Aaili Masail

Aaili Masail

عائلی مسائل اور اُن کا حل

انتخاب از ارشادات
Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
اخلاقیات

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پُر حکمت ارشادات پر مبنی کتاب جس میں عائلی زندگی کے حوالے سے درپیش مشکلات کا اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل پیش کیا گیا ہے۔ حضرت امیر المؤمنین کے یہ فرمودات نہ صرف میاں بیوی کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لئے بلکہ اُن کی آئندہ نسلوں کی بہترین تربیت کے لئے بھی مشعلِ راہ ہیں۔


Book Content

Page 1

عائلی مسائل اور اُن کا حل انتخاب از ارشادات حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

عائلی مسائل اور ان کا حل عائلی مسائل اور اُن کا حل "ISSUES OF FAMILY LIFE AND ITS RESOLUTION" Issues of Family Life and its Resolution Proposed by Hazrat Khalifatul - Masih V First Published in UK in 2018: Quantity:10,000 Published by: Lajna Section Markazia 22 Deer Park Road, London SW19 3TL.UK Printed at: Raqeem Printing Press Farnham GU10 2AQ Composed by: Shehla Nasir ISBN: 978-1-84880-144-8 2

Page 3

بسم الله الرّحمٰنِ الرّج عائلی مسائل اور ان کا حل نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم ابتدائیہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے متعدد خطبات جمعہ ، مختلف ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ اور لجنہ اماء اللہ کے اجتماعات نیز دیگر مواقع پر روز مرہ کے عائلی مسائل اور اُن کے حل کے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت سی پر حکمت نصائح اور زریں ارشادات فرمائے ہیں جو کامیاب عائلی زندگی گزارنے کے لئے مشعل راہ ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ سیکشن مرکزیہ کو اُن گرانقدر ارشادات اور بابرکت نصائح کو جو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے آغاز خلافت سے 2013ء تک مختلف جرائد وکتب میں دستیاب ہیں یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کرنے کی سعادت مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور بالخصوص احمدی خواتین کے لئے باعث برکت ورہنمائی بنائے تاکہ ہمارے گھر جنت نظیر اور امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائیں.اس کتاب کی تکمیل اور اشاعت کے مختلف مراحل میں لجنہ سیکشن کی ٹیم کے علاوہ مکرم محمود احمد ملک صاحب (واقف زندگی، کار کن ایڈیشنل وکالت اشاعت لندن) نیز شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ یو کے نے بھی معاونت فراہم کی ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء خاکسار ریحانہ احمد انچارج لجنہ سیکشن 3

Page 4

پیش لفظ عائلی مسائل کے متعلق جو میں نے باتیں بیان کی ہیں یہ حالات حاضرہ کے مطابق ہیں.انہیں لجنہ وناصرات کو پڑھنا چاہئے اور ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے.نیز مجالس کو بھی ان باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور وقتاً فوقتاً انہیں اجلاسات اور میٹنگز میں دہراتے بھی رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ لجنہ کو ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین مرزا مسر وراحمد خلیفة المسیح الخامس 4

Page 5

عائلی مسائل اور ان کا حل فهرست عناوین صفحہ نمبر ابتدائیہ پیش لفظ از حضرت امیر المومنین حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نکاح کے وقت پڑھی جانے والی مسنون آیات کریمہ اسلامی نکاح اسلامی نکاح ایک عہد شادی مرد اور عورت کے درمیان معاہدہ نکاح اور شادی کا مقصد نسل انسانی بڑھانے کا ذریعہ.قولِ سدید : پائید اررشتوں کی بنیاد قولِ سدید اور تقویٰ کی کمی کے نتیجہ میں سسرال کی زیادتیاں.اسلام مکمل ضابطہ حیات عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں.غصہ پر قابو.10.13.13.18.22230 28.35.334 37.40.5

Page 6

47...............50..56...............57..........59..59...........63.64 87.2018 67 72 93 93..93..101 105.109.عائلی مسائل اور ان کا حل معاشرے میں مرد اور عورت کا کردار زندگی کے ساتھی اور اولاد کے حق میں دعائیں.والدین میں باہمی محبت اور پیار کے فقدان کا بچوں پر بد اثر.السلام علیکم کہنے کی برکات حسن سلوک کے اعلیٰ معیار والدین سے حسن سلوک.صلہ رحمی : رشتہ داروں کے حقوق رحمی رشتے اور ان کی اہمیت...رشتے داروں سے حسن سلوک مرد عورتوں پر نگران ہیں جوائنٹ فیملی سسٹم : مشتر کہ خاندانی نظام عائلی زندگی میں مسائل کے چند اسباب بیویوں پر الزام تراشی اور نارواسلوک مردوں میں حرص اور بے غیرتی ناجائز مطالبے عورت کے مال اور جائیداد پر نظر

Page 7

حق مہر کی اہمیت وعدوں کی پاسداری اور حق مہر کی ادائیگی.عورت کے حقوق بحوالہ حق مہر تعلقات میں تلخی کی چند وجوہات ناپسند کی شادیاں.ذاتی انا: مسائل کا پہاڑ قوت برداشت کی کمی جھوٹ کی وجہ سے بے اعتمادی جھوٹ اور جھوٹی گواہی قناعت اور توکل علی اللہ کی کمی.عورتوں کی ناجائز خواہشات اور مطالبات پر سکون عائلی زندگی کیلئے پر حکمت تعلیم عائلی مسائل اور ان کا حل 115.115.118.123.123.126................130.132..134...13.6................137.147.147.148.151 _ صبر اور حوصلہ شکر گزاری خاوند سے کامل وفا اور استغفار کی ترغیب دعاؤں ، صدقات اور توبہ استغفار سے مشکل حالات کا مقابلہ 152 عائلی زندگی میں زبان ، کان اور آنکھ کا اہم کر دار فرمانبردار بیوی اور متقی خاوند 156...159.7

Page 8

عائلی مسائل اور ان کا حل مردوں کے فرائض اہل خانہ سے حسن سلوک شرائط تعدد ازدواج اور پہلی بیویوں کے حقوق خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق مردوں کے رویے اور ان کو نصائح ہر فرد راعی ہے طلاق یا خلع مطلقہ عورتوں کے حقوق صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قابل تقلید نمونہ عورت کے جذبات کا احساس 161................161 163.171 17.7.…….............178.183.185..189..........195...............احمدی عورت کا اہم کردار اور اس کی ذمہ داریاں معاشرے میں عورت کا کردار بچوں کو بدظنیوں اور کدورتوں سے بچائیں عورت بحیثیت بیوی عورت بحیثیت ماں عورت بحیثیت گھر کی نگران ام المومنین حضرت اماں جان کی نصائح 199.......199..202.203 204............210.216.8

Page 9

بیٹیاں آگ سے نجات کا ذریعہ فریقین کے دوستوں اور سہیلیوں کا کردار عہدیداران کو نصائح عہدیداران کو نصیحت اور تنبیہ لجنہ اماء اللہ کی ذمہ داریاں پریشانیوں کا حل : استغفار ایک جامع پیغام عائلی مسائل اور ان کا حل 219.220.223.223.227.228.229.9

Page 10

عائلی مسائل اور ان کا حل نکاح کے وقت پڑھی جانے والی مسنون آیات کریمہ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ) (النساء : 2) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب : 72-71) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا الله.إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ) (الحشر : 19) 10 10

Page 11

عائلی مسائل اور ان کا حل ترجمہ: اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا.اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو.یقینا اللہ تم پر نگران ہے.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو.وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا.اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً اس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.11

Page 12

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں عیب نظر آتا ہے یا اس کی کوئی اور ادانا پسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی.تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مد نظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے.آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہیئے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈر مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16جولائی 2004ء) 12

Page 13

عائلی مسائل اور ان کا حل اسلامی نکاح ایک عہد گذشتہ صفحات میں اُن آیات کریمہ کو مع ترجمہ تحریر کیا گیا ہے جنہیں اعلانِ نکاح کے موقع پر تلاوت کرنا مسنون ہے.سیّد نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان آیات کو اعلان نکاح کے وقت تلاوت کئے جانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مردو عورت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جارہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں.ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو، تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے.کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا ، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم 13

Page 14

عائلی مسائل اور ان کا حل ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہر وگے.میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں.یا درکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے ، ان کی عزت کر رہے ہوں گے ، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے.آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالی شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے.جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہو گا تو پھر بھڑ کانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں اور ایسا شخص جو کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے اگر وہ سچا ہے تو یہ بھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میر انام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات 14

Page 15

عائلی مسائل اور ان کا حل اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ.بات کر کے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے، اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے.اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو.پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لیتا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا احترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تاکہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے.اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) اسی طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا: "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو 15

Page 16

عائلی مسائل اور ان کا حل دوسرے میں عیب نظر آتا ہے یا اس کی کوئی اور ادانا پسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی.تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مد نظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے.آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہئے تو یہ میاں بیوی دونوں کو نصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں تو چھوٹی چھوٹی جو ہر وقت گھروں میں لڑائیاں ، چیخ چیخ ہوتی رہتی ہیں وہ نہ ہوں اور بچے بھی برباد نہ ہوں.ذرا ذراسی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بد تر “.(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی ساگا، کینیڈر مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2004ء) ایک دوسرے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتا ہے.عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلاً خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ.اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پر ہے.ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہے اور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے.تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی 16

Page 17

عائلی مسائل اور ان کا حل پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہو تا چلا جائے گا“.(خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2003ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 فروری 2004ء) جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت 2 کی تلاوت کرنے کے بعد اس کے حوالہ سے چند نصائح فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: وو یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ نکاح کے وقت تلاوت کی جاتی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے لوگو (مردو عور تو ! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اس سے ڈرو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرو.اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر و اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو.حقوق اللہ ادا کرنے سے تمہارے دل میں اُس کی خشیت قائم رہے گی.تمہارا ذہن اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے گا، تم دین پر قائم رہو گی، شیطان تم پر غالب نہیں آسکے گا، حقوق العباد ادا کرو گے.تم دونوں مردوں اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے.سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں.ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں.ایک دوسرے کے حقوق کا پاس رکھیں.اپنے گھروں کو محبت اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اولاد کے حق ادا کریں.ان کو وقت دیں ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کریں.بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو ماں باپ دونوں کو بچوں کو سکھانی پڑتی 17

Page 18

عائلی مسائل اور ان کا حل ہیں، بجائے اس کے کہ بچہ باہر سے سیکھ کر آئے.ایک دوسرے کے ماں باپ، بہن بھائی سے پیار و محبت کا تعلق رکھیں.ان کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہے اور اس طرح جو معاشرہ قائم ہو گا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہو گا.اس میں لڑ بھڑ کر حقوق لینے کا سوال ہی نہیں ہے.تو اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہو گی.ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کر رہا ہو گا “.(جلسہ سالانہ جرمنی 23 اگست 2003 خطاب از مستورات مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2005ء) شادی مرد اور عورت کے درمیان معاہدہ 23 جولائی 2011ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور انور کے خطاب سے قبل تلاوت قرآن کریم میں جن آیات کریمہ کا انتخاب حضور انور نے فرمایا تھا، وہ وہی آیات تھیں جو اعلان نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعد ازاں اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا: ” میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں.یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل چلتی ہے.اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو، اس جوڑے میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں، کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے“.18

Page 19

پھر فرمایا: عائلی مسائل اور ان کا حل پس ایک مومن جہاں اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے وہاں مخلوق کے عہد کو بھی پورا کرنے کی بھر پور کوشش ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار حاصل نہیں ہو سکتے.اُس میں بھی بال آنے لگ جاتے ہیں، کریک (Crack) آ جاتے ہیں اور جب کسی برتن میں ایک دفعہ کریک (Crack) آ جائے تو پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے.پس حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے اور حقوق العباد میں خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.معاشرے اور اگلی نسل کی بہتری کے لئے ان کی بہت اہمیت ہے اس لئے ان کو بجالانا ایک مومن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس لئے توجہ دلائی ہے اور یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نکاح کے موقع پر رکھی ہیں کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، تبھی تم خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی بھی صحیح رنگ میں ادائیگی کر سکو گے اور اپنے معاشرے کی امانتوں اور عہدوں کی بھی صحیح طرح ادائیگی کر سکو گے.پس ہر مومن اور مومنہ کو یا د رکھنا چاہئے ، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ یا در کھنا چاہئے کہ وہ اپنے عہد کے دعوے کو تبھی پورا کرنے والے بن سکتے ہیں 19

Page 20

عائلی مسائل اور ان کا حل جب اپنے ہر رشتے کی جو بنیاد ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے“.(جلسه سالانہ برطانیہ 23 جولائی 2011ء، مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 04 مئی 2012ء) باہمی رشتوں کے حوالہ سے احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح کرتے ہوئے ایک حدیث نبوی ایم کا حوالہ دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے فرمایا: ”حضرت عامر " کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو مومنوں کو ان کے آپس کے رہن ، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کیلئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا ( صحیح مسلم کتاب البر والصلة والادب، باب تراحم المو منین و تعاطفهم و تعاهد هم) خدا کرے آپ لوگ اپنے ماحول میں پیدا ہوتی ہوئی برائیوں کو ایک جسم کی رہتا ہے.طرح دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہو جائیں.نیز فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو.میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے.اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے.یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق 20

Page 21

عائلی مسائل اور ان کا حل ادا کرنے کی کوشش کریں گے.تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں.وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی.ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں.ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں.اللہ تعالیٰ کی اس وار ننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے.جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے.وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے.دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے“.- (خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 2005ء بمقام انٹر نیشنل سینٹر.ٹورانٹو کینیڈا مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 08جولائی 2005ء) 21

Page 22

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد عمل ”اس بات کو ہمیشہ ہمارے ہر احمدی جوڑے کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر سامنے کوئی مقصد ہو گا تو پھر نئے بننے والے جوڑے کا ہر قدم جو زندگی میں اٹھے گا، وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اور کرنے والی ہوں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے حکم پر کرنے والا ہو تو پھر اس کی سوچ کا ہر پہلو اس طرف جانے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ہو“.مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 8 جون 2012ء) 22

Page 23

عائلی مسائل اور ان کا حل نکاح اور شادی کا مقصد نسل انسانی بڑھانے کا ذریعہ 15 مئی 2011ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں اعلانِ نکاح کے موقع پر دیئے گئے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ”نکاح اور شادی انسانی نسل کے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے، جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے.بعض صحابہ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے.تجرد کی زندگی گزاریں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میری سنت پر عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں پہ ہو گا.میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں.کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں“.حضور انور نے مزید فرمایا: ”نکاح جو ایک بنیادی حکم ہے یہ صرف معاشرہ اور نسل کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ بہت ساری برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور ایک نیک نسل چلانے کے لئے ہے.پس نئے جوڑوں کو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ شادیاں جو کسی مذہب کو ماننے والوں میں اور خاص طور پر اسلام کو ماننے والوں میں ہوتی ہیں، ایک مسلمان کے گھر میں جو شادی ہے یہ صرف 23

Page 24

عائلی مسائل اور ان کا حل دنیاوی سکون کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے، اس پر عمل کیا جائے اور آئندہ کے لئے اللہ تعالی سے دعا مانگتے ہوئے نیک نسل پیدا ہونے کا آغاز کیا جائے“.نیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس اس بات کو ہمیشہ ہمارے ہر احمدی جوڑے کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر سامنے کوئی مقصد ہو گا تو پھر نئے بننے والے جوڑے کا ہر قدم جو زندگی میں اٹھے گا، وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اور کرنے والی ہوں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے والا ہو تو پھر اس کی سوچ کا ہر پہلو اس طرف جانے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ہو.پس اس سے پھر آپس کے تعلقات مزید بہتر ہوتے ہیں.ایک دوسرے کا خیال انسان رکھتا ہے.ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے.ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھتا ہے اور اس طرح یہ ایک جو Bond ہے، آپس کا ایک جو معاہدہ ہے وہ دنیاوی معاہدہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا معاہدہ بن جاتا ہے اور پھر آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں بھی نیک صالح نسلیں ہوتی ہیں اور یہی ایک احمدی مسلمان کا شادی کا مقصد ہونا چاہئے“.(مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 8 جون 2012ء) 8 جولائی 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الاسلام کینیڈا میں دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.اس موقع پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے 24

Page 25

فرمایا: عائلی مسائل اور ان کا حل اس وقت میں چند نکاحوں کے اعلان کروں گا.دنیا میں آجکل انسانی نفسیات کے بارہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن جس انسانی نفسیات کو جس طرح آنحضرت ام نے جانا، بڑے بڑے ماہرین اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے اور اسی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پر جن چند آیات کا انتخاب فرمایا ان میں تقویٰ پر خاص طور پر بہت زور دیا، رشتہ داروں، رحمی رشتہ داروں کے تعلقات پر بہت زور دیا اور پھر اس بات پر بھی کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا؟ پس یہ چیزیں اگر نئے قائم ہونے والے رشتوں میں اور ان نئے قائم ہونے والے رشتوں کے رشتہ داروں میں، جو دونوں طرف کے قریبی رشتہ دار ہیں، ماں، باپ، بہن، بھائی ان میں پیدا ہو جائیں تو کبھی وہ مسائل نہ اٹھیں جو عموماً رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتے ہیں جو رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں، جو دونوں خاندانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور پھر بعض دفعہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جب مقدمات میں ملوث ہو جاتے ہیں تو پھر میرے تک معاملات پہنچتے ہیں اور پھر شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں.پس ہمیشہ رشتے قائم کرتے ہوئے، یہ رشتے قائم کرنے والوں کو، لڑکا لڑکی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ صرف دنیاوی مقاصد کے لئے یہ رشتے قائم نہ ہوں.صرف اپنی تسکین اور خواہشات پوری کرنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں.25

Page 26

عائلی مسائل اور ان کا حل صرف لڑکی کے جہیز کو دیکھنے کے لئے اور لڑکی کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں.نہ لڑکی والے اس بنا پر رشتہ قائم کریں کہ لڑکا بہت کمانے والا ہے، پیسے والا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا نے رشتہ قائم کرنے کے لئے مختلف معیار رکھے ہوئے ہیں تو تم جس معیار کو دیکھو، وہ یہ ہے کہ دینی حالت کیا ہے.پس جب دینی حالت دیکھی جائے گی تو لڑکا بھی اور لڑکی بھی اپنے دینی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں گے.اگر لڑکے کو یہ کہا دینی معیار دیکھو لڑکی کا، حسن دیکھنے کی بجائے، دولت دیکھنے کی بجائے تو جہاں لڑکیوں میں یہ شوق اور روح پیدا ہوگی کہ ہم اپنے دینی معیار کو بلند کریں، علاوہ دوسری دنیوی نعمتوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، تو خود لڑکے کو بھی پھر اپنا دینی معیار بلند کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی.کیونکہ دینی معیار صرف یکطرفہ نہیں ہو سکتا.یہ نہیں کہ لڑکا تو خود بیہودگیوں میں ملوث ہو اور مختلف قسم کی آوارہ گردیوں میں ملوث ہو، دنیاداری میں ملوث ہو اور یہ خواہش رکھے کہ اس کی بیوی جو آنے والی ہے اس کا دینی معیار بلند ہو.تو ظاہر ہے کہ جب یہ خواہش ہوگی کہ دینی معیار بلند ہو میری دلہن کا تو خود بھی وہ اس طرف توجہ دے گا.اسی لئے نکاح کے خطبہ کے موقعہ پر تقویٰ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے.پس یہ قائم ہونے والے رشتے اگر ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ تقویٰ پہ قائم رہنا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا ہے، ایک دوسرے کے رحمی 26

Page 27

عائلی مسائل اور ان کا حل رشتہ داروں کا مخیال رکھنا ہے.لڑکی نے لڑکے والوں کا خیال رکھنا ہے اپنے سسرال کا اور لڑکے نے اپنے سسرال کا خیال رکھنا ہے تو کبھی وہ مسائل پیدا نہ ہوں جو رشتوں میں پیدا ہوتے ہیں..دوسری بات یہ اہم ہے کہ ہمیشہ اعتماد قائم ہونا چاہئے اور اعتماد اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب سچائی پر بنیاد ہو.قول سدید کا مطلب یہ ہے کہ ایسی سچائی جس میں بالکل کسی قسم کا ایچ بیچ نہ ہو، سیدھی اور کھری اور صاف بات ہو.یہ نہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ شادی کے بعد ، لڑکی کو یالڑکے کو کہ انٹرنیٹ (Internet) پر ای میلوں (Emails) کے ذریعہ بعض ایسے رابطے ہیں جن کی وجہ سے پھر بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے.پس پہلے دن سے جب رشتے قائم ہوں، سچائی پر بنیاد رکھ کر ، اپنا سب کچھ واضح طور پر بتا دینا چاہئے اور پھر رشتے قائم کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں کسی قسم کی بے اعتمادی پیدا نہ ہو.پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس دنیا کو سب کچھ نہ سمجھو بلکہ یہ دیکھو کہ اس دنیا میں چند سال کی زندگی گزارنے کے بعد ، نوجوانی کی عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں ویسے بھی دنیا کی طرف خواہش کم ہو جاتی ہے، یہ نوجوانی کے بھی چند سال ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ دنیا کی خواہشات کو پورا کیا جاسکتا ہے.لیکن بڑھاپے اور نوجوانی کی عمر گزارنے کے بعد بھی 70 سال 80 سال جو زندہ رہے گا، تو جو اخروی زندگی ہے جو آخری زندگی ہے اور ہمیشہ کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا خیال رکھو.پس اگر یہ چیزیں ہمارے اندر 27

Page 28

عائلی مسائل اور ان کا حل پیدا ہو جائیں، ہمارے رشتوں میں پیدا ہو جائیں تو کبھی بے اعتمادی نہ ہو، کبھی رشتے نہ ٹوٹیں، کبھی لڑائیاں نہ ہوں، ایک دوسرے کے جذبات کا، احساسات کا خیال رکھنے والے ہوں.پس یہ قائم ہونے والے رشتے ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھیں اور جماعت میں خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے.ایک وقت تھا کہ جب ہم کہا کرتے تھے کہ اس یورپین معاشرہ میں، مغربی معاشرہ میں رشتے بہت ٹوٹتے ہیں اور اس کی وجہ یہی بے اعتمادی ہوتی ہے، لڑکا اور لڑکی میں، میاں اور بیوی میں ایک عمر کے بعد ، چند سال گزارنے کے بعد بے اعتمادیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور رشتے ٹوٹتے ہیں“.قولِ سدید : پائیدار رشتوں کی بنیاد ( مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 21 ستمبر 2012ء) عبادالرحمن کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے، عائلی مسائل کے ضمن میں ایک موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پھر دسویں خصوصیت یہ ہے کہ عبادالرحمن نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں.یہ جھوٹ بھی قوموں کے تنزل اور تباہی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے بندے اور الہی جماعتیں جو ہیں انہوں نے تو اونچائی کی طرف جانا ہے اور ان سے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ان کے لئے ترقی کی منازل ہیں جو انہوں نے طے کرنی ہیں اور اوپر سے اوپر چلتے چلے جانا ہے.اُن میں اگر جھوٹ آجائے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے نہیں 28

Page 29

عائلی مسائل اور ان کا حل رہتے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے یا جن سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.پس احمدیوں کو اپنی گواہیوں میں بھی اور اپنے معاملات میں بھی جب پیش کرتے ہیں تو سو فیصد سچ سے کام لینا چاہئے.مثلاً عائلی معاملات ہیں.نکاح کے وقت اس گواہی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم قول سدید سے کام لیں گے.سچ سے کام لیں گے.ایسا سچ بولیں گے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو.جس سے کوئی اور مطلب بھی اخذ نہ کیا جا سکتا ہو.صاف ستھری بات ہو.لیکن شادی کے بعد لڑکی لڑکے سے غلط بیانی کرتی ہے اور لڑکا لڑکی سے غلط بیانی کرتا ہے.دونوں کے سسرال والے ایک دوسرے سے غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان رشتوں میں پھر دراڑیں پڑتی چلی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جاتے ہیں.صرف ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں.اگر بچے ہو گئے ہیں تو وہ بھی برباد ہو جاتے ہیں.پہلے بھی کئی مرتبہ میں اس بارہ میں کہہ چکا ہوں.پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے بھی اور بندوں کے حق ادا کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ایک مومن کو، ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو عبادالرحمن میں شمار کرتے ہیں ہر قسم کے جھوٹ سے نفرت ہو“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 2009ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 اکتوبر 2009ء) اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا: ”پس جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو 29

Page 30

عائلی مسائل اور ان کا حل پیش نظر رکھیں، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی.آپ جو ناجائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مر تکب ہو رہے ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کر والیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو.تو تقویٰ سے دور ہوں گے تو پھر یقینا شرک کی جھولی میں جاگریں گے.پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) قولِ سدید اور تقویٰ کی کمی کے نتیجہ میں سسرال کی زیادتیاں عائلی مسائل کے حوالے سے قولِ سدید کی اہمیت کے ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کے حوالے سے فرمایا: ایک اور مسئلہ جو آج کل عائلی مسئلہ رہتا ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی اس بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے بچیوں کی طرف سے کہ سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم یا زیادتی برداشت کر رہی ہیں.بعض دفعہ لڑکی کو لڑکے کے حالات نہیں بتائے جاتے یا ایسے غیر واضح اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا جاتا ہے کہ لڑکی یا لڑکی کے والدین اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن جب آپ بیچ میں جائیں تو ایسی بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ خوف آتا ہے.ایسی صورت میں بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکا تو شرافت سے ہمدردی سے بچی کو ، بیوی کو گھر 30

Page 31

عائلی مسائل اور ان کا حل میں بسانا چاہتا ہے لیکن ساس یا نندیں اس قسم کی سختیاں کرتی ہیں اور اپنے بیٹے یا بھائی سے ایسی زیادتیاں کرواتی ہیں کہ لڑکی بیچاری کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں.یا تو وہ علیحدگی اختیار کر لے یا پھر تمام عمر اس ظلم کی چکی میں پستی رہے اور یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ بعض صورتوں میں جب اس قسم کی زیادتیاں ہوتی ہیں، جب لڑکی کے بحیثیت بہو اختیارات اس کے پاس آتے ہیں تو پھر وہ ساس پر بھی زیادتیاں کر جاتی ہے اور اس پر ظلم شروع کر دیتی ہے.اس طرح یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایسے خاندانوں میں جو تقویٰ سے کام نہیں لیتے جاری رہتا ہے.حالانکہ نکاح کے وقت جب ایجاب وقبول ہوتا ہے ، تقویٰ اور قول سدید کے ذکر والی آیات پڑھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایسا جنت نظیر معاشرہ قائم کرو اور ایسا ماحول پیدا کرو کہ غیر بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں.لیکن گو چند مثالیں ہی ہوں گی جماعت میں لیکن بہر حال دکھ دہ اور تکلیف دہ مثالیں ہیں.اب یہ جو آیت جس کی تشریح ہو رہی ہے یہ بھی نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں سے ایک آیت ہے.جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہر بات سے پہلے ، ہر کام سے پہلے سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو گا اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.خیال ہوتا ہے زیادتی کرنے والوں کا کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا.ہم گھر میں بیٹھے کسی کی لڑکی پر جو مرضی ظلم کرتے چلے جائیں.31

Page 32

عائلی مسائل اور ان کا حل اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.تو پھر اگر یہ خیال دل میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دیکھ رہا ہے اور اللہ کو اس کی خبر ہے تو حضور (حضرت خلیفتہ المسیح الاول) فرماتے ہیں کہ ان برائیوں سے بچا جاسکتا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی گھرانہ خاوند ہو یا بیوی ، ساس ہو یا بہو ، نند ہو یا بھا بھی تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے والی ہوں“.(خطبہ جمعہ 30 مئی 2003، بمقام مسجد فضل لندن، مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 18جولائی 2003ء) اسی موضوع پر حضور انور ایدہ اللہ اپنے ایک اور خطبہ میں فرماتے ہیں: بعض دفعہ گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلش میں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سر بھی ، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آکر یا خود ہی بہوؤں کو برابھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھالیتے ہیں.پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مر گئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے.اللہ عقل دے ایسے مردوں کو.ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ یادرکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نامر دہیں“.(خطبہ جمعہ فرمود 2 جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی ساگا، کینیڈ کی مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2004ء) 24 جون 2005ء کو ٹورانٹو (کینیڈا) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باہمی رشتوں کے حوالہ سے احباب 32

Page 33

جماعت کو نہایت اہم نصائح کرتے ہوئے فرمایا: عائلی مسائل اور ان کا حل ”مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے.ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا.یالڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ(Understanding) نہ ہو اور ان کا آپس میں اعتماد پیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے.پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں.کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو“.(مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 08 جولائی 2005ء) 33

Page 34

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد اللہ تعالیٰ نے دونوں کو، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے.فرماتا ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ - (البقرة: 188) یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو.یعنی آپس کے تعلقات کی پردہ پوشی جو ہے وہ دونوں کی ذمہ داری ہے.قرآن کریم میں ہی خدا تعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے.پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں“.(3) اپریل 2009 خطبہ جمعہ مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2009ء) 34

Page 35

اسلام عائلی مسائل اور ان کا حل مکمل ضابطہ حیات حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی مسلمان عورت کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار احکامات دیئے ہیں.بعض جگہ صرف مومنو! یہ کام کرو کہہ کر مخاطب کیا ہے.بعض جگہ عورت، مرد دونوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کر کے احکامات عطا فرمائے ہیں.جہاں بھی یہ حکم ہے کہ اے مومنو یہ کام کرو اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی فرما دی کہ جو احکامات قرآن کریم میں ہیں وہ تم سب مومن مردوں اور مومن عورتوں پر عائد ہوتے ہیں اس لئے اُن کی بجا آوری کی کوشش کرو اور اگر تم یہ اعمال صالح بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی زندگی بخش انعامات سے نوازے گا.جو اس زندگی میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھر دیں گے اور آخرت میں بھی“.پھر فرمایا: قرآن کریم ایک مکمل تعلیم ہے اس کو سیکھیں اور اس پر عمل کریں کسی 35

Page 36

عائلی مسائل اور ان کا حل قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس تعو پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اس طرف بلائیں ایسے عمل دکھا ئیں تاکہ آپ کے اعلیٰ معیار دیکھ کر غیر عور تیں آپ سے رہنمائی حاصل کریں.دنیا کی عورتیں آپ کے پاس یہ سوال لے کر آئیں کہ گو ہم بعض دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہیں بظاہر ہم آزاد ماحول میں اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دل کا سکون اور چین حاصل نہیں کر سکیں.ہمارے اندر ایک بے چینی ہے ہمارے خاندانوں میں بٹوارہ ہے ایک وقت کے بعد خاوند بیویوں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے.جس سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں اور سکون اور یکسوئی سے نہیں رہ سکتے جب کہ تمہارے گھروں کے نقشے ہمارے گھروں سے مختلف نظر آتے ہیں.تمہارے گھر ہمیں پر سکون نظر آتے ہیں ہم تمہیں ماڈل سمجھتے ہیں.ہمیں بتاؤ کہ ہم یہ سکون کس طرح حاصل کریں؟ یہ غیروں کو آپ کے پاس آکر سوال پوچھنا چاہیے.پھر آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اُسے تم بھول رہی ہو.نہ مرد اس پر عمل کر رہے ہیں نہ عور تیں اُس پر عمل کر رہی ہیں اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا اور نیک اور صالح اعمال بجا لانا اور یہ تمہیں حقیقی اسلام میں ہی نظر آئے گا“.(جلسہ سالانہ یو کے، خطاب از مستورات فرمودہ 29 جولائی 2006ء) مزید فرمایا: حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے 36

Page 37

عائلی مسائل اور ان کا حل لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے.اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے.ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے.لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی ، جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو وہ ہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے.یہ بھی عبادت ہے.اگر یہ خیالات ہوں ہر احمدی کے تو آج کل کے جو عائلی جھگڑے ہیں، تو تکار اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگیاں ہیں ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے.بیوی اپنی ذمہ داریاں سمجھے گی کہ میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ میں خاوند کی خدمت کروں، اس کا حق ادا کروں اور اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میں یہ کر رہی ہوں گی تو اس کا ثواب ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں کو یہ بتایا کہ اگر تم اس طرح کرو تو تمہارا یہ فعل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے عبادت بن جائے گا.اس کا ثواب ملے گا.تو یہ چیزیں ہیں جو انسان کو سوچنی چاہئیں اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بعض گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مارچ 2009ء بمقام بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 3 اپریل 2009ء) عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشادِ خداوندی کہ میاں بیوی ایک دوسرے 37

Page 38

عائلی مسائل اور ان کا حل کا لباس ہیں، کے ضمن میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے میاں بیوی کے تعلقات کا بھی مختصر اذکر کیا تھا کہ بعض حالات میں کس طرح آپس کے اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے پر گند اچھالنے سے بھی دونوں فریق باز نہیں رہتے اور یہ بات خد اتعالیٰ کو سخت ناپسند ہے.اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے.فرماتا ہے : هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.(البقرة:188) یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو.یعنی آپس کے تعلقات کی پردہ پوشی جو ہے وہ دونوں کی ذمہ داری ہے.قرآن کریم میں ہی خدا تعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، مرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے.پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑ کنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو.بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں.ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر.38

Page 39

عائلی مسائل اور ان کا حل آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں“.مزید فرمایا: ” جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ یہ سب پر دے اس وقت چاک ہوتے ہیں جب جوش اور غیظ و غضب میں انسان بڑھ جاتا ہے.اس لئے اسے دبانے کی ضرورت ہے.غصہ کو دبانا وہ عمل ہے جو خدا تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے اور اسے نہ کرنے کا حکم دیا ہے.پس ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے یہ عہد باندھا ہے کہ میں اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کروں گا، اپنے گھر یلو تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کروں گا تو اُس کو اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مجھے جب ایسے جھگڑوں کا پتہ لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے اظہار کر کے گھروں کے ٹوٹنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں.تو ہمیشہ ایک بچی کا واقعہ یاد آ جاتا ہے جس نے ایک جوڑے کو بڑا اچھا سبق دیا تھا.اُس کے سامنے ایک جوڑا لڑائی کرنے لگا یا بحث کرنے لگے یا غصہ میں اونچی بولنے لگے تو وہ بچی حیرت سے ان کو دیکھتی چلی جارہی تھی.خیر ان کو احساس ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے اماں ابا کبھی نہیں لڑے؟ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا؟ اس نے کہا ہاں ان کو غصہ تو آتا ہے لیکن جب امی کو غصہ آتا ہے تو ابا خاموش ہو جاتے ہیں اور جب میرے باپ کو غصہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی 39

Page 40

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے.تو یہ برداشت جو ہے اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے.بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتداء میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں.چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے.حالانکہ رشتے کئی کئی سال سے قائم ہوتے ہیں اس کے بعد شادی ہوئی ہوتی ہے اور پھر اصل بات یہ ہے کہ یہ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھتے، باتیں جب باہر نکالی جاتی ہیں تو باہر کے لوگ بھی جو ہیں مشورہ دینے والے بھی جو ہیں وہ اپنے مزے لینے کے لئے یا ان کو عاد تا غلط مشورے دینے کی عادت ہوتی ہے وہ پھر ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جن سے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں.اس لئے مشورہ بھی ایک امانت ہے.جب ایسے لوگ ، ایسے جوڑے، مرد ہوں یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، کسی کے پاس آئیں تو ایک احمدی کا فرض ہے کہ ان کو ایسے مشورے دیں جن سے ان کے گھر جڑیں، نہ کہ ٹوٹیں“.(3) اپریل 2009 خطبہ جمعہ مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2009ء) غصہ پر قابو وو عائلی مسائل کو پیدا ہونے سے روکنے کیلئے فریقین کا اپنے غصہ پر قابو پانا نہایت ضروری ہے.اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پس مرد اور عورت کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ پردہ پوشی بھی اس وقت ہوتی ہے جب غصہ پر قابو ہو اور یہ اس وقت ہو گا جب خدا تعالیٰ کا خوف ہو گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباس تقوی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے 40

Page 41

عائلی مسائل اور ان کا حل جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يُبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ.ذَلِكَ مِنْ آيَتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذْكُرُونَ (الاعراف:2) اے بنی آدم یقینا ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں.یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے.تمہارا نگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے.یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا.انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہو اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس، لباس تقویٰ ہے.یہاں میں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا، جو زینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے.آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل Fashionable اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو.مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا الباس زینت ہے.لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ 41

