Language: UR
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 15 اپریل 1907ء کو جو مضمون مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ کے موضوع پر تحریرفرماکر 17 اپریل 1907ء کے بدر اخبار کے شمارہ میں شائع فرمایا تھا وہ ایک لمبے عرصہ سے موضوع بحث ہے، اس پر مناظرات بھی ہوچکے ہیں۔ محترم قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے مورخہ 14 دسمبر 1973ء کو اس موضوع پر ایک قیمتی مقالہ سپرد قلم فرمایا جس میں یہ ثابت فرمایا کہ مولوی ثناء اللہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فیصلہ کن قرار ہی نہیں دیا جس سے یہ مضمون کالعدم ہوگیا، مگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کے بعد ایک اعلان کے ذریعہ مولوی ثناء اللہ امرتسری اور دیگر مخالفین کو اپنے ایک خاص الہام کے من جانب اللہ ہونے پر مؤکد بعذاب قسم کھانے کی دعوت دی۔ اور خود مؤکد بعذاب قسم کھاکر دعوت دی۔ لیکن مولوی ثناء اللہ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس لئے یہ دعوت مولوی ثناء اللہ اور تمام مولویوں پر آخری اتمام حجت ہے۔ کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والے اس مختصر رسالہ میں جہاں مولوی ثناء اللہ سے پیش آمدہ واقعات و حالات کا زمانی تسلسل پیش کیا گیا ہے، وہاں ان دستاویزات سے استفادہ کرکے ان کا اصل عکس بھی مہیا کیا گیا ہے جو مولوی صاحب کی گریز پائی کو ثابت کرتی ہیں۔
اشتا مولوی ثنا اله صیاد کے ساتھ آخری فیصلہ پر تحقیقی مقالہ حضرمي دعليه السلام كے ذرية اُن پر اور تمام مخالفة مخالفین آخر فی اتمام حجت ا لم قال اندازی با امارات شری رامتین الناشر ستر میز نشده اشاعت نظارت اشاعت ارایم تصنیف بود
۱۵ اپریل نام کا جو مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے موضوع پر مورخہ دار اپریل شام کے.بدر میں شائع کرایا.وہ لیے عرصہ سے زیر بحث رہا ہے.اور اس پر مناظرات بھی ہوئے جمعیت الحدیث بھال نانو دانہ.لع لائل پور کا ایک اشتہار موجودہ مقالہ کے لئے محرک ہوا.اور تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے که مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس مضمون کو فیصلہ کن نہ قتدار دینے پر گریہ مضمون کا لعدم ہو گیا ، گر حضرت باقی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اس کے بعد ایک اعلان کے ذریعہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور دیگر مخالفین کو اپنے ایک خاص الہام کے من جانب اللہ ہونے پر مذکر بعذاب قسم کھانے کی دعوت دی.اور خود موکہ بعذاب قسم کھا کر دعوت دی.لیکھ مولوی صاحب نے اس کا کوئی جواب نہ دیا.اس لئے یہ دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے موادی ثناء اللہ صاحب اور تمام مخالفوں پر آخری اتمام محبت ہے.شکریہ از مولف : میں تہ دل سے مکرم مولوی فضل دین صاحب بنگوری حال مانگی ریورز کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس مضمون کے لکھنے کی طرف توجہ دلائی اور پھر بڑی محنت اللہ کوشش سے بعین خاصی دستاویزات مہیا کیں جن کی روشنی میں یہ مقالہ لکھا گیا ہے اور ان دستاویزات کا عکس اس مضمون سے منسلک کر دیا گیا ہے.جزاه الله احسن الجزاء في الدنيا و الآخرة مورخه ب وار و سر دارم قاضی محمد ندی ناظر اشاعت ارکید و تصنیف صدر انجمن احمد ید پاکستان ریوه
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ذریعہ مولوی ثناء اللہ صاحب دوسرے تمام مخالفین پیر آخری اتمام محبت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی میں موعود علی اسلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں علماء اور ۵۲ گدی نشین مشائخ کو ان کے نام بنام اپنے الہامات کے بارہ میں دعوت مباہلہ دی اور دعائے مباہلہ تحریرفرمانے کے بعد آپ نے بڑے زور دار الفاظ میں لکھا کہ :- میں یہ شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں مبتلا ہو جائیں اگر ایک بھی باقی رہا تومیں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دوہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.) انجام آنهم مت ) پھر اس کے آگے بطور شرط مباہلہ یہ بھی لکھا کہ :- میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم از کم دس آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور میں قدیر ہوں میری خوشی اور مراد ہے.کیونکہ بہتوں پر عذاب الہی کا محیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا ) انجام آتھم م ) اس کے آگے ص۶۹ تا ۷۲ تک دی گئی فہرست میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا نام گیارھویں نمبر پر تھا.مگر افسوس ہے کہ ان علماء اور گدی نشین مشائخ میں سے دس آدمی بھی آپ کے الہامات کے بارہ میں آپ کے سامنتھے مباہلہ کے لیے تیار نہ ہوئے ناحق وباطل میں خدا کا آخری فیصلہ بصورت مباہلہ صادر ہو جاتا اور عوام الناس کو اس خدائی فیصلہ سے واضح طور پر اور آسانی سے پتہ لگ جاتا کہ حق کسی طرف ہے.یہ چیلنج مباہلہ کتاب انجام آتھم میں کو دیا گیا تھا.چونکہ اس میں ہلہ میں ہی آدمی بھی مخالفوں کی طرف سے مباہلہ کے لیے تیار نہ ہوئے اس لیے مباہلہ وقوع میں نہ آسکا.
مولوی ثناء اللہ صاحب کا مباہلہ پر آمادگی کا اظلماً ره اس کے بعد شاہ میں ۲۹ ۳۰۱ اکتوبر شاہ کو مولانا سرور شاہ صاحب اور مولانا ثناء اللہ صاحب کے مابین موضع مد ضلع امرتسر میں مناظرہ ہوا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب اعجاز احمدی میں فرمایا اور اس میں یہ تحریر فرمایا کہ :- میں نے سنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور کے فیصلہ کے لیے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونو میں سے جھوٹا ہو وہ پہنچے کی زندگی میں ہی مر جائے.اور نیز یہ بھی خواہش ظاہر کی ہے وہ اعجاز مسیح کی مانند کتاب تیار کرے جو ایسی ہی فصیح بلیغ ہو اور انہیں مقاصد پر مشتمل ہو ، سو اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے خواہشیں دل سے ظاہر کی ہیں ، نفاق کے طور پر نہیں تو اس سے بہتر کیا ہے اور وہ اس امت پر اس تفرقہ کے زمانہ میں بہت ہی احسان کریں گے کہ وہ مرد میدان بن کر ان دونوں ذریعوں سے حق و باطل کا فیصلہ کر لیں گے یہ تو انہوں نے اچھی تجویز نکالی اب اس پر قائم رہے تو بات ہے “ لاعجاز احمدی ما پھر آگے اعجاز احمدی من پر تحریر فرمایا:.اگر اس پر وہ مستند ہوئے کہ کاذب صادقی کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے؟ مولوی ثناء اللہ صاحب کے مباہلہ سے فرار مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب دیکھں کہ حضرت مرزا صاحب مباہلہ کے لیے تیار ہیں تو وہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے بالمقابل مباہلہ سے فرار اختیار کر لیا، اور اپنی کتاب الہامات مرزا میں یہ لکھ دیا کہ :- چونکہ یہ خاکسار نہ واقع ہیں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول، ابن اللہ یا الہامی ہے اس لیے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا.میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرات نہیں." ر الهامات مرزا ض طبع دوم ) نگر الہامات مرز " میں مولوی صاحب اپنی اس درخواست مباہلہ کا انکار نہیں کر سکے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام
نے اعجاز احمدی میں ذکر کر کے لکھا تھا کہ :." اگر اس پر دستند ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے.غرض جب مولوی ثناء اللہ صاحب نے مباہلہ کی جرأت نہ رکھنے کا یہ عذر پیش کر دیا کہ وہ نبی اور رسول اور الہامی نہیں نہ اس کے مدعی تو چونکہ ان کی طرف سے یہ عذر سراسر نامناسب تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نجران کے عیسائی وفد کو دعوت مباہلہ دلائی تھی جن میں سے کوئی بھی نبی اور رسول اور الہامی ہونے کا مدعی نہیں تھا اس لیے ان کے اس فرار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس طرح صداقت دعوئی ظاہر ہو گئی ہے جس طرح نجران کے عیسائی وفد کے مباہلہ سے فرار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دعوئی ظاہر ہوگئی تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس عذر بے جا پر دو شخصوں علی احمد صاحب کلرک میانمبر اور ثناء اللہ صاحب کلرک میں نمبر نے یکے بعد دیگر ے مولوی ثناءاللہ صاحب کو چٹھیاں لکھیں اور مباہلہ کرنے پر مجبور کیا، چنانچہ پہلے شخص کی چٹھی مولوی ثناء اللہ صاحب نے ۲۵ مٹی کے اخبار اہل حدیث کے صہ پر اور دوسرے صاحب کی چٹھی اخبار اہل حدیث ۲۲ جون شاہ صے پر درج کی، انکے دباؤ سے مجبور ہو کر مولوی نشاء اللہ صاحب نے لکھدیا کہ :- البته آیت ثانیه رفَقُلْ تَعَالَو نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَابْنَا وَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وانْفُسَنَا وَانْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَه رباره ۳ ) سلام را پر عمل کرنے کو ہم تیار ہیں.میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لیے تیار ہوں جو آیت مرقوعہ سے ثابت ہوتا ہے؟ ) اخبار اہل حدیث ۲۲ جون شدم مولوی ثناء اللہ صاحب کےساتھ آخری فیصدیدرایڈعامباہلہ کی تقریب اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب حقیقۃ الوحی لکھنے میں مصروف تھے جس میں آپ اپنی پیشگوئیاں لکھ رہے تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مباہلہ اس کتاب کو مولوی ثناء اللہ صاحب کے پڑھ لینے کے بعد ہو، مگر اسی دوران مولوی شاء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ والے ۱۵ اپریل شاہ کے اشتہار شائع کیا جانے کی تقریب یوں پیدا ہو گئی کہ فروری عشاء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم لکھا اور اس میں آپ نے دو آریوں کو اپنی ان پیشگویوں کے متعلق جن کے وہ گواہ تھے اپنے بالمقابل قسم کھانے کی دعوت دی اور لکھا کہ :." میں قسم کی کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں پہچ ہیں اگر یہ ٹھوٹ ہیں تو خدا ایک سال کے اندر میرے پر اور
..میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی مزاد سے آمین.ولعنة اللہ علی الکاذبین قادیان کے آریہ اور ہم ایسی ہی لالہ سر میت آریہ کو قسم کھانے کی دعوت دی اور ملا وامل کے متعلق بھی لکھا:.ایسا ہی طلا وائل کو چاہیئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھا دے کہ یہ سب افترا ہے.اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پرا در میری تمام اولاد پر خدا کا عذاب نازل ہو آمین ولعنة اللہ علی الکاذبین قادیان کے آریہ اور ہم مش۳ ) اس کتاب کے شائع ہونے پر شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر احکیم نے اس رسالہ کی ایک کاپی مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھیج کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل قسم کھانے کی تجویز پیش کی اور لکھا کہ : " اب ثناء اللہ نے بھی کوئی نشان صداقت بطور خارق عادت نہیں دیکھا تو وہ بھی قسم کھا کر پر کھے ہے.نا معلوم ہو کہ خدا کس کی حمائت کرتا ہے اور کس کو سیا کرتا ہے ؟ اخبار الحكم ، ا مارچ اصلا کالم ۲) اس تجویز پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے ایک نا مناسب اور غیر سنجیدہ عنوان قادیانی گپ کے تحت لکھا:.ہم تمہارے کرشن کی کذب بیانی پر قسم کھانے کو طیار ہیں آؤ جس جگہ چاہو ہم سے سم دلو لو مگر پہلے یہ شائع کر دو کہ اس قسم کا نتیجہ کیا ہوگا.ہم حلفیہ کہ دیں گے کہ مرزا غلام احمد قا دیانی کو ہم خدا کی طرف سے مامور نہیں جانتے.بلکہ اعلیٰ درجہ کا جھوٹا ، مکار اور فریبی ہے اور اس کی کوئی پیشنگوئی خدائی الہام نہیں ہے " اور پھر مباہلہ کے لیے للکارتے ہوئے لکھا :- مرزائیو اگر سچے ہو تو آو اور اپنے گرد کو ساتھ لاؤ.وہی میدان عبید گاہ تیار ہے جہاں تم ایک زمانہ میں صوفی عبد الحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو، امرتسر میں نہیں تو بٹالہ میں آؤ.سب کے سامنے کا روائی ہو گی مگر اس نتیجہ کی تفصیل اور تشریح کرشن جی سے پہلے کرا دو اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لیے دعوت دی ہوئی ہے؟ ر اخبار المحدیث ۲۹ مارچ شك ) مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس آمادگی اور مباہلہ کے لیے لکار پر ایڈیٹر صاحب اخبار بد رتے ہم را پریل شاہ کے پرچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منظوری سے لکھنا :- عم آسمانی ذلت اٹھانا جھوٹ ہے ، دیکھو ضمیمہ انجام آتھم میں حضرت مرزا صاحب اس مباہلہ کی دس برکات کا ذکر فرماتے ہیں جو آپ کی عزت کا موجب ہوئیں.(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۰۲ تا ۳۱۷ )
میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے انکے چیلنج کو منظور کر لیا ہے وہ بے شک قسم کھا کر یہ بیان کریں کہ یہ شخص اپنے دعوئی میں جھوٹا ہے اور بے شک یہ کہیں اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنۃ اللہ علی الکاذبین اور اس کے علاوہ ان کو اختیار ہے کہ اپنے جھوٹا ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے لیے جو عذاب اپنے لیے چاہیں مانگیں.اگر آپ اس بات پر راضی ہیں کہ بالمقابل کھڑے ہو کر زبانی مباہلہ ہو تو پھر آپ قادیان آسکتے ہیں اور اپنے ساتھ دس تک آدمی لا سکتے ہیں اور ہم آپ کا زاد آپ کے یہاں آنے اور مباہلہ کرنے کے بعد پچاس روپیہ تک دے سکتے ہیں، لیکن یہ امر ہر حالت میں ضروری ہوگا کہ مباہلہ کرنے سے پہلے فریقین میں شرائط تحریر ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں گے یا ) اخبار بدر ۴ را بپریل شاه ) 19-6 مولوی ثناء اللہ صاحب جب مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی طرف سے منظوری کی اطلاع پای اورانہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قسم کے ساتھ لعنة اللہ علی الکابین کے " کا مباہلہ سے فرار ساتھ دعا بھی کرنا پڑے گی جس سے یہ قسم مباہلہ بن جاتی ہے اور مباہلہ سے دراصل ان کی جان جاتی تھی اور وہ صرف ایسی قسم کھانا چاہتے تھے جو روزانہ لوگ عدالتوں میں لعنة اللہ علی الکا زمین کے بغیر کھاتے ہیں اس لیے انہوں نے مباہلہ والی قسم کھانے یا قادیان آگر زبانی مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور لعنۃ اللہ علی الکاذبین کی دعا کئے بغیر عدالتوں میں کھایا جانے والی قسم پر آمادگی ظاہر کی وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ انہیں نتیجہ پہلے بتا دیا جائے جس کے متعلق جواب انہیں یہ دیا جا چکا تھا کہ " ان کو اختیار ہے کہ اپنے جھوٹا ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے لیے جو عذاب اپنے ( اخبار بدر ۱۴ اپریل ۱۹۷) لیے چاہیں مانگیں : اس بات کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے منظوری کی اطلاع ملنے پر مولوی منا نے زبانی مباہلہ سے بھی انکار کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے بالمقابل قسم کے ساتھ لعنة اللہ علی انگارمین کی کی دعا مانگنے کے لیے بھی وہ تیار نہ ہوئے یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اخبار بدر ۴ اپریل شاہ والے مضمون منظورٹی مباہلہ کے جواب میں ۱۹ار اپریل شاہ کے پرچہ میں جو دراصل ایک ہفتہ پیشگی ۱۲ اپریل شاہ کو ہی شائع کر دیا تھا لکھا کہ :- (1) افسوس ہے میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر سمیں کھائیں.حلف اور قسم تو ہمیشہ ہر زاور عدالتوں میں ہوتی ہے ،
لیکن مباہلہ اس کو کوئی نہیں کتنا " ر اختیار اہلحدیث مذکور صبہ کالم سطر ۲۱ تا ۲۵) دیکھئے اس عبارت میں مولوی ثناء اللہ صاحب مباہلہ سے فرار اختیار کر رہے ہیں حالانکہ ۲۲ جون شاہ کے ریہ اہلحدیث میں وہ قل تعالوا نزاع ابناءنا الآية کے مطابق مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر پچکے ہوئے تھے ، لیکن جب قسم کے ساتھ دعائے مباہلہ لعنۃ اللہ عل الکا زمین کرنے کی تقریب پیدا ہو گئی تو وہ عدالتوں والی قسم کھانے پر تو آمادگی ظاہر کرتے ہیں اور مباہلہ سے جان بچانا چاہتے ہیں پھر ڈنگ مارتے ہوئے 19 را پریل شاہ کے پرچہ اہلحدیث تک میں سو ۱۲ را پریل شاہ کو شائع کر دیا تھا یہ بھی لکھتے ہیں:.(۳) یہ نہیں کہ آپ سے مباہلہ کرنے سے ڈرتا ہوں معاذ اللہ جب میں آپ کو محض خدا کے واسطے ایک مفسد اور دجال جانتا ہوں نہ کہ اب بلکہ سالہا سال سے تو میں آپ سے مباہلہ سے کیوں کر ڈر ) اخبار مذکور صلہ کالم اسطره ) سکتا ہوں.سوچنے کی بات ہے اگر ڈرتے نہیں تو قادیان آگرہ زبانی مباہلہ کے لیے کیوں آمادہ نہ ہوئے جب کہ قادیان میں اگر مباہلہ کیلئے آنے پر نوزاد راہ دیئے جانے کابھی مسیح موعود علی اسلام کی طرف سے اعلان ہو چکا تھا.پھر مولوی صاحب آگے لکھتے ہیں :.(س) میں نے حلف اٹھانا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا نہ میں نے لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہنا لکھا تھا قسم اور ہے مباہلہ اور ہے قسم کو مباہلہ کہنا آپ جیسے راستگوؤں کا ہی کام ہے اور کسی کا نہیں ؟ رضے کالم ۲) دیکھیئے لالہ ملد وائل وغیرہ سے قسم کے ساتھ جھوٹے پر امنت ڈالنے کا مطالبہ تھا ویسی ہی قسم کھانے کو مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہا گیا تھا مگر مولوی صاحب اس پر آمادہ نہ ہوئے کیونکہ لعنة اللہ علی الکاذبین والی دعا اس مقابلہ کو مباہلہ بنا دیتی تھی جس سے دراصل ان کی جان جاتی تھی.پس ان کا مباہلہ والی دعائے لعنة اللہ علی الکاذبین سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل ڈرنا ظاہر ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب اسی پریچہ میں بالآخر یہ لکھتے ہیں:.اسی (۳) سردست تو جہاں سے بات چلی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے کہنے کے مطابق دیکھیو الحکم ) مارچ شاہ ہم قسم کھانے کو تیار ہیں قسم کے الفاظ بھی ہم نے لکھ دیئے ہیں اور آپ نے منظور کمر لیے ہیں باقی فضول " مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ بیان غلط ہے کہ قسم الفاظ بغیر لفا اللہ علی الکا مبین کی دعا کے منظور کر لیے گئے تھے کیونکہ اخبار بدر میں منظوری کی اطلاع دیتے ہوئے انہیں لکھا گیا تھا.
