تب انہیں بھی پتہ لگتا ہے کہ ہم کیسے شخص سے مخاطب ہیں.اور کیا کہہ رہے ہیں.(28) کچی اصلاح (29) آچھیں میرے ہم نام ایک میرے بزرگ دوست تھے اور وہ ڈاکٹر بھی تھے.مزید برآں یہ کہ نہایت بامذاق بھی.گوڈیانی ضلع رہتک کے رہنے والے تھے.اک معزز گھرانے کی ہندو بیوہ نے حرام کا بچہ جنا پھر اُس کا گلا ایک دن اپنا ذاتی واقعہ مجھے سنانے لگے.کہ میں ایک شفا خانہ میں متعین ہو گھونٹ کر جنگل میں کوڑی کے اندر دبا دیا.کسی مخبر نے رئیس علاقے کو رپورٹ کر گیا تو لمبا تڑنگا وجیہہ اور ریشائیل ہونے کی وجہ سے وہاں میری بزرگی کی کر دی نعش برآمد ہوگئی اور نشان دہی پر وہ عورت میرے پاس لائی گئی.بعد بہت جلد شہرت ہو گئی.ایک دن میرے پاس ایک جوان آدمی آیا اور کہنے لگا ملاحظہ میں نے رپورٹ کی ” اس عورت نے واقعی حال میں ہی بچہ جنا ہے“.کہ الگ ہو کر کچھ عرض سُن لیں.میں اُسے ایک طرف لے گیا تو کہنے لگا پھر اُس عورت نے خود بھی اقرار کر لیا.رئیس علاقہ بڑا سمجھ دار آدمی تھا اُس نے کہ ”ہمارے علاقہ کے بزرگ اور پیر تو آپ ہی ہیں.خدا کے لئے میری اُس شہر کے معزز ہندؤں کو بلا کر کہا کہ یہ معاملہ قتل کا ہے.ساتھ ہی تم سب روحانی مدد کریں.میں نے کہا ” کیونکر کہنے لگا کہ اپنے گاؤں کی ایک لڑکی کی بے عزتی اور بدنامی بھی ہے.مقدمے پر بھی ہزاروں روپے لگ جائیں پر میں عاشق ہو گیا ہوں.اور آج اُس نے کہلا بھجوایا ہے کہ ہمارے پچھواڑے گے.اور ایک معزز خاندان کی عورت کئی سال کے لئے جیل خانہ میں بھیج دی کے احاطہ میں مجھ سے ملنے آ جانا.ڈاکٹر صاحب! میرے دشمن بھی آس پاس جائے گی.وہ سب رئیس کے پاؤں پر گر پڑے اور اپنی پگڑیاں اُتار کر اُس بہت ہیں کوئی ایسا تعویذ دیں یا مجرب عمل بتائیں کہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے.میں نے کہا تم میرے ہاں تیسرے پہر کو آنا میرے پاس ایک مجرب عمل ہے کے آگے رکھ دیں.رئیس نے کہا: ”میں اس شرط پر یہ مقدمہ واپس لے لیتا ہوں کہ یہ ایک نسوار یا ہلاس ہے جو آدمی بھی لاحول پڑھ کر ایک سانس میں اُسے دونوں تمہاری ساری ہندو برادری میرے ساتھ عہد کرے کہ آئندہ کوئی جوان بیوہ طرف کے نتھنوں میں داخل کر کے زور سے دماغ میں چڑھا لے وہ پھر چھ گھنٹہ عورت بغیر نکاح ثانی کے میرے علاقے میں نہ رہ سکے گی.اور یہ کہ بعد بیوہ تک کسی کو نظر نہیں آ سکتا.لیکن خود سب کو دیکھ سکتا ہے.ہونے کے ایک سال کے اندر اندر ہم لوگ اُسے کسی جگہ بٹھا دیا کریں گے." یہ سُن کر وہ شخص میرے پیروں میں لوٹ گیا اور کہنے لگا.’واہ واہ سنگ آمد و سخت آمد کیا کرتے فطرت صحیحہ بھی یہی کہتی تھی اور موقعہ بھی میرے پیر دستگیر ! بس میرا کام تو بن گیا.میں تیسرے پہر ضرور آؤں گا“.ایسا ہی پیش آ گیا تھا.غرض ایک محضر نامہ پر سب کے دستخط ہو گئے وہ معاملہ جب وہ چلا گیا تو میں نے کمپاؤڈر کے ہاتھ بازار سے دو پیسے کی تک
63 62 چھکنی بُوٹی منگائی اور اسے نہایت باریک پسوا کر ایک پڑیا بنا کر رکھ لی.سے لوگوں نے بھی تعاقب نہ چھوڑا.آخر دُور جا کر جب کچھ نہ ہو سکا تو ایک تیسرے پہر جب وہ آیا تو وہ پڑیا اُسے دے کے پھر دوبارہ اچھی طرح اُس گنے کے کھیت میں گھس کر اندر چھپ بیٹھے.اتنے میں لوگ بھی کھیت کے پاس کے استعمال کی ترکیب سمجھا دی.رات کو وہ شخص وعدہ کی جگہ پر پہنچا اور دیوار پہنچ چکے تھے.کہ اندر سے آچھیں" کی آوازیں آنی شروع ہوئیں.گاؤں پھاند کر احاطہ کے اندر داخل ہوا ہی تھا کہ اُس کی محبوبہ دبے پاؤں سامنے سے والوں نے پہلے تو اُس کھیت کے گرد حلقہ ڈال کر ناکہ بندی کی پھر باقاعدہ آتی ہوئی نظر آئی.جھٹ لاحول پڑھ اُس نے وہ پڑیا کھولی.ایک بڑا سا پٹکا پارٹیاں بنا کر اندر داخل ہو گئے.اتنے میں ایک لالٹین بھی پیچھے سے آگئی.مگر بھرا اور دونوں نتھنوں میں دھر دبایا.بس پھر کیا تھا خدادے اور بندہ لے.نشان دہی کے لئے اس کی بھی ضرورت نہ تھی.آچھیں ہی کافی تھی.الغرض آچھیں، آچھیں، آچھیں، آچھیں پکڑے گئے تو خیر سے اپنے گاؤں کے ہی آدمی نکلے.اور وہ بھی دشمن ٹولہ " کون ہے کون ہے؟ کون ہے؟ پاس ہی سے کوئی سوتا ہوا آدمی بولا کے.آخر یہ فیصلہ ہوا کہ بجائے پولیس کے حوالہ کرنے کے ان کی اتنی مرمت چور ، چور چور، عاشق صاحب سمجھے کہ یہ چھینکیں عارضی تھیں بند ہو جائیں گی کر دی جائے کہ پھر ساری عمر دوبارہ ایسا کام نہ کر سکیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا ایک اور مجھے تو اب کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا وہیں جمے کھڑے رہے کہ اتنے میں اور بھی جوتا.دو جوتے.تین جوتے.آچھیں“ بھٹی چھینک آ گئی ہے پھر سے گنو.زیادہ زور سے نیا حملہ آچھیں کا شروع ہوا.مگر اُس کے پائے ثبات میں تزلزل ایک جوتا.دو جوتے.تین جوتے.آچھیں، غرض معلوم نہیں کہ کب تک یہ نہ آیا.کیونکہ اُسے یقین تھا کہ اب میں کسی کو نظر ہی نہیں آ سکتا.آخر گھر والا سلسلہ جاری رہا.لوگ مارتے مارتے تھک گئے مگر اُس کی آچھیں“ نہ تھی.اُٹھا محبوبہ تو پہلی ہی چھینک کے ساتھ فقر و ہو گئی تھی.گھر والا سیدھا مجرم کو خیر اچھی طرح پٹ پٹا کر بیچارہ اپنے گھر پہنچا تو وہاں اپنے لوگوں نے لعنت پکڑنے اس کی طرف دوڑا اور کہنے لگا کہ ”میں نے تجھے پہچان لیا ہے.او ملامت کی.لیکن آچھیں اُس وقت بھی جاری تھی.مگر پھر بھی اُس کے حُسنِ فلانے ٹھہر تو جا.جاتا کہاں ہے؟ اُس وقت اُس شخص کو پتہ لگا کہ میں تو عقیدت میں کمی نہ آئی.دوسرے دن بیچارہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس لوگوں کو نظر آ رہا ہوں.یہ جا وہ جا.یہاں سے کود ” آچھیں وہاں سے کود پہنچا کچھ حال سُنایا کچھ دکھایا اور کہنے لگا کہ ”ضرور کوئی کسر رہ گئی ہو گی“.اس پر چھیں گلی میں آچھیں موڑ پر آچھیں اتنے میں غل مچ گیا.”چور، ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے کہ اوہو بھئی تمہارے جانے کے بعد یاد آیا کہ میں چور ، آچھیں، آچھیں.ایک ضروری بات کہنی بھول گیا تھا.شاید تم کو میں نے نہیں بتایا تھا کہ باوضو گاؤں کے لوگ باہر نکل آئے اور تعاقب شروع ہو گیا.مگر میاں وہاں جانا بے وضو کی ناک میں یہ عمل وہ اثر نہیں کرتا“.بیچارہ سُن کر کہنے لگا آچھیں کو بھی اپنی موت نظر آئی تھی.اس لئے ٹانگوں میں غیر معمولی طاقت پیدا ”اب تو کان کو ہاتھ لگاتا ہوں ایک دفعہ کسی اور پر آزما کر پھر بتائیے گا.میری ہو گئی تھی.اگر چہ دوڑنے میں ہرن کو بھی مات کرتے جاتے تھے مگر آچھیں“ تو ہمت نہیں پڑتی.ایسا نہ ہو پھر کوئی بات رہ جائے“.کا سلسلہ برابر جاری تھا.حتی کہ گاؤں سے باہر نکل آئے مگر آچھیں“ کی وجہ " " ( نوٹ از مصنف) اس قصہ سے ملتا جلتا ایک قصہ فسانہ آزاد میں بھی 1
65 64 پڑھا ہے.شاید ڈاکٹر صاحب موصوف نے بھی وہی پڑھ کر اس بے وقوف شخص بھئی واللہ کیسا مزیدار چلاؤ ہے آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں؟ مگر وہ بچارے کو اپنا تختہ مشق بنایا ہو گا.(30) پلاؤ میں دانت انہی میرے ہم نام ڈاکٹر صاحب کا ذکر ہے کہ ان کو پلاؤ کھانے کا کیا کھاتے اُن کے دانتوں نے تو اس پلاؤ کو کھانے کے قابل چھوڑا ہی نہ تھا.(31) دواؤں کا مرتبان میرے ایک دوا خور مہربان جو ہر وقت اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے از حد شوق تھا.اور پلاؤ بھی رکابی میں نہیں بلکہ بڑے طباق یا سینی میں ڈال کر.ہیں.میں اکثر جب بھی اُن سے ملتا تو ہمیشہ یہی سنتا کہ انہیں شکایت رہتی ہے لوگوں کو بھی اُن کا یہ شوق معلوم تھا.ایک دن کسی دوست نے دعوت کی جس کہ بھوک بالکل نہیں ہے.برسوں میں نے یہ سنا پھر جو معلوم کیا تو حسب ذیل میں بہت سے آدمی بلائے گئے.میزبان نے سب کے آگے تو پلاؤ کی رکابیاں حالات اور اسباب اس مرض کے روشنی میں آئے:.رکھیں مگر اُن کے آگے ایک بڑی سینی بھر کے رکھوا دی.وہ بھی دیکھ کر بہت خوش صبح 5 بجے ملازمہ نے آکر جگایا کہ ”میاں اذان ہو رہی ہے میاں ہوئے اور کہنے لگے کہ ”طباق یا سینی میں بہت سا پلاؤ سامنے رکھنے کا مجھے نے کہا ”ہوں“ ملازمہ نے کہا ”میاں یہ معجون کھا لیں“ چنانچہ انہوں نے کھا صرف شوق ہی شوق ہے.میں اتنا کھا نہیں سکتا.آپ میں سے تین چار آدمی لی.تھوڑی دیر میں آواز آئی.”میاں وضو کر لیں“ اور دوسری ملازمہ بولی ”میاں میرے ساتھ اسی سینی کے کھانے میں شریک ہو جائیں.یہ گولی اور عرق پی لیں.چنانچہ پی لی اور وضو کر کے نماز پڑھ لی.سلام خیر چند دوست شریک ہو گئے.اُن کی یہ بھی عادت تھی کہ خود ہی لطیفہ پھیرتے ہی ہمدرد دوا خانہ دہلی کا ایک قرص اور ماء اللحم دو آتشہ آدھ پاؤ پیش کہا کرتے تھے اور خود ہی سخت قہقہہ مار کر ہنسا بھی کرتے تھے.دعوت میں ہوا.پی کر لیٹ گئے.آٹھ بجے ناشتہ سے پہلے ہندوستانی دواخانہ کا گلقند اور باتیں کرتے کرتے انہوں نے کوئی بات مذاق والی کہی جسے سُن کر سب ہنس شربت بنفشہ استعمال کئے گئے.ناشتہ پھر کیا کرنا تھا.مگر اس کے بعد ہاضمہ کا پڑے.مگر دوسروں سے زیادہ وہ خود ہنسوڑے تھے.اس زور سے منہ کھول کر چورن البتہ چاٹا گیا.دوپہر کو صرف عرق گاؤ زبان کیوڑہ اور بید مشک کا ایک قہقہہ لگایا کہ منہ کا سارا لقمہ دانہ دانہ ہو کر باغ کے پھوارہ کی طرح نہ صرف گلاس پیا گیا.دو بجے بعد دو پہر کھانے سے پہلے مفرح عنبری بمع عرق ماء اللحم ساری سینی پر بلکہ دوسرے ساتھیوں کے کپڑوں اور چہروں پر بھی بکھر گیا.اور سه آتشه نوش فرمائی گئی.مگر بھوک پھر بھی نہ کھلی کھانے کے بعد نمک سلیمانی اور ساتھ ہی ان کے مصنوعی دانتوں کا ثابت چو کا منہ سے نکل کر عین سینی کے کوئی اور مرکب سفوف مع عرق سونف معتدل کے پیا گیا.اور اُس کے آدھے بیچوں بیچ بمب کی طرح پھنس گیا.دیکھنے والوں کے پیٹوں میں ہنس ہنس کر بل گھنٹہ بعد معجون سنگدانہ مرغ.عصر کے وقت ایک قدح پھر اسی قسم کے جو شاندہ پڑ گئے.مگر ڈاکٹر صاحب نے بھی بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ وہ دانتوں کا چو کا تو کا جو گلے اور معدہ کے بلغم کو صاف کرے پیا گیا.کہ اتنے میں تیسرے پہر کا جھٹ منہ میں ڈال لیا اور پکار پکار کر اپنی سینی کے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ ناشتہ اور چائے آئی مگر بوجہ بھوک نہ ہونے کے خواہش کے ساتھ نہ پی جاسکی.
67 66 صرف ایک پینڈی پسے ہوئے پستوں اور باداموں کی بمشکل کھائی گئی.مغرب کے ہاؤس سرجن سے کہنے لگے کہ ”ویل آئی ہاوس سرجن صاحب! میرے لئے کی اذان کے وقت معجون فلاسفہ ہمراہ شربت بزوری 3 تولہ اور عرق سونف کچھ زنک لوشن آنکھ کی سوزش کے لئے بنا کر بھیج دینا“.اس بچارے نے اپنے معتدل آدھ پاؤ.کے آہستہ آہستہ کھایا پیا گیا.بعد از نماز مغرب دوائے مسکن ہاتھ سے ایک اچھی سی نئی شیشی دھو کر صاف کی.پھر نہایت احتیاط سے تازہ زنک لوشن بنا کر خود گرانٹ صاحب کے لئے لے کر آیا.صاحب نے شیشی اعصاب مع مفرح یا قوتی و مرتبه برگ پان کے نوش فرمائی گئی.پھر ایک گھنٹہ بعد صبح والی گولی اور عرق دہرائے گئے.اور رات کا کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ میں لے کر کہا.گرانٹ صاحب: - " کیا میں تمہارا دشمن ہوں یا تم کوئی پرانا انتقام مجھے پھلوں کا رس ایک گلاس اس قرص شفاء اور جوارش جالینوس کے ساتھ استعمال کیا گیا.مگر جب کھانا آیا تو بھوک نہ تھی.مجبوراً بے بھوک ہی کھا لیا گیا.عشاء کی سے لینا چاہتے ہو؟“ نماز کے بعد سونے تک ملازمہ نے دو دفعہ ایک ایک گھنٹہ کے وقفہ سے بعض ہاؤس سرجن : (حیران ہو کر) ”نہیں جناب میں تو آپ کے لعوق اور دوائیاں لا کر کھلائیں.ایک تو کوئی چھٹانک بھر وزن کا ہوگا اور دوسری فرمانے کے بموجب زنگ لوشن بنا کر لایا ہوں.“ ایک گولی بمع شربت اکسیر معدہ جو آدھے گلاس کے قریب ہوگا.رات کو نفخ اور گرانٹ صاحب نہیں تو یہ تو شورہ کا تیزاب ہے.خالص 66 قراقر کی وجہ سے بآرام نیند نہ آئی سینہ جلتا رہا.چھاتی پر بوجھ تھا اور گلے میں تیزاب.نائٹرک ایسڈ.“ خراش ذرا سوچنے کی بات ہے کہ صرف دوائیں شربت اور عرقیات ہی تین سیر ہاؤس سرجن : - ( پریشان ہو کر ) ”آپ کو غلط نہی ہوئی ہے یہ صرف کے قریب جب پیٹ میں جاتی رہی ہوں تو پھر کھانا کس جگہ جائے؟ اور کیونکر زنک لوشن ہے اور میں اپنے ہاتھ سے تیار کر کے لایا ہوں.“ ہضم : ہو.ہر وقت دواؤں کی عادت بھی ایک مصیبت ہے.اور سو بیماریوں کی گرانٹ صاحب:.اس کا ثبوت ایک بیماری خدا محفوظ رکھے.(32) بوتل برليبل رہا ہوں." 66 ہاؤس سرجن : ”میں خود اپنے ہاتھ سے بنا کر ابھی سیدھالئے چلا آ گرانٹ صاحب:.افسوس ہے کہ میں نہیں لے سکتا.آپ کے میں لاہور میو ہاسپٹل میں ایک زمانہ میں ہاؤس (House) سرجن پاس جو ثبوت ہے اس پر آپ خود ہی تسلی پا سکتے ہوں گے.میری تسلی نہیں بھی رہا ہوں.اُس وقت ایک پروفیسر کرنل گرانٹ نامی کچھ دنوں کے لئے کالج ہے.میں تو اسے تیزاب ہی خیال کرتا ہوں.اسے لے جائیے میں ایسی کے پرنسپل اور ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ بنا دیے گئے تھے.ان میں کامن سنس خطرناک چیز اپنی آنکھوں میں نہیں ڈال سکتا.“ (Common Sense) بہت تھی.ہم چار ہاؤس سرجن شفا خانہ میں بیک وقت موجود تھے.ایک دن کرنل گرانٹ کی آنکھ جو دُ کھنے آئی تو آنکھوں کے محکمہ ہاؤس سرجن : میں آپ کے ارشاد کا مطلب سمجھا نہیں؟“ گرانٹ صاحب - ہاؤس سرجن صاحب! ہر شیشی پر دوا کے نام کا
69 68 لیبل ہونا ضروری ہے جس سے معلوم ہو کہ اس کے اندر کیا ہے.ورنہ پھر سا کافور کھا کر آتے تھے تو کچھ بخار اُن کو ہو جاتا تھا.پھر ایک زمانہ آیا تو پلیگ سوائے اعتبار کے ہمارے پاس کوئی ثبوت باقی نہیں رہتا.آپ زنگ لوشن تو بنا کا ٹیکہ کہیں سے کرا کر سرٹیفیکیٹ لینے آجاتے تھے.ان کو 102 یا 103 بخار ہو لائے مگر دوا سازی کا پہلا اصول ہی بھول گئے.اب میں یہ کہنے میں حق جایا کرتا تھا.مگر اب اس سے بھی زیادہ آسان ترکیب نکلی ہے یعنی دودھ کا ٹیکہ بجانب ہوں کہ یہ تیزاب ہے.نہ کہ زنگ لوشن.اگر لیبل نہ ہوا کریں تو لوگوں اس سے تو بعض اوقات 105 تک بخار ہو جاتا ہے.بخار تو ایک رات رہتا کی جانیں خطرہ میں پڑ جائیں اور جس نے زبانی طور پر جو نام جس دوا کا رکھ ہے مگر ایک ہفتہ کی چھٹی کا سرٹیفیکیٹ ضرور مل جاتا ہے“.دیا اگر وہ مان لیا جائے تو اندھیر آ جائے.اس لئے ہرشیشی پر لیبل ضروری ہے (34) بہت چالا کی بھی نقصان دہ ہو جاتی ہے 66 تا دھوکا نہ رہے اور بیمار نقصان نہ اُٹھا ئیں.“ یہ قصہ ہم سب پڑھے لکھے لوگوں کے لئے جن کے گھروں میں ایک تحصیلدار صاحب قبل از وقت پوری پنشن پر ریٹائر ہونا چاہتے دوائیاں اور شیشیاں رہتی ہیں بہت اچھا سبق ہے.اگر بوتلوں پر ہمیشہ لیبل اور تھے.ایک دن انہوں نے اپنا پیشاب مجھ سے ٹیسٹ کرایا تو اُس میں کچھ شکر دوا کا نام ہوتا تو بیسیوں حادثات سے لوگ بچ جاتے کبھی یہ ہوتا ہے کہ ایک تھی مگر بہت خفیف.مجھ سے کہنے لگے کہ ” مجھے سرٹیفیکیٹ لکھ دیں کہ اس کے پیشاب میں شکر پائی جاتی ہے.میں نے سرٹیفیکیٹ لکھ دیا.اس کے بعد انہوں نے عرضی دی کہ ”مجھے ذیا بیطیس ہو گیا ہے اور شکر آتی ہے مجھے فوراً ہیں.پھر مجبوراً وہ دوا پھینک دینی پڑتی ہے کہ خدا جانے کیا چیز اس بوتل میں ملازمت سے ریٹائر کیا جائے.اور ثبوت میں میرا ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کر مدت کے بعد لوگ بغیر لیبل کے بوتلوں کی دواؤں کے نام خود بھول جاتے 66 تھی.اور اس طرح کارآمد اور قیمتی دوائیں بھی ضائع ہوتی رہتی ہیں.ایک دفعہ اسی غلطی کے ماتحت کسی شخص نے اپنی آنکھ میں ایسے رین کی دیا.اس پر حکم آیا کہ تم چونکہ گزٹیڈ افسر ہو اس لئے میڈیکل بورڈ کے رُوبرو جگہ خالص کار بالک ایسڈ ڈال لیا تھا.اور میری ایک ملازمہ نے تیس سال پیش ہو.اُس کے فیصلہ پر پنشن مل سکے گی.چنانچہ تاریخ مقررہ پر وہ بورڈ ہوئے کہ نمک کی جگہ میرے سالن پر کوکین چھڑک دی تھی.یہ محض خدا کا فضل میں پیش ہوئے.وہاں کئی رخصت حاصل کرنے والے لوگ اور بھی کھڑے تھے.دفتر کا ایک چپڑاسی سب سے اپنا انعام مانگتا پھرتا تھا.باقی سب نے تو کچھ نہ کچھ دے دیا مگر انہوں نے تحصیلداری کے گھمنڈ میں کچھ نہ دیا.خیر جب اُن کی باری معائنہ کی آئی تو اُن کو ایک گلاس پیشاب کرنے کے لئے تھا جو میں بچ گیا.(33) بخار چڑھانے کی ترکیبیں ایک دن میں نے کسی مجلس میں کہا کہ میں جھوٹا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا دیا گیا.یہ کمرہ کے باہر برآمدہ کے کونہ میں ہی پیشاب کرنے بیٹھ گئے.شکر کرتا.وہاں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھے تھے کہنے لگے کہ لوگ مجھے تو دھوکا دے وغیرہ تو زیادہ آتی نہ تھی مگر انہوں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھ کر یہ حکمت سیکھ لی لیتے ہیں.میں بولا کس طرح؟ انہوں نے کہا کہ ” پہلے تو بعض لوگ بہت تھی کہ اگر گنے کی شکر جو عام طور پر کھائی جاتی ہے پیشاب میں گھول دی 1
71 70 جائے تو وہ پیشاب میں شوگر کا ٹیسٹ دے دیتی ہے.اس لئے تحصیلدار یہیں شفا خانہ میں داخل کر دو اور دونوں اس کے پاس رہا کرو.جب اچھا ہوگا صاحب گھر سے ایک پڑیا شکر کی لے کر گئے تھے گلاس میں پیشاب کرنے تو گھر لے جانا پنڈت جی نے میری بات مان لی.گرمی کا موسم تھا میں نے لگے تو آہستہ سے وہ پڑیا کھول کر گلاس میں ڈال دی پھر اُس میں پیشاب کر برآمدہ کی ایک طرف اُن کے لئے خالی کرادی اور علاج ہونے لگا.مگر بخار دیا.بدقسمتی سے وہ چپڑاسی جسے اُنہوں نے اپنے فیض انعام سے محروم رکھا تھا بڑھتا ہی چلا گیا حتی کہ اکیسویں دن بجائے کم ہونے کے 106 کے قریب تھا.یہ بات دیکھ رہا تھا.اُس نے اندر جا کر بورڈ کے کسی ممبر کو یہ بات بتا دی کہ پھر چوتھا ہفتہ بھی اس طرح گزرا.پانچواں بھی.چھٹا بھی.آخر دو مہینے ہو اس طرح پیشاب میں اس شخص نے ایک پڑیا ڈالی ہے.جب پیشاب ٹیسٹ گئے.لڑکا سوکھ کر کانٹا ہو گیا.سر کے بال سب جھڑ گئے کانوں سے بہرہ ہو گیا کیا گیا تو شکر تو اس میں واقعی نکلی مگر تھی دس فیصدی کے قریب اور جو اُن کی اور بالآخر آنکھوں سے بھی اندھا.نہ پہچانتا تھا نہ سنتا تھا نہ سمجھتا تھا.صرف بندر عرضی کے ساتھ پیشاب کے ٹیسٹ کا نتیجہ تھا اُس میں تین فیصدی کے قریب ے بچے کی طرح بار یک بار یک چیچنیں مارتا رہتا تھا.چوتڑوں اور کمر پر پڑے شوگر لکھی تھی.غرض شبہ پیدا ہو گیا.پھر اُن کو کہا گیا کہ گھنٹہ بھر انتظار کریں.پڑے زخم ہو گئے اور بالکل مشت استخواں رہ گیا.البتہ سانس تھا جو چل رہا تھا.اس کے بعد اسی کمرہ کے کونہ میں اُن کا بٹھا کر دوبارہ پیشاب کرایا گیا.اس ہوتے ہوتے ڈھائی مہینے گزر گئے اور ہر طرح نا امیدی کی صورت ہو گئی.اب دوسرے پیشاب میں ایک ذرہ شوگر کا نہ تھا.جب دھمکایا گیا تو اُنہوں نے اپنی چالاکی کا اقرار کر لیا.آخر اس جرم میں ملازمت سے برخاست ہو گئے.اور بجائے پوری پنشن ملنے کے نوکری بھی گئی اور پنشن بھی.کے مرا کہ اب مرا.ایک روز رات کے دو بجے کا وقت تھا کہ باپ نے میرے گھر کی گنڈی کھٹکھٹائی میں باہر آیا تو کہا.لڑکے کو چل کر ذرا دیکھ لیں.میں نے جا کر دیکھا تو نزع کی سی حالت تھی.تسلی دے کر کہا کہ پنڈت جی ! میں اور تم دونوں دو ڈھائی مہینہ سے اس مکان کو گرتے دیکھ رہے ہیں.اب خدا پر سارا " (35) مضطرب کی دُعا 1917ء کا ذکر ہے.میں پانی پت میں تھا کہ پنڈت تقریباً 45 سال معاملہ چھوڑ دو.اور صبر کرو.یہ صبح پکڑتا تو نظر نہیں آتا.پنڈت نے بے قرار کی عمر کا میرے پاس کبھی کبھی اپنے بارہ سالہ بچے کو علاج کے لئے لایا کرتا تھا.ہو کر ایک سخت اضطراب کی شیخ ماری اور کہنے لگا.ڈاکٹر صاحب! یہی ایک میرا بچارہ غریب آدمی تھا مگر سمجھدار.لڑکا اس کا اکلوتا بیٹا تھا.ایک دفعہ باپ اُسے بچہ تھا.اور آئندہ کے لئے بھی کوئی امید نہیں.دیکھئے اس وقت آدھی رات کا بخار کے علاج کے لئے لایا اور کئی دن برابر لاتا رہا.یہاں تک کہ تشخیص یہ ہوئی وقت ہے اور مرنے والے کے پاس جھوٹ بولنا پاپ ہے.پرمیشور حاضر ناظر کہ ٹائی فائڈ یعنی میعادی بخار ہے.جو عموماً تین ہفتہ تک رہتا ہے.بخار کو شاید ہے.یہ میری عورت سامنے بیٹھی ہے.یہ گواہ ہے کہ اس بچہ کے بعد میرا اس دسواں دن ہوگا کہ میں نے کہا کہ پنڈت جی! لڑکا اب زیادہ بیمار ہے اور تم کی ماں سے کوئی تعلق زوجیت کا نہیں رہا.اسے پیدل شفا خانہ لاتے لے جاتے ہو.تم میاں بیوی دونوں تو ہو ہی اسے اب لڑکا تو جاتا ہے.آئندہ کے لئے نسل چلنے کی بھی کوئی امید نہیں
73 72 میرے لئے تو سب راستے بند ہو گئے.اے خدا! اے پر میشور! رحم کر ! “ یہ کہہ میں ایک سال پہلے کا اُس رات والا واقعہ یاد آ گیا.کر وہ اس قدر مضطرب ہو کر چیچنیں مار کر رویا کہ میرے دل پر بے انتہا اثر ہوا میں نے کہا:- "پنڈت جی ! جھوٹ کہنے لگے.”خدا ہی کی قسم اور میں وہاں سے چپکے سے کھسک آیا.صبح ہوئی تو میں حیران تھا کہ ابھی تک کھاتا ہوں کہ یہ اُسی کا بھائی ہے.میں نے کہا ” اُس کا بھائی تو ہو گا مگر تمہارا رپورٹ نہیں آئی کہ وہ لڑکا مر چکا ہے.آخر شفا خانہ کے مقررہ وقت پر جا کر بیٹا نہیں ہے.کیا آپ کا وہ اُس رات کا اقرار اور اس پنڈتانی کی گواہی کافی اُسے دیکھا.تو ابھی زندہ موجود تھا.تین چار دن تک اُس کی وہی معلق حالت نہیں ہے؟ جو تم مجھے دھوکا دیتے ہو ؟ پنڈت روتا ہوا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا.رہی.پھر نہایت آہستہ آہستہ سُدھرنی شروع ہوئی.یہاں تک کہ ایک ماہ تک کہنے لگا ” مہاراج وہ بھی سچ تھا.اور جو دیکھ رہے ہیں یہ بھی سچ ہے.اُسے ہوش آ گیا.اور کچھ کچھ سننے لگا.پھر ایک ماہ اور گزرا تو چلنے پھرنے، میں نے کہا: "پنڈت جی ! کون سی بات سچی تھی؟ کہنے لگے 66 66 کھانے پینے لگ گیا.مگر اندھا تھا اور بہت اونچا سنتا تھا.مہاراج وہ بھی سچ تھا اور یہ بھی سچ ہے.اس پر مجھے تو وجد آ گیا.جی چاہتا میں نے کہا: ” پنڈت جی ! مبارک ہو.اب تم اسے گھر لے جاؤ تھا کہ وہیں زمین پر اُس رحیم و کریم خدا کے آگے جو مضطرب کی دُعاؤں کو سُنتا اور آب و ہوا کی تبدیلی کراؤ.لیکن ہفتہ وار اسے دکھا جایا کرنا.چنانچہ اسی اور قبول کرتا ہے سجدہ میں گر جاؤں.اور واقعی میرا دل گر بھی گیا.مگر بہت سے طرح ہوتا رہا.رفتہ رفتہ کان بھی ٹھیک ہو گئے اور نظر بھی واپس آنے لگی.حتی لوگ کھڑے تھے جگہ بھی نہ تھی میں کچھ شرما گیا.که نو دس مہینے کے بعد بالکل اچھا ہو گیا.صرف سر پر بال نہ تھے.ایک دن پنڈت کہنے لگا: ”وہ باتیں دل سے نکلی تھیں اور آدھی رات کو ست پنڈت جی لڑکے کو نہلا دھلا کر نئے بھڑک دار کپڑے پہنا کر میرے پاس دھرم یعنی یقین و ایمان اور دردِ دل سے نکلی تھیں.میرا لڑکا بھی بچ گیا میں بھی لائے.اور ایک تھال جس میں شاید ایک روپیہ کی مٹھائی ہوگی میرے آگے سرکا صحتیاب ہو گیا.اور دوسرا بچہ تو خدا کی خاص دین ہے.“ دیا.میں نے کہا: تمہاری بے قراری کی دُعا خدا کو پسند آئی.اور اُس پھر ایک طرف سے اپنی بیوی کو بلا یا.وہ بیچاری گھونگٹ نکالے میرے نے تو شاید اُس وقت ہی فرما دیا ہو گا کہ تیرے اس لڑکے کو بھی صحت دوں گا قدموں میں آ بیٹھی.پنڈت جی اُسے کہنے لگے.”دکھا بھی اری دکھاتی کیوں اور ایک نیا لڑکا بھی تجھے بخشوں گا.“ نہیں ڈاکٹر صاحب کو؟ میں سمجھا کہ نبض دکھانی ہو گی یا کوئی بیماری.اُس کی طرف توجہ کی تو اُس نے آہستہ سے اپنی جھولی کھول دی دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پندرہ میں دن کا چاند سا لڑکا گود میں سو رہا ہے.میں نے کہا: ”یہ کیا؟ پنڈت جی مسکرا کر فرمانے لگے کہ "پر میشر پنڈت جی کہنے لگے ” مہاراج بات یہی ہے.(36) کہ آئین جہاں گا ہے چنیں گا ہے چناں باشد 1918ء میں پانی پت ہی کا ذکر ہے کہ ایک شخص مع کئی رفیقوں کے نے میرے لڑکے کو دوسرا بھائی دیا ہے.یہ سُن کر بجلی کی طرح میرے ذہن میرے پاس لایا گیا.رپورٹ تھی کہ اس کے اُن ران یعنی چڑھے میں ایک
75 74 دن پہلے بندوق کے چھرے لگ گئے تھے.اور اس قدر بے حد خون گیا کہ جسم وہ شخص جوان اور تندرست تھا بہت جلد اس کی صحت ترقی کرتی گئی کا رنگ ہلدی کی طرح ہو گیا تھا.دیکھا تو واقعی اس کے جسم کا خون نچڑ چکا اور زخم بھی صاف ہوتا گیا.یہاں تک کہ بارہویں دن رات کے ایک بجے کسی تھا.میں نے پوچھا: ”کیا معاملہ ہوا ؟ اس کے ساتھی کہنے لگے کہ یہ شخص نے میرے گھر کی کنڈی کھٹکھٹائی.اور آواز دی کہ شیر خاں کے زخم سے خون گاؤں میں اچھی حیثیت کا زمیندار ہے.کل پولیس بعض مویشی کے چوروں کے جاری ہو گیا ہے.میں فوراً اُٹھ کر سیدھا اُس کے پلنگ پر پہنچا اور لالٹین کی تعاقب میں پھر رہی تھی کہ یہ بھی بطور امداد ان کے ساتھ چل پڑا.ایک جنگل روشنی میں دیکھا کہ وہ چپت پڑا ہے اور اُس کے زخم کی جگہ سے ایک موٹی دھار میں اُن کا چوروں سے مقابلہ ہو گیا.وہ نہر کے پرلے کنارے پر تھے اور یہ لہو کی فوارہ کی طرح دو فٹ اُچھل اچھل کر نکل رہی ہے اور جس طرح شالا مار ورلے کنارے پر.ان کو دیکھ کر چوروں نے فائر کر دیا.بہت سے چھڑے اس باغ کے فوارے میلہ چراغاں میں چلا کرتے ہیں.اسی طرح اسی خونی فوارہ کا شخص کے بائیں چڑھے میں گھس گئے.اور وہ جگہ چھلنی کی طرح ہو گئی.یہ گر بھی حال ہے.خیر میں نے جاتے ہی اس سوراخ پر اپنی انگلی رکھ دی جہاں پڑا.ہم اسے اُٹھا کر گھر لے آئے.مگر خون کسی طرح بند نہ ہوتا تھا.آخر جب سے خون کی دھار اُچھل کر نکل رہی تھی.اور خون بند ہو گیا پھر میں نے آدمی بہتے بہتے اس کے جسم میں خون ہی نہ رہا تو پھر بند ہو گیا.اب اسے داخل شفا بھیج کر اپنے تینوں کمپونڈروں کو بلا کر کہہ دیا کہ صبح 8 بجے اس کا آپریشن ہو گا.خانہ کر کے علاج کریں.چھ گھنٹہ باقی ہیں.آپ لوگ دو دو گھنٹہ کی ڈیوٹی لے لیں.آپ کا کام صرف یہ چنانچہ میں نے اُسے دیکھا تو معاملہ ویسا ہی تھا جیسا بیان ہوا تھا.ہے کہ اس دھار کی جگہ اپنی انگلی برابر رکھے رہیں تا کہ خون ضائع نہ ہو سکے.اور جس جگہ چھترے لگے تھے وہاں جسم کی بڑی بڑی خون کی نالیاں تھیں اور ایک بس اس کے بعد میں تو واپس چلا آیا.اور وہ لوگ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے چھڑے سے ان میں بھی سوراخ ہو گیا تھا.خیر میں نے اُسے رکھ لیا اور ڈریسنگ رہے.صبح چھ بجے اُٹھتے ہی آپریشن کی تیاری شروع ہو گئی.آٹھ بجے تک بیمار وغیرہ کا حکم دے دیا مگر.یہ مجھے معلوم تھا کہ جب جسم میں نیا خون پیدا ہو گا.میز پر اور میں چاقو ہاتھ میں لئے کھڑا تھا.غرض کلورا فارم دیا گیا اور مریض کا اور زخم میں سے چھیچھڑے وغیرہ صاف ہو کر نکلنے شروع ہوں گے تو شریان کا وہ پیٹ چاک کر کے چھترہ کے سوراخ سے او پر اس شریان کو ریشم کے تاگے سے سوراخ جو عارضی طور پر بند ہو گیا ہے پھر کھل جائے گا اور خون پھر اُسی طرح باندھ دیا گیا.پھر پرانے زخم سے اُنگلی اُٹھا کر دیکھا تو خون بالکل بند تھا.میں جاری ہو جائے گا.جیسے پہلی دفعہ ہوا تھا.نے شکر کیا کہ خون بہنے کا مستقل انسداد ہو گیا.مگر ابھی ایک اور خطرہ لاحق تھا.وہ آدمی متمول تھا اور اُس کے پاس کئی خدمتگار ہر وقت رہتے تھے.وہ یہ کہ اس آپریشن سے بائیں ٹانگ اور دورانِ خون بالکل بند ہو گیا تھا.بعض میں نے اُن سے کہہ دیا کہ اس کو کچھ دن کے بعد یک دم پھر خون جاری ہو حالات میں یہ بند نہیں بھی ہوتا.مگر اس کا بند ہو گیا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے جائے گا.اور خواہ کوئی وقت بھی ہو تم فوراً مجھے اطلاع دے دینا.شرم نہ کرنا کہ دن کے بعد وہ ٹانگ بے جان ہو کر سڑنے لگی اور ایک ہفتہ تک ساری کالی پڑ ڈاکٹر صاحب آرام میں ہیں ورنہ اس کی خیر نہ ہوگی.گئی.مجبوراً دوسری دفعہ آپریشن کرنا پڑا.اور ساری ٹانگ بن ران تک کاٹ کر
77 76 علیحدہ کر دی گئی.اس کے بعد پھر کوئی حادثہ نہیں ہوا.زخم بہت اچھی طرح بھرتا کے بعد مخالف رشتہ داروں نے میری ساری زمینیں ہتھیا کر خود کاشت کرنی رہا مگر آدمی ایک ٹانگ کا رہ گیا.جب میں اُسے دیکھنے جاتا تو کہا کرتا کہ شروع کر دیں.میں تن تنہا ، لنگڑا اور معذور بھلا کیا کر سکتا تھا.آخر انہوں نے غینمت ہے جان تو بچ گئی.میرے پاس کھانے پینے کو بہت کچھ ہے مگر چونکہ مجھے گاؤں سے بھی نکال دیا.یا تو وہ امارت تھی یا اب بھیک مانگتا پھرتا ہوں“.اب میں چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا ہوں ضرورت کے لئے ایک مصنوعی میں نے کہا: ”تم تو کہتے تھے کہ سلائی کی مشین لے لوں گا.بلا سے درزی کا ٹانگ جیسی آپ فرماتے ہیں لگوالوں گا اور دل بہلانے کے لئے ایک مشین کام ہی کر لیتے.کہنے لگا "سلائی کی مشین کیسی؟ مجھے تو اب ایک اچھی سی سلائی کی خرید لوں گا اور شوقیہ درزی بن جاؤں گا.بانس کی لاٹھی خریدنے کی بھی توفیق نہیں.جو ذرا سیدھا ہو کر ہی چل پھر سکوں خیر اس طرح وہ تقریباً اچھا ہو گیا کہ 1918ء کے انفلوئنزا کی وبا وہ مصنوعی ٹانگ پانچ سو روپے میں لینے اور سلائی کی مشین دوسو میں خریدنے پھوٹ پڑی اور اُس کے گاؤں سے خبر آئی کہ لوگ مکھیوں کی طرح مر رہے کے بھی خواب ہی تھے.اب تو آدھے پیٹ روٹی بھی مل جائے تو غنیمت ہیں.یہی حال خود پانی پت شہر کا تھا.اس لئے وہ بھی اجازت لے کر اپنے ہے.گاؤں چلا گیا اور کہہ گیا کہ مصنوعی ٹانگ میں آپ کی معرفت اور آپ کی صلاح سے خریدوں گا اور کبھی کبھی مشورہ کے لئے بھی آتا رہوں گا.یہ کہہ کر وہ چشم پر آب ہوگیا اور میں بھی.کیونکہ میں نے اُس کی جو شان گذشته سال دیکھی تھی.کہاں وہ حال اور کہاں ہی.وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ط (37) ریلوے چور وہ تو چلا گیا.مگر اس کے بعد انفلوئزا نے دُنیا کو سب کچھ بھلا دیا.جب اس مصیبت سے ذرا ہوش آیا تو اور مصروفیتوں کی وجہ سے مجھے اس کا کبھی خیال بھی نہیں آیا.اسی طرح ایک سال پورا گزر گیا.ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص لاٹھی ٹیکتا اور ایک ٹانگ سے کودتا پھد کتا سامنے سے چلا آرہا ہے.اُس کی صورت پر ایسی سیاہی ، مفلسی اور نحوست برس رہی تھی کہ میں نے مجھے اطلاع ملی کہ پنجاب میل کے نیچے آکر ایک شخص زخمی ہو گیا ہے.اسے اُسے مطلق نہ پہچانا.نزدیک آکر اُس نے سلام کیا اور کہا کہ آپ نے شاید ریلوے اسٹیشن پر سے ڈریسنگ کر کے سول ہسپتال بھیجا گیا ہے اور ریل کے قلی مجھے نہیں پہچانا.میں پچھلے سال والا شیر خان ہوں“.پانی پت ہی کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ گرمیوں میں عین نصف شب کو اس زخمی کو چار پائی پر ڈال کر شفاء خانہ میں لائے ہیں.میں نے باہر نکل کر میں حیران رہ گیا.پوچھا ”شیر خان یہ کیا حال ہے؟ کہنے لگا اُسے دیکھا.دونوں پنڈلیوں پر سے گاڑی کے پہیے پھر گئے تھے.ہڈیاں چور قسمت! اُسی وقت مرجاتا تو اچھا تھا.اس وقت میرے اتنے رفیق تھے.چور ہوگئی تھیں.اور دونوں ٹانگیں اس قابل تھیں کہ اُن کو گھٹنوں پر سے کاٹ کر اتنے خدمتگار تھے.جب ہم گاؤں پہنچے تو انفلوئنزا سے وہ سارے کے سارے الگ کر دیا جائے.میں نے مضروب کو مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا.اور صبح تک انتظار مر گئے جو ہٹے کٹے اور تندرست تھے.اور میں جو بیمار تھا اکیلا رہ گیا.چند روز کرنے کے لئے کہہ دیا.وہ پورے ہوش میں تھا.اور اپنی موجودہ مصیبت پر
79 78 معمول کرا دیں.صابر و شاکر نظر آتا تھا.میں نے کہا: تمہیں یہ حادثہ کیونکر پیش آیا؟ کہنے لگا خیر رات تو جوں توں کر کے گزری.دن چڑھا تو میں نے اُسے بے ڈاکٹر صاحب! آخر کسی دن یہ پیش آنا ہی تھا.سو آج ہی آ گیا.معاملہ یہ ہے ہوش کر کے دونوں ٹانگیں گھٹنوں پر سے کاٹ ڈالیں.پھر مریض کو چھپر وارڈ کہ میں پرانا ریلوے چور ہوں یعنی گاڑی میں چوری کیا کرتا ہوں میرا علاقہ میں جو میرے مکان سے زیادہ قریب تھا رکھ دیا.اور میں خود شفاء خانہ کا کام بارہ سال سے یہی دہلی کا لکا لائن ہے.پولیس شروع سے ہی میرے پیچھے لگی کرنے پر لی طرف چلا گیا.دو (2) بجے گھر میں آیا.وہ رمضان کا مہینہ تھا.ہوئی تھی مگر میں آج تک پکڑا نہیں گیا تھا.لیکن آج پولیس نے نہیں بلکہ خدا میری بیوی نے سُنایا کہ ایک شخص نے مجھے ہمارے نوکر کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ نے پکڑ لیا.میں نے کہا: ”کیا بات ہوئی؟ کہنے لگا ” گیارہ بجے شب کو بیگم صاحب سے عرض کر دو کہ ایک ریلوے چور ہسپتال میں آیا ہوا ہے اُس کی ڈاک یہاں کے اسٹیشن پر پہنچتی ہے.اُس وقت انگریز لوگ ریل میں سونے کی دونوں ٹانگیں آپ کے ڈاکٹر صاحب نے کاٹ دی ہیں.وہ کہتا ہے کہ مجھے تیاری کرتے ہیں.اور اُن کے بیرے جو نوکروں کے کمپارٹمنٹ میں ہوتے دودھ تو مل گیا ہے مگر کچھ برف اور آم درکار ہیں آپ فوراً ان دونوں کا انتظام ہیں.انہیں شب بخیر کہنے فسٹ کلاس گاڑی میں جایا کرتے ہیں حسب.آج بھی جب نوکروں کا خانہ خالی تھا اور خانساماں وغیرہ اپنے صاحب لوگوں کی میری بیوی کو چونکہ گزشتہ رات اس کے شفا خانہ میں داخل ہونے اور گاڑیوں میں گئے ہوئے تھے تو میں سرونٹ کے خانہ میں چڑھ گیا وہان دو (2) اس کی قابلِ رحم حالت وغیرہ کا علم تھا اس لئے اُس نے جھٹ پٹ یہ دونوں کوٹ ٹنگے ہوئے تھے.اُن کی جیبوں میں جلدی جلدی ہاتھ مار کر میں نے چیزیں بازار سے منگوا کر اُسے بھیج دیں.بس پھر کیا تھا پانچ پانچ منٹ کے بعد گھڑیاں اور نقدی کے بڑے نکالے اور دوسری طرف سے دروازہ کھول کر فٹ پیامبر آتا تھا.بیگم صاحب کو کہہ دو کہ ایک گلاس میرے لئے بھیج دیں.بیگم بورڈ پر کھڑا ہو گیا.اتنے میں ڈاک گاڑی چل دی.پلیٹ فارم کی طرف سے صاحب کو کہہ دو کہ ذرا سا نمک بھیج دیں“.بیگم صاحب کو کہہ دو کہ ایک تولیہ وہ خانساماں لوگ اپنے خانہ میں داخل ہوئے اور میں نے دوسری طرف سے مجھے درکار ہے“.بیگم صاحب سے کہہ دیں کہ کوئی عمدہ عطر ہو تو کچھ بھیج زمین پر چھلانگ لگائی.مالِ غنیمت میرے پاس تھا ہی مگر قسمت میں نہ لکھا تھا.دیں.کلوروفارم کی بدبو سے دماغ پریشان ہے“.بیگم صاحب سے کہہ دیں کہ چھلانگ لگاتے ہی پاؤں میں سگنل کا تار اُلجھ گیا.چکرا کر لوٹ پوٹ ہو گیا.مگر الا بچی ڈال کر ایک پان تمباکو والا بھیج دیں.گردن اور دھڑ کی جگہ دونوں ٹانگیں ریل کے نیچے کچلی گئیں پھر بھی خیریت غرض دو گھنٹوں میں دس مطالبات اس کے بیگم صاحبہ کی خدمت میں گزری میری چیچنیں سُن کر گاڑی کھڑی کر دی گئی.اتنے میں صاحب لوگوں کے پہنچ گئے اور پورے بھی کر دیے گئے جب میں گھر آیا تو یہ سب حال معلوم ہوا.نوکروں کو بھی اپنی چوری کا علم ہو گیا اور سارا معاملہ ریلوے پولیس پر کھل گیا.میں نے کہا: یہ شخص پہلے چوریاں کیا کرتا تھا.اب اُس نے ڈاکہ ڈالنا شروع مجھے ڈریسنگ کر کے ریلوے ڈاکٹر نے آپ کے پاس بھیج دیا.اگر بچ گیا تو جو کر دیا ہے.میں نے اُس کے لئے ہر چیز کا بارام کا بندوبست کر دیا ہے تم اس بد معاش کو منہ نہ لگاؤ.کہ اتنے میں چھپتر وارڈ میں سے ہمارے گھر کے قریب مقدمہ چلے گا سو چلے گا ہی.