Page 42

عائلی مسائل اور ان کا حل رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو.اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے.وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے.اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں.ایک طبقہ جو ہے مردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے.چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یانہ ڈھک رہا ہو.لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے.چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خدا کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہو گی.جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا اور جب تقویٰ کے ساتھ میاں بیوی کا جو ایک دوسرے کا لباس ہیں اس کا بھی خیال رکھا جائے گا اور اسی طرح معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب پوشی کرنے کے لئے آپس کے تعلقات میں بھی کسی اونچ پہنچ کی صورت میں تقویٰ کو مد نظر رکھا جائے گا“.( 3 اپریل 2009 خطبہ جمعہ مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2009ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ بالا مضمون کو قرآنی تعلیمات کے حوالے سے ذیل میں یوں بیان فرمایا: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ - (البقرة: 188) 42

Page 43

رازدار عائلی مسائل اور ان کا حل یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو.پھر یہ بھی حکم دیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے دار بھی ہیں.یہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے.یہ راز داری ہمیشہ راز داری ہی رہنی چاہئے.یہ نہیں کہ کبھی جھگڑے ہوئے تو ایک دوسرے کی غیر ضروری باتوں کی تشہیر شروع کر دو ، لوگوں کو بتانا شروع کر دو.پھر یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اگر آپس میں اچھے تعلقات ہیں ، معاشرے کو پتہ ہے کہ اچھے تعلقات ہیں، تو معاشرے میں بھی عورت اور مرد کا ایک مقام بنا رہتا ہے.کسی کو نہ عورت پر انگلی اٹھانے کی جرآت ہوتی ہے اور نہ کسی کو مرد پر انگلی اٹھانے کی جرات ہوتی ہے.تو یہاں خاوند اور بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.نہ مرد، عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور نہ عورت، مرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے.فرمایا کہ اس سے نہ صرف تم اپنی گھریلو زندگی خوشگوار بناؤ گے، اچھے تعلقات رکھ کر ، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر رہے ہو گے.ان کو محفوظ کرنے کے بھی سامان کر رہے ہو گے.تو اس طرح بہت سے حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کے رکھے ہیں اور دونوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی کریں.عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح مر داور دونوں اگر صحیح ہوں سے تو اگلی نسل بھی صحیح طریق پر پروان چڑھے گی، اس کی تربیت بھی صحیح ہو گی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ 43

Page 44

عائلی مسائل اور ان کا حل دلائی ہے“.(جلسه سالانه جر منی خطاب مستورات فرمودہ 21 اگست 2004 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2015ء) سیرت نبوی ام کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: آپ ا نے جہاں امانت و دیانت کے یہ اعلیٰ نمونے دکھائے وہاں اُمت کو بھی نصیحت کی کہ اس کی مثالیں قائم کرو اور پھر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اس کا خیال رکھو.مثلاً میاں بیوی کے تعلقات ہیں.اس میں بھی آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ یہ تعلقات امانت ہوتے ہیں ان کا خیال رکھو.حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله لم نے فرمایا کہ : قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے.پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے.(سنن ابی داؤد، کتاب الادب باب في نقل الحديث) آج کل کے معاشرے میں میاں بیوی کی آپس کی باتیں جو اُن کی ہوتی ہیں وہ لوگ اپنے ماں باپ کو بتا دیتے ہیں اور پھر اس سے بعض دفعہ بد مزگیاں پیدا ہوتی ہیں.لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.بعض دفعہ ماں باپ کو خود عادت ہوتی ہے کہ بچوں سے کرید کرید کے باتیں پوچھتے ہیں.پھر یہی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں.اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا: میاں بیوی کی یہ باتیں کسی بھی قسم کی باتیں ہوں نہ ان کا حق بنتا ہے کہ دوسروں کو بتائیں اور نہ 44

Page 45

عائلی مسائل اور ان کا حل دوسروں کو پو چھنی چاہئیں اور سننی چاہئیں.اگر اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں تو بہت سارے جھگڑے میرے خیال میں خود بخود ختم ہو جائیں“.(خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 05 اگست 2005ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں: ”اگر ان عائلی جھگڑوں میں، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آگئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں اور اسی طرح بعض اور وجوہ کی وجہ سے معاشرے میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں.جھوٹی اناؤں کی وجہ سے جو نفرتیں معاشرے میں پنپ رہی ہیں یا پیدا ہو رہی ہیں ان کو دور کریں.ایک دوسرے کی غلطیوں اور زیادتیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کو اختیار کریں.ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی برائیاں مشہور کرنے کی بجائے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کریں.ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھنی چاہئے.اللہ کا خوف کرنا چاہئے“.(خطبہ جمعہ 24 جون 2005ء بمقام انٹر نیشنل سینٹر.ٹورانٹو، کینیڈا.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 08 جولائی 2005ء) 45

Page 46

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی ہے کہ : رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمَامًا (الفرقان:75) اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے.پس یہ دعا جہاں مردوں کے لئے اہم ہے وہاں عورتوں کے لئے بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور جب ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کی طرف بھی نظر ہو گی“.(جلسه سالانه جرمنی، خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء.مطبوعہ 13 اپریل 2012ء) 46 46

Page 47

عائلی مسائل اور ان کا حل معاشرے میں مردو عورت کا کردار حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ہالینڈ کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " آج میں یہاں خواتین کو چند باتوں کی طرف مختصر اتوجہ دلاؤں گا.کیونکہ معاشرہ میں اور خاص طور پر اسلامی معاشرہ میں مردوں اور عورتوں دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے اس لئے اسلام نے عورت کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے جس طرح مردوں کے حقوق و فرائض کی.عورت ہی ہے جس کی گود میں آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور عورت ہی ہے جو قوموں کے بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح کھول کر عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارہ میں فرمایا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں جس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق تربیت دینے کی طرف توجہ دلائی ہے ،اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو احمدیت کے اندر بھی ہمیشہ حسین معاشرہ قائم ہو تا چلا جائے گا اور پھر اس کا اثر آپ کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہے گا، جماعت کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اثر گھروں 47

Page 48

عائلی مسائل اور ان کا حل سے باہر بھی ظاہر ہو گا.اس کا اثر جماعت کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ پر بھی ظاہر ہو گا اور اس کا اثر گلی گلی اور شہر شہر اور ملک ملک ظاہر ہو گا اور وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کا علم دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اس تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے میں اور جلد از جلد تمام دنیا کو آنحضرت ام کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں ہم تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنا کر دار ادا کرنے کی کوشش کرے“.(جلسه سالانہ ہالینڈ خطاب از مستورات فرمودہ 3 جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2005ء) اسی طرح جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر عورتوں سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا: ”جیسا کہ میں نے کل کے خطبہ میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے جو درجے ہیں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت کو دل میں قائم کرتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ضروری ہے.ان میں سے ہر ایک پر قدم رکھنا ہو گا.ہر حکم کو بجالانا ہو گا.تب ہی فلاح بھی حاصل کرو گے اور جنتوں کے بھی وارث ٹھہر و گے اور وہ حکم ہیں (کل میں نے گن کر بتائے تھے) پہلا یہ ہے کہ اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے عاجزی سے ادا کرو.اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو یہ سوچ کر کہ خدا 48

Page 49

عائلی مسائل اور ان کا حل میرے سامنے ہے پھر اس سے مانگو.اپنے لئے بھی مانگو، اپنے خاوندوں کے لئے بھی مانگو، اپنی اولاد کے لئے بھی مانگو کہ اے اللہ تو ہی ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنے والا ہے.تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری عبادات بجالا سکیں.اے اللہ ہمیں ، ہماری اولاد اور ہمارے خاوندوں کو ان نیکیوں پر قائم کر اور نماز کے بارے میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو عاجزی دکھاتے ہوئے.یہ عاجزی اس وقت پیدا ہو گی جب یہ احساس ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں.اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں.حدیث میں ہے کہ اگر یہ نہیں، یہ احساس نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو کم از کم یہ احساس ضرور ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے.تبھی عاجزی بھی پیدا ہوتی ہے اور عبادات میں بھی توجہ تبھی قائم رہے گی جب مختلف قسم کی جو لغویات اور فضول باتیں ہیں ان سے بچیں گی.اس کے لئے کوشش بھی کریں اور نمازوں میں بھی دعا کریں کہ اے اللہ ! ہمیں اور ہماری اولادوں کو اور ہمارے خاوندوں کو ان سے بچا، ان لغویات سے بچا.نیز حضور نے ان لغویات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عورتوں کو خاص طور پر بیٹھ کر باتیں کرنے کی، لغو باتیں کرنے کی زیادہ عادت ہوتی ہے.ویسے یہ مردوں کو بھی ہے اس سے بہر حال بچنا چاہئے.مثلاً یہ کہ فلاں کے کپڑے ایسے ہیں، فلاں کا گھر ایسا ہے، فلاں کے بچوں کو یہ یہ 49

Page 50

عائلی مسائل اور ان کا حل گندی عادتیں ہیں، فلاں میاں بیوی کے ایسے تعلقات ہیں.یہ ساری فضول باتیں ہیں، لغو باتیں ہیں.اگر تو واقعی ایسے ہیں تو تمہارا کام یہ ہے کہ دعا کرو.اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو کہ وہ بھی ہمارے بھائی بند ہیں، وہ بھی ہماری بہنیں ہیں ، اللہ تعالیٰ بہتر کرے اور اگر یہ یہ برائیاں ہیں، یہ خامیاں ہیں تو وہ دور ہو جائیں.اگر وہ لوگ ایسے نہیں اور یہ باتیں تم صرف باتوں کا مزہ لینے کے لئے کر رہے ہو تو یہ گناہ ہے اور اسلام نے عورت کا جو مقام رکھا ہے یا جس مقام کی توقع کی ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عورت ، خاص طور پر ہر احمدی عورت، ان لغویات اور گناہ کی باتوں سے پر ہیز کرے“.(جلسہ سالانہ جرمنی 21 اگست 2004ء خطاب از مستورات مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2015ء) زندگی کے ساتھی اور اولاد کے حق میں دعائیں کامیاب عائلی زندگی گزارنے کیلئے دعاؤں کی اہمیت کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: پس ہر عورت اور مرد کو دعاؤں اور اپنی عملی حالت میں کوشش کے ساتھ تبدیلی کر کے حقیقی بیعت کنندگان میں شامل ہونے کا نمونہ دکھانا چاہئے تا کہ ان لوگوں میں شامل ہوں جو نہ صرف اپنی نیک حالتوں کی فکر میں رہتے ہیں بلکہ انہیں اپنی نسلوں کی بھلائی کی بھی فکر رہتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی ہے کہ: 50 50

Page 51

عائلی مسائل اور ان کا حل رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمَامًا (الفرقان:75) اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے.پس یہ دعا جہاں مردوں کے لئے اہم ہے وہاں عورتوں کے لئے بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور جب ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کی طرف بھی نظر ہو گی.ایک دوسرے کی برائیوں سے صرفِ نظر ہو گی اور ایک دوسرے کی خوبیوں کی طرف نظر ہو گی.میرے پاس بعض دفعہ نئے جوڑے آتے ہیں کہ نصیحت کریں اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ آجکل خلع اور طلاق کے حالات بڑے قابل فکر حد تک ہیں.تو میں اُن کو یہی کہتا ہوں کہ ایک دوسرے کی برائیوں سے صرفِ نظر کرو اور ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھو.اب جو شادیاں ہو گئی ہیں تو ان جوڑوں کو ، ان رشتوں کو نبھاؤ اور پھر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے.جب دعاؤں سے اور کوشش سے یہ کر رہے ہو گے تو انشاء اللہ تعالی رشتے بھی کامیاب ہوں گے.جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں بھی ماں باپ کے نیک نمونے دیکھ کر ماں باپ 51

Page 52

عائلی مسائل اور ان کا حل کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی کوشش کریں گی اور جب خدا تعالیٰ کے حضور مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کی دعا کر رہے ہوں گے اور نسل میں سے متقی پیدا ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے کہ : واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا نیک نسل کی دعا ہی ہے.کیونکہ ایک گھرانے کا سر براہ ہی اپنے گھر کا امام ہے.جو یہ کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا تو اس کا مطلب ہے کہ میری نسل میں سے نیک لوگ ہی پیدا کر.پس جب مرد یہ دعا مانگ رہا ہو گا تو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے متقی ہونے کی دعامانگ رہا ہو گا.جب عورت دعا مانگ رہی ہو گی تو گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ اپنے بچوں کے متقی ہونے کے لئے دعا مانگ رہی ہو گی اور جب اس شوق کے ساتھ دعا ہو گی تو پھر اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھنے کی کوشش ہوگی اور ایسا گھر پھر جنت کا نظارہ پیش کرنے والا گھر ہو گا جس میں بڑے، بچے ،سب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گے اور پھر ایسے ماں باپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ بچے اُن کے لئے ثواب کا موجب بھی بن رہے ہوں گے.بچوں کی نیک تربیت کا ماں باپ کو ثواب مل رہا ہو گا.باپ کو تو ثواب مل رہا ہو گا لیکن ماں کو بھی ثواب مل رہا ہو گا کیونکہ گھر کے نگر ان کی حیثیت سے ماں ذمہ وار ہے.بچوں کی نیکیاں اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن رہی ہوں.کون مومن ہے جو ایمان کا دعویٰ کرے اور پھر یہ کہے کہ مرنے کے بعد مجھے درجات کی بلندی کی ضرورت نہیں ہے.پس 52

Page 53

عائلی مسائل اور ان کا حل یہ دعا ایک ایسی دعا ہے جو نسلوں کے سدھارنے کے بھی کام آتی ہے اور اپنی اصلاح کے بھی کام آتی ہے اور مرنے کے بعد نیک نسل کی دعاؤں اور اعمال کی وجہ سے درجات کی بلندی کے بھی کام آتی ہے اور پھر اس میں مومن کی شان کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ ترقی کی منازل کی طرف قدم مارتا ہے.اس کے قدم آگے بڑھتے ہیں.متقی خود بھی تقویٰ میں بڑھتا ہے اور اپنی نسل کو بھی تقویٰ میں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے.پس خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کی تربیت کی فکر میں رہتے ہیں.اُن کو دین کے قریب کرتے ہیں.اُن میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرتے ہیں اور پھر اپنی حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کر کے اپنی دنیا و عاقبت بھی سنوارتے ہیں.پس اس دعا کو بہت شدت سے اور سمجھ کر پڑھنے کی ہر احمدی عورت اور مرد کو ضرورت ہے.بہت سے لوگوں کو اولاد سے شکوہ ہوتا ہے کہ اولا د بگڑ گئی.اگر نیک تربیت اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے.اولاد کو الا ماشاء اللہ بگڑنے سے بچاتا ہے“." (جلسه سالانه جرمنی، خطاب از مستورات فرموده 25 جون 2011ء.مطبوعہ 13 اپریل 2012ء) ای موضوع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک اور خطبہ میں فرماتے ہیں: یہ جو اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمَامًا (الفرقان:75) تو اولاد کے قرۃ العین ہونے کے لئے ہمیشہ دعا کرتے 53

Page 54

عائلی مسائل اور ان کا حل رہنا چاہئے.تو جب ہر وقت انسان یہ دعا کرتا رہے کہ اے اللہ ! تو ہم پر رحمت تار اللہ کی نظر کر ، اور ہم پر رحمت کی نظر ہمیشہ ہی رکھنا، کبھی شیطان کو ہم پر غالب نہ ہونے دینا، ہماری غلطیوں کو معاف کر دینا اور ہم تجھ سے تیری بخشش کے بھی طالب ہیں ، ہمارے گناہ بخش اور ہمارے گناہ بخشنے کے بعد ہم پر ایسی نظر کر کہ ہم پھر کبھی شیطان کے چنگل میں نہ پھنسیں اور جب اتنے فضل تو ہم پر کر دے تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بنا، ان کو یاد رکھنے والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے ، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ ، کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں اور دعا پڑھتے رہیں ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران: 9) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھانہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.اگر دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہو گی تو شیطان مختلف طریقوں سے، مختلف راستوں سے آکر ور غلا تار ہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر نہیں بچا جاسکتا، جیسے کہ میں پہلے بیان کرتا آرہا ہوں.اللہ تعالیٰ اس سے ہی بات کرتا ہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہو اور یہ رحمت اس وقت اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہو جائے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 دسمبر 2003ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 6 فروری 2004ء) 54

Page 55

عائلی مسائل اور ان کا حل حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق خاص طور پر نصائح فرماتے ہوئے اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس بھی پیش فرمایا: ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں....یادر کھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا، جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا یعنی خدا تعالیٰ تو ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے.اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَ اجْعَلْنَالِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 5602 55

Page 56

عائلی مسائل اور ان کا حل 563 جدید ایڈیشن) (جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 26 جولائی 2003ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 29 اگست 2003ء) والدین میں باہمی محبت اور پیار کے فقدان کا بچوں پر بد اثر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر سکون خانگی زندگی گزارنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ” میرے ایک جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن گھروں میں ماں باپ کا آپس کا محبت اور پیار کا سلوک نہیں ہے اُن کے بچے زیادہ باہر جاکر سکون تلاش کرتے ہیں.اس لئے میں ماں باپ سے بھی کہوں گا کہ اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے اور اپنی ادنی خواہشات کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد کر کے اپنی نسلوں کو برباد نہ کریں اور حقیقی طور پر متقیوں کا امام بننے اور اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے بننے کی کوشش کریں اور اپنے عہد کو اور وعدے کو پورا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین“.(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب مستورات فرمودہ 15 اگست 2009ء - مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 2 مئی 2014ء) السلام علیکم کہنے کی برکات اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے السلام علیکم کہنے کی عادت اور اس کی افادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا: 56 56

Page 57

وو عائلی مسائل اور ان کا حل یہ عمومی حکم بھی ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو ، چاہے اپنے گھروں میں داخل ہو تو سلامتی کا تحفہ بھیجو، کیونکہ اس سے گھروں میں برکتیں پھیلیں گی کیونکہ یہ سلامتی کا محلہ اللہ کی طرف سے ہے جس سے تمہیں یہ احساس رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تحفے کے بعد میرا رویہ گھر والوں سے کیسا ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبْرَكَةً طَيِّبَةً كَذلِكَ يُبَيِّنَ اللهُ لَكُمُ الْأَيْتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ.(النور:62) پس جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں پر اللہ کی طرف سے ایک بابرکت پاکیزہ سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو.اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم عقل کرو.ایسے گھروں میں رہنے والے جب ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجتے ہیں تو یہ سوچ کر بھیج رہے ہوں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے.تو آپس کی محبتوں میں اضافہ ہو گا اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گی.گھر کے مرد سے، اس کی سخت گیری سے، اگر وہ سخت طبیعت کا ہے تو اس سلامتی کے تحفے کی وجہ سے، اس کے بیوی اور بچے محفوظ رہیں گے.اس معاشرے میں خاص طور پر اور عموماً دنیا میں باپوں کی ناجائز سختی اور کھردری (سخت) طبیعت کی وجہ سے، بعض دفعہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، بیویاں ڈری سہمی رہتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ باوجو د سالوں ایک ساتھ رہنے کے 57

Page 58

عائلی مسائل اور ان کا حل میاں بیوی کی علیحدگیوں تک نوبت آجاتی ہے، علیحد گیاں ہو رہی ہوتی ہیں، بچے بڑے ہو جاتے ہیں.خاندانوں کو ان کی پریشانی علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے.تو اس طرح اگر سلامتی کا تحفہ بھیجتے رہیں تو یہ چیزیں کم ہوں گی.اسی طرح جب عور تیں سلامتی کا پیغام لے کر گھروں میں داخل ہوں گی تو اپنے گھروں کی نگرانی صحیح طور پر کر رہی ہوں گی اور اپنے خاوندوں کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوں گی.جب بچوں کی اس نہج پر تربیت ہو رہی ہو گی تو جوانی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے گھر، ماں، باپ اور معاشرے کے لئے بدی کا باعث بننے کی بجائے سلامتی کا باعث بن رہے ہوں گے“.(خطبہ جمعہ فرموده 25 مئی 2007ء بمقام بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15جون 2007ء) حسن سلوک کے اعلیٰ معیار 58 S

Page 59

عائلی مسائل اور ان کا حل والدین سے حسن سلوک مختلف رشتوں اور تعلقات کے حوالہ سے احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں سے متعلق توجہ دلاتے ہوئے حضور انور نے ایک خطبہ جمعہ میں تفصیل سے نصائح فرمائیں.اس ضمن میں میاں بیوی کے حقوق کے حوالے سے ارشاد فرمایا: وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (النساء: 37) {} ابھی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: میری عبادت کرو اور اس طرح عبادت کرو کہ جو عبادت کا حق ہے.یہ چھوٹے بُبت یا بڑے بت یا دلوں میں بسائے ہوئے بت تمہیں کسی طرح بھی میری عبادت سے روک نہ سکیں.پھر والدین سے حسن سلوک کا حکم ہے ،اُن سے حسن سلوک کرو اور اس حسن سلوک کا بھی مختلف جگہوں پر مختلف پیرایوں میں ذکر آیا ہے“.پھر فرمایا: کہ یہ دو بنیادی باتیں ہیں اگر تم میں پیدا ہو گئیں تو پھر آگے ترقی کرنے 59

Page 60

عائلی مسائل اور ان کا حل کے لئے اور منازل بھی طے کرنی ہوں گی.دین کی صحیح تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تم نے اخلاق کے اور بھی اعلیٰ معیار دکھانے ہیں.اگر یہ معیار قائم ہو گئے تو پھر تم حقیقی معنوں میں مسلمان کہلانے کے مستحق ہو اور اگر یہ معیار قائم کر لئے اور اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کر لئے تو پھر ٹھیک ہے تم نے مقصد پالیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے اور انشاء اللہ بنتے رہو گے اور اگر یہ اعلیٰ معیار قائم نہ کئے اور تکبر دکھاتے رہے اور ہر وقت اسی فکر میں رہے کہ اپنے آپ کو میں کسی طریقے سے نمایاں کروں تو یاد رکھو کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں.پھر تو حقوق العباد ادا کر نے والے نہیں ہو گے بلکہ اپنی عبادتوں کو ضائع کرنے والے ہو گے.اگر حسن خلق کے اعلیٰ معیار قائم نہ کئے تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی عبادتوں کو بھی ضائع کر رہے ہو گے اور وہ معیار کیا ہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم قائم کریں.فرمایا وہ معیار یہ ہے کہ تم قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو.وہ قریبی رشتہ دار جو تمہارے ماں باپ کی طرف سے تمہارے قریبی رشتہ دار ہیں ، تمہارے رحمی رشتہ دار ہیں.پھر جو شادی شدہ لوگ ہیں ان کی بیوی کی طرف سے یا بیوی کے خاوند کی طرف سے رشتہ دار ہیں یہ سب قرابت داروں کے زمرہ میں آتے ہیں اور ان رشتوں سے حسن سلوک کا عورت اور مرد کو یکساں حکم ہے ایک جیسا حکم ہے جب عورت اور مرد ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک 60

Page 61

عائلی مسائل اور ان کا حل کر رہے ہوں گے ، ایک دوسرے کے قریبیوں سے اچھے اخلاق سے پیش آرہے ہوں گے ، ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ میاں بیوی دونوں میں آپس میں بھی محبت اور پیار کا تعلق خود بخود بڑھے گا.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو فرمایا کہ قربت کے رشتوں کی یعنی رحمی رشتوں کی حفاظت کر رہے ہو گے تو پھر تم میرے پسندیدہ ہو گے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 2004ء.خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 64 تا 65.ایڈیشن 2005ء مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ ) میاں اور بیوی کے قریبی رشتہ داروں و قرابت داروں کے احترام کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا: کئی جھگڑے گھروں میں اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے لئے عزت اور احترام نہیں ہوتا.میاں اور بیوی کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے والدین ہیں.جہاں اپنے والدین سے احسان کے سلوک کا حکم ہے وہاں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے.بعض دفعہ خاوند زیادتی کر کے بیوی کے والدین اور قریبیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض دفعہ بیویاں زیادتی کر کے خاوندوں کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہیں.تو احمدی معاشرے میں جس کو اللہ اور رسول الی کا حکم ہے کہ سلامتی پھیلاؤ، اس میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں.اس کے بعد کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، 61

Page 62

عائلی مسائل اور ان کا حل اس کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے طریقے بھی سکھا دیئے.یہ بھی بتا دیا کہ میرے سے تعلق رکھنا ہے تو اُن اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ جن کا اللہ اور اس کار سول حکم دیتا ہے.ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد جبکہ ہمیں مخالفتوں کا سامنا اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے کیوں اس شخص کو مانا جو کہتا ہے کہ میں مسیح موعود نبی اللہ ہوں.احمدیت قبول کرنے کے بعد بعض لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے بھی بڑی تکلیف اٹھانی پڑی.اپنوں نے بھی رشتے توڑ دیئے.باپوں نے اپنے بچوں پر سختیاں کیں اور گھروں سے نکال دیا.اس لئے نکال دیا کہ تم نے احمدیت کیوں قبول کی.تو اس صورتحال میں ایک احمدی کو کس قدر اپنے رشتوں کا پاس کرنا چاہئے.ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس شخص سے منسوب ہونے کے بعد جس کا نام خدا تعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے ہمیں کس قدر سلامتی پھیلانے والا اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے.پس ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ ہم سلامتی کے شہزادے کے نام پر بٹہ لگانے والے نہ ہوں.اگر ہم اپنے رشتوں کا پاس کرنے والے، ان سے احسان کا سلوک کرنے والے، ان کو دعائیں دینے والے، اور ان سے دعائیں لینے والے نہ ہوں گے تو ان لوگوں سے کس طرح احسان کا سلوک کر سکتے ہیں، ان لوگوں سے کس طرح احسان کا تعلق بڑھا سکتے ہیں، ان لوگوں کا 62

Page 63

عائلی مسائل اور ان کا حل کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں جن سے رحمی رشتے بھی نہیں ہیں“.(خطبه جمعه فرموده یکم جون 2007ء مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 22 جون 2007ء ) صلہ رحمی : رشتہ داروں کے حقوق صلہ رحمی کے ضمن میں رشتہ داروں کے حقوق بیان کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں.ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے.اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تو نکار ہو رہو سکتی ہے ؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں.کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا.میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زودرنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ، یہی پھر بڑے جھگڑوں کی بنیاد بختی ہیں".(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی ساگا، کینیڈا مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2004ء) 63

Page 64

عائلی مسائل اور ان کا حل رحمی رشتے اور ان کی اہمیت رحمی رشتوں کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پھر صلہ رحمی ہے.آپس میں جو رشتہ دار ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک اور تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے.اس میں ترقی کریں.صلہ رحمی کیا ہے؟ عورتیں اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں.اپنے خاوندوں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں.ساسیں جو ہیں وہ اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں.اپنی بہوؤں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں.ایک پیار اور محبت کی فضاء پیدا کریں تاکہ جماعت کی جو ترقی کی رفتار ہے وہ پہلے سے تیز ہو.جو اکائی میں، جو ایک ہونے میں، جو محبت میں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں وہ پھوٹ میں اور لڑائیوں میں نہیں ہوتے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنیکی کوشش کریں“.(خطاب فرمودہ 2 نومبر 2008ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانی) اس حوالے سے ایک اور موقع پر فرمایا: " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رحمی رشتے صرف اپنے رحمی رشتے نہیں ہیں، اپنے خون کے رشتے نہیں ہیں بلکہ خاوند اور بیوی کے جو اپنے اپنے رحمی رشتے یا خون کے رشتے تھے ، وہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے رحمی رشتے بن جاتے ہیں.یعنی خاوند کے ماں باپ بہن 64

Page 65

.عائلی مسائل اور ان کا حل بھائی بیوی کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں اور اسی طرح بیوی کے ماں باپ، بہن، بھائی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں.جب یہ سوچ ہوگی تو کبھی رشتوں میں دوریاں پیدا نہیں ہو سکتیں.کبھی تعلقات خراب نہیں ہو سکتے.پس فرمایا کہ ان کے حق دونوں کو اس طرح ادا کرنے چاہئیں جس طرح اپنے رشتہ داروں ماں باپ بہن بھائی کے حق ادا کرتے ہو.یہ حکم صرف لڑکی کے لئے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا آپس کے تعلقات نبھانے کے لئے اسی طرح لڑکے کو بھی صبر اور دعا کا حکم ہے جس طرح لڑکی کو ہے اور اسی طرح دونوں طرف کے سسرالوں کا بھی فرض ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی غلط طور پر رہنمائی کر کے یا نامناسب باتیں کر کے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر معاشرہ کا امن اور سکون برباد نہ کریں اور اسی طرح اس پہلی آیت میں یہ سبق بھی دیدیا ہے کہ اس شادی کے نتیجے میں جو تمہاری اولاد پیدا ہو گی اُس کی نیک تربیت تم دونوں پر فرض ہے تاکہ آئندہ پھر معاشرہ میں نیکیاں پھیلانے والی نسل چلے اور فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنا.اپنی تمام ذاتی خواہشات کو پیچھے چھوڑ دینا اور صرف اور صرف یہ مقصد سامنے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاد رکھو مجھے دھو کہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ میں تمہارے ہر فعل اور عمل پر ہر وقت نگرانی کر رہا 65

Page 66

عائلی مسائل اور ان کا حل ہوں.پس اگر احمدی جوڑے اس حکم کو سامنے رکھیں تو وہ اُن احکام کی تلاش بھی کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے نکاح کی آیات میں پانچ جگہ تقویٰ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.پس ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اس حد تک خدا تعالیٰ کے تقویٰ کو مد نظر رکھے اس کا گھر کبھی فساد کا گڑھ بن سکتا ہے، یا کبھی اس میں فساد پیدا ہو سکتا ہے.کبھی لڑائی جھگڑے اس میں پیدا ہو سکتے ہیں اور اسی طرح جو رحمی رشتوں کا پاس کرنے والا ہو گا.جو ایک دوسرے کے رشتوں کا پاس کرنے والا ہو گا.ان کا خیال رکھنے والا ہو گا اس کی دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری بھی اس میں دے دی گئی ہے“.وو (خطاب فرمودہ 14اکتوبر 2009ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بر طانیہ ) جلسہ سالانہ برطانیہ 2011ء میں خواتین سے حضور انور نے جب خطاب فرمایا تھا تو اس سے قبل تلاوت قرآن کریم میں انہی آیات کریمہ کا انتخاب فرمایا تھا جو اعلان نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.بعد ازاں آپ نے فرمایا: " عائلی مسائل جو ہمارے سامنے آتے ہیں اُن میں بسا اوقات کبھی عورت کی طرف سے اور کبھی مرد کی طرف سے یہ issue بہت اُٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو کسی ایک نے بُرا کہا.مرد یہ الزام لگاتا ہے کہ عورتیں کہتی ہیں، عور تیں الزام لگاتی ہیں کہ مرد کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ کی برائی کی.اُن کو یہ کہا، اُن کو وہ کہا.اُن کو گالیاں دیں.تو یہ چیز جو ہے یہ تقویٰ سے دور ہے.یہ چیز پھر گھروں میں فساد پیدا کرتی ہے.پھر یہی 99 66

Page 67

عائلی مسائل اور ان کا حل نہیں بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں صرف الزام کی بات نہیں ہے بلکہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں اور بعض الزامات سچے بھی نکلتے ہیں کہ بچوں کو دادا دادی یا نانا نانی کے خلاف بھڑ کا یا جاتا ہے.ایک دوسرے کے قریبی رشتوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.بچوں کو اُن سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ سے بعید ہے.یہ تقویٰ نہیں ہے.تم تو پھر تقویٰ سے دور چلتے چلے جارہے ہو.اس لئے اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو.ان آیات میں ، پہلی آیت میں ہی اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو.ماں باپ صرف خود ہی خیال نہ رکھیں اپنے بچوں کو بھی ان رحمی رشتوں کا تقدس اور احترام سکھائیں.تب ہی ایک پاک معاشرہ قائم ہو سکتا ہے اور خود بھی اس کے تقدس کا خیال بہت زیادہ رکھیں کیونکہ ماں باپ کے نمونے جو ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں“.(خطاب فرمودہ 23 جولائی 2011ء بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ ) رشتے داروں سے حسن سلوک رشتہ داروں سے حسن سلوک کی اہمیت کے ضمن میں احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے.یہ ایک بہت اہم چیز ہے.ذرا ذرا 67

Page 68

عائلی مسائل اور ان کا حل سی بات پر بعض رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں.ایک نیکی جو ہے جس کا اللہ تعالی ثواب دے رہا ہوتا ہے اُس سے محروم ہو جاتی ہیں.اگر یہ رشتے داروں سے حسن سلوک کی نیکی رہے تو عموماً میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں جو رشتے برباد ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، خاوند اور بیوی کی آپس میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ نندوں اور بھابھیوں کی لڑائیاں ہیں، ساس اور بہو کی لڑائیاں ہیں.اگر ایک دوسرے سے حسن سلوک کر رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی قسم کی ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں پید اہوں، برائیاں پیدا ہوں.پس یہ بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے والی مومنات کا کام ہے کہ اپنے رشتوں کا بھی پاس اور خیال رکھیں“.(خطاب فرمودہ 17 ستمبر 2011ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله جرمنی) مختلف رشتہ داروں کا خیال رکھنے کے اسلامی حکم پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے نیز اس کی پاسداری نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل میں سے عائلی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور ارشاد فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو.یہ حسن سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا.قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دار ہیں، تمہارے والد کی طرف سے بھی اور تمہاری والدہ کی طرف سے بھی.پھر بیوی کے رحمی رشتہ دار ہیں.پھر خاوند کے رحمی رشتہ دار ہیں.دونوں 68

Page 69

عائلی مسائل اور ان کا حل پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، ان کے لئے نیک جذبات اپنے دل میں پیدا کرو.غرض کہ وہ تمام حقوق جو تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو، ان قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو جن سے تمہارے اچھے تعلقات ہیں، کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلقات میں کمی بیشی ہوتی ہے بعض دفعہ قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو.صرف ان سے نہیں جن سے اچھے تعلقات ہیں، جنہیں تم پسند کرتے ہو بلکہ جنہیں تم نہیں پسند کرتے، جن سے مزاج نہیں بھی ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرو.پس یہ حسن سلوک ہر قریبی رشتہ دار سے کرنا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف ان سے نہیں جن سے مزاج ملتے ہیں بلکہ ہر ایک سے.بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں سے بلکہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور عورت کے لئے اپنے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے.یہ سلوک ہے جو اللہ کی سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہو گا“.(خطبہ جمعہ فرموده یکم جون 2007ء بمقام بیت الفتوح لندن ) اسی موضوع پر خطبہ جمعہ 2 جولائی 2004ء میں مزید فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے 69

Page 70

عائلی مسائل اور ان کا حل اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے.بے شمار مثالوں میں سے ایک یہاں دیتا ہوں.راوی نے لکھا ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہے اور آپ ای ایم کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں میں بھیجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ ) لیکن یہاں تھوڑی سی وضاحت بھی کر دوں اس کی تشریح میں.بعض باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے.کیونکہ معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ (Mixup) ہونے لگ گئے ہیں.اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے.خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کر لینا بالکل اور چیز ہے.اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے.مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہے اور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی.کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے.اپنی ذمہ داریوں 70 70

Page 71

عائلی مسائل اور ان کا حل کو سمجھیں، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے.آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے“.(خطبہ جمعہ 2 جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی ساگا کینیڈا) حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمنی میں چھ نکاحوں کا اعلان فرمایا تھا.اس موقعہ پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے ارشاد فرمایا: ”ہر احمدی کو جو حقیقی مسلمان ہے ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ ایک ایسا bond (معاہدہ) ہے، ایک ایسا کام ہے جو ایک لحاظ سے دینی فریضہ بن جاتا ہے اور بیویوں اور اس کے رحمی رشتوں کے حقوق ادا کرنے بہت ضروری ہیں.مردوں کی طرف سے بھی اور لڑکی والوں اور لڑکی کی طرف سے بھی.پس اگر یہ چیز یہ احساس شادی کرنے والے جوڑوں میں پیدا ہو جائے بلکہ ہر شخص میں، دونوں طرف کے سسرالیوں میں بھی تو گھر یلو زندگیاں محبت اور پیار اور امن کے گہوارے بن جاتی ہیں“.(خطبہ نکاح 18 جون 2011ء بمقام بیت السبوح فرانکفرٹ جرمنی) مرد عورتوں پر نگران ہیں مردوں کے قوام ہونے سے متعلق قرآن کریم کی تعلیم کی تفسیر بیان 71

Page 72

عائلی مسائل اور ان کا حل کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " آج کل دیکھیں ذرا ذراسی بات پر عورت پر ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے حالانکہ جہاں عورت کو سزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے.چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس سزا کی ضرورت پڑے.اس لئے بہانے تلاش کرنے کی بجائے مرد اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ : الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ.فَالصَّلِحْتُ قَنِتُتْ حَفِظَتْ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ الله وَالتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كبيرًا - (النساء:35) یعنی مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں.(جو نکھٹو گھر بیٹھے رہتے ہیں وہ تو ویسے ہی نگران نہیں بنتے) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو پہلے تو نصیحت کرو (اس میں 72

