Language: UR
حضورؓ کی بعض چھوٹی چھوٹی تصانیف مختلف وقتوں میں الگ الگ رسالہ یا مضمون کی صورت میں شائع ہوئی تھیں۔ نظارت اشاعت، صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ان میں سے 5 کتب کو ایک جلد میں شائع کیا ہے تا یکجائی طور پر محفوظ ہوکر استفادہ میں سہولت کا باعث ہوا۔ <h2>(۱) ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات</h2> 1889ء میں ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے انجمن حمائیت اسلام لاہور کو تین سوالات بغرض جواب بھیجے۔ انجمن نے ان کے جوابات کے لئے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ سے درخواست کی۔ جس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی تینوں سوالوں کے جوابات تحریر فرمائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بھی۔ انجمن نے اس کو ’’ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات‘‘ کے عنوان سے ایک رسالہ کی شکل میں1309ہجری بمطابق 1890-91 میں شائع کردیا۔ زیر نظر ٹائپ شدہ مجموعہ میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کا تحریرفرمودہ جواب قریبا 30 صفحات پر مشتمل ہے۔ <h2>(۲) ابطال الوہیت مسیح</h2> اس رسالہ میں قرآن، بائبل اور عقل کی رو سے ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری صرف ایک انسان تھے، خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے۔ اولاً یہ کتاب 1890ء کے لگ بھگ 22 صفحات پر شائع کیا گیا، پھر دوبارہ جولائی 1904ء میں حافظ حاجی حکیم فضل دین صاحب نے ضیاء الاسلام پریس قادیان سے اسے 400 کی تعداد میں شائع کیا۔ <h2><strong>(۳) خطوط جواب شیعہ و رد نسخ</strong></h2> اس رسالہ میں حضور رضی اللہ عنہ کے بعض خطوط درج ہیں، جو حضور نے 1880ء میں ایک شیعہ کو اور ایک اور دوست کو لکھے تھے۔ نیز نسخ قرآن کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بڑی وضاحت سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔ اسے6 اکتوبر 1901ء میں مطبع انوار احمدیہ قادیان نے 400 کی تعداد میں شائع کیا تھا۔ اس دقیق علمی رسالہ میں حضور ؓ نے اپنی کنیت ابو اسامہ استعمال فرمائی ہے۔ <h2>(۴) دینیات کا پہلا رسالہ</h2> اس رسالہ میں ابتدائی اسلامی مسائل مثلاوضو اذان اور نماز وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہے۔اوقات نماز، نماز پڑھنے کا طریق، شرائط نماز، ارکان نماز اور واجبات نماز،مفسدات ومکروہات نماز، وغیرہ تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ بچوں، نو مسلموں اور دینیات کی ابتدائی تعلیم سیکھنے والوں کے لئے اس رسالہ کا مطالعہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس میں دین اور ایمان کی باتیں سلیس انداز میں درج ہیں۔ <h2>(۵) مبادی الصرف و النحو</h2> اس رسالہ میں جس کا پہلے نام مبادی الصرف تھا، جو 20 جون 1906ء کو مطبع انوار احمدیہ قادیان سے شائع ہوا، اس میں علم الصرف کے ابتدائی قواعد نہایت آسان اور شستہ زبان میں تحریر کئے گئے ہیں، اندازتحریر ایسا دلکش ہے کہ بچے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، 1907ء میں آپؓ نے اس میں نحوی قواعد کا اضافہ فرمایا اس کا نام مبادی الصرف و النحو ہوگیا۔
تصانیف حضرت حکیم مولا نا مولوی نورالدین خلیفة اصیح الاول ا.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲- ابطال الوہیت مسیح ۲.۳.خطوط جواب شیعہ اور دنخ ۴.دینیات کا پہلا رسالہ ♡- مبادی الصرف والنحو
۳۳ ۸۹ ۱۱۵ فہرست کتب ا.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲.ابطال الوہیت مسیح ۲.خطوط جواب شیعه در دسخ ۴.دینیات کا پہلا رسالہ ۵ مبادی الصرف والنحو
يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمُ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم:) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات از افاضات حضرت مولوی نورالدین خلیفہ المسیح الاول
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بَلْ هُوَ أَيْتُ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ (العنكبوت:۵۰) چند روز ہوئے کہ ایک عیسائی صاحب مسمی عبداللہ جیمز نے چند سوال اسلام کی نسبت بطلب جواب انجمن میں ارسال فرمائے تھے چنانچہ اُن کے جواب اس انجمن کے تین معزز و مقتدر معاونین نے تحریر فرمائے ہیں جو بعد مشکوری تمام بصورت رسالہ ہذا شائع کئے جاتے ہیں.سوالات اوّل.محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نبوت اور قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے پر متشکی ہونا جیسا سورۃ بقر اور سورہ انعام میں درج ہے فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (البقرة: ۱۳۸.الانعام : ۱۱۵) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں یقین جانتے تھے کہ وہ پیغمبر خدا نہیں اگر وہ پیغمبر خدا ہوتے یا انہوں نے کبھی بھی کوئی معجزہ کیا ہوتا یا معراج ہوا ہوتا یا جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید لائے ہوتے تو وہ کبھی اپنی نبوت پر متشکلی نہ ہوتے.اُس سے ان کا قرآن مجید پر اور اپنی نبوت پر متشکی ہونا صاف صاف ثابت ہوتا ہے اور نہ وہ رسول اللہ ہیں.دوم.اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہوکر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم یعنی مجھ کو معلوم نہیں اور اصحاب کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا غرق ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نو کروڑ حصہ بڑا ہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے.سوم.مدصلی اللہ علیہ وسلم کو بی بی کوئی معجزہ نہ ملا جیسا کہ سورۂ عنکبوت میں درج ہے ( ترجمہ عربی کا ) اور کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر کچھ نشانیاں ( یعنی کوئی ایک بھی کیونکہ لا نافیہ اس
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات آیت میں جو کہ جنس ہے کل جنس کی نفی کرتا ہے ) اس کے رب سے.اور سورہ بنی اسرائیل میں بھی.اور ہم نے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا.اس سے صاف ظاہر ہے خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا.حقیقت میں اگر کوئی ایک معجزہ ملتاتو وہ نبوت اور قرآن پر متشنگی نہ ہوتے.
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات علامہ دوراں امام مناظرین زمان حامی دین متین مولینا مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی کی طرف سے جوابات پہلے سوال کا جواب ہادی اسلام خیر خواہ کا فہ انام علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی رسالت اور نبوت پر اپنی صداقت اور کامیابی پر پورا یقین اور پرلے درجہ کا علم و اعتقاد تھا.کبھی کسی قسم کا ترد و شک حضور علیہ السلام کے قلب مطہر اور منشرح پر نہیں آیا.آپ کا کیا ذ کر آپ کے ساتھ والے اور میرے جیسے اتباع بھی آپ کی صداقت اور نبوت پر اعلیٰ درجہ کا یقین رکھتے ہیں.ثبوت هذِهِ سَبِيلِ اَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَنَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (يوسف : ١٠٩) ۱۰۹) اللہ یہی میری راہ ہے بلاتا ہوں اللہ کی طرف پرلے درجہ کی سمجھ اور بوجھ پر میں اور میرے ساتھ والے بھی ایسے ہیں.اور ہر برائی اور نقص سے پاک ہے اللہ.اور میں اللہ کے ساتھ کسی امر میں کبھی کسی مخلوق کو ساجھی سمجھنے والا نہیں.دوسری دلیل حضور علیہ السلام کے متردد نہ ہونے پر قُلْ اِلَى عَلَى بَيْنَةٍ مِنْ رَّبِّي وَكَذَّبْتُمْ بِهِ مَا عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ إنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلهِ يَقُضُ الْحَقِّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِينَ (الانعام : ۵۸) اللہ قرآنی محاورہ میں ایسی ذات پاک کا نام ہے جو ہر ایک کا ملہ صفت سے موصوف اور ہر ایک برائی سے منزہ ہو.نورالدین.
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات بے شک وشبہ میں اعلیٰ درجہ کے کھلے نشان اپنی راستی اور صداقت پر اپنے رب کی طرف سے رکھتا ہوں اور تم اس راستی کی تکذیب کر چکے.میری تکذیب کے بدلہ جو عذاب تم پر آنے والا ہے تم چاہتے ہو وہ عذاب تم پر جلد آ جاوے سو اس عذاب کا تم پر لانا میرے قبضہ قدرت میں نہیں.اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں مگر یاد رکھو منکر دکھ پاویں گے.اللہ ظاہر کرتا رہے گا اس حق کو جو میں لایا ہوں اور بے شک وریب وہ ( اللہ تعالیٰ ) ہے بہت ہی بڑا جھوٹ اور سچ میں فیصلہ کرنے والا.جھوٹے کو ذلیل بچے کو فتح مند کرے گا.تیسری دلیل قُلْ إِنَّنِى هَدْنِى رَى إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (الانعام: ۱۶۲) بے شک وریب مجھے راہ بتائی میرے رب نے سیدھی راہ.ٹھیک اور درست دین کی جس کا نام ابراہیمی دین ہے (اسلام) ایک طرف کا دین ہر طرح کے شرک سے بالکل پاک.چوتھی دلیل الم ذلك الكتبُ لَا رَيْبَ فِيهِ (البقرة :٣٠٣) یہ سورت جس کا نام الم ہے وہ کتاب ہے (جس کے اُتارنے کا موسیٰ علیہ السلام کی کتاب استثناء کے باب ۱۸ میں وعدہ ہو چکا ) اس میں شک وریب کی جگہ نہیں.پانچویں دلیل إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل: ۱۶) بے شک وریب ہم نے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) تمہاری طرف بھیجا بڑا عظمت والا رسول نگر ان تم پر اور یہ رسول اس رسول کی مانند ہے جس کو ہم نے فرعون کے پاس بھیجا.
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ (المزمل: ۱۸) منکر و! بتاؤ تو تم کیسے بچو گے عذاب سے اگر تم نے اس رسول کا انکار کیا.کیا معنی اگر فرعون موسیٰ علیہ السلام کے انکار سے سزایاب ہوا تو تم منکر و ! کیونکر بیچ سکتے ہو.یہ آیت شریف کتاب استثنا کے ۱۸ باب ۱۸ کی طرف راہنمائی فرماتی ہے.غرض اسی طرح کی بہت آیات قرآن کریم میں موجود ہیں اور ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے حضور علیہ السلام کو اپنی رسالت، نبوت، راستی اور راستبازی پر پورا اور اعلیٰ درجہ کا یقین تھا اور اولڈ ٹیسٹمنٹ اور نیوٹیسٹمنٹ کے ماننے والا بعد انصاف ہرگز انکار نہیں کر سکتا کیونکہ استثناء ۱۸ باب ۱۸ میں اور اعمال ۳ باب میں صاف لکھا ہے کہ ایک نبی موسیٰ علیہ السلام کی مانند آنے والا ہے اور توریت میں یہ بھی لکھا ہے کہ جھوٹا بنی جو از راہ کذب و افترا اپنے آپ کو موسیٰ علیہ السلام کی مانند کہے مارا جاوے گا.حضور ( فِدَاهُ أَبِى وَأُمِّي ) نبی عرب نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند رسول ہونے کا دعویٰ فرمایا جیسا گزرا اور آیت شریف وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة : ۶۸ ) جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں سے بچالے گا پڑھ کر پہرہ اور حفاظت کو بھی دور کر دیا.مدینہ کے یہود اور عیسائی قوم کو صاف صاف سنادیا کہ میں قتل نہ کیا جاؤں گا اور اللہ کے فضل سے قتل سے بیچ رہے صلی اللہ علیہ وسلم.عیسائی صاحبان! اگر نبی عرب اس دعوی نبوت میں (اور نبوت کا بھی وہ دعوای میں كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا فرما کر استثنا ۱۵ باب ۱۸ اور اعمال ۳ باب والا دعوی ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ نبی عرب قتل نہیں کئے گئے ) کا ذب ہیں (معاذ اللہ ) تو تو ریت کتاب مقدس نہیں بلکہ بالکل غلط اور کذب ہے.کیونکہ کتاب استثنا کے ۱۸ باب ۱۸ میں لکھا ہے جھوٹا بنی مارا جاوے گا.لاکن توریت شریف اگر الہام الہی سے ہے اور سچ تو ہمارے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم سچے
رسول اور فی نفس الامر استثنا ۸ ا باب والے رسول ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات اسی واسطے قرآن کریم بار بار حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی اور اپنے آپ کو مصدق لِمَا مَعَكُمْ (ال عمران: ۸۲) فرماتا ہے.کیا معنی قرآن کریم اور نبی عرب نے اپنے ظہور اور حفاظت اور قتل سے بیچ کر تو ریت کو سچا کر دکھایا.اب آگے سنو.قرآن کریم نے دعوئی فرمایا ہے ” قرآن میں اختلاف نہیں“.وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ( النساء:۸۳) قرآن کریم اگر اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں ضرور اختلاف ہوتا اور بہت اختلاف ہوتا.کیونکہ اختلاف دو طرح کا ہو سکتا ہے.اوّل یہ کہ قرآن کریم کے مضامین کو قانون قدرت تکذیب کرے اور قرآنی مطالب الہی انتظام اور فطری قوانین کے مخالف ہوں.یا ہمارے فطری قویٰ ان کو برداشت نہ کر سکیں.دوسری صورت اختلاف کی یہ ہے.قرآنی مضامین با ہم متعارض ہوں.غور کرو! ان پڑھ عرب کے ان پڑھ عربی نے (اللَّهُمَّ فَرِجُ عَنِّى مَا أَسْأَلُكُمْ) یہ قرآن لوگوں کو سنایا.پھر تیرہ سو برس کی سر توڑ نیچرل فلاسفی کی تحقیقات نے حضرت قرآن کلام الرحمن کے کسی مضمون کو یقینی طور پر نہ جھٹلایا اور اس تجربہ سے یقیں ہو گیا کہ آئندہ بھی کبھی نہ جھٹلائے.دوسری صورت اختلاف کی نسبت عرض ہے قرآن کریم تنیس برس میں لوگوں کو سنایا گیا اور اس مدت دراز میں حضور علیہ السلام کبھی تن تنہا ہیں اور کبھی ہزاروں ہزار خدام پر حکمران.کبھی دشمنوں پر حملہ آور اور کبھی احباب کے درمیان.گاہے گھر میں بیبیوں سے معاشرت.کسی وقت اعدا سے مباشرہ کبھی عرب کی بے دین اور جاہل قوم سے مکالمہ اور کبھی نصاری اور یہود کے علما سے مناظرہ.ایک وقت فقر ہے اور 1.
دوسرے وقت غنی وغیرہ وغیرہ.11 ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ایسی مختلف حالتوں میں کمزور انسان کے خیالات ہرگز ہرگز یکساں نہیں رہ سکتے ان میں تغیر اور اختلاف ضرور آ جاتا ہے مگر قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں با آنکہ تیئیس برس اور مختلف حالتوں میں اترا.اور قرآن مجید نے اپنی صفت میں یہ بھی فرمایا ہے كِتبًا مُتَشَابِهًا جب میں نے قرآن مجید سے ثابت کر دیا کہ نہ تو حضور علیہ السلام کو کوئی شک وشبہ ہے اور نہ قرآن میں اختلاف.تو اب سائل کے سوال پر توجہ کرتا ہوں.کیوں؟ اس لئے کہ مجھ کو کتاب مجید اور فرقان حمید سے جیسے گز را ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یقین کے اعلیٰ درجہ پر تھے اور قرآن میں اختلاف نہیں ، پھر سائل کہتا ہے کہ قرآن سے معلوم ہوتا کہ ہادی اسلام متشکلک تھے.بڑی دلیل سائل کی سورۃ بقرہ کی آیت ذیل ہے.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (البقرة: ۱۳۸) سواس کا پہلا جواب یہ ہے لَا تَكُونَنَّ نفی کا صیغہ ہے نہ نہی کا اور تاکید کے واسطے نون مشدد اس کے آخر زیادہ کیا گیا تو لا تَكُونَنَّ ہو گیا.مشد دنون ماضی اور حال پر نہیں آ سکتا.پس لا تَكُونَنَّ استقبال کا صیغہ ہوگا.اب اس تحقیق پر آیت کے یہ معنے ہوں گے:.یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ( چونکہ الہی الہام اور دلائل سے یہ حق ثابت ہو گیا ) تو تو کبھی شک والوں میں سے نہ ہوگا.دوسرا جواب.ہم نے مانا لا تكونَنَّ نفی نہیں نبی کا صیغہ ہے.مگر ہم کہتے ہیں نہی دو قسم ہوتی ہے.ایک طلب ترک فعل.دوم طلب عدم فعل.سائل کا اعتراض اس صورت میں ہے کہ یہاں نہی کو بغرض طلب ترک فعل لیا جاوے.جس کا یہ مطلب ہے کہ مخاطب فعل شک کو ترک
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۲ کر دیوے.مگر ہم کہتے ہیں یہاں شک معدوم ہے اور نہی کا منشا یہ ہے کہ جیسے شک معدوم ہے آئندہ بھی معدوم رہے.تیسرا جواب.سائل ! یہاں آیت فَلَا تَكُونَنَّ میں ایسا کونسا امر ہے جس کے باعث ہم کو خواہ مخواہ مانا پڑے کہ لا تَكُونَن کے مخاطب ہادی اسلام میں صلی اللہ علیہ وسلم.ہم کہہ سکتے ہیں بدلائل مذکورہ سابقہ حضور علیہ السلام کو اپنی رسالت پر یقین تھا اور قرآن کریم میں اختلاف نہیں.اس لئے ثابت ہوا لا تَكُونَنَّ کا مخاطب کوئی متردد اور شک کرنے والا آدمی ہے نہ حضور علیہ السلام.چوتھا جواب.ہم نے مانا اس جملہ لا تَكُونَنَّ کے مخاطب ہمارے پاک ہادی علیہ السلام ہیں مگر عبری اور عربی کا طرز کلام با ہم قریب قریب ہے اور کتب مقدسہ کا غیر محرف حصہ اور قرآن کریم دونوں ایک ہی متکلم کے کلمات ہیں اور دونوں ایک ہی مخرج سے نکلے ہیں اور دونوں کا محاورہ ہے کہ اعلیٰ مورث کو مخاطب کیا جاتا ہے اور مراد اس مورث کی قوم ہوتی ہے.کسی کو خطاب کرتے ہیں اور کسی دوسرے کو مقصود بالخطاب رکھتے ہیں.دیکھو یرمیا.ہائے کہ وہ دن بڑا ہے یہاں تک کہ اس کی مانند کوئی نہیں وہ یعقوب کی مصیبت کا وقت ہے.بر میا ۳۰ باب ۷ - ۱۰.اے میرے بندہ یعقوب ہراساں مت ہو.بر میا ۴۶ باب ۲۸.خداوند کا یہوداہ کے ساتھ بھی ایک جھگڑا ہے اور یعقوب کو جیسے اس کی روشیں ہیں ویسی سزا دے گا.ہوسیع ۱۲ باب ۲.دلاوری سے لبالب ہوں کہ یعقوب کو اس کا گناہ اور اسرائیل کو اس کی خطا جتا دوں میکه ۳ باب ۸.یعقوب کی رونق کو اسرائیل کی رونق کی مانند پھر بحال کرے گا.نحوم ۲ باب۲.اے ۱۲
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۳ گر ازین ( یہ ایک گاؤں کا نام ہے جو افسوس اور ملامت کے قابل نہیں ) تجھ پر افسوس ہے اے بیت صیدا ( یہ بھی گاؤں ہے ) تجھ پر افسوس متنی الباب ۲۱.اسے یروشلم ! اے یروشلم ! ( یہ بیت المقدس ہے) جو نبیوں کو مار ڈالتی ہے متی ۲۳ باب ۳۷.ایسی صدہا کتب مقدسہ صدہا جگہ دیکھ لو.اب اس طرح کے محاورات قرآن کریم سے سنو.طلاق دو.(1) يَايُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء (الطلاق:۲) اے نبی ! جب تم لوگو ! عورتوں کو (٢) يَايُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (الاحزاب :۲) اے نبی خدا سے ڈر اور کفار کی فرمانبرداری اور منافقوں کی اطاعت مت کر بیشک اللہ تعالے جو کچھ تم ( عام لوگوں کو خطاب ) کرتے ہو اس پر خبر دار ہے.(۳) وَسُئَلُ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَا (الزخرف: ۴۶) پوچھ اُن رسولوں سے جو تجھ سے پہلے گزرے.ان مقامات میں دیکھ لو یا “ کے لفظ سے مخاطب کون ہے اور طَلَّقْتُم سے کون.الی کے لفظ میں مخاطب کون اور تَعْمَلُونَ کے لفظ سے کون معلوم ہوتا ہے.مَنُ سے مراد کون ہے اور قَبلِكَ کس کا پتہ دیتا ہے.پانچواں جواب.میں نے مانا لا تَكُونَنَّ نہی کا صیغہ ہے اور نہی بھی بمعنی طلا ترک ہے اور یہاں مخاطب بھی سرور کائنات اور فخر موجودات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور مراد بھی وہی ہیں مگر میں کہتا ہوں جب لا تَكُن نہیں کے صیغہ پر نون مشدده تاکید کے لئے آیا اور نون تاکید مشد د ماضی اور حال پر ہر گز آتا نہیں.جس فعل پر آتا ہے اس کو استقبالی فعل کر دیتا ہے.پس لَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ کے معنے یہ ہوں گے:.اے محمد تو زمانہ ماضی اور حال میں شک کرنے والا نہیں رہا.اب آگے زمانہ استقبال ۱۳
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۴ میں بھی متردد اور متشکک نہ رہیں.گویا یہ الہی دعا ہے جو یقیناً قبول ہے یا جس حالت میں تیری جبات بھی ایسی تعلیم پر تر د والی نہیں تو اب تو میرے مطالب دلائل سے مدلل ہو چکے.چھٹا جواب.میں نے بفرض محال مان لیا تر در واقع ہوا تو کیا ایسا تر در حسب مسلمات عیسائیوں کے نبوت کے عہدہ سے معزول کر سکتا ہے ہرگز ہرگز نہیں.دیکھو موسیٰ علیہ السلام کی توریت کتاب خروج اور کتاب قاضی.موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نجات کے لئے منتخب فرمایا.تو حضرت موسیٰ فرماتے ہیں:.میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکالوں.خروج ۳ باب ۱۱.پھر موسیٰ علیہ السلام لگے عذر کرنے کہ میں اچھی طرح بول نہیں سکتا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بتاکید کہا کہ تو جا میں تیرے ساتھ ہوں.پھر اپنی کمزوری پر ان سب باتوں پر بقول عیسائیوں کے اطمینان نہ ہوا تو عرض کیا کہ کسی اور کومصر میں بھیج.تب باری تعالیٰ (موجودہ توریت کہتی ہے ) کا غصہ موسیٰ پر بھڑ کا دیکھو.تب خداوند کا قہر موسیٰ پر بھڑ کا.خروج ۴ باب ۱۴.اور جدعون نے جو کچھ کیا ہے وہ کتاب قاضی ۶ باب ۳۶ - ۴۰ درس سے ظاہر ہے.کیسے امتحانات کرتا رہا.ذرا منصف عیسائی اس پر پھر غور کریں.دوسرے سوال کا جواب میں نے قرآن کریم کو اس سوال کے خیال پر بہت بار دیکھا مگر با ہمہ تامل وتشکر مجھے کچھ معلوم نہ ہوا کہ سائل نے قرآن مجید کی کون سی آیت سے ایسا سوال نکالا.خاکسار سائل کے سوال کو بغرض سہولت بیان تین حصوں پر تقسیم کرتا ہے.حصہ اوّل سوال کا یہ ہے.اگر محمد پیغمبر ہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم ہے یعنی مجھے معلوم نہیں.۱۴
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۵ خاکسار عرض پرداز ہے.مخالف اور موافق لوگوں نے حضور علیہ السلام سے جس قدر سوال کئے اُن کا جواب اگر ممکن تھا تو حضور علیہ السلام نے ضرور دیا ہے.قرآن میں حسب ذیل سوالات کا تذکرہ موجود ہے منصف غور کریں.اوّل رمضان کے مہینہ اور روزوں کے چاند کا تذکرہ جب قرآن کریم نے کیا تو لوگوں نے رمضان کے اور اور چاندوں کا حال دریافت کیا.جیسے قرآن کہتا ہے.اور ماہ رمضان کے تذکرہ کے بعد اس سوال کا تذکرہ کرتا ہے:.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ (البقرة : ١٩٠) پوچھتے ہیں تجھ سے رمضان کے سوا اور چاندوں کا حال یعنی ان میں کیا کرنا ہے اس سوال کا جواب سوال کے بعد ہی بیان کیا گیا اور جواب دیا.قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج تو اس سوال کے جواب میں کہہ دے یہ چاندلوگوں کے فائدہ اٹھانے کے وقت ہیں اور بعضے چاندوں میں حج کے اعمال ادا کئے جاتے ہیں.دوسرا سوال یہ ہے.يَسْلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ (البقرة :۲۱۶) سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں.اس کا جواب قرآن نے دیا ہے مَا انْفَقْتُم مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ جو کچھ خرچ کرو مال سے تو چاہیئے کہ وہ تمہارا دیا اور خرچ کیا تمہارے والدین اور تمہارے رشتہ داروں اور یتیموں اور غریبوں اور مسافروں کے لئے ہو.تیسرا سوال - يَتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ (البقرة: ۲۱۸) پوچھتے ہیں تجھ سے حرمت والے مہینہ کے متعلق کہ اس میں جنگ کا کیا حکم ہے ؟ تو جواب دیا قُلْ قِتَالُ فِيْهِ كَبِيرٌ وَصَدُّ عَن سَبِیلِ اللهِ تو جواب دے.اس مہینہ میں لڑائی کرنا بری بات ہے اور اس سے حج و عمرہ کیسی عبادت سے روکنا لا زم آتا ہے.چوتھا سوال - يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ (البقرة: ۲۲۰) پوچھتے ہیں تجھ سے شراب اور جوئے کی بابت.تو جواب دے فِيهِمَا اثم كَبِير شراب خوری اور قمار بازی نہایت بڑی اور بری بدکاری ہے.۱۵
۱۶ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات پانچواں سوال - يَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ (البقرۃ: ۲۲۰) پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں.تو جواب دے العفو اپنی حاجت سے زیادہ مال کو خرچ کرو.چھٹا سوال - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ (البقرة: ۲۲۳) پوچھتے ہیں حیض میں عورت سے صحبت جائز ہے یا نہیں.تو جواب دے قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ حیض کے دنوں میں جماع کرنا دکھ دیتا ہے.حیض کے دنوں میں عورتوں کی صحبت سے الگ رہو.ساتواں سوال.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتى (البقرۃ:۲۲۱) پوچھتے ہیں یتیموں کے متعلق.جواب دے اصلاح لَهُمْ خَیر قیموں کے مال ، عزت، پرورش غرض ہر طرح ان کی اصلاح اور سنوار عمدہ بات ہے.آٹھواں سوال - يَتَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ (المائدۃ:۵) پوچھتے ہیں کیا کچھ کھانے میں حلال ہے.جواب دے أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبت تمہارے لئے تمام وہ چیزیں جو غالب عمرانات کے سلیم الفطرتوں میں ستھرے اور پسندیدہ ہیں وہ تو حلال کر دی گئیں.نواں سوال.يَتَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ (الانفال : ۲) تجھ سے پوچھتے ہیں غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ تو جواب دے آلا نُفَالُ لِلهِ وَالرَّسُولِ غنیمت کی تقسیم اللہ پھر رسول کے اختیار میں ہے.دسواں سوال - يَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ (الكهف:۸۴) ذوالقرنین کا قصہ تجھ سے پوچھتے ہیں.تو جواب میں قصہ سنادے انا مكنَّالَهُ فِي الْأَرْضِ (الكهف:۸۵) سے ذوالقرنین کا قصہ شروع کر دیا اور بقدر ضرورت اسے تمام کیا.یہ ذوالقرنین وہ ہے جس کا ذکر دانیال ۸ باب ۸ میں ہے.گیارھواں سوال - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ (طه: ۱۰۶) تجھ سے پوچھتے ہیں ایسے مضبوط پہاڑ کیا ہمیشہ رہیں گے.تو جواب دے يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفَا اڑادے گا اور پہاڑوں کو پاش پاش کر دے گا میرا رب.17
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۷ بارھواں سوال.يَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ (بنی اسرائیل: ۸۶) تجھ سے سوال کرتے ہیں قرآن کس کا بنایا ہوا ہے.تو جواب دے مِنْ اَمرِ رَئِی یہ قرآن میرے رب کا حکم اور اسی کا کلام ہے.یا درکھو میں نے روح کا ترجمہ قرآن کیا ہے.اس کے کئی باعث ہیں.اول قرآن میں خود اس وحی اور کلام الہی کو روح کہا گیا.وَالْقُرانُ يُفَسِّرُ بَعْضُهُ بَعْضًا دیکھو وَكَذَلِكَ أَوْ حَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا (الشوری: ۵۳) اور اس طرح وحی کی ہم نے تیری طرف روح اپنے حکم سے.دوم يَتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ (بنی اسرائیل: ۸۶) کے ماقبل اور مابعد صرف قرآن کریم کا تذکرہ ہے ہاں ممکن ہے کہ ہم اس آیت میں روح کے معنے اُس فرشتہ کے لیں جو وحی لاتا تھا اور جس کا نام اسلامیوں میں جبرئیل ہے.یا یوں کہیں کہ روح کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کا سوال ہوا جواب دیا گیا روح حادث اور رب کے حکم سے ہوا ہے.تیرھواں سوال - يَسْتَلُكَ أَهْلُ الْكِتَبِ (النساء: ۱۵۴) مانگتے ہیں تجھ سے یہودی اور عیسائی اہل کتاب أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَبَّا مِنَ السَّمَاء کہ اُن پر اتار دے تو ایک کتاب آسمان سے.یہ سوال اہل کتاب نے اس لئے کیا کہ محمدصلی صاحب ( اللہ علیہ وسلم ) نے دعوی کیا ہے کہ میں موسیٰ کی مانند نبی ہوں اور وہی ہوں جس کی بابت توریت استثنا کے ۱۸ باب ۱۸ میں پیشگوئی موجود ہے اور اس نبی کی پیش گوئی تو ریت میں اس طرح لکھی تھی:.تجھ سا ایک بنی بر پاکروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.استثنا ۸ باب ۱۸.پس لامحالہ اس نبی کے واسطے کوئی ایسی کتاب آسماں سے نہ اترے گی جولکھی لکھائی آجاوے کیونکہ توریت میں تو لکھا ہے اپنا کلام اس کے منہ میں دوں گا، پس ایسے سوال کے جواب میں فرمایا فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَى اَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ فَقَالُوا آرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً (النساء:۱۵۴).۱۷
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۸ باقی پانچ سوال یہ ہیں جن کے جواب میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے.میرا رب جانتا ہے:.اوّل يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا (الاعراف: ۱۸۸) پوچھتے ہیں قیامت کی گھڑی کب ہوگی.جواب دیا.قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبّى تو کہہ اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے.دوسرا يَسْلُوْنَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ (الريست: ۱۳) پوچھتے ہیں جزا کا دن کب ہوگا.جس کا جواب کچھ نہیں دیا.غالبا اس لئے کہ وہ ہمیشہ ہی ، یا کہ اس لئے کہ ان کی مراد قیامت سے ہے.تیرا يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا (الشرعت : ۴۳) پوچھتے ہیں وہ گھڑی کب ہوگی.جس کا جواب ديا: فِيمَ اَنْتَ مِنْ ذِكرتها إلى رَبَّكَ مُنْتَههَا (الشرعت : ۴۵،۴۴) تجھے ایسے قصوں سے کیا اس کا علم رب تک ہے.چوتھا يَسْتَلْكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ (الاحزاب: ۶۴) پوچھتے ہیں اس ساعت سے.جس کا جواب دیا: إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے.پانچواں يَسْتَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا (الاعراف: ۱۸۸) جس کا جواب دیا علمُهَا عِنْدَ اللهِ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا تو ایسی باتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے اس کا علم اللہ کے پاس ہے.لاکن اس سوال کا جواب نہ دینے سے نبوت میں کوئی نقص نہیں آتا کیونکہ حضرت مسیح فرماتے ہیں اس دن اور اس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتہ تک کوئی نہیں جانتا.متی ۲۴ باب ۳۶.اور جگہ فرماتے ہیں:.اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں اور نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا ہے.مرقس ۱۳ باب ۳۲.سائل اور اس کے ہم خیال غور کریں اس گھڑی کی بابت حضرت مسیح کیا فتویٰ.ایسی ۱۸
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۱۹ گھڑی کا وقت نہ بتانا اگر نبوت اور رسالت میں خلل انداز ہے تو حضرت مسیح کی نبوت اور رسالت بلکہ عیسائیوں کی مانی ہوئی مسیح کی الوہیت میں خلل پڑے گا.سائل کےسوال کا دوسرا حصہ اور اصحاب کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے.جواب.نہ قرآن کریم نے اصحاب کہف کی تعداد بیان فرمائی اور نہ رسول کریم نے.معلوم نہیں ہو سکتا کہ سائل نے غلط بیانی کا اتہام کیونکر لگایا.جب حضرت رسالت مآب نے تعداد کو بتایا ہی نہیں اور اس کا بیان ہی نہیں کیا تو غلط بیانی کہاں سے آگئی.مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے سائل کسی کے دھو کہ میں آ کر یہ سوال کر بیٹھا ہے کیونکہ قرآن مجید میں جہاں اصحاب کہف کا قصہ لکھا ہے وہاں تعداد کے متعلق یہ آیت ہے:.سَيَقُولُونَ ثَلَثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ ط رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُلْ رَّبِي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ (الكهف : ٢٣) ترجمہ.لوگ کہیں گے تین ہیں چوتھا اُن کا کتا اور کہتے ہیں پانچ ہیں چھٹا اُن کا کتا ہے.بے نشانہ تیر چلاتے ہیں اور کہتے ہیں سات ہیں اور آٹھواں کتا ہے.تو کہہ دے (اے محمد ) میرا رب ہی اُن کی تعداد جانتا ہے اور اُن کو تھوڑے ہی جانتے ہیں.اس آیت شریف سے صاف صاف واضح ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہیں گے.اور لوگ فلاں فلاں تعداد اصحاب کہف کی بیان کریں گے.لاکن ان لوگوں کا کہنا ” بن نشانہ تیر چلانا ہے اعتبار کے قابل نہیں.غرض حضرت نبی عرب نے کوئی تعداد اصحاب کہف کی نہیں بتائی.۱۹
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۰ اور سائل کے سوال کا تیسرا حصہ یہ ہے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا غرق ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نو کروڑ ھے بڑا ہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے.الجواب سائل صاحب ! تمام قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا یا غرق ہوتا ہے پادریوں کو مدت سے یہ دھوکا لگا ہے کہ قرآن میں ایسا لکھا ہے حالانکہ قرآن میں نہیں لکھا.بات یہ ہے کہ اس ذوالقرنین کا قصہ جس کا ذکر دانیال نبی کی کتاب ۸ باب ۴ میں ہے قرآن کریم نے ایک جگہ بیان فرمایا ہے اور اس میں کہا ہے جب وہ مید اور فارس کا بادشاہ اپنے فتوحات کرتا ہو ابلا دشام کے مغرب کو پہنچا تو اس خاص زمین کے مغرب میں ایک جگہ سورج دلدل میں ڈوبتا ذوالقرنین کو معلوم ہوا.غالبا جب ذوالقرنین بلیک سی و بحیرہ اسود یا ڈینیوب کے کنارے پہنچا تو اس وقت ذوالقرنین کو اس نظارہ کا موقع ملا..ہم نے مانا کہ سورج زمین سے بہت بڑا ہے لا کن چونکہ ہم سے بہت ہی دور ہے اس واسطے ہم کو چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے اور زمین چونکہ کروی الشکل ہے اس واسطے غروب کے وقت ہم کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے فلاں حصہ یا پہاڑ کے فلانے چوٹی کے پیچھے یا ناظر کے افق کے فلاں درخت کے پیچھے یا اگر ہمارے مغرب میں پانی اور دلدل ہو جیسے ذوالقرین کو موقع لگا تو ہم کو مغرب کے وقت سورج اس پانی اور دلدل میں غروب ہوتا ہوا معلوم دے گا.تیسرے سوال کا جواب پہلا جواب.جن آیات کریمہ کا سائل نے حوالہ دیا ہے اور ان سے استدلال کیا ہے که حضور بادی اسلام سے کوئی معجز و ظہور پذیر نہیں ہوا.ان میں معجزہ کا لفظ بالکل موجود نہیں.۲۰
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۱ پس آیات سے کیونکر ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام سے کوئی معجزہ سر ز دنہ ہوا.دوسرا جواب.وہ کون لفظ ہے جس سے سائل کو ظاہر ہوا اور اُس نے کہا.(اس سے صاف ظاہر ہے خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا) حالانکہ جو تر جمہ آیت کا سائل نے خود لکھا ہے اس میں بھی معجزے کا لفظ نہیں.تیسرا جواب.اگر آیت یا آیات کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیا سرور اصفیا کے ہاتھ پر کوئی معجزہ نہیں ہوا تو سائل صاحب غور کریں اور خوب غور کریں کیونکہ سورہ عنکبوت اور سورہ بنی اسرائیل سے جن کا حوالہ سائل نے دیا ہے معاملہ بالعکس نظر آتا ہے.دونوں سورتیں بتا کید معجزات کے وجود کو ثابت کرتی ہیں.اول سورۂ عنکبوت کی آیت نشان دادہ معترض کے پہلے یہ آیات ہیں.وَكَذَلِكَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ فَالَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَ مِنْ هَؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِه وَمَا يَجْحَدُ بِايْتِنَا إِلَّا الْكَفِرُونَ (العنکبوت: ۴۸) ایسے ہی ہم نے اتاری تجھ پر کتاب سمجھ والے اہل کتاب تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور مکہ والوں سے بھی کچھ اس پر ایمان لانے والے ہیں اور ہماری نشانیوں ( معجزوں) کا کافروں کے سوا کوئی منکر نہیں.وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَبٍ وَلَا تَخْطُهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّا رْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ (العنكبوت : ۴۹) تو اس وقت سے پہلے لکھا پڑھا نہیں تھا ایسی بات ہوتی تو یہ جھوٹے دھوکا کھاتے.کیا معنے اب دھو کے کے باعث منکر نہیں صرف ضد اور ہٹ اور عداوت ہے کے سبب سے منکر ہور ہے ہیں.بَلْ هُوَ ايْتُ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِايَتِنَا إِلَّا الظَّلِمُونَ وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ أَيتُ مِنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْايْتُ عِنْدَ اللهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ يُتْلَى عَلَيْهِمُ (العنکبوت: ۵۰ تا ۵۲) بے ریب وہ ۲۱
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۲ ( قرآن ) کھلی نشانیاں ہیں علم والوں کے لئے اور ہماری نشانیوں سے وہی منکر ہیں جو بڑے ظالم ہیں اور کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر نشانیاں اس کے رب سے تو کہہ نشانیاں تو اللہ پاس ہیں.وہی بھیجتا ہے اور میں نہ ماننے والوں کو کھلا ڈر سے خبر دینے والا ہوں.کیا اُن کو یہ نشانیاں کافی نہیں جو ہم نے اتاری تیری طرف کتاب پڑھی جاتی ان پر.منصف عیسائیو! اگر لفظ آیت جس کے معنے نشانی کے ہیں اور لفظ آیت کی جمع لفظ آیات کے معنے معجزے کے ہیں تو قرآن کریم بہت جگہ معجزہ کو ثابت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ محمدی معجزوں کے منکر جن کو آیہ کہا جاتا ہے کا فر ہیں فاسق ہیں اور ظالم.غور کرو.وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ أَيْتٍ بَيْتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفُسِقُونَ (البقرة : ١٠٠) اور بے شک ضرور ہی بھیجیں ہم نے تیرے پاس کھلی نشانیاں اور اُن کا منکر کوئی نہیں مگر فاسق لوگ.بَلْ هُوَ ايَتٌ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِايَتِنَا إِلَّا الظلِمُونَ (العنکبوت: ۵۰) بے ریب کھلے نشان ہیں علم والوں کے دلوں میں اور ہمارے نشانوں سے ظالموں کے سوا کوئی بھی منکر نہیں.ماونهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنُهُمُ سَعِيرً ا لِكَ جَزَاؤُهُمْ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِأَيْتِنَا (بنی اسرائیل: ۹۹٬۹۸) عرب کے منکروں کو سورۃ بنی اسرائیل میں حکم ہوتا ہے ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہو گا جب بجھنے لگے اس کی آگ کو زیادہ تیز کریں گے یہ اس لئے کہ ان کو بدلہ ہے اس کفر کا جو انہوں نے ہمارے نشانوں سے کیا.یادداشت ہم پہلے سوال کے جواب میں لکھ چکے ہیں قرآن کریم میں ہرگز ہرگز اختلاف نہیں.جب قرآن کریم نے بتادیا کہ محمد صلی اللہ علیہ کی صداقت پر ہم نے نشان بھیجے تو ایسا ہر گز ممکن نہ ہوگا ۲۲