بے شک یہ کہیں کہ اگر میں چھوٹا ہوں تو لعنۃ اللہ علی الکاذبین گر مولوی ثناء اللہ صاحب تو صرف عدالتوں میں ہمیشہ روزانہ قسم کھائی جانے والی قسم کی طرح قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم میں بالتقابل قسم مؤکد بہ لعنت کے لیے لکھا تھا اور یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ عدالتوں والی قسم نہیں ہوگی جو دو دو آنے لیکر لوگ کھا لیتے ہیں بلکہ بالمقابل قسم ہوگی اور وہ بھی جھوٹوں پر لعنت کی دعا کے ساتھ ہوگئی نا پتہ لگے کہ خدا بھی ہے.(۵) پھر اس پرچہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ بھی لکھی :- " بے شک الفاظ مباہلہ مقرر ہو چکے ہیں جن پر ہم نے تمہارے ہی منقولہ مضمون میں خط دیدیا ہے جن کو تم نے بھی منظور کر لیا ہے " یہ عجیب بات ہے کہ اس عبادت میں مولوی ثناء اللہ اپنے قسم کے الفاظ کو الفاظ مباہلہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ اسی پرچہ میں وہ یہ لکھ چکے ہیں.} میں نے حلف اٹھا نا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا نہ میں نے لفظ اللہ علی الکاذبین کہنا لکھا تھا قسم اور ہے مباہلہ اور ہے قسم کو مباہلہ کہنا آپ جیسے راستنگوؤں کا ہی کام ہے اور کسی کا نہیں ؟ اخبار اہل حدیث 19 اپریل شاہ کالم اسطر) کیا یہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی دورنگی نہیں کہ وہ اپنی قسم کے الفاظ کو مباہلہ کے الفاظ بھی کہہ رہے ہیں حالا نکہ اسی مضمون میں با لمقابل قسم کو ایڈیٹر بر حضرت مرزا صاحب کی منظوری والے مضمون کے جواب میں اس کو مباہلہ قرار دینے پر معترض بھی ہیں اور اسے راست گوئی کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور خود اسی مضمون میں یہ بھی لکھ چکے ہیں.مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں (اخبار الحدیث و دراپریل تا صدا کالم ) پس مقابلہ پر ایسی قسم کھانے کے لیے مولوی ثناء اللہ صاحب آمادہ بھی نہیں تھے جو دعائے لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے ساتھ کھائی جائے اور اپنی قسم کے الفاظ کو الفاظ مباہلہ بھی کہ رہے تھے اور سے ار ALL صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں " کا مصداق بن رہے تھے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے وار اپریل شاہ کا پرچہ ۱۲ اپریل شاہ کو ایک ہفتہ پہلے شائع کر دیا تھا میں کو 19 وہ پیشگی زکوۃ نکالنے کی طرح قرار دے چکے ہیں.یہ پرچہ ۱۲ اپریل شاہ کو جاری ہوگی ۱۳ کو نہیں تو ما را پر یل را کو قادیان پہنچا ہو گا.جب یہ پرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر سے گزرا تو اس سے آپ یہی تاثر ہے سکتے تھے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب بظاہر یہ کہتے ہیں کہ وہ مباہلہ سے ڈرتے نہیں لیکن در حقیقت وہ اس مباہا ملاحظہ ہو حاشیہ پرچہ اہل حدیث ۱۹ را پریل شید : معدت میں سفر سے آیا تو ۱۲ را پریل کشاء کا اخبار مرتب تھا اور مرزا صاحب کے مباہلہ کا جواب جلد دنیا تھا اس لیے وا کا بھی اسی ہفتہ تیار کیاگیا امید ہے اس جمع تقدیم کو تقدیم زکوۃ پر نیاس فرمائیں گے.ایڈیٹر فه اه مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ فقرہ با پله کا جواب دنیا مختصا“ کا مضمون به سلسله مباله ی خونی مگرافسوس کہ مولوی تھانے کو بعد میں نظر نہ کیا اور جواب ہیں وہ اس مائلہ سے فرار کر گئے.کیوں کہ وہ جان چکے تھے کہ نہیں سیالہ کے لیے بلایا گیا تھا میں سے وہ پہلے بھی جان بچاتے رہے.(قاضی محمد نذیر لائلپوری )
والی قسم کھانے پر آمادہ بھی نہیں حالانکہ لعنۃ اللہ علی الکاذبین کی دعا کے ساتھ قسم کھانے کی منظوری انہیں آپ کی طرف سے دی گئی تھی لہذا ان کے مباہلہ سے ڈر کو واشگاف کرنے کے لیے دار اپریل شاہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نئے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ والا مضمون ان کے نام بطور کھلی چٹھی کے شائع فرما دیا.اس میں آپ نے اپنی طرف سے دعائے مباہلہ شائع فرما دی.دعا کا مضمون یہ تھا کہ کا ذب صادق کے سامنے ہلاک ہو جائے اور اس کھلی چٹھی کے آخر میں لکھا کہ :.بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ میں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے “ لکھدیں گویا اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو اس فیصلہ کی طرف بلایا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں دعا کے ذریعہ ہلاک ہو.اس پر مولوی ثنا اللہ صاحب نے یہ مضمون اپنے ۲۶ اپریل شاء تم ملحدیث کے پر درج کیا.اور اس سے پہلے صفحو پر کرشن جی جان چھڑاتے ہیں کے عنوان سے لکھا :.کرشن جی نے خاکسار کو مباہلہ کے لیے بلایا جس کا جواب اہلحدیث و ر ا پریل شاہ میں مفصل دیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں حسب اقرار خود تمہارے کذب پر حلف اٹھانے کو تیار ہوں بشرطیکہ تم یہ بتا دو کہ اس حلف کا نتیجہ کیا ہوگا.اس کے جواب میں کرشن جی نے ایک اشتہار دیا ہے جو لقول شخصے سوال از آسمان جواب از رلیمانی اپنی اس عبارت میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو اعتراف ہے کہ انہیں مباہلہ کے لیے بلایا گیا تھا مگروہ اس کے جواب میں مباہلہ کی بجائے صرف کذب پر حلف اٹھانے کو تیار تھے وہ بھی اس شرط کے ساتھے کہ انہیں پہلے بتا دیا جائے کہ اس حلف کا نتیجہ کیا ہو گا.سو جب ۱۸ اپریل شاہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے دعائے مباہلہ شائع کرادی اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھے آخری فیصلہ کرنا چاہا جس کے لیے بقول مولوی ثناء اللہ صاحب انہیں بلایا گیا تھا ور اسی لیے انہیں فہمائش کی گئی تھی کہ وہ اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں تو یہ دعا کے ذریعہ طریق فیصلہ سوال از آسمان جواب از ریماں تو نہ ہوا البتہ مولوی صاحب کی محض عدالتوں میں کھائی جانے والی قسم کی طرح لعنۃ العلی الکاذبین کی دعا کے بغیر قسم کھانے پر آمادگی انہیں مباہلہ پریپیڈیا جانے کا صیح جواب نہ تھا بلکہ ان کا یہ جواب واقعی سوال از آسمان جواب از رلیماں کا مصداق تھا اور اس سے ثابت ہو رہا تھا کہ ان کی ۲۲ جون شتہ کے اہلحدیث میں دو شخصوں کے مجبور کرنے پر مباہلہ پر آمادگی بھی محضر - ایک دکھاوا تھا.کیونکہ بعد میں جب انہیں مباہلہ کے لیے بقول ان کے بلایا گیا تو انہوں نے جواب میں لکھ دیا تھا کہ : - آگے چل کر مولوی صاحب کی نا منظوری سے ظاہر ہو گا جان وہ خود چھڑاتے ہیں.کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ یہ دوا حضرت مرزا صاحب کی
" افسوس ہے کہ میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر آپ میا للہ کہتے ہیں.مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں - اخبار اہل حدیث ۱۹ را پریل ساده ) واضح ہو کہ اس مقابلہ میں تو فریقین کا ہی قسم کھانا مطلوب تھا نہ کہ مولوی ثناء اللہ صاحب سے میل فر قسم کھانے کا مطالبہ تھا، ہر حال ۲۶ را پریل شاہ کے پرچہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے اعتراف کر لیا ہے کہ انہیں مباہلہ کے لیے ہی بلایا گیا تھا مگر وہ بجائے مباہلہ کے صرف قسم کھانے پر آمادہ تھے اور لعنۃ اللہ علی الکاذبین کی دعا اس قسم کے ساتھ مانگنے کے لیے وہ تیار نہ تھے جیسا کہ ان کے پرچہ اہل حدیث ۱۹ اپریل شاہ سے ظاہر ہے اُسے کہنا چاہیے " مولوی ثناء اللہ کا مباہلہ سے جان چھڑانا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو نہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے آپ نے ۱۸ اپریل شہداء کو اپنی طرف سے دعا مباہلہ شائع کرادی تا اگر وہ مباہلہ سے واقعی نہیں ڈرتے تو اس طریق فیصلہ کو قبول کرلیں، ورنہ اس طریق فیصلہ کا انکار کر دیں تا ان کا مباہلہ سے جان چھڑانا اور فرار بالکل واضح ہو جائے یہ بات آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کی مرضی پر چھوڑ دی تھی ، اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھدیں" کے فقرہ کا مطلب یہی تھا کہ یادہ فیصلہ کا یہ طریق جو خدا کے حضور دعا میں پیش کیا گیا ہے مان لیں یا اس کا انکار کردیں.مان لیں گے تو مباہلہ واقع ہو جائے گا اور نہ مانیں گے تو ان کا انکار صاف طور پر الم نشرح ہو جائے گا.مولوی ثناء اللہ صاحب کا مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس فیصلہ والے مضمون کو اپنے ۲۶ اپریل مشاہ کے پرچہ میں درج کرنے کے بعد جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دعا کی اشتہار کی منظوری سے انکار منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا ہے ، اگر میں مرگیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا محبت ہو سکتی ہے آپ مر گئے تو تمہیں ماننے والے کہدیں گے دعائیں تو نبیوں کی بھی قبول نہیں ہوئیں.تمہاری یہ دعا کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہو سکتی.آپ نے لکھا تھا کہ خدا کے رسول رحیم وکریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت اور مصیبت میں نہ پڑے گر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں؟ پھر مت کالم اول میں صاف طور پر جان چھڑانے کے لیے اس طریق فیصلہ سے انکار کر تے ہوئے لکھا کہ:.مختصر یہ کہ میں تمہاری درخواست کے مطابق حلف اُٹھانے کو طیار ہوں اگر تم اس حلف کے نتیجے سے مجھے اطلاع دو اور یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے؟ ) اہلحدیث ۲۶ ر ا پریل ششه ) اس سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیش کردہ اس دعا کے طریق فیصلہ
}.کو نا منظور کر کے اسے کالعدم قرار دیدیا اور اس طرح اسے فیصلہ کن اور محبت نہ رہنے دیا اور صرف قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کردی گھر جس قسم کھانے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منظور کیا جا چکا تھا اس میں تو یہ فہمائش بھی تھی کہ یہ قسم لا لعنة الله على الکاذبین کی دعا کے ساتھ کھائی جائے اور یہ مباہلہ کی صورت تھی نخود مولوی ثناء اللہ صاحب پر چہ اہل حدیث ۲۶ اپریل شاہ ص پر لکھ چکے ہیں.کرشن جی نے خاکسار کو مباہلہ کے لیے بلایا جس کا جواب اہل حدیث 19 اپریل شاه ) جو در اصل ۱۲ اپریل شاہ کو شائع ہوا تھا.ناقل) میں مفصل دیا گیا " گویا مباہلہ سے انکار کر دیا کیونکہ وہ واب یہ تھا کہ میں نے قسم اٹھانا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا نہ میں نے لعنة علی الکاذبین کہنا لکھا تھا.ملاحظہ ہو اہل حدیث وار اپریل نشاء صف کالم اول سطر - اب جب مولوی صاحب نے اشتہار ۵ار اپریل شاہ کو اپنی نا منظوری سے کا لعدم کر دیا اور صرف قسم کھانے پر ہی آمادگی کا اظہار کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سمجھ لیا کہ یہ طریق فیصلہ بھی بذریعہ اس دعا گئے کاذب صادق پہلے ہلاک ہو جائے.مولوی ثناء اللہ صاحب کی نا منظوری کی وجہ سے کالعدم ہوگیا ہے اور اب مخالفوں کے لیے محبت نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر بالفرض مولوی ثناء اللہ صاحب پہلے وفات پا جائیں تو مولوی صاحب کے ہوا خواہ اہل حدیث کہ سکتے تھے کہ ہمارے لیے مولوی صاحب مرزا صاحب سے پہلے مرجانا ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ انہوں نے تو ۲۶ اپریل نشاء پرچہ اہلحدیث میں مرزا صاحب کے اس طریق فیصلہ کونا منظور کر دیا تھا اور صرف قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کی تھی اور صاف لفظوں میں یہ لکھ دیا تھا کہ تمہاری یہ تحریر مجھے منظور نہیں.اہل حدیث کے نائب ایڈیٹر کی طرف ہواور اپریل شاہ کے اہلحدیث کے حاشیہ فیصلہ خدائی بر مسلمات ثنائی منہ پر حضر مسیح موعود علیہ صب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ ثناءاللہ والے مضمون کے جواب میں یہ بھی لکھدیا گیا تھا: آپ اس دعوی میں قرآن شریف کے صریح خلاف کہہ رہے ہیں قرآن تو کتنا ہے بدکاروں کو خدا کی طرف سے صحت ملتی ہے سنو ! مَنْ كَانَ فِي الضَّلَةِ فَلْيَمْدُ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدّام مہلت (ع) اور اِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزدادوا تاج ربٍ ، وَيَمُدُّ هُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ 0 ( ) وغیرہ) آیات تمہارے اس دجل کی تکذیب کرتی ہیں اور سنو ابلُ مَتَّعْنَا هؤُلَاءِ وَآبَاءَ هُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ع ) جن کے صاف یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ الیز دادو کے لفظ میں نام عاقبت سے مرادیہ ہے کہ مدت تو خدا اصلاح کے لیے دیتا ہے لیکن نتیجہ وہ گناہ میں پڑھتے ہیں پس خدا در اصل بڑے کام کرنے کے لیے مہلت نہیں دیتا.(قاضی محمد نذیر) N 14
جھوٹے، دنا باز مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی بڑے کام کر لیں.پھر تم کیسے من گھڑت اصول بتلاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی کیوں نہ ہو دھوئی تو مسیح، کرشن اور محمد احمد بلکہ خدائی کا ہوا اور قرآن میں یہ لیاقت ذَالِكَ مُبْلَغُهُم مِن العلم “ نائب ایڈیٹر مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے نائب ایڈیٹر کے اس بیان کے متعلق لکھا ہے : - میں اس کو صحیح جانتا ہوں " اخبار اہل حدیث اس جولائی شار صت ) 9 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا در اصل یہی عقیدہ تھا کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جھوٹا پیچے کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :.یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا پیچھے کی زندگی میں مرجاتا ہے ہم نے تو دیکھا ہے کہ مباہلہ کر نے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ پیچے کی زندگی میں مرجاتا ہے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اعداد ان کی زندگی میں ہلاک ہو گئے تھے ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے، ہائی چھوٹا مباہلہ کرنے والا بیچے کی زندگی میں ہلاک ہوا کرتا ہے.ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے.15193 ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھنا چاہیئے ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے بیچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں ؟ (اخبار المحکم قادریان ۱۰ اکتوبر سنشه) اس عبارت سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ اشتہار مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ میں جو دعا شائع کی گئی وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی طرف سے بطور مسودہ دعائے مباہلہ کے ہی شائع کی گئی تھی، لہذا جب مولوی ثناءاللہ صاحب نے اس کے جواب میں یہ لکھ دیا کہ تمہاری یہ تحریر مجھے منظور نہیں، تو یہ مباہلہ وقوع میں نہ آسکا اور یہ اشتہار اس بنا پر مولوی ثناء اللہ صاحب کے ایسے فیصلہ کن نہ قرار دینے کی وجہ سے مولوی ثناء اللہ صاحب کے مباہلہ سے فرار کا ایک اور ثبوت بن گیا.یہیں جب یہ اشتہار مباہلہ وقوع میں نہ آنے کی وجہ سے محبت اور فیصلہ کن نہ رہا اور کالعدم ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے اس کے بعد حضرت میں موعود علیہ اسلام کوآپ کے الہام قرب اجلك المقدرمندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق وفات دیدی اور مولوی ثناء اللہ صاحب کو کئی مسلمہ اصل کے مطابق کہ خدا تعالیٰ جھوٹے ، دنا باز وان مفید اور نافرمان لوگوں کولمبی عمریں دیا کرتا ہے.تاکہ وہ اس مہلت میں اور کبھی بڑے کام کر لیں (اہل حدیث ہر پریل قصہ مانی) عبی ملت دیدی کہاں تک کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی اکناف عالم میں نمایاں ترقی دیکھیکہ وفات پائی.یہ ظاہر ہے کہ اشتہار مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ ان کے وار اپریل عشاء والے پرچہ کے درجو پیشگی ۱۷ را پریل کومولوی صاحب نے شائع کر دیا تھا جواب میں ہی تھا اگر بالفرض مولوی ثناء اللہ صاحب اسے یکطرفہ دعا ہی جانتے تھے تو تب بھی یہ دعا 19.5
۱۲ ان کی طرف سے نامنظوری کے بعد لوگوں کے لیے حجت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب کی وفات حضرت مسیح موعود عل السلام سے پہلے ہو جاتی تو ان کے ہم خیال کر سکتے تھے کہ ہم اس وجہ سے مولوی شاء اللہ صاحب کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس طریق کو اپنے جواب میں انہوں نے فیصلہ کن نہیں جانا تھا اور یہ کہ اس طریق فیصلہ کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ :- یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے؟ راہل حدیث ۲۶ / اپریل صلا ۱۹ئ) پھر مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ لکھ کر بھی اس کے حجت ہونے کو ریڈ کر دیا تھا کہ :.اس مضمون کو بطور الهام شائع نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر تم مرگئے تو تمہارے دام افتادہ حسن کم جہاں پاک " کہ کمر یہ عذر کریں گے کہ حضرت صاحب کا یہ الہام نہیں تھا بلکہ محض دعا تھی.یہ بھی کہ دیں گے دعائیں تو بہت سے نبیوں کی بھی قبول نہیں ہوئی.اہل حدیث ۲۶ را پریل شاشه حدت کالم اول ) میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مرگیا تو میرے منے سے اور لوگوں پر کی محبت ہو اور پھر آگے لکھا تھا :- سکتی ہے..) اخبار مذکور مث کالم اول ) اس سے ظاہر ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے دعا کو کسی صورت میں بھی نہ احمدیوں کے لیے محبت جانا تفا نہ غیر احمدیوں کے لیے اور ان وجوہ اور ایسی ہی اور وجوہ سے اس کو ماننے سے انکار کر D دیا تھا اور اس کی منظوری نہ دے کر اسے محبت ہونے میں مؤثر نہ رہنے دیا تھا.ایک شبہ کا جواب جمعیت اہل حدیث جھیل خانووانہ ضلع لائل پور نے ۵ار اپریل شاہ کا اشتہار مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کی عبارت اپنے ایک اشتہار میں درج کر کے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی اس کے متعلق نا منظوری کو از را و خیانت بیان نہ کر کے لکھا ہے :.پورے دس دن بعد مرزا صاحب نے آخری فیصلہ کے متعلق یہ بیان دیادہ ثناء اللہ
کے متعلق جو گھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد گئی ایک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا کہ اجنب دعوة الداع (میں نے دعا قبول کر لی ہے صوفی کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہی ہے باقی سب اس کی شاخیں ہیں ؟ " ) اخبار پدر ۲۵ اپریل شده ) آگے لکھتا ہے :.ہمارا بھی ایمان ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ دعا یقینا قبول ہوئی.اسی اخبار" بدر" نے اطلاع دی کہ مرزا صاحب مورخہ ۱۲۶ مئی 9 کو بروز منگل قریباً ساڑھے دس بجے دن کے یہ مرض ہیضہ اس طرح کہ ایک بڑا دست آیا اور نبض بالکل بند ہو گئی.ر اخبار بدر ۲ جون نشاء ۳۰ کالم )) جمعیت مذکورہ نے ان ہر دو عبارتوں میں یہودیانہ تحریف سے کام لیا ہے.بدر ۲ جون شد سے اگر جمعیت مذکور بہ مرض ہیضہ کے الفاظ دکھا دے تو اسے پانچ صد روپیہ انعام دیا جائے گا اور اگر نہ دکھا سکے اور وہ ہرگز نہیں دکھا سکے گی تو صاف ظاہر ہے کہ جمعیت مذکورہ نے اخبار بدر" کا حوالہ پیش کرنے میں تحریف کی ہے اور صریح جھوٹ سے کام لیا ہے.اسی طرح پہلی عبارت میں بھی سخت تحریف سے کام لیا ہے.بدر ۲۵ را پر بل شاہ کی تحریر میں ہرگزنہ آخری فیصلہ والے اشتہار کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ثناء اللہ کے لفظ سے پہلے وہ کا لفظ موجود ہے جو آخری فیصلہ والے اشتہار کے مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہو اور آگے بند کی بجائے جو کچھ کے لفظ موجود ہیں." بدر" میں یہ ۱۴ را پریل شاہ کی ڈائری شائع ہوئی ہے.یہ تعریف اس لیے کی گئی ہے کہ ان الفاظ کا تعلق مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ والے 10 اپریل شاہ والے اشتہار سے ظاہر کیا جائے حالانکہ اس میں شفاء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے سے مراد ہماراپریل سکنہ سے پہلے کی تحریریں ہیں جو مباہلہ کے متعلق لکھی گئی تھیں کیونکہ یہ عبارت ۱۴ را پریل کی ڈائری کی ہے جو ۲۵ را پریل کشش کے پرچہ میں دس دن بعد شائع ہوئی اس ڈائری کا تعلق ہرگز ه ا ر ا پریل شاہ والے مولوی ثناء اللہ صاحب کے آخری فیصلہ والے مضمون نہیں.بلکہ اس عبارت کا تعلق مولوی ثناء اللہ کے مباہلہ کے متعلق ہم از اپریل شاہ سے پہلے لکھی گئی تحریروں سے
ہے اور یہ تحریریں رسالہ اعجاز احمدی اور ۴ اپریل ان کے اخبار بد کی ہیں." ، اعجاز احمدی میں آپ نے لکھا تھا: اگر اس پروہ (مولوی ثناء اللہ، ناقل) مستند ہوئے کہ کا ذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے : (رساله اعجاز احمدی ۳ ) اور ہم اپریل شنا کے اخبار بدر میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق یہ لکھ گیا تھا کہ."بے شک وہ قسم کھا کر یہ بیان کریں کہ یہ شخص حضرت مرزا صاحب نافل ) اپنے دعوئی میں چھوٹا ہے اور بے شک یہ کہیں اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنة اللہ علی الکاذبین اور اس کے علاوہ اس کو اختیار ہے کہ اپنا جھوٹا ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے لیے جو عذاب بچا ہیں مانگیں.) اخبار بدر ۴ ر ا پریل شده ) م پی شاء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا کے الفاظ کا تعلق ان باتوں سے ہوا جو انہیں مباہلہ کے لیے مویش از میں یعنی ہمارا پریل سے پہلے لکھی جاتی سرمیں اس جگہ اسی مباہلہ کی بنیاد کا خدا کی طرف سے رکھا جانا مذکور ہے.کیونکہ مباہلہ کی بنیاد العام الہی کی بنا پر رکھی گئی تھی.وہ الہام آئینہ کمالات اسلام مطبوعہ ۱۹۹۳ کے ۲۲, ۲۹۵ پر درج ہے اور اسی بنا پر آپ نے کفر کا فتوی دینے والے علماء کو دعوت مباہلہ دی تھی.الهام ۱۵ - اپریل 19.العام أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ جو ۱۴ / اپریل سکنہ کو ہوا اسی سلسلہ مضامین کی ایک کڑی تھی مینو مباہلہ کے لیے مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق اس تاریخ سے پہلے لکھے گئے تھے.ے والے اشتہار کے دس دن بعد نہیں ہوا تھا بلکہ ۱۸ اپریل شاہ کے الحکم میں را پر بیل کے الہامات کے سلسلہ میں دار اپریل عشاء کے تین دن بعد شائع ہوگیا تھا نہ کہ دس دن بعد اس کے ہمارا اپریل اپریل ایک ہونے کا زبر دست تاریخی شوت یہ بھی ہے کہ مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو وار اپرای شاد کو تازہ الہامات لکھے کہ دینے کی درخواست کی تو اس درخواست پر حضرت مسیح موعود علی السلام نے ۱۴ را پریل کر عہ کی تاریخ ڈال کر پہلا الهام أجِيبُ دَعْوَةَ الشراع درج فرمایا.مکرم مفتی صاحب کی یہ درخواست اور اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر کا عکس درج ذیل ہے.