Page 73

عائلی مسائل اور ان کا حل بے حیائی نہیں ہے ایسی باتیں جو ہمسائیوں میں کسی بدنامی کا موجب بن رہی ہوں، بعض ایسی حرکتیں ہوتی ہیں) تو پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر اگر ضرورت ہو تو ان کو بدنی سزا بھی دو اور پھر فرمایا پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت یا بہانے تلاش نہ کرو.یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے.تو فرمایا کہ : اس انتہائی باغیانہ رویے سے عورت اپنی اصلاح کرلے تو پھر بلاوجہ اسے سزا دینے کے بہانے تلاش نہ کر و یا درکھو کہ اگر تم تقویٰ سے خالی ہو کر ایسی حرکتیں کرو گے اور اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ رہے ہو گے اور عورت کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں ہے تو یاد رکھو کہ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہاری پکڑ بھی کر سکتی ہے.اس لئے جو درجے سزا کے مقرر کئے گئے ہیں ان کے مطابق عمل کرو اور جب اصلاح کا کوئی پہلو نہ دیکھو، اگر ایسی عورت کا بدستور وہی رویہ ہے تو پھر سزا کا حکم ہے.یہ نہیں کہ ذرا ذراسی بات پر اٹھے اور ہاتھ اٹھا لیا یا سوئی اٹھالی اور اتنے ظالم بھی نہ بنو کہ بہانے تلاش کر کے ایک شریف عورت کو اس باغیانہ روش کے زمرے میں لے آؤ اور پھر اسے سزا دینے لگو.ایسے مرد یاد رکھیں کہ خدا کا قائم کردہ نظام بھی یعنی نظام جماعت بھی، اگر نظام کے علم میں یہ بات آجائے تو ایسے لوگوں کو ضرور سزا دیتا ہے.خدا کے لئے قرآن کو بدنام نہ کریں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں“.73

Page 74

عائلی مسائل اور ان کا حل (خطبہ جمعہ 2 جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی سا گا، کینیڈا) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس حوالے سے ایک اور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو.جو باہر بظاہر نیک نظر آتے ہیں ان میں بھی کئی خامیاں ہوتی ہیں، جو بیویوں کے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کر رہے اس لئے معاشرے کو بھی ایسے لوگوں پر غور کرنا چاہئے.ظاہری چیز پہ نہ جائیں.فرمایا کہ جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدو کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصے سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے.اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ : عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء : 20).ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ 74

Page 75

ضروری چیز ہے“.(ملفوظات جلد اول صفحہ 404-403) عائلی مسائل اور ان کا حل بعض دفعہ گھروں میں میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی ہو جاتی ہے ، تلخی ہو جاتی ہے.مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایا ہے اگر مرد خاموش ہو جائے تو شاید اسی فیصد سے زائد جھگڑے وہیں ختم ہو جائیں.صرف ذہن میں یہ رکھنے کی بات ہے کہ میں نے حسن سلوک کرنا ہے اور صبر سے کام لینا ہے.ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی اللہ ہم نے اس بارہ میں ہمیں کیا اسوہ دکھایا.روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہ گھر میں آنحضرت العلیم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا، حضرت ابو بکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ تو خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو.آنحضرت ام یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابو بکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ کو بچالیا.جب حضرت ابو بکر چلے گئے تو رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ سے ازراہ مذاق فرمایا.دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟ تو دیکھیں یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ نہ صرف خاموش رہ کر جھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ حضرت ابو بکر جو حضرت عائشہ کے والد تھے ان کو بھی یہی کہا کہ عائشہ کو کچھ نہیں کہنا اور پھر فوراً حضرت عائشہ سے مذاق کر کے وقتی بو جھل پن کو بھی دور فرما دیا.پھر آگے آتا ہے روایت میں کہ کچھ 75

Page 76

عائلی مسائل اور ان کا حل دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت ام کے ساتھ حضرت عائشہ ہنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں.حضرت ابو بکر کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کر لو.(ابو داؤد کتاب الادب باب ما جاء في المزاح) آنحضرت ام حضرت عائشہ کے بہت ناز اٹھاتے تھے.ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ: عائشہ ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں.حضرت عائشہ نے عرض کیا وہ کیسے ؟ فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمد ) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم کہہ کر بات کرتی ہو.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہاں یارسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپ ﷺ کا نام چھوڑتی ہوں ( دل سے تو آپ ای ایم کی محبت نہیں جاسکتی).( بخاری کتاب النکاح باب غيرة النساء و وجد هن ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.اور فرمایا : ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور در حقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں“.ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا اور شکایت 76

Page 77

عائلی مسائل اور ان کا حل ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضور علیہ السلام اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے ، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے“.حضور علیہ السلام بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا: ” میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بائیں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے“.(ملفوظات جلد اول صفحہ 307 مطبوعہ ربود) تو یہ ہیں بیویوں سے حسن سلوک کے نمونے جو آج ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی میں نظر آتے ہیں اور انہی پر چل کر ہم اپنے گھروں میں امن قائم کر سکتے ہیں“.(خطبه جمعه فرمود: 23 / جنوری 2004 ء خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 64 تا 65.ایڈیشن 2005ء مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ) 24 جون 2005ء کو انٹر نیشنل سینٹر ٹورانٹو کینیڈا میں حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے مردوں کو عورتوں سے حسن سلوک کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا 77

Page 78

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے.اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کو تاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے“ (مطلوبہ الفضل نر میل 08 جولائی 2010 ) اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک کے بارہ میں حضورِ انور ایک اور موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ارشاد اور اسکی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں: ” یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں.نہیں.ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن ہے اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں؟ دوسروں کے ساتھ وہ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 403 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) تو یہ ہے اُس تعلیم کی ایک جھلک جو اسلام نے ہمیں دی اور جس کی اس زمانے میں پھر نئے سرے سے تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی، ہمیں سمجھایا.تو اس خوبصورت تعلیم کی مثالیں آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے قائم کروائیں تھیں اور اس کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے آپ نے اعلان 78

Page 79

عائلی مسائل اور ان کا حل فرمایا تھا کہ میں تم سے سب سے زیادہ بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں.لیکن جیسا کہ اسلام کے دوسرے احکامات اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ عمل میں کمی آگئی.یہی حال اس حکم کا بھی ہوا اس کی کوئی وقعت نہیں رہی کہ عورت کا خیال رکھو اس کی عزت کرو اس کا احترام کرو اس کے حقوق ادا کرو کیونکہ ایک نیک اور عمل صالح کرنے والی عورت کا مقام ایسا ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا عورت کے متعلقہ حکموں پر عمل کرنے میں کمی آگئی ہے اس لئے رسول کامل م کے عاشق صادق اور زمانے کے امام کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف متوجہ فرمایا کہ اپنی جماعت میں عورتوں کے حقوق قائم کرواؤ، اس صنف نازک کو جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشے سے تشبیہ دی ہے جس کے ساتھ سختی اُسے کرچی کرچی کر سکتی ہے، ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی ہے.جس کے جسم کی بناوٹ نازک ہے جس کے جذبات کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نرمی اور رافت سے پیش آنا چاہئے.یہ پہلی کی ہڈی سے مشابہ ہے اس کی اصل شکل سے ہی فائدہ اٹھاؤ.پس آپ کو جب ایسے امام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے جس کو اس زمانے میں پھر براہ راست آپ کے حقوق قائم کروانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا پھر آپ کو کس قدر اس خدا کا شکر گزار ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں 79

Page 80

عائلی مسائل اور ان کا حل دیئے ہیں.جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 29 جولائی 2006 ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 26 جون 2015ء) حضرت خلیفہ النبی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب 31 جولائی 2004 ء بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ میں مردوں اور عورتوں کو اُن کے فرائض کی طرف نہایت احسن رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: دیکھیں کتنی وضاحت سے آپ نے فرمایا کہ حقوق کے لحاظ سے دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں.اس لئے مرد یہ کہہ کر کہ میں قوام ہوں اس لئے میرے حقوق بھی زیادہ ہیں ، زیادہ حقوق کا حق دار نہیں بن جاتا.جس طرح عورت مرد کے تمام فرائض ادا کرنے کی ذمہ دار ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے تمام فرائض ادا کرنے کا ذمہ دار ہے“.66 آگے چل کر فرمایا کہ : ”ہمارے ہاں یہ محاورہ ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، یہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے، غلط محاورہ ہے.اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت سے دل بھر گیا تو دوسری پسند آگئی اس سے شادی کر لی اسے چھوڑ دیا اور پہلی بیوی کے جذبات و احساسات کا کوئی خیال ہی نہ رکھا گیا تو یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے.عورت کوئی بے جان چیز نہیں ہے بلکہ جذبات احساسات رکھنے والی ایک ہستی ہے.مردوں کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ ایک عرصے تک تمہارے گھر میں سکون کا باعث بنی، تمہارے بچوں کی ماں ہے، ان کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتی رہی 80 50

Page 81

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے.اب اس کو تم ذلیل سمجھو اور گھٹیا سلوک کرو اور بہانے بنا بنا کر اس کی زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کرو تو یہ بالکل ناجائز چیز ہے.یا پھر پردہ کے نام پر باہر نکلنے پر ناجائز پابندیاں لگا دو.اگر کوئی مسجد میں جماعتی کام کے لئے آتی ہے تو الزام لگا دو کہ تم کہیں اور جارہی ہو.یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں جن سے مردوں کو روکا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمہارا عورت سے اس کوروکا طرح سے سلوک ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.جس طرح دو حقیقی دوست ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اس طرح مرد اور عورت کو تعلق رکھنا چاہئے کیونکہ جس بندھن کے تحت عورت اور مرد آپس میں بندھے ہیں وہ ایک زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور معاہدے کی پاسداری بھی اسلام کا بنیادی حکم ہے.معاہدوں کو پورا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرتے ہیں اور کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں ایک دوسرے کے راز دار بھی ہوتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مرد کی بہت سی باتوں کی عورت گواہ ہوتی ہے کہ اس میں کیا کیا نیکیاں ہیں، کیا خوبیاں ہیں، کیا برائیاں ہیں.اس کے اخلاق کا معیار کیا ہے؟ تو حضرت اقدس مسیح موعود فرما رہے ہیں کہ اگر مرد عورت سے صحیح سلوک نہیں کرتا اور اس کے ساتھ صلح صفائی سے نہیں رہتا، اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کیسے ادا کرے گا، اس کی عبادت کس طرح کرے گا، کس منہ سے اس سے رحم مانگے گا؟ جبکہ وہ خود اپنی بیوی 81

Page 82

عائلی مسائل اور ان کا حل پر ظلم کرنے والا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے وہی اچھا ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، اپنی بیوی سے اچھا ہے.تو دیکھیں یہ ہے عورت کا تحفظ جو اسلام نے کیا ہے.اب کو نسا مذ ہب ہے جو اس طرح عورت کو تحفظ دے رہا ہو.اس کے حقوق کا اس طرح خیال رکھتا ہو“.سورۃ النساء آیت 35 کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضور انور نے اسی خطاب میں فرمایا کہ: " الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہے.اور پھر یہ : بمَا فَضَّلَ اللهُ ( النساء: 35) مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت دی گئی ہے.اس کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں.لیکن ایک بہت خوبصورت تفسیر جو حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ” نے کی ہے وہ میں تھوڑی سی بیان کر تاہوں.فرمایا: ” کہ سب سے پہلے تو لفظ قوام کو دیکھتے ہیں.قوام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو ، جو درست کرنے والی ہو، جو ٹیڑھے پن اور کبھی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو.چنانچہ قوام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا.پس قوامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے.اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہو جائے ، ان میں کج روی پیدا ہو جائے ، ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو.یعنی گھریلوں نظام کو تباہ 82

Page 83

عائلی مسائل اور ان کا حل کرنے والی ہو ، میاں بیوی کے تعلقات کو خراب کرنے والی ہو ، تو عورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں.کیونکہ خدا تعالی نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا.معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں اور : بمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (النا: 35) میں خدا تعالیٰ نے جو بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے.قوام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے.ہر گز یہ مراد نہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت حاصل ہے.(خطاب حضرت خلیفة المسیح الرابع بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان.یکم اگست 1987ء) تو، الرِّجَالُ قَوَمُوْنَ عَلَى النِّسَاء (النساء:35) کہہ کر مردوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپر د کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا.اس لئے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.پھر عور تیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی ، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے.تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں.عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں ، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں ، مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں 83 33

Page 84

عائلی مسائل اور ان کا حل عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں.تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتا ہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی.عورتوں کو تو خوش ہونا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھر یلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہو جاتی ہے، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں ، تم قوام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤ اور معاملے کو حوصلے سے اس طرح حل کرو کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائے اور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے.پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 / اپریل 2015ء) اپنے اسی خطاب کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ النساء آیت 20 کی تلاوت اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضٍ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ 84

Page 85

عائلی مسائل اور ان کا حل وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا - (النساء : 20) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبر دستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو.اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ (پھر) لے بھا گو، سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں.اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو.جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادانہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 / اپریل 2015ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں سے حسن سلوک کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ سناتے ہوئے فرمایا: ایک جگہ آپ فرماتے ہیں یہ دل دُکھانا بڑے گناہ کی بات ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں.تو جہاں مردوں کو سختی کی اجازت 85

Page 86

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے وہ تنبیہ کی اجازت ہے.مارنے کی تو سوائے خاص معاملات کے اجازت ہے ہی نہیں اور وہاں بھی صرف دین کے معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے معاملات میں اجازت ہے.لیکن جو مرد خود نماز نہیں پڑھتا، خود دین کے احکامات کی پابندی نہیں کر رہا وہ عورت کو کچھ کہنے کا کیا حق رکھتا ہے؟ تو مردوں کو شرائط کے ساتھ جو بعض اجازتیں ملی ہیں وہ عورت کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہیں.( شاید عورتوں کو یہ خیال ہو کہ یہ باتیں تو مر دوں کو بتانی چاہئیں.فکر نہ کریں ساتھ کی مار کی میں مر دسن رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں سن رہے ہیں آپ کے حقوق کی حفاظت کے لئے.) ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ: یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو میر محمد ولد یه روانی خودان بلد نیر اصلی (17) آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں.در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہر و.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:20) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور حدیث میں ہے: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ 98 86

Page 87

عائلی مسائل اور ان کا حل لاھلِہ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو.کیونکہ نہایت بد ، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے بر تن کی طرح جلد مت توڑو.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 75 حاشیہ ) تو دیکھیں کہ اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حقوق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : اصل میں تو مرد کو ایک طرح سے عورت کا نوکر بنا دیا ہے.آج پڑھی لکھی دنیا کا کوئی قانون بھی اس طرح عورت کو حق نہیں دلواتا“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24/ اپریل 2015ء) جوائنٹ فیملی سسٹم: مشتر کہ خاندانی نظام مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو یہ نصیحت فرمائی: دو پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھروں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے.اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس 87

Page 88

عائلی مسائل اور ان کا حل بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے.لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے.گزشتہ دنوں جماعت کے اندر ہی کسی ملک میں ایک واقعہ ہوا، بڑا ہی درد ناک واقعہ ہے کہ اسی طرح سارے بہن بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہ رہے تھے کہ جوائنٹ فیملی (Joint Family) ہے.ہر ایک نے دو دو کمرے لئے ہوئے تھے.بچوں کی وجہ سے ایک دیورانی اور جٹھانی کی آپس میں ان بن ہو گئی.شام کو جب ایک کا خاوند گھر میں آیا تو اس نے اس کے کان بھرے کہ بچوں کی لڑائی کے معاملے میں تمہارے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اس طرح باتیں کی تھیں.اس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق اٹھائی اور اپنے تین بھائیوں کو مار دیا اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کرلی.تو صرف اس وجہ سے ایک گھر سے چار جنازے ایک وقت میں اُٹھ گئے.تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے.تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں.اس آیت کی تشریح میں: 88 88

Page 89

عائلی مسائل اور ان کا حل لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهُتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَتِكُمْ.(الدور: 62) کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں.اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسانہ ہو.فرماتے ہیں دیکھو ( یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں ،ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھر الگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے“.تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی.تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے.میں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے، ساس سسر کے سامنے تو یہی 89

Page 90

عائلی مسائل اور ان کا حل کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں اور آخر پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پر ظلم کر رہی ہوتی ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعه الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) نیز حضورِ اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ” ایک لڑکی جب اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر خاوند کے گھر آتی ہے تو اگر اس سے حسن سلوک نہ ہو تو اس کی اس گھر میں، سسرال کے گھر میں، اگر جوائنٹ فیملی ہے تو وہی حالت ہوتی ہے جو ایک قیدی کی ہو رہی ہوتی ہے اور قیدی بھی ایسا جسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا.لڑکی نہ خود ماں باپ کو بتاتی ہے نہ ماں باپ پوچھتے ہیں کہ بچی کا گھر خراب نہ ہو.تو اگر لڑکی اس طرح گھٹ گھٹ کر مر رہی ہو تو یہ ایک ظالمانہ فعل ہے“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 124 اپریل 2015ء) اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو محبتیں پھیلانے آئے تھے.پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ دیں اور اس کے لئے کوشش کریں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں.اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر توفیق ہے اور سہولتیں بھی ہیں، کوئی 06 90

Page 91

عائلی مسائل اور ان کا حل مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے؟ ان کی خدمت کرنے کا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا، ان کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، ان کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے، اس کی پابندی کرنی ضروری ہے.بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے ، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے ، اس کی پابندی بھی ضروری ہے.یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے خطاب فرمودہ مورخہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن) 11 جولائی 2012ء کو دورہ کینیڈا کے دوران حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رشتہ ناطہ کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کے دوران فرمایا: وو ” یہاں کینیڈا، امریکہ اور مغربی ملکوں میں بعض لڑکے بعض نامناسب کاموں میں Involve ہو جاتے ہیں اور بعض نقائص ان میں پیدا ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ تربیت اور سمجھانے کے نتیجہ میں اصلاح ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ نہیں ہوتی.اسی طرح بعض دفعہ بعض لڑکیوں میں بھی نقائص ہوتے ہیں.بہر حال جب رشتہ ہو رہا ہو تو یہ باتیں سامنے آنی چاہئیں اور دونوں کو تقویٰ کے ساتھ بتانی چاہئیں تاکہ بعد میں جھگڑے نہ ہوں“.91

Page 92

22 92 عائلی مسائل اور ان کا حل پھر حضور انور نے فرمایا: و بعض خاندان ایسے ہیں جو شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ دیتے ہیں کہ جہیز لے کر نہیں آئی، اولاد نہیں ہوتی، اس کی تو لڑکیاں ہوتی ہیں.اس طرح لڑکے والے لڑکی کو طعنے دیتے ہیں تو پھر علیحدگی ہو جاتی ہے.بعض دادیاں، نانیاں پاکستان سے دیہاتی ماحول سے آئی ہیں اور دیہاتی اثر ان پر غالب ہے اور ان کی اس جاہلانہ سوچ کی وجہ سے بعض رشتے خراب ہو جاتے ہیں“.(مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 28 ستمبر 2012ء)

Page 93

عائلی مسائل اور ان کا حل عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب بیویوں پر الزام تراشی اور نارواسلوک مورخہ 10 نومبر 2006ء کو مسجد بیت الفتوح، لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عائلی مسائل اور اُن کے حل بر تفصیل سے روشنی ڈالی.اس خطبہ جمعہ سے بعض اقتباسات پیش ہیں.فرمایا: "آجکل پھر عائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہو گئی ہیں.میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤنے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم ذکر سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے رہو، نصیحت یقینا فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں“.ایسے لوگوں کے بارے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ” کیونکہ تقویٰ پر نہیں چل رہے ہوتے ، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہوتا اس لئے بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آکر یاماحول کے اثر کی وجہ سے اپنی بیوی پر بڑے گھناؤنے الزام لگاتے ہیں یا دوسری شادی کے شوق میں، 93

Page 94

عائلی مسائل اور ان کا حل جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگا دیتے ہیں.اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہئے“.پھر فرمایا: ” پھر بعض دفعہ بہانہ جو مردوں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نافرمان ہے، بات نہیں مانتی، میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتی ہے، میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے، بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے، یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کر کے ہمیں بدنام کر دیا ہے.تو اس بارے میں بڑے واضح احکام ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: والتي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كبيرا ـ (النساء:35) اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو ان کو پہلے تو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو.یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ، اگر نہ سمجھے اور انتہا ہو گئی ہے اور ارد گرد بد نامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے لیکن اس بات 94

Page 95

عائلی مسائل اور ان کا حل کو بہانہ بنا کر ذرا ذراسی بات پر بیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کر دو، یہ انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے ، آپ ا نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی بھی ضرورت پیش بھی آجائے تو مار اس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے.یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اونچی آواز میں بولی تھی، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکائی تھی، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی، کیوں اس طرح بولی، عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے.پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور تمہیں اس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یاد رکھو کہ اب اپنے دل میں کہنے نہ پالو.جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے ، اطاعت کر لے تو پھر اس پر زیادتی نہ کرو.فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (النساء: 35) اس پر پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں ان پر زیادتی کا کوئی حق نہیں ہے.یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے.یاد رکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا، 95

Page 96

عائلی مسائل اور ان کا حل مضبوط اور طاقتور ہے.عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے لیکن تمہاری تو خداتعالی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ کو ان حرکتوں سے باز کرو.بعض مرداس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں.لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے ، باہر پھر نازیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں.پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں.بعض تو ظلموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی احمدی کہلاتے ہیں.ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلا رہی ہے.ماں پر غلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کر دیتے ہیں.حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤ اور پھر اس مرد کے، ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کر رہے ہوتے ہیں ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہئے کہ فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش کرے.یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے 96

Page 97

عائلی مسائل اور ان کا حل مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا جا رہا ہو تا.تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں.ایسے مرد اپنی اناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مر جاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اپنی انا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کو ختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے.اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے.اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے.فیصلے کرتے وقت، خلیفہ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کر سفارش کیا کریں.اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دو دن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تا کہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہو اور فریقین بھی یاد رکھیں کہ بعض اوقات 97

Page 98

عائلی مسائل اور ان کا حل اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ ناجائز حق مانگتے ہیں“.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض ماں باپ بچوں کو دوسرے ملک میں لے گئے یا انہیں چھپالیا یا کورٹ سے غلط بیان دے کر یا دلوا کر بچے چھین لئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدہ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے، اور نہ والد کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے اور ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز جانتا ہے.وہ جانتا بھی ہے اور دیکھ بھی رہا ہے اور اللہ پھر ظالموں کو یوں نہیں چھوڑا کرتا.پس اللہ سے ڈرو، ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ جس طرح آپ پر آپ کی ماں کا حق ہے اسی طرح آپ کے بچوں پر ان کی ماں کا بھی حق ہے.جیسا کہ میں نے کہا اور جائزہ میں بھی سامنے آیا عموماً باپوں کی طرف سے یہ ظلم زیادہ ہوتے ہیں.اس لئے میں مردوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں.ان کے حقوق دیں.اگر آپ نیکی اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں تو الاماشاء اللہ عموماً پھر بیویاں آپ کے تابع فرمان رہیں گی.آپ کے گھر ٹوٹنے والے گھروں کی بجائے، بننے والے گھر ہوں گے جو ماحول کو بھی اپنے خوبصورت نظارے دکھا رہے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک صحابی کو نصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ 98

Page 99

عائلی مسائل اور ان کا حل کے بچے دوستوں کی زبانی جو در حقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ شدت رکھتے ہیں.یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا.میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قنام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے: عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:20) یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو.بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے.اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.99 99

Page 100

عائلی مسائل اور ان کا حل عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپر د کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے.بیویوں پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو دین سکھلانا چاہئے اور حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے.زیادہ کیا لکھوں.والسلام“.(الکم جلد نمبر13 مورخہ 1 اپریل 1905 صفحہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر چلاتے ہوئے ان خوبصورت اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلواۃ 100

Page 101

عائلی مسائل اور ان کا حل والسلام نے ہمیں بتائے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات کے بارہ میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں.ایسے لوگوں کا تو قضا کو کیس سنتا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں.ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے.غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہا ہے.(خطبہ جمعہ 24 جون 2005 ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر.ٹورانٹو.کینیڈا.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 108 جولائی 2005ء) مردوں میں حرص اور بے غیرتی بعض خاوندوں کی اخلاقی کمزوریوں کے حوالے سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”ایسے مرد بھی ہیں جن کو میں کہوں گا کہ جن میں غیرت کی کمی ہے جو اپنی بیوی سے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ تم جہیز میں جو زیور لائی ہو مجھے تاکہ میں کاروبار کروں.یاجور قم اگر نقد ہے تو وہ مجھے دو تا کہ میں اپنے کاروبار میں لگاؤں.اگر تو میاں بیوی کے تعلقات محبت اور پیار کے ہیں تو آپس میں 101

Page 102

عائلی مسائل اور ان کا حل افہام و تفہیم سے عورتیں دے بھی دیتی ہیں.لیکن اگر عورت کو پتہ ہو کہ میرا خاوند نکھٹو ہے ، اس میں اتنی استعداد ہی نہیں ہے کہ وہ کاروبار کر سکے اور یہ احساس ہو کہ کچھ عرصہ بعد میر اجو اپنا سرمایہ ہے ، رقم ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور گھر میں پھر فاقہ زدگی پیدا ہو جائے گی اور وہی حالات ہو جائیں گے تو وہ نہیں دیتیں اور اس سے لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں.پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ تھوڑی بے غیرتی کی حد آگے بھی چلی جاتی ہے جب ایک دفعہ بے غیرت انسان ہو جائے تو یہ مطالبہ ہو جاتا ہے کہ بیوی کو کہا جاتا ہے کہ تمہارا باپ کافی پیسے والا ہے ، امیر ہے اس لئے مجھے اتنی رقم اس سے لے کر دو تاکہ میں کاروبار کروں اور اس میں لڑکے کے گھر والے بھائی بہن وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں جو اس کو اکساتے رہتے ہیں کہ تم اس رقم کا مطالبہ کرو.تو گویا اب لڑکی کے پورے سسرال کو پالنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے.تو ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں وہ ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے والے اور اس پر توکل نہ کرنے والے اور اس کے احکامات اور عمل نہ کرنے والے ہوتے ہیں.جو اللہ تعالیٰ کی عبادات، جو حق ہے عبادت کرنے کا اس طرح نہ کرنے والے ہوں ان میں کبھی تو کل پیدا ہو ہی تعلیم پر نہیں سکتا اور پھر جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جب عائلی معاملات میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ان حالات میں بھی عورتوں پر ہی ظلم یہ ہوتا ہے کہ اگر مردوں کی Demand پوری نہ کی جائیں تو ان کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور 102

Page 103

عائلی مسائل اور ان کا حل بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے اور یہ ایسی صورت حال ہے جو سامنے آتی ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں.تو اللہ تعالی رحم فرمائے اور ایسے گھروں کو عقل اور سمجھ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر گھر، ہر احمدی گھرانہ پیار اور محبت اور الفت کا نمونہ دکھانے والا ہو“.(خطبہ جمعہ 15 اگست 2003ء بمقام مسجد فضل، لندن برطانیہ.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 10/ اکتوبر 2003ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ” مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ایسے معاملات سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے، طبیعت بعض دفعہ بے چین ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے بعض کس طرف چل پڑے ہیں.بیوی کی ساری قربانیاں بھول جاتے ہیں حتی کہ بعض تو اس حد تک کمینگی پر آتے ہیں کہ بیوی سے رقم لے کر اس پر دباؤ ڈال کر اس کے ماں باپ سے رقم وصول کر کے کاروبار کرتے ہیں یاز بر دستی بیوی کے پیسوں سے خریدے ہوئے مکان میں اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں اور پھر اس کو مستقل دھمکیاں ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے شریف خاندانوں کے لڑکے بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگ کچھ خوف خدا کریں اور اپنی اصلاح کریں.ورنہ یہ واضح ہو کہ نظام جماعت، اگر نظام کے پاس معاملہ آجائے تو ، کبھی ایسے بیہودہ لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا، نہ دے گا“.مزید فرمایا: ”وہ مرد جو عورتوں کے مال پر نظر رکھے رہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے اور عورت کی رقم پر ان کا کوئی حق 103

Page 104

عائلی مسائل اور ان کا حل نہیں.اپنے بیوی بچوں کے خرچ پورے کرنے کے وہ مرد خود ذمہ دار ہیں.اس لئے جو بھی حالات ہوں چاہے مزدوری کر کے اپنے گھر کے خرچ پورے کرنے پڑیں ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے خرچ پورے کریں اور اس محنت کے ساتھ اگر دعا بھی کریں تو پھر اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے اور کشائش بھی پیدا فرماتا ہے“.(خطبہ جمعہ فرموده 2 / جولائی 2004 ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی ساگا، کینیڈا مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2004ء) ”اب میں بعض عمومی باتیں بتا تا ہوں.اگر علیحدگی ہوتی ہے تو بعض لوگ یہاں قانون کا سہارا لیتے ہوئے بیوی کے پیسے سے لئے ہوئے مکان کا نصف اپنے نام کرا لیتے ہیں.قانون کی نظر میں تو شاید وہ حقدار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے بیوی کو ڈھیروں مال بھی دیا ہے تو واپس نہ لو، کجا یہ کہ بیوی کے مال پر بھی ڈاکے ڈالنے لگ جاؤ، اس کی چیزیں بھی قبضے میں کر لو“.(خطبه جمعه فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعه الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) رشتہ کرتے وقت تقویٰ کو مد نظر رکھنے کی اہمیت کا بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: «گزشتہ دنوں کسی نے مجھے لکھا کہ میرا رشتہ نہیں ہوتا، نظارت رشتہ ناطہ پاکستان تعاون نہیں کرتا.جب میں نے رپورٹ لی تو پتہ لگا کہ رشتے تو کئی 104

Page 105

عائلی مسائل اور ان کا حل تجویز کئے ہیں لیکن پسند نہیں آئے اور وجہ یہ تھی کہ لڑکے نے کہا کہ رشتہ تعلیم میری شرط کے مطابق ہونا چاہئے.خود یہ صاحب میٹرک پاس ہیں، معمولی ہے اور شرط یہ تھی کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو ، ایم اے ہو اور کام کرتی ہو ، کما کے لانے والی ہو ، شادی پر مجھے مکان بھی ملے، دس بیس لاکھ روپیہ نقد بھی ملے، میر ا خرچ بھی اٹھائے اور پھر یہ کہ صرف خرچ ہی نہ اٹھائے بلکہ مجھے کام کرنے کے لئے نہ سسرال والے اور نہ ہی لڑکی کچھ کہے، جب مرضی ہو کام کروں یا نہ کروں.تو ایسے شخص کو ذہنی مریض کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے.ایسے رشتوں اور ایسے لڑکوں پر تور شتہ ناطہ کو تو جہ ہی نہیں دینی چاہئے تھی پتہ نہیں کیوں وہ تجویز کرتے رہے)، کیونکہ اگر ایسے لوگوں سے ہی واسطہ رہا تو رشتے ناطہ کا عملہ بھی کہیں ذہنی مریض نہ بن جائے“.ناجائز مطالبے (خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ ) مذکورہ بالا خطبہ میں ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ناجائز مطالبات کے حوالہ سے فرمایا: ”افسوس ہے کہ خیر کا مطالبہ تو ہوتا ہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا.لیکن عملی صورت بعض جگہ اس طرح نظر آجاتی ہے کہ شادی کے وقت تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی شرط نہیں لگاتے لیکن شادی کے بعد عملی رویہ یہی ہو جاتا 105

Page 106

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے، بعضوں کی شکایات آتی ہیں.لڑکی والوں سے غلط قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں.اگر مرضی کا جواب نہ ملے اور مطالبات پورے نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور فساد اور لڑکیوں کو طعنے وغیرہ ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی عقل دے اور رحم کرے.پس ایک بے وقوف اور ظالم کے علاوہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہوتا ہے، کیونکہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر ظلم تو کوئی نہیں کر سکتا) ایسا شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے.ایسے شخص کے علاوہ جس کو اپنے رب کی صفت ربوبیت کا کوئی فہم و ادراک نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے رب نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہوئے ہیں اور ہم پر احسان کرتے ہوئے جو احکامات دیئے ہیں ان پر عمل کر کے ہم ان دعاؤں سے فیض پاسکتے ہیں جو ہمارے رب نے ہمیں سکھائی ہیں، اس کے بغیر نہیں.تو ایک دعا جو سورۃ الشعراء کی تین آیات ہیں اس میں یہ سکھائی ہے کہ: رَبَّ هَبْ لِي حُكْمًا وَ الْحِقْنِى بِالصَّلِحِينَ وَاجْعَلْ لِى لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (الشعراء:84-86) کہ اے میرے رب مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں میں سچ کہنے والی زبان مقدر کر دے اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا.پس ایسے لوگ جو اپنے رب کی پہچان نہیں رکھتے اور عقل سے عاری ہیں ان کی باتیں سن کر یہی 106

Page 107

عائلی مسائل اور ان کا حل دعا ہے جو ہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے کی تھی.پس ہمیں ہمیشہ اپنے رب سے عقل کی اور حکمت کی اور صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی اور ان پر قائم رہنے کی دعامانگنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جس کی اللہ تعالیٰ نے بارہا ہمیں تلقین فرمائی ہے“.(خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن برطانیہ ) جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے موقع پر حضور انور نے خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے سورۃ النساء کی آیت 20 کی تلاوت فرمائی اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو.جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو.الزام تراشیاں نہ کرو.اس کوشش میں نہ لگے رہو کہ کس طرح عورت کی دولت سے ، اگر اس کے پاس دولت ہے ، فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اب اس فائدہ اٹھانے کے بھی کئی طریقے ہیں.ایک تو ظاہری دولت ہے جو نظر آرہی ہے.بعض مرد عورتوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کئی دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ جس سے انہیں کوئی ہوش ہی نہیں رہتا اور پھر ان عورتوں کی دولت سے مرد فائدہ 107

Page 108

عائلی مسائل اور ان کا حل اٹھاتے رہتے ہیں.پھر بعض دفعہ میاں بیوی کی نہیں بنتی تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عورت خلع لے لے تاکہ مرد کو طلاق نہ دینی پڑے اور حق مہر نہ دینا پڑے.تو یہ بھی مالی فائدہ اٹھانے کی ایک قسم ہے.پھر بیچاری عورتوں کو ایک لمبا عرصہ تنگ کرتے رہتے ہیں.حالانکہ حق مہر عورت کا حق ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حرکت کسی طور پر جائز نہیں.پھر بعض دفعہ زبر دستی یا دھوکے سے عورت کی جائیداد لے لیتے ہیں مثلاً عورت کی رقم سے مکان خریدا اور کسی طرح بیوی کو قائل کر لیا کہ میرے نام کر دو یا کچھ حصہ میرے نام کر دو.آدھے حصے کے مالک بن گئے اور اس کے بعد جب ملکیت مل جاتی ہے تو پھر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علیحدہ ہو کے مکان کا حصہ لے لیتے ہیں یا بعض لوگ جو ہیں گھر بیٹھے رہتے ہیں اور عورت کی کمائی پر گزارا کر رہے ہوتے ہیں.فرمایا کہ یہ تمام جو اس قسم کے مرد ہیں ناجائز کام کرنے والے لوگ ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کے رشتے دار یا سسرال والے جائیداد پر قبضہ ہیں اور بیچاری عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا اور اس کو دھکے دے کر ماں باپ کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے.تو یہ سب ظالمانہ فعل ہیں، ناجائز ہیں.تو یہ اسلام ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ عورت سے اس قسم کا سلوک نہ کرو.اب یہ بتائیں کہ اور کس مذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس گہرائی میں جا کر عورت کے حقوق کا اتنا خیال رکھا ہو.یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو یہ 108

Page 109

حقوق دلوائے ہیں.عائلی مسائل اور ان کا حل (جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 جولائی 2004 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2015ء) اسی حوالہ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے ، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے.لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے.اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 / مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 19 / مارچ 2004ء) عورت کے مال اور جائیداد پر نظر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض مردوں کے لالچ میں مبتلا ہونے کے بارہ میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فکر کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ” مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں.یا پھر 109

Page 110

عائلی مسائل اور ان کا حل اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے توڑ دیتے ہیں.کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے.ان لڑکوں کو کچھ تو خدا کا خوف کرنا چاہئے.ان لوگوں نے، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے، آپ احسان کیا ہے کہ باہر آنے کا موقع دیا.تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی.ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو 15-20لاکھ روپیہ خرچ ہوتا.مفت میں یہاں آگئے.کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں.تو یہاں آکر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں.یہاں آکر رشتے توڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں ، چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں“.مزید فرمایا: پھر بعض لڑکے، لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے ہیں.بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشترکہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایا اور پھر بچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے“.110