81 80 ہی تھا آوازیں آنی شروع ہوئیں.بیگم صاحب! بیگم صاحب جی!! بیگم دن اچھی طرح دونوں ٹانگوں کی پٹیاں خوب نمایاں کر کے شفا خانہ کے مہتر کی صاحب !! رحم کرو.رحم کرو، اجی بیگم! بیگم صاحب!! ارے کوئی بیگم صاحبہ گردن پر سوار ہو گیا اور کہنے لگا کہ ”چل عید گاہ لے چل.تجھے تیرا حق پورا سے جا کر کہہ دو کہ ریلوے چور جس کی ٹانگیں کئی ہیں جامنیں مانگتا ہے.خیر وہ دوں گا.بس آج ہی کمائی کا دن ہے.وہ بھی لالچ میں آ گیا.عید گاہ میں وہ تو پہلا دن تھا.جامنیں بھی آگئیں.مگر میں نے یہ انتظام کر دیا کہ آئندہ اس کا چور اپنی کئی ہوئی ٹانگیں دکھاتا اور خیرات وصول کرتا پھرا حتی کہ دس پندرہ کوئی پیغامبر ہمارے گھر میں نہ آئے.بلکہ ایک کمپاؤڈر کی ڈیوٹی بھی لگا دی کہ روپے وصول ہو گئے.اُن میں سے مہتر کو ایک روپیہ دیا.باقی جیب میں جو چیز مناسب اور ضروری ہو وہ اس کے لئے بازار سے منگوا دی جایا کرے.رکھے.اس کے بعد پھر اُس نے روزانہ یہی معمول کر لیا کہ مہتر کی پشت پر سوار اس کے بعد وہ شخص تندرست ہونا شروع ہوا اور اُس نے شفا خانہ کی ہو کر بازاروں میں نکل جاتا اور دو چار روپیہ با قاعدہ کمائی کر لاتا.میں نے یہ زندگی بڑے ٹھاٹھ کے ساتھ شروع کی.دوسرے تیسرے دن ہی مجھ سے کہنے حال سُن کر پوچھا تو کہنے لگا.میں اپنی سلائی کی مشین کے لئے سرمایہ جمع کر لگا کہ اب میں انبالہ میں سلائی کی مشین خرید کر اور درزی بن کر گزارا کروں رہا ہوں.اچھا تو وہ جلدی ہی ہو گیا تھا مگر اس کے مقدمہ کی پیشی مجسٹریٹ گا.چار دفعہ قید بھگت چکا ہوں.اسی ریلوے کی چوری کی بدولت یہ پانچویں کے روبرو ہونی باقی تھی.اس وجہ سے اُسے شفاخانہ سے رخصت نہیں ملتی تھی.دفعہ ہو گی.دیکھئے کیا سزا ہو".خیر آٹھویں دن اُس کے ٹانکے کاٹ دیے گئے.آخر وہ تاریخ بھی آگئی.مجسٹریٹ صاحب کو میں نے صاحب ڈپٹی کمشنر سے زخم اچھے ہو چکے تھے.رمضان کا آخری روزہ تھا.کہنے لگا ” مجھے ایک گھنٹہ کے بقیه حاشیه صفحه گذشته: تہذیب و شائستگی کو ملیا میٹ کر ڈالا.یہ داستان بے حد لئے کل عید گاہ جانے کی اجازت مل جائے“.میں نے کہا.” کیونکر جاؤ گے؟ درد ناک اور حد سے زیادہ دلخراش ہے.جب پانی پت کی بربادی اور مسلمانانِ کہنے لگا.کسی کو پیسے دے کر اُس کے کندھے پر چڑھ جاؤں گا.ذرا مسلمان پانی پت کی تباہی کا خیال آتا ہے.کلیجہ پر سانپ لوٹ جاتا ہے.بڑی بڑی بھائیوں کی عید رونق تو دیکھ لوں.میں نے اجازت دے دی اور وہ دوسرے ، نایاب لائبریریوں اور عظیم الشان علمی ذخیروں کو ظالموں نے جلا جلا کر اور بھاڑ 1 صد ہزار افسوس! کہ اب وہ عید اور اُس کی رونق سب خواب و خیال ہو پھاڑ کر برباد کر دیا.ہم خانماں برباد لوگ جب تک زندہ رہیں گے اپنی علمی گئے.نومبر 1947ء میں مسلمانانِ پانی پت کی چالیس ہزار آبادی کو نہایت درجہ بربادی پر خون کے آنسووں سے روتے رہیں گے.خود میرا بڑا عجیب وغریب ناچاری و بے بسی اور انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں سخت مجبوری کے ساتھ کتب خانہ تھا.اور میں نے بڑی محنت اور نہایت شوق سے اُسے جمع کیا تھا.سکھوں اور ہندوؤں نے فوج اور پولیس کی مدد لے کر اُن کے گھروں سے نکال لیکن اس فتنہ عظیمہ سے سارے کا سارا تباہ ہو گیا.جن علمی مسودات پر میں نے دیا.اُن کے مال و اسباب، زمین و جائداد پر زبردستی قبضہ کر لیا اور اُن کی تمیں (30) برس محنت کی تھی سب ہی تو برباد ہو گئے.اور میں اُن کو یاد کر کے مسجدوں اور عیدگاہ کو ڈھا دیا.اور اس طرح مسلمانوں کی ایک ہزار برس کی آج حسرت کے ساتھ آہیں بھر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق محمد اسمعیل پانی پتی (آمین) دے.
83 وو 82 سفارش کر کے شفا خانہ میں ہی عدالت کرنے کا حکم دلوا دیا تھا.وہ مع عملہ کے ایک اور صاحب تھے.کسی چھکڑے والے کے چھکڑے سے بازار تشریف لے آئے.مسل مقدمہ کی پیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ چار دفعہ کا سابق میں کسی آدمی کو کچھ چوٹ آگئی.وہ شفا خانہ آکر زخم کو پٹی لگوا گیا.آپ نے سزا یافتہ ہے.اب جو بھی سزا ملے گی وہ پہلی سزا سے دُگنی ہونی چاہیے.قاعدہ اُس سے اُس ٹھیلے والے کا پتہ پوچھ لیا.پھر ٹھیلے والے کے گھر پہنچے اور کہا کہ ہی ایسا ہے.میں نے عدالت سے کہا کہ اب تو خدا نے ہی اس سے انتقام ضرب شدید ہے اب بچہ جی تین سال کی قید تجھے ہونے والی ہے“.وہ بچارہ ڈر گیا.کہنے لگا.” کیا کروں اور کس طرح بچوں؟ فرمانے لگے.پانچ روپیہ لے لیا ہے.اور یہ ریلوے چوری کے قابل ہی نہیں رہا.آپ فیصلہ میں یہ لکھ دلوا تو میں معاملہ ملیا میٹ کرا دوں.ٹھیلہ والے نے اُسی وقت بھینٹ چڑھائی دیں کہ چونکہ قدرت خود ہی اس سے پورا پورا انتقام لے چکی ہے.اس لئے مزید سزا دینے کی ضرورت نہیں“.اور مطمئن ہو گیا.اور آئندہ کے لئے بھی شکر گزار رہا.کیونکہ کوئی مقدمہ نالش تو صاحب مجسٹریٹ کہنے لگے.” کیا بالکل ہی چھوڑ دوں؟ یہ تو ناممکن اس معاملہ میں تھی ہی نہیں.صرف کمپوڈر صاحب کی کارستانی تھی اور بس.ہے اور قواعد کے برخلاف.میں نے کہا: تا برخاستگی عدالت یعنی دس منٹ کی ایک اور بزرگوار تھے جو چند دن کے بعد بیمار کے زخم کو چھیل دیا سزا دے کر اسے دفع کیجئے.چنانچہ یہی کیا گیا اور اُس شخص کو شفا خانہ کے کرتے تھے.اور اس طرح چمڑا اُتار کر اپنا ٹیکس وصول فرمایا کرتے تھے.بعض ملازمین نے دوسرے دن انبالہ کی گاڑی میں سوار کروا دیا.ہم نے بھی شکر ادا بعض اُن میں سے واقعی دل کی توجہ کے ساتھ بیمار کی خدمت بھی کیا کرتے کیا.کیونکہ اُس کے مطالبات تعیش ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو چکے تھے.تھے.ایک دن ایک ڈسپنسر نے کسی بیمار کو کونین کا مکسچر پلایا.وہ آ کر مجھے کہنے اور روزانہ جو وہ شخص ایک مزدور کی گردن پر سوار ہو کر بازاروں میں کمائی کرتا لگا کہ لکھا تو آپ نے کونین مکسچر تھا مگر تھا بالکل پانی کی طرح پھیکا.میں پھرتا تھا اس میں بھی شفا خانہ کی بدنامی تھی.نے کونین مکسچر کی بوتل منگا کر جو اُسے چکھا تو خالص پانی.میں نے کہا ”ارے بھٹی کیہڑی مل! یہ کیا بات ہے؟ فرمانے لگے ”شاید میں اس میں کونین ڈالنا (38) ہر پیشے میں چالاک آدمی ہوتے ہیں بھول گیا“.ہر پیشہ میں اچھے آدمی بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی.ہمارے پیشہ تھی؟ میں نے پوچھا: ”پھر وہ کو نین کہاں گئی جو تمہیں کل نکال کر نہ دی میں بھی یہی حال ہے.ایک کمپاؤڈر میرے پاس تھا جو بیماروں کو کلوروفارم سنگھایا کرتا تھا.وہ آپریشن سے پہلے مریض اور اُس کے رشتہ داروں کو یہ سُنا دیا کرتا تھا کہ آپریشن کیا چیز ہے جان تو دراصل میرے ہاتھ میں ہے.جسے رکھی تھی کوئی بدمعاش اُڑا کر لے گیا.چاہوں اس کا مُردہ میز سے ہی اُٹھے.ایک دو دفعہ ایسی بات سُنانے کی دیر تھی کہ آپریشن سے پہلے ہی اس کی منفی گرم ہو جاتی تھی.اُس نے جواب دیا: ”اجی وہ پڑیا میں تھی.پڑیا میں نے میز پر میں نے کہا: ”یہ تو چوروں میں مور والی مثل ہو گئی.بہترین سزائیں بھی ایسے لوگوں کو دیں مگر کچھ اصلاح نہ ہوئی.
85 84 ایک دفعہ ایک لوہار قوم کا بیمار جو داخل شفا خانہ تھا اُس نے شکایت کی کہ ڈریسر مجھے سے ایک گھر پے کا مطالبہ کرتا ہے.اور تکلیف دیتا ہے.تحقیقات پر معلوم ہوا کہ معاملہ درست ہے.میں نے کہا:.عمدہ گھر پاکتنے میں بنتا ہے؟ لوہار نے کہا:- چودہ آنہ میں“.اُس نے کہا: میں کسی آدمی کا لڑکا ہوں“.مالی نے پوچھا: ” یہاں کیوں آیا“.لڑکا بولا: ایک بلا میرے سامنے اس درخت پر چڑھا تھا.پھر او پر جا کر غائب ہو گیا.میں اسے دیکھنے اوپر گیا تھا کہ کہاں غائب ہو گیا.اس پر مالی نے دریافت کیا کہ ”یہ آم کہاں سے آئے؟ جواب دیا کہ " میں نے ڈریسر پر چودہ آنے جرمانہ کر دیے اور اُس لوہار کو وہ پیسے دلوا یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں.آخر پکڑا ہوا میرے سامنے لایا گیا میں نے اُسے دیے مگر ناجائز وسائل کی آمدنی بند کرنی نہایت مشکل ام (39) ایک سیکنڈ میں رخصت ہوا ایک دن میں شفا خانہ میں بیٹھا تھا کہ ایک جوان عمر آدمی کمرہ کے اندر میرے سامنے دیوار کے پاس جو پیچ پڑا تھا اُس پر آکر بیٹھ گیا.میں نے کہا پہچان لیا کہ فلاں دوست کا بیٹا ہے.میں نے کہا: ”چھوڑ دو اس کا بھی ایک حق ہے.(41) اندھوں کی قسمیں ایک دن مسجد میں کھڑے ہوئے ایک صاحب غل مچا رہے تھے کہ " کیا تکلیف ہے؟ کہنے لگا ” پیٹ میں کچھ درد ہے اور نفخ ہے.میں یہ کہہ کر کوئی شخص میرا جوتا پہن گیا اور اپنا جوتا اُس کی جگہ چھوڑ گیا.وہیں ایک اور اپنی کرسی سے اُٹھا کہ ”ذرا اسی بینچ پر لیٹ جاؤ میں تمہارا پیٹ دیکھ لوں.وہ صاحب بھی موجود تھے کہنے لگے ”پیروں کا اندھا ہو گا.میں نے پوچھا لیٹ گیا.اور جب میں بینچ کے پاس پہنچا کہ مریض کا ملاحظہ کروں تو کیا دیکھتا پیروں کا اندھا کیسا ہوتا ہے؟ فرمانے لگے’پانچ قسم کے اندھے ہمارے تجربہ میں آئے ہیں.ایک تو ظاہری آنکھوں کا اندھا.جسے واقعی کچھ نظر نہیں ہوں کہ وہ مر چکا تھا.2 3 آتا دوسرا عقل کا اندھا تیسرا پیروں کا اندھا جس کے پیر اندھیرے میں 4.(40) یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں اپنی جوتی پہچان نہ سکیں.حالانکہ ہمارے دایاں پیر اپنے بائیں پیر تک کی 1925ء میں میں گوجرہ میں تھا.وہاں ہسپتال کے احاطہ میں بکثرت آم کے درخت تھے.اور اُن دنوں میں پھل بھی بکثرت آیا ہوا تھا.مگر کچا تھا.جوتی بھی پہچان لیتا ہے.اور اپنی جوتی تو فورا ہی معلوم کر لیتا ہے.چوتھا وہ اندھا جو پان بناتے وقت کٹھہ کی لکھیا میں چونے کی اور چونے کی مکھیا میں ایک چودہ سالہ لڑکا میرے ہی اپنے ایک مہربان کا وہاں آیا.اور سیدھا درخت پر چڑھ گیا.پندرہ میں آم توڑ کر جھولی میں ڈالے.جب نیچے اُترا تو مالی کا کتھے کی پیچی ڈال دیتا ہے.اور پانچواں اندھا جو باوجود دیکھنے اور جانے ہاتھ اُس کی گردن پر تھا.مالی نے کہا:.تو کون ہے؟ بوجھنے کے بیت الخلاء میں بیٹھ کر بجائے گھڑی کے یا اندر کی بالٹی کے قدمچہ کے اوپر پاخانہ کر دیتا ہے.
87 86 (42) مختلف صحتیں ہاسپٹل میں ایک شخص آیا جس کے دائیں پوٹے پر ذرا سی خراش لگ گئی تھی پھر ورم ہو گیا.پھر سر درد اور بخار اور بعد میں سرسام ہو کر دماغ کے پردوں میں ہو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا پندرہ سولہ سال کا اپنے باپ کے ہمراہ پیپ پڑ گئی.ابتداء میں جب اسے ہوش تھا تو اُس نے ہم سے پوچھا کہ یہ کیا شفا خانہ میں کسی گاؤں سے پیدل چلتا ہوا آیا.اُس کے پیٹ پر ایک نہایت بیماری ہے؟ کسی طالب علم نے کہہ دیا کہ انفلا میشن ہے“.اس کے بعد ہوش غلیظ اور گندہ کپڑا بندھا تھا.میں نے پوچھا: - " کیا ہے.کہنے لگا ”سور نے یا بے ہوشی اس کے منہ سے یہی لفظ نکلتا رہا.اور آخر مرتے وقت بھی اُس اپنی لات مار کر میرا پیٹ تین دن ہوئے پھاڑ دیا ہے.میں جنگل میں بکریاں کے منہ پہ یہ تھا ”انفلا فلا فلا انفلا فلا میشن.یہ ہے صحت شہر والوں کی.(43) لینے کے دینے چرا رہا تھا جب یہ حادثہ ہوا.میں نے پٹی گھلوائی تو اندر بھیٹر کی مینگنیاں اور نمدہ کے ٹکڑے بطور پلٹس زخم پر بندھے ہوئے تھے.اور بدبو کے مارے پاس کھڑا ہونا مشکل میں ایک سرحدی ضلع میں متعین تھا.وہاں ایک تمن یعنی بلوچی جاگیر تھا.بڑی مشکل سے زخم صاف کیا گیا.تو معلوم ہوا کہ پیٹ چار انچ پھٹ کر میں مسجد کا ملا اک صبح کو رفع حاجت کے لئے جنگل میں گیا.اس علاقہ میں اُس میں سے انتڑیاں اور پھر باہر نکلا ہوا ہے.میں نے لڑکے کو بے ہوش کر جھاؤ جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں بکثرت ہوتا ہے.وہاں بیٹھے بیٹھے اُس کے جس قدر پھیر باہر تھا کاٹ دیا.اور انتڑیاں نمک کے پانی سے اچھی طرح نے دیکھا کہ ایک رئیس کسی شخص کے ساتھ باتیں کرتا ہوا پاس سے گزر رہا دھو کر واپس اندر داخل کر دیں.پھر زخم کوسی دیا.ایک ہفتہ بعد ٹانکے کاٹ ہے.جھاڑیاں بہت گھنی تھیں جس میں سے ملا نے تو ان دونوں کو دیکھ لیا مگر دیے گئے اور لڑکا بغیر کسی تکلیف یا بخار کے اچھا ہو گیا.برابر سوکھی روٹیاں اور ملا کو کسی نے نہ دیکھا کہ اتنے میں اُس سردار نے اپنی تلوار نکال کر دوسرے گڑ کھاتا رہا.اگر کوئی شہری آدمی ہوتا تو پہلے بلے میں ہی اُڑ جاتا یہ ہے صحت ساتھی کی گردن پر ماری اور اُسے قتل کر دیا.پھر زمین کی مٹی سرکا کر وہیں اُسے دبا بھی دیا.یہ سین دیکھ کر ملا خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلا آیا.مگر ڈر کے اسی طرح ایک چو ہڑا جو نقب زنی کر رہا تھا عین موقعہ پر پکڑا گیا.مارے کسی سے کہہ نہ سکتا تھا.آخر مجبور ہو گیا اور ایک خط غالبا کمشنر صاحب کو بصیغہ راز لکھا کہ ”میں نے اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھا ہے.اور فلاں جگہ جنگلی لوگوں کی.گاؤں والوں نے اُسے اتنا پیٹا کہ کوئی ہڈی جسم کی سلامت نہ رہی دونوں ہاتھوں، باہوں اور بازوؤں کی ہڈیاں شکستہ ہوگئیں اسی طرح دونوں ٹانگیں بھی آپ خود نعش نکلوا کر دیکھ سکتے ہیں“.چور چور تھیں.کئی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں.نیچے کا جبڑا شکستہ تھا.اور سر پر بھی دو یا تین فریکچر تھے.مگر دوماہ بعد یہی شخص شفا یا کر گھوڑے کی طرح دوڑتا ہوا کمشنر نے ضابطہ کے طور پر وہ خط ڈپٹی کمشنر کو اور اُس نے پولیس کو دیا.پولیس نے جب مقام معلوم کو کھودا تو مقتول کی نعش گردن کٹی ہوئی اپنے گھر چلا گیا.یہ ہے دیہاتی لوگوں کی صحت.برخلاف اس کے لاہور میو نکل آئی.اس بات کی اطلاع قاتل کو بھی پہنچ گئی.اُس نے اُسی وقت اس
89 88 بات کا پتہ لگانا شروع کیا کہ میرے متعلق رپورٹ کس نے کی ہے؟ کیونکہ اُس پر حملہ شروع کر دیا.اتفاقاً ایک مسافر دُور راستہ پر سے گزر رہا تھا اُس کے دیکھنے والا تو کوئی تھا نہیں.آخر دفتروں اور کچہریوں سے کسی مخبر کی معرفت یہ ہاتھ کا نسٹیبل نے تھانہ میں پیغام بھیجا کہ میں یہاں محصور ہو گیا ہوں.اور میری پتہ لگ گیا کہ آپ کی مسجد کے مُلا صاحب ہی کی یہ کارستانی ہے.اور خط پر زندگی خطرہ میں ہے تھانہ سے فورا مدد بھیجی جائے.اس پر تھانہ سے پولیس کے اُسی کا نام ہے.پھر تو رئیس نے فوراً کئی چشم دید گواہ قتل کے کھڑے کر دیئے.بہت سے سپاہی بندوقوں سے مسلح ہو کر آئے اور باقاعدہ فائرنگ شروع ہوا.بہت سے گدھ مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے.تب جا کر کہیں بڑی مشکل سے اس سپاہی کو خلاصی ملی.جنہوں نے بیان دیا کہ ہمارے سامنے ان مُلا صاحب نے جنگل میں یہ قتل کیا ہے.مقدمہ ابتدائی عدالت میں گیا.پھر سیشن میں اور بالآخر عدالت عالیہ میں مگر خون ملا جی پر ہی ثابت رہا.سب گواہ بڑے پختہ تھے.آخر ملا صاحب کو گدھ عموماً انسانوں پر حملہ نہیں کرتے.اس لئے یہ امر بالکل پھانسی ملی.کسی نے اُن سے پوچھا ”ملا جی یہ کیا اندھیر ہے؟ تو کہنے لگے غیر معمولی تھا.اور محاصرہ کر لینا تو ایک عجیب سی بات تھی.حتی کہ مسلح پولیس کی بات یہ ہے کہ جوانی میں میں نے بھی ایک قتل کیا تھا جو اب تک مخفی رہا تھا.یہ امداد سے اس کانسٹیبل کی جان بچی.یہ اب یاد نہیں رہا کہ اُس نعش کی موت کا اُس کا بدلہ ہے.مثل مشہور ہے کہ ”خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں“.(44) گدھوں نے گھیر لیا.کیا باعث تھا.(45) آو مظلوماں کا اثر عموماً ہندوؤں میں شادی پر بہت روپیہ خرچ ہوتا ہے.دہلی کے رہتک کے ضلع کے کسی گاؤں کا ذکر ہے کہ وہاں ایک آدمی نے قریب کے تھانہ میں رپورٹ کی کہ ”ہمارے علاقہ کے جنگل میں ایک آدمی مرا مضافات میں ایک ڈاکٹر صاحب تھے اُن کے شفاخانہ کے پاس ہی برہمنوں کی پڑا ہے.میں نے راستہ سے ذرا ہٹ کر اُس کی لاش دیکھی ہے.ممکن ہے کہ گلی میں ایک غریب برہمن کے ہاں لڑکے کی شادی قرار پائی.کئی ہزار روپیہ قتل کی واردات ہوا.اس پر تھانہ دار نے ایک کانٹیل کو دریافت حال اور اُن لوگوں نے ایک لڑکی حاصل کرنے میں خرچ کیا.کھو کھلے تو تھے ہی اور زیادہ تفتیش کے لئے اُدھر روانہ کر دیا.جب شام کو رپورٹر وہاں سے گزرا تھا تو لاش مفلس ہو گئے.دلہن خاصے متمول گھرانے کی تھی اور پھر ناز پروردہ.سسرال میں کے پاس کوئی جانور نہ تھا.مگر جب کانسٹیبل وہاں پہنچا تو صبح کو بہت سے گدھ دن کے دس (10) بجے چنگی بھلی آئی اور شام کو بے ہوش ہو گئی.ان غریب نعش کے نزدیک جمع ہو چکے تھے.سپاہی نے اُس کے پاس پہنچنے کی کوشش کی پنڈتوں نے کبھی ایسی بات دیکھی نہ تھی.سخت گھبرا گئے.ڈاکٹر صاحب چونکہ مگر گدھوں نے پہنچنے نہ دیا بلکہ حملہ کر کے ہر دفعہ اُسے ہٹا دیا.آخر دو پہر کے نزدیک ہی رہتے تھے فوراً انہیں بلا لائے.وہ ابھی معائنہ ہی کر رہے تھے کہ قریب ان گدھوں نے سپاہی کو بھی اپنے نرغہ میں لے لیا.جس میں سے باوجود ساس سر رونے پیٹنے لگے.اور بار بار ڈاکٹر صاحب سے پوچھتے تھے کہ ” بہو سخت کوشش کے وہ باہر نہ نکل سکا.ذرا وہ سپاہی اپنی جگہ سے ہلا اور گدھوں نے بچ تو جائے گی؟ لڑکی کی کوئی امید بھی ہے یا نہیں ڈاکٹر صاحب ہم سے
91 90 چھپائے نہیں.ہائے اس لڑکی کے پیچھے لٹ گئے تھے.اب یہ بھی ہاتھ سے جاتی ہے.ڈاکٹر صاحب نے ٹھوک بجا کر دلہن کو خوب دیکھا پھر نہایت متشکرانہ انداز میں فرمایا کہ بظاہر تو کوئی امید بچنے کی نہیں“.بڑا پنڈت ان کے پیروں پر گر پڑا کہ ”جس طرح بھی ہو سکے اسے بچاؤ جو مانگو گے وہ دوں گا“.آخر سوچ سوچ کر بہت دیر میں انہوں نے فرمایا کہ اچھا مجھ سے ٹھیکہ کر لو کوشش کرتا ہوں.اگر نہ بچی تو تم سے کوڑی تک لینا حرام ہے.اور اگر پرمیشر نے تمہیں اس کا دان دیا ہے.ورنہ شہر کے شہر میں کیا اُن کی فکر کے رشتے نہ تھے؟ ایک آدمی یہ بات سُن کر بازار میں سے ایک پرائیوٹ ڈاکٹر کو بلا لایا اُس نے بھی دیکھ کر کہا کہ "ہسٹیریا کا دورہ ہے معمولی بات ہے.اُس نے تولیہ گیلا کر کے کئی بار منہ پر مارا اور ایمونیا کا رب سنگھا یا دورہ جاتا رہا.اس کے بعد اس گھر میں اُن پانچ سو روپوں کا ماتم برپا ہوا.پنڈت جی سیدھے شفا خانہ پہنچے اور ڈاکٹر صاحب سے جا کر لڑنے کی کر پا سے دُلہن اچھی ہو گئی تو پانچ سو روپیہ لوں گا“.پنڈت نے فورا مان لگے کہ ” آپ نے مجھ غریب کو لوٹ کر اور دھوکا دے کر بڑا پاپ مول لیا.ہے.لیا.کیونکہ اُس کی نظر میں تو وہ مُردہ ہی تھی.اور سچ سچ مر جاتی تو پھر کئی ہزار روپیہ میں بھی نئی دلہن ملنی مشکل تھی.بلکہ قریباً ناممکن.غرض علاج شروع ہوا.ایک ٹیکہ دوسرا ٹیکہ تیسرا ٹیکہ مالش اور کئی ظاہر داری کے فضول علاج آخر میں ایمونیا کا رب سنگھایا گیا جس پر دلہن نے کلبلانا شروع کیا.مبارک سلامت کا شور برپا ہو گیا.پھر مزید معالجات ہوتے ارے ظالم! برہمن کو تو چھوڑ دیا ہوتا.ہندو ہو کر برہمن کے ساتھ یہ فریب؟ مگر ڈاکٹر صاحب کا ایک ہی جواب تھا کہ ”بھائی وقت کا علاج اور وقت کی کمائی ہے.روپیہ زبردستی نہیں لیا.بلکہ تمہاری مرضی سے سارا معاملہ طے ہوا تھا.اب اگر تمہیں چارہ جوئی کرنی ہے تو عدالت میں جاؤ“.بیچارہ پنڈت رو پیٹ کر چلا آیا.اور کہنے لگا ”ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس یہ پانچ سو روپیہ زیادہ دیر تک رہے حتی کہ دو گھنٹہ میں لڑکی نے آنکھیں کھول دیں.اور اُس کے آدھ گھنٹہ بعد نہیں چلے گا.مگر ہم غریبوں کے سراپ (بد دُعائیں) جو دل سے نکلیں گے وہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے.“ اُٹھ کر بیٹھ گئی.پھر کیا تھا ڈاکٹر صاحب پانچ سو روپیہ کے نوٹ جیب میں ڈال کر وہاں سے ہلے اور اُن کی کرامات کا ڈنکا رات بھر اُسے شہر کی گلی گلی اور گھر گھر بجتا رہا.برادری نے بھی کہا کہ ”چلو روپیہ ہاتھ کی میل ہے.جمعوت گھر که ” برہمن مہاراج کا روپیہ واپس کر دیں.دھوکہ کا پھل اچھا نہیں ہوتا پر میشر کو ڈاکٹر صاحب کی بیوی بڑی نیک دل تھی.وہ اپنے پتی سے کہنے لگی برہمن دیوتا کا ستانا بہت ناگوار گزرے گا.مگر ڈاکٹر صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ میں گھس آئے تھے دفع ہو گئے.غرض شب زفاف بخیریت گزری.دوسرے دن تیسرے پہر کا وقت کر اُسے بھی خاموش کر دیا.تھا کہ دلہن کی حالت پھر ویسی ہی ہو گئی.ارے لینا بھا گنا دوڑنا یہ کیا ہوا ہم تو ابھی کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں سمجھے تھے اچھی ہو گئی.اتنے میں کوئی شخص لڑکی کے میکے کے شہر کا اُدھر سے گزرا کھنے آگئیں پہلے تو معمولی بیماری کبھی گئی.پھر تو یہ حال ہوا کہ درد اور ٹیسیں اُس نے بتلایا کہ اس چھوکری کو تو دو تین برس سے ہسٹیریا کے دورے پڑتے سرخی اور پانی حتی کہ زخم بڑھنے شروع ہو گئے.مجبوراً شفاخانہ میں داخل ہیں اور اکثر شام کے قریب یہ بے ہوش ہو جایا کرتی ہے.جبھی تو لڑکی والوں ہوئے.وہاں کے معالج نے بھی بہت تشویش ظاہر کی.اور باوجود بہترین علاج
" 92 93 کے آنکھوں کی تکلیف بڑھتی ہی چلی گئی.یہاں تک کہ اندھا ہونے کا خطرہ پیدا اس کی شناخت نہیں کی تھی کہ کس شخص کی ہے؟ اس وجہ سے مقدمہ ملتوی رہا.ہو گیا.بیچاری بیوی ان کو بار بار یاد دلاتی تھی کہ یہ بیماری نہیں ہے.اُس نعش بعد ملاحظہ مقامی انجمن کے کارندوں یا یوں کہیے کہ مسجد کے پنڈت غریب کی آہ مظلوماں ہے.مگر ڈاکٹر صاحب اس کی بات کو جہالت کہہ ملانوں کے سپرد کر دی گئی.اور کمیٹی نے دس روپیہ اُن کے حوالے کر دیے کر ٹال دیتے تھے.لیکن جب واقعی نابینا، ہونے کے آثار سامنے آ گئے تو ملانوں نے رپورٹ کر دی کہ مُردہ گورِ غریباں میں دفن کر دیا گیا.آٹھ دس بمشکل انہوں نے بیوی کے اصرار پر اُسے اجازت دی کہ روپیہ واپس کر دیا دن کے بعد جہاں سے نعش ملی تھی وہاں سے پانچ سات کوس کے فاصلہ پر ایک جائے.روپیہ کا واپس ہونا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اچھے ہونے شروع ہو گئے اور گاؤں کی کسی عورت نے پولیس میں رپٹ لکھوائی کہ ” میرا خاوند کئی دن سے گم ایک ماہ دتی میں گزار کر پورے تندرست ہو کر گھر واپس آ گئے.ہے اور اُس کا کچھ پتہ نہیں چلتا.تھانیدار کو خیال آیا کہ کہیں وہ غیر شناخت (46) کفن چور ملا نے شدہ نعش اس عورت کے خاوند کی ہی نہ ہو.جھٹ افسران بالا کو رپورٹ کر کے قبر کھدوانے اور نغش شناخت عموماً میونسپل کمیٹیاں لاوارث مُردوں کو اپنے خرچ پر دفن کراتی ہیں.کرانے کی اجازت لے لی.نتیجہ یہ ہوا کہ میری اور تحصیلدار صاحب کی اور مقامی ہندوؤں کی کمیٹی اور مسلمانوں کی انجمن سے ٹھیکہ کر لیتی ہیں کہ مُردہ کو موجودگی میں وہ قبر کھودی گئی اور نعش کو شناخت کے لئے باہر نکلا گیا.لیکن آپ وہی جلا ئیں یا دفن کریں.اور کمیٹی سے مقررہ اخراجات لے لیا کریں.یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ اُن ظالم ملانوں نے جو دس (10) روپے 1919ء کا ذکر ہے کہ میں پانی پت میں متعین تھا.جہاں کی انجمن لے کر مُردہ کے کفن دفن کے ذمہ دار تھے ایک پیسہ اس کام پر خرچ نہیں کیا لاوارث مُردے مسجد کے ملانوں سے دفن کرا دیا کرتی تھی.اور میونسپل کمیٹی تھا.مُردہ بالکل الف ننگا اور قطعاً برہنہ قبر میں اوندھا پڑا تھا.غالباً قبر کے سے دس روپیہ لے لیا کرتی تھی.مگر وہ دس روپے انجمن کے کام نہیں آتے کنارے پر رکھ کر اسے اندر اس طرح لڑھکایا تھا کہ نعش منہ کے بل جا پڑی تھی تھے.انجمن کا تو صرف انتظام ہی تھا.روپے اُنہیں ملانوں کو دے دیے جاتے نہ لحد تھی نہ اینٹیں تھیں.نہ قبر ہی گہری تھی.قبر کی جگہ ریتلی زمین تھی پس ذرا سا تھے تا کہ وہ کفن، غسل ، مُردہ کو لے جانا، قبر کھودنا اور دفن کرنا سب اس رقم میں کھودنے پر وہاں آسانی سے قبر تیار ہو گئی.رقم سب غائب اور ملانوں کے پورا کر دیا کریں.اُن دنوں یہ تخمینہ ٹھیک تھا.ہاتھ مسلمان مُردہ کی مٹی یوں پلید ! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پولیس کسی لاوارث مقتول کو پوسٹ مارٹم کے اُس زمانہ میں اُن دس (10) روپوں کا حساب قریباً یوں ہوا کرتا تھا لئے میرے پاس لائی.میں نے بعد ملاحظہ نتیجہ لکھا کہ ”اس شخص کے سر پر قبر کھدوائی دو روپیه، کفن چار روپیه ی غسل کرائی ایک روپیہ، مٹی کے دو لوٹے لاٹھیاں مار کر اسے قتل کیا گیا ہے".ایک آنہ، دو گھڑے، تین آنہ جنازہ اٹھوائی، نماز پڑھوائی، چار ملانوں کے لئے اب مشکل یہ آپڑی که نقش جنگل میں پڑی ہوئی ملی تھی.اور کسی نے دو روپیه، متفرقات بارہ آنے میزان کل دس روپے.
95 94 (47) غیبی امداد 1915ء میں میرا تبادلہ جالندھر سے پانی پت کا ہو گیا.اسباب مال گاڑی میں چلا گیا تھا.اب معمولی پیکنگ ساتھ والے سامان کا ہو رہا تھا اور میں دس (10) بجے دن کے اکیلا اپنے مردانہ برآمدہ میں ایک بکس میں کیلیں ٹھونک رہا تھا کہ ایک نوجوان لالہ صاحب جن سے میں قطعاً ناواقف تھا سلام کر کے میرے پاس آ کھڑے ہوئے.لالہ:- مہاراج مجھے کچھ تکلیف ہے.میں :.بھئی میں تو آج ہی شام کی گاڑی سے اس شہر سے جا رہا ہوں آپ کسی اور ڈاکٹر کی طرف رجوع کریں.لالہ : - یہ تو میں بھی سُن چکا ہوں.آپ علاج نہیں کر سکتے تو صرف مشورہ ہی دے دیجئے.یہ کہہ کر اُس نے پانچ روپیہ کا نوٹ میرے سامنے والے بکس پر رکھ دیا.میں : - مشورہ بھی کسی مقامی ڈاکٹر سے لینا ہی مناسب ہو گا.آپ نا حق کی تکلیف نہ کریں اور یہ نوٹ اُٹھا ئیں.لالہ: ایک نوٹ پانچ روپیہ کا اور سامنے رکھ دیا) اُن سے بھی مشورہ لے لوں گا.مگر آپ بھی اگر مجھے صحیح رستہ پر ڈال دیں تو کیا ہرج ہے.میں :.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنی جلدی میں میں کیا مشورہ دے سکتا ہوں اور آپ کس بات کے متعلق مشورہ مانگتے ہیں؟ لالہ:- ایک اور نوٹ سامنے رکھ کر مجھے ایک تکلیف ہے.میں : - کیا؟ لالہ:- ایک دوسرا نوٹ آگے رکھ کر میرے پیٹ کے دائیں طرف نیچے کو چلتے پھرتے ایک گولہ سا اُبھرتا ہے.میں : - دکھایئے.لالہ:- ایک پانچ روپے رکھ کر یہ ہے وہ گولہ.میں :.ذرا کھانئے زور سے.اس پر لالہ صاحب پانچ روپے کا ایک اور نوٹ سامنے رکھ کر زور سے کھانسنے لگے.ہے.میں : - کیا جب آپ لیٹتے ہیں تو یہ گولہ دب کر غائب ہو جاتا ہے؟ لالہ : ایک اور پنجہ رکھ کر) ہاں اس وقت بالکل غائب ہو جاتا - میں :.میرے نزدیک آپ کو فتق ہے.لالہ: - ( پانچ روپے رکھ کر ) فتق کیا؟ میں : - جسے انگریزی میں ہرنیا کہتے ہیں.لالہ:- ( پانچ روپیہ پیش کر کے ) میں ہر نیا بھی نہیں سمجھا.میں :- آپ کے ہاں غالباً اسے ٹل اترنا کہتے ہیں.لالہ:- ( پانچ روپیہ اور رکھ کر ) سُنا تو ہے مگر سمجھا نہیں.میں : - انتری پیٹ کے باہر اترنے لگتی ہے.لالہ:- ( پھر پانچ روپیہ پیش کر کے ) تو یہ انتڑی ہے؟ میں : ہاں انتڑی ہے.جبھی تو گڑ گڑ کرتی اُترتی اور چڑھتی ہے.لالہ:- ( پانچ روپیہ کے ساتھ ) پھر اب اسے کیا کروں؟ میں :.مناسب ہو گا کہ آپ اس کا آپریشن کرا لیں.الالہ:- (بمعہ پانچ روپیہ) میں آپریشن؟ میں :.جی ہاں آپ کا علاج تو آپریشن ہی ہے.