: حضرت اقدش در شد تا و چدنیا سیخ موجود و مهدی بیهوده السلام میرم معتہ الرحات - آج النشا و امور اخبار کی آخری کالی کہی جائے گی.حضور تازہ انعامات سے بر طلع فرما نو نی ہے.حضور کی جوتیوں کا تسلیم مایه شیر وقت عید در عین 16.4.07 19.5 ار اپریل کی 12 : فہرست مصاحب ہے ربیع مصر خدا کی نامزہ رھی دعوة الداع - ترجمه - این دعا کرنے والے دیے کی دعا کو قبول کرتا ہوں یروهای مهاری - عمانی کام کی یہ ان شابک موارد بر من طبقة ۰۰ انت متن طریقه () --- ر این مجلو ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا رات ایک اسلام اور کمی
14 دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الهام أجِيبُ دَعْوَةَ الراع کا ترجمہ خود یہ کیا ہے.میں دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں.鳋 لہذا جمعیت مذکورہ اہل حدیث کا ترجمہ" میں نے دعا قبول کرلی غلط ترجمہ ہے جو یہ دھو کا اپنے کے لیے کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آخری فیصلہ والی دعا کی قبولیت کا الہام دن بعد ہو گیا تھا ، حالا نکہ اجیب کا لفظ فعل مضارع ہے مگر دھوکا دینے کے لیے جمعیت مذکورہ نے اس کا ترجمہ بصیغہ ماضی کر دیا ہے.چونکہ اس الہام کا تعلق بھی مولوی ثناء اللہ صاحب سے متعلقہ ان تحریروں سے تھا جو ما را پریل شاہ سے پہلے مباہلہ کے سلسلہ میں لکھی جا چکی تھیں لہذا اس سلسلہ میں اس الہام کا مفہوم ہوا کہ خدا مباہلہ کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہے فریقین کی طرف سے بد دعا یا لعنۃ اللہ علی الکاذبین کی دعا کرنے سے واقع ہوتا ہے لہذا یہ الہام یہ سلسلہ ماہ یہ بتاتا ہے کہ فریقین کی طرف سے مباہلہ وقوع میں آجانے پر دعا خدا کی طرف سے قبول کی جاتی ہے.جب مولوی ثناء اللہ صاحب مباہلہ کے لیے آمادہ نہ ہوئے نہ ہمارا پریل شاہ سے پہلے اور نہ اس تاریخ کے بعد اس لیے موادی ثناء اللہ صاحب کے اشتہار مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کی منظوری نہ دینے کی وجہ سے یہ اشتہار کالعدم ہوگیا اور بالکل موثر نہ رہا کیونکہ یہ الہام مولوی ثناء اللہ صاحب کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے حق میں حجت اسی وقت ہو سکتا تھا کہ مولوی صاحب مباہلہ منظور کر لیتے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اس دعا کو کیطر و قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس اشتہار میں آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو منی طب کر کے لکھا تھا کہ :- سنت اللہ کے موافق آپ کذبین کی سزا سے نہیں بیچیں گے اشتہار مذکور مندرجہ اہل حدیث و راپر یل نگاه) اور سنت اللہ کی ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جھوٹا پیچے کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا یہ عقیدہ اخبار الحکم، ار اکتوبر شاہ سے لیکر پہلے اس مضمون میں درج کیا جا چکا ہے چونکہ اشتہار مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنت اللہ کے ذکر کے بعد یہ لکھا تھا:.پس اگر وہ سنرا جو انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے آتی ہے.طاعون ہمینہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.اشتهار مذکوره مندرجہ اہل حدیث ۳۶ ر اپریل شاه کار) ر ایسے مولوی ثناء اللہ صاحب طاعون کے لفظ سے گھبرا گئے کیونکہ ان دنوں طاعون پڑی ہوئی تھی اور کھد یا کہ آپ نے بڑی چالا کی یہ کی ہے کہ دیکھا ان دنوں طاعون کی شدت ہے.....کہ انہیں صورت میں مردوں کا اٹھانا مشکل ہو رہا ہے.ایسی صورت میں ہر شخص طاعون سے خائف ہے اور
کوئی آج اگر ہے تو کل کا اعتبار نہیں اور دیکھنے میں بھی ایسا ہی آیا ہے کہ وہ ہے تو یہ نہیں اور یہ ہے مث کالم تو وہ نہیں ایسے وقت میں طاعون ہیضہ وغیرہ کی موت کی دعا محض حسن بن صباح کی دعا کی طرح ہے نا اہلحدیث اور پریا نام به عبارت مولوی ثناء اللہ صاحب کے خدا تعالیٰ پر توکل نہ رکھنے اور طاعون سے ہلاکت کی دعا سن کہ گھبرا جانے کا نتیجہ ہے چنانچہ اس مقابلہ سے جان چھڑانے کے لیے انہوں نے اپنے جواب کے آخر میں صاف لفظوں میں لکھد یا کہ: - مختصر یہ کہ میں تمہاری درخواست کے مطابق حلف اٹھانے کو تیار ہوں اگر تم اس کے نتیجے سے مجھے اطلاع دو اور یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی رانا اس کو منظور کر سکتا ہے.14.6 ر اخبار اہل حدیث ۲۲ اپریل سه صد کالم اول ) اس طرح مولوی ثناء اللہ صاحب نے بد دعا والے مقابلہ سے انکار کر کے اور اس کی منظوری آخری اتمام حجت از دیگر جان تو چترالی اور اشتہار کا مینمون فیصلہ کن بنا دیا اور صرف حلف اٹھانے پر آمادگی اور نتیجہ بتایا جانے کی پہلے کی طرح رٹ لگائی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر انکا پیچھا کیا.چونکہ وہ طاعون سے ڈر کر خدا پر عدم توکل کی وجہ سے اس مقابلہ سے بھاگتے تھے.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اپنے طاعون سے بچایا جانے کے متعلق اپنا العام إني أحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدّاری پیش کر کے تمام مخالف مسلمانوں.آریوں اور عیسائیوں کو مولوی ثناء اللہ صاحب کے جواب کے چار دن بعد ہی اخبار الحکم ۳۰ اپریل شنشہ میں ایک دعوت دے دی کہ.اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ یہ انسان کا افترا ہے یا یہ خدا کا کلام نہیں تو اسے چاہیئے کہ ایسا ہی افترا وہ بھی شائع کرے یا قسم کھا کر یہ شائع کرے کہ یہ خدا کا کلام نہیں تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ خدائے قدیر اس کو اس بے باکی کا جواب دیا " ذیل میں اس دعوت کی پوری عبارت الحکم ۳۰ را پریل شاہ صث سے نقل کی جاتی ہے.او ناظرین کی توجہ کے لائق اور مخالفوں سےایک استفسار "دنیا کے ملوک اور سلاطین میں یہ رسم ہے کہ جب ان کا کوئی غضب کسی شہر پر نازل ہوتا ہے اور اس شہر کے باشندوں کے قتل کے لیے عام حکم دیا جاتا ہے تو اس صورت میں اگر کس شخص کو اس سلطنت سے خاص تعلقات ہوتے ہیں تو اس شخص اور اس کے خیال واطفال کی نسبت فرمان شاہی صادر ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے مال اور عزت اور جہان پر کوئی شاہی سپاہی عملہ نہ کرے ایسا ہی حضرت عزت جلشانہ
کی عادت میں داخل ہے کہ جس شخص کو اس کی جناب میں کوئی تعلق عبودیت ہے تو اس زمانہ میں جب قمر اور غضب المنی زمین پر نازل ہوتا ہے اور ایک عام قتل کا حکم نافذ ہوتا ہے تب ملانگ کو جناب حضرت عزت جلشانہ سے فہمائش کی جاتی ہے کہ اس گھر کے محافظ رہیں نہیں یہی بھید ہے کہ سبب عام طاعون دنیا میں نازل کی گئی تو اسی ابتدائی زمانہ دستام میں جب اس ملک میں طاعون شروع ہوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ اِنِّی أَحَافِظُ كُلَّ مَن فِي الدار يعني ہر ایک شخص جو اس گھر کی چار دیواری کے اندر ہے میں اس کو طاعون سے بچا ؤنگا چنانچہ قریباً گیارہ برس ہوئے جب یہ الہام ہوا تھا اور اس مدت میں لاکھوں انسان اس دنیا سے نکار طاعون ہو گہ گزر گئے ، لیکن ہمارے اس گھر میں اگر ایک کتا بھی داخل ہوا تو وہ بھی طاعون سے محفوظ رہا یہ کس قدر عظیم الشان معجزہ ہے، لیکن ان کے لیے جو آنکھ بند نہیں کرتے اب بھی اگر کسی کو برگمان ہے کہ یہ انسان کا افتراء ہے یا یہ خدا کا کلام نہیں تو اسے چاہیئے کہ ایسا ہی افتراء وہ بھی شائع کرے یا قسم کھا کہ یہ شائع کرے کہ یہ خدا کا کلام نہیں پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ خدائے قدیر اس کو اس بے باکی کا جواب دیگا اگر تم مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک سیر کر و تو تمام دنیا میں تمہیں کوئی ایسا علم نہیں ملیگا کہ خدا نے اس کو طاعون کی نسبت یہ تسلی دی ہو کہ وہ اس کے گھر میں نہیں آئے گی چاہیئے کہ ہمارے مخالف مسلمان اور اگر یہ اور عیسائی ضرور اس بات کا جواب دیں والسلام علیٰ من التبع الهدى مزرا غلام احمد عنا الله عنه مسیح موعود بلفظه الحکم ۳۰ ر ا پریل شنشائه مہ کالم علا سطر علیدا انمبر۱۵ بلفظہ اخبار بدر اور مٹی شاه جلد نمبر ۱ صفحه با کالم علا سطرها یہ مضمون پڑھکر نہ مولوی ثناء اللہ ٹس سے مس ہوئے اور نہ کوئی اور شخص تو بہ جوان عشائر اعلان بار دوم کو آپ نے اعلان بار دوم کے عنوان کے تحت یہی دعوت پیش کرتے ہوئے بالخصوص مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی عبدالجبار اور عبدالواحد اور عبدالحق غزنوی ثم امرتسری اور جعفر زٹلی لاہوری اور ڈاکٹر عبدالحلیم خان اور ان کے ہمرنگ لوگوں کو مخاطب کیا.اعلان بار دوم کا مضمون یہ ہے.اعلان باردوم بد ربه جون کنشه M رمن أَظْلَمُ مِمَّن افسر بن عَلَى اللهِ كَذِباً از كرب بايد ) افسوس کہ اس ملک کے اکثر لوگ جو مولوی کہلاتے یا مہم ہونے کا دم مارتے ہیں جب
19 خدا تعالیٰ کا کلام ان کو سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ افتراء ہے.انہیں لوگوں پر اتمام حجت کرنے کے لیے میں نے کتاب حقیقۃ الوحی تالیف کی ہے.کب تک یہ لوگ ایسا کریں گے آخر ہر ایک فیصلہ کے لیے ایک دن ہے اور ہر ایک قضاء و قدر کے نزول کے لیے ایک رات ہے اس وقت نمونہ کے طور پر خدا تعالیٰ کا ایک کلام ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور بالخصوص اس جگہ مخاطب میرے مولوی ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری اور مولوی عبد الجبار اور عبد الواحد اور عبدالحق غزنوی ثم امرتسری اور جعفر کی لاہوری اور ڈاکٹر عبدالحکیم خاں اسٹنٹ سرجن تراوڑی ملازم ریاست پٹیالہ ہیں ، اور وہ کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ وَأَحَافِظُكَ خَاصّة ترجمہ اس کا بموجب تقسیم الہی یہ ہے کہ میں ہر ایک شخص کو جو تیرے گھر کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا اور خاصکہ تجھے.چنانچہ گیارہ برس سے اس پیشگوئی کی تصدیق ہو رہی ہے اور میں اس کلام کے منجانب اللہ ہونے پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کی تمام کتب مقدسہ پیر اور بالخصوص قرآن شریف پر اور میں گواہی دیت ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے ہیں اگر کوئی شخص مذکورہ بالا اشخاص میں سے یا جو شخص ان کا ہمرنگ ہے یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ انسان کا افتراء ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ قسم کھا کہ ان الفاظ کیسا تھ بیان کرے کہ یہ انسان کا افتراء ہے خدا کا کلام نہیں.وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ كَذَّبَ وَيَ اللہ جیسا کہ میں بھی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنِ افْتَرَى علی اللہ اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا اس راہ سے کوئی فیصلہ کرے اور یاد رہے کہ میرے کسی کلام میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ہر ایک شخص جو بعیت کرے وہ طاعون سے محفوظ رہے گا بلکہ یہ ذکر ہے کہ والذین آمنوا ولم يَلْبَسُو إِيْمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولِيكَ لَهُم الامن وَهُم مُهند ون پس کامل پیروی کرنے والے اور ہر ایک ظلم سے بچنے والے جس کا علم ☑ انا رشید ہوکر شہادت محض خدا کو ہے.بچائے جائیں گیے اور کمزور لوگ طاعون سے شہید ہو کہ شہادت کا اجرا یادیں گئے اور طاعون ان کے لیے تحیص اور تطہیر کا موجب بھرے گی.اب میں دیکھونگا کہ اس میری تحریر کے مقابل پر لفرض تکذیب کون قسم کھاتا ہے مگر یہ امر ضروری ہے کہ اگر ایسا مکذب اس کلام کو خدا کا کلام نہیں سمجھتا تو آپ بھی دعوی کرے کہ میں بھی طاعون سے محفو ظار ہونگا اور مجھے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا ہے تادیکھ لے کہ افتراء کی کیا جزاء ہے.والسلام على من اتبع الهدى الراقم - خاکسار میرزا غلام احمد -
اس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب آخری شرط کے متعلق کہہ سکتے تھے کہ مجھے تو ملهم من اللہ ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں لہذا میرے لیے ایسا العام بطور افتراء شائع کرنے کی کیوں قید لگائی گئی ہے گر معلوم ہوتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ یہ سمجھتے تھے اگر میں نے ایسا لکھا، تو حضرت مرزا صاحب میرے لیے اس شرط کو حذف کر دیں گے اور پھر مجھے دعاء لَعْنَةُ اللهِ عَلى مَن كَذَّبَ وَحْى الله کے الفاظ میں حلف اٹھانا پڑے گی اور چونکہ خود حضرت مسیح موعود علیه السلام لعْنَةُ الله عَلَى مَنِ افْتَرَى عَلَى الله کے الفاظ میں حلف اُٹھا چکے ہیں اس لیے اس طرح مباہلہ وقوع میں آ جائے گا جس سے میں اب تک بچتا رہا ہوں اس لیے انہوں نے اس اعلان بار دوم کے متعلق اس شرط کے حذف کرانے کے لیے نہ لکھا ، مگر اس اعلان بار دوم کو پڑھ کر بعض لوگوں نے کسی احمدی سے کہا کہ ہم مفتری نہیں ہیں جو خداتعالی پر افتراء کریں ہم کس طرح ایسا الهام شائع کر سکتے ہیں توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے ساتھ کے مخاطبین کے لیے اس شرط کو حذف فرما دیا، ذیل میں سائل کے سوال اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب درج کر دیتے ہیں جو بدر اار جولائی منہ میں فیصلہ کی آسان راہ" کے عنوان کے تحت شائع ہوا.فیصلہ کی آسان راہ "ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں ذکر کیا کہ حضور کی اس تحریہ چیچڑ اخبار میں چھپی ہے کہ اگر کوئی مکذب ہمارے شائع کرده الهام اللي كو كہ انى الحافظ كل من في الدار افتراء سمجھتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ محض ہم نے اپنے دل سے یہ بات بتائی ہے اور یہ خدا کا کلام نہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے اور صرف اتفاقی طور پر ہمارے گھر کی حفاظت ہو.رہی ہے تو چاہیے کہ ہمارے مذبوں میں سے بھی کوئی ایسا الہام شائع کرے تب اس کو جلد معلوم ہو جاؤں گا کہ افتراء کا کیا نتیجہ ہے اس بات کو پڑھ کر بعض مخالف یہ کہتے ہیں کہ ہم مفتری نہیں ہیں جو خدا تعالیٰ پر افتراء کریں ہم کس طرح ایسا الہام شائع کر سکتے ہیں.حضرت نے فرمایا یہی بات ہے جو ہم ان کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کر کے کوئی شخص بچ نہیں سکتا اگر یہ کلام ہم پر خدا تعالیٰ کی طرف نازل نہ ہوتا اور ہمارا افتراء ہوتا تو اللہ تعالٰی اس کلمہ کے مطابق ہمارے گھر کی حفاظت کیوں کرتا جب کہ ایک کلام صریح الفاظ میں پورا ہو گیا تو پھر اس کے ماننے میں کیا شک ہے لیکن ہم نے مخالفین کے واسطے فیصلہ کی دوسری راہ بھی بیان کر دی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ انسان کا افتراء ہے تو اسے لازم
ہے کہ وہ قسم کھا کر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرے کہ یہ انسان کا افتراء ہے خدا کا کلام نہیں وَلْعْنَةُ اللهِ عَلَى مَن كَذَّبَ وَحْيَ اللهِ اگر کوئی شخص ایسی قسم کھا وسے تو خدا تعالیٰ اس قسم کا نتیجہ ظاہر کر دے گا.چاہیے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور جعفرز ٹی لاہوری اور ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب اور غزنوی صاحبان بہت جلد اس کی طرف توجہ کریں " مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے ساتھی اعلان بار دوم کے متعلق اس وضاحت کر دیئے جانے کے بعد بھی مقابلہ کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور ان کے علاوہ نام کے ساتھ مخاطب کردہ دوسرے لوگوں میں سے کوئی آمادہ نہ ہوا اور نہ ہی ان کا کوئی اور ہمرنگ اس دعوت پر مقررہ الفاظ میں قسم کھانے پر آمادہ ہوا.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر دو اعلانات تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں پر بطور آخری حجت کے انہیں زیر الزام لا ہے ہیں میں یہ دعوت حضرت مسیح موعود کی طرف سے مولوی شاء الہد اور دیگر مخالفین کیلئے آخری امام حجت ہے.۱۵ را پریل شاہ والے اشتہار کے اس اعلان میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو منی طب کرنا اور اپنے الہام کے متعلق خود دعائے لعنة الله على من افترى على الله " 19.5 کالعدم ہونے کا روشن ثبوت کے الفاظ کے ساتھ قسم کھا کر انہیں لعنة الله على من كذب وحی اللہ کے الفاظ میں قسم کھانے کی دعوت دینا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ ۱۵ اپریل شاه والا اشتہار مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ " مولوی ثناء اللہ صاحب کے اسے نامنظور کر دینے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی کالعدم ہو چکا تھا.اسی لیے تو آپ کو اب ایک دوسری دعوت مولوی ثناء اللہ صاحب کو اس اعلان سونیا پڑی لہذا جو شخص بالفرض ۵ در اپریل شاہ والی دعائے مباہلہ کو یکطرفہ دعا بھی سمجھت ہو اس اعلان بار دوم کے بعد وہ ۱۵ را پریل شاہ والے بیان کردہ طریق فیصلہ کو قائم قرار نہیں دے سکتا ، بلکہ دانشمندی کا تقاضا یہی ہونا چاہیئے کہ وہ اسے کالعدم سمجھے کہ آپ کے العام إلى أحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّرَارَ وَاحَافِظُكَ خاصة کے متعلق چینج کی طرف توجہ کرے اور یہ سمجھے لے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کرنے کے لیے در حقیقت دل سے کبھی تیار نہیں ہوئے وہ لوگوں کے مجبور کرنے پر ضر ورفع الوقتی کے لیے کہ دیا کرتے تھے کہ میں مباہلہ کرنے سے ڈرتا نہیں ورنہ در حقیقت مباہلہ کی دعوت پر ان کو جان جانے کا خوف لاحق ہو جاتا تھا اور وہ جیلوں اور بہانوں سے جان چھڑا لیتے تھے، لیکن یہ آخری دعوت ایک خاص الہام کے متعلق ایسی دعوت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے لعنۃ اللہ کی دعاء کے ساتھ قسم کھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ اور ان کے سب ہم رنگوں کو