Page 111

عائلی مسائل اور ان کا حل (خطبہ جمعہ 24 / جون 2005 ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر.ٹورانٹو کینیڈا مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 08 جولائی 2005ء) اسی حوالہ سے ایک اور جگہ فرماتے ہیں: لڑکوں کی ایک خاص تعداد ہے جو پاکستان، ہندوستان وغیرہ سے شادی ہو کر ان ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں آکر جب کاغذات پکے ہو جاتے ہیں تو لڑکی سے نباہ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیتے ہیں، اس پر ظلم اور زیادتیاں شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء:20) کہ ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پاسکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے.وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ 111

Page 112

عائلی مسائل اور ان کا حل مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے، بلکہ بڑی بد اخلاقی سے پیش آتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے راستے میں مل گیا، میں نے اس کو اس آیت کی روشنی میں سمجھایا.وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن آج حضرت مولانانورالدین صاحب نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، میں اب تم سے حسن سلوک کروں گا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار بڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے.اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تو اللہ تعالیٰ یہ انعامات دیتا ہے.پس جو لڑ کے پاکستان وغیرہ ملکوں سے یہاں آکر پھر چند روز بعد اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں ہے یا بعض لڑکے پاکستان سے اپنے ماں باپ کے کہنے پر یہاں لڑکیاں لے آتے ہیں اور بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آئی ہم نے ماں باپ کے کہنے پر مجبوری سے یہ شادی کر لی تھی تو وہ ذرا اپنے جائزے لیں.جیسا کہ میں نے کہا یہ لڑکے جن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں، ایک تو یہاں کے رہنے والے، شادی کر کے لائے اور یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصہ دیکھیں گے، طبیعت ملتی ہے کہ نہیں ملتی، کیونکہ یہاں کے ماحول میں یہی سوچ ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھو 112

Page 113

عائلی مسائل اور ان کا حل طبیعت ملتی ہے کہ نہیں اور اگر طبیعت نہیں ملتی تو ٹھو کر مار کے گھر سے نکال دو اور یہ لوگ پھر فوری طور پر یہاں اپنی شادیاں اور نکاح رجسٹر بھی نہیں کراتے کہ لڑکی کو کوئی قانونی تحفظات حاصل نہ ہو جائیں اور یہاں رہ کر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے اور ایسے معاملات میں والدین بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں.بہر حال پھر جماعت ایسی بچیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے یہ عمل ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی جماعت میں رہنے کے حقدار نہیں ہیں.دوسری قسم کے لڑکے وہ ہیں جو باہر سے آکر یہاں کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور فوری طور پر نکاح رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نکاح رجسٹر ہو جائے اور ان کو ویزا و غیرہ مل جائے تو پھر ان کو لڑکیوں میں برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر علیحدگی اور اپنی مرضی کی شادی.تو یہ دونوں قسم کے لوگ تقویٰ سے ہٹے ہوئے ہیں.اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں ، جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں اور تقویٰ پر قائم ہوں، تقویٰ پر قدم ماریں، تقویٰ پر چلیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ظلم کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر بھی ایک بالا ہستی ہے جو بہت طاقتور ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن مطبوعه الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) 113

Page 114

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد ”ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 19 / مارچ 2004ء) 114

Page 115

حق مہر کی اہمیت وعدوں کی پاسداری اور حق مہر کی ادائیگی عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ پورا کرنے کے حوالہ سے اسلامی تعلیم کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: عام روز مرہ کے کاموں میں بھی وعدہ خلافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائی پر یہ چیزیں منتج ہو جاتی ہیں.جھگڑوں کے بعد اگر صلح کی کوئی صورت پیدا ہو تو معاہدے ہوتے ہیں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فریقین کی صلح کرواتے ہیں تو وہاں صلح ہو جاتی ہے، وعدہ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھی ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صلح کر کے دفتر یا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہو گئی، کوئی وعدوں اور عہدوں کا پاس نہیں ہوتا.پھر نکاح کا عہد ہے فریقین کا معاملہ ہے اس کو پورا نہیں کر رہے ہوتے.یہ معاہدہ تو ایک پبلک جگہ میں اللہ کو گواہ بنا کر تقویٰ کی شرائط پر قائم رہنے کی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن بعض ایسی فطرت کے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے.بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، گھر کے خرچ میں باوجود کشائش ہونے کے تنگی دے رہے ہوتے ہیں، بیویوں کے حق مہر ادا نہیں کر 115

Page 116

عائلی مسائل اور ان کا حل رہے ہوتے، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہاں ہمیں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے.اب پتہ نہیں ایسے لوگ دنیا دکھاوے کی خاطر حق مہر منظور کرتے ہیں کہ یا دل میں یہ نیت پہلے ہی ہوتی ہے کہ جو بھی حق مہر رکھوایا جا رہا ہے لکھوا لو کونسا دینا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو اس نیت سے حق مہر رکھواتے ہیں ایسے لوگ زانی ہوتے ہیں.اللہ رحم کرے اگر ایک فیصد سے کم بھی ہم میں سے ایسے لوگ ہوں، ہزار میں سے بھی ایک ہو تو تب بھی ہمیں فکر کرنی چاہئے.کیونکہ پرانے احمدیوں کی تربیت کے معیار اعلیٰ ہوں گے تو نئے آنے والوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی.اس لئے بہت گہرائی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 27/ فروری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.الفضل انٹر نیشنل مطبوعہ 12/مارچ 2004ء) ایک اور جگہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حق مہر کی ادائیگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیم نے فرمایا کہ : جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت کی کہ وہ اسے نہیں 116

Page 117

عائلی مسائل اور ان کا حل دے گا تو وہ زانی ہے اور جس کسی نے قرض اس نیت سے لیا کہ ادانہ کرے گا تو میں اسے چور شمار کرتا ہوں.(مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 131) اب دیکھیں حق مہر ادا کر نامرد کے لئے کتنا ضروری ہے.اگر نیت میں فتور ہے تو یہ خیانت ہے، چوری ہے“.(خطبہ جمعہ فرموده 16 فروری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن) ( مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111.ایڈیشن 2005ء مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ ) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حق مہر کی ادائیگی کے ضمن میں مزید فرماتے ہیں: بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آکر یا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگا دیتے ہیں.اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بد نام نہیں کرنا چاہیئے.اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور میں حق مہر کی ادائیگی سے (اگر نہیں دیا ہوا ) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے.اول تو قضا کو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے خلع ہے حق مہر بھی ادا کر و.دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعه الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) 117

Page 118

عائلی مسائل اور ان کا حل عورت کے حقوق بحوالہ حق مہر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 2011ء میں احمدی خواتین سے ارشاد فرمایا: بعض لڑکوں سے بڑی بڑی رقمیں حق مہر رکھوا لیا جاتا ہے کہ کونسا ہم نے لینا ہے.یا یہ کہہ دیتی ہیں ہم نے حق مہر معاف کر دیا.اگر لینا نہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے.حق مہر مقرر ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ عورت لے اور یہ عورت کا حق ہے ، اُس کو لینا چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی نے کہا که حق مہر میری بیوی نے واپس کر دیا ہے.معاف کر دیا ہے.آپ نے کہا کہ جا کے پہلے بیوی کے ہاتھ پر حق مہر رکھو، پھر اگر وہ واپس کرتی ہے تب حق مہر معاف ہوتا ہے.نہیں تو نہیں.بے چارے کی دو بیویاں تھیں.خیر انہوں نے قرض لے کر جا کر جب دونوں کے ہاتھ میں برابر کا حق مہر رکھ دیا اور کہا کہ واپس کر دو، تم معاف کر چکی ہو.انہوں نے کہا ہم تو اس لئے معاف کر چکی تھیں کہ ہمارا خیال تھا کہ تمہیں دینے کی طاقت نہیں ہے اور تم نہیں دو گے.تو کیونکہ اب تو تم نے دے دیا ہے تو دوڑ جاؤ.وہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے تو آپ بڑے ہنسے اور آپ نے کہا ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہئے تھا.(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1925ء.خطبات محمود جلد 9 صفحہ 217 مطبوعہ ربوہ ) حق مہر کی اہمیت کے حوالہ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 118

Page 119

عائلی مسائل اور ان کا حل تو حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے.جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے یہ کہیں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو.پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر دیں.بہر حال جب حق مہر زیادہ رکھوائے جاتے ہیں تو جب خلع طلاق کے فیصلے ہوتے ہیں تو قضا کو یہ اختیار ہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت نہیں ہے اور ناجائز طور پر حق مہر رکھوایا گیا تھا تو اس حق مہر کو خود مقرر کر دے اور یہ ہوتا ہے.بعض ایسے بھی ہیں جو عدالت میں اپنے مفادات لے لیتے ہیں اور لے لیتی ہیں، لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی، اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں ہمارا شرعی حق یہ بنتا تھا.پھر جماعت میں بھی آجاتے ہیں.اگر شرعی حق بنتا تھا تو پھر شرعی حق لو یا قانونی حق لو.بعض دفعہ قانونی حق شرعی حق سے زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے بہر حال حق ایک طرف کا ہی لینا چاہئے.ظلم جو ہے وہ نہیں ہونا چاہئے.ایک فریق پر زیادتی نہیں ہونی چاہئے.نہ لڑکے پر ، نہ لڑکی پر.پھر اس کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے.پس یہ ایسے کراہت والے کام ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایک شریف شخص کراہت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 / اپریل 2012ء) طلاق کی صورت میں پیدا ہونے والے جھگڑوں کے ضمن میں حق مہر کی ادائیگی کے بارہ میں حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں: بعض عائلی جھگڑے ایسے آتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ نہ میں تمہیں 119

Page 120

عائلی مسائل اور ان کا حل چھوڑوں گا یا طلاق دوں گا اور نہ ہی تمہیں بساؤں گا.اگر قضاء میں یا عدالت میں مقدمات ہیں تو بلاوجہ مقدمہ کو لمبا لٹکایا جاتا ہے.ایسے حیلے اور بہانے تلاش کئے جاتے ہیں کہ معاملہ لٹکتا چلا جائے.بعض کو اس لئے طلاق نہیں دی جاتی، پہلے میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں، کہ یہ خود خلع لے تاکہ حق مہر سے بچت ہو جائے، حق مہر ادا نہ کرنا پڑے.تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو تقویٰ سے دور لے جانے والی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اصلاح کرو، اگر تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش کے طلبگار ہو تو خود بھی رحم کا مظاہرہ کرو اور بیوی کو اس کا حق دے کر گھر میں بساؤ.اگر اللہ تعالیٰ کے وسیع رحم سے حصہ لینا چاہتے ہو تو اپنے رحم کو بھی وسیع کرو“.آپ مزید ارشاد فرماتے ہیں: ”میں نے ابھی طلاق کا ذکر کیا تھا کہ بعض مرد طلاق کے معاملات کو لٹکاتے ہیں اور لمبا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں.ایک تو جب شادی ہو جائے کچھ عرصہ مرد اور عورت اکٹھے بھی رہتے ہیں اور اولاد بھی بسا اوقات ہو جاتی ہے.پھر طلاق کی نوبت آتی ہے.اس کے حقوق تو واضح ہیں جو دینے ہیں اور مرد کے اوپر فرض ہیں، بچوں کے خرچ بھی ہیں.حق مہر وغیرہ بھی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں جب ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہوتی یا حق مہر مقرر نہیں ہوا ہو تا تب بھی عورت کے حقوق ادا کرو.سورۃ بقرہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: 120

Page 121

عائلی مسائل اور ان کا حل لا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتَّعُوْهُنَّ عَلَى الْمُوْسِع قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ.(البقرة:237) تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورت کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ.صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال.یہ معروف کے مطابق کچھ متاع ہو.احسان کرنے والوں پر تو یہ فرض ہے.اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مرد کی طرف سے رشتہ نہ نبھانے کا سوال اٹھے، اس کی جو بھی وجوہات ہوں، مرد کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں کو ختم کرتے وقت عورت سے احسان کا سلوک کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کو ادائیگی کرے.اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو مرد کو حکم ہے کہ اس وسعت کا اظہار کرو.جس خدا نے وسعت دی ہے اگر اس کا اظہار نہیں کرو گے تو وہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے.کشائش دی ہے اگر حق ادا نہیں کرو گے ، احسان نہیں کرو گے تو وہ کشائش کو تنگی میں بدلنے پر بھی قادر ہے.اس لئے اگر اللہ تعالی کے فضلوں سے حصہ لینا ہے تو عورت سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے اپنے پر اُس وسعت کا اظہار کرو اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت اور وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لئے فرمایا کہ اگر غریب زیادہ دینے کی طاقت نہ 121

Page 122

عائلی مسائل اور ان کا حل رکھتا ہو تو وہ اپنی طاقت کے مطابق جو حق بھی ادا کر سکتا ہے کرے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نیکی کرنے والے اور تقویٰ سے کام لینے والے ہو تو پھر تم پر فرض ہے کہ یہ احسان کرو.آنحضرت تم نے اس کی کس حد تک پابندی فرمائی اس کا اظہار ایک حدیث سے ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک انصاری نے شادی کی اور پھر اس عورت کو چھونے سے پہلے سے طلاق دے دی اور اس کا مہر بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا.یہ معاملہ جب آنحضرت ام کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے احسان کے طور پر اُسے کچھ دیا ہے ؟ تو اس صحابی نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ میں اسے کچھ دے سکوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کچھ نہیں ہے تو تمہارے سر پر جو ٹوپی پڑی ہوئی ہے وہی دے دو.(روح المعانی جلد نمبر صفحہ 745,746 تفسیر سورة البقرة زير آيت:237) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے حقوق کا کس قدر اظہار فرمایا اور خیال رکھا.یہ تو صور تحال بیان ہوئی ہے کہ اگر حق مہر مقرر نہیں بھی ہوا تو کچھ نہ کچھ دو اور اگر حق مہر پہلے مقرر ہو چکا ہے تو اس صورت میں کیا کرنا ہے ؟ اس کا بھی اگلی آیات میں بڑا واضح حکم ہے کہ پھر جب حق مہر مقرر ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں اس کا نصف ادا کرو“.(خطبه جمعه فرمودہ 15 / مئی 2009ء - مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 105 جون 2009ء) 122

Page 123

عائلی مسائل اور ان کا حل تعلقات میں تلخی کی چند وجوہات ناپسند کی شادیاں مجبوری میں کی جانے والی بعض شادیوں میں بعد کے واقعات تلخی پر منتج ہوتے ہیں.اس حوالے سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: و بعض لڑکیاں والدین کے کہنے پر شادی کر لیتی ہیں.پہلے سچ بولنے اور حق کہنے کی جرات نہیں ہوتی اور جب شادی ہو جاتی ہے تو پھر بعض ایسی حرکتیں کرتی ہیں جن سے میاں بیوی میں اعتماد کی کمی ہو جاتی ہے اور پھر لڑائیاں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ پاکستان سے رشتے کر کے آجاتی ہیں، جماعتی جائزے نہیں لئے جاتے ، رپورٹیں نہیں لی جاتیں.پھر کہا جاتا ہے کہ جماعت نے ہماری مدد نہیں کی.یہاں سے بعض لڑکے لڑکیوں کو بلا لیتے ہیں، اُن سے زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر طلاقیں ہو جاتی ہیں.تو دونوں طرف سے ایک ایسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس کی جماعت کو فکر کرنی چاہئے.لڑکیاں بعض دفعہ شادی کے بعد بتاتی ہیں کہ ہمیں یہ رشتہ پسند نہیں ہے.ماں باپ نے کہا مجبوری تھی.بعض لڑکے بھی شادی کے بعد بتاتے ہیں.لڑکوں میں بھی اتنی جرات نہیں ہے، یا پھر اُن کو پتہ چلتا ہے کہ و لڑکے یا لڑ کی کہیں اور involve ہیں یا کسی دوسرے رشتہ کو پسند کرتے ہیں.وہ 123

Page 124

عائلی مسائل اور ان کا حل وہ اپنی پسند کے رشتے شروع میں بتا دیں تو کم از کم دو گھروں کی زندگیاں تو برباد نہ ہوں اور پھر ایسے بھی معاملات ہیں جہاں ماں باپ کو پہلے پتہ ہوتا ہے اور اس خیال سے شادی کروا دیتے ہیں کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ ہوتا نہیں ہے.لڑکا ہو یا لڑ کی ، ٹھیک تو نہیں ہوتے البتہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی برباد ہو جاتی ہے“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرموده 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 / اپریل 2012ء) اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر فرمایا: نہیں پھر لڑکیاں بعض ایسی جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں جہاں ماں باپ نہیں چاہتے ، بعض وجوہ کی بنا پر ، مثلاً لڑکا احمدی نہیں ہے ، یادین سے تعلق ہے.مگر لڑکی بضد ہے کہ میں نے یہیں شادی کرنی ہے.پھر لڑکے ہیں، بعض ایسی حرکات کے مر تکب ہو جاتے ہیں جو سارے خاندان کی بدنامی کا باعث ہو رہا ہوتا ہے.تو اس لئے یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ہماری اولادوں کی طرف سے ہمیں کسی قسم کے ابتلا کا سامنانہ کرنا پڑے بلکہ ان میں ہمارے لئے برکت رکھ دے اور یہ دعا بچے کی پیدائش سے بلکہ جب سے پیدائش کی امید ہو تب سے شروع کر دینی چاہئے“.(خطبہ جمعہ 12 دسمبر 2003ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 06 فروری 2004ء) سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں احمدی خواتین کو یہ دردمندانه نصیحت فرمائی کہ : 124

Page 125

عائلی مسائل اور ان کا حل مذہب کا ہمیشہ ایک احمدی لڑکی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ میں احمدی ہوں اور اگر میں کہیں باہر رشتہ کرتی ہوں تو میری آنے والی نسل جو ہے اس میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے اور میرے مذہب میں بھی بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ دوسرے گھر میں جاکر ، ایک غیر مذہب میں جا کر ان کے زیر اثر میں آسکتی ہوں“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 28 جولائی 2007ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 نومبر 2015ء) پھر ایک اور موقع پر فرمایا: پھر یہ معاملات بھی اب سامنے آنے لگے ہیں کہ شادی ہوئی تو ساتھ ہی نفرتیں شروع ہو گئیں بلکہ شادی کے وقت سے ہی نفرت ہو گئی.شادی کی کیوں تھی؟ اور بد قسمتی سے یہاں ان ملکوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی ہے، شاید احمدیوں کو بھی دوسروں کا رنگ چڑھ رہا ہے حالانکہ احمدیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنے دین کا رنگ چڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی.پس ہونا تو یہ چاہئے تھا که اگر مرضی کی شادی نہیں ہوئی تب بھی پہلے اکٹھے رہو، ایک دوسرے کو سمجھو، اس نصیحت پر غور کرو جس کے تحت تم نے اپنے نکاح کا عہد و پیمان کیا ہے کہ تقویٰ پر چلنا ہے، پھر سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی اگر نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو کوئی انتہائی قدم اٹھاؤ اور اس کے لئے بھی پہلے یہ حکم ہے کہ آپس میں حکمین مقرر کرو،رشتہ دار ڈالو، سوچو، غور کرو.125

Page 126

عائلی مسائل اور ان کا حل دونوں طرف کے فریقوں کو مختلف قسم کے احکام ہیں.افسوس کی بات یہ ہے، گو بہت کم ہے لیکن بعض لڑکیوں کی طرف سے بھی پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ آ جاتا ہے کہ ہماری شادی تو ہو گئی لیکن ہم نے اس کے ساتھ نہیں رہنا.جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ لڑکے یا لڑکی نے ماں باپ کے دباؤ میں آکر شادی تو کر لی تھی ورنہ وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتے تھے.تو ماں باپ کو بھی سوچنا چاہئے اور دو زندگیوں کو اس طرح بر باد نہیں کرنا چاہئے".(خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن مطبوعه الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) ذاتی انا: مسائل کا پہاڑ فریقین میں مسائل کے آغاز کی ایک بڑی وجہ ان کی ذاتی انا بھی ہوتی ہے.اس کمزوری پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں: آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کر کن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں.ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخر کار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ا.126

Page 127

عائلی مسائل اور ان کا حل عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں.پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئے اور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کر تاجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں.پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے ؟ اپنی اناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے ؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کو بھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے.کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے.یہاں میں نے گزشتہ 127

Page 128

عائلی مسائل اور ان کا حل دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں.تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں.اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں“.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں: ”اسلام نے ہمیں اپنے گھر یلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے.ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں ، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں.اللہ رحم کرے.اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جارہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں.ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے 128

Page 129

عائلی مسائل اور ان کا حل نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو.تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے.کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا ،اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہر وگے.میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں.یادر کھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے ، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے ، ان کی عزت کر رہے ہوں گے ، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے.آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے 129

Page 130

عائلی مسائل اور ان کا حل والے کو خدا تعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2006ء) قوت برداشت کی کمی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عائلی جھگڑوں کی ایک وجہ قوت برداشت میں کمی بھی بتائی اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: - ”آج کل یہاں بھی اور دنیا میں ہر جگہ میاں بیوی کے جھگڑوں کے معاملات میرے سامنے آتے رہتے ہیں.جن میں مرد کا قصور بھی ہوتا ہے عورت کا قصور بھی ہوتا ہے.نہ مرد میں برداشت کا وہ مادہ رہا ہے جو ایک مومن میں ہونا چاہئے نہ عورت برداشت کرتی ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہہ چکا ہوں کہ گو زیادہ تر قصور عموماً مردوں کا ہوتا ہے لیکن بعض ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں عورت یالڑ کی سراسر قصور وار ہوتی ہے.قصور دونوں طرف سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، گھر اجڑتے ہیں.پس دونوں طرف کے لوگ اگر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں اور تقویٰ دل میں قائم کرنے والے ہوں تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تم دونوں کو ایک دوسرے کے عیب نظر آتے ہیں 130

Page 131

عائلی مسائل اور ان کا حل تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی لگتی ہوں گی.یہ نہیں کہ صرف ایک دوسرے میں عیب ہی عیب ہیں؟ اگر ان اچھی باتوں کو سامنے رکھو اور قربانی کا پہلو اختیار کرو تو آپس میں پیار محبت اور صلح کی فضا پیدا ہو سکتی ہے.آپ ایم کی بیویوں کی گواہی ہے کہ آپ اللہ تم جیسے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ بیویوں سے حسن سلوک کرنے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا.پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو نصیحت فرماتے ہیں تو صرف نصیحت نہیں فرماتے بلکہ آپ الم نے اپنے اسوہ سے بھی یہ ثابت کیا ہے“.(خطبہ جمعہ فرموده 22 / اگست 2008ء بمقام مئی مارکیٹ منہائم جرمنی.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 12 ستمبر 2008ء) 31اکتوبر 2009ء کو مسجد فضل لندن میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.اس موقع پر سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسنونہ کی تلاوت کے بعد اپنے خطبہ میں فرمایا کہ : خطبہ ”نکاح ایک ایسا Bond ہے جو لڑکے اور لڑکی کے درمیان اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر اس وعدہ کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے اس رشتہ کو نبھانے کی کوشش کریں گے.لیکن بد قسمتی سے آج کل مغرب کا اثر ہے یا تعلیم کا اثر ہے.برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے بڑی جلدی ان رشتوں میں دراڑیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.جبکہ قرآن کریم کی جن آیات کو پڑھا جاتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر چلنے کا ذکر اور حکم 131

Page 132

عائلی مسائل اور ان کا حل فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات یقینا اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے ہی اس خطبہ کے لئے مقرر فرمائی ہوں گی.پس اس بات کو ہمیشہ دونوں طرف کے رشتہ داروں اور لڑکے کو بھی اور لڑکی کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ رشتہ ایک بہت اہم اور مقدس جوڑ ہے اور جیسا کہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں لڑکے اور لڑکی کے خاندانوں کو بھی ذرا ذراسی بات پر رشتے توڑنے اور لڑائیاں شروع کرنے اور بد مزگیاں پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے“.(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل کیم جون 2012ء) جھوٹ کی وجہ سے بے اعتمادی میاں بیوی کے درمیان بے اعتمادی پیدا ہو جانے کی بہت بڑی وجہ کسی ایک فریق کا یا دونوں کا جھوٹ کی بد عادت میں مبتلا ہونا ہے.اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " بہت سے جھگڑے خاوند بیوی کے اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہوتے ہیں.عورت کو شکوہ ہوتا ہے کہ مرد سچ نہیں بولتا.مرد کو شکوہ ہوتا ہے کہ عورت سچ نہیں بولتی اور اس کو سچ بولنے کی عادت ہی نہیں اور اکثر معاملات میں یہ ایک دوسرے پر الزام لگارہے ہوتے ہیں کہ میرے سے غلط بیانی سے کام لیا یا مستقل ہر بات میں غلط بیانی کرتے ہیں یا کرتی ہے.پھر سچ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور 132

Page 133

عائلی مسائل اور ان کا حل بچے بھی جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں“.مزید فرمایا: پھر یہ بھی نصیحت ہے کہ اگر تم اس طرح سچ پر قائم رہو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری ان کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کرتا رہے گا.تمہیں نیکیوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے گا.تمہارے گناہوں سے، تمہاری غلطیوں سے، صرفِ نظر کرتے ہوئے تمہارے گھروں کو جنت نظیر بنادے گا.سچ پر قائم رہنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ سچ پر قائم رہ کر ہی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور سچ پر قائم رہ کر ہی آپس کے تعلقات کو اچھی طرح ادا کر سکتے ہو اور سچ پر قائم ہو کر ہی اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر سکتے ہو اور ان کو معاشرے کا ایک مفید وجو د بنا سکتے ہو.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 21/ اگست 2004 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2015 ء) 7 اکتوبر 2011ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعد نماز مغرب و عشاء مسجد بیت الرشید ہمبرگ (جرمنی) میں چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسنون خطبہ نکاح و آیات قرآنیہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” پس ان آیات میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے.اس حد تک سچائی جس میں ذرا سا بھی جھول نہ ہو، اس کا خیال رکھو.133

Page 134

عائلی مسائل اور ان کا حل یہ سچائی ہی ہے جو لڑکے اور لڑکی، خاوند اور بیوی کے تعلقات میں اعتماد کی فضا پیدا کرتی ہے اور یہ اعتماد ہی ہے جو پھر آگے امن کی اور پیار کی ضمانت بن جاتا ہے.پس نئے قائم ہونے والے رشتے ان باتوں کا خیال رکھیں.اللہ کرے یہ قائم ہونے والے رشتے ان باتوں کا خیال رکھنے والے ہوں اور کبھی بھی کسی بھی قسم کا جھول، جھوٹ یا سچائی میں کوئی غلط بیانی بھی آپس کے رشتوں میں پیدا نہ ہو اور ہمیشہ اعتماد کی فضا قائم رہے“.(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل 30 دسمبر 2011 ) جھوٹ ، اور جھوٹی گواہی دو احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کا ایک ٹیسٹ ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، تو بہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ ٹیسٹ یہ ہے کہ : لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ (الفرقان : 73) جھوٹی گواہی نہیں دیتے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ گواہی کے متعلق فرماتا ہے کہ : يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ وَلَوْ عَلَى انْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ (النساء:136) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے.134

Page 135

عائلی مسائل اور ان کا حل پس دیکھیں یہ خوبصورت تعلیم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے.ہم دنیا کو بتانے کے لئے تو یہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے اور اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم ہے اور جماعت احمد یہ دنیا میں انصاف اور محبت کا پر چار کرتی ہے لیکن اگر ہمارے عمل ہمارے قول کے خلاف ہیں تو ہم اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور دنیا کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں.اب یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ انسان اپنے خلاف گواہی دے.صلح بھی کر لی ، تو بہ بھی کر لی، عمل صالح بھی کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد اگر کہیں ایسا موقع آئے کہ جہاں سچ بول کر اپنے خلاف گواہی دینی پڑے تو دل کو ٹولیں کہ کیا ہم ایسے ہیں جو سچائی پر قائم رہتے ہوئے اپنے خلاف گواہی دینے والے بنیں گے.عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ تو جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچاتے ں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر اپنے گھروں میں امن قائم کرنا چاہتی ہو یا اپنے معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتی ہو تو کبھی جھوٹ کا سہارا نہ لو یہاں تک کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو.اپنی غلطی کا اعتراف کرو.اپنے والدین کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو.اپنے قریبی دوستوں، رشتہ داروں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو.اگر اس ایک بات کو ہر احمدی عورت اور مر د پلے باندھ لے تو گھروں کے فساد ختم ہو جائیں.قضا میں معاملات آتے ہیں، اکثر میں نے دیکھا ہے ، بات کو طول دینے کے لئے اپنے حق میں فیصلے کروانے کے لئے جھوٹ پر بنیاد ہو جاتی ہے.بعض ہیں.135

Page 136

عائلی مسائل اور ان کا حل دفعہ عورت کی طرف سے بھی اپنے کیس کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جارہا ہوتا ہے اور مرد کی طرف سے بھی اپنے معاملے کو مضبوط کرنے کے لئے جھوٹ بولا جارہا ہوتا ہے اور پھر وکیل اور مشورہ دینے والے دوسرے لوگ جو اس کام پر مقرر کئے جاتے ہیں، وہ اس پر سونے پر سہا گہ ، اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے کہ ہم نے بڑا اچھا کیس لڑا جھوٹ کی ترغیب دلاتے ہیں یا جھوٹے کیس بنالیتے ہیں یا اپنے پاس سے بھی خود کچھ نہ کچھ add کر لیتے ہیں.وکیل تو اپنی برتری اس لئے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کیس ہم جیت گئے تو ہماری بڑی واہ واہ ہو جائے گی اور ہمارا کام چمکے گا.گویا انہوں نے یہاں شرک شروع کر دیا اور جھوٹ کو اپنا رازق بنا لیا.لوگ کہیں گے بڑا اچھا وکیل ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہ ہو تو پھر برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 / اپریل 2012ء) قناعت اور توکل علی اللہ کی کمی گھروں کے ٹوٹنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں: وو ” اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتا ہے.بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے ،اپنے دوستوں، سہیلیوں یا ہمسایوں کی طرف دیکھتی ہیں جن کے 136

Page 137

عائلی مسائل اور ان کا حل حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں اور پھر خرچ کر لیتی ہیں پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتا ہے کہ اور دو.پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اور اس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دودو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل نہ ہونے کی وجہ سے.کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں.اللہ تعالی پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں ، اس سے دعا بھی نہیں کرتے.تو یہ ایک سلسلہ جب چلتا ہے تو پھر دوسر ا سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر توکل کیسے رہ سکتا ہے.تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کر دیتی ہیں.خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 2003ء بمقام مسجد فضل، لندن برطانیہ مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 10 اکتوبر 2003ء) عورتوں کی ناجائز خواہشات اور مطالبات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 15 اپریل 2006 ء کو جلسہ سالانہ آسٹریلیا میں مستورات سے خطاب میں عورتوں کو 137

Page 138

عائلی مسائل اور ان کا حل خصوصیت سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: محضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی حکمران ہے جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو.کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہو اور روحانی نقصان بھی نہ ہو.اُس کے پیسے کا بے جا استعمال نہ ہو کیونکہ بے جا استعمال، اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کر دیتا ہے.عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں.خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہے اور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے، اس قرضے کی وجہ سے جب بے سکونی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو فکروں میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر اس کی طبیعت صبر کرنے والی بھی ہے تو پھر مریض بن جاتا ہے.کوئی شوگر کا مریض بن گیا، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا.اگر خاوند نہیں مانتا تو بعض عور تیں اپنے خاوندوں کے رویہ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں.لیکن اگر آپ نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ تو آپ کسی قسم کا مریض بن رہی ہوں گی نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے.اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت تو تکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنا رہی ہوتی ہے.دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے، جنت نظیر ہونا چاہئے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے جہنم کا نمونہ پیش کر رہا ہوتا ہے.138

Page 139

عائلی مسائل اور ان کا حل پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے.ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہو رہی ہوتی ہے.اس معاشرے میں سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور معاشرہ کیونکہ بالکل آزاد ہے اس لئے بعض بچے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں.تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کی، اس کے مال اور بچوں کی، نگران بنائی گئی ہے، اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کو لٹوانے کا سامان کر رہی ہوتی ہے.پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے ر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے“.حکموں ہے مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 12 جون 2015ء) ایک اور موقع پر خواتین سے مخاطب ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بعض گھر اس لئے اجڑ جاتے ہیں کہ مرد ان کی خواہشات پوری نہیں کر سکتے.ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں.یا اگر اُجڑتے نہیں تو بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے.لیکن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے ہوں اُن کا کفیل خدا خود ہو جاتا ہے، اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے.ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھر یلو چین اور سکون کس طرح 139

Page 140

عائلی مسائل اور ان کا حل پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے؟ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا.حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے.دنیاوی خواہشات تو بڑھتی چلی جاتی ہیں.ایک کے بعد دوسری خواہش آتی چلی جاتی ہے جو بے سکونی پیدا کرتی ہے“.پھر فرمایا: کہ اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقینا جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے.ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں.لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، انہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے.اُن کے بچے بھی اں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں“.(2 جون 2012ء میں جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 126 اکتوبر 2012ء) جلسہ سالانہ یو کے 2007ء کے موقع پر مستورات سے خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت فاطمتہ الزہرہ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰ " گھر تشریف لائے.کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو حضرت فاطمہ سے.تو آپ نے بتایا کہ آج تیسر ا دن ہے گھر 140

Page 141

عائلی مسائل اور ان کا حل میں جو کا ایک دانہ تک نہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ میں کوئی انتظام کرتا.انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپ ا نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں.یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور میں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر لے کر یا ہو کہ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا.تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعل راہ ہے.ہر اُس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں“..(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 28 جولائی 2007ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13/ نومبر 2015ء) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے2010ء کے موقع پر فرمایا: اگر ہر عورت اس بات کو سمجھ لے کہ اُس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اُن کی بجا آوری اس نے اس لئے نہیں کرنی کہ کہیں خاوند ، باپ یا بھائی کی نظر میں آکر اُن کی طرف سے کسی سزا کی سزاوار نہ بن جائے بلکہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس اس لئے ہمیشہ دلوں میں رکھنا ہے اور اُسے پختہ کرنا ہے کہ ایک خدا ہے جو عالم الغیب ہے، جو غیب کا علم رکھتا ہے، جو ہماری ہر حرکت وسکون کو دیکھ رہا ہے، ہر وقت اُس کی نظر اپنی مخلوق پر پڑ رہی ہے.ہر ایک کا 141

Page 142

عائلی مسائل اور ان کا حل عمل اُس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے.پس جب یہ احساس رہے تو کوئی عورت ایسا عمل نہیں کر سکتی جو اُسے تقویٰ سے دُور ہٹا دے.ایک بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند سے کامل وفا کرنے والی ہو گی.خاوند کے گھر کی نگران ہو گی.اس کے مال کو ضائع کرنے کی بجائے اس کا صحیح مصرف کرنے والی ہو گی.کئی ایسی عورتیں ہیں جو تقویٰ پر چلنے والی ہیں یا تقویٰ کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی چلنے والی ہیں، جو باوجو د تھوڑی آمد کے اپنے خاوند سے ملنے والی رقم میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہیں اور جمع کرتی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مشکل حالات میں خاوند کو دے دیتی ہیں.خاوند کو تو نہیں پتہ ہو تا کہ کیا بچت ہو رہی ہے ؟ اب وہ اُس کے مال کی اِس طرح غیب میں حفاظت کر رہی ہیں یا اگر اُن کو ضرورت ہے تو خاوند کو بتا کر اُس کا استعمال کر لیتی ہیں.اپنی اولاد کی صحیح نگرانی کرتی ہیں اور یہ اولاد کی نگرانی صرف خاوند کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ اس لئے ہو رہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے کہ یہ قوم کی امانت ہیں.یہ جماعت کی امانت ہیں.پھر وہ اپنی دوستیں اور سہیلیاں بھی ایسی عورتوں کو بناتی ہیں جو اعلیٰ اخلاق کی ہیں.ایک خاوند کی وفادار عورت کبھی غلط قسم کی سہیلیاں نہیں بناتی جو اس کو اس ڈگر پر ڈالیں جو غلط ہو کہ خاوند کا پیسہ جتنا نچوڑ سکتی ہو نچوڑ لو.خاوند کے بغیر سیریں کرنے کے لئے آزادی سے جاؤ آخر تمہاری بھی آزادی کا حق ہے.جس سے چاہو جس طرح کے چاہو تعلقات رکھو، نہ ہی ایسی مشورہ دینے والی عور تیں 142