97 96 لالہ :- ( پانچ روپیہ رکھ کر ) تو کیا کوئی کچا علاج بھی ہے؟ جن تھا میں نے نوٹ اُٹھا کر گنے تو ہیں (20) یعنی پورے سو (100) میں :.ہاں ایک بیٹی ہوتی ہے جسے ہر وقت باندھے پھرنا پڑتا ہے.روپے مگر اصل عقدہ آج تک نہیں کھلا.الاله (پانچ روپے رکھ کر ) اس سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی ؟ میں : - اس کے ساتھ کچھ زیادہ اہتمام کرنا پڑتا ہے.اور گرمیوں میں پسینہ سے بھی خراب ہوتی رہتی ہے.لالہ:- ( پانچ روپے رکھ کر ) پھر کیا کیا جائے؟ (48) دودھ گھی کی نہریں جب چیزوں کے نرخ مہنگے تھے تو لوگوں کے باغیانہ خیالات بھڑ کانے کے لئے مہاشہ صاحبان کہا کرتے تھے کہ ایک پراچین زمانہ وہ تھا جب میں : اور میرے نزدیک تو پکا علاج آپریشن ہی ہے آپ جوان آدمی ہندوستان میں دُودھ اور گھی کی نہریں چلا کرتی تھیں.اناج کی نہایت ارزانی تھی.لوگ طاقتور تھے.ان انگریزوں کے آنے سے ہر چیز مہنگی ہو گئی.اور ہیں بیٹی کا بڑا جھگڑا ہے.ہو گا ؟ میں :.میرا تو یہی مشورہ ہے.لالہ:- ( پانچ روپے کا نوٹ ) کیا کلورا فارم بھی لینا پڑے گا ؟ لالہ:- ( پانچ روپے مزید دے کر ) تو آپریشن کرالوں نا یہی مناسب ہندوستانی بھوکے مرنے لگئے“ وغیرہ وغیرہ.پھر 1930ء سے ارزانی کا ایک دور شروع ہوا دُودھ شہروں میں ایک آنہ سیر اور غلہ ایک روپیہ کا نہیں سیر جا پہنچا.تو جھٹ دوسرا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ ”ملک فنا ہو گیا.تاجر تباہ ہو گیا.زمیندار بُھو کا مر گیا“.آخر ایک دن ایک مہاشہ صاحب سے جو ایسی باتیں کہہ رہے تھے.میں نے کہا: کہ تمہیں تو نہ یوں چین ہے نہ دوں.ابھی تو دُودھ گھی کی نہریں میں : - نہیں کوئی ایسا خطرہ تو نہیں ہے.آپ تندرست آدمی معلوم نہیں ہیں.ذرا سماں ستا ہی ہوا ہے.تو لگے تم چیچنے.اگر نہریں چلنے لگیں تو شاید خودکشی ہی کر لو گے.فرمانے لگے ”اجی یہ سب پراپیگنڈا ہوتا ہے ورنہ بھاؤ میں : ہاں وہ تو لازمی ہے.لالہ پانچ روپے رکھ کر ) اُس کا خطرہ تو کوئی نہیں؟ ہوتے ہیں.میرے نزدیک تو یہی مناسب ہوگا.لالہ : - ( پانچ روپے کے ساتھ ) بہت بہت شکریہ بس میں یہی تو پر میشر کے ہاتھ میں ہی ہے.ہم ایسی دلیلیں بھی نہ دیں تو لوگوں کو کس طرح اپنا ہم خیال بنا ئیں.سیاست جھوٹ اور فریب کا دوسرا نام ہے اور بس.مشورہ آپ سے لینے آیا تھا.میں : - لالہ صاحب یہ روپے تو اُٹھا لیجئے میں کس طرح اتنی رقم اس مشورہ کی لے سکتا ہوں؟ مگر لالہ اتنی دیر میں کہیں کا کہیں جا چکا تھا.پیٹھ پھیرتے ہی ہوا ہو گیا.خدا جانے فرشتہ تھا جو مجھے سفر کے اخراجات دینے آیا تھا.یا کوئی (49) ایک مولانا 1916ء کا ذکر ہے کہ پانی پت میں سخت ہیضہ پھوٹا اور سارے گنوؤں میں لال دوا ڈالنی ضروری ہو گئی.کمیٹی کے رجسٹروں سے معلوم ہوا کہ
99 98 شہر میں ڈیڑھ سو گنواں ہے ہم نے ایک رات شہر کے ڈاکٹروں، نمبرداروں، خوفناک کام کے لئے استعمال ہونے کے واسطے آیا ہے.میں نے اُن کو سلام ملازمین سرکاری اور پبلک کی ملا کر چار پارٹیاں بنائیں اور یہ انتظام کیا کہ کوئی کی اور شکست کھا کر چپکا چلا آیا کیونکہ بعض صورتوں میں باعزت واپسی فتح گنواں ایسا نہ رہے جس میں لال دوائی نہ پڑے چنانچہ شام سے صبح تک کنوؤں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے.میں دوائی پڑتی رہی.مگر حساب کرنے پر صبح معلوم ہوا کہ شہر میں سات سو (700) گنواں ہے نہ کہ ڈیڑھ سو.خیر ایک گنواں رات کو کسی دوسری پارٹی کے (50) حامله مرد حصہ کا رہ گیا تھا.اور رپورٹ یہ ملی تھی کہ مولانا نے دوا ڈلوانے سے جب میں سرسہ میں متعین تھا تو ایک دن ایک شخص تقریباً تمہیں انکار کر دیا ہے.دوسرے دن میں خود اُن کے مکان پر پہنچا معلوم ہوا کہ اُن کی پینتیس سال کا بظاہر خاصہ سمجھدار میرے پاس شفا خانہ میں آیا.اور کہنے لگا حویلی بڑی عالی شان ہے.گنواں صحن کے بیچ میں تھا اس لئے اطلاع کرائی.کہ ”میں دُور سے آپ کی شہرت سُن کر اپنے علاج کے لئے آیا ہوں.مجھے مولانا کمال شائستہ صورت، نہایت گھنی اور لمبی ڈاڑھی کے ساتھ ایک جنگلی عمامہ دیکھ لیں.میں نے کہا: ”کیا بات ہے؟ کہنے لگا ”اندر کمرے میں لٹا کر زیب سر کئے ہوئے باہر تشریف لائے.مگر کندھے پر ایک پھاوڑہ بھی تھا میں دیکھیں.میں نے کہا ”اندر ہی دیکھ لوں گا.مگر تکلیف کیا ہے؟ کہنے لگا نے دیکھتے ہی خیال کیا کہ شاید اس آلۂ حرب سے وہ مجھے قتل کریں گے.میں ” مجھے حمل ہے اس لئے اندر چل کر اچھی طرح ملاحظہ کریں.مجھے بے نے نہایت ادب سے کہا ”مولانا دیکھئے شہر میں کیا موتا موتی لگ رہی ہے.اختیار ہنسی آگئی اور میں نے اُسے مراق کا نسخہ لکھ دیا.مگر وہ یہی کہتا رہا کہ سات سو میں سے صرف آپ کا ایک گنواں بغیر دوا کے رہ گیا ہے.مہربانی فرما مجھے تو اپنا حمل دکھانا ہے.آخر میں نے اُسے لٹا کر بھی دیکھا بات ہی بیہودہ تھی.دیکھ کر بھی جب میری رائے اس سے متفق نہ ہوئی تو یہ کہہ کر چلا کر اس میں دوا ڈلوا لیں.فرمائیے اجازت ہے؟ مولانا فرمانے لگے ”ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں حکیم بھی گیا کہ دُور کے ڈھول سہاونے“.ہوں.اور ایک پختہ عقل، تجربہ کار اور معمر انسان ہوں میرا تو یہ تجربہ ہے کہ جب سے یہ زہریلی دوائیں کنوؤں میں پڑنی شروع ہوئی ہیں تب سے ہی سارے شہر میں جریان کا مرض وبا کی طرح پھیل گیا ہے.اور آدھا شہر نامرد ہو چکا ہے.یقین مانئے اگر آپ نے زبردستی میرے گھر کے کنویں میں دوا ڈال دی تو اسی پھاوڑے سے اپنی حویلی ڈھانا شروع کر دوں گا.اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا“.اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ پھاوڑہ میرے قتل سے بھی زیادہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا (51) عہد کا پکا مگر مجبور میں گوجرہ ضلع لائلپور میں 1925ء میں تھا کہ ایک رات دس بجے کے قریب پولیس ایک معزز سکھ کو چار پائی پر ڈال کر ریلوے اسٹیشن سے اُتار کر شفا خانہ میں لائی.اس کے ہمراہ اور کوئی آدمی نہ تھا.اس کا قصہ یوں بیان کیا
101 100 " گیا کہ آج یہ لائلپور کی کچہری سے ایک مقدمہ میں فتح یاب ہو کر نکلا تو اس ”آپ نے بڑا مشکل مطالبہ کیا ہے.میں نے کہا: ”اس سے کم میں میں نے لائکپور کے ریفرشمنٹ روم میں خوب شراب پی.اس کے گاؤں کے کئی آدمی تمہاری مدد نہیں کر سکتا.بولا اچھا تین گھنٹے سوچنے کے لئے دیں“.میں نے بھی اس کے ہمراہ تھے.اُن کو بھی پلائی.پھر کئی بوتلیں شراب کی خرید کر یہ شخص کہا: ”شام تک سوچ سکتے ہو.شراب تم نے پی ہے اور تمہارے معدہ میں سے مع اپنے ہمراہیوں کے ریل میں بیٹھ گیا.ٹوبہ ٹیک سنگھ تک کے لئے اُن کے نکالی گئی ہے.میں جھوٹ تو لکھ نہیں سکوں گا.مگر حکام سے مل کر بہر حال ٹکٹ تھے.ریل میں ان سب لوگوں نے مقدمہ کی فتح کی خوشی میں بوتلیں تمہاری خلاصی کرا دوں گا انشاء اللہ.لیکن صرف اس شرط پر جو میں نے تم سے چڑھائیں.خصوصاً اس سکھ نے آخر وہ بے ہوش ہو گیا.ریل کے خانہ میں اور کہی ہے.مسافر بھی تھے.انہوں نے ریلوے پولیس کے کنسٹیبل کو جو ٹرین میں موجود تھا خیر میں گھر چلا گیا.تیسرے پہر وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا اطلاع دی.یہ دیکھ کر اُس کے باقی سب ہمراہی تو کسی درمیانی اسٹیشن پر گاڑی ڈاکٹر صاحب! میں نے خوب سوچ لیا.یہ شرط میرے اختیار سے باہر ہے.سے اُتر کر بھاگ گئے.اور یہ صاحب اکیلے پڑے رہ گئے.گوجرہ کے اسٹیشن اور آپ بھی بچے ہیں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میرے خیر خواہ ہیں لیکن پر اُن کو بھی پولیس والوں نے اُتار لیا.مگر وہ غٹ تھے.اس لئے چار پائی پر لاد حالات ایسے ہیں کہ میں ایسا اقرار نہیں کر سکتا.میں نے کہا: ” کیوں اس میں کر علاج اور معائنہ کے لئے میرے ہاں لائے گئے.خیر میں نے اُن کا معدہ نقصان اور ہرج کیا ہے؟ کہنے لگا ”بے شک سراسر میرا ہی فائدہ ہے لیکن ہم دھویا اور ضروری علاج کیا.بے حد شراب اندر سے نکلی.لیکن جو ہضم ہو چکی تھی لوگوں کی پوزیشن بڑی نازک ہے.مجھے شراب کی زیادہ عادت اور لت بھی نہیں وہ بھی اتنی تھی کہ ہوش نہ آیا.صرف اتنا اطمینان ہو گیا کہ صبح تک ہوش آ جائے ہے.اگر عادت ہوتی تو میں بے ہوش ہی کیوں ہوتا نہ رات بھر مدہوش رہتا.گا یہ شخص مرے گا نہیں.صبح کو 8 بجے کے قریب جب میں شفا خانہ میں گیا تو لیکن عزت کے لئے ہر کوئی مرتا ہے.میں بھی جاٹ کا پوت ہوں.اگر شراب دیکھا کہ سردار صاحب اچھے بھلے چار پائی پر بیٹھے ہوئے ہیں.اس کے بعد میں سے توبہ کرلوں گا تو قوم اور برادری میں ذلیل سمجھا جاؤں گا.لوگ کہیں گے کہ دوسرے مریضوں کو دیکھتا رہا.گیارہ بجے فارغ ہو کر میں نے انہیں بلایا.خرچ کے مارے شراب چھوڑ دی.برادری میں بیاہ شادی میں میلے تہواروں آدمی قبول صورت، سمجھدار اور معزز معلوم ہوتا تھا.میرے گھٹنوں کو میں اگر سب سے الگ ہو کر رہوں گا تو ناک کٹے گی.عزت کا سوال ہے، ہاتھ لگا کر کہنے لگا کہ ”میں شریف ہوں.معز ز ہوں سفید پوش ہوں.غلطی ہو عادت کا نہیں.آپ جو چاہیں پولیس کو نتیجہ لکھ دیں.مگر میں جاٹ کا بیٹا ہوں گا گئی ہے مجھے پولیس سے اور نئے مقدمہ میں پھننے سے بچاؤ.کل ہی ایک تو وہ کام نہیں کر سکوں گا جو آپ چاہتے ہیں.نہ وہ اقرار کروں گا جسے میں پورا مقدمہ فتح کر کے آیا ہوں اگر آج پھر حوالات میں چلا گیا تو میری بڑی ذلّت نہیں کر سکتا.اگر شراب چھوڑ بھی دوں اور یقیناً چھوڑ سکتا ہوں تو پھر بھی یار اور سبکی ہے.میں نے کہا: ” ایک شرط پر.کہنے لگا ”فرماؤ.میں نے کہا کہ دوست اور افسر لوگ مجھے تو بہ پر قائم نہ رہنے دیں گئے.تم صرف اتنا اقرار کر لو کہ شراب چھوڑ دوں گا.سوچ سوچ کر کہنے لگا.اُس کی تقریر سُن کر میرے دل میں اُس کے لئے ایک جذبہ عزت " "
103 102 پیدا ہوا.مگر میں بھی اپنی بات کا پکا تھا مجبور ہو کر نتیجہ لکھ دیا کہ یہ شخص مخمور اور ہے.اُسے شبہ ہوا.چھاج اُٹھایا تو صاحبزادہ صاحب اندر بیٹھے ہوئے نظر مدہوش تھا.سپاہی اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر لے گئے اور میں آئے.کان پکڑ کر باہر پھینچ لیا اور ہاتھ پکڑ کر لے چلا اور کھینچتا ہوا موٹر تک لے آیا.اتنے میں گاؤں کے کچھ مرد اور عورتیں موٹر کے گرد جمع ہو گئے.مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں جھگڑا پیدا نہ ہو.چنانچہ میں نے لڑکے کو جلدی سے اپنے پاس موٹر میں بٹھا لیا اور ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا.گاؤں کے جو لوگ جمع ہو گئے واقعی اُس وقت اُس کے لئے کڑھ رہا تھا.(52) سڑک کے بھتنے مظفر گڑھ کا ذکر ہے اور غالبا 1930 ء کا کہ میں اپنی موٹر کار میں دائرہ تھے اب تک وہ یہی سمجھتے رہے کہ لڑکے کو شاید مار پیٹ کر چھوڑ دیں گے.مگر دین پناہ کے شفا خانہ کا ملاحظہ کرنے گیا.واپسی پر ایک جگہ دھم دھم تین چار موٹر کو جاتا دیکھ کر انہوں نے یورش کر دی.عورتیں رونے لگیں اور مردوں نے پتھر موٹر پر دونوں طرف سے آکر لگے.دیکھا تو چارلڑ کے تھے.دو ایک طرف پتھر برسانے شروع کر دیے مگر ہم نے بھی رفتار تیز کر دی اور ہجوم سے آگے نکل دو ایک طرف.جنہوں نے بڑے بڑے پتھر موٹر پر پھینکے تھے.یہاں تک کہ آئے لیکن وہ لوگ برابر تعاقب کرتے رہے.حتی کہ چار پانچ میل کا فاصلہ گاڑی پر اُن سے نشان اور جب بھی پڑگئے تھے.میں نے ڈرائیور کو کہا موٹر کار طے کر کے ہم بصیرہ کے پولیس اسٹیشن پر پہنچ گئے.یہاں آ کر میں نے سب ٹھہراؤ موٹر کو ٹھہرتے دیکھ کر وہ لڑکے بھاگے.میں نے ڈرائیور اور اردلی دونوں انسپکٹر صاحب کو بلا کر وہ لڑکا جو 12، 14 سال کا تھا اُن کے سپرد کر دیا اور کہہ کو اُن کے پیچھے دوڑایا اور کہہ دیا کسی ایک کو ضرور پکڑ لانا‘.یہ غل پہلے بھی دیا کہ ان لڑکوں نے موٹر کار والوں کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی بلکہ ناک میں سنا ہوا تھا کہ اس مقام پر کچھ شریر لڑ کے جن کی عمریں 12، 14 سال کی ہیں اسی دم کر رکھا تھا.آپ خود دیکھ لیں کہ یہ تازہ چار پتھروں کے نشانات میری موٹر طرح افسران کی موٹروں پر پتھر مار کر بھاگ جایا کرتے ہیں.کبھی پکڑے نہیں پر بھی موجود ہیں.آپ اسے ماریں کوئیں نہیں بلکہ صرف حوالات میں بند کر گئے.اور سب موٹر کار والے اُن کی شرارت سے نالاں ہیں.خیر جب ڈرائیور دیں.پیچھے پیچھے اس گاؤں والے اور رشتہ دار مرد عورتیں آ رہے ہیں.اصل اور اردلی اُن کے پیچھے بھاگے تو تین لڑکے تو ادھر اُدھر ہو گئے.مگر ایک سیدھا میں تو اُن کو دھمکانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے.تھانہ دار صاحب کہنے لگے گاؤں کی طرف گیا جو سامنے آدھ میل پر نظر آ رہا تھا.حُسنِ اتفاق سے گاؤں کہ ان بدمعاشوں کی بہت سی شکایتیں افسرانِ بالا نے اس تھانہ میں بھیجی والے اکثر مرد اُس وقت کھیتوں پر تھے.اور گاؤں تقریباً خالی پڑا تھا.بھاگتے ہیں.مگر پتہ نہ لگتا تھا کہ یہ شیطان کون ہیں اور کس گاؤں کے ہیں.بس اب بھاگتے وہ لڑکا گاؤں میں پہنچ کر ایک گھر میں کھس گیا.تعاقب کرنے والے آپ اطمینان رکھئے میں سب کو سیدھا کر لوں گا.میں تو مظفر گڑھ آ گیا.مگر بھی پیچھے پیچھے وہاں جا پہنچے.ایک عورت اُس مکان میں بیٹھی تھی اُس سے پھر سنا کہ اس سڑک پر اس کے بعد کامل امن ہو گیا.اور وہ بھتنے اس واقعہ کے چھا تو اُس نے کہا کہ ”یہاں تو کوئی لڑکا نہیں آیا.اندر جا کر دیکھا تو واقعی بعد پھر کسی کو نظر نہیں آئے.وہاں کوئی بھی نہ تھا.اتنے میں ڈرائیور نے دیکھا کہ تندور پر چھاج ڈھکا ہوا
105 104 (53) خدا کی ہستی کا ثبوت اب تو اکثر شہروں میں بجلی لگ گئی ہے مگر پہلے عموماً اچھی روشنی کے لئے گول بتی کا لیمپ استعمال ہوا کرتا تھا.میز پر پڑھنے کے لئے بھی اور چھت پر لٹکانے کے لئے بھی.گول بتی ، گول شعلہ اور گول چمنی، ان لیمپوں کی خصوصیت ہوا کرتی تھی.ایک دن میں شفا خانہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ بارہ بجے کے قریب ایک لالہ جی اپنی دائیں آنکھ پر رومال رکھے ہوئے تشریف لائے.میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں گول بتی اور گول چمنی کا چھت گیر لیمپ ہے.رات بھر وہ جلتا ہے اور صبح بجھا دیا جاتا ہے.آج بھی حسب معمول صبح کے وقت بجھا دیا گیا.میں اتفاقاً ابھی آدھ گھنٹہ ہوا کمرہ میں اُس کے نیچے کھڑا ہوا کہ چٹاخ سے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی.میں نے چھت کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اتنے میں چاندی کی دونی کے برابر ایک ٹکڑا اس لیمپ کی چمنی میں سے الگ ہو کر سیدھا میری دائیں آنکھ کے اندر لگا.میں درد کے مارے بے قرار ہو گیا.اور بھاگا ہوا ہسپتال آیا ہوں“.میں نے اُن کو لٹا کر آنکھ میں کوکین لوشن ڈالا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس شیشہ کے ٹکڑے کے تیز کنارے سے ان کی آنکھ صاف آدھم آدھ کٹ گئی ہے.میں نے آہستہ سے وہ شیشے کا ٹکڑا جس سے مشیت الہی نے لالہ جی کی آنکھ کی چاند ماری کی تھی، زنبور سے پکڑ کر نکال دیا.پھر آنکھ پر پٹی باندھ دی.مجھے بظاہر کوئی امید نہ تھی کہ آنکھ بچ جائے گی.مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند دن زخم اس طرح اچھا ہو گیا گویا کبھی لگا ہی نہ تھا.لیکن ساتھ ہی آنکھ کی بینائی بھی جاتی رہی.کیونکہ چوٹ کی وجہ سے اُس آنکھ میں موتیا بند پیدا ہو گیا.دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد وہ موتیا بند بھی آہستہ آہستہ جذب ہو گیا اور مریض کو اچھا خاصا نظر آنے لگ.میز پر گیا.وہ شخص اب بھی زندہ ہے.مگر خدائی تقدیر کا نشان دیکھو کہ دن کو لیمپ گل ہونے کے کئی گھنٹے بعد وہ چمنی چٹنی تقدیرا وہ شخص اس کے نیچے کھڑا تھا.آواز سُن کر اوپر کو دیکھنا تھا کہ شیشے کا ٹکڑا سیدھا آنکھ کے اندر گھس گیا.اور اُسے دوحصوں میں کاٹ دیا.گویا اتفاقی بات نہ تھی بلکہ کسی صاحب ارادہ ہستی کا فعل تھا پھر یہ تماشا دکھا کر اسی ہستی نے مضروب پر رحم فرمایا اور اپنے کئے کو آن کیا کر دیا.اور اتنا بڑا زخم اچھا ہو گیا.مگر آنکھ کی بینائی جاتی رہی کیونکہ ایسے زخموں کا یہی قدرتی نتیجہ ہوا کرتا ہے.اس کے بعد اُس ہستی نے پھر دوبارہ س شخص پر رحم فرمایا اور اس کا موتیا بند اندر ہی اندر ہفتوں میں تحلیل اور جذب ہو کر صاف ہو گیا اور مریض کو پھر دکھائی دینے لگ گیا.قدرت کے ایسے افعال جن میں خدائی ارادہ خدائی رحم اور خدائی شفا شامل حال ہوں میں نے بہت دیکھے اور ساری عمر دیکھتا رہا ہوں.اس لئے میں اُس ہستی پر یقین رکھتا ہوں جسے اللہ کہتے ہیں اور جس پر ایمان لائے بغیر انسان کبھی حقیقی سکھ اور سچی خوشی حاصل نہیں کرسکتا.(54) سب کے پیر کاٹو مدت ہوئی میں جب بلوچستان کی سرحد پر تعینات تھا تو ایک بڑھا بلوچ میرے پاس پچاس کوس سے آیا.اور اُس نے اپنا ایک پیر مجھے دکھایا.جس میں کئی ناسور موجود تھے.آتے ہی کہنے لگا کہ کئی سال ہوئے یہ چوٹ لگی تھی پھر پیر پک گیا اور برسوں سے پکتے پکتے یہ ناسور بن گئے ہیں.آپ پہلے جو ڈاکٹر تھا میں اُس کے پاس بھی آیا تھا.اور جو اُس سے پہلے تھا اُس کے پاس بھی.مگر یہ زخم کسی سے اچھے نہ ہوئے.آخر میں میں اُن سے کہا کرتا تھا کہ پھر میرا پیر ہی کاٹ دو مگر وہ انکار کرتے رہے کہ ابھی یہ کار آمد
107 106 ہے.اب میں آپ کے پاس بھی اسی غرض سے آیا ہوں کہ یا تو یہ بارہ برس کا زخمی پیر اچھا کر دو یا اسے کاٹ ہی ڈالو.میں نے معائنہ کر کے اور سارے اندازے لگا کر اُسے یہی کہا کہ اگر چہ تمہارا پیر خود بخود اچھا نہ ہو گا اور نہ آپریشن سے کچھ امید ہے کیونکہ اس کے اندر کی ہڈیاں بھی خراب ہیں مگر ابھی ایسا خراب نہیں ہوا کہ اسے کاٹ کر الگ کر دیا جائے.کہنے لگا کہ بارہ سال تو مجھے مصیبت اُٹھاتے ہو گئے اور میں ساٹھ برس کا ہو گیا، اب کب تک انتظار کروں؟ میں نے کہا ”جب پیر زیادہ ناکارہ ہو جائے گا پھر آ جانا.ابھی تو یہ تمہارا بوجھ اُٹھا لیتا ہے کٹ جائے گا تو صورت حال اس سے بھی بدتر ہو جائے گئی.مگر بڑھے کی تسلی نہ ہوئی.چلا گیا.بارہ تیرہ سال کی تمنا اور مراد بر آئی تھی.آخر گھوڑے پر سوار ہو کر وطن کو چلا گیا.راستہ میں اور گھر پر جا کر وہ میرا ہی پراپیگنڈا کیا کرتا تھا.اور کہتا تھا کہ بارہ سال کے بعد فلاں ڈاکٹر نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے.پھر ڈنڈا پکڑ کر اور پھدک پھدک کر لوگوں کو اپنی چال دکھاتا تھا.آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ تیسرے چوتھے ہفتہ اُس کے علاقہ کا کوئی نہ کوئی آدمی علاج کے لئے میرے پاس آجاتا تھا.ان میں بعض ایسے بھی تھے جن کے پیر یا پیر کی انگلیوں پر معمولی زخم مزمن قسم کے ہوتے تھے.مگر وہ آتے ہی یہ کہتے تھے کہ ”ہمیں فلاں لنگڑے بلوچ نے بھیجا ہے اور آپ کو پیغام دیا ہے کہ ہمارا پیر کاٹ دیا جائے یعنی اُس نے اپنے جوش میں دوسروں کو بھی دیوانہ کر دیا تھا.اور ایسے لوگ جب میں اُن کا پیر کاٹنے سے انکار کرتا تھا تو سخت مایوس ہو کر اگلے برس پھر آیا.میں نے پھر بھی وہی پہلا سا جواب دیا کہنے لگا کوئی صورت بھی اس کے کٹنے کی ہے؟ میں نے کہا: ”ہاں اگر زخم ایسا خراب ہو جائے کہ پیر تمہارے کام کا بالکل نہ رہے تو میں یقیناً اسے کاٹ دوں واپس جایا کرتے تھے.گا.پھر چلا گیا مگر چند روز کے بعد ہی اس کے رشتہ دار اسے چار پائی پر ڈال کر شفا خانہ میں لے آئے بڑھا سر اُٹھا کر فخریہ کہنے لگا کہ: ”آپ کاٹیں گے ہی.میں نے کہا: ”کیوں“.بولا میں نے بندوق بھر کر اپنا پیر اُڑا دیا ہے.اب تو خدا کے واسطے اس لعنت کو الگ کر دو.میں نے کھول کر دیکھا تو واقعی بندوق کے چھروں سے پیر کے ٹکڑے اُڑ گئے (55) خانساماں کی درگت ایک دفعہ میں ایک نئی جگہ تبدیل ہو کر گیا.جہاں کچھ دن کے بعد اطلاع ملی کہ ضلع کے صدر مقام سے صاحب سول سرجن تمہارے شفاخانہ کا معائنہ کرنے آرہے ہیں.اُن کا قاعدہ یہ تھا کہ رات کی گاڑی سے اُتر کر ویٹنگ روم میں ٹھہر جایا کرتے تھے.پھر گیارہ بارہ بجے دن کے شفاخانہ کا صدر مقام کو تشریف لے جایا کرتے تھے.تھے.اپنے ہاتھ سے اُس نے گراب بھر کر ماری تھی اور اس وقت وہ واقعی معائنہ کر کے ویٹنگ روم میں کھانا کھا کر تیسرے پہر کی گاڑی سے واپس اپنے آپریشن کا مستحق تھا.چنانچہ میں نے پیر کاٹ دیا.بڑھے میں صحت اور طاقت بہت تھی.پندرہ دن میں بالکل اچھا ہو گیا.اور اس قدر خوش تھا کہ حد بیان سے باہر ہے ہر شخص کو اپنی کٹی ہوئی ٹانگ دکھاتا تھا اور خوش ہوتا تھا.بیچارے کی کہا کہ ” صاحب بہادر رات کو تشریف لے آئے ہیں اب اُن کا خانساماں آتا جس روز انہیں معائنہ کرنا تھا اُس روز صبح بڑے کمپاؤڈر نے مجھ سے
109 108 ہی ہو گا.میں نے پوچھا کس لئے؟ کہنے لگا ”چار پانچ سیر کو ملے، صابن طرف آتا ہوا دکھائی دیا.میں نے صاحب سے کہا کہ ” آج بھرے ہسپتال کی ٹکیا اور کچھ دیگر اشیائے متفرقہ تو شفا خانہ کی طرف سے لے جائے گا.پھر میں لوگوں کے سامنے میری اور آپ کی بڑی بے عزتی ہوئی ہے.کہنے لگے کچھ اپنا ذاتی انعام سارے عملہ کی طرف سے اور کچھ اور چیزیں یعنی مرغی انڈا کیونکر؟ میں نے کہا: ”آپ کا نوکر وہاں جا کر ہسپتال کے کوئلے، صابن اور وغیرہ آپ کی طرف سے بطور ڈالی کئے.میں نے کہا: ”یہ نیا دستور ہے یا فلاں فلاں چیز آپ کے نام پر مانگتا تھا.مجھے بڑی غیرت آئی.کیونکہ آپ کی ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا چلا آیا ہے؟ کہنے لگا ”میں تو ہمیشہ سے یہی دیکھتا رہا اور میری دونوں کی اس بات میں سبکی تھی.غرض میں نے اسے تو ٹال دیا.مگر ہوں“.میں نے کہا ” پھر آج یہ جبر یہ کاروائی نہیں ہو گی.ہیڈ کمپاؤڈر کہنے آپ اسے سمجھا دیں کہ چار آنہ کے کوئلوں اور دو آنہ کے صابن کے لئے وہ پبلک میں محکمہ کو ذلیل نہ کیا کرئے“.لگا." " 2766 کیا.سکونڈرل.ڈیم سوائن ، حرامزادہ سور کا بچہ اور گالیوں کے آپ کیوں خواہ مخواہ دو چار روپوں کے لئے جھگڑا مول لیتے ہیں.یہ سُن کر ادھر تو صاحب کا منہ غصہ کے مارے سرخ ہو گیا اور اُدھر بلا سے لے جانے دیں.خانساماں کہیں صاحب کو کہہ کر کوئی تکلیف نہ خانساماں عین وقت پر میری شکایت صاحب سے کرنے کے لئے کمرہ کے پہنچائے.میں نے کہا ”نہیں یہ باتیں دقیانوسی ہیں اب بند ہونی چاہیں.اندر گھسا.اُس کے اندر گھنے کی دیر تھی کہ صاحب نے اُس پر گر جنا شروع اتنے میں خانساماں بھی بلائے بے درماں کے طرح آن پہنچا اور کہنے لگا ”ڈاکٹر صاحب! صاحب بہادر کو ناشتہ کرنا ہے.پھر ٹفن بھی وہیں ریل پر ہی کھائیں ساتھ ہی ٹھڈے پر ٹھڈا برسنا شروع ہو گیا.پھر کہنے لگے کہ میں اسے ہمیشہ گے.فلاں فلاں چیزوں کا بندوبست فرما دیجئے.میں نے کہا ”صاحب تنخواہ ان ذلیل حرکتوں سے منع کرتا رہتا ہوں مگر یہ باز نہیں آتا اگر اب ایسی کوئی پاتے ہیں اور ہم سے زیادہ امیر ہیں تم ان کے لئے بازار سے یہ سب چیزیں جا بات ہو گی تو اس بدمعاش کو موقوف کر دوں گا.آپ اس کو ایک پائی کی چیز کر خرید لو یا پیسے دو تو میں منگوا دوں.کہنے لگا ”ہمیشہ تو ڈاکٹر صاحبان یہیں سے ہی بندوبست کر دیا کرتے تھے.میں نے کہا: ”وہ ڈاکٹر صاحبان تو یہاں خانساماں منہ لٹکائے کمرہ سے باہر چلا گیا.میں وہاں تین سال رہا.سے تبدیل ہو کر چلے گئے.اب تو میں یہاں ہوں اور میرے نزدیک تمہارا مگر پھر اس شخص کی شکل میں نے نہیں دیکھی.اصل میں سارا قصور خانساماں کا کوئی حق کسی چیز کے مانگنے کا درست نہیں ہے.آخر وہ بھی گھاگ تھا تیز بھی نہ تھا بلکہ صاحب کی لا پرواہی اور لاعلمی بھی قابل گرفت تھی.مگر پھر میرے ہونے لگا.میں نے دُھتکار کر اُسے نکال دیا.اور بائیسکل پر سیدھا ریل کے سامنے کبھی اس قسم کا مطالبہ نہیں آیا.گر بہ کشتن روز اوّل 66 ویٹنگ روم میں پہنچا پہلے تو سلام سلام ہوتا رہا پھر صاحب پوچھتے رہے کہ " تم کہاں ملازمت کے دوران میں پھرتے رہے ہو؟ کتنے برس کی ملازمت ہے؟ طن کہاں ہے؟ وغیرہ وغیرہ اتنے میں ہی وہی خانساماں دور سے پلیٹ فارم کی نہ دیں.(56) مولوی کے کرتوت ایک روز میں چکوال کے ایس ڈی اوصاحب کے ہاں کسی مقدمہ کی
111 110 شہادت میں گیا.شہادت ختم ہو کر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں تو ایس ڈی او پر ایک آدمی کو لاد کر لے آئے جس پر لحاف پڑا ہوا تھا.تھانہ کے صحن میں صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ وہ کونے میں جو لمبی ڈاڑھی والا کالے رنگ کا چار پائی کو رکھ کر وہ لوگ پکار پکار کر چیخنے لگے ” او دیوان جی! او دیوان جی! خون بڑھا مولوی بیٹھا ہوا ہے اُسے آپ نے دیکھا؟ میں نے کہا: ”جی ہاں ہو گیا قتل ہو گیا.ہمارے بھائی کو مار دیا.نا تجربہ کار منشی جی نے کہا.اندر آ دیکھا.کہنے لگے کہ یہ اس علاقہ کا بڑا بھاری مولوی ہے اور اس کا نام کرم جاؤ اور یہاں بیٹھ کر رپٹ لکھواؤ“.دین ہے.آج یہ اس جرم میں میری کچہری میں حاضر کیا گیا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چند روپوں کے لالچ میں ایک عورت کا نکاح پر نکاح پڑھا دیا“.وہ اندر چلے گئے اور یہ لکھوایا کہ ”رات کو ہم سو رہے تھے کہ اندھیرے میں چار پانچ آدمی جن کو ہم نے آوازوں سے پہچانا یک دم ہمارے بھائی رام میں نے کہا.”ہاں یہ مولویوں کی قوم ایسی ہی ہے.اور اس شخص کو تو میں آپ سنگھ پر حملہ آور ہوئے اور اُسے مار مار کر قتل کر دیا.مارنے والے فلاں فلاں سے بھی زیادہ جانتا ہوں.(علماء هم شَرٌّ مَنْ تَحتَ ادِيم السماء) (57) مُردہ زندہ ہو گیا مقدمہ بازی اس ملک میں اس حد تک جھوٹ اور فریب کی مرہونِ " اشخاص فلاں گاؤں کے تھے.پھر وہ کچھ رونے دھونے لگ گئے.منشی جی نے یہ سب رپورٹ لکھ لی اور ایک کاغذ پر مجھے یہ لکھا کہ میں ایک مقتول کو برائے ملاحظہ پوسٹ مارٹم بھیج رہا ہوں.مہربانی فرما کر نتیجہ سے اطلاع دیں“.یہ لکھ کر کاغذات ایک سپاہی کو دیے کہ اسٹنٹ سرجن صاحب کو منت ہو چکی ہے کہ جب آپ سنیں کہ ”فلاں جگہ قتل ہو گیا ہے تو فوراً یقین دے آ.وہ شخص کاغذ لے کر میرے پاس شفا خانہ میں جو تھانہ کے قریب ہی تھا نہ کر لیں.تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوگا کہ موت واقع نہیں ہوئی بلکہ صرف پہنچا.میں حیران تھا کہ پوسٹ مارٹم کے لئے تو خاص فارم ہوا کرتے ہیں، یہ سیر پھٹا ہے اور ضرب شدید ہے تیسرے دن معلوم ہوگا کہ نہیں ضرب خفیف سادہ کاغذ پر مختصر سی تحریر کیوں آئی ہے؟ سپاہی نے کہا کہ : ”سب افسر کار سرکار تھی.اور آخر میں بالعموم سچی بات یہ نکلے گی کہ صرف تو تو میں میں ہوئی تھی پر باہر ہیں ایک ناواقف منشی جی تھانہ کا کام بھگتا رہے ہیں.آپ نعش کا ملاحظہ کر لیں گے تو میں اصلی فارم بھر واکر لا دوں گا.دیوان صاحب بھی دو پہر تک اور بس.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھانہ کا سب انسپکٹر کسی تفتیش پر مع کئی آجائیں گے.وہ با قاعدہ کاغذات بھر کے بھیج دیں گئے.سپاہیوں کے باہر چلا گیا.اُس کے بعد حوالدار بھی کسی عدالت کی شہادت کے لئے سفر پر روانہ ہو گیا.پھر ہیڈ منشی بھی کسی فوری ضرورت کے لئے تھانہ خالی چھوڑ گیا.اب صرف ایک نا تجربہ کار کانسٹیبل جو کچھ تھوڑا سا پڑھا لکھا تھا تھا نہ کا دو " اب وہاں کی سنیئے سپاہی تو منشی جی نے میری طرف بھیج دیا تھا.اس کے بعد اُن لوگوں سے کہنے لگے کہ ” جاتے کیوں نہیں؟ وہ کہنے لگے کہ جائیں کہاں؟ منشی جی کہنے لگے.بیوقوفو! ابھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو انچارج رہ گیا اُن کو ہم یہاں منشی جی کے نام سے پکاریں گے.منشی جی صبح ہی کاغذات برائے ملاحظہ نعش بھیجے ہیں تم چار پائی سرکاری لاش خانہ میں لے صبح آکر تھانہ میں رجسٹر لے کر بیٹھے ہی تھے کہ کسی گاؤں کے چند جاٹ چار پائی جاؤ.وہاں یہ نعش چیری جائے گی اور نتیجہ آنے پر مقدمہ کی صورت بن سکے
113 112 گئی.میں بڑے دیوان صاحب بھی دورے سے واپس آگئے انہوں نے ساری غلطی اور ابتدائی رپورٹ بکمال حکمت ٹھیک ٹھاک کر دی.ورنہ منشی جی کی خیر نہ یہ سُن کر اُن جائوں کے رنگ فق ہو گئے.تو کیا اجی منشی جی! آپ نے لاش چیرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کو سچ سچ لکھ دیا ؟ منشی جی کہنے لگے.تھی.اور کیا کرتا ؟ قاعدہ جو یہی ہوا.اب تو وہ لوگ چکرائے اور کہنے لگے منشی جی ! ذرا دیکھ تو لو شاید کوئی سانس اس مُردہ میں باقی ہو“.یہ سُن کر تو منشی صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور بڑے غصہ (58) غیب دان پیر شملہ میں ایک سال ایک غیب دان پیر صاحب تشریف لائے اور چند دنوں میں ہی انہوں نے غیر معمولی شہرت حاصل کر لی.اُن کا طریقہ یہ تھا کہ سے کہنے لگے " حرامزادو! پہلے کہا کہ ہمارا بھائی قتل ہو گیا ہے جب میں ابتدائی جو کوئی شخص اُن سے اپنے دل کی بات پوچھنے یا کسی خواہش کا جواب لینے کو آتا رپورٹ لکھ چکا اور ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دے چکا تو اب بکتے ہو کہ دیکھ لو شاید کوئی سانس باقی نہ ہو.تھا تو اُس کے ہاتھ میں ایک مجلد دیوانِ حافظ جس کی جلد پر کاغذ چڑھا ہوا تھا دے دیا کرتے تھے.ساتھ ہی ایک پینسل اور سادہ کاغذ کا ٹکڑا.ابھی وہ شخص یہ کہہ کر منشی جی تھانہ کے صحن میں آئے اور آتے ہی مُردہ کا لحاف سامنے بیٹھ کر مگر اُن کی نظر سے اوجھل اپنا مطلب اس کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ دیا گھسیٹ کر پرے پھینک دیا.رام سنگھ کے ننگے بدن کو جو ٹھنڈی ہوا لگی تو وہ کانپنے لگا.اور منہ پر جو سیدھی دھوپ کی شعاع پڑی تو اُس کی آنکھیں جھپکنے اور منکنے لگیں.پھر کیا تھا منشی جی کے غصہ کا تھرما میٹر 212 پر جا پہنچا.ایک دو تین چار پانچ چھ ٹھڈے پر ٹھڈے جو رام سنگھ کو لگے تو وہ بندر کی طرح کود چار پائی " کرتا تھا.اس کے بعد اُسے حکم ہوتا کہ تم اس کاغذ کو خود ہی لے جا کر اور پھاڑ کر باہر پھینک دو.جب وہ پھینک آتا تھا تو غیب دان صاحب اندر کے کمرہ میں اسی دیوانِ حافظ سے فال لینے جاتے تھے.پھر باہر نکل کر کہتے کہ شاید آپ مقدمہ کے متعلق دریافت کرنا چاہتے ہیں.یا آپ غالباً اولاد 66 سے دور جا کر کھڑا ہو گیا.منشی جی وہاں بھی اُس سے جا لیٹے ” کیوں بے تو مرا کے خواہشمند ہیں.یا آپ کا دل کسی کے عشق میں مبتلا ہے.پھر آہستہ آہستہ پوری بات جو لکھی گئی تھی.تھوڑی تھوڑی تفصیل کے ساتھ بتاتے جاتے ہوا تھا؟ تو مقتول تھا؟ تیرا خون ہو گیا تھا؟ جا اب اپنی لاش چیروانے حرامزادوں نے مجھے دھوکہ دیا اور ابتدائی رپورٹ ساری جھوٹ اور غلط لکھوائی ایک دن کے لئے انچارج بنے تھے اب اُلٹی آنتیں گلے پڑیں سور کے بچے کتے کے پتے“.ادھر ہسپتال میں میں منتظر کھڑا تھا کہ نعش اب تک کیوں نہیں آئی.تھوڑی دیر میں ایک آدمی بھاگا ہوا آیا وہاں تو اور ہی معاملہ ہو گیا ہے.اتنے تھے.آخر کار جو کچھ اس سائل نے کاغذ پر لکھا ہوتا تھا وہ حرف بحرف اُسے سنا دیتے تھے.پبلک کے لوگ بہت حیران تھے کہ کس طرح یہ شخص بغیر دیکھے ہمیشہ صحیح جواب دیتا ہے.آخر کچھ دنوں کے بعد پیر جی کا بھانڈا پھوٹ گیا اور ساری چالا کی ظاہر ہوگئی.تفصیل اس عمل کی یوں ہے کہ پیر جی نے دیوانِ حافظ کی جلد اور اُس
115 114 کے اوپر چڑھے ہوئے کاغذ کے درمیان ایک قطعہ کاربن پیپر کا اور اُس کے نیچے ایک سفید کاغذ رکھا ہوتا تھا پنسل جو لکھنے کو دیتے تھے وہ نہایت سخت قسم کی ہوتی تھی.اس لئے مجبوراً لکھنے والے کو خوب زور سے دبا کر اپنی عبارت " پڑتی تھی.پھر اوپر کا کاغذ تو سائل خود پھاڑ دیتا تھا مگر اندر کے کاغذ پر کاربن پیپر کی وجہ سے وہ سب عبارت نقش ہو جایا کرتی تھی.اس کے بعد پیر جی اندر جا کر اس کاغذ کو پڑھ لیتے تھے اور آہستہ آہستہ بڑی حکمت کے ساتھ سارا مضمون بیان کر دیا کرتے تھے.غالبا پانچی آنے وہ اس عمل کی نذر کے لیا کرتے تھے.اور دن بھر میں اس طرح سے کئی کئی روپے کما لیتے تھے.سرکاری دفاتر کے بابوؤں کا تو ہر وقت وہاں جمگھٹا لگا رہتا تھا.(59) تندرستی اسے کہتے ہیں لائل پور میں مردانہ اور زنانہ شفا خانے الگ الگ ہیں ایک دفعہ لیڈی ڈاکٹر جو چار روز کی رخصت پر کہیں گئی تو اُس کی غیر حاضری میں ایک کیس رات کے وقت ایک سکھ حاملہ عورت کا وہاں آگیا.نرسوں نے اُس کے علاج کے لئے مجھے بلالیا میں نے جا کر دیکھا کہ پچپن سال کی ایک تنومند مضبوط عورت تھی جس کو تین دن سے دردِ زہ ہو رہا تھا مگر بچہ پھنسا ہوا تھا.باہر کی بہت سی دائیوں نے کوشش کی تھی مگر ناکام رہی تھیں.میں نے کہا ”تمہارے کتنے بچے اس سے پہلے پیدا ہو چکے ہیں؟ کہنے لگی ” یہ تیرھواں بچہ ہے.اور اس سے پہلے کسی ولادت میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی.میں نے جب اُس کا ملاحظہ کیا تو وہ کیسی عجیب سا معلوم ہوا درد بھی ٹھیک اُٹھ رہے تھے بچہ بھی درست پوزیشن میں تھا غیر معمولی بڑا بھی نہ تھا.مگر باوجود دردوں کے پیدا نہ ہوتا تھا.خیر ڈاکٹری کی ایک حکمت سے وہ آدھ گھنٹہ میں پیدا ہو گیا.یعنی میں " نے بچہ کو پھیر کر اُس کے پیر نیچے کر دیے.پھر اُسے کھینچ کر نکال لیا.اس کے بعد چند منٹ میں آنول بھی نکل آئی.اور دس منٹ کے بعد ایک بڑا سا گولا جو بچہ کے سر سے بھی بڑا تھا باہر نکلا جسے دیکھ کر ہم سب حیران ہوئے.وہ گولا نرم اور تقریباً دو تین سیر کا تھا.آخر اسے توڑ کر دھو کر اور کاٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ روئی ہے جو تیل میں تر بتر ہے.پوچھنے پر اس مریضہ کی ساتھی عورت نے بتایا کہ جب بچہ پیدا ہونے میں ذرا دیر ہوئی تو وہاں کی دائی نے روئی کے پنبے تیل میں بھگو کر اندر رکھ دیے تا کہ بچہ کو باہر پھسل آنے میں سہولت ہو.مگر وہ اتنے زیادہ تھے کہ خود پیدائش میں روک بن گئے.پھر دوسری دائی بلائی گئی.اُس نے بھی وہی عمل کیا.پھر تیسری بلائی گئی اُس نے بھی اور کچھ ٹھونس دیے اور یہی باعث تھا کہ بچہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا.اور جب بچہ پیدا ہوا تو پھر وہ سب ملبہ اندر سے نکل آیا دوسرے دن صبح کو جب میں زنانہ شفا خانہ میں گیا تو مریضہ نے کہا.”میں اچھی ہوں اور تیسرے دن تو پلنگ سے اُتر کر کھڑی ہوگئی کہ میں آج گھر جاؤں گی.میں نے بہتیرا سمجھایا مگر اُس نے یہی کہا کہ " مجھے قطعاً کوئی تکلیف نہیں ہے میرا گاؤں یہاں سے پندرہ میں ہی تو ہے.ہم وہاں ٹم ٹم پر آرام سے پہنچ جائیں گے.خواہ مخواہ کیوں پلنگ پر بیمار بنی لیٹی رہوں.کوئی کمزور صحت نازک بدن شہری عورت ہوتی تو ایسی کاروائی سے فوراً سیپٹک ہو جاتی.اور نہ بھی ہوتی تو چالیس دن کے بعد بھی بمشکل شفاخانہ سے رخصت ہونے کے قابل ہوتی.(60) گھی سے زکام جالندھر اور امرتسر والے مشہور آنکھوں کے سرجن سمتھ صاحب کو نزلہ بہت جلدی ہو جایا کرتا تھا.شفاخانہ میں کئی دفعہ ناک پونچھتے ، چھینکیں لیتے اور
116 چھوں چھوں کرتے آیا کرتے تو کہا کرتے تھے کہ آج خانساماں کم بخت نے گھی کھلا دیا.اتفاق سے باورچی خانہ میں چربی ختم ہو گئی تھی اس لئے گھی کے ساتھ گوشت کو فرائی کر لیا.اب اس گھی کھانے کا نتیجہ بھگت رہا ہوں.یہ سُن کر ہندوستانیوں کو تو حیرت ہوگی کہ چربی سے تو اُن کو کوئی 117 پر ہیز کرتا ہے.ورنہ بعض دوسری قو میں تو فخریہ انہیں استعمال کرتی ہیں.(62) چنا ایک دن سونی پت کے شفا خانہ میں ایک بڑھا لالہ اپنے دو سال کے تکلیف نہ ہوتی تھی مگر گھی کھاتے ہی زکام اور نزلہ شروع ہو جاتا تھا.بات یہ پوتے کو گود میں لایا اور اُسے بینچ پر لٹا دیا.پھر کہنے لگا کہ یہ بچہ شاید چنا کھا گیا ہے کہ جو عادت بچپن سے ڈالی جائے وہی راسخ ہو جاتی ہے.اور جن چیزوں کے روزانہ کھانے کا انسان عادی ہو جائے وہی طبیعت کے ساتھ مل جاتی ہیں.ہے.اس لئے بے ہوش ہے.میں نے کبھی چنوں سے لوگوں کو بے ہوش.ہوتے نہیں سنا تھا اس لئے اس کا مطلب نہ سمجھ سکا.بار بار پوچھا مگر وہ یہی کہتا پنجاب کا آدمی تیل کھالے تو اُسے تکلیف ہوتی ہے اور یورپ کا رہنے والا کھی رہا کہ ”یہ شاید چنا کھا گیا ہے.میں نے اُس سے کہا کہ "تم چنا نہیں کھالے تو وہ تکلیف پاتا ہے.غرض یہ کہ عادت بڑی زبردست چیز ہے.(61) رابڑی باجرہ کھانے والے غریب علاقوں میں ایک چیز رابڑی بنتی ہے اور غریب ہو یا امیر مزدور ہو یا جے پور کا راجہ سب لوگ اس کے گرویدہ ہیں وہ اس طرح بنتی ہے کہ باجرے کا آٹا چھا چھ یعنی کھٹی لسی میں گھول کر دھوپ میں کئی گھنٹے رہنے دیتے ہیں جس سے وہ جھاگ اور خمیر دیتا ہے اور اس میں کچھ اب کا سا نشہ پیدا ہو جاتا ہے.دھوپ میں کام کرنے والے مارواڑی کھاتے؟ بولا ”میں تو کھاتا ہوں مگر مجھے تو کھانے کی عادت ہے اس بچہ نے پہلے کبھی چنا نہیں کھایا تھا اس لئے اسے چنا چڑھ گیا ہے.میں نے کہا " تم پر نہیں چڑھتا؟ بولا کہ ” مجھے تو دمہ ہے اس لئے کھاتا ہوں اور عادت ہو گئی ہے اس بچہ کو تو عادت نہیں".اُس وقت مجھے پتہ لگا کہ اس کی مراد چتا سے کوئی خاص چیز ہے.میں نے کہا ” تم جو چنے کھاتے ہو وہ ذرا دکھاؤ تو سہی‘ اس پر اُس نے جیب سے ایک ٹین کی ڈبیا نکالی اور کھول کر مجھے چنے دکھائے وہ چنے یہی سفید کابلی چنے تھے جو ہمارے ملک میں پیدا ہوتے ہیں.بھلا بے ہوشی سے مزدوروں کا یہی ماء اللحم ہے جسے پی کر وہ خوب مگن ہو جاتے ہیں اصل بات یہ چنے کا کیا تعلق؟ اتنے میں ایک واقف کار شخص اُسی وقت شفا خانہ میں آ گیا ہے کہ ہر ملک اور قوم میں کسی نہ کسی قسم کے نشہ کا رواج ہے.کہیں تاڑی اور ساری بات سُن کر کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بڑھا تو بے وقوف ہے مجھے استعمال ہوتی ہے، کہیں سیندھی ، کہیں شراب تو کہیں رابڑی.کہیں شراب گنے سے پوچھو.دمہ کے مریض سبز دھتورے کا پانی نکال کر اُس میں کابلی اور گڑ سے بناتے ہیں، کہیں چاول یا باجرے سے سندھ میں بھنگ کا زور ہے تو ڈال دیتے ہیں.چنے اس عرق کو چوس کر موٹے ہو جاتے ہیں پھر اُن کو سایہ راجپوتانہ میں افیون کا.سرحد میں چرس پیتے ہیں تو دو آبہ میں پوست.ولایت میں وہسکی چلتی ہے یا بیئر بس ایک متقی مسلمان ہے جو مذہباً سب نشوں چنے میں سکھا لیا جاتا ہے جس سے اُن کا سائز پھر چھوٹا ہو جاتا ہے.دوبارہ بھی وہی عمل کیا جاتا ہے اور سہ بارہ بھی غرض تین دفعہ بھگو کر اور سایہ میں خشک کر
119 118 کہتے ہیں.تو خواہ ایک بہن چکوال میں ہو دوسری جہلم میں اور تیسرا بھائی دولمیال میں کے وہ چنے دمہ والے ڈبیوں میں رکھ لیتے ہیں اور اُن کے ایک دو دانے روزانہ حسب ضرورت علاج کے طور پر کھا لیا کرتے ہیں.یہ لوگ ان کو ” چنا“ فورا بھائی کو تو ہچکی لگ جاتی اور بہنیں رونا اور ہنسنا شروع کر دیتیں.مدتوں سے اُن کا یہی عمل جاری تھا.لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس شخص کی یہ بات سُن کر میں بے ہوش بچہ کی طرف متوجہ ہوا اور یہ کیسی بیماری ہے؟ اس علاقہ کے لوگ ”جادو ٹونہ جن بھوت کے بہت قائل ہیں اور ایسی بیماریوں کو اُن کی طرف ہی منسوب کر دیا کرتے ہیں.مگر میں نے اُن سے کہہ دیا کہ یہ ہسٹیریا کا مرض ہے اور کچھ نہیں ہاں یہ سبب ایک تشخیص مکمل ہو گئی کہ دادا کا کہنا ٹھیک تھا.یہ سب دھتورہ کا ہی اثر تھا.خیر چند کنبہ کے تینوں آدمیوں کے بیمار ہونے کے ہم اسے خاندانی یا فیملی ہسٹیر یا اُس کے معدہ میں ربڑ کی نلکی ڈال کر اُسے اچھی طرح اور بار بار دھویا.دھوتے دھوتے کھٹ کھٹ کر کے چلانچی میں تین چار چنے دھتورے والے آ پڑے اب گھنٹہ میں بے ہوشی بھی جاتی رہی اور بچہ اچھا ہو گیا مگر بعض بڑھے بھی احمق ہوتے ہیں.اس کا دادا چنا چنا ہی کہتا رہا.یہ نہ منہ سے پھوٹا کہ دھتورہ والے چنے ہیں.اگر دوسرا آدمی آکر ہمیں نہ بتاتا تو دادا سے تو آدھ گھنٹہ سرکھپائی رہی مگر اُس نے اصلی زہر کا نام نہ لیا.صرف چنا چنا ہی رہتا رہا.بعض آدمی بھی کیسے بیوقوف ہوتے ہیں.(63) عجیب فیملی ہسٹیریا میں چکوال میں تھا کہ ایک عجیب بات سننے اور دیکھنے کا اتفاق ہوا ایک گاؤں میں دوسگی بہنیں تھیں اور ایک اُن کا بھائی تھا جب میں نے اُن کے بھائی کو دیکھا تو وہ کوئی تمہیں سال کا جوان تھا.بہنیں دونوں اُس سے چھوٹی تھیں.اور بیماری اُن کو یہ تھی کہ ہر روز بلاناغہ دو بجے دن کے خواہ وہ ایک مکان میں ہوں یا الگ الگ ایک بہن تو رونا شروع کر دیتی تھی اور دوسری ہنسنا.اور بھائی صاحب کو بیچکی لگ جاتی تھی.مگر شام کے قریب تینوں اچھے ہو جاتے تھے.اور دن رات کے باقی حصہ میں اپنے سب کام کاج با قاعدہ کیا کرتے تھے.مگر جہاں ظہر کے وقت گھڑی کی سوئی عین دو پر پہنچی کہہ سکتے ہیں.(64) ہر ملکے وہر اسے ہرم رسم لاہور کی ملازت کے ایام میں میو ہاسپٹل کے ہر ہاؤس سرجن کی چوتھے دن رات بھر کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی.بلکہ وہ سوتا بھی البرٹ وکٹر ہاسپٹل یعنی یورپین حصہ کے ایک کمرہ میں تھا.تاکہ وقت بے وقت نرس اُسے جگا سکے.ایک دن میری ڈیوٹی تھی کہ ایک میم کو وہاں در دزہ شروع ہو گئے.نرس مجھے بلا کر لے گئی اُس لڑکی کا پہلا بچہ تھا مگر اسے اپنی نسل سے اتنا عشق تھا کہ ہمارے ملک کی عورتیں تو دردوں کے وقت ہائے وائے کر کے چیختی ہیں مگر وہ یہ الفاظ کہہ رہی تھی.O Darling Come out, Sonny! Mother is waiting for you I am dying to have a look at your pretty face.(یعنی اے میرے پیارے باہر نکلو بیٹا! ماں تمہارا انتظار کر رہی ہے میں تو تمہارا پیارا چہرہ دیکھنے کے لئے مر رہی ہوں.