۲۲ دعوت مباہلہ دی تھی مگر کوئی بھی ان میں سے اس مباہلہ کے لیے آمادہ نہ ہوا یہ بات اس الہام کے خدا کی طرف سے ہونے کی روشن دلیل ہے جس طرح نجران کے عیسائی وفد کا رسول مریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مباہلہ سے فرار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صادق ہونے کی روشن دلیل ہے.ہے اس جگہ میں اپنی جماعت کے دوستوں کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں جماعت احمدیہ کو مشورہ کی ان علماء کے فرار کے بعد اب جماعت احمدیہ کوکسی بھی مخالف شخص کو مباہلہ کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مدعی الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ان کے زمانہ کے مخالف علماء آپ کے مقابل لعنة الله کی دعا کے ساتھ قسم کھانے سے فرار اختیار کر چکے ہیں اور ان کے فرار سے احقاق حق خوب ہو چکا ہے.ہاں اگر جماعت احمدیہ کو کوئی مولوی وغیرہ مباہلہ کی دعوت دے تو انہیں کہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس الہام کے متعلق قسم مؤکد بہ لعنت کھا چکے ہوئے ہیں اس لیے آج بھی جسے مباہلہ کا شوق ہو وہ آپ کی قسم کے بالمقابل اس دعوت کے مرقومہ الفاظ میں قسم کھا کہ یہ تجربہ کرلے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.ایسا شخص ضرور ایسی قسم کھا کر خدا تعالی کی قمری بجلی کا مشاہدہ کرلے گا.انشاء اللہ تعالٰی.مکرم حضرت مفتی محمد صادقی ایڈیٹر بدر نے الیون کو شائع ہونے والے خط میں ایک غلط فہمی کا ازالہ در اصل اسی اعلان باردوم والی دعا کا ذکر کیا تھا نہ کہ ۱۵ را پریل شاشه والی کی دعا کا یہ دعا 4 جون کے بدر میں شائع ہوئی اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے خط کا جواب ۱۳ر جون شاہ کو شائع کیا گیا تھا لہذا مشیت ایزدی سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی طرف سے دعا کئے جانے کا جو ذ کر اس خط میں ہے وہ دعا 4 جون شلیہ والی دعا مباہلہ ہے نہ کہ ۱۵ را پریل شاہ والی دعا جو مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ والے اشتہار میں تجویز کی گئی تھی اور جسے مولوی ثناء اللہ صاحب نے فیصلہ کن نہ جان کر اس کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا اور لکھا تھا ، یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا ایسے منظور کر سکتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسے کا لعدم جانتے ہوئے مولوی ثناء اللہ صاب کو اعلان بار دوم میں آخری دعوت دے کر ان پر اور تمام مخالفین پر حجت قائم کر دی تھی جو آپ کی طرف سے آخری اتمام حجیت ہے.اگر حضرت میں موجود اسے کالعدم نہ مجھے تو نئے اعلان میں قسم کھانے کی دعوت نہ دیتے.اہل حدیثوں کی محمدیہ پاکٹ بک ہیں ، چونکہ اس کے محمدیہ پاکٹ بک میں ایک غلط بیانی مصنف پر یہ واضح تھا کہ امام جنب دعوة التاع
را پریل شاہ کو ہوا تھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے عکس سے بھی ہم جمعیت اہل حدیث خانو وانہ ضلع لائل پور کے جواب میں واضح کر چکے ہیں اور ان کی مغالطہ انگیزی کی قلعی کھول چکے ہیں لہذا محمدیہ پاکٹ بک کے منصف کی کوشش یہ تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ والے ۱۵ را پریل شاید کے مضمون کو جو دراصل دعاء مباہلہ پشتمل تھا مگر جسے یہ لوگ یکطرفہ دعا قرار دے رہے ہیں) ۴۷ را پریل شاشه سے پہلے کا لکھا ہوا قرار دے کر یہ مغالطہ دے کہ اس اشتہار میں مندرجہ دعا کے لکھا جانے کے بعد یہ الہام اس کی قبولیت ظاہر کرنے کے لیے گھڑا گیا تھا :- چنانچہ محمدیہ پاکٹ بک میں لکھا ہے کہ :- اشتهار آخری فیصلہ ۱۵ را پریل شاہ کو شائع ہوا جو یقینا" اس سے پہلے کا لکھا ہوا ہے.ہما کا سمجھو تو ۱۱ ۱۲ ۱۳ و.و ۱۱ ۱۲ ۱۳ وغیرہ کا سمجھو تو بہر حال پہلے کا ہے اور ایک ایک کے مالی دارای نام دارد - و حمدیہ پاکٹ بک بھی دیا گیا ہے یہ عبارت مصنف محمدیہ پاکٹ بک کی صریح غلط بیانی اور مغالطہ انگریزی پرمشتمل ہے.مصنف مذکور کی دھند کا دہی کو آشکار کرنے کے لیے میں آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار ۱۵ را پریل شاہ کے مضمون کی تحریر کا عکس درج کر رہا ہوں جس کے آخری صفحہ کے آخری الفاظ میں ۱۵ ر ا پریل شاہ کی تاریخ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے قلم مبارک سے لکھا جانا ظاہر ہے میلو انا اللہ اب بھی اپنے بات میں بھی دھوکا دیتے رہے ہیں.بس العام اُجیب دعوة الداع کا تعلق جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریروں سے ہے جو ۱۴ اپریل عشاء سے پہلے آپ نے مولوی ثناء اللہ صاحب سے مباہلہ کے متعلق تحریر فرمائی ہوئی تھیں.جیسا کہ اخبار بدر ۲۵ را پریل شاہ کی ۴ ار ا پریل شاہ والی ڈائری کے سیاق مضمون سے ظاہر ہے.اس سیاق میں اس الہام کا اندراج یہ ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ اس الہام کا تعلق مباہلہ کی دعا سے ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مباہلہ وقوع میں آ جائے تو خدا تعالیٰ پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہے.اگر اشتہار دار اپریل شاہ کو مولوی ثناء اللہ صاحب مان لیتے تو یقیناً مباہلہ وقوع میں آجانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بددعا مولوی ثناء اللہ کے حق میں قبول ہوتی مگر انہوں نے اس کی منظوری نہ دی.جس سے مباہلہ وقوع میں نہ آ سکا.موادی ثنا اللہ صاحب نے اس دعا کونہ احمدیوں کیلئے بیت قرار دیا ہے نو د ستر مسلمانو کیلئے.میں آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۱۵ اپریل شاہ والے اشتہار کا عکس درج کر رہا ہوں جس کے آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ دستخط کے بعد حضرت مسیح موعود نے اس مضمون پر دار پر بیل عنہ کی تا ریخ درج فرمائی ہے پیس میمضمون را پریل شاید یا اس سے پہلے کا نہیں ہے اس کے بعد میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے جواب کا عکس بھی درج کر رہا ہوں نا میرے اس مقالہ کے پڑھنے والوں کو میری تحقیق کی صداقت کا پورا یقین ہوسکے.دما علینا ال البلاغ، وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين نے محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف کا یہ کہنا یا کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ یہ اشتہار ۱۸ رامی داشت شراء کو انار مادری شاعر بعد ، مولفه "
کم اور بر من الرحیم محمد و نصلی علی ربود انگاری ( ايستو این احتق م و قال اپنا وربي انا الحق ) بشریت بر روی شانه را در عالم اسلام علی بن ابی زاینده می صورت میں آپ کی سوچ اہل حدیث میں برمی گذیدہ اور تفتیش کا سلام جاللہ کا مسلہ میں اس جوارب ہی آپ کی و قابل مقصولی تمام بینه ی توبہ کرتی ہے اور دنا من بره ریاست ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و رای نیا چر گیری دیکھتا ہوں کہ چین توں کی ہمراہی میں ماخور آئی اور انہی بہت سی افقر پر کیا ہو کرکی دیار کو بری طرحہ آتی ہیں مراء رور محات میں سو سکتا در این اسامی کانون کیا کہ اگر اوقات اپ اور ایک اور میر ان کے شومین آپ کی کا کیا یا ان کا کردار ادا کی اس راه ما را در کافر رجاء ار طلایک ممحاة
بہتر ہوتی تا حوز کی بدوزی کو Trete اور شاہ بخاری اور اگر میں گوری اور مستری مسلم ہوں اور خدا کی الله کی موفق آیا ہے کی اپنی کا سٹو کمیٹی کو اگر وہ نور خورستان کی تاتی ہے سکو تو فکر قوم خود کی باتیں کر رہے ہیں کابین سیم و راه املاک تا رات اس پر میری زندگی میں ہے اور نہ ہین ترین حوا کی بیروت し کھا ہے یہ کس اسلام با جی کی بہار سیگاری کرتے بلکہ محمد دمال کی طورم می شودر کل منقطع جاتی ہیں اور سرکا خوری داره همین که ای بری مالک بھیرو تور جو علم و غیر ہے جو مردہ دل کی حالات کی نو و تفت برز مگو کی کا بھی شریکا نفسی کا رفیقی کی قریب اور دن رات اختری کرنا اور کلام میں توای برای پارکی مالک مین اور جی سی برای حالت میں رش کر دی روی کار این را ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا لر اور میری می جو اہم ہے حت کالا لگاتا ہوں تو نہیں تو میں وافری کیا رتی جناب میں دیا کرتا ہوں امین در اگر که برای زندگی میں کرد سلام ۲۵ پر ان جماعت کی سامر 1
1 وہ گیا ہوے وہ فرض سرے مجھی ان چوروں اور وار آن کی ای برتر یا ملا حسن لاه دیا ہے مورے زبائی کی نقصان رسان کاری اسم الله دستگی سلا یابی که میه شخصی در حقت بعد ادراش اور دوگانگا در گامبر در نیم کو درجے کا علم رد می بین انشاء الله از راه ها است اگر این ویتامین در این بہتوں کی رانی کی سر تسلیم کرنا ہو کرنا عام ہے بھی انی کتاب موج ها ہیا تقدس اور راحت کا دو یا پارامی که بحرس اور نا پنڈال میں کیا تعلم فر احمر ایا گیا اس امانت قوارب ہو کر ایک نمایش که با گرفتم بیتا فردین قومنا الحق باند خود مضمون کو اہل کوچه میرا بین خواب اسم است اراه الاه داشت ماهواره ای ماند عافاه الله و اگر مرقوم بارتی در ایران نشده مطابقی علی اور جو این ریسکی سبھی مادرش استقام مورد ی خانم مرین یکم My ز دوشنبه
M یہ اخبار ہفتہ وار ہر جمعہ کے دن مطبع اہلحدیث امر تمریہ شائع ہوتا ہے اغراض و مقاصد را دین اسلام در سیاست نبی علیہ السلام کی حمایت واشاعت کرنا ہے مسلمانوں کی صفا اور اہلحدیث کی خصوص دینی و دنیوی خدمات کرنا میں گورنمنٹ اور مسلمانوں کو تعلقات کی نگہداشت کرنا.قواعد و ضوابط ی قیمت بہر حال پیشگی آنی چاہئے ، بیرنگ خطوط وغیرہ واپس ہونگی ال نامہ نگاروں کے مضا میں بشروط پسند مفت دسرخ ہونگے ؟ REGISTERED L.Nº 352 ہوتے ہوئے مصطفے کی گفتار ت دیکھ سی کا فول و کروا أمر الترك تب میں ملے تو نقل کیا ہو ملے جلدم یا مریم و خطا کا دھل کیا.شرح قیمت گورنمنٹ عالی سے سالانہ عنہ والیان ریاست سے روسیا و جاگیر دار دلی سے ، لقمہ دانا عام خریداروں سے.غیر ماک سے د شلنگ ه ششماهی شنگ انڈیا والوں سے میر أجرت اشتهارات کا فیصلہ بذریعہ خط و کتابت ہو سکتا ہے جمل خط و کتابت و ارسال از مینام مالک اخبار المحدیث اوستے رہو.یوم جمعہ - امرت مورخه ۲۶ - اپریل عزا و مطابق ربیع الاول ب اسلم د مقدور مسلمانان مو در خودمست ہو کہ چند اصحاب جدہ سے رعایتی قیمت پر ایک کشت جلدیں خرید لیں تاکہ میں قرض کی وجہ سے سبکہ وی ہوجاؤں اور یا یک کار خیر بھی ہو.جو صاحب پچاس جلد میں نفقہ قیمت پر فرید فرماویں.ان کی نصف قیمت برای بناتی یه که ما نجله اتا ہی کا مین کتاب کی نالت مربی کم کسی مسلم امید ہے کہ چند اسی پنکھ اسی ہمدردی فرماکر میں ہے سوکتابوں کو خرید نهایدیگی المتقی عبید امیری این بنگر بار شار در ما عرفت مطیع قانی شهر بودهانه دپنجاب پچاس جلدیں میں لیہ سے گیا.یو الصفاء التستر کی صفائی قابل توجه صبا پریزیڈنٹ عمران نیستی بزرگ می دمین خلافت ہوتی ہے تو ا ئی محل اوسکا کوئی فوری علاج نہیں ار جی ہم بارہا کہ چیکو میں اس ایک حصول تجویز کر سکتے حمد صفائی نہیں نظر نہیں آتا.سکرٹری کو خط لکھیں توکئی ہل چکے ہیں.مگر با وجود معقول ہو نے کی بھی میونسپل کمیٹی نے اسطرف تقبہ روز لگجاتی ہیں.پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں.بعض دفعہ ہن دیکہا ہے نہیں کی.تاہم ہم اپنی تجویز کی معقولیت پر بھروسہ کرکے باربار کیا کہ شدید خلافت کی گاڑی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں لوگ آ جاتی ہیں: کرتے ہیں اور صاحب پریزیڈینٹ کو اگر وہ رات میں کہار کی منائی چلتے بنتے ہیں.گر الیا انتظام ہو کہ ایک افسر اصل اسی قسم کی شکایات جیسی کہ چاہیے نہیں ہے ہمیشہ کو کل اخبارات کیٹی کو توجہ دلا تو ہو ہیں مگر انتظام کرنے کیلئے ہو.خواہ زبانی شکاریات محل یا گھر میں دستی ہوں مگر اہلحدیث جو تجویز پیش کرتا ہے وہ جنگ او سپر عمل ہو گا صفائی خاص یا بندر لیڈر اک ترکیبی یہ تکلیف بند.غضب تو یہی ہے کہ کوئی سنت نہیں نہ ہوگی.وہ تجویز یہ ہے کہ ایک دیسی افسر نام اس مطلقہ کمیٹی مقدر کیا ڈاکٹر سب متفق ہیں کہ حفظان صحت کیلئے صفائی کی ضرورت ہو گر امرتسری کہ اُس کے پاس اہالی شہر اپنی اپنی علاقوں کی صفائی کی شکانت قلی یا زبانی کی ٹی ہو کہ سب ڈاکٹرو ی ہو کہ سب دار اکثر کے خلاف اپنی پالیسی رکھتی ہے.لیکر- المحدیث کبھی پہنچا دیں اس افسر کی ماتحت چند ایک متر در پشتی موجود ہیں شکات پیچیزهای جیگر قرانی رحمت خدائی سے کہی نا امید نہیں ہو سکتا.اس کٹر کو بھی افر نکن اپنی کتوں کو بھیج کر صفائی کرا دی.اور اس محمد کو بیان متعلقہ صفال نہیں رکی گا.اسی لئے سب کمیٹی صفائی کے مہران کے پاس کی رپورٹ کری - اس امر کا فرض ہوگا کہ شکات پہنچتے ہی تیسی کریم اسکا دفتر نام کے پرچہ بیجا گیا ہے وہ نہ کیسے وسط یا کمیٹی کے دفتر کے قریب ہو.جہاں صبح سے شام تک وہ یا اسکا کوئی قائم مقام حا ضر ر ہر صورت موجودہ میں میں فائدہ حاصل نہیں ہوتا در بند آن مباش که نشنید با شنید اطلاع ضروری ک کر نا باری باری تارانی بی حالی کا ناکات مانای تاران است با بیان از اردیم و مین بھی ۲۷