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۳ کہ قرآن میں یہ بھی لکھا کہ ہم نے نشان نبوت حضرت نبی عرب کو نہیں دیئے کیونکہ ایسا ماننے سے قرآن میں اختلاف ہو جائے گا اور قرآن میں اختلاف نہیں.علاوہ بریں کسی قرآنی آیت میں یوں نہیں آیا کہ ہم نے نشانات نبوت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کونہیں دیئے.معجزوں کے انکار پر جن آیات سے سائل اور اس کے کسی ہم خیال عیسائی اور ان کے پیرو آریہ نے استدلال کیا ہے ان آیات پر مفصل گفتگو تصدیق براہین میں دیکھو اور بقدر ضرورت یہاں عرض ہے:.پہلے وہ آیت جس سے نبی عرب اور محسن تمام خلق صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے منکروں نے دھو کہ کھایا ہے اور جس کا ذکر بہت سننے میں آیا ہے یہ ہے:.وَمَا مَنَعَنَا أَنْ تُرْسِلَ بِالْايْتِ إِلَّا اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ (بنی اسرائیل :۲۰) اس آیت شریف سے منکرین نے یقین کیا ہے کہ حضرت نبی عرب پر معجزہ کا ظہور نہیں ہوا کیونکہ معنے اس آیت کے یہ سمجھے ہیں کہ پہلوں نے معجزات کو جھٹلایا.اس واسطے ہم معجزات کے بھیجنے سے رک گئے مگر یہ ان کا خیال غلط ہے.اوّل اس لئے کہ معجزات اور آیات کے وجود کا تذکرہ قرآن کریم میں بکثرت موجود ہے اور محمد صاحب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزات کے نہ مانے والوں کو اس لئے کہ بداہت اور موجودہ چیز کے منکر ہیں ظالم اور فاسق اور کافر کہا ہے اور اِلَّا کا لفظ جو مَا مَنَعَنا والی آیت میں ہے عرب کی زبان میں جن کی بولی پر قرآن کریم ہے زائد بھی آتا ہے.دیکھوذ والرمہ کا یہ قول على الخف اونرمي بها بلداً قفراً حراجيح ماننفك الا مناخةً میرے لمبے قد کی اونٹنی ذلیل بیٹھی رہتی ہے یا اس پر دور دراز کے بے آب و گیاہ میدانوں کا سفر کرتا ہوں.دیکھو اس تحقیق پر.اس آیت شریف کے معنی جس کو منکرین معجزہ پیش کرتے ہیں یہ ہوئے اور نہیں منع کیا ہم کو نشانوں کے بھیجنے سے پہلوں کی تکذیب نے کم سے کم یہ آیت انکار معجزہ پر صاف اور واضح دلیل نہ رہی کیونکہ اس آیت سے معجزہ کا ثبوت نکلتا ہے ۲۳
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۴ لْقَى - وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ إِنْ هَذَا إِلَّا بِتَائِيْدِ رُوْحِ الْقُدُسِ.دوم اس لئے کہ الا ایک حرف ہے جس کے معنے واؤ عاطفہ بھی آتے ہیں.دیکھو معانی اور نحو کی بڑی بڑی کتابیں اور ثبوت کے لئے دیکھو یہ آیت شریف:.اِنّى لَا يَخَافُ لَدَى الْمُرْسَلُوْنَ إِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوء ( النمل : ۱۲،۱۱) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے پاس میرے رسولوں اور انہیں خوف ہی نہیں جنہوں نے گناہ کرتے کرتے گناہوں کو چھوڑ دیا اور گناہوں کے جابجا نیکی کرنے لگے.امام اخفش، امام فراء، امام ابو عبید ائمہ لغت و نحو نے کہا ہے یہاں الا واؤ کے معنے پر آیا ہے ایسے ہی آیت شریف لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ ، إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمُ (البقرة :(۱۵) تو کہ نہ رہے تم پر عام لوگوں اور خاص کر بدکاروں کی کوئی حجت اور دلیل.پھر اس تحقیق پر منکرین کے پیش کردہ آیت یہ معنی ہوں گے:.اور نہیں منع کیا ہم کو آیات کے بھیجنے سے کسی چیز نے اور منکروں کی تکذیب نے.اور یہ عطف خاص کا ہوگا عام پر.غور کرومنکروں کی تکذیب ہرگز ہرگز معجزات کے روکنے والے نہیں.اگر ان کی تکذیب روکتی تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بڑے بڑے معجزات کا انکار کیا تھا پھر کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو معجزات عطا نہ کئے بلکہ منکر ہمیشہ انکار کرتے رہے اور معجزات بھی آتے رہے.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَهَذَا بِتَائِيدِ رُوحِ الْقُدُسِ.- تیسرا اس لئے کہ ہم نے مان لیا یہاں الا کا لفظ زائد نہیں.عاطفہ بھی نہیں.استثنا کے واسطے ہے.الآیات کا الف اور لام عہد اور خصوصیت کے معنے دے گا یا عموم اور استغراق کے.پہلی صورت عہد اور خصوصیت کی اگر ہوگی تو آیت کے یہ معنے ہوں گئے اور نہیں منع کیا ۲۴
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۵ ہم کو خاص آیات کے بھیجنے سے مگر پہلوں کی تکذیب نے“.اس سے یہ نکلا کہ خاص آیات اور کوئی خاص معجزات نہ آدیں گے.اس سے عموم معجزات کی نفی ثابت نہیں ہوتی.دوسری صورت یعنی اگر الف اور لام سے عموم اور استغراق لیا جاوے تو یہ معنی ہوں گے.کل آیات کے ارسال سے پہلوں کی تکذیب نے روکا.مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوئی بھی معجزہ نہیں بھیجیں گے.چہارم اس لئے کہ اس مَا مَنَعَنا والی آیت سے اتنا ہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معجزات کے بھیجنے سے تکذیب کے ماورا کسی چیز نے نہیں روکا اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی روک نہیں.کہیں منکروں کی تکذیب سے باری تعالیٰ کو حجت بند کر دیتا ہے؟ ہمیشہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی تکذیب ہوئی مگر وہ آتے رہے ہمیشہ معجزات پر تکذیب ہوا کی اور معجزات ہوا کئے.الہی طاقتیں اور قوتیں منکرین کی روک سے رکتی نہیں.مَنَعَنا لفظ کے معنے ہیں روکا ہم کو.اس لفظ کے یہ معنی نہیں کہ ہم رک گئے.ہاں اگر قرآن کریم میں یوں ہوتا.مَا امْتَنَعَنَا اَنْ نُّرْسِلَ بالا يَاتِ إِلَّا انُ كَذَّبَ بِهَا أَلَا وَّلُونَ جس کے معنی ہیں نہیں رکے ہم آیات اور نشانات کے بھیجنے سے مگر اس لئے کہ پہلوں نے تکذیب کی.تو البتہ منکرین معجزہ کی تقریر کچھ تھوڑی دور تک پڑتی مگر قرآن میں اِمْتَنَعَنَا نہیں مَنَعَنا ہے جس کے معنی ہیں روکا ہم کو نہ یہ کہ نہ رکے ہم.غرض تکذیب نے روکا اور باری تعالیٰ نہ رکا.روکنے کے ثبوت میں بفرض و تسلیم یہی آیت اور نہ روکنے کا ثبوت وہ آیات ہیں جن میں ثبوت آیات ہے وَالْقُرْآنُ مُتَشَابِهًا أَي يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضاً.قرآن کریم کی آیات متشابہ ہیں یعنی ایک آیت دوسری آیت کے مصدق ہوتی ہے نہ اس کے مخالف اور مکذب - هذَا أَيْضًا بِتَأْتِيدِ رُوحِ الْقُدُسِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ پنجم اس لئے کہ بعض وہ معجزات جن کو یہودی اور عیسائی اور اہل مکہ اہل کتاب کے سمجھانے اور بہکانے سے پوچھتے تھے جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش گوئیوں اور بشارتوں کے ۲۵
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۶ بالکل خلاف تھے.اور ایسے معجزات کو مخالف لوگ اس واسطے طلب کرتے تھے کہ اگر یہ معجزات خلاف بشارات ظہور پذیر ہوئے تو ہم بشارات اور حضور کی ان پیش گوئیوں کے ذریعہ حضور پر اعتراض کریں گے جو انبیا نے کتب مقدسہ میں حضور کے حق میں کئے ہیں.اور اگر ایسے معجزات بلحاظ ان بشا رات کے ہم کو دکھائے نہ گئے تو معجزات کے نہ ہونے کا الزام قائم کر دیں گے مثلاً حضور علیہ السلام کی نسبت ایک بشارت میں یہ آیا ہے کہ جو کلام اس نبی موعود پر اترے گا وہ ایک دفعہ کتاب کے طور پر نازل نہ ہوگا بلکہ وہ کلام اس نبی موعود صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں رکھا جائے گا کچھ یہاں اور کچھ وہاں.غور کر و کتب مقدسہ کی آیات ذیل:.ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.استثنا ۱۸ باب ۱۸ حکم پر حکم حکم پر حکم قانون پر قانون.قانون پر قانون ہوتا جاتا..تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں.ہاں وہ وحشی (عربی) کیسے ہونٹوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ سے باتیں کرے گا.یسعیا.۲۸ باب ۹.ان آیات سے صاف عیاں ہے کہ اس نبی موعود کو جو کلام عطا ہوگا وہ اس نبی کے منہ میں ڈالا جاوے گا اور بتدریح نازل ہوگا.کچھ یہاں کچھ وہاں یعنی کچھ مکہ میں اور کچھ مدینہ میں کچھ کہیں کچھ کہیں.اب قرآن کریم کی طرف نگاہ کر واس میں ایک جگہ لکھا ہے.کافر کہتے ہیں :.تَرْقُ فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرَقِيَّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتبًا نَّقْرَؤُهُ (بنی اسرائیل: ۹۴) تو اے محمد چڑھ جا آسمان میں اور ہم تیرے چڑھنے پر تجھے نہ مانیں گے جب تک اوپر سے ایسی کتاب نہ لا وے جس کو ہم پڑھ لیں.اب بتلائیے اس طلب کا بجز اس کے کیا جواب ہو سکتا ہے کہ پاک ذات ہے میرا رب اس نے میرے لئے جو تجویز فرما دی وہ ناقص نہیں کہ اب اس تجویز کو بدلا وے اور میں تو بشر رسول ہوں.بشر رسول تو ہمیشہ وہی معجزات دکھاتے رہے جو ان کی بشارت کے برخلاف نہ تھے ۲۶
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۷ اور وہی نشان لائے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے واسطے مقرر فرمائے تھے.ششم اس لئے کہ معجزات کا ظہور اور انبیا کا فرمودہ کبھی بتدریج ظہور پذیر ہوتا ہے اور انبياء عليهم الصلوۃ والسلام چونکہ بشر اور رسول ہوتے ہیں وہ کوئی ایسی مخلوق نہیں ہوتے کہ خدائی ارادے کا خلاف چاہیں.شریر لوگ ایسے موقت معجزات کو قبل از وقت چاہتے ہیں.چونکہ وہ معجزات وقت معین پر ظاہر ہونے والے اور مشروط بشرائط ہوتے ہیں اس لئے قبل از تحقق شرائط اور اس وقت معین کے ظہور پذیر نہیں ہو سکتے.مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان بنی اسرائیل سے جو فرعون کی سخت تکالیف اٹھا رہے تھے وعدہ ہوا کہ تم کو کنعان وغیرہ وغیرہ کا ملک عطا ہوگا دیکھو تو ریت.میں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصر میں ہیں یقیناً دیکھی اور ان کی فریاد جو خراج کے محصولوں کے سبب سے ہے سنی اور میں ان کے دکھوں کو جانتا ہوں اور میں نازل ہوا ہوں کہ انہیں مصریوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں اور اس زمین سے نکال کے اچھی وسیع زمین میں جہاں دودھ اور شہد موج مارتا ہے لے جاؤں.کنعانیوں، حتیوں ، امور یوں ،فرزیوں،حویوں ، پیوسیوں کی جگہ میں لاؤں خروج ۳ باب ۷.۹.مگر دیکھو یہ وعدہ اس قوم کے حق میں پورا نہ ہوا جنہوں نے فرعون سے دکھ اٹھایا.دیکھو: خداوند نے تمہاری باتیں سنیں اور غصہ ہوا اور قسم کھا کے یوں بولا کہ یقیناً ان شریر لوگوں میں ایک بھی اس اچھی زمین کو جس کے دینے کا وعدہ میں نے ان کے باپ دادوں سے قسم کھا کے کیا ہے نہ دیکھے گا مگر یفتہ کا بیٹا کا لب اسے دیکھے گا استثنا.اباب ۳۶،۳۵.ایسے ہی چند معجزات کفار مکہ نے طلب کئے ہیں جن کا ذکر ذیل میں ہے.ا وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَثْبُوعًا (بنی اسرائیل: ۹۱) ٢ اَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجَّرَ الْأَنْهرَ خِللَهَا تَفْجِيرًا أوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللهِ وَالْمَلَكَةِ قَبِيلًا أَوْ يَكُوْنَ ۲۷
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۲۸ لكَ بَيْتُ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرَقِيْكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كتبًا نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبّى هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (بنی اسرائیل: ۹۲ تا ۹۴) آیات مرقومہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کفار مکہ نے ایسے چھ معجزہ حضرت علیہ السلام سے طلب کئے جو اُس وقت سر دست منکروں کو دکھائے نہیں گئے.مگر غور کرو یہ مجزے کیوں طلب کئے گئے اور کیوں انکار فوری ظہور نہ ہوا.پہلا معجزہ جس کو کفار مکہ نے طلب کیا ہے کہ الارض یعنی اس خاص مکہ کی زمین میں چشمے چلیں.اور دوسرا معجزہ.جس کو انہوں نے مانگا یہ ہے کہ تیری کھجوروں اور انگوروں کے ایسے باغ ہوں جن میں نہریں چلتی ہوں.یہ دونوں معجزے اس واسطے طلب کئے گئے کہ کتب مقدسہ بضمن بشارات محمد یہ لکھا ہے ہاں میں بیابان میں ایک راہ اور صحرا میں ندیاں بناؤں گا.اور دشت کے گیڈر اور شتر مرغ میری تعظیم کریں گے کہ تین بیابان میں پانی اور صحرا میں ندیاں موجود کروں گا کہ وے میرے لوگوں کو میرے برگزیدوں کو پینے کے لئے ہو دیں.میں نے ان لوگوں کو اپنے لئے بنایا وے میری ستائش کریں گے یسعیا ۴۳ باب ۱۹.۲۱ تک.اور دیکھو کس نے یعقوب کو حوالہ کیا کہ غنیمت ہوویں اور اسرائیل کو کہ لٹیروں کے ہاتھ میں پڑے.کیا خداوند نے نہیں جس کے مخالف ہو کے انہوں نے گناہ کیا کیونکہ انہوں نے نہ چاہا کہ اس کی راہ چلیں.یسعیا ۴۲ باب ۲۴.اور یسعیا کے ۲۱ باب میں عرب کی بابت الہامی کلام یوں ہیں.پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اے تیما کی سرزمین کے باشندو، روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.یسعیا ۲۱ باب ۱۳.اور پھر کہا ہے.مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے.ان آیات سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ بیابان اور صحرا میں چشمے جاری ہوں گے ندیاں ۲۸
۲۹ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات چلیں گی مگر اس میں یہ لکھا ہے کہ برگزیدوں کو پینے کے لئے ہوویں.دیکھو یسعیا ۲ باب ۱۷،۱۶.بنی اسرائیل کے ایسے باغ عربوں کے ہاتھ ضرور آدیں گے جن میں نہریں چلتی ہوں مگر بنی اسرائیل مکہ میں آباد نہیں.وہ زمانہ ہجرت کے بعد ہے جس میں یہ بشارت پوری ہوگئی.کفار اہل کتاب کے بہکائے پر دھوکہ دیتے ہیں مگر دیکھونبوی معجزات اور محمد یہ کرامات کیسے زبر دست ہیں.اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں کے واسطے اس بیابان اور صحرا میں ندیاں چل گئیں نہ کفار کے لئے.دیکھو نہر زبیدہ مکہ میں اور بنی زرقا کی نہر مدینہ طیبہ میں برگزیدوں کے پینے کے واسطے موجود ہیں.بنو قریظہ اور بنو نضیر کے مکانات برگزیدوں کے قبضہ میں آچکے اور کھجوروں اور انگوروں کے ایسے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں حضور کیا حضور کے خادمان کے پاس وہاں موجود ہیں.موسیٰ علیہ السلام کے وعدوں سے ( ملک کنعان وغیرہ کی حکومت سے وہ نسل اکثر محروم رہی ) اور حضور کے بابرکات معجزوں سے آپ کی اکثر قوم وعدہ کو دیکھ چکی اور انشاء اللہ یقیناً حقیقی کنعان میں بھی پہنچ جائیں گے.تیسرا اور چوتھا معجزہ یہ کہ منکروں پر آسمان ٹوٹ پڑے اور اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کی افواج کفار کو تباہ کر دے یہ دونوں معجزہ بھی جن کو کفار نے طلب کیا کتب مقدسہ میں موجود ہیں.دیکھو خدا سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد دسیوں کے ساتھ آیا.استثنا ۳۳ باب ۲.یہ پیشگوئی نہایت عمدگی سے اس دن پوری ہوئی جس دن حضور علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو فتح فرمایا.غور کر و بخاری مطبع میرٹھ کا صفحہ ۶۱۳ اور بخاری مصری کا جلد ۲ صفحہ ۵۰ حضور کے ساتھ اس دن دس ہزار ہاں ٹھیک دس ہزار قدوس اصحابی جن کے ساتھ ملائکہ تھے موجود تھا اور اس دن ۲۹
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۳۰ مکہ کے کفار پر آسمان ایسا ٹوٹ پڑا کہ وہاں ان کا نام ونشان بھی نہ رہا.یادر ہے ہاجرہ عرب کا کوہ سینا ہے دیکھونا مہ گلیاں ۴ باب ۲۵.پس معنے ہوں گے ہاجرہ کی پشت سے.اور فاران خود وادی حجاز کو کہتے ہیں اور شعیر میں دو دفعہ حضور بطور تجار تشریف لے گئے اور بدر کی لڑائی میں بھی ملائکہ کا لشکر اسلام کا گہر امددگار تھا دیکھو قرآن سورہ ال عمران.پانچواں معجزہ کہ تیرا گھر بڑا ز بنت والا ہو.یہ کتب مقدسہ سے لیا گیا.تیرے پتھروں کو سرمہ لگاؤں گا اور تیری بنیاد فیلموں سے ڈالوں گا.میں تیری فصیلوں کو لعلوں سے اور تیرے پھانکوں میں چمکتے ہوئے جواہر سے اور تیرا سارا احاطہ بیش قیمت پتھروں سے بناؤں گا.تیرے سب فرزند بھی خدا سے تعلیم پاویں گے.یسعیاہ ۵۴۰ باب ۱۳۱۲.اب اگر یہاں مراد حقیقت ہے تو سرمہ میں وہاں کے پتھروں کا لگنا حاجیوں کے سرمہ سے دیکھ لو وہاں کے کھرلوں میں تیار ہوتا ہے اور ان کا حصہ سرمہ میں گھس کر شامل ہوتا ہے اور اس ایک صداقت سے یقین ہے جیسے مکاشفات یوحنا سے ظاہر ہے دیکھو مکاشفات ۲۱ باب ۱۱ باقی بھی پورا ہوگا.جلدی نہ کرو اور اگر عام زینت ہی لیں جیسے قرآن کے لفظ زخرف اور حز قیل کی ۲۳،۱۶ باب سے ظاہر ہے.تو اب دیکھ لو مکہ معظمہ کس زینت سے سجایا گیا.اور اگر ہمارے حضور ہمارے ہادی کا گھر ہی لینا ہے جیسے لفظ بیت لَكَ سے بظا ہر معلوم ہوتا ہے تو اب روضہ اطہر واقدس کا نظارہ کر لو! كيف الوصول الى مدينة مصطفى شتان بين الهند و الزوراء اللهم ارزقنى شهادة في بلد رسولك امين.چھٹے معجزہ کا بیان سابق کر چکا ہوں.غور کرو کیسے یہ تمام معجزات پورے ہو گئے.والحمد لله رب العلمين.یادداشت عیسائی صاحبان اگر کسی امتحان اور معجزہ کا ظہور پذیر نہ ہونا نقص ہے تو ۳۰
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ۳۱ جواب دو جب کسی نے حضرت مسیح کو کہا.اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جاویں.اس نے (مسیح نے ) جواب میں کہا.لکھا ہے انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے جیتا ہے.پھر شیطان اسے ( مسیح کو ) مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اسے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ کہا ہے کہ وہ تیرے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا.اور وے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے.ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھس لگے.یسوع نے اسے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کومت آزما منتی ۴ باب.Σ
مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ ابطال الوہیت مسیح مصنفہ جناب حکیم الامت مولا نا مولوی نورالدین صاحب مصنف کتاب فصل الخطاب و تصدیق براہین احمدیہ , تاخ رساله رد تناسخ ورساله نورالدین و غیره مطبع ضیاء الاسلام قادیان دارالامان میں باہتمام حاجی حافظ حکیم فضل دین طبع ہوا.ماہ جولائی ۱۹۰۴ء با دوم....تعداد اشاعت.۴۰۰ قیمت ار
۳۵ ابطال الوہیت مسیح ہیں.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحمده ونصلى على رسوله الكريم مع التسليم حضرت سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے خدا اور خدا کا بیٹا ہونے کا ابطال اس مضمون پر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور مسیح کے انسان رسول ہونے پر دلائل بیان کئے مگر قرآن نے نہایت ہی سیدھی اور صاف راہ اس مسئلہ میں اختیار فرمائی ہے اور کہا ہے.مَا المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلْنِ الطَّعَامَ أَنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنَ لَهُمُ الْآيَتِ ثُمَّ انْظُرْانى يُؤْفَكُوْنَ س پس ماندہ ع۱۰ مسیح ابن مریم تو ایک رسول ہی ہے اس سے پہلے بھی رسول ہو گزرے ہیں اور اُس کی ما ایک نیک بخت عورت ہے دونوں کھانا کھایا کرتے.دیکھ ان لوگوں کے لئے ہم کیونکر سچے نشان کھول کر بیان کرتے ہیں.پھر دیکھ کہاں بہکے جاتے ہیں.قرآن جو خالق فطرت کا کلام ہے انسان کو فطرت کے قانون پر توجہ دلاتا ہے.نہ کسی بھول بھلیاں فلسفیانہ اور منطقیانہ دقیق اور غیر قابل فہم دلیل سے بلکہ سنن الہیہ کے روز مرہ کے مشہورہ دلائل سے سادہ طبیعت کج فہم انسانوں کو جگاتا ہے کہ مسیح اک رسول مثل اگلے رسولوں کے تھے.اس کی ایک ما تھی.وہ کھانا کھایا کرتے اور یہ سہ گانہ امور ایسے ہیں جن سے کوئی عیسائی بھی انکار نہیں کرسکتا اور ظاہر ہے کہ یہ عوارض اور صفات ایسے ہیں جو نوع انسان کو ہی لاحق ہوا کرتے ہیں اور یہی عوارض اور صفات ہیں جو انسان کو حوائج اور ضروریات جسمانی کی تحصیل وتحصل میں مبتلا کرتے ہیں اور یہی افتقار و نیاز اس کی مخلوق اور محتاج اور عبد ہونے پر دلالت کرتا ہے.سچ ہے جو کھانے کا محتاج ہوا وہ ساری مخلوق کا محتاج ہوا.اور اللہ تعالیٰ غنی مطلق ہر احتیاج سے پاک اور ہر عیب سے مبرا ہے.غرض ایک میں احتیاج ہے اور دوسرے میں غنی.اور ظاہر ہے کہ صفات ولوازم کے اختلاف سے ملزوم وموصوف کا اختلاف سمجھا جاتا ہے.ہم پتھر کو نباتات سے علیحدہ پتھر کے المائدة: ۷۶
۳۶ ابطال الوہیت مسیح لوازمات وصفات سے یقین کرتے ہیں.اور نباتات کو پتھر سے الگ اسکے لوازمات وصفات سے حضرت مسیح میں انسان ہونے کے لوازمات وصفات نے حضرت مسیح کو انسان ثابت کیا اور رسالت کے لوازمات نے مثلاً موید و منصور ہونا ، اعدا کا نا کام ہونے نے رسول.اور اس امر نے کہ الوہیت کے لوازمات مثلا غنی.خالق ہونا وغیرہ میسج میں نہیں پائے جاتے اس واسطے وہ خدا یا خدا کے بیٹے نہیں ہو سکتے.ان بیانات سے حضرت مسیح کی انسانیت اور مخلوقیت تو صاف عیاں ہے.مسیح کو یا خدا یا خدا کا بیٹا ماننے والو مسیح کی خدائی کہاں سے نکل پڑی.اگر وہ ایک مخفی اور غیب الغیب راز ہے تو ایک خیال اور وہم سے بڑھ کر اس کی کیا وقعت ہو سکتی ہے.کوئی زبر دست اور بڑی قوی دلیل اس کے خدا بنانے میں درکار ہے کیونکہ مکلف انسان ایک ایسے مسئلہ میں جو اصول ایمان اور نجات اُخروی سے تعلق رکھتا ہے کبھی مضبوط اور غیر مذبذب اعتقاد نہیں رکھ سکتا.جب تک کسی روشن دلیل نے اس کے دل کو مطمئن نہ کر دیا ہو.اور اگر الوہیت مخفی اور نا گفتنی اسباب پر مبنی ہے تو ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ میں بھی مجسم خدا ہوں.اور تمام دنیا کی بُت پرست قوموں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے مقدس لوگ خدائے مجسم تھے اور خدائے تعالیٰ نے باغراض مختلفہ جامہ جسمانی پہنا.جائے غور اور انصاف ہے کہ مسیح میں کونسی خصوصیت اور ترجیح ہمیں اس بات کے یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ مسیح تو خدائے جسم تھا اور باقی اوتاروں کے مرید اپنے دعویٰ میں صادق نہ تھے قرآن کہتا ہے.قَالُوا اتَّخَذَ الله وَلَدًا سُبْحَنَهُ هُوَ الْغَنِيُّ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَنٍ بِهَذَا اتَقُولُونَ عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ساس یونس.ع ے.انہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے.وہ پاک غنی ہے زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اُسی کا ہے ایسی باتوں کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں.کیا اللہ پر باتیں بناتے ہو جن کا تم کو علم نہیں.مسیح علیہ السلام کو خدائے بختم ماننے والوں نے دو دعوے کیسے ہیں.اوّل یہ کہ مسیح خدا تھے اور دوم یہ کہ مسیح انسان تھے.کیا معنی مسیح جامع الوہیت و انسانیت تھے.مسیح کا انسان ہونا تو حسب نشان آیت اولی وثانیہ امر مسلم ہے کیونکہ مسیح بھی رسولوں میں سے ایک رسول تھے.اگر اُنہوں نے ا يونس: ۶۹
۳۷ ابطال الوہیت مسیح معجزے دکھائے تو اسی قسم کے نشانات حضرت موسیٰ اور ایلیا اور الیشع وغیرہ نے بھی دکھلائے مسیح کی ۷ تھی اور وہ دونوں کھاتے پیتے تھے.ہاں خدا ہونے کی دلیل چاہیے قرآن نے بھی کہا ہے تمہارے پاس کوئی دلیل مسیح کے خدا ہونے پر نہیں تو پھر کیوں مدعی الوہیت مسیح ہوئے ہو چنانچہ آیت بالا کے مضمون سے واضح ہے جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے خدا ہونے کا ابطال کیا ہے ایسے ہی حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ابن اللہ ، خدا کے بیٹا بنانے کے بُرے عقیدہ کو اس طرح باطل ٹھہراتا ہے آتى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلُ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سِ س انعام ع ۱۸.اس کے کہاں سے بیٹا ہوا اُس کا تو کوئی ساتھی نہیں اُس نے سب چیزوں کو پیدا کیا.اور وہ کل چیزوں کو جانے والا ہے.یہی تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں کل اشیا کا خالق ہے اس کی عبادت کرو اور وہ سب کا کارساز ہے.اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں یا آنکھیں گھیر نہیں سکتیں اور وہ آنکھوں کو پاتا یا ان کا احاطہ کر سکتا ہے اور وہ لطیف و خبیر ہے.گویا قرآن کریم کہتا ہے صحیح ابن اللہ کن معنوں پر ہیں آیا عرفی اور حقیقی معنوں پر مسیح ولد اللہ یا کسی اور معنوں پر.اگر عرفی اور حقیقی معنوں میں ہیں یہ تو صحیح نہیں کیونکہ اس صورت میں سیدہ مریم علیہا السلام کو خدا کی جورواور اس کا ساتھی ماننا ضروری اور لازمی امر ہے.اور تمام عیسائی اور سارے عقلاء سیدہ صدیقہ مریم کا اللہ تعالیٰ کا صاحبہ ہونا اعتقاد نہیں رکھتے اگر مجازی معنی ولد اللہ ، ابن اللہ کے لیتے ہو اور حقیقی اور عرفی معنی نہیں لیتے ہو تو مجازی معنی نہایت وسیع ہیں ولد اللہ کے معنی خدائے مجسم خدا کے ساتھ ذاتاً متحد ہستی تجویز کرنا ہر گز ہر گز صحیح نہیں کیونکہ اگر یہ معنی لو گے اور مسیح کو اللہ اور اللہ کا بیٹا کہو گے تو ضرور ہر ایک شخص کی شہرت کبھی اُس کے نامی گرامی والد کے باعث ہوا کرتی ہے اور کبھی اُس کی والدہ ماجدہ کے باعث اور کبھی اُس کے ذاتی جو ہروں کی وجہ سے.حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کی والدہ ماجدہ یروشلم میں بطور نذرا نہ رکھی گئیں.وہاں اپنی خالہ زکریا کی بی بی کے پاس پرورش پائی.تمام یہودی قوم ہر سال یروشلم میں آتی اور صدیقہ مریم علیہا السلام کو وہاں دیکھتی اس لئے اُن کی ان سے اچھی واقفیت تھی.حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کو ابن مریم کہتی.الانعام : ۱۰۲ تا ۱۰۴
۳۸ ابطال الوہیت مسیح ہوگا کہ مسیح ذات وصفات میں خدا ہو، خدا کے برابر اور صفت معبودیت اور صفت خلق اور علم وغیرہ میں جو انسانی جسم کے لحاظ سے نہیں خدا کے سے صفات رکھتا ہو مگر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں یہ صفات کا ملہ خدا کی طرح موجود نہ تھیں.غور کرو! پہلی صفت کا ملہ صفات میں سے علم کامل ہے.یہ صفت بھی حضرت مسیح علیہ السلام میں پوری پوری موجود نہ تھی خود حضرت مسیح فرماتے ہیں.مگر اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں اور نہ بیٹا، کوئی نہیں جانتا مرقس ۱۳ باب ۳۲ و متی ۲۴ باب ۳۶ و اعمال ا باب ۷ متی ۲۶ باب ۳۸.دوسری صفت معبود ہونا.خود حضرت مسیح علیہ السلام نمازیں پڑھتے اور دعائیں مانگتے تھے.کیا معنی؟ عابد تھے معبود نہ تھے.تیسری صفت خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ - مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں.دائیں بائیں بٹھا نا میرا کام نہیں مگر انہیں کو جن کے لئے میرے باپ کی طرف سے تیار کیا گیا.متی ۲۰ باب ۲۳.چوتھی صفت لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ مسیح ایسے ہی مشہود دو محسوس صورت شکل والے انسان تھے جیسے اور انسان ہوتے ہیں البتہ ذرہ حسین و جمیل نہ تھے.جس حالت میں یہ صفات کا ملہ جو اکثر جسمیت کے لحاظ سے نہیں ہوا کرتیں مسیح علیہ السلام میں نہ تھیں تو مسیح خدا کے بیٹے کیسے ہو سکیں گے.ایک نادان عیسائی مفسر نے جس کو خواہ مخواہ بدزبانی اور دھوکا دہی کی دہت ہے اپنی تفسیر میں لکھا ہے.کہ یوحنا ۲۱ باب ۱۷ اسے معلوم ہوتا ہے.مسیح سب کچھ جانتا تھا.الا جہاں کہا، میں نہیں جانتاوہ اس لئے کہا کہ اسے اس موقعہ پر اظہار مطلوب نہ تھا مگر میں کہتا ہوں اگر اظہار مطلوب نہ تھا تو جھوٹھ بولنے کی کیا ضرورت تھی.کیوں صاف نہ فرمایا کہ یہ اس وقت اس امر کا اظہار کرنا مصلحت کے خلاف ہے.بلکہ ٹھیک بات یہ ہے کہ سب کچھ کا لفظ کتب مقدسہ کے محاورہ پر عموم محیط کے معنی نہیں دیتا.جیسا اظہار عیسوی کے صفحہ ۱۷۲.اور ۱۸۲ سے ظاہر ہے.پس یوحنا کا ۲۱ باب ۱۷ میں یہ کہنا کہ مسیح سب کچھ جانتا تھا اس امر کا مستلزم نہیں کہ محیط کے معنی رکھتا ہو.اظہار عیسوی میں
ابطال الوہیت مسیح ۳۹ بجواب اس سال کے کہ کتاب اعداد کے ۳۱ باب ۷ میں لکھا ہے.انہوں نے مدیانیوں سے لڑائی کی جیسے یہواہ نے موسیٰ سے فرمایا تھا.اور ان کے سارے مردوں کو قتل کیا.اور قاضیوں کے ۶ باب اور ۲ باب میں ہے کہ تخمینا دو سو برس بعد اس حادثہ کے مدیانیوں نے سات برس تک سب بنی اسرائیل کو مغلوب رکھا.پس ان دونوں میں بڑا تعارض ہے کیونکہ سب مدیانی مارے گئے تھے تو یہ قوت مدیا نیوں میں کہاں سے آ گئی اور بجواب اس سوال کے کہ (خروج ۹ باب ۶ میں ہے ) مصریوں کے سب مویشی مر گئے اور آیت ۲۰ میں ہے کہ فرعون کے نوکروں میں ہر ایک جو یہواہ کے کلام سے ڈرتا تھا اپنے نوکروں اور مویشیوں کو گھروں میں بھگا دیا.بھلا جب سب مویشی مصریوں کے مر گئے تو فرعون کے نوکروں کے لئے مویشی کہاں سے آگئے؟ ان دونوں سوالات کے جواب میں پادری ٹھا کر داس نے اظہار عیسوی میں لکھا ہے کہ سب کچھ کا لفظ عموم محیط کے معنی نہیں دیتا.یعنی سب کچھ کے کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی مدیانی بھی نہ رہا اور کوئی بھی مویشی باقی نہ رہا ہو بلکہ یہ معنی ہیں کہ اکثر مدیانی مارے گئے اور اکثر مویشی ہلاک ہوئے.میں کہتا ہوں اگر یہ جواب درست ہے تو اسی طرح جہاں یوحنا باب ۳.اور متنی ۱ ا باب ۲۷ نے کہا حضرت مسیح علیہ السلام سب کچھ جانتا تھا اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ اکثر جانتے تھے عموم محیط کے معنی نہیں.ایسے ہی یوحنا ، ا باب ۸ میں ہے.سب جتنے مجھ سے پہلے آئے چور اور بٹمار تھے یہاں بھی سب کا لفظ عموم محیط کے معنی نہیں دیتا کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت داؤ د حضرت ابراہیم اور حضرت ایوب علیہم الصلوۃ والسلام چور اور بٹ مار نہ تھے.ایک اور طرز جو نہایت قابل غور ہے کسی چیز کا کسی چیز سے ہونا تین طرح ہوسکتا ہے اول : - خالق سے مخلوق کا ہونا کہ خالق نے اپنی کامل طاقت پوری قدرت سے ایک سے ایک چیز کو پیدا کر دیا.ہو گئے.دوم :- ایک چیز کے دویا کئی ٹکڑے ہو جاویں تو ہم کہہ دیں یہ ٹکڑے فلاں چیز سے پیدا سوم :- کیمیاوی طور سے دو چیزوں کے میل سے ایک تیسری چیز پیدا ہو جاوے.اب کسی 2
۴۰ ابطال الوہیت مسیح کے ولد اور ا بن پر اگر ہم نگاہ کریں کہ دو کے میل سے تیسرا پیدا ہو جاوے تو ظاہر ہے کہ قانون کے نظارہ میں بیٹے کا باپ سے پیدا ہونا یوں ہوا کرتا ہے کہ دو یعنی نر و مادہ باہم ملیں اور جنین بنے.اب اس تمہید کے بعد گزارش ہے.غور کر و قرآن کریم کس طرح حضرت مسیح و غیرہ بزرگان کو خدا کے بیٹا کہنے پر ملزم ظہراتا ہے.آتى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُنْ لَّهُ صَاحِبَةٌ کیا معنی.نادانو ! کسی کو خدا کا بیٹا ماننے والو! اگر یہ لوگ جن کو تم بیٹا کہتے ہو الہی مخلوق ہیں تو کوئی مقام بحث نہیں اور اگر خدا کے ٹکڑے ہیں تو اس کے تم قائل نہیں.توالد کا اعتقاد اور کسی کے بیٹا کہنے کا مدار تو قانون قدرت کے نظارہ میں اس بات پر موقوف ہے کہ دو چیزیں آپس میں ملیں اور اُن سے تیسری چیز پیدا ہو جاوے.تم نے صرف اللہ تعالیٰ سے بدوں اس کے صاحبہ ماننے کے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کیسے مان لیا.عیسائی مانتے ہیں کہ ازل سے اکیلے باپ سے حضرت مسیح از لی بیٹا ہوا اور وہاں صاحبہ کوئی نہ تھی.بدوں دوسری چیز کے ایک چیز سے توالد نہیں ہوا کرتا خلق ہوسکتا ہے.ایک اور قرآنی دلیل ہے جو حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کو باطل کرتی ہے وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حسب تسلیم اُن لوگوں کے جو کسی بزرگ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے اور جو چیز خالق ہو وہ باپ اور جو بیٹا ہو اپنے باپ کی مخلوق نہیں ہوا کرتا.کیونکہ بیٹے کا ہونا طبعی امر ہے اور قدرت اور ارادہ سے باہر ہوا کرتا ہے اور خالق ہونا اختیار اور ارادہ کا مثبت ہے.جیسے عیسائی خود مانتے ہیں کہ بیٹا نجات کے واسطے ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اس ارادہ سے نکالا کہ نجات ہو.ایک اور دلیل وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ـ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کسی بزرگ آدمی کو خدا کا بیٹا ماننے والے اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا عالم یقین کرتے ہیں.ایسا کامل علم اور ایسی محیط سمجھ چاہتی ہے کہ فاعل خالق بالا رادہ ہو کیونکہ شعور و علم ہی طبعی افعال اور خلق میں امتیاز بخش ہے.طبعی افعال میں شعور اور ارادہ نہیں ہوا کرتا ہے ان تمام دلائل کو ایک جگہ جمع کر کے قرآن فرماتا ہے.بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ أَن يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ
ام كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ابطال الوہیت مسیح اور ایک اور جگہ قرآن کریم فرماتا ہے.قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا سُبْحَنَهُ هُوَ الْغَنِيُّ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَنٍ بِهَذَا اتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے سوا کسی اور بزرگ کے بیٹا ہونے کو اللہ تعالیٰ اس طرح باطل فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ غنی ہے اور احتیاج سے پاک.اور کسی کا بیٹا ہونا اللہ تعالیٰ کے غنی اور بے پروائی کو باطل کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تو ولد اس لئے ہوگا کہ وہ پاک ذات آپ کسی کام سے عاجز ہوگئی.مثلاً اپنے عدل کے لحاظ سے کسی کو نجات نہیں دے سکتا.اس واسطے اس کو ضرورت پڑی کہ جیسے عیسائیوں کا اعتقاد ہے کہ اس کا بیٹا ہو جو نجات دلا سکے یا بیٹا اس لئے کہ اسے شہوت مٹانے کی حاجت پڑی یا بیٹا اس لئے کہ اسے اپنا جانشین بنانے کی ضرورت پڑی اور بالکل ظاہر ہے کہ بیٹا باپ سے اصل میں مساوی ہوا کرتا ہے مگر چونکہ بیٹا بیٹا ہونے میں باپ کا محتاج ہے.پس اگر مسیح علیہ السلام خدا تعالیٰ کے معاذ اللہ بیٹے ہوتے تو غنی اور بے پروائی میں باپ کے مساوی ہوتے مگر بیٹا ہو کر احتیاج سے پاک نہیں ٹھہر سکتا پھر ذات باری تعالیٰ ترکیب سے پاک ہے کیونکہ مرکب ترکیب کرنے والے کا محتاج ہوا کرتا ہے.جب مرکب نہ ہوا تو بیٹا اس سے کیوں کر علیحدہ ہوا.پھر بیٹا ہونا بعد یت کو چاہتا ہے اور از لی بیٹا ہونا بعدیت کے خلاف ہے.عیسائیوں نے جس قدر دلائل مسیح کی الوہیت اور تثلیث کے اثبات میں جو ایک منشاء الوہیت مسیح ہے بیان کئے ہیں سب کے سب سادہ اعتقادی پرمبنی ہیں اس لئے ضعیف اور بیکار ہیں.میں بے عیب واحد خدا کی مدد سے ان دلائل کو بیان کر کے ان پر جرح کرتا ہوں.بڑے بڑے دلائل مسیح کی الوہیت پر اور تثلیث پر جو مسیح کی الوہیت کا ایک سرچشمہ ہے یہ ہیں.پہلی دلیل مسیح کی الوہیت پر تثلیث ہے.اب تثلیث کے دلائل اور ان کا ابطال سینے.پہلی دلیل.توریت شریف کا پہلا جملہ.برا الوہیم.برافعل ہے.اس کے معنی پیدا کیا.الوہیم.اس کا فاعل ہے.عیسائی مذہب کے لوگ اس جملہ سے تثلیث ثابت کرتے ہیں کیونکہ برا
۴۲ ابطال الوہیت مسیح فعل واحد اور الو ہیم اس کا فاعل جمع ہے اور اس میں تثلیث کا اشارہ پایا جاتا ہے.اس دلیل پر جرح.الوہیم نکلا ہے.ائو ہ سے اور الو ہ معبود برحق اور معبود باطل دونوں پر بولا جاتا ہے.الہیم جمع ہے الوہ کی.پس اس کے معنی معبودانِ باطل اور معبودانِ برحق کے ہوں گے اُلوہ کی جمع الہیم کا لفظ قاضیوں اور سرداروں اور فرشتوں اور بادشاہوں پر بھی بولا گیا ہے.جمع کے معنے اس میں لازمی اور ضروری نہیں.الوہ بمعنی معبود برحق نحمیاہ.۹ باب ۱۷.الوہ بمعنی معبود باطل.دانیال ۱۱ باب ۳۷ و ۳۸ - ۲ تاریخ ۳۲ - ۱۵.حقوق.۱.۱۱.ایوب ۱۲.۶.الوہیم جو الوہ کی جمع ہے.واحد حقیقی شخصی پر بھی بولا گیا ہے موسیٰ کو خروج کے بابا.اور خروج ۴ باب ۱۶ میں الہیم کہا گیا.خدا کہتا ہے میں نے تجھے اے موسیٰ فرعون کے لئے الہیم بنایا اور ہارون کے لئے الوہیم بنایا.الوہیم بمعنے جمع معبودانِ باطل کے واسطے.استثنا ۱۳.۳۲،۱۷_۳۹، قضاة ۵-۸، ۱۰.۱۴.اسلاطین ۲۹ ، ۲ سلاطین ۱۹ ۱۸ ۱ تاریخ ۵ - ۲۵، ۲ تاریخ ۱۳-۱۴۲۵،۹، زبور۹۷-۷، زبور ۲۱۳۶ ، پر میاه ۲۵-۱۱-۱۲-۱۶-۲۰.الوہیم بمعنی بادشابان و سرداران و قاضیان خروج ۲۲ باب ۲۸ آیت ، استثنا ۱۰ - ۱۷، زبور ۸۲-۱، ۱۳۸، ۱ پیدائش ۶ - ۲ و۴ ، خروج ۲۱.۶ ،۲۲.۲۲،۸.۹.الوہیم بمعنی فرشتہا اسموئیل ۴ - ۸، ۲۸-۲،۱۳ سموئیل ۷-۱۳، زبور -۸۲-۶-۸-۵- الو ہیم بمعنی خدا واحد حقیقی پیدائش ۱.۱۱ سلاطین ۱۸-۲۴.۳۹.معبودان باطل اور بادشاہوں اور سرداروں اور قاضیوں اور فرشتوں پر اکثر بمعنی جمع آتا ہے اور کبھی بمعنی واحد اور معبود برحق پر ہمیشہ بمعنے واحد حقیقی آتا ہے.علاوہ بریں اگر اشارات ہی سے ثابت کرنا چاہتے ہو تو پہلے تثلیث کو اور دلائل سے ثابت کر لو پھر اشارات سے اس کی تقویت کرو.( تبیین ).صریح تثلیث کا اعتقاد کتب مقدسہ سابقہ میں نہیں.اگر ایسے ہی وہمی اشارات سے اس کا ماننا باعث نجات ہے جیسے خوش عقیدہ عیسائیوں کا خیال.تو عیسائی انصاف سے سنیں اور مسلمانوں کو نجات یافتہ یقین کریں.