121 120 میں یہ سُن کر سخت متعجب ہوا مگر ہر ملکے و ہر رہے.اہل مقدمہ جب صبح کی ٹرین سے وہاں اترا کرتے تھے تو ریفرشمنٹ روم کے خانساماں سے یہ کہہ کر شہر کی طرف جایا کرتے تھے کہ ”ہم کچہری سے دو بجے آئیں گے تم ہمارے لئے کھانا تیا رکھنا.ہم پانچ آدمی ہیں.پانچ مرغوں کے (65) لاہور کا بچہ پنجاب کے تمام ضلعوں میں لائکپور کا ضلع سب سے زیادہ امیر اور کباب بنا رکھنا.کچھ مچھلی ہو کچھ کٹلٹ ہوں، باقی پراٹھے نیز ایک درجن سوڈے خوشحال ہے.اور خود لائکپور کا شہر بھی لاہور کا بچہ ہی ہے.جو چیز امرتسر، کی بوتلیں اور دو بوتل اول درجہ کی شراب اور دیکھنا کہیں برف نہ بھول جانا.یہ سب چیزیں وقت پر تیار رہیں.یہ تھا وہاں کی دولت کا کھیل جو میں نے 1924ء میں اپنی آنکھ سے دیکھا.(66) بلوچی رسوم بلوچی اقوام کی معاشرت بھی عجیب ہے.میں جب نیا نیا اُن کے ملتان، راولپنڈی یا جالندھر میں نہ مل سکے وہ عام طور پر لائکپور میں مل جاتی ہے.دیہات تک کی مرفہ حالی کی یہ کیفیت ہے کہ ایک دفعہ مجھے ایک سکھ جو بالکل معمولی حیثیت کا تھا بُلا کر اپنی والدہ کی بیماری کے مشورہ کے لئے شہر سے چار میل کے فاصلہ پر اپنے گاؤں میں لے گیا گاؤں میں اس کی معمولی حیثیت کی ایک دیہاتی حویلی تھی.اندر زنانہ مکان تھا اور باہر مردانہ.میں نے مریضہ کو دیکھا.اور جب روانہ ہوتے وقت تانگہ پر بیٹھنے لگا تو وہ سکھ علاقہ میں پہنچا تو دیکھا کہ مرد بھی عورتوں کے برابر لمبے لمبے بال رکھتے ہیں.ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا.کہ ” مہربانی کر کے لنسی تو پیتے جائیں.چھاویلہ دوسرے اُن کے ہاں یہ رواج ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی آدمی کسی چھاچھ پینے کا چاشت کا وقت) ہے ہم غریب کسان ہیں ہماری عزت دوسرے سے ملتا ہے تو دونوں ایک دوسرے سے حال لیتے اور دیتے ہیں اور ہر متنفس کی حتی کہ گھوڑی، گدھی، بیل، بکری، کتے، بلی تک کے نام بنام ایک افزائی ہو جائے گی“.یہ کہہ کر اُس نے ڈیوڑھی میں جو میز پڑی تھی اُس پر سے چادر ہٹائی دوسرے سے خیریت پوچھتے ہیں.نا محرم عورتیں غیر مردوں سے معانقہ کرتی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نہ تو وہاں کسی ہے نہ کٹورا نہ نمک بلکہ اُن کی جگہ شیشے کے ہیں.بلکہ دن کے وقت ایک چار پائی پر اُن کے ساتھ لیٹ بھی جاتی ہیں اور مکلف گلاس، نفیس پرچ پیالیاں، وہسکی کا ادھا، سوڈے کی تین بوتلیں، برف کا مخفی مخفی بردہ فروشی کا سلسلہ بھی جاری ہے.عورتیں اسبغول بھگو کر اپنے سر کے ایک جنگی ڈلا ، ولایتی بسکٹوں کا بنڈل، چائے مکھن اور پھلوں کی ایک ٹرے رکھی بال چپکاتی ہیں.اور مہمان داری کے وقت میں نے ایک ایک روٹی اُن کے ہے.یہ تھی لائک پور کے ضلع کی لسی مگر میری طبیعت شراب کو دیکھ کر بہت منقض ہاں کی ایسی دیکھی ہے جسے آٹھ آدمی کھا سکتے ہیں.کسی رئیس کے ہاں شادی ہوئی اور میں یہ کہہ کر چلا آیا کہ سردار جی میری داڑھی کا اور تمہاری اس میز کا بیاہ ہو تو عجیب سماں ہوتا ہے.سینکڑوں گائیں، بکرے اور بھیڑیں پانچ منٹ کوئی جوڑ نہیں“.میں ذبح ہو کر کٹ کر تیار ہو جاتی ہیں.نہ کوئی قصاب آتا ہے نہ قصائی.بڑے اسی طرح میں نے لائل پور کے اسٹیشن پر دیکھا کہ معمولی حیثیت کے بچے اور عورتیں مل کر یہ کام کر لیتے ہیں.پھر کئی نالیاں فٹ بھر گہری اور ایک
123 122 66 بالشت چوڑی گھری ہوئی تیار رکھتے ہیں.ان پر مٹی کی ہانڈیاں قطار در قطار پھرتا تھا.لوگ بھی اُس کی بڑی عزت کرتے تھے.کھانا پینا بہ افراط مل جاتا تھا چڑھا دیتے ہیں.چند لوگ مشکوں سے اُن میں پانی بھر دیتے ہیں.کچھ آدمی اور مشہور تھا کہ کسی زمانہ میں یہ شخص ریلوے گارا تھا.ٹرین کے نیچے آکر اس کی اُن میں گوشت ڈال دیتے ہیں.بعضے نمک مرچ ڈال جاتے ہیں.گھی کی جگہ دونوں ٹانگیں کٹ گئیں.اس کے بعد اُس نے فقیرانہ زندگی بسر کرنی شروع کر چربی ہی کافی ہوتی ہے.پھر اُن نالیوں میں لکڑیوں کے ڈنڈے رکھ کر آگ لگا دی.دی جاتی ہے.اور کچھ آدمی ہانڈیوں کا گوشت درختوں کی ٹہنیوں سے ہلاتے ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سائیں شفا خانہ میں چلا آرہا ہے میں رہتے ہیں تاکہ جل نہ جائے بس دو گھنٹوں کے اندر پانچ سو ہانڈی تیار ہے.نے پوچھا ”کیونکر اس طرف کا رُخ کیا؟ کہنے لگا ”ایک ٹانگ میں بہت سالن لکڑی کے بڑے بڑے خوانوں میں انڈیلتے جاتے ہیں اور تندوری روٹیاں تکلیف ہے.چمڑے کی ٹوپی ٹانگ کے سرے پر سے اُٹھا کر دکھائی تو وہاں لے کر کھاتے جاتے ہیں.ان کے تندور بھی ایسے ہوتے ہیں کہ بیک وقت اُن ایک پھوڑا بن چکا تھا.میں نے سائیں کو کہا کہ ”شفا خانہ میں داخل ہو جاؤ.میں تمیں تمہیں روٹیاں لگ سکتی ہیں اور ہر روٹی آٹھ آدمیوں تک کے لئے کافی میں اس کا آپریشن کر دوں گا.کھانا سرکاری ملے گا.کوئی تکلیف نہ ہو گی اور ہوتی ہے.غرض ظہر سے پہلے پہلے ساری قوم کھا پی کر فارغ ہو جاتی ہے.تھوڑے دنوں میں اچھے ہو جاؤ گے.وہ راضی ہو گیا اور میں نے اُسے وارڈ ایسے بیاہ شادی کے موقع پر بیسیوں عورتیں اپنے بچوں کو دور دور میں داخل کرا دیا.دوپہر کو اُس کا آپریشن ہو گیا اور وہ اپنی چار پائی پر جم کر مقیم فاصلوں سے علاج کے لئے وہاں لے آتی ہیں اور ذبح شدہ جانوروں کے گوبر ہو گیا.میں نے چپڑاسی سے کہہ دیا کہ سائیں جو بھی مانگے وہ اسے کھانے کو جمع کر کے اپنے اپنے بچے اس میں ننگے دفن کر دیتی ہیں صرف منہ کھلا رہنے دید یا کرو.اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.دیتی ہیں اور دودھ پلاتے وقت بچہ پر اوندھی ہو جاتی ہیں.آٹھ دس گھنٹے بچوں شفاخانہ کے اس وارڈ یعنی بڑے کمرے میں چو میں چار پائیاں تھیں کو اس طرح رکھنا اُن کی آئندہ صحت کے لئے نہایت مفید سمجھا جاتا ہے.گویا اور سب کی سب بیماروں سے بھری رہتی تھیں.سائیں کا روزانہ ڈریسنگ ہوتا ٹیکہ لگا دیا گیا ہے.(67) ملامتی صوفی تھا.یہاں تک کہ اس کا زخم قریباً اچھا ہو گیا.ایک دن جب میں صبح کو شفاخانہ کا گشت لگا رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارے بیمار یا تیماردار اُس وارڈ کے اپنے اپنے پلنگ کے پاس ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں.میں نے کہا ”آج کیا بات لائل پور میں بازار کے ایک درخت کے نیچے ایک اُدھیڑ عمر کا فقیر یا ے؟ وہ کہنے لگے حضور کچھ عرض نہیں کر سکتے“.میں نے کہا ”آخر کہو تو سائیں مع اپنے کچھ مختصر سامان کے پڑا رہتا تھا اُس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں معاملہ کیا ہے؟ کہنے لگے کہ ہمارے لئے اب اس وارڈ میں ٹھہرنا مشکل کے نیچے سے کئی ہوئی تھیں.اور جو ٹھنڈ تھے ان پر گول گول چڑے کے خول ہے.یا تو سائیں جی کو آپ کسی اور جگہ منتقل کر دیں یا ہمیں ہی دوسرے وارڈ بطور جوتیوں کے چڑھے رہتے تھے.اُن کٹی ہوئی ٹانگوں سے وہ فقیر خاصہ دوڑتا میں بھیج دیں.میں نے کہا: ”سائیں تمہارا کیا بگاڑتا ہے؟ ایک شخص بولا کہ
125 124 حضور کہنے کی بات نہیں ہے.میں نے کہا ”آخر کہے بغیر کیونکر معلوم ہو گا اس طرح سائیں کو رخصت کر کے میں دیر تک سوچتا رہا کہ افسوس کہ تمہاری بات سچ ہے؟ اس پر وہ ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے.وہ انسان جب گرنے لگتا ہے تو واقعی اسفل السافلین سے ورے دم نہیں لیتا.اسے کہتا کہ تو کہہ اور یہ اُسے کہتا کہ تو کہہ.آخر ایک ہمت والا شخص تیار ہوا اور کہنے لگا کہ یہ سائیں ایسی بات کرتا ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے.میں نے کہا ”یہی تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا کرتا ہے؟ آخر وہ شخص کہنے لگا کہ یہ نجاست (68) بچکی میو ہاسپٹل لاہور کا ذکر ہے کہ 1907ء میں وہاں ایک مریض کا کھاتا ہے؟ میں یہ سُن کر سخت حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ ”یہ نجاست کہاں آپریشن ہوا.آپریشن کے کچھ دن بعد بیمار کو بچکی شروع ہوگئی.کئی دن تو ہلکی ہلکی سے لاتا ہے؟ وہ کہنے لگا ”اجی کچھ نہ پوچھئے یہ چلنے سے تو معذور ہی ہے.رہی.پھر تیز اور شدید ہوتی گئی.یہاں تک کہ رات کو اُس کی آواز ہمارے یہیں چار پائی کے پاس برتن میں رفع حاجت کرتا ہے اور اُسی وقت اُسے لقمے گھروں میں پہنچا کرتی تھی.وہ آواز بھی نہایت مہیب اور لمبی تھی.یوں معلوم بنا بنا کر اور چبا چبا کر کھا لیتا ہے.مجھ پر تو یہ سُن کر گویا بجلی گر پڑی مگر سب ہوتا تھا کہ اسی ایک بیچکی میں اس شخص کا دم نکل جائے گا.مگر ایک دن نہیں.نے اس کی تصدیق کی میں نے پوچھا.”سائیں یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ کہنے ایک ہفتہ نہیں تقریباً ایک مہینہ تک یہ ہچکی کا سلسلہ برابر جاری رہا.بلکہ آواز اُونچی ہی ہوتی چلی گئی.دوائیاں اور ٹیکے؟ وہ تو جو بھی تھے سب لگ چکے تھے بلسٹر ، بجلی، مکسچر، مارفیا، امیرو پین، نیند آور، اور تشنج دور کرنے والی دوائیں.و لگا.”سچ کہتے ہیں.پھر میں نے کہا تو اپنا فضلہ کھاتا ہے تو تو جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے کہنے لگا ”پیر کا ایسا ہی حکم ہے میں نے کہا ”ارے کم بخت کیا تجھے روٹی نہیں ملتی کہنے لگا ”جی ملتی کیوں نہیں.آپ کی مہربانی سے غرض ڈاکٹروں کے تھیلے میں کوئی ایسی چیزیں باقی نہ رہی جو اس قابل رحم مریض کو دی نہ گئی ہو.مگر چاول، روٹی، سبزی سب کچھ مل جاتا ہے.لیکن وہ بھی مرشد کا فرمان دودھ، ہے.مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی لوگ کہنے لگے.”جناب عالی یہ اپنی روٹی بھی جو شفا خانہ سے ملتی ایک دن اُس کونے میں جہاں مریض کا پلنگ رہتا تھا عمارت کی کوئی ہے پوری کھا لیتا ہے اور مزید برآں یہ حرکت بھی کرتا ہے.کئی دن سے ہم مرمت ہونے والی تھی اس لئے وہ پلنگ مع مریض کے کسی دوسری جگہ کر دیا گیا اسے منع کر رہے ہیں مگر باز نہیں آتا.اس لئے مجبوراً آپ سے رپورٹ کی.اور مرمت کے بعد پھر وہیں آ گیا.جب تک وہ شخص نئی جگہ رہا ہچکی بند رہی.میں نے بہتیرا سائیں سے کہا کہ یہ حرکت چھوڑ دے مگر اُس نے کہا برسوں کی جو نہی اپنی پرانی جگہ پر آیا ہچکی پھر اس زور شور سے شروع ہوگئی.شام کو جب عادت ہے.پیر مرشد کی وصیت ہے میں ملامتی ہو کر کس طرح اسے چھوڑ سکتا اُسے پٹی لگنے لگی تب اُس نے یہ بات بتائی، ہم نے کہا اچھا آج تمہارا ہوں؟ آخر میں نے اسے کہہ دیا کہ اب تمہارا زخم تقریباً اچھا ہے.تم جاؤ اور روازانہ آکر ڈریسنگ کرا لیا کرو.یہاں رہنے کے قابل نہیں ہو“.ڈریسنگ باہر برآمدہ کے ڈریسنگ روم میں کریں گے.غرض اُسے اسٹریچر پر لاد کر اُس دوسرے کمرے میں لے گئے اور واقعی جیسا اُس نے بیان کیا تھا.
127 126 جب تک پٹی لگتی رہی ہچکی بالکل نہ آئی.لیکن جونہی وہ اصلی جگہ اپنے پلنگ پر پہنچا چھوڑ دیا.ماسٹر کی بھی تلاشی ہوئی مگر کچھ پتہ نہ لگا.آخر ایک سمجھدار تھانیدار نے ظالم پھر شروع ہوگئی.دوسرے دن کرنل پیری کو جن کا وہ مریض تھا یہ رپورٹ کی گئی.اُن سے کہا گیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو مریض کی جگہ اور پلنگ اندازہ لگایا کہ یہ ماسٹر بڑا چالاک سا آدمی ہے.اور یہی ان لوگوں کے ہاں آیا جایا کرتا تھا اس سے کچھ پتہ چلے گا.چنانچہ تفتیش کے بہانے اُسے حوالات میں تبدیل کر دیے جائیں.صاحب نے کہا ضرور یہ بھی تجربہ کر کے دیکھ لو.اس دے دیا.کیونکہ پولیس والوں کو ان معاملات میں غیر محدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں.اس کے بعد ماسٹر کے گھر والوں کو کہلوا دیا کہ ماسٹر تو حوالات میں ہے تم اس کا کھانا صبح شام گھر سے بھیج دیا کرو.بات پر عمل کرنا تھا کہ پھر اس کے بعد ایک بچکی بھی اسے نہیں آئی.نہیں تو یہ خیال پیدا ہو چلا تھا کہ یہ بیمار اب صرف چند دنوں کا ہی مہمان ہے.ماحول کی تبدیلی ہی غالباً اصل وجہ تھی جس کا بیچکی پر اثر پڑا.(69) سُراغرساں مجرم دو تین دن کے بعد تھانہ دار نے ماسٹر کے کھانے کے اندر روٹیوں کے درمیان ایک رقعہ لکھ کر رکھ دیا کہ ” ہوشیار رہنا اور کوئی بات قطعاً منہ سے نہ نکالنا.ماسٹر نے اس رقعہ کا کوئی جواب نہ دیا.دوسرے دن اسی طرح کا اور گوجرانوالہ جیل میں وزیر آباد کا ایک اسکول ماسٹر جو بڑا ذہین اور تیز کوئی فقرہ لکھ کر اندر رکھ دیا.غرض چار پانچ روز یونہی ہوتا رہا.مگر ماسٹر خاموش طرار معلوم ہوتا تھا پکڑا آیا وہ اپنے وطن میں محکمہ تعلیم کا ملازم تھا.ایک ہندو تھا.آخر چھٹے یا ساتویں دن اُس نے یہ لکھ کر کہ ”میں تو ہوشیار ہوں کہیں تم نہ ادھیڑ عمر کی بیوہ نے اُسے اپنے لڑکے کو پرائیوٹ تعلیم دینے کے لئے ٹیوشن پر بول پڑنا.خالی برتن میں رکھ دیا اور دستر خوان لپیٹ کر واپس بھیج دیا.اس رکھ لیا تھا.رفتہ رفتہ ماسٹر نے لڑکے کو اپنے ساتھ اتنا ہلا لیا کہ ہر جگہ اُسے ساتھ سے یہ پتہ تو لگ گیا کہ ماسٹر جرم میں شریک تو ضرور ہے مگر یہ کون شخص جسے اُس نے جواب دیا ہے؟ لڑکے کو بلا کر پوچھا کہ ماسٹر کا دوست اور ملنے ہے ساتھ لئے پھرتا تھا.چند روز کے بعد لڑکے کو سینما دکھانے لے گیا.پھر روز ہی لے جانے لگا.ایک دن سینما کے انٹرول (وقفہ ) میں لڑکے سے کہنے لگا کہ تو والا کون کون ہے؟ اُس نے کہا: ایک پٹھان ہے (جس کے ساتھ لڑکے نے اُس پٹھان کے ساتھ چائے پی اور میں ابھی آتا ہوں.پٹھان اور لڑکا دوکان پر سینما میں چائے پی تھی) اُس سے ماسٹر کا بہت یارانہ ہے.تھانہ دار نے اُس چائے وغیرہ پیتے رہے اور ماسٹر تھوڑی دیر غائب رہ کر واپس تماشا دیکھنے آگیا.پٹھان کو گرفتار کر لیا.اور ماسٹر سے الگ کر کے دم دلا سا دے کر جو پوچھا تو وہ تماشا ختم ہونے پر ماسٹر اپنے گھر چلا گیا اور لڑکا اپنے گھر لڑکے نے جونہی گھر پھوٹ پڑا کہ یہ ماسٹر ہی کا کام ہے مگر تفصیل مجھے معلوم نہیں.اُس نے مجھ سے کے کمرہ میں قدم رکھا تو کیا دیکھتا ہے کہ ماں قتل ہوئی پڑی ہے اور اس کا سر چھری مارنا اور ذبح کرنا سیکھا ہے.مگر اتنا پتہ ہے کہ اس عورت کے لڑکے کو ندارد ہے.رونے پیٹنے لگا.اہل محلہ جمع ہو گئے.پولیس آگئی اور نعش پوسٹ چائے کی دکان پر میرے سپرد کر کے اُس نے اس عورت کے گھر پہنچ کر اُس کو مارٹم کے لئے چلی گئی.ماں بیٹے اکیلے رہا کرتے تھے کسی کو پتہ نہ لگا کہ کون ذبح کیا ہے.سر وغیرہ اس عورت کا کہیں دبا دیا ہے.قاتل ہے.صرف وہ ماسٹر اُن کے گھر آیا جایا کرتا تھا.اب اُس نے بھی آنا جب تھا نہ دار کی تشفی ہو گئی کہ ماسٹر ہی اصلی مجرم ہے تو اُس نے ماسٹر
129 128 جی کو شکنجہ میں کسنا شروع کیا.مجرم کا تعین ہو جائے پھر اقبال جرم کرانا بہت آسان ہوتا ہے.ماسٹر جی پولیس کے دست شفقت کی تاب نہ لا سکے.ساتھ موت کا ہے.جو لوگ قاتل تھے انہوں نے یہ کہانی بنائی کہ یہ شخص ہم سے جھگڑا اور گالم گلوچ کر رہا تھا کہ غصہ اور طیش میں آکر اُس نے دوڑ کر سامنے یہ مر گیا.ہی اُن کا دستخطی رقعہ بھی موجود تھا اور پٹھان کی چغلی بھی.آخر انہوں نے اقبال دیوار میں خود ہی اپنے سر سے ٹکر لگائی ہے جس کی وجہ سے کھوپڑی ٹوٹ گئی اور کر لیا اور وزیر آباد کے نالے کے کنارے سے عورت کا گڑا ہوا سر بھی نکال دیا.کیس مکمل ہو گیا اور ماسٹر جی اپنے کیفر کردار کو پہنچے.مقدمہ چلا میری گواہی ہوئی تو میں نے جرح کے جواب میں یہی کہا مگر اصل بات اب آتی ہے.میں نے اقبال جرم کے بعد ایک دن کہ ”اپنی مرضی سے دیوار کے ساتھ ایسی ٹکر مارنا کہ کھوپڑی کی ہڈی پاش پاش جیل میں ماسٹر جی سے پوچھا کہ ”اس قتل کی وجہ کیا تھی؟ تو کہنے لگے کہ ہو جائے میرے نزدیک ناممکن ہے.میری گواہی کو مشکوک کرنے کے لئے بد قسمتی سے میں سراغرسانی، جرائم اور جاسوسی کے ناول پڑھا کرتا تھا اور جو ایک بڑا ڈاکٹر اس مقدمہ میں بطور اکسپرٹ (ماہر ) بُلایا گیا.اُس نے پانچ سو کتاب بھی پڑھتا تھا اُس میں مجرم کی شکست اور انصاف کی فتح کا بیان ہوتا نقرئی شکے لے کر آتے ہی کہہ دیا کہ ”ہاں اس قسم کی ضرب خود ٹکر مار کر بھی لگ تھا.مجھے یہ بات ناگوار گزرا کرتی تھی.آخر میں نے ارادہ کیا کہ میں بھی ایک سکتی ہے.چلو معاملہ مشتبہ ہو گیا اور قاتل ڈھول بجاتے اور پیسے کھڑکاتے بُری قتل کروں مگر اس ہوشیاری سے کہ مجرم کا پتہ نہ لگے.اس پر میں نے بلاوجہ اس ہو کر آگئے.عورت کو قتل کرنے کی اسکیم بنائی کہ دیکھوں میں کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں.اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے.ماسٹر تو یہ کہہ کر اپنے بستر پر چلا گیا مگر اُس دن سے میرے دل میں یہ خیال جم گیا ہے کہ سراغرسانی کی کتابیں اور سینما کی جرائم آموز کہانیاں واقعی نوجوانوں کو برباد کرتیں اور اُن کی مجرمانہ فطرت کو اُبھارنے میں بہت مدد دے سکتی ہیں.66 (71) ہٹا کٹا بیمار مدت ہوئی میں ایک شہر کے سول ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن تھا کہ ایک دن سول سرجن کے دفتر میں میڈیکل بورڈ کا اجلاس ہوا ایک ممبر اس بورڈ کا خودسول سرجن تھا دوسرا چھاؤنی کا ایک ملٹری سرجن آگیا تھا.تیسرا میں تھا.ب ہم بیٹھ چکے تو سول سرجن نے کچھ کاغذات دستخط کے لئے فوجی سرجن کے آگے کھسکا دئیے.اُس نے دستخط کر کے میرے آگے سرکا دیئے.میں نے (70) کبھی یوں بھی ہوتا ہے انہیں پڑھا تو معلوم ہوا کہ کوئی انگریز ہے جو کسی آپریشن کے بعد اس قدر بیمار ایک دفعہ میرے پاس ایک جوان آدمی کی نعش پوسٹ مارٹم کے لئے اور کمزور ہو گیا ہے کہ اُس کے لئے ایک سال کی رخصت ولایت جانے کے لائی گئی.میں نے بعد ملاحظہ یہ لکھ دیا کہ اس کے سر پر کسی لاٹھی وغیرہ کی سخت لئے منظور ہونی اشد ضروری ہے.کاغذ پڑھ کر میں نے کہا کہ ” میں اس پر کیونکر ضرب لگی ہے جس سے کھوپڑی کی ہڈی چور چور ہو گئی ہے.اور یہی باعث دستخط کروں.میں نے تو اُس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھی“.
131 130 سول سرجن میری یہ گستاخی دیکھ کر ترشرو سا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اگر اور کسی طرح میری مشکل آسان کریں.“ انہوں نے محض از راہ ہمدردی ایک تمہیں ہم پر اعتبار نہیں ہے اور خود ہی دیکھنا چاہتے ہو تو مریض باہر فٹن میں سر ٹیفکیٹ اُسے دیدیا کہ یہ ڈاکٹر یہاں آکر بیمار ہو گیا ہے.اسے دس یا پندرہ بیٹھا ہوا ہے وہاں جا کر اُسے دیکھ لو.میں جو باہر آیا تو فٹن میں ایک نہایت دن کی رخصت دی جائے یہ بیماری کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتا.“ اس کے بعد گرانڈیل ، سُرخ سفید ، موٹا تازہ انگریز بیٹھا ہوا تھا.میں نے اس سے پوچھا ان کا اردہ تھا کہ جب رخصت ختم ہو جائے گی تو مزید توسیع رخصت کا کہ آپ کا مریض جو رخصت پر جانا چاہتا ہے کہاں ہے؟ میری حیرانی کی سرٹیفکیٹ دیدونگا.مگر جھوٹ کی نحوست سر پر منڈلا رہی تھی.جب ٹیفکیٹ کو ہاٹ کوئی حد نہ رہی جب اُس شخص نے نہایت متکبرانہ انداز سے جواب دیا کہ وہ پہنچا تو آفیسر کمانڈنگ نے تین ڈاکٹر ایم.ایس فوراً وہاں سے کیمل پور بھیج میں ہی ہوں.میں نے کہا.”آپ کی صحت تو بہت اعلیٰ اور عمدہ ہے.کہنے دیئے.وہ دوسرے دن اس بیمار ڈاکٹر کے گھر پر پوچھتے پوچھتے پہنچ گئے.ڈاکٹر لگا کہ ”مجھے فسچولا (بواسیر) کا مرض ہو گیا تھا.اُس کا اپریشن میں نے کرا لیا سیر سپاٹے کے لئے بازار گیا ہوا تھا.جب آیا تو ان کو دیکھتے ہی اس کا رنگ ہے.اور صحت کے متعلق اُن ڈاکٹروں سے پوچھو جو اندر بیٹھے ہیں.اُن کے نزدیک میرے لئے ایک سال کا ریسٹ (آرام) ضرور ی ہے.یہ جھاڑ کھا کر اس نے سول سرجن سے ساز باز کر کے جھوٹا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے.چنانچہ میں اندر آ گیا اور کہا ”دُنیا میں بہت کم آدمی ہیں جن کی بظاہر ایسی عمدہ صحت ہو جیسی اس مریض کی ہے تاہم میں دستخط ضرور کر دوں گا.“ " فق ہو گیا.غرض معائنہ ہوا اور تینوں نے یہ رائے دی کہ ڈاکٹر چنگا بھلا ہے.ب اسٹنٹ سرجن کو تو کورٹ مارشل نے ڈسمس کیا اور سول سرجن صاحب کا تنزل ہو کر پھر وہ اسٹنٹ سرجن ہو گئے اور چھپیں سال کی نوکری اصل بات یہ ہے کہ انگریز اگر ذرا بھی بیمار ہوجائیں تو لمبی رخصت داغدار ہوگئی.آخر شرم کے مارے انہوں نے خود ہی پنشن لے لی اور یادِ خدا لے کر وطن کو بھاگتے ہیں تاکہ ہندوستان کی گرمی میں کام کے قابل رہ سکیں.میں زندگی بسر کرنے لگے.ہندوستانیوں کی طرح نہیں کہ دفتر کی کرسی سے مرکز ہی اُٹھیں.(73) ڈاؤن ایکسپریس شملہ میں 1925ء کا ذکر ہے جبکہ میں رین ہاسپٹل میں متعین تھا کہ ہے.(72) جھوٹ کی نحوست کیمل پور میں میرے ایک ہم وطن سول سرجنی کے عہدے پر ترقی ایک دن قریباً دو بجے دن کے ایک شخص ایک مزدور کی گود میں ایک 3 سال کا پاکر تعینات ہوئے.ایک دن کو ہاٹ سے ایک فوجی سب اسٹنٹ سرجن بچہ اُٹھوا کر ہسپتال میں داخل ہوا.وہ کچھ گھبرایا ہوا سا تھا.بچہ کو لا کر مزدور نے متوطن کیمل پور اس کے پاس آیا کہ ”میں مدت سے لمبی رُخصت مانگ ایک بینچ پر ڈال دیا اور اُس شخص نے یہ کہنا شروع کیا.ڈاکٹر صاحب! اس بچہ رہا ہوں.مجھے اس کی سخت ضرورت ہے.مگر افسر نہیں دیتے.اب چار روز کی کو دیکھ لیں.میں نہیں جانتا یہ کس کا بچہ ہے.آپ پہلے یہ ملاحظہ کر لیں کہ اتفاقی رخصت لے کر یہاں آیا ہوں.پر میشر کے لئے آپ ہی مجھ پر رحم کریں اسے چوٹ تو نہیں لگی یا کوئی ہڈی وغیرہ تو نہیں ٹوٹی.اگر کوئی گزند نہ پہنچی ہو
133 132 " تو پھر میں اسے تھانہ میں چھوڑ آؤں.پولیس والے آپ ہی اس کے وارثوں کو ہے.گورا پتلا دبلا ہے اور روئی کا کوٹ اور اونی کنٹوپ پہنے ہے غالباً لوئر ڈھونڈ لیں گے.میں نے دیکھ کر کہا کہ یہ بچہ تو میرا بھی دیکھا ہوا ہے آپ کو بازار کے آس پاس سے نالی میں گرا ہے اور پھسلتا پھسلتا نالیوں نالیوں ہوتا ہوا کہاں سے ملا؟ کہنے لگا کہ ”میں نیچے کھڑ میں جہاں کمیٹی کے جانور ذبح کئے میل ڈیڑھ میل نیچے کھڑ میں مدیح کے پاس جا نکلا ہے.اگر کسی کا گم ہو گیا ہو تو جاتے ہیں اور جہاں اُن کا خون اور گوبر جمع رہتا ہے کھڑا تھا کہ لوئر بازار کی جانب سے یہ لڑکا میٹی کی نالی میں بڑے زور سے طوفان میل کی طرح نیچے کی طرف آتا نظر آیا.خدا جانے میں بھر اوپر سے آ رہا تھا یا ڈیڑھ میل سے.کاٹ روڈ کے پل کے نیچے سے یہ گزرا.لداخی محلہ کی نالی میں سے یہ گزرا.غرض وہ اُسے بڑے تھانہ میں سے لے جائے.ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ شفاخانہ کے ایک کمپاؤڈر مولوی یحیی خان ڈسپنسری میں سے کام کر کے باہر نکلے.اور لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سیدھے ادھر کو ہی آئے اور کہنے لگے.” یہاں کیا ہے؟ لوگوں نے کہا جی کسی کا لڑکا ہے جس کے والدین کی تلاش ہو رہی ہے.نیچے کئی پل اور پلیاں گزرتا 40 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ نیچے کی طرف آیا.اگر یو چڑ خانہ کے پاس سے ملا ہے.یحیی خاں کو بھی لڑکے کی شکل دیکھنے کا شوق سخت زمین پر اس رفتار سے پہنچتا تو پاش پاش ہی ہو جاتا.مگر نالی کے آخر پر ہوا.بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھے تو دو آوازیں میں نے سنیں.ایک تو یحییٰ خاں کی خون اور گوبر وغیرہ کا ایک بڑا ڈھیر تھا یہ غاپ سے اُس کے اندر جنس گیا.اگر ارے یہ تو میرا بیٹا ہے.؟“ اور دوسری لڑکے کی ”ابا! مجھے لے لو.مجھے بے میں دیکھنے والا موجود نہ ہوتا تو یہ اس میں ہی زندہ درگور ہو جاتا.لیکن میں غل اختیار ہنسی آگئی.سوچ رہا تھا کہ جبھی یہ لڑ کا صورت آشنا معلوم ہوتا تھا اتنے میں مچاتا ہوا دوڑا اور لوگوں کی مدد سے اسے نکالا.پہاڑی کے پہلو کی نالیاں بہت یحییٰ خاں کہنے لگے کہ ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ میں گھر سے نکلا.لڑکا میرے ترچھی ہوتی ہیں.پھر اُن میں چینی اور سیمنٹ کا فرش ہوتا ہے.جو پانی بہتے پیچھے پیچھے تھا اور نالی پر کھڑا تھا.میں تو شفاخانہ کے اندر کام کے لئے چلا گیا بہتے اتنا چکنا ہو جاتا ہے کہ کوئی چیز اس میں ٹھہر نہیں سکتی.خوش قسمتی کی بات یہ اور یہ غالباً نالی پھلانگنے کی کوشش میں اس کے اندر ہی جا پڑا.بس پھر کیا تھا ڈون ایکسپرس بن گیا.اور کچھ عجب نہیں کہ تین منٹ میں میل بھر نیچے جا پہنچا ہو.اس روئی کے کوٹ نے اسے بچایا.نہیں تو سارا زخمی ہو جاتا.اور گندگی کے ڈھیر نے اس کی جان رکھ لی.ورنہ کسی سخت جگہ جا کر گرتا تو ٹکڑے اُڑ جاتے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے میرے بچے کو سلامت رکھا.پھر اسی طرح گندے اور آلودہ کپڑوں سمیت اُسے اٹھا کر اپنے گھر کو جو سامنے ہی تھا چل تھی کہ لڑکے نے موٹا روئی دار کوٹ اور اونی ٹوپ پہن رکھا تھا جس کی وجہ سے کہیں رگڑ یا خراش نہیں لگی.یہ سُن کر میں نے لڑکے کی ہڈیاں اور بدن ٹولا تو معلوم ہوا کہ کوئی چوٹ نہیں لگی.لڑکا خاموش تھا بلکہ مسکرا رہا تھا.گویا وہ بھی مجھے پہچانتا تھا.رفتہ رفتہ ہمارے گرد بیماروں اور آنے جانے والے لوگوں کا ایک ہجوم ہو گیا اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں.لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ "بھئی! کوئی جانتا ہے کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ بچے کو نزدیک کے پولیس اسٹیشن میں بھیج دیا جائے.اور ٹیلیفون کے ذریعہ دیگر سب تھانوں میں بھی اطلاع کر دی جائے کہ ایک لڑکا جو قریباً 3 سال کی عمر کا دیئے.(74) زبان کے اختلاف کا فساد پنجاب کے مختلف حصوں کی بولیوں میں اتنا فرق ہے کہ بعض دفعہ
135 134 " زبان کی یہ ناواقفی بڑے فساد یا نقصان کا موجب ہو جاتی ہے.کسی علاقے میں ہے.“ میں نے لڑکی کا نام رجسٹر میں لکھ لیا.پھر پوچھا کہ ”لڑکی کی عمر کیا بادنجاں کو بیگن کہتے ہیں اور کسی میں بتاؤں، کہیں شُہدا بدمعاش کو کہتے ہیں کہیں ہے.؟“ بڑی دیر تک سوچ سوچ کر آخر اُس نے کہا کہ اگر اس کی شادی ہو شریف اور غریب کو.کہیں ”لے ونج“ کے معنے ہیں لے جا.اور کہیں اس کے جاتی تو دو بچوں کی ماں بن جاتی.میں نے ہنس کر کہا.کوئی بیس برس کی ہو معنے ہیں ”لے بانس“ میں ایک دفعہ ملتان کے علاقے میں نیا نیا لگایا گیا تھا.گی؟ کہنے لگا.سائیں! ہم لوگ ان پڑھ ہیں حساب اور گنتی نہیں جانتے جو وہاں چھوٹی لڑکی کو ”مائی" کہتے ہیں.ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ بخار کی دوائی تیری مرضی ہولکھ لے.“ چاہئے.“ میں نے پوچھا ”کس کے لئے؟“ کہنے لگا ”ایک مائی ہے اُسے اسی طرح ایک بڑھا جو ستر سال سے کسی طرح کم نہ تھا.ایک دفعہ دوا روزانه بخار ہو جاتا ہے.میں نے عمر نہ پوچھی اور اندازہ کر لیا کہ کوئی عورت ہو لینے آیا.جب میں نے اُس سے عمر پوچھی تو بے ساختہ کہنے لگا یہی کوئی پندرہ گی پچاس ساٹھ سال کی.چنانچہ میں نے بائی کا نام لکھ کر دس گرین کونین کا سولہ سال کا ہوں گا.“ مکسچر اُس کے لئے لکھدیا.دوسرے دن وہ شخص پھر آیا اور اُس کی گود میں چھ سات مہینہ کی ایک لڑکی تھی.پرچی میرے سامنے رکھ کر کہنے لگا کہ ”کل اس مائی کے لئے بخار کی دوا لے گیا تھا مگر وہ اس کے پیٹ میں نہیں کی.کوئی ایسی (76) پہلے کرتے ہیں پھر بھرتے ہیں ایک بڑے عہدہ کے سرکاری افسر تھے جو میرے ملنے والے بھی تھے.دوائی دیں جو بچ جائے.میں نے کہا یہ تو کسی بڑی عورت کی پرچی ہے.“ جب ان کی زیادہ ترقی ہو گئی تو انہوں نے اپنی بیوی کو انگریزی پڑھانے کے کہنے لگا.”نہیں.اسی مائی کے لئے آپ سے کل ہی یہ نسخہ لکھوا کر لے گیا تھا.“ لئے ایک گورنس رکھی.پھر بیوی کو حکم دیا کہ یہ کیا بیہودہ پردہ ہے جو تم میرے اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اس علاقے میں لڑکی کو خواہ وہ کسی عمر کی ہو مائی دوستوں سے کیا کرتی ہو.اسے چھوڑ دو.غرض زبر دستی اُس سے پردہ بھی چھڑا کہتے ہیں.میں نے کہا.” تیری مائی کی قسمت اچھی تھی کہ اسے دوا تے ہو گئی.دیا.اس کے بعد انہوں نے اُس کو اپنے دوستوں سے بے جھجک کرنے کے لئے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ کسی دوست کو شام کی چائے پر بلا لیتے اور آپ گھر سے اگر اندر رہ جاتی تو شاید یہ آج قبر میں ہوتی.کیونکہ چھ ماہ کی بچی کے لئے دس گرین کونین کی مقدار مہلک ہو سکتی ہے.66 (75) دیہات کے ان پڑھ میں مغربی پنجاب کے علاقے کے ایک شفاخانہ میں ابتدائی ملازمت نکل جاتے تاکہ بیوی بے تکلفانہ غیر مردوں سے بات چیت کر سکے.جب کئی سال اس قسم کی پریکٹس اور مشق کو ہو گئے تو ایک دفعہ اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوا جس کا رنگ اُن کے دوسرے بچے سے کچھ زیادہ سانولا تھا.آدمی تھے شکی فوراً ناحق کی بدظنی کر لی کہ میرا فلاں دوست جو بیرسٹر ہے اور قدرے سیاہ رنگ کا کے زمانے میں متعین تھا.کہ ایک دن ایک بڑھا شخص خاصا سفید پوش بظاہر ہے یہ بچہ اس کا ہے (حالانکہ وہ خود بھی گورے نہ تھے ) وہی بے تکلفانہ سمجھدار میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ” مجھے اپنی لڑکی کے لئے کچھ مرہم درکار ہمارے ہاں آیا جایا کرتا تھا.
137 136 غرض فساد شروع ہوا.یہاں تک کہ آیا کو حکم نہ تھا کہ اس بچہ کو باپ کی چکا چوند سے بھی یہی حال ہو جاتا ہے.یعنی بعض مسافر اندھے ہو جاتے کے سامنے لاوے.یاروں دوستوں نے بہت سمجھایا اور ہر طرح سے یقین دلایا کہ تمہاری بیوی بالکل بے گناہ ہے.اگر تم میں ایسی ہی غیرت یا بدظنی کا مادہ تھا تو پھر تم بیچاری کو مجبور کر کے لوگوں سے بے تکلف کیوں کراتے تھے؟ مگر وہ اپنی ہی اُڑ پر قائم رہے.آخر نوبت طلاق تک پہنچی اور ایک معزز گھرانا برباد ہو گیا.ہیں.(78) بھائی کی محبت میں ایک دفعہ دہلی سے گوڑ گاؤں کی طرف آر.ایم.آر کی چھوٹی لائن یورپ کی اندھی نقالی ہمارے ملک کے لئے نہایت تباہ کن ثابت ہوئی ہے.پر سفر کر رہا تھا تو یکدم ہماری گاڑی ایک دھکے کے ساتھ کھڑی ہو گئی.کچھ لوگ غیرت رکھنی مسلمانوں کی سی اور معاشرت رکھنی یورپ کی سی.! ع این خیال است و محال است و جنوں است (77) شفاخانہ اور تہوار گھبرا کر اُتر کھڑے ہوئے کہ کیا حادثہ ہو گیا ہے؟ اتنے میں چند آدمی چیختے ہوئے گاڑی والوں کو مخاطب کرتے سنے گئے کہ کیا کوئی ڈاکٹر بھی اس گاڑی میں ہے؟ میں جلدی سے اُترا.وہ مجھے ایک فرلانگ پیچھے لے گئے اور سنایا کہ ایک عورت مع اپنے دو بچوں کے زنانہ تیسرے درجہ میں بیٹھی تھی.ایک لڑکا دو میرا ساری ملازمت کا تجربہ یہی رہا ہے کہ جب شب برات آتی تھی تین برس کا تھا.اور دوسرا کوئی بارہ برس کا.چھوٹا لڑکا کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا.تو رات کے دس بجے سے آتشبازی کے لئے جلے ہوئے مریض شفا خانہ میں پھر کھڑا ہو گیا.ماں کا منہ دوسری طرف تھا کہ وہ اچھلتا کودتا یک دم کھڑکی میں آنے شروع ہو جاتے تھے اور دوسرے تیسرے دن تک آتے رہتے تھے.سے باہر جا پڑا.ماں نے چیخنا پیٹنا شروع کیا.اور بڑے لڑکے کو دو ہنڑ مار کر عیدین کے بعد قولنج، اسہال، قے اور پیچش کے مریض اسی طرح آیا کرتے کہا کہ بھائی باہر گر پڑا ہے.بڑے لڑکے نے فوراً دروازہ کھول کر چھلانگ لگا تھے عید الفطر کے بعد زیادہ اور عید الضحیٰ کے بعد کم.اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے دی.اتنے میں کسی اور مسافر نے خطرہ کی زنجیر کھینچ لی.گاڑی کھڑی ہو گئی مگر رمضان کے روزے رکھنے کے بعد معدہ بہت نرم ہو جاتا ہے.پھر عید کے دِن جہاں لڑکا گرا تھا.وہاں سے قریباً ایک یا ڈیڑھ فرلانگ.آگے جا کر میں جائے جب سویوں کی بھر مار ہوتی ہے تو بے احتیاط لوگوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے.وقوع پر پہنچا تو پہلے بڑا لڑکا ملا.سرسے پیر تک زخمی نیم بے ہوش جسم پر جابجا بقرعید کے بعد کچا پکا گوشت اور کباب وغیرہ کھانے سے پیچش کی شکایت زیادہ خون آلودہ خراشیں، شاید ایک بازو کی نلی کی ہڈی بھی شکستہ تھی.آگے کچھ فاصلہ دیکھی گئی ہے.اسی طرح سورج گرہن کے بعد کئی دن تک لوگ اندھے یا نیم پر چھوٹا لڑکا تھا.جس کے بدن پر خراش تک نہ تھی.نہ کوئی چوٹ آئی تھی.نہ وہ اندھے ہو کر علاج کے لئے آیا کرتے ہیں.کیونکہ بار بار سورج کی طرف رو رہا تھا.نہ سہما ہوا تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی واردات ہی نہیں ہوئی.دیکھنے سے نظر کو سخت نقصان پہنچتا ہے.اور کئی لوگ تو مستقل نابینا ہو جاتے خیر لوگ دونوں لڑکوں کو اٹھا کر ماں کے پاس لائے تو بیچاری کی جان میں جان ہیں.پہاڑوں پر جب برف میں دُھوپ کے وقت لوگ سفر کرتے ہیں تو برف آئی.چھوٹے لڑکے کے بے داغ بچ جانے سے سبھی حیران تھے.مگر بڑے کو
139 138 کا نہایت قابل قدر نمونہ دکھایا.(79) عورت دُنیا کی زندگی ہے دو بعض تو شاباش دے رہے تھے اور بعض کہہ رہے تھے.”مفت کی چوٹ جلا ہا میں نے کہا کہ اس کے جسم پر وہی نشان شناخت موجود ہے جو دوماہ ہوئے کھائے.مگر میں خیال کر رہا تھا کہ اُس نے چھوٹی سی عمر میں برادرانہ ہمدردی میرے رجسٹر میں نوٹ کیا گیا تھا.“ عدالت نے پوچھا وہ کیا نشان ہے؟“ میں نے کہا ”اس شخص کے بائیں بازو پر ایک تنگی عورت کی تصویر کھدی ہوئی ہے.یہ کہ کر میں نے اس کے بازو پر سے کپڑا اونچا کردیا.ڈاکٹر جب کسی مضروب کا معائنہ کرتا ہے تو اپنے رجسٹر میں اس کسی فسانہ کی کتاب میں ایک قصہ پڑھا تھا کہ ایک عدالت میں کوئی مضروب کا نام عمر ذات تاریخ وقت ملاحظہ اور چوٹیں سب کچھ درج کرتا مقدمہ ہورہا تھا.حاضرین جمائیاں لے رہے تھے اور کسی شخص کو بھی ملزم سے ہے.علاوہ ازیں ایک نشان شناخت کا بھی ضرور لکھا کرتا ہے تا کہ اگر مقدمہ لے کر مجسٹریٹ تک کوئی دلچپسی مقدمہ میں نظر نہ آتی تھی کہ یکدم ایک عورت چلے اور وکیل یہ جرح کرے کہ آپ نے اس مضروب کا جو حاضر عدالت ہے بطور گواہ کے عدالت میں پیش کی گئی.اس کا پیش ہونا تھا کہ عدالت دیکھتے معائنہ کیا تھا یا وہ کوئی اور شخص تھا.؟“ اُس وقت ڈاکٹر جواب دیتا ہے کہ وہ دیکھتے گرم ہوگئی.ہر شخص مقدمہ میں دلچسپی لینے لگا اور تھوڑی دیر میں کمرہ یہی شخص ہے کیونکہ میں نے اس کا جو نشانِ شناخت اپنے رجسٹر میں لکھا تھا وہ ناظرین سے بھر گیا.گویا عدالت میں جان پڑ گئی.بعینہ یہی بلکہ اس سے بڑھ اس کے جسم پر موجود ہے.مثلاً یہ کہ مضروب کے دائیں رخسار پر ایک تل ہے.کر حال میرے سامنے اس مقدمہ کا ہوا.جب میں نے مضروب کے بازو کی یا دونی کے برابر ایک پرانے پھوڑے کا نشان ٹھوڑی پر موجود ہے یا مضروب کا برہنہ زنانہ تصویر لوگوں کے سامنے کھول دی شاید ایک زندہ اور ملبوس عورت سے نام انگریزی حرف میں اُس کے بازو پر گھدا ہوا ہے.وغیرہ وغیرہ.عدالت میں وہ بجلی کی لہر نہ دوڑتی جتنی ایک کھدی ہوئی ننگی عورت کی تصویر " ایک دفعہ میں جالندھر کی ایک عدالت میں ایک فوجداری مضروب کے سے.مجسٹریٹ اُس کو دیکھنے کے لئے الگ دوہرا ہوا جاتا تھا.وکلاء الگ جھکے متعلق شہادت دینے گیا.جب دے چکا تو وکیل صاحب نے مجھ سے پوچھا ہوئے تھے.اہل مد کٹہرے پر سے الگ لڑکا پڑتا تھا.منشی لوگ الگ الگ ہجوم کہ ڈاکٹر صاحب ! دو مہینے ہوئے آپ نے ایک شخص کا معائنہ کیا تھا.جس پر کر کے آگئے تھے.اور پبلک کا تو یہ حال تھا کہ اس تصویر کی زیارت کے لئے یہ ضربات تھیں.مگر کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ حاضر عدالت وہی شخص ہے ایک پر ایک گرا پڑتا تھا.گویا وہ عدالت کا کمرہ نہ تھا.بلکہ تماشے کا ہال تھا.جس کا آپ نے ملاحظہ کیا تھا.؟ میں نے اُس شخص کے بائیں بازو پر سے برابر دس پندرہ منٹ تک یہی حال رہا.بیسیوں لوگوں کی نگاہ شوق اس تصویر پر کپڑا اُٹھا کر ڈھانک دیا اور وکیل صاحب کو جواب دیا کہ ہاں یہ وہی شخص اس طرح گڑی ہوئی تھی کہ اٹھنے کا نام ہی نہ لیتی تھی.اور اُدھر مضروب کا شرم ہے.عدالت میں فریقین کے آدمی اور کئی تماشائی بھی تھے.اور کمرہ اہل مقدمہ کے مارے یہ حال تھا کہ اگر زمین اُس وقت پھٹ جاتی تو وہ سما جاتا.اور ناظرین سے بھرا ہوا تھا.وکیل صاحب نے پھر سوال کیا.”کیا ثبوت؟“ غرض عورت جس میدان میں بھی آجائے وہاں ایک جان اور زندگی
140 ڈال دیتی ہے.صرف جیتی جاگتی عورت ہی نہیں بلکہ اُس کی تصویر بھی.(80) گھٹائی ہندوستانی طالب علم بس رٹنا جانتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ وہ مضمون کو سمجھیں یا نہ سمجھیں.مجھے ایک دفعہ پانی پت میں حاتی مسلم ہائی اسکول کے 141 66 کو ملازم لڑکا بنا کر اپنے پاس رکھا.سر پر پگڑی باندھ دی.بال سکھوں کی طرح اُلٹے کر دیئے.زیور اتار دیا اور مردانہ کپڑے پہنا دیئے.مگر پولیس نے چند ماہ کی کوشش کے بعد آخر اس کا کھوج لگالیا.چونکہ عمر کا سوال تھا اس لئے وہ عورت اُسی مردانہ لباس میں میرے پاس لائی گئی.میں نے معائنہ کر کے لکھ دیا کہ اس کی عمر پندرہ سال کے قریب ہے.سولہ سال سے کم عمر کی نابالغ ہیڈ ماسٹر شاہ عالم خان صاحب نے (جو بعد میں صوبہ سرحد کے ڈائریکٹر عورت کے اغوا کی وجہ سے اغوا کرنے والے پر مقدمہ شروع ہوا.جب میں تعلیمات ہوگئے تھے اور اسی عہدہ سے ریٹائر ہوئے) کہا کہ آپ ہمارے عدالت میں شہادت دینے گیا تو اُس وقت وہ عورت رنگین زنانے کپڑے پہنے مدرسہ کی آٹھویں جماعت کا امتحان لیں.میں نے جماعت کے ایک بہترین وہاں موجود تھی.عدالت نے پوچھا ” کیا یہ وہی عورت ہے؟“ میں نے کہا ” ہے اور لائق لڑکے سے سوال کیا کہ شہاب الدین غوری کون تھا.؟“ اب آپ تو وہی مگر اب ان کپڑوں اور عورت کی اصلی حیثیت میں یہ بڑی عمر کی معلوم لڑکے کا جواب سٹیے.اُس نے نہایت درجہ روانی سے اپنے جواب کو یوں شروع ہوتی ہے.چنانچہ عدالت میں ہی اس کا دوبارہ ملاحظہ ہوا.میں نے رائے دی کہ ”اب میں اس کی عمر اٹھارہ بیس سال سے کم نہیں سمجھتا.مجسٹریٹ اور کیا:.اس راجہ کو گدی پر بیٹھے ابھی بہت عرصہ نہ گزار تھا کہ اس پر ایک بڑا وکیلوں نے بھی میری تصدیق کی.بات یہ تھی کہ مردانہ لباس میں وہ لڑکی صرف بھاری غنیم شمال کی طرف سے چڑھ آیا.اس حملہ آور کا نام شہاب الدین غوری پندرہ سال کا لڑکا نظر آتی تھی اور زنانہ لباس میں 20 سال کی عورت.یہ بھی تھا.میں نے اس زمانہ کی درسی کتاب تاریخ ہند نکال کر دیکھی تو معلوم ہوا کہ ایک نظر اور خیال کا دھوکا ہے.عورت کی صحیح عمر عورتوں ہی کے لباس میں ٹھیک اس میں شہاب الدین غوری سے پہلے راجہ پر تھی راج کا ذکر تھا.پھر نیا پیرا اور صحیح معلوم ہوتی ہے.ورنہ انسان غلطی کھا سکتا ہے.66 شہاب الدین غوری کے متعلق ان الفاظ میں شروع کیا گیا تھا جنہیں میں نے او پر نقل کیا ہے..اب اتنی ہی بات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارے اسکولوں میں تعلیم ہوتی ہے یا گھٹائی! (81) نظر کا دھوکا...! 1 کسی شخص کی بیوی کو کوئی دوسرا شخص اغوا کر کے لے گیا اور اُس عورت (82) ذراسی لا پروائی کا نتیجہ ایک شخص کی دائیں آنکھ میں گلا کو ما یعنی کالا پانی اتر کر نظر بالکل جاتی رہی تھی.مگر بائیں آنکھ اچھی بھلی تھی.وہ ایک شفاخانہ میں گیا اور کہا کہ ”میری دائیں آنکھ اندھی اور لاعلاج ہو چکی ہے مگر اس میں پھر بھی سخت درد رہتا ہے.جس سے میری زندگی تلخ ہے.جس ڈاکٹر سے پوچھتا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ ”اب اس اندھی اور موذی آنکھ کو نکلوا دو.اس لئے آپ اس کا آپریشن کر کے
143 142 مجھے اس ہر وقت کے درد سے نجات دیں.پہلے جس ڈاکٹر کے پاس گیا تھا، اس نے دیکھ کر یہی کہا کہ نکلوا دینے کے سوا اس دُکھ کا کوئی علاج نہیں.نکلوا کر اس کی جگہ مصنوعی شیشے کی آنکھ ڈالوالینا.“ (83) حکمتیں اور میرا پیگنڈا جب میں لاہور میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہاں ایک واضح ہو کہ عموماً ایسی آنکھ میں بظاہر کوئی عیب نظر نہیں آتا بلکہ دیکھنے مشہور حکیم بزرگ شاہ تھے جو دوا اور تعویذ دونوں سے بیک وقت اپنے مریضوں والوں کو وہ ایسی ہی تندرست دکھائی دیتی ہے جیسے دوسری بینا آنکھ.کا علاج کیا کرتے تھے.مثلاً بیمار کو قبض اور اس کے عوارض ہیں تو کوئی جو شاندہ خیر مریض کو داخل شفاخانہ کر کے دوسرے دن اُسے کلورا فارم سے بے بھی لکھ دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ایک تعویذ بھی دیا کرتے تھے کہ اسے پانی ہوش کر دیا گیا.مگر غلطی یہ ہوئی کہ اس کے ٹکٹ پر اُس سے پوچھ کر یہ نوٹ نہیں میں مل کر پی لینا.اور حکمت اس کی یہ تھی کہ دوات کی سیاہی میں انہوں نے کیا گیا کہ دائیں آنکھ اندھی ہے یا بائیں؟ دیکھنے میں بظاہر دونوں یکساں تھیں.روغن جمال گوٹہ ملا رکھا تھا.جب اس طرح کی سیاہی سے لکھے ہوئے تعویذ کو بے ہوش کرنے کے بعد جب ڈاکٹر نے آپریشن کرنا چاہا تو اُس نے کمپاؤڈر مریض پانی میں گھول کر پیتے تھے تو اُن کو قبض کشائی ہو جاتی تھی بلکہ کھل کر سے پوچھا کہ کونسی آنکھ اندھی ہے؟“ اس نے جواب دیا کہ ”مجھے معلوم نہیں.دست آجاتے تھے.لیکن عام لوگ اسے تعویذ کا اثر ہی سمجھتے تھے.غالبا بائیں میں درد کہتا تھا.اور وہی اندھی ہو گی.“ ڈاکٹر نے خود بھی دیکھا مگر اسی طرح ایک اور حکیم صاحب تھے انہوں نے اشتہار دیا کہ کونین دونوں آنکھوں میں کوئی فرق نہ پایا.کیونکہ کرونک گلا کوما میں اکثر ایسا ہوتا ہے سخت گرم چیز ہے.کلیجہ پھونک دیتی ہے اور غیر ملک کی پیدوار ہے.اس لئے کہ پتہ نہیں لگتا جب تک مریض خود نہ بتائے.بہر حال کمپاؤڈر کی رپورٹ اور ہم نے بہت لمبے تجربہ کے بعد ایک دوا دارین تیار کی ہے جس میں یہ خرابیاں غلط اندازہ کی بنا پر اُس کی بائیں آنکھ نکال دی گئی.یعنی وہ آنکھ جس میں سے اور نقائص بالکل نہیں ہیں.اور کونین سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے.حالانکہ وہ نظر آتا تھا.آپریشن ہو چکا.پٹی بائیں آنکھ پر باندھ دی گئی اور بیمار کو اپنے بستر دوا بھی کو نین ہی تھی.صرف بدل کر ہم معنی نام رکھ دیا تھا.کونین کے معنی عربی پر پہنچا دیا گیا.مگر آپ اُس دکھ اور آہ فغاں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو اُس مریض میں ہیں دونوں جہان.دارین کے معنی بھی یہی ہیں.پس جھوٹ بھی نہ ہوا اور نے برپا کیا.جب ہوش میں آکر اس کو یہ معلوم ہوا کہ درد والی آنکھ تو سلامت لوگوں کو دھو کہ بھی دے لیا.یہ تو صرف دو مثالیں ہیں.مگر ایسے بہت سے ہے.اور اُس کا درد بھی اُسی طرح موجود ہے.مگر اُس کی زندگی اور روشنی کا شعبدے چٹے بٹے معالجوں کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہیں.چنانچہ ایسپرین جیسی سہارا یعنی بائیں آنکھ ہمیشہ کے لئے اس سے جدا ہو چکی ہے.ڈاکٹر کو بھی سخت سستی اور مفید دوا طرح طرح کے ناموں سے لاکھوں روپیہ کی آمدنی کا ذریعہ رنج تھا مگر کمان سے تیر نکل چکا تھا.ایک ذرا سی غلطی کا خمیازہ یہ ہوا کہ ایک بنی ہوئی ہے.ماء اللحم دو آتشہ اور سہ آتشہ کے نام سے وہسکی اور برانڈی ملا کر شخص کی زندگی تا بمرگ تیرہ و تار ہو گئی.یہ ہے خدائی تقدیر! یا بندہ کی مفرح شربت اور مقوی عرق بیچے جاتے ہیں.اور حلال طیب نبیذ کے نام سے کئی ناواقف مسلمان حرام اور ام الخبائث شراب کو خریدتے اور استعمال کرتے غفلت...!!