الحدیث امر شد مفقود الخ و سمیر نام کے اہلحدیث میں یہ اگر آپ کا کی اتر کر اٹھا اپنے ناسمان شفق ہی پر ہاتھ اٹھانے لگا جسپر انھوں نے مجبو ر ایک فتوی اکہ پنجاب کے سراج الاخبار نے لکھا تہاکر مفقود الخیر شائع کر کے اسے اپنی جماعت سے خارج کر دیا " شخص کی بیوی سے جو چار سال بعد نکاح کرتا ہے وہ بدکاری کرتا ہے، اس کا جواب اس بیان میں فاضل مضمون نگار نے محض بازاریوں کی آپ کی پیروی کی اور میر اسی پر چه د دسمبر میں جا گیا تھا کہ مفقود اجر کی بیوی کا چار سال کے بعد نکاح حق پوشی سے کام لیا.ورنہ گروہ حق گوئی کرتا تو یہ بھی کہتا البعض علماء الحدیث نے کر دینا بڑے بڑے صحابہ اور علماء محدثین وفقہا سے ثابت ہے جن کے پہلے اڈیر الحدیث کی مخالفت کا فتوی شائع کیا لیکن جب جواب نکلا تو اثر عالم مشاہیر نے بھی اسی پرچہ میں دئے گئے.اس سے بعد 10 جنوری کے سراج الاخبار میں اس پر فتوی کو غلط جانا یہ راس نزاع کو بھی اٹھا دینے کیلئے فوری طور پر آرہ میں ہماسے اس مضمون کا جواب نکلا جواب کیا تھا گویا اپنے دعوی کی تردید اور ہماری تین برگزیدہ علماء منصف ہوئی جنہوں نے متفقہ فیصلے سے مخالفین کے فتوی نائی تھی مگر ہم سے اس کا ہو اب جلدی ہو سکا جس کے کئی ایک باعث تھے.کو غلط قرار دیا.یہ تو ہے اصل واقعہ مگر اس کو صراح انا خیباس کے فاضل مضمون نگار ایک تو اس جواب میں کتاب بھیج کا حوالہ تها جو ایک ایسی نامشہور اور غیر متداول نے کیوں سارا بیان نہ کیا ؟ اسکا جواب ہم نہیں دیکھتے.اسکی وجہ رہی بتا ئیگا.کتاب ہو کہ حافظ ریسی اور حافظ ابن حجر جیسے علامہ حدیث بھی اُس سے آشنا اس کے علاوہ فاضل موصوف نے حق بپوشی کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ با SIL5 نہیں.اسیلئے ان و دنوں حضرات نے ہمالیہ کی تخریجو نیں کتاب الجھے کی روائت کلام کو نقل نہیں کی بلکہ پی ہی کہتے گئے ہم نے تجربہ ہو دیکھا کہ میپوشوں کی یہ ایجاد مذکورہ کی بابت انا وہ علم ظاہر کیا.خیر و نا مسرح الاخبار میں اس کا حوالہ تنہا قدیم سے ہو کہ فریق مخالف کو مضمون کو اسی کو مفاظ میں پورا پور نقل نہیں کرتے اس لئے اس کی تلاش کی تو کہیں سے نہ ملی آخر مدرسہ احمدیہ آرہ سے ملی تیو جسکو اس میں شک ہو وہ مرزا صاحب قادیانی اور اڈ ٹرائل فقہ کا ماربقیہ دیکھے سے کھنی اسکو دیکها گیاه دو سرا باعث اس تاخیر کایہ ہوا کہ بعض مضامین ضروری اور بعض ہم عبدة - موسمی ایسے آتے رہتے کہ ہر ہفتہ اس جواب کے ارادہ پر اسکا غلبہ رہا.بہر حال آج خیر اس شخصی بحث سوا کی ملکہ آپ اپنی اصل مضمون پر آتے ہیں:.ہم اس کا جواب دیتے ہیں، اور بلاتے ہیں کہ سراج الاخبار کے کسی مجہوں مضموں مفقود الزوج عورت کو نکاح ثانی کے جائز ہونے کو بار میں حنفی مذہب کے نگار نے جو بہانا جواب لکھا ہو وہ حقیقتاً اپنے مذہب کے مخالف اور ہماں کہ مذہب کے ولائل اور برا میں لکھی جاتی ہیں، اور قران وحدیث اور اقوال صحابه دغیر یم اور قیاس موافق لکھا ہی مگر فاضل مضمون نگار کو میں بائیں کی خبر نہیں کہ کہاں کو جاتے ہیں.شرعیہ کی سیر کرا کر معترض کا تحقیقی معلومت بنانا ہے جاتے ہیں پھر اس کو ان دلائل یہی افسوس نہیں کہ مضمون ان کارت اپنے مذہب کا ملات کیا ہے جسے وہ نہیں سمجھے کی قلعی کھولی جائیگی ہیں وہ ہی ہو اپنی نادانی کی با دو کیا کہا ہو اور پس مصنع بلکہ یہی افسوس ہو کہ انہوں نے دروغ گوئی اور حق پوشی سے کام لیا ہے اے ہو کہ منفی مذہب میں مفقود سیاره شخص مرا در بر جس کا کوئی پتو نشان اور چینی مرنے کی کاش یه دروغ گوئی کسی مرضی کام میں ہوتی مفید نہیں بلکہ محض شخصی حملے میں.چنانچہ خبر معلوم ہو.حوالہ شخص اس حقہ مذ ہب میں اپنی ذات کیلئے تو زندہ ہو اس کی بی بی نکاح ثانی نہیں کر سکتی اور اس کا مال ورثا میں تقسیم ہو سکتا ہے جبکہ قاضی کو لازم اپ نے شریرے مضمون میں لکھا ہوا.محدیث اور شرح اشتہاری دنیا میں منو چار سالہ بچہ 5 ابتدا میں دو چار دفعہ آریون ہے کہ کوئی شخص مقرر کردی جو اسکی ان کی حفاظت کر کے احسا سکو دیون وصول کر داد.اور مرزائیوں کے ساتھ ہاتھوں پائی کرنے و اپنے خام خیال میں مرد میدان بکر جس مال کو خراب ہونیکا اندیشید ہو اس کو بیچلتا ہے اور اس کی اولاد بی بی اور الیان اری میں پنیر بہائیوں کو دست گریبان ہونے لگا تھا جب انہوں نے پر خرچ کریں لیکن غیر کے آتے ہیں وہ نہ رہ ہی خیر کے ترکہ کا وارث ہوگا بلکہ اس کا اسکو اس کی تحیت کو علمی اور اعتقادی غلطیاں اور نہ تعلیقانہ خیالات انتخاب حصہ ابرس ایک موقف کیا جائیگا اور 4 برس کے بعد تا منی اس کی موت کا حکم که در گذشته به تاب اور آننده و محتاط ہونیکی دبیت کی تو وہ اپنی خیالی یا مودی پر عنہ اس میں منفی مذہب کی کیا صومیہ سے سب میں یہی تعریف ہے.(اڈیٹر) و شخص اگر میری اور مریم اصلاح الاخبار کا بٹیر گھروں کی اس مجھے عہ یہ دوری کہاں سے آئی.ازمیر ار انہوں نگار کو چاہو گے ملک کو انا تھا ان کو ایس ای شیر م اس دوری کو یاد ہو گا پھر کہا گیا کہ آپ کو دعوی در دلیل میں تقریب تام جو لاڈ میٹر آن مجیٹھہ کو نامہ اخبار جاری کی ۲۸
المحديث امیر ۲۶ اپریل سرا نشده امات کی اسکیم عمرانی و جائیں تو اسکی موت کا حکم نزدیک خلط بلکہ اس میں چنانچہ اصول کی معتر در درسی کتاب جستانی میں ہو کہ.ومن الناس من عمل في النصوص في يوم أخر فأسرة عندنا.دیا جائے اور یہ مذہب دلائل ذیل پر مبنی ہے.اول ، قال تعالی پاره ۵ - رکوع - و الحصنات من الفساد کا ما ملکت یا کم ہیں آپ بتا تو آپ کا یہ استدلال طرق اربعہ میں سے کس طریق کا عبارت النص جس کا اب یہ کام پر رام می خواند والی عورتیں مگروہ جن کو ملک بوٹی تمہاری ہے یا اشارت النص ودلالات النص ہے یا اقتضاء النصر ہرایک کی تعریفات ہم ہاتھے یعنی جوہور میں دارالحرب کو پکڑ کر ائی ہو.وہ اگرخاوند والی بھی ہوں تو تم مثالوں کے ہماری مضمون اجتہاد اور تقلیدمیں گزر چکی ہیں یہ اگر ان میں سے کوئی ہو پر جرم نہیں ہیں.اس استشنا سے صاف روشن ہو کہ دارالحرب کو کڑی آئی توی تعریف تیسین کیوام نہیں تو پھر اس کے فاسد اور کاسہ ہو نہیں کیا شک ہی عمدتوں کے سوا کوئی خاوندوالی صورت دوسری کیلئے ہرگز جائز نہیں رکھی گئی ہیں حیرانی ہے کہ اہلحدیث کو مقابلہ پر ہماری بہائیوں کو کیسی کیسی نہیں پیش آتی ر مفقود کی عورت سے نکاح جانتے ہیں تو ما ملکت ایمانم کے بعد اس کو ضرور ہیں کہ کہتے کہتے اپنی مسلمہ اصول کے جنر فخر کیا کرتے ہیں بھی خلاف کہ جاتے بڑا ہوجاتا.یا اور کہیں اشار شد و کنایہ ہی سہی اس کا ذکر کیا جاتا.ہیں.پتا ہے ہے آن عبارت میں مضمون نگار نے دعوئی اور اس کی ایک دلیل دی ہے دعوی کا اس نقش پا کے سیدی ڈ یا تک کیا ذلیل بو میں کوچہ رقیب ہیں بھی سر کے بل چلا اد آتی ہے کہ تقوی اخیر کی گم ہونے سے نوری برس یا ہم عمروں کے مرنے کے بعد ہاں یاد آیا کہ آپ تو مقلد ہیں اور مقلد کی شان تو صرف یہ ہوس پر امام کی بتلائی اس کی بیوی نکاح ثانی کرسکتی ہے مگر افسوس کہ دلیل سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہوئی دلیل کو نقل کرنی - استدلال کرنا اس کا کام نہیں.پس کیا آپ بتلا سکتی ہیں بلکہ اگرآپ کی تقری کو صیح سمجھا جاؤ تو آپ کی پیش کردہ دلیل سے آپ کا مذہب کہ آپ کو امام نے اس دھوی پر آنست موصوف کو دلیل بنایا ہے.اگرنہیں بنایا بلکہ آپ مرقوم باطل ہوتا ہے.پس ہم آپ ہی کے قول کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ اگر کا اپنا استعمال ہو تو آپ کے غیر مقلد ہونے میں کیا شک زمدا کرنے میشیم ما مفقود الخبر کی بیوی سے تو ہر سال یا ہم عمروں کے انتقال کے بعد نکاح جائز روشن دل یا شاد) ہوتا تو و الخضرات کو بعد اس کو ضرور بتا یا جاتا بینی ہوں ہوتا.کیا بعد کون از ناله من الموزمتة لا يموت اقلا نم جب یہ نہیں تو ثابت ہوا کہ لوڑے سال اور ہم عمروں کے انتقال کی کوئی بعد نہیں بلکہ ہمیشہ بیک وه هر دس نوجوان دولہا کو یاد کرتی ربانی دارد) قادیانی کرشن جی جان چھڑاتے ہیں.ورہ اور روتی چلاتی اپنی عزیز جوانی کو یاد کرے.اگر اس نمونہ رہا جائے تو پھر کیا کری.الا یا ایها الساقی اور کا ساونا و لیان که عشق آسان نمود اول و لا اختار شکلیان اس کا جواب ہم دینگو تو جاری دوست خفا ہونگی.اصلی بہتر ہے کہ دہی دین.کرشن جی نے خاکسار کو مباہلہ کے لئے بلایا.جسکا جواب اہل میت 19 - خیریت کو فاضل مضمون نگار کی پہلی دلیل کا جب یہ حال ہو کہ بھائی اثبات میں مفصل دیا گیا جس کا خلاصہ یہ بتا کہ میں حسب اقرار خود تمہاری گذب حلف مدعا کے ابطال معا کرتی ہو تو باقی دلائل کو ناظرین خود ہی اندازہ لگالیں عر ہٹانے کو طیار ہوں بشرطیکہ تم پہلے یہ بتلاد کی اس صنف کا نتیجہ کا ہوگا.اسکی قیاس کن زنگلستان من بها - مرا جواب میں کرشن ہی نے ایک اشتہار یا ہر جو بقول شخص یہ سوال از آسمان اب ہم بتلاتے ہیں کہ آپ کا یہ طرز استدلال خود صفی علی اور اصول کے منفرد از ریسمان پھر اس پر طرہ ہے یہ اس انتہا کو اہلحدیث میں درج کرنے کی قواعد کے (جن کے مذہب کی حالت میں آپ اس کی پر ظلم کر رہے ہیں نہ صرف ہم سے درخواست گی ہے.ہماری تو پہلے ہی سے عادت ہو کہ ہر خانوں اور نداروں کی طرح مخالف کے کلام میں تعریف نہیں کیا کرتی کہ اس کو بلکہ اس کی خلاف ہو بلکہ مردود ہے.مشورہ علماء اصول نے کلام سے استدلال کے پارٹہ لیتے بتلائی ہیں.مہارت کے الفاظ میں تمام و کمال نقل کیا کرتے ہیں.یہ تو کرشن بھی ذخیرہ کی شات اشارت دلالت - اقتضار باند دان کا مفصل ذکر مضمون اجتہاد اور تقلید ہے کہ اپنی مخالف کو کلام کو یہ رانغل نہیں کرتی بلکہ اس میں تعریف بیجا اولینی میں آچکا ہے، ان کے علاوہ میں قدر طریق استرا الاستہ میں وہ علماء حنفیہ کے در مینی لگا کر ایسا بگاڑ تی ہیں کہ یہودیوں کے بھی کان کر جاتی ہیں عقب ان میں ۲۹ رجلہ:- جن میں چودہ بلدہ کی تفسیر ہے اردو زبان میں کوئی
اہل حدیث اورست تو مولوی غلام دستگیر اور مولوی اسمعیل حباب فیلینگڈ ہیں سرمومین کا قبضہ ہے جیسے نامون مہینہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہیں یاد کیجو.بہر حال کرشن قادیانی کا اشتہد ہ ہو: نہ ہوئی تو میں خدا تعالی کی طرف کو نہیں یہ کسی ابہا مرادی کی بنا پیشنگوئی میست مولوی شتر اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلے بدست مولوی ثناء الہ دینا نہیں جبکہ محض دعا کے طور پر پہنے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا شن راشد السلام مسلم من اتبع الہے سے آپکے پرچہ اہلحدیث میں میری سے دعا کرتا ہوں کرانے پر مالک بصیر تقدیر و جانم و خبیر ہے جویری تکذیب تفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ مجھے آپ اپنو اس پرچم میں دل کے حالات سے واقف ہو.اگر یہ دعوی سیم موجود ہونیکا محض میری مرد و کرتی اور پیکر مرد دو گذاب و جال مقصد کے نام سے منسوب کرتی ہیں اور دنیا میں ہر نفس کا اترا ہو اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات نسبت شہرت دیتے ہیں کہ ہی شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور افر کرنا میرا کام ہے تو اسے میری پیاری مالی ! میں عاجزی سے تیری جنبنا اس شخص کا دعوی مسیح موعود ہونیکا سراسر افراہی مینی آپ سے بہت میں ھا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء الله ما با زندگی میں مجھے ناک کراون ہے.جا صا کھ بٹایا اور برکت را گرم کہ میں دیکھتا ہوں کہ یں جن کے میری موی سے انکھ اوران کی جماعت کو خوش کرد و آمین بنگای میر کابل رہا چونکہ کہمیں حق پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افترامیری کر کے دنیا اور صادق خدا! اگر مولوی شار الشان تہمتوں میں موجہ لگاتا ہو حق پر میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور نہیں تو میں حاضری سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہمیری زندگی ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بریکر کوئی لفظ سخت نہیں ہوتا میں ہی انکو نابود کر مگر نه انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و صیفیه و غیر اگر میں ایسا ہی کذاب اور منتری ہوں جیسا کہ کثر اوقات آپ اپنی ہر ایک امراض مہلکہ سے بگڑا اس صورت کے کہ وہ پہلے کیلئے طور پر کہ بود پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی بلاک بھاؤنگا اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور یہ زبانیں سے تو بہ رو نگو جانے سانے اور توبہ کی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت مر نہیں ہوتی اور آخر وہ فرض نہیں بیکر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے آمین یارالی المین ده مد ذلت اور حسرت کیساتھ اپنوا شد دشمنوں کی زندگی میں بنی اکام ملک میں ان کے باتھہ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتارہا.مگر اب میں دیکھتا کی میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے اور اسکا ہلاک ہوتاہی بہترہوتا ہے تا خدا کے بندوں تباہ ہوں.کہ ان کی مہربانی حد سے گندگئی وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوان ذکر سے اور اگر میں گذاب اور منقری نہیں ہوں اور غذا کو مکالمہ اور سے بھی بہت جانتی ہیں، جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان بیان مخاطبہ سے مشرف ہوں اور سیم موجود ہوں تو میں غذا کو فضل سے امید ہوتا ہے.اور انہوں نئے ان تہمتوں اور بدر بانہوں میںانت لا تقف رکھتا ہوں.کرسنت اللہ کے موافق آپ کذبین کی سزا سے نہیں کہینگے مالیس لك باسلام پربھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بہت کچھ لیا بس ترجمہ پس اگر وہ سنا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محضر ضد کو ہا تھو سے اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پہلا دیا ہے کہ شیخص درحقیقت ملہ آپ اس بوری میں قرآن شریف صریح خلاف کر رہے ہیں قرآن تو کہتا ہو کہ بہ کا رد کے دل کی جوکہ کا رد کی ملکی مفسد اور ٹہنگ اور دوکاندار اور کذاب اور منظری اور نہائت در یکا طرف موصلت ملتی ہو سلوان كان في الصلالة فالمدخل الحر مدا رئيس ان انا على رئیس اور انا کی یہ آدمی ہے.اگر ایسے کلمات حق کو طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتی تومیں ان سو لهم لو داد و اما و اور وَيَدَهُمْ إِن تُغْيانهم ليمون اور وزیر آیات بہاری راہیں تہمتوں پر صبر کرتا.مگرمیں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہیں تم ستانے کی تکذیب کرتی ہیں اور سنو ابلا معنا مولا کی بار هُمْ حَق طال علام العرب بل کے ذرایہ سے ہیرو سلسہ کونا بود کرنا چاہتا ہو اور اس عمارت کو منہدم جن کو صاف ہیں ستر ہی کہ خداتعالی جھوٹے دغا باز مفسد او با زبان لوگوں کی نہیں کرنا چاہتا ہے جو تو نے اسے میری آنا اور سب سے بھیجنے ولا اپنے ہاتھ ہوں میں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور کبھی شہری کام کر لیں پھر تم کیر من بہتر بنائی ہے.اس لٹو اب میں تیری ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر دیاکرتاہے تا وہ میں ترکیوں العمل بات یہ کہ اسی وگون کوبہت عرنہیں منی کیوں ہو دھری راستین کرشن اور محمد احمد تیری جناب میں ملتھی ہوں کہ مجھے میں اور ثناء اللہ میں کافیصد فرار ہو کہ خدائی کا ہی اور قرآن میں الیاست و ذالك بانهم من العلم اب ڈیرا اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہو اسکو صادق کی پیارے نبی کے ت است بر که قیمت حصہ اول عمر حصہ دوم میر •
ذیل حدیت امر کستر شار ۲۲ - اپریل شده زندگی میں ہی دنیا سے آہ نے باکھی اور نبات سخت آفت میں جو موت کو باہر چہارم.آپ نے بڑی چالاکی یکی یکہ یہ دیکہا کہ ان دنوں طاعون کی ہور مبتلا کر.اسے میری پیار سے مالک توالی ہی کر.آمین ثم آمین.دینا شدت ہے خصو صا صوبہ پنجاب میں سب صوبوں سے زیادہ ہی پتھر میں افتح بيننا وبين قومنا بالحق وانت خير الفاتحين - آمين پنجا ہے دارالسلطنت لا ہور میں جو رستے سے بہت قریب ہے.کیفیت ا آخر روایت سے الماس ہوکہ وہ میر اس تمام مضمون کواپنے پہ ہی یہ ہے کہ مردوں کا اٹھا نامشکل ہورہا ہے ایسی صورت میں ہر ایک شخص ما عوان دیں اور جو جا ہیں اسکے نیچے لکھدیں اب فیصلہ خدا کو ہاتھ میں ہے ؟ سے مخالف ہو اور کوئی آج اگر ہے تو کل کا اختیار نہیں اور دیکہنے میں بھی ایسا ہی آیا ہے کہ وہ ہے تو یہ نہیں.یہ ہے تو وہ نہیں ایسے وقت میں راقم الاهم مرا اعلام المسیح موعود وافاه اش عاید مرقومه - اپریل طاعون پسینہ و غیر کی موت کی دہا محضر من بیب کی دوا کی طرح ست دارم یکم ربیع الاول شلتها بجری.ہے.جب اُس نے دیکھا کہ جہاز ٹوبہ لگا ہے تو بلند آواز سے کہدیا کہ جواب :.اس ساری لی چھڑی تھری کا جوشیطان کی آفت سے بھی زیادہ مجھے الہام ہوا ہے.جہاز ہیں ڈوب گیا.جس سے اوسکی یہ غرض تھی کہ طویل ہے.خلاصہ یہ ہو کہ کرشن بھی دعا کرتے ہیں کہ بیٹا سچے سے پہلے اگر ڈھب گیا تو سب مر جائیں گے.کو کر ڈوب گیا تو سب مر جائیں گے.کون میری کذب پر مجھے الزام دیگا اور طاعون مینا ایسے مر جائے.اس جواب میں آپ کو کئی طرح سے دجیل اگر بیچ رہا تو ساری معتقد ہو جائیں گے.یونہی چال تمہاری ہے کہ اگر.مخالف مرگیا تو تمہاری چاندی ہے.اور اگر خود بدولت خس کم جہاں اور فریبے کام لیا ہے داول یہ کہ اس کی منظوری مجہ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری پاک ہو گئے توکوئی قریب لات مارنے آئیگا ؟ کے اس کو شائع کر دیا پنجم، تمہاری یہ دعا کسی صورت میں فریال گن نہیں ہو سکتی کیونکہ مسلمان وقتی یکہ اس مضمون کو بوالہام کے شائع نہیں کیا کہ ہ ہ ہ ہ ہ کی تو امونی موت کو موجب حدیث شریف کے ایک قسمک شہادت جانتی ہیں الہامہ یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر ہے اس کا نتیجہ ی پر وہ کیوں تمہاری دعاء پر بھروسہ کر کے داعمون زدہ کو کا زب جائینگے ؟ ہوگا.کہ اگرتم مرگ تو تمہاری دام افتاده در خس کے جہاں پاک کہکر ہشتم، آپ نے ایک چالاکی یہ کی کہ پہلا تو صرف طاعون یا مہینہ سورتی یہ عذر کرینگی کہ حضرت صاحب یہ الہام نہیں بتا بلکہ محض دعا تھی.یہ کی دعا کی مگر اخر میں اگر کبھی کہدیا کہ یاکسی اور نہائت سخت انت بھی کہ دینگا کہ دعائیں تو بہت سے نبیوں کی بھی قبول نہیں ہوئی کہ میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کہی.اس تعمیم کرنے سے آپکی غرض وہی ہے حضرت نوح کی دعا قبوان ہوئی بلکہ وہ آپ ہی کی دعاؤں میں بہت سی جو آتھم کے معاملہ میں آپنے کی ہرنی تھی کہ موت کی پیش گوئی جب جھوٹی مثالیں دیا.ینگو کہ قبول نہیں ہوئیں.آپنے تین سال کے اندھیا نکلی توبات بنائی کہ چونکہ وہ رستے سے فیروز پور تک چلا گیا اور تھی ہو جانے کی دعا کی تھی جو قبول نہ ہوئی حالانکہ آپنے کہا تھا کہ اگریہ قبول رہا.پس یہی سوچ کے برابر ہے چہ خوش ہے نہ ہوئی تو میں اپنے آپ کو کافر مردود به کذاب اور وقال مجھو نکا جنگی من خوب میشناسم پیران پارسا را تفصیل گذشتہ نمبر میں ہو چکی ہے.رہتی آپنے پہلے اپنے گذشتہ مضمون مندرجہ المجیدی 19 اپریل کوفته دستومی ہے کہ مرا مقابل تو آپ سے ہے اگر میں مرگیا تو ہری مرنے سے نمبر میں لکھا تھا کہ خدا کے رسول چونکہ رحیم کہ ہم ہوتے ہیں اور ان کی اور لوگوں پر کیا تبت ہو سکتی ہے جبکہ بقول آپکے مولوی غلام شکر ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص پلاکت اور ہیبت میں ٹیری تصویر مریم مولوی اسمیں ملیکا می روم اور رواروی میکن مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں.اسی طرح سے مر گئے ہیں تو کیا لوگوں نے آپکو سچا مان لیا ہے ؟ ٹھیک مرزائی و ابتدا سکتی ہو یہ تہافت اور مخالف کیوں ہے ایک ہی ہفتہ اسی طرح اگر یہ واقعہ بھی ہو گیا تو کیا نتیجہ ؟ میں اتنا اختلاف کیوں ہوا وسیع ہو تو جلوا في اختلافا كثيرا.نے ان تینوں کے متعلق آئندہ کسی بچہ یں ہم ایک مفصل مضمون لکھینگے میں آپکا اور آپکے امانت کی بنیا د بشری گرانا الله و السلام