۴۳ ابطال الوہیت مسیح قرآن میں متعدد جگہ باری تعالیٰ کی ذات بابرکات کو بصیغہ جمع تعبیر فرمایا ہے دیکھو إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ س۴ اس حجر - عا.بے شک ہم ہی نے اس قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں.نَحْنُ خَلَقْنَكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ ل س ۲۷.اس واقعہ ۲۶.ہم ہی نے تم کو پیدا کیا پھر تم تصدیق نہیں کرتے نَحْنُ قَدَّرُنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِینَ کے س ۲۷ اس واقعہ.۲.ہم ہی نے تم میں موت کو مقدر کیا اور ہم کو کوئی جیت نہیں سکتا.اور مسلمان قرآن کے تمام جملوں پر ایمان لائے ہیں.موسیٰ اور ابراہیم وغیرہ انبیا ءاگر ایسے ہی مجمل برا الوہیم کے جملہ میں الو ہیم کو جمع بولنے سے نجات پاگئے تو مسلمان باری تعالیٰ کی ذات واحد پر جمع کے کلمات بولنے سے کیوں نجات نہ پاویں گے.رہا تفصیلی ایمان.اول تو وہ عیسائیوں کو بھی حاصل نہیں کیونکہ وہ تثلیث اور الوہیت کے بھید کو سمجھنے کے لئے انسانی عقل کو قاصر خیال کرتے ہیں مسیح سے پہلوں کو کیونکر حاصل ہوگا.دوم کتب سابقہ میں تفصیل موجود نہیں.بعد تسلیم ان سب مراحل کے عیسائیوں کی خدمت میں عرض ہے مسیحی لوگو انفس تثلیث یا جمع کے کلموں سے مسیح کی الوہیت کو کیا تعلق ہے.دوسری دلیل :- و يومر يهواه الوهيم بن ها آدم کا حد ممنو.ترجمہ:- کہا خدا نے ہو گیا آدم ہم میں سے ایک کی مانند.اس آیت سے تثلیث ثابت ہوئی جواب :.اس ترجمہ میں کاحمد کا ترجمہ ایک عام تراجم کے طور پر کیا گیا ورنہ اس کا ترجمہ حقیقت میں یکہ ہے.ایوب ۲۳ ۱۳.غزل الغزلات ۷.۹.اور ممنو کا لفظ مرکب ہے من اور ھو سے.ترکیب کے وقت عبری زبان میں جیسے عربی میں نون وقایہ ہوتا ہے ایک نون لاتے ہیں اس ل من هو من نھو ہو گیا اور عبری میں ہا اور نون بدل جاتے ہیں اس لئے من هو ، من نهو بن کر من ننو ہو گیا.تین نون جمع ہونے سے پہلا نون میم سے بدل گیا اور باقی دونو.ہاں دونو نون ایک دوسرے میں مدغم ہوئے.تحقیقات بالا سے صاف ظاہر ہے کہ یہ صیغہ غائب کا ہوا نہ متکلم مع الغیر کا جیسا عیسائیوں نے خیال کیا ہے.پس ممنو کا ترجمہ ہو گیا.اس میں سے نہ ہم میں سے.الحجر: ١٠ الواقعة: ۵۸ 11 الواقعة: ٦١
ابطال الوہیت مسیح دیکھو منو غائب کا صیغہ.پیدائش ۲.۱۷.۳۹.۳.۱۱.۱۷.۲۲.و۲۳.۶.و۲۶.۱۶.۱۹۴۸.احبار ۲.۱۱.۳۹.۱۴.۴۱.۱۹و۵-۲-۳-۴ و ۶ - ۷٫۸ ۳.۱۴.۱۵.۱۲.۱۸.و۸.ااو ۱۵.۱۶.خروج ۱ - ۹و۴ - ۲۶ و ۵ - ۸ و ۱۰- ۲۶ و ۱۲- ۹ - ۱۰ - ۱۴.۱۲ پس اس آیت کا ترجمہ ٹھیک طور پر یہ ہوا.ہو گیا آدم یکہ ان میں سے.کیا مطلب آدم حیوانات سے ممتاز ہوکر یکتا ہو گیا.ربِّي شَمعون لکھتا ہے کہ خدا نے کہا دیکھو وہ یکتا ہے نیچے والوں سے جیسا میں یکتا ہوں اوپر والوں میں سے.(ت) تیسری دلیل حضرت مسیح علیہ السلام کے خدایا خدا کا بیٹا ہونے پر ابن اللہ کا لفظ ہے جو حضرت مسیح کے حق میں الہی الہام میں بولا گیا.عیسائی کہتے ہیں جو ابن اللہ ہو گا وہ باپ سے ذات میں ضرور متحد ہو گا.جواب :.ذیل کے محاورات سے صاف صاف ظاہر ہے کہ ابن اور ابن اللہ کا لفظ توریت اور انجیل اور دونوں کے ضمیموں میں نہایت ہی وسیع معنے رکھتا ہے.لفظ ابن کے محاورات دیکھنے ہوں تو دیکھو.متی ۲۳ باب ۳۷ یہودی یروشلم کے بیٹے ہیں لوقا ۱۹ باب ۴۴.یہود یروشلم کے لڑکے ہیں لوقا ۲۰ باب ۳۶.لوگ قیامہ کے بیٹے ہیں.اتسنیقیون ۵ باب ۵ تم نور کے بیٹے دن کے پتر ہو یوحنا ۸ باب ۴۴.بُرے شیطان کے بیٹے ہو یوحنا ۱۷ باب۱۲.ہلاکت کے فرزند.متی ۲۳ باب ۲۳ یهودی سانپ کے بچے ہیں.جس طرح ان مقامات میں ابن کا لفظ صرف خاص تعلق اور مناسبت کے واسطے بولا گیا اسی طرح ابن اللہ کا لفظ کیوں نہیں لیا جاتا.اب ہم اُن محاورات کو لکھتے ہیں ہیں جن میں ابن اللہ کا خاص کلمہ وسیع ہاں نہایت ہی وسیع معنوں میں مقدسہ کتب نے لیا ہے.ا.آدم علیہ السلام خدا کے بیٹے لوقا ۳ باب ۳۸.۲ - شیث علیہ السلام خدا کے بیٹے پیدائش ۶ باب ۲.۳ اسرائیل علیہ السلام خدا کے بیٹے خروج ۴ باب ۲۲.۴.افرائیم خدا کا پہلوٹھا بیٹا پر میاہ ۳۱ باب ۲۰۰۹.ان کے لئے خدا کی انتڑیاں مروڑی گئیں.سہو کتابت ہے درست تسلنیقیون “ ہے.(ناشر) ۱۲
۴۵ ۵.داؤد علیہ السلام خدا کے بڑے بیٹے.زبور ۸۹.۲۶ و ۲۷.۶.سلیمان علیہ السلام خدا کے بیٹے.ا تاریخ ۲۲ باب ۹ و ۱۰ و ۲۸ باب ۲۶.ے.قاضی مفتی خدا کے بیٹے زبور ۸۲-۶.ابطال الوہیت مسیح تمام بنی اسرائیل خدا کے بیٹے.رومی ۹ باب ۴ - استثنا ۱۴ باب ۳۲۱ باب ۱۹.۹ تمام حواری خدا کے بیٹے - یوحنا ۳ باب ۲.۱۰.سب عیسائی خدا کے بیٹے بلکہ سب مومن.ایوحنا ۳ باب ۹.ا.سب یتیم خدا کے بیٹے.زبور ۶۸.۵.۱۲.سب خاص و عام خدا کے بیٹے.متی ۶ باب ۶ و ۱۸ و۷ باب ۱۱.و پیدائش ۶ باب۴.۱۳.اشراف خدا کے بیٹے.پیدائش ۶ باب۲.۱۴.بد کارلڑ کے.یسعیاہ ۳۰ باب ۱.ان تمام مقامات میں ابن اللہ کا کلمہ یا صلحی اور نیک لوگوں پر بولا گیا ہے یا اُن لوگوں پر جن کے لئے سامان تربیت دنیا میں کم ہیں یا اشرافوں اور رؤسا پر یا ساری مخلوق پر اور ان تمام جگہوں میں جتنے ابناء اللہ ہیں وہ سب کے سب صرف مخلوق ہی ہیں ان میں کوئی بھی خدائے مجسم نہیں خالص ابن انسان ہیں.یا صرف انسان مجھے ان میں خدا کو ئی بھی نہیں.پس بموجب ان محاورات کے اگر مسیح ابن اللہ بھی صرف انسان ہی ہوں.خدا نہ ہوں تو ہم کو کونسی کلام مجبور کرتی ہے کہ ہم مسیج کو تو ابن اللہ بمعنی خدائے مجسم کہیں اور اور لوگوں پر لفظ ابن اللہ کا اطلاق صرف انسان یا ابن انسان پر یقین کریں.کوئی ابن اللہ کا محاورہ خدائے مجسم کے لئے یقینی نہیں ثابت ہوا اور حضرت مسیح کا ابن انسان ہونا محاورات ذیل سے ثابت ہے.متی ابابا.یسوع ابن داؤد بن ابراہیم.ہاں ایوب اباب ۱ اور ۲ باب ا کی تفسیر میں انگریزی مفسر طامس اسکاٹ نے لکھا ہے کہ نبی اللہ یعنی خدا کے بیٹے جو اس میں لکھے ہیں ان سے مراد پاک فرشتے اور دوسری جگہ ایوب ۳۸ بابے میں جو نبی اللہ یعنی خدا کے بیٹے لکھے ہیں ان سے مراد انبیاء مفسرین سمجھتے ہیں یہ حاشیہ خاکسار نے سید گلاب شاہ کی خاطر لکھا ہے کہ ان کو فصل الخطاب کے اس فقرہ سے تمام انبیا ء خدا کے بیٹے ، ملائکہ خدا کے بیٹے ایوب اباب ۶ و ۲ باب او ۳۸ بابے کے حوالہ سے لکھے تھے.تحریر ہوا.نورالدین ۱۳
ابطال الوہیت مسیح ۴۶ متی ۸ باب ۲۰.ابن آدم، مسیح ہیں.متی ۹ باب ۶.ابن آدم انسان ہیں.متی ۶ باب ۱۳.میں جوابن آدم انسان ہوں کون ہوں متی ا ا باب ۱۹.انسان کا بیٹا کھاتا پیتا آیا.اور وے کہتے ہیں.دیکھو کھاؤ اور شرابی خراج گیروں اور گنہ گاروں کا دوست متنی ۱۳ باب ۵۵.بڑھی کا بیٹا.ایسا ہے اور اناجیل میں مسیح کا ابن انسان ہونا ثابت ہے اور عیسائی لوگ بھی مسیح کے ابن انسان ہونے سے منکر نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ابن انسان حقیقت میں وہی خدا تھا.جب اس نے جسم اختیار کیا تو وہی ابن اللہ کہلایا.اس تفصیل سے اس قدر تو واضح ہو گیا کہ مسیح پر ابن اللہ بولنے سے ابن کے حقیقی معنے مقصود نہیں کیونکہ ابن کے حقیقی معنوں میں لازم آتا ہے کہ مسیح خدا کے نطفہ سے ہو اور مریم صدیقہ خدا کی جو رو بنیں.الا یہ معنی بالکل صحیح نہیں صاف صاف غلط ہیں.نہ تو عیسائی مریم کو جو رو مانتے ہیں نہ مسلمان بلکہ کوئی عقل والا اس امر کو جائز نہیں کرتا اس واسطے ابن اللہ کے حقیقی معنے اور اس کا عرفی مفہوم مراد نہ ہوگا بلکہ اس کلمہ ابن اللہ کی کوئی اور معنی اور اس کا کوئی اور مفہوم اس عرفی اور حقیقی معنے کے ماورائے ہوگا.مرقس ۱۵ باب ۳۹ مسیح کو ابن اللہ لکھتا ہے اور لوقا اسی آیت کے بدلے۲۳ باب ۴۷۷ مسیح کو بار اور نیک اور صالح لکھتا ہے یعنی بجائے ابن اللہ بار بولتا ہے.پس ہم دعوی کرتے ہیں کہ جہاں مسیح نے اپنی نسبت ابن اللہ کہا وہاں بمعنی بارلیا ہے خدائے مجسم نہیں لیا.کیا دلیل ہے جس کے باعث ہم مجبور ہو کر کہہ دیں مسیح ابن اللہ کے لفظ سے مراد خدائے مجسم ہے؟ بلکہ لفظ ابن اللہ سے نیکی اور الوہیت کا کیا ذکر ہے.عام ایمان دار کے معنے لینے بھی ضروری نہیں اس لئے کہ بد کار بھی خدا کے بیٹے ہیں.یسعیاہ ۳۰ باب ۱.غرض ابن اللہ کے لفظ سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ مسیح خدائے مجسم تھے مزید توضیح کے لئے لکھتا ہوں.آیات ذیل پر غور کی نگاہ کرو.یوحنا کا پہلا خط ۳ باب ۱.دیکھو کیسی محبت باپ نے ہم سے کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلاویں.اے پیار و ہم خدا کے فرزند ہیں اور ہنوز ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے پر ہم ۱۴
۴۷ ابطال الوہیت مسیح جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو ہم اس کی مانند ہوں گے.اور یوحنا ۴ باب سے میں کہا ہے.ہر ایک جو محبت رکھتا ہے سو خدا سے پیدا ہوا ہے.اور یوحنا کے پہلے خط ۳ باب ۹ میں ہے.ہر ایک جوخدا سے پیدا ہوا ہے گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تم اس میں رہتا ہے اور وہ گناہ کر نہیں سکتا کیونکہ خدا سے پیدا ہوا ہے.اسی سے خدا کے فرزند اور شیطان کے فرزند ظاہر ہیں.طبیطس جو عام ایمان کی رو سے میرا فرزند حقیقی ہے.طبیطس اباب ۴.پیدائش ۶ باب ۳ خدا کے بیٹوں نے آدمیوں کی بیٹیوں سے جو خوبصورت تھیں حسب پسند جو روئیں بنا ئیں.ان آیات صدر میں غور کرو کہیں ابن اللہ خدائے مجسم کے معنے دیتا ہے.نہیں نہیں.چوتھی دلیل وہ معجزات اور کرشمے ہیں جو حضرت مسیح نے دکھلائے.مگر معجزات اور کرشموں سے بھی الوہیت مسیح کا اثبات صحیح نہیں کیونکہ معجزات مسیح میں بڑا اور عمدہ اور اعلیٰ درجہ کا اعجاز مُردوں کا زندہ کرنا.الا اس میں بھی مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں جس سے اس کی الوہیت ثابت ہو.ایلیا نے بھی مردوں کو زندہ کیا.اسلاطین ۱۷ باب ۲۲.السیع نے بھی مردوں کو زندہ کیا.۲ سلاطین ۴ باب ۳۵ - الیسع مردہ کی لاش نے بھی مردہ کو زندہ کیا.۲ سلاطین ۱۲ باب ۲۱ - حز قیل نے ہزاروں پُرانے مردوں کو زندہ کیا.حز قیل ۳۷ باب ۱۰.موسیٰ اور ہارون نے لکڑی کا سانپ بنایا.خروج ے باب ۱۰.موسیٰ اور ہارون نے گردو غبار کو جاندار جوئیں بنایا خروج ۸ باب ۱۷.یہ سب لوگ چونکہ اسرائیلی ہیں پس حسب محاورہ و تصدیق خروج ۴ باب ۲۲ - استثناء ۱۴ باب ۱و۲ ،۳ باب ۱۹.خدا کے بیٹے بلکہ پہلو ٹھے ہیں اور انہوں نے مردوں کو بھی زندہ کیا پس چاہئے کہ یہ لوگ بھی بدوں خصوصیت مسیح مجسم خدا ہوں.جس حالت میں یہ لوگ ابن اللہ بمعنے خدائے مجسم نہ ہوئے با اینکہ انہوں نے مردوں کو بھی زندہ کیا پھر مسیح علیہ السلام کیونکر خدائے مجسم مانے گئے.دوسرا معجزہ.بیماروں کو اچھا کرنا.مگر السیع نے نعمان سپہ سالار کو جو کوڑھی تھے اچھا کیا.۲ سلاطین ۵ باب ۱۴.یوسف نے اپنے باپ یعقوب کو آنکھیں دیں.پیدائش ۴۶ باب ۳۰٫۴.تیسرا معجزہ.تھوڑے سے کھانے کو اور شراب کو زیادہ کر دکھلانا.ایلیا نے مٹھی بھر آٹے کو اور تھوڑے تیل کو بڑھا دیا کہ وہ سال بھر تک تمام نہ ہوا.اسلاطین ۱۷ باب ۱۲ سے ۱۶ ۱۵
ابطال الوہیت مسیح ۴۸ تک.الیع نے بھی تیل کو برکت سے بڑھایا.۲ سلاطین ۴ باب ۲.۶.چوتھا معجزہ.بدوں کشتی دریا پر چلنا.مگر یا در ہے موسیٰ نے سمندر کو ایسا لٹھ مارا کہ وہ پھٹ گیا اور ایسا وہ سیال پانی الگ الگ کھڑا رہ گیا کہ ہزاروں بنی اسرائیل خشک سمندر سے پار ہو گئے اور فرعون کو داخل ہوتے دبا لیا.خروج ۱۴ باب ۲۱ ۲۲.یوشع نے میر دن کو پایاب ہی نہیں کیا بلکہ سکھلا دیا.یوشع ۳ باب ۱۷.ایلیا السیع نے بھی دریا کو دوٹکڑے کر دیا.۲ سلاطین ۲ باب ۸ سے ۱۵ تک بلکہ حضرت مسیح نے فرمایا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا.اور ان سے بڑے کام کرے گا.اور فرمایا جو ایمان لائے ان کے علامات معجزات ہوں گے.بلکہ عیسائیوں میں اگر رائی برابر بھی ایمان ہو تو مسیح سے زیادہ معجزے کر سکتے ہیں.جب مومن ایمان کے وسیلہ مسیح سے بھی بڑے بڑے کام کر سکتا ہے تو حضرت مسیح ان معجزات کے باعث کیونکر مجسم خدا ہو سکتے ہیں معجزات تو صرف ایمان سے بلکہ رائی کے برابر ایمان سے بھی حاصل ہو سکتے ہیں.خدا بننے یا صاحب معجزات کو خدا بنانے کی ضرورت نہیں.پادری صاحبان! حضرت مسیح نے فرمایا جھوٹے نبی اور جھوٹے مسیح بھی کرامتیں دکھلائیں گے.جس حالت میں جھوٹے نبی اور جھوٹے مسیح کرشمے اور عجائب وغرائب معجزات دکھا سکتے ہیں تو حضرت مسیح ان عجائبات اور تمام تماشوں سے کیونکر یقیناً خدا ہو گئے.غور سے سنو.پادری صاحبان.انجیلی مذاق پر انجیل سے کوئی معجزہ مسیح سے ثابت نہیں کیونکہ معجزات میں پہلا معجزہ مسیح کا مردوں کو زندہ کرنا ہے.انجیلی محاورہ میں مُردہ کا زندہ ہونا اگر تامل و فکر سے دیکھا جاوے تو کوئی بات مافوق العادت معلوم نہیں ہوتی.کیونکہ لوقاء اباب ۲۷ میں ہے.خدا کو سارے دل ساری جان سارے زور سے ساری سمجھ سے پیار کر اور پڑوسی کو، جیسا اپنے ساتھ تو تو جیے گا.لوقا ۱۵ باب ۲۳.ایک شخص کا بیٹا باپ سے علیحدہ ہو گیا اور دور چلا گیا جب نادم ہو کے واپس آیا باپ نے خوشی کی اور کہا یہ مر گیا تھا اب جیا ہے یعنی کھو گیا تھا.اب ملا ہے.رومی کا خط ۶ باب ۱۰ وہ جو مؤا سو گناہ کی نسبت ایک بارموا پھر جو جیتا ہے خدا کی نسبت جیتا ہے.اقرنتی ۱۵ باب ۳۱ پولوس کہتا ہے میں ہر روز مرتا ہوں.یوحنا ۸ باب ۵۲ اور ۶ باب ۴۷.اگر ۱۶
ابطال الوہیت مسیح ۴۹ کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے تو وہ ابد تک موت ہرگز نہ دیکھے گا.لوقا باب ۴.انسان روٹی سے نہیں خدا کی بات سے جیتا ہے.آیات مذکورۃ الصدر سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مردہ ہونا انجیل میں گنہ گار ہونے اور الگ ہونے پر بولا جاتا ہے پس کیا ممکن نہیں کہ ہم کہہ دیں جن کو مسیح نے زندہ کیا ان کو اپنی پاک تعلیم سے نیک بنایا.اور وہ جو الگ ہو گئے تھے ان کو ساتھ ملایا.اور ایسے استعاره آمیز اور تخیلی زبان سب الہامی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.دوسرا معجزہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا.یوحنا ۹ باب ۳۹ وے جو نہیں دیکھتے ہیں اور جو دیکھتے ہیں اندھے ہو جاویں.یہاں بھی اندھا ہونا اور دیکھنا کیسے حقیقی معنوں میں بولا گیا ہے اوراس سے روحانی بصارت اور ائمی مراد ہے.تیسرا کھانا بڑھانا.الا کھانا بھی انجیلی محاورہ میں کچھ اور ہی نظر آتا ہے.یوحنا ۴ باب ۳۴.یسوع نے کہا میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی بجالاؤں.یوحنا ۶ باب ۴۸ تا ۵۱.مسیح کہتا ہے.زندگی کی روٹی میں ہوں تمہارے باپ دادوں نے بیابان میں من کھایا اور مر گئے.روٹی جو آسمان سے اتری ہے وہ ہے کہ کوئی آدمی ایسی کھا وے تو نہ مرے.میں ہوں وہ جیتی روٹی جو آسمان سے اتری اگر کوئی شخص اس روٹی کو کھائے تو ابد تک جیتا رہے اور روٹی جو میں دوں گا.وہ میرا گوشت جو میں جہان کی زندگی کے لئے دوں گا.پانی کا محاورہ بھی قابل غور ہے.یوحنا کہ باب 1.مسیح ایک عورت کو فرماتے ہیں اگر تو مجھ سے پانی مانگے تو میں جیتا پانی دیتا.یوحنا باب ۳۷.اگر کوئی پیاسا ہو مجھے پاس آوے اور پیئے جو مجھے پر ایمان لاتا ہے اس کے بدن سے جیسے کتاب کہتی ہے جیتے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی.نہر اور دریا کا محاورہ.یرمیاہ ۲ باب ۱۳.انہوں نے مجھ جیتے پانی کو چھوڑ دیا.یرمیاہ ۱۷ باب ۱۳.انہوں نے خدا کو جو آب حیات کا سوتا ہے ترک کیا.پانچویں دلیل الوہیت مسیح پر.یوحنا ۸ باب ۲۳ ” تم نیچے سے ہو میں اوپر سے ہوں تم اس جہان کے ہو میں اس جہان کا نہیں“.اور اوپر سے خدا ہی ہے.جواب : - مسیح کی اس میں خصوصیت نہیں ہر ایک نیک اور صالح تارک الدنیا اوپر سے ہے ۱۷
ابطال الوہیت مسیح اور نیچے سے دنیا کے طالب اور اہل دنیا اور بدکار ہیں.دیکھو.یوحنا ۱۵ باب ۱۹.اگر تم دنیا کے ہوتے تو دنیا اپنوں کو پیار کرتی.لاکن اس لئے کہ تم دنیا کے نہیں.یوحنا ے ا باب ۱۴.اس لئے کہ جیسے میں دنیا کا نہیں وے بھی دنیا کے نہیں.چھٹی دلیل مسیح کی الوہیت پر.میں اور باپ دونوں ایک ہیں.یوحنا • اباب ۳۰.جب باپ سے اتحاد ہوا تو مسیح ذات میں خدا سے متحد ہوا.اس لئے ذات میں خدا ہوا.جواب :.مطلق وحدت عیسائیوں کے نزدیک بھی صحیح نہیں کیونکہ باپ اور بیٹا اور روح القدس تینوں الگ الگ بھی ہیں پھر اس وحدت میں جو یوحنا ، ا باب ۳۰ میں مذکور ہے مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں کیونکہ یوحنا ۱۷ باب ۲۱ میں حواریوں اور ان لوگوں کے لئے جو ان کی کلام سے مسیح پر ایمان لاویں گے مسیح خدا کے آگے عرض کرتا ہے.کہ وے سب ایک ہو دیں.جیسا کہ تو اے باپ مجھ میں اور وے بھی ہم میں ایک ہوں اور یوحناے اباب ! میں ہے اے قدوس باپ اپنے ہی نام سے انہیں جنہیں تو نے مجھے بخشا حفاظت سے رکھتا کہ وے ہماری طرح ایک ہو جاویں.اور یوحنا کے پہلے خط اباب ۵ خدا نور ہے اور اس میں تاریکی نہیں.اگر ہم کہیں کہ ہم اس کے ساتھ شراکت رکھتے ہیں اور تاریکی میں چلتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور پیچ پر عمل نہیں کرتے.پر اگر ہم نور میں چلیں جس طرح وہ نور میں ہے تو ہم ایک دوسرے کے ساتھ شراکت رکھتے ہیں.اور انجیل یوحنا ، ا باب ۳۴ یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا.کہتے ہو کہ کفر بکتا ہے.کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.اگر میں باپ کے کام نہیں کرتا تو مجھ پر ایمان مت لاؤ.اور یوحنا ۱۲ باب ۴۴ میں یسوع نے پکار کے کہا کہ وہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے مجھ پر نہیں بلکہ اس پر جس نے مجھے بھیجا ہے ایمان لاتا ہے.ان تمام آیات میں غور کرو جس وحدت اور اتحاد کے باعث عیسائیوں نے مسیح کو خدا کہا ہے ایسے وحدت مسیح کے سوا اور ایمانداروں میں بھی موجود ہے گو مسیح میں یہ نسبت عام عیسائیوں اور حواریوں کے یہ اتحاد اعلیٰ درجہ کا ہو.اصل یہ ہے کہ یہ وحدت اور یکتائی صرف فرمانبرداری کی وجہ سے ہے نہ ۱۸
ابطال الوہیت مسیح ۵۱ حقیقی اتحاد سے.خود پولوس رسول کی کلام سے یہ بات ظاہر ہے.اقرنتی ۶ باب ۱۵ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے بدن مسیح کے اعضا ہیں.پس کیا میں مسیح کے اعضالے کر کسی کے اعضا بناؤں.ایسا نہ ہووے.کیا تم کو خبر نہیں کہ جو کوئی کسی سے صحبت کرتا ہے سواس سے ایک تن ہوا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ایسے دونوں ایک تن ہوں گے.پر وہ جو خداوند سے ملا ہوا ہے سو اس کے ساتھ ایک روح ہوا ہے.ساتویں دلیل مسیح کی الوہیت پر :- یوحنا ۱۴ باب ۹.جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا کیونکہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں.جواب :- پادری صاحبان ! اس میں بھی حضرت مسیح کی خصوصیت نہیں کیونکہ اسی ۱۴ باب ۲۰ میں ہے.اس روز تم جانو گے کہ میں باپ میں اور تم مجھ میں اور میں تم میں.آیت ۲۰ سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جیسے مسیح عیسائیوں میں اور عیسائی مسیح میں ہیں ایسے ہی مسیح خدا میں اور خدا میسیج میں تھا.علاوہ بریں جن آیات سے عیسائیوں نے استدلال کیا ہے ان سے بظاہر ظرف کا مظروف ہونا اور اسی مظروف کا اسی ظرف کے لئے ظرف ہونا ثابت ہوتا ہے اور عیسائی مذہب کے عقائد پر میسیج میں خدا اور جسم کے درمیان ظرف اور مظروف والا نسبت یا حلول والے علاقہ نہیں.تیسرا جواب یہ ہے کہ مسیح دنیا میں جسم کے لحاظ سے دیکھا گیا نہ روح کے لحاظ سے اور جسم کے اعتبار سے خدا دنیا میں یا آخرت میں نہیں دیکھا جاتا.پس مسیح کا یہ فرمانا کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا اپنے ظاہری معنوں سے صحیح نہ ہوگا.چوتھا جواب یوحنا ۱۷ باب ۲۱ میں لکھا ہے جو شخص ایمان لا دے وہ بھی مسیح اور خدا وند میں ایک ہے پس چاہئے کہ مطابق اس کے ہر ایک عیسائی مسیح کی طرح خدائے بختم ہو.پانچواں جواب ۲ قرنتی ۶ باب ۱۶ کہ تم زندہ خدا کی ہیکل ہو چنانچہ خدا نے کہا میں اُن میں رہوں گا اوران میں چلوں گا.پادری صاحبان! غور کرو.پولوس کے سارے مخاطب خدا کے ہیکل ہیں اور خدا ان میں ہے.پس چاہے وہ سارے خدائے مجسم ہوں.پادری صاحبان ! بات یہ ہے.جو شخص کسی اپنے سے اعلیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے مثلاً کسی کا نوکر یا ایلچی یا شاگر د یا چیلا یا رشتہ دار یا دوست ہوتا ہے تو اس نو کرا پیچی شاگر د چیلا رشتہ دار دوست کی تعظیم یا تحقیر یا محبت اس کے ۱۹
۵۲ ابطال الوہیت مسیح آقا یا استاد یا معزز رشتہ دار یا دوست کی طرف منسوب ہوگی اور یہی انجیلی محاورہ بھی ہے.دیکھو متی ۰ ۱ باب ۴۰ جو کوئی تم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے.اور جو کوئی مجھے قبول کرتا ہے وہ اسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا.اور لوقا ۹ باب ۴۸ میں ہے جو کوئی اس لڑکی کو میرے نام پر قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے اسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا.اور لوقا ۱۰ باب ۱۶ جو تمہاری سنتا ہے میری سنتا ہے اور جو کوئی تم کو رذیل جانتا ہے مجھے رذیل جانتا ہے اور جو کوئی مجھے رذیل جانتا ہے رذیل جانتا ہے اُسے جس نے مجھے بھیجا.متی ۲۵ باب ۳۵.میں بھوکھا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.میں پردیسی تھا تم نے مجھے گھر میں اُتارا.میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.میں قید تھا تم میرے پاس آئے.یوحنا کا پہلا خط ۳ باب ۲۴ آیت نے صاف صاف ایسی شبہ انداز آیتوں کو خوب حل کیا اور مسیح کو خدا کہنے یا سمجھنے والوں کی اصلاح کی جہاں کہا.جو اس کے حکموں پر عمل کرتا ہے یہ اس میں اور وہ اس میں رہتا ہے.اور اس سے جو اس نے ہمیں دی ہے ہم جانتے ہیں کہ وہ ہم میں رہتا ہے اور یوحنا کا پہلا خط ۴ باب ۱۳ میں ہے ہم اس میں رہتے ہیں اور وہ ہم میں.آٹھویں دلیل مسیح کی الوہیت پر ان کا بے باپ ہونا.یہ دلیل نہایت کمزور ہے اور ہرگز مدعا کے مثبت نہیں.کیونکہ آدم حسب نسب نامہ لوقا خدا کے بیٹے ہیں اور وہ جسمانی باپ نہیں رکھتے تھے اور حوا بھی بقول عام یہود اور عیسائیوں کے بے ما اور بے باپ پیدا ہوئی گو ہڈی اور گوشت کا محاورہ حسب کتب مقدسه جیسا کہ پیدائش ۲۹ باب ۱۴ میں ہے کہ لا بن نے یعقوب کو کہا.تو میری ہڈی اور گوشت ہے اور دیکھو.پیدائش ۲ باب ۲۳.قاضی ۹ باب ۲.۲ سموئیل.اور ملک صدق حسب نامہ عبرانیاں ۷ باب ۳ بے باپ اور ما کے پیدا ہوئے.اگر مسیح بے باپ پیدا ہونے سے خدائے مجسم ٹھہرتے ہیں تو لازم ہے کہ آدم اور حوا اور ملک صدق سب کے سب خدائے مجسم ہوں.خاکسار نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ نہایت نادان عیسائیوں نے یہاں تک غلو اور غلطی کھائی ہے کہ اُس قرآن مجید سے جس کی صدہا آیتوں میں حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کے خدا ہونے کا انکار کیا گیا ہے.ہائے افسوس اُسی قرآن مجید سے حضرت مسیح علیہ السلام کے اللہ اور خدا ۲۰
۵۳ ابطال الوہیت مسیح ہونے کو ثابت کرنے بیٹھے ہیں.قرآن مجید کی ان آیات میں سے جن میں حضرت مسیح علیہ السلام کے خدا ہونے کا ابطال و انکار کیا گیا ہے یہ تین آیتیں سن رکھو.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلَثَةِ - مَا المُسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ.ہاں ان عجیب و غریب دماغ والے عیسائیوں نے قرآن کریم کی آیات ذیل سے حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت پر استدلال کیا ہے.پہلی آیت وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِى اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوحِنَا سورۃ تحریم آیت نمبر ۱۲.دوسری آیت إِنَّمَا الْمُسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إلى مَرْيَمَ وَرُوحُ مِنْهُ ۵ سورۃ النساء نمبر ۱۷۱ - ۲۲۶.پ.عیسائیوں کا ثبوت ان آیات میں حسب تسلیم اہل اسلام کے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنی روح فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی روح اللہ تعالیٰ سے کم نہیں بلکہ عین خدا ہے.الجواب:.عیسائیو! اگر ایسے دلائل سے کام چلاناہے تو پھر یوں کہو کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی خدا ہیں ( معاذ اللہ ) کیونکہ قرآن مجید نے حضرت جبرائیل کی نسبت بھی اسی طرح روحنا ( ہماری روح ) کا کلمہ بولا ہے جس طرح سوال کی پہلی آیت میں حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کی نسبت روحنا فرمایا.غور کرو اس آیت پر فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ل س ١٦ - اس مریم رکوع ۲.پس بنا لیا مریم نے اپنے اور لوگوں کے درمیان ایک پردہ تو بھیج دیا ہم نے (اللہ فرماتا ہے ) اسی کی طرف اپنے روح کو تب بن گئی وہ روح ہمارا مریم کے سامنے پورے آدمی کی شکل پر.اگر اس میں کسی کو وہم پڑے کہ یہاں بھی حضرت مسیح مراد ہیں تو اس کے ساتھ کی اور دو آیتیں پڑھ لے.قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيَّا قَالَ إِنَّمَا أَنَارَسُوْلُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَمًا زکیا کس ۱۶.س مریم - ع ۲.تب کہا مریم نے میں الرحمن کی حمایت چاہتی ہوں تیرے المائده: ۱۸ المائده: ۷۴ النساء : ۱۷۲ مریم : ۱۸ المائدہ: ۷۶ ک مریم : ۲۰،۱۹ التحريم : ١٣ ۲۱
۵۴ ابطال الوہیت مسیح مقابلہ میں اگر تو خدا کا خوف کرنے والا ہو.کہا ( اُسے خدا کی روح جبرائیل نے ) میں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تجھے ایک اچھا بچہ دے جاؤں (اس کی بشارت سے مراد ہے) بلکہ چاہئے کہ حضرت سید نا آدم علیہ السلام کی سانس بھی جس کی نسبت خدا نے روحی فرمایا ہے خدا ہو.فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سجدين لس ۱۴.اس حجر ع ۴.پس جب میں اسے ( آدم کو ) ٹھیک درست کر دوں اور اس میں اپنی روح (سانس) پھونک دوں تو اس کے لئے گر پڑیو سجدہ کرتے.بلکہ سب آدمیوں کی ارواح خدا ہوں.کیونکہ قرآن مجید میں نسل آدم کی نسبت آیا ہے کہ ان کی روح خدا کی روح ہے.ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلْلَةٍ مِنْ مَّاءٍ مَّهِينٍ ثُمَّ سَؤْهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُوحِه ل س ۳۲ س السجدة رکوع ۱.پھر بنائی اولاد آدم کی ایسے خلاصہ سے جو سیال اور کمزور ہے پھر ٹھیک درست کیا اور پھونک دی اس میں ایک روح جو اللہ کی طرف سے آئی.اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی کلام کسی شخص کے منہ سے کسی کو سنانے کے واسطے نکلتا ہے تو اس وقت ایک شخص اس کلام کا سنانے والا ہوا کرتا ہے اور دوسرا اُس کلام کا سنے والا بولنے والا اپنے کلام کے ایک معنی رکھتا ہے اور اُس کلام میں اس کی ایک معہو د غرض ہے.وہ اسی معنے اور غرض کے واسطے اُس کلام کو بولتا ہے مگر سننے والا غالباً اُس کلام کے معنی اور مطلب کو ایسے مذاق و اعتقاد پر ڈھالا کرتا ہے جو معنی متکلم کے مذاق اور مشن کے مناسب نہیں ہوا کرتے.اسی واسطے بولنے والے کو اپنے کلام کے معنی بتانے پڑتے ہیں یا لائق اور منصف سننے والوں کو اس متکلم کا مشن اور طر ز ملحوظ رکھ کر متکلم کے کلام کے معنے کرنا چاہیے.مثلاً جب سید نا نبی عرب صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا لفظ لا اله الا الله يا بسم اللہ میں بولا تو اللہ تعالیٰ نے ہی جس کے الہام سے آپ نے یہ کلمہ توحید کا لوگوں کو سنایا پھر آپ کو اپنے پاک الہام سے آگاہ فرمایا کہ تیرے مخاطب عیسائی ہیں جو مسیح کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں یا عرب کے مشرک جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں.اللہ کے لفظ سے یقیناً وہ ایسا اللہ سمجھیں گے جو کہ باپ ہو بیٹا ہو بیٹیاں رکھتا ہو یا تیرے مخاطب مجوسی ہوں گے جن کا یہ اعتقاد ہے کہ خداوند یزداں کا ایک دوسرا جوڑی بھی ہے جو کہ شر کا خالق ہے اور جسے اہرمن کہتے ہیں الحجر : ٣٠ السجدة : ١٠٩ ۲۲