Page 143

عائلی مسائل اور ان کا حل غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی ایسی عورتوں سے دوستیاں رکھنے والی اور باتوں پر عمل کرنے والی غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں“.(جلسہ سالانہ یو کے.خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2010ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 11 / مارچ 2011ء) 19 مئی 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دورہ ہالینڈ کے دوران ایک نکاح کا اعلان فرمایا.اس موقع پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا: عموما میں نے دیکھا ہے کہ رشتے بعض دفعہ اس لئے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، گھروں میں اس لئے جھگڑے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں کہ لڑکیوں کی ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ لڑکیوں کے ساتھ ان کے گھر والے بھی مل جاتے ہیں اور پھر لڑکا ان ڈیمانڈز کو پورا نہیں کر سکتا تو پھر جھگڑوں کی بنیاد پڑتی ہے.اسی طرح بعض لڑکے بھی لڑکیوں سے ناجائز زیادتی کرتے ہیں.ان کو بھی خیال رکھنا چاہئے.پس جیسا کہ شروع میں میں نے کہا اصل چیز یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے ، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ان رشتوں کو قائم کرنا چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اگر یہ بات سامنے رہے گی تو اللہ تعالی کے فضل سے آپ کے رشتے بھی نبھتے رہیں گے.نئے قائم ہونے والے جو رشتے ہیں وہ بھی نبھتے رہیں گے ، اور آئندہ نسلیں بھی نیکیوں پر چلنے والی ہوں گی.اللہ 143

Page 144

عائلی مسائل اور ان کا حل کرے کہ یہ رشتہ جو نیا قائم ہو رہا ہے وہ ہر لحاظ سے بابرکت ہو اور ان روایات کو قائم کرنے والا ہو جو ان دونوں گھروں کی ، خاندانوں کی ہیں.یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی“.(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل 29 جون 2012ء) سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے یکم ستمبر 2007ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر اپنے خطاب میں ایک احمدی مسلمان عورت پر عائد ہونے والی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عائلی زندگی کے حوالہ سے ارشاد فرمایا: ایک احمدی عورت کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں اپنے گھروں کی یا اپنے بچوں کی نگرانی کرنا اور تعلیم کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے.احمدی عورت نے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے گھر اور خاوند کے گھر کی نگرانی کرنی ہے.اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم و تربیت کا خیال بھی رکھنا ہے.اپنی اولاد کی اسلامی اخلاق کے مطابق تربیت بھی کرنی ہے اپنی اولاد کی روحانی تربیت بھی کرنی ہے اور ان تمام تربیتی امور کو اپنی اولاد میں رائج کرنے کے لئے ، ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ، اپنے پاک نمونے قائم کرنے ہیں.اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمالِ صالحہ بجالانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں.تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے.تبھی ایک احمدی 144

Page 145

عائلی مسائل اور ان کا حل ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی“.(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرموده یکم ستمبر 2007 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 102 دسمبر 2016ء) 145

Page 146

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد ”نکاح ایک ایسا Bond ہے جو لڑکے اور لڑکی کے درمیان اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر اس وعدہ کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے اس رشتہ کو نبھانے کی کوشش کریں گے.لیکن بد قسمتی سے آج کل مغرب کا اثر ہے یا تعلیم کا اثر ہے.برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے بڑی جلدی ان رشتوں میں دراڑیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.جبکہ قرآن کریم کی جن آیات کو پڑھا جاتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر چلنے کا ذکر اور حکم فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات یقینا اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے ہی اس خطبہ کے لئے مقرر فرمائی ہوں گی.پس اس بات کو ہمیشہ دونوں طرف کے رشتہ داروں اور لڑکے کو بھی اور لڑکی کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ رشتہ ایک بہت اہم اور مقدس جوڑ ہے“.(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل یکم جون 2012ء) 146

Page 147

عائلی مسائل اور ان کا حل پر سکون عائلی زندگی کیلئے پر حکمت تعلیم صبر اور حوصلہ 4 ستمبر 2004ء جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ کے موقعہ پر حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں مردوں اور عورتوں کو اُن کے مذہبی فرائض کی طرف توجہ دلائی.اس ضمن میں گھریلو مسائل سے متعلق حضور انور بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ صبر سے لیا کریں.زندگی میں بہت سے مواقع آتے ہیں کاروبار میں نقصان ہو گیا، چوری ہو گئی ، ڈاکہ پڑ گیا وغیرہ وغیرہ.یا بعض دفعہ خاوند کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں.عورت کی ضرورت کے مطابق اس کو رقم مہیا نہیں ہو رہی تو شور مچا دیتی ہیں بعض عورتیں واویلا کرتی ہیں، خاوندوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتی ہیں.اپنی ڈیمانڈز بعض دفعہ اتنی زیادہ بڑھا لیتی ہیں کہ خاوند کو گھر میں خرچ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر دفعہ خاوند ہی صحیح ہوتے ہیں اور عور تیں ہی غلط ہوتی ہیں.عور تیں بھی صحیح ہوتی ہیں بعض جگہ.لیکن ان عورتوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں جن کی اکثریت ایسی ہے جو ڈیمانڈ ز کرتی ہیں.تو اس سے ہر وقت گھروں میں لڑائی جھگڑ ا فساد تو تکار ہوتی رہتی ہے.یا پھر یہ ہے کہ خاوند ان کے ناجائز مطالبات کی وجہ 147

Page 148

عائلی مسائل اور ان کا حل سے جب کبھی رستے سے اکھڑ جاتے ہیں ایسی صورت میں جب لڑائی ہو رہی ہو تو تکار ہو رہی ہو تو وہ پھر ایسے خاوند بھی ہیں کہ بیویوں پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں.یا خاوند اپنی بیویوں کے ان مطالبات کو ماننے کی وجہ سے، انہیں پورا کرنے کے لئے ، قرض لینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر سارا گھر ایک وبال میں گرفتار ہو جاتا ہے.خاوند سے قرض خواہ جب قرض کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ان سے ٹال مٹول کر رہا ہوتا ہے.پھر ایک اور جھوٹ شروع ہو جاتا ہے اور جب وہ ادا نہیں کرتا تو پھر خاوند کی چڑ چڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے.پھر بچوں پر سختیاں شروع ہو جاتی ہیں.بچے ڈسٹرب ہو رہے ہوتے ہیں.تو ایک شیطانی چکر ہے جو بعض ناجائز مطالبات کی وجہ سے، صبر کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے چل جاتا ہے اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بچے ایک عمر کے بعد ایسے گھروں میں، گھر سے باہر سکون کی تلاش کرتے ہیں اور پھر ماں باپ کی تربیت سے بھی جاتے ہیں.پھر برائیاں پیدا ہونی شروع ہوتی ہیں اور جب ماں باپ کو ہوش آتی ہے تو اس وقت، وقت گزر چکا ہوتا ہے.اس لئے فرمایا کہ ایمان کی مضبوطی تبھی قائم ہو گی جب صبر کی عادت بھی ہو گی“.(جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ خطاب از مستورات فرموده04 ستمبر 2004ء مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 107 جنوری 2005ء) شکر گزاری حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 17 ستمبر 2011ء کو 148

Page 149

عائلی مسائل اور ان کا حل لجنہ اماءاللہ جر منی کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر عورتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: پھر شکر کی عادت ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور دے گا.تمہارے پر نعمتوں کو بڑھاتا چلا جائے گا.پس اپنی گھریلو زندگی میں بھی اُس کا شکر ادا کریں.اپنے خاوندوں کی کمائی دیکھیں.اُن کے اندر خرچوں میں رہ کے گزارہ کریں، گھر چلائیں، اُس کا شکر ادا کریں.خاص طور پر بعض نئی شادی شدہ لڑکیوں کے بعض مسائل مجھے آ جاتے ہیں.کہاں تک یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن لڑکا لڑکی پر الزام لگارہا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے پر.لڑکے کا الزام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطالبہ بہت زیادہ ہے اور بعض دفعہ یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا.یہ ہر مہینے یا ہر ہفتے ہمیں بیوٹی پارلر نہیں لے کے جاتا.بیوٹی پارلر جانا تو ایک احمدی عورت کا یا احمدی لڑکی کا مقصد نہیں ہے.اگر کسی کے پاس توفیق نہیں ہے تو کس طرح لے جاسکتا ہے؟ اپنی حدوں کے اندر رہ کر گزارہ کریں تو تبھی رشتے قائم رہ سکتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا.ہر نیا جوڑا جو اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے اُس کی ابتدا تھوڑے سے ہی ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں زندگی گزرتی ہے تجربہ حاصل ہوتا ہے مردوں کی آمدنیاں بھی بڑھتی رہتی ہیں اور وسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں.پس یہ نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلے اور شکر کی عادت ڈالیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رشتے بھی 149

Page 150

عائلی مسائل اور ان کا حل قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بھی وارث بنتی چلی جائیں گی اور اُن لوگوں میں شمار ہوں گی جن کو پھر اللہ تعالی پیار کی نظر سے دیکھتا ہے.اپنے عہد پورے کرنے والی ہوں گی“.(لجنہ اماءاللہ جر منی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خطاب فرمودہ 17 ستمبر 2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 نومبر 2012ء) اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک اور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس بھی پیش فرمایا اور اس کی وضاحت فرمائی: ”خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو که تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز، زکوۃ وغیرہ میں سستی مت کرو“.اب نماز بھی فرض ہے ہر ایک پہ ، نماز ادا کرنی چاہئے اور یہی میں نے پہلے بھی کہا کہ عملی نمونہ ہو گا تو بچے بھی دیکھ کر اس طرف توجہ دیں گے.پھر زکوۃ ہے ہر عورت کے پاس زیور ہوتا ہے اس کا جائزہ لے کر شرح کے مطابق زکوۃ دینے کی طرف بھی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ: ” اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطبع رہو.ان کی اطاعت کرتی رہو.بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے.یعنی خاوندوں کی عزت کا بہت حصہ تمہارے ہاتھ میں بھی ہے.سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، 150

Page 151

قانتات میں گنی جاؤ“.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 81-80) عائلی مسائل اور ان کا حل (جلسہ سالانہ ہالینڈ خطاب از مستورات فرمودہ 03 جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 22 جولائی 2005 ) خاوند سے کامل وفا اور استغفار کی ترغیب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 2003ء کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ حالات خراب ہو جاتے ہیں، مرد کی ملازمت نہیں رہی یا کاروبار میں نقصان ہوا، وہ حالات نہیں رہے، کشائش نہیں رہی تو ایک شور برپا کر دیتی ہیں کہ حالات کا رونا، خاوندوں سے لڑائی جھگڑے، انہیں برا بھلا کہنا، مطالبے کرنا.تو اس قسم کی حرکتوں کا نتیجہ پھر اچھا نہیں نکلتا.خاوند اگر ذرا سا بھی کمزور طبیعت کا مالک ہے تو فوراً قرض لے لیتا ہے کہ بیوی کے شوق کسی طرح پورے ہو جائیں اور پھر قرض کی دلدل ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں پھر انسان دھنستا چلا جاتا ہے.ایسے حالات میں کامل وفا کے ساتھ خاوند کا مددگار ہونا چاہئے، گزارا کرنا چاہئے“.نیز یہ بھی فرمایا: ”ذرا سی بات پر شور شرابہ کرنے والی عورتوں کو یہ حدیث بھی ذہن میں رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہئے.حضرت ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ 151

Page 152

عائلی مسائل اور ان کا حل آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مجھے آگ دکھائی گئی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کرتی ہیں.عرض کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا انکار کرتی ہیں ؟ آپ ہم نے فرمایا: نہیں، وہ احسان فراموشی کی مرتکب ہوتی ہیں.اگر تو اُن میں سے کسی سے ساری عمر احسان کرے اور پھر وہ تیری طرف سے کوئی بات خلاف طبیعت دیکھے تو کہتی ہے میں نے تیری طرف کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیر و کفر دون کفرفیه ) دعاؤں، صدقات اور توبہ استغفار سے مشکل حالات کا مقابلہ خانگی مشکلات کی صورت میں احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” پھر بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہو جاتے ہیں.بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ رد عمل بھی اس قدر ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی شکوے پیدا ہو جاتے ہیں.تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہو جاتی ہیں کہ ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں.تو ایسی صورت میں 152

Page 153

عائلی مسائل اور ان کا حل نظام سے، قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے.لیکن اکثر دعا،صدقات اور رویوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لئے اُس کی طرف مزید جھکنا چاہئے.آنحضرت لم نے ایک موقعہ پر فرمایا: اے عورتوں کے گروہ ! صدقہ کیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو“.( صحیح مسلم.کتاب الایمان ، باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات ) (جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرموده 23/ اگست 2003ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل18نومبر 2005ء) 25 جون 2011ء کو جلسہ سالانہ جرمنی میں مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: پس تو بہ استغفار سے ہمیں اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ: وَمَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا (الفرقان :72) اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجالائے وہی ہے جو حقیقی مومن ہوتا ہے.پس حقیقی تو بہ صرف زبانی توبہ نہیں ہے بلکہ اعمالِ صالحہ کے ساتھ اُس کو سجانے کی ضرورت ہے.اب جس نے حقیقی توبہ کی ہے وہ ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کو تاہیوں کو سامنے رکھے گی.اس لئے کہ یہ بات اُس عمل سے اسے کراہت دلوائے گی، نفرت پیدا کرے گی اور جب کراہت پیدا ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے صدقہ اور خیرات کی طرف توجہ ہو گی.وہ عمل جو خدا تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہیں کبھی نہ کرنے کا وہ عہد بھی کرے گی.پھر بعض 153

Page 154

عائلی مسائل اور ان کا حل لوگ ہیں، بعض عورتیں ہیں اپنی بعض رنجشوں میں مثلاً اُن کی یہ عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرتی ہیں.دلوں میں کینہ اور بغض پہنتے رہتے ہیں.حقیقی تو بہ یہ ہے کہ جن سے رنجی رنجشیں ہیں اُن سے نہ صرف صلح کرو بلکہ اُن کے نقصان کا ازالہ کرو اور یہ ازالہ جب تو بہ کے ساتھ ہو گا تو وہی نیک عمل ہو گا، وہی عمل صالح ہو گا.بعض خاوند ، بیویاں، ساس، بہوئیں، نندیں، بھابیاں مجھے تو خط لکھ دیتی ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی اور ہم آئندہ ایسا کریں گی یا نہیں کریں گی لیکن جن کو نقصان پہنچایا ہوتا ہے یا جس کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے، اس سے نہ معافی مانگتی ہیں نہ اظہار ندامت کرتی ہیں.بہر حال اس طرف عورتوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مردوں کو بھی، کیونکہ مردوں کا بھی یہی حال ہے.دنیاوی لالچیں اس طرح غالب آجاتی ہیں کہ خدا کا خوف بالکل ختم ہو جاتا ہے.بعض دفعہ بعض لوگ ظاہری طور پر تو معذرت بھی کر لیتے ہیں لیکن بغض اور کینہ جیسا کہ میں نے کہا اندر ہی اندر پک رہے ہوتے ہیں اور جب بھی موقع ملے پھر نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حقیقی تو بہ کو نیک عمل کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، کہ اگر نیک عمل ہو گا تو حقیقی تو بہ ہو گی.اگر کسی غلطی کا مداوا اور ازالہ ہو گا تو پھر ہی تو بہ قبول ہو گی اور جب یہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگ حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہیں.اس بارے میں 154

Page 155

عائلی مسائل اور ان کا حل اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.پس ہمیں ایسی تو بہ اور استغفار کی ہر وقت تلاش رہنی چاہئے جو حقیقی تو بہ ہو.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے: وَإِنِّي لَغَفَّارُ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى (طه: 83) اور یقینا میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے پھر ہدایت پر قائم رہے.اب یہاں فرمایا کہ ہدایت پر قائم رہے.پس مزید واضح کر دیا کہ تو بہ کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے اور یہاں عمل صالح کی مزید ہدایت فرما دی اور تلقین فرما دی کہ کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ میں نے خود آگے بڑھ کر صلح کرلی ہے بلکہ فرمایا کہ یہ جو ہدایت کا کام تم نے کیا ہے اگر یہ تمہارے نزدیک عمل صالح ہے تو یہ ایک دفعہ کا عمل نہیں ہے کہ توبہ کر لی اور میں نے صلح کر لی اور معافی مانگ لی، بلکہ پھر اس پر ہمیشہ کے لئے قائم بھی رہنا ہے اور ہدایت پر یہ قائم رہنا تمہیں پھر خدا تعالیٰ کا قرب دلائے گا.پس دل صاف ہونے کا دعویٰ تبھی قابل قبول ہے جب اس پر قائم بھی ہو اور ہدایت پر نہ صرف قائم ہو بلکہ پھر ہر عورت کی، ہر مرد کی، ہر احمدی کی عمل صالح ایک پہچان بن جائے اور یہ پہچان دوسروں کے لئے بھی سبق اور نمونہ ہو.اب ہر کوئی اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھ سکتا ہے.کیونکہ اگر حقیقت میں دل کو ٹولا جائے تو اپنے ضمیر کا فیصلہ سب سے اچھا فیصلہ ہوتا ہے بشر طیکہ دل صاف ہو ، بشر طیکہ خدا تعالیٰ کا خوف ہو کہ کیا میری توبہ 155

Page 156

عائلی مسائل اور ان کا حل حقیقی ہے؟ کیا میر اعمل صالح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے؟ اور اگر ہے تو کیا میں خالصتاً للہ اب نیکیوں کو اختیار کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے پر سختی سے قائم ہوں؟ کچھ عرصے کے بعد جب آدمی جائزہ لیتا ہے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ قائم ہوں کہ نہیں ہوں“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 اپریل 2012ء) عائلی زندگی میں زبان، کان اور آنکھ کا اہم کردار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: دو " عائلی جھگڑوں میں دیکھا گیا ہے کہ زبان، کان، آنکھ جو ہیں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں.مرد ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کرتے.عور تیں ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کر رہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں اکثر اُن جوڑوں کو جو کسی نصیحت کے لئے کہتے ہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے لئے اپنی زبان، کان، آنکھ کا صحیح استعمال کرو تو تمہارے مسائل کبھی پیدا نہیں ہوں گے.زبان کا استعمال اگر نرمی اور پیار سے ہو تو کبھی مسائل پیدا نہ ہوں.اسی طرح اب عموماً دیکھا گیا ہے چاہے وہ مرد ہیں یا عورتیں ہیں، جب مقدمات آتے ہیں، جھگڑے آتے ہیں تو یہ مرد یا عورت کی زبان ہے جو ان جھگڑوں کو طول دیتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پھر انہوں نے فیصلہ کر لیا ہوتا ہے یا فیصلہ کرنے کی 156

Page 157

عائلی مسائل اور ان کا حل طرف جاتے ہیں کہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے.اسی طرح دونوں طرف کے رحمی رشتوں یا دوسری ایسی باتوں کو جن کے سننے سے کسی قسم کی بھی تلخی کا احتمال ہو اُن سے اپنے کان بند کر لو.بعض دفعہ اگر ایک شخص یا ایک فریق کوئی غلط بات کرتا ہے تو دوسرا بھی اُس کو اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے.اگر جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے تھوڑے وقت کے لئے کان بند کر لئے جائیں تو بہت سارے مسائل وہیں دب سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ مرد یا عور تیں عادی جھگڑنے والے ہوں اُن کے علاوہ عموماً جھگڑے نہیں ہوتے.پس کان بند کرو، امن میں آ جاؤ گے.میں ایک واقعہ بتایا کرتا ہوں اور یہ سچا واقعہ ہے کہ ایک خاوند اور بیوی جھگڑا کر رہے تھے.ایک چھوٹی بچی اُن کو دیکھ رہی تھی اور بڑی حیران ہو کر دیکھ رہی تھی.تھوڑی دیر بعد اُن دونوں کو خیال آیا کہ ہم غلط کام کر رہے ہیں.اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے ویسے ہی بچی سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں باپ نہیں لڑتے، اُمی ابا نہیں لڑتے یا ایک دوسرے سے سختی سے نہیں بولتے ؟ یا ناراض نہیں ہوتے ؟ اُس نے کہا ہاں.اگر میرے باپ کو غصہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے اور ماں کو غصہ آتا ہے تو باپ خاموش ہو جاتا ہے تو ہمارے ہاں لڑائی آگے نہیں بڑھتی.تو پھر اس سے یہ نیک اثر بھی بچوں پر پڑتا ہے.ایک دوسرے کی برائیوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بند رکھو اور ایک دوسرے کی اچھائیاں دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں 157

Page 158

عائلی مسائل اور ان کا حل کھلی رکھو.آخر ہر شخص میں چاہے وہ عورت ہے یا مر د ہے اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، برائیاں بھی ہوتی ہیں.میں نے دیکھا ہے عموماً مرد پہل کرتے ہیں کہ اُن کو عورتوں کی برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر جو ابا جب عورتیں برائیاں تلاش کرنا شروع کرتی ہیں تو اتنی دور تک نکل جاتی ہیں کہ پھر واپسی کے راستے نہیں رہتے.پھر ایسی ناجائز چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہئے جن سے تمہارے تقویٰ پر حرف آتا ہو.پھر گھر کے مسائل جن سے آپس کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے اگر آنکھوں کی پاکیزگی رکھو تو پھر یہ تھیں نہیں لگتی اور یہ مسائل ختم ہو جاتے ہیں.پھر اپنے دل کو ناجائز باتوں کی آماجگاہ نہ بنے دو.اس کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھرے رکھو تو پھر کبھی مسائل نہیں پیدا ہوتے.کبھی شیطان چور دروازے سے دل میں داخل ہو کر گھروں میں فساد نہیں کرتا.شیطان کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جس کا پتہ لگ جائے کہ کس طرح آیا ہے ؟ ہر بُری صحبت، ہر بُرا دوست جو تمہارے گھر کو برباد کرنے کی کوشش کرے، جو خاوند کے خلاف یا ساس کے خلاف یا نند کے خلاف یا خاوند کو بیوی کے خلاف بھڑ کانے کی کوشش کرے، یا کوئی ایسی چھوٹی سی بات کر دے جس سے دل میں بے چینی پیدا ہو جائے تو وہ شیطان ہے.پس ایسے شیطانوں کا خیال رکھنا ہر مومنہ اور مومن کا فرض ہے اور پھر جب یہ اعتماد قائم ہو جاتا ہے تبھی اس بندھن کی جو بنیاد ہے وہ مضبوط ہو جاتی ہے.اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو وہی محل جو پیار اور محبت کے عہد کے ساتھ تعمیر کیا گیا 158

Page 159

ہوتا ہے زمین بوس ہو جاتا ہے بلکہ کھنڈر بن جاتا ہے“.عائلی مسائل اور ان کا حل (جلسہ سالانہ برطانیہ 23 جولائی 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 104 مئی 2012ء) فرمانبردار بیوی اور متقی خاوند گھروں کو جنت نظیر بنانے کے حوالے سے حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آنحضرت ا نے فرمایا کہ دنیا سامان زیست ہے یعنی دنیا جو ہے اس زندگی کا سامان ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں ہے.کوئی نیک عورت ہو تو اس سے بڑھ کر دنیا کا کوئی سامان بہترین نہیں ہے.پس اس میں جہاں مردوں کو توجہ دلائی کہ نیک عورت سے شادی کرو، وہاں عورت کے لئے بھی غور کا مقام ہے کہ اپنی زندگی کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کریں جس طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول لیلی لیلی نے بہترین بیوی کی کیا تعریف فرمائی ہے، فرمایا جو خاوند کے کام کو خوشی سے بجا لائے اور جس سے روکے ، اس سے رُک جائے.اگر خاوند میں تقویٰ نہ ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے لیکن پھر بھی گھروں کو بچانے کے لئے رشتوں کو بچانے کے لئے جس حد تک ہو سکے کوشش کرتے رہنا چاہئے.حتی الوسع جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے.تقویٰ پر چلنے والے جس گھر کی آنحضرت ﷺ نے تعریف فرمائی ہے اور اس کے لئے پھر رحم کی دعا مانگی 159

Page 160

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے وہ وہ گھر ہے جس میں رات کو خاوند نوافل کی ادائیگی کے لئے اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے، اگر گہری نیند میں ہے تو پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے.اسی طرح اگر عورت پہلے جاگے تو یہی طریق خاوند کو جگانے کے لئے اختیار کرے اور جب ایسے گھروں میں خاوند بیوی کے نوافل کے ذریعے راتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاگیں گی تو وہ گھر حقیقتاً جنت نظیر ہوں گے.ایک جنگڑا میرے پاس آیا.مرد کے قلم کی وجہ سے رشتہ ٹوٹنے لگا تھا.اُس عورت کے چار پانچ بچے بھی تھے.میں نے سمجھایا کچھ اصلاح ہوئی لیکن پھر مرد نے ظلم شروع کر دیا.پھر عورت نے خلع کی درخواست دے دی.آخر پھر دعا اور سمجھانے سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان دونوں کی صلح ہو گئی اور اب فجر کی نماز جب مسجد میں پڑھنے آتے ہیں اور جب میں اُن کو جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دی اور انہوں نے اپنے بچوں کی خاطر دوبارہ اپنے رشتے جوڑ لئے.تو عورت کو اور مرد کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ صرف اپنے جذبات کو نہ دیکھیں بلکہ بچوں کے جذبات کو بھی دیکھیں.اُن کا بھی خیال رکھیں“.(سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے فرموده 4/ اکتوبر 2009 - مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 18 ر د سمبر 2009ء) 160

Page 161

مردوں کے فرائض اہل خانہ سے حسن سلوک عائلی مسائل اور ان کا حل حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالی.اس ضمن میں میاں بیوی کے حقوق کی احسن رنگ میں ادائیگی کے متعلق حضور انور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا: ایک حدیث ہے: حضرت زھیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصاف کرنے والے خدائے رحمن کے داہنے ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے.( اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ ہی داہنے شمار ہوں گے.) تو یہ لوگ اپنے فیصلے اور اپنے اہل و عیال میں اور جس کے بھی وہ نگران بنائے جاتے ہیں عدل کرتے ہیں“.(مسلم کتاب الامارۃ) ا مزید فرمایا: ”مردوں کو اس حدیث کے مطابق ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ پانا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور کے حقدار بنا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی.بچوں کی تربیت کا حق ادا کر نا ہو گا، ان میں دلچسپی لینی ہو گی، ان کو معاشرے کا ایک قابل قدر 161

Page 162

عائلی مسائل اور ان کا حل حصہ بنانا ہو گا.اگر نہیں تو پھر ظلم کر رہے ہو گے.انصاف والی تو کوئی چیز تمہارے اندر نہیں.بعض لوگ یہاں انگلستان ، جرمنی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، معاشرے میں، دوستوں میں بلکہ جماعت کے عہدیداروں کی نظر میں بھی بظاہر بڑے مخلص اور نیک بنے ہوتے ہیں.لیکن بیوی بچوں کو پاکستان میں چھوڑا ہوا ہے اور علم ہی نہیں کہ ان بیچاروں کا کس طرح گزارا ہو رہا ہے، یا بعض لوگوں نے یہاں بھی اپنی فیملیوں کو چھوڑا ہوا ہے.کچھ علم نہیں ہے کہ وہ فیملیاں کس طرح گزارا کر رہی ہیں.جب پوچھو تو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی زبان دراز تھی یا فلاں برائی تھی اور فلاں برائی تھی تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسے لوگوں کی بات ٹھیک ہے تو پھر انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک وہ تمہاری طرف منسوب ہے اسکی ضروریات پوری کرنا تمہارا کام ہے.بچوں کی ضروریات تو ہر صورت میں مرد کا ہی کام ہے کہ پوری کرے.بیوی کو سزا دے رہے ہو تو بچوں کو کس چیز کی سزا ہے کہ وہ بھی دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں.ایسے مردوں کو خوف خدا کرنا چاہئے.احمدی ہونے کے بعد یہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اور نہ ہی نظام جماعت کے علم میں آنے کے بعد ایسی حرکتیں قابل برداشت ہو سکتی ہیں یہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں.ہمیں بہر حال اس تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو اسلام نے ہمیں دی اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نکھار کر وضاحت سے ہمارے 162

Page 163

عائلی مسائل اور ان کا حل سامنے پیش کی.ایک حدیث ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے سب سے بہتر اخلاق کا مالک ہے اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والے ہیں“.(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء في حق المرأة على زوجها) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام (مردوں کے لئے) فرماتے ہیں: دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُ وَاهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے“.( البدر جلد 3 صفحہ 26.8 جولائی 1904ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 صفحہ 216) (خطبہ جمعہ فرمودہ 5 / مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 19 / مارچ 2004ء) شرائط تعدد ازدواج اور پہلی بیویوں کے حقوق اسلام پر اس اعتراض کے جواب میں کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے کر عورتوں پر ظلم کیا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستورات سے اپنے خطاب فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2004ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر فرماتے ہیں: اسلام نے جو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے وہ بعض شرائط کے 163

Page 164

عائلی مسائل اور ان کا حل ساتھ دی ہے.ہر ایک کو کھلی چھٹی نہیں ہے کہ وہ شادی کرتا پھرے.پہلی بات تو یہ ہے کہ تم تقویٰ پر قائم ہو اپنا جائزہ لو کہ جس وجہ سے تم شادی کر رہے ہو وہ جائز ضرورت بھی ہے.پھر یہ بھی دیکھو کہ تم شادی کر کے بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو گے کہ نہیں اور اگر نہیں تو پھر تمہیں شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا.اگر تم پہلی بیوی کی ذمہ داریاں اور حقوق ادا نہیں کر سکتے اور دوسری شادی کی فکر میں ہو تو پھر تمہیں دوسری شادی کا کوئی حق نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو.لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو.یعنی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہو تا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے“.(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 64-65 مطبوعہ لندن) تو فرمایا کہ: ”یہ شادیاں صرف شادیوں کے شوق میں نہ کرو.بعض مردوں کو شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمیں چار شادیوں 164

Page 165

عائلی مسائل اور ان کا حل کی اجازت دیتا ہے.فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تمہاری پہلی بیوی ہے اس کے جذبات کی خاطر اگر صبر کر سکتے ہو تو کر و.ہاں اگر کوئی شرعی ضرورت ہے تو پھر بے شک کرو.ایسے حالات میں عموما پہلی بیو یاں بھی اجازت دے دیا کرتی ہیں.تو بہر حال خلاصہ یہ کہ پہلی بیوی کے جذبات کی خاطر مرد کو قربانی دینی چاہئے اور سوائے اشد مجبوری کے شوقیہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں“.فرمایا کہ: " ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو.لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے“ مزید فرمایا کہ: ”خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہر گز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ 165

Page 166

عائلی مسائل اور ان کا حل شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو“.(ملفوظات جلد ہفتم.صفحہ 65-63) (جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2015ء) تعدد ازدواج کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 2009ء میں فرماتے ہیں: قرآن کریم میں اگر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادی کا حکم دیا ہے تو بعض شرائط بھی عائد فرمائی ہیں.یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے اور آنحضرت ام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دے کر عورت پر ظلم کیا گیا ہے.یا صرف مرد کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے.اس بارہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے، یہ کھلا حکم نہیں ہے.فرمایا: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَكَ وَرُبعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (النساء:1) اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامی کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو.دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہے یاوہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یہ طریق قریب تر ہے کہ تم نا انصافی سے بچو.اس آیت میں ایک تو یتیم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے کہ 166

Page 167

عائلی مسائل اور ان کا حل یتیموں سے بھی شادی کرو تو ظلم کی وجہ سے نہ ہو بلکہ ان کے پورے حقوق ادا کر کے شادی کرو اور پھر شادی کے بعد ان کے جذبات کا خیال رکھو اور یہ خیال نہ کرو، یہ کبھی ذہن میں نہ آئے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تو جس طرح چاہے ان سے سلوک کر لیا جائے اور اگر اپنی طبیعت کے بارہ میں یہ خوف ہے، یہ شک ہے کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو آزاد عورتوں سے نکاح کرو.دو، تین یا چار کی اجازت ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کے ساتھ.اگر یہ انصاف نہیں کر سکتے تو ایک سے زیادہ نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ” یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں.لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عور تیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے.ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشر طیکہ اعتدال کرو اور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو.گو ضرورت پیش آوے“.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 337) گو ضرورت پیش آوے.یہ بڑا با معنی فقرہ ہے.اب دیکھیں اس زمانہ کے حکم اور عدل نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ تمہاری جو ضرورت ہے جس کے بہانے بنا کر تم شادی کرنا چاہتے ہو، وہ اصل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشرے کا امن اور سکون اور انصاف اصل چیز ہے.آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں، اولاد ہے لیکن خاوند مختلف بہانے بنا کر 167

Page 168

عائلی مسائل اور ان کا حل شادی کرنا چاہتا ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ فرمایا اگر انصاف نہیں کر سکتے تو شادی نہ کرو اور انصاف میں ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی ہے.اگر آمد ہی اتنی نہیں کہ گھر چلا سکو تو پھر ایک اور شادی کا بوجھ اٹھا کر پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھینے والی بات ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو.(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 430 مطبوعہ ربوہ ) لیکن عملا جو آج کل ہمیں معاشرے میں نظر آتا ہے یہ ہے کہ پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے آہستہ آہستہ بالکل آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں.پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ مالی کشائش اور دوسرے حقوق کی ادائیگی میں بے انصافی تو نہیں ہو گی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے“.(الحکم جلد 2 نمبر 2 مؤرخہ 6 مارچ 1898ء صفحہ 2.تفسیر حضرت مسیح موعودڈ سورۃ النساء آیت 4 جلد دوم صفحہ 211) یعنی مراد یہ ہے کہ دوسری شادی کر کے.پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادانہ کر کے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے.میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا ذکر کیا تھا کہ آپ ام اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کیا کرتے تھے کہ 168

Page 169

عائلی مسائل اور ان کا حل میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہار ہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرما اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خدا تعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے ، غیب کا علم رکھتا ہے.اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ.ایسی صورت میں یہ بہر حال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کرو.جیسا کہ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَ إِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رحما (النساء: 130) اور تم یہ توفیق نہیں پاسکو گے کہ عورتوں کے در میان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو.اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیۂ نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں.لیکن 169

Page 170

عائلی مسائل اور ان کا حل جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہر حال ضروری ہے اور ظاہری انصاف جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں.اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھر یلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے.پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس کا جھکاؤ صرف ایک طرف ہو اور دوسری کو نظر انداز کرتا ہو تو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ کٹا ہوا یا علیحدہ ہو گا.(سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب میل الرجل حدیث نمبر 3942) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہری حقوق دونوں کے ادا کرو اور کسی بیوی کو بھی اس طرح نہ چھوڑو کہ وہ بیوی ہونے کے باوجو د ہر حق سے محروم ہو.نہ اسے علیحدہ کر رہے ہو اور نہ اس کا حق صحیح طرح ادا کیا جارہا ہو.ایک مومن کا وطیرہ یہ نہیں ہونا چاہئے.پس مومن کا فرض ہے کہ ان کاموں سے بچے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اپنی اصلاح کرے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 2009 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 105 جون 2009ء) 170

Page 171

عائلی مسائل اور ان کا حل خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق عورتوں کے حقوق کے ضمن میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں دنیا کی بے رغبتی سے متعلق مختلف مثالیں بیان کرتے ہوئے زہد کے اصل معانی پر روشنی ڈالی.حضور انور نے میاں بیوی کے تعلقات کے حوالہ سے بیان فرمایا: ”حضرت وہب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء کے درمیان بھائی چارہ کروایا.حضرت سلمان، حضرت ابو درداء کو ملنے آئے تو دیکھا کہ ابو درداء کی بیوی نے پراگندہ حالت میں کام کاج کے کپڑے پہن رکھے ہیں اپنا حلیہ عجیب بنایا ہوا تھا.سلمان نے پوچھا تمہاری یہ حالت کیوں ہے؟ اس عورت نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابو درداء کو تو اس دنیا کی ضرورت ہی نہیں وہ تو دنیا سے بے نیاز ہے.اسی اثناء میں ابو درداء بھی آگئے.انہوں نے حضرت سلمان کے لئے کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ آپ کھائیں میں تو روزے سے ہوں.سلمان نے کہا جب تک آپ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا.چنانچہ انہوں نے روزہ کھول لیا ( نفلی روزہ رکھا ہو گا).اور جب رات ہوئی تو ابو در دار نماز کے لئے اٹھنے لگے.سلمان نے ان کو کہا ابھی سوئے رہو چنانچہ وہ سو گئے.کچھ دیر بعد وہ دوبارہ نماز کے لئے اٹھنے لگے تو سلمان نے انہیں کہا کہ ابھی سوئے رہیں.پھر جب رات کا آخری حصہ آیا تو سلمان نے کہا کہ اب اٹھو.چنانچہ 171