اہل حدیث امرت فیصلہ ہیں ۲۶ اپریل نشده مختصر تاکہ میں تمہاری درخواست کے مطابق حلف اٹھان کو طیار ہوں یا پردہ گنہگار او را اریک کی بھی کہا کہ یہ مگرمجھے ڈر ہو کہ کہیں گر تم اس حلف کے نتیجے سے مجھے اطلاع دو.اور یہ تحریر تمہاری می تیرو گھر بہادر جنین شن حکومت کہن کسی طرح بھی بیچا نہیں مجہ ناراض نہیں اور نہ کوئی دانا اسکو منظور کر سکتا ہے.ہوکر میرا ڈنڈا کونٹ مین چھین لین اور نہ تمہیں موجودہ وقت میں منحاس ثمانی مرزائیو انتمہارا گرد اور تم کہا کرتے ہو کہ مرزا صاحب منہاج نبوت کہتا کچھہ غیر تناسب نہیں.فاضل شاہ سلیم نہیں تو کر فضلت میں رہا یں کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے اور رقم کی شہ اب بیوی نے مدہوش کر کھا ہے.تیری ہندی رعایا سخت تکلیف همه شراب.استدار سن کرنے کی طرف بلایا ہے ؟ بتاؤ تو انعام او ور نہ منہاج نبوت کا نام میں ہے.یہ پوسٹ بھر گوروں نے اپنی سفید کرتاہ اندیشی ہو انبیا سلاد لیتے ہوئو شرم کرو - شیم - شرم - شیم.ینگ سر رکھا ہو کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے سٹلر کو سیکینو کی کوشش میں میز تیں امید کرتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے ہاتھوں کو حکم دیں گے.کہانی ان ک مجبور ای سی دیا جاتا ہے.ہر اینٹ کا جواب پتھر کیونکہ اتواز انہاروں میں میرا جو اب کیعنی تمام نقل کر دیں ؟ کے بھوت باتوں سے نہیں سویا ہے بولتے " اور یہ نشانہ واقعی معذرت : ہم نے ناظرین سے وعدہ کیا تا کہ کرشن جی کی خطا نہیں ہوا.بلکہ یگر گردوں کو ید ا کرا کے لئے بالکل درست ثابت الہامات اور پیٹت گرد ہاری لال لاہوری جوری کی می گویوں کا ہر منے مقابل ہوا.اور یہی پوچھے تو ان جیسا بہتر اور ے بھی نہیں شاہ سنو اور محمد کیا کریں گے مگر کرشن جی کے دیگر مضامین کی وجہ سے وہ مقابلہ کہا ہوا سے سنو! ہر طرف سے لمتوی رہا.آئندہ انشاء اللہ نکلی گا ؟ + فلم ظلم ظلم ! کی صدائیں آرہی ہیں.مگر معلوم نہیں کہ توکس پھر سر پر لینی نیند سود معلوم تقی : 19 اپریل کے بچہ میں صفحہ اول کا کم سطرہ نہیں ہے.کیا تو چاہتاہے کہ تیراکی ناسا میرا یہ نہ تھے کوئی بری خبر جو یہ عبارت ہے یہ کہ ہم اپنے وطن کے زممار ہیں اس میں وطن منانے پر مجبور ہو.غافل شاہ ، میں نے سہتہو جن الفاظ سر یاد کیا ہو کی بجاؤ تفس.پرہنا چاہئے.وطن خلط ہے.شاند گستاخی ہو.اور انہیں سخت خیال کیا جاری مگر کیا تو فاضل نہیں کر مجھے اپنی اتنی بڑی سلطنت کی کچھ خبر نہیں کیا تجھے لاپراہ کہنا غلطی مندتون میں چینی اور گوری کی خاموشی ہے کہ تو اپنی سے وفا جار دور جان نشار بنایا کرتا راض و نا خوش کرنا در خموشی معنی دارد که در گفتن سے آئما ہے تو ظالم سے جب تیری رعایا پر ظلم ہوتا ہے چاہے وہ لارڈ منٹو سے ہو یا سر لویز سے یا ان کے شاگرد رشید عالیجنا ہے ٹرانٹ تھا، بہادر آجکل ہندوستان کی مندی یونٹی میں جو بے چینی اور خود داری کو خیالات کی بھی آزمائی کانتیجہ اور روسی را نگاری کر تیری وفا دار یاس و ناچار آتی ہیں.ان کو دیکر ایک میری یہ رائم قائم کرسکتا ہو کہ ہے ابتدا دمشق ہوتا ہے کیا * آگے آگے دیکھئے ہوتا ہو گیا آگے ھ یاد رہی ہے.میں حیران ہوں تجھے کس طرح فرم گہ میلوں پر آرام سے میند ٹ جاتی ہے جب تیری کو کیا بلکہ کر ولی غریب رها یا سردی کو ٹھٹھر کو ہندوؤں کے اخبار گورنٹ بند کر حق میں تواریخ اور فقہ ظاہر کرتے ہیں فاقہ کشی سے جان تو رو رہی ہو.تو کیا ہتھ کابنا ہوا ہے کہ ان دلبند آپ نے تھے.مگر ناظرین یہ تنگ ویران ہونگے کہ اب اس فقہ کا تھرائیٹر ترقی کرکے سے جد کبھی رعایا کے سینوں کو چیرتی ہوئی ملتی ہیں.بچھو کھلے عادل شاہا شاہ معظم تک بھی بن گیا ہے چنانچہ ایک اخبار کوچند ایک فقر و یم نقل کر انہیں یا کہ اگر تو نے ان آہوں سے بچنے کی کوشش نیکی تو یہ رنگ لائو نجابی شیر شنیب کا کھلا پٹھا کا کہا مجھے افسوس ہو کہ مینو تمہیں قافلہ بغیر نہ رہیں گی ؟ انی ہم کے نام سے خطاب کی بہترین کہ جو وہ اسی رح کے بیان سے بھی تیز تیز تر ہیں نکال کر بھی ہم یہ ہیں اور اسطرح نیست مینیجر نال مدینه است
اور اویل نام اہل حدیث امرتسر کرتے اسکے علاوہ اک کو مختلف مقامات میں جلی ہو رہی ہیں جن میں آواز بلند کی ہامیں مبتلا کیا جا ئے تاکہ ان کو بھی درمانیت معلوم ہو.وہ ہمیں آج کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ ظالم ہے.اسکی ذکریاں چھوڑ دو.پھر اس شہر کا صدق معلوم ہوتا ہے جو آج سے کئی صدیاں بہتر کیا گیا ہوتے خود بخود ملک مو نکل جائینگے وغیر چنانچہ ہوا.اپریل کو مرتے میں کبھی ہندسوں اور بها زور بندی مکمن بر جوان به که به یک نسلط مو نماند جہاں کہوں نے ملکر بلہ کیا.میں میں اس قسم کے الفاظ نڈر ہوکر کہے گئی یہ کہ ہوا سو ہو اب ہم خاموشی سے اس شورش کے نتیجہ کے منتظر ہیں اسی قسم کے واقعات آئے دن منی میں آتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جو بنگال سے اٹھکر تمام علاف ہندی پینگئی ہے اور گورنٹ کی خامات گورنمنٹ ایسے واقعات شورش کے سنتی ہے اور بالکل خاموش کیوں ہے پالیسی کے مہروں کی خدمت میں عرض کر تو ہیں کہ اپنی وفادار رجب مایا اس کا جواب شائد یہ ہو کہ گورنمنٹ جانتی ہے کہ (مسلمانوں کی ٹیلنگ کا خیال لکھا کریں اور یہ بات دل سیر سکالر ہیں کہ جواب جاہلان باشد خموشی اونکی گہری جاہلوں سے جو مسلمانوں کو کمزور کرنے کے متعال میرے ہی ہیں.خیر اس سوال کا جواب تو گورنمنٹ جانے یا اس کے مدیر.لیکن ایک مسلمان خال ہیں.اس لیو ہم بادب عرض کرتے ہیں کہ.سوال اور ہے جو خاص اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے.جو ہر آریا امر عادت کو کسی نہ کسی و مانی جیسے مسبب جانتی ہیں وہ سوال یہ ہے کیا وجہ ہے کہ چند ہی روز کا ذکر ہے کہ گورنمنٹ کی تعریفوں کے گیت گاؤ ہم خاک نشینوں کا ستانا نہیں اچھا ملائیں گے افلاک جو فریاد کرینگے جاتے تھے اور یہی ہندو کمیونٹی ان گیت گانوں میں نسٹ غیر ہوتی تھی اہلی ریت کانفرنس کی بابت ایک نیا (جو اپنا نام اس کا جواب غالبا ہی ایک ہو سکتا ہے جو حضرت سعیدی مرحوم نے کئی صدیوں سے پیشتر دی رکھا ہے کہ نہ ترس از او مظلومان که هنگام دره گردن اجابت از در حق با استقبال می آمد کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں، لکہتے ہیں کہ کانفرنس کو چاہیے کہ اہلحدیث کسے نہ ہب کی ایک جامع مانع مکتاب مدال مثل ہو امیہ کے لکہا کہ قوم کے ہاتھ میں دہی - جانا گزارش ہے کہ یہ اور اس جیسے اور بھی کئی کام کا نفرنس کرے گی جو کوئی اس اجمال کی تفصیل چاہے تو ذرہ مصر اور بین دیر کو واقعات انشاءاللہ.مگر جب اسکو قوم کی طرف سے تقویت پہنچیگی سر دست تو کو معلوم کرے کہ انگریزیوں نے ان مقامات پر مسلمانوں کے حق میں کیا گیا اسکی وہی مثال ہے جو سلمانوں کی اجیل میں تھی کمثل زرع اخراج کانٹے ہوئے ہیں.اور آئندہ کو بولنے کی کوشش ہو رہی ہے.اس شطائر جب اسکو قوت حاصل پوکر فارزة فاستغلط فاستوى على کار بھائی سے مسلمانوں کے دلوں کو جو صدمہ پہنچتا رہا اوسکا اندازہ وہی ہے موقہ کا رتبہ حاصل ہوگا تب کہیں جا کر یہ پیج تعب النزاع بھی حاصل ہیں.جنہر وہ صدمات آئی ہیں یا آتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہے ہو جائے سے گا.انشاء الله اہل فقہ نے اپنے معمولی طریق سے کئی ایک فعہ لکہا اتنا کہ امجد میث میں جوائڈ ٹیوریل بدائت الزوجین دمیاں بیوی کے حقوق کا بیان قیم د منیجر اہل حدیث امرسته شیشہ ہی کی طرح اسے ساقی ، چیٹ وقت کہ بھرے بیٹھی ہیں گوشمان این صدمات کو جتنا گورنمنٹ کو پاس او سے دباتے رہو اور فالتبا ان سات انگ اور تو ہند کا جو ا ا ا آیندہ کو بھی رہاتے رہینگے مگر اس دربار میں ہر کوئی دانہ ضائع نہیں جاتا جو ہا کہ نفس کے اعمال کے بدلے اپنی تارہ ہو اگرم گر ینٹ اپنے فوائد مضامین چھنتے ہیں.یہ منہ بند کیہ کے اڈیٹر کے تکبر ہوتی ہیں جو لگی کے لئے فارن آفس میں کیسی شلمانوں کی توقیت کا خیال نہیں کرتی لیکن احمد میں کوئی عیب میں کہا ایک بہائی دوستے کے کام میں مدرک و سنگر قادر مطلق کی خیریت ہے تو ایک نہ ایک روز ان کانٹوں کا پھل پیدا آن ا ستا پر چونکہ یہ دعوی محض جھوٹ اور صرف کذب ہا: اس لئی الحد ایسے مورخ اسی قادر مطلق کی غیرت نے بہ شکل پیدا کردی ہے کہ اگنیوں کو بھی دراگر مارچ میں محفز اب پیر محلہ ہند سے اسکی بابت سوال کیا گیا کہ اہل فقہ کی
اہل حدیث کا مذہب :- اہل حدیث اورست ۲۶ اپریل نشده اس مومی کی بابت روشنی ڈالئے ہر چند اللہ کے چالاک ڈھیرنے میں بندی درج کیا جائے.نہ اخبار کے کل خر بیماروں کو اس بحث سے دلچسپی ہو اسلئے کی سر منہ ہند جواب نہ ہو بلکہ اس میں ہندی میں اُس نے حسب معمول فلو مولی مت سے خیال ہا.کہ اس معاملہ کا کسی احسن صورت میں فیصلہ کیا جاؤ پر سے منہ امید کو میٹر کا نا بھی چاہا.مگر منہ ہند کا بحریہ کا راڈیٹر جنے اہل فقہ جیون ناظرین اپنی اپنی رائے سے اطلاع بخشیں کہ ایسے مضامین کو فیلم خیار مین کو انوسگلیوں کھلایا ہو.کب اُس کے بھر ی میں آن گر حق بات کو چھپاتا.کھیا جاو سے یا ماہواری رسالہ کی مقصود میں اخبار سے بالکل الگ.خاکسار اس لئے شحنہ ہند نئے..آپریل کے پرچہ میں اس کا جواب یا آپ لکھتی یہ اڈ ٹی کی راہ میں رسالہ ماہواری بہت اچھا ہے.جو محفوظ بھی رہیگا اور قائد مایا میرا افاقہ نے اب ایک فضول بحث چھیٹر وی کو ٹی ٹی ٹخنہ مند ٹویٹر پہنچا کریگا.مردست رسالہ صفحوں پر ہوگا.جسکی سالانہ قیمت سهم معمول اہلحدیث کو مضامین کی مد دیتا ہے.اہلحدیث نے بھی تختہ ہند سے صرف نہ ہوگی.اخبار کے ساتھ اوسکا کوئی تعلق نہ ہوگا.اخبار کو خریداران استفسار کیا ہے.جواب ہی ہے کہ مولانانشاءاللہ صاحب کو کسی سے سے بھی رہی نیست ہوگی جو غیروں سے ہوگی.ناظرین اپنی اپنی راؤں سے مضامین لینے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ ماشاء اللہ عالم میں فاضل اطلاع بخشیں اور رسالہ کا نام رکھی تجویز کریں ؟ سے ہیں.محقق ہیں محدث میں مفسر ہیں.وہ اگر چاہیں تو مرت ایڈیٹوریل سے کر سکتے ہیں نہ انہوں نے آج تک ہمنے کوئی مضمون لیا نہ پہنے کوئی مضمون دیا.بالفرض یا تھی تمہارا مهاراجه ضا بنارس کی فیاضی است جاتا تو کیا نامہ نگاروں کے مضامین سے کسی ائیر کا کرشان ہوتا فیاضی گذشتہ زمانوں کی فیاضی یاد دلاتی ہے قصبہ کوڑہ میں مسلمانوں کو ہے.اسکی لیاقت میں فرق آ سکتا ہے اب تک تو ہم اہلیہ میں مسجد کی بھی ضرورت تھی اونہوں نے جناب من گوپال سات افرا ملی کی کو مضامین نہیں دی لیکن اگر تقلید کی لنکا کا سمار ہونا محدود کی معرفت در خواست گزاری تو مہا راجہ صحت بہادر لئے مفت اراضی مسجد کیلئے دہواں دریا رمضامین کے گولوں پر نمر ہے توپ ضرور ہر جائی عطائی جسکے لئے سلمان تو و او را مامان من روتا ہی ہے جاب کے مشکور ہیں (نامہ نگار) انشاء الله.کیا اڈیٹر اہل فقہ اس جواب کو نقل کریگا.حیا در کار ہے.ورة الوجود اسے علاقہ راہیں کے پی میں چند سوال میری ا فیسبو بہت میں مجھے تھے اس لسٹ میں اگر کچھ نہ لکھ اڈیٹر حکم اور بر جلدی جواب میں سکا.بہار سے گرم جناب مولوی علی نعمت حساب پھلواروی ضلع مینہ کا ارشاد کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ مرزا صاحب کا کوئی الہام اس مضمون کا ہو کہ آپ ز میں خوب تجر ہے اس لئے امید ہے کہ مولوی ما به مروج اس طرف توجه زیاد نگر این تین اشخاص در مولانا ابو - حمید محمد حسین صاحب بٹالوی اور مشی آبی کیش صاحب لاہوری اور ایکیا کوئی شخص کو مکاشفہ میں کیا تا کہ آپ و در راهتان ل جواب گذشته می پیویست) چالیس والوں کی جالی جواب کے پیرہ ہیں ؟ جواب ایمانداری اور حافظہ سے دینا ہے یا سوم صرف ہندہ کا نکاح کر سکتا ہے کیونکہ رضاعت کی نومت رضیع (شا زیہ) کے بہائیوں کی طرف راست ) قادیانی کے متعلق ناظرین سے مشو ین در چونکه قادیانی کیشن نہیں کرتی حتی کہ عمر کوخون یہ کی مرضعہ بھی ہوا ہے ا کانت بہت ۳۳) دودھ میں نمک ملانے کی مانعت کہیں دیکھی تو نہیں ہے یر بنا جاتا ہے.اور انار یں اتی گنجائش نہیں کہ اس کو کام متعلقات کو (۳۴) افلام مورتی کی اور آیات و یک کلمات سے بھی دم کیا ۳۴
یرحسین صاحب مرحوم دہلوی الگ ڈاؤدی شفاختہ میر کہائی ڈوانی نہ تسلیم لاہور) مر الواقعه الراجي رحمه الله الود ود عبدالله از اول تنمية لم اہل حدیث امرسته ۲۲ اپریل شام جاتا ہے.چنانچہ فاتحہ سے مارگزیدہ کا دم اور بسم الله رنی کی غیره کار تب دیا کہ تصنیف قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی است مذکور است که سجده بر قبور رابیان میں ماثور ہیں اور دم کرنے کے کئی طریق میں پا کر بین چریکی رکن یا با تو اولیاء طواف نمودن درها از این خواستن وندر با ایرانیان کردن حرام است بلکه میں پھونک کرنا تھوکا بدن کو منایا پانی کا م کرکے پلانا یا بدن کو گا اب چیز یا ازاں بلفر رساند و نیز قضای حاجت از غیرخدانخواستن ما را الک نفع حضرت رض الموت میں تھے تو عائشہ صدیقہ آپ کو دم کرتی اوردم کی میگه مضر خود اعتقاد کردن شرک ملی است العیاز باشد ؟ پر زیادتی برکت کو آپکا مبارک تھے پھر ادیتی تھیں اکثر دم کرنے میں نفت کا اور بعض لوگ گونیت یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں تقر بمحض اللہ ہی کا لفظ آیا سے جو خفیف سے لعاب کے ہمراہ پھونکنے کو کہتے ہیں.چنانچو نلفت منظور ہے صرف اس نذر کا ثواب انو لفٹ منظور ہے صرف اس نہر کا ثواب ہم ان بزرگوں کے نامہ نگار میں ایس کرنا میں نفع نفت - نقل - برق درجہ بد بو زیادتی لعاب پر دال لکھی ہیں.بظاہر شرک تو نہیں لیکن انکا اس مشرکانہ روش پر اپنا حال میں کبھی گانا - درجہ بدرجه پر (۳۵) بعضوں نے کچھہ اس کی اور بھی تاویل کی ہے لیکن ظاہر ہی کالا ضرور محسوس کراتا ہے.اور شہ طاہر خاص تاریخوں کا عہد اور فلاں بزرگ ہے کہ نیک خوابین نبوت کا ایک چھیالیسواں حصہ ہیں.بخاری کی موضوع کے لئے فلاں چیز کا تعین رشته پرستان کی گیارہ میں ہی ہو.بولی کی رانی روائت میں ہے کہ اب نبوت میں سے صرف عشرات رہ گئے لوگوں نے کہا وغیرہ وغیرہ.یہ کیا ضرور ہے چونکہ اس صورت میں کبھی وہی شر کی ڈانچہ برابر مبشرات کیا ؟ فرمایا نیک خوابین ایک لعذر وائت میں ہے کہ ماکان من کھڑا رہتا ہے.اس پہلو بھی جب کم من تشبه بقوم فهو منهم اشتباه النبوة فلا يكذب وجو ثبوت موجودہ جھوٹ نہیں ہوتا) اس پر نام المعروبن سے خالی نہیں.اس سے بھی مسلمانوں کو پر سیر لازم ہے اور ہم صورت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ خواب ہی شیطانی اور بشارت رحمانی تین قسم کی یہ تجمل طرق مروجہ معات پر داخل ہیں خیر القرون دائمہ دین سے انکا کوئی ہوتی ہیں.پس مومن کی رحمانی خواب جو نبوت کا ایک حصہ ہر ضرور بھی ہوئی ثبوت نہیں ہے افسوس ہے کہ ہماری کئی ایک سادہ لوح عالمہ ہائی بھی جہلا ہے.لیکن ایمان کی سچائی شر ہے.کے دام تندر ہے میں آجاتے اور ان مشبہات کی مشاعت کا فتوی دیا تو (۳۹) حضرت پانی سے اتنجا کرنے کے بعد ہاتھ زمین پر لیتو تھے ہیں اور عوام کو اسی بیٹری میری چینی کی عام بات لاتی ہیں حالانکہ اگر اس سے کہ یہ اس منے کی تائید کسکتی ہے اور تو معلوم نہیں.حق الامر کی تفتیش سے کام لیں تو یہی ایسانہ کریں مار کہنی اپنی تقری علی (۳۷) نقطہ کے سال بھر شہرت دینی کا حکم آیا ہے کہ الہت ہو تو ما اهل بہ لغیر اللہ میں فرماتی ہیں: نور ولا تقرب امریت پوشیده و پہلے بھی صرف کر سکتے ہیں چنانچہ علی نے ایک نیا پایا و در حواله او این گرفتاران این را میان می خواهند که مصدره الان بودید انشوده را در این و ناظریہ سینے کہا یا.بعد میں آپ عورت اسکی جو یاں ہوئی حضرت نے فرمایا کہ آثارات و علامات باید کرد: اور لکھتے ہیں کہ : علی دینار دید سے : + یه دانستن این امر حاضران این کار را را زیاده تر تیر است - خاص لعلا نیست بلکه + (۳۸) مکان احاطہ مسجد کی اجرت صرف سجد ہوسکتی ہو کیا ماند؟؟ حال علماء وحال میشین که موانه میکنند یہاں مشکل سے ماند ها شنیده (۳۹) نورالله پران پیر ہوں یا لی یا بولی یا بخاری کیا اور کوئی نام کے بعد ا ندیده و این علامات و آثارات و چیزی که آن تقرب میروند خلف الی کسی کی منت ماننا یا کسی سے امداد چاہنا صاف مشرک بنادیتا ہو کیونکر نذر و مستبدل باعتبار زمان و بلدان میشود عاقل را باشد که تامل و خورد کرده تفتیش ایک عبادت ہے.اور عبادت و استعانت دونوں اللہ ہی سے مخصوص ہیں نمائد اگر محافظت ایمان منظور است تفتیش کرده پر پنیر نماینده چنانم اياك نعبد وايارة تعین کا یہی مفہوم ہے علامہ محمد معین اپنے تیز تفصیل ان علامات میں تمیں لکہتے ہیں :- رسالہ کا اہل لغیراللہ میں کہتے ہیں کہ اس میدانند برائی غیر خدا حرام است و علیه العقد الا جماع بلکه کفر است کها سعاده جانها تلف کرده خوشدل میشوند وگا ہے این سم عمل برائی پر وہ پیر داشت و خود جميع الفقهاء من أفعال الكفرودة والتحدي لاندر غیرالله در سال اللہ نے نمائند با وجودیکه مراد ار ت برسانیدن نواب ایشان ده دهد و سران این خانه یه شیخ سد و مدیران و زین خان کدام حق برمین نادانان دارند که برای ایشان ۳۵ الفرض تدرغیر اللہ کا مال تو با انا تفاق حرام ہے دونم برشب برات میں حلوا باوکی تیا ر ہو یہ صرا مستقیم میں فرما تو ہیں.اتیا دہ ھونے
نمازار بعم: توں کا مقابلہ قیمت اہل حدیث امرسته فتاوی ہوتا ہے.کہ مالی احکام بالداروں ہی پر ہوتے ہیں والعلم عند الله ن : انگریزی لفٹ میں زکرتا ہے یا نہیں معترض کہتی ہیں کی س نمبر ۱۸۵ اگر کوئی بن سلام کسی کا رخ کر دی خیر کا شد بالا سونا چاندی نہیں ہے لہذا کوہ نہیں ہے اور دوسر کتنے روپیہ ہوئے.جا ہے زکوۃ دینا ہوگا.اور کتنا روپیہ دنیا ہوگا.شروع کردیا ہیں.تو اس کاکیا حکم ہے ؟ س کا جو قرآن شریف فارسی اردو انگریزی میں کہا جائی ج نمر: - نوٹ حقیقت میں قرض کی رسید و گویا کار درست ہیں کام کہتی ہے یا نہیں او سپر احکام اپنی مترتب ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور نوٹ اُس قرض کی رسید ہوتی ہے.سو ایسی رسید کہ ہر ایک جگہ دکھا کر س سمنت بار کو ان سمان دنیامیں ہیں یا تمام آسمانوںمیں منیان سر پہ وصول کر سکتا ہے.کسی مسیح کی دیر نہیں اور یہ سنا ہے کہ جو قرض کسی ایسے شخص ہو ہو.جو اقراری ہو.خصوصا ہر وقت دینے پر طیار ہو یہ انس.سوالوں کے جواب سے بذریعہ اخبار سرفراز فرماویں کام شار : بیٹنگ کردید و الاسلام اعلی ولایعلی اسلامی رسوم کا قرض پرکبھی آکنه و اجر ہے دوسری قوموں میں جلدی کرن گنہ نہیں دوسری قوموں کی رسوم مخالفہ کا ستم ا ا ا ا م م ج میں ای وی در فینال لینا کو رسول امینی اله ایام حج بی بی سودہ رضی خداصلی اسلام میں جاری کرنا گناہ ہے.ما سیلمہ کا اپنے سے پہلے منی سے کہ معظمہ کیطرت کے جید نیا کس کتاب میں مکھی ہو ج کنار - قرآن بشه اون کا فارسی انگریزی میں لکھنا دو طرح سے سنا : بی بی اور ان کو نیس که با موم اور جان صدیقہ منی لاله ہے ایک تو یہ گر مصرف نقوش فارسی اور انگریزی میں ہوں مگر الفاظ مربی ہی جنت کوئن کے بہالی مبدار من موم کے ساتھہ نیم پسینے میں تعارض ہو یانہ میں نہیں ملاد کے کمال کو فارسی میں اس طرع الحمد اور امنیری رومن میں مستی سے کہ اگر مسافت سفر نہیں لکھتا ہو اور کہ سے تقسیم ساخت سفر رکھتا ہے Alhamdou ) کہا ہے.اس صورت میں توں ونور ا ہل روم اور ان امام کے ساتھ انہیں کوئی شہر سال کی نہیں رآن ہی ہے کیونکہ نفوس کا اعتبار نہیں بلکہ الفاظ کا ہے نقوش اصلی عربی اور اگریسی اور یکہ کے درمیان مسافت سفر ہے تو سورہ مذ کو بلا مربہ آپ کیوں میں کبھی نہیں ہے کیو نکہ زیادہ نزول قرآن کا رسم الخط اس زمانہ سے بالکل بھیج دیا یا اگر منی دیکھ کے درمیان مسافت سفر و نیکی مستقیم مغائر تھا.حجاب بالکل مشترک ہے.اور اگر فارسی اگریزی سے مراد یہ لکھنا کہ عورت کے سفر میں محرم کا ہونا شرط ہے کیونکہ صحیح ہوگا ؟ ہے تو وہ قرآن شریف نہیں بلکہ ترجمہ ہے کیونکہ قرآن شریف کو قرآنا عرتا ج نمبر 19 : صحیح بخاری باب من قدم ضعفتہ المہ میں ہے.حدیث شریف میں ہو احبو العرب لثلاث انا عربی و القرآن عرب ج نمبر: - سافت سفر میں اختلاف ہے جن علماء کے نزدیک تین و نسان اهل الجنت عربی.پس میں ترجمہ کو قرآن مجید نہیں کہینگے بلکہ چار کوس کی ساخت کبھی ضر ہے اُن کے نزدیک تو دونوں نظام کو معظم سر سفر ہیں اور جن کے نزدیک نہیں پہنتیں میل ہے اُن کے نزدیک نہیں مگر گھنڈی دھٹر کی طرف رو با وی تودہ جانہ ہے یا کہنا جائز ؟ ترجمہ قرآن مجید کہینگے س منتشر : جو بکری یا بکرا یا دنبہ حلال کیا جائے.اور اس کی حضرت سودہ کو اس لئو اجازت دی تھی کہ اس کے ساتھہ چند ایک پہر گھرانی کے لوگ ساتھی بھی تھے.اور وہ خو بھی بہت بڑ میں تھیں ایسی صورت میں تشدد س تمت قربانی دینا ہر ایک سلمان کو شفت ہو یا حکم ہے یا کہ نہیں جوجوانی اور تنہائی کی صورت میں ہے کیونکہ فتنہ کا احتمال بہت دور ہو صرف، واستند گر چاہو اور نیز قربانی سنت ہے یا حکم ہے ؟ ممکن ہے کہ سود کا کوئی محرم بھی ساتھ ہو.گو او سکا ذکر نہیں ایسے ذرائو چوہ ج من مارا.کوئی ہرج نہیں.اگر میں جان کٹ جاری واقعات کی بناء پر قانون کلیہ میں فعل نہیں آتا.ج نمبر ۱:.قربانی کے متعلق اختلاف ہے منت تو بے نزدیک تھی اور سر کے پہرے میں فتوی ملا میں علی ہائی کریں ہونا چاہیے خفیہ کے نزدیک انداری شہر ہے مالی احکام شرعیہ پر ورکر نے بھی جیلی ام که به صورت پر خوار ده خولہ ہو یا غیہ خولہ یا واجب کے حدیث شریف میں I ایسا ہی آیا ہے.
المحدیث امارات امراه انتخاب الاخبار افسوس کہ آجکل ہر طرف سے طاعونی شدت کی خبریں آرہی ہیں مونهای عبدالرحمن دینا نگری جوان صالح اور مولوی غیر مذ الدین صاحب سیالکوٹی IFMLA) ABI.pyr 4o.ayn عم 1-77744 اور صرف خود ای سی پیل است ۱۰۰۰ ہوئی ایک کتب کے مصنف تھی.انتقال کر گئے.ملک چراغ الدین ساہوں ہی پنجاب میں ہفتہ نہیں.اندرین کو طاعون سے جو اموات واقعہ ہوئی ہیں.ضلع سیالکوٹ بھی طاعون سے فوت ہوئے.ناظرین سو ان کے جنازہ غائب کی ان کی تفصیل ضلع دار حسب ذیل ہے.مقصار ۱۰۰- رہتک ۱۹۷۹ گھوڑا گاؤں درخواست 5 اللهم اغفرم - 14 ۱۳۷ دی ۵۷۷ - کرمان ۷۳۳ - انبالہ ۱۹۷۸ - ہوشیار پور ۸۱۵ جالند بر ۲۴۸۵ مرزا صاحب قادیانی کار وی تاکہ جاں پر ایک شخص بھی خدا کا ایک اور میانه (۲۲ فیروز پور ۱۷۸۰ - منتگری ۲۲۹ - لاہور ۲۱۷۰ - امرتر ۱۳۲ بندہ ہوگا وہاں بھی طاعون کی بانہ ہو میگی مگر ناظرین یہ سنکر حیران ہونگے کہ گورداسپور ۲۷۰۰ - سیالکوٹ ۸۱ ۳۷ گوجر انوال ۵۲۵۴ - گجرات ۲۶۵۹ - کہ گزشتہ سال کی تباہی کے علاوہ انسانی بھی ضروری اور مارچ میں نادیاں شاہ پور ۱۸۲ - معلم ۵۲۷ - راولپنڈی (۲۳ - انا ۲۳۱- مستان ۴۳۶ اٹک ۱ - جیسے چھوٹے سے مقام پر جہاں کی آبادی کی دوار مانی ہزار ہے ۳۰ آدمی ریاست پٹیال ۱۳۳۶ کیپور تولد ۶۴ الی گونه ۱۰۹ - جیند ۲۰ - کلسید ۱۱۹ بلاک ہونے.فرید کوٹ ۱۷ - نامه ۱۷۷ کل ۳۴۲۳۶ - اس سے گذشتہ ہفتہ ۲۹۵۴ آمر کر کے دسٹرکٹ جج نے اپنے ہندو ار دلی کو نصے میں کہیں گالی پہلے سال کے اسی ہفته ۳۲۷۵ - راشن قادیانی کاضلع گورد، چون هر قالی خنجی واردلی دی اس پر اُس کے نوکری چھوڑوی اور شہر کے مہندؤں اور کھیلوں نے حضور و اسرائے بہادر ڈیرہ دون کی طرف آجکل سیر و کار میشی عمل میں ہے نور کا جلسہ کیا میں میں مقدمہ کے لئے چندہ ہوا.چنانچہ صاحب بہادر لاہور میں طاعون کی کثرت سے لوکل سکول بند ہو ہی میں مرد کی پناہ پر ناش کی جائیگی.نتیجہ کیا ہوگا وہی چوہوں کی کانفرنس کا بلی کے قابل.راجکوٹ میں ایک مسلمان چہر اسی نے دیوانہ ہوکرہ آدمیوں کو تلوار سے قتل کر ڈال ٹیلیگراف ماسٹر نے بڑی پھرتی سے اس کو پکڑ کر حوالہ پر ہوا تھا ، لاہور میں نجابی اخبار کے ایڈیٹر کے آخری فیصلہ پر ہندو نوجوانوں نے پولیس کیا.پڑا شور کیا.سپرنٹنڈنٹ پولیس اور کنی ایک اور یورپینوں پر حملے کئے تین لڑکے ماخذ ہیں.گورنمنٹ نے اپنی کا نسل جنرل بیٹی کی معرفت مولوی محمد انشا امینی ایڈیٹر اخبار وطن لاہور کے کئی ملے چاندی کے ان لوگوں کو تقسیم کر دینے کیلئی اخبار مسافر گرہ کے مقدر کی پیشی.اپریل کوئی نتیجہ اسلام بھیجی ہیں کہ جنہوں نے جہاز یوے کے فنڈمیں فیاضانہ طور سے چندہ شیخ محمد اسمی صاحب لاہوری کی بیوی اور لا کالا مون سے انتقال کرکئی دیا.ان تیپا نیوالوں میں دو یوروپین جنٹلمین اور ایک ہندو مسلمین ہے تھے میں احباب نے اُن کی تعزیت اور عبادت میں ہمدردی کے خطوط بیچے ان تینوں کو سلطان المعظم نے بالخصوص تمغہ عزت نشان عطا فرمایا.تھر شیخ صاحب نے اُن کا شکر یہ ادا کرنے کاخط لکھا تھا.جو ہنوز درج ہونے ہیٹی کے چیف پریز به نی مجسٹریٹ نے ان تمام پولی مینون کو بری کر دیا کہ نہ پایا تاکہ دو دن کے انتقال کی خبر بھی آگئی.اس لئے ناظرین سے درخواست جن پر دھول مکھی کا الزام کیا کمشنر پولیس نے مقدمہ فوجداری قائم کیا تھا.ہے کہ جسم کا جنادہ غائب پڑہیں.مرحوم پرانے نومسلم موجود تھے کئی سال عدالت نے قراردیا کہ پلیس مینوں نے کمیٹی کی وہ ڈیوٹی کے وقت نہیں بنتی بلکہ فرصت کے وقت منعقد کی گئی تھی اس لئے تمام پولیس مین ہے تصور میں سے مشن یاب تھی.اللهم النفط طاعونی اموات کا حساب شار میں ۵۶۰۰۰ میں ۱۰۲ امین ۱۰۱۸۸۳ ان پر فوجداری مقدر نہیں چل سکتا.سب پولیس میں بری کر دی گئی.۳۷ خداوند کی ہاں.ا اب.یورو چین اور خوں اور مفسروں کے اقوال سے عیسائی مذہب کی تردید ایک گریجویٹ کی تالیف سنی ، قیمت اور حصول اک تر کل امر
بالكل منبت پائے گی گوئی و ا ہے اور وہ سینہ سے چند رات میں دیئے گئے ہیںجو سال کا امت کی شیشی روس نے بوائے ک منت نذر کیا جا.کہ امرت کی تھا جن ہاتھوں میں ہیں چکی ہے وہ توہمیشہ اس محنت پرات ہیں جو تمام اشتہاری اور یاس سے بلین را کرتے ہیں اپنے والے یہ تجویز کی گئی ہے کہ وہ بھی ایک بار اس آب حیات کے فواید سے آگاہ ہوکر و درک کے دویات پر عش عش کریں.منت كى ومصاريف طرفہ تو یہ ہے کہ اس کا اثر یا کلام کنال میں تھے ترکی حدود است حالیہ ر عام پر و در امن بر نوں بچوں جوانوں عورتوں کو ہوتی ہیں ان سے کاوانی کے دانتوں سے خون بھانا.دانتوں کو ی متلانا، خون کی تھے مومو ن چناران کا کان بکاتوں میں بجلی.قدم گوش کرم کان - پی اسیر زنا کہ حال میں پھنسیار کے بینی چھینکیں آنا مد آکا تندد اور خلق میٹھے اچھانہ مینہ سوچنا.شہر وار ڈنگ بسوزاک - آتشک بدرجہ اختیار هم ورود انقدر - طاعون - بانی خود اران ہے واید شب روق ستیل سه ر سوت زنان- پیشگان به تاریخ بجگان بچہ کا دورہ دینا.3 نا حس و حرکت چاہیے رہنا تھا مایش دی مادہ بغیر سوچ زبان میں لب بھینی رہ دانت گلے پڑنا مقدم کرتا نا ناسور - آگ سے جلنا کثرت چھا پاکی یقین ، ابھی بیجار افراکن دل نامردی وغیرہ وغیرہ امراض کے لئے امرت کی نبھائیں گھر میں موجودہ ایک نعیم صادق موجود ہے اورت کی انتھا جس جیب میں میلہ طرح محضر نیا اہئے بریت کی مکا جی کریم کے اس بہتی ہے سے اور ادویات کی کیا ضرورت ہے مارت کی دھار کے سننے اوصیات کے تو تجھ ہیں.موت کی دودھار نے اس قدر نام پا یا ہے کہ اسکی بہ ان چھ پوشیشیاں ماہوار محبتی ہیں میں نے ایک فومنگوایا.ہمیشہ کے 11:11 ہے کہ فرمت کی دھار کا بہت نام دیکھ کر بہت لگا ہے.کے اشتہار یہ ہے ہیں اور ہماری فهرست نقل کردے.کی نامون بیل آتشک ہو تو اک وغیرہ جیسی سخت امراض کے ب گرید منفصل حال معلوم ہوگا- قیمت فی سعیشی به عنوز لکھنے کو اشتہاری مبالدست سی بی کا تھا منے ایسے اوصا VMOROS سی یم نے کمر یہ نہ کی دعا کے ہزاروں سائینفکٹ سے پاس موجود میں آپ نی کا تو ذکر ہی کیا ہے وہ کو دیکھتے ہی دم دبا کر بھاگتی ہیں بات شده ما صفت نہیں مل سکتی ہیوال سے لکھ رہا ہوں ہی کی نسبت کی مار کی تعریف کے فی امان میں تو میں احتیاجن من دیجاتی ہے اسی پر مفید ثابت ہوتی ہے دن ہیں.لے کام آتی ہے.شراب اور افیون چھنڈا رہتی ہے.ایک شیشی تمام بیماریوں سے محفوظ کے محنتی ہے.آمین! ٣٨
عکس پرچه ۱۹ ر ا پریل کہا جو پیشگی وار اپریل کو شائع ہوا.را یہ اختیار ہفتہ واریم جمعہ کے دن میں اہلحدیث امرت سر سی پیک شایع ہوا کہ اغراض و مقاصد دا، دین اسلام اور سنت نی علا السلام کی حمایت و اشاعت کرناہ (۲) مسلمانوں کی جوتا اور اہلحدیث کی خصوصا دیتی رو میری خد مت کرنا ) گورنمنٹ اور مسلمانوں کے تعلقات می نگہداشت کرناه قواعد و ضوابط قیمت بہر حال جنگی آنی چاہئی (۲) پیرزنگ خطوط وغیرہ واپس ہونگی ہوئے ہو؟ R.L.N.352.کی گفتار مجھ کسی کا قول کردار أهانت جب صل کئے تو نقل کیا ؟ (۳) نامہ نگاروں کے مضامین اشرط نمبر ۲۲ پسند مفت درج ہو گئیں شرح قیمت گریمنٹ عالیہ سے سالانہ ع والیان ریاست سو علیہ و رؤساء جاگیر داردان - المعه عام خریداروں سے غیر ممالک سے رد تانک پیششماہی ۳ شلنگ | انڈیا والوں سے وہم و خطا کا دخل کیا ؟ جلد أجرت اشتهارت کا فیصلہ بذریعہ خط و کتابت ہو سکتا ہو جمله خطا د کتابت و ارسال در بنام مالك احنا اهلحديث امر اسی نو یوم جمعه مورخه ۵ ربیع الاول ۱۳۷۵ هجرى المقدس مطابق 19 اپریل سن کرشن قادیانی اور اد پر پیار سے ہر آنا میں تو تیر آزما ہم جگر آنا میں مارچ کے قادیانی اخبار انکر میں ایک مضمون شمال تہا کہ ثناء اللہ تیری موادی مباہلہ کیوسط مولوی شنا داشته است دی کا نامال چیلنج منظور کیا گیا حضرت مسیح موعود کے حکم سے کیا گیا ثاراللہ قسم کھائے کہ مرزا صاحب قادیانی کا کوئی الہام ثابت نہیں.اسکا جواب صاحب این اخبار الحدیث نمبر ۲ مورخ ۲۹ ایچ سخن د ادمین حضرت.مارچ کے المحد ی میں دیا گیا تھا کہ ہم قسم کھانے کو پیار ہیں.امرت سر اقدس موقع موجود کی تازہ تصنیف " تا دیاں کے آریہ اور ہم کا یا بٹا راہی میں اگر چاہو ہم سے قسم دلوالو مگر پہلے بتلاؤ کہ اس قسم کا نتیجہ ذکر کرتے ہوں اور آریوں کی قسم کھانے کو متعلق اپنی پرانی است کیا ہوگا؟ اس کا جواب کرشن جی نے اپنے اخباروں دیدہ مورخہ ۴.اپریل کے مطابق ہے جانکتہ چینی کرتے ہوئی اخیر آیا کہتے ہیں.اور ا حکم مور قد اس مارچ میں ہو دیا ہے.ہم اس مضمون کو تمام و کمال سارا وہاں البتہ ہم اپنے دین کے ذمہ دار ہیں سو ہم تمہاری گرشر نقل کرتے ہیں تا کہ ناظرین کو صحیح رائے قائم کرنیکا موقع ملاسیکی مرید کرانی بیانی پر قسم کھانے کو طیار ہیں آؤ جس کے لو ہم نے مضمون منقولہ کے فقروں پر نمبر لگارہے ہیں پیس ناظرین اون گر پہلے یہ شائع کرا دو کہ اس اتمی نمبروں کو دیکھکر بہاری جوابات کو نمبر دار پڑہتے جائیں اور لطف اٹھائیں مرتبا غلام محمد قادیانی کو ہم خدا کینسرد رہینگے.قادیانی اڈیٹروں سے بنی توقع ہے کہ وہ ایمانداری سے کام لیکر ہماری اعلی درجہ کا جھوٹا مکار اور غریبی ہے اور اس کی کوئی پیشگوئی مدائی الہام سے نہیں ہے.مرزا ئیور سیتی ہوتو آؤ اور اپنی گرو طرح ہما را تمام مضمون نقل کرینگی.بہر حال وہ مضمون یہ ہے:.ریداری کہنا ضروری ہے.مینجر دائمی واروع : گرشده نبر کی بات پر دوسرے ہفتہ اطلاع آنے پر انار دوبارہ صفت تجھ کے مونہ درت میں سفری آیاتو اپریل کا اخبار مرتبہ تہا اور مرزا صاحب کو مبایلت کا جواب جلد بناتا تو واک بھی سی بختیار کیاگیا اسی است تایم کو تقدیم کوالا پر اس فرمائینگے ای یار ۳۹
۱۹ اپریل شاد بلو الحدیث امرتسر کو ساتھ لائم وہی میدان عید گاہ امرت سر طیار ہے جہاں تم ایک ہے اور وہ اس کو اول سے آخر تک بغور پڑھنے اس کتاب کے ساتھ میں صوفی عبد احق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکی ہو ایک اشتہار بھی ہماری طرف سے شائع ہوگا جس میں ہم یہ ظاہر کر دیگر امر کر میں نہیں تو بارہ میں آؤ سب کے سامنے کارروائی ہوگی کہ ہنی مولوی ثناء اللہ کے چلینج مباہل کو منظور کر لیا ہے اور ہم اول گر اس کے نتیجہ کی تفصیل اور تشریح کرشن بھی سے پہلو کر دو اور انہیں قسم کھاتے ہیں کہ وہ تمام الہامات جو اس کتاب میں ہم نے درج کئے ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتہم میں مباہلہ کے لئو ہیں وہ خدا کی طرف سے نہیں اور اگر یہ ہمارا افترا ہے تو لعنت اللہ علی دعوت دی ہوئی ہے کیونکہ جب تک پیغمبر جی سے فیصلہ نہو سب الكاذبان ایسا ہی مولوی ثناء اللہ بھی اس اشتہا را در کتاب کے است کے لئو کافی نہیں ہوسکتا؟ پڑہنے کے بعد بذریعہ ایک چینی موٹے انتہا کے قسم کو ساتھ یہ کہیں اس مضمون میں سے لیے یا طعن و تشنیع چھوڑ کر جس کے جواب کی کہ میں نے اس کتاب کو اول سے آخر تک بطور پڑھ لیتا ہے اس میں ضرورت نہیں.اصل مطلب کی بات صرف یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ جو الہامات ہیں وہ خدا کی طرف سے نہیں اور مرزا غلام محمد کا اپنا حضرت مسیح موعود مرزا صاحب کی تکذیب پر ایسا یقین اور ایمان افترا ہے اور اگر میں ایسا کہنے میں پھوٹتا ہوں تو لعنت اللہ علی رکھتے ہیں کہ وہ اس پر مضا تعالی کی قسم کھانے کو طیار ہیں اور اس الكاذب این اور اسکے ساتھ اپنے واسطی اور جو کچھ عذاب وہ خدا سے مباہلہ کے واسطے حضرت مرزا صاحب کو بلاتے ہیں اور حضرت مرزا مانگنا چاہیں مانگ لیں ان اشتہار اللہ کے شائع ہو جانے کے بعد صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اس مبالدہ کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کر دیگا اور صادق اور کا ذب میں فرق کر کے مباہلہ کیو اسلی امرت ، یا بٹالہ میں طرفین کا جمع ہونا تجویز کرتے ہیں.دکھلا دیگا ہاں اتنی بات ہم اس پر اور بڑھا دیتے ہیں کہ ہم خدا سے اس مضمون کے جواب میں میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشار نیا دیتا دعا کریں گے کہ یہ عذاب جو جھوٹے پر پڑے وہ اس طرز کا ہو کہ اس ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چلینج کو منظور کر لیا ؟ میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو.باقی رہا یہ امر کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا وہ بینک قسم کھا کر بیان کریں کہ شخص اپنے دعوے میں چھوٹا ہو مولوی ثناء اللہ کو واقف قرآن ہو کر امیں امر کے دریافت کرنے کی اور بیشک سلیمات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنت ضرور دکھتی.مباہلہ کی بنیاد جس آیت قرآنی پر ہے اس ہیں تو اللہ علی الکاذبین اور اس کے علاوہ ان کو اختیار ہو کہ اپنی جھوٹی صرف لعنت اللہ علی الکاذبین ہے اور اس جگہ خدا تعالی نے ہونے کی صورت میں ہلاکت وغیرہ کے جو مذاب اپنے لئے چاہیں خدا لعنت کو قائم مقام ان تمام مذاہوں اور وہانوں کا رکھا ہے جانیک سے مانگیں لیکن خدا کے رسول چونکہ رحیم و کریم ہوتے ہیں اور نکی ہر وقت صادق کی تکذیب میں گذین کے لائق حال ہوتے ہیں اور ہم ایمان یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت اور مصیبت میں نہ پڑ ہے رکھتے ہیں کہ مولوی ثناء اللہ کے متعلق یہی زمان بر وقت امتحانان اسواسطے باوجود اس قدر شوخیوں اور دل آزاریوں کے جو نار شد میں سے کسی کو خود دیکھ لیا.ہاں یہ ضروری ہے کہ مباہلہ کی تاثیر سے ہمیشہ ظہور میں آتی میں حضرت اقدس نے پھر بھی سپر رحم کر کے کاذب کے لئے ایک ایسے رنگ میں ظاہر ہو کہ جس کو دیکھ کر ایک فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جبکہ ہماری کتاب حقیقہ اومی زما نہ بول اٹھے کہ یہ ایک صادق کی تکذیب کی سزا ہے معمولی تخلیقات آپ کر شائع ہو جاتے اور امید ہے کہ میں پچیس روز تک انشاء الله یا مکروہات کا لاحق ہو جانا فی الواقع تاثیر بابا نہیں ہو سیتی میری کتاب شائع ہو جا دیگی اس کتاب میں ہر ختم کے دلائل سنت کے شنار جو چاہے اپنے لئے اپنی کتب کی سزا میں جناب تجویز کریٹ کے ثبوت میں خلاصہ بیان کئے گئے ہیں اور دو سو سے سوا اس یکن انسانی کسی کا حکم نہیں وہ اپنے معالی آپ سمجتا ہے.میں نشانات بھی ہو گئے ہیں.کتاب مولوی ثناء اللہ کے بھید کیا گی انسانی گرانٹ کسی مجرم کو سزا دینے میں مجوم کے منشار کا لحاظ ہیں مكو الاسلام پر چار بار کل جواب تقریب الاسلام در سال این مهم تر اسلام کا اسلام امامان داد را با این در اینجا اور این امرت سر ۴۰
الحدیث امرت سر کرتی تو وہ اکر ایک میں خدا کیوں کسی مجرم کے سن کے جاؤ اچھے سے کرنے میں تشہیر کے لئے میدانوں میں جمع ہونے کی ضرورت ہی نہیں رہی فی الواقعہ یہ ایک قسم کی شوخی انگلستانی ہے کہ ہم قرآن کریم کی اور این منانے کی تازہ شمال اسوقت قایم ہی ہو چکی ہے اور وہ یہ آیت مباہر کے مقابل تشریحات کے طالب ہوں البتہ ہم ایمان فر ہے کہ ڈوٹی کے ساتھ رجو امریکہ کے ملک میں تنہا اور مدعی نبوت تھا ، ہیں کہ اگر مولوی کاء اللہ نے کوئی حیلہ جوئی کر کے اس مباہلہ کو اپنی حضرت اقدس کا میا بلہ ہوا تہا جس کے بعد اول تو وہ ولد الدرنا ثابت ہوا سے نہ ٹال یا تو پھراللہ تعالی بالضرور مولوی مذکور کے متعلق جس کا اقرار اس لئے خود ہی کیا اور پھر اس کے مریدوں تھے اُسکو کوئی ایسا ہی نشان ظاہر کر نیامو مصدق و کذب کی پوری تیز کریگا.تمام جائداد سے بے دخل کر دیا اور بالاخر فالج میں مبتلا ہو کرفت آخر در خواست کنندگان آپ نے تو اپنے لئے یہ عذاب چاہا تھا کہ ان د خراب حالت میں مرگیا.وہ امریکہ میں تھا اور حضرت اقد مر قادیاں پر پتھر آسمان سے برسائے جاویں.خدا تعالٰی نے ان پر مذاب تو ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ سب زمین خدا کی ہے اور سب لوگ نازل کر کے انہیں ہلاک کر دیا لیکن پتھر پر جانے کی ضرورت نہ سمجھی اُس کے دست تصرف کے بھی ہیں خواہ کوئی امریکہ میںہو یا ایشیا ایں دیگر شده انفال روح و واد قَالُوا اللَّهُمَّانِ كَانَ هَذَا هُوَ آمریت اس میں ہو یا قادیاں ہیں.اینڈ ہے کہ انا ان کے بعد مولوی اشنا راشد کوئی نیا صدر نہ گھریں گی در اصل مولوی انشاء اللہ میں صحت میں ہماری کا اور حقیقت الوحی کے ملو اور اس کے تمام و کمال پڑھنے کے بعد فوراً ایران رکہتا ہے تو ا یسے تو مناسب ہو کہ جو شرط ہم کر یں وہ قبول کرتی ہوں مباہلہ کا اشتہار شائع کر دیں گے.دیوانے دیتی ہو یا ہر حسین منظور کرتی اور ہم کو کسی گریز دی ہم خود کا موقع نہ دے اور وہ منظور کر کے ہم کو مولوی صا حب کو یہی یا در ہے کہ ہم کو قرآن کریم نے فتنہ سنے بھٹو کی اطلاع دے کہ ہم ہر وقت بازی کتاب حقیقت الوحی کا ایک نسخہ تاکید کی ہے.امرت سر یا بارہ میں مباہلہ کے لیے جمع ہونا ایک قسم کے اسکو بغرض میباره بیجوں اور ساتھ ہی کہدے کہ کتاب کے پہونچتے فتہ کو بر پا کرتا ہے.کیا سنلا ء میں حضرت اقدس کا ایام رمضان پر وہ اس کو اول سے آخر تک بغور پڑ ہے اور پھر وہ اشتہار بہار میں مین امر که آنا مولوی ثنا اللہ کو یاد نہیں رہا اور جو درندگی اسوقت اعلان کر دی کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کتاب حقیقۃ الوحی کو شروع مولوی ثناء اللہ کے اہل وطن سے ظاہر ہوئی تھی اس کو کیوں گئے : سے آخر تک پڑھ لیا اور میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد بھی مرزا ہیں کیا مولوی ثناء اللہ حفظ امن کا امرت سر یا بٹالہ میں ذمہ خان فلام احمد کو مفتری اور قریبی سمجھتا ہوں اور اس کے تمام الہامات ہو سکتا ہے.مولوی نے کور کی جو ذاتی وجاہت ہے اس سے توہم اور پیشگوئیوں کو اتر آتا ہوں اور اگرمیں ایسا کہنے میں جھوٹا ہوں.تو خوب واقف ہیں لیکن ایسے مباہلہ میں تو انکی وجاہت بہی خان کیسی لعنت اللہ علی الکاذبین کی بریت کے تحت اللہ تعالی مجبو لاور اللہ اہی ہو جہاں کا مقابلہ پیرسینگی.مولوی ثناء اللہ خوب جانتا ہے کہ ی بارہ سے گریز کرنے کے اب مولوی شمار آمد کو اس خود تجویز کرده حضرت اقدس کا سفر میں روزہ کو چھوڑنا اس میں تعلیم قرآن کی تشریح کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی.ار کرنا بٹالہ تھی لیکن مولوی ثناءاللہ کو یاد ہو گا کہ مولوی مذکور نے اس پتھر میں مبیع کرنے کی جو تجویز انہوں نے مراد حصول شہرت پیش کی کہ اس ہو برسانے کے فعل کو عمدہ ظاہر کر کے اپنی فطرت کا اظہار دیا.کیا اس پڑھ کر میں طرح ان کی شہرت ہو جاو گی کیونکہ اشتہار کے اندر جو مباہلہ شہرمیں اسے باہر تجویز ہونا مناسب کے موادی صاحب اگر آپ کی ہو گا وہ تمام دنیا ں شائع ہو جائیگا اور ہماری انگریزی رسانه دیوالی کے امرت سوریا بٹالہ کو تجویز کرنے میں گریز کی بنیاد پہلے ہی نہیں رکھی ذریعہ سے یورپ امریکہ اور جاپان تک بھی مولوی ثناءاللہ صاحب کا دہلی میں مرزا صاحب کی چاہتی ہیوی کے ہم وطنوں سے کیا ظا ہر ہوا تھا؟ نام پہونچ جا دیگا.اس زبان میں سیب مطیع اور ڈاک کے ایسے ائر کانٹے تو ہر جگہ کانٹے ہی کا پہل دیئے.دہلحدیث : ۴۱ چھے چند دل - اریوں بسائیں اور سلمانوں کی بہادروں کا معافی قیت و ہدایت الز و جنین - بیوی خاوند کے حقوق کا بیان قیمت ار مینجر اہلحدیث امرت سر
تغییر تائی ہر چہار جملہ جنمیں ہونے پاروں کی تفسیری اردو زبان میں کی اسی محمد تقی آج تک نہیں.نیت سے حصوں سے جلد نجم زیر یع M الحديث المرتر کیا حرج ہے کہ تحریر کے ذریعہ پیالہ ہو جائے.لیکن اگر آپ تایل مقصد اور دجال جانتا ہوں اثرات ملکہ سالہا سال سے تو میں آپ کے ماہر 5 پر ہی راضی ہیں کہ یا متقابل کھڑے ہوکر زبانی مباہلہ ہو توپھر آپ تا دیا کیونکرڈر سکتا ہوں.یہ تو نہیں بلکہ آپ کو یہ است گوئی کا سبق دیتا ہوں کہ آسکتے ہیں اور اپنے ہمراہ دس تک آدمی لا سکتے ہیں اور ہم آپ کے زایداہ آپ کوٹا پر مقالہ میں اور خصوصا ہیر سے مقابلہ پر کذب بیانی نہ کیا کریں کیونکہ آپ کے یہاں آنے اور مباہلہ کرنے کے بعد پچاس روپیہ تک لیکتر میں آپ کے کایہ کہنے میں بفقد تعالی مجتہد کا درجہ رکھتا ہوں سے ہیں لیکن یہ امر ہر حال میں ضروری ہوگا کہ مباہ ہونے سے پہلے پر رنگی که خواهی نامه و بوش + من اندازه قدرت را می شناسم فریقین میں شرایطہ تحریر ہو جائیں گئے اور الفاظ کہا کہ تحریر ہوکر ہیں نہیں میں نے جو کہا وہی میری طرف شہرت کیجئے.دروغ گوئی سے کام جو تحریر پر فریقین اور ان کے ساتھ گواہوں کے دستخط ہو جاویں گے لیے میں نے حلف اٹھا نا کہا ہے باہر نہیں کہا نہ میں نے آپ کو دعوت دی اور قادیاں آپنے کی صورت میں ہم شروط حقیقۃ الوحی کو بھی ضروری ہے بلکہ آپ کی دعوت کو منظور کیا ہے.نہ میں لئے لعنت اللہ علی الکاذبین نہیں سمجھتے.لیکن کمزوری ہے کہ مباہر کرنے سے پہلی ہمارا حق ہوتا کہنا کہا تھا.قسم اور ہے سیاہ اور ہے.تم کو مباہلہ کہنا آپ کیسے راست کہ ہم دو گھنٹہ تک اپنے دعاوی اور ثبوت کی تبلیغ کریں اور مولوی گوؤں ہی کا کام ہے اور کسی کا نہیں.اور ثناء اللہ خا موشی سے سنتار ہے اور بیچ میں نہ بولے اور بعد میں غیرہ کے مطابق مہی ہم نیا نہیں گر نمبرے میں ہم آپ دلائل سنانے کا وعد تیرہ میں بھی آپنے معمولی کذب ہر کام کیا ہے یہاں اگر آپ ایسے ہی رحم دل وہ قوم ظاہر کرنے کہ نہیں اس تبلیغ کے لٹنے کے بعد مرزا غلام احمد تھے تو پادری عید اللہ انہم کی بابت کیوں کہا تھا کہ پندرہ ماہ کے اندر اندر کے دنیاوی کو صحیح نہیں کہتا.اگر آخر الذکر باہ کو مودی نالہ مرجائیگا ہ کیوں آپنے مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری اور اس کے لیے گن ڈائے پسند کرے تو جب چاہے وہ آسکتا ہے البتہ آنے سے پہلے ایک کی موت کی پیشنگوئی شائع کی تھی ؟ ہاں ہم تمہاری اس مہربانی کا گر یہی جانتی ہے تا ہم کو طلاع دے اور اس کے قادیاں آنے کی صورت میں ہیں کہ گورنمنٹ سے بچو نکہ تحریری اقرار ہے کہ میں دم نام کسی کے حق میں اس کی جان اور آبرو کے ہم ذمہ دار ہیں کیونکہ ہماری جماعت مثل موت یا عذاب کی پیشگوئی نہ کرونگا.اسکو اب رحمت اور مہربانی کی موتی ہو بیٹوں کے ہو اور ہمارے تابع ہے اوران لوگوں کی طرع درندہ ہی ہے.مصمت بی بی ست از بے چادری طبع نہیں جنکا نمونہ امریت سرمیں دیکھا گیا تھا ہے ( مدور - ہم ایتال) جو اس نہر اول دوم سوم اور چہارم میں آپنے با لکل سفید ہوٹ سو کام دیتے ہیں.کیا اس قسم کے وعدے آپ نے پہلے نہیں کئے ہو کیا آپ کو یاد یا ہے.کیونکہ میں نے آپکو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا بلکہ اپنے یا آپ کے حکم سے نہیں کہ شروع شروع میں آپ نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے انتظار کرنے ر قبول آپکے دی ہوں ، آپ کے تابعدار مہ براڈ پٹرا حکم نے جم کو ختم کھانے لک نے مجھ کو تم کھانے کے لو کیسے کیسے اشتہارات شائی کے ہی مر جب وہ نکل آیا تو کیا کھا رہی ہو کے لیے کہا جیکوئین نے منظور کیا ہے.افسوس ہے میں نے تو قسم کھانے پر ہے میں نے تو قسم کھانے پر تقول مجھے سے جو چیرا تو اک قطره خون نکلاب آمادگی کی ہے گر آپ اسکو مباہلہ کہتے ہیں مارا کہ مباہلہ اسکی کہتے ہیں جو فریقین تیرہ میں ہی اپنے اپنے دجال ہونے کا ثبوت دیا.خواہ مخواہ اپنی قسم کا ذکر مقابلہ پر قسمیں کھائیں.خلفہ اور قسم تو ہمیشہ ہر روز عدالتوں میں ہوتی ہے لیکن ؟ روز عدالتوں میں ہوتی ہے لیکن کر دیا.51 جناب پہنچ آپ کو کب ختم کھانے کے لیے کہا ہ ہم تو آپ کو قسم کھلاتے کہا میں ہلہ اس کو کوئی نہیں کہتا پر ہوش سے سنئے اور مخلوق کو رہو کہ نہ دیکھے ہیں ؟ ہیں نہ آپکی قسم کا اعتبار کرتے ہیں.خواہ آپ سنتے تورے پر رکھیں نے جو کہا ہے رہی کہئے.اپنی معولی کذب سے کام نہ بیٹھوں یہ نہیں کہ میں آپ ہیں تو قرآن میں آپکی قسم پر تباہ کرنے سے منع کیا گیا ہے.پھر ہم آپ کو سے باہر کرنے سے ڈرتا ہوں معاذاللہ جب میں آپکو محض خدا کی اسٹو ایک کیوں قسم دیں اور کیوں اعتبار کریں.ہاں اپنے کو تم کھانے کے لئے کہا اسلو اور میری پہلے قادیاں پہ جو پر جو آپنے جس نے عمدہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیر مہر دیا امد میر کو دیا ہم تمہارے کہنے سے قسم کہانے کو چھا رہیں.تبار ہی کافی ہو ان پچاس کی بہلا کیا.تیرہ ہی فضول ہے ہم تو اسی وحد سے پر قائم ہیں جو ہم نے ۲۹ امی کی ۴۲
یہ عکس اخبار المحمدیث وار اپریل نام کے آخری صفہ کا ہے.اس پرچے کے پہلے صفحہ کا حاشیہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ پرچہ ایک ہفتہ پیشگی شائع کیا گیا اور ڈاک خانہ مجیٹھ منڈی کی شہر سے ظاہر ہے کہ یہ پرچہ ۱۲ر اپریل شام کو پوسٹ کر دیا گیا تھا.اندر کے صفر کے کونے کو موڑ دیا گیا ہے.(قاضی محمد نذیر (مؤلف) کره کیه سفید ہونے سے منع کر دیا مینجراہل حدیث پریس امرت سر بان کی دوائی کے تو ایک قمر RAP ته درندگی و هار کو مات ان کی ام آن
19 1 اپریل سن شام کے پرچہ کے صفحہ ، کالم اسطر ۲۱ تا ۲۸ کا عکس - بیشک الفاظ مباہلہ مقرر ہو چکے ہیں جی ہم نے تمہارے ہی منقولہ مضمون میں خط دیدیا ہے جبکہ تم نے یہی منظور کر لیا ہے.(تبر (۲) بیشک اپنی سچائی کے دلائل سنائے لیکن یہ تو بتلائے کہ وہ دلائل ایسے ہی ہونگے جو آجک, اپنے تمام ملک شائع کئے ہیں دنیا ناصہ صرف یہ ہے ہے قلم تیرا ہوا جب آن گو ہر فشانی سے ، مہارت کو سیکہ دینی ہوئی بار معانی یا کوئی ایسے دلائل ہیں جو ابھی تک خاص میرے ہی لئے ریند و محفوظ کر رکھتے ہیں اگر کوئی خاص دلائل ہیں تو میں بخوشی سونگا اور اعتراض نہی کرونگا کیو کا ازالہ اوہام میں آپنے مباہلہ سے پہلے مباحثہ ہونا ضروری کی کہا.तत