۵۵ ابطال الوہیت مسیح اور یزداں ایسا ہے جس کے ماتحت ہزاروں رب النوع آسمانی روشن ستارے کام کرتے ہیں تو کہہ دیے کہ میری مراد اللہ کے لفظ سے وہ چیز نہیں جسے تم اللہ کہتے ہو بلکہ اور چیز ہے.جیسے فرمایا هُوَ اللهُ اَحَدَّ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدُ سورۃ اخلاص.ناظرین! ایسا ہی روح کا لفظ تھا اس لفظ کو جب عیسائیوں نے سنا تو لگے اپنے مذاق و اعتقاد پر اس کے معنے بنانے.مگر ان کو مناسب تھا کہ قرآن کے مذاق اور مشن کو دیکھتے اور اسی کے مطابق و مذاق پر قرآن میں روح کے معنے کرتے.اگر ان سے اتنا نہ ہو سکا تو کم سے کم وہ اتنا تو کرتے کہ عربی زبان کے مطابق قرآنی لفظ روح کے معنے لیتے.کیونکہ قرآن کریم عربی میں نازل ہوا.پس ہم ان کو بتاتے ہیں کہ قرآنی لفظ روح قرآن میں کن کن معنوں پر بولا گیا ہے اور پھر بتا دیں گے کہ عربی زبان میں اس لفظ کے اور کیا معنے ہیں.اس بیان سے بہتوں کو حیرت ہوگی کہ روح کی تحقیق میں لوگ کیسے کیسے غلطی میں پڑے ہیں اور بات کیسی صاف ہے.سنو ! اوّل روح کا لفظ کلام الہی پر بولا گیا ہے اور اسی واسطے قرآن مجید کو روح کہا ہے.ثبوت وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحَامِنُ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيْمَانُ ل س ۲۵ س شورای - ع ۵.اور اسی طرح وحی کی ہم نے تیری طرف ایک روح ( قرآن ) اپنے حکم سے.تجھے کیا خبر تھی کہ کتاب اور ایمان کیا ہوتا ہے.(۲) يُنَزِّلُ الْمَلكَة بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِةٍ أَنْ انْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُوْنِ سے اس محل رکوع نمبر اپ نمبر ۱۴.اُتارتا ہے فرشتے روح ( کلام الہی ) کے ساتھ اپنے حکم سے اس پر جس پر اپنے بندوں سے چاہتا ہے اور اس کلام میں حکم دیتا ہے کہ ان مشرکوں کو سنا دو کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی نہیں جو کاملہ صفات سے موصوف اور برائیوں سے منزہ ہواور فرمانبرداری کا.او مخاطب ! تو کہہ دے ! اصل بات تو یہ ہے کہ خود بخود ہستی جس کا نام اللہ ہے پوجنے کے لائق فرمانبرداری کا مستحق وہ ایک ہے اپنی ذات میں یکتا صفات میں بے ہمتا ترکیب و تعدد سے پاک وہ اصل مطلب مقصود بالذات بھروسہ کے قابل ہر کمال میں بڑھا ہوا جس کے اندر نہ کچھ جاوے کہ کھانے پینے کا محتاج بنے نہ اس کے اندر سے کچھ نکلے کہ کسی کا باپ بنے پھر نہ وہ کسی کا باپ اور نہ بیٹا اس کے وجود میں اس کی بقا میں اس کی صفات میں اس کی ذات میں کوئی اُس کا ہمتا اُس کا جوڑی نہیں.الاخلاص: ۲ تا ۵ ۲ الشورى : ۵۳ ے بنی اسرائیل : ۸۶ ۲۳
ابطال الوہیت مسیح ۵۶ مستحق.پس اس کے فرمانبردار بنے رہو.(۳) يَتَلُونَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أمْرِ رَبّى وَمَا أُوتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا سورۃ بنی اسرائیل ع۱۰ پ ۱۵.لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن کیا چیز ہے.تو کہہ دے قرآن روح ہے تیرے رب کی طرف سے اور تم لوگ تو کم علم ہو ( کہ ایسی صریح بات نہیں سمجھتے ) دوسرا محاورہ روح ، جبرائیل کو کہا ہے کیونکہ وہ کلام الہی کے لانے والے ہیں جیسے فرمایا (1) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ کے سورۃ شعراء ع ا اپ ۱۹.روح الامین (جبرائیل ) اس قرآن کو تیرے دل پر لایا ہے تا کہ تو نافرمانوں کو ان کی نافرمانی پر ڈرانے والا ہو.(۲) فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا - قَالَتْ إِنِّي أَعُوْذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا - قَالَ إِنَّمَا أَنَ رَسُولُ رَبَّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَمًا زكيا سے سورہ مریم ع۳ پ ۱۳.پس بنا لیا مریم نے اپنے اور لوگوں کے درمیان ایک پردہ.تو بھیج دیا ہم نے (اللہ فرماتا ہے ) اس کی طرف اپنا روح تب بن گیا وہ روح ہمارا مریم کے سامنے پورے آدمی کی شکل پر.تب مریم نے کہا میں الرحمن سے تیرے مقابلہ میں حمایت چاہتی ہوں.اگر تو ہو خدا کا خوف کرنے والا.(اسے خدا کی روح جبرائیل فرشتہ نے کہا ) میں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں اور اس لئے آیا کہ تجھے ایک اچھا بچہ دے جاؤں.( یہ فرشتہ بشارت دینے کو آیا تھا) قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ : سورہ نحل ع۱۳ پ ۱۴.تو کہہ دے (اس قرآن کو ) روح القدس (جبرائیل ) تیرے رب کی طرف سے آہستہ آہستہ لایا ہے اور یہ قرآن کامل راستبازی کے ساتھ ہے.حضرت مسیح علیہ السلام چونکہ کلام الہی کے لانے والے اور کلام الہی بندوں کو سمجھانے والے تھے ان کو بھی روح فرمایا جیسے فرمایا: وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوح منه.اور مسیح الہی کلمہ ہے اس پاک کلام الہی اور بشارت خداوندی کا ظہور ہے جو جبرائیل لائے تھے ) جو پہنچا مریم کی طرف اور اسی کی طرف سے وہ روح ہے.انسانی سانس کو بھی قرآن کریم نے روح فرمایا ہے جیسے کہا ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلْلَةٍ مِنْ مَّادِ مَّهِينٍ ثُمَّ سَقْبِهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوحِهِ.پھر بنائی اولاد آدم کی ایک ایسے النحل : ٢٣ الشعراء : ۱۹۴، ۱۹۵ ۳ مریم : ۱۸ تا ۲۲۰ النحل : ۱۰۳ ۵ النساء : ۱۷۲ السجدة : ١٠٩ ۲۴
۵۷ ابطال الوہیت مسیح خلاصہ سے جو سیال اور کمزور ہے.پھر ٹھیک درست کیا اس کو اور پھونک دی اس میں ایک روح جو اللہ کی طرف سے آئی اور فرمایا.فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سجِدِین کے اس سجدہ عا.پس جب ٹھیک درست کر دوں میں اس کو اور پھونک دوں اس میں اپنی روح تو اس کے لئے گر پڑیو سجدہ کرتے.عرب کی زبان میں بھی اسی نفس اور سانس کو روح کہا گیا.دیکھو ذو الرمة عرب کے قدیم شاعر کا قول ہے.فَقُلْتُ لَهُ ارْفَعُهَا إِلَيْكَ وَ أَحْيِهَا بِرُوْحِكَ وَاجْعَلْهُ لَهَا قِيْتَةً قِدْرًا پس میں نے اسے کہہ دیا (اپنے ساتھ والے کو کہا ) اس آگ کو اپنے منہ کی طرف اُٹھا لے.اور اسے روشن و زندہ کر اپنی پھونک سے اور اپنی پھونک کو اس آگ کی واسطے لکڑیاں بنا ہانڈی کی خاطر.تاج العروس شرح قاموس اللغة میں یہ شعر ذو الرمة کا موجود ہے.دیکھو مادہ ، روح اور اسی روح کے معنے کلام الہی وغیرہ وغیرہ لکھ کر کہا ہے سمعت ابا الهيثم يقول الروح انما هو النفس الذى يتنفسه الانسان وهو جار في جميع الجسد فاذا خرج لم يتنفس بعد خروجه فاذا تم خروجه بقى بصره شاخصًا.نحوه حتى يغمض وهو بالفارسية جان يذكر ويؤنث) انتهى.میں نے ابوالہیثم سے سنا فرماتے تھے روح تو آدمی کی سانس ہی ہے اور وہ تمام بدن میں چلتی ہے اور جب نکل جاوے تو آدمی سانس نہیں لے سکتا اور جب پوری نکل جاوے تو آنکھیں اسی طرف کھلی رہ جاتی ہیں جب تک بند نہ کی جاویں اسی کو فارسی زبان میں جان کہتے ہیں.مذکر کا لفظ ہے ( اور مؤنث بھی بولا جاتا ہے ).غالباً الروح عام جاندار کو اسی واسطے کہا ہے جہاں کہا ہے لا تتخذوا شيئًا فيه الروح غرضا * بلكه مقدسه كتب میں بھی روح وسیع معنی رکھتا ہے.ہاں الہی روح مقدسہ کتب میں وسیع معنی رکھتا ہے.چند ایسے معنی سنو جو اس مقام کے مناسب ہیں.اس ہوا کے معنے جو پانی پر چلتی ہے.”زمین ویران اور سنسان تھی اور گہرایوں کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی ، پیدائش اباب ۲.اس سانس کے معنی جس الحجر : ۳۰ حمل بعض احادیث میں آیا ہے جاندار چیز کونشانہ مت بنایا کرو.۲۵
۵۸ ابطال الوہیت مسیح سے آدمی زندہ ہوتا ہے.” جب میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تم کو تمہاری قبروں سے نکالوں گا تب تم جانو گے کہ خداوند میں ہوں.جب میں اپنی روح تم میں رکھوں گا اور تم جیو گے.حز قیل ۳۷ باب ۱۴.کلام الہی کے معنے.خدا وند کی روح اس دن سے ہمیشہ داؤ د پر اتر تی رہی.ا سموئیل ۱۶ باب ۱۳ بلکہ بڑی روحوں کو بھی خدا کی روح کہا ہے.جیسے لکھا ہے پر خداوند کی روح ساؤل پر سے چلی گئی اور خداوند کی طرف سے ایک بری روح اسے ستانے لگی.اسموئیل ۶ ا باب ۱۴.رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے یا یوں کہیے کہ قرآن نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنی روح فرمایا.سو جیسے بیان ہو چکا اتنے امر سے حضرت مسیح کا خدا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اور قرآن مجید نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اور انسانی سانس کو بھی اپنی روح فرمایا ہے.بات یہ ہے کہ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہی مخلوق ہے.چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام اس کے خاص بندے اور اس کے کلام کے پہنچانے والے تھے اس واسطے ان کو اپنی روح فرمایا.ایسی اضافتیں ہر زبان میں عزت کے لئے ہوا کرتی ہیں جیسے حضرت صالح کی اونٹنی کو قرآن کریم نَاقَةُ اللهِ.اللہ تعالیٰ کی اونٹنی فرماتا ہے اور اچھے بندوں کو عباد اللہ یعنی اپنے بندے فرماتا ہے.مسیح علیہ السلام کی الوہیت پر جس قدر دلائل میں نے سنے ہیں ان سب سے تعجب انگیز وہ دلیل ہے جو قرآنی لفظ كَلِمَةٌ سے عیسائیوں نے ماخذ کی ہے.عیسائی کہتے ہیں جب حضرت مسیح علیہ السلام خدا کا کلمہ ہوئے تو خدا ہی ہوئے.الجواب: اگر قرآنی محاورہ سے کسی چیز کا کلمۃ اللہ ہونا اس چیز کے خدا ہونے کی دلیل ہے تو تمام کلمات الہیہ کو چاہئے کہ خدا ہوں مثلاً قرآن مجید میں وارد ہے وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ لے اور ضرور پہلے ہو چکی بات ہماری ہمارے رسول بندوں کی نسبت.اب اس کی تفسیر سینے کہ وہ کلمہ کیسا ہے اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَ إِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الغَلِبُونَ.بے ریب (وہی اللہ کے رسول ) ضرور اللہ تعالیٰ کے یہاں سے مدد دیئے گئے ہیں اور بے ریب ہما را ہی لشکر ( رسول اور ان کے بچے اتباع ) ضرور وہی غالب ہیں اور فرمایا وَ الَّذِينَ أتَيْنَهُمُ الكتب يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزِّلُ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبَّكَ صِدْقًا وَ عَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ = الصفت: ۱۷۲ الصفت: ۱۷۴۱۷۳ ۲۶ الانعام : ۱۱۶،۱۱۵
☆ ۵۹ ابطال الوہیت مسیح پ ۲۳ ۹۶.اور وہ جن کو دی ہم نے کتاب وہ جانتے ہیں بے شک یہ قرآن تیرے رب کی طرف سے اُتارا گیا.کامل صداقت اور حکمت کے ساتھ پس نہ ہوگا تو او مخاطب یا نہ ہو جیو تو او مخاطب متردد اور پورا ہے کلام تیرے رب کا سچائی اور انصاف میں کوئی بھی نہیں جو اس کے کلاموں کو بدلا وے اور وہ سنتا جانتا ہے اور فرمایا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا اور زیر کر دیا اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات کو اور زبردست اور پکی ہیں اللہ کی باتیں.کتب عہد عتیق و جدید میں بھی کلمة اللہ کے معنے کلام خدا اور حکم خدا آئے ہیں.ستو! بكلمة الرب ثبت السموات وبروح فيه جميع جنودها زبور۳۳-۶.خداوند کے کلام سے آسمان بنے اور اُن کے سارے لشکر اُس کے منہ کے دم سے.فـلـمـا كـان في تلك الليلة حلّت كلمة الله على ناثان النبی اخبار الایام کی پہلی کتاب ۷ ا باب ۳.اُسی رات کو ایسا اتفاق ہوا کہ خداوند کا کلام ناثان نبی کو پہنچا.حلت كلمة الرب على يوحنا بن ذكريا في البرية.لوقا ۳ باب ۲.خدا کا کلام بیابان میں بیچی زکریا کے بیٹے کو پہنچا تر جمہ ۴۰ ۴۴.اسی طرح کے بہت محاورات کتب سابقہ میں موجود ہیں اگر کوئی چیز کلمۃ اللہ ہونے سے عین اللہ ہوسکتی ہے تو تمام وہ تامہ جملے جو انبیا علیہم السلام اور ان کے پاک اتباع کو مکالمہ الہیہ اور مخاطبہ ربانیہ سے پہنچے چاہئے کہ وہ سب خدا ہوں.اعاذنا اللہ اصل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت آپ کی والدہ صدیقہ مریم علیہا السلام کو آپ کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بشارت کا کلمہ اور آپ کے پیدا ہونے کی خبر دی تھی یا اس لئے کہ آپ خاص حکم الہی سے صدیقہ مریم کو عطا ہوئے آپ کو کلمہ فرمایا.اب ہم اس گفتگو کو ایک قرآنی رکوع کے بیان پر ختم کرتے ہیں.إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّى مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ.فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأَعَذِبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ مَالَهُمْ مِنْ نُّصِرِينَ.وَأَمَّا الَّذِينَ در ہماں شب چنان اتفاق افتاد که کلام خداوند به نا خان نبی رسید ۲۷
ابطال الوہیت مسیح امَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ فَيُوَفِّيْهِمْ أَجُورَهُمْ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ.ذَلِكَ تَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ أَدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا اللهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ.قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِه شَيْئًا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ جب کہا اللہ نے اویسی ! بے شک میں تجھے پورا اجر دینے والا یا مارنے والا ہوں اور اپنی طرف بلند کرنے والا اور ان منکروں سے پاک وصاف کرنے والا ہوں.اور کرتا رہوں گا تیرے اتباع کو تیرے منکروں کے اوپر قیامت تک پھر اواتباع کا دعویٰ کرنے والو! تم سب کا مقدمہ میرے پیش ہوگا اور میں حکم کروں گا اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں گا اس مسئلہ میں جس میں تم کو باہم اختلاف ہے.تفسیر:- مسیح علیہ السلام کے اتباع کے مدعی یا اہل اسلام ہیں یا عیسائی اور آپ کے منکروں میں اول درجہ کے منکر یہود ہیں جن کا اصلی ملک کنعان ہے اور جن کا کعبہ یروشلم.دوم درجہ پر آپ کے منکر مجوسی اور تیسرے درجہ پر مجوس الہند.اعلیٰ اتباع اعلیٰ منکروں پر حکمراں اور ادنیٰ درجہ کے اتباع ادنی منکروں پر حکمراں ہورہے ہیں.لاکن تیرے منکروں کو تو سخت عذاب دوں گا دنیا اور آخرت میں اور کوئی سلطنت اُن کی حامی نہ ہوگی بلکہ اُن کا کوئی حامی نہ ہوگا.اور مومن اور جنہوں نے اچھے اعمال کیے پس ان کو پورا اجر ملے گا اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.یہ پڑھتے ہیں تجھ پر تیری نبوت کے نشانوں سے اور تذکرہ ہے حکمت والا.اب اللہ وہ فیصلہ دیتا ہے جس کا اتباع کے ال عمران : ۵۶ تا ۶۵ ۲۸
۶۱ ابطال الوہیت مسیح با ہم اختلاف میں وعدہ فرمایا تھا عیسی آدمی کی طرح ہے.آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو دوسرے تیسرے تولد نئی زندگی نبوت کے واسطے منتخب فرمایا اور وہ ایسے ہی ہو گئے.یہ ٹھیک دلیل یا بات ہے تیرے رب کی طرف سے ) کہ حضرت مسیح میں بشریت سے بڑھ کر کوئی بات نہ تھی.معجزے، عجائبات، عمدہ تعلیم ، یہ باتیں انبیا میں ہوا کرتیں ہیں حالانکہ وہ بشر ہوا کرتے ہیں ) پھر کبھی نہ ہوگا تو او مخاطب یا کبھی نہ رہیو شک کرنے والا.اور اگر کوئی نادان اس دلیل کے بعد پھر بھی حجتیں کرے تو ایسے احمقوں سے یوں مقابلہ چاہئے کہ اُن سے مباہلہ کر لو اور کہو آؤ بلائیں اولادیں اپنی اور تمہاری اولاد اور عورتیں تمہاری اور اپنی اور اپنے آدمی اور تمہارے پھر عاجزی سے دعا مانگیں کہ الہی لعنت ہو جھوٹوں پر.بے ریب یہ صاف اور عمدہ ٹھیک بیان ہے.اور اللہ کے سوا کوئی بھی فرمانبرداری کا مستحق نہیں اور اللہ وہی غالب ہے حکمتوں والا.پھر اگر اس پر پیٹھ دیں تو جان لو اللہ ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے تو کہ وے او کتاب والو آؤ ایسی بات کی طرف کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے فرمانبردار نہ پینے اور شریک نہ کریں اس کے ساتھ کسی چیز کو اور نہ بنالے بعض ہمارا بعض کو رب کہ خدا کی طرح اس کی فرمانبرداری اپنے ذمہ واجب جانے.اگر اس مسلم الطرفین بات کو بھی نہ مانو تو کہ دو گواہ رہو ہم تو اللہ کے فرمانبردار ہیں مسلمان ہیں.ایک ضروری اور عجیب یاد داشت عام اور مسلم قاعدہ ہے کہ جس قدر کسی اثر کے قبول کرنے والی چیز کوکسی طاقتو راور اثر کرنے والی چیز سے تعلق اور اتحاد ہو جاتا ہے.اسی قدر متاثر اور اثر کے لینے والی چیز مؤثر اور اثر کرنے والی چیز کے الوان ، اوصاف سے متلون اور موصوف ہو جاتی ہے.کون نہیں جانتا کہ لوہا جب تیز آگ میں ڈالا جاتا ہے تو آگ کے آثار اور اوصاف سے متاثر نہیں ہو جاتا.مجھے یقین ہے کہ اگر لو ہے کو اس وقت گویائی کی طاقت عطا ہو جاوے تو کہہ دے اَنَا النَّارُ ( میں آگ ہوں).یا کسی منصف اور عادل حاکم کا دیانت دار اور اپنی نوکری میں چست و چالاک نوکر گورن کے وقت اپنی ۲۹
۶۲ ابطال الوہیت مسیح گورنمنٹ کا ظقتی طور کا نمونہ ہوتا.مجھے تو یقین ہے کہ ایسے ماتحت کی حکم عدولی اور اس کی بغاوت اس کی گورنمنٹ کی حکم عدولی ہے.ایسا ہی اللہ تعالیٰ کی مقدس اور ہمہ طاقت جناب میں اگر کسی انسان کو تعلق اور اللہ تعالیٰ کی پاک جناب میں کسی سعادت مند کو اپنی قوت ایمان اور صالحہ اعمال کے باعث میل جول ہو جاتا ہے تو اُس کو بقدر ایمان اور اعمال صالحہ کے عنایات ربانیہ سے ایسا فیض اور انعام حاصل ہوتا ہے کہ وہ شخص مظہر انوار اور برکات اللہ بن جاتا ہے.حضرات انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی گرامی ذات کو حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کی معلیٰ بارگاہ سے ایسا تقرب اور تعلق ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی سے محبت کرتے ہیں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے باعث اور کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو صرف اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے باعث.اُن کی کمان الہی کمان سے وہ اتحاد رکھتی ہے کہ دونوں کمانوں کے دو قاب بجائے دو کے ایک ہی نظر آتے ہیں اور چونکہ عنایات ربانیہ کا مظہر ہونا کامل عبودیت اعلیٰ درجہ کے عجز وانکسار اور پکے اخلاص کے ساتھ استقامت اور استقلال کا نتیجہ ہوا کرتا ہے اور حضرت انبیاء کرام اور ان کے جانشینان پاک اولیاء عظام کو صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامٌ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَام جو عبودیت واخلاص و استقامت وغیرہ وغیرہ میں عامہ خلائق سے ممتاز اور کا فہ انام سے بڑھ کر خصوصیت رکھتے ہیں.اسی واسطے خاص خاص عنایات ایزدی کے مور دبنتے ہیں کہ ان کی نسبت یہ کلمات سنائے جاتے ہیں اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله بے ریب وہ لوگ جو تجھ سے فرمانبرداری اور تیرے اتباع کا معاہدہ کرتے وہ اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کرتے ہیں اور ان پر بقدر ان کی عبودیت کے اس مکالمہ الہیہ اور مخاطبت ربانیہ کا نزول ہوتا ہے جسے الہامی الہامات میں روح القدس اور ہولی گھوسٹ کہتے ہیں جیسے قرآن کریم میں آیا ہے.وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ اَمْرِنَا یہی تو حید فی التثلیث اور تثلیث فی التوحید تھری ون اور ون تھری کا مضمون تھا جس کو عیسائی نہ سمجھ کر شرک میں گرفتار ہو گئے اور نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے پاک اشخاص انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کو دنیا کی ہدایت کی واسطے مبعوث فرماتا ہے تو جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا الفتح : اا الشورى : ۵۳ ۳۰
۶۳ ابطال الوہیت مسیح فرما نا ہوا کرتا ہے.ان کا اور ان کے کلام کا اتباع عین اللہ تعالیٰ کی اتباع ہوا کرتا ہے ان کا اور ان کے کلام کا ماننا عین اللہ تعالیٰ کا ماننا ہو جاتا ہے گویا وہ اور اللہ تعالیٰ اور کلام الہی تین ہیں مگر ایک ہیں اور جب کبھی ان کے اتباع سے کوئی سعادت مند بقدر طاقت اللہ تعالیٰ کی جناب میں پوری عبودیت کے ساتھ استقامت اور اخلاص سے نزول روح القدس کی لیاقت پیدا کرتا ہے تو الوہیت کا ملہ اس بندہ کی عبود بیت پر روح القدس کا فیضان فرماتی ہے.اللهم اجعلني من الملهمين الصادقين.۳۱
وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ( النِّسَاءِ: ۸۳) إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (الانعام: ۱۲۰) خطوط ! جواب شیعه و ردّ شیخ جو مولا نا حکیم الامتۃ مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ۱۸۸۰ء میں ایک شیعہ کو اور ایک کسی اور دوست کو لکھے تھے.مطبع انوار احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور قیمت ۱۲ تعداد اشاعت ۴۰۰ تاریخ اشاعت ۶ اکتوبر ۱۹۰۱ء
۶۷ رد شخ جواب خط متضمن مسئله ناسخ و منسوخ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد و فصلی العائذ با اللہ ابو اسامہ اپنے عزیز نجم الدین کو.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد لکھتا ہے.تمہارے تاکیدی خط بدریافت مسئلہ نسخ مکرر پہنچے.میرا منشا تھا کہ اس مسئلہ میں مفصل رسالہ لکھوں.الا فی الحال کئی موانع در پیش ہیں.آپ چند روز اور انتظار فرمائیے.اگر زندگی باقی ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ تفصیل آپ کی نگاہ سے گزرے گی.اس وقت خط میں ضروری باتوں پر اکتفا کرتا ہوں.مجھے حق سبحانہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ میری یہ چند باتیں آپ کو اور ناظرین اور سامعین کو بھی مفید ہوں گی.فاني في مقام النصح ولم لا اكون والدين النصح وانما الاعمال بالنيات وانما الامرء مانوی.میرے دل میں جوش زن ہے جہاں تک آپ سے ہو سکے یہ خط احباب کو دکھلائیے.کیونکہ لایو من احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.میرے عزیز اب میں اس مضمون کو چند فقروں میں بیان کرتا ہوں فقره اول: نسخ کے معنے.نسخ لغت میں ایک چیز کے باطل کر دینے اور دور کر دینے اور اس کے بدلہ اور چیز کو رکھ دینے کے ہیں.اور نقل اور تحویل اور تغیر کے معنوں میں بھی آیا ہے.قاموس میں ہے.نسخه کمـنـعـه ازاله وغيره وابطله واقام شيئاً مقامه والشيء نسخه لکھا ہے.والكتاب كتبه (قاموس) النسخ ابطال شيء واقامة غيره مقامه نسخت الشمس الظل وهو معنى ماننسخ (مجمع البحار)
رو شخ ۶۸ والنسخ الـنـقـل كـنـقل كتاب من آخر.والثاني: الابطال والازالة وهو المقصود.ههـنـا (ابو سعود النسخ في اللغة.الابطال والازالة ويرادبه النقل والتحويل والاكثر على انه حقيقة فى الازالة مجاز في النقل.(حصول) النسخ الاول والنقل والتحويل والثاني الرفع والازالة.(مظهرى) فقره دوم :- فقرہ اول میں معلوم ہو چکا کہ نسخ کے معنے ابطال اور تغیر اور نقل کے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت ماننسخ میں ابطال کے ہی معنے مطلوب ہیں جیسے ابوسعود.مجمع البحار سے ظاہر ہے اور علاوہ بریں جب ہم ناسخ اور منسوخ کا ذکر کرتے ہیں تو نقل والے معنے ضرور نہیں لئے جاتے.کیونکہ اس صورت میں سارا قرآن منسوخ ہے اور تغیر کے معنی بھی مراد نہیں کیونکہ مطلق کی تقید اور عام کی تخصیص اور ایزاد شروط اور اوصاف کو اگر نسخ کہیں تو قرآن کی منسوخ آیتیں سینکڑوں کیا ہزاروں ہو جاتی ہیں تخصیص اور شیخ اور تقید اور نسخ کا تفرقہ ثابت ہے.ونثبت انشاء الله تعالى.یادرکھو کہ ابطال ہی کے معنے میں نسخ کا لفظ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے.والـقـرآن يفسر بعضه بعض قال الله تعالى.إِلَّا إِذَا تَمَنَّى اَلَقَى الشَّيْطَنُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ، فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ الحَ.ای یزیله ويبطله اور یا درکھو کہ نسخ کے حقیقی معنے ابطال اور ازالہ کے ہیں.حقیقی معنے کو بدون ضرورت چھوڑ نا مناسب نہیں اور ان معنے کے لحاظ سے قرآن میں کوئی آیت منسوخ موجود نہیں ہے.یادر ہے کہ میں مطلق نسخ کے وقوع کا منکر نہیں ہوں.فقره سوم :.جن آیات کو لوگوں نے منسوخ مانا ہے اُن کے معنے کرنے میں نسخ کے ماننے والوں نے ابطال کے معنے میں ضرور تساہل کیا ہے.مجھے ایک زمانہ میں اس مسئلہ کی جستجو تھی اُس وقت ایک رسالہ ایسا ملا جس میں پانچ سو آیت سے زیادہ منسوخہ آیات کا بیان تھا.میں اُسے سوچتا اور مصنف کی لا پرواہی پر تعجب کرتا تھا.تھوڑے دنوں بعد سیوطی کی اتقان دیکھی.تو ایسی خوشی ہوئی جیسے بادشاہ کو ملک لینے کی.یا عالم کو عمدہ کتاب ملنے کی یا قوم کے خیر خواہ کو کامیابی کی ہوتی ہے.مجھ کو امام سیوطی کی ذکر کردہ آیات میں بھی تر ڈر تھا.الا چھوٹا منہ بڑی بات پر خیال کر کے خاموش رہا پھر چند دنوں بعد الحج ۵۳ ۴
۶۹ رو شخ فوز الكبير في اصول التفسیر راحت بخش دل مضطر ہوئے اس میں مصنف علامہ نے صرف پانچ آیتیں منسوخ مانی ہیں.میں نے ان پانچ مقام کی تحقیق تفاسیر سے کی تو ان پانچ مقامات کا منسوخ ما ننانفس الامر کے مطابق نہ پایا.فقرہ چہارم :- عزیز من ایمان اور انصاف کا مقتضی ہے.اگر ہم دو احکام شرعیہ کو متعارض دیکھیں تو بحکم وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا کے ہم ضرور یقین کریں کہ یہ تعارض ہمارے فہم کی غلطی ہے.اگر تطبیق دو آیتوں یا حدیثوں کی ہمیں نہیں آئی تو اللہ کے ہزاروں ایسے بندے ہوں گے جو تطبیق دے سکتے ہوں گے.ہم بڑے نادان ہیں اگر اپنی کمزوریوں کو نہیں سمجھتے.بڑی غلطی پر ہیں اگر اس فیض الہی کے منتظر نہ ہیں جس کے ذریعہ تطبیق حاصل ہو.بڑی نا امیدی ہے اگر قبض کی حالت میں بسط کا انتظار نہ ہو.صاف دھوکہ ہے اگر فوق کل ذی علم علیم ہمیں بھول جائے.فقره پنجم : فوز الکبیر میں لکھا ہے.شیخ جلال الدین سیوطی در کتاب اتقان بعد ازاں کہ از بعض علماء آنچه مذکور شد به بسط لائق تقریر نمود و آنچه بر رائے متاخرین منسوخ است بر وفق ابن العربی محور کرده قریب بست آیت شمرده - فقیر را در اکثر آن بست آیت نظر است فلورد كلامه مع التعقب - فمن البقرة كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرَ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ - الآية منسوخة قيـل بــاية مواريث وقيل لحديث لاوصية لوارث وقيل بالا جماع حكاه ابن العربی اس پر مؤلّف علامہ کہتا ہے کہ یہ آیت آیت یوصیکم اللہ سے منسوخ ہے اور لا وصية لوارث کی حدیث اس نسخ کو ظاہر کرتی ہے.فقیر کہتا ہے یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ کتب.آہ.کے معنے ہیں لکھی گئی تم پر جب آجاوے ایک کو تم میں سے موت.اگر چھوڑے مال - الوصية ماں باپ اور نزدیکیوں کے لئے اور ظاہر ہے کہ جب موت حاضر ہوگئی تو آدمی مر گیا.ان ترك کا لفظ وجودموت پر قرینہ ہے.اس آیہ شریفہ سے النساء:۸۳ البقرة: ١٨١ النساء:۱۲