145 144 کرنے کے نتائج.ہیں.یہ ہیں پراپیگنڈے کے کرشمے اور دواؤں کے اصل اجزاء لیبل پر ظاہر نہ رکھے گئے.اس بیچارے نے بھی یوکسنین اور ایسپرین ملا کر لڑکے کو دینی شروع کی جس سے کچھ پسینہ بھی آ گیا.مگر ڈاکٹروں اور علاج کا سلسلہ رات بھر برابر ایک دن مجھے ایک شخص دوڑتا ہوا اپنے گھر پر بلانے آیا کہ میرا چلتا رہا.جو بھی آیا اُس نے اپنے تئیں پہلا معالج سمجھ کر مریض کے حلق نوجوان لڑکا ڈوب گیا ہے.اس کو پانی سے نکال کر رکھا ہوا ہے.آپ دیکھ لیں میں کونین ٹھونسی اور غضب یہ کہ سیٹھ صاحب ایک ایک دودو گھنٹہ بعد معالج کہ جان باقی ہے یا نہیں میں جب اُس کے گھر پر پہنچا تو ایک دہلی کا پاس کردہ بدلتے رہے اور نتیجہ کا انتظار کئے بغیر معالج سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ”بخار حکیم آلہ سینہ بین غریق کی ٹھڈی پر لگا کر آواز سُن رہا تھا.پھر کہنے لگا اس کی ابھی اُتر جائے.اور کسی کو یہ نہ بتایا کہ تم سے پہلے بھی کوئی ڈاکٹر آیا تھا.اور وہ جان عجب الذنب میں آ گئی ہے.اگر کوشش کی جائے تو کامیابی ہو سکتی یوکنین کی پڑیا یا ایسپرین اور کونین کی کچٹ کھیلا گیا تھا.یا کونین مکسچر پلایا گیا تھا.آخر کونین کھاتے کھاتے لڑکے کو سخت ہذیان شروع ہو گیا.پچھلی رات کو اُسے ایک ڈاکٹر نے کونین کا ٹیکہ زیر جلد لگایا اور صبح ہوتے ہوتے آخری معالج ہے...!! حالانکہ غریق ایک گھنٹہ ہوا مر چکا تھا.(84) احمقانه رازداری نے جسے پہلے علاج کا علم نہ تھا ورید کے اندر 5 گرین کونین ڈال دی.نتیجہ یہ ایک شہر میں ایک سیٹھ صاحب رہا کرتے تھے.اُن کا ایک لڑکا سات ہوا کہ اٹھارہ گھنٹہ کے اندر قریباً ایک ڈرام کو نین مریض کے اندر پے در پے پہنچ آٹھ سال کی عمر کا تھا.سیٹھ امیر تو تھے ہی مگر وہمی بھی حد درجہ کے تھے اور لڑکا گئی.جس نے اُسے بسرعت اللہ میاں کے ہاں پہنچا دیا.یہ ہے نتیجہ اخفا کی بھی اکلوتا اور بہت پیارا تھا.ایک دن لڑکے کو بخار ہو گیا.جھٹ گلی کے نکڑ والے ڈاکٹر کو بلا کر دکھایا تو اُس نے کونین مع فیور مکسچر کے دیدیا.ہندوستان میں ملیریا کی اتنی کثرت ہے کہ ہر بخار کی تشخیص ابتدائی ایام میں عموماً ملیریا ہی ہوتی ہے.سیٹھ صاحب نے ایک گھنٹہ کے بعد بے وقوفی اور احمقانہ راز داری کا.(85) ذرا سا فرق خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے.اور جس کو چاہتا ہے بخار میں کمی نہ دیکھی تو جھٹ بڑے بازار والے ڈاکٹر کو بلایا اور نوکروں ذلت.بات وہی ہوتی ہے مگر اُس کے نتیجہ میں ایک کا ذکر خیر ہونے لگتا ہے کو سمجھا دیا کہ ہرگز کوئی شخص اُس ڈاکٹر کو یہ نہ بتائے کہ گلی والا ڈاکٹر پہلے یہاں اور دوسرے پر لعنت کی پھٹکار پڑنے لگتی ہے.ہوگیا ہے.چنانچہ وہ ڈاکٹر بھی آیا اور اُس کو بتایا گیا کہ ابھی تک کسی ڈاکٹر نے ایک شخص تھے اُن کی عمر ستر سال کے قریب تھی.ایک دن سجدے مریض کو نہیں دیکھا نہ کسی کا علاج ہوا ہے.اُس نے بھی قدیم رواج کے موافق میں اُن کی حرکت قلب بند ہو گئی.دیر تک نہ اُٹھے.لوگوں نے دیکھا تو مرے اُسے کونین کی کچٹ اور کوئی مکسچر دید یا ایک گھنٹہ کے بعد سیٹھ صاحب نے چوک پڑے تھے.فوراً ان کی بزرگی کا چرچا اور ولایت کا ڈنکا بجنے لگا واہ واہ ہونے والے ڈاکٹر کو بلوایا اور اس سے بھی پہلے ڈاکٹروں کے نام اور ان کے نسخے مخفی لگی.صرف اس وجہ سے کہ اُن کا سجدہ کے اندر انتقال ہوا تھا.
147 146 چند دن کے بعد ایک اور بڑھے میاں بھی حرکت قلب بند ہونے سے کو بھی روزانہ ڈنک مارتے رہتے ہیں.کوئی آٹھ روز کا ذکر ہے کہ بڑے لالہ کو اسی طرح یک دم مر گئے.مگر بدقسمتی سے جب وہ مرے تو بیت الخلا میں اُن کا ایک زنبور نے کاٹ لیا.جس کے بعد اُن کو بخار چڑھ گیا.اور غفلت بھی ہو دم نکلا.جہاں وہ اوندھے منہ نجاست کی بالٹی میں گرے ہوئے پائے گئے.گئی.سات دن اور سات رات وہ بیمار رہے.نہ کھایا نہ پیا نہ ہوش آیا.کل بس اتنی سی بات تھی.پھر کیا تھا فوراً شہرہ ہو گیا کہ کمبخت دوزخی تھا جس کی جان آہستہ آہستہ حواس قائم ہوئے.بخار بھی اُتر گیا.کچھ دُودھ وغیرہ بھی پیا.آج پاخانہ میں نکلی.اس کو تو جہنم نے بھی قبول نہ کیا ہو گا.مردود تھا.! کہنے لگے کہ ”میں تو دوکان پر جاتا ہوں.بہتیرا منع کیا باز نہ آئے.آخر مرد!! کیسی بدبختی کی موت تھی.بس لعنت تھی لعنت.حالانکہ وہی ایک قسم دوکان پر پہنچے.میں ساتھ تھا.دوکان کھولتے ہی کھانڈ کے ایک گھڑے کو کی موت تھی مگر ذرا سے فرق کے ساتھ.ایک بہشتی مشہور ہوگیا اور دوسرا دیکھا.ایک زنبور اُس میں سے نکل کر سیدھا اُن کی ران میں چمٹ گیا.بمشکل دوزخی.تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ (86) موت کا فرشتہ تیے کی شکل میں پانی پت میں ایک دن میں دس بجے کے قریب شفاخانہ میں بیٹھا میں نے دھوتی ہٹا کر اُسے توڑ کر الگ کیا.یہ دیکھئے کہ اس کے کاٹنے کا نیلا داغ اب بھی موجود ہے.زنبور کا کاٹنا تھا کہ اُسی وقت گر کر بیہوش ہو گئے.ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکلا.آپ فرماتے ہیں کہ سرگباش ہو گئے.میں نے کہا میں سمجھ گیا ان کے گردے کمزور تھے اور جسم میں سے زہر نکالنے کے قابل نہ." " بیماروں کو دیکھ رہا تھا کہ ایک کھانڈ کے تاجر لالہ صاحب گھبرائے ہوئے تشریف تھے.پہلی دفعہ تو بچ گئے تھے اب کے چونکہ بہت زیادہ کمزور ہو چکے تھے اس لائے اور آتے ہی کہنے لگے کہ ” بڑے بھائی صاحب کو چل کر دیکھ لیجئے اُن کو لئے ختم ہو گئے.لوگ کہنے لگے.سانپ پر بیٹھا ہوا زنبور ہو گا.“ میں نے لال زنبور (جسے تیا کہتے ہیں) نے کاٹ لیا ہے.“ میں نے کہا ”پھر کیا ہوا؟“ کہا زنبور تو خاص طور پر زہریلا نہ تھا.لیکن جسے کاٹا تھا وہ خاص طور پر کہنے لگے ”ذرا چلئے تو سہی وہ کچھ بیہوش سے بھی ہو گئے ہیں.“ مجھے علم تھا کہ ان کی دوکان شفاخانہ سے کوئی سو گز کے فاصلہ پر ہے اور یہ مجھے لے جانے کے لئے آئے ہیں.تو معمولی بات نہیں ہے.غالبا بڑے لالہ صاحب فوت کمزور تھا.“ ان لوگوں کو بڑے لالہ کے مرنے کا یقین نہ آتا تھا لیکن میں بہر حال ان سے کہہ کر چلا آیا کہ یہ بیمار نہیں ہیں بلکہ مُردہ ہیں.دس بجے سے لے کر والے تھے آتے رہے اور اپنے اپنے علم کے جوہر دکھاتے رہے.مگر مردے بھی کہیں زندہ ہوتے ہیں؟ آخر لاچار اور مایوس ہو کر ان کی ارتھی تیار کی اور ہوچکے ہیں.خیر میں اسی وقت اُن کی دوکان پر پہنچا تو واقعی بڑے لالہ پر ان شام کے پانچ بجے تک جتنے بھی شہر میں ڈاکٹر، حکیم، وید اور جنتر منتر پڑھنے چھوڑ چکے تھے.میں نے اُن لوگوں سے کہہ دیا کہ یہ تو فوت ہو چکے ہیں آپ اب ان کی ارتھی کا بندوبست کریں.مگر یہ تو بتاؤ کہ بات کیا ہوئی تھی.؟“ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ جانتے ہیں ہماری دوکان میں کھانڈ ہی کھانڈ رہتی ہے مرگھٹ کو لے چلے.راستہ میں میرا مکان پڑتا تھا.مرنے والے کے رشتہ دار اور اُس پر ہزاروں بھڑیں اور زنبور ( تیے ) ہر وقت چھٹے رہتے ہیں جو ہم لوگوں پھر آئے اور کہنے لگے کہ ” آپ ہی سچے تھے مگر ہمارا دل نہیں مانتا تھا.اب ان دو
149 148 کو جلانے کے لئے لے تو چلے ہیں لیکن ایک نظر پھر ان کو دیکھ لیں تو ہماری تسلی دوسرے پرات مجرموں کے ساتھ مل کر ویسا ہی مفسد، ہنگامہ پرداز اور جرائم پیشہ بن جاتا ہے جیسے پرانے قیدی.یعنی قیدیوں کے کپڑے پہنتے ہی اس کا اندرونہ ہو جائے گی.میں نے باہر سڑک پر نکل کر ارتھی اُتروا کر دوبارہ نعش کو دیکھا اور یہی بھی یکدم بدل جاتا ہے.اور چند دن کے اندر اُس کے شریفانہ چہرہ پر بداعمالی کہا کہ ”بھئی جاؤ اور اب تو ان کو چتا میں رکھنے کا وقت ہے.موت میں کوئی کی لعنت برسنے لگتی ہے.یہ لوگ اپنے لئے ایسا انتظام کر لیتے ہیں کہ افیون شبہ نہیں ہے.اس پر وہ بچارے چلے گئے اور ارتھی کو مرگھٹ کی آگ کے سپرد کھانے والے کے لئے اندر ہی افیون پہنچ جاتی ہے اور تمباکو بیڑی ،سگریٹ پینے والے کو یہ سب چیزیں وہیں مل جاتی ہیں.شراب، مٹھائیاں ، نقدی برائے کر دیا.(87) جیل خانہ ، رشوت اور گڑ سب چیزیں باہر سے مہیا ہوتی رہتی ہیں.اور پرانے قیدی تو وہاں ایسی ہی خوش زندگی بسر کرتے ہیں جیسی وہ اپنے وطن میں کرتے تھے.جیل خانہ کا بھی ایک الگ عالم ہے.جہاں کے قواعد اور قوانین دنیا لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ ، چوری، مظالم سارے کام جیل کے اندر بھی سے نرالے ہوتے ہیں.باہر والوں کے نزدیک تو وہ دوزخ ہے مگر اندر رہنے اُسی طرح ہوتے ہیں جیسے باہر کی دنیا میں، بلکہ زیادہ.اور بعض بدمعاشوں سے والے بعض لوگ اسے بہشت بھی سمجھتے ہیں.ڈاکٹر یا سپرنٹنڈنٹ کے طور پر میرا تو افسر بھی ڈرتے ہیں.مجھے سب سے عجیب تجربہ نشوں کے متعلق یہ حاصل ہوا تجربہ یہی ہے کہ ہمارے جیل بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں.خیر اصلاحات تو کہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ لوگ افیم کھانے کے عادی ہیں اور تمباکو تو دنیا میں ہمیشہ ہوتی ہی رہیں گی.مگر جیل کی زندگی ہوتی بڑی دلچسپ ہے یا قریباً ہر شخص ہی پیتا ہے.(سوائے سکھوں کے ) اور بہت سے نہ پینے والے بھی اندر جا کر تمبا کو پینا شروع کر دیتے ہیں.قیدی کی زندگی چونکہ ایک نہایت قیدی اُسے دلچسپ بنالیتے ہیں.جیل میں مجرم سزا یافتوں اور ملزم زیر مقدمہ لوگوں کی الگ الگ باقاعدہ زندگی ہوتی ہے.یعنی محنت، مشقت، بروقت نپی تلی خوراک، سونا، کھانا، بارکیں ہوتی ہیں.جب تک لوگ بہ حیثیت ملزم جیل میں رہتے ہیں تب تک نہانا، رفع حاجت، ہر چیز ٹائم ٹیبل پر چلتی ہے.اور ذرا سی بھی تکلیف ہو تو فطرتِ انسانی تو به استغفار، دعا، ذکر اور ورد و وظائف کی طرف اُن کو مجبور رکھتی ڈاکٹر، شفاخانہ، علاج اور پرہیزی کھانا اُن کے لئے موجود ہوتا ہے.اس لئے کتبیجیں کھٹکتی ہیں.ملزم نمازوں، آرتیوں اور مذہبی کتابوں کے پڑھنے میں اُن کی صحت عموماً بہت اچھی ہو جاتی ہے.قیدی کو اپنے کپڑے پہننے کی اجازت مصروف رہتے ہیں اور عموماً ان کے مزاج میں رعونت اور شرارت نہیں ہوتی.نہیں سوائے جوتی کے جوڑا کے جو باہر کے رشتہ دار ہرششماہی پر بھیج سکتے ہیں.پھر جب مقدمہ ہو چکتا ہے تو یا تو ملزم رہا ہو جاتا ہے یا مجرم قرار پا کر قید ہو اور اکثر ان جوتیوں کے تلوں کے اندر روپے اور ریز گاری وغیرہ سلی ہوئی ہوتی جاتا ہے.قیدی بنتے ہی وہ بالعموم سانپ کی طرح اپنی مصنوعی توبہ، نیکی اور ہے.جب کوئی قیدی بھوک ہڑتال کرتا ہے تو اُسے فوراً الگ کوٹھڑی میں مقفل خشوع خضوع کی کینچلی اُتار پھینک دیتا ہے اور چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر کر دیا جاتا ہے.وہ بھی جانتا ہے کہ چلتے پھرتے رہنے یا کام کرنے سے میں ہے.
151 150 جلد کمزور ہو کر بھوک محسوس کرنے لگوں گا اس لئے وہ بھی اپنا کمبل زمین پر بچھا میری ملازمت کے پچھلے دس سالوں میں جیلوں کی قریباً کا یا پلٹ گئی کر مثل ایک پتھر کے بُت کے اپنے بستر پر لیٹ جاتا ہے اور کمبل اوڑھ کر بے تھی.مگر ابھی بہت سی تفاصیل محتاج اصلاح ہیں.جیل وارڈ اور پولیس کانسٹیبل حس و حرکت مُردہ کی طرح پڑا رہتا ہے.تا کہ اُس کی گرمی اور قوت ضائع نہ کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں.اس لئے جن باتوں میں اُن کا کوئی فرد بدنام ہو.اکثر بھوک ہڑتال کرنے والے اپنا روزانہ کا کھانا تو واپس کر دیتے ہیں.ہوتا ہے اُنہی باتوں میں اُن کے بھی بعض افراد بدنام ہیں.مگر چرا چھپا کر اور لوگوں سے روٹی لے کر کھاتے رہتے ہیں.اب پھانسی کا حال سنیئے :- یہ ایک خشک گنواں بارہ پندرہ فٹ گہرا پختہ بھوک ہڑتال والے کہتے ہیں کہ تین دن تک تو سخت بھوک لگتی ہے بنا ہوا ہوتا ہے اور اُس کے باہر اونچا کر کے آڑا ڈنڈا لگا ہوتا ہے.جس میں پھر آہستہ آہستہ خواہش مرنی شروع ہو جاتی ہے اور ایک ہفتہ کے بعد بالکل بھائی کا رنہ پڑا ہوتا ہے.کنوئیں کا منہ دو تختوں سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے اور مجرم مرجاتی ہے.پانی یہ لوگ باقاعدہ پیتے رہتے ہیں.مگر عموماً چند روز میں اُن اُن پر کھڑا کیا جاتا ہے.پھر گلے میں رستے کا پھندا ڈال کر ایک ہینڈل کھینچ کی صلح جیل والوں سے ہو جاتی ہے اور بھوک ہڑتال ٹوٹ جاتی ہے.جس لیتے ہیں.جس سے وہ دونوں تختے کھل کر کنوئیں کی اندر کی طرف لٹک پڑتے میں اسٹرائیک کرنے والوں کو ہی 99 فیصدی شکست ہوتی ہے.جھک مار کر ہیں.مجرم رستے سے گردن کے بل معلق ہو جاتا ہے اور دم گھٹ کر ایک دو پھر کھانا کھانے لگ جاتے ہیں.ہر قیدی کے پاس لوہے کی بالٹی و دال سالن منٹ میں اس کا کام تمام ہو جاتا ہے.پھانسی کے وقت اور دن کی اطلاع مجرم رکھنے اور پانی پینے کے لئے ہوتی ہے.جس کے کناروں کو اینٹ یا پتھر یا کو پہلے سے نہیں دی جاتی.صرف ایک روز پہلے جب اُس کے عزیز اور رشتہ دیوار سے تیز کر کے وہ ایک دوسرے کی ڈاڑھیاں بھی مونڈ لیتے ہیں.یا دار اُس سے ملنے آتے ہیں تب اُسے پتہ لگتا ہے کہ کل مجھے پھانسی ملے گی.لڑائی کے وقت مخالف کو زخم پہنچاتے ہیں.جیل کی مشقت میں بعض صورتیں عموماً رات بھر وہ جاگتا رہتا ہے مگر بعض لوگ سوتے بھی رہتے ہیں.صبح کے تو جائز مشقت کی ہیں.مثلا باغیچہ کا کام، اور ہر طرح کی باعزت انڈسٹری قریب غسل کر کے تیار ہو جاتا ہے.پھر نیلے کپڑے پہنا کر اور ہاتھ رہتی سے جکڑ ،مگر بعض ذلیل گن ہیں.مثلاً چکی پیسنا، اور بعض بد بودار کام بھی ہیں.غذا کر اُسے پھانسی کے کنوئیں کے پاس لے جاتے ہیں.کے متعلق پنجاب میں خاص کر تیل کا استعمال بہت شکایت کا موجب ہے پھانسی کے اختتام تک قیدیوں کی بارکیں بند رہتی ہیں.مسلمان عموماً کیونکہ اس ملک میں عموماً لوگ گھی کھانے کے عادی ہیں.سب سے زیادہ وہاں جاتے وقت یا علی“ کے نعرے لگاتے جاتے ہیں اور سکھ ”ست سری تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس قہری گرم ملک میں گرمی کے سارے موسم بھر ان اکال کے اور سوائے ایک شخص کے جس نے عین وقت پر غل مچانا، منتیں کرنا لوگوں کو بند اور مقفل بارکوں یا کوٹھریوں میں سونا پڑتا ہے جو ناقابلِ اور بھاگنا شروع کیا تھا.میں نے نہیں دیکھا کہ کسی عورت یا مرد نے اُس وقت برداشت امر ہے.تعلیم کا کوئی انتظام نہیں.سوائے بورسل جیل کے.کپڑے کبھی شور وشر بر پا کیا ہو.اور بعض مجرم تو اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ تختہ دار پر جرم کا اقرار کرلیں یا انکار.مگر بعض خاموشی سے آتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ ہی عموماً بہت معمولی ہوتے ہیں."
152 153 دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.چنانچہ ایک شخص کے گلے میں جب رسہ ڈالنے بھی ایک ایسی نظر سے اُسے دیکھا جو بددعاؤں سے بھری تھی.خیر عدالت ختم ہو لگے تو اس نے پکارا کر کہا کہ ” بھائیو میں نے یہ خون کیا تھا.اسی طرح ایک گئی اور خدائی فیصلہ کا انتظار ہونے لگا.جھوٹا مدعا علیہ قسم کے ایک دو گھنٹہ کے اور شخص نے پھانسی سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ”میں نے یہ قتل نہیں کیا تھا میں بعد بیٹے سمیت اپنے گاؤں کی پگڈنڈی پر جا رہا تھا کہ یک دم بادل گھر کر آنے مظلوم مارا جاتا ہوں.عورتیں بھی پھانسی پاتی ہیں مگر بہت کم.اور یہ غلط مشہور شروع ہو گئے.پھر بارش آگئی اور آخر میں بجلی کا کڑا کا.مگر ایسا کہ لوگوں نے ہے کہ عورت کو قانونا پھانسی نہیں مل سکتی.ہاں نابالغ لڑکوں کو نہیں ملتی.وہ برسوں سے ویسا ہولناک کڑا کا نہ سنا تھا.دوسرے دن لوگوں نے بجلی سے جھلسی بورسٹل جیل میں اصلاح کے لے بھیجے جاتے ہیں.یہ بات بھی غلط ہے کہ جب ہوئی دو لاشیں راستہ پر پڑی پائیں اور اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں وہی پھانسی کا مقررہ وقت مل جائے تو پھر نہیں دی جاتی.مرنے کے بعد عموماً وارث گڑوی تھی جو کل عدالت کی میز پر رکھی ہوئی دیکھی گئی تھی.اپنے مُردہ کی نعش لے جاتے ہیں.جس روز کسی کو پھانسی ملے اُس روز تمام دن جیل پر ایک سناٹا اور خاموشی چھائی رہتی ہے.(88) خدائی فیصلہ شملہ کے علاقہ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں.حتی کہ اتنی چھوٹی بھی کہ وہاں کی آبادی پانچ سات مردوں سے زیادہ نہیں ہوتی.ایک چار پائی کے سرہانے راجہ صاحب بیٹھے ہیں اور پائینتی وزیر صاحب.جو ریاست ایسے خدائی فیصلے ہمیشہ نہیں ہوا کرتے مگر کبھی کبھی صرف بطور نمونہ اہلِ دنیا کو اس لئے دکھائے جاتے ہیں کہ وہ ایک مالک یوم الدین ہستی اور جزا و سزا کی مختار کل عدالت پر ایمان رکھیں ورنہ دراصل یہ دنیا دارالجزا نہیں ہے.(89) ضدی کئی لوگ اپنی ہٹ اور ضد کی وجہ سے بھی مرجاتے ہیں.میرے پاس کے فنانس ،ممبر، کمانڈر انچیف، ریونیو منسٹر، چیف جسٹس، غرض سب کچھ وہی سونی پت میں ایک مریض آیا جو نمونیہ سے بیمار تھا.خیر جب تک تو اُس کی ہوتے ہیں.چار پائی کے نیچے جو تین چار آدمی بیٹھے ہوتے ہیں وہ ریاست کی حالت نازک رہی وہ بستر سے اُٹھ ہی نہیں سکا.مگر بخار اترتے ہی بجائے پاٹ ساری رعایا ہوتے ہیں اور بس.مگر میں جس ریاست کا ذکر نے لگا ہوں وہ کے جو اسی مطلب کے لئے اُس کے پلنگ کے پاس رہتا تھا وہ شفاخانہ کے خاصی بڑی تھی.وہاں کی عدالت میں ایک نہایت اہم مقدمہ ایک پیتل کی پاخانوں میں جو فاصلہ پر تھے پیشاب پاخانہ کے لئے اپنے پیروں چل کر جانے گڑوی کا پیش ہوا.مدعی نے کہا کہ گڑوی میری ہے.ملزم نے کہا میری.بڑھا لگا.ملازمین نے بہتیرا روکا مگر باز نہ آیا.آخر میرے پاس رپورٹ ہوئی.میں مدعی بولا کہ اگر مد عاعلیہ اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھ کر خدا کی قسم کھا جائے تو میں نے اُسے تنبیہ کی کہ کسی دن تو یک دم گر کر اور حرکت قلب بند ہو کر مر جائے اپنا دعویٰ چھوڑ دیتا ہوں.عدالت نے یہ طریق فیصلہ منظور کر لیا.مدعا علیہ گا.یہیں فراغت کر لیا کر.مہتر تو ہر وقت موجود رہتا ہی ہے ورنہ تیرے لئے صاف قسم کھا گیا اور گڑوی اُٹھا کر مع اپنے بیٹے کے چلا گیا.غریب مدعی نے اچھا نہ ہو گا.تجھے ابھی آٹھ دس دِن لیٹے رہنا ضروری ہے کہنے لگا ”چاہے
155 154 مروں یا جیوں جب تک پر ان چلتے ہیں میں تو باہر ہی جاؤں گا.“ چونکہ معاملہ نے کہا.” آج آپ کی قسمت سے ہمارے ہاں کبوتر ہی پک رہے ہیں آپ اہم تھا میں نے اُسے پھر سمجھایا اور وہ کچھ کچھ مان بھی گیا.مگر وقت آنے پر اُس تسلی رکھیں.“ چنانچہ وہ تو اُس وقت لرزتے کانپتے اور جزاک اللہ کہتے ہوئے کی ضد پھر عود کر آئی.دوسرے دن وارڈ قلی میرے پاس دوڑا ہوا آیا کہ وہ شخص اپنے بستر پر شفا خانہ میں چلے گئے اور میں نے شام کو ایک کبوتر مع شوربے کے اپنے بستر کے پاس گر کر مر گیا ہے.کہنے لگا کہ وہ رفع حاجت کے لئے اُٹھ اُن کو بھیج دیا.دوسرے دن کہنے لگے کہ میں کل دُنیا سے رخصت ہی ہو جاتا کر باہر جانا چاہتا تھا.میں نے بہتیرا اُسے منع کیا مگر باز نہ آیا.دو قدم ہی پلنگ اگر وہ کبوتر میرے پیٹ میں نہ جاتا.میں نے کہا کہ آپ نے ضرور اُن سے پرے گیا ہو گا کہ تیورا کر گرا اور وہیں ٹھنڈا ہو گیا.“ کبوتروں کو ہمارے ہاں لاتے ہوئے انجینئر صاحب کے نوکر کو دیکھ لیا ہو گا.“ " (90) حکیم صاحب کی حکمت وہ تو چپ ہو گئے مگر ایک کمپاؤڈر پاس سے بول پڑا کہ ” دیکھا کیوں نہیں تھا.؟ أن كکبوتروں نے ہی تو ان کو املی کے نیچے بٹھا کر لرزہ چڑھایا تھا.اور انہوں گڑ گاؤں کے سول ہاسپٹل میں ایک متقی نیم حکیم میرے زیر علاج نے ہی پھر ان کو شفا بخشی تھی.ہاں اتنی بات ہے کہ ان کو اس بیماری کا نسخہ یاد شفاخانہ میں داخل تھے.ایک دن میرے ہمسائے ڈسٹرکٹ انجینئر نے کچھ جنگلی تھا ورنہ خدا جانے کیا ہوتا.“ " (91) امیروں کے نخرے لاہور کا ذکر ہے کہ ایک سیٹھ کو بواسیر یعنی (فسچولا) کا مرض ہو گیا.کبوتر ہمارے کھانے کے لئے بھیجے جنہیں حکیم صاحب نے بھی دُور سے دیکھ لیا.تیسرے پہر کو حکیم صاحب میرے دروازے پر آ کر کراہنے لگے.میں جو باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ باقاعدہ ذبح شده مرغ کی طرح تڑپ رہے ہیں.میں نے گھبرا کر پوچھا کہ حکیم جی! کیا ہوا“ کہنے لگے ” مر گیا.میری ہڈی بیماری بغیر آپریشن کے اچھی نہیں ہوتی.جب بیماری کے دورے بار بار تکلیف ہڈی میں سردی داخل ہو گئی ہے.او جان نکلنے لگی ہے مجھے بچاؤ.“ میں نے کہا دینے لگے تو سیٹھ صاحب نے مجبور ہو کر آپریشن پر رضامندی ظاہر کی.پہلے تو کیا وجہ؟ کہنے لگے ” یہ جو شفاخانہ کے احاطہ میں املی کا درخت ہے میں غلطی وہ ڈاکٹر ہیرا لال صاحب کے پاس گئے اور اُن سے معاملہ طے کرنے لگے.سے آج اُس کے نیچے کئی گھنٹے لیٹا رہا.اس درخت کی تاثیر حکیموں نے زمہریر اُنہوں نے دیکھ کر کہا کہ ”ہاں آپریشن ہو جائے گا مگر آپ سے ہزار روپیہ ہے.دوسرے لوگوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا مگر میں کمزور تھا کلیجہ کو فیس لوں گا.‘ سیٹھ صاحب اس رقم کو زیادہ خیال کر کے وہاں سے چلے سردی چڑھ گئی ہے.اور دانت سے دانت بجنے لگا ہے.ہائے کیا کروں.اوئی آئے.یار دوستوں سے صلاح مشورہ کیا.پھر کرنیل ہیوگو صاحب کے پاس مر گیا.ہائے ہڈیوں کا گودا بھی ٹھنڈا ہو گیا.میں نے پوچھا ” آخر اس کا کیا گئے.انہوں نے کہا ”ہاں میں ضرور آپریشن کر دوں گا.سیٹھ صاحب نے علاج ہو سکتا ہے.؟“ بے دھڑک فرمانے لگے کہ: ”اب تو صرف کبوتر کا شوربا پوچھا ”اور فیس؟‘ صاحب نے کہا ”سو (100) روپیہ کافی ہو گا سیٹھ ہی میری موت کو روک سکتا ہے.“ اس وقت میں حکیم جی کی حکمت کو سمجھا.میں صاحب بہت خوش ہوئے اور دن اور وقت کا فیصلہ کر کے آ گئے.جب لکھی
157 156 آپریشن کے لئے کرنیل صاحب اُن کے گھر پر آئے اور آپریشن کے لوازمات صاحب نے کہا ”نہیں میں آپ کو بھی تین سو (300) دلواؤں گا.تسلی رکھیں‘‘ تیار ہو گئے تو سیٹھ صاحب کو یہ وہم پیدا ہوا کہ انگریز کا کیا اعتبار؟ خدا جانے چنانچہ آپریشن کے بعد صاحب نے مطالبہ کیا اور ڈاکٹر صاحب نے اُن کی تائید کیا کاٹ کر رکھ دے.یہ تسلی کیونکر ہو گی کہ آپریشن ٹھیک ہوا ہے یا نہیں ! یہ کی کہ سو (100) روپیہ ایسے کام اور ایسے سیٹھ کے لئے بہت تھوڑی رقم ہے“ خیال آتے ہی انہوں نے ایک آدمی ڈاکٹر ہیرا لال صاحب کے پاس بھیج کر چنانچہ تین سو روپیہ صاحب کو اور ہزار روپیہ ڈاکٹر صاحب کو دیے گئے اور پیچھے اُن کو بلایا اور کہا کہ ” ہمارا ارادہ تو کرنیل صاحب سے ہی آپریشن کرانے کا روزانہ مرہم پٹی کے لئے جو باضابطہ خرچ ہوتا رہا وہ الگ.ہے لیکن تسلی آپ کے بغیر نہیں ہوتی.آپ صرف چند منٹ کھڑے ہو کر اتنا دیکھ لیں کہ آپریشن ٹھیک ہو گیا ہے یا نہیں؟ جیسا اپنے ہم وطن پر اعتبار ہو سکتا ہے ویسا دوسرے پر نہیں ہو سکتا.فرمائیے اس تھوڑی سی دیر کے یہاں کھڑے ہونے کی آپ کیا فیس لیں گے؟“ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ”ہزار روپیہ سیٹھ صاحب کہنے لگے.”صاحب نے ایک سو روپیہ آپریشن کا لیا ہے.آپ اُن سے زیادہ کس طرح لے سکتے ہیں؟“ ایسے وہم بھی امارت کے کھیل ہیں.(92) ملتانی منگواؤں؟ ملتان کے علاقہ میں مغرب کی پہاڑیوں سے وہ مٹی نکلتی ہے جسے گا چنی یا ملتانی مٹی کہتے ہیں اور جسے چھوٹی جماعتوں کے طالب علم اپنی تختیوں پر ملا کرتے ہیں.اس طرف کے اضلاع میں دستور ہے کہ جب کسی صاحب ڈاکٹر ہیرا لال کہنے لگے ” یہ آپ کی مرضی ہے خواہ مجھ سے آپریشن ثروت کے لڑکے کا بیاہ ہو کر بہو گھر میں آ جاتی ہے تو سب گھر والے نئی دلہن کرائیں خواہ آپریشن کے وقت مجھے کھڑا کر لیں اور کام کچھ نہ لیں فیس ایک ہی ہو گی ؟“ کے متعلق ماں بننے کا انتظار بیاہ کے چند دن کے بعد ہی شروع کر دیتے ہیں.بڑے لالہ صاحب اپنی گھر والی سے روزانہ با قاعدہ پوچھتے رہتے ہیں کہ ”کہو سیٹھ صاحب کے دل میں تو خوف اور ڈر کا چور تھا بہت قیل و قال بہو کا کیا حال ہے، ملتانی مٹی منگواؤں؟ آخر کسی روز اُن کے گھر والی بھی کہہ کے بعد مجبوراً راضی ہو گئے.غرض آپریشن ہو گیا.کرنیل صاحب نے ڈاکٹر دیتی ہے کہ آثار تو معلوم ہوتے ہیں، اب منگا لیں“ چنانچہ پانچ سات روز صاحب سے کہا کہ سیٹھ صاحب آپ کے دوست معلوم ہوتے ہیں؟ ڈاکٹر کے بعد ایک اونٹ جس پر قریباً چھ من ملتانی مٹی لدی ہوئی ہوتی ہے گھر پر آ صاحب نے کہا کہ اصل میں پہلے یہ مجھ سے آپریشن کرانا چاہتے تھے.میں جاتا ہے.اور وہ ملتانی اُن کی بہو کے سرہانے بوریوں میں بھر کر رکھ دی جاتی نے ہزار روپیہ طلب کیا تھا مگر سو روپیہ پر آپ نے ان کا آپریشن کر دیا لیکن ہے.مطلب اس ساری بات کا یہ ہوتا ہے کہ ماشاء اللہ بہو کو حمل ہے.اس کا جی اعتبار تو ان کو مجھ پر تھا اس لئے بلا کر کھڑا کر لیا ہے اور اس کھڑے ہونے کی ضرور مٹی کھانے کو چاہتا ہو گا.اگر خوشبودار سوندھی سوندھی ملتانی مٹی اُسے ہر وقت خواہش کے وقت نہ ملے گی تو اُس کی اور بچہ کی صحت پر بڑا اثر پڑے گا.فیں بھی میں نے ہزار روپیہ ہی لی ہے.66 صاحب ہنس کر کہنے لگے کہ ”پھر تو ہم ہی خسارہ میں رہے“ ڈاکٹر اس علاقہ میں تو حاملہ عورتیں منوں مٹی حمل کے دوران میں کھا جاتی ہیں، اور ان
159 158 کو سکھایا بھی یہ جاتا ہے کہ یہ بہت مفید چیز ہے.ساتھ ہی خود حاملہ عورتوں کو غرض مرمر کے اچھے ہوئے تو انہیں بھی یقین آ گیا کہ واقعی میں نے بڑی بھی اس قسم کی فضول چیزوں کی طرف رغبت ہوا کرتی ہے.بس پھر کیا تھا کوئی غلطی کی کہ ٹھنڈے پانی سے روزانہ نہاتا رہا شکر ہے کہ جان بچ گئی مگر خدا حد ملتانی مٹی کھانے کی نہیں رہتی.میں نے دیکھا ہے کہ بعض عورتوں کا رنگ جانے کتنے لوگ میرے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اور ٹھنڈا غسل کر کے بیمار اس طرح بکثرت مٹی کھا کھا کر ملتانی کی طرح کا ہی ہو جاتا ہے، اور بجائے ہوئے ہوں گے اور شاید کوئی مر بھی گیا ہو.چنانچہ اُن کے گھنٹے کا پنڈولم فائدہ کے اُن کو سراسر نقصان ہی پہنچتا ہے.یہ صرف ایک رواج ہے اور فائدہ دوسری طرف زیادہ چلا گیا اور شفا پاتے ہی پہلے پراپیگنڈے کے بالکل برخلاف اُن کی تبلیغی مساعی شروع ہو گئیں.اب ہر شخص کو منع کرتے پھرتے کی نسبت اس میں نقصان بہت زیادہ ہے.(93) عادت کا اثر صحت پر ہیں کہ ”باسی اور ٹھنڈے پانی سے نہانا محض خود کشی ہے.میں نے خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے.یہ بڑی خطرناک عادت ہے.اگر ڈبل نمونیہ سے مرنا منظور میڈیکل کالج لاہور میں ہمارے ساتھ یو.پی کے ایک طالب علم بھی ہو تو بے شک جاڑے میں سرد پانی سے غسل کیجئے وغیرہ وغیرہ.غرض وہ اُن ڈاکٹری پڑھنے داخل ہوئے.آدمی تھے دھان پان مگر طرار.پچھلی ساری عمر تو لوگوں میں سے تھے جو میانہ رو اور معاملہ فہم نہیں ہوتے بلکہ محض جذباتی ہوتے اس طرح گزری تھی کہ آٹھویں دسویں دن گرم پانی سے نہایا کرتے تھے.ہیں نہ وہ مختلف حالات کے ماتحت مختلف اور مناسب حکم لگاتے ہیں.نہ موقع لاہور میں آئے تو کسی ڈاکٹر کا لیکچر سنا کہ روزانہ سرد پانی سے نہانا نہایت اور محل دیکھتے ہیں، بلکہ ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانکنا جانتے ہیں.ایسے مفید ہے“ بس اسی بات کو پلے باندھ کر لے دوڑے اب ہر شخص کو تبلیغ کر رہے لوگ جب کسی بات کی موافقت میں تبلیغ کرتے ہیں تب بھی وہ خطرناک ہیں کہ ”بھائی روزانہ ٹھنڈے پانی سے نہایا کرو، اس سے صحت بہت اچھی رہتی ہوتے ہیں اور جب مخالف میں بولتے ہیں تب بھی خطرناک ہوتے ہیں.ہے لوگوں نے کہا کہ آپ خود بھی تو نہایا کریں؟ کہنے لگے ”واقعی مجھے تو ނ (94) آواز کا کھیل غالباً عید کے بعد ر کا میلہ تھا کہ میں امرتسر میں مع چند عزیزوں کے پہلے اس پر کار بند ہونا چاہئے تھا.غرض انہوں نے اپنی پرانی عادت توڑ کر یکدم روزانہ باسی پانی سے نہانا شروع کر دیا اور وہ بھی علی اصبح اندھیرے منہ.سردی کا موسم قریب تھا.دسمبر کے مہینے میں بھی اُن کا یہ عمل رام باغ گیٹ کے پاس میلہ کے تنبوؤں کے قریب سے گزرا.وہاں ایک تنبو جاری رہا اور ساتھ ہی اُن کی لیکچر بازی سرد پانی سے غسل کے متعلق تیز تر ہو پر لکھا دیکھا کہ ”یہاں انسانی کھوپڑی باتیں کرتی ہے اور سوالوں کا جواب دیتی گئی.چند دن وہ کالج میں نظر نہ آئے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بیمار ہے ٹکٹ شاید ایک آنہ یا دو آنہ کا تھا.ہم اندر گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہیں پھر سنا کے نمونیہ ہو گیا ہے.پھر مشہور ہوا کہ ڈبل نمونیہ ہے جو بھی اُن کی انسان کی کھوپڑی لے کر بیٹھا ہے اور جو سوال کرو کھوپڑی بار یک آواز سے عیادت کو جاتا وہ اُن سے یہی کہتا کہ یہ سرد پانی سے نہانے کا نتیجہ ہے“ اُس کا جواب دیتی ہے.چنانچہ ہم نے کئی سوال کئے اور اردو فارسی اشعار بھی
161 160 اس کھوپڑی سے پڑھوائے.میرے ساتھی نہایت حیران ہوئے کہ بات کیا کتابیں انگریزی کتب فروشوں کے ہاں ملتی ہیں اور اس فن کو ونٹری لوکوئی ہے؟ زمین یا کسی نلکی سے اس کھوپڑی کا تعلق نہیں تھا.پھر کون ہے جو اس میں VENTRI LOQUY) کہتے ہیں اور یہ آواز کو فوکس کرنے کا فن ہے مگر باتیں کرتا ہے؟ آخر یکدم مجھے خیال آیا کہ یہ وہ علم ہے جسے ونٹری لوکوئزم بہت دلچسپ.جب ہم نے تماشا والے کو کہا کہ ” قرآن کریم پڑھ کر سنوائے“ VENTRI LOQUISM) کہتے ہیں یعنی انسان آواز کی مشق کر کے تو اُس کھوپڑی نے سورہ کیس کی کچھ آیتیں پڑھیں، پھر شاید سنسکرت یا کوئی اور اس طرح بات کر سکتا ہے کہ بات خود اس کے منہ سے نکلتی نہیں معلوم ہوتی غیر زبان بولنے کو کہا تو فیل ہوگئی کیونکہ وہ اس بولنے والے کو خود نہیں آتی تھی.(95) دُکانداری بلکہ جس مقام سے چاہے اُس کے بولنے کی آواز وہیں سے آتی معلوم ہوتی ہے.مثلاً اگر بولنے والا مشاق چاہے تو اس طرح کلام کر سکتا ہے کہ اُس کا کلام کمرہ کی ایک کرسی یا کتاب یا لیمپ میں سے نکلتا ہوا سنائی دے نہ کہ خود ایک سرحدی ضلع میں ایک ڈاکٹر صاحب کہیں سے تبدیل ہو کر تشریف اس کے منہ سے.ایک آدمی آپ کے سامنے بات کرتا ہے مگر آواز آپ کی لائے.اُن کے ساتھ اُن کا ایک رشتہ دار بھی تھا.وہ جہاں جاتے تھے اسے ہمراہ پشت کی طرف سے آتی معلوم ہوتی ہے.جس طرح روشنی کی شعاعیں ریفلیکٹر لے جایا کرتے تھے اور ایک ڈرگ شاپ یعنی دوا فروشی کی دکان اُسے کھلوا کے ذریعہ جس جگہ اور جس طرف سے بھی چاہیں پھیر سکتے ہیں اسی طرح دیتے تھے لیکن پبلک کو پتہ نہ لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس دکان سے کوئی تعلق خاص طرف سے منہ بنا کر بولنے کی مشق کرنے سے کسی کمرہ میں سے کسی ہے.سمجھوتہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ہر نسخہ یا ہر متمول مریض کے نسخہ میں مقررہ جگہ سے بولنے والے کی آواز آنے لگتی ہے.چنانچہ یہ کھیل بھی وہی تھا باقی سب معمولی اور مشہور دوائیاں مکچر کی لکھ کر آخر میں بجائے پانی کے اکوا اور تماشا والے نے آخر مان لیا کہ بات یہی تھی.جب ہم نے اُسے کہا کہ سہانجنا (AQ SOHANJNA) بھی لکھ دیا کرتے تھے.شفاخانہ کا کمپونڈر کوئی فارسی کا شعر پڑھو تو پڑھنے والا تو وہی تماشا گر تھا مگر آواز اس کھوپڑی نسخہ دیکھ کر کہہ دیتا کہ ”ہمارے ہاں یہ دوا نہیں ہے بازار سے نسخہ بنوا لیں، پھر میں سے آتی تھی کہ مریض جس جس کیمسٹ کے پاس جاتا تو وہ بھی نسخہ پڑھ کر یہی کہہ دیتا کہ یہ الا یا ایها الساقی ادر کاسا و ناولها دوا پڑھی نہیں جاتی “ یا ”سمجھ میں نہیں آتی‘ یا ہمارے ہاں موجود نہیں ہے آپ که عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلها کہیں اور سے نسخہ بنوا لیں پھرتا پھر ا تا آخر کار جب نسخہ والا اُس خاص کیمسٹ ہر شخص اس قسم کی پریکٹس میں کامیاب نہیں ہو سکتا مگر کوشش اور مشق کے پاس پہنچتا جو ڈاکٹر صاحب کا آوردہ تھا تو وہ فوراً نسخہ بنا دیا کرتا تھا.اس کے ساتھ بعض آدمی اس کے ماہر ہو جاتے ہیں اور اپنے ہمراہیوں کو خوب ڈرا طرح سے نہ صرف کیمسٹ کے گاہک زیادہ ہوتے جاتے تھے بلکہ ڈاکٹر صاحب لیتے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چن تکیہ میں سے یا لوٹے میں سے دیوار کا کمیشن یا منافع بھی ترقی کرتا جاتا تھا اور بات صرف اتنی تھی کہ سہانجنا ایک میں سے باتیں کر رہا ہے، مگر آواز بہت اونچی اور صاف نہیں ہوتی.اس علم کی مشہور درخت ہے جس کی پھلیوں کا اچار پنجاب میں عام طور پر استعمال ہوتا