Page 172

عائلی مسائل اور ان کا حل دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی.پھر سلمان نے کہا اے ابو دردا ! تمہارے پر وردگار کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے.تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے.پس ہر حقدار کو اس کا حق دو، اس کے بعد ابو درا آنحضرت ام کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا حضور لم نے فرمایا سلمان نے ٹھیک کیا ہے“.( بخاری کتاب الصوم باب من اقتسم على اخيه ليفطر في التطوع) زہد یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حقوق بیوی بچوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں ان کو انسان بھول جائے یا کام کاج کرنا چھوڑ دے.دنیاوی کام کاج بھی ساتھ ہوں لیکن صرف مقصود یہ نہ ہو.بلکہ ہر ایک کے حقوق ہیں وہ ادا کئے جائیں“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مئی 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 21 مئی 2004ء) اسی حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ : ” پھر عورت کی آزادی کا ہر حق قائم کرنے کے لئے اسلام عورت کو ایک ایسا حق دلواتا ہے جو کئی حقوق کا مجموعہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُو الا تَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا اللسَاء كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء: 20) 172

Page 173

عائلی مسائل اور ان کا حل کہ اے وہ لو گو ! جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبر دستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ پھر لے بھا گو.سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.تو یہ ہے ایک حق عورت کا.مثلاً ایک خاوند اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے، اسے نا پسند کرتا ہے، حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتا اور چھوڑتا بھی اس لئے نہیں کہ اس کی جائیداد سے فائدہ اٹھاتا رہے.یا عورت بے چاری کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ بستر مرگ پہ پہنچ گئی ہے اور کوشش ہو کہ اس کے مرنے کے بعد پھر اس کی جائیداد سے فائدہ اٹھائے.بسا اوقات عورت کو بد نام کر کے ایسی جھوٹی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں اور اس کے حق سے محروم کرنے والی وہ باتیں قضا میں بھی اور عدالتوں میں بھی بیان کی جاتی ہیں.یا بعض دفعہ ان ملکوں میں یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت کی کچھ جائیداد یا نصف جائیداد عدالتوں میں جا کر ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو مکمل طور پر ناجائز قرار دیتا ہے.پھر یہ بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ رشتہ دار بیوہ کو اس لئے شادی نہیں کرنے دیتے کہ اس عورت کے خاوند کی جائیداد پر ان کا تصرف رہے اور قبضہ رہے.173

Page 174

عائلی مسائل اور ان کا حل یہ واقعات آج کل بھی ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں.بہت ساری شکایتیں آتی ہیں.یہ ایسے واقعات ہیں جن کو پندرہ سو سال قبل قرآن کریم نے بیان فرما کر ان سے بچنے کی طرف مردوں کو توجہ دلا دی تاکہ عورت کے حق قائم رہیں.پھر بعض دفعہ رشتہ دار عورت کو اس کی مرضی کے خلاف اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی کر لے جو ان کے عزیزوں میں سے ہے تاکہ فوت شدہ خاوند کی جو جائیداد ہے وہ باہر نہ جائے.خاوند بعض دفعہ غلط طریقے سے عورت کی جائیداد ہتھیا لیتے ہیں.جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے ان ملکوں میں قانونی کارروائیاں کر کے جو ہوتا ہے.خاوند کے رشتہ دار اس کے مرنے کے بعد بھی کرتے ہیں.اگر خاوند نہیں کر رہا تو خاوند کے رشتہ دار کرنا شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تمام صورتیں جو ہیں یہ منع ہیں اور عورت کو اس کے حق سے محروم کرنے والی بات ہے.عورت کو اس کی بیوگی یا طلاق کے بعد اپنی مرضی کی شادی کرنے کا بھی حق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے.لیکن عورت کا نکاح چونکہ بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا.اس لئے اگر ایسی رو کیں کھڑی ہو جائیں تو خلیفہ وقت کے پاس عورت درخواست کر سکتی ہے اور اگر عذر جائز ہو تو خلیفہ وقت ولی بن سکتا ہے یا ولی مقرر کر سکتا ہے یا وکیل مقرر کر سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے اس آیت میں فرماتا ہے کہ: عَاشِرُوهُنَّ 174

Page 175

عائلی مسائل اور ان کا حل بِالْمَعْرُوفِ (النساء:20) ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.ظلم اور زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو.نہ ان کی جائیداد پر نظر رکھو.نہ ان کو جو تم دے چکے ہو اس پر نظر رکھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی سے نیک سلوک رکھے.پھر آپ ا ہم نے فرمایا: اپنی بیویوں سے سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والا میں ہوں“.(سنن ابی ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء حدیث 1977) تو دیکھیں مردوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُسوہ سے عورت کے حقوق قائم کرنے پر مزید توجہ دلوادی.یہاں اس آیت (النساء:20) میں جو یہ فرمایا ہے کہ سوائے اس کے کہ عور میں کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں، یہاں واضح ہو کہ اس کا تعلق بھی مال لینے سے نہیں ہے.یعنی یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی عورت، کسی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہو رہی ہے تو مرد اُن کے مال پر قبضہ کر لیں.بلکہ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے اس کا تعلق ہے یا حق دلانے کے ساتھ تعلق.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : نہ اِس وجہ سے (یعنی کھلی کھلی بے حیائی کی مر تکب ہوں) اسے اپنی چیز سے جو اس عورت کی ملکیت ہے محروم کرنے کی کوشش کرو اور نہ ہی اس کا جو حق تم پر بنتا ہے اُس سے اُسے محروم رکھنے کی کوشش کرو.ذرا ذراسی بات پر جو مرد عورت کو تنگ کرتے ہیں یا انہیں طلاق ہے.175

Page 176

عائلی مسائل اور ان کا حل دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی عورت کا حق محفوظ رکھتے ہوئے مرد کو نصیحت فرما دی ہے“.مزید فرمایا کہ: عورت کی غلطیوں اور کمزوریوں سے صرف نظر کرو اور صرف صرف نظر ہی نہیں بلکہ اس سے شفقت اور مہربانی کا سلوک کرو اور یہ شفقت اور پیار کا سلوک صرف کسی بات پر خوش ہو کر نہیں کرنا بلکہ اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تب بھی کرو.پس یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو اسلام نے عورت کا حق قائم کرتے ہوئے مقرر فرمایا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے، جس کے لئے اُسے سفر کرنا پڑا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہوئے جلد گھر واپس آجائے.( صحیح بخاری کتاب الجہاد و السير باب السرعة في السير حدیث 3001) اور ایک شادی شدہ مرد کے لئے قریبی رشتہ دار اس کے بیوی بچے ہیں.آج ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں بعض گھروں میں اکیلی بیٹھی رہتی ہیں.بیاہ کر نئی لڑکیاں یہاں آئی ہیں، ان ملکوں میں کوئی واقف نہیں ہے، گھر میں بند پڑی ہیں اور ان ملکوں کے موسم بھی ایسے ہیں اس لئے بعض دفعہ ڈیپریشن کا شکار بھی ہو جاتی ہیں اور مرد کام کے بعد اپنے دوستوں میں بیٹھے گپیں مارتے رہتے ہیں.تو یہ حق بھی عورت کا آنحضرت ا نے قائم فرمایا.مردوں کو 176

Page 177

عائلی مسائل اور ان کا حل نصیحت فرمائی کہ عورتوں کو ان کا حق دو.رشتہ داروں کو ان کا حق دو.بچوں کو ان کا حق دو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے اس حرکت کو ناپسند فرمایا ہے کہ بیٹھ کے پھر بعد میں کمپیں ماری جائیں اور عورت کو چھوڑ دیا جائے“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 26 جولائی 2008ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15 / اپریل 2011ء) مردوں کے رویے اور ان کو نصائح مردوں کے نامناسب رویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں: بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو.حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گر جنا، برسنا شروع کر دیا.تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنی سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے اور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی.تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت 177

Page 178

عائلی مسائل اور ان کا حل نہیں ہے.اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بد نام نہ کریں.گھر یلوزندگی کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ کی گواہی یہ ہے کہ نبی کریم مالی اعلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.نیز آپ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایانہ کبھی خادم کو مارا.خادم کو بھی کبھی کچھ نہیں کہا.(شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ) (خطبہ جمعہ فرمودہ 2/ جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ، مسی ساگا، کینیڈل مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2004ء) ہر فرد راعی ہے ایک معروف حدیث کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں گھر کے ہر فرد کے راعی ہونے سے متعلق اہم نصائح فرمائیں.چنانچہ مردوں کے گھر میں سر براہ ہونے کی حیثیت سے دیگر افراد خانہ کی نگرانی سے متعلق حضور انور نے ارشاد فرمایا: ”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا.امام نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا 178

Page 179

عائلی مسائل اور ان کا حل جائے گا اور مرد اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا.خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا.راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ : مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا اور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا“.( بخاری کتاب الجمعة - باب الجمعة في القرى والمدن) تو اس روایت میں مختلف طبقوں کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ماحول میں نگران ہیں لیکن اس وقت میں کیونکہ مردوں کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں.عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے.تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے ، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے 179

Page 180

عائلی مسائل اور ان کا حل بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں.انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں.بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں.پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کو مل سکتی ہے.کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سر براہ نہیں کہلا سکتا.اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو.یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں.تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے.مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنالیا ہے ، یہ روٹین بنالی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے ، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں 180

Page 181

عائلی مسائل اور ان کا حل کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے.اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے.بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو.جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے، عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: اے عبد اللہ ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یارسول اللہ.تو پھر آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو، رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو.کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے “.( بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے گھر والوں کے حقوق کس طرح ادا کیا کرتے تھے اس بارے میں حضرت اسوڈ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ : ”میں نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کیا کرتے تھے.آپ نے فرمایا وہ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے“.(صحیح بخاری کتاب الاذان ) 181

Page 182

عائلی مسائل اور ان کا حل تو آپ ایم سے زیادہ مصروف اور آپ ایم سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے.لیکن دیکھیں آپ اللہﷺ کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھریلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں.آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ : تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہت اچھار ہے.اور آپ الی دی ہم نے فرمایا کہ : میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں.(ترمذی کتاب المناقب) ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر ، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 2/ جولائی 2004ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈر مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی 2004ء) 182

Page 183

طلاق یا خلع عائلی مسائل اور ان کا حل اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اور عورت کی علیحدگی کو ناپسندیدہ لیکن مجبوری کی صورت میں جائز قرار دیا ہے.اس حوالہ سے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں مانتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2004 ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24/ اپریل 2015ء) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے علیحدگی کی صورت میں بعض اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خلع اور طلاقوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے.یہ خوفناک صورتحال ہے.یہ ایک جگہ قائم نہیں بلکہ میں نے جائزہ لیا ہے ہر سال خلع اور طلاقوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے.دونوں فریق کچھ سچ کچھ جھوٹ بول کر اپنا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آپس میں بعض غلط بیانیاں کر کے اپنا اعتماد ایک دوسرے کے لئے کھو دیتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا.یہ بات میرے لئے قابل فکر اس لئے ہے کہ خلع کی تعداد جماعت میں بہت بڑھ رہی 183

Page 184

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے اور خلع لڑکیوں کی طرف سے ، عورتوں کی طرف سے لیا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتا یا جرمنی میں بھی افسوسناک صورتحال ہے“.مزید فرمایا ”طلاق اور خلع اسلام میں گوجائز ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے اور مکروہ ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی کراھیۃ الطلاق حدیث 2178) پس ایک مومنہ اور مومن کی شان تو یہ ہے کہ اگر بامر مجبوری ایسی باتوں سے واسطہ پڑ بھی جائے تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے، خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے حق بات کہو.سچ کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو، کیونکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء) حضور انور نے طلاق یا خلع کی صورت میں پردہ پوشی کی نصیحت کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: اب میاں بیوی کے بہت سے جھگڑے ہیں جو جماعت میں آتے ہیں ، قضا میں آتے ہیں، ضلع کے یا طلاق کے جھگڑے ہوتے ہیں اور طلاق ناپسندیدہ فعل ہے.بہر حال اگر کسی وجہ سے مرد اور عورت میں نہیں بنی تو مرد کو حق ہے کہ وہ طلاق دے دے اور عورت کو حق ہے کہ وہ خلع لے لے اور بعض دفعہ بعض باتیں صلح کروانے والے کے سامنے بیان کرنی پڑتی ہیں.اس حد تک تو موٹی موٹی باتیں بیان کرنا جائز ہے لیکن بعض دفعہ ایسے 184

Page 185

عائلی مسائل اور ان کا حل ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے علاوہ دیگر رشتہ دار بھی شامل ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے پر ذاتی قسم کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں.جن کو سن کر بھی شرم آتی ہے.اب میاں بیوی کے تعلقات تو ایسے ہیں جن میں بعض پوشیدہ باتیں بھی ظاہر ہو جاتی ہیں.تو جھگڑا ہونے کے بعد ان کو باہر یا اپنے عزیزوں میں بیان کرنا صرف اس لئے کہ دوسرے فریق کو بد نام کیا جائے تا کہ اس کا دوسری جگہ رشتہ نہ ہو.تو فرمایا کہ اگر ایسی حرکتیں کرو گے تو یہ بہت بڑی بے حیائی اور خیانت شمار ہو گی اور خائن کے بارہ میں انذار آئے ہیں کہ ایک تو خائن مومن نہیں، مسلمان نہیں اور پھر جہنمی بھی ہے (خطبه جمعه فرمود 16 فروری 2004 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) (مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111.ایڈیشن 2005ء مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ) مطلقہ عورتوں کے حقوق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اسلام میں مطلقہ عورت کو دیئے گئے حقوق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارے میں ہے کہ اگر طلاق ہو جاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کر دہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے.دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک 185

Page 186

عائلی مسائل اور ان کا حل نہ بنو.بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے.لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوند کو بتا دو، چھپانا نہیں چاہئے.اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پید اہونے والا ہے.اللہ فرماتا ہے کہ تمہارے بتانے سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے.فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں.دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں.بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے ہیں.وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضامند بھی ہے تو قریبی شور مچا دیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہو گئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے.انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں.کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں.حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں.بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اناؤں نے یہ مسئلہ بنالیا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رشتہ داروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے.اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے 186

Page 187

عائلی مسائل اور ان کا حل تو پھر جھوٹی غیر توں کے نام پر لڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مر دوں کا عورتوں پر.یہ آیت تو میں نے پڑھی تھی.اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتا ہوں.فرمایا کہ: اور مطلقہ عورتوں کو تین حیض تک اپنے آپ کو روکنا ہو گا اور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کر دی ہے اور اس صورت میں ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مر دوں کا ان پر ہے حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اور حکمت والا ہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 16 / نومبر 2007ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 107 دسمبر 2007ء) فرمایا: پھر بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے اور مردوں کو یہ بھی حکم ہے کہ اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے عورتوں کے ساتھ زیادتی نہ کرو.اگر اس طرح زیادتی کرو گے تو یہ ظلم ہو گا اور پھر ظلم کی 187

Page 188

عائلی مسائل اور ان کا حل سزا بھی تمہیں ملے گی.ایک دوسری آیت: وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: 228) کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے: اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں سو یاد رکھیں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے.یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بد دعا کرے تو خدا اس کی بد دعاسن لے گا“.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃ البقرہ آیت 822) تو یہاں تک مردوں کو ڈرایا ہے.دیکھیں آپ کے حقوق قائم کرنے کے لئے کس طرح مردوں کو انذار ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ : یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات جن سے خداتعالی کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے“.(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 63-64 مطبوعہ لندن) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یعنی اگر یہ احساس ہو کہ ان حقوق کو جو اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق مقرر فرمائے ہیں ادانہ کر کے اللہ تعالیٰ مرد کو کتنی شدید پکڑ میں لا سکتا ہے تو فرمایا کہ اگر مردوں کو یہ علم ہو تو وہ شاید یہ بھی پسند نہ کریں کہ ایک شادی 188

Page 189

عائلی مسائل اور ان کا حل بھی کریں.ایک شادی بھی ان کے لئے مشکل ہو جائے چونکہ پتہ نہیں کس وجہ سے عورت کا کونسا حق ادانہ کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آجائیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے لیں“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2015ء) صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قابلِ تقلید نمونہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں عائلی مسائل کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور آپ کے اصحاب کے نمونہ کا ذکر فرمایا.حضور انور نے صحابہ میں ہونے والی پاکیزہ تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت چوہدری محمد اکبر صاحب روایت کرتے ہیں کہ : صحابی موصوف چوہدری نذر محمود صاحب تھے جو اصل متوطن اور حمہ ضلع شاہ پور تھے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے رشتہ داروں میں سے تھے وہ ڈیرہ غازیخان میں ملازم تھے.جہاں تک کہ اس عاجز کو یاد ہے وہ روایت کرتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پہلے ان کی حالت اچھی نہ تھی اور وہ اپنی اہلیہ کو پوچھتے تک نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک زمانے میں ہدایت بخشی اور شناخت حق کی توفیق دی جس کے بعد ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شوق ہو ا چنانچہ وہ قادیان 189

Page 190

عائلی مسائل اور ان کا حل دارالامان گئے مگر وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ حضور کسی مقدمے کی وجہ سے گورداسپور تشریف لائے ہوئے ہیں.چنانچہ وہ گورداسپور گئے اور ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت اور ملاقات کا موقع ملا جب حضور بالکل اکیلے تھے اور چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.چنانچہ انہوں نے حضور کو دبانا شروع کر دیا اور دعا کی درخواست کی.اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی ملاقات کے لئے آیا جنہوں نے حضور کے سامنے ذکر کیا کہ اس کے سسرال نے اپنی لڑکی بڑی مشکلوں سے اسے دی ہے ( یعنی واپس بھجوائی ہے)، اب اس نے بھی ارادہ کیا ہے کہ وہ اُن کی لڑکی کو ان کے پاس نہ بھیجے گا.(شاید آپس میں شادیاں ہوئی ہوں گی.جو نہی حضور نے اس کے ایسے کلمات سنے حضور کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضور نے غصے سے اس کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دور ہو جاؤ، ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آجاوے.چنانچہ وہ اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور عرض کی کہ وہ توبہ کرتا ہے، اسے معاف فرمایا جائے.جس پر حضور نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی.چوہدری نذر محمد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ جب یہ واقعہ انہوں نے دیکھا تو وہ دل میں سخت نادم ہوئے کہ اتنی سی بات پر حضور نے اتنا غصہ منایا ہے.حالانکہ اُن کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو پوچھتے تک نہیں اور اپنے سسرال کی پرواہ نہیں کرتے.یہ کتنا بڑا گناہ ہے.وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے تو بہ کی اور دل میں عہد کیا کہ اب جا کر اپنی بیوی سے معافی 190

Page 191

عائلی مسائل اور ان کا حل مانگوں گا اور آئندہ بھی اس سے بدسلو کی نہ کروں گا.چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ جب وہ وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے لئے بہت سے تحائف خریدے اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کے آگے تحائف رکھ کر پچھلی بدسلوکی کی ان سے منت کر کے معافی مانگی.وہ حیران ہو گئی کہ ایسی تبدیلی ان میں کس طرح پیدا ہو گئی.جب اس کو معلوم ہوا یہ سب کچھ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے طفیل ہے تو وہ حضور کو بے شمار دعائیں دینے لگی کہ حضور نے اس کی تلخ زندگی کو راحت بھری زندگی سے مبدل کر دیا ہے“.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ 6-7) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اصل میں تو یہ عورت کا وہ حق ہے جو آنحضرت نے قائم فرمایا تھا لیکن مسلمان اس کو بھول چکے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوبارہ اسے قائم فرمایا.پس سب سے زیادہ اسلام میں عورت کا مقام ہے جس کی قدر کی گئی ہے“.(خطبہ جمعہ 13 جنوری 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 103 فروری 2006ء) ایک اور موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : وو ” دیکھیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ بنیں.ان صحابی نے فوراً توبہ کی اور نمونہ بننے کی کوشش کی.آج آپ میں سے اکثریت بھی جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے یا کم از کم کافی تعداد میں یہاں لوگ 191

Page 192

عائلی مسائل اور ان کا حل ایسے ہیں جو ان صحابہ کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے بیعت کے بعد نمونہ بننے کی کوشش کی اور بنے.آپ بھی اگر اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ نیکیاں اختیار کریں.آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں.اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں اور جو لڑکی والے ہیں زیادتی کرنے والے، وہ عہد کریں کہ لڑکوں کے قصور معاف کرنے ہیں.تو ان جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف خاندانوں میں، معاشرے میں جو تلخیاں ہیں ہو سکتی ہیں.اگر ایسی چیزیں ختم کر دیں اگر ان عائلی جھگڑوں میں، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں“.وہ دور ہو (خطبہ جمعہ 24 جون 2005ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر کینیڈا مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 8 جولائی 2005ء) جلسہ سالانہ سپین 2010ء کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور لم کی احادیث کے حوالہ سے احباب جماعت کو عورتوں سے حسن سلوک کرنے کی نصائح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: گھر یلو تعلقات کے بارہ میں آپ ﷺ کی نصیحت احادیث میں آتی.ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت 192

Page 193

عائلی مسائل اور ان کا حل پسلی سے پیدا کی گئی ہے ( یعنی اس میں پسلی کی طرح کا طبعی ٹیڑھا پن ہے).پسلی کے اوپر کے حصہ میں زیادہ کجی ہوتی ہے.اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے.اگر تم اسے اس کے حال پر ہی رہنے دو گے تو اس کا جو فائدہ ہے وہ تمہیں حاصل ہو تا رہے گا.پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو اور اس بارے میں میری نصیحت مانو.( صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصیۃ بالنساء حدیث 5186) پھر ایک روایت ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے.اگر اس کی ایک بات اسے ناپسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ ہو سکتی ہے.(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیة بالنساء حديث 3648) یعنی اگر اس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہیں تو کچھ اچھی بھی ہوں گی.ہمیشہ اچھی باتوں پر تمہاری نظر رہے.( صحیح بخاری کتاب النکاح باب المر أة راعية في بيت زوجهاحدیث 5200) دونوں طرف سے یہ سلوک ہو گا تو تبھی گھر کا امن اور سکون قائم رہ آنحضرت ا نے تو عورتوں کے حق اس طرح قائم فرمائے کہ ایک دفعہ آنحضرت ام کے علم میں یہ بات آئی کہ صحابہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں.آپ ﷺ نے فرمایا : عور تیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں“.آپ ایم نے فرمایا: اسے تھپڑ نہ مارو ، گالیاں نہ دو، گھر سے نہ نکالو.پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سکتا.193

Page 194

عائلی مسائل اور ان کا حل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :اے اللہ کے رسول! بیوی کا حق خاوند پر کیا ہے ؟ آپ الام نے فرمایا جو تو کھاتا ہے، اس کو بھی کھلا.جو تو پہنتا ہے اس کو بھی پہنا.اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اس کو بد صورت بنا.اس کی کسی غلطی کی وجہ سے سبق سکھانے کے لئے اگر تجھے اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کر.یعنی گھر سے اُسے نہ نکال.(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأة على زوجها حديث 2142) (خطاب مؤرخہ 3 اپریل 2010ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سپین) حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ یو کے 2004ء کے موقعہ پر اسی حوالہ سے ارشاد فرماتے ہیں: یعنی اگر سختی کرنی پڑے تو اصلاح کی غرض سے سختی ہونی چاہئے ، نہ کہ بدلے لینے کے لئے غصے اور طیش میں آکر اور پھر ان کے جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے ظاہری جذبات کا بھی خیال رکھو.ان کی ظاہری ضروریات کا بھی خیال رکھو“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 24 اپریل 2015ء) حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مستورات سے اپنے ایک خطاب میں مردوں کو اُن کی معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ 194

Page 195

عائلی مسائل اور ان کا حل إنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.(الحشر :19) (1 کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کا زیادہ تر دارو مدار اس قوم کی عورتوں کے اعلیٰ معیار میں ہے اس لئے اسلام نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے.بیوی کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے اور ماں کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے.مرد کو عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:20) کہہ کر یہ ہدایت فرما دی کہ عورت کا ایک مقام ہے.بلاوجہ بہانے بنا بنا کر اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کرو.یہ عورت ہی ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چل رہی ہے اور کیونکہ ہر انسان کو بعض حالات کا علم نہیں ہوتا اور مرد اس کم علمی کی وجہ سے عورتوں پر بعض دفعہ زیادتی کر جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اپنی اس کم علمی اور بات کی گہرائی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے تم ان عورتوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرو، انہیں پسند نہ کرو لیکن یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ جس کو ہر چیز کا علم ہے، جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ،اس نے اس میں تمہارے لئے بہتری کا سامان رکھ دیا ہے.اس لئے عورت کے بارے میں کسی بھی فیصلے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے.(21اگست 2004ء بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی، خطاب از مستورات) عورت کے جذبات کا احساس مردوں کو عورتوں کے جذبات کا خیال رکھنے کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی خطاب میں فرمایا: 195

Page 196

عائلی مسائل اور ان کا حل ” اسی طرح ماں کی حیثیت سے عورت کا یہ مقام بتایا کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے.یعنی عورت کی تربیت ہی ایسی ہے جو بچوں کو جنتوں کا وارث بنا سکتی ہے.پھر مردوں کو یہ بھی فرمایا کہ عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھا کرو جیسے فرمایا: وَاللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا (النحل: 73) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہارے جیسے جذبات رکھنے والی بیویاں بنائی ہیں.یعنی مردوں کو یہ تلقین فرما دی کہ بلاوجہ ذرا ذرا سی بات پر عورتوں سے بد کلامی یا تلخی کا سلوک نہ کرو.وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی تمہارے جیسے جذبات ہیں.ان سے ہی تمہاری نسل چل رہی ہے.اگر ان کو بلاوجہ کے صدمات پہنچاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ تمہاری نسل ہی تمہارے خلاف ہو جائے.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کے ظلم کی وجہ سے، سختی کی وجہ سے جبکہ عورت فرمانبرداری دکھانے والی بھی ہو اور اطاعت گزار بھی ہو ، مرد کا کہنا ماننے والی بھی ہو ، اس کے گھر کی حفاظت بھی کرنے والی ہو ، اس کے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والی بھی ہو اگر پھر بھی مرد اس پر زیادتی کرتا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہو گی.پھر چونکہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو عورت کے تقویٰ پر قائم رہنے کی دلیل ہیں تو مرد کے بے جا ظلم کی وجہ سے بعض دفعہ اولاد اپنے باپ کے خلاف ہو جاتی ہے تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق و جذبات کا خیال رکھا ہے.فرمایا اس لئے اپنے اوپر کنٹرول رکھو اور اس طرح تم نہ صرف عورت کے جذبات 196

Page 197

عائلی مسائل اور ان کا حل کا خیال رکھ رہے ہو گے بلکہ اپنے اور اپنی اولاد کا بھی بھلا کر رہے ہو گے.جیسے کہ میں نے کہا، بعض دفعہ اولاد صرف اس لئے بگڑ جاتی ہے ، باپ کی نافرمان ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک نہیں کرتے“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 21 / اگست 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2015ء) اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر حضور فرماتے ہیں: پس دیکھیں کس کس طرح مردوں کو نصیحت کر کے آپ نے عورت کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے.جیسا کہ میں نے کہا اب عورت کا، ایک احمدی عورت کا فرض بنتا ہے کہ ان حقوق کے قائم ہونے کی شکر گزاری کے طور پر اپنے فرائض پورے کرے“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 26 جولائی 2008ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15 / اپریل 2011ء) 197

Page 198

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے.جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانو گی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھو گی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہو سکتا“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 29 جولائی 2006 ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 26 جون 2015ء) 198

Page 199

عائلی مسائل اور ان کا حل احمدی عورت کا اہم کردار اور اس کی ذمہ داریاں معاشرے میں عورت کا کردار حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ گھانا کے جلسہ سالانہ 2004ء کے خطاب میں خاص طور خواتین سے بھی چند منٹ کے لئے خطاب فرمایا.حضور انور نے فرمایا: ”خواتین کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے.ایک عورت کا بنیادی کردار اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ ایک بیوی اور ایک ماں کی حیثیت سے عمل کر رہی ہوتی ہے یا مستقبل کی ماں کی حیثیت سے اگر ابھی شادی نہیں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو.اگر عور تیں اس بات کو سمجھ لیں اور خدا کا خوف کرنے لگیں اور تقویٰ کی راہوں پر چلیں تو وہ اس قابل ہو جائیں گی کہ ایک انقلاب معاشرے میں پیدا کر دیں.ایک عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور جب خاوند گھر پر نہ ہو تو وہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت پر زیادہ توجہ دے“.پھر فرمایا: ”پس اے احمدی عور تو ! تم اپنے اس اعلیٰ مقام کو پہچانو اور اپنی 199

Page 200

عائلی مسائل اور ان کا حل نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرو اور اس طرح سے اپنی آئندہ نسلوں کے بچاؤ کی ضمانت بن جاؤ.اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اس کے احکام کو وقعت نہیں دیتے.اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں.آمین“.(جلسہ سالانہ گھانا 2004 ء.الازھار لذوَاتِ الخمار.اوڑھنی والیوں کیلئے پھول“ جلد سوم حصہ اول) 2004 ء میں نائیجیریا میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: عور تیں یاد رکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے.اگر انہوں نے اپنے اس بلند مقام کو نہ پہچانا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی.خواتین اپنے اس مقام کو پہچانیں جو اُن کا معاشرے میں ہے.نہیں تو وہ اپنے خاوندوں اور آئندہ نسلوں کی نافرمان اور اُن کا حق ادا نہ کرنے والی سمجھی جائیں گی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے پیدا کرنے والے سے بے وفائی کر رہی ہوں گی.پس یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر احمدی عورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتی رہے اور ہمیشہ یہ دعا کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی کرے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق پرورش کر سکے.200

Page 201

عائلی مسائل اور ان کا حل حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت جو اپنی پانچ وقت نمازوں کی پابندی کرتی ہے اور جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو اخلاقی برائیوں سے بچایا اور اپنے خاوند کی اخلاص اور وفا سے خدمت کی.ایسی عورت کا حق ہے کہ وہ جنت میں کسی بھی دروازے سے داخل ہو جائے.میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور اپنے بچوں کے فرائض کا حق ادا کرنے والی ہو.اللہ کرے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرے اور ان کی پاک اور با اخلاق ماحول میں پرورش کرے اور اس وجہ سے جنتوں کی وارث بنے“.(جلسہ سالانہ نائجیریا 2004 ءعہ الازھار لذوات الخمار.” اوڑھنی والیوں کیلئے پھول“ جلد سوم حصہ اول) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے 2006ء کے موقع پر احمدی مسلمان عورتوں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: عورت کو ہمارے دین نے گھر کا نگران اور خاوند کے گھر کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی ہے.جب تک تم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانو گی اور اپنی ذمہ داری نہیں سمجھو گی تمہارے ہاں سکون نہیں پیدا ہو سکتا“.مزید فرمایا: آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس برتری 201

Page 202

عائلی مسائل اور ان کا حل کی سوچ پیدا کریں.اپنی تعلیم کو کامل اور مکمل سمجھیں.قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں اس پر کار بند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالی دنیا کی رہنما کا کردار ادا کریں گی.ورنہ اگر صرف اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتی رہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسی قومیں عطا فرمائے گا جو اس کام کو آگے بڑھائیں گی.لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ان پرانی نسلوں اور پرانے خاندانوں ان احمدی عورتوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا جو مشکل وقت میں جن کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی.پس آپ لوگ اپنے اندر یہ احساس ذمہ داری بھی ختم نہیں ہونے دیں گی.انشاء اللہ تعالی.اللہ کبھی آپ کو توفیق دے.پس اس نعمت عظمی کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تا کہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 29 جولائی 2006ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 26 جون 2015ء) بچوں کو بدظنیوں اور کدورتوں سے بچائیں 27 اگست 2005ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر خواتین سے خطاب 202

Page 203

عائلی مسائل اور ان کا حل میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: وو ایک عورت کیونکہ ایک بیوی بھی ہے، ایک ماں بھی ہے.اس وجہ سے اپنے خاوند کے لئے بھی مسائل کھڑے کر رہی ہوتی ہے، اپنے بچوں کی تربیت بھی خراب کر رہی ہوتی ہے.کیونکہ ان بدظنیوں کا پھر گھر میں ذکر چلتا رہتا ہے.بچوں کے کان میں یہ باتیں پڑتی رہتی ہیں وہ بھی ان باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، اثر لیتے ہیں.ان کی اٹھان بھی اس بد ظنی کے ماحول میں ہوتی ہے اور یوں بڑے ہو کر وہ بھی اس وجہ سے اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو ایسی مائیں اس قسم کی باتیں بچوں کے سامنے کر کے جس میں فساد کا خطرہ ہو جو ایک دوسرے کے متعلق دلوں میں رنجشیں پیدا کرنے والی ہو ، جو بدظنیوں میں مبتلا کرنے والی ہو ، جن سے کدورتیں پیدا ہونے کا خطرہ ہو، جہاں اپنے بچوں کو برباد کر رہی ہوتی ہیں وہاں جماعت کی امانتوں کے ساتھ بھی خیانت کر رہی ہوتی ہیں“.(مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 25 ستمبر 2015ء) عورت بحیثیت بیوی اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ہر شخص کے نگر ان ہونے کے نتیجہ میں اُس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو بیان فرمایا.203

Page 204

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور نے فرمایا: پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے.اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو.خاوند کا مال صحیح خرچ ہو.بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پر ہیز کریں.بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو.اپنی ذمہ داری کا احساس ہو.پڑھائی کا احساس ہو.اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تا کہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں (کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں) اپنی ذمہ داریاں صحیح ادا نہیں کر رہی اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گا تو یہ تو معمولی بات ہے.یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے.اللہ ہر ایک پہ رحم فرمائے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 6 اپریل 2007ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27 / اپریل 2007ء) عورت بحیثیت ماں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک احمدی 204

Page 205

عائلی مسائل اور ان کا حل مسلمان عورت کی عائلی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ”ایک عورت ماں کے ناطے بچوں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے، اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے.بچپن میں بچے باپ کی نسبت ماں سے زیادہ attach ہوتے ہیں.تو اگر ابتدا سے ہی اپنے عمل سے اور اپنی باتوں سے بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دیں ، بٹھا دیں تو نسلاً بعد نسل عبادت گزار پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور نتیجتا احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والوں کی ایک کے بعد دوسری فوج تیار ہوتی چلی جائے گی.لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں اچھے حالات کی وجہ سے پہلے کے گزارے ہوئے تنگی کے دنوں کو زیادہ جلدی بھول جاتی ہیں اور یہ عورت کی فطرت ہے اور اس کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں.لیکن ایک احمدی عورت کو چاہئے کہ اپنی ترجیحات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں.اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.آپ ہم نے فرمایا: وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے.پس اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں.بجائے اس کے آپ کے خاوند آپ کو 205

Page 206

عائلی مسائل اور ان کا حل عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوں کے لئے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں“.پھر فرمایا: ”عورت پر اپنے بچوں کے نگران ہونے کی وجہ سے ان کے جگانے کی ذمہ داری بھی ہے اور نمازوں کے لئے ان کو توجہ دلانے کی ذمہ داری بھی ہے.پس جس گھر میں عورتیں عبادت کے لئے اپنی راتوں کو زندہ کرنے والی ہوں گی اور اپنے مردوں اور بچوں کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہوں گی وہ گھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے“.(خطاب از مستورات جلسه سالانہ آسٹریلیا 15 اپریل 2006ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 12 جون 2015ء) 17 ستمبر 2005ء کو جلسہ سالانہ سویڈن کے موقع پر مستورات سے اپنے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مختلف امور سے متعلق احمدی خواتین کی رہنمائی فرمائی اور خاوندوں کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: وو اللہ تعالیٰ کے رسول لم نے فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے.خاوند کی جو اولا جو اولاد ہے اُس کی وہ نگران ہے.اس لئے ماؤں کو، عورتوں کو بہر حال بچوں کی خاطر قربانی دینی چاہئے ، گھر میں رہنا چاہئے.جب بچے سکول سے آئیں تو ان کو ایک پرسکون محبت والا ماحول میسر آنا چاہئے.جائزہ لے لیں اس ماحول میں اکثر بچے اس لئے بگڑ رہے ہیں کہ وہ ماں باپ کے پیار سے 206