رد شخ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مال چھوڑ مرے تو اس کے حق میں کوئی وصیت لکھی گئی ہے.جب ہم نے قرآن کریم میں جستجو کی تو اس میں پایا یوصیکم اللہ فی اولادکم آہ معلوم ہوا کہ والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت الہیہ لکھی ہوئی ہے والقــرآن يـفـســر بـعـضـه بعضا اور اسی وصیت پر عمل کا کتب علیکم والی آیت میں حکم ہے.پس یہ آیت کتب علیکم اور آیت یوصيكم الله آپس میں متعارض نہ ہوئیں بلکہ ایک دوسرے کی جو ٹھہریں اور لا وصية لوارث والی حدیث بھی معارض نہ رہی کیونکہ بلحاظ حدیث یہ حکم ہے کہ یـوصـیـکـم اللہ میں وارثوں کے حقوق مقرر ہو چکے ہیں.اور شارع نے اُن کے حصص بیان کر دیئے ہیں.اب وارث کے لئے وصیت نہیں رہی.ہاں وارثوں کے سوا اور لوگوں کے حق میں وصیت ہو تو ممنوع نہیں.آگے کی آیت میں حکم ہے جس نے بدلا وصیت کو سننے کے بعد ضرور اس کا گناہ بدلنے والوں پر ہوا اور اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے.( کیوں نہ ہو خدائی وصیت کا بدلنا مسلمان کا کام نہیں.) اور آیت فَمَنُ خَافَ مِنْ مُّوْصِ جنا کا ترجمہ ہے جس کو ڈر ہو کہ کسی موصی نے کجی کی یا گناہ کیا پس اُس نے سنوار دیا تو اُسے گناہ نہیں تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے.ظاہر ہے جس موصی نے خدائی وصیت کے خلاف کیا اُس نے بے شک کبھی کی اس کے سنوارنے والے کو کوئی گناہ نہیں اور ہوسکتا ہے کہ موصی سے وہ وصیت والا مرد ہو جس نے ثلث سے زیادہ وصیت کی یا ثلث میں یا ثلث کے اندر کسی برے کام پر اور بری طرز پر روپیہ لگا دینے کی وصیت کی اور آیات یوصيكم میں من بعد وصية بدول تقيد مذکور ہے اس لئے یہاں بتا دیا کہ کبھی اور بدی کی سنوار معاف ہے اس سنوار نے پر کوئی جرم نہیں اگر اُس نے اس موصی کی وصیت میں اصلاح کی اور اس میں ایما ہے کہ اصلاح کے وقت غلطی بھی ہو جاتی ہے الا اُن کی معافی ہے.دوسری وجہ آیت منسوخ نہ ہونے کی الوالدین اور الاقربین یہاں معترف بالسلام ہیں.پس کہتے ہیں کہ یہاں خاص والدین اور اقارب کا ذکر ہے اور چونکہ آیت یوصیکم اللہ میں اکثر وارثوں کے حق بیان ہو چکے ہیں اور حدیث لا وصية لوارث میں وارثین کے حق میں وصیت کرنے کی ممانعت آچکی ہے اس لئے الوالدین اور الاقربین سے وہ ماں باپ اور رشتہ دار مراد ہیں جو وارث
اے رد شخ نہیں.مثلاً کسی شخص کے ماں باپ غلام ہوں یا مورث کے قاتل ہوں یا کافر ہوں اور ایسے وہ اقارب ہوں جو محروم الارث ہوں پس آیت مخصوص البعض ہے.اگر یہ تر ڈر ہو کہ یہ وصیت اکثر اہل اسلام میں فرض نہیں اور یہاں کتب کا لفظ فرضیت ظاہر کرتا ہے تو اس کا ازالہ یہ ہے کہ اول تو بالمعروف کا لفظ ندب کے لئے ہے.دوم ابن عباس.حسن بصری مسروق طاؤس.مسلم بن بیسار.علاء بن زیاد کے نزدیک اس وصیت کا وجوب ثابت ہے.اور پہلے معنے ہی کافی مان لو.دوسری آیت: "وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ.قيل منسوخة بقوله " فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمة ، وقيل محكمة ولا مقدرة قلت عندى وجه آخر وهو ان المعنى وعلى الذين يطيقون الطعام فدية هى طعام مسكين فاضم قبل الذكر لانه متقدمة رتبته وذكر الضمير لان المراد من الفدية هو الطعام والمراد منه صدقة الفطر عقـب الله تعالى الامر بالصيام فى هذه الأية بصدقة الفطر كما عقب الايت الثانية بتكبيرات العيد.خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کسی نے کہا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے.آیت فمن شہد کے ساتھ اور کسی نے کہا منسوخ نہیں اور لا مقدر ہے.یادر ہے کبیر میں لکھا ہے (الــواســع اسم لمن كان قادراً على الشيء مع الشدة والمشقة) پس لا کا مقدر کہنا نہ پڑا.یا اس کے معنے ہیں جولوگ طعام دینے کی طاقت رکھتے ہیں فطرانہ میں ایک مسکین کا کھانا دے دیں.فقیر کہتا ہے.لا مقدر کرنے کی حاجت اس لئے بھی نہیں کہ باب افعال کا ہمزہ سلب کے واسطے بھی آتا ہے.دیکھو مفلس کے معنے فلوس والا نہیں بلکہ یہ ہیں جس کے پاس فلوس نہ ہو پس یہاں يطيقون الخ کے معنے ہوئے جس میں طاقت نہ ہو روزہ کی وہ روزہ کے بدلے کھانا کھلاوے جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت اور اس آیت کا منسوخ نہ ہونا روایت کیا ہے بخاری نے عباس سے اور حافظ ابو نصر بن مردویہ نے عطاء سے.البقرة: ۱۸۵ البقرة : ١٨٦
۷۲ رو شخ تیسری آیت:- كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ الــخ منسوخ بـقــولـه تعالى.أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ القِيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِتَابِكُمُ ، اور دلیل میں لکھا ہے کہ موافقت کا مقتضی تھا کہ اہل کتاب کی طرح عورت سے صحبت کرنا اور کھانا نیند کے بعد حرام ہوتا.فوز الکبیر والے فرماتے ہیں یہ تشبیہ نفس وجوب میں ہے پس آیت منسوخ نہ ہوئی اور سچ ہے تشبیہ میں کل وجوہ کی مساوات نہیں ہوا کرتی نیز وہ حکم قرآن میں موجود نہیں.چوقی آیت: "يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيهِ ، الخ منسوخ ہے وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافةً ، کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے یہ آیت تحریم قتال پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ آیت تو قتال کے مجوز ہے.البتہ یہ آیت علت کو تسلیم کر کے مانع کا اظہار کرتی ہے.پس یہ معنے ہوئے کہ اشهر حرم میں قتال بڑی سخت بات ہے لیکن فتنہ اس سے بھی برا ہے پس فتنہ کے مقابلہ میں قتال برا نہ ہوگا.پانچویں آیت: ” وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ إلى قوله مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ.الخ منسوخة باية اربعة اشهر وعشرا والوصية منسوخة بالميراث والسكنى باقية عند قوم منسوخة عند آخرین.فوزالکبیر میں ہے کہ جمہور مفسرین اسے منسوخ کہتے ہیں.پھر کہا ويمكن ان يقال يستجب اويجوز للميت الوصية ولا يحب على المرأة ان تسكن في وصية وعـلـيـه ابن عباس وهذا التوجيه ظاهر من الآية.میں کہتا ہوں کہ اس ظہور میں کچھ کلام نہیں.مجاہد اور عطا سے مروی ہے کہ آیتہ منسوخ نہیں اور حسب اس وصیة کے سال بھر کامل اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں رہنا چاہے ان کومنع کرنا درست نہیں اور اگر چار مہینے دس دن کے بعد یا وضع حمل کے بعد نکلنا چاہے اور دوسری جگہ چلی جائے تو مختار ہے.اور یہی مذہب ہے ایک جماعت کا اور پسند کیا اس کو ابن تیمیہ نے.چھٹی آیت: "وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمْ بِهِ اللَّهُ البقرة : ۱۸۴ البقرة: ١٨٨ البقرة: ۲۱۸ التوبه : ٣٦ البقرة: ۲۳۵ البقرة: ۲۴۱ ك البقرة: ۲۸۵
۷۳ رو شخ منسوخة بقوله تعالى " لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا صاحب فوز الکبیر فرماتے ہیں یہ مافی انفسكم عام مخصوص البعض ہے.لا يكلف اللہ کی آیت شریف نے بیان کر دیا کہ مافی انفسکم سے مراد بے جا کینہ اور نفاق ہے نہ وہ تو ہمات جو دل پر بے اختیار آ جاتے ہیں کیونکہ طاقت سے باہر باتوں کا حکم نہیں اور نہ انسان کو اس کی تکلیف بلکہ ماموصول معرفہ ہے.پس حاجت تخصیص بھی نہیں.ساتویں آیت : اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ ، قيل منسوخة بــقــولــــه «فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، وقيل لابل محكمة فوزالکبیر میں ہے حق تقاته کا حکم شرک اور کفر اور اعتقادی مسائل میں ہے اور ما استعطیم کا حکم اعمال میں ہے مثلاً جو کوئی وضو نہ کر سکے تیتم کر لے.جو کوئی کھڑا نماز نہ پڑھ سکے بیٹھ کر پڑھ لے اور یہ توجیہ سیاق آیت سے ظاہر ہے.آٹھویں آیت: وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاتُوْهُمْ نَصِيبَهُمْ ، قالوا منسوخة بقوله تعالى " وَأُولُوا الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَولَى بِبَعْضِ ، فوز الکبیر میں ہے.آیت کا ظاہر یہ ہے 66 کہ میراث وارثوں کے لئے ہے.اور احسان و سلوک مولی الموالاۃ کے واسطے نسخ کوئی نہیں.نویں آیت : "وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ ، آہ.یہ آیت منسوخ ہے اور کہا گیا منسوخ نہیں لوگوں نے سستی کی اس پر عمل کرنے میں.ابن عباس نے کہا یہ استحبابی حکم ہے.سچ ہے.بھلا اس کا نسخ کرنے والا کون ہے.دسویں آیت : "وَاثْتِى يَأْتِينَ الْفَاحِشَہ ، کہا گیا منسوخ ہے آیت سورہ نور سے.فوز الکبیر میں ہے.یہ بالکل منسوخ نہیں بلکہ واللاتی آہ میں حکم ایک غایت کے انتظار کا ہے.سورۂ نور میں اس غایت کا بیان ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ سبیل ہے جس کا وعدہ دیا تھا پس نسخ نہ ہوئی.یا فاحشة کے معنی میں عام طور کی شرارتیں مراد ہیں بدون زنا کے.پس مطلب یہ ہے کہ عورت کو عام طور پر بعض شرارتوں کے باعث گھر میں روکا جاسکتا ہے.البقرة: ۲۸۷ الانفال: ۷۶ آل عمران: ۱۰۳ النسا : و التغابن: ۱۷ النساء : ۳۴ ك النسا : ١٦
۷۴ رد شخ 66 گیارھویں آیت: "وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ ، آہ اس مہینے میں اباحت قتال کے ساتھ منسوخ ہے فوز الکبیر میں ہے قرآن اور سنت ثابتہ میں اس کا نسخ موجود نہیں.بارہویں آیت: - "فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ، منسوخ ہے وَأَنِ احْكُمُ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہ سم، کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے کہ اس کے معنے ہیں کہ اگر تو حکم کرے اہل کتاب کے مقدمات میں تو ما انزل اللہ پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ جا.حاصل یہ ہوا کہ یا تو ہم اہل ذمہ کو چھوڑ دیں وہ اپنے مقدمات اپنے افسروں کے پاس لے جاویں اور وہ اپنی شریعت کے موافق فیصلہ کریں اگر ہمارے پاس آویں تو حسب شریعت خود فیصلہ کردیں.تیرہویں آیت: " أَوْ أَخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ ، منسوخ ہے.وَأَشْهِدُوا ذَوَى عَدْلٍ مِنْكُم ش کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے کہ امام احمد نے آیت کے ظاہر پر حکم دیا ہے اور اس آیت کے معنے اور لوگوں نے یہ کئے ہیں.اَوْ آخَرُنِ مِنْ غَيْرِكُمْ ای من غیر قاربكم فيكونون من سائر المسلمين.چودھویں آیت : ” ان يكُن مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ، الآية منسوخ بالأية بعدها.میں کہتا ہوں ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں.اول تو اس لئے پہلی آیت شرطیہ جملہ ہے امر نہیں.پس جو کوئی آیت ان یکن منکم کا مخاطب ہے اس وقت اس کے صابر دس گنے دشمنوں کو کافی تھے.جو لوگ آلان کے وقت نکلے اس مجموعہ کے صابر دو چند کے مقابلہ میں غالب ہو سکتے تھے.اگر یہ پچھلے وہی پہلے ہوں تو بھی مختلف اوقات میں انسانی حالت کی تبدیل کوئی تعجب انگیز نہیں.اور اصل بات یہ ہے کہ جنگ بدر پہلی جنگ ہے جس میں صحابہ کرام کو عمائد مکہ اور صنادید قریش سے مقابلہ کا اتفاق پڑھا تو اس پہلی جنگ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آئندہ تو تم کو اگر تم صابر ہوئے تو دس ا المائدة : ٣ المائدة: ۴۳ المائدة: ۵۰ المائدة : ١٠٧ ه الطلاق : الانفال : ٦٦
۷۵ رو شخ کے ساتھ.نہیں کو دوسو کے ساتھ.سو کو ہزار کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے گا اور اب تو اس پہلی بار میں اللہ نے تخفیف کی تمہارا مقابلہ اگر دو چند سے ہوا تو کامیاب رہو گے.الآن اور عَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَغفال صاف تفرقہ کی دلیل ہے.پندرہویں آیت:- "اِنْفِرُوا خِفَافًا وَ ثِقَالًا الخـ منسوخة باية العذر وهو قوله " لَيْسَ عَلَى الْأَعْلَى حَرَجٌ ، وقوله " لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ ، فوز الکبیر میں کہا ہے خفافا کے معنے ہیں کہ نہایت تھوڑے جہاد کے سامان ( جیسے ایک سواری ایک نوکر اور معمولی زادراہ) سے بھی لڑائی کرو.اور ثقالا کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے نوکر اور سواریاں اور زادراہ تمہارے پاس ہو.سولہویں آیت : "الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً منسوخة بـقـولــه وَانْكِحُوا الأيامى مِنْكُمُ ، فوز الکبیر میں ہے امام احمد ظاہر آیت پر حکم کرتے تھے.اور امام احمد کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ کبیرہ کا مرتکب زانیہ ہی کا کفو ہے یا یہ کہ زانیہ کا نکاح پسند کرنا اچھی بات نہیں بلکہ آیت شریف میں حُرِّمَ ذَلِک کا اشارہ زنا اور شرک کی طرف ہے پس نسخ نہ ہوئی یا فانکحو الا یامی عام ہے اور عام کا ناسخ خاص کو کہنا اجماعی نہیں.ستارہویں آیت: "لِيَسْتَأْذِنُكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ، بعض اسے منسوخ کہتے ہیں اور بعض منسوخ نہیں کہتے مگر لوگوں نے اس پر عمل کرنے میں سنتی کی ہے.فوز الکبیر میں ہے ابن عباس کہتے تھے منسوخ نہیں اور یہی وجہ اعتماد کے لائق ہے.اٹھارویں آیت : "لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ، الآية منسوخة بقوله انا احللنا لك قلت تحمل ان يكون الناس مقدماً في التلاوة وهو الا ظهر.میں کہتا ہوں بعد کا مضاف اليه الـجـنـاس التي مرذكرها في قوله انا احللنا الآیۃ.پس معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ اے نبی تجھے حلال نہیں عورتیں ان چار قسم کے سوا ( تری بیبیاں اور مملوکہ اور بنات عم، بنات الانفال: ۶۷ النور: ۴ التوبه ام النور : ٦٢ النور : ٣٣ ك النور: ۵۹ التوبه: ۹۱ الاحزاب : ۵۳ "
رو نخ عمات ، بنات خال، بنات خالات جنہوں نے ہجرت کی اور وہ مومنہ جس نے اپنا آپ تجھے بخش دیا ) اور ولا ان تبدل اس کی تاکید ہے.انیسویں آیت: "إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِمُوا الآية منسوخه بالآية بعدها - میں کہتا ہوں اوّل تو یہ استحبابی حکم ہے اور اس استحباب کو مٹانے والی قرآن میں کوئی آیت نہیں بلکہ شیخ ابن عربی نے فتوحات میں لکھا ہے کہ میں تو اگر حدیث سے مشورہ لیتا ہوں تو بھی چونکہ وہ کلمات نبویہ سے مشورہ صدقہ دے لیتا ہوں.جزاہ اللہ بیسویں آیت: "فَأْتُوا الَّذِيْنَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوْا، قيل منسوخة بآية الصيف وقيل باية أخرى وقيل محكم - فوزالکبیر والے فرماتے ہیں ظاہر یہی ہے کہ آیت منسوخ نہیں.یہ حکم الزمان ہے.اکیسویں آیت: قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ، آخر سورۃ کے ساتھ منسوخ ہے اور بات یہ ہے کہ قیام اللیل ایک امر مسنون ہے.آیات شریفہ میں فرضیت قطعی نہیں اور سنیت قیام اللیل کی بالا تفاق اب بھی موجود ہے.فقرہ ششم :- ضعف اور قلت کے وقت صبر اور درگذر کا حکم قرآن شریف میں بہت جگہ ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیتیں آیت قبال سے منسوخ ہیں اور یہ بات صحیح نہیں بلکہ قتال کا حکم تاخیر میں رہا ہے.سیوطی نے کہا دیکھو باب ناسخ منسوخ اتقان میں.الثالث ما امر به بسبب ثم يزول السبب كالا مرحين الضعف والقلة بالصبر والصفح ثم نسخ بايجاب القتال وهذا في الحقيقة ليس نسخاً بل هوم قسم النسى كما قال تعالى اوننسها فالنسي هو الامر بالقتال الى ان يقوى المسلمون الى ان قال وبهذا يضعف مالهج به كثيرون من ان الآية في ذلك منسوخة بأية السيف وليس كذلك بل هي من المنا بمعنى ان كل امر وردیجب امتثاله في وقت ما فعله يقضى ذالك الحكم ثم ينتقل بانتقال تلك العلة الى كلم المجادلة: ١٣ الممتحنة: ۱۲ ۱۲ المزمل: ٣
رد شخ 22 آخر وليس بـه نســخ انما النسخ الازالة للحكم حتى لا يجوز امتثاله (يه حتى لا يجوز کا لفظ یا درکھنے کے قابل ہے خصوصاً الآن خفف اور اشفقتم وغیرہ میں ) فقرہ ہفتم:.بعض صحابہ اور سلف سے تنقید اور تخصیص اور ابطال وغیرہ کو نسخ کہنا ثابت ہے الا اول تو ان کے اور ساتھ والوں نے نسخ کے ایسے عام معنے نہیں لئے.دوم.اگر نسخ تغیر کہتے تھے تو ان کے یہاں ایسے معنے کی نسخ قرآن میں آجاوے.اخبار سے ممنوع نہ تھی.ہمارے صاحبان شیخ کے معنوں میں ان کا محاورہ لیتے ہیں اور پھر سنن ثابتہ ہے.قرآن کی یہ نسخ تجویز نہیں کرتے.عملدرآمد میں اس اصطلاحی نسخ کو نسخ بمعنے رفع الحکم کا مرتبہ دے رکھا ہے.فقر ہشتم:.ماننسخ کا جملہ جملہ شرطیہ ہے اور شرط کا وجودضرور نہیں ہوتا.دیکھو ان کان للرحمن ولد والی آیت پس آیت ماننسخ سے مطلق نسخ کا وقوع بھی ثابت نہیں ہوسکتا.قرآن میں آیات منسوخہ کا موجود ہونا اس سے کیونکر ثابت ہوسکتا ہے.یادرکھو میں مطلق وقوع نسخ کا انکار نہیں کرتا بلکہ کہتا ہوں کہ قرآن اور صحیحین اور ترمذی میں بالاتفاق منسوخ کوئی حکم نہیں ( ترمذی میں جمع صلواتیں ظہرین و مغربین اور قتل شارب کی حدیث بھی منسوخ نہیں تفصیل اُس کی دراسات وغیرہ میں موجود ہے) فقرہ نہم:.میں نے بہت ایسے لوگ دیکھے جن کا یہ ڈھنگ ہے کہ جب دو بظاہر متعارض حکموں کو دیکھا اور تطبیق نہ آئی لا اعلم کہنے سے شرم کھا کر ایک میں نسخ کا دعوی کر دیا.یا جب کوئی نص اپنے فتوے کے خلاف سنی اول تو لگے اس میں تو جیہات جمانے.جب یہ کوشش کارگر نہ ہوئی جھٹ دعویٰ کر دیا کہ ان میں سے فلاں حکم اجماع کے خلاف ہے.جب اجماع کی غلطی معلوم ہوئی تو اجماع کو مقید کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ اجماع اکثر کے اعتبار سے ہے.جب اُس کو بھی کسی نے خلاف ثابت کیا تو شیخ کا دعویٰ کر دیا.حالانکہ بظاہر متعارض حکموں میں ایک کو عزیمت پر محمول کر لینے اور اباحت اصلیہ کو عارضی حرمت پر ترجیح کا موجب جان لینے اور شریعت کو اسباب اور مواقع کا مبین مان لینے سے قریباً کل تعارض دفع ہو سکتے ہیں.یہ عجیب قاعدہ تفصیل طلب ہے.الا اس خط میں گنجائش نہیں چند مثالیں سن رکھو.مسنِ ذکر سے وضو کرنا.یا عدم انزال میں غسل کر لینا.ایسا ہی ایک مومن ۱۳
ZA رو شخ صابر کا دس کفار کا مقابلہ کرنا اور رسول سے گوشہ کرنے میں صدقہ دینا عزیمت ہے اور یہ کام نہ کرنا رخصت.وتر کی ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو رکعتیں باختلاف انواع سب درست ہیں اور یہ اختلاف ایسا ہے جیسے نماز میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے کوئی سورۃ پڑھی کبھی کوئی.خرگوش کے استعمال میں اگر کوئی کراہت کی دلیل پیش کرے ( گو دلائل پیش شدہ صحیح نہیں ہیں ) تو اس کا کھانے والا اباحت اصلی کو بعد میں تسلیم تعارض مریج کہہ سکتا ہے.مومن کا عمدا قتل ابدی سزا کا سبب ہے اور قاتل کا سچا ایمان اور رحمت الہیہ اور شفاعت شافعین بلکه تو بہ وغیرہ اس ابدی سزا کے مانع ہیں اور تجاذب کی حالت میں قومی کا مؤثر ہونا ظاہر ہے.فقرہ دہم :.روز مرہ کے مسائل میں رفع یدین اور فاتحہ کا مسئلہ لو.جناب شیخ عبدالحق دہلوی سفر السعادت کی شرح میں فرماتے ہیں.علماء مذهب مابا این مقدارا کتفا نمی کنند و گویند که حکم رفع رفع يدين عند الركوع والرفع منه والرفع ابتداء مرا لثالثه منسوخ است و چون ابن عمر را که راوی حدیث رفع است دیدند که بعد رسول اللہ صلعم عمل بخلاف آں کردہ ظاہر شد که عمل رفع منسوخ است و از ابن همام نقل فرموده در نماز ابتدا حال اقوال وافعال از جنس این رفع (رفع یدین در سجدتین ) مباح بوده که منسوخ شده است پس دور نیست که این نیز ازاں قبیل باشد و مشمول نسخ بود - انتهی.شیخ نے نسخ کا مدار اول تو ابن عمر کے نہ کرنے پر رکھا دوم اس پر کہ جب سجدے کے رفع یدین اجماعاً منسوخ ہے تو رکوع کو جاتے اور اٹھتے اور تیسری رکعت کی رفع بھی منسوخ ہوگی اور یہ دونوں باتیں تعجب انگیز ہیں.اول تو اس لئے کہ ابن عمر کا رفع نہ کرنا ابو بکر بن عیاش نے روایت کیا ہے اور یہ شخص معلول مختلط الخبر ہے.دیکھو بخاری کی جزء الرفع اور ابن معین نے تو تهم من ابن عياش لا اصل لهـ دویم :.عینی نے بہتی سے روایت کیا کہ مجاہد کی روایت (ابن عیاش والی ) ربیع لیث ، طاؤس، سالم، نافع ، ابوالزبیر، محارب بن دثار جیسے ثقفون کے خلاف ہے یہ ثقہ لوگ ابن عمر سے اس رفع یدین کا کرنا نقل کرتے ہیں.سیوم :- ابن عمر سے مسند احمد میں مروی سے انه اذارای (ابن عـمـر) مصلیالم يرفع ۱۴
و شیخ ۷۹ حصبہ اور بخاری نے جزء الرفع میں کہار ماہ بالحصی.بھلا جو شخص یہ تشدد کرے کہ رفع یدین نہ کرنے پر پتھر مارے وہ خود نہ کرے.چہارم :- بخاری نے جزو میں فرمایا ہے لم يثبت من احــد مــن احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم انه لم يرفع پنجم :- ناسخ کو منسوخ کے مساوی ہونا چاہئے یہاں ایک طرف ابن عمر کا معلول اور بے اصل اثر دوسری طرف ابن عمر سے صحیح ثابت اثر بلکہ مرفوع روایت اور بیہقی کی حدیث جناب ابوبکر سے اور دار قطنی کی عمر رضی اللہ عنہ سے بلکہ پچاس صحابہ کی روایت اور بیہقی کی وہ روایت جس میں فمازالت تلك الصلواة حتى لقى الله والی موجود ہے اور سیوطی کا اس حدیث کو از ہار میں احادیث متواتر سے شمار کرنا.ششم :.مانا کہ ابن عمر سے عدم رفع ثابت ہے پھر کیا غیر معصوم پر صرف یہ حسن ظن کر کے کہ اُس نے خلاف امر مشروع نہ کیا ہوگا.نبی معصوم کے ثابت فعل کو منسوخ کہہ دینا، انصاف ہے اور کیا صحابی کا عدم فعل شرعی امر کا ناسخ ہوسکتا ہے.ہفتم :.صحابہ پر بڑا سوء ظن ہے کہ انہوں نے منسوخ حدیث رفع یدین کو بیان کیا اور ناسخ کی روایت نہ کی.ہشتم:.جائز ہے کہ ابن عمر نے رفع یدین کو عزیمت خیال فرمایا اور عدم رفع کو رخصت اور رخصت پر عمل کیا.نم :.قیاس نص کا ناسخ نہیں ہوتا.ودہم :.یہاں اصل یعنی سجدے کی رفع یدین کو منسوخ کہنا ہی صحیح نہیں.فرع یعنے نسخ رفع عند الركوع والرفع عند الرفع منه وعند الثالثہ کیونکر ثابت ہوسکتا ہے.فائدہ.ابن زبیر سے یہ رفع ثابت ہے اور نسخ کی روایت ان سے بالکل ثابت نہیں ایسا ہی ابن مسعود سے نصائح ثابت نہیں.دوسری بات کی غلطی سجدتین کی رفع نسائی میں مالک بن حویرث سے.ابو داؤد میں عبد اللہ بن زبیر سے.جس کی تصدیق ابن عباس نے کی.ابن ماجہ میں ابو ہریرہ ۱۵
رو نخ ۸۰ سے موجود ہے.ان روایات پر جو کچھ کلام ہے اس کا محل اور ہے اور سجدتین کی رفع.انس.ابن عمر.ابن عباس.حسن بصری.عطاء.طاؤس.امام مالک.شافعی کا مذہب ہے.اگر اجماعاً یہ رفع منسوخ ہوتی تو یہ خلاف کیوں ہوتا.دوم :- اثبات کی روایات کو ایسی جگہ نفی کی روایات پر خواہ خواہ ترجیح حاصل ہے.سوم : ثقہ کی زیادتی مقبول ہونے میں جمہور کا اتفاق ہے اور سجدتین کی رفع ثقات کی زیادتی ہے.چہارم :.جن لوگوں نے نفی کی روایت کی ہے ان کی روایت اس لئے مضر نہیں کہ یہ رفع یدین سجد تین کے وقت رسول اللہ صلعم نے کبھی ترک کی اور راوی نے رفع یدین کرتے نہ دیکھا اس لئے عدم رفع کی روایت کردی.صاحب ہدایہ نے ترک فاتحہ خلف الامام پر اجماع صحابہ کا دعویٰ کیا ہے.ابطال دعوی اجماع کی تفصیل کا محل نہیں انشاء اللہ کسی اور جگہ مذکور ہوگا.صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ترندی نے عبادہ کی حدیث میں کہا ہے کہ اکثر اہل علم صحابہ کرام سے فاتحہ خلف امام کے وجوب پر ہیں اور بخاری نے جز القراۃ میں فرمایا ہے بے شمار تابعین قرایت خلف الامام کا فتویٰ دیتے تھے.ولم يكن احمد بقدم على الحديث الصحيح عملا ولا رايا ولا قياسا ولا قول صاحب ولا عدم علمه بالخلاف الذي يسميه كثير من الناس اجماعاً ويقدمونه على الحديث الصحيح وقد كذب احمد من ادعى الاجماع ولم يمتنع تقديمه على الحديث الثابت وكذلك الشافعي ايضاً نص في رسالة الجديد على ان مالم يعلم فيه الخلاف فليس اجماعا ونصوص رسول الله صلعم عند الامام احمد وساير ائمة الحديث اجل من ان يقدم عليها توهم اجماع مضمونه عدم العلم بالخلاف ولو ساغ تعطلت النصوص وساغ لكل من لم يعلم مخالفا في حكم مسئلة ان يقدم جهله بالمخالف على النصوص فهذا هو الذي انکره الامام احمد والشافعي من دعوى الاجماع لا يظن بعض الناس انه استبعاده الوجود...فقرہ سورہ کافرون میں لکم دینکم ولی دین کا جملہ عام لوگوں کی زبان پر منسوخ ہے اور فی الواقع منسوخ نہیں کیونکہ دین کے معنے لغت میں جزا اور سزا کے ہیں پس آیت کے معنے یہ 17
ΔΙ رو شخ ہوئے کہ جس کو تم پوجتے ہو ہم اُسے نہیں پوجتے اور جس کو ہم پوجتے ہیں تم نہیں پوجتے تم کو تمہاری سزا ہے اور ہم کو ہماری جزا.دیکھو حماسہ ، ولم يبق سوى العدوان دناهم كما دانو ورد كما تدين تدان مشہور ہے اور اگر دین کے مشہور معنے میں لیں تب آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر گاہ تم باز نہیں آتے اور صرف بچے معبود ہی کی پرستش نہیں کرتے اور بتوں کی پرستش کرتے ہو تو ہم بھی وہ کریں گے جو ہمارے دین میں ہے کہ تم سے بجیا د پیش آویں گے.غرض آیت جہاد کی مانع نہیں.فقره عزیز من خاتمه خط پر ایک ضروری فائدہ لکھ کر خط کواب ختم کرتا ہوں.فائدہ حدیث یا قرآن کے موافق ہے یا قرآن کی تفسیر ہے یا ایسے حکم کی مثبت ہے جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں معلوم نہیں ہوا پس جو حدیث صحیح ہمیں زائد علی کتاب اللہ نظر آئے وہ نبی کریم کا استنباط ہے قرآن کریم سے.ہمارے فہم سے بالا تر ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے ومن يطع الرسول فقد اطاع الله وما اتاكم الرسول فخذوه - دیکھو حدیث سے بھتیجے کا نکاح اس کی پھوپھی پر اور بھانجے کا اس کی خالہ پر حرام ہے.حدیث سے رضاعت کی حرمت نسبتی حرمت کی طرح ثابت ہے حالانکہ قرآن کریم میں أُحِلَّ لَكُمْ فَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ عام موجود ہے.وطن میں رہن کا رکھنا جدہ کو وارث بنانا بنت الا بن کو سدس دلا نا حائض پر روزہ نماز چند روز موقوف سمجھنا.نہایت ضعیف خبر سے نبیذ التمر کے ساتھ وضو کر لینا حالانکہ قرآن میں پانی نہ ہو تو تیم کا حکم ہے.ادنیٰ مہر کے لئے مفلس سے مفلس کے لئے دس در ہم معین کرنا.لا يرث المسلم الکافر پر عمل کرنا.چور کا پاؤں کاٹنا حالانکہ قرآن میں ہاتھ کاٹنا مذکور ہے.طواف میں قیاساً طہارت کی شرط کا ایز دا کرنا حالانکہ قرآن مطلق ہے.مغمی علیہ سے اعمال حج دوسرا ادا کر دے اسے جائز قرار دینا حالانکہ صوم عن لمیت میں اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى کا عذر ہے.عاقلہ پر دیت کا حکم لگانا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخُری کا خلاف بجالا نا.نہایت ہی ضعیف حدیث سے نماز میں ہنس پڑنے کو ناقض وضو جاننا اور اونٹ کے گوشت کھانے کو ناقض نہ ماننا.ضعیف خبر سے غسل جنابت میں مضمضہ و استنشاق کو فرض کر دینا با اینکہ وضو میں مضمضہ واستنشاق کی فرضیت سے انکار ہے.موزہ پر مسح کرنے میں جواز کا فتویٰ اینکہ عمامہ پر مسح سے انکار ہے.اور 1
رد شخ ۸۲ حدیثیں دونوں کی مساوی ہیں اور ایسی ہی صد ہا جگہ احادیث سے قرآن پر ایزاد مانا اور کہیں انکار کرنا.اور مقدام بن معدیکرب کی اس حدیث پر خیال نہ کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الا انی اوتیت رجل القرآن ومثله معه الا يوشك رجل شبعان اعلى اريكته يقول عليكم بهذا القرآن الا لايحل لكم الحمار الاهلى ولاكل ذى باب من السباع ولقطه معاهد میں اب اس خط کو تمام کرتا ہوں ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار ۱۸
رد شخ ۸۳ دوسرا خط ایک شیعہ دوست کے نام ہے.ابواسامہ نورالدین سے اس کے دوست ( ع.وح) کو السلام علیکم دیں ایک ایسی تسلی ہے جو اکراہ کا ثمرہ نہیں ہوسکتا تیرہ سو برس کے جھگڑے ایک خط میں طے ہوں محال اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بہت پڑھنا جمعیت اور طمانیت کا موجب ہے.میرا حال پوچھتے ہو میں کس مشرب کا ہوں.سنو.ابتدا تمیز سے اس وقت تک قرآن کریم واہل حدیث کی جماعت میں شامل ہوں وارجو من الله ان اموت واحشر في حبّهم انشاء اللہ تعالیٰ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وساطت سے اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال.افعال اور احوال پر واقف ہوئے.یہی ہیں جنہوں نے قدریہ جہمیہ شیعہ خوارج سے حفظ اور عدالت کو دیکھ کر روایت لینے میں بے جا تعجب نہیں کیا.روایت میں جب صحت کی راہ دیکھی پھر اخذ روایت میں ہٹ دھرمی نہیں کی.اس حزب الہی کی عمدہ کتاب بعد کتاب اللہ بخاری کی صحیح ہے.شیعہ کے ایک ممتاز متکلم نے استقصاء میں اس کتاب اور اس کے مصنف پر قدح کرنے میں بڑے زور لگائے آلا اُس خیر خواہ اسلام پر جھوٹ اور بہتان کا الزام نہیں لگا سکا اُس کی کسی رائے پر اگر جرح کی ہے تو یہ ثابت نہیں کر سکا کہ بخاری ایسے راوی کی روایت کو شواہد میں نہیں لایا بلکہ اصل مسئلہ کے اثبات میں لایا ہے یا اس روایت کو بخاری بدون معاضد چھوڑ گیا.پھر آپ جانتے ہیں صراف تو کھوٹا کھرا پہچان سکتا ہے.آپ نے تشہید المطاعن کی چار جلدیں میرے مطالعہ کے لئے مرحمت فرمائیں.آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.میں نے کتاب کو بغور دیکھا سچ کہتا ہوں کہ علامہ مصنف نے صرف نکتہ چینیوں پر وقت صرف کیا ہے اور کئی ضروری باتوں پر توجہ نہیں فرمائی.مثلاً سوچو کہ قرآن کریم میں آدم علیہ السلام جیسے خلیفہ کو عصی کا فاعل اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیا صلی اللہ علیہ وسلم کو اسْتَغْفِرُ لِذَنبك کا مخاطب کیا.حضرت کلیم کے ایک اقرار کو آنا مِنَ الضَّالِّينَ کے الفاظ سے بیان کیا.مومن ہمیشہ ان الفاظ کی توجیہات کرتے ہیں اور ان الفاظ کوسن کر انبیا کی عصمت میں شک نہیں کرتے اور کوئی مسلمان وہم بھی نہیں کرتا کہ یہ حضرات خلافت عظمیٰ اور امامت کبرای کے قابل نہ تھے یا عصیان یا ذنب یا ضلالت کے سبب معزول ہو گئے.موسیٰ اور خضر کا قصہ قرآن میں موجود ہے وہاں ۱۹