163 162 یہ دہلی 1911ء کی بات ہے.میں دربار ڈیوٹی پر اس سال وہیں ہے.مگر انگریزی دوا فروش اس کے نام سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے دیتے تھے تو کہا کرتے تھے یہ تین آنہ والا ہے.سہانجنا کا عرق صرف اسی دکان پر ملا کرتا تھا اور ڈاکٹر صاحب بھی اُسے مریض کے فائدہ کے لئے نہیں لکھتے تھے بلکہ صرف اپنے فائدہ کے لئے.متعین تھا.اجمیر کا ایک کو کین خور بھی اس مکان میں تھا.اس نے بازار سے اسی طرح کا ایک قصہ اور بھی مشہور ہے کہ جب دہلی کے ایک کوکین والے کئی پان کھائے تو لازماً منہ سُن ہو گیا.پھر گھر میں آ کر اس نے مشہور عطار نے اپنی دکان کھولی تو انہوں نے حکیم محمود خاں صاحب دہلوی سے سادے اور عام پان کھانے شروع کئے اور ساری رات ہی کھاتا رہا.میرے کہا کہ ” میری سر پرستی فرمائیے.آپ کی ذراسی توجہ سے میری دکان چل پڑے اندازے میں کوئی سو پان کھائے ہوں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ منہ ہونٹ اور زبان گی حکیم صاحب نے کہا اچھا تم بازار سے کچھ دوائیں اور ایک ٹین سب سوج گئے اور صبح ہوتے ہوتے وہ چار پائی پر اوندھا منہ کئے پڑا تھا اور رال کا بمبالا کر اُس میں پانی بھر کر دُکان میں رکھ چھوڑو.میں جب کسی نسخہ میں عرق منہ سے بہہ رہی تھی.کئی دن میں جا کر اُس کی یہ سوجن اور ورم اُترا.بمبا کا لفظ لکھا کروں تو تم اس بمسے کا پانی ہمراہ دیگر ادویہ کے دے دیا کرو اور تاجروں نے لاکھوں روپیہ اسی کوکین کی تجارت سے کمایا اور بطور - آمدنی کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ“.رشوت رنڈیوں کو دیا تا کہ وہ امراء کو کو کین کھانا سکھائیں.کوکین میں بے ہوشی چنانچہ وہ صاحب حکیم صاحب کی مہربانی کی وجہ سے درجہ اوّل کے والا نشہ نہیں ہوتا.پرانے عادی اپنی عادت پوری کرنے کے لئے اسے کھاتے عطار بلکہ حکیموں کے بھی استاد بن گئے.دونوں کہانیوں میں فرق یہ ہے کہ وہ ہیں.ڈاکٹر صاحب بدنیت تھے اور خود کمیشن لیتے تھے مگر حکیم محمود خاں صاحب کو کمیشن دتی میں ایک سوداگر تھے جو صرف میاں بیوی تھے اور اولاد نہ رکھتے کا خیال بالکل نہ تھا بلکہ ایک سمجھدار اور لائق شخص کی دکان کو ترقی دینے کا اور محض تھے.انہوں نے اس کی تجارت شروع کی.لاکھوں کا فائدہ ہوا.کئی مکان بنا اس کی ہمدردی کا خیال تھا.(96) کوکین لئے.آخر ایک دن یہ خیال آیا کہ جس چیز نے اتنا مالی فائدہ اور برکت دی ہے اُسے خود بھی کھا کر دیکھیں.غرض اس طرح اُن کا نشہ شروع ہوا.پھر بیوی کو بھی ساتھ شامل کر لیا.رفتہ رفتہ دماغ کی تیزی اور عقل کم ہوتی گئی.کاروبار کوکین کھانے کا رواج ہندوستان میں پہلی جنگ عظیم سے کئی سال ابتر ہوتا چلا گیا.آخر میں سب جائداد اور اندوختہ کوکین پر ہی برباد ہو چکا تھا.پہلے کا شروع ہے مگر اب کم ہو گیا ہے کیونکہ جنگ کے زمانہ میں اس کی درآمد بوڑھے میاں بیوی خبطیوں کی طرح گھر میں پڑے رہا کرتے تھے اور ہفتہ میں مشکل ہے.بمبئی ، کلکتہ، اجمیر، دہلی اس کے مرکز اور صدر مقام تھے.یہ عموماً دو دفعه بازار سے سیر بھر بالائی لا کر کھا لیا کرتے تھے بس یہی اُن کی غذا تھی.پان میں رکھ کر کھائی جاتی ہے اور پنواڑی لوگ جب عام پان بنا کر گاہک کو آخر اسی حالت میں نیم دیوانہ ہو کر دُنیا سے گزر گئے.دیتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ یہ ایک پیسہ والا پان ہے اور جب کوکین والا کو کین عجیب عجیب طرح غیر ملکوں سے آیا کرتی تھی.کبھی قینچیوں اور
165 164 چاقوؤں کے بکسوں اور پارسلوں کی تہوں کے اندر رکھی ہوتی.کبھی سوئیوں، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پنجاب میں کسی جگہ کو کین پکڑی گئی.جب لیموں اور دیگر مال تجارت کے اندر مخفی طور پر پوشیدہ ہوتی.پھر خوردہ فروشی میں کیمیکل ایگزامیز کے ٹیسٹ ہونے گئی تو واقعی کو کین ثابت ہوئی.مجرموں کو سزا دہلی آ کر بھی نہایت احتیاط سے بکتی تھی.اگر آپ کو ایک چھہ آنہ کی پڑیا در کار مل گئی اور کوکین ضبط ہو کر شفا خانوں میں آپریشنوں کے لئے تقسیم کر دی گئی.ہوتی تو آپ کو کین کے ایجنٹ سے براہ راست نہیں لے سکتے تھے.بلکہ بعض یہ چھپیں تمہیں سال کا واقعہ ہے.مگر آپ سُن کر حیران ہوں گے کہ میں جب بھی برقعہ پوش عورتیں یہ کام کرتی تھیں جو پیسے لے لیتی تھیں اور کہہ دیتی تھیں کہ اس کو کین کو کسی مریض کی آنکھ میں ڈالتا تھا تو آنکھ بے حس نہ ہوتی تھی.آخر ”فلاں مکان کے دروازے کے پاس دیوار کی ایک اینٹ اُکھڑی ہوئی ہے تنگ آ کر وہ پڑیا میں نے صاحب کیمیکل ایگزامیر کے پاس بھیجی کہ اسے اُس رخنہ میں ایک پتھر کے نیچے چھہ آنے والی ایک پڑیا دبی رکھی ہے وہ جا کر ٹیسٹ کر دیں.آیا اس میں کوکین ہے یا نہیں؟ وہاں سے جو جواب آیا وہ مجھے لے لو یہ کام بہت خطر ناک تھا کیونکہ پولیس بھی بلائے بے درمان کی طرح دن بعینہ اب بھی یاد ہے اور ہدیہ ناظرین ہے: رات اس گروہ کے پیچھے لگی رہتی تھی.کوکین کھانے سے نہ صرف منہ اور گلاسن ہو جاتا ہے بلکہ سارا بدن ہی سُن معلوم ہونے لگتا ہے.علاوہ ازیں اس میں سرور بھی ہوتا ہے جیسے بھنگ یا شراب وغیرہ میں، مگر جب زیادہ مقدار میں کھاتے رہیں اور عادت پرانی ہے ہو جائے تو بھوک پیاس مر جاتی ہے.بدن کی کھال خشک ہو جاتی ہے اور اس قدر اس میں خارش رہتی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کپڑوں کے اندر پتو پھر پھرا "NOT A SINGLE PARTICLE COCAIN WAS FOUND IN THE POWDER SENT BY YOU" یعنی تم نے جو پوڈر ہمیں بھیجا ہے اس میں کوکین کا ایک ذرہ تک موجود نہیں ہے.“ تعجب ہے کہ ایک مقدمہ چلے، وہ چیز کو کین ثابت ہو.ملزم بھی سزا پا جائیں.پھر دوسری دفعہ وہی پوڈر کو کین ثابت نہ ہو.العجب! ثم العجب! شاید رہے ہیں یا کھٹمل چل رہے ہیں.اس تکلیف کی وجہ سے نیند جاتی رہتی ہے.یہ بات ہو کہ وہ پہلی چیز کو کین ہی ہو مگر پھر مقدمہ کے بعد کسی حاجتمند نے آدمی کبھی ایک حصہ بدن کو نوچتا ہے کبھی دوسرے کو بالآخر پاگل ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے.ہندوستان میں اس کی عادت عیاش لوگوں کی آوردہ ہے اور مشہور معجون فلک سیر کا بھی یہ ایک جزو ہوا کرتی تھی.جس کی عادت کی وجہ سے دِتی کے سینکڑوں عیاش اور رئیس زادے تباہ اور برباد ہو گئے.کوکین آنکھ، ناک وغیرہ کے آپریشنوں کے وقت ان کو بے جس کرنے کے کام آتی ہے.پھر کلوروفارم کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور یہی اس کا اصل فائدہ ہے.اُسے اُڑا لیا ہو اور اُس کی جگہ بورک ایسڈ رکھ دیا ہو واللہ اعلم.(97) بیویوں کے نوکر پا ایک دن میں رہتک کا زنانہ شفاخانہ دیکھنے گیا.خود شفاخانہ میں تو حسب ضرورت جانا ہی پڑتا تھا مگر اتوار کو جو چھٹی کا دن ہوتا ہے دیگر متعلقہ سرکاری مکانات اور عام صفائی وغیرہ بھی دیکھی جاتی ہے.عملہ کے مکانات
167 166 دیکھتے دیکھتے میں زنانہ کمپاؤڈر کے مکان میں بھی گیا.وہ ایک عیسائی عورت ہیں اور اکثر ان میں سے چال چلن کے لحاظ سے بھی.سگریٹ نوش، شرابی ، تھی جس کے تین چار بچے تھے.اندر جا کر میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ جواری ، تاش کھیلنے والے اور آوارہ ہوتے ہیں اور جونک کی طرح اپنی بیویوں کون ہیں؟ اُس نے کہا ”یہ میرے بچے ہیں میں نے پوچھا اور یہ؟“ وہ کی آمدنی کا خون چوستے رہتے ہیں.بولی ”یہ میرے ہسبینڈ ہیں (یعنی خاوند ) میں نے پوچھا ”یہ بھی کچھ کام سوسائٹی وہی آرام دہ ہے جس میں مرد کے ذمہ عورت اور بچوں کے کرتے ہیں؟ کہنے لگی ان کے لئے گھر کا کام ہی بہت کافی ہے.جھاڑو جملہ اخراجات ہوں اور مرد کماؤ ہو نہ کہ عورت.جب عورت کمانے لگتی ہے تو صفائی، سودا لانا، کھانا پکانا، برتن صاف کرنے ، بچوں کو نہلا نا ڈھلانا وغیرہ میں نے کہا اور ان باتوں کا معاوضہ؟ ہنس کر کہنے لگی کہ ”جب میں شفاخانہ سے دو پہر کو کھانا کھا کر سو جاتی ہوں اور اپنا کوٹ اُتار کر کیلوں پر لٹکا دیتی ہوں تو یہ میرے کوٹ کی جیب میں سے ضرور کچھ نہ کچھ چوری کر لیا کرتے ہیں اس کا خاوند بھی ہمارے ساتھ ہنسی میں شریک ہو گیا اور کہنے لگا "کسی طرح گزارا جو کرنا ہوا.آخر سگریٹ کہاں ہوا.آخر سگریٹ کہاں سے پیئیں؟“ میں نے عموماً 66 اس کا اپنا خاوند اس کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہو جاتا ہے اور اس بات کا اولاد کی ذہنیت پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.(98) ہیجڑوں کی کرامت 1905ء ذکر ہے کہ میں پہلی دفعہ ملازم ہو کر دہلی میں متعین ہوا.گرمی اس سال سخت پڑی اور بارش کے ہونے میں اس قدر کھینچ ہو گئی کہ زمین العطش العطش پکارنے لگی.ہندوؤں نے غرباء کے لئے لنگر کھول دیے ہندوستانی عیسائی عورتوں کو دیکھا ہے کہ وہ مشن کی امداد کی بدولت اچھی تعلیم حاصل کر لیتی ہیں.کوئی لیڈی ڈاکٹر بن جاتی ہے.کوئی اسکول مسٹرس، کوئی اور مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ نماز استسقاء پڑھی جائے چنانچہ پہلے روز حنفی جمع ہو کر جنگل میں گئے.نماز استسقاء پڑھی، چادر میں اُلٹا اُلٹا کر دعائیں مانگیں لیڈی ہیلتھ وزیٹر، کوئی نرس دائی ، مگر اسی کلاس کے عیسائی مردوں کا یہ حال ہے کہ اگر وہ کہیں عہدہ پر پہنچ جائیں تو یوریشین یا یورپین بیوی ڈھونڈتے ہیں.اگر خود یوریشین ہوں تو ولایت سے دلہن لاتے ہیں.اس حالت میں ان کے اور آ گئے.دوسرے دن اہل حدیث اسی طرح گئے اور وہی عمل کر آئے.تیسرے دن شیعہ گئے اور بارش کی دُعا مانگ کر آ گئے.غرض روزانہ کوئی نہ کوئی فرقہ جاتا اور خدا سے بارش مانگتا مگر نا کام آ جاتا.غالباً ساتواں دن تھا برابر درجہ والی عیسائی عورتوں کے لئے ان کی ٹکر کا خاوند ملنا محال ہو جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ ساری عمر کنواری ہی بیٹھی رہتی ہیں یا پھر انہیں اسی قسم کے گھٹیا خاوند مل سکتے ہیں جو بیرے اور خانساماں کا کام دیں، ان کے بچوں کو پالیس مکان کو صاف رکھیں اور تھوڑے سے جیب خرچ یا چوری چکاری کے معاوضہ میں ان کے گھر کو آباد رکھیں.یہ بیویاں اپنے خاوندوں کو خوب ڈانٹتی ڈیٹتی ہیں اور ان کو بہت ذلیل حالت میں رکھتی ہیں کیونکہ یہ نکھٹو ہوتے شہر میں غل بچ گیا کہ آج ہیجڑے بارش مانگنے جا رہے ہیں.چنانچہ یہ لوگ جمع ہو کر دس بجے شہر سے باہر نماز کے لئے گئے اور بارہ بجے موسلا دھار مینہ برساتے اور بھیگتے ہوئے واپس آئے.شہر میں مبارک سلامت کا شور برپا ہو گیا.لوگوں نے یہی کہا کہ اس درگاہ میں عاجزی اور انکساری پسند ہے اسی وجہ اس فرقہ کی دُعا فوراً قبول ہوئی.باقی سب مولوی، عالم، لمبی
169 168 داڑھیوں والے اپنے دین پر یا اپنی قبولیت پر یا اپنے حسب نسب پر فخر کرنے کوشش ان بدمعاشوں کے پکڑنے کی پولیس نے نہ کی تھی.زیادہ سے زیادہ والے اور متکبر تھے کسی فرقہ میں سچا انکسار نہ تھا مگر ہیجڑے بیچاروں کو کس مجھے یہ نظر آیا کہ جن لوگوں کا نقصان ہوا تھا وہ یا تو گالیاں دے رہے تھے یا بات پر فخر ہو سکتا تھا ؟ وہ عاجزی اور فروتنی لے کر گئے تھے اور ابر رحمت اپنی قسمت کو رو رہے تھے یا صبر سے بیٹھے اپنی گردنوں اور سروں کو سہلا رہے تھے.غرض ایک مضحکہ خیز ڈراما تھا جو ان دیہاتیوں نے ڈاکہ مار کر ٹرین کے مسافروں کو دکھایا جس سے ناظرین بھی ہنسے اور ڈاکو بھی قہقہے لگاتے چلے گئے.(100) سانگلہ ہل برساتے آئے.(99) پگڑیوں پرڈا کہ ایک دفعہ میں لائکپور سے لاہور کی طرف ریل میں سفر کر رہا تھا.گرمی کا موسم اور قریباً چھ بجے شام کا وقت تھا.گاڑی دو اسٹیشنوں کے درمیان اپنی سانگلہ ایک قصبہ شیخوپورہ کے ضلع میں واقع ہے.اس کے اسٹیشن کا پوری تیز رفتاری کے ساتھ جارہی تھی.سب ڈیوں کی کھڑکیاں کھلی تھی اور لوگوں نام سانگلہ ہل مشہور ہے اور ریل کے ٹائم ٹیبل میں بھی اس کا یہی نام درج کے سر کچھ کچھ کھڑکیوں سے باہر نکلے ہوئے تھے تا کہ ہوا لگتی رہے کہ اتنے میں ہے.پنجاب کا یہ علاقہ ایسا سخت گرم ہے کہ وہاں گرمیوں میں گویا آگ برستی یکدم کھڑ کھڑ کرتی ہوئی کوئی چیز ٹرین سے رگڑ کھاتی گزر گئی.میں نے باہر جھانک کر دیکھا کہ چند زمیندار نوجوان لمبے لمبے بانسوں میں بیری کی خاردار ٹہنیاں باندھ کر انہیں ٹرین کی کھڑکیوں کے ساتھ لگا رہے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہے.ایک دفعہ وہاں کے ہائی اسکول کے لئے اخبارات میں یہ اشتہار نکلا کہ ایک ہیڈ ماسٹر کی ضرورت ہے جو لائق اور تجربہ کار ہو اور انگریزی کا مضمون دو تین درجن پگڑیاں، کلاہ اور ٹوپیاں ان بیری کے کانٹوں میں الجھ کر اور مالکوں خاص طور پر اچھا پڑھا سکتا ہو.وہ اشتہار کسی انگریزی اخبار میں ایک بنگالی بابو کے سر پر سے اتر کر زمین پر جا پڑیں.زمینداروں نے پھرتی کے ساتھ اس مال غنیمت کو سمیٹنا شروع کیا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے ففرو ہو گئے اور قیمتی دستاروں والے اپنی قسمت کو رونے لگے کیونکہ گاڑی پوری رفتار میں تھی.کئی بھلے مانس نگے سر رہ گئے اور بہتوں کے چہروں اور گردنوں پر ان چھاپوں کی وجہ سے خراشیں بھی آگئیں.کئی پگڑیاں مشہدی ریشمی تھیں اور کئی کلاہ دس دس پندرہ پندرہ روپے قیمت کے بھی تھے اور بحیثیت مجموعی تو وہ مال غالباً سینکڑوں روپے کا تھا.معلوم ہوا کہ کئی دن سے یہ کھیل اس علاقہ میں کھیلا جا رہا تھا مگر ابھی تک اس کو غالباً مذاق یا نوجوانوں کی چھیڑ خانی ہی تصور کیا جاتا تھا.کیونکہ کوئی کی نظر سے بھی گزرا جو غالباً کلکتہ میں رہتے تھے.بیچارے ایم.اے تھے.غریب تھے اور ساتھ ہی نیم مسئول بھی.اور لوگوں کی طرح انہوں نے بھی اس جگہ کے لئے عرضی دے دی اور خیال یہ کر لیا کہ نہ صرف گزارہ چل جائے گا بلکہ ہل اسٹیشن (HILL STATION) (یعنی پہاڑی صحت افزا مقام) ہونے کی وجہ سے میری بیماری پر بھی اچھا اثر پڑے گا.ادھر یہ ہوا کہ اسکول منتظمین کے پاس جتنی درخواستیں آئی تھیں ان سب میں اس بنگالی کی درخواست بہترین قرار دی گئی کیونکہ اس کی ڈگریاں بھی زیادہ تھیں اور غالباً 1 پل (Hil) کے معنی انگریزی میں پہاڑ یا پہاڑی کے ہیں.کے
171 66 170 ہوتا ہے.(101) ہردوار ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے اپنی صحت کی خاطر پورے ایک سال تجربہ بھی.غرض اسی کو بُلا لیا گیا.اس پر بنگالی بابو نے جھٹ پٹ پہاڑ کے فرمانے لگے کہ ”بابا ہم تو اسے ہل اسٹیشن سمجھ کر آیا تھا مگر ایسے ہل اسٹیشن کی موسم کے مطابق گرم جوڑے تیار کروا کر اپنا سفر پنجاب کی جانب شروع کر دیا.ہمیں خبر نہ تھی جہاں ہیٹ اسٹروک ہو جائے.ہم تو ایک دن بھی یہاں رہنا لاہور پہنچنے کے بعد وہ سانگلہ ہل والی گاڑی میں بیٹھے اور ہر اسٹیشن پر پوچھنا نہیں مانگتا.غرض دو تین دن میں کچھ صحتیاب ہو کر وہ سیدھے کلکتہ واپس شروع کیا کہ سانگہ ہل کتنی دُور ہے؟ غرض اسی طرح سفر کرتے آخر سانگلہ بھاگے اور طلبہ کو اپنی حالت پر ہنستا چھوڑ گئے.بعض ناموں میں بھی بہت دھوکا سے ورلے اسٹیشن تک پہنچ گئے اُس وقت مسافروں نے کہا کہ " لیجئے اب اگلا اسٹیشن سانگلہ ہل ہے مہینہ مئی یا جون کا تھا اور دوپہر کا وقت.مسافروں کے ہر ین مو سے پسینے بہہ رہے تھے اور گرمی کے مارے ٹرین کے ڈبے تنور کی طرح تپ رہے تھے کہ سانگلہ کے قریب آ جانے کا نام سُن کر بنگالی بابو نے اپنا ٹرنک کھولا اور جلدی جلدی بنیان، سوئیٹر، گرم پتلون اور جرابیں پہن کر اوپر کی رخصت لی.ایک دن خیال جو آیا تو ہر دوار کا ٹکٹ لے کر سیدھا اس کعبۂ اہلِ سے ایک موٹا اوورکوٹ چڑھا لیا، پھر گلو بند گردن کے گرد لپیٹ کر منزلِ مقصود ہنوں میں پہنچ گیا اور ریل سے اتر کر دریا کے کنارے اُن سیڑھیوں پر جہاں لوگ کی راہ تکنے لگے.ڈبہ کے مسافر حیران تھے کہ یہ شخص بیمار ہے یا دیوانہ؟ نہا رہے تھے جا پہنچا.ایک پنڈت جی دوڑے ہوئے آئے اور ہاتھ جوڑ کر آخر سانگلہ ہل تو آ گیا مگر ٹھنڈک نہ آئی، نہ پہاڑی سرد ہوا.نہ سبزہ میرے سامنے کھڑے ہو گئے کہ ”مہاراج! یہاں آپ نہ کھڑے ہوں یہاں تو نہ بارش ”ارے باپ رے باپ یہ کیسا ہل اسٹیشن ہے؟“ اتنے میں ایک اُستاد صرف ہندو ہی اشنان کر سکتے ہیں.ہر کی پوڑی دیکھنی ہے تو سامنے والے اور کئی لڑکے اسکول کے جو نئے ہیڈ ماسٹر کو لینے کے لئے آئے تھے پہنچ گئے.جزیرہ پر آ جائیں وہاں سے آپ کو سب کچھ دکھائی دے گا“.تھرما میٹر ایک سو بیس درجہ پر! اور اوپر سے لباس وہ جس کا ذکر گزر چکا ہے.بمشکل گرمی سے ہانپتے ہوئے بنگالی کو درجہ میں سے کھینچ کر نکالا گیا.اسباب سیڑھیاں ہیں جو پانی میں اُترتی ہیں اور لوگ اُن پر بیٹھ کر نہاتے ہیں اور اسی اتر وایا اور لڑ کے کہنے لگے کہ چلئے شہر کو لیکن وہاں نہ موٹر تھا نہ ٹانگہ نہ ثم ثم.مقام کو بُر کی پوڑی یعنی خدا کی سیڑھی کہتے ہیں، پھر وہ شخص مجھ سے کہنے لگا اسی گرمی اور اسی لباس میں بیچارے بنگالی بابو کوئی ایک فرلانگ بھی پیدل نہ چلے کہ ”ہم یہاں کے مہنت یعنی عبادت کرانے والے پنڈت ہیں.آپ آج ہوں گے کہ گرمی کے مارے بے ہوش ہو گئے.لڑکے چار پائی پر ڈال کر اُن کو ہمارے مہمان ہیں آئے میں آپ کو ساری جگہ کی سیر بھی کرا دوں اور پھر شفاخانہ لے گئے تو معلوم ہوا کہ ہیٹ اسٹروک (Heat Stroke) ہے.سب آپ کا کھانا بھی جیسا ہو گا ہمارے ہی ذمہ ہے میں نے کہا ”اچھا غرض کپڑے اتار دیے گئے.پانی کے ٹب میں اُن کو لٹا دیا گیا.سر پر برف رکھی گئی اُس نے گنگا کے اس کنارے کے دُور دُور تک مجھے سیر کرائی اور جب ایک بج ب کہیں جا کر شام تک ہوش و حواس درست ہوئے.ہوش میں آتے ہی گیا تو ایک مسلمان کی دُکان پر مجھے بٹھا کر تھوڑی سی دیر میں خود ایک خوان دو خیر میں نے اُن کے کہنے پر عمل کیا.دیکھا کہ دریا کے کنارے چند
173 172 گئے.(102) سرگس میں سرگس ہو میں کھانا لے آیا.کھانا یہی پوری کچوری اچار وغیرہ تھا مگر ہر چیز پتھر کے نے انعام بھی رکھا کہ سو روپیہ دوں گا“.دو سو روپیہ دوں گا مگر بند بھلا کس برتنوں میں تھی، یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی ایک پتھر کے گلاس میں تھا.میرا کے ہاتھ آتا تھا.یہ کام تو صرف بندوق ہی کر سکتی تھی لیکن تیرتھ میں بندوق کا دل اُس کی اس مہمان نوازی سے بہت خوش ہوا.جو خاص چیز میں نے وہاں کیا کام.غرض میں تو اُسے اسی طرح پیٹ پکڑے روتا پیٹتا چھوڑ کر چلا آیا دیکھی وہ یہ تھی کہ اشنان کرنے والے لوگ دُور دُور تک دریا کے کنارے بیٹھ کیونکہ واپسی کا وقت ہو گیا تھا.خدا کو معلوم ہے کہ اُس صدری یا بندر کا پھر کیا کر نہاتے تھے.صرف ہر کی پوڑی کے ساتھ غسل مخصوص نہ تھا مگر اکثر ان حشر ہوا اور سیٹھ صاحب زندہ بچے یا دس ہزار روپیہ کے غم میں سرگباش میں سے نہاتے وقت دریا میں کچھ نہ کچھ نقدی ڈال دیتے تھے، چونکہ دریا کا یہ حصہ منبع کے نزدیک ہے اس لئے پانی کے نیچے مٹی یا ریت نہ تھی بلکہ دریا کی ساری تہہ میں گول گول پتھر ہی پتھر تھے.ایسے پتھروں میں پیسہ، اکنی یا دوئی کا دستیاب ہونا نہایت مشکل ہے لیکن وہاں سینکڑوں کی تعداد میں ایک قوم تھی لاہور کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ وہاں ایک مشہور سرکس آیا.جس روز میں جو پانی کے اندر ہاتھ ڈال کر اور اسے ہلا کر کسی نہ کسی طرح جو بھی سکہ ان دیکھنے گیا اُس دن ساری سیٹیں بھری ہوئی تھیں.تیل رکھنے کو کہیں جگہ نہ تھی.پتھروں کے اندر ہوتا تھا نکال لیتی تھی.میں نے دیکھا کہ ہر دس پانچ منٹ سامنے تیسرے درجہ کی گیلری میں لوگ اس قدر پھنسے بیٹھے تھے کہ اُن کے لئے کے بعد وہ کبھی دونی، کبھی پیسہ، کبھی چوٹی اپنی اس حکمت عملی سے نکال ہی لیتے سانس لینا بھی مشکل تھا اور وہاں سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گھنگروؤں کی تھے.ایک تماشا یا مصیبت وہاں یہ بھی دیکھی کہ ایک مارواڑی دریا کے چھن چھن کی آواز بھی آ رہی تھی ، معلوم ہوا کہ ضلع شاہ پور کے بعض شوقین کنارے اپنے کپڑے اُتار کر نہانے لگا.صدری اُس نے سامنے ایک درخت شکاری اپنے شکاری بازوں کو ہاتھوں پر لئے بیٹھے ہیں اور یہ آواز اُن گھنگروؤں سے ٹانگ دی اور دھوتی کس کر پانی میں گھس گیا.اتنے میں ایک بندر آیا اور کی ہے جو بازوں کے سروں میں پڑے ہوئے ہیں.اُس کی صدری درخت پر سے لے کر چلتا ہوا.سیٹھ صاحب کا رنگ یہ دیکھ کر خیر تماشا شروع ہوا اور جب آدھ گھنٹہ کے قریب ہو چکا تو تیسرے فق ہو گیا.چیخیں مارتے پانی میں سے بھاگتے ہوئے نکلے اور بندر کے پیچھے درجہ کی گیلری میں جہاں بازوں والے شکاری بیٹھے تھے یک دم ایک شور اُٹھا، دوڑے مگر وہ کہاں ہاتھ آتا تھا.ایک مکان سے دوسرے مکان پر اور ایک پھر گالم گلوچ اور آخر میں مار کٹائی اور لکڑیاں چلنے کی آوازیں آنی شروع ہو چھجے سے دوسرے چھجے پر چھلانگیں مارتا چلا گیا اور پیچھے پیچھے سیٹھ صاحب کہتے گئیں.لوگ اتنے کھیچ سچ اور پھنسے ہوئے بیٹھے تھے کہ نہ سامنے اُتر سکتے تھے نہ جاتے تھے کہ ارے کوئی پکڑنا اِس صدری میں میرے دس ہزار کے نوٹ کسی طرف کو جا سکتے تھے، نہ گیلری کے نیچے جو خالی جگہ تھی اُس میں کود کر باہر ہیں.لوگ بہت کچھ بھاگے دوڑے مگر بندر کا پتہ بھی نہ لگا.یہ دیکھ کر سیٹھ جی بھاگ سکتے تھے.گالیوں کے ساتھ ساتھ لکڑیاں پٹنے کی آواز بھی بلند ہوتی گئی.کی ایسی حالت ہوگئی کہ بس دیکھنے سے ہی سے تعلق رکھتی تھی.کئی دفعہ اُنہوں کوئی کہتا تھا کہ ” میرا سر پھٹ گیا ہے کوئی اپنے چہرہ پر سے خون پونچھتا تھا "
175 174 مگر سب سے بلند اور اونچی آواز یہ تھی کہ دیکھنا میرے باز کو چوٹ نہ لگے ہو گیا، بلکہ ٹوپی، گردن، چہرہ اور کوٹ کبھی تر بتر ہو گئے.غریب بابو تو اس صدمہ ہزار روپے کا باز ہے.مجھے بیشک مار لے مگر دیکھنا باز کا نقصان نہ ہو.اُدھر سے قریب المرگ ہو گیا مگر اُس کے ساتھیوں نے اپنی لکڑیاں سنبھال لیں اور فریق ثانی چاہتا تھا کہ ان بازوں کو ہی فنا کر دے کیونکہ قصور باز کا تھا نہ کہ باز جنگ شروع ہو گئی.باز دار لوگ چونکہ اپنے ہاتھوں پر بازوں کو بٹھائے ہوئے بلکہ باندھے ہوئے تھے وہ سوائے اس کے کہ یہ الفاظ بار بار چیخ کر کہیں کہ والے کا.اسی جھگڑے میں پولیس آ گئی.لڑنے والے پکڑے گئے اور وہ سارا دیکھنا ہزار روپے کا باز ہے اسے چوٹ نہ لگے اپنے تئیں بچا نہ سکتے تھے، مگر لشکر تھانہ کی طرف بھیجا گیا تو اصل حال کھلا.ریلوے بابو کی تو ساری پونچی، سارا حسن ، ساری زینت تباہ ہو چکی تھی اُس کے بات یہ ہوئی کہ ایک ریلوے کا کلرک جو ہیں (20) روپیہ کا ملازم تھا اور اُس کے ساتھیوں کے حملے برابر جاری رہے.آخر اس ڈر سے کہ کہیں کوئی اُس نے اُس سال اپنی تنخواہ میں سے بچا بچا کر اور اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اتنی باز اس معرکہ میں کام نہ آ جاوے وہ باز دار مجبور ہو کر بنچوں کے درمیان میں رقم جمع کی کہ جاڑے میں اپنے لئے ایک گرم کوٹ بنا سکے.وہ کوٹ بہت سے گیلری کے نیچے کود گئے اور جان سلامت لے کر بھاگے، مگر پھر بھی یہ دنگہ خوبصورت کشمیرے کا تھا اور اسی دن درزی کے ہاں سے سل کر آیا تھا.بابو فساد اتنا بڑھا کہ پولیس کو مداخلت کرنی پڑی بلکہ میں چھپیس منٹ کے لئے اس کوٹ کو پہن کر فخر یہ سرکس کے منڈوے میں داخل ہوا، اور گیلری کی ایک بینچ سرکس والوں کو بھی اپنا تماشا بند کرنا پڑا.جب وہ سب لوگ پولیس کی حراست پر تماشا دیکھنے بیٹھ گیا.اُس سے اوپر کے بینچ پر باز والے شکاری بیٹھے تھے.میں تھا نہ انارکلی کی طرف دفعہ 147 کے ماتحت پکڑے جا کر وہاں سے رخصت جب تماشا شروع ہوا اور لوگوں نے ہر کرتب کے بعد تالیاں پیٹنی شروع کیں تو ہوئے تو پھر تماشا دوبارہ شروع ہو سکا، اور سرکس کے اندر جو ایک دوسرا سرکس باز کھبر ائے اور بار بار شکاریوں کے ہاتھوں پر حرکت کرنے اور پھڑ پھڑانے لگے شروع ہو گیا تھا اُس سے امن میلا ، مگر پھر بھی باقی لوگوں میں آخر تک یہ بحث جس کی وجہ سے اُن کے گھنگروؤں کی آواز بعض دفعہ اتنی بلند ہوتی تھی کہ جاری رہی کہ قصور کس کا تھا؟ اُن کا جو بازوں کو اندر لائے تھے یا اُن کو جو نزدیک کے لوگ سرکس کا تماشا کرنے والوں کی باتیں نہیں سُن سکتے تھے.اس بازوں کو دیکھ کر پھر بھی اُن کے زیر سایہ تماشا دیکھنے بیٹھ گئے تھے؟ مگر ایسی پر پہلے تو آہستہ آہستہ تو تو میں میں شروع ہوئی، مگر ابھی معاملہ اس سے آگے باتوں کا نہ تو کبھی فیصلہ ہوا ہے نہ ہوگا لیکن مجھ پر اس واقعہ کا یہ اثر ہوا کہ جب نہ بڑھا تھا کہ ایک باز نے اس زور سے اپنی پیٹ کی پچکاری اُس ریلوے بابو انسان کسی مجلس میں جائے تو اسے ایسی جگہ بیٹھنا چاہئے جو (CUT OF کی طرف شوٹ کی کہ بچارا سر سے پیر تک چھینٹم چھینٹ ہو گیا اور وہ اعلیٰ THE LINE OF FIRI) آتشیں لائن کی زد سے الگ ہو.درجہ کا کوٹ جو مدتوں کی تمناؤں اور پیسہ پیسہ جمع کر کے اُس نے ایک فیشن ایبل درزی سے سلوایا تھا اور اُسی دن پہلی دفعہ پہن کر اپنے گھر سے سیدھا سرکس میں آیا تھا گردن سے لے کر نیچے تک سفید داغوں سے آلودہ اور افشاں (103) کیمیاگر پہلے کیمیاگر چاندی سے سونا بنانے کے دعویدار تھے، پھر یہ لوگ
177 176 سونے کے زیور کو ہی دو گنا چوگنا کرنے لگے اور حال کے کیمیا گر تو نوٹوں کو ایسے جواب کے آگے کوئی کیمیا گر بھلا کہاں ٹھہر سکتا ہے؟ بس خاموشی سے منہ لٹکائے واپس چلا جاتا تھا.اس تمہید کے بعد میں ایک اصلی واقعہ اسی کیمیاگری دو گنا کرنے کے مدعی ہیں، مگر یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بئے ہیں.ہمیشہ ایسے اشخاص کوئی نہ کوئی بیوقوف شکار پھانس لیتے ہیں اور اُس کا روپیہ یا زیور بڑھانے یا دُگنا کرنے کے بہانے ٹھگ کر خود چنیت ہو جاتے ہیں اور اُس کا سُنا دیتا ہوں.میرا ایک عزیز ایک دفعہ میرے پاس روتا ہوا آیا.میں نے کہا " کیا بیوقوف کو روتا چھوڑ کر دوسروں کے لئے عبرت بنا جاتے ہیں، مگر اکثر لوگ ہوا؟ کہنے لگا ” میں تو کٹ گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ میرے اپنے مال پھر بھی اصل معاملہ کو نہیں سمجھتے اور یہی کہتے رہتے ہیں کہ صرف یہ فقیر ٹھگ کے سوا دوسروں کا بھی کچھ مال میں نے قرض لیا تھا وہ بھی ساتھ ہی لے گیا.اور بے ایمان تھا مگر کیمیا تو برحق علم ہے ہی.سنیئے تو سہی بُزرگ لوگ کیا میں نے پوچھا "آخر کیا ہوا، معاملہ تو بتاؤ؟“ بچارے کی غم کے مارے گھنگی بندھی ہوئی تھی.بڑی مشکل سے اُس نے بتایا کہ ” مجھے مدتوں سے کیمیا کی فرماتے ہیں.کیمیا و سیمیا و ریمیا کس نداند جز بذات اولیا ہو دھت لگی ہوئی تھی.گشتے اور بھٹیاں لگاتے لگاتے جو اندوختہ تھا وہ رفتہ رفتہ ختم گیا.پھر نوکری کی وہ بھی بے حیثیت مگر اس میں سے دس آنہ فی روپیہ اسی حالانکہ اصل یہ ہے کہ کیمیا تو ہے مگر یہی جس کا نمونہ یہ ٹھگ دکھا شوق کی نذر ہوتا تھا.یہی وجہ تھی کہ نہایت سخت تنگی سے گزران ہوتی تھی.تین جاتے ہیں اور چند گھنٹے کے اندر سینکڑوں روپیہ کا مال ہضم کر جاتے ہیں اور چار دن ہوئے ایک فقیر آیا نہایت معتبر بلکہ بزرگ صورت، اور آتے ہی دوسرے طالبوں کو بھی سکھا جاتے ہیں کہ بس یہی ترکیب ہے.تم بھی اسی طرح تصوف کے چند کلمات اور کچھ چکنی چپڑی مؤثر باتیں سُنائیں، ایسی کہ میں تو لوگوں کا مال خُرد برد کر لیا کرو اور یہی کیمیا کا نسخہ ہے، مگر لوگ اُس کیمیا کے مسحور ہو گیا.رات کو وہ میرے ہاں ہی ٹھہرا.وظیفے اور نمازیں پڑھتا رہا.صبح کو طالب ہیں جو دُنیا میں موجود نہیں اور جو ہے اُس پر عمل نہیں کرتے.بس اتنا سا اُس نے میرے ہاتھ پر ایک ٹکڑا سونے کا رکھ دیا کہ ” مجھے مفت خورہ مہمان فرق ہے اور ذرا سا سمجھ کا پھیر ہے ورنہ وہ کیمیا ساز تو سچ مچ کامیابی سے اپنا مت سمجھو، میں غریب نہیں ہوں.خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے علم سکھائے ہیں.ازاں جملہ ایک کیمیا کا علم بھی ہے جو خاص وراثت اولیاء کی ہے یہ ٹکڑا سونے کا میرے ایک بزرگ تھے اُن سے جو شخص بھی یہ ذکر کرتا کہ ”مجھے کیمیا لو اور فروخت کر کے میرے لئے فلاں فلاں چیزیں خرید کر لا دو“ میں تو پہلے ہی فن دکھا بھی جاتے ہیں اور سکھا بھی جاتے ہیں.بنانی آتی ہے آپ مجھ سے سیکھ لیں تو وہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ ”بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ خود ہی سیر دوسیر سونا بنا کر اس میں سے صرف پاؤ بھر مجھے دے دیں باقی خود خرچ میں لے آئیں.آپ کے ہوتے مجھے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے.میری ضروریات کے لئے تو آپ کا دیا ہوا پاؤ بھر سونا بھی بہت کافی ہے“ ,, گشته کیمیا تھا، سونا دیکھتے ہی رال ٹپک پڑی سُنار کے ہاں وہ ٹکڑا فروخت کیا.اُس نے بھی کہا کہ یہ سونا اتنا کھرا ہے کہ کبھی شاذ و نادر ہی بازار میں ایسا آتا.ہے بس پھر کیا تھا میں تو شاہ صاحب کا مرید ہو گیا.اور ایسی عاجزی کے ساتھ اس نسخہ کا طلب گار ہوا جتنی عاجزی کبھی ساری عمر خدا تعالیٰ کے آگے بھی نہ "6