Page 207

عائلی مسائل اور ان کا حل محروم ہوتے ہیں.ماں باپ کے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور وہ ان کو ملتا نہیں.ان کو توجہ چاہئے اور جو توجہ وہ چاہتے ہیں وہ ماں باپ ان کو دیتے نہیں اور ماں باپ جو ہیں وہ پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اپنی دلچسپیوں میں مصروف ہیں“.پھر فرمایا: ”پھر اب بعض دفعہ رشتے کرنے کے معاملات آجاتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایسی جگہ رشتہ نہ کریں جہاں دین نہ ہو اور صرف دنیاوی روپیہ پیسہ نظر آرہا ہو.اس کو دیکھ کر رشتہ کر رہے ہو کہ ہماری بیٹی کے حالات اچھے ہو جائیں گے یا ہمارا بیٹا کاروبار میں ترقی کرے گا تو یہ چیزیں بیشک دیکھیں لیکن ایسے خاندان کا جہاں رشتے کر رہے ہیں یا ایسے لڑکے یا لڑکی کا جہاں رشتہ کر رہے ہیں دین بھی دیکھیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ رشتہ کرتے وقت سب سے اہم چیز دین ہے جو تمہیں دیکھنا چاہئے.بعض کہتے ہیں ہم نے اس خاندان کو دیکھا ہے.بڑا نیک خاندان تھا یہ تھا وہ تھا اور اس کے باوجود ایسے حالات ہو گئے.تو آج کل تو لڑکے کی اپنی دینی حالت کو بھی دیکھنا چاہئے.ہر جگہ حالات ایک جیسے ہیں.دنیا اتنازیادہ دنیا داری میں پڑ چکی ہے کہ جب تک خود لڑکے کی تسلی نہ ہو جائے، کسی قسم کے رشتے نہیں کرنے چاہئیں کہ صرف پیسہ ہے اس کو دیکھ کر رشتہ کر لیا.ایسے بہت سارے رشتے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں.لیکن اگر صرف دنیا دیکھیں گے تو یہ بچیوں کو دین سے 207

Page 208

عائلی مسائل اور ان کا حل دور کرنے والی بات ہو گی.کئی ایسی بچیاں ہیں جو ایسے رشتوں کی وجہ سے جماعت سے تو کٹی ہیں، اپنے گھر والوں سے بھی کٹ گئی ہیں.ان سے بھی وہ ملنے نہیں دیتے.پس صرف روپیہ پیسہ دیکھ کر رشتے نہیں کرنے چاہئیں.اللہ سے دعا کر کے ہمیشہ رشتے ہونے چاہئیں اور اسی طرح اور بھی قتل اولاد کی بہت ساری مثالیں ہیں.جہاں جہاں تربیت میں کمی ہے وہ قتل اولاد ہی ہے.پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہئے.عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے.مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں.کرنی ہیں تو بعد میں کریں.بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی ، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں.تو بہر حال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے.عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے.جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے“.(مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15 مئی 2015ء) 208

Page 209

عائلی مسائل اور ان کا حل حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء کے موقع پر عورت کے مقام کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کے بچوں کو اس دنیا میں بھی جنت کا وارث بنا سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی.بچوں کے یہ عمل اور آپ کے بچوں کی یہ اعلیٰ تربیت ہی ہے جو ہر وقت بچوں کو خدا سے جوڑے رکھے گی اور بچوں کو بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی عادت پڑے گی.تو بچوں کی جو آپ کے لئے دعائیں ہیں وہ آپ کو بھی اگلے جہان میں جنت کے اعلیٰ درجوں تک لے جانے کا باعث بن رہی ہوں گی.پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں.آج اگر آپ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو.آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی.پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں.قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں.تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہمیشہ نیکیاں بجالانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں.برائیوں کو ترک کرنے والی بہنیں اور پھر اپنے ماحول 209

Page 210

عائلی مسائل اور ان کا حل میں برائیوں کو روکنے والی بنیں.معاشرے میں بھی برائیاں پھیلنے نہ دیں.آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں.اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں.اگر آپ کے دل میں بغض و کینہ پلتے رہے تو پھر خدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اترتا.ایسے دلوں کی عبادت کے معیار وہ نہیں ہوتے جو خد اتعالیٰ چاہتا ہے".(جلسہ سالانہ آسٹریلیا 15 اپریل 2006ء خطاب از مستورات مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 12 جون 2015ء) آگے چل کر فرمایا ” پھر چھوٹے بچوں سے شفقت کا سلوک کرنا چاہئے.جیسا کہ ایک حدیث میں عورت کی جو خصوصیات بیان کی گئیں ہیں ان میں آیا ہے کہ بچوں سے شفقت کرتی ہیں اور خاوندوں کی فرمانبر دار ہیں تا کہ اُن کی تربیت بھی اچھی ہو ، اُن کی اُٹھان اچھی ہو اور وہ معاشرے کا مفید وجو د بن سکیں“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 23 / اگست 2003ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2005ء) نیز فرمایا: ”بچوں کی حفاظت اور تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری عورت پر ہے.پس ہر احمدی عورت کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے“.(جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات 25 / جون 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 / اپریل 2012ء) عورت بحیثیت گھر کی نگران حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 210

Page 211

عائلی مسائل اور ان کا حل کے موقعہ پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے.اس کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی، ٹکاؤ ، گھر کا حساب کتاب چلانا، خاوند جتنی رقم گھر کے خرچ کے لئے دیتا ہے اُسی میں گھر چلانے کی کوشش کرنا، پھر بعض سگھڑ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو تھوڑی رقم میں بھی ایسی عمدگی سے گھر چلارہی ہوتی ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی تھوڑی رقم میں اس عمدگی سے گھر چلارہی ہیں اور اگر معمول سے بڑھ کر رقم ملے تو پس انداز بھی کر لیتی ہیں، بچا بھی لیتی ہیں اور اس سے گھر کے لئے کوئی خوبصورت چیز بھی خرید لیتی ہیں یا پھر بچیوں کے جہیز کے لئے کوئی چیز بنالی.تو ایسی مائیں جب بچوں کی شادی کرتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تھوڑی آمدنی والی نے ایسا اچھا جہیز کس طرح اپنی بچیوں کو دے دیا.اس کے مقابل پر بعض ایسی ہیں جن کے ہاتھوں میں لگتا ہے کہ سوراخ جتنی مرضی رقم ان کے ہاتھوں میں رکھتے چلے جاؤ، پتہ ہی نہیں چلتا کہ جیسے کہاں گئے.اچھی بھلی آمدنی ہوتی ہے اور گھروں میں ویرانی کی حالت نظر آرہی ہوتی ہے.بچوں کے حلیے ، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے لگتا ہے کہ جیسے کسی فقیر کے بچے ہیں.ایسی ماؤں کے بچے پھر احساس کمتری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور پھر بڑھتے بڑھتے ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جب وہ بالکل ہی ہاتھوں سے نکل جائیں اور اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.ہیں.211

Page 212

عائلی مسائل اور ان کا حل پس اللہ کے رسول نے آپ کو متنبہ کر دیا ہے، وار ننگ دے دی ہے کہ اگر تم اپنے خاوندوں کے گھروں کی صحیح رنگ میں نگرانی نہیں کرو گی تو تمہیں پو چھا جائے گا، تمہاری جواب طلبی ہو گی اور جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے اس کے نتائج پھر اس دنیا میں بھی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں.اس لئے اب تمہارے لئے خوف کا مقام ہے.ہر عورت کو اپنے گھر کی طرف توجہ دینی اہئے اور جب آپ اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگرانی کے اعلیٰ معیار قائم کریں گی ، بچوں کا خیال رکھیں گی، خاوند کی ضروریات کا خیال رکھیں گی اور ان کا کہنا ماننے والی ہوں گی تو ایسی عورتوں کو اللہ کا رسول اتنا ہی ثواب کا حق دار قرار دے رہا ہے جتنا کہ عبادت گزار مرد اور اس کی راہ میں قربانی کرنے والے مرد کو ثواب ملے گا اور پھر ساتھ ہی جنت کی بھی بشارت ہے.پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ :.”جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہنامانا، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے“.(مجمع الزوائد.کتاب النکاح.باب في حق الزوج على المرآة) (جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرموده 23/ اگست 2003ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 18 نومبر 2005ء) حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے 31 جولائی 2004ء کو 212

Page 213

جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: عائلی مسائل اور ان کا حل جو عور تیں اپنے گھروں کی حفاظت کرنے والیاں ہیں ، اپنے خاوندوں کی وفادار اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والیاں ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالٰی کے رسول م کیا فرماتے ہیں.اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے.اسماء بنت یزید انصاریہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضور الم کی خدمت میں حاضر ہوئیں.اس وقت آنحضور اللی علیم صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے.وہ کہنے لگیں: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں.میں آپ ایم کے مسلمان عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں.میری جان آپ ﷺ پر فدا ہو.شرق و غرب کی تمام عورتیں میری اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے لئے بھیجا ہے.ہم آپ ا تم پر ایمان لائیں اور اس خدا پر بھی جس نے آپ ہم کو معبوث فرمایا.ہم عورتیں گھر میں ہی قید اور محصور ہو کر رہ گئی ہیں.ہم آپ مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں اور آپ کی اولاد سنبھالے پھر تی ہیں اور آپ مردوں کے گروہ کو جمعہ ، نماز باجماعت ، عیادت مریضان ، جنازوں پر جانا اور حج کے باعث ہم پر فضیلت حاصل ہے.اس سے بڑھ کر جہاد کرنا بھی ہے.آپ میں سے جب کوئی حج کرنے ، عمرہ کرنے، یا جہاد کرنے کے لئے چل پڑتا ہے تو ہم آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں.لباس کے لئے روئی کا تنتی اور آپ کی اولاد کو پالتی ہیں.تو یار سول اللہ پھر بھی ہم آپ 213

Page 214

عائلی مسائل اور ان کا حل کے ساتھ اجر میں برابر کی شریک نہیں ہیں.حضور ﷺ نے اپنا رخ مبارک صحابہ کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملہ میں اپنے مسئلہ کو اس عمدگی سے بیان کرنے میں اس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہمیں یہ ہر گز خیال نہ تھا کہ ایک عورت ایسی (گہری سوچ رکھتی ہے.آنحضور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ : اے عورت ! واپس جاؤ اور دوسری سب عورتوں کو بتا دو کہ کسی عورت کے لئے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے.وہ عورت واپس گئی اور خوشی سے لا إِلَهَ إِلَّا اللہ اور اللہ اکبر کے الفاظ بلند کرتی گئی.(تفسیر الدر المنثور) تو فرمایا: ” جو اس طرح تعاون کرنے والی اور گھروں کو چلانے والیاں ہیں اور اچھی بیویاں ہیں ان کا اجر بھی ان کے عبادت گزار خاوندوں اور اللہ کی خاطر جہاد کرنے والے خاوندوں کے برابر ہے.تو دیکھیں عورتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے کتنے عظیم اجروں کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دے رہا ہے، اللہ کار سول دے رہا ہے“.(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31 / جولائی 2004ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 124 اپریل 2015ء) ایک اور موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کے حوالہ سے عورتوں کو نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : فالصلحتُ قُنِتَت حَفِظتُ لِلْغَيْبِ بِمَا وو 214

Page 215

عائلی مسائل اور ان کا حل حفظ الله (النساء:35) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے.غیب میں بھی وہی نیکیوں پر قائم رہ سکتی ہے یارہ سکتا ہے، وہی شخص فرمانبر دار ہو سکتا ہے وہی عورت فرمانبر دار ہو سکتی ہے، وہی اپنے اور اپنے خاوندوں کے رازوں کی حفاظت کر سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہو ، اُس کا خوف ہو.اللہ تعالیٰ کی خشیت اُس کے دل میں ہو.غیب میں جن چیزوں کی حفاظت کا حکم ہے اُن میں اپنے خاوند کے بچوں کی تربیت کی نگرانی اور اُن کی دیکھ بھال بھی ہے.یہ نہیں کہ خاوند گھر سے باہر اپنے کام کیلئے نکلا تو عورت نے بھی اپنا بیگ اٹھایا اور بچوں کو گھر میں چھوڑا اور اپنی مجلسیں لگانے کیلئے نکل پڑیں.یا بچوں کی تربیت کی طرف صحیح توجہ نہیں دی.ایک بہت بڑی ذمہ داری عورت پر بچوں کی تربیت کی ہے.اس کو پورانہ کر کے وہ نہ صالحات میں شمار ہو سکتی ہیں نہ قانتات میں شمار ہو سکتی ہیں، نہ اُس نسل کی حفاظت کا حق ادا کر سکتی ہیں جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس کے بارے میں پوچھا جائے گا.( بخاری کتاب الاستقراض وادا الدین 133 باب العبد راع في مال سيد 1330 حدیث 2409) (جلسه سالانه جر منی خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 13 ر اپریل 2012ء) 215

Page 216

عائلی مسائل اور ان کا حل ام المومنین حضرت اماں جان کی نصائح حضور انور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے موقعہ پر عورتوں سے ام المومنین حضرت اناں جان کی نصائح کے حوالہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت میں ام المؤمنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی بعض نصائح بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آپ نے اپنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی بیٹی حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی رخصتی کے وقت انہیں کی تھیں.اُن میں سے بعض باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا.آپ نے فرمایا کہ : اپنے خاوند سے چھپ کر یا وہ کام جسے خاوند سے چھپانے کی ضرورت سمجھو، ہر گز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر کار ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کھو دیتی ہے.اس کی عزت اور احترام نہیں رہتا.فرمایا اگر کوئی کام خاوند کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا.صاف کہہ دینا کیونکہ اسی میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہوتا ہے.عورت کا و قار گر جاتا ہے.پھر فرمایا کہ : کبھی خاوند کے غصے کے وقت نہ بولنا.اگر بچہ یا کسی نوکر پر خفا ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ خاوند حق پر نہیں ہے، خاوند غصے کی حالت میں 216

Page 217

عائلی مسائل اور ان کا حل ہے، کسی بچے کو ڈانٹ رہا ہے یا کسی اور کو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہیں صاف نظر آرہا ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تب بھی اُس کے سامنے اُس وقت نہ بولو.فرمایا کہ: غصے میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت نہیں رہتی.اکثر جھگڑے اسی لئے بے صبری کی وجہ سے ہو رہے ہوتے ہیں کہ فور ارڈ عمل دکھاتی ہیں اور جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں.فرمایا کہ اگر غصے میں اس ٹوکنے کی وجہ سے تمہیں بھی کچھ کہہ دے تو تمہاری بڑی بے عزتی ہو جائے گی.بعد میں جب خاوند کا غصہ ٹھنڈ ا ہو جائے تو بے شک آرام سے اُس کی غلطی کی نشاندہی کر دینی چاہئے.اصلاح بھی فرض ہے.مرد اور عورتوں کو یہ نسخہ بھی یاد رکھنا چاہئے جس کا حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ غصے کی حالت میں کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ یا وضو کرو تو غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے.میرے پاس جو بعض شکایات آتی ہیں تو میں مردوں کو یہی کہا کرتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں تو پانی کی کوئی کمی نہیں.تم اپنے شاور یا پانی کی ٹوٹی کھولا کرو اور اُس میں سر نیچے رکھ دیا کرو تو غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا.بہر حال حضرت اماں جان پھر اپنی بیٹی کو یہ نصیحت فرماتی ہیں کہ : خاوند کے عزیزوں کو اور عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا.جیسا کہ حدیث میں بھی ذکر آگیا ہے.حضرت مسیح موعود کے حوالے سے بھی میں نے بات کی ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کو اپنا سمجھو.فرمایا کہ کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے تم سب کا بھلادل میں بھی چاہنا.تمہارے سے 217

Page 218

عائلی مسائل اور ان کا حل کوئی برائی کرتا ہے کرے لیکن تم اپنے دل میں کبھی کسی کی برائی کا خیال نہ ر عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ لینا.دیکھنا پھر خدا ہمیشہ تمہارا بھلا کرے گا.پھر آپ اکثر بچوں اور بچیوں کو یہ نصیحت بھی فرمایا کرتی تھیں کہ : اپنے نئے گھر میں جارہی ہو وہاں کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے تمہارے سسرال والوں کے دلوں میں نفرت اور میل پیدا ہو اور تمہاری اور تمہارے والدین کے لئے بدنامی کا باعث ہو.پس سسرال کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دینا چاہئے.جو اُن کے معاملے ہو رہے ہیں، ہونے دو.نہ ہی ساس کی اور نندوں کی باتیں خاوند سے شکوے کے رنگ میں کرنی چاہئیں.رض حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی تھیں جیسا کہ میں نے کہا انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی بھی ایک نصیحت بیان فرمائی ہے.جو حضرت خلیفہ اول اُن کو بھی کرتے تھے اور دوسری بچیوں کو بھی کیا کرتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ نصیحت اور اس پر جو عمل ہے پہلے سے زیادہ اہم ہے اور بارہ تیرہ سال کی جو بچیاں ہیں، جوانی کی عمر میں قدم رکھ رہی ہوتی ہیں، اُن کو ضرور یہ دعا کرنی چاہئے.حضرت خلیفہ اول نے آپ کو کئی مرتبہ فرمایا کہ : دیکھو اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی شرم نہیں، تم چھوٹی ضرور ہو مگر خدا سے دعا کرتی رہا کرو کہ اللہ مبارک اور نیک جوڑا دے“.(سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یو کے خطاب فرموده 4 / اکتوبر 2009ء - مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 18 دسمبر 2009ء) 218

Page 219

عائلی مسائل اور ان کا حل بیٹیاں آگ سے نجات کا ذریعہ بیٹیوں کی پیدائش پر پیدا ہونے والے بے جا عائلی مسائل کے ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”آج میں سب سے پہلے جو حدیث پیش کروں گا اس کا تعلق دشمنوں کے ساتھ نہیں بلکہ عائلی زندگی کے صبر کے ساتھ ہے کہ خاوند اور بیوی کو عائلی زندگی کس طرح گزارنی چاہئے.کئی عورتوں کے بھی خطوط آتے ہیں اور اگر ملاقات کا موقع مل جائے تو اس میں بھی شکایات کرتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں ہیں مثلاً اور بیٹا کوئی بھی نہیں جس کی وجہ سے خاوند اور سسرال مستقل طعنہ دیتے رہتے ہیں.گھریلو زندگی اجیرن ہوئی ہوئی ہے.یا بیٹیاں خود بھی لکھ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ کا ہمارے ساتھ بیٹی ہونے کی وجہ سے نیک سلوک نہیں ہے اور ہماری زندگی مستقل اذیت میں ہے.اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ایسی ہے جو لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.کیونکہ بہت سارے ایسے ہیں جو دینی علم رکھتے ہیں، جماعتی کام بھی کرنے والے ہیں لیکن پھر بھی گھروں میں ان کے سلوک اچھے نہیں ہوتے.اس حدیث کے سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان جس میں ہلکی سی بھی ایمان کی رمق ہو ، اپنی بیٹیوں کو بیوی یا بیٹیوں 219

Page 220

عائلی مسائل اور ان کا حل کے لئے طعنہ کا ذریعہ نہیں بنائے گا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو صرف بیٹیوں کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور آگ کے درمیان روک ہوں گی“.(سنن ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فی النفقيه على البنات والاخوات ) دنیا میں کون شخص ہے جس سے چھوٹی موٹی غلطیاں اور گناہ سرزد نہ ہوتے ہوں.کون شخص ہے جو اللہ تعالی کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا.یقینا ہر ایک اس پناہ کی خواہش رکھتا ہے.تو بیٹیوں والوں کو یہ خوشخبری ہے کہ مومن بیٹیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے گا.بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو حل کرنا اور اس معاشرے میں بھی ہمیں بیٹیوں کی وجہ سے بہت سارے مسائل نظر آتے ہیں ان کو برداشت کرنا اور کسی بھی طرح بیٹیوں پر یہ اظہار نہ ہونے دینا یاماؤں کو بیٹیوں کی وجہ سے نشانہ نہ بنانا، یہ ایک مومن کی نشانی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر یہ باتیں جو ہیں اس کے اور آگ کے درمیان روک بن جاتی ہیں“.(خطبہ جمعہ مؤرخہ 19 نومبر 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) فریقین کے دوستوں اور سہیلیوں کا کردار میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے اور عائلی مسائل میں فریقین کے دوست اور سہیلیاں بھی ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ 220

Page 221

عائلی مسائل اور ان کا حل بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں: ”میاں بیوی کے دوستوں اور سہیلیوں کی وجہ سے بعض مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں.تو ان دوستوں کے اپنے کردار ایسے ہوتے ہیں کہ آپس میں میاں بیوی کے تعلقات غیر محسوس طریقے سے وہ بگاڑ رہے ہوتے ہیں.تو یہ شیطان ہے جو غیر محسوس طریقوں پر ایسے گھروں کو اپنے راستوں پر چلانے کی کوشش کرتا ہے“.(خطبہ جمعہ 12 رد سمبر 2003ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 106 فروری 2004ء) اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سلیمان بن عمرو بن احوص اپنے والد عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ایک لمبی روایت کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا اس میں کچھ حصہ جو عورتوں سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ : سنو ! تمہارا تمہاری بیوی پر ایک حق ہے، اسی طرح تمہاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو اور نہ وہ ان لوگوں کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو ، اور تمہاری بیویوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان سے ان کے کھانے کے معاملے میں اور ان کے لباس کے معاملے میں احسان کا معاملہ کرو.(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرآة على زوجها) 221

Page 222

عائلی مسائل اور ان کا حل اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ گھر کے ماحول کو انصاف اور عدل کے مطابق چلانا ہے تو میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا ان کے حقوق کی حفاظت کرنی ہو گی، عورتوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے گھروں میں آنے والیاں عورتوں کی سہیلیاں ہی ہوتی ہیں ایسی نہ ہوں جن کو خاوند گھروں میں آنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دوستیاں بھی ان سے ناجائز یا جائز نہ بنائیں، اگر خاوند پسند نہیں کرتا کہ گھروں میں یہ لوگ آئیں تو نہ آئیں.ہو سکتا ہے کہ بعض گھروں کے معاملے میں خاوند کو علم ہو اس کی وجہ سے وہ پسند نہ کرتا ہو کہ ایسے لوگ گھروں میں آئیں.یہ باتیں ایسی ہی ہیں کہ خاوند کی خوشی اور رضامندی کی خاطر عورتوں کو بر اماننا بھی نہیں چاہئے اور جو خاوند کہتے ہیں مان لینا چاہئے.اس حدیث میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ خاوندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اہل و عیال کا جو حق ہے وہ ادا کریں، گھر کے اخراجات اور ان کے لباس وغیرہ کا خیال رکھیں“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 / مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 19 / مارچ 2004ء) 222

Page 223

عہدیداران کو نصائح عہدیداران کو نصیحت و تنبیہ عائلی مسائل اور ان کا حل حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عہدیداران کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے حوالہ سے ایک خطبہ جمعہ میں ضروری نصائح سے نوازا.حضور انور نے ارشاد فرمایا: اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.عہدیداروں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویوں کو بدلیں.اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں.یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری کارروائی کرنی پڑے.(خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر.ٹورانٹوں کینیڈا.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 8 جولائی 2005ء) اس سے اگلے خطبہ میں حضور انور نے سابقہ مضمون کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جیسا کہ میں پہلے عہدیداران سے بھی کہہ آیا ہوں کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں.لیکن فریقین سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی حسن ظنی رکھیں اور اگر فیصلے خلاف ہو جاتے ہیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں.اور جیسا کہ حدیث میں آیا ہے دوسرے فریق کو آگ 223

Page 224

عائلی مسائل اور ان کا حل کا گولہ پیٹ میں بھرنے دیں اور لڑائیوں کو طول دینے اور نظام جماعت سے متعلق جگہ جگہ باتیں کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو.اللہ تعالیٰ سب میں یہ حوصلہ پیدا فرمائے اور ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے.لیکن یہاں میں عہدیداران خاص طور پر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان مغربی ممالک میں جیسا کہ میں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجو د نظام جماعت بعض پابندیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا.کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود کے شرعی حقوق کی وجہ سے بعض حق دے دیتا ہے.اس لئے ایسے مرد جو ظلم کر کے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں.یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے.پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہے تو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے.پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے.یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کر لیں گے اور باہر نہ نکلیں.بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا 224

Page 225

عائلی مسائل اور ان کا حل جاسکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جاسکتا ہے.لیکن ابتدائی طور پر ضرور رپورٹ ہونی چاہئے.اور پھر جو لاوارث اور بے سہار اعور تیں ہیں، ان ملکوں میں آکر لاوارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے، مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے، ان کی رہائش کا بھی جماعت بندوبست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے (اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے).ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے.تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں.اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے اور نظام جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آرہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے جماعت کا فعال حصہ بننے کی توفیق دے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2005ء بمقام انٹر نیشنل سینٹر ٹورانٹو.کینیڈر مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 15 جولائی 2005ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو ایک اور خطبہ جمعہ میں یوں بیان فرمایا: بعض عہدیداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں 225

Page 226

عائلی مسائل اور ان کا حل سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپ کی طرف منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود، بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے گھر والوں پر ظلم روا ر کھے ہوئے ہیں.اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل ے.ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفہ وقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے.پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا.تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے ہمیں احکام قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے.سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2007ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 22 جون 2007ء) 11 جولائی 2012ء کو دورہ کینیڈا کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رشتہ ناطہ کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کے دوران بعض اہم ہدایات ارشاد فرمائیں.حضور انور نے فرمایا: وو یہاں کینیڈا، امریکہ اور مغربی ملکوں میں بعض لڑکے بعض نامناسب کاموں میں Involve ہو جاتے ہیں اور بعض نقائص ان میں پیدا ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ تربیت اور سمجھانے کے نتیجہ میں اصلاح ہو جاتی ہے اور بعض 226

Page 227

عائلی مسائل اور ان کا حل دفعہ نہیں ہوتی.اسی طرح بعض دفعہ بعض لڑکیوں میں بھی نقائص ہوتے ہیں.بہر حال جب رشتہ ہو رہا ہو تو یہ باتیں سامنے آنی چاہئیں اور دونوں کو تقویٰ کے ساتھ بتانی چاہئیں تا کہ بعد میں جھگڑے نہ ہوں.پھر حضور انور نے فرمایا: بعض خاندان ایسے ہیں جو شادی کے بعد لڑکی کو طعنہ دیتے ہیں کہ جہیز لے کر نہیں آئی، اولاد نہیں ہوتی، اس کی تو لڑکیاں ہوتی ہیں.اس طرح لڑکے والے لڑکی کو طعنے دیتے ہیں تو پھر علیحدگی ہو جاتی ہے.بعض دادیاں، نانیاں پاکستان سے دیہاتی ماحول سے آئی ہیں اور دیہاتی اثر ان پر غالب ہے اور ان کی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے بعض رشتے خراب ہو رہے ہیں“.لجنہ اماء اللہ کی ذمہ داریاں (مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 28 ستمبر 2012) 17 جون 2011ء کو دورہ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ اماء الله جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ میں بھی اہم ہدایات بیان فرمائیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک سروے آپ نے مجھے بھجوایا تھا اس کے مطابق لڑکیاں خُلع زیادہ لے رہی ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ لڑکیاں طلاقوں کی نسبت اتنی بے چین کیوں ہو گئی ہیں؟ کبھی جائزہ لیا ہے؟ مکرمہ صدر صاحبہ نے بتایا کہ جائزہ لیا ہے.پاکستان سے جو لڑکیاں آتی 227

Page 228

عائلی مسائل اور ان کا حل ہیں.فیملی ادھر سے رپورٹ نہیں لیتی یا یہاں کی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم الگ بھی ہو جائیں Financially کوئی پرابلم نہیں ہو گا.حضور انور نے فرمایا کہ: ” اُن کو آپ لوگ سنبھالیں.اُن کو سمجھائیں کہ اگر تم لوگ احمدی ہو تو کم از کم دنیاوی لالچوں کی خاطر اپنے گھروں کو برباد نہ کرو“.حضور انور نے خلع کی بڑھتی ہوئی تعداد پر فکر مندی کا اظہار فرمایا اور لجنہ کی عہدیداروں کو اس طرف خصوصی توجہ کرنے کی تاکید فرمائی.پریشانیوں کا حل : استغفار جون 2012ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ امریکہ کے دوران مسجد بیت الرحمن واشنگٹن میں طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی.جس میں طالبات نے حضور انور کی اجازت سے بعض سوالات بھی کئے.ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں جو بھی بے چینیاں اور پریشانیاں پیدا ہوں وہ استغفار کرنے اور لاحول وَلَا قُوَقَالًا بِاللهِ الْعَلِي الْعَظیم پڑھنے سے دور کی جاسکتی ہیں.(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل 17 / اگست 2012ء) 228

Page 229

ایک جامع پیغام عائلی مسائل اور ان کا حل جلسہ سالانہ برطانیہ 2011ء کے موقع پر 23/ جولائی کو سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین سے اپنے خطاب کے آغاز سے قبل جن آیات کریمہ کی تلاوت کرنے کا ارشاد فرمایا وہ خطبہ نکاح میں شامل وہی چار آیات ہیں جو اس کتاب کے آغاز میں مع ترجمہ شامل اشاعت کر دی گئی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ جامع خطاب ایسی نصائح سے لبریز ہے جنہیں ہم احمدی خواتین کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ آیات جو آپ کے سامنے ، اجلاس کے شروع میں تلاوت کی گئی تھیں یہ تین مختلف سورتوں کی آیات ہیں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں.عام طور پر مردوں کی زیادہ تعداد نکاح میں شامل ہوتی ہے، اُن کو تو ان آیات کا پتہ ہے.کم از کم یہ بات ہے کہ یہ آیات نکاح پر پڑھی جاتی ہیں.یہ میں نہیں کہہ رہا کہ اُن کو اس پر عمل کرنے کا بھی پتہ ہے.لیکن خواتین بہت کم نکاحوں میں شامل ہوتی ہیں اُن کے سامنے اس کا مضمون بیان کرنے کے لئے مختصراً میں نے آیات کا انتخاب کیا تھا.229

Page 230

عائلی مسائل اور ان کا حل ان آیات میں عورت اور مرد کے لئے نکاح اور شادی کے اہم بندھن کو نبھانے کے لئے بڑی اہم باتوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے.پہلی اہم بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تقویٰ ہے.ان آیات میں سے پہلی آیت سورۃ النساء کی ہے جیسا کہ آپ کو بتایا گیا.دوسری اور تیسری سورۃ احزاب کی آیات ہیں.چوتھی سورۃ الحشر کی آیت ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ سب سے پہلی بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تقویٰ ہے.پہلی آیت میں تقویٰ کا لفظ دو مر تبہ استعمال ہوا ہے.پھر دوسری آیت میں تقویٰ کا ذکر ہے.پھر چوتھی اور آخری آیت میں دو مر تبہ تقویٰ کا ذکر ہے.گویا کہ خطبہ نکاح میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے.اور ہر مرتبہ جب تقویٰ کا ذکر آیا ہے تو فرمایا: اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اپنے رب کا تقویٰ اختیار کر و اور ساتھ ہی اس کے بعد ایک نئی ہدایت فرمائی کہ اس لئے تقویٰ اختیار کرو کہ یہ عمل تمہارے ہوں، اس لئے کہ یہ عمل تم نے سر انجام دینے ہیں، اس لئے کہ یہ اعمال ہیں جو تمہارے لئے اس بندھن کو نبھانے کے لئے ضروری ہیں.کل میں نے تقویٰ کا ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں تقویٰ کا بہت اونچا معیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ یہ تقویٰ کی جڑ ہی ہے جو انسان اگر اپنے اندر قائم کر لے تو اُسے سب کچھ مل جائے گا.نہ یہ دنیا کی جاہ و حشمت، نہ یہ دنیا، نہ یہ دنیا کا علم، سب کچھ کوئی 230

Page 231

عائلی مسائل اور ان کا حل بھی چیز نہیں ہے.اگر ایک مومن اور مومنہ یہ سمجھتی ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے، یہ سمجھتا ہے کہ جو عہد میں دہر ا رہا ہوں وہ اس لئے ہے کہ یہ میرے دل کی آواز بن جائے اور اس پر عمل کرنے والا بنوں تو اُس کی بنیاد تقویٰ ہے.اس کے بغیر نہ عہد پورے ہو سکتے ہیں، نہ ایک مومن اور مومنہ اپنے ایمان کی حالت کو قائم رکھنے والا بن سکتا ہے.اگر یہ قائم ہو جائے تو پھر دین بھی مل جائے گا اور دنیا بھی مل جائے گی.ایک انسان عورت ہو یا مر دجب ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو یقینا اُس کی یہ خواہش ہوتی ہے اور سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ خدا کو پالے تا کہ اُس کا دین سنور جائے اور اُس کی دنیا بھی سنور جائے.پس اگر خدا کو پانا ہے، اُس کی رضا کو حاصل کرنا ہے تو پھر تقویٰ پر چلنا انتہائی ضروری ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی کو بھی بیزار ہو کر ترک کرنا، ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہوئے اختیار کرنا.اور برائیوں کی تعریف یا نیکیوں کی تعریف خود انسان نے نہیں کرنی بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ پھر اُس کو اللہ تعالیٰ کے احکامات میں تلاش کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سنت میں تلاش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کو اس زمانے کے لئے امام بنا کر بھیجا گیا تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم لوگوں پر واضح کریں اُن کے ارشادات کو پڑھو اور نوٹ کرو اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرو کہ اُن میں سے کون کون 231

Page 232

عائلی مسائل اور ان کا حل سی ایسی باتیں ہیں جن سے ہمیں روکا گیا ہے، جو برائیاں ہیں.اور کون کون سی ایسی باتیں ہیں جنہیں کرنے کا ہمیں کہا گیا ہے جو نیکیاں ہیں اور اچھائیاں ہیں.صرف ان آیات میں تقویٰ کی تلقین نہیں کی گئی بلکہ قرآن کریم میں بیشمار جگہ پر اس کی تلقین فرمائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے.اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے.اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے.ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں.اور اپنی جلد بازیوں اور بد گمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں“.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 342) پھر آپ فرماتے ہیں: ”انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقوی کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی 232

Page 233

عائلی مسائل اور ان کا حل الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قوی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طو پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لِبَاسُ التَّقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے“.( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 210-209) پس یہ وہ معیار ہے جو اگر حاصل ہو جائے تو معاشرے کو بہت سے مسائل سے بچالیتا ہے.یہ وہ معیار ہے جو ہمارے اندر پید اہو جائے تو ہماری دنیا بھی دین بن جاتا ہے.ہماری ہر خواہش جو بھی ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گی.اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کی کوئی خواہش ایسی نہیں ہوتی جو صرف دنیا میں پڑے رہنے سے حاصل ہو.اور یہ تقویٰ اگر حاصل ہو جائے تو پھر معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں جو 233

Page 234

عائلی مسائل اور ان کا حل گو مختلف صنف سے اُن کا تعلق ہے.لیکن میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں.یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل چلتی ہے.اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو ، اس جوڑے میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں، کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے.پس ایک مومن جب تقویٰ کی تلاش میں ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لئے نہیں ہو تا بلکہ اپنی نسلوں کے لئے بھی، اپنے معاشرے کے لئے بھی.اور جب اس بنیادی اکائی میں یہ تقویٰ ہو گا تو آئندہ نسل میں بھی تقویٰ کی ضمانت بن جائے گی اور پھر معاشرے کے تقویٰ کی ضمانت ہو گی.اعلیٰ اخلاق معاشرے میں ہمیں نظر آئیں گے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تقومی سلامتی کا تعویذ ہے.پس اگر تو آپ سلامتی چاہتی ہیں اور یقینا ہر و چاہتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، یا مذ ہب پر یقین نہ بھی رکھتا ہو تو وہ یہ چاہتا ہے کہ سلامتی کے حصار میں ہو.اُس کو سلامتی پہنچتی رہے.دوسرے کو چاہے وہ سلامتی پہنچانے والا ہو نہ ہو، اپنے لئے وہ سلامتی چاہتا ہے.ایک بد معاش ہے، ایک چور ہے، ایک ڈاکو ہے، وہ دوسرے کو بیشک نقصان پہنچاتا ہو اپنے آپ کو وہ چاہے گا کہ ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ رہوں.پس جب ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ اُس کو سلامتی ملے اور اُس کو کوئی نقصان نہ پہنچے ، اُس کے دن اور رات خیریت اور عافیت سے گزریں، ہر دشمن سے وہ 234

Page 235

عائلی مسائل اور ان کا حل محفوظ رہے، ہر پریشانی سے بچتا رہے، اُس کو مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے، تو پھر ایک مومن اگر یہ چاہتا ہے تو اُس کے لئے یہ راستہ ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم پر یہ نکتہ واضح فرمایا ہے کہ اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو تقویٰ کو اختیار کرو کہ تقویٰ ہی سلامتی کا ایک تعویذ ہے جو تمہاری سلامتی کی ضمانت ہے.تم تقویٰ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہو گے اور خد اتعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ (22) پس جس کے لئے خدا جاگے اور اُس کی ہر شر سے حفاظت فرمائے تو وہ سلامتی کے ایک ایسے زبر دست حصار میں آ جاتا ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی.لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اس سلامتی کے لئے تقویٰ شرط ہے.خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہر برائی سے بچنا ضروری ہے اور ہر نیکی کو اختیار کرنا ضروری ہے.جب حقیقی رنگ میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو پھر بدیوں سے انسان بچتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کی قوت بخشتی ہے اور جب یہ قوت حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے پاس وہ 235