تو شیخ ۸۴ دیکھو خضر بظاہر ملزم تھے الا اصل اسباب پر جب اطلاع ہوئی تو معلوم ہوا کہ بالکل بری ہیں.پھر تم جانتے ہو کہ اجتہادی غلطیاں اجر کا موجب بھی ہوتی ہیں مشورہ.اگر عیب ہے تو وَشَاوِرُهُمْ میں تامل کیجئے.سنو سنو نہایت کا کمال چاہئے.ہدایت کا نقصان کچھ ضرر نہیں دے سکتا.سلف کا کیسا سچا فقرہ ہے.ان الذنوب قد يوصل الجنة والعبادة قد تدخل النار کیا معنے.معاصی سے کبھی تو بہ کی راہ کھل جاتی ہے اور عبادت سے کبھی انسان کبر اور عجب میں مبتلا ہوکر بالکل تباہ ہو جاتا ہے.امام کا اگر معصوم ہونا اس لئے شرط ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہو.عام لوگ غلطی میں مبتلا نہ ہوں تو آپ جانتے ہیں صرف امام کی عصمت سے یہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ امام کے اہلکار اور اس کے ملکوں پر چھوڑے ہوئے حکام نہ معصوم ہونے ضرور ہیں اور نہ ان کا منصوص ہونا شرط ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب امیر کے نواب اور عمال ہی کو دیکھ لو.پس مناط حکم میں ان سے غلطی کا وقوع ممکن ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اکثر لوگ امام تک نہیں پہنچ سکتے کل کا پہنچنا کیونکر ہوسکتا ہے.اور آپ جانتے ہیں کہ صرف امام کی عصمت سے جب تک اس کا تسلط نہ ہو اور ظاہری حکم نہ ہولوگوں کو فائدہ کیونکر ہو سکتا ہے.صاحب الزمان علیہ السلام کی حالت ملاحظہ کرو.آپ جانتے ہیں که شخصی معاملات اور منزلی انتظامات کے واسطے ہر ہر شخص کو ہر وقت کے جزئیات کے لئے امام سے رجوع کرنا صریح محال ہے اگر کلیات سے جزئیات لے گا تو ضرور ہی اجتہاد میں غلطی کرے گا پس جس غرض پر عصمت اور امامت کو شیعہ امامیہ ثابت کرتے ہیں صرف اسی سے دنیا میں اصلاح کا قائم ہونا معلوم کیا معنے.اگر باری تعالیٰ اصلاح چاہتے تھے تو بقول آپ کے باری تعالیٰ پر واجب تھا کہ امام کو تسلط دیتے.دوسری بات جس کو فروگذاشت کیا ہے یہ ہے کہ مہاجرین کے حق میں لَا كَفْرَنَّ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَ لَأُدْخِلَنَّهُمُ جَنَّتٍ تَجْرِى - قرآن میں موجود ہے.بھلا جن لوگوں کی نسبت کفارہ اور جنت میں لے جانے کا وعدہ ہو وہ ابدی سزا پائیں.واللہ عقل نہیں مانتی.سنوسنو سنو مكفرات ذنوب بہت ہیں.اول خالص تو بہ.دوم استغفار.سیوم اعمال صالحہ.چہارم مومن کی دعا.آل عمران : ۱۹۶ ۲۰
۸۵ رو شخ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا.ششم آپ کی شفاعت ہفتم اہوال وصدمات جو مابعد الموت طاری ہوتے ہیں.ہشتم وہ اعمال اور صدقات جن کا اثر میت کو پہنچنا شرع سے ثابت ہے جیسے میت کی طرف سے روزہ رکھنا.حج کر لینا، میت کی اولا دصالح، میت کا وہ علم جس کا نفع جاری ہے.تم دنیویہ صدمات.دہم کرب قیامہ.یاز دہم اقتصاص عند المیزان.دوازدہم صدق توحید.سیز دہم رحمت ارحم الراحمین جس کی سبقت غضب پر منصوص ہے.علامہ مصنف نے یہ خیال نہ فرمایا کہ اگر صحابہ سے معاصی سرزد ہوئے تو کیا مفرات ان کے لئے محال ہو گئے تھے.نہیں نہیں نہیں.ابوبکر کی نسبت آپ کا یہ الزام کہ ان میں حزن اور خوف تھا اور یہ بات شجاعت کے خلاف ہے.غار کی آیت میں ان کو صاحب کہا گیا جیسے اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا اور صاحب ہونا اہل نار کی نسبت آیا ہے.بھلا خالیف ، بزدل حزن والا ، صاحب خلافت کے لائق ہے.سچ کہتا ہوں قرآن ہی وہ کتاب ہے جس کو شِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ کہنا بالکل سچ ہے.اب اس وہم کی دوا سنو.موسیٰ علیہ السلام نے اللہ جل شانہ کے سامنے اقرار کیا فَأَخَافُ اَنْ تَقْتُلُونِ اور یعقوب علیہ السلام نے فرمایا إِنَّمَا اشْكُوا بَنِى وَحُزْنِي إِلَى اللهِ اور سبحانہ و تعالیٰ حضرت امام الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو صاحب کا خطاب دے کر فرماتا ہے وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ - جس حالت میں ان اولو العزم کو خوف اور حزن اور صاحب ہونے نے امام اور رسول اللہ اور نبی ہونے سے نہیں روکا اور مطعون نہیں کیا تو ابو بکر کو خلافت سے کیوں یہ امور مانع ہوئے اور کیوں مطعون کیا.اور یہ وہم اور خلاف واقع الزام کہ معاذ الہ شیخین منافق تھے یہ نہایت ہی غلط ہے جس حالت میں وہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ کے ساتھ ہوئے جانتے ہو اس وقت جناب کی کیا حالت تھی اور ایسی ابتدائی حالت میں ساتھ دینا کس بہادر اور محب کا کام ہے اور پھر غور کرو اور سوچو اس نے اپنی خلافت کے وقت کفر کے کون سے مسئلہ کی اشاعت کی.اپنی قوت اور سطوت میں کفر کی رسوم میں کس کو پھیلایا.پھر کیا اپنی اولا د کو جانشین بنانے میں کوشش کی.اپنی قوم کے حقوق مقرر کئے.التوبة: ٤٠ يوسف: ۸۷ ۲۱ التكوير: ٢٣
۸۶ رد شخ سنوا اکثر صحابہ کو اگر منافق کہو گے یا کافر معاذ اللہ تو دین پہنچنے کا سلسلہ مفقود ہو جائے گا کیونکہ بطور آپ کے صحابہ دو گروہ ہوں گے ایک وہ جم غفیر اور سواد اعظم جو غاصبوں اور ظالموں اور منافقوں کا مجموعہ ہے اور ہمارے نزدیک اور فی الواقع جس کے سبب تمام عرب درست ہو گئے فارس اور شام اور روم اور مصر میں وہ بات پھیلی جس کی تصریح وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى میں تھی اور جس نے کفار ہی سے لڑائی کی.اور دوسرا وہ جو تقیہ کو فرض کہے.پہلے سلسلہ کی ہر ایک روایت اگر قابل عمل نہیں تو دوسرے کی ہر بات میں یہ شبہ ہے کہ شاید یہ بات بڑے گروہ کے خوف سے کہی یا اپنے مریدوں کے بھاگ جانے کا ڈر تھا اس لئے وہ بات کہی اور قرآن بزعم تمہارے خود بے ترتیب پھیلا.معاذ اللہ دیکھو کیسی غلطی ہے.آپ نے اہل بیت کی مدح پر زور دیا ہے.بتاؤ تو سینوں میں کون ہے جو امیر علیہ السلام اور ان کی اولاد کو بزرگ نہیں جانتا کیا ان کے مناقب ہماری حدیث کی کتابوں میں بہ بسط تمام موجود نہیں.اگر احادیث صحیحہ کو بیان کرتے تو کیا اُن میں کمی تھی.نہیں نہیں.آیہ تطہیر سے اس مضمون کی وہ تسکین کہاں جو آپ چاہتے ہیں.سنو سنو سنو.اہل بیت کا لفظ قرآن میں کل تین جگہ آیا ہے اوّل بارہویں سپارہ میں دیکھو سورہ ھود قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكْتُهُ عَلَيْكُمُ أهل البيت - دوم بیسویں سپارہ میں دیکھو سورہ قصص وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَانَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ اور بائیسویں سپارہ میں دیکھو سورہ احزاب وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولى وَاقِمْنَ الصَّلوةَ وَأَتِيْنَ الزَّكَوةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَبْرَكُمْ تَطْهِيرًا وَاذْكُرْنَ مَا يُتلى ان تین جگہ کے سوا قرآن میں اہل بیت کا لفظ نہیں آیا.پہلی دو جگہ میں صریح بیبیاں با تفاق ما و شما اہل بیت میں شامل ہیں.اور تیسری آیتہ کا ماقبل اور مابعد دیکھو اور انصاف کا خون نہ کرو.تو بیبیوں ہی کو خطاب ہے پھر آپ نے بیبیاں ہی اہل بیت سے نکال دیں.یا در کھوکم کا لفظ اہل کے لحاظ سے یا شمول کے لحاظ سے ہے.میرے ایک شیعہ جلیس نے ایک دفعہ جواب دیا کہ آیتہ میں النور: ۵۶ هود: ۷۴ القصص: ۱۳ الاحزاب : ۳۵،۳۴ ۲۲
۸۷ رو شخ ترتیب عثمانی نے یہ نقصان دیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ تم ایسا بُرا عذر نہ کرو گے کیونکہ جیسا گذرا حدیث میں وہ بے اعتباری تھی پھر اس صورت میں قرآن بھی قابل اعتبار نہیں رہتا.دوم عجم بھی گئے گذرے زمانے میں ہزاروں حافظ ہیں اور میرے جیسے کم ذہن باہمہ کثرت شواغل سال میں یاد کر سکتے ہیں.کیا ممکن ہے کہ عربوں نے جن کے حافظہ کو مؤرخ بالا تفاق مان چکے ہیں بافہم فصاحت و بلاغت قرآن کو تئیس برس میں یاد نہ کیا ہو.پھر ایسے وقت جب اسلام میں داخل ہونے والوں کو ابتدائی جوش تھا.پھر یہ بات بھی عقل میں نہیں آتی کہ شیعہ کے ہزاروں مصنف اور داعی اپنی تصانیف کو، اپنے خیالات کو دنیا میں پھیلا دیں اور قرآن جیسی ضروری چیز کو صاحب الزمان غار میں لے کر کالعدم کر دیں پھر یرید کا لفظ آپ کے مطلب کو پورا نہیں ہونے دیتا.دیکھئے ان آیات کو يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الیسر.حالانکہ سب لوگ پسر میں نہیں وَاللَّهُ يُرِيدُ اَنْ تَتُوبَ عَلَيْكُمْ اور سب تائب نہیں.اصل بات یہ کہ ارادہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک شرعی اور ایک کونی ارادہ میں کسی چیز کا ارادہ ظاہر کرنے سے اس چیز کی پسندیدگی ثابت ہوتی ہے اور آپ نے جو أَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمُ کی تفسیر فرمائی ہے وہ اس وقت تسلی بخش تھی اگر ظَنَ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنْتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا اور لَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ.اور تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ کی تفسیر بھی مجھے یاد نہ ہوتی اور حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِين کے میں آپ نے عطف کے کرنے میں سخت غلطی کی ہے یہ منِ اتَّبَعَ حسب کا مفعول ہے اور کاف پر معطوف ہے اى حسبك و مـــن اتبعك الله.جناب حکیم مہدی صاحب نے فقیر سے وعدہ فرمایا کہ وہ امیر علیہ السلام کی بلافصل.امامت کو قطعی الدلالہ نص سے ثابت کر دیں گے اُن سے عرض کر دیجئے قبل از ارقام مسئلہ ان کلمات کو دیکھ رکھیں تشبید المطاعن کے نمبر ۳۷۴ میں ہے اکثر احکام از قرآن مستنبط نمی شود و آنچه مستنبط می شود در غایة اجمال و اشکال و تشابه است و اختلاف عظیم در فهم احکام از انها شده بعض گفته اند محکم ترین آیات کریمہ آیت وضو است و قریب بصد تشابه در انست ورد قرآن ناسخ و منسوخ محكم منشا به ظاهر و مادل عام خاص مطلق مقید و غیر اینها است پس چگونه کتاب خدا برائے رفع اختلاف کافی باشد انتھی.البقرة: ١٨٦ النسا: ۲۸ الانفال: ۶۵ ۲۳
۸۸ رو شخ وقال قال على انا كلام الله الناطق وهذا كلام الله الصامت ترتیب عثمانی کا بگا ڑ مزید برآں رہا.یہ تو قرآن غَيْرَ ذِي عِوَجِ اور عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ کا آپ کے ہاں حال ہے جس کو خدا نے اختلاف مٹانے کو نازل کیا قال الله وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ اور خدائی کتاب کا ناطق ہونا اس آیت سے ثابت ہے هذَا كِتُبُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ " اور کلام اللہ الناطق علیہ السلام کے اقوال کی حجیت کا یہ حال ہے کہ تقیہ کا احتمال آپ کی ہر ایک کلام میں موجود ہے.دیکھو تہذیب الاحکام میں ابو جعفر طوسی نے جناب امیر سے روایت کی قال علیہ السلام حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم الحمر الاهلية ونكاح المتعة - شیعہ علما کہتے ہیں تقیہ کے باعث کہا ہے اور حدیث من مات ولم يعرف امام زمانه احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہی نہیں پھر اس میں تخصیص امام اور عدم فصل کا ذکر نہیں پھر اتفاق ما وشما اس زمانہ کے امام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا قرآن امام ہے اور کتاب کا امام ہونامن قبله کتاب موسیٰ اماماً میں دیکھئے.عبقاب میں حدیث غدیر پر زور دیا ہے الا مصنف ہر سلسلہ سند میں صرف ایک راوی کی مدح کسی کتاب سے نقل کرتا ہے.پھر مادح کی مدح پھر اس کی کتاب کی مدح میں تطویل کرتا ہے.تمام کتاب میں سند کے کل رجال کا حال نقل نہیں کرتا پس یا دھو کہ میں ہے یا دھوکہ دیتا ہے.واللہ اعلم.فقط ابواسامه نورالدین البقرة: ۲۱۴ الجاثية: ٣٠ ۲۴
بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وُنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.وَلَذِكْرُ اللَّهِ اَكْبَر دينيات كا يهلا رساله تصنیف لطیف حضرت حکیم الامت مولا نا مولوی حافظ حاجی نورالدین خلیفہ مسیح الاول
۹۱ دینیات کا پہلا رسالہ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وَالِهِ مَعَ التَّسْلِيمِ تكبير تحريمه اللهُ أَكْبَرُ نماز ثاء سُبْحَنَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ تعوذ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ تسميه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة فاتحہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ O مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ امِينَ سورۃ اخلاص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللَّهُ اَحَدٌ ہ اللَّهُ الصَّمَدُ هِ لَمْ يَلِدْه وَلَمْ يُولَدُ هِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌه تكبير اللهُ أَكْبَرُ رکوع کی تسبیح سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ يَا سُبْحَنَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي احادیث صحیحہ سے یہ دعا پڑھنا بھی ثابت ہے اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقْنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى التَّوبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ.اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرْدِ اور وہ دعاجو ثناء کے سامنے لکھی گئی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ( جو سابقین اولین مہاجر صحابہ میں سے تھے ) مروی ہے.جب سُورۃ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ نازل ہوئی تھی تو اس کے بعد آپ یہ دوسری تسبیح پڑھتے تھے.
تیح سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ۹۲ دینیات کا پہلا رسالہ تحميد رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَا وَلَكَ الْحَمْدُ سجدہ کی تسبیح سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى يا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي تكبير الله اكبر تشهد التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَكَاتُه السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ درود شریف اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اَللّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.دعائیں اوّل رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ دوم رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ.رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ.سوم اللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَ اَعُوذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَاعُوذُبِكَ مِنْ ضَلَعِ الدَّيْنِ وَ قَهُرِ الرِّجَالِ.اَللّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَا لِكَ عَنْ حَرَامِكَ لے اس کے بعد یہ بھی احادیث صحیحہ سے پڑھنا ثابت ہے.حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّباً مُبَارَكًا فِيْهِ اس کے بعد کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہہ کر دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھنی چاہیے.جب پھر اس مقام پر پہونچے تو ختم نماز کے لئے یہ ادعیہ جو آگے مذکور ہیں پڑھے.تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر رکوع کرتے ہیں.
۹۳ دینیات کا پہلا رسالہ وَاعْتِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ.سلام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ دعائے قنوت اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخَلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ.اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَ نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقِّ.اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِى مَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِـي فِـي مَـنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِي مَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِي مَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّمَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَإِنَّهُ لَا يُعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ.فرضوں کے بعد کی دعا اَللّهُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.اَسْتَغْفِرُ الله.اسْتَغْفِرُ اللهَ.اسْتَغْفِرُ الله.لے یہ دعا بھی احادیث سے ثابت ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَاعْوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ المَمَاتِ.اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَالِمِ وَالْمَغْرَمِ.
۹۴ دینیات کا پہلا رسالہ طريق وضو جب وضو کر نے لگو تو پہلے بسم اللہ پڑھو.پھر دونوں ہاتھ پہنچوں تک دھوؤ.اس کے بعد دائیں ہاتھ سے منہ میں پانی ڈالو اور مسواک کرو اور کلی تین بار کرنا چاہیے اور ناک میں تین بار پانی ڈال کر ناک کو خوب صاف کرو.پھر تین ہی دفعہ منہ پر پانی ڈال کر اسے دھوؤ.تین تین دفعہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک اس طرح دھوؤ کہ پہلے دایاں پیچھے بایاں.پھر نیا پانی لے کر سر اور کانوں کا مسح ایک ایک دفعہ کرو.اخیر میں دونوں پاؤں ٹخنوں تک تین تین دفعہ اس طرح دھوؤ کہ پہلے دایاں پیچھے بایاں.پانی نہ ملے یا جسمانی یا مالی تکلیف کا ڈر ہو تو وضو اور غسل دونوں کے عوض دل میں نیت کر کے تیم کر لینا چاہیے اس کی ترکیب یہ ہے.پہلے پاک مٹی یا ایسی چیز پر جس پر مٹی ہو دونوں ہاتھ مارکر ایک مرتبہ سارے منہ پر ملو پھر دوسری مرتبہ مٹی یا مٹی والی چیز پر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھ کہنیوں تک ملولے اور اخیر میں وضو اور تمیم کے بعد یہ پڑھو اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.ایک حدیث میں ہے کہ اس کے بعد یہ بھی پڑھیں اَللهُمَّ اجْعَلْنِى مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِى مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ.لے احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا ہے کہ ایک بار زمین پر ہاتھ مار کر منہ پر مسح کرنا اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک مسح کر لینا بھی جائز ہے.۶
۹۵ دینیات کا پہلا رسالہ اذان نماز کے پانچوں وقت مسجد میں اذان کہی جاتی ہے.اذان کہنے والے کو مؤذن کہتے ہیں.مؤذن منہ قبلہ کی طرف کرے اور کانوں میں شہادت کی انگلی رکھے اور بلند آواز سے کہے اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُه أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا ه رَّسُولُ اللهِ و اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ ٥ اس کے بعد منہ دائیں طرف کر کے یہ کہے حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ 0 پھر بائیں طرف منہ کر کے یہ کہے.حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ اس کے بعد پھر قبلہ کی طرف منہ کرے اور یہ کہے اللهُ اَكْبَرُه اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ صبح کی نماز میں حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے بعد الصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ دودفعہ ہے.مسجد کے باہر بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی ہو تو پہلے اذان پڑھ لینی چاہیے.جب اذان کہی جاوے تو کھیل کو د کام کاج اور بات چیت کو چھوڑ کر اسے پوری توجہ سے سنو اور جو لفظ اذان دینے والا کہے وہ تم بھی آہستگی سے کہتے جاؤ مگر جب حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہے تو تم کہو لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.اذان کہے جانے کے بعد یہ دعا پڑھو اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اَللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَ الصَّلوةِ الْقَائِمَةِ اتِ مُحَمَّدًا وَالْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثُهُ مَقَامًا مَّحْمُودَا الَّذِى وَعَدْتَهُ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ پھر نماز جماعت سے پڑھو جائز ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں گھر میں نماز پڑھ لیں اور جماعت کر لیں.ے دونوں شہادتوں کو ختم کر کے پھر دُہرانا بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے.
۹۶ دینیات کا پہلا رسالہ نماز کے اوقات فجر کی نماز کا وقت پو پھٹنے سے سورج کے نکلنے تک ہے اور اس میں پہلے دوسنتیں پھر دو فرض پڑھنے چاہئیں.ظہر کی نماز کا وقت دو پہر ڈھلنے سے لے کر اصلی سایہ کے سوائے اور علاوہ ہر ایک چیز کا سایہ اپنی لمبائی کے برابر ہونے تک.اس میں چار سنتیں پہلے پھر چار فرض ہیں.اس کے بعد دوسنتیں پڑھے یا چار دو، دو کر کے پڑھے.عصر کی نماز کا وقت ظہر کے بعد سے صحیح وقت تو وہاں تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جائے.زرد دھوپ کے وقت عصر کا پڑھنا شریعت نے ایسا نا پسند کیا کہ ایسے کاہل کو منافق کے لفظ تک ( کہنے سے ) دریغ نہیں کیا اور ضرورت کا وقت سورج کے ڈوبنے تک ہے.اس میں چار فرض ہیں اور اس کے بعد مغرب تک کوئی نماز جائز نہیں ہاں عصر کے چار فرضوں سے پہلے اگر چار سنتیں پڑھ لے تو بڑی عمدہ بات اور موجب جنت ہے.مغرب کی نماز کا وقت سورج کے ڈوب جانے کے بعد ہے.اس میں تین فرض اور دوسنتیں ہیں.مغرب کا آخری وقت شفق کے غروب تک ہے.شفق اس سرخی کو بھی کہتے ہیں جو سورج ڈوبنے کے بعد مغرب کی طرف نظر آتی ہے اور لغات عرب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شفق نام اس سفیدی کا بھی ہے جو سورج ڈوبنے کے بعد مغرب کی طرف دیر تک نظر آتی ہے.عشاء کی نماز کا وقت غروب شفق سے شروع ہوتا ہے.محدثین نصف رات تک عشاء کا وقت مانتے ہیں اور بعض فقہاء صبح صادق تک.اس میں چار رکعت فرض اور اس کے بعد دو رکعت سنتیں یا یہ معنی حضرت ابن عمرؓ سے ثابت ہیں.
دینیات کا پہلا رسالہ ۹۷ دو دو کر کے چار سنتیں پڑھی جائیں اور ان کے بعد وتر ہیں جو غالبا تین پڑھے جاتے ہیں چاہے تینوں ملا کر پڑھیں.چاہے دور کعت علیحدہ اور ایک رکعت علیحدہ پڑھیں.وتر وں کے بعد دو رکعت نماز بیٹھ کر پڑھی جاوے اور سلام پھیر کر سُبحَانَ ANALOGكِ الْقُدُّوس دودفعہ نرم آواز سے اور تیسری دفعہ ذرا بلند آواز سے پڑھیں.۹
۹۸ دینیات کا پہلا رسالہ نماز پڑھنے کا طریق نماز کے لئے بدن کپڑا اور نماز پڑھنے کی جگہ پاک ہو.بدن ڈھا نہیں.اگر مرد کا ناف سے گھٹنوں تک عورت کا منہ ہتھیلیوں اور قدموں کے سوا بدن کا کوئی حصہ نگا نہ ہو.حضرت نبی کریم ﷺ ہمیشہ جماعت کے ساتھ نماز کے فرض پڑھا کرتے تھے.اس لئے ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ آپ کی پیروی کرے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے.نماز جماعت کے لئے پہلے اذان کہی جاتی ہے اور اس کے بعد جب نمازی جمع ہو جائیں تو مؤ ڈن یا اس کی اجازت سے کوئی اور شخص امام کے پیچھے پہلی صف میں قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور کانوں پر ہاتھ دھرے بغیر اقامت کہے مگر اذان کے الفاظ ذرا جلدی جلدی ہے اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے بعد قَدْ قَامَتِ الصَّلوة دودفعہ کہہ کر باقی الفاظ کہے.جب تکبیر ہو رہی ہو اس وقت امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو اور مقتدی صفیں درست کر لیں اور ایک دوسرے کے ساتھ خوب مل کر کھڑے ہوں.آگے پیچھے کوئی نہ ہو.پھر امام اور مقتدی سب قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہیں مگر امام پہلے اللہ اکبر کہے اور مقتدی بعد میں کہیں اور ہاتھ باندھ لیں.ہاتھ باندھنے کے لئے احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھے جائیں اور یہ بھی کہ ناف کے نیچے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھیں ( بعض مسلمان ہاتھ کھول کر بھی نماز پڑھتے ہیں).پھر سب ثناء آہستہ پڑھیں.پھر تعوذ اور تسمیہ پڑھا جائے اور اس کے بعد الحمد شریف پوری پڑھیں.پھرا میں کہیں.پھر امام الحمد شریف کے بعد کوئی سورت چھوٹی یا بڑی پڑھے.ظہر اور عصر کی ساری نماز میں اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور عشاء کی اخیر دورکعت میں سب کچھ آہستہ پڑھا جائے اور صبح کے فرض اور شام کی پہلی اور عشاء کی پہلی دو رکعت میں امام بلند آواز سے پڑھے.جمعہ اور عیدین کی نماز میں بھی امام بلند آواز سے پڑھے اور جب امام اونچا پڑھتا ہو تو مقتدی چپکے سنا کریں البتہ مقتدی لوگ الحمد شریف آہستگی سے پڑھیں.
دینیات کا پہلا رسالہ ۹۹ وضو کے فرائض ا.ایک بار منہ کا دھونا پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک..ایک بار دونوں ہاتھوں کا دھونا مع کہنیوں کے..ایک بار دونوں پاؤں کو مع ٹخنوں کے دھونا.۴.چوتھائی سرکا مسح کرنا.وضو کے سنن ا.وضو کی نیت دل میں کرے کہ نماز کے واسطے وضو کرتا ہوں.۲.وضو کے شروع میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھنا.۳.مسواک کرنا..دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھونا.۵.تین بار کلی کرنا..تین بار ناک میں پانی ڈالنا اور ناک کو صاف کرنا.ے.تین بارمنہ کا دھونا..تین بار ہا تھوں کا کہنیوں تک دھونا..تمام سر کا مسح کرنا.ا.سر کے پانی سے دونوں کانوں کا مسح کرنا.ا.دونوں پاؤں کو مع ٹخنے کے تین بار دھونا.۱۲.ترتیب سے وضوکرنا.۱۳ پے در پے وضو کرنا کہ ایک عضوخشک نہ ہونے پائے کہ دوسرا دھولے 11
: دینیات کا پہلا رسالہ نواقض وضو ا.پیشاب کرنا.۲.پاخانہ پھرنا..کسی عضو سے خون یا پیپ کا اس قد ر نکلنا کہ بہ جائے لی.۴.چت یا کروٹ لے کر سو جانا..کسی چیز سے سہارا لگا کر اس طرح سو جانا کہ وہ ہٹالی جائے تو سونے والا گر پڑے.اگر نماز میں کھڑے کھڑے اور رکوع اور سجدہ میں کوئی سو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا..بے ہوشی..مستی..جنون.۹.بعض حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اونٹ کے گوشت کھانے پر وضو کیا جائے..نیز عورت کے مس سے بھی.ا.کلی کرنا.۲.ناک میں پانی ڈالنا.غنسل کے فرائض.سارے بدن پر ایک بار پانی ڈالنا.ا.دونوں ہاتھوں کا مٹی مل کر دھونا..بدن سے نا پا کی دور کر نا.لے یہ مسئلہ اختلافی ہے.غسل کی سنتیں ۱۲
1+1 دینیات کا پہلا رسالہ.وضو کرنا.۴.تمام بدن پر تین بار پانی بہانا.ا.پانی نہ مل سکے.تیم کن صورتوں میں جائز ہے ۲.پانی کے استعمال سے بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہو..پانی کے استعمال سے بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو.۴.پانی پر دشمن یا درندہ جانور کا ڈر ہو.پانی صرف پینے کے لائق ہو.کنوئیں میں سے پانی کھینچنے کا سامان موجود نہ ہو یا اس پر مال بے جا اور زیادہ خرچ ہو.فرائض نماز چھ ، نماز شروع کرنے سے پہلے ہیں جن کو شرائط کہتے ہیں اور سات ، نماز کے اندر ہیں جن کو ارکان کہتے ہیں.شرائط نماز ا.بدن کا پاک ہونا.۲.کپڑوں کا پاک ہونا..جہاں نماز پڑھی جائے اس جگہ کا پاک ہونا.۴.ستر ڈھانکنا.۵.قبلہ کی طرف منہ کرنا..نماز کی نیت کرنا مگر صرف دل میں زبان سے نہیں.