178 179 پر ہر جگہ لعنت ملامت پڑ رہی ہے، بتائیے کیا کروں؟ میں نے کہا ”افسوس کیوں کرتے ہو، بیشک وہ شخص تمہارا روپیہ تو کی تھی.خیر اسے بھی رحم آ گیا اور کہنے لگا کہ فی الحال ایک چوٹی لے آ‘ میں ماں کوشش پر غش آ رہے ہیں اور لوگ اپنے قرضہ کا تقاضا کر رہے ہیں اور مجھے لے آیا اُس نے اُس پر کچھ دوا لگائی، کچھ چھٹڑ کی ، پھر اُسے آگ میں رکھ دیا.تین گھنٹے کے بعد مجھے بلا کر میری ہتھیلی پر خالص سونے کی ایک چونی رکھ دی جس پر وہی تصویر اور وہی سنہ تھا جو اصلی چوٹی پر تھا.اب تو میرے پیٹ میں چو ہے دوڑنے لگے.غریبی ، پرانی دھت، پہلی ناکامیابیاں اور آنکھوں کے سامنے ایک بزرگ صفت آدمی کا سونا بنا کر دکھا دینا.غرض میں اُس شخص کا بندہ بے دام ہو گیا.شاہ صاحب بھی کچھ کچھ ہاں ہوں کرنے لگے.آخر یہ فیصلہ ٹھہرا کہ کم از کم دو سو (200) روپیہ کا زیور چاندی کا ہو یا چاندی روپیہ کی " لے کر بھاگ گیا ، مگر نسخہ تو سکھا گیا " میرے عزیز نے سخت غصہ سے کہا کہ نہ وہ سکھا گیا نہ اُس خبیث کو خود آتا تھا میں نے کہا اُسے آتا تھا اور وہ یہی تو تھا کہ وہ تم سے بغیر محنت کے پورے دوسو (200) روپے وصول کر کے چل دیا.اُس سے زیادہ اور کیمیا کسے کہتے ہیں؟ اور تمہیں بھی یہی سکھا گیا کہ جب بھی روپے کی ضرورت ہوا کرے یہی نسخہ استعمال کیا کرو، بس " ہی صورت میں جمع کی جائے تاکہ پہلا گھان سونے کا تیار ہو سکے.اس کے یہی کیمیا ہے اُس نے جل بھن کر کہا کہ " کیمیا برحق ہے مگر یہ شخص ٹھگ بعد یہ عمل سکھا بھی دیا جائے گا.میں سنتے ہی گھر کو دوڑا اور غریب ماں کے زیور کا صندوقچہ اُڑا لیا.اُس کے علاوہ میرے اپنے پاس کچھ روپے تھے وہ لئے ، پھر ایک دو محلے والوں سے پچاس کے قریب روپے قرض لے کر سب کو شاہ صاحب کے حوالہ کیا اور اُنہوں نے ایک بھٹی گھر کی بیٹھک میں چڑھا دی جو رات بھر گرم رکھی جاتی تھی.مجھ سے شاہ صاحب نے کہا کہ ”تم بھی رات کو یہاں آ جانا میں نے کہا ” مجھے آپ پر کامل اعتبار ہے اور رقم معمولی ہے اور میری والدہ گھر میں اکیلی ہے میں صبح ہی حاضر ہوں گا رات بھر مجھے خوشی کے مارے نیند نہیں آئی ڈھائی سیر پختہ سونا! خالص سونا! یعنی دوسو (200) روپیہ کے بدلے پانچ ہزار روپیہ نقد اور نسخہ الگ !!! صبح ہوتے ہی باہر نکلا تو شاہ صاحب کے کمرہ کی کنڈی اندر سے لگی ہوئی تھی.بہتیرا کھٹکھٹایا.شاہ صاحب کو آوازمیں دیں مگر کوئی نہ بولا.آخر دیوار پھاند کر باہر کی طرف سے گیا تو نہ شاہ صاحب، نہ روپیہ، دونوں میں سے کسی کا نشان تک نہ تھا.البتہ بھٹی ٹھنڈی پڑی ہوئی میری قسمت کو رو رہی تھی.بہت دوڑ بھاگ کی کچھ پتہ نہ ملا.اب بوڑھی تھا.کیا آپ نے نہیں سُنا کیمیا و سیمیا و ریمیا کس نداند جز بذات اولیا میں نے کہا وہ یہی کیمیا اور سیمیا ہے جو شاہ صاحب آپ کو تعلیم دے گئے ہیں.وہ اولیاء بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے شاہ صاحب تھے جو آپ کے گھر میں ٹھہر کر اور آپ کو مونڈ کر چلے گئے.پس بسم اللہ پڑھ کر اس پر عمل شروع کر دیجئے.اس سے بڑھ کر اور کوئی کیمیا نہیں“ وہ صاحب کہنے لگے ” کیا پھر یہ سب جھوٹ ہی جھوٹ ہے؟“ میں نے کہا اور کیا.بھلا ایمان سے کہو تم نے کبھی بھی سنا ہے کہ کسی شخص نے واقعی سونا بنا لیا ہو پھر وہ اس وجہ سے بڑا بھاری امیر اور متمول بن گیا ہو.بات یہ ہے کہ دُنیا میں بنوں کی طرح طرح کی قسمیں ہیں.ایک اُن میں سے یہ بھی ہے کہ جانتے بوجھتے ساری دولت برباد کر دیتے ہیں اور پھر بھی جو پیسے کماتے ہیں وہ اسی میں پھونکتے رہتے ہیں.تف ہے ایسی عقل پر اور لعنت ہے ایسے منحوس پیشہ پر.اے بیوقوف! اگر
180 181 تو نے قلب ماہیت ہی کرنی تھی تو بجائے تانبے کے اپنے نفس کی قلب ماہیت حوالے کریں گے.میں دبک کر دروازہ کے پاس بیٹھ گیا اور خیال کیا کہ فاضل کا کی ہوتی اور اُسے گندن بنایا ہوتا ، ورنہ سوچ لے کہ یہ کام تجھے کہاں سے کہاں لے جائے گا.اب تو صرف دو سو (200) روپیہ ہی گیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ رہنے کا ٹھیکرا بھی جائے مگر سونا پھر بھی نہ بنے.(104) قابلِ رحم دولها قصبہ فاضل کا کا ذکر ہے کہ میں ایک دن شفا خانہ میں بیٹھا تھا یکا یک پولیس کا سپاہی ایک نوجوان شخص کو ہتھکڑی ڈالے اُس کی ضربات کا ملاحظہ کے اسٹیشن پر پلیٹ فارم سے ذرا ورے ہی باہر کود پڑوں گا ورنہ اگر پولیس نے پکڑ لیا تو میری بڑی ذلت ہو گی.محض اس ذلت اور گرفتاری سے بچنے کے لئے میں نے چھلانگ لگائی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ چلتی گاڑی میں سے کودنے کی وجہ سے میرے سارے ریشمی اور قیمتی کپڑے پھٹ گئے ، پگڑی کا ستیا ناس ہو گیا اور سارا بدن رگڑوں اور چوٹوں سے زخمی اور چور چور ہو گیا.میں نے اُس کی ضربات تو پولیس کے کاغذ پر لکھ کر کانسٹیبل کے حوالے کیں اور کوشش کی کہ کم از کم بیچارہ کی ہتھکڑی تو اُتر جائے مگر وہ ریلوے ایکٹ کرانے کے لئے میرے پاس لایا.رپورٹ صرف اس قدر تھی کہ اس شخص نے و کے ماتحت ایک سنگین دفعہ کا مجرم تھا اور بغیر مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہوئے اُس ریلوے اسٹیشن فاضل کا پر ابھی ابھی سگنل کے پاس چلتی ہوئی ٹرین میں سے کی ضمانت تک نہ ہوسکتی تھی چہ جائیکہ رہائی پا جاتا.چھلانگ ماری ہے.پلیٹ فارم کے سپاہیوں نے یہ دیکھ کر جھٹ اُسے جا پکڑا.قریب ہی تھا نہ تھا وہاں لے گئے اور پرچہ چاک کرا کر ہتھکڑی پہنا کر شفاخانہ میں لے آئے تاکہ اُس کی چوٹیں لکھی جائیں.جرم صرف یہ تھا کہ اُس نے چلتی گاڑی میں سے چھلانگ لگائی ہے.میں نے نوجواں کی طرف نظر کی تو وہ کوئی بیس بائیس سال کا آدمی تھا.رنگین گوٹے دار پگڑی سر پر تھی اور گرتہ پاجامہ بھی نیا اور بھڑکدار تھا.پوچھا کہ اصل بات کیا ہے؟“ وہ بیچارہ رو پڑا اور کہنے لگا کہ ”میں ایک برات کا دولہا ہوں، ہمارا گھر یہاں سے تین چار اسٹیشن پرے واقع ہے اور میں اپنی برات لے کر دلہن کو بیاہنے ریل کے ذریعہ سفر کر رہا تھا کہ پچھلے اسٹیشن پر مجھے پیاس لگی.اُتر کر پانی جو پینے لگا تو گاڑی چل دی میں بھاگ کر ایک خانہ میں چڑھ گیا ، مگر چڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ زنانہ درجہ ہے.فوراً عورتوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ یہ کون مرد ہے ہمارے خانہ میں آ گھسا ہے.بعض نے یہ بھی کہا کہ اگلا اسٹیشن آ لینے دو مجھے پولیس کے اب دوسری طرف کا حال سنیئے.جب فاضل کا کا اسٹیشن آیا تو ساری برات وہاں اُتری کیونکہ وہیں سے برات کو اُس گاؤں میں جانا تھا جہاں دُلہن والے رہتے تھے.مگر کیا دیکھتے ہیں کہ دولہا غائب ہے.بہتیرا ڈھونڈا مگر اُس کا پتہ نہ لگا.وہ بیچارہ تو تھانہ میں اور اُس کے بعد شفاخانہ میں مجرموں کی طرح چھکڑی پہنے کھڑا تھا.اُن لوگوں کو بڑی پریشانی ہوئی.اسٹیشن کے پاس ہی تھانہ تھا وہاں رپورٹ کی.کسی نے کہا کہ ”ہاں اس شکل کا ایک لڑکا چلتی ریل میں سے کودنے کے جرم میں گرفتار ہو کر ابھی یہاں آیا تھا اور اب شفا خانہ میں ہوگا وہاں جا کر دیکھو کہیں وہی تو تمہارا دولہا نہیں ہے؟ وہ بیچارے بھاگے بھاگے ہسپتال آئے تو عجب نظارہ دیکھا کہ جو گھر سے صبح کے وقت دولہا بن کر اور صبح و صبح کے کپڑے پہن کر نکلا تھا اب دو پہر کے وقت ہتھکری پہنے مجرم بنا کھڑا ہے اور ہئیت کذائی اس کی یہ ہے کہ سارا بدن چھل گیا ہے.ناک اور پیشانی سے لہو بہہ رہا ہے.سر سے ننگا ہے.پاجامہ
183 182 اور قمیص پارہ پارہ ہے.بیچارے براتی یہ نظارہ دیکھ کر رونے لگے اور پولیس تو وہ خاصے تندرست بھلے چنگے بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر شام کے قریب والے کے آگے ہاتھ جوڑنے لگے کہ یہ نا تجربہ کار ہے اسے چھوڑ دو مگر اُس یکدم اُن کے ملازم نے ایک بڑا سا اُگالدان اُن کے سامنے لا کر رکھ دیا اور نے یہی کہا اور سچ کہا کہ ”میرا کیا اختیار، تم تھانہ میں چل کر داروغہ جی سے کہو، اُنہوں نے کھانسنا شروع کیا.کھانسی اور قے میں اس قدر بلغم نکلا کہ وہ مجرم سنگیں ہے شاید وہ مجسٹریٹ سے کہہ کر ضمانت کرا دیں.“ اُگالدان دس منٹ میں بھر گیا.میں حیران تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے.اتنے میں غرض وہ لوگ شفاخانہ سے تھانہ اور تھانہ سے کچہری گئے جہاں بالآخر اگلے اسٹیشن پر اُن کا منشی دوسرے ڈبہ میں سے آ کر ہماری گاڑی کے ہاتھ روم وہ بیچارہ ضمانت پر رہا ہو گیا مگر جب تک مقدمہ کی پیشیاں ہوتی رہیں اُن لوگوں (غسل خانہ) میں گھس گیا اور یہ کہتا گیا کہ پیر صاحب ابھی لاتا ہوں“ پھر پر سخت مصیبت کے دن رہے.نہ وہ دُلہن والوں کے ہاں جا سکے، نہ بیاہ ہی غسل خانہ کا دروازہ اس نے بند کر لیا اور اندر کسی کام میں مصروف ہو گیا.ہو سکا بلکہ ساری باتیں شادی کی ملتوی رہ گئیں.اُس سے آگے مجھے معلوم نہیں تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا تو منشی کے ہاتھ میں میں نے ایک زیر جلد ٹیکہ کہ اُسے سزا ملی یا حکام نے رحم کر کے چھوڑ دیا اور دُلہن والوں نے ایک مجرم کو لگانے والی پچکاری (یعنی ہائی پوڈ میک سرنج) دوا سے بھری ہوئی دیکھی.وہ لڑکی دینی منظور کی یا رشتہ توڑ دیا.بہرحال یہ ایک تقدیری آفت تھی کہ کیا سوچ پچکاری ٹیکہ کی اُس نے پیر صاحب کے بازو میں انجکشن کر دی.اُس وقت مجھے کر وہ لوگ گھر سے نکلے تھے اور کیا ہو گیا.انسان اپنی طرف سے ایک اندازہ معلوم ہوا کہ منشی صاحب غسل خانہ میں ٹیکہ تیار کر رہے تھے.ٹیکے کے پانچ کرتا ہے مگر تقدیر اُس کے مخالف ہوتی ہے.حضرت علی کا یہ کہنا بالکل سچ ہے.منٹ بعد پیر صاحب کی کھانسی، بلغم اور قے سب بند ہو گئے اور وہ پھر پہلے کی عَرَفتُ رَبِّي بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ یعنی میں نے خدا کی ہستی کو اس بات سے طرح چہکنے لگے.میں سمجھ گیا کہ پیر صاحب کو مارفیا کی عادت ہے.جب اُس پہچانا کہ بندہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور ساری عقل اور سارے انتظام کے ساتھ ایک کا وقت آیا اور نشہ ٹوٹنے لگا تو کھانسی اور کے شروع ہو گئی.اب اُن کو ٹیکہ لگ بات کو کرنے لگتا ہے اور بظاہر کوئی روک بھی اُس امر کے پورا ہونے میں نظر نہیں گیا ہے، رات آرام سے کٹ جائے گی.آتی لیکن یکدم سب کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے اور خدائی تقدیر غالب آجاتی خیر جب اُن کی طبیعت ذرا بشاش ہوئی تو میں نے کہا ” پیر صاحب! ہے جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے.میں بھی ڈاکٹر ہوں، آپ نے کسی تکلیف کے لئے مارفیا کا ٹیکہ لگوایا ہے؟“ (105) افیونی فرمانے لگے ڈاکٹر صاحب! میں فلاں گدی کا پیر ہوں جو سارے پنجاب میں معزز اور عالیشان سمجھی جاتی ہے.اتفاقاً ایک دفعہ مجھے گردہ کا درد اُٹھا.اور سخت اُٹھا.مقامی ڈاکٹر کو بلایا.اُس نے کئی علاج کئے مگر فائدہ نہ ہوا بلکہ درد بڑھتا ہی گیا.آخر مجبور ہو کر اُس نے مارفیا کی ایک ٹکیہ کا ٹیکہ مجھے کر دیا.مجھے جادو کی طرح اس ٹیکہ سے درد کو آرام آ گیا.مگر دوسرے دن نشہ اتر نے پر پھر درد پندرہ سولہ سال کا ذکر ہے کہ میں ایک دفعہ دہلی سے لاہور فرنٹیئر میل میں آ رہا تھا، اُس وقت فرنٹیئر میل بٹھنڈہ لائن پر چلا کرتی تھی.میرے ساتھ گاڑی میں ایک نہایت معزز آدمی ہمسفر تھے، مگر میں اُن کو جانتا نہ تھا.چند گھنٹے
185 184.کم بخت مارفیا یا افیم کا نشہ سب نشوں سے زیادہ ظالم ہے.موجود، غرض یہ کہ دو تین دن متواتر یہی عمل ہوتا رہا.پھر آرام آ گیا.کچھ دن بعد پھر گردہ کا درد ہوا اور اسی طرح ہر دس پندرہ روز کے بعد ہوتا رہا اور ساتھ ایک تو روزانہ استعمال کے سوا چارہ نہیں، دوسرے یہ کہ مقدار مسلسل بڑھانی ہی مارفیا سے آرام بھی آتا رہا.چند ماہ کے ایسے علاج کے بعد مجھے اس دوا کی پڑتی ہے.تیسرے یہ کہ خصوصاً دماغ کو تو فسانہ آزاد کے خوجی کی طرح خراب عادت پڑ گئی، اور بجائے ایک ٹکیہ مارفیا کے دو ٹکیوں کا بیک وقت انجکشن کرانا کر دیتی ہے.اس کا نظارہ میں نے جیل خانوں میں دیکھا ہے.میرے خیال پڑتا تھا.اس بات کو کئی سال ہو گئے مگر اب یہ حال ہے کہ ساری ٹیوب جس میں ہندوستان میں اس نشہ کا اب بھی بے حد رواج ہے اور جب جیل میں میں مارفیا کی بیس ٹکیاں ہوتی ہیں صبح کو اور ایک پوری ٹیوب میں ٹکیوں کی اس داخل ہو کر عادی لوگوں کو نہیں ملتا تو اُن کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے.وقت شام کو انجکشن کراتا ہوں تو زندہ رہ سکتا ہوں ورنہ کھانسی اور بلغم سے ہر بیچارے زمین پر مچھلی کی طرح تڑپتے اور لوٹتے پھرتے ہیں.آنکھ، ناک اور پانچ پانچ منٹ بعد یہ اگالدان بھر جاتا ہے، میں نے کہا مارفیا تو افیم کا ست مُنہ سے پانی جاری ہو جاتا ہے.پنڈلیوں سے پنڈلیاں اس طرح رگڑتے ہیں ہے اس کا ملنا مشکل ہے.خصوصاً آپ کے لئے جو ڈاکٹر نہیں ہیں اور پھر اس جس طرح جان کندنی کے وقت مرنے والوں کی حالت ہوتی ہے.کثرت سے کہ ایک سال میں 700 نلکیوں کا خرچ ہے؟ فرمانے لگے ”اس ایک جوان شخص قریباً چھپیس (25) سال کی عمر کا میرے پاس آیا اور کی ہمیں فکر نہیں، فلاں دوا فروش ہمارا ٹھیکہ دار ہے.خدا اُسے سلامت رکھے کہنے لگا کہ ” میں چھ سات سال سے افیون کا عادی ہوں اور مپیٹیشن (مقابلہ ) وہی مہیا کرتا ہے اور گو ایک روپیہ کے پانچ روپے لیتا ہے مگر دوا میں کمی نہیں کرتے کرتے اب چھ ماشہ افیون روزانہ کھایا کرتا ہوں“ میں نے پوچھا ”کس آنے دیتا اور ہماری زندگی بھی چونکہ اس دوا سے وابستہ ہے اور خدا نے ہمیں لئے شروع کی تھی؟" کہنے لگا عیاشی کے لئے کیونکہ اس سے بڑھ کر مسک بہت کچھ دے رکھا ہے اس لئے ہم کو بھی پرواہ نہیں ہے وہ پیر صاحب بڑھے اور کوئی چیز نہیں.اب پچیس سال کی عمر ہے.اس نشہ نے قوت باہ تو قطعاً فنا آدمی نہ تھے، یہی کوئی چالیس بیالیس سال کے ہوں گے.مجھے اُن کی بے کسی کر دی مگر عادت نشہ کی برابر بڑھتی چلی گئی، میں نے کہا ”ایسی عیاشی کی کیا اور نشہ کی غلامی پر ترس آیا.ایک منشی صرف اسی بات پر اُنہوں نے نوکر رکھا ہوا ضرورت تھی؟ کہنے لگا ”بازاری عیاشی کے سرکل میں نوجوانی کی عمر میں ہی تھا کہ صبح شام پچکاری اور سُوئی اُبال کر ڈاکٹروں کی طرح پوری احتیاط سے ٹیکہ داخل ہو گیا تھا، وہاں رقیبوں سے مقابلہ در پیش رہا تھا، اس لئے کھانی شروع کی لگائے اور دوا کی مقدار میں کمی نہ آنے دے.خیر اُن کا ہمارا ساتھ لاہور تک تھی.اب یا تو چند ماہ تک اسے چھڑا دیجئے ورنہ چلتی ٹرین کے نیچے ہمارا ٹھکانہ رہا، وہاں سے وہ اپنے گھر چلے گئے.چند سال کے بعد میں نے اس شہر کے بعض لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اُن کا انتقال ہو چکا ہے.نشہ کی مقدار بڑھتی گئی اور اُن کے گردے، جگر اور دل خراب ہوتے گئے، آخر وہ بیچارے فوت ہو گئے..ہے.(106) پیسہ پانی پت میں میری میل ملاقات مولانا حالی کے خاندان کے لوگوں
187 186 صورت کنجر تھا.جب اُس سے کوئی ناواقف پوچھتا کہ ”آپ کے والد کا نام کیا ہے؟ تو وہ اپنی جیب میں سے ایک روپیہ نکال کر دکھا دیا کرتا تھا، یعنی میرا ~ (107) دعوئی اور چیز ہے اور حقیقت اور چیز سے ہو گئی.ایک دن اس خاندان کے ایک گریجویٹ خواجہ غلام السبطین میرے پاس تشریف لائے اور یہ تازہ بتازہ قصہ مجھے سُنایا کہ ”میری ایک بھیجی ہے کوئی پندرہ سال کی سیدہ اُس کا نام ہے.چند دن ہوئے اُس کے دل میں خیال باپ روپیہ ہے.پیدا ہوا کہ ہمارے محلہ کی لڑکیاں بالکل جاہل اور ان پڑھ ہیں مناسب ہے کہ میں اُن کے لئے ایک اسکول اپنے گھر میں ہی کھول دوں.چنانچہ اُس نے اسکول کھول کر سارے محلہ کی عورتوں کو کہلا بھیجا کہ ” جسے اپنی لڑکی پڑھوائی ہو وہ ایک میرے رشتہ دار بزرگ تھے وہ ظاہر حصہ مذہب کے بہت پابند ہمارے ہاں اُسے بھیج دیا کرے اس طرح پندرہ ہیں لڑکیاں میری بھتیجی کے تھے.جب بھی اُن سے کبھی ذکر آتا کہ دُنیا کی اخلاقی اور روحانی حالت بہت پاس آ کر پڑھنے لگیں.آج اُسے خیال آیا کہ مناسب ہو گا کہ سب لڑکیوں خراب ہو گئی ہے اور وہ ایک حقیقی مصلح کی محتاج ہے تو فرمایا کرتے کہ ہاں اور کے نام معہ اُن کی ولدیت و عمر وغیرہ ایک رجسٹر میں درج کر لوں.چنانچہ ایسا لوگ شاید محتاج ہوں مگر ہم تو نہیں ہیں، ہم تو پچاس سال سے باقاعدہ نماز کیا گیا.لکھتے لکھتے ایک لڑکی سے جب اُس نے پوچھا کہ ” تمہارا نام کیا ہے؟ پڑھتے ہیں.رمضان کے روزے رکھتے ہیں بلکہ نفلی بھی، تہجد پڑھتے ہیں.پچھلی تو وہ کہنے لگی اختر " پھر پوچھا کہ تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟“ کہنے لگی پیسہ ” رات سے ذکر شروع کرتے ہیں تو محلہ والے بھی بیدار ہو جاتے ہیں.حزب اس پر میری بھیجی بہت حیران ہوئی اور بار بار پوچھا مگر یہی جواب پایا کہ البحر کئی لاکھ دفعہ پڑھ چکے ہیں.دُعائے گنج العرش کا لفظ لفظ حفظ ہے، کسی سے میرے باپ کا نام پیسہ ہے، پھر تو میری بھتیجی بہت متعجب ہوئی اور مجھ سے کہنے بُرائی نہیں کرتے.کوئی عیب ہم میں نہیں، لوگوں کی خیر خواہی اور خدمت میں لگی’ چچا! یہ لڑکی کہتی ہے کہ میرے باپ کا نام پیسہ ہے اس پر میں نے اُس لگے رہتے ہیں.بھلا ہمیں کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے.“ لڑکی سے پوچھا تو مجھے بھی اُس نے یہی جواب دیا.آخر میں میں نے لڑکی چونکہ صوبہ بہار کی طرف ہمارے کنبہ کو بعض گاؤں بطور معافی ملے سے اُس کے مکان کا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو منی طوائف کی لڑکی ہے.ہوئے تھے اس لئے ان بزرگ کو ہم نے اپنا مختار بھی بنا رکھا تھا.ایک سال اس وقت خیال آیا کہ غالباً ایسی عورتیں اپنی اولاد کو یہ بتاتی ہوں گی کہ ”جب ہماری غفلت اور گاؤں والوں کی شکایت کی وجہ سے وہ گاؤں نیلامی پر چڑھ کوئی تمہارے باپ کا نام پوچھے تو تم کہہ دینا کہ ہمارے باپ کا نام پیسہ ہے“ گئے.بیچارے بزرگ دوڑے اور بڑی کوشش سے دیہات کو واگزار کرایا.غرض میں نے اپنی بھتیجی سے کہہ دیا کہ تم اس لڑکی کی ماں کا نام بجائے اس مقدمات ہوئے.گواہیاں پیش ہوئیں تو اُن کو بہت سے گواہ فرضی کھڑے کے باپ کے نام کے لکھ لو اور میں آپ کو یہ لطیفہ سنانے کے لئے شفاخانہ کی کرنے پڑے.کئی آدمیوں سے غلط اور جھوٹی گواہیاں دلوانی پڑیں، اور بہت کی ناجائز باتیں کرنی پڑیں.جب فتحیاب ہو کر واپس آئے تو فخریہ بیان کرنے لگے کہ ”میں نے زمینیں واگزار کرانے کے لئے ان ان فریبوں اور طرف چلا آیا.“ یہ قصہ سُن کر میں نے بھی اُن کو ایک ذکر سُنایا کہ ایک بڑا شریف
189 188 ایک دن اُن کی ایک بیوی ہمارے ہاں آئیں تو اُن کے جسم پر تازہ چالا کیوں، رشوتوں اور جھوٹی گواہیوں سے کام لیا تب مطلب بر آیا.میں نے عرض کیا ”حضرت یہ تو سب کچھ درست مگر کیا یہ باتیں شرعاً نشانات زد و کوب کے تھے.کسی نے پوچھا کہ کیا حکیم صاحب آپ سے ناراض ہیں؟ کہنے لگیں، نہیں تو وہ تو بیوی نمبر 2 سے ناراض تھے پوچھنے جائز تھیں؟ فرمانے لگے اور کیا کرتا؟“ اس وقت اُن کے ظاہری تقویٰ کی سب حقیقت ہم پر اور خود اُن پر والے نے کہا ” پھر یہ چوٹوں کے نشان آپ کے جسم پر کیسے ہیں؟“ کہنے لگیں واضح ہو گئی کہ ذرا سا نقصان دیکھ کر یہ بظاہر پارسا لوگ ہر قسم کی ناجائز کہ یہ عدل و انصاف کے نشانات ہیں، اُس نے نہایت تعجب سے پوچھا ” ہیں کارروائی پر آمادہ ہو جاتے ہیں.تب پتہ لگتا ہے کہ ان میں صرف ظاہری وہ کیسے؟ اس پر اُنہوں نے کہا کہ حکیم جی جب بھی اپنی کسی بیوی پر ناراض دینداری ہے یا حقیقی پاکیزگی.یہ ٹھیک ہے کہ اکثر مولویوں اور صوفیوں کا ہوتے ہیں تو اُسے خوب پیٹتے ہیں مگر پیٹنے کے بعد اپنی باقی تین بیویوں کو ظاہری حال پسندیدہ نظر آتا ہے مگر مشکلات، مصائب اور مقدمات کے وقت سامنے بلا کر فرماتے ہیں کہ اب میں جب گھر سے باہر جاؤں گا تو تم تینوں ساری حقیقت کھل جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا اِس زمانہ میں واقعی بڑی اس کی نقلیں کرو گی اور اسے چڑاؤ گی نیز انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جب اصلاح کی محتاج ہے.بڑی بڑی سلطنتیں صرف امن انصاف اور دُنیا میں اسے مار پڑی ہے تو تمہیں بھی پڑے.اس لئے اب ادھر میرے پاس آ جاؤ.اصلاح اور ترقی کی خاطر لڑنے کی دعویدار ہیں مگر پردہ اُٹھا کر دیکھو تو وہی اس کے بعد جس قدر مار پہلی کو پڑی تھی اُتنی ہی مارکوٹ سے باقیوں کی تواضع زمین کی حرص ، قومی برتری، خام مصالحہ کے حصول کی خواہش پر ایک دوسرے فرماتے ہیں.یہ میرے جسم پر اس عدل و انصاف کے نشانات ہیں.ناراضگی سے نفرت، ان سب دعوؤں کی پشت پر کارفرما نظر آئیں گی اور اپنے مطلب کے نہیں ہیں.“ کے حصول کے لئے جھوٹ، رشوت، ظلم اور چالا کی سب شیر مادر ہوں گے.دُنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں (108) بیویوں میں عجیب اور نرالا انصاف (109) قتل کے بعض عجیب وجوہات جہلم، کیمل پور، رہتک اور فیروز پور وغیرہ کے اضلاع پنجاب میں قتل کے لئے مشہور ہیں.ذرا ذرا سی بات پر لوگ ایک دوسرے کو مار دیتے ہیں.ایک دفعہ میں نے ایک پولیس کپتان سے کہا کہ آپ کے ضلع میں قتل بہت ایک میرے دوست تھے.اب فوت ہو چکے ہیں.حکیم بلکہ اشتہاری ہوتے ہیں آپ انسداد کریں فرمانے لگے کہ " کیا لوگوں کی جنتی روح کو بالکل حکیم تھے.ان کی چار بیویاں تھیں.بیچارے کہیں سے یہ بھی سُن بیٹھے تھے کہ ہی کچل دیا جائے.جس قدر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے میں بیباک ہوں شریعت کا حکم ہے کہ جب تم ایک سے زیادہ بیویاں کرو تو عدل و انصاف پر عمل اتنی ہی اُن میں فوجی اسپرٹ ہوتی ہے.اسی واسطے میرے ضلع کے لوگ بکثرت فوج میں بھرتی ہوتے ہیں.اگر ان پر سختی کی جائے تو یہ بزدل ہو کرو.
191 190 جائیں پھر ہم فوج کے لئے بھرتی کہاں سے لائیں؟“ میں نے کہا ”یہ خوب صدر مقام جہلم میں جانا شروع کیا.چند مرتبہ گاؤں سے اُس کی غیر حاضری عذر ہے!! فرمانے لگے ”جب تک لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے لوگوں کے نوٹس میں آئی.تفتیش ہوئی تو پتہ لگا کہ یہ شہر جہلم کو جایا کرتا ہے.رہیں ہم زیادہ پرواہ نہیں کرتے لیکن جب سرکار انگریزی کے برخلاف کسی کے پھر مزید رپورٹیں ہوئیں کہ وہاں کچہری کے احاطہ میں دیکھا گیا ہے.اس پر منہ سے ایک لفظ بھی نکلے تو اُس وقت ہم لوگوں کے فرض کی ادائیگی کا وقت ہوتا لوگ کہنے لگے کہ شاید حکام سے ملنے جاتا ہے اور ہمارے برخلاف ضرور کہتا ہے.ایک دوسرے کو قتل کرنا سلطنت کی مضبوطی میں رخنہ نہیں ڈالتا بلکہ پنجاب سنتا ہو گا.بعد ازاں معلوم ہوا کہ ایک دن وہ کسی بڑے افسر سے اُس کی کوٹھی کی شجاعت کے قیام کا باعث ہے ہاں کوئی کانگریسی لالہ سرکار کے برخلاف پر ملا ہے.بس پھر کیا تھا چندلوگوں نے اُس کے قتل کا فتویٰ صادر کر دیا.دوسرے ایک انگلی بھی اُٹھا دے اُس وقت ہماری ساری مشینری حرکت میں آ جاتی دن گاؤں کا ایک آدمی اُسے بہلا پھسلا کر گاؤں سے باہر لے گیا وہاں کھیتوں میں چند آدمی موجود تھے.انہوں نے اُس کا کام تمام کر دیا.نہ کوئی دشمنی نہ ہے.خیر یہ تو تمہیدی جملہ تھا.اب اٹک کے ضلع کا ایک واقعہ سناتا ہوں.عداوت نہ انتقام.صرف یہ قصور تھا کہ یہ حکام رس ہوتا جاتا ہے کہیں ہم گاؤں ایک شخص کی گائیں کئی روز دوسرے زمیندار کے کھیت میں دیکھی گئیں.ایک والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائے.دن جب وہ دونوں اپنے مویشیوں کو شارع عام پر چرا رہے تھے تو ایک نے دوسرے کو کہا کہ آئندہ تیرا مویشی ہمارے کھیت کی طرف نہ آئے ورنہ اچھا نہ ہو گا دوسرے نہ کہا تو کیا کر لے گا؟ ذرا میرے جانور کو ہاتھ لگا کر دیکھ ! (110) مسمریزم اکثر مقامات پر کلبوں اور جلسوں میں میں نے مسمریزم کرنے والوں پہلے نے وہیں سڑک پر اپنی لاٹھی سے جس کے سرے پر نیزے کی طرح کا کے تماشے دیکھے ہیں.کئی تماشے تو صرف چابکدستی اور ہوشیاری کے کھیل ہوتے ہیں لیکن کئی جگہ اصل مسمریزم بھی ہوتا ہے اور مسمرائزر اپنے ساتھ ایک لڑکا بطور معمول“ رکھتا ہے، جس پر توجہ ڈال کر وہ باتیں پوچھتا ہے.ایک دفعہ ایک کلب میں سب افسر لوگ بیٹھے ہوئے ایسے ہی تماشے پھل لگا ہوا تھا ایک گول نشان بنا دیا یعنی دائرہ کی طرح ایک لکیر کھینچ دی اور کہا ”اچھا یہ میرے کھیت کا نشان ہے تو ذرا اس میں اپنا مویشی داخل تو کر دوسرے نے جھٹ اپنا ایک پیر بڑھا کر اپنی جوتی اُس دائرہ کے اندر رکھ دی اور کہا ”لے میرا مویشی تیرے کھیت میں داخل ہو گیا“ یہ سنتے ہی پہلے نے اپنا دیکھ رہے تھے کہ تماشے والے نے کہا ”صاحبان! آپ اپنے دل میں کسی نیزہ اُٹھا کر فوراً اس زور سے اپنے مخالف کی چھاتی میں مارا کہ سینہ تو ڑ کر پار ہو پھول کا خیال کریں.اس کے بعد اُس نے کہا کہ ڈپٹی صاحب آپ نے موتیا گیا اور وہ شخص وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا.کا پھول دِل میں رکھا ہے.تحصیلدار صاحب آپ نے چنبیلی کا پھول.کپتان اب ایک دوسرا قصہ جہلم کے ضلع کا سُنیئے وہاں ایک گاؤں میں ایک صاحب آپ نے نرگس کا پھول“ وغیرہ وغیرہ.سب لوگ یہ بات دیکھ کر نوجوان شخص جب کچھ لکھ پڑھ کر فارغ ہوا تو اس نے گاہے بگاہے ضلع کے متعجب ہوئے.وہاں صاحب ڈپٹی کمشنر بھی موجود تھے.انہوں نے کوئی پھول
193 192 اپنے دل میں نہیں رکھا تھا.کہنے لگے کہ میں نے تو کوئی پھول دِل میں نہیں لوگ میں کسی لڑکے کو مسمرائز کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو مسمرائز کرتے رکھا ، مگر تم نے ان لوگوں کو جواب بہت صحیح دیے ہیں.میرا خیال ہے کہ تم نے ہیں.ں.یوگی بھی اپنی مشق کے زور سے یہ تو بتا دے گا کہ کسی بند خط میں کیا کوئی اندازہ لگایا ہے تماشا والا کہنے لگا اب آپ اپنے دل میں کسی پھول کا مضمون ہے ( کیونکہ یہ غیب حاضر ہے) لیکن یہ نہ بتا سکے گا کہ اگلے برس مجھے سوچ لیں ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ”اچھا میں نے سوچ لیا، اب بتاؤ وہ اس مضمون کا خط فلاں شخص کی طرف سے ملے گا.( کیونکہ یہ پیشگوئی ہے)..کچھ دیر تو چُپ رہا پھر کہنے لگا " گوبھی کا پھول ڈپٹی کمشنر صاحب گرسی اس علم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.ہر مذہب والا بلکہ لامذہب اور نام شخص سے اُچھل پڑے اور کہنے لگے میں نے خیال کیا تھا کہ ایسا پھول ذہن میں دہر یہ بھی اس کی مشق کر سکتا ہے اور تماشے دکھا سکتا ہے.غلطی سے آج کل رکھوں جدھر تمہارا خیال بھی نہ جائے مگر تم نے بتا ہی دیا“.اسی طاقت کا نام لوگوں نے مذہب کی روحانیت رکھ چھوڑا ہے.بیماروں کا اچھا اسی طرح یہ لوگ نوٹوں کے نمبر ، گھڑی کا وقت اور بعض باتیں جو کاغذ کرنا، توجہ دینا، دلوں پر اثر ڈالنا، بیہوش کر دینا وغیرہ یہ سب مسمریزم ہے اور ہر پر لکھ کر محفوظ کر لی جاویں اپنے معمول“ (یعنی سبجیکٹ) کی معرفت بتا دیتے مذہب والا کر سکتا ہے بشرطیکہ اُس میں قدرتی طور پر یہ طاقت زیادہ ہو اور مشق ہیں حالانکہ اُس لڑکے کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے.ان سب تماشوں اچھی ہو.مشہور غلام پہلوان امرتسری کا لڑکا ایک دفعہ میرے پاس آیا تو میں کو دیکھ کر جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ مسمرائز ر اپنے عمل کے زور سے نے پوچھا کہ 'باپ کا علم بھی کچھ سیکھا ہے؟ کہنے لگا ”نہیں“ میں نے کہا کیوں؟ اُس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جب اکھاڑے میں اُترتا ہوں تو دَم چڑھ جاتا ہے اور میں قدرتی طور پر سخت ورزشوں کے ناقابل ہوں“ غیب حاضر بتا سکتا ہے، یعنی ایسی مخفی چیز جو موجود ہو اور قریب ہولیکن غیب غائب یعنی ایسی بات غیب کی جو آئندہ ہونے والی ہو نہیں بتا سکتا.مثلاً وہ لڑکا وو یہ تو کہہ دے گا کہ فلاں شخص کی جیب میں اتنے روپے ہیں یا فلاں گھڑی میں اسی طرح بعض آدمی قدرتی طور پر توجہ یعنی مسمریزم کی طاقت اپنے اندر زیادہ یہ وقت ہے مگر فاصلہ بہت ہو تب نہیں بتا سکے گا اور نہ یہ بتا سکے گا کہ کل پرسوں یا فلاں دن ایسی ایسی بات وقوع میں آئے گی.حاضرین میں سے کسی کے دل کی خاص بات اُس وقت تو پڑھ لے گا لیکن یہ کہ دس دن کے بعد فلاں شخص کو پچاس روپیہ کا منی آرڈر ملے گا یہ نہ بتا سکے گا.پس مسمرائزر کا غیب نزدیک کی پیش پا افتادہ اور موجود باتوں کے متعلق تو ٹھیک ہو سکتا ہے مگر وہ پیشگوئی نہیں کر سکتا.لوگ غلطی سے ان دونوں باتوں کو ملا دیتے ہیں اور اس کو غیب دان سمجھ لیتے ہیں.لوگ بھی مسمریزم ہی کی مشق ہے اور اس کی بھی یہی اصلیت ہے.رکھتے ہیں ایسے لوگ اگر مشق کریں تو بیہوش کرنا تو کیا ایک نظر سے انسان کو مار بھی سکتے ہیں، مگر اس کا تعلق مذہب سے کیا ؟ آدمی تو لٹھ سے بھی مارا جا سکتا ہے.پس جو لٹھ اچھا چلائے وہ بھی خدا رسیدہ ہوتا ہو گا؟ مذہب صرف دو چیزوں کا مجموعہ ہے (1) خدا شناسی (2) اعلیٰ اخلاق، نہ کہ مسمریزم اور پہلوانی کیونکہ مسمریزم بھی اعصاب کی پہلوانی ہی ہے.(111) کوڑی کا چکر.ایک شخص ہمارے ہاں آیا اور سب لوگوں سے کہنے لگا کہ ”مجھے ایک
194 195 " عمل آتا ہے جس سے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ہمارا فلاں مقصد پورا ہو جائے گا یا نرس تھی اور دوسری جو اٹھارہ بیس سال کی تھی کسی پہاڑ پر مشن اسکول میں پڑھتی نہیں؟ میں نے کہا اچھا دکھاؤ“ اُس نے ایک کوڑی نکالی اُس کے اندر کوئی تھی.ایک دفعہ وہ طالب علم لڑکی پہاڑ سے بیمار پڑ کر اپنے والدین کے پاس ایک انچ لمبا تنکا دے کر اُس تنکے کو زمین میں گاڑ دیا.اس طرح کہ کوڑی کو آئی.چند روز میں اُس کی حالت اور خراب ہو گئی تو اُس کی بہن نرس نے مجھے لے کر وہ تنکا زمین پر کھڑا تھا.پھر کہنے لگا کہ ذرا سا پانی لاؤ.اور اپنے دل میں کہا کہ مہربانی کر کے میری بہن کو دیکھ لیں، وہ بہت بیمار ہے، میں نے کہا کوئی بات سوچ لو.ہم نے سوچ لی کہ فلاں کام ہو گا یا نہیں.اِس پر اُس نے کیا ہے؟ کہنے لگی ”ٹائیفائیڈ ہے مگر ڈیڑھ مہینہ سے بخار نہیں اترا بلکہ زیادہ کچھ منتر وغیرہ پڑھ کر کہا کہ ”اب میں اس کوڑی پر پانی چھڑکتا ہوں اگر یہ ہی ہوتا جاتا ہے اور اب تو بہکنے بھی لگی ہے.حالت نازک ہے خیر میں اُن دائیں طرف پھر گئی تو مطلب پورا ہو جائے گا، اگر بائیں طرف اس نے چکر کے ہاں گیا.واقعی بہت پتلا حال تھا کروٹ دے کر پھیپھڑے دیکھے تو اُن میں کھایا تو نہیں پورا ہو گا پانی کا چھڑکنا تھا کہ آہستہ آہستہ وہ کوڑی دائیں کسی بیماری کا اثر نہ تھا.اس کے بعد میں نے اُس کے پیٹ پر سے فراک طرف کو چکر کھانے لگی.ہم سب حیران تھے.پھر اور لوگوں نے بھی اپنے اونچا کر کے ٹٹولنا چاہا تو باوجود اُس کے کہ وہ نیم بیہوش تھی اُس نے مقابلہ کیا مطلب پوچھے.ہر دفعہ وہ نیا تنکا لگاتا تھا اور زمین میں اُسے گاڑ کر پانی چھڑکتا اور فراک کو اس طرح پکڑ لیا کہ پیٹ ننگا نہ ہو سکے.میں نے اُس کی بہن سے تھا.کبھی وہ کوڑی دائیں طرف چکر لگاتی تھی اور کبھی بائیں طرف.جب وہ کہا کہ اس کا مضائقہ نہیں اور صحیح تشخیص کے لئے پیٹ کا معائنہ اور اُس کا جلسہ ختم ہوا تو کھوج لگاتے لگاتے آخر ساری حکمت کا پتہ لگ ہی گیا.وہ شعبدہ آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے.میں نے دیکھا کہ میرے اس کہنے پر نرس کا یہ تھا کہ خشک گھاس کے سخت سے تنکے یا جھاڑو کے مناسب تنکے کو وہ شخص اپنی رنگ بھی فق ہو گیا.آخر میرے زور دینے پر اُس نے مریضہ کے ہاتھ پکڑ لئے چٹکی سے کئی بکل دے دیتا تھا، پھر اُس میں کوڑی پھنسا کر زمین میں گاڑ کر جب اور کہا کوئی ڈر نہیں ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے دو.میں نے نہایت سادگی سے فراک پانی چھڑکتا تھا تو تھکے کو پانی لگتے ہی اس کی نمی سے وہ بل گھلنا شروع ہو جاتا اونچا کیا.اُس وقت مجھے پتہ لگا کہ کیوں مریضہ اور اُس کی بہن اور ماں باپ تھا اور کوڑی چکر کھانے لگتی تھی اس طرح وہ لوگوں کو ٹھگا کرتا تھا.لڑکیاں لڑکے اس معائنہ سے کتراتے تھے.کپڑا اُٹھاتے ہی یہ نظر آیا کہ سارا پیٹ اُن تک اس کھیل کو خود آزما کر دیکھ سکتے ہیں مگر نا واقف آدمی ہو، تماشا والا مقدس لکیروں سے بھرا پڑا ہے جو حمل میں عورتوں کے شکم پر پیدا ہو جاتی ہیں.صورت ہو اور منتر یا آیتیں پڑھ کر پانی چھڑ کا جائے تو اکثر آدمی دھوکا کھا جاتے حالانکہ بیچاری ناکتخدا تھی.یہ دیکھتے ہی میں نے جھٹ اُس کا فراک نیچے کر دیا اور سارا معاملہ سمجھ گیا.پہاڑ پر بیچاری کا وضع حمل ہوا اور پورا بچہ تھا.وہ بن کر پر سوت یعنی زچگی کا انکار ہو گیا جسے وہاں ٹائیفائیڈ کہتے رہے.آخر لڑکی گھر آ ہیں.(112) آزادلڑ کیاں ایک پادری صاحب تھے.اُن کی ایک بیوہ لڑکی تو میرے شفا خانہ میں گئی یہاں بھی یہی مشہور رہا مگر بخار زہریلا تھا دو چار روز میں بیچاری فوت ہو گئی.