Page 236

عائلی مسائل اور ان کا حل انمول تعویذ آجاتا ہے جو سلامتی کی ضمانت ہے.انسان ایک ایسے مضبوط قلعے میں آجاتا ہے جس کے ارد گرد خدا تعالیٰ نے پہرہ بٹھایا ہوا ہے جس تک کوئی شیطانی حربہ نہیں پہنچ سکتا.شیطانی خیالات اور جذبات اسی وقت اُبھرتے ہیں جب انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، جب خدا تعالیٰ کا خوف نہیں رہتا.پس اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو کبھی کوئی ایسی حرکت انسان سے سرزد نہیں ہو سکتی جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو اور دنیا کے امن کو برباد کرنے والی ہو، اپنے معاشرے کے امن کو برباد کرنے والی ہو ، اپنے گھروں کے سکون اور امن کو برباد کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تم اس قلعہ میں آکر بہت سے فتنوں سے بچ جاتے ہو، محفوظ ہو جاتے ہو.فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ جاتے ہو.پس آج کے معاشرے میں ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم لغویات اور فضولیات سے بچیں.اپنی زندگیوں میں امن و سکون پیدا کریں.اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے انسان کو مختلف قسم کے فتنوں سے بچنے ، فتنوں اور خطرناک جھگڑوں سے بچنے اور بچانے کے راستے سکھائے ہیں.لیکن بد قسمتی سے انسان ان راستوں پر توجہ نہ دے کر اپنی زندگیوں کو برباد کر لیتا ہے.اس خوبصورتی سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن اور مومنہ کے لئے مہیا فرمائی ہے.جو ایک مومن اور مومنہ کا طرہ امتیاز ہونا چاہئے جو اس کے حسن کو چار چاند لگا دے.کپڑے یا ظاہری حسن کوئی چیز نہیں ہے.اصل حسن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ 236

Page 237

عائلی مسائل اور ان کا حل عطا فرماتا ہے.عورت کو اپنے حسن اور زینت کا بڑا خیال رہتا ہے لیکن بہت سی ایسی ہیں جو اپنی اصل زینت سے بے خبر رہتی ہیں.میک آپ کرنے سے، کپڑے پہنے سے، زیور پہننے سے زینت نہیں ملتی.اصل زینت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے.اُس حسن سے بے خبر رہتی ہیں جس سے اُن کا حسن و زینت کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جو آزادی حاصل کر کے نہیں ملتی.اس معاشرے کی فضولیات میں گم ہو کر نہیں ملتی.جو حجاب مختم کر کے نہیں ملتی.جو سر ننگے کرنے سے نہیں ملتی.جو اپنے خاوندوں کے سامنے دنیاوی خواہشات پیش کرنے سے نہیں ملتی.یا مر دوں کے لئے بھی ایک زینت ہے، مردوں کو وہ زینت، فیشن ایبل عورت سے رشتہ کرنے سے نہیں ملتی، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہے.آجکل مغرب کے زیر اثر ہو کر ہماری بعض عورتیں بھی اس قسم کا اظہار کر دیتی ہیں کہ شاید یہی زینت ہے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زینت تقویٰ کا لباس پہنے سے ملتی ہے.اور لباس تقویٰ اُن کو میسر آتا ہے جو اپنے ایمانی عہدوں اور امانتوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عور تیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اپنے جسم کے تمام اعضاء کو جو ظاہری اعضاء ہیں ان امانتوں کا حق ادا کرنے والا بناؤ.ہر مرد اور عورت کا کام ہے کہ اپنے کان، آنکھ ، زبان اور ہر عضو کے استعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کر کے استعمال کریں.اب عائلی جھگڑوں میں دیکھا گیا ہے کہ 237

Page 238

عائلی مسائل اور ان کا حل زبان، کان، آنکھ جو ہیں بہت بڑا کر دار ادا کرتے ہیں.مرد ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کرتے.عورتیں ہیں تو وہ ان کا صحیح استعمال نہیں کر رہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ میں اکثر اُن جوڑوں کو جو کسی نصیحت کے لئے کہتے ہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے لئے اپنی زبان، کان، آنکھ کا صحیح استعمال کر و تو تمہارے مسائل کبھی پیدا نہیں ہوں گے.زبان کا استعمال اگر نرمی اور پیار سے ہو تو کبھی مسائل پیدا نہ ہوں.اسی طرح اب عموماً دیکھا گیا ہے چاہے وہ مرد ہیں یا عورتیں ہیں، جب مقدمات آتے ہیں، جھگڑے آتے ہیں تو یہ مرد یا عورت کی زبان ہے جو ان جھگڑوں کو طول دیتی چلی جاتی ہے.اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پھر انہوں نے فیصلہ کر لیا ہوتا ہے یا فیصلہ کرنے کی طرف جاتے ہیں کہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے.اسی طرح دونوں طرف کے رحمی رشتوں یا دوسری ایسی باتوں کو جن کے سننے سے کسی قسم کی بھی تلخی کا احتمال ہو اُن سے اپنے کان بند کر لو.بعض دفعہ اگر ایک شخص یا ایک فریق کوئی غلط بات کرتا ہے تو دوسرا بھی اُس کو اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے.اگر جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے تھوڑے وقت کے لئے کان بند کرلئے جائیں تو بہت سارے مسائل وہیں دب سکتے ہیں سوائے اس کے کہ دیا عورتیں عادی جھگڑنے والے ہوں اُن کے علاوہ عموماً جھگڑے نہیں ہوتے.پس کان بند کرو، امن میں آجاؤ گے.میں ایک واقعہ بتایا کرتاہوں اور یہ سچا واقعہ ہے کہ ایک خاوند اور بیوی جھگڑا کر رہے تھے.ایک چھوٹی بچی اُن کو دیکھ رہی تھی اور بڑی حیران ہو کر دیکھ رہی تھی.تھوڑی دیر بعد اُن دونوں وہ 238

Page 239

عائلی مسائل اور ان کا حل کو خیال آیا کہ ہم غلط کام کر رہے ہیں.اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے ویسے ہی بچی سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں باپ نہیں لڑتے ، امی ابا نہیں لڑتے یا ایک ے سے سختی سے نہیں بولتے ؟ یا ناراض نہیں ہوتے ؟ اُس نے کہا : ہاں.اگر میرے باپ کو غصہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے اور ماں کو غصہ آتا ہے تو باپ خاموش ہو جاتا ہے تو ہمارے ہاں لڑائی آگے نہیں بڑھتی.تو پھر اس سے یہ نیک اثر بھی بچوں پر پڑتا ہے.ایک دوسرے کی برائیوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بند رکھو اور ایک دوسرے کی اچھائیاں دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھلی رکھو.آخر ہر شخص میں چاہے وہ عورت ہے یا مرد ہے اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، برائیاں بھی ہوتی ہیں.میں نے دیکھا ہے عموماً مرد پہل کرتے ہیں کہ اُن کو عورتوں کی برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر جو ابا جب عورتیں برائیاں تلاش کرنا شروع کرتی ہیں تو اتنی دور تک نکل جاتی ہیں کہ پھر واپسی کے راستے نہیں رہتے.پھر ایسی ناجائز چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہئے جن سے تمہارے تقویٰ پر حرف آتا ہو.پھر گھر کے مسائل جن سے آپس کے اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے اگر آنکھوں کی پاکیزگی رکھو تو پھر یہ ٹھیس نہیں لگتی اور یہ مسائل ختم ہو جاتے ہیں.پھر اپنے دل کو ناجائز باتوں کی آماجگاہ نہ بننے دو.اس کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھرے رکھو تو پھر کبھی مسائل نہیں پیدا ہوتے.کبھی شیطان چور دروازے سے دل میں داخل ہو کر ا گھروں میں فساد نہیں کرتا.شیطان کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جس کا پتہ لگ جائے کہ کس طرح آیا ہے ؟ ہر بُری صحبت، ہر بُرا دوست جو تمہارے گھر کو 239

Page 240

عائلی مسائل اور ان کا حل برباد کرنے کی کوشش کرے، جو خاوند کے خلاف یا ساس کے خلاف یا نند کے خلاف یا خاوند کو بیوی کے خلاف بھڑ کانے کی کوشش کرے، یا کوئی ایسی چھوٹی سی بات کر دے جس سے دل میں بے چینی پیدا ہو جائے تو وہ شیطان ہے.پس ایسے شیطانوں کا خیال رکھنا ہر مومنہ اور مومن کا فرض ہے.اور پھر جب یہ اعتماد قائم ہو جاتا ہے تبھی اس بندھن کی جو بنیاد ہے وہ مضبوط ہو جاتی ہے.اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو وہی محل جو پیار اور محبت کے عہد کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہوتا ہے زمین بوس ہو جاتا ہے بلکہ کھنڈر بن جاتا ہے.پس ایک مومن جہاں اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے وہاں مخلوق کے عہد کو بھی پورا کرنے کی بھر پور کوشش ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار حاصل نہیں ہو سکتے.اُس میں بھی بال آنے لگ جاتے ہیں، کریک آجاتے ہیں اور جب کسی برتن میں ایک دفعہ کریک (Crack) آجائے تو پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے.پس حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے.اور حقوق العباد میں خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.معاشرے اور اگلی نسل کی بہتری کے لئے ان کی بہت اہمیت ہے اس لئے ان کو بجالانا ایک حقیقی مومن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اس لئے توجہ دلائی ہے اور یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نکاح کے 240

Page 241

عائلی مسائل اور ان کا حل موقع پر رکھی ہیں کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو، تبھی تم خدا تعالی کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی بھی صحیح رنگ میں ادائیگی کر سکو گے.اور اپنے معاشرے کی امانتوں اور عہدوں کی بھی صحیح طرح ادائیگی کر سکو گے.پس ہر مومن اور مومنہ کو یاد رکھنا چاہئے ، ہر احمدی عورت اور مرد کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عہد کے دعوے کو تبھی پورا کرنے والے بن سکتے ہیں جب اپنے ہر رشتے کی جو بنیاد ہے اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے.شادی کا پاک رشتہ جہاں خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کی تسکین کے سامان کے لئے قائم فرمایا ہے وہاں انسانی نسل کے چلانے کا ذریعہ بھی ہے.اور پھر اس سے وہ نسل پیدا ہو گی جس کی اگر صحیح تربیت کی جائے تو پھر وہ معاشرے کے امن کی ضمانت بن جاتی ہے.صرف جسمانی تسکین اور نسل چلانا ہی کام نہیں ہے.یہ تو جانوروں میں بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کے کچھ لوازمات بھی ہیں.انسان کے لئے اس کے ساتھ ذہنی تسکین بھی ہے.اس لئے رشتوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفو کا بھی خیال رکھو اور کفو میں بہت ساری چیزیں آجاتی ہیں.خاندان بھی آجاتے ہیں، تعلیم بھی آجاتی ہے.لیکن اس کو بہانہ بنا کر پھر رشتے نہ کرنے یا رشتے توڑنے کے بھی جواز پیدا کر لئے جاتے ہیں.اگر تقویٰ پر چلا جائے تو پھر یہ بہانے نہیں بنتے.پھر صحیح فیصلے کئے جاتے ہیں.پھر علمی تسکین بھی ہے جو رشتوں سے حاصل ہوتی ہے.روحانی سکون 241

Page 242

عائلی مسائل اور ان کا حل کے سامان بھی ہیں جو ان رشتوں سے میسر آتے ہیں.اگر مرد اور عورت میں ہم آہنگی ہو تو اس میں اگلی نسلوں کی ذہنی، روحانی اور علمی تربیت کے سامان بھی بہت ہو رہے ہوتے ہیں.پس ایک مرد اور عورت جو ایک خاندان کی بنیاد ڈالنے والے ہوتے ہیں وہ ایک معاشرے کی بنیاد ڈال رہے ہوتے ہیں.ایک قوم کو اچھا یا بر ابنانے کی بنیاد ڈال رہے ہوتے ہیں.پس اس طرف بہت غور کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے اللہ تعالی نے پانچ جگہ نکاح کے موقع پر تقویٰ کا لفظ استعمال کر کے ہمیں اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا ہر مل ، تمہار ا ہر قول، تمہارا ہر عمل صرف اپنی ذات کے لئے نہ ہو بلکہ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو اور ایک دوسرے کے بھی حقوق ادا کرنے والا ہو.اور پھر جب یہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ نسل پیدا ہوتی ہے جو ماں باپ کے لئے دعائیں کرنے والی ہوتی ہے.جیسا کہ قرآنِ کریم میں بھی ذکر ملتا ہے کہ اس نیک تربیت کی وجہ سے جو اُن کے ماں باپ نے بچوں کی کی ہوتی ہے ، وہ یہ دعا مانگ رہے ہوتے ہیں که رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل : 25) کہ اے میرے رب ! اُن پر رحم فرما کہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی ہے.صرف پالا نہیں ہے ، میری تعلیم اور تربیت کی طرف بھی توجہ دی ہے.میری روحانی بہتری کی طرف بھی توجہ دی ہے.میری اخلاقی تربیت کی طرف بھی توجہ دی ہے.میری دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی ہے تا کہ میں معاشرے کا ایک فعال حصہ بن جاؤں.لیکن جن گھروں میں، عورتوں کی طرف سے بھی، 242

Page 243

عائلی مسائل اور ان کا حل مردوں کی طرف سے بھی جھگڑے ہوتے رہیں ، جن گھروں میں صرف اپنی اناؤں کی باتیں ہوتی رہیں وہاں پھر ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے الا ماشاء اللہ، سوائے اس کے کہ بعض گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں پھر بچے reaction دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ سے جس کی بھی زیادتی ہو، ماں کی یا باپ کی، اُس سے متنفر ہو جاتے ہیں، گھروں سے چلے جاتے ہیں اور خود اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں، گو ایسے بہت کم ہوتے ہیں.پس اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ صرف اپنی ذات کو اپنا محور نہ بنائیں بلکہ اپنے خیالات کو، اپنے جذبات کو قربان کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے.تبھی ایک حسین معاشرہ پیدا ہو سکتا ہے.اس دعا کا خیال بھی ایک ایسے مومن بچے کو ہی آسکتا ہے.ایک ایسے شخص کو ہی آسکتا ہے جو اس بات کا ادراک رکھتا ہو کہ تقویٰ کیا ہے؟ اور پھر اُس کو پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ یہی ہے کہ میں اپنے والدین کے احسانوں کا شکر گزار بنے ہوئے اُن کے لئے خدا تعالیٰ سے مددمانگوں، دعا مانگوں، اُن کی بہتری کی دعا کروں.اللہ تعالیٰ نے بکثرت مردو عورت پھیلائے ہیں اور کافروں کے ذریعے سے بھی پھیلائے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو! تمہیں جو کثرت سے مرد اور عورت کی صورت میں پھیلایا گیا ہے تو تقویٰ اختیار کرو.یعنی کہ وہ خاص لوگ جن کو دین کی طرف بھی رغبت ہے اگر تمہیں خدا کی رضا مطلوب ہے، اگر تم دین چاہتے ہو تو پھر اُس تقویٰ کی تلاش کرو جو خدا تک پہنچاتا ہے.اُس خشیت اور اُس خوف کی تلاش کرو جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر 243

Page 244

عائلی مسائل اور ان کا حل برائیوں سے روکے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.بلکہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے تو کافروں کی مومنوں کے مقابلہ میں زیادہ کثرت ہے، لیکن یہاں توجہ دلائی ہے کہ حقیقی کثرت وہ ہے جو تقویٰ پر چلنے والوں کی ہے.کیونکہ آخری انجام، بہتر انجام انہی لوگوں کا ہے اور انہی سے دنیا کا امن اور سکون بھی قائم ہوتا ہے.اس لئے تم دنیا داروں سے متاثر نہ ہو جاؤ.اُن کی طرف دیکھ کر متاثر نہ ہو بلکہ تقویٰ پر چلو تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنو گے.تمہاری اولادیں بھی تمہارے لئے دعائیں کرنے والی ہوں گی اور تمہارے درجات بلند کرنے کا باعث بنیں گی.عائلی مسائل جو ہمارے سامنے آتے ہیں اُن میں بسا اوقات کبھی عورت کی طرف سے اور کبھی مرد کی طرف سے یہ ایشو بہت اُٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو کسی ایک نے بُرا کہا.مرد یہ الزام لگاتا ہے کہ عور تیں کہتی ہیں، عور تیں الزام لگاتی ہیں کہ مرد کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ کی برائی کی.اُن کو یہ کہا، ان کو وہ کہا.ان کو گالیاں دیں.تو یہ چیز جو ہے یہ تقویٰ سے دور ہے.یہ چیز پھر گھروں میں فساد پیدا کرتی ہے.پھر یہی نہیں بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں صرف الزام کی بات نہیں ہے بلکہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں اور بعض الزامات بچے بھی نکلتے ہیں کہ بچوں کو دادا دادی یا نانا نانی کے خلاف بھڑ کا یا جاتا ہے.ایک دوسرے کے قریبی رشتوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.بچوں کو اُن سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ سے بعید ہے.یہ تقویٰ 244

Page 245

عائلی مسائل اور ان کا حل نہیں ہے.تم تو پھر تقویٰ سے دور چلتے چلے جارہے ہو.اس لئے اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو.ان آیات میں، پہلی آیت میں ہی اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو.ماں باپ صرف خود ہی خیال نہ رکھیں اپنے بچوں کو بھی ان رحمی رشتوں کا تقدس اور احترام سکھائیں.تبھی ایک پاک معاشرہ قائم ہو سکتا ہے.اور خود بھی اس کے تقدس کا خیال بہت زیادہ رکھیں کیونکہ ماں باپ کے نمونے جو ہیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانوں میں سے انسانی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، آپ نے نکاح کے خطبے میں ان آیات کا انتخاب فرما کر مرد اور عورت کو شادی یا رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے وقت یہ احساس پیدا کروا دیا ہے یا پیدا کر وانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ میاں بیوی کا بندھن ایک ایسا بندھن ہے جس میں جہاں تم نے آپس میں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور احساسات رکھنے ہیں وہاں ایک دوسرے کے رحمی رشتوں اور قریبی رشتوں کا بھی احترام کرنا ہے.اگر تم حقیقی مومن ہو تو یہ ضروری ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو لازماً تمہیں اپنے ظاہری اعضاء کا بھی اور دل کا بھی استعمال ان رحمی رشتوں کی بہتری کے لئے کرنا ہو گا.اگر تم یہ نہیں کر رہیں یا مرد نہیں کر رہے تو یاد رکھو، اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے.تمہارے عملوں اور تمہاری حالتوں کو دیکھ رہا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نگران ہوں تو پھر وہ ایسے مردوں اور عورتوں کے 245

Page 246

عائلی مسائل اور ان کا حل اس عمل کو جس میں ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کے حق ادا نہیں ہو رہے ہوتے اپنی پکڑ میں بھی لاتا ہے.پس پہلے دن سے ہی اس سوچ کے ساتھ ایک مرد اور عورت کو شادی کے رشتہ میں منسلک ہونا چاہئے کہ صرف ایک رشتہ ہی میں نے نہیں نبھانا.خاوند نے بیوی کے ساتھ یا بیوی نے خاوند کے ساتھ رشتہ نہیں نبھانا بلکہ جو بھی قریبی رشتے ہیں وہ سب نبھانے ہیں.اس سوچ کے ساتھ عورت کو خاوند کے گھر جانا چاہئے اور اس سوچ کے ساتھ مرد کو عورت کو بیاہ کر لانا چاہئے کہ ہم نے اپنے وسیع تعلقات کو نبھانا ہے ، یعنی رشتوں کے آگے رحمی رشتوں کو بھی نبھانا ہے.اگر ہم اپنے معاشرے میں اس سوچ کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے پیدا کریں گے تو ہمارے معاشرے میں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہو کر مار پٹائی اور پولیس کیس اور خلع اور طلاق تک پہنچ جاتے ہیں اُن میں غیر معمولی کمی آجائے گی.پھر سچائی ایک ایسی چیز ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے یہ کہنے پر کہ میں صرف ایک برائی چھوڑ سکتا ہوں مجھے بتائیں کہ میں کیا برائی چھوڑوں ؟ آپ ا نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اور ہمیشہ سچ بات کہنی ہے اور اس وجہ سے جب بھی اُس نے کسی برائی کا ارادہ کیا تو ایک ایک کر کے تمام برائیاں اُس کی ٹچھٹ گئیں.(التفسیر الکبیر از امام رازی تجلد نمبر 16 سورة التوبہ آیت یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ صفحہ 176 دار الكتب العلمیة بیروت 2004) تو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سچائی اختیار کرو.246

Page 247

عائلی مسائل اور ان کا حل دوسری آیت جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انتخاب فرمایا ہے، اُس میں فرمایا کہ تقویٰ یہی ہے کہ سیدھی اور کھری اور صاف بات کرو.بعض باتیں بیشک سچی ہوتی ہیں لیکن بعض اوقات اُن کے کئی مطلب نکل سکتے ہیں.حق میں بھی اور خلاف بھی جا سکتے ہیں.بعض بڑے ہو شیار لوگ اپنے مطلب کی بات کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں میر امطلب تو یہ تھا.لیکن ہر ایک کی نظر میں اُس کا مطلب کچھ اور ہو رہا ہوتا ہے.تو یہاں فرمایا کہ قولِ سدید اختیار کرو اور قولِ سدید یہ ہے کہ غیر معمولی طور پر سیدھی اور کھری بات کرو.بعض لوگ، عورتیں بھی اور مرد بھی، بڑی ہوشیاری سے جیسا کہ میں نے کہا خاص طور پر جب ان کے کیس پیش ہو رہے ہوتے ہیں یا معاملات سامنے آتے ہیں تو بات کر دیتے ہیں.فرمایا کہ ایک تو رشتوں کے طے کرتے وقت ہر بات کی حقیقت بتاؤ.لڑکی کا رشتہ آ رہا ہے تو لڑکی کی صحت، عمر اور قد وغیرہ جو بھی ہے وہ صاف صاف بتانا چاہئے.اس کی تمام معلومات جو ہیں لڑکے کو مہیا کر دینی چاہئیں.لیکن لڑکوں کا بھی یہ فرض ہے کہ جب یہ معلومات مہیا ہو جاتی ہیں تو پھر صرف لڑکیاں دیکھنے کے لئے نہ پہنچ جایا کریں بلکہ جب معلومات مہیا ہو گئیں تو پھر دعا کر کے اس نیت سے جانا چاہئے کہ ہم نے رشتہ کرنا ہے.اگر اس نیت سے جائیں گے تو ایک پاک معاشرہ پیدا ہو گا.تقویٰ سے جب ایک دوسرے کے رشتے تلاش کئے جائیں گے تو پھر جو لڑکیوں میں بے چینیاں پیدا ہو جاتی ہیں وہ بھی پیدا نہیں ہوں گی.اسی طرح 247

Page 248

عائلی مسائل اور ان کا حل لڑکوں کو اپنی تعلیم اور صحت وغیرہ اور جو کوئی بھی اگر برائیاں ہیں تو صاف صاف بتا دینی چاہئیں.کیونکہ قولِ سدید یہی ہے کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے کھل کر ہر بات سامنے آ جائے.اگر یہ باتیں سامنے آجائیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بعد میں پھر لڑائیاں اور جھگڑے بڑھیں.بعض رشتے آتے ہیں پاکستان سے لڑکیاں بھی آتی ہیں یا انڈیا سے آتی ہیں یا دوسرے ملکوں سے آتی ہیں یا لڑ کے وہاں سے لڑکیوں کو لے کر آتے ہیں اور صحیح اور صاف بات نہیں کی جاتی، جھوٹ بولے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پھر یہاں آکے چند دنوں بعد ہی خلع اور طلاق کی نوبت آجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک انتہائی مکروہ فعل ہے.باوجود اس کے کہ یہ حرام نہیں ہے.اسے جائز قرار دیا لیکن بڑا مکروہ ہے.اس سے بچنا چاہئے.اگر اسی طرح شروع میں معلومات دے دی جائیں تو بہت سی خلع اور طلاقیں جو ابتدا میں ہو جاتی ہیں جیسا کہ میں نے کہا اُن سے بچت ہو سکتی ہے.بعض لڑکے اور لڑکیاں کہیں اور رشتے کرنا چاہتے ہیں لیکن جہاں ماں باپ نے زور دیا وہاں ماں باپ کے کہنے پر کر لیتے ہیں.پھر تھوڑے عرصے کے بعد رشتے ٹوٹ جاتے ہیں.ماں باپ کا بھی کام ہے کہ قولِ سدید سے کام لیں اور جہاں رشتے کر رہے ہوں وہ پہلے اُن رشتے والوں کو بتائیں کہ میرا لڑکا جو ہے یالڑ کی جو ہے اُس کو ہم نے اس رشتے کے لئے مجبور کیا ہے تا کہ اگلا بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرے.پھر شادی کے بعد ایک دوسرے سے جب اعتماد کا تعلق قائم ہو تو 248

Page 249

عائلی مسائل اور ان کا حل اس کی بنیاد بھی قول سدید پر ہونی چاہئے.صاف اور کھری اور سچی باتوں پر ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ جو انسان کی فطرت کو جانتا ہے اس نے معاشرے کے امن کے لئے یہ بنیادی نصیحت فرمائی ہے کہ سچائی کو قائم کرو.تبھی تم آپس کے رشتوں کو بھی نبھا سکتے ہو اور امن اور سلامتی سے بھی رہ سکتے ہو.ایسی سچائی جس میں کسی بھی قسم کی الجھن نہ ہو.فرمایا اگر یہ عہد کر لو کہ ہمیشہ صاف اور کھری بات کہنی ہے، جھوٹ اور غلط بیانی کے قریب نہیں جانا تو خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کے بخشنے کی ضمانت دیتا ہے.تمہارے اعمال کی اصلاح ہو جائے گی.ظاہر ہے جب اعمال کی اصلاح ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسان کام کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ بھی پھر اس کو پیار کرنے لگتا ہے.جیسا کہ میں نے حدیث کی مثال دے کر کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو تو تمہاری برائیاں چھٹ جائیں گی.یہی اصول ہر ایک کو اپنانا چاہئے.پس اللہ اور رسول کے احکامات کی اطاعت میں ہی ہر شخص کی بقا ہے.اگر مومن ہونے کا دعویٰ ہے تو چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے ان کی پابندی کرنا بہر حال ضروری ہے.اسی میں ہماری کامیابیاں ہیں.اس دنیا میں بھی ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہو گی اور تمہاری اُخروی زندگی بھی تمہیں انعامات کا وارث بنائے گی.پھر ان آیات میں سے آخری آیت میں تقویٰ کے حوالے سے اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ صرف اس دنیا کو ہی اپنی متاع نہ سمجھو.یہی 249

Page 250

عائلی مسائل اور ان کا حل نہ سمجھو کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے.یہ بھی دیکھو اور نظر رکھو کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ خاص طور پر نظر رکھو کہ تم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟ کیا نیکیاں ہیں جو تم کر رہے ہو ؟ کون سا تقویٰ ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟ اپنی نمازوں کی حفاظت کی ہے؟ اپنے خاوندوں کے حق ادا کئے ہیں؟ خاوندوں نے بیویوں کے حق ادا کئے ہیں؟ بچوں کے حقوق ادا کئے ہیں؟ اپنے عہدوں کی حفاظت کی ہے؟ اپنے رحمی رشتوں کی حفاظت کی ہے؟.ان سب کا اللہ تعالیٰ نے حساب لینا ہے.اس لئے نظر رکھو کہ تم نے آگے کیا بھیجا ہے؟ کیونکہ اصل انعامات جو نہ ختم ہونے والے انعامات ہیں وہ تو اُخروی زندگی کے انعامات ہیں.یاد رکھو جو کچھ تمہارے اس دنیا کے اعمال ہیں یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر سے مخفی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے سب کاموں سے اور تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے.پس یہ آیت پھر یاد کروا رہی ہے کہ ہر برائی کی جڑ تقویٰ پر نہ چلنا اور اس پر توجہ نہ دینا ہے.پس اگر تم حقیقی، اخلاقی اور روحانی ترقی چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ یہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین اور اُس کے احکامات پر اخلاص و وفا سے عمل کئے بغیر نہیں ہو سکتا.پس شادی بیاہ کے معاملات اور رشتوں کو نبھانا تو بظاہر ایک دنیاوی کام لگتا ہے.لیکن ایک مومن کی دنیا بھی دین ہوتی ہے.ایک احمدی مومن عورت اور مرد کو اپنی زندگی اس نہج پر چلانی ہو گی اور چلانی چاہئے تا کہ وہ اُن کے جو عہد ہیں ان کو پورے کرنے والے ہوں.تبھی وہ انعامات کے وارث بھی بنیں گے اور تبھی وہ اُس عہد کو پورا کرنے والے بھی بنیں گے جو زمانے 250

Page 251

عائلی مسائل اور ان کا حل کے امام کے ساتھ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جماعت میں آکر ایک احمدی نے عہد بیعت کی صورت میں کیا ہے.ہماری لڑکیوں کو بھی اور عورتوں کو بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ میرا اول فرض تقویٰ پر چلنا اور خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور شادی بیاہ بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور نیک نسل چلانے کے لئے ہے.اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو رشتوں کی تلاش میں جن خوبیوں کی طرف توجہ دلائی کہ رشتے تلاش کرتے وقت کن خوبیوں کو تمہیں ترجیح دینی چاہئے جو ایک عورت میں ہونی چاہئیں وہاں فرمایا جو ترجیح ہے وہ عورت کی نیکی ہو.ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا تو سامانِ زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامان زیست نہیں.(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب أفضل النساء حدیث نمبر 1855) کہ اس دنیا کے زندگی گزارنے کے لئے جو سامان ہیں اُس میں سے سب سے اچھا ایک نیک عورت ہے.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں.یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اُس کے خاندان کی وجہ سے یا اُس کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اُس کی دینداری کی وجہ سے.لیکن تو دیندار عورت کو ترجیح دے.اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دیندار 251

Page 252

عائلی مسائل اور ان کا حل عورت حاصل ہو.( بخاری کتاب النکاح باب الاكفاء فی الدین حدیث نمبر 5090) پس اگر ہمارے مرد بھی تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور ان خوبیوں کو دیکھیں تو ہر لڑکی پہلے سے بڑھ کر نیکیوں کی طرف چلنے والی ہو گی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ہماری لڑکیاں، ہماری بچیاں نیکیوں پر چلنے والی ہیں.لیکن وہ جو معاشرے سے متاثر ہو جاتی ہیں وہ بھی اپنی نیکیوں کے معیار بلند کریں اور جب نیکیوں کے معیار بلند ہوں گے تو پھر اس لئے کہ ہمارے رشتہ کا جو معیار ہے وہ نیکی ہے لڑکیاں بھی یہ کوشش کریں گی کہ لڑکے بھی اُن کو وہ ملیں جو نیکی میں اعلیٰ معیار کے ہوں.کیونکہ کفو تو تب ہی ملتا ہے جب نیکی اور تقویٰ کامعیار بھی برابر ہو.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ بد معاش اور ڈاکو شخص ہو اور وہ کہے کہ مجھے نیک اور پارسا اور تقویٰ پر چلنے والی بیوی چاہئے.صرف یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو نیک سمجھ کر کہا ہے کہ تم مرد سب کے سب نیک ہو اور نیکیوں کے اعلیٰ معیاروں کو چھو رہے ہو اس لئے نیک عورت تلاش کرو.اُس شخص کو تو یقیناد عادی ہے کیونکہ اُس کی نیکی کا پتہ ہو گا لیکن ایک اصولی بات بھی بتا دی کہ مردوں کو بھی فرمایا کہ تم بھی نیک بنو.تم نیک بنو گے تو پھر رشتے بھی نیک عورت سے کرو گے.اگر تم نیک نہیں، برائیوں میں ملوث ہو تو پھر تم نیک بیوی کی تلاش کس طرح کر سکتے ہو ؟ پس نیک مرد ہی ہے جو نیک بیوی کی تلاش کرے گا.اور یوں مرد اور عورت تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے رشتے قائم کرنے اور ایک نسل کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے.پس اس میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں نیکیوں 252

Page 253

عائلی مسائل اور ان کا حل پر قائم ہوں تاکہ نیک نسل چلے اور وہ نسل ایسی ہو جو پھر ایک ایسا حسین معاشرہ بنانے والی ہو جو تقویٰ پر چلنے والا ہو.ایسا خاندان بنانے والی ہو جو تقویٰ پر چلنے والا ہو.پس آج کل جو دنیا میں بے صبری اور دنیا کی چاہت اور تقویٰ سے دوری ہے اُس نے میاں بیوی کے پاکیزہ رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں، اُن کا حل انہی قرآنی احکامات پر عمل کرنے میں ہے.اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری لڑکیاں بھی اور عورتیں بھی اور مرد بھی دنیا کے آجکل کے جو طریقے ہیں اس سے متاثر ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 22) تم اُن لوگوں کے پیر ومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا ہی کو سمجھ رکھا ہے.دنیا میں ، ان ملکوں میں خاص طور پر طلاقوں کی شرح بہت بڑھ گئی ہے.دنیاوی لوگوں میں تو بہت پرانی بڑھی ہوئی ہے.ان میں کچھ عرصہ شادیاں قائم رہتی ہیں اور پھر ٹوٹ جاتی ہیں.اس کا اثر ماحول کی وجہ سے احمدیوں پر بھی ہو رہا ہے اور صرف یہیں نہیں، بلکہ پاکستان میں بھی ہے، ہندوستان میں بھی ہے اور دوسری جگہوں پر بھی ہے.پس ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے.دنیا کی دیکھا دیکھی ہم اپنے آپ کو بھی اُن اندھیروں میں نہ ڈبولیں جو دنیا کی تباہی کے ذمہ دار ہیں.بلکہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اپنی 253

Page 254

عائلی مسائل اور ان کا حل اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے.مختلف ملکوں سے یہ بہت قابلِ فکر جائزہ میرے سامنے آیا ہے.جب میں اسے دیکھتا ہوں تو عموماً یہی حالت ہے کہ ہمارے ہاں طلاق اور خلع کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے اور اس کی یہی وجہ ہے کہ بے صبری، نیکیوں میں کمی، تقویٰ سے دوری.اب یہاں یو کے میں ہی تین سالوں کا جب میں نے جائزہ لیا تو میں حیران رہ گیا کہ تقریباً تین فیصد طلاق اور خلع کی شرح بڑھ چکی ہے اور بیس فیصد طلاقیں ہونے لگ گئی ہیں.جتنے رشتے طے ہوتے ہیں اُن میں سے بیس فیصد ٹوٹنے لگ گئے ہیں اور یہ قابل فکر بات ہے.اس طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وجوہات یہی ہیں.جب وجہ پتہ کرو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میاں بیوی کا گندی زبان کا استعمال ہے.بد اخلاقیاں ہیں.برداشت کی کمی ہے.والدین ، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کی دخل اندازیاں ہیں.چاہے وہ لڑکے کے والدین بہن بھائی ہوں یا لڑکی کے ہوں.جب ایک دوسرے کے رشتوں میں دخل اندازیاں کرتے ہیں تو پھر اُن میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے.گورحمی رشتوں کی ادائیگی کا تو حکم ہے لیکن والدین اور بہن بھائیوں کو بھی حکم ہے کہ تم لوگ بھی فساد پیدا نہ کرو.میاں بیوی کو آرام اور سکون سے رہنے دو.اگر یہ ہو جائے تو کبھی رشتے اتنے تیزی سے نہ ٹوٹیں.پھر سچائی کا نہ استعمال کرنا ہے.لڑکے باہر سے شادی کر کے یہاں آتے ہیں.یہاں پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں.کہا جاتا ہے کہ گریجویٹ ہے جب پتہ کریں تو پتہ لگتا ہے کہ میٹرک فیل لڑکا آیا ہے.اس 254

Page 255

عائلی مسائل اور ان کا حل سے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں.اسی طرح لڑکیوں کے بارے میں بعض کمیوں کا پتہ لگ رہا ہوتا ہے.تو ہمیشہ سچائی کا استعمال کرنا چاہئے.پھر حد یہاں تک ہے کہ اب میں بڑی عورتوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رشتے ٹوٹنے کی یہ بھی شکایتیں ہیں کہ ساس اور سسر اپنی بہوؤں کو مارتے ہیں.صرف اُن کے خاوندوں سے مار نہیں پڑواتے بلکہ خود بھی ہاتھ اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے.پھر یہاں آ کے لڑکے بعض غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں اور بیویوں کو چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ نہ رہیں.اُن کو اگر وہ پاکستان سے آئی ہیں تو کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان چھوڑ آئیں.ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتے.پھر جب جماعت اصلاح کی کوشش کرتی ہے تو جماعت سے تعاون نہیں کرتے.تو بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بنیاد یہی ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے اور اس کی وجہ سے رشتے ٹوٹتے چلے جارہے ہیں اور یہ تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے.اللہ تعالیٰ مر دوں کو بھی اور عورتوں کو بھی عقل دے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنے رشتے نبھانے کی کوشش کرنے والے ہوں.پس اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت میں شامل کر کے جو احسان کیا ہے ہم اُس کی قدر کرنے والے بنیں.اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر نظر ہو.ہم یہ دیکھیں کہ ہم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟ نہ یہ کہ ہم نے اپنے لئے اس دنیا میں کیا حاصل کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ تمام مر دوں اور عورتوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(خطاب از مستورات جلسه سالانه بر طانیہ 23/ جولائی 2011ء.مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 14 مئی 2012ء) 255

Page 256

256 عائلی مسائل اور ان کا حل

Page 256