۱۰۲ ارکان نماز ا.نماز کے شروع میں اللہ اکبر کہنا جس کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں.۲.کھڑا ہونا جس کو قیام کہتے ہیں..قراءت یعنی کچھ کلام اللہ پڑھنا.رکوع ۵.سجدہ.دینیات کا پہلا رسالہ - قعدہ اخیرہ یعنی نماز کے آخر میں بیٹھنا.ے.قصداً نماز ختم کرنا.شرائط نماز کے مسائل ا.اگر زخم سے ہر وقت خون وغیرہ نکلتا ہو یا ہر وقت نکسیر چلتی ہو یا پیشاب کے قطرے آتے ہوں تو ان صورتوں میں نماز ترک نہ کرنی چاہیے.ایک بار وضو کر کے پڑھ لینی چاہیے..مرد کا ستر ناف کے نیچے تک ہے اور زانو بھی ستر میں داخل ہے.عورت کے لئے سوائے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں اور منہ کے تمام بدن کا ستر ہے اور اگر ستر کے حصہ میں سے چوتھائی کھل جائے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی..اگر کپڑے پاک نہ ہوں اور ان کے دھونے کا بھی کچھ سامان نہ ہو تو ناپاک کپڑوں سے ہی نماز پڑھ لینی چاہیے.ترک نہ کریں.اگر نماز ایسی جگہ ہو کہ قبلہ معلوم نہ ہو سکے یا شب کی تاریکی ہو یا اور کوئی آدمی نہ ملے جس سے قبلہ کا رخ پوچھ سکیں تو ایسے وقت میں دل میں سوچیں کہ قبلہ کس طرف ہو گا جس طرف دل شہادت دے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیں.۱۴
دینیات کا پہلا رسالہ ارکان نماز کے مسائل اگر نمازی کسی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کے نماز پڑھ لے.قراءت میں کم از کم ایک بڑی آیت یا چھوٹی تین آیتیں ہونی چاہئیں.۲.قعدہ میں اس قدر بیٹھنا فرض ہے کہ جتنی دیر میں التحیات پڑھ سکیں.واجبات نماز ا.اَلحَمدُ پڑھنا.الحَمدُ کے بعد کوئی سورت یا ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھنا.۳.تمام ارکان نماز کو ٹھیر ٹھیر کر ادا کرنا اس کو تعدیل ارکان کہتے ہیں.چار رکعتی یا سہ رکعتی نماز میں دو رکعت کے بعد بیٹھنا اس کو قعدہ اولیٰ کہتے ہیں..دونوں قعدوں میں خواہ اولی ہو خواہ آخری میں التحیات پڑھنا..جمعہ اور عیدین اور مغرب وعشاء اور صبح کی نماز میں امام کا قراءت کو بلند آواز سے پڑھنا.جو شخص تنہا نماز پڑھے اسے اختیار ہے کہ ان وقتوں میں قراءت آہستہ پڑھے یا آواز سے.ظہر اور عصر کی نمازوں میں قراءت آہستہ پڑھنا.ے.جو فرض اور واجب بار بار ہر رکعت میں آتے ہیں انہیں ترتیب سے ادا کرنا..فرض کی دو پہلی رکعتوں میں قراءت ضرور پڑھنا.اخیر نماز میں سلام پھیرنا.ان کے علاوہ وتروں کی تیسری رکعت میں دعاء قنوت پڑھنا اور نیز عیدین میں کئی بار اللہ اکبر کہنا بھی واجب ہے یعنی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے تین بار اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد تین بار احادیث سے یہ بھی جائز معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات بار اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ بار اللهُ اَكْبَرُ ہے.عملی طور پر فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں.الحمد تمام کلمات اللہ کی قائمقام ہے اور اس کے سوا اور کلام الحمد کے قائمقام نہیں.۱۵
دینیات کا پہلا رسالہ ۱۰۴ سنن نماز ا رفع یدین یعنی نماز کے شروع میں دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانا اس طرح کہ انگوٹھا کان کی کو سے چھو جائے یا اس کے سامنے ہو اور باقی انگلیاں نہ بہت کشاہ ہوں نہ بند..دونوں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اس طرح کہ ناف کے نیچے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑ لیں.احادیث صحیحہ سے ہاتھوں کو سینہ پر رکھنا بھی ثابت ہے..نماز کے شروع میں ثناء پڑھنا.۴.ثناء کے بعد تعوذ پڑھنا.-۵.ہر رکعت کے شروع میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھنا.- اَلْحَمْدُ کے بعد آمین کہنا.ے.ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف جاتے وقت سوائے قومہ کے اللہ اکبر کہنا اس کو تکبیرات انتقالات کہتے ہیں.رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ تین، پانچ ، سات بار کہنا..رکوع سے کھڑے ہو کر سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہنا اس کو تسمیع کہتے ہیں اور مقتدی کو رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ اور تنہا نماز پڑھنے والے کو فقط تسمیع یا دونوں کہنا.۱۰.سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی تین ، پانچ ، سات بار کہنا.ا.التحیات کے بعد درود شریف پڑھنا.۱۲.درود شریف کے بعد کوئی دعا پڑھنا ہر شخص اپنی اپنی زبان میں دعا مانگ لے.ے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ سجدہ اور رکوع میں سُبحنَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي بھی پڑھا کرتے تھے بلکہ آخر یہی پڑھا ۱۶
دینیات کا پہلا رسالہ ۱۰۵ ا.نماز میں بات چیت کرنا.مفسدات نماز در دیا مصیبت کی وجہ سے آواز سے رونا ، بے اختیار حالت کا یہ حکم نہیں ، اگر خدا کے حکم سے روئے گا تو نماز نہ جائے گی..اپنے امام کے سوا کوئی اور قرآن پڑھنے میں بھولے تو اسے بتانا.اپنے امام کو بتانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی.۴.نماز میں کچھ کھانا پینا.بہت سا کام وہ ہے جس کو طرفاً بڑا کام سمجھا جاوے اور جسے دیکھ کر لوگ یہ سمجھیں کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے.مکروہات نماز ا.چادر یا رضائی کو سر یا کاندھے پر اس طرح ڈالنا کہ ان کے کنارے لٹکتے رہیں یا کوٹ اور لبادہ وغیرہ کو بغیر آستین میں ہاتھ ڈالے ہوئے اوڑھنا.۲.پیشانی سے مٹی کو پونچھنا..کپڑے کو مٹی سے بچانے کے لئے سمیٹنایا اٹھانا.۴.ننگے سر نماز پڑھنا.۵.پیشانی کے سامنے سے بلا ضرورٹ کنکری یا مٹی کو ہٹانا البتہ اگر سجدہ ہی نہ ہو سکے تو ایک بار ہٹانا درست ہے..انگلیوں کا نماز میں چٹانا.نماز میں دائیں بائیں طرف یا آسمان کی طرف دیکھنا..نماز میں جمائی یا انگڑائی آوے تو حتی الامکان روکو.۱۷
1+4 دینیات کا پہلا رسالہ ۹.سجدہ کے وقت دونوں بازوؤں کو زمین پر بچھا دینا یا پیٹ کو ران سے ملانا.۱۰.بلاضرورت کھانسنا اگر کھانسی نہ رک سکے تو مضائقہ نہیں ہے.پیشاب یا پاخانہ کی ضرورت کی حالت میں نماز نہ پڑھے.ان سے فارغ ہو کر اطمینان سے نماز پڑھنی چاہیے بلکہ کھانا سامنے ہو تو کھا کر پڑھے.ایمانداری کی باتیں ا.اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور یقین کرنا کہ وہ ایک ہے.تمام عیبوں سے پاک تمام صفات کا ملہ سے موصوف سب کا مالک.رب رحمن، رحیم ، وحدہ لا شریک لہ ہے..اس کے ملائکہ پر ایمان لانا کہ جب دل میں نیکی کی تحریک کریں تو اس پر عمل کرے..اس کی کتابوں پر ایمان لانا.۴.اس کے انبیاء پر اور اس بات پر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبین ہیں ایمان لانا اور آپ تمام کمالات نبوت کے جامع تھے.۵.بعث بعد الموت پر ایمان لانا.تقدیر پر ایمان لانا کہ ہر ایک چیز کے لئے ایک اندازہ ہے اور اس کی مقدار ہے.پس جیسا کوئی کرے گا ویسا پھل پائے گا اور اللہ تعالیٰ کو تمام اشیا و واقعات کا علم ہے.ے.جزا وسزا پرایمان لانا.دینداری کی باتیں ا.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا زبان سے اقرار کرنا.۲.نماز پڑھنا.۳.زکوۃ دینا.۴.روزہ رکھنا.IA >
۱۰۷ ۵ توفیق ہو تو حج کرنا.اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ( قلم سے یا زبان سے ) - دشمن اگر دین سے روکے تو بشر ط طاقت اور سلطنت کے اس کا مقابلہ کرنا.ے.اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسی کرو کہ اسے تم دیکھتے ہو یا وہ تمہیں دیکھتا ہے..اخلاق فاضلہ کا پابند ہونا.۹.بُرائیوں سے بچنا.۱۰ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت رکھنا.ا.احسانات الہی کا شکر ادا کرنا.۱۲.تواضع اور فروتنی اختیار کرنا.۱۳.بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر رحم کرنا.۱۴.شیخی اور گھمنڈ کا ترک کرنا.-۱۵.حسد اور کینہ اور بے محل غضب کا ترک کرنا.۱۶.قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور اس کا سمجھنا.۱۷.لغو اور فضول باتوں سے دور رہنا.۱۸.ہر وقت پاک وصاف رہنا.۱۹.ستر کو چھپانا.۲۰.موقع پر سخاوت کرنا اور کھانا کھلانا.۲۱.عزیزوں اور قریبیوں کا حق ادا کرنا.۲۲ خلق میں اصلاح کرتے رہنا.دینیات کا پہلا رسالہ ۲۳.اچھے کاموں میں امداد اور کوشش کرتے رہنا اور کسی حاجت مند کی بقد را مکان خبر گیری اور امداد کرنا.۱۹
1+1 دینیات کا پہلا رسالہ ۲۴.پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا.۲۵.معاملہ صاف رکھنا.۲۶.اپنا حق لینے میں سختی نہ کرنا.دوسروں کا حق دینے میں حیلہ یا سستی نہ کر - مال کا موقع پر صرف کرنا.مال کو فضول خرچ نہ کرنا.۲۸.سلام کا جواب دینا.۲۹.مریض کی عیادت کرنا.۳۰.جب کسی مسلمان کو چھینک آوے اور وہ الحمد للہ کہے تو جواب میں يَرْحَمُكَ الله کہنا.۳۱.تکلیف والی چیز کو راستہ سے ہٹانا.گناہ کبائر ا.خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا.۲.خون ناحق کرنا..ماں باپ کو ایذا پہنچانا.۴.یتیموں کا مال کھانا.۵.شراب پینا.ظلم کرنا..ے.کسی کو پیٹھ پیچھے برائی سے یاد کرنا.- کسی کے حق میں بے وجہ بد دعا کرنا..اپنے کو غیروں سے بے وجہ اچھا جاننا.- کسی سے وعدہ کر کے پورا نہ کرنا.ا.کسی کی امانت میں خیانت کرنا.ا.
۱۲.سچی گواہی کو چھپانا.۱۳.جھوٹی گواہی دینا.۱۴.جھوٹ بولنا.۱۵.چوری کرنا.۱۶.بیاج کھانا.۱۷.رشوت لینا.۱۸.کسی کے گھر میں بے اجازت چلا جانا.۱۹.کسی کی عیب جوئی کرنا.۲۰.نجومی کی باتوں کو سچا جاننا.1+9 ۲۱ دینیات کا پہلا رسالہ
دینیات کا پہلا رسالہ 11 + سُوْرَةُ الْعَصْرِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِةً اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.زمانے کی قسم.یقینا انسان ایک بڑے گھاٹے میں ہے.سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور حق پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور صبر پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی.سُوْرَةُ قُرَيْشٍ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لا يَلْفِ قُرَيْشِ الْفِهِمْ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِةٌ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَأَمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ أَ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.قریش میں باہم ربط پیدا کرنے کے لئے.(ہاں) اُن میں ربط بڑھانے کے لئے (ہم نے) سردیوں اور گرمیوں کے سفر بنائے ہیں.پس وہ عبادت کریں اس گھر کے رب کی.جس نے اُنہیں بھوک سے ( نجات دیتے ہوئے ) کھانا کھلایا اور انہیں خوف سے امن دیا.۲۲
دینیات کا پہلا رسالہ سُوْرَةُ الْمَاعُون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَرَعَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ، فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُونَ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُونَ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.کیا تو نے اس شخص پر غور کیا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ پس وہی شخص ہے جو یتیم کو دھتکارتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا.پس اُن نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہو جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں.وہ لوگ جو دکھاوا کرتے ہیں اور روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں بھی ( لوگوں سے ) رو کے رکھتے ہیں.سُوْرَةُ الْكَوثَرِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَةُ فَصَلِّ لِرَيْكَ وَانْحَرْن إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُة اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.یقیناً ہم نے تجھے کوثر عطا کی ہے.پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی دے.یقینا تیرا دشمن ہی ہے جو ابتر رہے گا.
دینیات کا پہلا رسالہ ۱۱۲ سُوْرَةُ الْكَافِرُونَ بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ يَايُّهَا الْكَفِرُونَ في لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَلَا اَنْتُمْ عُبِدُونَ مَا أَعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُمْ وَلَا انْتُمْ عَبدُونَ مَا أَعْبُدُن لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِى دِينِ ® اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.کہہ دے کہ اے کا فرو! میں اُس کی عبادت نہیں کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو.اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں.اور میں کبھی اُس کی عبادت کرنے والا نہیں بنوں گا جس کی تم نے عبادت کی ہے.اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے بنو گے جس کی میں عبادت کرتا ہوں.تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین.سُوْرَةُ النصر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًان اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی.اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں.پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ (اس کی ) تسبیح کر اور اُس سے مغفرت مانگ.یقیناً وہ بہت تو بہ قبول کرنے والا ہے.۲۴
دینیات کا پہلا رسالہ ۱۱۳ سُوْرَةُ الإخلاص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدَّ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدُن اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے.اللہ بے احتیاج ہے.نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا.اور اُس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا.سُوْرَةُ الْفَلَقِ بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِّ النَّفْتُتِ فِي الْعُقَدِنْ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَةً اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ دے کہ میں (چیزوں کو ) پھاڑ کر ( نئی چیز ) پیدا کرنے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں.اُس کے شر سے جو اس نے پیدا کیا.اور اندھیرا کرنے والے کے شر سے جب وہ چھا چکا ہو.اور گر ہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے.اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے.۲۵
دینیات کا پہلا رسالہ ۱۱۴ سُوْرَةُ النَّاسِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ & اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ دے کہ میں انسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں.انسانوں کے بادشاہ کی.انسانوں کے معبود کی.بکثرت وسو سے پیدا کرنے والے کے شر سے، جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے.وہ جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے.(خواہ ) وہ جنوں میں سے ہو ( یعنی بڑے لوگوں میں سے ) یا عوام الناس میں سے.سُوْرَةُ الْبَقَرَةِ (آیات ۱ تا ۲) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ المرة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ثُ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُولَبِكَ عَلى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) وو اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا ، بن مانگے دینے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.انا اللهُ أَعْلَمُ : میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں.یہ وہ کتاب ہے.اس میں کوئی شک نہیں.ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو.جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اُتارا گیا اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے اُتارا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر قائم ہیں اور یہی ہیں وہ جو فلاح پانے والے ہیں.۲۶
الطَّرْفُ أُمُّ الْعُلُومِ وَالنَّحْو اَبُوهَا مبادى الصرف والتحو از تصنیف حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب زَادَ فَيْضُهُ مطبع انوار احمد یہ قادیان دارالامان میں چھپوا کر شائع کیا مورخہ ۲۰ / جون ۱۹۰۶ء
(۱) بولی یا زبان ۱۱۷ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مبادى الصرف و النحو نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَآلِهِ مَعَ التَّسْلِيمِ پہلا سبق لفظی یا تحریری جس طریق سے انسان اپنے خیالات کو ظاہر کرتا ہے اس کا نام بولی یا زبان ہے.اور یہ اظہار خیالات دو طرح پر ہوتا ہے.بول کر یا لکھ کر.پس زبان یا بولی کی یہ دو قسمیں ہیں.(۱) تقریری اور (۲) تحریری (۲) علم القواعد جس علم اور جن قواعد کے سبب سے کسی زبان کو درست لکھ سکتے یا صحیح بول سکتے ہیں وہ اس زبان کی گرامر یا قواعد کہلاتے ہیں.(۳) کلمه یا قول مفرد انسان جو کچھ بولتا ہے وہ ایک بامعنی لفظ ہو تو قول مفرد یا روا جا کلمہ کہلاتا ہے.ورنہ کلمہ تو ایسا ہوتا ہے جیسے اَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ہے اور جیسے اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہیں اور الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالمین ہے.پس کلمہ در اصل تو کسی مفید جملہ کو کہتے ہیں مگر نحو کے لوگوں نے اصطلاحاً کلمہ قول مفرد کو کہا ہے.(۴) علم صرف ایک بامعنی لفظ کو رنگ برنگ کے معانی کے لئے مختلف شکلوں میں لانے کے قواعد کا نام علم صرف ہے.اور فائدہ اس علم کا یہ ہے کہ ایک لفظ کے معنے معلوم ہونے سے اسی قسم اور جماعت کے بہت سے الفاظ کے معنے معلوم ہو جاتے ہیں اور ایک معنے کے لفظ معلوم ہونے سے بہت سے الفاظ اسی قسم
۱۱۸ مبادى الصرف و النحو کے معلوم ہو جاتے ہیں گویا صرف کا علم زبان دانی کی ریل ہے.یادر ہے علم صرف علم قواعد کی ایک شاخ ہے.سوالات (۱) زبان کس کو کہتے ہیں.(۲) زبان کی کتنی قسمیں ہیں.(۳) کسی زبان کی قواعد سے کیا مراد ہوتی ہے.(۴) قول مفرد کس کو بولتے ہیں.(۵) کلمہ اصل میں کس کو بولتے ہیں.(۶) کلمہ کے عام معنے بتاؤ.(۷) علم صرف کس کو کہتے ہیں.(۸) اس علم سے فائدہ کیا ہے.دوسر اسبق پہلے سبق میں بتایا گیا ہے کہ انسان جو بامعنی لفظ بولتا ہے اس کا نام روا جا کلمہ ہو گیا ہے.اب غور کرو کہ انسان جب بولتا ہے تو وہ بامعنی الفاظ تین قسم کے ہوتے ہیں.یا تو لفظ کسی چیز کا نام ہوتے ہیں یا کسی کام کے ہونے یا واقع ہونے کو ظاہر کرتے ہیں یا دو لفظوں کا باہمی تعلق ظاہر کرتے ہیں.اس کی مثال تمہاری اپنی بولی میں تو یہ ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ سے مدینہ چلے گئے.اس فقرہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نام ہے اس نبی کا جو تمام نبیوں کا سردار اور سب کا خاتم ہیں اور مکہ اور مدینہ نام ہے دوشہروں کا.چلے گئے ایک لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کام کو ظاہر کرتا ہے اور سے ایک لفظ ہے جو اس کام کا علاقہ مکہ اور مدینہ سے ظاہر کرتا ہے.پس اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ قول مفرد یا کلمہ کے تین قسم ہوتے ہیں اسم فعل اور حرف.ا اسم جو نام ہو کسی شے کا جیسے اللہ محمد ، ملک ، نبی ، رسول ، کتاب ، تقدیر ، مکه، مدینه، جزا، قیامت ، جنت ، جہنم ، ایمان، کفر، شرک، نفاق ، صدق، اخلاص ،حسن ، احسان علم ، عمل ، احمد، قادیان وغیرہ.۲.فعل وہ لفظ ہے جو ظاہر کرے کہ فلاں کام کسی سے ہو چکا یا ہوتا ہے یا کسی سے ہوگا یا کسی کے
۱۱۹ مبادى الصرف و النحو ساتھ قائم ہوایا ہے یا ہو گا.جیسے آمنتُ بِاللهِ (ایمان لایا میں ساتھ اللہ کے ) يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ایمان لا رہے ہیں یا لائیں گے ساتھ غیب ( اسْلَمْتُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (فرمانبردار ہو چکا میں رب العالمین کا ).حرف وہ لفظ ہے جو دوسرے لفظوں کے ملنے سے اپنا مفہوم ظاہر کرے اور ان کے تعلقات کو بتائے جیسے آمَنْتُ بِاللهِ وَ سِرْتُ مِنْ بَيْتِي إِلَى مَكَّةَ وَ صَلَّيْتُ فِي الْمَسْجِدِ الحرام.بہر حال حرف اصطلاحاً دو چیزوں کے باہم رشتہ تعلق کو پیدا کر دیتا ہے.سوالات (۱) قول مفرد کی کتنی قسمیں ہیں.(۲) ہر ایک قسم کی تعریف کرو.(۳) اسم کی سات مثالیں دو.(۴) پانچ فعل بیان کرو.(۵) حرف کی مثال.(۶) ان فقرات میں سے اسم فعل اور حرف جدا جدا کرو.(الف) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَ سَلِّمْ - (ب ) رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً - (ج) سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بُرَكْنَا حَوْلَهُ - تیسر اسبق ا.اسم کی پھر تین قسمیں ہیں.یہ تقسیم اُس کی بناوٹ کے لحاظ سے ہے.جامد.مصدر اور مشتق.(الف) جامد وہ اسم ہے جو نہ کسی لفظ سے بنا ہو اور نہ اس سے کوئی لفظ بنے مثلاً فعل وغیرہ سے.(ب) مصدر وہ اسم ہے جو کسی کام کوکسی سے ہونے یا کرنے کو بتائے یا کسی چیز پر کسی بات کے وقوع کو ظاہر کرے جیسے العِلْمُ ( جاننا ) الْحَمْدُ (ستائش کرنا) ( ج ) اسم مشتق وہ اسم ہے جو مصدر سے بنایا جاوے اور مصدر کے معنے اور اصلیت اس میں پائی جائے جیسے عالم مصدر علم کے معنے ہیں جاننا اس سے اسم مشتق عالم کے معنے جانے والا.معلوم کے معنے جانا گیا وغیرہ ایسا ہی حمد کے معنے تعریف کرنا، محمد کے معنے تعریف کیا گیا،
۱۲۰ مبادى الصرف و النحو حامد تعریف کرنے والا ، احمد کے معنے بہت اچھا.۲.جامد سے تو چونکہ کوئی لفظ بنتا ہی نہیں اس کا ذکر سر دست چھوڑ دو.مصدر اور اسم مشتق کی کئی قسمیں ہیں.مصدر کی اقسام فعل کی بحث میں بتائیں گے اسم مشتق کی یہ اقسام ہیں.(الف ) اسم فاعل.صفت مشبہ.مبالغہ ( ب ) اسم مفعول (ج) ظرف زمان - ظرف مکان ( د ) اسم آلہ (ہ) اسم زیادت یا اسم تفضیل..پھر اسم یا کسی خاص چیز کا نام ہوتا ہے یا عام نام جیسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ( خاص رسول کا نام ہے ) مکہ خاص شہر کا نام - رجل آدمی ، ہر آدمی کو رجل کہتے ہیں.فرش ہر گھوڑے کو قرش کہیں گے.پس معنوں کے لحاظ سے اسم کی دو اور قسمیں ہیں معرفہ اور نکرہ.جب خاص شے کا نام ہو تو معرفہ کہلاتا ہے عام ہونکرہ.سوالات (۱) بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی کتنی قسمیں ہیں؟ (۲) جامد.مصدر.مشتق کی تعریف کرو اور مثال دو.(۳) اسم مشتق کے اقسام کتنے ہیں ان کا کیا کیا نام ہے؟ معنوں کے لحاظ سے اسم کی کتنی قسمیں ہیں.ہر ایک کی مثال دو.چوتھا سبق واحد.تثنیہ اور جمع ا.اسم کبھی واحد کہلاتا یا تثنیہ اور جمع.پس معنے میں تعداد کے لحاظ سے ایک کے معنے دے تو واحد.دو کے معنے دے تو تثنیہ اور دو سے زیادہ کے معنے دے تو جمع کہلاتے ہیں.جیسے رَجُلٌ (ایک مرد) رجُلانِ (دومرد) رِجَالٌ ( بہت مرد ).۲.تثنیہ بنانے کا عام قاعدہ یہ ہے کہ واحد کے آخر میں الف اور نون زیر والا لگانے سے تثنیہ ہو جاتا ہے.جیسے رَجُلٌ سے رجُلانِ اور ین بھی لگاتے ہیں جیسے رَجُلَيْنِ.
۱۲۱ مبادى الصرف و النحو جمع بنانے کا عام قاعدہ یہ ہے کہ جمع مذکر کی صورت میں ون یا تین سے بنے گی اور مؤنث کے لئے ان اور اپ کے لگانے سے.جیسے مذکر کی مثال مُؤْمِنٌ سے مُؤْمِنُونَ وَ مُؤْمِنِينَ اور مؤنث کی مثال مُؤْمِنَةٍ سے مُؤْمِنَاتٍ - فائدہ.۱.یاد رکھو اگر واحد کے آخر ہے.علامت تانیث کی ہوگی تو جمع میں گر جائے گی جیسے اوپر کی مثال میں.فائدہ.۲.تثنیہ اور جمع کے لین میں تمیز کرنے کے واسطے یاد رکھو کہ تثنیہ میں یائے مجہول پڑھی جائے گی اور جمع میں پائے معروف.مُسلِمَيْنِ (تثنیہ) مُسْلِمِينَ جمع ہے.سوالات (۱) واحد اور تثنیہ اور جمع کس کو کہتے ہیں؟ (۲) تثنیہ بنانے کا عام قاعدہ کیا ہے؟ مثال دے کر بتاؤ.(۳) جمع بنانے کا عام قاعدہ مثال دے کر بتاؤ.(۴) تثنیہ اور جمع کے لین میں کس طرح تفریق کرو گے.(۵) اگر واحد کے آخر ، ت تانیث کی ہو تو جمع میں رہے گی یا گرے گی.(۶) ان فقرات میں واحد، تثنیہ، جمع الگ کر کے دکھاؤ.(الف) بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ـ (ب) إِنَّا أَعْتَدُنَا للكفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْللًا وَسَعِيرًا (ج) الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ - پانچواں سبق مذکر اور مؤنث ا.نر کو مذکر اور مادہ کو مؤنث کہتے ہیں.مگر الفاظ میں مذکر مؤنث کی شناخت علامات سے ہوتی ہے.۲.مؤنث کی دو قسمیں ہیں.حقیقی اور لفظی حقیقی مؤنث وہ ہے جس کا نر جاندار ہو جیسے امرءة (عورت) کہ اس کا امر (مرد) کہلاتا ہے.لفظی مؤنث وہ ہے جس کا ئر جاندار نہ ہو بلکہ لفظاوہ مؤنث ہو جیسے ظُلُمَةٌ ( اندھیرا) و
۱۲۲ مبادى الصرف و النحو پھر لفظی کی دو قسمیں ہیں.اوّل یہ کہ علامت تانیث لفظوں میں ہو.یہ قیاسی کہلاتی ہے.دوم علامت تانیث لفظوں میں نہ ہو جیسے آرض (زمین) اس کا نام سماعی مؤنث ہے.۴.مؤنث کی عام علامت ت ہے.پس عام قاعدہ مؤنث بنانے کا یہی ہے کہ مذکر کے آخر لگادی جائے جیسے عالم سے عَالِمَةٌ مگر جن الفاظ کے آخرالف بشکل می ہو وہ ۃ لگانے کے وقت الف گر جائے گا.جیسے فتح ( جوان لڑکا ) فتاة (جوان لڑکی ) ۵.مندرجہ ذیل الفاظ مونث بولے جاتے ہیں.(الف) عورتوں کے نام اور وہ الفاظ جو عورتوں کے لئے خاص ہیں جیسے خديجة اخت عروس - حائض - طامث - ( ب ) اسمائے مشتقہ جن کے آخرة داخل ہو.جیسے عَالِمَةٌ - ( ج ) جن اسموں کے آخری آئے.جیسے سلمی (عورت کا نام ) حَسَنَاء (بہت خوبصورت ) مگر جب ہی اصل لفظ کا جزو ہو تو مؤنث نہ سمجھ لینا جیسے موسیٰ.( د ) جن اسموں کے آخر ! آوے جیسے صحراج (جنگل).(0) ملکوں اور شہروں کے نام جیسے مصر و مکہ.(و) ہوا، آگ، شراب وغیرہ کے نام جیسے ربیع (ہوا) شمال (بادشمال ) ناژ (آگ) خمر (شراب) ( ز ) جسم کے دہرے اعضاء ہاتھ ، پاؤں، کان، آنکھ وغیرہ اکثر مؤنث ہیں.( ح ) کل جمع مؤنث ہوتی ہیں سوالات (۱) مؤنث حقیقی لفظی ، سماعی اور قیاسی کی تعریف کرو.(۲) مؤنث کی عام علامت کیا ہے.(۳) مؤنث بنانے کا کیا قاعدہ ہے مثال دے کر بتاؤ.(۴) وہ کون سے اسماء ہیں جو مؤنث بولے جاتے ہیں.
۱۲۳ مبادى الصرف و النحو تعریف علم صرف ایک لفظ کو رنگ برنگ معانی کے لئے مختلف شکلوں میں لانے کے قواعد کو علم صرف کہتے ہیں.فائدہ صرف اس علم کا فائدہ یہ ہے.ایک لفظ کے معنے معلوم ہونے سے اس لفظ کی جماعت کے معانی معلوم ہو سکتے ہیں.دیکھو فقرہ نمبر ۴ سبق پہلا.چھٹا سبق فعل کی تعریف فعل وہ لفظ ہے جو ظاہر کرے کہ فلاں کام کسی سے ظاہر ہو چکا یا ہوتاہے یا ہوگا یا کسی کے ساتھ قائم ہوایا ہے یا ہوگا اور ایسے فعل کو فعل معلوم کہتے ہیں جیسے آمَنْ - نَعْبُلُ - نَسْتَعِيْن.یا یہ بتاوے کہ فلاں بات کسی پر واقع ہو چکی یا واقع ہورہی ہے یا واقع ہوگی تو اسے فعل مجہول کہتے ہیں جیسے عُلِمَ - يُنْصَرُ اقسام فعل فعل کے اقسام ا.ماضی ۲.حال و ۳.مستقبل.حال و مستقبل کو مضارع بھی کہتے ہیں.۴.امر ۵.نبی ۶.جمدے نفی اور فعل تعجب فعل کے اقسام ہیں نیز فعل لازم ہوتے ہیں جیسے جلس.حَسُنَ كَرُمَا مَن اور متعدی جیسے عَبَدَ وَحدَ اور اشترك نصر اور طلب.نیز فعل کبھی ثلاثی لے امن کے معنی ہیں کہ ایمان فلاں شخص سے ظاہر ہو چکا.عبادت کا فعل ہم سے ظاہر ہوتا ہے اور ہوگا.سے مدد طلب کرنے کا فعل ہم سے ظاہر ہوتا ہے یا ہو گا.کے جانا گیا.ے مدددیا گیا.۹
۱۲۴ مبادى الصرف و النحو جیسے نَصَر اور عَلِمَ اور رباعی جیسے بَعْشَر خماسی جیسے انْفَطَرَ اور سداسی جیسے اسْتَخْرَجَ.یہ بات بھی یادر ہے کہ فعل اور اسم بھی کبھی صحیح ہوتا ہے.جیسے صلح اور رَشَدَ یا عِلْم اور رُشد - اور مہموز جیسے امن ، أَمَنْ ، سَأَلَ ، سَئُولٌ ، قَرَءَ ، قُرُ اور مضاعف جیسے مل ، مَنْ ضَرَّ مَلٌ ، مَنْ ضَرٌّ ، مثال یا مُعْتَلُ الْفَا.جیسے وَعَدَ اور وَعْدُ، يَقَنَ ، يَقْنُ مُعْتَلُ الْعَيْن يا اجوف جیسے بَاعَ اور بَيْعٌ - قَالَ اور قَوْلُ ناقص جیسے رمی ، رفى دَعَا ، دَلُو ، خَشِيَ ، عَصَا لفیف مفروق جیسے وقی اور ولی اور لفیف مقرون جیسے شوى - قوى حروف وہ لفظ ہے جو دو چیزوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرے جیسے الْحَمْدُ لِلَّهِ - أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - الْمُؤْمِنُ فِي الجَنَّةِ وَ الكَافِرُ فِي النَّارِ - میں ل حمد اور اللہ کا تعلق اور علی انعام اور انعام یافتہ لوگوں کے درمیان کا تعلق فی مؤمن اور جنت اور کافرونار کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے.فائدہ امتحان سوالات تمیز کرو.اسماء و افعال اور حروف کی اور ان کے اقسام کی ان عبارتوں میں خَلَقَ اللهُ الْعَالَمَ بِقُدْرَتِهِ وَ يَخْلُقُهُ - وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضُى ـ آمَنَ - عَبْدُ اللَّهِ - كُنْ مَعَ الصَّادِقِينَ - لَا تُشْرِكَ بِاللهِ - لَا تَكُنْ لِلْخَابِنِيْنَ خَصِيْمًا - لے اکھیڑا، اٹھایا.ے پھٹا وہ
۱۲۵ مبادى الصرف و النحو ساتواں سبق ماضی وہ فعل ہے جس میں کہا جاتا ہے فلاں کام ہو چکا واحد جمع غائب مذکر عَلِمَ عَلِمًا عَلِمُوا او.علامت اور ضمیر فاعل ہے ۱.تثنیہ اور وجمع کو ظاہر کرتی ہے مؤنث عَلِمَتْ عَلِمَنَا عَلِمُن عَلِمْتَ عَلِمْتُمَا عَلِمْتُمُ تَ تُما ثم علامت و ضمیر فاعل مخاطب مؤنث عَلِمْتِ عَلِمْتُمَا عَلِمْتُنَّ ت ثما تن علامت و ضمیر فاعل عَلِمْنَا ت تا علامت و ضمیر فاعل غَلَبَ - حَسِبَ - مَنَعَ - كَرُمَ علمت سه حرفی - عَلِمَ نَصَرَ چهار حرفی ماضی مصدر ماضی مصدر اضی مصدر اكرم إكراما كرم تَكْرِيمًا حَاسَبَ مُحاسَبَةً دَحْرَج دخراجا پنج حرفی كتَسَبَ اِكْتِسَابًا اِنْفَطَرَ اِنْفِطَارًا تَصَرَّفَ تَصَرُفًا تَنَاصَرَ تَنَاصُرًا احمد احْمِرَارًا تَسَرْبَل تَسَرُبُلًا شش حرفی اسْتَغْفَرَ اسْتِغْفَارًا إِخْشَوْشَنَ اخْشِيْشَانًا إِجْلَوَةً جُلُوذات احمار احْمِيرَارًا اخر نجم اخر نُجَامًا اِقْشَعَرَ اقْشِعرَارًا ا اصل مصدر اجلو ادا ہے.(ناشر) ۱۱
ضرورت ۱۲۶ مبادى الصرف و النحو استاد کو چاہیے.مصادر کے معانی بتا کر ماضی کے مختلف الفاظ بنوائے اور مختلف الفاظ ماضی کے معانی پوچھے.یہاں تک کہ شاگرد کے ذہن نشین ہو جائے.ماقبل آخر که زیر یا کسرہ اور پہلے جتنے متحرک ہیں ان کو ضمہ دینے سے معلوم ماضی مجہول ماضی بنتی ہے اور آخر میں دو متجانس ہوں تو ادغام کرتے ہیں.پس نَصَرَ کا مجہول نُصِرَ - اجْتَنَبَ کا مجہول أجْتُنبَ - مَدَد کو مد کہتے ہیں اور مجہول اس کا مل ہے.مضارع وہ فعل ہے جس کے معنے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کام ہوتا ہے ( یہ حال ہے ) یا ہوگا (یہ استقبال ہے) واحد جمع غائب مذکر يَعْلَمُ يَعْلَمَانِ يَعْلَمُونَ دونون.نون علامت رفع میں مؤنث تَعْلَمُ تَعْلَمَانِ يَعْلَمُنَ پہلا نون علامت رفع دوسرا ضمیر فاعل | پہلانون اور علامت جمع مؤنث ہے.مخاطب مذکر تَعْلَمُ تَعْلَمَانِ تَعْلَمُونَ ان علامت رفع و علامت فاعل مؤنث تَعْلَمِيْن تَعْلَمَانِ تَعْلَمُنَ پلانون علامت رفع یا ضمیر فاعل.اعْلَمُ نَعْلَمُ اسی طرح نون دوسرا خوب غور کرو کہ ابتدا میں کیا زیادہ ہوا اور کہاں کہاں اور آخر میں کیا تغیر ہوا.صرف چار حرفی ماضی میں علامت مضارع کو مضموم کرتے ہیں اور باقی میں مفتوح اور جہاں زائد ہمزہ ابتدا میں ہو اسے دور کرتے ہیں نیز جس ماضی کے ابتدا میں تا ہو مضارع بناتے وقت ماقبل آخر کو ز بر دو والا سه حرفی ماضی کے سوا زیر.کسرہ کی ہے.۱۲
۱۲۷ مبادى الصرف و النحو اكْرَمَ يُكْرِمُ.اكْتَسَبَ سے يَكْتَسِبُ - تَصَرَفَ سے يَتَصَرِّفُ - مضارع بنتا ہے.ما - لا پہلے لانے سے منفی.س.سَوفَ - لَن - آن.اِن لانے سے مستقبل جیسے آلا يَعْلَمَ مَنْ خَلَقَ - سَيَعْلَمُونَ - سَوْفَ تَعْلَمُونَ - لَنْ أَكَلِمَ الْيَوْمَ - أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ - إِن يَتَفَرِّقَا يُغْنِ اللهُ كُلاً اور لام تاکید اور ما نافیہ سے حال جیسے إِنِّي لَيَحْزُنُنِي - وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ ماذا تكسب غدًا اور ماقبل آخر کوفتہ اور حرف مضارع کو ضمہ دینے سے مضارع مجہول بنتا ہے.تاکید ہے جیسے ماضی میں کہا گیا ہے.اسی طرح مضارع کی مشق کراؤ.آٹھواں سبق لَمْ لَمَّا لَامِ آمَر لاء نہنی کو مضارع کے ابتدا میں لانے سے مضارع کے آخر میں جو رفع 3 اور علامت رفع ہو اُسے دور کر دو اور اس کو جزم کہتے ہیں.اور ایسا ہی اِن إِذْ مَا.اور اسمائے ذیل سے شرط اور جزا کے دونوں مضارعوں پر جزم آجاتا ہے.ما مَنْ مَهُمَا مَتَى أَيَّانَ أَيْنَ أَثْى حَيْثُمَا.اور آنٹی اس لیے کہا جاوے گا.واحد تثنیه جمع لَمْ يَعْلَمُ لَمْ يَعْلَمَا لَمْ يَعْلَمُوا أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ - لَمَّا يَذُوقُوا لَمْ تَعْلَمُ لَمْ تَعْلَمَا لَمْ يَعْلَمُنَ لِيُنْفِقُ ذُو سَعَةٍ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ لمْ تَعْلَمُ لَمْ تَعْلَمَا لَمْ تَعْلَمُوا إِنْ تُؤْمِنْ تَسْلَمْ- اذْمَا تَتَّقِ تَرْتَقِ لَمْ تَعْلَمَى لَمْ تَعْلَمَا لَمْ تَعْلَمْنَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَبِهِ - مَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ - لَمْ أَعْلَمُ لَمْ نَعْلَمُ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ یادر ہے اگر شرط ماضی ہو تو مضارع جو اخیر میں آیا ہے مرفوع بھی ہو سکتا ہے.ان قمت أقومُ.اور آم بھی جائز ہے.-
۱۲۸ مبادى الصرف و النحو آن - لن - گی.اِذن مضارع کے ابتدا میں آویں تو مضارع کے رفع اور علامت رفع کو دور کرو اور جہاں آخر میں پیش تھا وہاں زبر دو.لَن يَظْلِمَ - لَنْ يَظْلِمَا لَنْ يَظْلِمُوا لَنْ تَظْلِمَ لَنْ تَظْلِمَا لَنْ يَظْلِمُنَ پڑھو یادر ہے (۱) لامِ جَعُود کہ جس سے پہلے کان منفی ہوتا ہے (۲) آؤ بمعنے إلى يا إِلَّا (۳) حَتَّى بمعنے إلى يا (۴) لام فَاء سَبَبية جوفی یا طلب کے بعد ہو.و او بمعنے مع کے بعد (ن ) کو حذف کر دیتے ہیں.جیسے مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمُ - لَا كَافَةُ أَوْ تُهْمَلَ - كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ - لَعَلَى أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ فَأَطْلِعَ لَا تَنْهَ عَنْ خُلْقٍ وَ تَأْتِيَ مِثْلَهُ سہ حرفی ماضی کا اسم فاعل کے واحد جمع مذکر فَاعِل فَاعِلَانِ فَاعِلُونَ مؤنث فَاعِلَةٌ فَاعِلَتَانِ فَاعِلات اسم مفعول واحد جمع مذکر مَفْعُولُ مَفْعُولان مَفْعُولُونَ نث مَفْعُولةٌ مَفْعُوَلَتَانِ مَفْعُولات اور فعیل.فعول.مؤنث مذکر فاعل اور مفعول میں مشترک ہے جیسے شَرِيف اكول " قتیل.اور رسُول.مرد و عورت.اچھا.بہت کھانے والا.مرا ہوا.بھیجا ہوا.لے ایک مشتق ہے جو مصدر سے بنتا ہے اس اسم کے لئے جسے مصدر کا صدور ہوا یا جس کے ساتھ مصدر کا قیام میں بدوں زیادت اور ثبوت کے.۱۴
مبادى الصرف و النحو ۱۲۹ سہ حرفی ماضی کے سوا اسم فاعل مضارع کی طرح آتا ہے.مگر حرف مضارع کو دور کر کے اس کے بدلہ میم مضموم لگا دو.پھر اسم فاعل میں ماقبل آخر کو کسرہ اور اسم مفعول میں ماقبل آخر کو فتح دینے سے بن جاتا ہے.جیسے مُكْرِم - مُكْتَسِبْ مُكْرَم مُكْتَسَب.اور تثنیہ، جمع ، مذکر اور مؤنث کے علامات وہی رہیں گے جو سہ حرفی میں بتائے ہیں.اسم زیادت اعْلَمُ أَعْلَمَانِ أَعْلَمُوْنَ أُخْرُى أُخْرَيَانِ أُخْرَيَاتُ أُخَرُ فعل تعجب مَا أَعْلَمَ مُحَمَّدًا وَأَعْلِمُ بِمُحَمَّدٍ.وَكَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُولُوا مَالَا تَفْعَلُونَ اسم آله مفْعَلُ مِفْعَلَانِ مِفْعَلَةٌ مِفْعَلَتَانِ.مِفْعَالُ مِفْعَالان.اور سب کی جمع مَفَاعِلُ آتے ہیں.سوالات امن.ایمان لا یا وہ ایک شخص.کیا فعل ہے.نعْبُدُ.عبادت کرتے ہیں ہم.اور عبادت کریں گے ہم.کیا فعل.مَاتَ فُلَانٌ رَحِمَ اللهُ فُلَانًا.مرگیا ہے.اللہ اس پر رحم کرے.ہے.اللهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ انفی اللہ ہی جانتا ہے جو اپنے اندر اٹھاتی ہے ہر ایک عورت.کہ اس کے پیٹ میں سعادت مند ہے یا اس کے خلاف.مات - رحم يَعْلَمُ تَحْمِلُ.کیا فعل ہیں.فَلْيَندُدُ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا - اور آمُرُ وَعَدَ وَعْظ خُلةٌ خَشْيَةٌ- کو کیا کیا کہا جا سکتا ہے.۱۵
۱۳۰ یادداشت علم کے معنے ہیں جاننا ایمان کے معنے یقین کرنا کفر کے معنے انکار کرنا تکریم کے معنے تعظیم کرنا کتاب کے معنے لکھنا انفطار کے معنے پھٹنا اکرام کے معنے عزت کرنا مُحَاسَبَةٌ کے معنے حساب لینا اکتساب کے معنے کمانا تصرف کے معنے قابو پالینا مبادى الصرف و النحو نصرت کے معنے مدد کی تو نے استغفار کے معنے حفاظت مانگنا ( پردہ چاہنا ) اخشیشان کھردرا ہونا احمد سرخ ہوا اخر نجم اکٹھا ہوا اقشعرار رونگٹوں کا کھڑا ہو جانا يُدخرج لڑھکاتا ہے.اجلوذ جلد چلا.تاکید اس طرح کے مختلف الفاظ قرآن مجید اور زبان عربی میں مشق کراؤ.اسم ظرف وہ مشتق ہے جو اس بات کو بیان کرے کہ فعل کس وقت اور کس جگہ واقع ہوا مثلاً مَأْمَن امن کی جگہ یا امن کا وقت.مَجْمَع جمع ہونے کا وقت یا جمع ہونے کی جگہ.قاعده مُضَارِعُ مَكْسُورُ الْعَيْنِ اور ہر ایک ایسا کلمہ جس کو مثال کہتے ہیں.کیا معنے جس کے فاء کلمہ واؤ یا یاء ہو اُس کی ظرف مَفْعِل ہوگی جیسے ضَرَبَ يَضْرِبُ سے مَضْرِبُ وَعَدَ يَعِدُ سے مَوْعِدٌ وَضَعَ يَضَعُ مَوْضِعُ اور مضارع مَفْتُوحُ الْعَيْنِ اور مَضْبُوْمُ الْعَيْنِ اور ناقص اور مضاعف کا اسم ظرف مفعَل کی طرز پر آوے گا جیسے فَتَحَ يَفْتَحُ سے مَفْتَحُ اور نَصَرَ يَنْصُرُ سے مَنْصَر رَى يَرْمی سے مرگی.دَعَا يَدْعُو مَرْعى فَرَّ يَفِرُّ مَفَر - ۱۶
۱۳۱ مبادى الصرف و النحو اور چند الفاظ اپنی بعض خصوصیات کے باعث اس قاعدہ سے مستثنی ہیں.مثلاً الفاظ ذیل کا مضارع مَضْبُوْمُ الْعَيْنِ ہے مگر ظرف مَفْعِل بزیر عین آیا ہے.جیسے مَسْجِدٌ.مَنْبت مَشْرِقُ مَغْرِبْ مَجْزِرٌ مَنْسِكَ مَرْفِقٌ مَسْقِطَ مَسْكِن مَطلِعْ مَنْزِلَةٌ مَفْرِقٌ محشر - غیر ثلاثی مجرد کیا معنے.جن افعال کے ماضی سہ حرفی سے زیادہ ہو اس کا اسم ظرف بالکل اسم مفعول کی طرح آتا ہے.مثلاً عَسْكَرَ يُعَسْكَرُ فَهُوَ مُعَسْكَر نیز اجوف یائی کا ظرف ایسے آوے گا.مثلاً صارَ يَصِيرُ کا ظرف مَصِيرَ ہوگا.جہاں کوئی چیز مثلاً سبع ( درندہ کو کہتے ہیں) بہت ہوں گے اس جگہ کو مشبعة کہیں گے.افعی (سانپ) جہاں بہت ہوں اس کو مَفْعَات کہتے ہیں.نو واں سبق امر حاضر بنانے کا قاعدہ مضارع مخاطب کے پہلے جو تا علامت مضارع ہے اس کو دور کر دو.پھر اس کے بعد اگر ساکن ہو تو اس حذف شدہ کے بدلہ میں تفعل کے رنگ کے مضارع میں ہمزہ مفتوح اور تفعُل کی طرح میں ہمزہ مضموم.وَ اِلَّا ہمزہ مکسور بڑھا دو.اور اگر متحرک رہے تو ہمزہ مت بڑھاؤ.اور ہر حالت میں آخر کو جزم دو.ہاں اگر آخر میں حرف علت ہو بدلہ جزم کے اسی کو گرا دو.تُكْرِمُ تنْصُرُ تَسْتَغْفِرُ تَعْلَمُ تَفْتَحُ تحاسب تقى تَغْزُو تَرْمِی سے انْصُرُ اسْتَغْفِرُ عد حَاسِبُ ق اعْلَمُ افْتَحْ أغْرُ ارم ۱۷
۱۳۲ واحد تثنيه جمع مبادى الصرف و النحو لا تُشْرِكا لا تُشْرِكا مذکر مؤنث اعْلَمَا اعْلَمُوا اعْلَمُ اعْلَمَا اعْلَمِي اِعْلَمَا اعْلَمُنَ اگر لا مضارع کے ابتدا میں بڑھاویں.پس اگر آخر میں علت کا حرف ہو اور وہ (و.۱.ی) ہے تو اسے دور کر دیں.اور اگر صحیح ہو تو آخر کوصرف جزم دے دیں تو نہی بنتی ہے.جیسے لا تُشْرِكْ لا تُشْرِكي نون ثقیلہ سے یہ یہ شکلیں پیدا ہوتی ہیں.لا تُشْرِكُوا لا تُشْرِكُن يَعْلَمَنَ يَعْلَمَانِ يَعْلَمُنَ تَعْلَمَنَ تَعْلَمَانِ يَعْلَمُنَانِ تَعْلَمِنَ تَعْلَمَان تَعْلَمُنَ تَعْلِمَنَ تَعْلَمَانِ تَعْلَمُنَانِ أعْلَمَنَّ نَعْلَمَنَّ اور خفیفہ سے يَعْلَمَن يَعْلَمُن تَعْلَمَن تَعْلَمُن أعْلَمَن نَعْلَمَن موضوع یا با معنے لفظ دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک مفرد، دوسرے مرکب.مفر دوہ ہے جس میں دواعراب یا دو بنائیں یا ایک اعراب اور ایک بنا نہ ہو.مثلاً (۱) اِلهُ وَاحِدٌ (۲) أَحَدَ عَشَرَ - اَلْحَمْدُ - ۱۸
مبادى الصرف و النحو ۱۳۳ اور ایک پنا ہے مرکب.اور وہ ہے جس میں دو اعراب یا دو بنا یا ایک اعراب اور ایک بنا ہو.مثلاً إلهُ وَاحِدٌ - أَحَدَ عَشَرَ - اَلْحَمْدُ - اور کہا ہے کہ جہاں لفظ کے اجزا معنے کے اجزا کو ظاہر کریں وہ مرکب ہے.اور جہاں ایسا نہ ہو وہ و، مفرد ہے.جیسے.اللهُ مَلَكَ رَسُولُ مُحَمَّدٌ قِيَامَةٌ شَهَادَةٌ صَلوةٌ زَكَوةٌ صَوْمٌ حَج یہ سب مفرد ہیں.(مرکب کی مثالیں پہلے لکھ چکے ہیں.) مفرد کی تین قسمیں ہیں.۱.اسم ۲ فعل اور ۳.حرف.اور مرکب.۱.جملہ ۲.کلام اور ۳.مرکب غیر مفید.اسم وہ ہے جس کی خبر دی جاوے.اسم کے ابتدا میں آل اور آخر میں تنوین یا کسی عامل کے باعث زیر آجایا کرتی ہے اور اسم کو مضاف بھی کر دیا کرتے ہیں.جیسے الْحَمْدُ لِلهِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ - امَنَّا بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ (استاد کھول کر سمجھا دے اس میں ہم نے مفرد اور مرکب بتادیئے ہیں ) پھراسم معرفہ ہوتا ہے یا نکرہ معرفہ کے اقسام ا - علم ۲- معرف باللام - ضمائر - اسم اشاره ۵-موصول ۶.موصوف اور ے.وہ اسم جو ان معرفوں کی طرف مضاف ہو اور ۸.بعض مُعَرَّف بالدا جیسے ا - الله - الصَّمَدُ - ٣- هُوَ اللهُ - اَنْتَ الرَّبُّ أَنَا الْعَبْدُ - ٢- ذَلِكَ الْكِتَبُ - هَذَا الْحَقِّ - ۵- الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ - الَّذِينَ أَنْعَبْتَ عَلَيْهِمْ - أَمَّهُتُكُمُ الَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ - يَا عَبْدَ اللهِ- يُوسُفُ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - رَسُولُ اللَّهِ - رَسُولُهُ - رَسُولُكُمْ - دَاعِيَ الْحَقِّ فَأْتُوا بِكِتَبِ مِثْلِ هَذَا صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - صَاحِبُ رَجُلٍ فَاضِلٍ نکره - مَنْ الهُ غَيْرُ اللَّهِ - اسم واحد ہوتا ہے یا تثنیہ یا جمع اور مذکر ہوتا ہے یا مؤنث.مصفر ہوتا ہے اور منسوب.۱۹
۱۳۴ مبادى الصرف و النحو اله - الهَيْنِ - اِثْنَيْنِ - مُؤْمِنُونَ - مَلَائِكَةٌ - امْرَءَةٌ نِسَاءُ - بُنَيَّ - عُبَيْدُ ملي - مدني اسم مجرد ہوتے ہیں یا مزید اسم محجر دھلائی کے اوزان ووو شَمْسُ قَمَرُ قَمَرُ كَيف رَجُلٌ قُفُلٌ رُطَبٌ عُنُق حِمْلٌ عِنَبُ إِبِلٌ سورج چاند شانه اسم رباعی مجرد مرد تالہ تر کھجور گردن بوجھ انگور اونٹ جَعْفَرُ.دِرُهَمْ - زَبْرِجُ - طحلب - قمطر نام.ایک سکہ کا نام ہے.زینت - جالا ( پانی میں جو سبزی مائل ہوتا ہے).صندوق.خماسی مجرد سَفَرْجَل قُدَعْمِلُ جَحْمَرِشُ جَرْدَخل یہی اونٹ قوی بوڑھی عورت وادی اسم مقصور جس کے آخر ایک الف لازم ہو.جیسے ھدی مصطفی.وہ الف واؤ سے بدل ہو.یا یا ہے.جیسے عصى اور فتی.یا تانیث کے لیے.جیسے.حُبلى عطشی یا الحاق کے لیے جیسے آرھی (ایک درخت) ذفری جَعْفَرٌ.اور دِرْهَم کے ساتھ ملانے کے لیے.اور محدود وہ ہے جس کے آخر ہمزہ اور اس کے پہلے الف ہو.جیسے قُراء.وہ ہمزہ بدل ہو واؤ سے جیسے.سماء یا یا سے جیسے بنا یا تانیث کے لیے جیسے حَسُنَاءُ خَضْرَاءُ یا الحاق کے لیے جیسے عِلبَاء ( گردن کی جانب کا ٹھ) لحق بقرطاس ہے.اسم منقوص وہ اسم جس کے آخر یا مساکنہ اور اس کے ماقبل کسرہ ہو جیسے داعی.جس اونٹنی کے کان کے پیچھے سے پسینہ بہت ہے.
مبادى الصرف و النحو ۱۳۵ دسواں سبق اسم مبنی ہوتا ہے یا معرب.بنی وہ جس کا آخر عامل کے باعث نہ بدلے.اور وہ ضمیرین - اسْمَاءُ إِشَارَة - مَوْصُولات - أَسْمَاءُ الْأَفْعَالَ- أَسْمَاءُ الْأَصْوَات.اسماء شرط ہیں.استفہام (مَنْ مَا مَاذَا مَتَى أَيَّانَ أَيْنَ كَيْفَ أَتى كَمْ) بعض ظروف (إِذْ إِذَا الْآنَ حَيْثُ أَمْسِ) اعداد مرکبہ ظروف اور احوال کا آخر مبنی علی الفتح ہوتا ہے جیسے إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا.صَبَاحَ مَسَاءَ وَهُوَ جَارِى بَيْتَ بَيْتَ اور اسماء الجہات ظروف جب مقطوع الاضافہ ہوں تو مبنی ہوتے ہیں جیسے لِلهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَحَسْبُ وَأَوَّلُ - يت تومبنى على الضم ہوں گی اور جس اسم کے آخر یہ ہو یا فعال کے وزن پر ہو مبنی علی الکسر ہوتا ہے جیسے سيبويه وَحَذَامِ وَ خَبَاتِ وَنَزَالِ- وہ اسم ہے جس میں عامل کے باعث تغیر واقع ہو مثلاً جب کوئی اسم فاعل ہو یا نائب فاعل.مبتدا.خبر.اشم كَانَ.وغیرہ اور خبر ان وغیرہ ہو تو اس پر پیش آ جاوے یا پیش کا قائم مقام تثنیہ.کلا - کلتا.جب ضمیر کی طرف مضاف ہوں.اِثْنَانِ اثْنَتَانِ میں الف اور جمع مذکر سائم اور أَسْمَاءِ سِتَّةٌ مُوَخَدَه (آب.آخ.كم فُوَ ذُو اور حسن) اگر غیر یائے متکلم کی طرف مضاف ہوں تو ان میں واؤ.اور جب اسم مفعول بِهِ مَفْعُول مُطلَقُ مَفْعُول لَهُ مَفْعُول فِيْهِ مَفْعُول مَعَهُ خبر کان وغیرہ.اسم ان وغیرہ.حال تمیز.بعض مستی اور بعض منادی ہو تو اس پر زیر یا ز بر کے ۲۱
مبادى الصرف و النحو ۱۳۶ جا بجا.اسمائے سیسته مذکور میں الف اور تثنیہ اور جمع مذکر سالم اور کلا، کلتا جب ضمیر کی طرف مضاف ہوں اِثْنَانِ ، اثْنَتَانِ میں یا اور جمع مؤنث سالم میں کسرہ آتا ہے جیسے آبز أمَّكَ وَ آبَاكَ وَ آخَوَيْكَ كِلَيْهِمَا وَأُخْتَيْكَ كِلْتَيْهِمَا وَ الْأَقْرَبِينَ وَ عَمَّاتِكَ اور اسم مجرور میں کسرہ یا کسر کا قائم مقام اسمائے ستّہ.تثنیہ.جمع مذکر سالم - كلا، كلتا جب ضمیر کی طرف مضاف ہوں.اِثْنَانِ اِثْنَتَانِ میں یا اور ممنوع الصرف میں.جب اس کے ابتدا میں آئی نہ ہو یا مضاف نہ ہو تو فتحہ لاتے ہیں.تقدیری اعراب وہاں ہوتا ہے جہاں آخر میں الف مقصورہ ہو جیسے موسیٰ و عیسیٰ (1) أَحْرُفُ اسْتِقْبَالِ اس سَيَغْفِرُ لَنَا.سَوْفَ سَوْفَ اسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي آن - يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا -٤ - اِنْ اِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا ه هَلْ - هَلْ إِلَى خُرُوج مِنْ سَبِيل ٦- لَنْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرِّ - (۲) حُرُوفُ التَّنْبِيْهِ - اَلَا آمَا هَا يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ - (۳) حُرُوفُ التَّاكِيدِ - إِنَّ ـ آنّ.ن.لَامُ الْإِبْتَدَاء قَدْ - ن (۴) اَحْرَفُ الْعَظفِ وَاوُ - فَا ثُمَّ أَوْ أَم بَلْ لَكِنْ لَا (۵) آخرَفُ الْجَوَابِ لَا نَعَمْ.بَلى - إِلَى أَجَلْ جَلَلْ جَيْرِ (1) احرفُ النَّفِي - لَمْ - لَمَّا لَن مَا لَا لَاتَ اِنْ - (۷) أَحْرَفُ الشَّرْطِ - إِنْ اِذْمَا لَوْ لَوْلَا لَوْ مَا أَمَّا (۸) آخرفُ تَحْضِيض - الا - اَلَّا هَلَّا لَوْلا لَوْ مَا.(۹) آحرفُ الْمَصْدَرِيَّةِ - أَنْ أَنَّ مَا مَصْدَرِيَّة ۲۲
مبادى الصرف و النحو ۱۳۷ فاعل گیارہواں سبق جس اسم کے ساتھ کسی فعل کا قیام ہو اور وہ اسم فعل کے بعد ہوا سے فاعل کہتے ہیں.جیسے خَلَقَ اللهُ السَّبُوتِ - كَلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيمًا خَلَقَ اور حلم فعل ہیں اور اللہ کا لفظ فاعل کہلاتا ہے.جب فاعل ظاہر ہو تو فعل کو واحد رکھتے ہیں.جیسے جاءَ اخْوَةٌ يُوسُفَ جب فاعل مؤنث حقیقی اور فعل سے بلا فاصلہ ہو تو فعل مؤنث ہوتا ہے.جیسے قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ اور جب ا.فاعل مؤنث غیر حقیقی ہو یا ۲.فاعل مؤنث حقیقی اور فعل کے درمیان فاصلہ ہو تو فعل کو کبھی مؤنث اور گا ہے مذکر کر دیتے ہیں جیسے ا.اَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازْيَّنَتْ ٢.اور مَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ اور ٣ - إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ.یہ بات یادر ہے کہ مَصْدَرُ - اِسْمُ مَصْدَرٍ - اسْمُ فَاعِلٍ - صِفَةٌ مُشَبَّه - افعل الزيادة- اسم فعل - ظرف - جار مجرور د فعل کے قائم مقام ہو جاتے ہیں.جیسے لَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ مِنْ قُبْلَةِ الرَّجُلِ اِمْرَأَتَهُ الْوُضُوءُ - مُخْتَلِفٌ الْوَانُهُ - حَسْنُ وَجْهُهُ - مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْهُ الصَّوْمُ مِنْهُ فِي عَشْرَةِ ذَيْحَجَة هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ - وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ ـ ا فِي اللَّهِ شَاةٌ بارہواں سبق آئی اور یہ بھی یادر ہے کہ آن ، آن ، ما.اپنے ما بعد کے ساتھ ضمائر اور جملہ بھی فاعل ہوا کرتا ہے جیسے ا اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُم يَأْنِ فعل ہے اور آن تَخْشَعَ فاعل ہے اى خُشُوعُ قُلُو عِلمُ - قُلُوهِم ٢ - اَوَلَمْ يَكْفِهِم اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ الى اَنْزَلْنَا الْكِتَابَ - يَسُرُّ الْمَرْءِ مَا ذَهَبَ اللَّيَالِي ۲۳
مبادى الصرف و النحو ۱۳۸ ضمائر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ظاہر جن کو بارِزَة کہتے ہیں جیسے اَنْعَمتَ میں تا - كَتَبْنَا میں نا اور دوسرے مُسْتَتِرَہ جیسے مَنْ يَقُولُ میں هُوَ - اور جیسے تبيّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ أَى كَيْفِيَّةِ فِعْلِهِمْ.اور أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أهْلَكْنَا آئی كَثْرَةُ اهْلَاكِنَا - ا فعل یا ۲.فاعل یا ۳.دونوں کو گا ہے حذف کر دیتے ہیں جیسے مَنْ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ.لَيَقُولُنَ الله میں اللہ فَاعِل ہے اور خَلَقَ فِعْل مَحْذُوف.بلَغَتِ الشّراقِ میں نفس بلغت کا فاعل محذوف ہے.اَلَسْتُ بِرَتِكُمْ قَالُوا بَلَى - آٹھواں نائب فاعل فعل مجهول اور اسم مفعول اور منسوب کا مفعول به.ظرف.مصدر.اور جار مجرور.فاعل کا قائم مقام ہو جاتا ہے بشرطیکہ متصرف اور مختص ہوں جیسے أُكْرِمَ الرَّجُلُ صِيمَ النَّهَارُ - كُتِبَ كِتَابَةٌ نُظِرَ فِي الْأَمْرِ شُبِّهَ لَهُمُ - ساتواں مبتدا.وہ اسم ہے جسے خبر دی جاوے اور خبر وہ اسم ہے جس کے ذریعہ اطلاع دی جاوے.مبتدا اکثر معرفہ ہوتا ہے اور خبر کبھی مفرد ہوتی ہے جیسے اللہ احد اور کبھی مرکب جیسے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ - گا ہے جملہ فعلیہ جیسے الله لم یلد اور گا ہے جملہ اسمیہ - الْغَضْبُ آخِرُهُ نَدَم - اور جملہ شرطیہ بھی آتی ہے اللهُ اِنْ تُؤْمِنْ بِهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ يُؤْمِنَكَ اور جملہ ظرفیہ بھی خبر ہوتا ہے جیسے في السَّمَاءِ الهُ وَ فِي الْأَرْضِ الهُ یادر ہے خبر مشتق.افراد.تثنیہ.جمع.تذکیر اور تانیث میں مبتدا کے مطابق ہوتی ہے اور خبر جملہ ہو تو اس میں ضمیر مطابق مبتدا ہونا چاہیے.۲۴
مبادى الصرف و النحو ۱۳۹ مبتدا اسماء استفہام اسماء شرطيه ما تعجبية - كم خبر یہ ضمیرشان جس کے پہلے لام الابتدا ہو اور موصول جس کی خبر پر فاء ہو.جہاں التباس بالفَاعِل يا التباس بِخَبر ہو اور جو مَقْصُورٍ عَلَى الْخَبر ہو مقدم ہوتا ہے.مَنْ أَنْتَ مَنْ يَقُمُ أَقُمْ - مَا اَحْسَنَ الصَّدَقَ - كَمْ عَبِيْلٌ لِي - هُوَ اللهُ اَحَدٌ - لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا - اللَّهُ خَلَقَ اللَّهُ الْهُنَا - إِنَّمَا اللهُ الهُ وَاحِدٌ - ان مقامات میں مبتدا کو مقدم کرتے ہیں.اگر خبر لازم الصدر - مَقْصُور عَلَى الْمُبْتَدَا - ملتبس بالضفة بعض حصہ خبر کو مبتدا کی ضمیر راجع ہو تو خبر مقدم ہوتی ہے.جیسے مَتى نَصْرُ اللَّهِ - إِنَّمَا مَعْبُودُنَا اللهُ - لِي صَاحِبَةً - أَمْ عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا - مبتدا کو نِعْمَ - بِئْسَ نَعت مقطوع میں.جو مدح ذَم ترحم کے مقامات پر کرتے ہیں اور مقام قسم میں اور جب مصدر نائب عَنِ الْفِعْل خبر ہو حذف کر دیتے ہیں.جیسے نِعْمَ الْعَبْدُ صُهَيْب - اَعُوذُ بِاللهِ مِنْ إِبْلِيسِ اللَّعِيْنِ فِي عُنُقِى ، لَا ذُهَبَنَ أَى الْمِيْقَاقُ ارْفِقُ بِخَالِدٍ الْمِسْكِينَ سَمْع وَ طَاعَةٌ.مربع قسم کو لا کے بعد جب کون عام ہو.واؤ بمعنے مع کے بعد.جب حال خبر کے قائم مقام ہو جیسے لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ - لَوْ لَا فُلَانٌ لَهَلَكَ فُلَانٌ - كُلُّ صَانِعِ وَمَا صَنَعَ - اقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ - ضَرْبى الْعَبْدَ مُسِيّئًا.اسم کان اور اسم قسم کے فعلوں کا خبر إِنَّ وَأَخَوَاتِهَا.۲۵
مبادى الصرف و النحو ۱۴۰ تیر ہواں سبق فعل کا مصدر سے مفعول مطلق کہتے ہیں اور جس پر فعل فاعل کا واقع ہو.اور وہ مفعول کہلاتا ہے اور جس غرض کے لئے فعل کا وقوع ہواوہ مَفْعُول له یا لِأَجْلِهِ ہے اور وہ لفظ جسے فعل کے وقوع کا زمانہ یا مکان معلوم ہو اور وہ ظرف زمان یامکان کہلاتا ہے اور جس کے ساتھ وقوع ہو اور وہ مفعول معہ ہے.اور جو لفظ فاعل یا مفعول یا نسبت یا کسی اسم سے کسی شب کو دور کرے اور وہ تمییز کہلاتی ہے اور مستثنی منقطع اور وہ مستثنی جو کلام تام موجب میں ہو اور خلا.عَدَا حَاشَا.لَيْسَ - لَا يَكُونُ کے بعد اور جو اسم فاعل یا مفعول کی حالت بیان کرے اور وہ حال ہے.اور إِنَّ أَنَّ - كَانَ - لَيْتَ - لَكِنَّ - لَعَلَّ کے بعد کا اسم اور لافی جنس کے بعد کا اسلم اور كَانَ - صَارَ - أَصَبَحَ - أَمْسَى - أَضْحَى - ظَلَّ - بَات - مَا فَتِيءَ - مَا دَامَ - مَا انْفَكَ- لَيْسَ - اضَ - عَادَ - اور لا مشبہ بلیس کی خبریں، منظوب ہوتی ہیں جیسے عَلَّمَ اللهُ عِلْمًا - زَيْدًا فَضْلًا وَادْخَلَهُ اللهُ الْمَدِينَةَ بَعد الحَجَ سَالِمًا وَعَمروا مُنْعَبًا عَلَيهِمَا زَائِرِينِ فَطَابَ زَيدٌ نَفْسًا وَ عِلْماً وَ عَمرُوا أَبا وَ أكلا الثَّمَرَ عَلَيْهَا مِثْلُهَا زبدا وَاشْتَرَى زَيْدٌ أَوْقَارًا كُتُبَ الدِّينِ إِلَّا كُتُبَ الْمَجُوْنِ خَلَا كُتُباً تَفِيدُ عِلْمَ اللَّسَانِ - إِنَّ اللهَ كَانَ بِهِمَا رَحِيمًا - فَلَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْمُقَرَّبِينَ عِنْدَكَ سَيِّمَا فِي يَوْمٍ لَا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَ لَا شَفَاعَةٌ ۱۵ ۱۶ اسی طرح اسم اغراء - تحذیر اختصاص میں اور منادى مضاف اور مشابه بالمضاف منصوب ۱۲ ۱۳ ہوا کرتے ہیں جیسے اَلْإِيمَانَ - وَالْإِجْتِهَادَ - وَالنَّجْدَةَ اور الكَسْلَ الشَّرُكَ الشَّرُكَ نَفْسَكَ وَالْخَلِيْلَ السُّوءَ - إِيَّاكَ وَالْكَذِبَ إِيَّاكَ إِيَّاكَ النَّمِيمَةَ إِيَّاكَ الشَّر اور ۱۴ ۱۵ نَحْنُ مَعَاشَرَ الأَنبِيَاءِ لَا نُوَرِثُ الرِّرْهَمَ وَالدِّينَارَ اور يَارَبِّ العَلَمِيْنَ يَأْطَالِعًا جَبَلًا.۲۶
مبادى الصرف و النحو ۱۴۱ چودہواں سبق ا.اسم فعل وہ اسم یا مرکب ہے جو فعل کے معنے دے اور فعل کے علامات اس پر نہ آسکیں.هيهات اس کے معنے ہیں ما ابعدَ - وَی کے معنے اتعجب شَتَّانِ اس کے معنے ہیں مَا افْتَرَقَ أَفْ کے معنے اتَضَجِّرُ صہ اس کے معنے ہیں اُسكت امین اس کے معنے استَجِبْ هَيْتَ هَلُمَّ عَلَيْكَ نَفْسَكَ الْزَمُهَا إِلَيْكَ عَلَى تَنْحِ دُونَكَ الدّرهم اى خُذْ مَكَانَكَ أَي أَثْبُتُ - ان کو تثنیہ جمع مذکر نہیں کرتے اور فعال بمعنے امر بنالینا سہ حرفی لفظوں میں قیاس ہے جیسے نزال قتال ۲.صفہ مشبہ باسم فاعل.وہ اسم ہے جس کے معنے میں ثبوت اور مضبوطی پائی جاوے.وہ فرح لازمی سے.غم اور خوشی کے معنے میں ضَجِرٌ طَرِب اَشر وہ فرح لازمی سے.عیب اور خوبی کے معنے میں اَخْرَجُ أَحْوَرُ وه فرح لازمی سے خَلَو اور امیلا میں عطشان مَلان عظشی وَ مَلْى مؤنث ہیں اور كَرُمَ سے كَرِيمٌ شَهُمْ حَسَنُ جَبَانُ شَجَاعُ صُلْب - یادر ہے کہ جو اسم ثلاثی سے بمعنے اسم فاعل ہو اور فاعل کے وزن پر نہ ہو اس کو بھی صفہ مشبہ کہتے ہیں جیسے شَيْخٌ أَشْيَبُ طَيِّبٌ عَفِيفٌ اور جو اسم فاعل اور اسم مفعول حدوث کے معنے نہ رکھتا ہو اسے بھی صفہ مشبہ کہا جاتا ہے جیسے طَاهِرُ الْقَلْبِ مُعْتَدِلُ الْقَامَةِ اور مَحْمُودُ الْمَقَاصِدِ ۲۷
یا درکھا جاوے ۱۴۲ مبادى الصرف و النحو خِلَاصَةٌ تُحفَظُ ا.الف - با - تا - تا - جیم - حا.وغیرہ سے لفظ بنتے ہیں اور الفاظ کی تین قسمیں ہیں..۱.فعل جیسے عَلِمَ ، يَعْلَمُ ، إِعْلَمُ - كَتَبَ، يَكْتُبُ، أَكتُبْ وغيره -۲- اسم جیسے اللهُ مَلَكَ كِتَابٌ رَسُولُ مُحَمَّدٌ أَحْمَدُ جَزَاءُ ۳.حرف جیسے هَلْ لَهُ فِي ۳.فعل کی تین قسمیں ہیں ماضی جیسے امن مضارع يَأْمَنُ امر جیسے امن ۴.الفاظ مفردہ سے جو کلام بنتا ہے اس کو جملہ مفیدہ کہتے ہیں.۵.جس اسم اور فعل کا آخر کسی عامل سے نہ بدلے اس کو مبنی اور جس کا آخر عامل سے بدلے اس کو معرب کہتے ہیں.مبنی کے آخر کبھی سکون ہوتا ہے جیسے اغلَمُ لَم مَن یاسمہ ہوتا ہے جیسے.حَيْثُ عَوْضُ یاز بر ہوتا ہے جیسے نصر - این ـ یا کسرہ ہوتا ہے جیسے نَزَالِ حَضَارِ بَاء جَاره تمام حروف اور مضارع کے سوا تمام افعال مبنی ہوتے ہیں.اسماء میں مبنی ضمائر ہیں جیسے آنا، أنت، هُوَ اور اسمائے موصولہ جیسے الَّذِى الَّتِي، أُولَئِكَ اسمائے اشاره هَذَا هَذِهِ، تَا، تِه، ذَالِكَ، تِلْكَ - اسمائے شرط مَنْ مَهُمَا اور جن الفاظ کا آخر بدل جاتا ہے ان میں افعال کے آخر گا ہے.پیش جس کو ضمہ رفع کہتے ہیں ہوتا ہے جیسے يُؤْمِنُ ، يُكرم اور کبھی فتہ جس کو نصب اور زبر کہتے ہیں جیسے امن ، آمن ، علیم اور کبھی جزم جس کو سکون کہتے ہیں جیسے انگر، اگر ھم.اور اسم کے آخر رفع ، نصب ، جبر اور سکون ہوتا ہے جیسے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ - اَلْقِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، مِنْ عَنْ فعل کے پہلے جب آن - لن - اذا گئی ہو تو فعل کا آخر منصوب ہوگا اور جب لخر - لیا.۲۸
مبادى الصرف و النحو ۱۴۳ لام آمر.لا ناهيه - إن.إذما.من - ما - مَهمَا مَتَى أَيَّانَ - أَنَّى حَيْثُمَا گیفتا.آئی فعل پر آویں تو فعل کا آخر مجزوم ہوتا ہے.اور اگر ناصب و جازم فعل مضارع کے ابتدا میں نہ ہو تو مضارع مرفوع ہوتا ہے.اسم کے آخر چھ جگہ رفع ہوتا ہے.اوّل فاعل حَفِظَ مُحَمَّدٌ الْكِتَابَ - يَطْلُبُ الْعَاقِلُ الْعِلْمَ مُحَمَّد اور عاقل فاعل ہیں اس لئے مرفوع ہیں.دوم - حفظ الكِتابُ وَيُطلَب العِلْمُ، کتاب اور علم کو نائب فاعل کہتے ہیں.سوم.چہارم.جیسے اللهُ خَالِقُ ، اسم اوّل کو مبتداء اور دوسرے کو خبر کہیں گے.پنجم.كَانَ اللهُ غَفُورًا.اللہ اسم کان کہلاتا ہے اور تحان کی طرح صَارَ - أَصْبَحَ أضحى ظَلّ أمْسَى بَاتِ مَا زَالَ مَا بَرِحَ مَا انْفَكَ مَافَتِي مَادَامَ - لَيْسَ - ششم - إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ - الله اسم اِنّ اور عَلِيمٌ مرفوع خبر ان اور ان کی طرح ان كَانَ لَيْتَ لَكِن لَعَلَّ اور لا.اسم منصوب گیارہ ہیں ١- حَفِظَ الْكِتَابَ مُحَمَّدٌ - الْكِتَابَ منصوب ہے اور مفعول بہ ہے.-۲- حَفِظ حِفْظًا حِفظ مفعول مطلق ہے اس لئے منصوب.٣- حَفِظَ مُحَمَّدُ الْكِتَابَ حِفْظًا رَغْبَةً رَغْبَةً مَفْعُول لَهُ - -۴- صَبَاحًا وَ أَمَامَ حَفِظَ مُحَمَّدٌ الْكِتَابَ صَبَاحًا أَمَامَ الْمُعَلِّمِ میں صَبَاحًا اور امام منصوب ہے اور مَفْعُول فیہ اور ظرف ہے.۵- الْمِصْبَاحُ كا لفظ حَفِظَ مُحَمَّد وَالْمِصْبَاحَ میں مفعول معہ اور منصوب ہے.- حَفِظَ مُحَمَّدٌ الْكِتَابَ إِلَّا وَرَقَةً.وَرَقَةٌ منصوب ہے مستثلی ہے.جَالِسًا اور صَحِيحًا کا لفظ حَفِظَ مُحَمَّدٌ الْكِتَابَ صَحِيعًا و حَفِظَ الْكِتَابَ ۲۹
۱۴۴ مبادى الصرف و النحو جَالِسًا حال ہے اور منصوب.بَاعَ الْكُتُبَ بِرَطْلٍ ذَهَبًا مِیں ذَهَبًا تمیز.فَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا میں عُيُونًا تمیز ہے.۹.منادی مضاف جیسے يَا عِبَادَ اللهِ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوى میں عباد اور فالق کا لفظ.۱۰.خبر کان - كَانَ اللهُ غَفُورًا میں غَفُورًا خبر كان منصوب ہے.ا.اِنَّ اللهَ غَفُورٌ.میں اللہ اسم ان منصوب ہوتا ہے.اسم مجرور دو جگہ ہوتا.اوّل تا و تا و کاف و لام و، وا و مُنْذُ و مُذْ خَلا.رُبّ.حاشا - مِن عَدا في عَنْ عَلى حَتَّى إلى کے بعد ، دوم اضافہ کے باعث جیسے اسم الله - غَيْرِ الْمَغْضُوبِ میں پہلے کو مضاف دوسرے کو مضاف الیہ مجرور کہتے ہیں کبھی ایک لفظ اعراب دوسرے لفظ کو دیا جاتا ہے.اوّل کو متبوع اور دوسرے کو تابع کہتے ہیں اور وہ چار ہیں.ا عَدُوٌّ عَاقِلْ خَيْرٌ مِنْ صَدِيقٍ جَاهِلٍ میں عاقل اور جاھل نعت وصفت اور عدو و صدیق کو موصوف کہتے ہیں.٢ -مَعْطوف - يَبْلُغُ الظَّالِبُ قُرْبَ اللهِ وَرِضْوَانَهُ بِالْإِخْلَاصِ وَاتْبَاعِ الرُّسُلِ حروف عطف.وف أو ثُمَّ لَا لَكِن بَلْ ہیں.توکید.جیسے نَفْسُهُ عَيْنُهُ كُلُّهُ جَميعُهُ.جَاءَ الْأَمِيرُ نَفْسُهُ أَوْ عَيْنُه - سَارَ الْجَيْشُ كُلُّهُ أَوْ جَمِيعُهُ - ۴- بدل - جَدَّ دَ الإِمَامُ الدِّينَ اَكْثَرَهُ وَيُتِمُّ اللهُ بَقِيَّتَهُ خِتَامَهُ