197 196 لڑکیوں کی صحیح نگرانی والدین کے سوا غیر جگہوں میں خصوصاً جب وہ پڑی کہ آیا کانٹا گل سکتا ہے یا نہیں؟ بعض کہتے تھے کہ گل سکتا ہے مگر میں بے پردہ پھرتی ہوں، ایک محال امر ہے.ایک لعنت تو سُرخی، سفیدہ، پوڈر، نے کہا کہ کئی دفعہ میں نے طرح طرح کی کوشش کی اور کئی نسخے اور ترکیبیں بال سنوارنے اور حُسن دکھانے کی تھی ہی دوسری لعنت آج کل فحش لٹریچر کی استعمال کیں مگر کانٹا گلنا امر محال ہے البتہ کتابوں میں پڑھا ہے مگر میں اسے ہے.تیسری لعنت آزادی کی.چوتھی لعنت بعض حالات میں مردوں کے پہلو پہلو بیٹھنا.مثلاً مردوں سے تنہا کمروں میں ٹیوشن لینا.موٹر ڈرائیوروں کی بغل میں یا اُن سے لگ کر اسکول یا کالج جانا.کالج کی بنچوں پر لڑکوں کے ساتھ دوش بدوش نشست، بارونق سڑکوں پر سیر و تفریح.اپنے گزارے کے لئے کلر کی کرنی.سینما اور ٹا کی کا زہر وغیرہ وغیرہ.میرے اپنے خیال میں غلط سمجھتا ہوں“ باور چی جھٹ بول اُٹھا کہ اچھا میں کل صبح ہی مچھلی لے آؤں گا اور شام کے دستر خوان پر آپ کو گلے ہوئے کانٹے دکھا دوں گا.معلوم ہوتا ہے حضور کو کوئی کاریگر اور استاد باور چی نہیں ملا ورنہ کانٹا نہ گلنے کے کیا معنی.ہم نے انہیں ہاتھوں مچھلی کی کنگھیاں گلا دی ہیں کانٹا تو کانٹا رہا میں نے کہا ”میں جب تک آزما نہ لوں اور ایسی مچھلی خود نہ کھا لوں تب سب سے زیادہ جو چیز آج کل رستم قاتل ثابت ہو رہی ہے وہ محش لٹریچر ہے تک ماننا مشکل ہے باورچی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا کہنے لگا ”ہاتھ کنگن کو جو ہر گھر میں نقب لگا کر پہنچ جاتا ہے.یہ سب سے موذی چیز ہے اور اس کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں کے اخلاق پر بُرا اثر پڑتا ہے بلکہ اُن کی صحت بھی تباہ ہوتی ہے اور شاید پچاس فیصدی لیکوریا کا مرض ایسے لٹریچر کا براہ راست نتیجہ ہے لڑکے تو تباہ ہوئے ہی تھے اب لڑکیاں بھی برباد ہونے لگیں.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَا إِلَيْهِ رَاجِعُون.(113) مچھلی کا کانٹا گلانا ایک دن میں ایک بڑے سرکاری افسر کے ہاں مہمان تھا.ہم چند آدمی کھانے پر تھے اور کھانے میں مچھلی بھی تھی.باورچی بھی داد لینے کے لئے وہیں پاس کھڑا تھا.اتنے میں مچھلی کے متعلق کسی نے کہا کہ اس میں تو بہت کانٹے ہیں“ میزبان نے باورچی سے کہا تو بے کانٹوں کی مچھلی کیوں نہیں لایا" کہنے لگا ”آج تو مہمانوں کی بابت معلوم نہیں تھا نہ خیال تھا ورنہ فرصت ملتی تو میں اس مچھلی کے کانٹے گلا دیتا‘‘ اس پر مہمانوں میں بحث چل " " آرسی کیا ہے حضور کل شام کو ہی ملاحظہ فرما لیں گے لیکن خرچ ایسی مچھلی پر زیادہ ہوتا ہے" میزبان بولے ” جو چاہے خرچ مجھ سے لے لے اور اپنی پسند کی مچھلی بازار سے خود لے آ لیکن اگر کانٹا نہ گلا تو پھر؟ باورچی کے منہ سے بے اختیار نکلا سو جوتے“ میزبان بولے ”منظور لیکن اگر کانٹا نہ گلا تو پھر معافیاں نہ مانگیو نہ یہ لوگ تیری سفارش کریں میں بغیر جوتے لگائے نہ چھوڑوں گا کہو منظور ہے؟ اُس نے کہا ”منظور“ اور معاملہ طے ہو گیا.دوسرے دن شام کو کھانے کا وقت آیا تو مچھلی بھی آئی اور باور چی بھی مگر اس کا منہ لٹکا ہوا تھا.سب سے پہلے ہم نے مچھلی پر ہی ہاتھ بڑھایا ”ارے یہ کیا! ایک بھی ٹکڑا سلامت نہیں.یہ چُورہ چورہ کیوں کر دی؟ خیر مچھلی کوٹولا تو کنکھی بھی سلامت اور کانٹے بھی موجود، نرمی تک نہیں آئی تھی ” کیوں بھئی خانساماں! یہ کیا ہوا ہے؟ کہنے لگا " مچھلی تو صبح ہی لے آیا تھا اور سب مصالحے جو میرے علم میں تھے وہ بھی.تمام دن پکتی بھی رہی.دم بھی دیا.پہلے ایک مصالحہ ڈالا، ناکام رہا، پھر دوسرا ڈالا، بے نتیجہ، پھر تیسرا ڈالا،
199 198 مطلب نہ حاصل ہوا، پھر لوگوں سے پوچھ پوچھ کر اور دوسرے کاریگر باورچیوں سے مشورے کر کے اصلاح کی مگر کچھ بھی نہ ہوا.یہ سُن کر ہم نے وہ مچھلی کھانی شروع کی تو معلوم ہوا کہ کھانے کے قابل بھی نہیں.اس قدر ترشی تلخی ، کڑواہٹ اور تیزی مختلف مصالحوں اور دواؤں کی وجہ سے اس میں پیدا ہو گئی تھی کہ اس کا کھانا محال تھا.باورچی کہنے لگا کہ علاوہ دم پخت کرنے کے میں نے اس میں برابر کا دہی ڈالا ہے، پھر نوشادر چھڑ کا ہے.اس کے بعد انجیر پیس کر ڈالا.پھر بھی کانٹا نہ گلا تو کچری بازار سے لا کر ڈالی.آخر میں کسی باورچی سے بگلے کی ہڈی بھی لا کر شامل کی.ایک ڈاکٹر سے گوشت ہضم کرنے کی دوا ملی تھی وہ بھی ڈال دی.پپیتے کے بیج بھی پیس کر ملائے.سرکہ بھی چھڑ کا اور پیاز لہسن کا پانی بھی بھرا.غرض سب کچھ کر لیا مگر کچھ نہ ہوا“ میزبان فرمانے لگے ”لا وہ میرا سلیپر اٹھا دے اور سر ننگا کر کے میرے سامنے بیٹھ جا.تو نے بھی میرا مدتوں سے ناک میں دم کر رکھا تھا.آج تو میں بھی تیرا کانٹا گلا کر دل ٹھنڈا کر لوں“ ہم لوگوں نے سفارش بھی کی مگروہ کب ماننے والے تھے.غرض ہمارے سامنے ہی انہوں نے اس کی چند یا پر پورے سو (100) سلیپر ین ڈالے.(114) آپریشن یورپ کی ڈاکٹری کا ایک کمال سرجری یعنی جراحی کا علم بھی ہے.اس کے متعلق ایک عجیب بات یہ میرے تجربے میں آئی کہ تین قسم کے لوگ ہیں جو بہ نسبت اور لوگوں کے آپریشنوں سے بہت ڈرتے ہیں (1) ڈاکٹر (2) پولیس کا سپاہی اور (3) قصائی.ان لوگوں کو بحیثیت جماعت کے میں نے دیکھا کہ آپریشن کی میز پر لیٹنے سے ان کا دم نکلتا ہے اور میرے نزدیک یہ اس لائن میں سب سے بزدل واقع ہوئے ہیں.دوسروں پر تو شیر ہوتے ہیں مگر جب اپنے جسم پر زخم لگنے کی باری آئے تو ان کا خون خشک ہو جاتا ہے یا شاید اپنے اعمال سامنے آ جاتے ہیں.واللہ اعلم.ڈاکٹروں کا وہم بھی اپنی بیماریوں کے متعلق دوسرے لوگوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے.خود کسی کو بخار چڑھے تو فوراً پہلے دن ہی ٹائیفائیڈ تشخیص ہو جاتا ہے اور ذرا سی حرارت ہو تو تیسرے دن تک سل دق کا یقین کر لیتے ہیں.چھوٹی سے پھنسی ہو تو کار بنکل اور کینسر یعنی سرطان سے ورے نہیں ٹھہرتے ، ذرا بدہضمی ہوئی اور دل پر بوجھ محسوس کیا تو حرکت قلب بند ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا.ایک ڈاکٹر صاحب کے ہونٹ پر ذراسی پھنسی نکلی.چند دن مرہم لگایا پھر کاسٹک وغیرہ سچ کیا.پھر اپنے شفاخانہ سے بے رخصت لئے تار روانہ کر کے لاہور چلے گئے اور محکمہ کے افسر بالا اور سب رشتہ داروں کو اطلاع کر دی کہ مجھے سرطان یعنی کینسر ہو گیا ہے.میں لاہور جا رہا ہوں وہاں جا کر معلوم ہوا کہ معمولی لاہور سور یعنی اور نگ زیبی پھوڑا ہے.اتنے میں ان کے سب رشتہ دار بھی روتے پیٹتے پہنچ گئے مگر جب حقیقت حال معلوم ہوئی تب شرمندہ " ہوئے.آج سے تیس سال پہلے آپریشن کے وقت ربڑ کے دستانے پہننے کا رواج نہ تھا اس لئے میرے علم میں چند موتیں نوجوان ڈاکٹروں کی اس وجہ سے بھی ہوئیں کہ دوران آپریشن میں ان کی انگلی پر خراش ہو کر مریض کا زہریلا مواد اس خراش میں لگ گیا تھا اور صرف تین چار دن بیمار رہ کر اور زہر چڑھ کر وہ ڈاکٹر فوت ہو گئے.ایک ڈاکٹر صاحب دس روز کی اتفاقی رخصت لے کر
201 200 شمله سیر کرنے گئے وہاں گلے میں تکلیف ہو گئی.شفا خانہ میں دکھایا.انہوں نے کہا ٹانسل بڑھ گئے ہیں ان کا آپریشن کرا لو.چنانچہ کرا لیا.اس کے بعد کوئی تکلیف تو نہ ہوئی مگر خون گلے میں سے جاری رہا اور وہ اسے نگلتے رہے.نہ انہیں پتہ لگا اور نہ دوسروں کو.شام کے قریب بڑی بھاری کے خون کی ان کو آئی اور پیشتر اس کے کہ طبی امداد پہنچ سکے وہ ختم ہو گئے.اسی طرح ایک اور ڈاکٹر صاحب جو عمر رسیدہ تھے ٹانسل کو بالکل معمولی سمجھ کر اور اپنی عمر اور دل کی کمزوری کا خیال کیے بغیر گلے کے آپریشن کے لئے شفا خانہ میں داخل ہو گئے.اس فن کا امتحان دے کر اپنے کام پر مامور کئے جائیں.اگر ڈاکٹر اتنے نہ مل سکیں تو جو کمپیونڈر بھی لگائے جائیں اُن کی خاص تربیت اور ٹریننگ اس فن میں کرا کر امتحان لے کر پھر کچھ زائد الاؤنس دے کر ان کو اپنی ڈیوٹی پر مامور کیا جائے.بعض لوگوں نے آپریشن کو بھی ایک مذاق سمجھ رکھا ہے خصوصاً اپنڈکس کے آپریشن کو.ذرا سی تکلیف محسوس کی تو خیال کر لیا کہ یہ نا قابل علاج مرض ہے اور آپریشن کے سوا اچھا نہیں ہو سکتا.اس لئے بغیر کافی مدت اور مناسب ابھی تین چارسانس کلورا فارم کے بھی نہ لئے تھے کہ آپریشن سے پہلے ہی دم علاج کئے فوراً آپریشن کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور پھر اس آپریشن کو کھیل نکل گیا.میری اپنی پریکٹس میں دو (2) آدمی کلورا فارم سے میز پر مرے ہیں اور دونوں دفعہ ان کو کلورا فارم دینے والے ایسے کمپونڈر تھے جنہوں نے پہلے یہ کام کبھی نہیں کیا تھا.ایک شخص کی تو کولہے کی ہڈی کا جوڑ اکھڑ گیا تھا میں اسے چڑھا رہا تھا کہ وہ رخصت ہوا.بڑھا آدمی تھا اور جوڑ چڑھانے کے سمجھتے ہیں حالانکہ دونوں باتیں غلط ہیں.نہ سوائے خاص حالات کے آپریشن ضروری ہے نہ یہ آپریشن کھیل ہے.میں نے بیسیوں مریض پیٹ کے درد کے ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے اپنا اپنڈکس کٹوا لیا مگر درد پھر بھی جوں کا توں باقی رہا.یہی حال کار بنکل (سرطان) کے پھوڑے کا ہے.ہر کار بنکل کے لئے لئے پٹھے اور عضلات پورے ڈھیلے کرنے کے لئے معمولی سے زیادہ کلورا فارم آپریشن ضروری نہیں ہوتا مگر عام طور پر کئی ڈاکٹر اور اکثر لوگ کاربنکل اور درکار تھا.نیا کمپونڈر تھا جس نے کبھی پہلے یہ کام نہیں کیا تھا.دوسرا ایک پانچ آپریشن کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں.اسی طرح آج کل دانت نکلوانے کا حال چھ سال کا بچہ تھا جس کی پتھری کا آپریشن تھا اور پتھری بجائے کاٹ کر نکالنے ہے.دانت میں ذرا درد ہوا یا ذرا سی پیپ کا شبہ ہوا یا ذرا سا بھی ہلا تو ڈاکٹر کے توڑ کر نکالی جا رہی تھی، اسے بھی ایک بالکل نیا کمپونڈ ر کلورا فارم دے رہا یہی کہتے ہیں کہ ”جھٹ نکالو، فوراً نکالو ورنہ مرجاؤ گے.“ تھا کہ سانس بند ہو گیا.پھر بہتیرا مصنوعی تنفس دیا گیا اور جو بھی ترکیبیں سانس کرنال میں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر تھے.ان کو بد ہضمی کی شکایت رہتی لانے کی ہوتی ہیں سب استعمال کی گئیں مگر وہ چل ہی بسا.اس قسم کی موتوں تھی اور دل گھٹتا جاتا تھا.ضعف قلب کے لئے وہ روزانہ بیس پچیس انڈے سے رشتہ داروں کو جس قدر صدمہ ہوتا ہے اس کا بیان لا حاصل ہے.آپریشن کے کمرہ میں انسان زندہ جاتا ہے اور مردہ واپس آتا ہے.اس وجہ سے یہ کچے کھایا کرتے تھے اور کمزور ہو جانے کے خوف سے یوں بھی بے حد غذا کھاتے تھے.ان کی ساری بیماری پُرخوری کی وجہ سے تھی.ایک دفعہ وہ دس روز ضروری ہے کہ ہر بڑے شفاخانہ میں ڈاکٹر کلورا فارم دیا کریں اور وہ خاص کے لئے شملہ رُخصت پر گئے.واپس آئے تو ان کے خانساماں نے مجھے بتایا
203 202 کہ ہمارے صاحب اپنی ساری بتیسی شملہ میں ایک دندان ساز سے نکلوا آئے ہیں اور کہتے ہیں ”اب میں بالکل اچھا ہو گیا ہوں، اب دل کا دورہ اور پیٹ کا لفخ نہیں ہو گا میں نے کہا ”اچھا ہے لیکن اگر کوئی تکلیف ہو جائے تو مجھے اطلاع ضرور دینا ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ خانساماں دوڑا آیا کہ صاحب کا تو دل کے دورے کے مارے بُرا حال ہے اور وہ سارے دندان سازوں کو لیٹے لیٹے گالیاں دے رہے ہیں میں نے اُسے کہا کہ ”صاحب کو کہو کہ انڈے کھانے اور کئی کئی دفعہ کھانا کھانا چھوڑ دیں.دانت بیچارے تو مفت میں بدنام ہیں." ضمیمہ آپ بیتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا لکھا ہوا مضمون ختم ہو گیا مگر کاپی میں گنجائش کچھ باقی رہ گئی ، اس لئے محض جگہ پر کرنے کے لئے میں خود دو فسانے لکھ کر یہاں درج کر رہا ہوں.اگر چہ میری تحریر میں قارئین کرام کو وہ لطف ہر گز نہیں آئے گا جو حضرت میر صاحب کی آپ بیتی سے اُٹھا چکے ہیں.راقم (شیخ) محمد اسمعیل پانی پتی
205 204 (115) دوخون نہ کبھی مصیبت تنہا آتی ہے اور نہ کبھی بدقسمتی کہہ کر آیا کرتی ہے.ایک روز بیٹھے بیٹھے بالکل اتفاقیہ طور پر لاجونتی کا دل لڈو کھانے کو چاہا محلے کا ایک بچہ گھر میں کھیل رہا تھا لا جونتی نے اُسے بُلایا اور بلا کسی خاص خیال کے بالکل معمولی بات سمجھتے ہوئے گھر میں پڑے ہوئے اناج کے ذخیرے میں سے کوئی آدھ سیر کے قریب غلہ لے کر لڑکے کو دیا اور اُس سے کہا کہ ” گاؤں کے حلوائی سے مجھے اس کے لڈو لا دے لڑکا گیا اور تھوڑی دیر میں چھوٹے چھوٹے چھ لڑکے کو غلہ لے جاتے ہوئے اور لڈو لاتے ہوئے اتفاقاً لاجونتی کی گاؤں کی ساری لڑکیوں میں لاجونتی سب سے زیادہ چاق و چوبند، مضبوط اور طاقتور تھی.زندہ دلی اور خوش مزاجی اُس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی.جب دیکھو سہیلیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی رہتی تھی.شوقین مزاج بھی بے حد تھی.اچھا کھاتی اور اچھا پہنتی.غرض بڑی بے فکری سے اپنی زندگی گزار رہی تھی.اٹھارہ (18) برس کی عمر ہوئی تو ماں باپ نے ایک کھاتے پیتے گھرانے میں سات لڈو لا کر لاجونتی کے حوالے کر دیئے.شادی کر دی مگر سُسرال پہنچ کر بیچاری کی ساری زندہ دلی اور شوقین مزاجی ختم ہو گئی.نہ بولنے کا مقدور تھا نہ بات کرنے کی اجازت.سسرال والے سارے کے سارے اکھڑ ، بدمزاج اور گنوار کا لٹھ واقع ہوئے تھے.بولتے تو درشت مزاجی کے ساتھ ، بات کرتے تو سختی سے.غرض نہ کوئی نرمی سے گفتگو کرنے والا تھا نہ مہربانی کے ساتھ سلوک کرنے والا.کنبہ بہت سا تھا اور خاندان کے سب لوگ ایک ہی مکان میں رہتے تھے.لاجونتی زندہ دل اور شوقین مزاج بے شک تھی مگر زبان دراز اور شوخ چشم نہ تھی.طبیعت نہایت نیک پائی تھی.بیچاری رہ رہ کر سوچتی تھی کہ ایسے بد مزاج لوگوں میں میری زندگی کس طرح بسر ہو گی؟ تاہم اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جس طرح بھی بنے گا خندہ پیشانی کے ساتھ ہر مصیبت سہوں گی اور اُف نہ کروں گی.خاندان کے ہر فرد کی سختی برداشت کروں گی اور شکایت نہ کروں گی.نند نے دیکھ لیا تھا.اس نے فوراً جا کر ماں سے کہا کہ آج بھابی نے ذخیرے سے غلہ لے کر لڈو منگائے ہیں.وہ ہر روز ہی غلہ کے بدلے کچھ کچھ منگاتی رہتی ہیں اور کوٹھڑی میں گھس کر چپکے چپکے کھا لیتی ہیں.گھر میں جو کچھ ہے اب تو انہی کی تلرز میں اُترے گا.ہمارے نصیب کا تو اس گھر میں کچھ بھی نہ ہوا.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دھڑی بھر سے زیادہ غلہ انہوں نے کچھمن کے ہاتھ بھیجا اور لڈو منگوائے“.بیٹی سے یہ سنتے ہی لاجونتی کی ساس آگ بگولا ہو گئی.بدنصیب بہو نے ابھی پہلا ہی لڈو منہ میں رکھا تھا کہ یہ بلائے بے درماں کی طرح اُس کے سر پر پہنچ گئی اور ایک زور کا دو ہتر لاجونتی کی کمر میں مار کر کہنے لگی کہ ”آج معلوم ہوا کہ یہ غلہ روز بروز کیوں گھٹتا جا رہا ہے؟ یہ تو اس چٹور پن کی بھینٹ گھر والوں کا برتاؤ لاجونتی کے ساتھ شروع ہی سے سختی کا تھا، کوئی چڑھ رہا تھا.میں بھی حیران تھی کہ آخر یہ غلہ جاتا کہاں ہے؟ اپنے خصم کو آنے اُس سے سیدھے منہ بات نہ کرتا تھا مگر لاجونتی ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتی اور جہاں تک ممکن ہوتا کسی کو اپنے سے شکایت کا موقع نہ آنے دیتی.غرض دو تین مہینے ہر پٹ کر بُری بھلی طرح بسر ہو ہی گئے.دے اس چٹورپن کا تجھے کیسا مزا چکھاتی ہوں“.ساس کا چیچنا سُن کر لاجونتی کی دیورانی بھی دوڑ کر اپنے دالان سے آ گئی اور صورت معاملہ دیکھ کر کہنے لگی ایسا چٹور پن بھی کس کام کا جس سے گھر
207 206 ا ہی کا صفایا ہو جائے ؟ جیٹھانی روٹی پکا رہی تھی وہ وہیں سے بیٹھی بیٹھی بولی باری آئے گی اور اس طرح آہستہ آہستہ سارے گھر کی صفائی ہو جائے گی.زبان کا مزا آخر کہاں جائے ، ماں باپ نے ہنر سلیقہ تو خاک نہ سکھایا ہاں دیور نے بگڑ کر جواب دیا ”میں نے کس دن ان کی تعریفیں کی تھیں؟ میں تو ان کے پیچھن شروع ہی سے دیکھ رہا تھا مگر زبان سے اس لئے نہ کہتا تھا کہ بھائی کو ملائیاں مٹھائیاں کھانی البتہ سکھا دی ہیں.بیچاری کیا کرے، مجبور ہے روٹی تو اسے ملتی ہی نہیں اب مٹھائیاں منگا منگا کر نہ کھائے تو غریب کا پیٹ کس طرح بُرا لگے گا.باقی میرا تو یہی خیال ہے کہ ایسی چٹوری عورت گاؤں بھر میں نہ ہو بھرے؟“ گی.عین اس وقت جبکہ گھر کی ہر عورت لاجونتی کو بُرا بھلا کہہ رہی اور اسے جیٹھ کھیت سے آیا تو اس نے خلاف معمول سارے گھر کو ایک ہی طعنے تشنے دے رہی تھی لاجونتی کا خسر باہر سے آ گیا.جونہی اس نے دروازہ جگہ جمع دیکھ کر کہا " خیر تو ہے کیا بات ہے؟ باپ بولا خیر کہاں، خیر ہوتی تو ہم میں قدم رکھا، بیوی نے اُسے آواز دی اور کہا ”ذرا یہاں تو آؤ اس نے پوچھا اس بہو کو بیاہ کر ہی کیوں لاتے.جب سے یہ گھر میں آئی ہے گھر کا ستیاناس " کیا جھگڑا ہے؟ بیوی بولی جھگڑا کچھ بھی نہیں.اب اپنے گھر بار سے ہاتھ ہو گیا ہے.خبر نہیں یہ بلا ہمارے سر سے کب ملے گی؟ مر جائے تو پاپ کٹ دھوؤ اور جو کچھ جمع پونچی ہے شوقین مزاج بہو کے حوالے کر کے بھیک کا ٹھیکرا جائے جیٹھ نے پوچھا "آخر بات تو بتاؤ قصہ کیا ہے؟“ ماں بولی " تجھے دکھائی ہاتھ میں لے لو.یہ دیکھو اس نے پانچ سیر غلہ بھیج کر لڈو منگوائے، بیٹھی کھا رہی نہیں دیتا.سامنے لڈو پڑے ہیں بس یہی قصہ ہے اور کچھ بھی نہیں.روزمرہ تھی.ذرا سے رہ گئے تھے کہ اتفاق سے میں ادھر آ نکلی.میں نے تم سے پہلے بہو محلے کے بچوں کے ہاتھ غلہ نکال کر بھیج دیتی ہے اور مٹھائیاں منگا کر کھا لیتی کہا نہیں منوں غلہ اب تک تمہاری یہ چہیتی بہو اسی طرح اُڑا چکی ہے.فصل میں ہے.اس کی بلا سے چاہے گھر میں تنگی ہو چاہے فاقہ اسے تو اپنے حلوے ابھی تین مہینے پڑے ہیں اور گھر میں غلہ چدرہ ان کا بھی باقی نہیں رہا.اب مانڈے سے کام اس پر جیٹھ بولا ”جو سارا دن کام دھندا کچھ نہ کرے گی اور فصل آنے تک یا تو فاقے کردیا بھیک مانگو.پڑی ہوئی اینڈتی رہے گی وہ جو کچھ نہ کر گزرے تھوڑا ہے اور ابھی کیا ہے یہ سنتے ہی خسر کو سخت غصہ آیا اور کہنے لگا کہ ”ہماری قسمت پھوٹ گئی آگے آگے دیکھنا کیا کیا گل کھلتے ہیں.یہ بہو تو تمہارا اچھی طرح سر مونڈ کر جو ایسی چٹوری بہو ہمارے پہلے پڑی ہمیں خبر ہوتی کہ اس کو زبان کا ایسا چسکا رہے گی." ہے تو کبھی بھول کر بھی اسے گھر نہ لاتے.اب تو یہ ساری عمر کا جلاپا ہمارے نصیب میں لکھا گیا.نندوئی کچھ سودا سلف لینے شہر گیا ہوا تھا وہ بھی لدا پھندا اتفاق سے اسی وقت گھر پہنچا اور قصہ سُن کر کہنے لگا اسے زباں کا اس قدر مزا ہے تو تھوڑا لاجونتی کا دیور اس وقت پڑا ہوا سو رہا تھا شور سے اُس کی آنکھ کھل گئی سا زہر ہی کھلا دو.“ وہ آنکھیں ملتا ہوا آیا تو ماں اس سے کہنے لگی تو اپنی بھابی کی بڑی تعریفیں کیا اس وقت سارا گھر لاجونتی کو گھیرے کھڑا تھا.گھر والوں میں سے کوئی کرتا تھا اب دیکھ اپنی بھابی کی کرتوت! ذرا اللہ ختم ہوئے تو پھر گہنے پاتے کی بھی ایسا نہ رہا تھا جس نے لاجونتی کو بُرا بھلا کہہ کر اپنے دل کا بخار نہ نکالا ہو
209 208 مگر مظلوم و بے بس لاجونتی بالکل خاموش اور چپ تھی نہ نظر اوپر اٹھا کر کسی کو دیکھتی تھی نہ کسی بات کا جواب دیتی تھی.جو لڈو اس نے منہ میں ڈال لیا تھا وہ منہ ہی میں رہا اس نے اُسے نہ نگلا نہ تھوکا.وہ تصویر حزن و ملال بنی بیٹھی تھی.اس کا دل رو رہا تھا مگر آنکھیں خشک تھیں زبان سے آہ نہ کرتی تھی مگر دل سے دھواں اُٹھ رہا تھا وہ گردن جھکائے بیٹھی تھی اور ساری کرخت اور سخت آوازیں سُن رہی تھی کہ اتنے میں خاوند بھی باہر سے آ گیا اور لاجونتی کے گرد گھر والوں کا جمگھٹا دیکھ کر سیدھا ادھر ہی چلا آیا.ماں تو اس کی منتظر ہی ہی تھی دیکھتے ہی بولی اچھا ہوا تو جلدی آ گیا بات یہ ہے کہ ہم تو تیری نئی نویلی دلہن کے ہاتھوں اب سخت تنگ آ گئے ہیں.اس کے چٹور پن نے گھر کے سارے غلہ کو تو ختم کر ہی دیا اب کچھ دنوں میں گھر کا سب مال و اسباب بھی غلہ کی طرح غائب ہو جائے گا اور پتہ نہیں لگے گا کہ کہاں گیا.بھلا غضب نہیں تو اور کیا ہے کہ آج پانچ چھ سیر غلہ کے لڈو اس نے منگائے اور سب اکیلی بیٹھ کر ہڑپ کر گئی.یہ دو چار باقی تھے کہ میں پہنچ گئی.یہ آج کچھ نئی بات نہیں جب سے غلہ گھر میں آ کر پڑا ہے تب سے روز غلہ کی مٹھائیاں آتی ہیں اور مزے میں کھائی جاتی ہیں.خبر نہیں پیٹ ہے یا دوزخ کہ کسی طرح بھرنے ہی میں نہیں آتا.ایسی چٹوری عورت میں نے آج تک کوئی نہیں دیکھی.روٹی کھائی اس نے بالکل چھوڑ دی ہے.جب بھوک لگی کوٹھڑی میں بڑی اور مٹھائی کھالی.منہ صاف کیا اور باہر چلی آئی.آخر اس طرح کب تک گزارہ ہو گا؟ اور گھر کب تک لٹتا رہے گا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تیرا بیاہ ایسی چٹوری اور منحوس لڑکی سے کر کے بہت ہی پچھتائے.یہ تو کچھ ہی دنوں میں بھرے گھر کا صفایا کر کے رکھ دے گی.بیٹا آخر اپنی ماں ہی کا لڑکا تھا وہ غصہ اور طیش میں اپنی والدہ محترمہ " " سے کس طرح پیچھے رہ سکتا تھا.یہ سنتے ہی اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چولھے میں سے جلتی ہوئی لکڑی کھینچ تین چار زور زور سے بیوی کے ایسی لگائیں کہ وہ تڑپ اٹھی اور کہنے لگا دفع ہو یہاں سے جا اپنے متا باوا کے ہاں جنہوں نے تجھے ایسا چٹورا بنایا.ہمارے گھر میں ایسی چٹوری عورت کا گزارہ نہیں ہو سکتا.خبر دار اب اس گھر میں قدم مت رکھیو.اگر حیادار ہو گی تو کنویں میں ڈوب مریو مگر ہمیں اپنی شکل نہ دکھائیو.اب یہاں بیٹھی ہوئی کیا اپنے اماں باوا کو رو رہی ہے.چل اُٹھ اور نکل یہاں سے یہ کہہ کر دو تین لکڑیاں اس کے اور ماریں اور ہاتھ پکڑ کر کھڑا کر دیا.لاجونتی سارے گھر کا بُرا بھلائن رہی تھی مگر اسے خفیف سی امید اس بات کی تھی کہ شوہر آئے گا تو شاید میرے ساتھ کچھ نرمی کا برتاؤ کرے مگر وہ آیا تو اس نے سب ہی پر پڑا دے مارا.بیوی کے ساتھ بیٹے کا یہ سلوک دیکھ کر ماں کی باچھیں کھل گئیں اور بے اختیار اس کے منہ پر ہنسی آگئی.جب شوہر نے ہاتھ پکڑ کر بیوی کو کھڑا کر دیا تو لاجونتی نے نظر اوپر اٹھائی اور غضبناک شوہر کی طرف ایسی التجا اور حسرت کے ساتھ دیکھا کہ سنگدل سے سنگدل انسان کا دل بھی نرم پڑ جاتا مگر بے درد خاوند پر کچھ اثر نہ ہوا.وہ بڑے غصے کے ساتھ بیوی کو دروازے تک گھسیٹتا ہوا لے گیا اور وہاں پہنچ کر زور سے ایک لات اس کی کمر میں ماری اور دروازہ بند کر کے واپس آ گیا.مظلوم، مجروح اور مضروب لاجونتی نے مڑ کر شوہر کے مکان پر اس مکان پر جہاں اس نے سہاگ کے دو تین مہینے بہت تکلیف اور مصیبت کے ساتھ بسر کئے تھے ایک نگاہ ڈالی اور خاموشی کے ساتھ آہستہ آہستہ روانہ ہو گئی.
211 210 اس کا جسم جلتی ہوئی لکڑی کی چنگاریوں سے جگہ جگہ سے جل گیا تھا.اس کا تمام بدن لکڑی کی ضرب سے زخمی ہو گیا تھا.اس کے کپڑے لکڑیوں میں الجھ کر پھٹ گئے تھے مگر وہ اسی حالت میں خاموشی کے ساتھ آگے چلتی گئی.اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ تین چار منٹ میں وہ اس کو ئیں پر پہنچ گئی جس سے سارے گاؤں کی عورتیں پانی بھرا کرتی تھیں مگر اتفاق سے اس وقت کوئی عورت وہاں موجود نہ تھی.لاجونتی نے یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا.وہ کوئیں کی من پر بیٹھ گئی اور چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد اس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کئے.جب اتار چکی تو ایک اینٹ ان پر رکھ دی تا کہ کپڑے ہوا سے اُڑ کر کوئیں میں نہ جا پڑیں.اس کے بعد کھڑی ہوئی اور ایک چھلانگ میں کوئیں کی تہہ میں پہنچ گئی.موت کا تلخ اور کڑوا پیالہ تھا جو جاہل گھر والوں اور ظالم شوہر کے ہاتھوں نہایت حسرت و الم کے ساتھ بدنصیب لاجونتی کو پینا پڑا.اتنی ذلت، اتنی بے عزتی اور اس قدر سب وشتم کے بعد اس کی غیرت وحمیت نے گوارا نہ کیا کہ وہ اس پر مصائب دُنیا میں زندہ رہے اور مزید تکالیف برداشت کرے.جب لاجونتی کی لاش گاؤں سے پوسٹ مارٹم کے لئے شہر کے سرکاری شفا خانے میں پہنچی تو میں اس وقت اسٹنٹ سرجن صاحب کے پاس بطور مہمان مقیم تھا.میں نے کہا ڈاکٹر صاحب! میں نے آج تک کبھی پوسٹ مارٹم ہوتے نہیں دیکھا خواہش ہے کہ ایک دفعہ دیکھوں.اس وقت اتفاق سے یہ موقع آ گیا ہے مجھے بھی ساتھ لے چلیں“ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ”نظارہ سخت ہوتا ہے اور تم نرم دل ہو“ میں نے کہا ” میں برداشت کر لوں گا‘ فرمانے لگے ”اچھا چلو“ چنانچہ ہم دونوں لاش گھر پہنچے.شوہر اور سرے وغیرہ میں سے تو کوئی ساتھ نہ تھا.نمبردار اور گاؤں کے دوسرے لوگوں سے جو ارتھی کے ساتھ آئے تھے جب ڈاکٹر صاحب نے متوفیہ کی موت کا سبب پوچھا تو انہوں نے کچھ تامل کے ساتھ وہ دردناک کہانی بیان کی جو آپ نے اوپر پڑھی.لاش کا پوسٹ مارٹم شروع ہوا.میں پاس کھڑا تھا.سر کی کھوپڑی اُتاری گئی سینہ چیرا گیا.پیٹ چاک کیا گیا.آنتیں، پھیپھڑے اور گردے نکالے گئے.معدہ دیکھا گیا.یہ ہیبت ناک نظارہ میرے لئے واقعی بہت سخت تھا مگر جس طرح بنا دل پر جبر کئے میں پاس کھڑا دیکھتا رہا اور بدنصیب لا جونتی کو جوان مرگی پر افسوس کرتا رہا.یکا یک ڈاکٹر صاحب نے کہا ”سمعیل! یہ دیکھو کیا ہے؟" میں نے گھبرا کر جو گردن موڑی تو میز پر ایک شفاف جعلی رکھی تھی.جو ڈاکٹر صاحب نے رحم میں سے نکالی تھی.میں نے دیکھا کہ جھلی میں پانی بھرا ہوا ہے اور پانی کے بیچ میں چاول کے برابر ایک چھوٹا سا پہلا تیر رہا ہے.یہ معلوم ہوتا تھا کہ چینی یا ہاتھی دانت کی ایک بہت خوشنما تصویر ہے.تعجب اس بات کا تھا کہ اتنے چھوٹے سے پتلے میں تمام انسانی اعضاء بالکل صاف صاف اور نمایاں نظر آ رہے تھے.کئے میں نے انتہائی حیرت سے پوچھا ”ڈاکٹر صاحب! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے مغموم آواز میں جواب دیا ”کم بختوں نے دو (2) خون یہ اسٹنٹ سرجن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل تھے جو اس وقت سونی پت ضلع رہتک میں تعینات تھے اور میں ان کے بلانے پر چند روز کے لئے ان کے پاس گیا ہوا تھا.
213 212 (116) دق کا کیڑا ماسٹر نذیر احمد انداز ایک نہایت ہنس مکھ اور ہر وقت خوش رہنے والے انسان ہیں مگر نہ معلوم کیا بات تھی کچھ دنوں سے نہایت مضمحل اور تھکے تھکے سے رہنے لگے تھے.خفیف بخار بھی انہیں قریباً روزانہ رات کو چڑھ آتا تھا.بظاہر اس کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی تھی.آخر اپنی بیماری سے انداز صاحب قدرتاً نہایت پریشان رہنے لگے.بخار روز بروز تیزی اختیار کرتا گیا.یہاں تک کہ اب اکثر اوقات وہ اسکول بھی نہ آ سکتے اور بستر ہی پر پڑے ہوئے بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہتے.جوان آدمی کو چند روز بھی بخار آ جائے تو اس کے انجر پنجر ڈھیلے ہو جاتے ہیں.یہی حال انداز صاحب کا ہوا.شروع شروع میں تو انداز صاحب نے اس بیماری کی قطعاً پرواہ نہ کی اور یہی سمجھا کہ معمولی بخار ہے.جاتا رہے گا.اس لئے علاج معالجہ کی طرف توجہ نہ کی مگر جب بخار نے جانے کی بجائے زیادہ حدت اور تیزی اختیار کی تو اب انداز صاحب کو درحقیقت فکر پیدا ہوئی.چنانچہ ایک دن علی الصبح وہ ایک مقامی حکیم صاحب کے پاس گئے نبض دکھائی، حال بیان کیا.حکیم صاحب نے کچھ سوالات کئے اور پھر فرمایا کہ تمہیں دق ہے.تیسرا درجہ شروع ہو گیا ہے.بیمار ہوتے ہی کیوں نہ آ گئے اب کچھ نہیں ہو سکتا، حکیم صاحب کے اظہارِ مرض سے ماسٹر صاحب تو گویا بن آئی مر گئے.نہایت مغموم و مضمحل گھر آئے اور دھڑام سے بستر پر گر پڑے اور لگے سوچنے کہ نہ معلوم زندگی کی کتنی گھڑیاں باقی ہیں.خیر شکر ہے کہ ابھی تک شادی نہیں ہوئی ورنہ بیوی بیچاری زندہ درگور ہوتی.نتیجہ یہ ہوا کہ بخار زور کا چڑھ آیا اور انداز صاحب بخار کی شدت میں لگے بہکنے.خیر بخار تو شام تک اتر گیا مگر دق کا خوف ایسا دل پر چھایا کہ کھانا - پینا سب حرام ہو گیا.یہ قصہ پانی پت کا ہے اور انداز صاحب اس وقت حالی مسلم ہائی اسکول پانی پت میں مدرس تھے.خیر جب ماسٹر صاحب مدر سے گئے تو وہاں اپنے اور میرے محترم دوست شیخ محمد بدر الاسلام فصلی بی اے.بیٹی سے جو اس وقت اسی ہائی اسکول میں سیکنڈ ماسٹر تھے، سارا واقعہ بیان کیا.انہوں نے صلاح دی کہ مقامی شفاخانہ کے اسٹنٹ سرجن کو بھی دکھا لو دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں؟ انداز صاحب شفاخانہ پہنچے اور ڈاکٹر صاحب سے مرض کی تمام کیفیت بیان کی مگر یہ نہ کہا کہ اس سے پہلے ایک حکیم صاحب کو بھی دکھا چکا ہوں“ انہوں نے حال غور سے سنا اور پھر کہنے لگے ” مجھے تمہاری جوانی پر رحم آتا ہے مگر یہ کہے بغیر چارہ بھی نہیں کہ تم دق میں مبتلا ہو.دھرم پور جاؤ اور علاج کراؤ شاید بیچ جاؤ.“ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب اور نسخے لکھنے میں مصروف ہو گئے.حکیم جی نے بھی یہی بتایا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی یہی تجویز کیا تو اب ماسٹر صاحب کے درد و الم کی انتہا نہ رہی.انہیں اپنی موت سامنے نظر آنے لگی اور وہ مرنے کے لئے قریباً تیار ہو کر واپس اسکول آ گئے.شفاخانہ سے واپس آ کر ماسٹر صاحب نے فضلی صاحب سے کہا ” لیجئے اب کچھ دنوں میں آپ سے ہمیشہ کیلئے جدائی ہو جائے گی.اس نامراد مرض میں مبتلا ہو کر آج تک کوئی بیجا بھی ہے جو میں بچوں گا ؟“ فضلی صاحب نے اپنے دوست کو بہت تسلی و تشفی دی اور کہنے لگے بہت ممکن ہے کہ تشخیص ٹھیک نہ ہوئی ہو اور حقیقتا تمہیں معمولی بخار ہو جسے غلطی سے دق سمجھ لیا گیا ہے تم ایک کام کرو.چھٹی لے کر ایک دن کے لئے سونی پت جاؤ.وہاں کے اسٹنٹ سرجن ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اپنے فن میں
215 214 نہایت کامل اور حاذق ہیں انہیں دکھاؤ ماسٹر صاحب نے کہا جانے کو تو میں تیار ہوں لیکن ان سے سفارش کون کرے؟ فضلی صاحب نے میرا نام لیا اور شام کو ماسٹر صاحب میرے پاس آئے.واقعہ بیان کیا اور کہا ”ایک خط ڈاکٹر صاحب کو لکھ دیں“ میں نے حضرت استاذی المحترم ڈاکٹر میر محمد اسمعیل کے نام انہیں ایک تعارفی عریضہ لکھ دیا.جسے لے کر ماسٹر صاحب دوسرے دن سونی پت پہنچے.رقعہ پڑھ کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ”آپ بیٹھ جائیں میں جب روزانہ کے مریضوں سے فارغ ہو جاؤں گا تو اطمینان سے آپ کو دیکھوں گا“ مانی صاحب بیچارے ماسٹر صاحب بیچارے نہایت امید و بیم کی حالت میں کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے.دو پہر کو بارہ (12) بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب مریضوں سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے کہ ہاں صاحب اب چلئے آپ کا ملاحظہ کروں“ وہ انہیں کمرے میں لے گئے اور ایک میز پر لٹا دیا.اپنی جیب سے سینہ دیکھنے کا آلہ نکالا اور بہت غور کے ساتھ ملاحظہ شروع کیا.بیچ میں بہت سے سوالات بھی کئے.اور آخر میں کہنے لگے ”میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تمہیں نہ تو دق ہے اور نہ دق کے آثار ہیں.“ ماسٹر صاحب : جناب! پانی پت میں تو حکیموں اور ڈاکٹروں نے متفقہ 66 طور پر دِق ہی تجویز کی ہے.ڈاکٹر صاحب : ماسٹر صاحب ! اپنی اپنی تشخیص ہے.مجھے دوسرے کے خیال پر رائے زنی کرنے کا کوئی حق نہیں میں تو آپ کو صرف اپنی رائے بتا رہا ہوں.“ ماسٹر صاحب : اچھا ڈاکٹر صاحب! اگر مجھے دق نہیں تو پھر ہمیشہ بخار کیوں رہتا ہے.ڈاکٹر صاحب : اس کی وجہ میں ابھی پانچ منٹ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں.آپ ذرا بالکل سیدھے لیٹ جائیں اور منہ کھول لیں.“ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے شیشے کی الماری میں سے ایک بیحد چمکدار اور نہایت باریک تار جو شاید جست کا تھا یا تانبے کا یا شاید اور کسی دھات کا نکالا.تار کے سرے پر ایک دوسری ڈبیہ میں سے ذرا سی دوائی لگائی اور اُس تار کو ماسٹر صاحب کے حلق سے نیچے اُتارنا شروع کیا.جب کافی اُتار چکے تو تار سینہ پر جا کر آخر ٹھہر گیا.اب ڈاکٹر صاحب نے احتیاط سے بہت آہستگی کے ساتھ تار کو باہر کھینچنا شروع کیا، یہاں تک کہ پورا تار باہر آ گیا.جب تار باہر آ گیا تو ماسٹر صاحب نے نہایت ہی حیرت کے ساتھ دیکھا کہ اس کے سرے پر جہاں دوائی لگائی تھی ایک بہت ہی چھوٹا کیڑا چھٹا ہوا ہے جو زندہ تھا اور حرکت کر رہا تھا.اس عجیب و غریب عمل کے بعد ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے ”بس ماسٹر صاحب! اٹھ کر بیٹھ جائیے اب آپ بالکل تندرست ہیں یہی دق تھی جو آپ کے سینہ پر چمٹی ہوئی تھی اور یہی کیڑا تھا جو اس غلط تشخیص کا باعث بنا ہوا تھا اور اس ہی کی وجہ سے آپ کو بخار بھی رہتا تھا اور طبیعت بھی مضمحل رہتی تھی.انشااللہ اب ان میں سے کوئی بات نہ ہو گی.آپ بخوشی اپنے گھر جا سکتے ہیں.“ ماسٹر صاحب نے رُک رُک کر فرمایا ڈاکٹر صاحب! بہت ممکن ہے کہ ابھی اور کوئی کیڑا چمٹا ہوا ہو اور تھوڑے دنوں کے بعد پھر میری وہی حالت ہو جائے.“ اس پر ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہنے لگے "ماسٹر صاحب یہ آپ کا خیال ہی خیال ہے اب کوئی کیڑا اندر نہیں رہا.اگر ہوتا تو اس دوائی پر لگا چلا
216 آتا.تا ہم آپ کا پورا اطمینان کئے دیتا ہوں.“.یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے پھر وہی تار دوائی لگا کر ماسٹر صاحب کے حلق میں سے نیچے اُتارا.اب جو اُسے نکالا تو بالکل صاف تھا.ماسٹر صاحب راستہ بھر یہ سوچتے چلے آئے کہ ڈاکٹر کیسا عجیب انسان اظہار تشکر محترم حکیم محمد رفیع ناصر صاحب ( ناصر دوا خانہ ربوہ ) اس کتاب کی اشاعت میں مالی معاونت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.ہے اور وہ کس حیرت انگیز فراست کے ساتھ مرض کی تہہ تک پہنچ گیا.وہ اب تک بھی کہا کرتے ہیں کہ غلط تشخیص سے میں مرنے کے بالکل قریب ہو گیا تھا مگر صحیح تشخیص اور درست علاج سے دوبارہ زندہ ہو گیا.کہ میرے والد محترم میاں محمد شفیع صاحب مرحوم لا ہور پولیس میں ملازم تھے.اور میرے چچا قادیان جا کر احمدیت قبول کر چکے تھے...میری پیدائش 1928 کی ہے والدہ محترمہ رسول بی بی صاحبہ 1930 میں وفات پا گئی تھیں میرے والد صاحب مجھے بتایا کرتے تھے.کہ ایک دن تمہاری والدہ نے مجھے کہا کہ ”ہمیں قادیان جاکر بیعت کرلینی چاہئے.جن کی مخالفت ہوتی ہے وہ بچے ہوتے ہیں تو میں نے کہا کہ آج کے بعد میں تمہارے منہ سے یہ بات نہ سنوں.میری والدہ کی وفات کے بعد والد محترم پولیس کی ملازمت چھوڑ کر قادیان چلے گئے اور احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی.الحمد اللہ اب میرے بیٹے عبدالسمیع حامی دار لصدر جنوبی کے صدر ہیں.ہم حکیم صاحب کی اس پیشکش پر اُن کے شکر گذار ہیں اور دعا گو ہیں.کہ اللہ تعالیٰ اُن کے والدین کے درجات بلند فرمائے آمین.اور اہلِ خاندان کو نسلاً بعد نسل اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.آمين اللهم آمین فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء في الدارين خيراً شعبہ اشاعت لجنہ اما اللہ کراچی
217 دُعائے من حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے منظوم کلام سے چند اشعار تو ہی دوا ، تو ہی طبیب ، تو ہی مُحِب تو ہی حبیب خدائے من، خدائے من، قبول کن دُعائے من زمین و آسماں کا نُور ، مکاں و لا مکاں سے دُور ہمہ صفت ، ہمہ سُرور ، خدائے ذوالجلال طور غَفور قبول کر دُعا ضرور ، میرے خدا ، میرے خدائے من ، خدائے من قبول کن دُعائے من معاف کر سزا میری ، گناہ میرے جفا میری و قبول کر دُعا میری ، صدا التجا میری کہ بخشا نہیں کوئی ، ہوا ترے خطا میری خدائے من ، خدائے من قبول گن دُعائے من ہماری تو پکار سُن ، صدائے اشکبار سُن نوائے بیقرار سُن ، ندائے اضطرار من دُعائے شرمسار سُن ، اے میرے غمگسار سُن خدائے من ، خدائے من قبول کن دُعائے من گناه سے ہم کو دور رکھ ، دلوں کو پریز نور رکھ نشے میں اپنے چور رکھ ، ہمیشہ پر سرور رکھ نظر کرم کی ہم پہ تو ، ضرور رکھ ، ضرور رکھ خدائے من ، خدائے من قبول کن دُعائے من پڑھیں کلام حق بشوق ، عبادتوں میں آئے ذوق اُتار غفلتوں کے طوق ، اُڑیں فضامیں فوق فوق (جاری) ! مصنف مرتبه...........آپ بیتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب...........امة الباری ناصر شمارہ نمبر 86 تعداد 1000....Aap Beeti, By Hadhrat Dr.Meer Mohammad Ismaa'eel "
28 30 48 160 28 152 20 128 290 162 120 160 72 لی یه 54 192 252 88 64 168 280 32 28 100 80 20 160 219 29 " بموت الی اللہ دعوت الی اللہ کے طریق 30 " SAYYEDNA BILAL " بچوں کے لئے انگریزی میں حضرت سیدنا بلال کی زندگی کے حالات - 31 " خطب القا " سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا خطبہ 23 مارچ 1990 32 " حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشر " خطابات حضرت خلیفہ مسیح الرابع 33 " میرے بچپن کے دن" حضرت مولوی شیر علی کے حالات زندگی 34 " ری الانبیاء" انبیاء کرام کے مستند حالات زندگی 35 " عہدیداران کے لئے نصائح " سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا 31 اگست 1991 کا طاب.36 " گلدسته " تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب 37 " سيرة وسوانح حضرت محمد ) بطرز سوال و جواب ).38 " دعائے مستجاب " دُعا کا طریق اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دعا کے واقعات 39 " ہماری کہانی " محترم حاجی عبدالستار آف کلکتہ کے حالات 40 کلام طاہر" سیدنا حضرت خلیفتہ امسح الرابع کا شیریں کلام معہ فرہنگ 41 " انبیاء کا موعود" سیرت النبی "پر بچوں کے لئے سلسلے کی پانچویں کتاب - حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ اسیح الثالث" حضرت طاہر و صدیقہ صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب زندگی 43 " ترکیبیں " آسان کم خرچ خالص اشیاء بنانے کی ترکیبیں." " 44 " قندیلیں" سبق آموز واقعات 45 " جماعت احمدیہ کا تعارف دعوت الی اللہ کے لئے ضروری معلومات 46 " سیرت حضرت محمد اللہ ولادت سے نبوت تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب.47 " نماز" باتر جمعه با تصویر گلشن احمد" پندرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب.49 " عاجزانہ راہیں" حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات کی روشنی میں.50 " اچھی کہانیاں بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں.51 " قوارير قوامون" حصہ اوّل.52 " دلچسپ سبق آموز واقعات " از تقاریر حضرت مصلح موعود سیرت حضرت محمد ہے نبوت سے ہجرت تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب 496 160 28 20 32 16 20 76.40 40 88 104- 68 42 216- 24 48 24 58 92- 480- 48 72- 28 224- 144- 24 53 48 " 54 144- " 55 204 252 بچے احمدی کی ماں زندہ باد..کتاب تعلیم" 56 " تجلیات الہیہ کا مظہر محمد علی 57 " احمدیت کا فضائی دور 60 218 1 فہرست کتب اخلاق حسنہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا خطبہ 25 مارچ 1988 ء بمقام لندن 2 "مقدس ورثہ " بچوں کی لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی پہلی کتاب 3 4 سبز اشتہار اور لیکچر سیالکوٹ " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں.کو نیل پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب 5 " چشمہ زمزم" بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی دوسری کتاب - 6 " غنچہ " سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب اس میں تصویروں کے ساتھ وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے 7 8 10 11 ضرورة الامام اور لیکچر لدھیانہ " حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں."THE NAZARENE KASHMIRI CHRIST " دنیا پور کی مجلس عرفان " قواریر قوامون "اصلاح معاشرہ پر کتاب "گل" دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب مکمل نماز با ترجمہ ایک بابرکت انسان کی سرگزشت " حضرت عیسی کی زندگی کے حالات 12 " افاضات ملفوظات" حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے اقتباسات 13 14 اصحاب فیل " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب بیت بازی " درنشین، کلام محمود در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار 15 " پانچ بنیادی اخلاق " حضرت خلیفہ اسح الرابع کا خطبہ 24 نومبر 1989.خلیفہ مسیح 16 تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں الله 17 حضرت رسول کریم ﷺ اور بچے " 18 " صد ساله تاریخ احمد بیت " بطر ز سوال و جواب.19 " فتوحات " حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انداری پیشگوئیاں 20 " بے پردگی کے خلاف جہاد" جلسلہ سالانہ 1982ء خواتین سے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطاب.21 آداب حیات" قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں مجالس عرفان " حضرت خلیفہ مسیح کی مجالس سوال وجواب 23 واقفین نو کے والدین کی راہنمائی کے لئے ".24 مدبرکات الدعاء اور مسیح ہندوستان میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں 25 بدر گام ذیشان وہ منتخب نعتوں کا مجموعہ 26 الحمر اب " صد سالہ جشن تشکر نمبر 1989 27 من المحراب " سوواں جلسہ سالانہ نمبر 1991 28 " پیاری مخلوق " بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی چوتھی کتاب
صد سالہ خلافت جو بلی کا روحانی پروگرام سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صد سالہ خلافت جوبلی کا جو روحانی پروگرام عطا فر مایا ہے براہِ کرم اس پر بھر پور طریق سے عمل کریں :- 1- ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے جس کے لئے ہر قصبہ ، شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.2 دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جونماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.3 سورۃ الفاتحہ ( روزانہ کم از کم سات مرتبہ پڑھیں) -4 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَلَبَتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (2:251 ) ( روزانہ کم از کم 11 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مددکر.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَاذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (3:9) (روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.(روزانہ کم از کم 11 مرتبہ پڑھیں) -6 اللَّهُمُ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.ترجمہ: اے اللہ ہم تجھے ان (دشمنوں ) کے سینوں میں کرتے ہیں ( یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے ) اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں.7- اسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّاتُوْبُ إِلَيْهِ.( روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اس کی طرف.8 - سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍوَّالٍ مُحَمَّدٍ.(روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ اللہ تعالی پاک ہے اپنی حمد کےساتھ اللہ پاک ہے اور بہت عظمت والا ہے ا ے اللہ رحمتیں بھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر 9- مکمل درود شریف.(روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں ) 32 358 144 64 32 28 144 24 24 170 40 104 40 80 326 216 88 530 32 720 560 144 96 288 176 304 16 220 58 " امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے چھٹی کتاب 59 " بیعت عقبی اولی تا عالمی بیعت" - 60 " سیرت حضرت محمد مصنفہ کہ ہجرت سے وصال تک " بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب " 61 " انسانی جواہرات کا خزینہ " سیرت النبی پر بچوں کے لئے ساتویں کتاب " 62 " حضرت محمد مصطفے کا بچپن " سیرت النبی پر بچوں کے لئے آٹھویں کتاب - 63 " مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی " سیرت النبی پر بچوں کے لئے نویں کتاب 64 " جنت کا دروازہ ”والدین کی خدمت اور اطاعت، پاکیزہ تعلیم اور دلکش نمونے.65 " سیرت و سوانح حضرت محمد مصطف و آغاز رسالت "سیرت النبی پر بچوں کے لئے دسویں کتاب - 66 " کونپل (سندھی) پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی اور تربیتی نصاب 67 " ربوہ " منظوم کلام 68 " سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی میں ہے دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ " سیرت النبی پر بچوں کیلئے گیار ہو میں کتاب : 69 " جوئے شیریں " منتخب نظموں کا مجموعہ 70 " سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی و شعب ابی طالب وسفر طائف " سیرت النبی پر بچوں کے لئے بارہویں کتاب 71 " سفر آخرت " آداب و مسائل - 72 " دژین " مع فرهنگ 73 74 " ہجرت مدینہ مدینے میں آمد " سیرت النبی پر بچوں کیلئے تیرہویں کتاب.75 " مرزا غلام قادر احمد " خاندان حضرت مسیح موعود کا پہلا شہید مع تصاویر - " 76 مرو قلم " 77 " حضرت میر محمد اسمعیل صاحب " (جلد اوّل).78 " حضرت میر محمد اسمعیل صاحب " ( جلد دوئم).79 " جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ " ( احمدی بچوں کے لئے ) 80 " غیبت " ایک بدترین گناہ " 81 محسنات " ( احمدی خواتین کی سنہری خدمات).82 " حمد و مناجات "." بخار دل" کلام محمود مع فرهنگ." 83 " 84 85 ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ " ( نہ صرف شریعت کا حکم بلکہ سراسر انصاف و رحمت ہے ).." 86 " كتب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب " ( آپ بیتی، تواریخ بیت فضل لندن ، کرنہ کر )
سيد الاستغفار پڑھنے كى تحريك ارشاد حضرت خلیفہ اسیح الرابع اید اللہ تعالیٰ بنصر والعزيز سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 31 دسمبر 1998 ء کو عالمی درس قرآن میں فرمایا کہ رمضان کا مہینہ استغفار کا مہینہ ہے.بہت لوگ حاجت روائی کے لئے خط لکھتے ہیں.ان کو یادر ہے کہ حاجت براری سے پہلے استغفار ضروری ہے.رسول کریم ہوتا ہے کا وعدہ ہے کہ پھر ان کو رزق دیا جائے گا اور تنگیاں دور کر دی جائیں گی.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس شخص کو مبارک ہو جس کے نامہ اعمال میں استغفار بہت پایا گیا.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا جو استغفار عام لوگ کرتے ہیں وہ اس سے بہت مختلف جو آنحضرت علیہ فرمایا کرتے تھے.اس ضمن میں حضور ایدہ اللہ نے بخاری کتاب الدعوات سے آنحضرت علی کا استغفار پیش فرمایا اور فرمایا یہ بہت اعلیٰ مضمون ہے جن احباب جماعت کو اس کا عربی متن یا د رکھنا مشکل ہو اس کا ترجمہ اور مضمون حاضر رکھیں اور اپنے الفاظ میں استغفار کیا کریں.یہ سید الاستغفار ہے اس کو رمضان کے تحفے کے طور پر یا درکھیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی یقین کے ساتھ دن کو یہ دعا کرے اور شام سے پہلے مر جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا.اسی طرح جو شخص رات کو یہ دعا کرے اور صبح ہونے سے پہلے مر جائے تو وہ بھی اہل جنت میں شامل ہوگا.(الفضل 12 جنوری 1999ء) ذیل میں سید الاستغفار کا اصل متن اور ترجمہ درج کیا جارہا ہے.اللهُمَّ أَنتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ، خَلَقْتَنِي، وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِيَ فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ( صحیح بخاری کتاب الدعوات باب افضل الاستغفار حدیث نمبر 5831) ترجمہ: اے اللہ ! تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں حسب توفیق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، میں اپنے عمل کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں میں اپنی ذات پر تیری نعمتوں اور احسانوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں.پس تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں.