Language: UR
بسم الله الرحمن الرحيم 365 دن (حصہ سوم)
نام کتاب: 365 دن (حصہ سوم) ایڈیشن: اول سن اشاعت: اکتوبر 2012ء
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين تعارف سیدی حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ایک خادم نے خط لکھا تھا کہ ایسی جماعتوں کے لئے جہاں قرآن شریف، حدیث اور روحانی خزائن کا درس ہوتا ہے.ریسرچ سیل کی طرف سے سادہ زبان میں ترجمہ و تفسیر ، احادیث اور روحانی خزائن کے درس تیار کر دیئے جائیں اور جو جماعتیں پسند کریں وہ اس میں سے پڑھ کر درس دے سکتے ہیں.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور ان درسوں کی تحریر پر شفقت اور حوصلہ افزائی بھی فرمائی.اس لئے حضور ایدہ اللہ کی اجازت سے یہ 3 ماہ کے لئے درس شائع کئے جار ہے ہیں.قرآن مجید کے درس فی مہینہ 26 کی تعداد میں ہیں کیونکہ جمعہ کے روز بالعموم درس نہیں دیا جاتا اور احادیث اور روحانی خزائن کے درس 13،13 کی تعداد میں ہیں کیونکہ وہ ہفتہ میں 3، 3 دن پیش کئے جاتے ہیں.اس سے قبل اس کے دو حصے شائع کئے جاچکے ہیں اب اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے اس کا تیسر ا حصہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے.جو احباب جماعت ان دروس سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ بخوشی ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں احباب سے درخواست دعا بھی ہے.
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين 365 دن حصہ سوم دروس درس القرآن (نمبر 155-231) درس حدیث (نمبر 79-117) درس روحانی خزائن (نمبر 79-117) صفحہ نمبر 94-1 138-95 196-139
درس القرآن بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين درس القرآن نمبر 155 يَسْتَلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا انْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتْلَى (البقرة:216) وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ سورۃ البقرۃ کا جو حصہ ہم پڑھ رہے ہیں اس میں حضرت مصلح موعودؓ کے القاء کے مطابق شریعت کے احکامات اور ان کی حکمتوں کا بیان ہے (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ میں پہلے تلاوت آیات کا مضمون ہے پھر احکام شریعت اور ان کی حکمتوں کا اور پھر تزکیہ نفس کا) موجودہ حصہ میں جو احکام شریعت اور ان کی حکمتوں کے بیان پر مشتمل ہے کے دو حصے ہیں.ایک جن میں عبادات اور حقوق اللہ پر زور ہے اور ایک میں حقوق انسانی پر زور ہے.یہ حصہ آج کی آیت سے شروع ہے.فرماتا ہے کہ وہ تجھ سے سوال کرتے ہیں اور کریں گے کہ وہ کیا خرچ کریں مَاذَا يُنْفِقُونَ کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول اس طرح فرماتے ہیں کہ :.کہاں دیں، کتنا خرچ کریں، دونوں معنی ہیں.“ حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 351 مطبوعہ ربوہ) حقوق العباد میں یہ مسئلہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ کیا خرچ کیا جائے، کتنا خرچ کیا وو جائے، اور کس پر خرچ کیا جائے ؟ اس کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.چونکہ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ پہلے لوگوں پر بھی مالی اور جانی مشکلات آئی تھیں اور وہی ان کی قومی ترقی کا باعث ہوئیں جیسا کہ مَشَتْهُمُ الْبَاسَاءُ والضراء کے الفاظ سے ظاہر ہے.اس لئے جب صحابہ نے یہ بات سنی تو ان کے دل بھی ان قربانیوں کے لئے بے تاب ہو گئے اور انہوں نے بے اختیار ہو کر روحانی ترقیات کے حصول کیلئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر قومی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہم کیا خرچ کریں تا کہ ہمارا قدم بھی عشق کے میدان میں کسی دوسرے سے
درس القرآن 2 پیچھے نہ رہے.دوسرا سوال جانی قربانیوں کے متعلق ہو سکتا تھا.سو اس کا جواب كُتِبَ عَلَيْكُم القتال میں دیا گیا ہے جس سے قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پر روشنی پڑتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 470 مطبوعه ربوہ) اس سوال کے جواب میں کہ ہم کیا خرچ کریں فرماتا ہے مَا أَنْفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ وہ مال اچھا ہونا چاہیئے کسی طرح کی ظاہری باطنی آلائش اس میں نہیں ہونی چاہیئے اور اس سوال کے جواب میں کہ وہ مال کہاں خرچ کیا جائے؟ فرماتا ہے فَلِلْوالِدینِ ماں باپ پر خرچ کرو جو تمام حقوق العباد میں سب سے پہلے نمبر پر ہیں والاقربین اور رشتہ دار بی بی، بیٹے بیٹیاں، بھائی بہن وغیرہ قریبی رشتہ داروں پر والیتی وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ اور یتیموں پر ، مسکینوں پر ، مسافروں پر ، مہمانوں پر، اور یاد رکھو کہ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ کہ تم جو بھی بھلائی کرو خد اتعالیٰ کو اس کا علم ہے.
درس القرآن 3 س القرآن نمبر 156 كتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهُ تَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى اَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَ هُوَ شَرٌّ تَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 9191 (البقرة:217) حقوق انسانی کی ادائیگی کے سلسلہ میں ایک بہت بڑا مسئلہ دشمن سے لڑائی کا ہے.ایک طرف قرآن مجید انسانی ہمدردی کا حکم دیتا ہے.دوسری طرف لڑائی فرض کرتا ہے ، فرماتا ہے كتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ کہ لڑائی تم پر لکھ دی گئی ہے.مگر وضاحت فرمائی ہے کہ یہ تمہارے کسی جارحانہ عزائم ، کسی لوٹ مار کی خواہش کے نتیجہ میں نہیں وَهُوَ كُزَةٌ تَكُمْ تمہاری صلح پسند طبیعت اور تمہاری نرم دلی کی وجہ سے تمہیں لڑائی نا پسند ہے.مگر فرماتا ہے کسی چیز کی اچھائی برائی کا فیصلہ تمہاری پسند نا پسند پر نہیں، اس کی ذاتی فوائد وبرکات پر ہے وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا ہو سکتا ہے کہ تم ایک بات کو ناپسند کرو وَ هُوَ خَیرُ لکھ لیکن اپنے فوائد و برکات اور اخلاقی معیاروں کے لحاظ سے وہ تمہارے لئے مفید اور بابرکت ہو اور وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَ هُوَ شَرٌّ لکم اور بعید نہیں کہ تم ایک ایک چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ حقیقتا تمہارے لئے مضر ہو، ان باتوں کا تعلق تو علم غیب سے ہے وَاللهُ يَعْلَم اور اللہ علم رکھتا ہے وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اور تم علم نہیں رکھتے.مسلمانوں کی اس ضلع کن طبیعت اور امن سے پیار کرنے پر ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا، فرماتا ہے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيهِ قُلْ قِتَالُ فِيْهِ كَبِيرُ کہ صحابہ کی امن اور صلح کے ساتھ پیار کو دیکھ کر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل فرماتے ہیں:.شریر لوگوں نے جب دیکھا کہ یہ تو صبر کرتے ہیں اس لئے انہوں نے شہر حرم میں بھی ان کو چھیڑ نا شروع کیا.اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ ہمیں شہر حرم میں لڑائی کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے.“ ( حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 354 مطبوعہ ربوہ) لیکن ساتھ ہی قرآن شریف نے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ تم اگر مجبوراً شہر حرام میں جنگ کرو تو جو جرم تمہارے مخالفین کر رہے ہیں وہ تو اس سے بہت بڑا ہے.وہ کیا ہے صَةٌ عَن سَبیلِ اللہ خدا کے راستہ سے رو کناؤ کفر ہے اور خدا کا انکار کرنا وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اور عزت والی ـهر بہ مسجد کا انکار کرنا وَ اخْرَاجُ اَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللهِ اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکال دینا اللہ کے نزدیک بہت ہی بڑا جرم ہے.(البقرة : 218) بقیه آیت کا ترجمہ آئندہ انشاء الله)
درس القرآن درس القرآن نمبر 157 کل اور پرسوں کے درس میں یہ ذکر چل رہا تھا کہ حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے بعض صورتوں میں جنگ کرنا مضر نہیں بلکہ فائدہ مند ہے اور اگر مخالفین حرمت والے مہینہ اور مسجد حرام سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تم پر جارحانہ حملہ آور ہوں تو تمہیں جوابی کاروائی کی اجازت ہے کیونکہ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ کیونکہ محض ایک آدھ قتل سے ایسا فتنہ فساد جو قتل کے سلسلہ پر منتج ہوتا ہے بڑا جرم ہے اور یہ بھی وضاحت فرماتا ہے کہ جارحیت و جنگ کا آغاز تو تمہاری طرف سے نہیں ہے، فرماتا ہے وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ کہ یہ لوگ تو تم سے لڑتے چلے جائیں گے (کہاں ہیں وہ عیسائی مناد جو اسلام پر جارحانہ حملے کا الزام لگاتے ہیں) حَتَّی يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوا اگر ان کو طاقت ہو کہ تمہیں مرتد کر دیں.وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتُ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة:218) کہ تم میں سے جو بھی اپنے دین سے مرتد ہو جائے اور پھر کفر کی حالت میں اس پر موت آجائے تو وہ یادرکھے کہ ایسے لوگوں کے اعمال اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اکارت جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہیں اور وہ اس میں دیر تک رہیں گے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.فرماتا ہے کہ کفار تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ اگر ان کو طاقت ہو تو تم کو اپنے دین سے مر تذکر دیں.یعنی گو تمہارا مر تذکر دینا ان کی طاقت سے باہر ہے مگر کفار کی غرض تم سے لڑنے کی یہی ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں مرتد کر دیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار اپنے بد ارادوں میں تو خد اتعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے اور مسلمانوں پر فتح نہ پاسکے مگر اگاؤ گا آدمی جوان کے قبضہ میں آگیا انہوں نے اپنی طرف سے اس کو مرتد کرنے کی پوری پوری کوشش کی.چنانچہ بلال.ابو جندل اور یا سر کی مثالیں اس امر پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتی ہیں.انہی جبر امر تذکرنے کی کوششوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دکھ میں ڈالنا بہت زیادہ خطر ناک گناہ ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 476 مطبوعہ ربوہ) یعنی: اذیت کے باوجود یہ ایمان پر قائم رہے.
درس القرآن 5 درس القرآن نمبر 158 اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللهُ غَفْو محدو غفور رحيم (البقرة:219) بندوں کے حقوق کے سلسلہ میں اس سوال کو حل کیا گیا تھا کہ اگر اسلام بندوں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرماتا ہے اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو اللہ کے حقوق کی ادائیگی کی طرح ضروری سمجھتا ہے تو پھر قتال کی کیوں اجازت دیتا ہے.گزشتہ دو آیات میں وضاحت کردی کہ مسلمانوں کو قتال کی اجازت اس بناء پر ہے کہ دشمن جارحانہ حملوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اسلام سے مرتد کرنے کی پوری کوشش میں ہے.مسلمانوں کی جنگ صرف دفاعی ہے اس آیت میں فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی (یعنی خدا کے لئے وطن بھی چھوڑا اور کسی نفسانی غرض کے سے کسی غنیمت کی خاطر جنگ نہیں کرتے) بلکہ ایمان لانے کی وجہ سے ان پر جنگ ٹھونسی جاتی ہے اور وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر چلے بھی گئے پھر بھی دشمن ان کا تعاقب کرتا ہے وَجْهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اور ان کا جہاد خدا کی راہ میں ہے، مال و اسباب کے لئے نہیں، ملک فتح کرنے کے لئے نہیں، اوليك يَرْجُونَ رَحْمَتَ الله وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں واللهُ غَفُورٌ رَّحِیم اور اللہ بہت بخشنے والا، بار بار رحم کرنے والا ہے.حقوق انسانی کے سلسلہ میں تعلیم کے بارہ میں اوپر کی وضاحت کے بعد کہ جنگ کا استعمال ہر حالت میں حقوق انسانی کی ادائیگی کے خلاف نہیں.بے شک جنگ حقوق انسانی کی ادائیگی میں روک بنتی ہے مگر دفاعی جنگ حقوق انسانی کے قائم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اس ضمن میں پھر یہ سوال پیدا ہو تا تھا کہ اگر دفاعی جنگ جائز ہے مجبوری کی وجہ سے تو دو چیز میں جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں یعنی شراب اور جوا کیا وہ بھی جائز ہیں یا نہیں، فرماتا ہے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا الهُ كَبِيرُ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ کہ پھر وہ لازماً شراب اور میسر کے بارہ میں پوچھیں گے تم جواب دو کہ ان دونوں چیزوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ
درس القرآن 6 فائدے بھی ہیں وَاثْبُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما مگر ان کا گناہ ان کے نفع اور فائدہ سے زیادہ ہے.شراب کا جنگ سے تعلق تو واضح ہی ہے.میسر ایسے مال کو کہتے ہیں کہ جو محنت اور کمائی کے صحیح طریق کو چھوڑ کر چانس کی کھیل پر مبنی ہوتا ہے، فرماتا ہے یہ دونوں چیزیں نفع کے مقابل زیادہ باعث گناہ ہیں اسی لئے منع ہیں تو لازماً سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگوں کے لئے جس مالی نظام کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئے گا يَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ وہ پوچھیں گے کہ یہ اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے ، فرماتا ہے قُلِ الْعَفْوَ جواب دو کہ حقیقی ضروریات سے جو مال بچتا ہو وہ ان کاموں پر استعمال ہونا چاہیئے، فرماتا ہے كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْأَيْتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ دیکھ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات خوب کھول کر تمہارے سامنے بیان کر دیئے ہیں تا کہ تم دنیا و آخرت کے بارہ میں غور و فکر سے کام لو.
درس القرآن 7 س القرآن نمبر 159 وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتَى قُلْ إِصْلَاحَ لَهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَاعْنَتَكُمْ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ (البقرة:221) جنگ کی اجازت اور دشمن کے جارحانہ حملہ کے دفاع کی فرضیت کے سلسلہ میں ایک اور سوال یہ اٹھتا تھا کہ یتامی کا مسئلہ پیدا ہو گا يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتى وہ آپ سے یتامی کے متعلق پوچھیں گے ، فرماتا ہے قُلْ إِصْلَاح لَّهُمْ خَیر کہو ان کی اصلاح اور ترقی کو مد نظر رکھنا بڑا اچھا کام ہے، مراد یہ ہے کہ یتامی کے نقطہ نظر کے فائدہ کے مد نظر بھی یہ بہترین کام ہے بلکہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے بھی یہ ضروری ہے کیونکہ قربانی کرنے والوں کو جو جان دیتے ہیں یہ تسلی رہے گی کہ ان کی جانی قربانی کی صورت میں ان کی یتیم اولاد بے سہارا نہیں رہے گی.ย حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں:.رسول کریم ملی ای ظلم کے زمانے کا واقعہ ہے ایک بچہ یتیم رہ گیا.تو بعض صحابہ میں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی ایک کہتا میں اس کی پرورش کروں گا.دوسرا کہتا میں اس کی پرورش کروں گا.آخر رسول کریم صلی علی کلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ بچہ سامنے کرو.اور وہ جس کو پسند کرے اس کے سپر د کر دو.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 497 مطبوعہ ربوہ) پھر فرماتا ہے وَ اِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ کہ اگر تم ان کو اپنے ساتھ ملالو اپنے کنبہ کا اپنے معاشرہ کا اپنے ماحول کا حصہ بنا کر رکھو تو یاد رکھو کہ وہ تمہارے بھائی ہیں جس طرح باپ کی غیر موجودگی میں بڑے بھائی کا مشفقانہ طرز عمل چھوٹے بھائیوں سے ہوتا ہے وہ تمہیں اختیار کرنا چاہیئے.وَاللهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ مگر یہ یاد رکھو کہ اللہ فساد کرنے والوں کو اصلاح کرنے والے کے مقابلہ میں خوب جانتا ہے.وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَاعْنَتَكُم دوسروں کی مصیبت میں ان کی ہمدردی کرو.اگر اللہ چاہتا تو تمہیں بھی تو مشقت میں ڈال دیتا إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ الله یقیناً غالب اور حکمت والا ہے.اس لئے اگر یتیم اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنا حق نہیں لے سکتا.تو یاد رکھو کہ اللہ کمزور نہیں اگر یتیم اپنی ناعمری کی وجہ سے مسائل کو نہیں سمجھتا تو اللہ تعالیٰ تو حکیم ہے، یتیم کی کفالت کے وقت اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو مد نظر رکھو.
درس القرآن 8 درس القرآن نمبر 160 وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِ كتِ حَتَّى يُؤْمِنَ وَلَامَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُّشْرِكَةٍ وَ لَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواَوَ لَعَبْدُ مُؤْمِـ مِنُوا وَ لَعَبْدُ مُؤْمِنْ خَيْرٌ مِنْ مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَبِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (البقرة : 222) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں حقوق انسانی کا بیان ہے اور حقوق انسانی میں عائلی تعلقات بہت ہی اہم مقام رکھتے ہیں اس لئے پوری تفصیل کے ساتھ یہ مضمون اب یہاں شروع ہوتا ہے.اس ضمن میں پہلی بات یہ مد نظر رکھنی چاہیے کہ عائلی تعلقات کے قیام کے لئے یہ پہلی آیت ہے مگر یہ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَتِ حَتَّى يُؤْمِنَ سے شروع ہوتی ہے یعنی مشرکہ عورتوں سے شادی نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں.بظاہر نظر یہ نکاح و شادی کے مسائل کے بیان میں Abrupt بیان معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتا اس میں بڑی حکمت ہے عائلی تعلقات کے قیام اور ان کی حفاظت اور ان کے بارہ میں احتیاط کے سارے قرآن مجید میں بیان کے باوجود اس پہلی آیت میں نکاح کرنے کا حکم نہیں تا کہ بعض مذاہب کے بگاڑ کی طرح یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ایک Sacrament (سیکر امنٹ) ہے جس کا قطع کرنا انسان کے لئے جائز نہیں.نکاح کے تقدس اور احترام اور اس کو توڑنے کی حد درجہ ناپسندیدگی کے باوجود قرآن مجید کی رو سے نکاح ایک Civil Contract جو بامر مجبوری منقطع بھی ہو سکتا ہے.دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ نکاح میں پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا بنیادی محرک ایمان ہونا چاہیے نہ کہ سوشل Status فرماتا ہے وَلَامَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ لَه ایمان رکھنے والی غیر آزاد عورت مشرکہ عورت سے بہت بہتر ہے خواہ خاندانی لحاظ سے، شکل و صورت کے لحاظ سے، تعلیم کے لحاظ سے مال کے لحاظ سے تمہیں مشرکہ عورت کتنی بھی اچھی لگے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس حکم کے ایک پہلو کی تشریح میں فرماتے ہیں:.” یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شرعی اصطلاح میں مشرک سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جن کی کوئی شریعت نہ ہو.اہل کتاب اس حکم میں شامل نہیں ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 500 مطبوعہ ربوہ) ( اس آیت کا مضمون جاری ہے)
درس القرآن 9 س القرآن نمبر 161 وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أولبِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللهُ يَدْعُوا إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ أَيْتِهِ لِلنَّاسِ (البقرة : 222) لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ فرماتا ہے مشرکوں سے جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں (مسلمان عورتوں کی) شادی نہ کرو.یہاں اشارہ عورت کے لئے ولی کا ذکر کیا گیا ہے مگر چونکہ اس مسئلہ میں اتنا تنوع ہے اور مختلف علاقوں اور مختلف حالات اور مختلف تمدن رکھنے والوں میں بے شمار الجھنیں ہو سکتی ہیں اس لئے ولی کی شرط عورت کے نکاح کے لئے قطعی الفاظ میں بیان نہیں کی گئی جیسا کہ معروف الفاظ لا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِي میں بیان ہے.چوتھی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ جس طرح مردوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نکاح کے معاملہ میں دین داری کو مقدم کریں اسی طرح عورتیں اور ان کے ولی وغیرہ بھی اس بات کو مد نظر رکھیں، فرماتا ہے وَ لَعَبْدُ مُّؤْمِنْ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَ لَوْ أَعْجَبَكُمْ که مومن غلام شرک سے بہتر ہے خواہ تم اس کو پسند کرو.ان باتوں کے بیان کے بعد ان ہدایات کی حکمت بیان کرتا ہے کیونکہ یہ حصہ الکتاب وَالْحِكْمَة کی تعلیم پر مشتمل ہے، فرماتا ہے أُولبِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ کہ یہ لوگ جن سے شادی منع کی گئی ہے آگ کی طرف بلاتے ہیں وَاللهُ يَدْعُوا إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ مَگر اللہ تعالیٰ جنت کی طرف، مغفرت کی طرف اپنے خاص حکم سے دعوت دیتا ہے اور اس غرض کے لئے وَيُبَيِّنُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو خوب کھول کر بیان کرتا ہے کوئی اجمال و اشکال ان میں نہیں ہو تا تا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں.
درس القرآن 10 س القرآن نمبر 162 وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة:223) بندوں کے حقوق کے مضمون کے سلسلہ میں عائلی حقوق کا مضمون جاری ہے، فرماتا ہے وہ تجھ سے حیض کی حالت کے بارہ میں سوال کرتے ہیں تم کہدو کہ یہ ایک تکلیف کی حالت ہے پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو اور ان سے ازدواجی تعلقات قائم نہ کرو یہاں تک کہ وہ پاک صاف ہو جائیں پھر جب وہ پاک صاف ہو جائیں تو ان کے پاس اسی طریق سے جاؤ جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے.یقینا اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے بھی محبت کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جاؤ یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہو لیں.اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہو گی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو.“ ( آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 49) اس آیت میں اس ٹکڑے فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللهُ كه : تمہاری عورتیں پاک صاف ہو جائیں تو ان سے اللہ کے حکم کے مطابق ازدواجی تعلقات قائم کر سکتے ہو ، اس کی تشریح میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.”اس سے بھی معلوم ہو گیا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم دیا ہوا ہے اور وہ یہی ہے جو فَالُنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ میں بیان کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اولاد حاصل کرنے کا جو طبعی طریق مقرر کر رکھا ہے اس کے مطابق عمل کرو.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 502 مطبوعه ربوہ)
درس القرآن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ کی تشریح میں بیان فرماتے ہیں:.یعنی خدا تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور اُن کو بھی دوست رکھتا ہے جو جسمانی طہارت کے پابند رہتے ہیں.سو توابین کے لفظ سے خدا تعالیٰ نے باطنی طہارت اور پاکیزگی کی طرف توجہ دلائی اور متطھرین کے لفظ سے ظاہری طہارت اور پاکیزگی کی ترغیب دی.“ ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 336)
درس القرآن 12 س القرآن نمبر 163 نِسَاؤُكُمْ حَرْثَ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ عَلَى شِشْتُهُ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلْقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (البقرة:224) کہ تمہاری بیویاں تمہاری ایک قسم کی کھیتی ہیں اس لئے تم جس طرح مناسب سمجھو اپنی کھیتی کے پاس آؤ اور اپنے لئے کچھ آگے بھیجو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ تم اس کے روبرو ہونے والے ہو اور تو مومنوں کو اس بارہ میں خوشخبری دے دے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس فقرہ سے کہ ”عور تیں تمہاری ایک قسم کی کھیتی ہیں“ بعض مضامین تفسیر کبیر میں بیان فرمائے ہیں جن کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:.اس آیت میں عورت کو کھیتی قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم اپنی کھیتی کو پھل دار بنانے کی کوشش کرو اس کی طرف رسول کریم صلی ال یکم کی یہ حدیث بھی اشارہ فرماتی ہے کہ تم ایسی عورتوں سے شادی کیا کرو جو زیادہ اولاد پیدا کرنے والی اور اپنے خاوندوں کے ساتھ محبت کرنے والی ہوں.عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ نہ ان کی طاقت سے ضائع ہو نہ تمہاری.اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے.پس ہر کام ایک حد کے اندر کرو جس طرح عقل مند انسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے.اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ بعض حالات میں برتھ کنٹرول بھی جائز ہے.یہ بھی بتایا کہ عورت سے ایسا تعلق رکھو جس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو.اس سے خلاف وضع ، خلاف فطرت فعل کی ممانعت نکل آئی.وَقَد مُوا لانفسکم میں بتایا کہ تم وہ کام کرو جس کا آئندہ نتیجہ تمہارے لئے اچھا نکلے یعنی طبعی لحاظ سے بھی اور نسلی لحاظ سے بھی.وَاتَّقُوا الله اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو وَاعْلَمُوا أَنَّكُم قُلقُوہ اور جان لو کہ تم بھی اس کے روبرو ہونے والے ہو وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اور اللہ خوب سننے والا ، بہت جاننے والا ہے.
درس القرآن 13 درس القرآن نمبر 164 وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرُضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ 609 سميع عليم (البقرة:225) بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے مضمون کا وہ حصہ جو عائلی تعلقات پر مشتمل ہے چل رہا ہے اور قرآن شریف میں عائلی تعلقات کو سدھارنے اور عائلی حقوق کی صحیح صحیح ادائیگی پر غیر معمولی زور ہے اور ظاہر ہے کہ انسانی زندگی میں خاندانی تعلقات کی جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں.آج کی مشرقی دنیا نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی خاکسار کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بہت سے فساد اور تلخیاں عائلی مسائل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.اس لئے قرآن شریف نے اس بات پر خاص توجہ دلائی ہے.عائلی تعلقات میں رخنہ کی ایک اہم وجہ یہاں دو آیات میں بیان کی گئی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کے نام کا غلط استعمال.خدا تعالیٰ کے نام کی قسم کھا کر جو ارادہ کیا جائے جو فیصلہ کیا جائے اس کا احترام کرنا اور اس کے تقدس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے مگر خدا تعالیٰ کے نام کے احترام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے اور خدا تعالیٰ کا نام حسن سلوک اور انصاف اور اصلاح کے رستہ میں حائل نہ بنالیا جائے اور عائلی تعلقات میں یہ بات رخنہ کا باعث بن سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.قرآن شریف کی رو سے لغویا جھوٹی قسمیں کھانا منع ہے کیونکہ وہ خدا سے ٹھٹھا ہے اور گستاخی ہے اور ایسی قسمیں کھانا بھی منع ہے جو نیک کاموں سے محروم کرتی ہوں.“ (الحکم جلد 8 نمبر 22 مؤرخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 7 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 707) اس آیت میں فرمایا وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرُضَةً لِاَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بيْنَ النَّاسِ کہ تم نیک سلوک کرنے اور تقویٰ کرنے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کے معاملات میں اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ وَ اللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.وَ اللهُ سَمِیعٌ عَلِیم میں بتایا کہ اگر تمہیں نیکی اور تقویٰ اور اصلاح بَيْن النَّاسِ
درس القرآن 14 کے کام میں مشکلات پیش آئیں تو خدا تعالیٰ سے ان کا دفعیہ چاہو اور ہمیشہ دُعاؤں سے کام لیتے رہو.کیونکہ یہ کام دُعاؤں کے بغیر سرانجام نہیں پاسکتے.اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے.اگر تم اُس کی طرف جھکو گے تو وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم عطا فرمائے گا اور نیکی اور تقویٰ کے بارہ میں تمہارا قدم صرف پہلی سیڑھی پر نہیں رہے گا بلکہ علم لدنی سے بھی تمہیں حصہ دیا جائے گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 507 مطبوعه ربوہ)
درس القرآن القرآن نمبر 165 15 لا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِى اَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (البقرة : 226) فرماتا ہے، اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہارا مؤاخذہ نہیں کرے گا لیکن اس پر تمہارا مؤاخذہ کرے گا جو تمہارے دل گناہ کماتے ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور بردبار ہے.جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے عائلی تعلقات میں جو لوگ وقتی اشتعال میں قسمیں کھاتے ہیں، جو نیکی اور تقویٰ اور معاشرتی اصلاح کے کاموں میں حائل ہوں ان سے منع کیا گیا ہے.اس آیت میں اس بارہ میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر گرفت نہیں کرے گا.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:.”فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ لغو قسموں پر تم سے کوئی مؤاخذہ نہیں کرے گا.اسجگہ لغو قسموں سے تین قسم کی قسمیں مراد ہیں.اول عادت کے طور پر قسمیں کھانا.یعنی ہر وقت والله ، بالله ، ثُمَّ تَاللہ کہتے رہنا.دوم ایسی قسم جس کا کھانے والا یقین رکھتا ہو کہ وہ درست ہے لیکن اس کا یقین غلط ہو سوم ایسی قسم جو شدید غصہ کے وقت کھائی جائے.جب ہوش و حواس ٹھکانے نہ ہوں یا حرام شے کے استعمال یا فرض و واجب عمل کے ترک کے متعلق کسی وقتی جوش کے ماتحت قسمیں کھا لینا.یہ سب قسمیں لغو ہیں اور ان کے توڑنے پر کوئی کفارہ نہیں.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ چونکہ مؤاخذہ نہیں ہو گا اس لئے اب کسی احتیاط کی بھی ضرورت نہیں بیشک رات دن لغو قسمیں کھاتے رہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے متعلق یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون :4) ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 507 مطبوعہ ربوہ) پھر حضرت مصلح موعود يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُم کی تشریح میں فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ تم کو صرف ان خیالات پر پکڑے گا جو ارادہ اور فکر کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں نہ ان پر جو اچانک پید ا ہو جاتے ہیں.اور تم ان کو فوراً اپنے دل سے نکال دیتے ہو.واللهُ غَفُورٌ
درس القرآن 16 حَلِیم میں غفور کے لفظ سے بتا دیا کہ اگر تم ایسی قسموں سے اجتناب کرو گے اور توبہ کرو گے تو ہم تمہیں بخش دیں گے اور حلیم کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ ہم نے لغو قسموں پر اس لئے گرفت نہیں کی کہ اگر ہم ان قسموں پر گرفت کرناشروع کر دیں تو تمہارا بچنا مشکل ہو جائے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 508،509 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 17 رس القرآن نمبر 166 لِلَّذِينَ يُؤْتُونَ مِنْ نِّسَابِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَ إِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة:227،228) جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں احکامات اور ان کی حکمتوں کا ذکر ہے اور اس حصہ کے زیر تفسیر حصہ میں عائلی احکامات اور ان کی حکمتوں کا ذکر ہے اور اس سلسلہ میں گزشتہ دو آیات میں تمہید کے طور پر یہ بنیادی مضمون بیان تھا کہ خدا کا نام لے کر قسم کھانے کے ذریعہ عائلی تعلقات میں رخنہ پیدا کرنا لغو کام ہے.آج کی آیت میں اس کی واضح مثال موجود ہے کہ لِلَّذِينَ يُؤْتُونَ مِنْ نِّسَا بِهِمْ جو لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہونے کے لئے قسم کھالیتے ہیں تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ان کے لئے صرف چار مہینہ تک انتظار کرنا جائز ہے فان فاء وا پھر اگر وہ اس عرصہ میں صلح کے خیال کی طرف لوٹ آئیں فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ تو اللہ یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس انتظار کے وقت میں اگر خاوند کی غلطی ہے تو اس کی غلطی کی اصلاح کے سامان بھی ہو سکتے ہیں اور اگر بیوی کی غلطی کی وجہ سے خاوند اس سے علیحدگی کی قسم کھا رہا ہے تو بیوی کی اصلاح کا سامان بھی اس عرصہ میں ہو سکتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو معلقہ چھوڑنے کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے.مرد زیادہ سے زیادہ مدت نکاح میں چار ماہ تک کے لئے عورت سے علیحدہ رہنے کا عہد کر سکتا ہے.اگر کوئی شخص تھوڑی تھوڑی مدت کے لئے ایلاء کرے مثلاً دس دن کیلئے ایلاء کیا اور پھر رجوع کر لیا.پھر دس دن کے لئے نیا ایلاء کیا اور پھر رجوع کر لیا.تب بھی اس کے لئے مجموعی طور پر چار ماہ کی ہی مدت مقر ر ہے.اگر وہ چار ماہ کے بعد ایلاء کریگا.تو وہ ایلاء نا جائز ہو گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 509،510 مطبوعہ ربوہ) فرماتا ہے وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِیم اس آیت کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں سو یا د رکھیں کہ خد ا سننے والا اور جاننے والا ہے یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بد دعا کرے تو خدا اس کی بد دعا سن لے گا.“ (آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 52)
درس القرآن 18 س القرآن نمبر 167 وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ في أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَ يُؤْمِنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَيْهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إصْلَاحًا وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة: 229) فرماتا ہے ، وَالْمُطَلَقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ اور وہ عورتیں جن کو طلاق دی جائے تین حیض کی مدت تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ووَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ في أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَ يُؤْمِنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کر دی ہے وَبُعُولَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدْهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا اور اس صورت میں ان کے خاوند زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں.60 وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مر دوں کا ان پر ہے وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَہ اور مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ اور اللہ کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے.اس آیت میں طلاق کے اہم مسئلہ پر جو نکات بیان کئے گئے ہیں وہ اسلامی تعلیم کی برتری کا ایک واضح بیان ہے.پہلی بات یہ ہے کہ اسلام نے طلاق کی اجازت تو دی ہے مگر اس کے بارہ میں کھلی چھٹی نہیں دی بلکہ بے ضرورت طلاق کو حد درجہ ناپسند فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.آریہ لوگ جب اُس اعتراض کے وقت جو نیوگ پر وارد ہو تا ہے بالکل لاجواب اور عاجز ہو جاتے ہیں تو پھر انصاف اور خدا ترسی کی قوت سے کام نہیں لیتے.بلکہ اسلام کے مقابل پر نہایت مکر وہ اور بے جا افتر اؤں پر آجاتے ہیں.چنانچہ بعض تو مسئلہ طلاق کو ہی پیش کرتے ہیں.حالا نکہ خوب جانتے ہیں کہ قدرتی طور پر ایسی آفات ہر یک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہور ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں.“ آریدہ دھرم روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 65) (باقی آئندہ درس میں )
درس القرآن القرآن نمبر 168 19 وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ في أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَ يُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ بُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَيْهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة: 229) دوسری بات جو اس آیت میں بتائی گئی ہے (پہلی بات کا ذکر گزشتہ درس میں ہو چکا ہے) یہ ہے کہ عورت طلاق کے معابعد کسی دوسرے شخص سے شادی نہ کرے بلکہ قریب تین ماہ انتظار کرے تا کہ اگر کسی وقتی مسئلہ کی وجہ سے طلاق ہوئی ہے تو رجوع ہو سکے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.عدت کی حکمت بالکل واضح ہے.اس عرصہ میں خاوند کو سوچنے اور غور کرنے کا کافی وقت مل جاتا ہے.اور اگر اس کے دل میں اپنی بیوی کی کچھ بھی محبت ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 511 مطبوعہ ربوہ) تیسری بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے یہ ہے وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللهُ فِي أَرْحَامِهِنَ إِنْ كُنَ يُؤْمِنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ حاملہ ہو تو مرد کو بتادے.کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی وجہ سے پھر محبت قائم ہو جاتی ہے اور میاں بیوی میں صلح کی صورت پید اہو جاتی ہے.“ تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 511 مطبوعہ ربوہ) چوتھی بات میں یہ اشارہ ہے کہ بعض دفعہ طلاق کا باعث اولاد نہ ہونا ہوتا ہے اس مذکورہ بالا بیان میں اشارہ ہے کہ عورت مرد کو لازماً بتا دے کہ وہ حاملہ ہے تا کہ خاوند کے لئے یہ الجھن دور ہو جائے اور وہ نیک نیتی کے ساتھ رجوع کر سکیں.پانچویں بات یہ بتائی گئی ہے وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ حضرت مسیح موعود
درس القرآن 20 علیہ السلام فرماتے ہیں:.”عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی.مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ ( البقرة:229) کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 300 مطبوعہ ربوہ) چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً میں بتائی گئی ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةُ یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حق فوقیت حاصل ہے.،، ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 513 مطبوعہ ربوہ) ظاہر ہے کہ جب تک انتظامی طور پر کوئی ذمہ دار مقرر نہ ہو انتظام ٹھیک طرح نہیں چل سکتا.
درس القرآن 21 القرآن نمبر 169 الطَّلَاقُ مَرَّتن فَإِمْسَاكَ بِمَعْرُوفِ اَوْ تَسْرِيحَ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُ وَامِمَّا أتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَ اَلَا يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُ وَهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُ وَدَ اللَّهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (البقرة :230) نکاح، شادی اور طلاق ذمہ واری کے افعال ہیں اور بچوں کی، فریقین کی ، معاشرہ کی زندگی پر ان افعال کا گہرا اثر پڑتا ہے.اسلام نے طلاق کی اجازت بھی دی ہے مگر یہ راستہ بھی کھلا رکھا ہے کہ وقتی جذبات کے جوش میں اگر طلاق دی گئی ہے تو اس کا سد باب کیا جاسکے.اس لئے دودفعہ طلاق کے بعد پھر تیسری دفعہ رجوع کی ممانعت کر دی ہے، فرماتا ہے الطَّلَاقُ مَرَّتن که طلاق دو مرتبہ ہے فَامُسَاكَ بِمَعْرُوفِ اس کے بعد یا تو معروف طریق پر روک رکھنا ہے او تسریح بِاِحْسَان لیکن اگر اس کے بعد طلاق دے تو پھر نیک سلوک کے ساتھ رخصت کرنا ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد رجوع کی اجازت نہیں ہے.طلاق کا ایک اور گھٹیا محرک یہ ہو سکتا تھا کہ جو مال بیوی کو دیا ہوا ہے وہ واپس مل جائے گا اس بارہ میں فرما یا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا أَتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا کہ تمہارے لئے جائز نہیں ہو گا کہ جو مال تم نے ان کو دیا ہوا ہے کچھ بھی ان سے واپس لو.ہاں مگر اس کی ایک صورت و سکتی ہے اِلَّا اَنْ تَخَافَ اَلَا يُقِیمَا حُدُودَ اللهِ سوائے اس کے کہ وہ دونوں خائف ہوں کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَا يُقِيْمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ به پھر اگر تم خوف محسوس کرو یعنی نظام اسلامی کو یہ احساس ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں جو وہ عورت بطور فدیہ چھوڑ دے تِلْكَ حُدُودُ الله یہ اللہ کی حدود ہیں فَلَا تَعْتَدُوهَا پس ان سے تجاوز نہ کرو وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے پس یہی لوگ ہیں جو ظالم ہیں.ہو
درس القرآن 22 القرآن نمبر 170 فإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (البقرة:231) فرماتا ہے اگر وہ مرد اس عورت کو تیسری طلاق دے دے تو اس کے لئے اس کے بعد پھر اس مرد کے نکاح میں آنا جائز نہیں ہو گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی و طلاق جیسے اہم معاملہ کو کھیل بنالینا ہر گز درست نہیں.ہاں حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیرہ اگر وہ عورت کسی اور مرد سے شادی کرتی ہے فَانْ طَلَّقَهَا اور اگر وہ مرد بھی اس کو با قاعدہ طور پر طلاق دیتا ہے فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِما أَن يَتَرَاجَعَا پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں إن ظَنَّا أَن يُقِیمَا حُدُودَ اللهِ اگر وہ یہ گمان رکھتے ہوں کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم رکھ سکیں گے.مراد یہ ہے کہ امید کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے اس اتار چڑھاؤ سے کچھ سبق حاصل کیا ہو گا وتِلْكَ حُدُودُ اللهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اور یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں جنہیں وہ لوگوں کی خاطر کھول کھول کر بیان کر رہا ہے جو علم رکھتے ہیں.وَإِذَا طَلَقْتُمُ النِّسَاء اور جب تم عورتوں کو طلاق دو فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ اور وہ اپنی مقررہ مدت کی آخری حد کو پہنچ جائیں فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفِ تو انہیں مناسب طور پر روک لو آؤ سَرحُوهُنَّ بِمَعْرُوف یا انہیں مناسب طور پر رخصت کر دو وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ صِرَارًا لِتَعْتَدُوا اور انہیں تکلیف دینے کے لئے اس نیت سے مت رو کو کہ پھر ان پر زیادتی کرو وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفْسَہ اور جو شخص ایسا کرے تو سمجھو کہ اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا ہے وَلَا تَتَّخِذُوا آیت اللهِ هُزُوا اور تم اللہ کے احکام کو تمسخر نہ بناؤ وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ اور تم پر جو اللہ کا انعام ہوا ہے اسے یادرکھو ركهو وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِہ اور اسے بھی یادرکھو جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے.وَاتَّقُوا اللہ اور کا تقویٰ اختیار کرو وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اور جان لو کہ اللہ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے.(البقرة:232)
درس القرآن 23 اس کے بعد طلاق کے احکامات کے سلسلہ میں ایک اور نہایت اہم ہدایت کی طرف توجہ دلاتا ہے وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرنے لگیں فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْدِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ تو 121 تم انہیں جب کہ وہ نیک طریق پر باہم رضامند ہو جائیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کر لینے سے مت رو کو ذلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ یہ وہ بات ہے جس کی تم سے ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے، نصیحت کی جاتی ہے.ذلکم ازکی لَكُمْ وَأَطْهَرُ یہ بات تمہارے حق میں سب سے زیادہ برکت والی اور سب سے زیادہ پاکیزہ ہے وَاللهُ يَعْلَمُ وَ انْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.(البقرة:233)
درس القرآن القرآن نمبر 171 24 وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَارَ وَالِدَهُم بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ اَرَدُتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا أَتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرُ ( البقرة : 234) جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں بندوں کے باہمی حقوق کا بیان ہے اور بندوں کے حقوق میں سے ایک اہم ترین نظام حقوق عائلی حقوق ہیں.عائلی حقوق میں تفصیل کے ساتھ شادی بیاہ، طلاق کے بارہ میں ہدایات بیان کرنے کے بعد اس سے ایک متعلقہ مسئلہ کی وضاحت فرماتا ہے جو رضاعت کا مسئلہ ہے.اگر بچہ دودھ پی رہا ہو اور میاں بیوی میں طلاق واقعہ ہو جائے تو کیا صورت ہو گی.اس ضمن میں فرماتا ہے وَالْوَالِدتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أن يتم الرَّضَاعَةُ یعنی ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دو کامل برس تک دودھ پلائیں اگر وہ مذت رضاعت کو پورا کرنا چاہتی ہیں اور ان کی خوراک، پوشاک اس مرد کے ذمہ ہے جس کے وہ بچے ہیں.کھانے اور کپڑے سے مراد تمام اخراجات ہیں.لا تُكَلِّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی.گویا مرد اور عورت دونوں پر ان کی بساط کے مطابق بوجھ ڈالا جائے گا.لَا تُضَارَ وَالِدَم يولدهَا وَلا مَولود له پولداہ نہ کسی والدہ کو بچے کے نام دکھ دیا جائے گا اور نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے گا وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذلِكَ اور وارث پر بھی ایسا ہی کرنالازم ہے فَإِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا اور اگر وہ دونوں باہمی رضامندی اور آپس کے مشورہ کے ساتھ دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں وَ اِنْ اَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا أَتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ اور اگر تم اپنے بچوں کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ جو تم نے دینا کیا ہے وہ مناسب طور پر ادا کر دو وَ اتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اسے یقینا دیکھ رہا ہے.699
درس القرآن 25 درس القرآن نمبر 172 عائلی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ان عورتوں کا ہے جن کے خاوند فوت ہو جائیں ان کے بارہ میں فرماتا ہے وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ نکاح کرنے سے رکی رہیں.“ (البقرة:235) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور جو روئیں رہ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن (شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 336) اس آیت کا ترجمہ اس طرح ہے کہ تم سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں پس جب وہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جائیں تو پھر وہ عورتیں اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اس صورت میں ایک مسئلہ کھڑا ہوتا ہے جس کا جواب اس انگلی آیت میں دیا گیا ہے کہ ان چار مہینے دس دن میں بیوہ عورت کو یہ فکر ہو سکتی ہے کہ خاوند کی غیر موجودگی میں اس کے مالی مسائل کا کیا بنے گا.اس بارہ میں فرمانا کہ بے شک ان چار مہینے دس دن میں یہ اجازت تو نہیں کہ وہ نکاح کرے مگر اس کے مستقبل کے بارہ میں اس کو اشارہ تسلی دلائی جاسکتی ہے، فرماتا ہے وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان عورتوں سے نکاح کی تجویز کے متعلق کوئی اشارہ کر دیا اسے اپنے دلوں میں چھپائے رکھو.اللہ جانتا ہے کہ ضرور تمہیں ان کا خیال آئے گا لیکن ان سے خفیہ وعدے نہ کرنا سوائے اس کے کہ تم کوئی اچھی بات کہو اور نکاح باندھنے کا عزم نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی معیاد کو پہنچ جائے اور جان لو کہ اللہ اس کا علم رکھتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے پس اس کی پکڑ سے بچو اور جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا اور بردبار ہے.(البقرة:236)
درس القرآن 26 القرآن نمبر 173 لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَ مَنْعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِع قَدَرُه وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَد فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُم إِلَّا أَنْ يَعُفُونَ أَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحَ وَ اَنْ تَعُفُوا اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا 1199196 دو، عملون بصير (البقرة:238،237) پہلی آیت میں یہ مفہوم ہے کہ بعض دفعہ بعض حالات کے پید اہونے کی وجہ سے طلاق ازدواجی تعلقات سے پہلے بھی ہو سکتی ہے، فرماتا ہے لا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً کہ تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی ان کو نہ چھوا ہو یا تم نے ابھی ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو و مَتَّعُوهُنَّ اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ عَلَی الْمُوسِيع قدرة صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ اور غریب آدمی پر اس کی حیثیت کے مناسب حال.مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ یہ معروف 6916 کے مطابق کچھ متاع ہو حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِینَ اور احسان کرنے والوں پر تو یہ فرض ہے.وَإِن طَلَقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً اور اگر تم انہیں اس سے پیشتر طلاق دے دو کہ تم نے ان کو چھوا ہو جبکہ تم ان کا حق مہر مقرر کر چکے ہو تو پھر جو تم نے مقرر کیا ہے اس کا نصف ادا کرنا ہو گا سوائے اس کے کہ وہ عورتیں معاف کر دیں یا وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کا بندھن ہے وَ اَنْ تَعفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوی اور تمہارا عفو سے کام لینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُم اور آپس میں احسان کا سلوک بھول نہ جایا کرو ان الله بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر یقینا اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے.609
درس القرآن القرآن نمبر 174 27 حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلهِ قنِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَمَا عَلَيْكُمْ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرة: 239،240) قرآن مجید کی نصیحت اور مؤثر رنگ کے وعظ کے بھی خاص اند از ہیں جو پڑھنے والے پر گہرا اثر ڈالتے ہیں.گزشتہ مضمون عائلی مسائل کے بارہ میں چل رہا تھا اور بعد میں بھی چل رہا ہے مگر درمیان میں یہ دو آیات جاری مضمون سے بظاہر بالکل ہٹ کر نماز کی حفاظت کے بارہ میں ہیں اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عائلی اور معاشرتی معاملات اور جھگڑے بعض دفعہ اتنا طول پکڑ جاتے ہیں کہ خطرہ ہوتا ہے کہ نماز باشرائط میں تساہل واقعہ ہو جائے اس لئے عائلی مسائل کے حل کے ضمن میں جو آیات ہیں ان میں نماز کی محافظت کی پر زور ہدایت ہے دوسرے یہ پہلو بھی مد نظر رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ نماز اور دعا کی حفاظت کے ذریعہ عائلی مسائل اور مشکلات سے بچنے کی کوشش کرو اور اندرونی عائلی مسائل کا خوف ہو یا بیرونی دشمن کا خوف، نماز کی حفاظت ہونی چاہیئے.فرماتا ہے حفظوا عَلَى الصَّلَوتِ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو والصَّلوة الوسطى بالخصوص اس نماز کی جو کاموں اور مصروفیات کے درمیان میں آئے وَقُومُوا لِلَّهِ قَنِتِينَ اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ فان خِفْتُم اور اگر تمہیں کوئی خوف ہو هو فَرِجَالًا او رکبانا تو چلتے پھرتے یا سواری کی حالت میں ہی نماز پڑھ لو فَإِذَا اَمِنْتُم پھر جب تم امن میں آجاؤ فَاذْكُرُوا اللهَ كَمَا عَلَمَكُمْ تو پھر اس طریق پر اللہ کو یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ جو تم اس سے پہلے نہیں جانتے تھے.
درس القرآن 28 درس القرآن نمبر 175 عائلی مشکلات و مسائل کے بارہ میں سورۃ البقرۃ کا یہ مضمون اب دو بنیادی ہدایات پر پورا ہو رہا ہے دونوں کا منشاء یہ ہے کہ خاوند بیوی کی علیحدگی خواہ خاوند کی وفات کی وجہ سے ہوئی ہو یا طلاق کی وجہ سے ہوئی ہو باہمی تلخی اور بدمزگی پر منتج نہیں ہونی چاہیے بلکہ بیوہ اور مطلقہ کو مناسب طریق پر سہولت اور آرام پہنچانا چاہیئے.فرماتا ہے وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُم کہ تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں وَصِيَّةٌ لِازْوَاجِهِمُ ان کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے متاعا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اخراج کہ وہ ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي انْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس بارہ میں جو وہ خود اپنے متعلق کوئی معروف فیصلہ کریں واللہ عَزِيزٌ حَكِيم اور اللہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے.(البقرة : 242) (البقرة:241) وَلِلْمُطَلَّقَتِ مَتَاعُ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ اور مطلقہ عورتوں کو نیک دستور کے مطابق فائدہ پہنچانا ہے یہ متقیوں پر فرض ہے.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُم الله اس آیت کے ذریعہ سورۃ البقرۃ کے تیسرے مضمون يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اور اس مضمون کے اس حصہ پر جس کا تعلق بندوں کے حقوق خصوصاً عائلی حقوق سے ہے چوٹی پر پہنچا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوب کھول کر یہ آیات تمہارے لئے بیان کی ہیں لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ان میں کوئی نادانی کی بات نہیں، کوئی عقل و حکمت کے خلاف تعلیم نہیں، سراسر تمہارے لئے عقل و حکمت کا سبق ہے.(البقرۃ:243) ވ
درس القرآن 29 درس القرآن نمبر 176 جیسا کہ شروع میں ذکر ہو چکا ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک القاء کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں چار اہم بنیادی مضامین ہیں ایک تلاوت آیات، دوسرے کتاب، اور تیسرے کتاب کی حکمت ، اور چوتھا مضمون تزکیہ کا ہے.آج کی آیت سے تزکیہ کا مضمون خاص طور پر شروع ہے.گو یہ تقسیم عمومی رنگ کی ہے اور باقی مضامین میں بھی تزکیہ کا مضمون شامل ہے.تزکیہ میں ظاہری نشو و نما اور ترقی اور عددی کثرت کی طرف بھی اشارہ ہے مگر اس کا اصل مفہوم روحانی پاکیزگی اور صفائی ہے.فرماتا ہے، المْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ الُوْنَ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُو اتم احْيَاهُمْ إِنَّ اللهَ لَنْ وَفَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (البقرة:244) اس آیت میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے ان کی ظاہری نشو و نما اور ترقی بھی اور روحانی پاکیزگی اور صفائی بھی اس بات میں ہے کہ دشمن کے حملوں کے سامنے موت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ الْوُنَّ حَذَرَ المَوتِ کہ تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور وہ موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے.یہ بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو تفصیل سے شروع سورۃ میں ہو چکا ہے فقال لَهُمُ اللهُ مُوتُوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم موت کے ڈر سے نکلے ہو تو یاد رکھو کہ ایک موت قبول کرنا پڑے گی اور ثُمَّ اَحيَاهُمُ پھر اللہ نے انہیں زندہ کیا إِنَّ اللَّهَ لَنْ وُ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ دیکھو اللہ تعالیٰ سچی قربانی کو ضائع نہیں کرتا.کوئی قوم اور کوئی نسل ہو اللہ تعالیٰ کا فضل ساری انسانیت پر ہوتا ہے.وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ لیکن اکثر لوگ چونکہ خدا تعالیٰ کے اس فضل کی قدر نہیں کرتے اس لئے محرومی کا شکار ہوتے ہیں.ވ މ
درس القرآن درس القرآن نمبر 177 وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 30 (البقرة:245) گزشتہ آیت میں بیان فرمایا تھا کہ تم نے دیکھا نہیں کہ کچھ لوگ جو کئی ہزار تھے موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوتُوا ثُمَّ احْيَاهُم تو اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا موت کے ڈر سے ، موت سے بچنے کے لئے نکلے ہو تو اس کا ذریعہ ، اس کا علاج ہے مُوتُوا اسی تسلسل میں آج کی آیت میں فرماتا ہے ان کو حکم ہوا وَ قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ کہ خدا کی راہ میں جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ.تمہارا مقصد جنگ کوئی غنیمت کا حصول، کوئی شہرت کا سامان کرنا، کسی ملک کی فتح نہ ہو.اللہ تعالیٰ خوب سنتا اور خوب جانتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.”فرماتا ہے.اے امت محمد یہ تم اس قوم کی حالت کو دیکھو جسے موسیٰ "مصر سے اس لئے نکال کر لائے تھے کہ اسے ایک ایسے ملک کی حکومت حاصل ہو.لیکن جب انہیں اپنے دشمنوں سے جو اُن کے ملک پر قابض تھی لڑنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا.اس پر خدا تعالیٰ نے انہیں اس ملک کی حکومت سے چالیس سال تک کے لئے محروم کر دیا اور وہ جنگلوں میں بھٹک بھٹک کر مر گئے.غرض باوجود اس کے کہ موت ان کو اپنے گھروں میں بھی آئی تھی انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں موت کا پیالہ پینے سے انکار کر دیا اور تباہ ہو گئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اس قوم کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور خدا تعالی کی راہ میں جہاد کرنے سے کبھی انکار نہیں کرنا چاہیے.جو قوم موت سے ڈرتی ہے وہ دنیا میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 548 مطبوعہ ربوہ) تزکیہ نفس کے اس بنیادی ترین ذریعہ کے بعد دوسرا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَةَ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْضُطُ وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ ( البقرة : 246) کہ دشمن کے مقابلہ میں جانی قربانی پیش کرنے کے علاوہ دوسرا مقام مالی قربانی کا ہے.فرمایا کون ہے جو اللہ کو اپنے مال کا اچھا ٹکڑا کاٹ کر دے تو اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر عطا کرے کیونکہ اللهُ يَقْبِضُ اللہ لیتا تو ہے مگر وَ يَبفظ اپنے پاس رکھنے کے لئے نہیں بلکہ وہ کھول کر دیتا ہے اور صرف اس دنیا میں نہیں.یہ بھی یاد رکھو وَ الَیهِ تُرْجَعُونَ تم بالآخر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور یہ کئی گناواپس ملنے کا سلسلہ وہاں بھی جاری رہے گا.
درس القرآن 31 درس القرآن نمبر 178 تزکیہ یعنی نفوس کی پاکیزگی اور جماعت کی نشو ونما اور ترقی کے دو بنیادی اصول بیان کر کے بنی اسرائیل کی تاریخ کی ایک بہت اہم مثال تفصیل سے پیش کی ہے جس میں اس اہم معاملہ میں ان کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کر دی.مگر ان میں سے اطاعت کرنے والوں اور قربانی کے لئے تیار رہنے والوں کی غیر معمولی کامیابی اور فتح کا نمونہ بھی امت محمدیہ کے لئے پیش کر دیا تا کہ امت محمدیہ ان غلطیوں سے بھی بچنے کی کوشش کرے اور کامیابی اور فتح سے بھی ہمکنار ہو.فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسی کہ تمہیں بنی اسرائیل کے ان سر کردہ لوگوں کا حال معلوم نہیں ہو ا جو موسیٰ کے بعد گزرے ہیں اِذْ قَالُوا لِنَبِي لَهُمْ ابْعَثْ لَنَا مَلِحًا تُقَاتِلُ في سَبِيلِ اللہ کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کر دیجئے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں قال اس نبی نے (جس کا نام بقول بائبل سموئیل تھا) فرمایا هَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَا تُقَاتِلُوا کہیں ایسا تو نہیں ہو گا اگر تم پر جنگ فرض کی جائے کہ تم جنگ نہ کرو قَالُوا وَ مَا لَنَا الا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَقَدْ أَخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَ ابْنَا بِنَا انہوں نے کہا ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے، اپنے بچوں سے جدا کیا گیا ہے فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ مگر جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک قلیل جماعت کے علاوہ باقی سب پھر گئے وَاللهُ عَلِيمٌ بالظلمین اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے.اس آیت میں جہاد بالسیف کے بارہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے مامور کی اجازت سے ہو نا چاہیے اور اس کے لئے مضبوط مرکزی قیادت کی ضرورت ہے اور محض نعرے لگا کر جہاد کا مطالبہ کافی نہیں اس کے لئے حقیقی عزم اور قربانی کی ضرورت ہے.(البقرة: 247) دوام
درس القرآن 32 القرآن نمبر 179 وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِحًا قَالُوا إِلى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللهَ اصْطَفْهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَة بَسْطَةٌ فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة : 248) گزشتہ درس میں ذکر تھا کہ بنی اسرائیل کے سرداروں نے حضرت موسیٰ کے بعد اپنے نبی سے جہاد کے لئے بادشاہ بنانے کی درخواست کی.آج کی آیت میں بیان ہے کہ جب اس نبی علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے تو چونکہ بقول بائبل طالوت نسبتاً غریب اور کمزور قبیلہ کے فرد تھے اس لئے اس نبی علیہ السلام نے جس خدشہ کا اظہار کیا تھا وہ درست نکلا، فرماتا ہے وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا کہ جب ان کے نبی نے ان کو کہا کہ اللہ نے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے تو قَالُوا آئی يَكُونُ لَهُ المُلْكُ عَلَيْنَا انہوں نے کہا اس کو ہم پر بادشاہی کس طرح مل سکتی ہے وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ منہ اور ہم بادشاہت کے اس سے زیادہ حق دار ہیں ولَم يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ اور اس کو تو مالی وسعت بھی نہیں دی گئی.اس کے جواب میں نبی علیہ السلام نے حضرت طالوت کی بادشاہی کے حق میں تین دلائل پیش کئے اور فرمایا اِنَّ اللهَ اصْطَفَهُ عَلَيْكُم پہلی بات تو یہ ہے اللہ نے خود اس کا انتخاب فرمایا ہے اور تم لوگوں پر اس کو ترجیح دی ہے وَ زَادَهُ بَسْطَةٌ فِي الْعِلْمِ اور علمی وسعت جو امامت اور قیادت کے لئے نہایت ضروری ہے اس کو اس میں بڑھایا ہے وَالْجِسْمِ اور اس کام کے لئے جس دل کی مضبوطی اور دلیری کی ضرورت ہے وہ اس کو عطا فرمائی ہے اس آیت میں گو یا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خلافت راشدہ کی تین بنیادی صفات کی طرف توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے وَاللهُ يُؤْتِى مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ کہ اللہ بندوں کا محتاج نہیں وہ جسے مناسب سمجھتا ہے اپنی حکومت عطا فرماتا ہے وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ تم طالوت کو غریب سمجھتے ہو ، لا علم سمجھتے ہو حالانکہ وسعت اور علم کے خزانے تو اس کے ہاتھ میں ہیں جسے چاہتا ہے دیتا ہے.
درس القرآن 33 درس القرآن نمبر 180 سورۃ البقرۃ کے آخر تک تزکیہ نفس اور جماعتی ترقی اور نشو و نما کا مضمون چل رہا ہے.گزشتہ درس میں ذکر تھا کہ تزکیہ و ترقی کے لئے قیادت کی کیا شرائط ہیں؟ آج کی آیت میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قیادت ، الہی تائیدات صرف تقرری کے وقت نہیں بلکہ بعد میں بھی چلتی چلی جاتی ہیں، فرماتا ہے.وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةَ مُنكَةٍ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ ممَّا تَرَكَ ال مُوسى وَال هَرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَبِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً تَكُمْ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (البقرة:249) کہ ان کے نبی نے ان کو کہا کہ ان کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہوگی اور اس چیز کا بقیہ ہو گا جو موسیٰ کی آل اور ہارون کی آل نے اپنے پیچھے چھوڑا.اس صندوق یا تابوت سے وہ دل مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر تسکین ڈالی گئی اور بعض مفسرین ایک ظاہری صندوق کا ذکر بھی کرتے ہیں جس میں تبرکات تھے اور وہ واقعی طور پر دشمن کے قبضہ میں چلا گیا مگر غیر معمولی طور پر بنی اسرائیل کو واپس مل گیا.آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً تَكُمْ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ كه گویا اس آیت میں خدا کی طرف سے جو خلافت راشدہ کی علامت بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا تقرر ہوتا ہے، اس کو وسعت علمی دی جاتی ہے، اس کو کام کرنے کی صلاحیت اور استعداد عطا ہوتی ہے اور تقرری کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کو حاصل رہتی ہیں.ان سب باتوں میں اگر تم سچے مومن ہو تو تمہارے لئے ایک زبر دست نشان ہے.آئندہ آیات میں اس غیر معمولی کامیابی کا تذکرہ ہے جو الہی تقرری میں ہوئی اور کئی سو سال تک اس کے اثرات چلے.
درس القرآن 34 درس القرآن نمبر 181 فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّى وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمُهُ فَإِنَّهُ مِنِّى إِلا مَنِ اغْتَرَفَ غُرُفَةٌ بِيَدِهِ فَشَرِ بُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَةً هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَه قَالُو الا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا اللهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصُّبِرِينَ (البقرة : 250) جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس آخری حصہ میں الہی جماعتوں کے تزکیہ یعنی (1) پاکیزگی نفس اور (2) ترقی و نشو و نما کا ذکر ہے اس سلسلہ میں بنی اسرائیل کی ترقیات کے سلسلہ کی مثال دی گئی ہے.پہلی بات تو قیادت کے بارہ میں تھی جس کا تفصیلی ذکر ہو چکا ہے دوسری بات جارحانہ حملہ آور دشمنوں کی اکثریت کے مقابل چھوٹی الہی جماعت کی فتح کا بیان ہے.تیسری بات اس فتح کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے اس کا ذکر پیاس کی برداشت کے مضمون کے ذکر سے کیا گیا ہے (جس طرح آدم کے واقعہ میں گناہ کو ممنوعہ درخت کے ذریعہ ظاہر کیا گیا ہے) چوتھی بات مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کا مضمون ہے.پانچویں بات صبر و ثبات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنا ہے (اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت گزشتہ ایک سو بیس سال میں ان تمام تجربات سے کامیاب گزر چکی ہے) فرماتا ہے.جب طالوت اپنی فوجوں کو لے کر نکلے تو انہوں نے کہا اللہ ایک ندی کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے پس جس نے اس ندی میں سے پیٹ بھر کر پانی پی لیا وہ مجھ سے ابستہ نہیں رہے گا اور جس نے اسے نہ چکھا وہ یقیناً مجھ سے وابستہ ہو گا سوائے اس کے جس نے اس میں سے فقط اپنے ہاتھ سے ایک چلو لے کر پیا.پھر یہ ہوا کہ ان میں سے تھوڑوں کے سوا باقی سب نے اس میں سے پانی پی لیا پھر جب وہ خود نیز وہ لوگ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اس ندی کے پار اتر گئے تو انہوں نے کہا کہ آج ہمیں جالوت اور اس کے لشکر والوں کے خلاف مقابلہ کی طاقت نہیں مگر وہ لوگ جو یقین رکھتے تھے کہ اللہ سے ملنے والے ہیں انہوں نے کہا بہت سی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آچکی ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.
درس القرآن 35 درس القرآن نمبر 182 وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَاللهُ اللهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِيْنَ تِلْكَ أَيْتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (البقرة:251 تا253) جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس آخری حصہ میں تزکیہ کا مضمون ہے یعنی الہی جماعت کی پاکیزگی نیز عددی ترقی اور نشو و نماکا بیان ہے اور اس کے لئے امت موسوی کی تاریخ کو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے، فرماتا ہے کہ تھوڑی سی تعداد میں حضرت موسیٰ کے متبعین کا اپنے زمانہ کے شیطانی لشکروں سے جو جالوت یعنی تباہی اور لوٹ مار مچانے والی قوم کے لشکروں کے مقابلہ کے لئے ان کے سامنے آئے تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار دعا تھا.اور انہوں نے اللہ کے حضور عرض کی.دبنا اے ہمارے رب أفرغ عَلَيْنَا صَبُرا ہمیں صبر و استقلال عطا فرماؤ شَيْتُ أَقْدَامَنَا اور ہمیں ثبات قدم عطا فر ما وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَفِرِينَ اور انکار کرنے والی قوم کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما.فَهَزَمُوهُمْ بِاِذْنِ اللہ اور انہوں نے اللہ کے حکم سے ان کو شکست دی.یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی مسلسل جدوجہد اور قربانی کا امتحان تھا اور بالآخر حضرت داؤد کے زمانہ میں اس ہلاکت اور لوٹ مار کرنے والی قوم کو کلیۂ شکست ہو گئی.وَقَتَلَ دَاود جالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس قوم کا جو بائبل میں عمالقہ کے نام سے موسوم ہے قلع قمع کیا اور یہ تاریخ کا ایک زبر دست سبق ہے.وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ اگر خدا تعالی کی مدد اس طرح لوگوں کے ایک دوسرے سے بچاؤ کا سامان نہ کرتی نَفَسَدَتِ الْأَرْضُ تو زمین کلیپ بگڑ کر رہ جاتی وَلَكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِینَ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو تمام جہانوں پر ہو رہا ہے.فرماتا ہے، یہ کوئی تاریخی قصہ یا کہانی کا بیان نہیں بلکہ تِلْكَ أَيْتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات ہیں جو ہم صحیح صحیح آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں.ضرورت حقہ کے مطابق آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں کیونکہ ان میں امت محمدیہ کے لئے سبق بھی ہے اور پیشگوئیاں بھی ہیں وَ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ اور آپ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے.
درس القرآن 36 درس القرآن نمبر 183 تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيْتِ وَ اَيَّدُ نَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيْنَتُ وَلكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ أَمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوا وَ لَكِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ (البقرة:254) جماعت احمدیہ کے بزرگوں نے جو تفسیر بیان کی ہے اس کا ایک بہت لطیف پہلو قرآن شریف کی آیات اور مضامین کا ربط ہے جس کی ایک مثال کا ذکر سورۃ البقرۃ کی تفسیر میں ذکر ہوتا ہے کہ اس سورۃ کے چار مضامین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہمارے نبی صلی ا یکم کی بعثت کے بارہ میں دعا کے چار پہلوؤں سے تعلق ہے یعنی تلاوت آیات.کتاب اور اس کی حکمت اور تزکیہ.یہ حصہ جس کا درس جاری ہے تزکیہ سے تعلق رکھتا ہے ایک اور جوڑ جو اس سورۃ کے مضامین میں ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم اور عقائد کا تقابل ان دو مذاہب کی بگڑی ہوئی تعلیم سے کیا گیا ہے جن کا عالمی سطح پر اسلام سے مقابلہ تھا یعنی یہودیت اور پھر عیسائیت.(عیسائیت کا زیادہ تفصیلی ذکر اگلی سورۃ آل عمران میں ہے) آج کی آیت میں یہ جوڑ اس طرح بھی ہے کہ رسولوں میں فضیلت کا فرق ہے ، فرماتا ہے تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ یہ رسول جو دنیا میں آئے جن کا آنا الہی جماعتوں کے تزکیہ، پاکیزگی اور نشوو نما کے لئے ضروری تھا برابر درجہ نہیں رکھتے.بعض کو بعض پر فضیلت ہے ان تین مذاہب (اسلام، یہودیت اور عیسائیت) جن کا عالمی سطح پر مقابلہ ہے کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے كَلم اللہ اللہ نے خوب کلام کیا اس لئے وہ کلیم کے لقب سے معروف ہیں.ان کے مذہب کا اسلام سے مقابلہ کی بنیادی باتیں پہلے ذکر ہو چکی ہیں پھر ہمارے نبی صلی علی ظلم کا ذکر مبارک رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتٍ میں ہے جس میں یہ اشارہ ہے جو آنحضرت صلی کم کار فع سب نبیوں کے رفع سے بلند تر ہے اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے جو غیر تشریعی نبی تھے فرمایا وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيْنتِ وَاَيَّدتهُ بِرُوحِ الْقُدُس کہ ہم نے عیسی ابن مریم کو روشن نشانات دیئے اور روح
درس القرآن 37 القدس کے ساتھ ان کی تائید کی ان تینوں مذاہب کے پیروکاروں نے آپس میں اختلاف کیا اگر اللہ اپنی جبری مشیئت نافذ فرماتا وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنت کہ ان نبیوں کے بعد ان کے متبعین اس کے بعد کہ ان کے پاس روشن دلائل آگئے تھے ایک دوسرے سے نہ لڑتے وَلكِنِ اخْتَلَفُوا مگر ان کے اختلاف کا یہی نتیجہ ہوتا تھا فَمِنْهُم مَّمَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَان نبیوں کے بعد ان کے کچھ ایمان لائے کچھ نے صداقت کا انکار کر دیا.مگر خدا نے اس بارہ میں اپنی جبری مرضی نافذ نہیں کی وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوا اگر ایسی مرضی نافذ کی جاتی تو باہمی لڑائی نہ ہوتی مگر وَلَكِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ الله اپنے ارادہ کے مطابق کام کرتا ہے اس پر کوئی جبر نہیں کر سکتا.
درس القرآن القرآن نمبر 184 38 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمَ لَا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَةٌ وَلَا شَفَاعَةُ وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ (البقرة: 255) تزکیہ نفس اور قومی تزکیہ یعنی نشود نما اور ترقی کے لئے مالی قربانی انتہائی ضروری ہے چنانچہ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو انْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ جو کچھ ہم نے مال و دولت، علم و فہم، عقل، جسمانی ہمت غرض جو کچھ ہم نے تم کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو مِن قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوم قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں لا بَيْعَ فِیهِ نہ کوئی تجارت کام آئے گی وَلَا خُلةُ اور نہ کوئی دوستی وَلَا شَفَاعَةُ اور نہ کوئی شفاعت کام دے گی درووو ردو دو وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ اور صداقت اور سچے دین کا انکار کرنے والے ہی ظالم ہیں.الہی جماعتوں کے تزکیہ کے لئے خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کا علم اور اس کی توحید اور صفات کی جو تجلیات اس کائنات میں نظر آرہی ہیں کا مشاہدہ اور علم اور احساس انتہائی ضروری ہے اور یہ مضمون نہایت خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ اس آیت میں بیان ہے جو آیت الکرسی کے نام سے معروف ہے، فرماتا ہے اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ اللہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ اسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند لَهُ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِہ کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمة إِلَّا بِمَا شَاء اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ اس کی حکومت اور علم تمام آسمانوں اور زمین پر پھیلا ہوا ہے وَلا يَعُودُهُ حِفْظُهُمَا اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظیم اور وہ بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے.(البقرة:256) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی ہے جس میں ہستی باری تعالیٰ اور توحید باری تعالیٰ کا لطیف استنباط ہے اللہ ہمیں وہ پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.69991 دو
درس القرآن 39 درس القرآن نمبر 185 لا إكراه في الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرُوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: 257) تزکیہ کا مضمون جاری ہے اس آیت سے دو باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ دین کا مقصد تزکیہ ہے.تزکیہ کی دو قسمیں ہیں ایک نفس اور دل کی گہری پاکیزگی اور ظاہر ہے کہ جو دین خلاف مرضی جبر کر کے اختیار کرایا جائے اس سے دل کی پاکیزگی محال ہے وہ تو صرف ایک زبان سے جھوٹا اقرار ہے نہ ہی تزکیہ یعنی نشو و نما اور ترقی جبر سے حاصل ہو سکتے ہیں وہ تو صرف ایک انبوہ ہے، ایک ہجوم ہے ، نہ ماننے والوں کی ایک جماعت، جو مذہب کی طرف منسوب ہے.فرماتا ہے، لا اکراہ فی الاین دین میں کوئی ہر گز کوئی جبر نہیں اور جبر کی ضرورت بھی کیا ہے ؟ جبر کی ضرورت تو تب ہو جب کوئی ایسی تعلیم دی جارہی ہو جو خلاف عقل ہو ، خلاف فطرت انسانی ہو ، کسی کے حقوق پر اس سے زد آتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”دین میں کوئی جبر نہیں ہے تحقیق ہدایت اور گمراہی میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو گیا ہے پھر جبر کی کیا حاجت ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 232) فرماتے ہیں:.یہ بات نہایت صاف اور سریع الفہم ہے کہ وہ کتاب جو حقیقت میں کتاب الہی ہے وہ انسانوں کی طبیعتوں پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالتی اور ایسے امور مخالف عقل پیش نہیں کرتی جن کا قبول کرنا اکراہ اور جبر میں داخل ہو.“ ( نور القرآن نمبر 1 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 231،232) فرماتے ہیں:.” قرآن شریف نے ہر گز جبر کی تعلیم نہیں دی.اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی الی یوم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے.“ (مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 12) فرماتا ہے قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَی یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر کہ نمایاں ہو چکی ہے فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ جو حق و صداقت اور عدل و انصاف کے تقاضا سے باہر نکلنے والے وجو دوں کا انکار کرتا ہے اس نے ایک مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں اور اللہ بہت سننے والا، دائمی علم رکھنے والا ہے.
درس القرآن 40 القرآن نمبر 186 - اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا اَولِيَهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّوْرِ إِلَى الظلمتِ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة:258) تزکیہ کے لئے سب سے بڑا Source تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جب تک اس کی ذات سے تعلق نہ ہو تزکیہ خواہ روحانی ہو یا جسمانی حاصل نہیں ہو سکتا، چنانچہ فرماتا ہے اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ امَنُوا الله ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ وہ ان کو اند ھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اولیھم الطَّاغُوتُ ان کے دوست حق و انصاف کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں يُخْرِجُونَهُم مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلمت وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں أُولبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فيهَا خُلِدُونَ یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”خدا مومنوں کا کار ساز ہے ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال رہا ہے.“ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 648) پھر فرماتے ہیں:.”اللہ دوستدار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے اور ان کو اندھیرے جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 87) سے روشنی کی طرف نکالتا ہے.“ پھر فرماتے ہیں:.”خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کو ریا کاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایسا ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اس کی کیمیا پر لعنت بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پرواہ ہو جانا اور صرف خدا کو اپنا ایک خزانہ سمجھنا بجز یقین کے ہر گز ممکن نہیں.اب بتلاؤ اے مسلمان کہلانے والو کہ ظلمات شک سے نور یقین کی طرف تم کیونکر پہنچ سکتے ہو.یقین کا ذریعہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ کا مصداق ہے.“ ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 470)
درس القرآن 41 درس القرآن نمبر 187 الَمْ تَرَ إِلَى الَّذِى حَاجَ إِبْرَاهِم فِي رَبَّةٍ أَنْ اللهُ اللهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّيَ الَّذِى يخي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أخي وَأَمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَ اللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (البقرة:259) اس آیت سے تزکیہ یعنی الہی جماعتوں کی ترقی اور نشوو نما کے راستہ میں جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں ان کا ذکر شروع ہے اور تینوں مثالوں سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ کوئی روک خواہ حکومت کی طاقت ہو ، جارحیت کرنے والوں کی جارحیت ہو، خواہ انسانی روحوں کا صداقت قبول کرنے سے انقباض ہو بالآخر جلد یا بدیر الہی جماعتوں کو نشوو نماضر ور نصیب ہو گی.فرماتا ہے، دیکھو ایک شخص کو اللہ نے کچھ اختیارات دیئے ایک حد تک زندہ رکھنے یا مارنے کا اختیار بھی اس کے ہاتھ میں تھا.فرماتا ہے ، الم ترَ إِلَى الَّذِي حَاجَ إِبْرَهِم فِي رَبَّةٍ أَنْ الله الله المُلک کیا تمہیں اس شخص کی خبر نہیں ملی جو اس غرور کی وجہ سے کہ اللہ نے اس کو حکومت دے رکھی تھی.ابراہیم سے اس کے رب کے متعلق بحث کرنے لگ گیا اِذْ قالَ ابراهم رَبِّي الَّذِي يُخي وَيُمِيتُ یہ اس وقت ہوا جب ابراہیم نے کہا میر ارب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے قال أنا أخي وَاُمِيْتُ اس بادشاہ نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اس پر ابراہیم نے فرمایا کہ موت وحیات کا نظام تو سورج کی مشرق سے مغرب کی طرف حرکت پر مبنی ہے.ابراہیم نے کہا قَالَ ابْراهِم فَإِنَّ اللهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ لَه اللہ سورج کو مشرق سے مغرب کی طرف لاتا ہے تو اگر یہ نظام تمہارے کنٹرول میں ہے تو اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تم ڈوبنے والی سمت سے لے آؤ.اس پر فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا وَ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ مگر اللہ تعالیٰ جبر ااس قوم کو ہدایت نہیں دیتا جو جانتے بوجھتے انکار پر مصر ہوں.
درس القرآن 42 القرآن نمبر 188 اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِ هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرُ إِلى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَهُ وَانْظُرُ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرُ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكَسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (البقرة: 260) اس آیت میں الہی جماعتوں کے تزکیہ اور نشوو نما کی دوسری مثال دی گئی ہے جس میں ایک نہایت کمزور قوم کے جو اب اپنے شہر سے نکال دی گئی تھی، جلاوطن کی گئی تھی کے دوبارہ بحال ہونے کا ذکر ہے.اس واقعہ کی طرف حز قیل نبی کی کتاب میں واضح اشارہ ہے کہ جب عراقی بادشاہ نبو کد نضر کے حملہ کی وجہ سے پیروشلم مغلوب ہو گیا اور وہ وہاں کی بیشتر آبادی کو قید کر کے جلاوطن کر کے لے گیا تو حضرت حزقیل کا ایک دفعہ اس کے شہر کے پاس سے گزر ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اَوْ كَالَّذِی مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ اور پھر اس شخص کی مثال پر تم نے غور نہیں کیا جس کا ایک بستی پر گزر ہو ا وَ هِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا جبکہ وہ اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی قال آئی يخي هذِهِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِھا اس نے کہا اللہ اس کو اس کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا فَامَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامِ تو اللہ نے اس کو سو (100) سال تک موت وارد کر دی ثُمَّ بَعَثَہ پھر اسے اٹھایا قَالَ كم لبنت فرمایا تم کتنا عرصہ ٹھہرے رہے ؟ اس نے کہا میں ایک دن یا ایک دن کا کچھ عرصہ ٹھہرا رہا ہوں مگر ( یہ ظاہری حقیقت نہیں کیونکہ ) قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ بلکہ تم سو (100) سال ٹھہرے رہے ہو ( کیونکہ آئندہ سو (100) سال کے واقعات ان کو خواب میں دکھا دیئے گئے تھے.فانظر إلى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهُ مگر تم اپنے کھانے پینے کو دیکھو کہ وہ گلے سڑے نہیں وانظر إلى حِمَارِكَ اور اپنے گدھے کو دیکھو وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ اور اس لئے کہ ہم تمہیں تمام لوگوں کے لئے ایک نشان بنادیں (اور خواب کے نظارہ کی تفصیل کرتے ہوئے فرمایا) وانظر الى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُھا اور ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کس طرح ان کو اٹھاتے ہیں ثُمَّ نَكَسُوهَا لَحْماً اور انہیں گوشت پہنا دیتے ہیں فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَه پس جب بات اس پر کھل گئی قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر میں سمجھ گیا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر جس کو وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.
درس القرآن 43 درس القرآن نمبر 189 تزکیہ یعنی الہی جماعتوں کی نشو و نما اور عددی ترقی کے راستہ میں شدید مشکلات سے جو مایوسی پیدا ہو سکتی ہے اس کو روکنے کے لئے تیسر اواقعہ جو سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں بیان کیا گیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے دور میں بھی اور بطور نبیوں کے باپ کے آئندہ ادوار میں جو ہمارے نبی صلی الی نیلم کے دور پر منتج ہو تا تھا.منکرین اور مخالفین کے انکار کے احساس کی بناء پر حضرت ابراہیم نے یہ عرض کی کہ یہ مردے کس طرح زندہ ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.کیا تمہیں اللہ تعالیٰ کی پیش خبریوں پر ایمان نہیں؟ انہوں نے عرض کیا ایمان تو یقیناً ہے یہ درخواست صرف اطمینان قلب کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا چار پرندوں کو اپنے ساتھ ہلا لو.پھر ایک ایک پرندہ چاروں طرف پہاڑوں میں چھوڑ دو.پھر ان کو آواز دے کر بلاؤ تو وہ واپس تمہارے پاس تیزی سے آجائیں گے.یہی حال ان انسانی روحوں کا ہے جو خواہ کتنی مخالفت کریں ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کا سایہ ہے اس لئے یہ لوگ آئیں گے.مایوسی کی کوئی بات نہیں، فرماتا ہے :.اور جب ابراہیم نے کہا اے ہمارے رب مجھے دکھلا کہ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے اس نے کہا کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ اس نے کہا کیوں نہیں.مگر اس لئے پوچھا ہے کہ میرا دل مطمئن ہو جائے.اس نے کہا تو چار پرندے پکڑ لے اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر ان میں سے ہر ایک کو ہر پہاڑ پر چھوڑ دے.پھر انہیں بلا.وہ جلدی کرتے ہوئے تیری طرف چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے.(البقرة:261)
درس القرآن 44 درس القرآن نمبر 190 مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ (البقرة:262) سُنبُلَةٍ مَائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ تزکیہ یعنی الہی جماعتوں کا نشو و نما ایک لطیف مثال سے اس آیت میں مذکور ہے کہ ایک دانہ سے سو (100) دانہ نکل آتے ہیں اور یہ مثال ان لوگوں کی قربانیوں کی ہے جو مالی قربانیاں خدا کی راہ میں کرتے ہیں گویا تزکیہ کے دو پہلوؤں کو بڑی لطافت سے بیان کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”یعنی خدا کی راہ میں جو لوگ مال خرچ کرتے ہیں اُن کے مالوں میں خدا اس طرح برکت دیتا ہے کہ جیسے ایک دانہ جب بویا جاتا ہے تو گو وہ ایک ہی ہوتا ہے مگر خدا اس میں سے سات (7) خوشے نکال سکتا ہے اور ہر ایک خوشہ میں سو 100 دانے پیدا کر سکتا ہے یعنی اصل چیز سے زیادہ کر دینا یہ خدا کی قدرت میں داخل ہے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 170) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کے اس فعل کی حالت اس دانہ کی حالت کے مشابہہ ہے جو سات بالیں اگائے اور ہر بالی میں سو (100) دانہ ہو اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھا بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا اور بہت جاننے والا ہے.مگر اس عظیم الشان انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک کڑی شرط بھی رکھی ہے ، فرماتا ہے الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنَّا وَ لَا أَذًى پھر خرچ کرنے کے بعد نہ کسی رنگ میں احسان جتاتے ہیں اور نہ کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ان کے رب کے پاس ان کے اعمال کا بدلہ محفوظ ہے وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور نہ تو انہیں کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.(البقرة: 263)
درس القرآن 45 درس القرآن نمبر 191 قَوْل مَعْرُوفٌ وَ مَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (البقرة:264) یعنی اچھی بات کہنا اور قصور معاف کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے ایذارسانی شروع ہو جائے اور اللہ بے نیاز اور بردبار ہے.اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں:.بتایا کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں مال خرچ کرنے کے بعد تمہاری یہ کیفیت نہیں ہونی چاہیئے کہ تم میں تکبر کے خیالات پید اہو جائیں اور تم یہ کہنا شروع کر دو کہ ہم نے تو یہ کچھ دیا تھا، یوں مال قربان کیا تھا، یوں خدمت دین کی تھی کیونکہ ایسا کرنا تمہاری نیکی کو ضائع کر دے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ حجرات میں اعراب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے يَمْنُونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا اے محمد رسول اللہ (صلی رم) وہ اپنے اسلام قبول کرنے کا بھی تجھ پر احسان جتاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دے کہ لا تمنوا عَلَى اسلامكم تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتاؤ بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَيكُمْ لِلْإِيمَانِ (الحجرات : 18) اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راہ دکھایا اور ایک بچے مذہب کو قبول کرنے کی توفیق بخشی.اسی طرح مالی قربانیوں کے بعد دوسروں پر احسان جتانا سخت نادانی ہے کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے خدا کے لئے کام نہیں کیا تھا بلکہ بندوں کو ممنونِ احسان کرنے کے لئے کیا تھا اور یہ چیز اسے ثواب سے محروم کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک مقام پر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:.”یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خد اتعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے...تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 56،55) فسیر کبیر جلد دوم صفحہ 607،606 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 46 س القرآن نمبر 192 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ بِالْمَن وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَان عَلَيْهِ تَرَابُ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَّمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلُّ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرُ (البقرة : 265 ،266) تزکیہ نفس اور جماعت کے لئے مالی قربانی کا نظام غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اس لئے مالی قربانی کے بارہ میں ہدایات کا بیان جاری ہے.آج کی دو آیات میں سے پہلی آیت میں مالی قربانی کو نقصان پہنچانے والی چیز کو ایک تشبیہ کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے اور مالی قربانی کی برکت کو دوسری آیت میں تشبیہ کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے.پہلی آیت میں فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو لَا تُبْطِلُوا صدقتِكُم تم اپنی مالی قربانیوں کو ضائع نہ کرو بِالمَن احسان جتانے اور تکبر کرتے ہوئے اپنی قربانی کا اظہار کرنے کے ذریعہ والا ذی اور یا زبان کے ذریعے دکھ دینے یا جسمانی دکھ دینے کے پر ذریعے باطل نہ کرو، ضائع نہ کرو.یعنی تمہاری مالی قربانیوں کی بنیاد صدق پر ہونی چاہیئے.كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے وَلَا يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اور اللہ اور آخری دن پر ایمان نہیں رکھتا فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَان کیونکہ اس کی حالت اس چٹان کی حالت کے مشابہہ ہے عَلَيْهِ تُرَاب جس کچھ مٹی ہو فَاَصَابَهُ وَابِل اور اس پر تیز بارش ہو فَتَرَكَهُ صَلدًا اور وہ اس مٹی کو دھو کر اسے پھر صاف چٹان بنا دے لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو کچھ کماتے ہیں اس کا کچھ حصہ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا وَاللهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ اور اللہ اس قسم کے کافروں کو کامیابی کی راہ نہیں دکھاتا.اس تشبیہ میں بتایا گیا ہے کہ جو چیز نباتات کے بڑھنے اور نشو و نما کا باعث ہے وہی مٹی صاف کر کے نشو و نما میں روک بننے کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے.اس کے مقابل میں دوسری تشبیہ کا ذکر اگلے درس میں ہو گا.انشاء اللہ
درس القرآن 47 درس القرآن نمبر 193 وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِ فَأَتَتْ أَخْلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرة:266) قومی اور انفرادی تزکیہ کے لئے مالی قربانی کی اہمیت مگر پاکیزہ اور فساد سے خالی مالی قربانی کے لئے گزشتہ درس میں ایک مثال اس بات کی دی گئی تھی کہ مالی قربانی اگر پاک نہ ہو تو بجائے خود وہ تباہی کا موجب بنتی ہے.آج کے درس میں اس کے بالمقابل اس مالی قربانی کو جو ہر کے فساد سے پاک ہے ایک تشبیہ سے واضح کیا گیا ہے ، فرماتا ہے کہ وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہ کہ ان لوگوں کی مثال جو کسی ریاء و نمود، شہرت و بدلہ کے حصول کے لئے نہیں بلکہ اپنے اموال اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں وَ تَثْبِيتًا اَنفُسِهِم اور کسی کے کہنے سننے یا فوری جوش سے نہیں بلکہ دلوں کے پختہ ارادہ سے ہو گمتَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِل اس باغ کی حالت کے مشابہہ ہے جو بلند جگہ پر سیلاب وغیرہ آفات سے نسبتا محفوظ ہوتی ہے اور اس پر تیز بارش ہوئی فَاتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ اور وہ اپنا پھل دو چند لایا هو فَإِن لَّمْ يُصِبُهَا وَ اہل اور اگر اس پر زور کی بارش نہ پڑے تو تھوڑی سی بارش ہی ہو وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے.اس مثال میں جو یہ فرمایا کہ صحیح قربانی کے ذریعہ تیز بارش نہ ہو تو ہلکی بارش بھی کافی ہو جاتی ہے اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ ایک لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اس تمثیل میں بتایا کہ سچے مومن کا دل ایک باغ کی طرح ہوتا ہے جس میں نیک اعمال کے ہرے بھرے پودے کھڑے ہوتے ہیں جب وہ صدقہ و خیرات کرتا ہے تو خواہ وہ صدقہ بارش کی طرح نہ ہو بلکہ معمولی شبنم کی طرح ہو تب بھی وہ اس نیکی کے بابرکت نتائج حاصل کر لیتا ہے.چونکہ ان کے دل میں اخلاص اور تقویٰ ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ وہ جو کچھ خرچ کریں گے اس سے بھی ان کی کشت عمل خوب ہری بھری ہو جائے گی.....وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمل کی اصل حقیقت دیکھتا ہے اس کی ظاہری شکل نہیں دیکھتا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 611،612 مطبوعہ ربوہ) 609 609
درس القرآن 48 القرآن نمبر 194 ايَوَدُّ اَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَ أَعْنَابِ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَاَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا اعْصَارُ فِيْهِ نَارُ فَاحْتَرَقَتْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْأَيْتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (البقرة:267) اس آیت میں بڑے دردناک الفاظ میں مومنوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ مالی قربانیوں کے سلسلہ میں احتیاط سے کام لیں، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ ایک اور تمثیل کے ذریعہ انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے.دنیا میں اگر کسی کے پاس تھوڑا سا مال ہو اور وہ ضائع ہو جائے تو اس کا بھی اسے افسوس ہوتا ہے لیکن اگر کسی کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے ساتھ نہریں بہتی ہوں اور اسے اس باغ میں سے ہر قسم کے پھل ملتے رہتے ہوں اور وہ خود بوڑھا ہو چکا ہو اور اسے زیادہ زندہ رہنے کی امید نہ ہو اس کے بچے چھوٹی عمر کے ہوں جن سے کمائی کی امید نہ ہو تو کیا اس کا دل چاہتا ہے کہ ایک بگولہ زور سے آئے اور اس کے باغ کو جلا دے..ا اگر تھوڑا سا مال ہوتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ خیر تھوڑا سا مال تھا اگر ضائع ہو گیا تو کوئی بڑی بات نہیں یا اگر میرے کام آتا تو کب تک آتا آخر اس نے ختم ہی ہونا تھا.پھر اگر بوڑھا نہ ہو تا تو خیال کر سکتا تھا کہ میری زندگی میں بچے بڑے ہو جائیں گے اور وہ اپنے لئے جائیداد پیدا کرلیں گے.لیکن اگر مال بھی زیادہ ہو، خود بھی بوڑھا ہو پھر اس کے بچے بھی چھوٹے ہوں تو وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کا مال تباہ ہو جائے اور کسی حادثہ سے اس کی تمام جائیداد جل کر فنا ہو جائے اور اگر کسی حادثہ سے اس کی تمام جائیداد جل کر تباہ ہو جائے تو تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اسے کس قدر صدمہ ہو گا.یہی حالت قیامت کے دن ان لوگوں کی ہو گی جنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ نہیں کئے.اس وقت ان کے پاس کوئی مال نہیں ہو گا جسے وہ پیش کر سکیں اور نہ اولا د و غیر ہ کام آئے گی اس لئے فرمایا کہ تم اپنا انجام سوچ لو آج تم اپنے لئے سب کچھ کر سکتے ہو مگر آخرت میں کچھ کر نہیں سکو گے.اگر آج تم اپنا مال خرچ کرو گے تو یہ مال تمہارے لئے وہاں ذخیرہ کے طور پر جمع رہے گا اور تم اس سے فائدہ اٹھا سکو گے ورنہ تم ہلاک ہو جاؤ گے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 613 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن القرآن نمبر 195 49 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِأَخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيْهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (البقرة: 268) مالی قربانیوں کی اہمیت جو جماعت احمدیہ میں ایک بنیادی ستون کی اہمیت رکھتی ہے اس سے مزید واضح ہو جاتی ہے کہ پوری تفصیل سے اس قربانی کے جملہ پہلوؤں کو بیان کر کے اس قربانی کی تاکید کی گئی ہے، اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”اے ایمان والو! تم ان مالوں میں سے لوگوں کو بطریق سخاوت یا احسان یا صدقہ وغیرہ دو جو تمہاری پاک کمائی ہے.یعنی جس میں چوری یار شوت یا خیانت یا غبن کا مال یا ظلم کے روپیہ کی آمیزش نہیں.اور یہ قصد تمہارے دل سے دور رہے کہ ناپاک مال لوگوں کو دو.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 356) حضرت مصلح موعودؓ نے اس آیت کے ترجمہ میں فرمایا ہے:.”اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں نیز اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے اللہ کی راہ میں حسب توفیق خرچ کرو اور ناکارہ چیز کو اور جس میں سے تم خرچ تو کرتے ہو مگر خود تم سوائے اس کے کہ اس کے قبول کرنے میں چشم پوشی سے کام لو اسے ہر گز قبول نہیں کرتے صدقہ کے لئے بالا رادہ نہ چنا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بالکل بے نیاز اور بہت ہی حمد کا مستحق ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 614 مطبوعہ ربوہ) دو وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ کی تشریح میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.فرماتا ہے یہ صدقات تمہارے ہی فائدہ کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی احتیاج نہیں اگر تم اس کے راستہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہو یا اس کے بندوں کو دیتے ہو تو در حقیقت خدا تعالیٰ کو ہی دیتے ہو.اس لئے تم اس کے بندوں کو صدقہ دیتے وقت خدا تعالیٰ کی عظمت کو ملحوظ رکھو.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 616 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 50 القرآن نمبر 196 الشَّيْطنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِنْهُ وَ فَضْلاً وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا (البقرة: 269 270) يَنكَرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ مالی قربانی الہی جماعتوں کے لئے اپنی سرگرمیوں کے لئے مال کا خرچ اور غرباء کی خدمت کے لئے مال کا عطیہ جو انفرادی اور قومی ترقی کے لئے ضروری ہے اس بارہ میں قرآن شریف نے غیر معمولی طور پر اس کے ہر پہلو کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور اس کے رستہ میں جو روک پیدا ہوتی ہے اس کا ذکر بھی اس آیت میں کھول کر بیان فرمایا ہے، فرماتا ہے الشیطن يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ شیطان تمہیں مالی قربانی اور غریبوں کی خدمت سے ڈراتا ہے کہ تم اس کے نتیجہ میں پائی پائی کے محتاج ہو جاؤ گے مگر دوسری طرف شیطان جس چیز کی تحریک کرتا ہے جس چیز کی ترغیب دیتا ہے وہی چیز انسان کی دولت کو سب سے زیادہ اسراف اور ضیاع کا ذریعہ بناتی ہے یعنی گناہ کی زندگی، فحشاء اور عیش و عشرت کی زندگی ، وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْهُ اور جو تحریک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ نہ صرف گناہ سے بچاتی ہے بلکہ جو گناہ ہو چکا اس کے بداثرات سے بھی محفوظ رکھتی ہے وَفَضْلا اور بڑھ چڑھ کر دیتی ہے وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اور اللہ واسع ہے.وہ تمہیں بہت کچھ دے گا اور وہ علیم اور تمہارے ہر کام سے واقف ہے.شاید تم کہو کہ کیسے معلوم ہو کہ جو تحریک اللہ کی ہے وہ درست اور اعلیٰ ہے اور جو تحریک شیطان کی ہے وہ ٹھیک نہیں تو اس اگلی آیت میں اس کا جواب ہے کہ اس غرض سے اللہ تعالیٰ نے عقل و حکمت عطا فرمائی ہے.عقل و حکمت کے ترازو میں تول کر دیکھ لو کہ قومی ترقی اور غرباء کی ہمدردی کے لئے مال خرچ کرنا اجر ہے یا عیش و عشرت، فحاشی، جنسی و اخلاقی بے راہ روی کے لئے مال ضائع کرنا بہتر ہے ، فرماتا ہے يُؤْتى الْحِكمَةَ مَنْ يَشَاءُ وہ جسے مناسب دیکھتا ہے حکمت دیتا ہے وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَد أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا اور جس کو حکمت دی گئی اس کو بہت سامال دیا گیا وَ مَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُوا الْأَلْبَابِ مگر عقل رکھنے والے ہی اس بات کو سمجھتے ہیں.
درس القرآن 51 درس القرآن نمبر 197 انْصَارِ وَمَا انْفَقْتُم مِّنْ نَفَقَةِ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرِ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ (البقرة:271) تزکیہ انفرادی ہو یا قومی اور جماعتی ہو اور قومی یا جماعتی تزکیہ خواہ پاکیزگی سے تعلق رکھتا ہو یا عد دی نشو و نما سے تعلق رکھتا ہو میں مالی قربانی کا مقام بہت بلند ہے اور اس مضمون کے جملہ پہلوؤں کو سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے وَمَا انْفَقْتُم مِّنْ نَفَقَةٍ میں بتایا گیا ہے کہ جو خرچ بھی کسی قسم کا ہو تم کر چکے ہو اور أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرِ یا آئندہ کے لئے تم نذر مانتے ہو منت مانتے ہو فَإِنَّ اللهَ يَعْلَمُہ ہر قسم کے خرچ کو اللہ جانتا ہے وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ مگر ظلم کرنے والے ( ظلم کرنے کے معنی ہیں چیز کو مناسب جگہ پر نہ رکھنا) تو فرماتا ہے ظلم کرنے والے یعنی اخراجات کے معاملہ میں کمی بیشی کرنے والوں کے لئے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کوئی مددگار نہیں.مالی قربانیوں میں سے صدقات کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ قومی اور اجتماعی طور پر بھی دیئے جاسکتے ہیں اور انفرادی طور پر محتاج لوگوں کو دیئے جاسکتے ہیں اس بارہ میں فرماتا ہے اِن تُبْدُوا الصَّداقتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ اگر تم صدقات ظاہر ادو تو یہ بھی عمدہ بات ہے لیکن تم ان کو مخفی رکھو اور براہ راست ضرورت مندوں کو دو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَأْتِكُم اور یہ تمہاری برائیوں کا تدارک کر دے گا وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اور اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.(البقرة:272)
درس القرآن 52 درس القرآن نمبر 198 لَيْسَ عَلَيْكَ هُدبُهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِانْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقرة:273) قرآن شریف کا طریق ہے کہ ایک مضمون بیان کرتے ہوئے جب کوئی ایسی بات ہو جس پر مخالف اعتراض کر سکتا ہو تو وہ اس کا جواب بیان فرما دیتا ہے.یہاں تزکیہ یعنی قومی اور جماعتی ترقی اور نشوو نما کی غرض سے مالی قربانی کی خاص تاکید ہے اس پر یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ یہ مالی قربانیاں لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے ہیں.اس آیت میں اس سوال کا مضبوطی سے جواب دیا لَيْسَ عَلَيْكَ هذا هم که مخالفین کو ہدایت دے دینا تمہارا کام نہیں وَلكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت پر لے آتا ہے.اس لئے یہ اعتراض تو بالکل بے معنی ہے یہ مالی قربانیاں تو مخالفوں کو دے کر مسلمان بنانے کے لئے نہیں بلکہ مومنوں کے روحانی فائدہ کے لئے ہیں.تم جو خیر بھی، اچھا مال بھی خرچ کرو وہ تمہارے اپنے نفوس کی بھلائی کے لئے ہے اور وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ الله اور تمہارا یہ خرچ اگر کسی منفعت کے لئے ہے تو بے معنی ہے.تمہارا خرچ تو اللہ کی رضامندی کے لئے ہے.ہاں یہ تمہارے حق میں ضائع نہیں جائیں گی.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَ إِلَيْكُمْ جو اچھا مال بھی تم خرچ کر وہ تمہیں پورا پورا واپس کر دیا جائے گا وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ اور تم کسی گھاٹے میں نہیں رہو گے اور دشمن کے ظالمانہ ، جارحانہ حملوں سے بھی محفوظ ہو جاؤ گے.
درس القرآن 53 القرآن نمبر 199 لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمْ (البقرة:274) الْجَاهِلُ اَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيْهُمْ لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ مالی قربانیوں کا ایک اہم پہلو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ جس معاشرہ میں مالی قربانی اور خدمت کا رواج ہو وہاں یہ خطرہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک تو غیر مستحق لوگ بے ضرورت اس نظام سے فائدہ نہ اٹھانے لگ جائیں اور حقیقی مستحق محروم نہ رہ جائیں، فرماتا ہے لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ کہ یہ مذکورہ بالا صدقات ان ضرورت مندوں کے لئے ہیں جو اللہ کی راہ میں دوسرے کاموں سے روکے گئے ہیں لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ وه ملک میں آزادی سے آجا نہیں سکتے يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ایک بے خبر شخص ان کے سوال سے بچنے کی وجہ سے انہیں غنی خیال کرتا ہے تَعرِفُهُم بِسِيهُمْ تم ان کی ہلیت سے ان کو پہچان سکتے ہو لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ اور تم جو اچھا مال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو اللہ اس سے خوب واقف ہے.اس دوسری آیت میں مالی قربانی کے اس پہلو کو پورا کیا جارہا ہے اور اس کے بعد نیا پہلو شروع کیا جارہا ہے، فرماتا ہے الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( البقرة:275) وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی ان کے لئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے.اس آیت پر مالی قربانی اور صدقات کے مضمون کے بعد سُود کی ممانعت کا مضمون شروع ہوتا ہے.
درس القرآن القرآن نمبر 200 54 الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبُوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطنُ مِنَ الْمَسَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبوا وَ اَحَلَ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرَّبُوا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَّبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُةٌ إِلَى اللهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة : 276) انفرادی اور جماعتی تزکیہ یعنی پاکیزگی اور نشو و نما کے لئے مالی قربانی کا تفصیلی بیان کرنے کے بعد اس مضمون کے ایک اور پہلو پر مضمون شروع ہوتا ہے یعنی سود کے ذریعہ مال بڑھانے کا مضمون.فرماتا ہے ، جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوتے مگر ایسے جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے اپنے مشن سے حواس باختہ کر دیا ہو ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الربوا یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے کہا یقیناً تجارت سود ہی کی طرح ہے جبکہ اللہ نے تجارت کو جائز اور سود کو حرام قرار دیا ہے.اب دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت کے لئے ایک ایسی دلیل دی ہے جو ساری دنیا دیکھ رہی ہے وہ سوپر (Super) قومیں جو سود کھاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ سود اور تجارت میں کوئی فرق نہیں وہ کس طرح شیطانی اثرات سے حواس باختہ ہیں.آج ویت نام کے معصوم عورتوں اور بچوں پر حملہ ہے ان کے علاقے کے جنگل کے جنگل زہریلی گیس کے ذریعہ برباد کئے جارہے ہیں، تو دوسرے دن تائیوان کے جزیرہ کی باری آجاتی ہے، تیسرے دن کو یت پر حملہ کر دیا جاتا ہے، چوتھے دن ایران اور عراق کی باہمی جنگ انگیخت کر کے معصوم 13 سالہ ایرانی لڑکوں کا خون بہایا جاتا ہے پھر عراق پر حملہ کر دیا گیا تھا.عالمگیر مہلک ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر عالمگیر مہلک ہتھیاروں کے ذریعہ حملہ کیا جاتا ہے، پھر افغانستان کی باری آجاتی ہے.فرماتا ہے ، فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَ امْرُةٌ إِلَى اللَّهِ جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آجائے اور وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ معاملہ اللہ کے سپر د ہے وَمَنْ عَادَ اور جو کوئی دوبارہ ایسا کرے گا فَأُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ تو یہی لوگ ہیں جو آگ والے ہیں هُمُ فِيهَا خَلِدُونَ اور پھر اس (کشمکش سے ) ان کا نکلنانہ ہو سکے گا.
درس القرآن 55 درس القرآن نمبر 201 يَبْحَقُ الله الرّبُوا وَيُرْبِي الصَّدَقَتِ وَاللهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وووو وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكَونَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ردردور وَلَا هُمْ يَحْزَنون (البقرة : 278 277) حضرت مصلح موعودؓ پہلی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.فرماتا ہے اللہ تعالیٰ سود کو مٹائے گا اور صدقات کو بڑھائے گا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ترقی عطا فرمائے گا جو سود سے پر ہیز کریں گے اور صدقات پر زور دیں گے.اس میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب اسلام کی تعلیم اپنی مکمل صورت میں دنیا میں قائم کی جائے گی اور ربو جسے مال کو بڑھانے والا قرار دیا جاتا ہے وہ مٹادیا جائے گا اور صدقات جنہیں مال کو گھٹانے والا قرار دیا جاتا ہے ان کی بے انتہاء زیادتی ہو گی گویا پرانے نظام کو بدل کر ایک نیا نظام قائم کیا جائے گا اور قرآن اور اسلام کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے وقوع میں آجائے گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 637،638 مطبوعہ ربوہ) دوسری آیت اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ وَاَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكَوةَ لَهُمُ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ میں اس اسلامی نظام اور ماحول کا نقشہ ہے جس کا ایک حصہ زکوۃ ہے جو ربو (سود) کی احتیاج کو ختم کرتا ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.چونکہ پیچھے صدقات پر بہت زور دیا گیا ہے اس لئے ممکن تھا کہ کوئی شخص یہ خیال کر لیتا ہے کہ صرف صدقہ دے دینا ہی کافی ہے اسی سے نجات ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ اس شبہ کے ازالہ کے لئے فرماتا ہے کہ ترک ربو اور صدقات کا دینا ہی کافی نہیں بلکہ ہر قسم کے اعمال صالحہ کی بجا آوری اور نمازوں کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے صرف ایک پہلو پر زور دے کر تم نجات حاصل نہیں کر سکتے جب تک ایمان کے ساتھ عمل صالح اور اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوۃ نہ ہو اور تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ کے لحاظ سے تمہارے ایمان کی تکمیل نہ ہو اس وقت تک تمہیں نجات میسر نہیں آسکتی.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 638 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 56 درس القرآن نمبر 202 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرَّبوا ان كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (البقرة:279) ایک لمبے عرصہ تک مغربی دنیا مسلمانوں پر سود کی حرمت کے بارہ میں اعتراضات کرتی رہی اور خود مسلمانوں میں ایک طبقہ یہ کہتا رہا کہ سود کی ممانعت کی وجہ سے مسلمان معاشی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ اس کی وجوہات بالکل اور تھیں مگر اب خصوصاً دوسری عالمگیر جنگ کے بعد مزاج بدل رہا ہے اور بہت دھیرے دھیرے مغرب سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو اس آیت کی تائید کرتی ہیں کہ یاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللہ اللہ سے ڈرو وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا اور چھوڑ دو سو د جو سود میں سے باقی رہ گیا ہے إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ اگر تم فی الواقعہ مومن ہو.فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِہ اور اگر تم نے ایسانہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو.اس کے ٹکڑے کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر سود نہ چھوڑا گیا تو اللہ اور رسول کی اس پیشگوئی کو یاد رکھو کہ سودی نظام کی صورت میں عالمگیر جنگیں وقوع پذیر ہونے والی ہیں.فرماتا ہے وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ اَمْوَالِكُمْ اور اگر تم تو بہ کرو تو تمہارے اصل زرّ تمہارے ہی رہیں گے لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا.وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ اور اگر کوئی تنگدست ہو فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہیئے وَ اَنْ تَصَدَّ قواخَيْرُ لَكُمْ اور اگر تم خیرات کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے إن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم کچھ علم رکھتے.وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيْهِ إِلَى اللَّهِ اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے ثُمَّ تُوقُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ پھر ہر جان کو جو اس نے کمایا پورا پورا دیا جائے گا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے.(البقرۃ:279 تا282) گزشتہ ایام میں جب دنیا بھر میں معاشی بحران Credit Crunch آیا تو اس نے اور بھی شدت کے ساتھ دنیا کو سود کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا.چنانچہ Bank of Japanکے
درس القرآن 57 ایک Discussion Paper میں ذکر کیا گیا کہ اس کا حل سود کاریٹ صفر کرنا یا اس کے قریب کرنا ہے.اس سلسلہ میں انہوں نے جاپان، امریکہ اور سوئٹزر لینڈ کی مثال دی ہے جو پہلے ہی اس پالیسی کو Zero Interest Policy کے نام سے اختیار کر رہے ہیں.اس پیپر میں کئی موقر ماہرین کی یہ رائے بھی لکھی ہے کہ اگر آئندہ بھی دنیا کو معاشی تباہ کاری سے بچانا ہے تو اس پالیسی کو جاری رکھنا ہو گا.(The Zero Interest Rate Policy by Tomihiro Sogo & Yuki Teranishi IMES Bank of Japan, Discussion Paper no 2008-E-20 Pages 1, 2)
درس القرآن 58 درس القرآن نمبر 203 وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم تَعْلَمُونَ وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللهِ ثُمَ تُوَقُ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (البقرة:281،282) ربو جیسے ظالمانہ طریق کی ممانعت کرتے ہوئے یہ مضمون ان دو آیات پر ختم ہو رہا ہے کہ اگرچہ سود کے بجائے قرض دینا جائز ہے مگر اس میں تمہیں تاکید کی جاتی ہے کہ جس کے ذمہ قرض کی ادائیگی ہے اگر وہ تنگ دست ہے تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہیئے.فرماتا ہے وَ اِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إلى مَيْسَرَةٍ بلکہ اس حد تک فرمایا وَ اَنْ تَصَدَّ قُوا خَيْرٌ لَكُمْ کہ اگر تم قرض واپس لینے کے بجائے کسی تنگدست کو خیرات کر دو اور قرض واپس نہ لو تو وہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے ان كُنتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو.وَاتَّقُوا يَوْمًا اور اس دن سے ڈرو تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللہ جس دن تمہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا ثُمَّ تُوقُ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ پھر ہر ایک شخص کو جو اس نے کیا ہو گا وہ پورا پورا دیا جائے گا وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.حضرت مصلح موعودؓ ان دو آیات کی تشریح میں لکھتے ہیں:.فرماتا ہے آج اگر تم لوگوں سے حسن سلوک کرو گے اور اپنے قرضوں کی وصولی میں نرمی سے کام لو گے تو یاد رکھو ایک دن تمہارا بھی حساب ہو گا اس دن تم سے بھی اچھا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے گناہوں سے در گزر کیا جائے گا.لیکن اگر آج تم نیک سلوک نہیں کرو گے تو اس دن تم سے بھی کوئی نیک سلوک نہیں کیا جائے گا.یہ وہی حکم ہے جس کی طرف رسول کریم صلی العلیم نے بار بار توجہ دلائی ہے اور فرمایا کہ تم دنیا میں رحم سے کام لو تا کہ آسمان پر تمہارا خدا بھی تم سے رحم کا سلوک کرے.“ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 641 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 59 درس القرآن نمبر 204 اجتماعی اور انفرادی تزکیہ کے لئے مالی معاملات کے جھگڑے دشمن نمبر ایک کی حیثیت رکھتے ہیں اگلی دو آیات میں ان جھگڑوں سے بچنے کے لئے دو بنیادی ہدایات دی گئی ہیں ایک تحریری گواہی کا نظام، دوسرے رہن کا نظام.ان دونوں کو اختیار کرنے کے ذریعہ سے معاشرہ بہت سے جھگڑوں سے پاک ہو سکتا ہے ، فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مسَمًّى فَاكْتُبُوہ کہ جب تم کسی دوسرے سے کسی مقررہ میعاد کے لئے قرض لو تو اسے لکھ لو وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِب بِالْعَدْلِ اور چاہیئے کہ لکھنے والا تمہارے درمیان طے شدہ معاملہ کو انصاف کے ساتھ لکھ دے وَلَا يَأْبَ كَاتِبُ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللهُ فَلْيَكْتُب اور کوئی کاتب لکھنے سے انکار نہ کرے کیونکہ اللہ نے اسے لکھنا سکھایا ہے پس چاہیے کہ وہ ضرور اس لکھے وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ اور تحریر وہ لکھوائے جس کے ذمہ حق ہو وَ لْيَتَّقِ اللهَ رَبَّہ اور چاہیئے کہ وہ کو وہ لکھواتے وقت اللہ کا جو اس کا رب ہے تقویٰ مد نظر رکھے وَلَا يَبْخَسُ مِنْهُ شَيْئًا اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے فَإِنْ كَانَ الَّذِى عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهَا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يمل هو اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق ہے نادان ہو یا کمزور ہو یا خود لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ تو اس کا کارپرداز انصاف کے ساتھ لکھوائے وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُم اور تم اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ مقرر کر لیا کرو فَانْ لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاتنِ ہاں اگر دو گواہ مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ ان لوگوں میں سے جن کو تم گواہ کے طور پر پسند کرتے ہو ان تضل احل بهُمَا فَتُذَكرَ احلبُهُمَا الأخْرى کہ اگر ان عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دونوں میں سے ایک دوسری کو یاد دلائے وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں وَلا تَسْتَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى آجَلِیہ اور خواہ چھوٹا لین دین ہو یا بڑا تم اسے اس کی میعاد سمیت لکھنے میں سستی نہ کرو.
درس القرآن 60 ذلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ الله یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے وَ أَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والی و ادنی اَلا تَرْتَابُوا اور اس بات کہ قریب کرنے والی کہ تم جھگڑے میں نہ پڑو إِلا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ سوائے اس صورت کے کہ تجارت دست بدست ہو فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَا تَكْتُبُوهَا اس صورت میں تم پر گناہ نہیں کہ تم اسے نہ لکھو وَ اَشْهدُوا إِذَا تَبَايَعْتُم اور جب باہم خرید و فروخت ہو تو گواہ بنالیا کر و وَلا يُضَار كَاتِبٌ ولا شَهِيدٌ اور لکھنے والے اور گواہ کو تکلیف نہ دی جائے وَ إِنْ تَفْعَلُوا فَانَّهُ فُسُوقُ بِكُمْ اگر تم ایسا کرو تو یہ گناہ ہو گا واتَّقُوا اللہ اور اللہ سے ڈرو و يُعَلِّمُكُمُ اللهُ اور اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے وَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِیم اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے.(البقرة: 283)
درس القرآن 61 درس القرآن نمبر 205 وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهنَّ مَقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّةَ أَثِم قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (البقرة: 284) جیسا کہ گزشتہ درس میں ذکر ہوا تھا انفرادی اور اجتماعی تزکیہ کے لئے معاشرہ کو مالی جھگڑوں سے بچانا ضروری ہے اور مالی جھگڑوں سے بچنے کے لئے پہلی بات قرض، تجارت و غیر مالی معاملات میں تحریری گواہی کا نظام قائم کرنا ضروری ہے اور دوسری چیز اگر سفر وغیرہ کی وجہ سے تحریری نظام نہ قائم ہو سکے تو باقبضہ رہن کو اختیار کیا جاسکتا ہے، حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:.فرماتا ہے اگر تم سفر پر ہو اور تمہیں کوئی کاتب اور وثیقہ نویس نہ ملے تو اس کا قائمقام رہن با قبضہ ہے تمہیں چاہیئے کہ تم اپنی کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس بطور رہن رکھوا دو تا کہ اسے اپنے روپیہ کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ رہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام قرض کے معاملہ میں کتنی احتیاط اور دور اندیشی سے کام لینے کی ہدایت دیتا ہے.اس کے بعد نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے فَإِنْ آمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ الله ربه اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کے متعلق مطمئن ہو اور اسے بلار ہن روپیہ دے دے تو وہ شخص جسے روپیہ دیا گیا ہے اور جسے امین جانا گیا ہے اس کا فرض ہے کہ دوسرے کے مطالبہ پر روپیہ بلا حجت واپس کر دے.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے پھر ایک اور نصیحت کرتا ہے.فرماتا ہے وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةً تم آپس کے لین دین کے معاملات میں ہمیشہ سچی بات کیا کرو اور کبھی کسی گواہی کو چھپانے کی کوشش نہ کر دور نہ تمہارا دل گناہگار ہو جائے گا...اس آیت میں صرف گواہوں کی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ وہ تمام افراد جو کسی معاملہ میں شریک ہوں ان سب کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو جھوٹ بولنا یا جھوٹی گواہی دینا تو الگ رہا سچی گواہی کو بھی چھپانے کی کوشش کرے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 648،649 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 62 درس القرآن نمبر 206 لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمُ بِهِ اللهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( البقرة : 285) یہ آیت اور اس سے اگلی دو آیات سورۃ البقرۃ کی آخری آیات ہیں اور یہ تینوں آیات نہ صرف سورۃ البقرۃ کے اس حصہ کا تمہ ہیں جو کہ تزکیہ کے اصول بیان کرتا ہے بلکہ ایک رنگ میں تمام سورۃ البقرۃ کا تتمہ ہے.وہ سورۃ جو قرآن مجید کے تمام خلاصہ کے بعد جو سورۃ الفاتحہ کے نام سے بیان کیا گیا ہے.قرآن شریف کے بنیادی عقائد، احکامات، اخلاقی نصائح اور دیگر مذاہب سے اس کی برتری کے مضامین پر مشتمل ہے اور اس آیت میں پہلی زبر دست صداقت، بنیادی سچائی کو دہرایا گیا ہے.لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ کہ آسمانوں کی وسعتوں کا گوشہ گوشہ ہو یاز مین کا ذرہ ذرہ سب کچھ اللہ کا ہی ہے، اسی نے بنایا ہے ، اسی کے کنٹرول میں ہے، جب یہ حال ہے تو دان تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُم بِهِ الله تو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے ظاہر کرو، خواہ تم اسے چھپائے رکھو، خدا کے محاسبہ کا نظام اس پر قائم ہے وہ تم سے اس کا حساب لے گا فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ پھر اس کی مشیت کام کرے گی.وہ جسے مناسب سمجھے گا بخش دے گا کیونکہ اس کی نظر اس شخص کے دل پر بھی ہے اور اس کے اعمال پر بھی وَيُعَذِّبُ مَنْ یشاء اور جس کے لئے مناسب سمجھے گا اس کی سزا اور تنبیہ کے ذریعہ اصلاح فرمائے گا کیونکہ یہ سارا نظم و ضبط اس کے ہاتھ میں ہے وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر اور اللہ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے.یہ بنیادی ترین حقیقت ہے جو سورۃ البقرۃ کے آخر میں بیان کی گئی.ہے.
درس القرآن 63 درس القرآن نمبر 207 امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَبِكَتِهِ وَ كتبه وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة:286) سورۃ البقرۃ کی آخری آیات میں دراصل تمام سورۃ البقرۃ کے اصل الاصول اور بنیادی مضامین کو پڑھنے والے کی سہولت کے لئے دہرادیا گیا ہے اس آیت میں ان تمام عقائد کو دہرایا گیا ہے جو بار بار پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی ان کی یاد دہانی ہوتی رہے گی اور تمام مذاہب سے اسلام کی برتری کا ایک واضح ثبوت ہیں کیونکہ باقی مذاہب کے ماننے والوں کے ہاتھ میں صرف ایک دو تین پھول ہیں مگر مومن کے ہاتھ میں پورا گلدستہ ہے.ہمارے رسول صلی علیکم اور آپ کے ذریعہ ایمان لانے والے اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، فرشتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں، تمام کتابوں اور شریعتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں، تمام رسولوں پر بلا تفریق ایمان رکھتے ہیں إلَيْكَ الْمَصِيرُ کہہ کر یوم آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور یہ ایمان صرف زبانی کلامی نہیں سمعنا ہم نے سناؤ اطعنا اور عملاً ہم نے اطاعت کی.فرماتا ہے آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ جو کچھ اس رسول پر اس کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر وہ خود بھی ایمان لائے اور دوسرے سب مومن بھی كُلٌّ آمَنَ بِاللہ سب اللہ پر ایمان لائے وَمَلبِکتے اور اس کے فرشتوں پر و کتبہ اور اس کی وو کتابوں پر وَرُسُلِہ اور اس کے رسولوں پر لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہ اور وہ کہتے ہیں ہم اس کے رسولوں میں ایک دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کا حکم سن لیا ہے اور ہم اس کی دل سے بھی اطاعت کرتے ہیں اور جوارح بھی غُفْرَانَكَ رَبَّنَا اے رب ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے.
درس القرآن 64 القر آن رآن نمبر 208 لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلِينَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ (البقرة:287) الكفِرِينَ سورۃ البقرۃ میں تمام بنیادی عقائد و احکامات کے بیان کے بعد اور ان کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کی تاکید کے بعد اس آخری آیت میں ایک بنیادی حقیقت کے بیان کے بعد ایک بنیادی دعا سکھائی گئی ہے جو گویا سورۃ البقرۃ کے تمام عقائد، احکامات ، اخلاقی ہدایات پر عمل کی توفیق ملنے کی درخواست اور ایمان و عمل میں کمزوری رہ جانے کے تدارک کے لئے غیر معمولی دعا ہے.سورۃ البقرۃ کے عقائد کے اسباق، شرعی احکام، عائلی اور معاشرتی ہدایات، اخلاقی اور روحانی نصائح کے بعد یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا ایک کمزور انسان یہ سب ذمہ داریاں اٹھا سکتا ہے؟ فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ اللہ تعالیٰ ہر نفس پر اس کی وسعت کے مطابق ذمہ داری ڈالتا ہے لَهَا مَا كَسَبَتْ وہ نفس جو ارادہ اچھے کام کرے وہ اس کے کام آئیں گے وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ اور جو غلط کمائی اس نے کی اس کی ذمہ داری بھی اس کے ذمہ ہو گی.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلُ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا یعنی اے ہمارے خدا نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں مت پکڑ جن کو ہم بھول گئے اور بوجہ نسیان ادانہ کر سکے اور نہ ہی ان بد کاموں کا ہم سے مواخذہ کر جن کا ارتکاب ہم نے عمد انہیں کیا بلکہ سمجھ کی غلطی واقع ہو گئی اور ہم سے وہ بوجھ مت اٹھوا جس کو ہم اٹھا نہیں سکتے اور ہمیں معاف کر اور ہمارے گناہ بخش اور ہم پر رحم فرما.اَنتَ مولینا تو ہمارا مالک، ہمارا رب ہمارا مددگار ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.”فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ یعنی اے خدا ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ہم بے بس اور کمزور ہیں لیکن ہمارا دشمن طاقتور اور تعداد میں بہت زیادہ ہے.پس اے ہمارے رب جو لوگ ایسے کام کر رہے ہیں جن سے اسلام کی ترقی میں روک واقع ہوتی ہے ان پر تو ہمیں غالب کر اور ایسے سامان پیدا فرما جو تیری تبلیغ اور تیرے نام کو دنیا میں پھیلانے کا باعث ہوں.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 660 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 65 درس القرآن نمبر 209 بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - الم - اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (آل عمران : 1 تا 3) یہ آیات سورۃ آل عمران کی ابتدائی آیات ہیں سورۃ آل عمران قرآن شریف کی تیسری سورت ہے یعنی سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے بعد.قرآن شریف کی پہلی سورۃ جو تمام قرآن مجید کے خلاصہ اور عطر کی حیثیت رکھتی ہے کے بعد چار سورتیں ہیں سورۃ البقرۃ، سورۃ آل عمران، سورۃ النساء، سورۃ المائدۃ.سورۃ الفاتحہ کے بعد ان چار سورتوں میں ایک اشتراک ہے کہ یہ چاروں سورتیں اسلامی شریعت کے بنیادی عقائد اور بنیادی احکام کے بیان پر مشتمل ہیں اور دوسرے ان چاروں میں ان دو قوموں سے اسلامی مقابلہ اور کش مکش کا ذکر ہے جو عالمی سطح پر ان قوموں سے ہونا تھی.سورۃ البقرۃ میں نسبتاً زور یہود پر ہے اور آل عمران میں نسبتاً زور عیسائیت پر ہے اس سورۃ کے متنوع مضامین میں سے ایک مضمون عیسائی دنیا سے اسلام کا تکلیف اٹھانا بھی ہے اور اس سلسلہ میں غزوہ احد کا ذکر بھی ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی عیسائیوں سے تکالیف کا باعث شاید اسی طرح کی غلطیوں کا خمیازہ ہے جن غلطیوں کے مرتکب بعض مسلمان احد کے موقع پر ہوئے اور حضور صلی علیم کے حکم کی وقتی نافرمانی سے مسلمانوں نے تکلیف اٹھائی مگر ساتھ ہی رسول اکرم صلی کم پر فدائیت کے زبر دست نمونے دکھائے.الم کے معنے سورۃ البقرۃ میں گزر چکے ہیں اس کے بعد فرماتا ہے اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ اس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے:.و ہی اللہ ہے اس کا کوئی ثانی نہیں اسی سے ہر ایک کی زندگی اور بقا ہے.“ نور القرآن نمبر 1 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 334) دیکھئے کسی وضاحت سے عیسائی دنیا کے اس عقیدہ کو ر ڈ کیا ہے کہ یسوع قابل عبادت ہے.فرماتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی.کیوں ؟ کیونکہ اللہ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ہے.ہمیشہ زندہ ہے اور دوسروں کے قائم ہونے اور رہنے کا ذریعہ ہے.اب ہر عیسائی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یسوع صلیب پر مر گیا اور تین دن قبر میں رہا.اگر تمہارے اپنے عقیدہ کے مطابق یسوع مر گیا تھا اور تین دن قبر میں رہا تھا وہ قابل عبادت کس طرح ہو گیا.
درس القرآن 66 القرآن نمبر 210 نَزِّلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِقَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَ أَنْزَلَ التَّوْرَيةَ وَالْإِنْجِيلَ مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ انْزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ (آل عمران: 4، 5) ذُو انتقام اس سورۃ کی ابتداء سے ہی سورۃ البقرۃ کا وہ مضمون کہ قرآن شریف اور اسلام کی عالمی کش مکش عقائد کے لحاظ سے بھی اور عملاً بھی بنی اسرائیل کی دونوں شاخوں یہود و نصاریٰ سے ہو گی شروع ہو جاتا ہے.بالخصوص جس طرح سورۃ البقرۃ کا خصوصی تعلق یہودیت سے کش مکش تھا اس سورۃ کا تعلق عیسائیت کی بگڑی ہوئی صورت سے ہے اور پہلی آیت میں ہی قابل عبادت ہستی کو حی و قیوم کہہ کر الوہیت یسوع کی جڑ کاٹ دی ہے.پھر قرآن مجید کا یہ مقابلہ تورات، انجیل کے اترنے کا بیان ہے اس کی وجوہات یہ بتائی ہیں کہ قرآن مجید بِالْحَقِّ اترا ہے یعنی کامل صداقتوں اور کامل تعلیم کے ساتھ اترا ہے جبکہ مثلاً تورات ساری دنیا کے لئے نہیں بلکہ صرف 12 قبائل کے لئے تھی اور انجیل بھی کامل صداقتوں پر مشتمل نہیں تھی کیونکہ خود اس میں یسوع کا اقرار موجود ہے کہ میری اور بھی باتیں ہیں جن کو تم اب برداشت نہیں کر سکتے مگر وہ کامل سچائی کی روح آکر تمہیں سب باتیں بتائے گی.دوسری بات یہ بتائی کہ قرآن شریف ان دو کتابوں کے لئے جو اس سے پہلے نازل ہوئی تھیں تورات و انجیل ان کی تصدیق کرنے والا ہے اگر قرآن نازل نہ ہو تا تو تورات وانجیل کی پیشگوئیاں پوری نہ ہو تیں پھر قرآن هدى للناس ہے ساری دنیا کی ہدایت کے لئے ہے جب تورات و انجیل کا دائرہ محدود ہے وَ انْزَلَ الْفُرقان اور قرآن بہ مقابلہ تورات و انجیل فیصلہ کن حکم کی حیثیت رکھتی ہے مقابلہ کر کے دیکھ لو قرآن کے بیان زیادہ سچے اور حکیمانہ ہیں یا تورات و انجیل کے.پس إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيد جن لوگوں نے اللہ کے نشانات کا انکار کیا ہے ان کے لئے یقیناً سخت عذاب مقدر ہے وَاللهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامِ اور اللہ غالب اور سزادینے والا ہے.
درس القرآن درس القرآن نمبر 211 إِنَّ اللهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ کہ اللہ سے ہر گز کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں ، نہ آسمان میں.(آل عمران:6) 67 حضرت مصلح موعود اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات تو ایسی ہے کہ سب چیزیں اس کے سامنے ہیں.خواہ وہ آسمانوں میں ہوں یا زمین میں اس سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں لیکن یسوع مسیح کی تو یہ حالت تھی کہ اسے بھوک لگی تو وہ انجیر کے ایک درخت کو دیکھ کر اس کی طرف گیا.مگر پتوں کے سوا اسے اس میں کچھ دکھائی نہ دیا.لا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٍ کہہ کر اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ تمہیں تو اسلام کی ترقی کا آج کوئی سامان نظر نہیں آتا.تم حیران ہوتے ہو کہ یہ بے کس اور یتیم کیسے کامیاب ہو جائے گا مگر آسمانی اور زمینی کامیابیوں کی کنجی سب خدا کے ہاتھ میں ہے.آخر یہ مخفی اسباب اسلام کی ترقی کا موجب ہو جائیں گے.چنانچہ اسی لئے اللہ تعالیٰ آگے جنین ( پیٹ میں بچہ.ناقل) کی مثال دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ بچہ کی پیدائش پر غور کرو.وہ کیسے اند ھیروں میں ہوتا ہے اور پھر ایک دن کیسا شاندار نتیجہ رو نما ہوتا ہے.“ نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعود زیر آیت آل عمران آیت نمبر 6 رجسٹر نمبر 9 صفحہ 53،54) فرماتا ہے هُوَ الَّذِي يُصَوِرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران : 7) ترجمه از تفسیر صغیر : وہی ہے جو رحموں میں جیسی چاہتا ہے تمہیں صورت دیتا ہے.اس کے سوا کوئی پرستش کا مستحق نہیں.وہ غالب (اور) حکمت والا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:." يُصَورُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ میں بتایا کہ انسان کے اخلاق و عادات پر رحم مادر سے ہی اثر پڑنا شروع ہو جاتا ہے.اس لئے جو شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا وہ اخلاق و عادات اور اطوار و خصائل کے لحاظ سے بنی نوع انسان سے جدا نہیں ہو سکتا کجا یہ کہ اسے خدائے واحد اور ذوالجلال
درس القرآن 68 کے تخت پر بٹھایا جائے.“ نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعودؓ زیر آیت آل عمران آیت نمبر 7 رجسٹر نمبر 9 صفحہ 55) هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ کہہ کر فرمایا کہ خدا ہونے کا یہ نقشہ جو پیش کیا جارہا ہے کہ وہ ماں کے رحم میں بھی رہا اور پھر خدائے واحد و ذو الجلال کے تخت پر بیٹھا خدا کی صفت غالب کے بھی خلاف ہے اور حکیم کے بھی خلاف ہے.
درس القرآن 69 درس القرآن نمبر 212 هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيتَ مُحْكَمْتَ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشْبِهت فَلَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَة إِلا الله والرسخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبَّنَا وَ مَا يَذَكَر (آل عمران:8) إلا أُولُوا الْأَلْبَابِ جیسا کہ ذکر آچکا ہے آل عمران میں زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کی اس کش مکش کا ذکر ہے جو عیسائیت کے مقابلہ میں تھی یہودیت کے مقابلہ کی طرح عیسائیت کا اعتقاد و عمل کے لحاظ سے مقابلہ اسلام کی تاریخ کا بلکہ دنیا کی اس دور کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ہے اس لئے اس کا تفصیلی ذکر قرآن شریف میں ہے اس آیت میں اس تکنیک کا بھی ذکر ہے جو عیسائی دنیا اسلام کے خلاف استعمال کرتی ہے.فرماتا ہے هُوَ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أنتَ مُحْكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتب وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں سے محکم آیات بھی ہیں وہ کتاب کی ماں ہیں اور کچھ دوسری متشابہ آیات ہیں پس وہ لوگ جن کے دلوں میں بھی ہے وہ فتنہ چاہتے ہوئے اور اس کی تاویل کی خاطر اس میں اس کی پیروی کرتے ہیں جو باہم متشابہہ ہے حالا نکہ اللہ کے سوا اور ان کے سوا جو علم میں پختہ ہیں کوئی اس کی تاویل نہیں جانتا.وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور عقل مندوں کے سوا کوئی نصیحت نہیں پکڑتا.اس آیت میں اشارہ ہے کہ عیسائی بعض قرآنی آیات کے غلط معانی کے ذریعہ بھی یسوع کی الوہیت کا استنباط کرتے ہیں ( امریکہ کے ایک چرچ میں ایک پادری نے یہ دعویٰ کیا کہ نعوذ باللہ قرآن شریف یسوع کا مقام ہمارے نبی صلی علی کریم سے بڑا بتاتا ہے) بلکہ اپنی کتابوں کی پیشگوئیوں کو بھی جو واضح طور پر ہمارے نبی صلی الی کم پر چسپاں ہوتی ہیں مثلاً استثناء 18/18 میں وہ نبی کی پیشگوئی وہ یسوع پر چسپاں کرتے ہیں.
درس القرآن 70 آرہی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں:.پیشگوئیوں کے ہمیشہ دو حصے ہوا کرتے ہیں اور آدم سے اس وقت تک یہی تقسیم چلی 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 320 مطبوعہ ربوہ) جو پہلی کتابوں میں یارسولوں کی معرفت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں ان کے دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ علامات جو ظاہری طور پر وقوع میں آتی ہیں اور ایک متشابہات جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں ہوتی ہیں پس جن کے دلوں میں زیغ اور کجی ہوتی ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور طالب صادق بینات اور محکمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 476 477 مطبوعہ ربوہ )
درس القرآن 71 درس القرآن نمبر 213 رَبَّنَالَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران:9) یعنی اے ہمارے رب تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو سج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت کے سامان عطا کر یقینا تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس دعا کا مفہوم اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ :.”اے ہمارے خدا ہمارے دل کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے جو تو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عنایت کر کیونکہ ہر ایک رحمت کو تو ہی بخشتا ہے.“ 66 (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 127) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.چونکہ محکمات اور متشابہات کی بحث میں عموماً کمزور ایمان والوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور عیسائیوں نے خصوصیت کے ساتھ متشابہات کو ہی ہاتھ میں لے کر لوگوں کو گمراہ کرنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کے مقابلہ کا ذکر کرتے ہی دعا سکھلا دی کہ اے ہمارے رب یہ فتنہ بڑا سخت ہو گا تو ایسا فضل فرما کہ ہم ان کے دجالی فتنہ سے ہمیشہ محفوظ رہیں.ایسا نہ ہو کہ ہدایت کے بعد ہمارا قدم ڈگمگا جائے.اور ہم ان کی مزورانہ چالوں میں آکر محمد رسول اللہ صلی ال لا لی اور اسلام کے بارہ میں کسی شک میں مبتلا ہو جائیں.(ب) وَهَبْ لَنَا مِنْ تَدُنكَ رَحْمَةً اور ہمیں ایسی توفیق بخش کہ ہم ان کا پورے زور سے مقابلہ کریں اور ان کے حملوں کا دفاع کریں.مگر دفاع اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب تیری رحمت ہمارے شامل حال ہو.یعنی آسمانی تائیدات ہمارے ساتھ ہوں.ورنہ تیری مدد کے بغیر ہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں.“ نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعوددؓ زیر آیت آل عمران آیت نمبر 9رجسٹر نمبر 9صفحہ 87)
درس القرآن وو 72 رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران:10) اے ہمارے رب تو یقیناً سب لوگوں کو اس دن جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا.اللہ ہر گز وعدہ خلافی نہیں کرتا.حضرت مصلح موعودہؓ بیان فرماتے ہیں:.یہ دعا بھی عیسائیت کے فتنہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ عیسائیت اپنی ترقی کے زمانہ میں غفلت کے اتنے سامان جمع کر دے گی اور عیاشی کے لئے اس قدر دولت اکٹھی کرے گی کہ لوگوں کے لئے آخرت کی طرف آنکھ اٹھانا بھی مشکل ہو جائے گا.اگر ایک طرف کفارہ کا عقیدہ انہیں اگلے جہان کی پرستش سے بے نیاز کر دے گا تو دوسری طرف دنیوی زیب و زیبائش اور لہو و لعب کے سامان ان کو آخرت کے انکار کی طرف مائل کر دیں گے.ایسے خطرناک زمانہ میں سچے مومنوں کا یہ شیوہ ہونا چاہئے کہ وہ رات دن اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں اور بار بار اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور ان عقائد کو اپنے اندر راسخ کریں کہ اس زمانہ میں ہدایت صرف اسلام میں ہے اور ہر انسان نے مر کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے کوئی مصنوعی کفارہ کسی انسان کے کام نہیں آسکتا.آخر میں اِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِیعاد کہہ کر بتایا کہ گو عیسائیت کا فتنہ بڑا بھاری ہو گا اور مسلمان ان کے حملہ سے سراسیمہ ہو جائیں گے.مگر اسلام کے غلبہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں وہ یقینا ایک دن پوری ہوں گی.اسلام غالب آئے گا.“ (نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعود زیر آیت آل عمران آیت نمبر 10 رجسٹر نمبر 9صفحہ 90،89)
درس القرآن 73 درس القرآن نمبر 214 اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا وَ أُولَبِكَ هُمُ وَقُودُ النَّارِ كَدَابِ الِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ (آل عمران : 11،12) اسلام اور عیسائیت کی کش مکش کا اور اس ضمن میں عمومی رنگ میں کفر و اسلام کی کش مکش کا بیان جاری ہے.فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا یقینا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا اَوْلَادُهُم مِّنَ اللهِ شَيْئًا ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ان کے کسی کام نہیں آئیں گی وَ أُولَبِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ اور یہی لوگ ہیں جو آگ کا ایندھن ہیں یعنی عیسائیوں کے مخالفین اسلام کے خزانے اور عددی اکثریت آخری مقابلہ میں ان کے کام نہیں آئیں گی جیسا کہ ظاہری طور پر بھی اس دنیا میں قیصر و کسریٰ کو شکست ہوئی.یہی آخرت میں ہو گا.دَابِ الِ فِرْعَوْنَ ان کا طریق فرعون کے طریق کے مطابق ہے جس کی شکست کی کہانی یہ عیسائی خوب جانتے ہیں ان کی کتاب میں بھی موجود ہے وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم اسی طرح ان لوگوں کی جو ان سے پہلے تھے كَذَّبُوا پایتنا انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا فَأَخَذَهُمُ اللهُ بذُنُوبِهِم اس پر اللہ نے ان کے قصوروں کے بدلہ میں ان کو پکڑ لیا وَ اللهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ اور اللہ کا عذاب سخت ہوتا ہے.اگر فرعون اور اس سے پہلے کی طاقتیں بظاہر نظر کمزور مومنوں کے سامنے شکست کھا گئیں تو عیسائیوں کو اسلام کے مقابلہ میں شکست کیوں نہ ہو گی ؟ قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا تم ان کو صاف صاف سنا دو جنہوں نے انکار کیا ہے سَتُغْلَبُونَ کہ تمہیں ضرور مغلوب کیا جائے گا وَتُحْشَرُونَ إلى جَهَنَّمَ اور جہنم کی طرف اکھٹا کر کے لیجایا جائے گا وَبِئْسَ الْمِهَادُ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے.
درس القرآن 74 درس القرآن نمبر 215 قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَافِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأَى الْعَيْنِ وَاللهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الأَبْصَارِ (آل عمران: 14) عیسائی مسلم کش مکش اور عیسائیوں کی تعد اد اور طاقت کا مضمون چل رہا ہے ، فرماتا ہے تمہارے سامنے ایک عظیم الشان واقعہ کا نشان موجود ہے اس لئے مسلم عیسائی کش مکش میں مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ان دونوں گروہوں میں جو ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے تمہارے لئے یقیناً ایک نشان تھا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ایک گروہ تو اللہ کے راستہ میں لڑ رہا تھا وَ أُخْرى كَافِرَةٌ اور دوسرا منکر تھا یرَوْنَهُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ اس میں ماننے والے انکار کرنے والوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے وَاللهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی مدد دے کر تائید فرماتا ہے اِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لأولِي الْأَبْصَارِ اس بات میں آنکھوں والوں کے لئے یقیناً ایک نصیحت ہے.اس آیت میں جنگ بدر کا نقشہ کھینچا گیا ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.اس مثال کو پیش کر کے اللہ تعالی کفار کو نصیحت کرتا ہے کہ اے آنکھوں والو تم اسی پر محمد رسول اللہ صل اللی علم کی دوسری پیشگوئیوں کو قیاس کر لو اور سمجھ لو کہ اسلام کی ترقی کے متعلق آج جو کچھ وعدے دیئے جا رہے ہیں یہ بھی ایک دن پورے ہوں گے.“ (گویا ایک اور بدر کی بشارت ہمارے نبی صلی اللی کمر کو دی جارہی ہے.ناقل ) ( نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعودؓ زیر آیت آل عمران آیت نمبر 14 رجسٹر نمبر 10 صفحہ 26)
درس القرآن درس القرآن نمبر 216 75 اسلام و عیسائیت کی کش مکش کے ذکر میں یہ سوال بھی اٹھتا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے اور موجودہ عیسائیت اصل حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی عیسائیت کو چھوڑ چکی ہے تو جو کامیابی ظاہر اس کو ہو رہی ہے اس کی کیا وجہ ہے ، فرماتا ہے.زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ النَّهَب وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَابِ (آل عمران:15) فرماتا ہے، عیسائیت کی یہ کامیابیاں اس کے عقائد کی صداقت اور مضبوط عقلی اور روحانی دلائل کی بناء پر نہیں بلکہ اس کی رنگ برنگی عیاشیوں اور دولت کے ڈھیروں کی وجہ سے ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.اب بتاتا ہے کہ عیسائیت اپنے مذہبی اعتقادات کی بناء پر لوگوں کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکے گی.بلکہ اس کے پاس سب سے بڑا حربہ یہ ہو گا کہ وہ کہیں عورتوں کے ذریعہ ، کہیں بچوں کے ذریعہ ، کہیں مال و دولت کے لالچ کے ذریعہ ، کہیں اعلی درجہ کے مناصب کے ذریعہ ، کہیں زراعت کے سامانوں کے ذریعہ ، اور کہیں بڑے بڑے مربعوں اور زمینوں کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گی.اور وہ لوگ جن کے دلوں میں دنیا کی محبت ہو گی وہ ان کی طرف چلے جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ بچے مذہب سے انسان کو برگشتہ کرنے والی یہی چیزیں ہوتی ہیں.بسا اوقات انسان پر حق کھل جاتا ہے مگر وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے سچائی کو قبول کیا تو میرا خاندان میر ا مخالف ہو جائے گا، میری دولت مجھ سے چھن جائے گی، میر اعہدہ مجھ سے لے لیا جائے گا، میری زمین اور جائیداد سے مجھے بے دخل کر دیا جائے گا اور میں بے سر و سامان رہ جاؤں گا.یہ تصور ایک ایسا بھیانک نقشہ اس کے سامنے کھینچتا ہے کہ وہ سچائی کو سمجھتے ہوئے بھی اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا.
درس القرآن 76 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں دین اور دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیشہ یہ امر سامنے رکھنا چاہئے کہ ذلِكَ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَابِ (آل عمران : 15) بے شک یہ چیزیں بھی اچھی ہیں اور ورلی زندگی میں ان کے کام آنے والی ہیں مگر ان چیزوں کے حصول کا صحیح طریق یہ ہے کہ پہلے انہیں خدا کے لئے ترک کرو.اور ان سے الگ ہو جاؤ پھر خدا خود یہ تمام چیزیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا.“ نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعودؓ زیر آیت آل عمران آیت نمبر 15 رجسٹر نمبر 10 صفحہ 29،28)
درس القرآن 77 القرآن نمبر 217 قُلْ أَو نَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَاَزْوَاجُ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانَ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الصُّبِرِينَ وَالصُّدِقِينَ وَالْقَنِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ (آل عمران: 16 تا 18) گزشتہ آیت میں ذکر تھا کہ سچے مذہب کے منکرین بالخصوص عیسائی اپنے عقائد کی سچائی اور پختگی کی وجہ سے اپنے نظریات پر مائل نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کی محبت، ڈھیروں ڈھیر سونا چاندی، خوبصورت گھوڑے، جانور اور کھیت ان کی توجہ کے جاذب ہیں.آج کی آیت میں بہت خوبصورت رنگ میں اس کا جواب دیا ہے ٹھیک ہے یہ چیزیں بڑی خوبصورت ہیں، قابل توجہ ہیں لیکن یہ بھی دیکھ لو کہ یہ چیزیں خدا کی رضاء سے ٹکر ا تو نہیں رہیں ؟ فرماتا ہے قُلّ أو نَبْتَكُم بِخَيْرٍ مِنْ ذلِكُمْ کہو کیا میں تمہیں اس سے بہت بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ لِلَّذِينَ اتَّقَوا جو لوگ تقویٰ اختیار کریں ان کے لئے عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّتَ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ ان کے رب کے پاس ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں خُلِدِينَ فِيهَا وہ ان میں بسیں گے وَازْوَاج مطَهَّرَةٌ نیز ان کے لئے پاکیزہ جوڑے ہوں گے وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہ اور اللہ کی رضا مقدر ہے وَاللهُ بصِيرُ بِالْعِبَادِ اور اللہ اپنے نبیوں خوب دیکھنے والا ہے.الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم یقیناً ایمان لے آئے ہیں فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا اس لئے تو ہمارے قصور ہمیں معاف کر دے وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے.جو لوگ ان دنیوی نعمتوں کے طالب ہیں اور ان کی خاطر صداقت کو چھوڑ دیتے ہیں کے مقابلہ پر یہ لوگ جو صداقت کو قبول کرتے ہیں ان کا اخلاقی کردار بہت بلند ہے فرماتا ہے الصبرین یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں والصُّدِقِيْنَ اور قول و فعل میں بچے ہیں وَالْقَنِتِينَ اور فرمانبردار وَالْمُنْفِقِينَ اور خدا کے راستہ میں اور مخلوق کی بھلائی کی خاطر مال خرچ کرنے والے اور دن کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار سے ہوتی ہے.
درس القرآن 78 درس القرآن نمبر 218 شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ وَالْمَلكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَابِما بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران:19) اسلام اور عیسائیت میں کش مکش کا پہلا اور سب سے بنیادی مسئلہ تو توحید اور تثلیث کا ہے عبادت کے لائق صرف باپ ہے یا بیٹا اور روح القدس بھی.اس آیت میں فرماتا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے تین وجودوں کی گواہی ضروری ہے خود اللہ تعالیٰ کی گواہی، ملائکہ کی گواہی اور انصاف پر قائم اہل علم کی گواہی.پہلی گواہی: اللہ تعالیٰ کی ہے جو دو طرح مل سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کائنات تخلیق کی ہے وہ توحید پر گواہی دیتی ہے یا تین قابل عبادت وجودوں پر.کائنات کو دیکھ کر فیصلہ کرلو.دوسرا طریق اللہ تعالیٰ کی گواہی معلوم کرنے کا اس کے رسول اور انبیاء ہیں.تم دیکھ لو کہ خدا کے رسولوں کی گواہی کس طرف ہے؟ فرمایا شَهِدَ اللہ اللہ گواہی دیتا ہے أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ کہ کوئی قابل عبادت نہیں مگر صرف وہی.دوسرے: وجود ملائکہ ہیں جن کو مسلمان بھی مانتے ہیں اور عیسائی بھی اور دونوں ان کا تصرف نظام کائنات پر تسلیم کرتے ہیں، نظام کائنات کے کسی شعبہ کو دیکھ لو توحید نظر آئے گی، تثلیث کی جھلک بھی نہیں ملے گی وَالْمَليكة فرما یا فرشتے بھی یہی گواہی دیتے ہیں.تیسرے: اہل علم ہیں مگر یہاں غلطی کا امکان ہے کیونکہ اہل علم انسان ہیں اور غلطی کر سکتے ہیں دانستہ بھی اور نا دانستہ بھی.اب فرماتا ہے وَاُولُوا الْعِلْمِ قَابِما بِالْقِسْطِ کہ اگر اہل علم انصاف پر رہتے ہوئے گواہی دیں تو قابل عبادت ایک وجود کو ہی مانیں گے.چنانچہ جو اہل علم توحید کے خلاف تثلیث کو مانتے ہیں وہ باقی تمام جگہ تین کو ایک اور ایک کو تین نہیں مانتے صرف الوہیت کے بارہ میں یہ بات کہتے ہیں.گویا جہاں عقیدہ کا سوال نہیں ہو تا وہاں عام منصفانہ نظر ان کی تسلیم کرتی ہے کہ ایک ایک اور تین تین ہیں.یعنی قابل عبادت وجود ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتے.
درس القرآن 79 درس القرآن نمبر 219 وروو إنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُم وَمَنْ يَكْفُرُ بِأَيْتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (آل عمران: 20) عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک دین عیسائیت ہے، مسلمان کہتے ہیں اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے، فرماتا ہے اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ اللہ کے نزدیک اصل دین یقینا کامل فرمانبر داری ہے اور یہ مضمون مسلمانوں کے دین میں بھی ہے اور اس کے نام میں بھی ہے اب دیکھو کامل فرمانبرداری کے مقام سے کون بہتا ہے.وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُم خدا کے حکم کی نافرمانی یا اس سے اختلاف تم کر رہے ہو یا مسلمان.فرماتا ہے اختلاف ان لوگوں نے کیا جن کو کتاب دی گئی بعد اس کے کہ ان کے پاس علم آچکا تھا اور یہ اختلاف بھی کیا از روئے سرکشی.کیا پر انا عہد نامہ بار بار خدائے واحد کی عبادت کا حکم نہیں دیتا، کیا خود تمہاری انا جیل اور نئے عہد نامہ میں بار بار خدا کے واحد ہونے اور بیٹے کے اس کے تابع ہونے، اس سے چھوٹے ہونے، اس کی بات ماننے والا ہونے اور اس کے آگے گڑ گڑا کر دعا کرنے والا نہیں کہا گیا.پھر تمہاری تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تبدیلی کسی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سراسر باہمی سرکشیوں کا نتیجہ ہے (عیسائیوں کی عقائد کے بارہ میں باہمی کش مکش کی ایک پوری داستان ہے جس سے کتابیں بھری پڑی ہیں) وَمَنْ يَكْفُرُ بِأَيْتِ اللهِ اور جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرے فَإِنَّ اللهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ تو اللہ جلد حساب لینے والا ہے.اس فقرہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہر امر کا نتیجہ انسان کو ساتھ ساتھ ملتا جاتا ہے کیونکہ انسان جو کام بھی کرتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ضرور پڑتا ہے.
درس القرآن 80 درس القرآن نمبر 220 فَإِنْ حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ وَالْأَمينَ أَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوَاوَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَاغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (آل عمران: 21) گزشتہ آیت میں صداقت مذہب کے اس بنیادی معیار اور اصول کو پیش کرنے کے بعد کہ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ اللہ کے نزدیک دین کامل فرمانبرداری کا نام ہے.اس آیت میں یہ بیان ہے کہ فان حَاجُوكَ اب اگر عیسائی تم سے بحث مباحثہ کریں تو فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَن کہ تم کہو کہ میں یہ دعویٰ رکھتا ہوں کہ میں نے اپنا وجو د اور اس کی کل طاقتیں خدا کو سونپ دیں اور اس نے بھی جس نے میری پیروی کی یعنی میری پیروی کرنے والا صرف وہی شخص ہے جو کامل فرمانبرداری کرتا ہے.فرماتا ہے وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ وَالْأَمِينَ وَاسْلَمْتُمْ ان کو جنہیں کتاب دی گئی اور جن کو کتاب نہیں دی گئی کیا تم نے پوری طرح فرمانبرداری اختیار کرلی ہے فَإِنْ اَسْلَمُوا پس اگر وہ اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرلیں فقد اهتدوا تو وہ ہدایت پاگئے وَ اِنْ تَوَلَّو لیکن اگر وہ منہ موڑ لیں فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاغُ تو آپ کے ذمہ صرف پیغام پہنچانا ہے ( تلوار سے گردن اڑانا نہیں ) وَاللهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ اور اللہ تعالیٰ بندوں پر گہری نظر رکھنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس لطیف مضمون کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:.ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خد اتعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تئیں رب العالمین کے لئے خالص کرلوں یعنی اس میں فناہو کر جیسا کہ وہ رب العالمین ہے میں خادم العالمین بنوں اور ہمہ تن اسی کا اور اسی کی راہ کا ہو جاؤں.سو میں نے اپنا تمام وجو د اور جو کچھ میر ا تھا خد اتعالیٰ کا کر دیا ہے اب کچھ بھی میرا نہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے.“ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 165)
درس القرآن 81 درس القرآن نمبر 221 إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيْرِ حَقٌّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرُهُمْ بِعَذَابِ اَلِيْمٍ أُولَبِكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نُّصِرِينَ ( آل عمران: 22،23) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ الفاتحہ کے بعد چار سورتوں میں دو بنیادی مضامین ہیں ایک اسلامی شریعت کے احکام کہ کیا ماننا ہے اور کیا کرنا ہے دوسرے یہود و نصاریٰ سے کش مکش اعتقادی طور پر بھی اور عملی طور پر بھی سورۃ البقرۃ میں بالخصوص یہود سے کش مکش کا بیان تھا اور سورۃ آل عمران میں بالخصوص عیسائیوں سے کش مکش کا بیان ہے مگر چونکہ عیسائیوں کی ابتدائی جڑھیں یہودیت میں ہیں اس لئے ان کے بارہ میں تفصیلی ذکر کے شروع میں یہود کا ذکر ہے یا دراصل دونوں کا مشترک ذکر ہے.فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ یقیناً وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں یعنی قرآن شریف کا انکار اور اللہ کی سب سے بڑی آیت حضرت محمد مصطفی صلی للی نام کا انکار کرتے ہیں وَ يَقْتُلُونَ النَّبِينَ بِغَيْرِ حَق اور ناحق نبیوں کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور ان کو قتل کرنے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں خواہ وہ قتل ہوں یا نہ ہوں وَ يَقْتُلُونَ الَّذِيْنَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ اور ان کے قتل کے درپے بھی رہتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتے ہیں فَبَشِّرُهُمْ بِعَذَابِ اليْم تم انہیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دو أُولَبِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ یہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع گئے اور آخرت میں بھی ضائع جائیں گے دنیا میں ان لوگوں کی آنحضرت صلی لی ایم کو قتل کرنے ، آپ کے متبعین کو ہلاک کرنے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کی کوششوں کی ناکامی ثبوت ہے اس بات کا کہ ان کی کوششیں آخرت میں بھی مقبول نہیں ہوں گی وَمَا لَهُمْ مِّنْ نَصِرِينَ اور خارجی مددگاروں کی مدد کے ذریعہ بھی وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے.
درس القرآن 82 درس القرآن نمبر 222 الم ترَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُدْعَونَ إلى كتب اللهِ لِيَحْكُم بَيْنَهُم : يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَا مَا مَعْدُودَتِ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ (آل عمران : 24،25) اہل کتاب سے اسلامی کش مکش کا ایک بہت ہی اہم پہلو دونوں مذاہب کی کتابیں ہیں ان کا تقابلی مطالعہ ہی اسلام کی صداقت کا قطعی ثبوت ہے، فرماتا ہے ذرا غور تو کرو کہ وہ لوگ جن کو اللہ کی کتاب کا ایک حصہ دیا گیا جیسا کہ قرآن شریف وضاحت سے فرماتا ہے نہ صرف بنی اسرائیل کی دونوں شاخوں کو کتاب دی گئی بلکہ دنیا کی کوئی امت نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر نہ بھیجا گیا ہو فرمایا اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَب کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ لوگ جن کو کتاب اللہ کا صرف ایک حصہ دیا گیا تھا یدُ عَونَ إِلى كِتَبِ اللهِ اب جو اللہ کی کامل کتاب آگئی اور ان کو اس کی طرف بلایا جاتا ہے لیحْكُم بَيْنَهُمْ کہ وہ ان کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کرے ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ تو ان میں سے گروہ (کے گروہ) منہ پھیر لیتے ورور ہیں وَهُمْ مُعْرِضُونَ اور وہ اعراض کرتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی خود تراشیدہ باتیں ہیں.ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا یہ اس طرح ہے کہ انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا ايَّامًا معْدُودَت کہ ہمیں آگ صرف گنتی کے چند دن چھوٹے گی وَغَدَّهُمْ فِي دِينِهِمْ اور ان کے دین کے بارہ میں ان کو فریب میں ڈالا ہوا ہے مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ان باتوں نے جو وہ خود تراشتے ہیں.قرآن مجید کے مقابلہ میں ان کی کتابوں کا نا مکمل ہونا اتنی واضح اور نمایاں بات تھی جس کا وہ انکار نہیں کر سکتے تھے مثلاً یہودی آخرت کا عقیدہ ایک آدھ فرقہ کے علاوہ مسلم عقیدہ تھا مگر پرانے عہد نامہ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا.عیسائیوں میں تثلیث کا عقیدہ اور شریعت منسوخ ہونے کا تصور خوب رائج ہے مگر سارے نئے عہد نامہ میں حضرت مسیح کے اقوال میں ان دونوں عقیدوں کی طرف اشارہ بھی نہیں.
درس القرآن 83 درس القرآن نمبر 223 لا يُظْلَمُونَ فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ (آل عمران : 26) یہودی بھی اور عیسائی بھی اپنے غلط عقائد اور خلافِ شریعت اعمال کو جواز دینے کے لئے اور آخرت کی سزا سے بچنے کا بہانہ بنانے کے لئے منہ سے تو باتیں کہہ دیتے ہیں.عیسائیوں نے کفارہ کا جھوٹا سہارا لے کر یہ سمجھ لیا تھا کہ جو چاہیں کریں اور یہودیوں کا مشہور فقرہ ہے کہ ہمیں آگ صرف چند دن چھوٹے گی مگر یہ باتیں ان کی الہامی کتابوں سے تو ثابت نہیں اگر ان کی یہ باتیں قیامت کے دن جھوٹی ثابت ہو گئیں تو اس وقت کیا کریں گے ، فرماتا ہے جب ہم اس دن جس کی آمد میں کوئی شک و شبہ نہیں انہیں جمع کریں گے تو ان کا کیا حال ہو گا اور ہر شخص نے جو کچھ کمایا ہو گا اس دن وہ اسے پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا.قُلِ اللهُم مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران : 27) فرماتا ہے یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ روحانی و جسمانی سلطنت ان کا حق ہے درست نہیں.آخری کڑی تو دونوں قسم کی حکومتوں کی اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے.یہاں چونکہ روحانی سلطنت کے بارہ میں عیسائیوں اور اسلام کی کش مکش کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے قُلِ اللهُم مُلِكَ الْمُلْكِ اے میرے اللہ سلطنت کا حقیقی مالک تو ہی ہے تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ تو جسے مناسب سمجھتا ہے سلطنت دیتا ہے وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ اور جس سے مناسب سمجھتا ہے سلطنت لے لیتا ہے وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ اور تو جسے چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ اور تو جسے چاہتا ہے غلبہ کم کر دیتا ہے.بِيَدِكَ الْخَيْرُ سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے إِنَّكَ عَلَى كُلّ شَيْءٍ قَدِیر تو یقینا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے.
درس القرآن 84 درس القرآن نمبر 224 تُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ فِى اليْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ (آل عمران: 28) مِنَ الْحَيِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ گزشتہ آیات میں یہ مضمون چل رہا ہے کہ عیسائیوں کا یہ تصور کہ روحانی سلطنت ان کو عطا کی گئی ہے کے بارہ میں فرمایا تھا کہ مالک الملک خدا ہے جس کو مناسب سمجھتا ہے یہ سلطنت عطا فرماتا ہے.آج کی آیت میں فرماتا ہے دن اور رات کے نظام کو دیکھو، زندگی اور موت کے نظام کو دیکھو، رزق کا نظام دیکھو کیا یہ انسانی کنٹرول میں ہے؟ اگر یہ مادی نظام بھی خدا کے ہاتھ میں ہیں تو روحانی نظام تو بدرجہ اولیٰ اس بات کا سزاوار ہے وہ خدا کے ہاتھ میں ہو.فرماتا ہے تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ في اليلِ کہ تورات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اس کی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” جانا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس بات کو بڑے پر زور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مد و جزر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے تُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ فِي الَّيْلِ ( آل عمران :28) یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے.اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامر اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور مجبوبیت کی پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہو جاتی ہیں.یہ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلتہ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی ال نیم کے ظہور کادن آپہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے.
درس القرآن 85 غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہے کہ جو اس کے لئے مقدر ہے تو عنایت الہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھینچی چلی آتی ہے اور پاک فطرتیں خود بخود رو بحق ہوتی چلی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہر گز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیر ممکن ہے کہ بروقت ظہور کسی صاحب نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو.ان آیات میں جو خدائے تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے جو بنیاد دعویٰ ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی الم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالت پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے.“ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 645 تا647) (بقیہ آیت آئندہ درس میں انشاء اللہ )
درس القرآن 86 درس القرآن نمبر 225 تُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ فِى اليْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ (آل عمران: 28) مِنَ الْحَيِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ جیسا کہ گزشتہ درس میں ذکر ہوا تھا کہ عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچے دین کے پھیلانے کا کام ان کے سپر د ہے درست نہیں.روحانی سلطنت جسے خدا چاہتا ہے دیتا ہے.رات اور دن کی طرح ہدایت اور ضلالت کے دور چلتے ہیں اور رسول اکرم صلی علیم کے ظہور سے پہلے تاریکی کا انتہائی دور ظہور پذیر ہو چکا تھا جس کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک صاحب نور صلی الی یکم کو بھیجا ہے.دوسری بات یہ فرمائی وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَيِّ کہ تو ہی مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے یعنی ایک ایسی قوم جو بالکل مردہ حالت میں تھی اور اخلاق سے کلیۂ بے بہرہ تھی اسے زندہ کر ناخد اتعالیٰ کا ہی کام تھا جس کا نمونہ تم نے دیکھ لیا یعنی جو لوگ پہلے مردہ تھے اور طبائع میں ان کے کوئی جوش نہ تھا اور اخلاق فاضلہ سے محروم تھے تو ان کو زندہ کرتا ہے اور کئی اقوام جو پہلے اخلاق فاضلہ رکھتی تھیں اور معزز سمجھی جاتی تھیں ان کو مار تا اور ہلاک کرتا ہے.وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ پھر روحانی سلطنت کا دینا یا نہ دینا خدا کے ہاتھ میں ہے اس کا ایک اور ثبوت پیش کرتا ہے دن، رات اور زندگی، موت تو خالصتاخد ا کے ہاتھ میں ہیں وہ چیز جس میں بظاہر نظر انسانی کوشش اور علم اور جد وجہد کا دخل ہے وہ بھی بالآخر خدا کے ہاتھ میں ہے وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ کہ بغیر تنگی اور مشکل کے اور بہت زیادہ رزق جس کو مناسب سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے پھر روحانی سلطنت کا دینا کیوں خدا کا کام نہ سمجھا جائے.
درس القرآن 87 س القرآن نمبر 226 لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاء مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَ إِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (آل عمران : 29) اسلام اور عیسائیت کی کش مکش کے بیان میں یہ آیت ایک بہت ہی بنیادی بات پر مشتمل ہے جس پر عمل نہ کرنے کے اثرات آج عالم اسلام بڑی تکلیف سے محسوس کر رہا ہے اور وہ تعلقات اور دوستیاں ہیں جو مسلمانوں کو چھوڑ کر اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف عیسائی دنیا مسلمان حکومتی لیڈروں نے لگائیں اور اب اس سے سخت نقصان اٹھا رہے ہیں.قرآن شریف نے ایک طرف تو سورۃ الممتحنۃ میں واضح طور پر فرما یا لَا يَنْكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ کہ اللہ تمہیں ان سے نہیں منع کرتا جنہوں نے تم پر دین کی وجہ سے حملے نہیں کئے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے اعلیٰ درجہ کا نیک سلوک کرو اور ان سے انصاف کا سلوک کرو.دوسری طرف یہ آیت ہے جس میں فرمایا ہے لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَفِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ کہ مومن ان دوسرے مومنوں کو چھوڑ کر اور دوسرے مسلمانوں کے خلاف کفار کو دوست نہ بنائیں وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ اور جو ایسا کرے فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ اس کا اللہ سے کچھ تعلق نہیں اِلَّا اَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقبةً سوائے اس کے کہ تم ان سے پورے محتاط رہو دو وَيُحَدِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَہ اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے خبر دار کرتا ہے وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے.افسوس کہ ظاہری مذہبی شدت پسند مولویوں نے پہلی آیت کی نافرمانی کی اور ہر غیر مسلم سے تعلقات کو کفر قرار دیا اور مسلمان سیاسی لیڈروں نے دوسری آیت کی نافرمانی کی اور مناسب تعلقات کی حدود سے نکل کر غیر مسلم حکومتوں سے مالی امداد قبول کی اور عالم اسلام کو ایک خطر ناک پھندے میں پھنسا دیا.
درس القرآن 88 القرآن نمبر 227 قُلْ اِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمُهُ اللهُ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرَ وَ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ تَوَدُّ لَوْ آنَ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدً اوَيُحَةِ رُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ( آل عمران : 31،30) اسلام و عیسائیت کی کش مکش کا صرف ظاہر سے تعلق نہیں بلکہ بنیادی طور پر تو مذہب کا تعلق ہی دل کی گہرائیوں سے ہے.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی کش مکش میں مسلمانوں کو خدا کے خوف سے کام کرنا چاہیئے، فرماتا ہے قُل اِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ اَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمُهُ اللهُ ان کو کہو کہ خواہ تم چھپاؤ جو تمہارے سینوں میں ہے یا اس کو ظاہر کرو اللہ اسے جانتا ہے.وَيَعْلَمُ مَا فِي السّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اور اللہ تو اسے بھی جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے.يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا جس دن ہر جان جو نیکی بھی اس نے کی ہو گی اسے اپنے سامنے حاضر پائے گی وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوء اور اس بدی کو بھی جو اس نے کی ا ہو گی تَوَدُّ لَو اَنَّ بَيْنَهَا وَ بَيْنَ آمَدًا بَعِيدًا کہ وہ تمنا کرے گی کہ کاش اس کے اور اس کی بدی کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہو تا وَ يُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَہ اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے خبر دار کرتا ہے وَاللهُ رَسُوفُ بِالْعِبَادِ حالا نکہ اللہ بندوں سے بہت مہربانی سے پیش آنے والا ہے.ان دو آیات میں اس لطیف مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ صرف اللہ سے ڈرو، نہ عیسائی طاقتوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے ، نہ ان سے ڈر کر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اور مسلمانوں کو چھوڑ کر ان عیسائی طاقتوں سے دوستیاں کرنے کی ضرورت ہے.
درس القرآن 89 درس القرآن نمبر 228 609 قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ (آل عمران: 32) اسلام اور عیسائیت کے تقابلی مطالعہ میں اس آیت میں عیسائیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں گویاز بر دست دلیل دی گئی ہے کہ :.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میرے پیچھے پیچھے چلنا اختیار کرو یعنی میرے طریق پر جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے قدم مار و تب خد اتعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 165) یہ اسلام کی صداقت اور موجودہ بگڑی ہوئی عیسائیت کی تردید کی ایک گویا سب سے زیادہ مضبوط ، قوی اور زبر دست دلیل ہے کیونکہ دونوں مذاہب اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں اور اعلان عام ہے کہ میری پیروی کرو تم خدا کے محبوب بن جاؤ گئے.اب اگر عیسائیت سچا مذ ہب ہے تو اس میں ایسے لوگ ہونے چاہئیں کہ یسوع کی پیروی سے وہ خدا باپ کے محبوب بن گئے ہیں.کیا ایک عیسائی بھی ہے جو علی الاعلان یہ دعویٰ کرتا ہو کہ میں یسوع کی پیروی سے خدا کا محبوب بن گیا ہوں اور اس کا یہ ثبوت ہے.مگر مسلمانوں میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے اور اس زمانہ میں بھی ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اِس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللی کیم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا.اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی ا یکم کے خدا تک نہیں
درس القرآن 90 پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللی کم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پید اہوتی ہے.سویادر ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے.پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی الی یکم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) یعنی اُن کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے.جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 65،64)
درس القرآن 91 درس القرآن نمبر 229 قُلْ أَطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ (آل عمران : 33) اسلام اور عیسائیت کی کش مکش میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اطاعت کس کی فرض ہے ؟ عیسائیت نے اللہ کی اطاعت چھوڑ دی اللہ نے ان کی کتاب میں بھی توحید کا حکم دیا تھا شریعت پر عمل کا حکم دیا تھا سور کو حرام قرار دیا تھا ایک سے زیادہ شادی کی اجازت تھی.طلاق کی اس شرط سے اجازت دی تھی کی طلاقنامہ لکھ کر دیا جائے مگر عیسائیوں نے ان سب باتوں کی نافرمانی کا فتویٰ دیا.خدا کے بعد اس کی اطاعت ضروری ہے جو خدا کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہے یسوع نے جو خدا کا رسول تھا (نبی اور بھیجا ہوا دونوں الفاظ یسوع کے متعلق نئے عہد نامہ میں استعمال ہوئے ہیں) نے صاف فرمایا تھا کہ یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.“ مگر عیسائیوں نے علی الاعلان اس فرمان کی اطاعت نہیں کی.یسوع نے کہا کہ ” میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا.“ اور اپنے متبعین کو حکم دیا کہ وو غیر قوموں کی طرف نہ جانا مگر عیسائی علی الاعلان اس حکم کی اطاعت سے منکر ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ عدی بن حاتم نے حضور صلی الم سے عرض کیا کہ قرآن شریف اہل کتاب کے بارہ میں کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو خدائی کا درجہ دے رکھا ہے ؟ عدی نے کہا کہ وہ تو ان کی عبادت نہیں کرتے ؟ اس پر آپ صلی یہی ہم نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ جو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اس کو حرام قرار نہیں دیتے اور جو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو حلال نہیں کرتے ؟ عدی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ایسا ہی ہے.اس پر حضور صلی علیم نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو یہی ان کا معبود بننا ہے.(روح المعانی زیر آیت سورۃ التوبہ آیت نمبر 31 جلد 10 صفحہ 387 دار الاحیاء التراث العربی بیروت 1999ء)
درس القرآن 92 درس القرآن نمبر 230 إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَ آلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَلَمِيْنَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (آل عمران : 34،35) اب اس آیت سے با قاعدہ عیسائیت کا آغاز اور اس کی تعلیم اور اس کی بنیادی تاریخ کا ذکر کر کے اسلام سے موازنہ کیا ہے.فرماتا ہے کہ ابتداء عیسائیت سچا مذ ہب تھا اور دنیا کے اس دور کی جس کی ابتداء آدم سے ہوئی جو انسانیت کے ترقی یافتہ تمدن کا ابتدائی نقطہ تھا کے تسلسل میں عیسائیت شامل ہے پھر آدم کے ذریعہ تمدنی ترقی کے بعد نوح کی شریعت کا سلسلہ شروع ہوا اور احکام شریعت وسیع پیمانہ پر دیئے گئے پھر یہ ارتقاء کا سلسلہ حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان تک ممتد ہوا اور پھر حضرت مریم اور حضرت عیسی کے خاندان تک پہنچا.اس لئے عیسائیت اپنی ابتداء سے خاندانِ عمران تک سچائی پر قائم تھی.فرماتا ہے اللہ نے آدم اور نوح کو اور ابراہیم کے خاندان اور عمران کے خاندان کو یقیناً سب جہانوں میں ممتاز مقام دیا ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضِ اللہ نے ایک ایسی نسل کو فضیلت کا یہ مقام دیا بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ جو ایک دوسری سے پوری مطابقت رکھنے والی تھی اور اللہ بہت سننے والا ، جاننے والا ہے.(آل عمران : 36) اذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمران جب عمران کے خاندان کی ایک عورت نے کہا رَبّ اتی نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطنِى مُحَزَرًا فَتَقَبَّلْ مِنّى جو کچھ میرے بطن میں ہے اسے آزاد کر کے میں نے تیری نذر کر دیا ہے پس اسے تو میری طرف سے قبول فرما إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ يقيناً تو بہت ہی سننے والا، بہت جاننے والا ہے.فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أنثى پھر جب وہ اسے جنم دے کر فارغ ہوئی تو انہوں نے کہا میں نے اسے لڑکی کی شکل میں جنا ہے واللهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ اور جو کچھ اس نے جنا تھا اسے اللہ سب سے زیادہ جانتا تھا وَ لَيْسَ الذَّكَرَ كَالا نٹی اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہو تا جو فوائد اور برکات لڑکی سے ملتے ہیں وہ لڑکے سے تو نہیں مل سکتے وَإِنِّي سَيْتُهَا مَرْيَمَ اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے یعنی وہ جو اپنے گھر سے بہت دور چلی جائے گی وَإِنِّي أَعِيْنُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِیمِ اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو مردود شیطان کے حملوں سے تیری پناہ میں دیتی ہوں.(آل عمران : 37)
درس القرآن 93 القرآن نمبر 231 فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَن وَ أَنْبَتَهَا نَبَاتَا حَسَنًا وَكَفَلَهَا زَكَرِيَّا كُلَّمَا دَخَلَ 91911 ( آل عمران : 38،39) عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يُمَرِّيَمُ انّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ اسلام اور عیسائیت کی کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے قرآن شریف جو عدل و انصاف سے بھر پور کتاب ہے موجودہ بگڑی ہوئی عیسائیت پر تنقید کرنے سے پہلے اس کی پاکیزہ ابتداء کا ذکر فرماتا ہے فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَن کہ حضرت مریم کی والدہ کی دعا کے نتیجہ میں حضرت مریم کو ایک حسین قبولیت کے ساتھ قبول کر لیا و انبتَهَا نَبَاتَا حَسَنًا اور اس کی احسن رنگ میں نشو و نما کی وَ كَفَلَهَا زَكَرِيَّا اور زکریا کو اس کا کفیل ٹھہرایا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَاب جب کبھی بھی زکریا اس کے پاس محراب میں داخل ہو ا وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا تو اس نے اس کے پاس رزق پایا قَالَ يَمَرْيَمُ الى لكِ هذا اس نے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللہ اس نے کہا یہ اللہ کی طرف سے ہے إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِساب یقینا اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے.هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّه اس موقع پر زکریا نے اپنے رب سے دعا کی رَبِّ هَبْ لِي مِنْ تدتكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً اے میرے رب مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا فرما إِنَّكَ سَمِيعُ الله عاء یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے.حضرت مصلح موعود اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نہایت اعلیٰ درجہ کی قبولیت کا شرف بخشا.ان کی والدہ کے ذہن میں تو یہ تھا کہ یہ لڑکی کس کام کی ہو گی.لیکن خدا تعالیٰ نے اسے قبول کیا اس کی نہایت نیک اٹھان ہوئی.اور خدا تعالیٰ کے سایہ میں اس نے پرورش پاکر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی حضرت مریم کو زکریا نے اپنی تربیت میں لے لیا اور انہیں اپنے گھر کے
درس القرآن 94 بہترین حصہ میں رکھا.ان کے دل میں دین کی محبت پیدا ہو گئی.وہ اس یقین کامل پر پہنچ گئیں کہ جو کچھ آتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے.حضرت زکریا جب کبھی ان کے پاس ریف لے جاتے تو وہ ان کے پاس کھانے کی مختلف چیزیں دیکھتے ایک دفعہ انہوں نے کھانے پینے کی مختلف چیزیں دیکھ کر حضرت مریم سے سوال کر دیا کہ بچی یہ چیزیں تمہیں کس نے دی تھیں؟ حضرت مریم نے معصومانہ انداز میں جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب ایسا متاثر کرنے والا تھا کہ حضرت زکریا پر رقت طاری ہو گئی.اور انہوں نے خد اتعالیٰ سے مجسم دعا بن کر عرض کیا کہ خدایا تو مجھے بھی اپنے فضل سے ذُرِّيَّةً طَيِّبَة بخش اور ایسا بچہ عطا فرما جو اپنے اندر روحانی کمالات و اوصاف رکھتا ہو.“ (نوٹس غیر مطبوعہ حضرت مصلح موعود زیر آیت آل عمران آیت نمبر 38،39رجسٹر نمبر 12 صفحہ 38،39)
95 درس حدیث نمبر 79 الله حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن حدرد سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں حتی کہ حضور صلی الی یکم نے بھی اپنے گھر میں یہ آوازیں سن لیں.آپ نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹایا اور آواز دی یا کعب.کعب نے کہا لبیک یار سول اللہ آپ نے فرما یا ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هذا کہ اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو اور آپ نے اشارہ سے نصف فرمایا کعب نے عرض کیا یارسول اللہ میں ایسا کرتا ہوں اس پر حضور صلی الی ایم نے ابن ابی حد ر ڈ کو فرمایا قُمْ فَاقْضم جاؤ اور قرض ادا کرو.(بخاری کتاب الصلوۃ باب التقاضى والملازمة في المسجد457) اس حدیث میں حضور صلی ال کلیم نے معاشرہ کی ایک تکلیف دہ کمزوری کا سد باب فرمایا ہے.لوگ اپنی ضروریات کے لئے دوسروں سے قرض لیتے ہیں اور بعض جن کو توفیق ہوتی ہے قرض دیتے ہیں.جب قرض کی واپسی کی مقررہ مدت آتی ہے تو بعض دفعہ مقروض اپنی مجبوری کی وجہ سے یا بعض دفعہ تساہل کی وجہ سے قرض کی واپسی میں تاخیر کرتا ہے.دوسری طرف یہ بھی ہوتا ہے کہ قرض دینے والا اپنے قرض کی واپسی کے لئے ناجائز سختی کرتا ہے یا مقروض کی مجبوری کو جانتے ہوئے بھی تلخی سے کام لیتا ہے حالانکہ اس کو اللہ نے کشائش دی ہوتی ہے اور اگر اس کو فوری طور پر اپنی رقم واپس نہ ملے تو اس کا کوئی حقیقی ہرج نہیں ہو تا.جو واقعہ اوپر بیان ہوا ہے اس میں دونوں فریق کے لئے نصیحت کا سامان موجود ہے.قرض دینے والا اگر مقروض کو وقت کے لحاظ سے یار قسم کے لحاظ سے کچھ سہولت دیتا ہے تو یہ اس کے لئے باعث ثواب ہے اور اگر مقروض وقت پر لیا ہوا قرض واپس دینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کا فرض ہے جس کی ادائیگی اس کے لئے اجر کا باعث ہے.
96 درس حدیث نمبر 80 مالک بیان کرتے ہیں کہ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِي الله وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةٌ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ الله رَحِيمًا رَفِيْقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدِ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ: ارْجِعُوْا إِلَى أَهْلِيْكُمْ فَأَقِيمُوا فِيْهِمْ وَعَلِمُوْهُمْ وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلوةُ فَلْيُؤَمِّن لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ ( بخاری کتاب الأذان باب الأذان للمسافر اذا كانوا جماعة والاقامة631) مجلس خدام الاحمدیہ میں ایک طریق جاری ہے جو تربیتی کلاس کا انعقاد کہلاتا ہے.بالعموم میٹرک کے امتحان کے بعد چھٹیوں میں ہم عمر نوجوان مرکز میں آتے ہیں اور ان کی دینی تعلیم و تربیت کا انتظام مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے کیا جاسکتا ہے.ہمارے دوسرے تمام کاموں کی طرح یہ کام بھی حضور صلی ال کم کی سنت مبارکہ کی پیروی میں کیا جاتا ہے.ایک نوجوان مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم کچھ ہم عمر نوجوان تھے اور حضور کی خدمت میں 20 دن رہے اور رسول اللہ صلی لنی کیم بہت ہی رحم کرنے والے اور بہت ہی دوستانہ انداز میں سلوک کرنے والے تھے.پھر جب آپ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کی یاد آرہی ہے.آپ نے ہم سے ان کے بارہ میں پوچھا جن کو ہم پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں.ہم نے آپ کو بتایا پھر آپ نے فرمایا تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اور ان کے پاس رہو اور ان کو تعلیم دو اور جس طرح تم نے مجھے دیکھا اس طرح نماز پڑھو اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے ایک اذان دے اور تم میں سے بڑا نماز پڑھائے.دینی تعلیم و تربیت کے لئے یہ ایک سادہ اور آسان مگر نہایت مؤثر اور مفید طریق ہے.
97 درس حدیث نمبر 81 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ الله كَانَ يَدْعُوا فِي الصَّلوة اللهمَّ إِنِّي اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مَا أَكْثَرُ مَا تَسْتَعِيذُ يَارَسُوْلَ اللهِ مِنَ الْمَغْرَمِ؟ قَالَ: اِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرَمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ (بخاری کتاب الاستقراض واداء الديون باب من استعاذ من الدين 2397) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للی ایک بہت دفعہ نماز میں یہ دعا کرتے کہ اے اللہ میں گناہ اور قرض کے بوجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں.کسی نے پوچھا حضور آپ کثرت سے یہ دعا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں انسان پر جب قرض کا بوجھ ہوتا ہے تو وہ بات میں جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی الی یکم نے معاشرہ کی ایک تکلیف دہ بیماری کا ذکر فرمایا ہے جس سے حضور صلی اللی کام اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے.بے شک قرض لینے کی اجازت ہے اور حقیقی ضرورت کے وقت معاشرہ کے نیک لوگ قرض لیتے بھی ہیں، دیتے بھی ہیں اور بروقت اس کی ادائیگی کا انتظام بھی کرتے ہیں مگر جو لوگ حقیقی ضرورت کے بغیر صرف کسی لگژری کی خاطر قرض لیتے ہیں یا واپسی کے لئے وہ فکر نہیں کرتے جو ان کا اخلاقی فرض ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ واپسی کے وقت ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ، غلط بیانی سے بھی باز نہیں آتے ، وعدہ خلافی کرتے ہیں.ہمارے نبی حضور صلی یم نے جہاں ہر طرح کی نیکی کے بارہ میں جامع سبق دیئے ہیں الله اور ہر طرح کی برائی سے بچنے کی راہنمائی فرمائی ہے وہاں قرض کی بروقت ادائیگی نہ کرنے کے نتیجہ میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کی طرف بھی مؤثر رنگ میں توجہ دلائی ہے.
98 درس حدیث نمبر 82 حضرت انس بیان کرتے ہیں كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ يا اللهُ أَكْثَرُنَا ظِلَّا الَّذِي يَسْتَظِلُّ بِكِسَائِهِ وَأَمَّا الَّذِينَ صَامُوا فَلَمْ يَعْمَلُوا شَيْئًا وَأَمَّا الَّذِينَ أَفْطَرُوا فَبَعَثُوا الرِّكَابَ وَامْتَهَنُوا وَعَالَجُوا فَقَالَ النَّبِيُّ الله ذَهَبَ المُفْطِرُوْنَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الخدمة في الغزو2890) قرآن شریف نے نیکی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ صرف اتنا نہیں کہ وہ کام اپنی ذات میں نیک ہو بلکہ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ کام صالح ہو ، عین وقت اور موقع اور ضرورت کے مطابق بھی ہو.یہ واقعہ جو انس نے بیان فرمایا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس طرح ہوا کہ حضور صلی الی یا اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور شدید گرمی تھی اور کوئی درخت یا عمارت یا پہاڑ وغیرہ کا سایہ نہ تھا.کیونکہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص کے لئے سوائے اس کی اپنی چادر کے کوئی سایہ نہ تھا.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ کچھ صحابہ روزہ سے تھے اور کچھ بغیر روزہ کے تھے.اب عام دیکھنے والا شاید ان لوگوں کی تعریف کرتا جو گرمی کی شدت اور سفر کے باوجو د روزہ رکھے ہوئے تھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ کچھ صحابہ نے تو روزہ رکھا ہو ا تھا وہ تو کچھ کام نہ کر سکے مگر جنہوں نے روزہ نہیں رکھا ہوا تھا انہوں نے فَبَعَثُوا الرّابَ وَامْتَهَنُوا وَعَالَجُوا انہوں نے اونٹوں کو اٹھایا اور ان کی دیکھ بھال کی اور (دوسرے) کام کئے.نبی صلی یم نے فرمایا ذهب المُفْطِرُوْنَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ کہ آج روزہ نہ رکھنے والے اجر لے گئے.اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیکی میں حالات اور ضرورت اور موقعہ اور وقت کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے.
99 83 درس حدیث نمبر 83 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرْعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ ( بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب 6114) ہمارے ملک میں جب کبڈی کا میچ ہو رہا ہوتا ہے تو ہماری پبلک بڑے زوق و شوق سے مقابلہ دیکھنے جاتی ہے.ایک پہلوان جب دوسرے کو پچھاڑ تا ہے تو واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے ہیں، تالیاں پیٹی جاتی ہیں جیتنے والے پر نوٹ نچھاور کئے جاتے ہیں.دیکھنے والے تعریفوں کے پل باندھتے ہیں.اس عارضی فتح پر جو چند لمحوں کی فتح ہوتی ہے ، اس وقتی خوشی پر جو چند گھنٹوں سے زیادہ کی خوشی نہیں ہوتی، جس کا فائدہ بھی اس دنیا میں محدود ہے اور وہ بھی زندگی کی ایک دو شاخوں میں لوگ اس کو عظیم سمجھتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی للہ ہم نے اس فتح کو جو صرف اس دنیا میں کام نہیں آتی مگر دوسری دنیا میں بھی فوز عظیم بہت بڑی کامیابی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس دنیا میں نہایت مفید اور بابرکت نتائج پیدا کرتی ہے.آپ نے اس فتح کو اصل فتح قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ ایک پہلوان جو دوسرے پہلوان کو پچھاڑ لیتا ہے اصل بہادری کا مظاہرہ نہیں کر رہا.اصل بہادر وہ ہے جو يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ جس کو غصہ آیا ہوا ہو اور وہ سزا دینے کی ، بدلہ لینے کی طاقت بھی رکھتا ہو.پھر وہ اپنے غصہ پر قابو پالیتا ہے اور رد عمل دکھاتا ہے اور پھر حضور صلی الی یکم نے صرف نصیحت نہیں کی بلکہ اس پر صبر اور کنٹرول کا ایک نسخہ بھی بتایا کہ جو شخص غصہ کے وقت اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ پڑھے تو اس کے غصہ کی کیفیت جاتی رہے گی.( بخاری کتاب الأدب باب الحذر من الغضب 6115) اس سے بڑھ کر حضور صلی ایم نے صریح ظلم کے خلاف غصہ نہ کرنے کا عظیم الشان اسوہ حسنہ بھی دکھایا اور بار بار دکھایا.مثلاً ایک موقعہ پر جب ابو جہل نے آپ صلی ایم کے چہرہ مبارک پر طمانچہ مارا تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا، کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور صبر اور ضبط کا اعلیٰ ترین نمونہ دکھایا.
100 درس حدیث نمبر 84 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل الم نے فرمایا: نَزَلَ نَبِيٌّ مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَلَدَغَتْهُ نَمْلَةٌ فَأَمَرَ بِجَهَازِهِ فَأُخْرِجَ مِنْ تَحْتِهَا ثُمَّ أَمَرَ بِبَيْتِهَا فَأَحْرِقَ بِالنَّارِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: فَهَلَّا نَمْلَةً وَاحِدَةً ( بخاری کتاب بداء الخلق باب خمس من الدواب فواسق، يقتلن في الحرم 3319) آج کی دنیا میں جو باتیں انسان کے نقصان دینے والی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ جانوروں اور درختوں کو بے دریغ ختم کیا جارہا ہے.جانتے بوجھتے یا بغیر ارادہ کے یہ دونوں چیزیں نقصان پر نقصان اٹھارہی ہیں.آہستہ آہستہ اب بعض ممالک میں اس خطرہ کی طرف توجہ ہے.مگر جو کوششیں اس خطرہ کو دور کرنے کی کی جارہی ہیں.وہ خطرہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.اس خطرہ کی وجہ سے فضاء میں آلودگی پیدا ہورہی ہے.جو حدیث ہم نے پڑھی ہے اس میں اس کے تدارک کی طرف اشارہ ہے.حضور صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ ایک نبی نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیا ایک چیونٹی ان کو کاٹ گئی تو انہوں نے فرمایا کہ درخت کے نیچے سے ان کا سامان نکال لیا جائے اور وہاں جو چیونٹیوں کی کانی ہے اس کو آگ لگادی جائے.اس پر اس نبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی هَلَّا نَمْلَةٌ وَاحِدَةٌ کیوں نہ صرف ایک چیونٹی و...حقیقت یہ ہے کہ نظام کائنات میں ایک توازن ہے.اگر انسان اپنے زور بازو سے یا اپنی ضروریات کے لئے اس نظام کو غلط رنگ میں استعمال کرتا ہے تو وہ اس توازن کو بگاڑتا ہے.بے شک شریعت میں بھی بعض جانوروں کو ہلاک کرنے کی اجازت دی گئی ہے.مگر وہ اس پیمانہ پر ہے جس پیمانہ پر درخت کی چھانٹی کی جاتی ہے.یہ چھانٹی درخت کے لئے مضر نہیں ہوتی بلکہ اس کی بڑھوتری کا موجب ہوتی ہے.مگر آج کل کے تمدن اور معاشی صور تحال نے ہزاروں انواع و اقسام کے جانوروں اور نباتات کو جن کا وجود انسان کے لئے مفید ہے، ختم کر دیا ہے.حضور صلی الی ظلم کے اس ارشاد میں اس کا علاج ہے.
101 درس حدیث نمبر 85 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں: أَنَّ رِجَالًا مِّنَ الْأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُوْلَ الله الله فَقَالُوا : يَارَسُوْلَ اللهِ الْذَنْ فَلْنَتْرُك لابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ فَقَالَ: لَا تَدَعُونَ مِنْهَا دِرْهَمَّا ( بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فداء المشركين3048) کہا جاتا ہے کہ جہاں عدل و انصاف ایک ضروری اور بنیادی چیز ہے وہاں معاشرہ کی اصلاح و بہتری کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ عدل و انصاف ہو تا ہوا بھی نظر آئے.اگر انصاف ہو رہا ہو مگر کسی غلط فہمی کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس نہ ہو کہ معاشرہ میں انصاف ہو رہا ہے تو اس کا وہ فائدہ نہ ہو گا جو ہونا چاہیے.آج کی حدیث میں جو واقعہ بیان ہے وہ نہ صرف انصاف کی زبر دست مثال ہے بلکہ اس بات کا بھی ایک نمونہ ہے کہ لوگوں کو انصاف ہوتا نظر آئے.بدر کی جنگ کے موقع پر قریش مکہ ایک لشکر جرار لے کر حضور صلی الم پر حملہ کرنے کے لئے آئے.جس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا لشکر تعداد کے لحاظ سے بھی اور ہتھیار اور ساز و سامان کے لحاظ سے بھی دشمن کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی غیر معمولی فتح دی جس کی جنگوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی.اس جنگ میں قریش مکہ کے لشکر میں حضرت عباس بھی شامل تھے جو نہ صرف حضور صلی ال نیلم کے سگے چچا تھے بلکہ دونوں میں ایک دوسرے سے پیار کا گہرا تعلق تھا.جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو قریش مکہ کے مقابلہ میں غیر معمولی فتح دی تو مسلمانوں نے دشمن کے لشکر میں سے 70 سپاہیوں کو قیدی بنالیا.ان قیدیوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ ان کو کچھ فدیہ لے کہ چھوڑ دیا جائے خواہ یہ فدیہ رقم کی صورت میں ہو یا جو قیدی تعلیم یافتہ ہیں وہ مدینہ کے دس دس (10-10) بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں.حضرت عباس کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ دل سے نہ صرف مسلمان ہو چکے تھے بلکہ اسلام کی خاطر ہی بظاہر نظر کافر کے طور پر مکہ میں مقیم تھے.جب وہ قید ہوئے تو انصار مدینہ کے کچھ لوگوں نے حضور صلی اللی علم کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اجازت فرمائیں تو
102 ہم اپنے بھتیجے عباس سے فدیہ وصول نہ کریں.(حضرت عباس کی دادی چونکہ مدینہ کی رہنے والی تھیں اس لئے مدینہ والوں نے یہ عذر بنالیا ورنہ ہر شخص جانتا تھا کہ اصل بات تو حضرت عباس کے حضور صلی ا یکم سے تعلق کی وجہ سے یہ درخواست دی جارہی تھی) مگر حضور صلی ا یم نے سنتے ہی Outright اس تجویز کو نامنظور کر دیا اور اس طرح معاشرہ میں انصاف کے قیام کی ایک سنہری مثال قائم فرمائی.
103 درس حدیث نمبر 86 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ أَنَّ رَسُولَ الله صل الله قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِ الأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوْا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا ( بخاری کتاب الشهادات باب القرعة في المشكلات 2689) اسلام کی تعلیم اگر چہ انسانی زندگی کی تمام شاخوں پر پھیلی ہوئی ہے مگر عمل کے لحاظ سے عموماً سب سے زیادہ نماز اور ذکر الہی پر ہے.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی اللی کرم فرماتے ہیں.اگر لوگ جانتے کہ اذان دینے میں اور پہلی صف میں نماز ادا کرنے میں کیا ثواب اور برکت ہے.پھر وہ کوئی صورت نہ پاتے سوائے اس کے کہ قرعہ ڈال کر فیصلہ کریں تو وہ ضرور قرعہ ڈالتے.اس ارشاد میں ہمارے نبی صلی ا یکم نے بہت ہی موثر اور لطیف رنگ میں عبادت اور عبادت کی طرف بلانے کے ثواب کا ذکر فرمایا ہے.ہم بہت دفعہ دیکھتے ہیں کہ لوگ نماز میں آنے یا نماز کے لئے پہلی صف میں بیٹھنے میں تساہل کر رہے ہوتے ہیں.پہلی صف میں نماز پڑھنے کے ثواب کے ذکر سے یہ مقصود ہے کہ نماز کے لئے جلد سے جلد آؤ اور نماز کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ.قرآن مجید اور حدیث میں سستی اور بے وجہ تاخیر کے لئے نا پسندیدگی کا اظہار ہے اور ہمارے نبی صلی الی یکم دعا کیا کرتے تھے جس میں سستی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے پوچھا سب سے بڑی نیکی کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ ہم نے جواب میں فرمایا الصَّلوةُ عَلَى وَقْتِهَا وقت پر نماز ادا کرنا سب سے بڑی نیکی ہے.دوسری بات جس کی طرف اس حدیث میں توجہ دلائی گئی ہے وہ اذان دینے کا ثواب ہے.اذان اسلام کی تعلیم کا ایک نہایت ضروری اور مفید حکم ہے اور ایک عجیب و لطیف رنگ میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی مسلمان پبلک کو یاد دہانی کروائی گئی ہے.شاید اگر عیسائیوں میں پانچ (5) وقت یہ آواز بلند ہو رہی ہوتی کہ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ عِيْسَى رَسُولَ اللهِ تو وہ عیسیٰ کو خدانہ کہتے.وَاللهُ اَعْلَمُ
104 درس حدیث نمبر 87 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللی کرم نے فرمایا: لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ (بخاری کتاب الصوم باب السواك الرطب واليابس للصائم 1934) کہ اگر میں اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈال دیتا تو میں ان کو حکم دیتا کہ ہر وضوء کے ساتھ مسواک کیا کریں.ہمارے نبی صلی الکریم نے جتنا زور جسم اور لباس اور دانتوں اور پھر گھر بار کی صفائی پر دیا ہے اتنازور کسی نبی نے نہیں دیا.نہ کسی مذہبی کتاب میں صفائی کے لئے اتنی تاکید کی گئی ہے اور حضور صلی الی کام کی یہ تعلیم صدیوں تک مسلمانوں پر اثر انداز رہی.امریکہ کے ایک سکالر پروفیسر سلیمان نیانگ نے ایک دفعہ افریقن آرٹ میوزیم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی تبلیغ کے طور پر تو اسلام کا تعارف امریکہ میں 20 کی دہائی میں ڈاکٹر مفتی محمد صادق نے کیا.مگر ڈاکٹر سلیمان نیانگ نے مجھے بتایا کہ اسلام امریکہ میں پہلے متعارف ہو چکا تھا اور وہ اس طرح کہ جب امریکن عیسائی افریقہ سے لوگوں کو غلام بنا کر پکڑ کر لائے تو امریکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ ان میں دو قسم کے افریقن بڑے نمایاں ہیں.ایک تو وہ ہیں جو گندے رہتے ہیں، کپڑے بھی گندے، نہانے دھونے کی بھی کوئی پرواہ نہیں مگر دوسرا ایک گروہ ہے جو پانچ دفعہ دن میں ہاتھ ، منہ ، بازو، پاؤں دھوتا ہے، صاف کرتا ہے اور یہ گروہ مسلمانوں کا تھا.سپین سے جب مسلمانوں کا اخراج ہوا اور عیسائیوں نے مسلمان حکومت ختم کی تو بہت سے مسلمان قتل کے ڈر سے ظاہر اعیسائی ہو گئے اور عیسائی حکومت نے ان کے قتل عام کا حکم دیا تو کہا کہ کچھ لوگ مسلمانوں میں سے عیسائی ہو گئے ہیں ان کو پہچاننے کے لئے یہ علامت ہے کہ وہ نہاتے دھوتے اور صفائی کا اہتمام کرتے ہیں.آج کے مسلمانوں کو بھی اس روایت کو قائم رکھنا چاہیئے.
105 درس حدیث نمبر 88 صحیح بخاری میں بڑی تفصیل کے ساتھ حضور علی ایم کے سفر حدیبیہ اور حدیبیہ میں صلح کے واقعات بیان ہیں.اس میں ایک بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قریش مکہ کی طرف سے جو نمائندے باری باری حضور صلی علیم کی خدمت میں صلح کی شرائط طے کرنے کے لئے حاضر ہوئے ، ان میں سے ایک عروة بن مسعود تھا.جس کو قریش میں ایک بزرگانہ مقام حاصل تھا.وہ جب حضور صلی ال ایام سے مل کر واپس مکہ گیا اور قریش کو اس نے اپنی رپورٹ دی تو اس رپورٹ میں صحابہ کرام کی حضور صلی یکم سے محبت اور آپ کے لئے فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آئی قَوْمِ وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى المُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِي وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَلِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدِي يا الله مُحَمَّدًا ( بخاری کتاب الشروط باب الشروط فى الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط 2731) کہ اے میری قوم اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے پاس نمائندہ بن کر گیا ہوں.میں قیصر (شاہ روم) کسری ( شاہ ایران) اور نجاشی ( شاہ حبشہ کے پاس نمائندہ بن کر گیا ہوں.میں نے کوئی بادشاہ نہیں دیکھا جس کی تعظیم اس کے ساتھی اس طرح کرتے ہوں جس طرح محمد سلام) کے صحابہ محمد صلی ا یکم کی تعظیم کرتے ہیں.یہ بیان ایک کافر بلکہ ایک دشمن کا فر کا ہے جو وہ صحابہ کی رسول اللہ صلی الی یکیم کے لئے محبت اور فدائیت کی گواہی دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ جو اپنے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں.صحابہ کو برا بھلا کہتے اور آپ صلی ال کلم پر فدا ہونے والوں کو آپ کا دشمن قرار دیتے ہیں.
106 درس حدیث نمبر 89 حضرت ہشام بن حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ میں نے شام کو کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کو دھوپ میں کھڑا کر کے سزادی جارہی ہے.میں نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ جواب ملا کہ ان لوگوں نے ٹیکس نہیں دیا.ہشام امیر کے پاس گئے اور اس کو کہا: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ لا يَقُولُ إِنَّ اللهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا الله (مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق6658) کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی ا ظلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں.امیر نے یہ سن کر ان لوگوں کو رہا کر دیا.آج کی دنیا میں ملزموں سے جھوٹا سچا اقرار جرم کروانے کے لئے ان کو بدنی ٹارچر کر کے اقبال جرم کروایا جاتا ہے یا محض اذیت دینے کے لئے بغیر جرم کے بھی سزا دی جاتی ہے.جیسا کہ ایک ملک پر ایک عالمی طاقت اس بہانہ سے حملہ کیا کہ اس ملک کے پاس Mass Destruction کے ہتھیار ہیں، وہ ہتھیار تو نہ نکلے مگر وہاں سے بہت سے معصوموں کو پکڑ کر گوانتاناموبے نام جیل بنایا گیا اور اس میں قیدیوں کو شر مناک طریق سے اذیت دی گئی اور یہ وہاں تک محدود نہیں ، دنیا کے قریب ہر ملک میں خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ہوں یہ ظالمانہ طریق جاری ہے اور ان میں بعض ممالک اپنے آپ کو بہت مہذب ممالک قرار دیتے ہیں اور اسلام کو وحشیوں کا مذہب قرار دیتے ہیں جبکہ ہمارے نبی صلی الیم آج سے پندرہ (15) سو سال پہلے یہ اعلان فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی لوگوں کو اذیت دے گا اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں ڈالے گا.
107 درس حدیث نمبر 90 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ اللهِ وَدِرْعُهُ مَرْهُوْنَةٌ عِنْدَ يَهُودِي بِثَلَاثِيْنَ صَاعًا مِّنْ شَعِيْرٍ ( بخاری کتاب الجہاد السير باب ما قيل في درع النبي الله لله والقميص في الحرب2916) مغرب میں اسلام پر سب سے زیادہ اعتراض جہاد کے نام سے قتل و غارت کا کیا جاتا ہے اور نعوذ باللہ یہ ناپاک الزام حضور ملی یکم پر کیا جاتا ہے کہ آپ نے لوٹ مار کے لئے ایک ٹولہ جمع کیا اور اس کے ذریعہ قبائل کی لوٹ مار کی.سوال یہ ہے کہ اگر حضور صلی یکی نے لوٹ مار کی تو لوٹ مار کرنے والے اس لئے لوٹ مار کرتے ہیں کہ اس دولت سے عمدہ کھانے کھائیں، عمدہ لباس پہنیں، عمدہ مکان بنائیں، تنخم کی زندگی گزاریں مگر حضور صلی ا ظلم کے گھر کا یہ عالم ہے کہ دو مہینہ تک کھانا پکانے کے لئے آگ نہیں جلتی.کھجور اور پانی پر گزارا ہے، لباس ہے تو نہایت سادہ، مکان ہے تو کچا کو ٹھا، لاڈلی بیٹی کے ہاتھ چکی چلا چلا کر زخمی ہو جاتے ہیں.وہ خواہش کرتی ہے کہ مجھے نوکر رکھ دیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ سونے سے پہلے 33 بار سُبْحَانَ اللهِ 33 بار الْحَمْدُ لِلَّهِ 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو تو یہ نوکر سے بہتر ہے.(بخاری کتاب النفقات باب عمل المرأة في بيت زوجها 5361) بعض لوٹ مار کرنے والے شروع میں تکلیف اٹھاتے ہیں مگر کافی لوٹ مار کے بعد آرام کی زندگی، عیش کی زندگی گزارتے ہیں جو حدیث آج ہم نے پڑھی ہے اس میں گھر کے اندرونہ کا حال واقف کار بیان فرماتی ہیں کہ حضور صلی ایم کی وفات ہوئی اور آپ کی زڑہ (جو دشمن کے سامنے دفاعی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے) ایک یہودی کے پاس نوے (90) سیر جو کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے.حضور صلی الی یم کے گھرانے ہیں.گویا فی گھرانہ صرف 10 سیر جو ہر گھرانہ کو ملتے ہیں.اور اس کے لئے اپنا دفاعی ہتھیار رہن رکھا ہوا ہے اور وہ رہن بھی ایک ایسے شخص کے پاس رکھا ہوا ہے جو یہودی ہے.گویا جن کے بارہ میں الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کو قتل و غارت کرنے کے لئے جہاد شروع کیا گیا خود اس قوم کے ایک شخص پر حضور کی زرہ صرف فی گھرانہ دس (10) سیر جو کے لئے گروی ہے.
108 درس حدیث نمبر 91 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ: كَانَ النبي يا الله يَفْعَلُهُ ( بخاری کتاب الاستیذان باب التسليم على الصبيان 6247) ہر قوم میں ہر ملک کے لوگوں میں ملتے وقت کچھ نہ کچھ کہنے کا رواج ہے.ہمارے نبی صلی الم نے جو طریق ہمیں سکھایا ہے وہ سب سے زیادہ امتیاز رکھتا ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ملتے ہوئے کچھ کہا جائے اس اعتبار سے تو جو طریق اسلام نے سکھایا ہے وہ کہا جاسکتا ہے دوسرے لوگوں کے طریق سے اپنے فائدہ میں مشترک ہے لیکن جو طریق اسلام نے سکھایا اس میں دو مزید خوبیاں ہیں جو دوسری اقوام کے طریق میں نمایاں نظر نہیں آئیں.جو طریق ہمارے نبی صلی ا ہم نے السلام علیکم کا سکھایا ہے اس میں ایک خوبی تو یہ ہے کہ یہ ایک دعا بھی ہے ایک مسلمان دوسروں کو ملتے ہوئے صرف Greet نہیں کرتا بلکہ ان کو دعا بھی دیتا ہے اور دعا بھی ایسی جامع ہے جو یہ مضمون اپنے اندر رکھتی ہے کہ تم ہر طرح کے خطرہ سے ، ہر تکلیف سے ، ہر بیماری سے ، ہر پریشانی سے محفوظ ہو.دوسری امتیازی خوبی السلام علیکم میں یہ ہے کہ اس کے ذریعہ کہنے والا سنے والے کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ تمہیں میری طرف سے کوئی خطرہ نہیں.میری ذات سے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی.میں تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچاؤں گا بلکہ میری طرف سے تمہیں سلامتی اور آرام اور شفقت ملے گی.جو حدیث آج ہم نے پڑھی ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت انس کچھ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان بچوں کو سلام کیا اور پھر کہا کہ ہمارے نبی صلی اللہ یکم اگر بچوں کے پاس سے گزرتے تو سلام کہا کرتے تھے.یہ حدیث جہاں حضور صلی ی کمی کی بچوں پر شفقت اور پیار کا پتہ دیتی ہے وہاں چھوٹی عمر سے ہی بچوں کی نیک تربیت کی ذمہ داری کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے.
109 درس حدیث نمبر 92 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ امام نے فرمایا: سَوَّوْا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلوة (مسلم کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف واقامتها......975) تمام اجتماعی کام خواہ دین کے ہوں یا دنیا کے ایک ترتیب اور نظم و نسق کے محتاج ہیں.ایسے کام جس میں ایک شخص کام نہ کر رہا ہو بلکہ زیادہ کام کر رہے ہوں ان کے بگاڑ کا آسان ذریعہ یہ ہے کہ ان کے کام میں بے ترتیبی پیدا کر دی جائے یا وہ خود اپنے کام میں بے ترتیبی پیدا کر لیں.ہمارے نبی صلی اللی کلم نے نماز با جماعت کے متعلق جو ارشادات فرمائے ہیں ان کو غور سے دیکھا جائے تو اس میں معاشرہ کے اجتماعی کاموں کو صحیح طریق سے کرنے کے بارہ میں تمام ہدایات مل جائیں گی.مثلاً اگر اجتماعی کاموں میں کوئی ایک راہنما نہ ہو ، ایک امام نہ ہو جس کی ہدایت کے متعلق عمل کیا جائے تو وہ کام اختلاف رائے کا شکار ہو جائے گا.نماز باجماعت وقت کی پابندی سکھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے اگر اجتماعی کاموں میں وقت کی پابندی نہ ہو اور تمام کارکن اپنے وقت مقررہ پر نہ آئیں تو سارا کام کھٹائی میں پڑ جائے گا.باجماعت نماز کے بارہ میں ایک ارشاد ہمارے نبی صلی علیم نے دیا ہے کہ امام سب سے زیادہ قرآن کا علم رکھنے والا ہو.اس طرح اجتماعی کاموں میں اگر کسی جاہل کو راہنما بنادیا جائے تو وہ کام کبھی صحیح طور پر نہیں چلے گا.نماز باجماعت کے بارہ میں ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے ایک ارشاد یہ دیا ہے کہ امام مقتدیوں پر ناواجب بوجھ نہ ڈالے اور اجتماعی کاموں میں اگر حکومت یا لیڈر عوام پر ناواجب بوجھ ڈالتا ہے تو خطرہ ہے کہ کوئی بغاوت کی صورت نہ پید اہو جائے.اس طرح بہت سے سبق باجماعت نماز کے بارہ میں ارشادات میں دیئے گئے ہیں.آج جو حدیث پڑھی گئی ہے اس میں نظم و نسق اور ترتیب و تنظیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے آپ نے فرمایا که نماز با جماعت میں اپنی صفیں سیدھی رکھو کیونکہ صفیں سیدھی بنتا نماز کی تکمیل کا حصہ ہے.
110 درس حدیث نمبر 93 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی ا ولم نے فرمایا: كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ يَعْدِلُ بَيْنَ الْاِثْنَيْنِ صَدَقَةٌ وَيُعِيْنُ الرَّجُلَ عَلَى دَابَتِهِ فَيَحْمِلُ عَلَيْهَا أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَةَ صَدَقَةٌ وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ وَكُلُّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا إِلَى الصَّلوةِ صَدَقَةٌ وَيُمِيْطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ (بخاری کتاب الجهاد والسير باب من اخذ بالركاب و نحوه2989) عام طور پر لوگوں میں صدقہ کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ کوئی شخص جو مال رکھتا ہے کسی غریب آدمی کو جو مال نہیں رکھتا بطور مدد کے کوئی رقم دے.مگر یہ صدقہ کے لفظ کے محدود معنے ہیں.احادیث میں یہ لفظ بہت سی نیکیوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے.کہتے ہیں کہ صدقہ کا لفظ صدق سے نکلا ہے اور ہر بات جس کی سچائی پر بنیاد ہو ، صدقہ ہے.بہر حال صدقہ کا لفظ مالی خدمت کے علاوہ اور بہت سے معنے پر بھی بولا جاتا ہے.جو حدیث آج ہم نے پڑھی ہے وہ صدقہ کے دائرہ کو بہت وسیع کر دیتی ہے.حضرت ابو ہریرة بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی علی کریم نے فرمایا:.لوگوں کے ہر جوڑ پر صدقہ کی ذمہ واری ہے اور یہ ذمہ داری ہر اس دن میں ہے جس میں سورج چڑھتا ہو یعنی یہ ذمہ واری روزانہ ہے.حضور صلی لی ایم نے فرمایا ایک شخص دو آدمیوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیتا ہے یا عادلانہ فیصلہ کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے.ایک شخص دوسرے کو جو سواری پر سوار ہو رہا ہے سوار ہونے میں مدد دیتا ہے یا اس کا سامان اٹھا کر اسے پکڑا تا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے ایک شخص دوسرے سے خوشگوار اور پاکیزہ رنگ میں بات کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے ایک شخص نماز کو جانے کے لئے ہر قدم جو اٹھاتا ہے وہ ہر قدم صدقہ ہے ایک شخص سڑک پر سے گند ہٹا دیتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے.ย
درس حدیث نمبر 94 حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا: اِشْتَرَى رَجُلٌ مِّنْ رَجُلٍ عِقَارًا لَهُ فَوَجَدَ الرَّجُلَ الَّذِي اشْتَرَى الْعِقَارَ فِي عِقَارِهِ جَرَّةً فِيْهَا ذَهَبْ فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعِقَارَ خُذْ ذَهَبَكَ مِنِى إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ ابْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ وَقَالَ الَّذِى لَهُ الْأَرْضُ إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيْهَا ( بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار 3472) آج کی دنیا میں شاید سب سے بڑا ابتلاء مال کا ابتلاء ہے.مال کی خواہش میں قتل ہوتے ہیں، بڑے اور بچے اغوا کئے جاتے ہیں، ملکوں اور قوموں میں خونریز جنگ ہوتی ہے.باپ اولاد کے خلاف اور اولاد باپ کے خلاف نفرت کا بیج ہوتی ہے.بڑے پرانے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہیں وجوہات کچھ بھی کہی جائیں زیادہ تر مال کی خواہش مال کی طلب ان گناہوں کا باعث بن رہی ہوتی ہے.اس لئے قرآن شریف اور احادیث میں بار بار مال کے لئے حرص کے خلاف نصیحت کی گئی ہے اور اس بارہ میں ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے اس حدیث میں جو آج پڑھی گئی ہے ان دو آدمیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جو مال کی حرص سے پاک تھے.حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی الم نے فرمایا دو آدمی ایسے تھے جن میں سے ایک نے دوسرے سے کچھ زمین خریدی جب خریدنے والے نے زمین کا قبضہ لیا تو اس کو اس زمین میں سے ایک گھڑ ا ملا جو سونے سے بھرا ہوا تھا.خریدنے والا زمین بیچنے والے کے پاس گیا کہ میں نے تم سے یہ زمین خریدی تھی اور یہ سونے سے بھرا ہوا گھڑا تو نہیں خریدا تھا تم اپنا یہ سونا سنبھالو.مگر بیچنے والے نے جواب دیا میں نے تو تمہارے پاس زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کے سمیت بیچی تھی اب یہ گھڑایا جو بھی زمین سے نکلے سب کچھ تمہارا ہے.یہ ایک نہایت پر لطف حکایت ہے ان دو آدمیوں کو جو مال کی حرص سے پاک تھے اور ہمارے نبی صلی علیم نے اس حکایت کے ذریعہ ہمیں ایک عظیم الشان سبق دیا ہے.
112 درس حدیث نمبر 95 لِكُلِّ مُسْلِمٍ حضرت جریر بیان کرتے ہیں: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهُ فَاشْتَرَطَ عَلَعَ: وَالنُّصْحِ (بخاری کتاب الشروط باب ما يجوز من الشروط في الاسلام.....(2714 جیسا کوئی شخص بیعت کر کے اسلام قبول کرتا ہے تو وہ ایک نئی برادری میں شامل ہوتا ہے ایک نیا ماحول اس کو ملتا ہے نئے دوست احباب اس کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں اور پرانی چیزوں کو چھوڑ کر نئی فضاء میں داخل ہونا لبعض دفعہ نئے مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس کے لئے نو مبائع کو جدوجہد بھی کرنی پڑتی ہے.حضرت جریر بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے نبی صلی ایم کی بیعت کی تو آپ صلی الی یم نے مجھ سے شرط کی والنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی اور اخلاص کا رویہ رکھوں گا.یہ ایک بنیادی شرط اسلام میں داخل ہونے کی ہے.بعض لوگ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اسلامی عبادات کی ظاہری شکل پر بھی عمل کرتے ہیں مگر مسلمانوں کی ہمدردی اور غم خواری کی طرف ان کو کوئی خیال نہیں ہوتا.یہ بات قرآن و حدیث کی روسے نہایت قابل فکر ہے.حضور صلی الیم نے بار بار مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے اور قرآن شریف بڑے زور سے فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌا کہ تمام مومن حقیقۃ بھائی بھائی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہر گز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر 66 اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوے.“ (شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 395)
113 درس حدیث نمبر 96 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ﷺ نے فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمُ ضَيْفَهُ (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضيف و خدمته اياه بنفسه 6136) ہمارے نبی صلی ا یکم کے بلند اخلاق اور اعلیٰ درجہ کی اچھی صفات میں سے ایک مہمان کی خدمت اور اس کا احترام بھی ہے.حضور صلی لی یکم کے پاس بہت ہی کثرت سے ملک کے گوشے گوشے سے مہمان آتے تھے.ان کے لئے کسی لنگر خانہ کا قیام نہیں ہوا تھا.ہمارے نبی صلی علیہ کم خود ان کے لئے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام فرماتے.کھانے کے لئے پہلے اپنے گھروں میں پتہ کرواتے اگر گھروں میں کھانا موجود نہ ہو تو وہ اپنے صحابہ کو اس خدمت کی سعادت عطا فرماتے.اس ضمن میں احادیث کی کتب میں بہت لطیف واقعات کا ذکر ہے جن سے مہمان کی خدمت اور اس کے اکرام کا سبق ملتا ہے.ایک موقعہ پر حضور صلی ال کمی کی خدمت میں ایک مہمان حاضر ہوا.جب حضور کے سب گھروں سے یہ معلوم ہوا کہ آج تو پانی کے سوا گھر میں کچھ نہیں تو آپ صلی اللہ کریم نے صحابہ سے اس بارہ میں دریافت فرمایا.ایک صحابی نے بصد شوق اس سعادت کو قبول کیا اور مہمان کو اپنے گھر لے گئے.گھر پہنچ کر اس صحابی نے اپنی بیوی سے کہا یہ رسول اکرم صلی لی کام کے مہمان ہیں ان کا اکرام کرو.بیوی نے کہا میرے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے انہوں نے کہا بچوں کو بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھنے کا وقت آیا تو ان کی بیوی نے چراغ کو ٹھیک کرنے کے بہانے سے اس کو بجھا دیا.اب مہمان اندھیرے میں کھانا کھانے لگا جبکہ دونوں میاں بیوی مچا کے مار کے یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ کھانا کھا رہے ہیں اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھالیا.جب وہ صحابی صبح حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا رات کا اند از اللہ کی خوشنودی کا باعث ہوا.( بخاری کتاب المناقب باب قول الله و يؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة...3798)
114 درس حدیث نمبر 97 حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلُوةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْمَعْرُوفُ ( بخاری کتاب الزكوة باب الصدقة تكفر الخطيئة1435) ایک عام انسان کو اپنی زندگی میں دن بھر بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انسان کمزور ہے اور اس سے بہت سی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں.جان بوجھ کر بھی ایک انسان گناہ کر لیتا ہے اور بے جانے بوجھے ، بغیر خاص ارادہ کرنے کے اس سے خطائیں ہوتی رہتی ہیں.اس کا علاج بعض مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اپنے مذہب کے نبی کی تکلیف اور دکھ کا تصور کرو، اس بات پر ایمان لاؤ کہ ان کی موت ہمارے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن گئی اور ہماری غلطیوں کا کفارہ ہو گئی.مذکورہ بالا ایسا تصور ہے جس کا حکمت سے کوئی تعلق نہیں، انصاف اور عدل کا بنیادی تصور یہ ہے کہ مجرم کی سزا مجرم کو ہی ملنی چاہیئے کسی دوسرے کو جو معصوم ہے سزادے کر گناہ کرنے والے مجرم کے بچنے کا سامان کرنا بالکل غیر فطرتی تصور ہے.گناہ ایک بیماری ہے اور بیماری کا علاج ضروری ہے نہ کہ طبیب کا دکھ اٹھا نا مریض کی صحت کا ذریعہ بن سکتا ہے.ہمارے رسول صلی الی یکم نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ انسان سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رویہ میں بھی غلطی ہو سکتی ہے، اپنی اولاد سے سلوک میں بھی غلطی ہو سکتی ہے، اپنے ہمسایہ سے معاملہ کرنے میں بھی غلطی ہو سکتی ہے اور ان گناہوں کا تدارک ان نیک کاموں کے ذریعہ ہو سکتا ہے جو خود گناہگار کرے نہ کوئی اور.کیونکہ گناہگار جب نیکی کرتا ہے تو وہ آئندہ کے لئے اس گناہ کا دروازہ بند کر رہا ہوتا ہے.حضور صلی اللہ کریم نے بڑی حکمت کے ساتھ فرمایا کہ نماز اور صدقہ اور ہر قسم کی نیکی کے کام جن کو عقل اور خدا کا کلام نیکی قرار دیتا ہے بدیوں کا مٹانے یا بدیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے.
115 درس حدیث نمبر 98 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ قریش اس بات سے فکر مند ہوئے کہ ان کے معزز قبیلہ بنو محزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور اب اس کو سزا ملے گی.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اس بارہ میں رسول اللہ صلی علیم کے بہت پیارے حضرت اسامہ بن زید ہی یہ جرات کر سکتے ہیں جب حضرت اسامہ نے آپ کی خدمت میں اس خاتون کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کی مقرر کردہ حدود کے بارہ میں سفارش کرتے ہو ؟ پھر حضور کھڑے ہوئے اور آپ نے خطاب فرمایا اور اس میں فرمایا: اِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِيْنَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الشَّرِيْفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَ أَيْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان کو صرف اس بات نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ اس کو کچھ نہ کہتے مگر جب کوئی کمزور چوری کر تا تو اس حد نافذ کرتے.خدا کی قسم اگر محمد (سی ایم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا.( بخاری کتاب احادیث الا نبیاء باب حديث الغار 3475) اب اگر آپ اپنے ماحول میں نظر ڈال کر دیکھیں تو معاشرہ کا سب سے بڑا فتنہ یہی نظر آتا ہے.بڑے لوگ بڑے سے بڑا جرم کرتے ہیں، چوریاں کرتے اور کرواتے ہیں، اغوا کرتے اور کرواتے ہیں مگر صاف بچ جاتے ہیں اور کمزور اور بے حیثیت لوگوں پر قانون کا سارا زور چلتا ہے اور یہ بات صرف افراد تک محدود نہیں، طاقتور ملک اور قومیں ہر قسم کے مظالم سے کام لیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جبکہ کمزور قومیں اور کمزور ملک بڑی طاقتوں کے ہتھیاروں کا نشانہ بنتی ہیں.
116 درس حدیث نمبروو حضرت عبادہ بن صامت جو مدینہ کے ان مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے ایک حج کے موقع پر مدینہ سے آکر مکہ کے ابتدائی ایام میں ایک گھاٹی میں حضور صلی ا یکم کی بیعت کی تھی اور ان کو بدر میں شمولیت کی سعادت بھی ملی تھی، وہ بیان کرتے ہیں: أَنَّ رَسُولَ الله صل الله قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِّنْ أَصْحَابِهِ تَعَالَوْا بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تُسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ وَلَا تَأْتُونَ بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُوْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ ( بخاری کتاب المناقب باب وفود الأنصار الى النبي اللهم بمكة...3892) رض اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت نے بیان کیا: اِنِّي مِنَ النُّقَبَاءِ الَّذِيْنَ بَايَعُوا رَسُولَ الله الله وَقَالَ: بَايَعْنَاهُ عَلَى أَن لَّا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا نَزْنِي وَلَا نَسْرِقَ وَلَا نَقْتُلَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا نَنْتَهِبَ (مسلم کتاب الحدود باب كفارات لأهلها 4464) آج مغرب کی تمام پراپیگنڈا مشینری اور چرچ پر اپیگنڈے کے ہر طریق سے یہ بات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ اسلام ایک ظلم اور جارحیت کا مذہب ہے اور نعوذ باللہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی الی یم نے اس لئے دعویٰ کیا تھا کہ ایک ٹولہ بنا کر بے گناہوں پر حملہ کریں اور ان کا مال لوٹیں.یہ الزام صریحاً ایک بہتان ہے.سرسری نظر سے بھی قرآن اور حدیث پڑھنے والا اگر وہ دیانت دار ہے اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ معاملہ اس سے بالکل الٹ ہے.حضرت عبادہ بن صامت جو مدینہ کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت ابتداء میں مکہ جاکر حضور صلی اللہ کریم نے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کے دو بیان آج کی احادیث میں لکھے گئے ہیں جو مغرب اور چرچ کے زہر یلے اور جھوٹ سے بھرے ہوئے الزامات کی تردید کرتے ہیں.حضرت عبادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جبکہ آپ کے گرد آپ کے صحابہ کی ایک جماعت تھی آؤ میری بیعت کرو اس شرط پر کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کوئی
117 شریک نہیں بناؤ گے ، چوری نہیں کروگے، بدکاری نہیں کروگے ، اپنے بچوں کو قتل نہیں کروگے اور خود ہی کوئی جھوٹا الزام تراش کر کسی پر بہتان نہیں لگاؤ گے اور اچھے کام میں میری نافرمانی نہیں کرو گے.حضرت عبادہ کا یہ بھی بیان ہے کہ میں ان نقیبوں میں سے ہوں ( جو حضور صلی ال کلیم نے مدینہ والوں کی تربیت کے لئے مقرر کئے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی ایم کی بیعت کی اور ہم نے اس شرط پر آپ کی بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کچھ شریک نہیں بنائیں گے ، زنا نہیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے، کسی شخص کو جس کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے ناحق نہیں ماریں گے اور لوٹ مار نہیں کریں گے.
118 درس حدیث نمبر 100 حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیالم کو فرماتے ہوئے سنا: اِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ إِذَا خَرَجَ مَاءً وَ نَاراً فَأَمَّا الَّذِى يَرَى النَّاسُ أَنَّهَا النَّارُ فَمَآءُ بَارِدٌ وَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهُ مَآءُ بَارِدٌ فَنَارٌ تُحْرِقُ (بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ما ذكر من بنى اسرائيل3450) اس حدیث میں ایک زبر دست تنبیہ اور انذار ہے جس کی طرف آج کے مسلمان کو خاص توجہ کی ضرورت ہے ، حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ جب دجال کا ظہور ہو گا تو اس کے پاس دو چیزیں ہوں گی.پانی ہو گا اور آگ ہو گی.جس چیز کو وہ آگ کے طور پر دکھا رہا ہو گا وہ حقیقت میں ٹھنڈا پانی ہو گا اور جس چیز کو وہ ٹھنڈے پانی کے طور پر دکھا رہا ہو گا وہ حقیقتا جلانے والی آگ ہو گی.اس بیان میں ہمارے نبی صلی علی کلم نے دجال کے بظاہر عقائد اور تہذیب و تمدن کو جو بظاہر ٹھنڈا میٹھا پانی نظر آتا ہے جلانے والی آگ سے تشبیہ دی ہے اور جن باتوں کو دجال جلانے والی آگ قرار دیتا ہے وہ حقیقت میں ٹھنڈا میٹھا پانی ہے.ہمارے نبی صلی اللی کم کی یہ پیشگوئی کتنی صفائی اور وضاحت کے ساتھ پوری ہوتی نظر آرہی ہے.مغربی اقوام جو تثلیث کا چولہ پہن کر اسلام پر حملہ آور ہیں بظاہر نظر اپنے خیالات و عقائد و نظریات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہیں حالانکہ وہ سراسر زہر یلے ہیں اور اسلام کی جس تعلیم کو وہ بھڑکتی ہوئی آگ کے طور پر دکھاتے ہیں، وہ خوشگوار میٹھے پانی کی طرح ہے.افسوس ہے کہ دنیا پھر کے مسلمان مغربی تہذیب کی رو میں بہتے چلے جارہے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عالم اسلام پر احسان ہے کہ آپ نے دجال اقوام کے مذہبی دھوکہ سے پردہ اٹھایا اور الوہیت مسیح، کفارہ، تثلیث، یسوع کا صلیب پر مر کر زندہ ہونا اور آسمان پر جانا اور آسمان سے واپس آنے کا تصور ان سب پر فریب نظریات کی قلعی کھولی اور کروڑوں مسلمانوں کو اس خطر ناک آگ سے بچایا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ
119 درس حدیث نمبر 101 حضرت جابر بیان کرتے ہیں: كَانَ النَّبِي الله يُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَالسُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ (بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة6382) انسان کو اپنی زندگی میں بہت سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور بعض ایسے امور ہوتے ہیں جو بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کا انسان کی زندگی یا اپنے خاندان یا ماحول پر یا ہمارے معاشرہ پر گہرے اثرات پڑتے ہیں.لیکن چونکہ انسان غیب کا علم نہیں رکھتا اس کو معلوم نہیں ہو تا کہ اس کے فیصلہ کے کیا نتیجے نکلیں گے.ہمارے نبی صلی نیلم نے جہاں انسانی زندگی کے جملہ مسائل میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے اس مسئلہ کے بارہ میں بھی رہنمائی فرمائی ہے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم ہمیں تمام امور میں اللہ سے خیر مانگنے یعنی استخارہ کی دعا اس طرح سکھایا کرتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورۃ سکھاتے.جن الفاظ میں حضور صلی ظلم یہ دعا سکھاتے وہ حضرت جابر نے بیان کئے ہیں، حضور صلی الم نے فرمایا: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ جب تم میں سے کوئی کسی (اہم) کام کا ارادہ کرے فلیز گغ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُول تو وہ دور کعتیں نفل ادا کرے اور کہے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ میں تجھ سے تیرے علم سے خیر طلب کر تاہوں وَاسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ اور تیری قدرت سے طاقت طلب کرتا ہوں وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیمِ اور تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے، میں طاقت نہیں رکھتا وَ تَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اور تو غیب کو جانے والا ہے اللهُمَّ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى أَوْ قَالَ فِي عَاجِل أَمْرِى وَآجِلِهِ کہ اگر یہ بات میرے دین میں ، میری معیشت میں اور میرے کام کے انجام میں یا فرمایا میرے کام کے جلد
120 ہونے یا تاخیر سے ہونے کے لحاظ سے بہتر ہو فَاقْدُزه لبنی تو اس کو میرے لئے مقدر کر دے اور میرے لئے آسان کر دے اور پھر میرے لئے اس کو بابرکت کر دے وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین میں، میری معیشت میں ، میرے کام کے انجام میں یا یہ فرمایا میرے کام کے جلد ہونے میں یا تاخیر سے ہونے میں برا ہے فَاصْرِفْهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِيْ عَنْہ تو اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ اور میرے لئے خیر مقدر کر دے جہاں بھی ہو ثُمَّ رَضِنِی بِہ اور پھر مجھے اس پر راضی کر دے وَ يُسَمِّي حَاجَتَه آپ نے فرمایا کہ اپنے اس کام کا نام لے.(بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة6382)
121 درس حدیث نمبر 102 حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں: كُنَّا نَتَلَقَّى الرُّكْبَانَ فَنَشْتَرِي مِنْهُمُ الطَّعَامَ فَنَهَانَا النَّبِي الله أَن نَّبِيْعَهُ حَتَّى يُبْلَغَ بِهِ سُوْقَ الطَّعَامِ بخاری کتاب البیوع باب منتهى التلقى 2166) صنعت و تجارت کو گہری نظر سے دیکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ آج کی صنعت و تجارت کے نظام میں جو چیز عوام الناس تک پہنچتی ہے اس کی قیمت جو عوام سے وصول کی جاتی ہے اس سے بہت زیادہ ہوتی ہے جو اس چیز کی بنوائی اور تبادلہ پر خرچ ہوتی ہے اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ وہ درمیانی واسطے ہیں جو بنانے والے یا اگانے والے شخص سے لے کر عام گاہک کے درمیان ہوتے ہیں.بے شک ایک چیز کے بنانے والے یا اگانے والے اور اس کو شہر و دیہات کے عام گاہک کے درمیان کچھ واسطوں کی حقیقی ضرورت ہوتی ہے مثلاً ایک کسان اگر گندم اگا تا ہے تو شہر کے گاہک تک اس گندم کی ٹرانسپورٹ کچھ واسطے مانگتی ہے مگر صنعت و تجارت کی دنیا میں آج کل بھی اور قدیم زمانہ میں بھی بعض ایسے درمیانی واسطے آجاتے تھے اور آجاتے ہیں جن کی صنعت اور تجارت میں کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہوتی جن کو انگریزی میں Middle Man کہتے ہیں.بعض دفعہ بڑے سرمایہ دار کسی چیز کو بنانے کے لئے ایک کمپنی بناتے ہیں اور اپنا سرمایہ 51 فیصدی رکھ کر اور دوسرے لوگوں سے 49 فیصدی سرمایہ لے کر پھر ایک اور کمپنی اپنے 51 فیصدی سرمایہ کی بناء پر اپنے ووٹوں سے تشکیل دیتے ہیں جس کی کوئی حقیقی تجارتی یا صنعتی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ کمپنی بڑے سرمایہ داروں کے اپنے آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس طرح صنعت و تجارت کی دنیا میں کسی حقیقی Function کے بغیر Middle Man آجاتے ہیں جو صرف دولت حاصل کرتے ہیں اور آخری گاہک کے لئے چیز کی قیمت بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں.الله حضور علی ای ایم نے متعدد اقدامات ایسے فرمائے ہیں جن کے ذریعہ اس درمیانی بے ضرورت Middle Man کو ختم کیا جاسکے جس کی ایک مذکور بالا حدیث میں ہے.حضرت
122 عبد اللہ کہتے ہیں کہ ہم شہر سے باہر جا کر ان قافلوں میں رابطہ کرتے جو مدینہ میں گندم لا رہے ہوتے تھے اور قبل اس کے کہ وہ غلہ منڈی میں پہنچے ہم ان سے غلہ خرید تے پھر اپنا نفع لے کر اس غلہ کو منڈی میں بیچتے.ان لوگوں کا کوئی حقیقی فائدہ تو گاہکوں کو نہ ہو تا تھا مگر قیمت میں اضافہ ہو جاتا تھا.حضور صلی اللہ کریم نے اس سے سختی سے منع فرما دیا.
123 درس حدیث نمبر 103 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں : اِنَّ اللهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَلكِن يُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ (بخاری کتاب الجنائز باب البكاء عند المريض1304) انسانی زندگی میں موت فوت کا سلسلہ لگا ہوا ہے پرانی حکایت ہے کہ حضرت بدھ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا بیٹا فوت ہو گیا ہے آپ اس کو دوبارہ زندہ کر دیں حضرت بدھ نے جواب دیا میں اس کو زندہ کر دوں گا مگر تم مجھے کچھ تل لا دو صرف ایک شرط ہے کہ وہ تیل ایسے گھر سے لا کر دو جس گھر میں کوئی فوت نہ ہو ا ہو.وہ عورت سارا شہر پھر گئی، ہر گھر سے اس نے تل مانگے مگر ساتھ ہی پوچھتی تھی کہ یہ بتاؤ آپ کے گھر میں کبھی کوئی فوت نہیں ہوا لوگ اس کی بات پر ہنس پڑتے ، تعجب کا اظہار کرتے کہ کوئی گھرانہ ، کوئی کنبہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس میں کبھی کوئی فوت نہ ہوا ہو ؟ حضرت بدھ جو سبق اس خاتون کو دینا چاہتے تھے وہ اس کو مل گیا اور وہ تھک ہار کر ، صبر کر کے بیٹھ گئی.لوگ اپنے بزرگوں، اپنے عزیزوں کی وفات پر روتے دھوتے ہیں مگر آخر صبر کرنا پڑتا ہے.کچھ عرصہ بعد غم کی وہ شدت نہیں رہتی جس گھر میں کوئی فوت ہوا تھا اس میں ہی کچھ عرصہ بعد کوئی شادی ہو رہی ہوتی ہے، کسی کی کامیابی پر خوشی منائی جارہی ہوتی ہے.ہمارے نبی صلی اللی یم نے اس حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے ، دل غمگین ہوتا ہے اس پر اللہ کی ناراضگی نہیں ہوتی لیکن اگر کسی غم کے موقعہ پر زبان اللہ کا شکوہ شکایت کرتی ہے.بے صبری کے کلمات بولتی ہے تو وہ انسان اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے لیکن اگر انسان خدا کی رضا پر راضی ہونے کا اظہار کرتا ہے تو وہ انسان اللہ کے رحم کا مستحق ہو جاتا ہے.
124 درس حدیث نمبر 104 حضرت ابو ہریرۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى ﷺ نے فرمایا: مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً يَّلْتَمِسُ فِيْهِ عِلْماً سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقاً إِلَى الْجَنَّةِ (مسلم کتاب الذکر والد عا والتوبۃ والاستغفار باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر 6853) دنیا کے بڑے بڑے مذاہب عیسائیت، یہودیت ، ہندومت، بدھ مت کی مذہبی کتب اور ماخذ تعلیم کا قرآن شریف اور سنت و احادیث سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کریم اور احادیث میں دوسری مذہبی کتابوں کے مقابلہ میں علم سیکھنے اور سکھانے پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے اور عقل و فہم و تدبر کے استعمال کی بار بار تلقین کی گئی ہے مشاہدہ قانون قدرت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.قرآن شریف میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ اِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر : 29) کہ عالم لوگ ہی اللہ کی حقیقی خشیت رکھتے ہیں اور حصول علم کے لئے رَبّ زِدْنِي عِلْمًا (طہ: 115) کی دعا سکھائی گئی ہے اور ہمارے نبی صلی کریم نے ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر علم کی تلاش لازمی قرار دے دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَ مَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الالباب ( البقرة: 270) یعنے خدائے تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی.پس دیکھنا چاہئے کہ ان آیات میں مسلمانوں کو کس قدر علم و حکمت حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ومُسْلِمَةٍ یعنی علم کا طلب کرنا ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے.“ سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 192) بعض دفعہ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض احمدی لڑکے بجائے با قاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بازار میں کسی دوکان پر کام کر رہے ہیں.مجبوری ہو تو الگ بات ہے ورنہ ہماری جماعت کے ہر لڑکے کو تعلیم کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین
125 درس حدیث نمبر 105 حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ایم نے فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَالِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَاِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَانْ زَني وَانْ سَرَقَ ( بخاری کتاب اللباس باب الثياب البيض 5827) مذہبی دنیا میں جو بڑی بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں ان میں سے ایک بڑی غلط فہمی یہ تھی اور اب بھی ہے کہ اگر ایک شخص نے بہت گناہ کئے ہوں اور بعض ایسے گناہ بھی کئے ہوں جو عرف عام میں بہت بڑے بڑے گناہ سمجھے جاتے ہوں تو ان کے بعد خواہ کتنی ہی تو بہ کرے ان تمام گناہوں کو چھوڑ کر سچے دل سے تو بہ کر کے خدا پر ایمان لائے، خدا کی توحید کو مانے، خدا کے نبیوں، رسولوں پر ایمان لائے، جو احکام بھی خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں ان پر عمل کرنے کی اپنی طاقت کے مطابق پوری کوشش کرے وہ جنت میں نہیں جائے گا اور آئندہ زندگی میں اس کی بخشش نہیں ہو گی.یہ غلط فہمی انسان کی صحیح فطرت کی اتنی مخالف ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ سچے مذہب کے ماننے والوں کو یہ غلط فہمی کیوں پیدا نہیں ہوئی اور تمام اچھی صفات کے مالک خدا کے متعلق تصور پیش کرتی ہے کہ گویا وہ سخت ظالم اور تند خو خدا ہے.قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کو غفور ، ودود اور رؤف و رحیم کے طور پر پیش کیا ہے اور بار بار اس کی شفقت اور مغفرت کا ذکر فرمایا ہے.احادیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص موت کے آثار سے پہلے بھی تو بہ کرتا ہے تو خد اتعالیٰ اسے بخش دیتا ہے.اور یہی مضمون آج کی حدیث میں ہے حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی ال یکم نے فرمایا کوئی بندہ بھی ایسا نہیں جو وفات کے وقت صرف اللہ کو ہی اپنا معبود قرار دیتا ہو (یعنی توحید کے تقاضے پورے کرتا ہو) تو وہ جنت میں داخل ہو گا.حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے کہا اگر چہ وہ زنا کا ارتکاب کر چکا ہو ، چوری کا ارتکاب کر چکا ہو.نبی کریم صلی یکم نے فرمایا: خواہ وہ زنا کا ارتکاب کر چکا ہو، خواہ وہ چوری کا ارتکاب کر چکا ہو.
126 درس حدیث نمبر 106 حضرت ابوبرزہ بیان کرتے ہیں کہ اَنَّ رَسُولَ اللهِ يا الله كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا ( بخاری کتاب مواقيت الصلوۃ باب مايكره من النوم قبل العشاء568) شاید مغرب کے تمدن کی مشرقی ممالک پر یلغار کا اثر ہے یا کوئی اور وجہ ہے بہر حال آج کے زمانہ میں جو عادات ہمارے معاشرہ میں رائج ہو رہی ہیں ان میں سے ایک عادت شروع رات میں دیر تک بے کار، غیر ضروری باتوں میں وقت ضائع کرنا ہے.اس عادت کا مضر اثر ہمارے دین و اخلاق پر بھی پڑتا ہے.بے کار باتوں میں انسان نامناسب باتوں اور غیبت کی طرف مائل ہو جاتا ہے پھر دیر تک جاگنا انسان کو تہجد کی نماز کی ادائیگی اور فجر کی باجماعت نماز سے محروم کرتا ہے.صحت کے نقطہ نظر سے شاید بے کار جاگنا خصوصاً شروع رات کی بیداری بیماریوں کا موجب ہے.زیادہ دیر رات کو جاگنے والے پھر صبح دیر سے اٹھتے ہیں اور اپنی دنیوی معیشت کے کاموں پر بھی تاخیر سے پہنچتے ہیں.وہ مائیں جو رات گئے باتوں میں مصروف رہتی ہیں صبح اپنے بچوں کو جگا کر تیار کر کے ناشتہ کروا کر ان کو سکول بھیجنے میں یا تو تساہل کرتی ہیں یا بچوں سے بد مزاجی سے پیش آتی ہیں.ہمارے نبی صلی الم کی تعلیم اور عملی نمونہ زندگی کی ہر شاخ میں برکت کا باعث ہے.حضرت ابوبرزہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی علیہ کم عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.
127 درس حدیث نمبر 107 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں: مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللَّهِ اللهِ شَيْئًا وَلَا امْرَأَةٌ وَلَا خَادِمًا قط بیده مسلم کتاب الفضائل باب مباعد تسيها الله للآثام......6050) آج کی دنیا میں عموماً اور بعض ممالک کے باشندوں میں یہ مرض کثرت سے ہیں اور آئے دن ہم اس کے بداثرات اور نتائج خبروں میں سنتے رہتے ہیں کہ ذرا سی ناراضگی پر کسی معمولی سی غصہ کی بات پر بچوں کی کھیل میں آپس کی لڑائی پر محلے والے ایک دوسرے سے بگڑ کر ہاتھا پائی اور مار کٹائی پر اتر آتے ہیں اور پھر یہ لڑائی جھگڑ ا حدود سے نکل جاتا ہے اور بچوں کی گیند وغیرہ پر چھوٹی سی لڑائی بڑوں کے قتل و خون پر منتج ہوتی ہے جس کا نتیجہ لمبے مقدمات، سالہا سال کی قید یا پھانسی ہوتا ہے.اس قسم کے جھگڑوں کا حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اپنی کتاب ” آپ بیتی“ میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.’اٹک کے ضلع کا ایک واقعہ سناتا ہوں ایک شخص کی گائیں کئی روز دوسرے زمیندار کے کھیت میں دیکھی گئیں ایک دن وہ دونوں اپنے مویشیوں کو شارع عام پر چرارہے تھے تو ایک نے دوسرے کو کہا کہ آئندہ تیر ا مویشی ہمارے کھیت کی طرف نہ آئے ورنہ اچھا نہ ہو گا“ دوسرے نے کہا تو کیا کرلے گا؟ ذرا میرے جانور کو ہاتھ لگا کر تو دیکھ ! “ پہلے نے وہیں سڑک پر اپنی لاٹھی سے جس کے سرے پر نیزے کی طرح کا پھل لگا ہوا تھا ایک گول نشان بنادیا یعنی دائرہ کی طرح ایک لکیر کھینچ دی اور کہا ” اچھا یہ میرے کھیت کا نشان ہے تو ذرا اس میں اپنا مویشی داخل تو کر.“ دوسرے نے جھٹ اپنا ایک پیر بڑھا کر اپنی جوتی اس دائرہ کے اندر رکھ دی اور کہا ”لے میر امویشی تیرے کھیت میں داخل ہو گیا.“ یہ سنتے ہی پہلے نے اپنا نیزہ اٹھا کر فوراً اس زور سے اپنے مخالف کی چھاتی میں مارا کہ سینہ توڑ کر پار ہو گیا اور وہ شخص وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا.“ آپ بیتی مصنفہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب صفحہ 190 مطبوعہ لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی)
128 ہمارے نبی صلی ا یکم زندگی کے ہر پہلو میں ہمارے لئے نمونہ ہیں انسانی زندگی کی ہر شاخ کی آپ صلی یہ کلم نے آبیاری فرمائی ہے حضرت عائشہ جنہوں نے آپ صلی ایم کی زندگی کے ہر پہلو کو غور سے دیکھا تھا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم نے کسی کو بھی (اپنے ہاتھ سے) نہیں مارانہ کسی عورت کو ، نہ کسی خادم کو.یہ ہے پاک طرز عمل ہمارے نبی صلی ال کم کی جس پر چل کر محلے پر امن ہو سکتے ہیں اور معاشرہ آرام کی زندگی گزار سکتا ہے.
129 درس حدیث نمبر 108 حضرت عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا: أَيُّهَا النَّاسُ افَشُوا السَّلَام وَاطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامُ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ نرمندى كتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب منه 2485) ہمارے نبی صلی ا یکم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت ان دونوں شہروں کی زندگی مسلمانوں کے لئے بالکل مختلف تھی.مکہ میں مسلمان دکھوں اور اذیتوں کا شکار تھے.ہر وقت دشمن کفار قریش کی طرف سے ان کے سروں پر تلوار لٹکی ہوئی تھی.مسلمانوں کے لئے اذان دینے، باجماعت نمازیں ادا کرنے، مساجد بنانے ، اپنی اجتماعی سرگرمیاں کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا.مدینہ پہنچ کر حضور صلی للہ یکم ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد ڈال رہے تھے جس کا مقصد تمام دنیا کے لئے اور تمام آئندہ آنے والے زمانوں کے لئے ایک نمونہ کا معاشرہ قائم کرنا تھا.حضور صلی الیکم نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں سے جو پہلا خطاب فرمایا اس میں یہ الفاظ فرمائے جن میں اسلامی معاشرہ کی بنیادی اینٹ رکھی گئی ہے.پہلی بات جو حضور صلی علی کریم نے فرمائی وہ یہ تھی کہ آفشوا السَّلَام سلام کو رواج دو.ہر معاشرہ میں لوگوں کے ایک دوسرے سے ملنے پر کچھ نہ کچھ اچھی بات کہنے کا طریق ہوتا ہے جو معاشرہ کی زندگی کو آسان کر دیتا ہے مگر سلام میں صرف یہ مقصد نہیں بلکہ معاشرہ میں امن اور سلامتی کے قیام کی ضمانت ہے جو ہر ملنے والا دوسرے کو دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ معاشرہ میں کوئی اچھا کام بغیر امن و امان کے حاضر نہیں ہو سکتا.دوسرا ارشاد حضور صلی ا کرم نے فرمایا آطْعِمُوا الطَّعَامَ کھانا کھلاؤ اور معاشرہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے.تیسرا ارشاد جو اسلامی معاشرہ کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے آپ صلی ا ہم نے یہ دیا کہ صَلُّوا وَالنَّاسُ نیا کہ جب دنیا سوئی پڑی ہو اس وقت اٹھو اور نماز پڑھو.اس کے بعد حضور صلی کریم نے فرمایا کہ تین باتوں پر عمل کرو گے تو اس کے بابرکت نتائج نکلیں گے اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہو گا جس کے نتیجہ میں تم تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ تم لوگ خیر و سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے.
130 درس حدیث نمبر 109 حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی کمی کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی این کلم نے چاند کی طرف دیکھا اور چودہویں چاند کی رات تھی تو آپ نے فرمایا: تم لوگ اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑتی اس لئے اگر تمہیں استطاعت ہو تو تم سورج کے طلوع سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے کی نماز سے رہ نہ جاؤ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ( ط :131) ( بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب فضل الصلوة الفجر 573) کہ سورج کے نکلنے سے پہلے بھی اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس کے ڈوبنے سے پہلے بھی.اس بڑی پیاری حدیث میں ہمارے نبی صلی ا یم نے دنیا و آخرت کے سب سے زیادہ خوبصورت منظر کو دیکھنے اور اس کا لطف اٹھانے کی حد درجہ آسان اور مفت ملنے والی قیمت بتائی ہے لوگ تھوڑے خوبصورت نظارے کو دیکھنے کے لئے، اس کا لطف اٹھانے کے لئے جان جو کھوں میں ڈالنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں دشوار گزار پہاڑوں کا سفر کرتے ہیں موسمی شدت برداشت کرتے ہیں ، ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ چند لمحے کے کسی خوبصورت نظارہ کا دیدار کر لیں.چاند سورج کے چڑھنے، غروب ہونے کی جھلک دیکھ لیں، کسی آبشار کو گرتے یا کسی آتش فشاں کو پھوٹتے مشاہدہ کر لیں.ہمارے نبی صلی الکریم نے دنیا و آخرت کے سب سے حسین نظاروں کے دیدار کے لئے صرف یہ فرمایا ہے کہ تم فجر کی نماز اور عصر کی نماز کی ادائیگی میں کو تاہی نہ کرنا.یہ کیا ہی ستا سودا ہے!!!
درس حدیث نمبر 110 131 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: عَلَيْكُمْ بِالشَّفَاتَيْنِ الْعَسَلِ وَالْقُرْآنِ (ابن ماجہ کتاب الطب باب العسل 3452) جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے ہمارے نبی صلی للی کم رحمۃ للعالمین تھے آپ روحانی لحاظ سے بھی انسانیت کے لئے رحمت تھے اور جسمانی لحاظ سے بھی انسانیت کے لئے رحمت تھے.آپ کی شفقت سب کے لئے تھی اور ہر پہلو سے تھی.اب بظاہر نظر یہ مختصر سی حدیث ہے مگر آپ کی رحمت و شفقت کے جذبات سے بھری ہوئی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ تم شفاء کے دو طریق لازم پکڑو اور وہ دو شفائیں ہیں.ایک شہد اور دوسرا قرآن.شہد کو جیسا کہ قرآن آج کل کی سائنسی، طبی تحقیقات نے بھی ثابت کر دیا ہے انسان کی صحت اور بیماریوں سے شفاء میں بہت بلند مقام حاصل ہے.ایک دوست نے بتایا کہ روس میں ایک ہسپتال ہے جہاں ہر بیماری کا علاج شہد کے ذریعے کیا جاتا ہے اور Antibiotics ( اینٹی بائیو ٹکس) کو ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت ہی نہیں.دوسری شفاء قرآن ہے جو ہر روحانی اور اخلاقی بیماری کا علاج ہے.ہر درد اور دکھ سے جو انسان کی روح کو دکھ پہنچاتا ہے دور کرنے کا ذریعہ ہے.انسان کی ہر مشکل اور ہر پریشانی میں کام دیتا ہے.دکھی انسان کے دل کو اطمینان بخشنے کا بہترین ذریعہ ہے.
132 درس حدیث نمبر 111 حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ أَمَرَنِي رَسُوْلُ اللَّهِ اللَّهُ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَةَ اور ایک روایت میں ہے أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كِتَابِ يَهُودَ ( ترمذی کتاب الاستیذان باب ماجاء فى تعليم السريانية2715) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے قیام کا بنیادی اور اساسی مقصد یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم دنیا کے کناروں پر پہنچائے اور رسول اکرم صلی کیم کا جھنڈا دنیا بھر میں لہرائے اور قرآن کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلائے.مگر چونکہ دنیا میں مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اس لئے جو لوگ اس عظیم الشان مہم میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ ان لوگوں کی زبانیں سیکھیں جن کو وہ اسلام کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کی تحریر کا علم حاصل کریں جن کو وہ خطوط اور کتابوں کے ذریعہ تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اس بارہ میں اس حدیث میں جو حضرت زید بن ثابت نے روایت کی ہے حضور صلی علیکم کا واضح ارشاد ہے.حضرت زید بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھوں.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میں یہود کی تحریر کے طریق سیکھوں.روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت زید نے بیان کیا کہ جب مجھے حضور صلی ا یکم نے یہ ارشاد کیا تو میں 17 دن کے اندر خوب اچھی طرح اس زبان کا ماہر ہو گیا اور حضور صلی الی یکم کے خطوط آپ کو پڑھ کر سناتا اور آپ کی طرف سے خطوط کا جواب لکھتا.(مستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب معرفۃ الصحابة باب ذکر مناقب زید بن ثابت جلد 6 صفحہ 2115 الطبعہ الاولی 2000ء حدیث 5781) اب تو اللہ کے فضل سے دوسری زبانیں سیکھنے میں اس سے بہت زیادہ سہولتیں ہیں جو حضرت زید بن ثابت کو حاصل تھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے احباب خصوصاً نوجوانوں کو اس بات کی طرف توجہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین ย
133 درس حدیث نمبر 112 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ حضور صلی الیکم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ سعد بن الربیع کی بیٹیاں ہیں ان کا والد آپ کے ساتھ احد کے دن شہید ہوا اور ان کے چچانے ان کا مال لے لیا ہے اور ان دونوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور ان کا نکاح نہیں ہو سکے گا.جب تک ان کے پاس مال نہ ہو.آپ صلی علی کرم نے فرمایا اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا پھر ورثہ کے بارہ میں آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی علیم نے ان دونوں کے چا کو پیغام بھیجا کہ ابن سعد کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی ادا کرو اور ان دونوں کی ماں کو 8 / 1 ادا کرو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے.وو ( ترمذی کتاب الفرائض باب ماجاء في ميراث البنات 2092) حضور صلی ا یکم نے قرآنی ارشاد کے نازل ہوتے ہی کہ باپ کے فوت ہونے پر بیوی اور بیٹی کا ترکہ میں حصہ مقرر ہے فوراً اس کی تعمیل کرائی اور بیوی، بیٹیوں کو ان کا حصہ دلوایا اور یہ حکم واضح طور پر قرآن مجید میں موجود ہے.لیکن اس بات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث کے واضح حکم کے ہوتے ہوئے اب بھی بعض ایسے خاندان ہیں جو عورتوں کا شرعی حصہ ان کو دینے کو تیار نہیں ہوتے.اور ایک لمبے عرصہ تک عورتوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کیا جاتا رہا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے اس بارہ میں ایک بڑی سبق آموز بات فرمائی ہے، فرماتے ہیں:.” چنانچہ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے ان کی زمینیں ہندؤوں کی ہو گئی ہیں.جو ایک وقت سو گھماؤں زمین کے مالک تھے اب دو(2) بیگھہ کے بھی نہیں رہے.“ حقائق الفرقان جلد اوّل صفحه 300 مطبوعہ ربوہ) ایک دفعہ انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں حکومت کی طرف سے پوچھا گیا تھا کہ مسلمان رواج کے مطابق ورثہ کی تقسیم چاہتے ہیں یا شریعت کے مطابق.تو صرف قادیان سے آواز اٹھی تھی کہ شریعت کے مطابق ورثہ کی تقسیم ہو.باقی قوم بالعموم رواج کے مطابق پر راضی تھی.
134 درس حدیث نمبر 113 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: لَا خَيْرَ فِي جُلُوسِ فِي الطَّرْقَاتِ اِلَّا لِمَنْ هَدَى السَّبِيْلِ وَرَدُّ التَّحَيَّةِ وَغَضُّ الْبَصَرِ وَأَعَانَ عَلَى الْحَمُوْلَةِ (مشکوۃ المصابیح کتاب الآداب باب السلام الفصل الثانی جلد 2 جزء 3 صفحہ 166 دار الکتاب العلمیۃ بیروت 2003 ء حدیث 4661) م الله ہمارے نبی صلی الی ایم کی احادیث میں پبلک مقامات کے بارہ میں ذمہ داریوں کی طرف الله سة خاص توجہ دلائی گئی ہے.مساجد جہاں ہر طرف سے لوگ آتے ہیں، پانی کے گھاٹ جس سے پبلک فائدہ اٹھاتی ہے، راستے اور سڑکیں جن پر مرد، عورتیں اور بچے ہر طرح کے لوگ چلتے ہیں، بازار جہاں خرید و فروخت ہوتی ہے، ایسی مجالس جہاں سب لوگ آتے ہیں، سایہ دار جگہیں جہاں لوگ بیٹھتے ہیں.ایسے مقامات میں احساس ذمہ داری کی طرف حضور صلی علی ایم نے خاص توجہ دلائی ہے.مساجد کے احترام اور صفائی کی طرف احادیث میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے، پانی کے گھاٹ کے متعلق فرمایا کہ جو اس کو گندہ کرتا ہے وہ لعن طعن کا مورد بنتا ہے ، مجالس میں کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنایا دو آدمیوں کو جو اکٹھے بیٹھے ہیں الگ الگ کر کے ان کے درمیان بیٹھنے کی کوشش سے منع فرمایا ہے، پانی کے گھاٹ کی طرح سایہ دار مقامات اور راستوں کو گندہ کرنے والے کو بھی اپنے پر بھی لعن طعن کا دعوت دینا قرار دیا ہے.راستوں کے بارے میں آپ صلی علی یکم کی احادیث میں بار بار ہدایت ہے کہ اِمَاطَةٌ الأذى عَنِ الطَّرِيقِ کہ رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا نیکی ہے.(بخاری کتاب الهبة وفضلها باب فضل المنيحة2631) آپ نے فرمایا کہ اگر کوچہ کی چوڑائی میں اختلاف رائے پیدا ہو تو (کم از کم سات گز رکھا جائے.لم كتاب المساقاة والمزارعة باب قدر الطريق اذا اختلفوا فيه 4139) آپ نے فرمایا کہ ایک شخص چلا جارہا تھا کہ اس نے راستہ میں ایک کانٹے دار شاخ دیکھی اس نے اسے ہٹادیا تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بخش دیا.( بخاری کتاب المظالم باب من اخذ الغصن وما يؤذي الناس...2471) آج کی روایت میں حضور صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رستوں پر بیٹھنے میں کوئی خیر نہیں ہاں مگر اس شخص کے لئے جو لوگوں کو صحیح راستہ بتائے اور سلام کا جواب دے اور نظر نیچی رکھے اور سامان وغیرہ اٹھانے میں لوگوں کی مدد کرے.
135 درس حدیث نمبر 114 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: اِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيْلَةٌ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَن لَّا يَقُوْمَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ (مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالک جلد 4 صفحہ 493 عالم الكتب بيروت 1998ء حدیث 13012) ربوہ کا شہر خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک نشان ہے.ہم جب یہاں آئے تو یہاں صرف ایک کیکر کا درخت تھا اور بالعموم پانی کھاری اور نمکین تھا جس کی وجہ سے درخت نہیں ہوتے تھے.مگر حضرت مصلح موعودؓ کے عزم نے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی حالات میں اس شہر کی تعمیر کروائی وہاں اب اس ایک کیکر کے درخت کی جگہ شاید رنگ برنگے لاکھوں درخت، پودے، بیلیں ربوہ میں نظر آتے ہیں.جن میں سایہ دار درخت بھی ہیں، پھلدار درخت بھی ہیں، پھولدار درخت بھی ہیں جن کو دیکھ کر طبیعت میں بشاشت ہوتی ہے اور ہمارے لئے سب سے بڑی بشارت کی بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی ا یکم نے درخت لگانے کے بارہ میں غیر معمولی زور سے ہدایت فرمائی ہے.چنانچہ یہ حدیث جو حضرت انس بن مالک سے مروی ہے اس میں حضور صلی الی یم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں درخت کی قلم ہو اور وہ اس کو زمین میں لگا رہا ہو کہ پتہ لگے کہ قیامت آگئی ہے یا عالمگیر تباہی آگئی تب بھی وہ یہ کوشش کرے کہ اگر ہو سکے تو اس درخت کی قلم کو زمین میں لگادے.درختوں کی پیداوار اور ان کی نگہداشت پر اس سے زیادہ اور کس طرح کہا جاسکتا ہے.
136 درس حدیث نمبر 115 حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے اَنَّ رَسُولَ الله يا الله مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَةَ فِيْهَا فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا فَقَالَ: يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ مَاهُذَا؟ قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَارَسُوْلَ اللهِ قَالَ: أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ مَنْ غَشّ فَلَيْسَ مِنَّا (ترمذی کتاب البيوع باب ماجاء في كراهية الغش في البيوع1315) آج کی دنیا میں بعض قوموں کی کمزوری اور پستی کی بنیادی وجہ تجارتی بددیانتی ہے حالانکہ بظاہر نظر وہ اللہ کی طرف سے اترنے والی اعلیٰ درجہ کی تعلیم پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ادبار اور پسماندگی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے مقابل میں وہ لوگ ہیں جو جھوٹے مذاہب کو مانتے ہیں عقل کے خلاف عقائد رکھتے ہیں مگر تجارتی طور پر دیانت داری کی وجہ سے وہ مال و دولت کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں.ہمارے نبی صلی ال یکم ایک دفعہ ایک غلہ کے ڈھیر کے پاس سے گزرے جو بازار میں فروخت کے لئے رکھا گیا تھا آپ صلی علیم نے اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا اور وہ غلہ چونکہ اندر سے گیلا تھا اس لئے اس کی تری آپ کی انگلیوں کو محسوس ہوئی آپ نے فرمایا اے غلہ والے یہ کیا؟ اس نے عرض کیا یارسول اللہ اس کو بارش کا پانی لگ گیا تھا.آپ صلی یہ کلم نے فرمایا تم نے اس کو اوپر کی طرف کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکتے.“ فرمایا مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّاوہ شخص ہمارے میں سے نہیں ہے جو ہمیں دھو کہ دیتا ہے.ہمارے نبی صلی علیم کے اس ارشاد میں ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں بھی ہمیں سبقت حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضاء ہمیں حاصل ہو تو ہمیں اس تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو ہمارے نبی صلی ا یکم نے ہماری دنیاو آخرت کی بھلائی کے لئے ہمیں عطا فرمائی ہے.
137 درس حدیث نمبر 116 حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ يَارَسُوْلَ اللهِ كَمْ نَعْفُوا عَنِ الْخَادَمِ کہ ہم نوکر کو کتنی دفعہ معاف کریں حضور صلی ال کیک خاموش رہے اس شخص نے دوبارہ سوال کیا حضور صلی ال کلم پھر بھی خاموش رہے جب اس شخص نے تیسری دفعہ یہ سوال دہرایا تو آپ صلی ﷺ نے فرمایا: أُعْفُ عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً (ابو داؤد کتاب الادب باب في حق المملوك 5164) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی نیلم کی دس (10) سال تک خدمت کی.آپ نے کبھی کسی کام کے لئے جو میں نے کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور کبھی کسی کام پر جو میں نے نہیں کیا آپ نے کبھی نہیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا.(بخاری کتاب الأدب باب حسن الخلق والسخاء وما يكره من البخل6038) یہ ہے نمونہ ہمارے نبی صلی الہ یکم کا جو دنیا بھر کے سب سے زیادہ مصروف ترین وجو د تھے جن کے کاموں کے متعلق اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (المزمل: 8) کہ آپ رات کے وقت دو تہائی رات تک تہجد پڑھا کریں کیونکہ آپ کو دن کو کام ہی کام ہے، مصروفیت ہی مصروفیت ہے اور پھر ایسے وجود کا نمونہ ہے جن کے کام ساری دنیا کے کاموں سے زیادہ اہم ، زیادہ ضروری اور انسانیت کے فائدہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ بابرکت تھے.ایک خادم جو آپ کے ساتھ سفر میں ہمرکاب تھے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں آپ کا خادم تھا مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ میری زیادہ خدمت کرتے تھے یا میں آپ کی زیادہ خدمت کر تا تھا.ہر شخص کی طرح نوکر سے بھی غلطی ہو سکتی ہے بعض گھروں میں معمولی سی غلطی پر نوکر کو سخت ست کہا جاتا ہے ، سزا دی جاتی ہے.آج کی حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ اس شخص نے پوچھا حضور ہم اپنے نوکر کو کتنی دفعہ معاف کریں؟ پہلے تو حضور صلی ا م خاموش رہے، دوسری دفعہ بھی خاموش رہے، تیسری دفعہ پوچھنے پر فرمایا دن میں ستر دفعہ معاف کرو اور یہ صرف حضور صلی کلم کا ارشاد نہیں بلکہ عملی نمونہ بھی ہے.اللھم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
138 درس حدیث نمبر 117 عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنِ النَّبِي يا الله أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَاءَهُ أَمْرُ سَرُوْرٍ أَوْ يُسَرُّ بِهِ خَرَّ سَاجِدًا شَاكِرًا لِلَّهِ تَعَالَى ( ابو داؤد کتاب الجہاد باب في سجود الشكر 2774) انسان کو اپنی روزانہ زندگی میں غم ہوتا ہے، خوشی بھی ہوتی ہے، دکھ اور بیماری اور تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، صحت اور آرام اور سہولت بھی ہوتی ہے.قرآن شریف میں مومن کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ جو لوگ مصیبت کے وقت صبر سے کام لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے احسان کے وقت شکر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا دروازہ مزید کھولتے ہیں.دنیا میں شاید ہی کوئی آدمی ہو جس نے کوئی غم اور دکھ اپنی زندگی میں نہ دیکھا ہو اور شاید ہی کوئی آدمی ہو جس نے آرام اور سہولت اور خوشی کی گھڑیاں نہ دیکھی ہوں.مومن کا رد عمل سب سے زیادہ حکیمانہ ہوتا ہے، وہ غم کے وقت صبر کا نمونہ دکھاتا ہے اور خوشی کے وقت شکر کا اسوہ دکھاتا ہے.اس بارہ میں سب سے عمدہ اور لطیف نمونہ ہمارے نبی صلی علیکم کا ہے آپ نے عزیزوں کی وفات کا غم بھی دیکھا، بیماری سے بھی دکھ اٹھایا، وطن سے بھی بے وطن ہوئے، دشمنوں کے حملوں میں آپ شدید زخمی بھی ہوئے مگر کبھی آپ نے بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا اور آپ کو عظیم الشان فتوحات بھی ہوئیں.سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی محبت اور شفقت کا کمال درجہ اظہار فرمایا.آپؐ کو سب انسانوں کا سردار بنایا، جبت میں سب سے پہلے جانے کی آپؐ کو بشارت دی، انسانیت پر اترنے والی سب سے بلند پایہ وحی آپ پر نازل فرمائی مگر ہر انعام پر، ہر احسان پر آپ نے یہی فرمایا کہ لا فخر کوئی غرور نہیں.جو حدیث آپ کے بارہ میں آج ہم نے پڑھی ہے اس میں یہ مضمون ہے کہ رسول لله على لعلیم کے پاس جب کوئی ایسی بات آتی جو خوشی کا باعث ہوتی تو آپ بے ساختہ شکر کرتے ہوئے سجدہ شکر میں گر جاتے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 79 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.139 دعا تریاق ہے: گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کر کے دُعا سے ہر گز باز نہ رہے.دعا تریاق ہے.آخر دعاؤں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا.جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے ، آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں.تو به جزو بیعت ہے: یہ توبہ کی حقیقت ہے (جو اوپر بیان ہوئی) اور یہ بیعت کی جز کیوں ہے ؟ تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے.جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو ، تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے.اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں) بشر طیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو.خشک شاخ کی طرح نہ ہو.اس کی شاخ ہو کر پیوند ہو جاوے.جس قدر یہ نسبت ہو گی اسی قدر فائدہ ہو گا.رسمی بیعت فائدہ نہیں دیتی: بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی.ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہو تا ہے.اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے.منافق آنحضرت صلی علی کلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے.ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا، اس لیے ظاہری لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ان کے کام نہ آیا.تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے.اگر ان تعلقات کو وہ (طالب) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا، تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے.محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہیے.جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مرشد) کے ہمرنگ ہو.طریقوں میں اور اعتقاد میں.نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے.یہ دھو کہ ہے.عمر کا اعتبار نہیں ہے.جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی تریاق زہر کی دواء علاج ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 4،3 مطبوعہ ربوہ) معاصی گناه
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 80 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.140 محبوب الہی بننے کے لئے واحد راہ اطاعت رسول الله صلى الله : پس رسول الله صلى العلم ایک کامل نمونہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور محبوب الہی بننے کا ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُم ( آل عمران : 32) یعنی ان کو کہہ دو کہ تم اگر چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دیئے جاویں، تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو.کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شے ہے جو رحمت الہی سے نامید ہونے نہیں دیتی.گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو.اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت و مشقت اور جپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الہی کا حق دار نہیں بن سکتا.انوار و برکات الہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں.جب تک وہ رسول اللہ صلی ایم کی اطاعت میں نہ کھو جائے اور جو شخص آنحضرت صلی علیم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے.اس کو وہ نور ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے.جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے.اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہو تا ہے.اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے.اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے.آنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَدَمِن یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.غرض یہ ہے کہ وہ علوم جو مدار نجات ہیں.یقینی اور قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے.جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن شریف کی یہ آیت
درس روحانی خزائن 141 صاف طور پر اور پکار کر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ حیات روحانی صرف رسول الله صلى ال علم کی اطاعت سے ملتی ہے اور وہ تمام لوگ جو بخل اور عناد کی وجہ سے نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں، وہ شیطان کے سائے کے نیچے ہیں.اس میں اس پاک زندگی کی روح نہیں ہے.جو بظاہر زندہ کہلاتا ہے.لیکن مردہ ہے.جبکہ شیطان اس کے دل پر سوار ہے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 427،426 مطبوعہ ربوہ) خود تراشیده اپنے آپ بنائی ہوئی جپپ رستگاری نجات عناد ریاضت دشمنی، بغض متابعت پیروی، اطاعت
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 81 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.142 دوسرے کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کی جائے: انسان دوسرے شخص کی دل کی ماہیت معلوم نہیں کر سکتا اور اس کے قلب کے مخفی گوشوں تک اس کی نظر نہیں پہنچ سکتی ، اس لیے دوسرے شخص کی نسبت جلدی سے کوئی رائے نہ لگائے، بلکہ صبر سے انتظار کرے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں سب کو اپنے سے بہتر سمجھوں گا اور کسی کو اپنے سے کمتر خیال نہیں کروں گا.اپنے محبوب کو راضی کرنے کے لئے انسان ایسی تجویزیں سوچتے رہتے ہیں.ایک دن اس نے ایک دریا کے پل کے پاس جہاں سے بہت آدمی گذررہے تھے ایک شخص بیٹھا ہوا دیکھا اور اس کے پہلو میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی.ایک بوتل اس شخص کے ہاتھ میں تھی.آپ پیتا تھا اور اُس عورت کو بھی پلاتا تھا.اُس نے اس پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ میں اس بے حیا سے تو ضرور بہتر ہوں.اتنے میں ایک کشتی آئی اور معہ سواریوں کے ڈوب گئی.وہی شخص جو عورت کے پاس بیٹھا تھا، دریا میں سے سوائے ایک کے سب کو نکال لایا اور اس بد ظن سے کہا کہ تو مجھ پر بد ظنی کرتا تھا.سب کو میں نکال لایا ہوں ، ایک کو تو نکال لا.خدا نے مجھے تیرے امتحان کے لئے بھیجا تھا اور تیرے دل کے ارادہ سے مجھے اطلاع دی.یہ عورت میری والدہ ہے اور بوتل میں شراب نہیں دریا کا پانی ہے.غرض انسان دوسرے کی نسبت جلد رائے نہ لگائے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ماہیت حالت ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 473 مطبوعہ ربوہ)
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 82 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.143 وضو اور نماز اور پھر ایسی حالت میں کہ نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے.اطباء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے.اور یہ نزول الماء کا مقدمہ ہے.اور بہت سی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں.پھر بتلاؤ کہ وضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے.بظاہر کیسی عمدہ بات ہے.منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے.مسواک کرنے سے منہ کی بد بو دور ہو جاتی ہے.دانت مضبوط ہو جاتے اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے.پھر ناک صاف کرنا ہو تا ہے.ناک میں کوئی بد بو داخل ہو تو دماغ کو پراگندہ کر دیتی ہے.اب بتلاؤ کہ اس میں برائی کیا ہے.اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے.اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقعہ ملتا ہے.دعا کرنے کے لئے فرصت ہوتی ہے.زیادہ سے زیادہ نماز میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے.اگرچہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم وقت میں ادا ہو جاتی ہیں.پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے.جس میں اس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں اور اگر سارا دن اور ساری رات لغو اور فضول باتوں یا کھیل اور تماشوں میں ضائع کر دیں تو اس کا نام مصروفیت رکھا جاتا ہے.اگر قوی ایمان ہو تا، قوی تو ایک طرف اگر ایمان ہی ہوتا، تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاں تک نوبت کیوں پہنچتی.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 407 مطبوعہ ربوہ) آنکھ دکھنا.آنکھ میں تکلیف ہونا.آنکھ میں نزول الماء موتیا بند ، آنکھوں کا ایک مرض جس میں مشکل الفاظ اور ان کے معانی آنکھ آنا جلن ہونا تضیع اوقات اوقات کا ضائع کرنا آنکھوں میں پانی اترتا ہے اور بینائی کم ہو جاتی ہے
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 83 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.144 زندگانی کی خواہش گناہ کی جڑ ہے: زندگانی کی زیادہ خواہش اکثر گناہوں کی اور کمزوریوں کی جڑھ ہے.ہمارے دوستوں کو لازم ہے کہ مالک حقیقی کی رضا میں اوقات عزیز بسر کرنے کی ہر وقت کوشش کریں.حاصل یہی ہے.ورنہ آج چل دینے اور مثلاً پچاس سال کے بعد کوچ کرنے میں کیا فرق ہے.جو آج چاند و سورج ہے وہی اس دن ہو گا.جو انسان نافع اور اس کے دین کا خادم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ خود بخود اس کی عمر اور صحت میں برکت ڈال دیتا ہے.اور شر الناس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا.سو آپ سب کام ہر حال خدا میں ہو کر کریں.خود اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا.تیس سال سے زائد عرصہ گزرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صاف لفظوں میں فرمایا کہ تیری عمر اسی برس یا دو چار اوپر یا نیچے ہو گی.اس میں بھی بھید ہے کہ جو کام میرے سپرد ہے.اس قدر مدت میں تمام کرنا منظور ہو گا.لہذا مجھے اپنی بیماری میں کبھی موت کا غم نہیں ہوا.مجھے خوب یاد ہے کہ جن درختوں کے نیچے میں چھ سات سالہ عمر میں کھیلا کر تا تھا.آج بعینہ بعض درخت اسی طرح ہرے بھرے سرسبز کھڑے ہیں، لیکن میں اپنے حال کو کچھ اور کا اور ہی دیکھتا ہوں.تم بھی اس کو تصور کر سکتے ہو.یہ طعن و تشنیع ہمعصروں کی غنیمت سمجھیں.اس میں اصلاح نفس متصور ہے.جب یہ نہ ہوں گے تو پھر خدمت مولیٰ کریم اور ہد یہ قابل حضرت عزت کا کیا ہو گا؟ آپ بیماری کا فکر کرتے ہیں.تمہارے پہلے بھائی یعنی صحابہ تو بیعت ہی جان قربان کرنے کی کرتے تھے اور ہر حال منتظر رہتے تھے کہ کب وہ وقت آتا ہے کہ اپنے مالک حقیقی کے راستے میں فداہوں.غرض ہر حال کیا صحت اور کیا بیماری.آپ مولیٰ کریم سے معاملہ ٹھیک رکھیں.سب کام اچھے ہو جائیں گے.“ نافع مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 439،438 مطبوعہ ربوہ) فائدہ مند ، فائدہ پہنچانے والا شر الناس لوگوں میں سے بدترین طعن و و تشنیع گالی گلوچ، لعن طعن متصور جس کا خیال یا تصور کیا جائے
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 84 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.145 قبولیت دعا کا فلسفہ: دعا بڑی چیز ہے! افسوس لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر دعا جس طر ز اور حالت پر مانگی جاوے، ضرور قبول ہو جانی چاہیے.اس لئے جب وہ کوئی دعامانگتے ہیں اور پھر وہ اپنے دل میں جمائی ہوئی صورت کے مطابق اس کو پورا ہوتا نہیں دیکھتے، تو مایوس اور نا امید ہو کر اللہ تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں.حالانکہ مومن کی یہ شان ہونی چاہیے کہ اگر بظاہر اسے اپنی دعا میں مراد حاصل نہ ہو ، تب بھی نا امید نہ ہو.کیونکہ رحمت الہی نے اس دعا کو اس کے حق میں مفید نہیں قرار دیا.دیکھو اگر بچہ ایک آگ کے انگارے کو پکڑنا چاہے تو ماں دوڑ کر اس کو پکڑلے گی.بلکہ اگر بچہ کی اس نادانی پر ایک تھپڑ بھی لگا دے، تو کوئی تعجب نہیں.اسی طرح تو مجھے ایک لذت اور سرور آجاتا ہے.جب میں اس فلسفہ دعا پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ علیم اور خبیر خدا جانتا ہے کہ کونسی دعا مفید ہے.آداب دعا: مجھے بار ہا افسوس آتا ہے.جب لوگ دعا کے لئے خطوط بھیجتے ہیں.اور ساتھ ہی لکھ دیتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے یہ دعا قبول نہ ہوئی تو ہم جھوٹا سمجھ لیں گے.آہ! یہ لوگ آداب دعا سے کیسے بے خبر ہیں.نہیں جانتے کہ دعا کرنے والے اور کرانے والے کے لئے کیسی شرائط ہیں.اس سے پہلے کہ دعا کی جاوے یہ بد ظنی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے ماننے کا احسان جتانا چاہتے ہیں اور نہ ماننے اور تکذیب کی دھمکی دیتے ہیں.ایسا خط پڑھ کر مجھے بد بو آجاتی ہے اور مجھے خیال آجاتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ دعا کے لئے خط ہی نہ لکھتا.میں نے کئی بار اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور پھر مختصر طور پر سمجھاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے دوستانہ معاملہ کرنا چاہتا ہے.دوستوں میں ایک سلسلہ تبادلہ کا رہتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں میں بھی اسی رنگ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبادلہ یہ ہے کہ جیسے وہ اپنے بندے کی ہزار ہا دعاؤں کو سنتا اور مانتا ہے.اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے.باوجود یکہ وہ ایک ذلیل سے ذلیل ہستی
درس روحانی خزائن 146 ہے، لیکن اس پر فضل و رحم کرتا ہے.اسی طرح اس کا حق ہے کہ یہ خدا کی بھی مان لے یعنی اگر کسی دعا میں اپنے منشاء اور مراد کے موافق ناکام رہے.تو خدا پر بد ظن نہ ہو، بلکہ اپنی اس نامرادی کو کسی غلطی کا نتیجہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ کی رضا پر انشراح صدر کے ساتھ راضی ہو جاوے اور سمجھ لے کہ میر امولیٰ یہی چاہتا ہے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 435،434 مطبوعہ ربوہ) سرور نشاء مزا، لذت مبادله مرضی انشراح صدر ادل بدل ، باہمی تبادلہ دلی اطمینان
درس روحانی خزائن 147 درس روحانی خزائن نمبر 85 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.اپنی جماعت کے لئے بعض نصائح : اے میری جماعت خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کے لئے ایسا طیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی ال ایلم کے اصحاب طیار کئے گئے تھے.خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے.لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بد قسمت ہے وہ جس کا تمام ہم و غم دنیا کے لئے ہے ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی.الله سة اے سعادتمند لو گو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے.تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرونہ آسمان میں سے نہ زمین میں سے خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں.سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور عقوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا سو تم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو.سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم اُن سے پوچھے جاؤ گے.نمازوں میں بہت دُعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں.اور خدا اور اس کے احکام
درس روحانی خزائن ہر ایک پہلو کے رُو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں.“ 148 (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63) مشکل الفاظ اور ان کے معانی ہم و غم پریشانی و مصائب عبث بے فائدہ نفس اثاره بدی پر ابھارنے والا نفس آستانه چوکھٹ، در بار
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 86 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.149 ابتلاء ضروری ہے: ابتلاء ضروری ہے.جیسے یہ آیت اشارہ کرتی ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ( العنكبوت: 3) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت کی ، ان پر فرشتے اترتے ہیں.مفسروں کی غلطی ہے کہ فرشتوں کا اترنا نزع میں ہے.یہ غلط ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دل کو صاف کرتے ہیں اور نجاست اور گندگی سے ، جو اللہ سے دور رکھتی ہے ، اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں.ان میں سلسلہ الہام کے لئے ایک مناسبت پیدا ہو جاتی ہے.سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے پھر متقی کی شان میں ایک اور جگہ فرمایا اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس : 63) یعنی جو اللہ کے ولی ہیں ان کو کوئی غم نہیں جس کا خدا متکفل ہو اس کو کوئی تکلیف نہیں.کوئی مقابلہ کرنے والا ضر ر نہیں دے سکتا اگر خداولی ہو جائے.پھر فرمایا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُم تُوعَدُونَ ( حم السجدة :31) یعنی تم اس جنت کے لئے خوش ہو جس کا تم کو وعدہ ہے.قرآن کی تعلیم سے پایا جاتا ہے کہ انسان کے لئے دو جنت ہیں.جو شخص خدا سے پیار کرتا ہے کیا وہ ایک جلنے والی زندگی میں رہ سکتا ہے؟ جب اس جگہ ایک حاکم کا دوست دنیوی تعلقات میں ایک قسم کی بہشتی زندگی میں ہوتا ہے، تو کیوں نہ ان کے لئے دروازہ جنت کا کھلے جو اللہ کے دوست ہیں، اگر چہ دنیا پر از تکلیف و مصائب ہے ، لیکن کسی کو کیا خبر کہ وہ کیسی لذت اٹھاتے ہیں ؟ اگر ان کو رنج ہو تو آدھ گھنٹہ تکلیف اٹھانا بھی مشکل ہے ، حالانکہ وہ تو تمام عمر تکلیف میں رہتے ہیں.ایک زمانہ کی سلطنت ان کو دے کر ان کو اپنے کام سے روکا جاوے تو کب کسی کی سنتے ہیں ؟ اس طرح خواہ مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، وہ اپنے ارادہ کو نہیں چھوڑتے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 11،10 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی نزع جان کنی کی حالت متکفل کفیل، ذمہ دار، ضامن
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 87 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.150 قرآن کریم کا اعجاز : قرآن شریف میں سب کچھ ہے.مگر جب تک بصیرت نہ ہو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.قرآن شریف کو پڑھنے والا جب ایک سال سے دوسرے سال میں ترقی کرتا ہے ، تو وہ اپنے گزشتہ سال کو ایسا معلوم کرتا ہے کہ گویا وہ تب ایک طفل مکتب تھا.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں ترقی بھی ایسی ہے.جن لوگوں نے قرآن شریف کو زوالوجوہ کہا ہے.میں اُن کو پسند نہیں کرتا.اُنہوں نے قرآن شریف کی عزت نہیں کی.قرآن شریف کو ذوالمعارف کہنا چاہیے.ہر مقام میں سے کئی معارف نکلتے ہیں اور ایک نکتہ دوسرے نکتہ کا نقیض نہیں ہوتا، مگر رو درنج، کینہ پرور اور غصہ والی طبائع کے ساتھ قرآن شریف کی مناسبت نہیں ہے اور نہ ایسوں پر قرآن شریف کھلتا ہے.میرا ارادہ ہے کہ اس قسم کی تفسیر بنادوں.نر ا فہم اور اعتقاد نجات کے واسطے کافی نہیں.جب تک کہ وہ عملی طور پر ظہور میں نہ آوے.عمل کے سوا کوئی قول جان نہیں رکھتا.قرآن شریف پر ایسا ایمان ہونا چاہیے کہ یه در حقیقت معجزہ ہے اور خدا کے ساتھ ایسا تعلق ہو کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.جب تک لوگوں میں یہ بات پیدا نہ ہو جائے ، گویا جماعت نہیں بنی.اگر کسی سے ایسی غلطی ہو کہ وہ صرف ایک غلط خیال کی وجہ سے ایک امر میں ہماری مخالفت کرتا ہے، تو ہم ایسے نہیں ہیں کہ ہم اس پر ناراض ہو جائیں.ہم جانتے ہیں کہ کمزوروں پر رحم کرنا چاہیے.ایک بچہ اگر بستر پر پاخانہ پھر دے اور ماں غصہ میں آکر اس کو پھینک دے، تو وہ خون کرتی ہے.ماں اگر بچہ کے ساتھ ناراض ہونے لگے اور ہر روز اس سے روٹھنے لگے.تو کام کب بنے.وہ جانتی ہے کہ یہ ہنوز نادان ہے.رفتہ رفتہ خدا اس کو عقل دے گا اور کوئی وقت آتا ہے کہ یہ سمجھ لے گا کہ ایسا کرنا نامناسب ہے.سو ہم ناراض کیوں ہوں.اگر ہم کذب پر ہیں، تو خود ہمارا کذب ہمیں ہلاک کرنے کے واسطے کافی ہے.ہم اس راہ پر قدم مارنے والے سب سے پہلے نہیں ہیں.جو ہم گھبر اجائیں کہ شاید حق والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا معاملہ ہو اکرتا ہے.
درس روحانی خزائن 151 ہم جانتے ہیں کہ سنت اللہ کیا ہے.سرور انبیاء پر کروڑوں اعتراض ہوئے.ہم پر تو ابھی اتنے نہیں ہوئے.بعض کہتے ہیں کہ جنگ احد میں آپ کو 70 تلواریں لگی تھیں.صدق کا پیج ضائع نہیں ہوتا.ابو بکری طبیعت تو کوئی ہوتی ہے کہ فورآمان لے.طبائع مختلف ہوتی ہیں.مگر نشان کے ساتھ کوئی ہدایت نہیں پاسکتا.سکینت باطنی آسمان سے نازل ہوتی ہے.تصرفاتِ باطنی یک دفعہ تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں.پھر انسان ہدایت پاتا ہے.ہدایت امر ربی ہے.اس میں کسی کو دخل نہیں.میرے قابو میں ہو تو میں سب کو قطب اور ابدال بنادوں.مگر یہ امر محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.ہاں دُعا کی جاتی ہے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی طفل مکتب مدرسے میں پڑھنے والا بچہ ، نو آموز ذوالمعارف معارف والا ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 454،453 مطبوعہ ربوہ) زود رنج بہت جلد ناراض ہو جانے والا کینہ پرور زوالوجوه نقیض چہرے والا الٹ، متضاد دشمنی رکھنے والا هنوز ابھی تک امر ربی میرے رب کا حکم قطب خدارسیدہ بزرگ ابدال نیک صالح لوگ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 88 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.152 عبادت کی حقیقت: عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو ڈور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے، جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مور معبد جیسے سُرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر ، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی رُوح ہو.اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی جاوے، تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے، تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پید اہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے، تو اس میں خدا نظر آئے گا.ووور میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہو کر نشو و نما پائیں گے اور وہ اثمار شیریں و طیب ان میں لگیں گے.جو اُكُتهَا دَائِم (الرعد :36) کے مصداق ہوں گے.یادر کھو کہ یہ وہی مقام ہے، جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.جب سالک یہاں پہنچتا ہے، تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے.اس کا دل عرش الہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو ، جس میں رُوحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے.اسی مقام پر پہنچ کر انسان دُنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی هذا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَ أَتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا (البقره:26) کہنے کا حظ اور لطف اُٹھاتا ہے.غرض حالت تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے، پھر فرمایا إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرُ (ھود : 3) چونکہ یہ تعبد تام کا عظیم الشان کام انسان بدوں کسی اُسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ کے اور کسی قوت قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کر سکتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی ا یکم فرماتے ہیں کہ میں اسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر ہو کر آیا ہوں.اگر میری اطاعت کرو گے اور مجھے قبول
درس روحانی خزائن 153 کرو گے تو تمہارے لیے بڑی بڑی بشارتیں ہیں.کیونکہ میں بشیر ہوں اور اگر رڈ کرتے ہو تو یادر کھو کہ میں نذیر ہو کر آیا ہوں.پھر تم کو بڑی بڑی عقوبتوں اور دُکھوں کا سامنا ہو گا.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 347 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی قساوت سختی کبھی ٹیڑھا پن مور معبد کثرت سے چلنے کی وجہ سے بہت سلوک اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے ہموار ہو جانے والا راستہ والا راستہ سالک اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا تعبد نذیر ڈرانے والا، ہوشیار کرنے والا بشیر عبادت گزاری، بندگی خوشخبری دینے والا عقوبتوں دکھوں، تکلیفوں
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 89 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.154 یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو.کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.من نه آنستم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بد تر ہو گا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں.کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے.کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں ہر گز نہیں ہو سکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے.پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو
درس روحانی خزائن 155 جائیں ان کو وداع کا سلام.لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہو گی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں.کیونکہ بد ظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے.“ انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 24،23) ترجمہ : ”میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ لڑائی کے وقت تو میری پیٹھ دیکھے ، میں وہ ہوں کہ تجھے خاک اور خون میں پڑا ایک سر دکھائی دے گا.“ در ثمین فارسی کے محاسن صفحہ 296 مطبوعہ قادیان 2002ء) مشکل الفاظ اور ان کے معانی سرشت پر خار بادیہ عبث فطرت پیوند کانٹوں بھر ابیابان سب وشتم بے فائدہ وداع جوڑ گالی گلوچ الوداع
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 90 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں:.156 " قرآن کریم کی آیات معقولی اور روحانی دونوں طور کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہیں.پھر بعد اس کے فرمایا کہ قرآن میں اس قدر عظمت حق بھری ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی آیتوں کے سُننے سے اُن کے دلوں پر قشعریرہ پڑ جاتا ہے اور پھر اُن کی جلدیں اور اُن کے دل یاد الہی کے لئے یہ نکلتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ یہ کتاب حق ہے اور نیز میزان حق یعنی یہ حق بھی ہے اور اس کے ذریعہ سے حق شناخت بھی ہو سکتا ہے.اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے پانی اُتارا.پس اپنے اپنے قدر پر ہر یک وادی بہ نکلی یعنی جس قدر دنیا میں طبائع انسانی ہیں قرآن کریم انکے ہر ایک مرتبہ فہم اور عقل اور ادراک کی تربیت کرنیوالا ہے اور یہ امر مستلزم کمال تام ہے کیونکہ اس آیت میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اس قدر وسیع دریائے معارف ہے کہ محبت الہی کے تمام پیاسے اور معارف حقہ کے تمام تشنہ لب اسی سے پانی پیتے ہیں اور پھر فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم کو اسلئے اُتارا ہے کہ تاجو پہلی قوموں میں اختلاف ہو گئے ہیں اُن کا اظہار کیا جائے.اور پھر فرمایا کہ یہ قرآن ظلمت سے نور کی طرف نکالتا ہے.اور اُس میں تمام بیماریوں کی شفا ہے اور طرح طرح کی برکتیں یعنی معارف اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے والے اُمور اس میں بھرے ہوئے ہیں اور اس لائق ہے کہ اس کو تدبر سے دیکھا جائے اور عظمند اس میں غور کریں اور سخت جھگڑالو اس سے ملزم ہوتے نہیں اور ہر ایک شے کی تفصیل اس میں موجود ہے اور یہ ضرورت حقہ کے وقت نازل کیا گیا ہے.اور ضرورت حقہ کے ساتھ اُترا ہے اور یہ کتاب عزیز ہے باطل کو اس کے آگے پیچھے راہ نہیں اور یہ نور ہے جس کے ذریعہ سے ہدایت دی جاتی ہے اس میں ہر ایک شے کا بیان موجود ہے اور یہ رُوح ہے اور یہ کتاب عربی فصیح بلیغ میں ہے اور تمام صداقتیں غیر متبدل اس میں موجود ہیں ان کو کہدے کہ اگر جن وانس اس کی نظیر بنانا چاہیں یعنی وہ صفات کا ملہ جو اس کی بیان کی گئی ہیں اگر کوئی ان کی مثل بنی آدم اور جنات میں سے بنانا چاہیں تو یہ اُن کیلئے ممکن نہ ہو گا اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.“ تشعریده مشکل الفاظ اور ان کے معانی لرزه (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 59،58) تشنه لب پیاسا فصیح و بلیغ دور رس معانی پر مشتمل، جامع اور معنی خیز غیر متبدل بدلی نہ جانے والی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 91 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.157 صبر: منجملہ انسان کے طبعی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے.لیکن جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب کے رُو سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرور تأ ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کی طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے رو تا چیختا سر پیٹتا ہے.آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے.پس یہ دونوں حرکتیں طبعی حالتیں ہیں ان کو خلق سے کچھ تعلق نہیں.بلکہ اس کے متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے.اور یہ کہے کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں.اس خلق کے متعلق خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ یعنی اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے کہ کبھی کوئی خوفناک حالت تم پر طاری ہو گی اور کبھی فقر و فاقہ تمہارے شامل حال ہو گا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہو گا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولاد مرے گی.پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں اور اس کی امانتیں اور اس کے مملوک ہیں.پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے.یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پاگئے.(البقرة:156 تا158)
درس روحانی خزائن 158 غرض اس خلق کا نام صبر اور رضا بر رضائے الہی ہے.اور ایک طور سے اس خلق کا نام عدل بھی ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ انسان کی تمام زندگی میں اس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور نیز ہزار ہا باتیں اس کی مرضی کے موافق ظہور میں لاتا ہے اور انسان کی خواہش کے مطابق اس قدر نعمتیں اس کو دے رکھی ہیں کہ انسان شمار نہیں کر سکتا تو پھر یہ شرط انصاف نہیں کہ اگر وہ کبھی اپنی مرضی بھی منوانا چا ہے.تو انسان منحرف ہو.اور اس کی رضا کے ساتھ راضی نہ ہو.اور چون و چرا کرے یا بے دین اور بے راہ ہو جائے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 362،361) مشکل الفاظ اور ان کے معانی سیاپے بین کرنا جزع فزع رونا دھونا، چیخنا چلانا حسب المراد مراد کے مطابق مملوک خادم، بندے منحرف ہونا منہ موڑنا چون و چرا کرنا حیل و حجت کرنا، لیت و لعل کرنا
درس روحانی خزائن 159 درس روحانی خزائن نمبر 92 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.اسلامی پردہ آجکل پر دے پر حملے کیے جاتے ہیں.لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں، بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پر دہ ہو گا، ٹھو کر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں، سیر میں کریں.کیونکر جذبات نفس سے اضطرارا ٹھو کر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کو حالا نکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے ، انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دیں.جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں.تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو.جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں، تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھو کر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی." ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 21، 22 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی زنداں جیل بے محابا کھلے عام ، بلاروک ٹوک شارع اسلام شریعت اسلام لانے والے مراد حضرت محمدعلی ملی یک خلیج الرسن ہر قسم کی پابندی سے آزاد
درس روحانی خزائن 160 درس روحانی خزائن نمبر 93 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.تزکیہ نفس کی حقیقت: سویا د رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہیے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں وحدہ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہئیے اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بغض، حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہئیے اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہیئے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ معاملہ تو ابھی دور ہے کہ تم لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے از خود رفتہ اور محو ہو جاؤ کہ بس اُسی کے ہو جاؤ اور جیسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو عمل سے بھی کر کے دکھاؤ.ابھی تو تم لوگ مخلوق کے حقوق کو بھی کما حقہ ادا نہیں کرتے بہت سے ایسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں اور اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں اور بد سلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبتیں کرتے اور اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے ہیں.لیکن خدا تعالی فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ.اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا.کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا.گو ان دو قسم کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالیٰ کا ہے مگر اس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے.جو اپنے شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ہمہ تن ہر وقت ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 408،407 مطبوعہ ربوہ) ملائمت نرمی، شفقت غیبت کسی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر جسے وہ ناپسند کرتا ہو از خود رفته عاشق، قربان ، دیوانه
درس روحانی خزائن 161 درس روحانی خزائن نمبر 94 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے ذرائع اب اگر یہ سوال ہو کہ پھر اس درجہ کے حصول کے لئے کیا کیا جائے؟ اور قرآن کریم نے اس درجہ پر پہنچنے کا کیا ذریعہ بتایا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دوباتیں اس کے لئے بطور اُصول کے رکھی ہیں.اول یہ کہ دُعا کرو.یہ سچی بات ہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء : 29) انسان کمزور مخلوق ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے بدوں کچھ بھی نہیں کر سکتا.اس کا وجو د اور اس کی پرورش اور بقاء کے سامان سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہیں.احمق ہے وہ انسان جو اپنی عقل و دانش یا اپنے مال و دولت پر ناز کرتا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے.وہ کہاں سے لایا؟ اور دعا کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنے ضعف اور کمزوری کا پورا خیال اور تصور کرے.جوں جوں وہ اپنی کمزوری پر غور کرے گا.اسی قدر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا.اور اس طرح پر دُعا کے لئے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہو گا.جیسے انسان جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور دُکھ یا تنگی محسوس کرتا ہے، تو بڑے زور کے ساتھ پکارتا اور چلاتا ہے اور دوسرے سے مددمانگتا ہے.اسی طرح اگر وہ اپنی کمزوریوں اور لغزشوں پر غور کرے گا اور اپنے آپ کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا، تو اس کی روح پورے جوش اور درد سے بے قرار ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے گی اور چلائے گی اور یارب یارب کہہ کر پکارے گی.غور سے قرآن کریم کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ پہلی ہی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی تعلیم دی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحہ :7،6) دُعاتب ہی جامع ہو سکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرتوں سے بچاتی ہو.پس اس دعا میں بہترین منافع جو ہو سکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.اُس سے بچنے کی دُعا ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 274،273 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معافی لغزشوں کمزوریوں مضرتوں نقصانوں
درس روحانی خزائن در رس روحانی خزائن نمبر 95 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.162 ایک معجزہ: یہ ایک معجزہ ہے اور بڑی خوبی کا معجزہ ہے بشر طیکہ انصاف سے اس پر نظر کی جاوے کہ آج سے 23 یا 24 برس پیشتر کی کتاب براہین احمدیہ تصنیف شدہ ہے اور اس کی جلد میں اس وقت کی ہر ایک مذہب اور ملت کے پاس موجود ہیں یورپ بھی بھیجی گئی، امریکہ میں بھی بھیجی گئی، لنڈن میں اس کی کاپی موجود ہے اس میں بڑی وضاحت سے یہ لکھا ہو ا موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ لوگ فوج در فوج تمہارے ساتھ ہوں گے حالانکہ جب یہ کلمات لکھے اور شائع کئے گئے تھے اس وقت فرد واحد بھی میرے ساتھ نہ تھا.اس وقت خدا تعالیٰ نے ایک دعا سکھلائی جو کہ بطور گواہ اس میں لکھی ہوئی ہے رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَ اَنْتَ خَيْرُ الورثينَ (الانبياء :90) خدا تعالیٰ کا اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ تو اکیلا ہے اور پھر تاکید کی کہ تو مخلوق کی ملاقات سے تھکنا مت اور چین بجبیں نہ ہو نا تو اب غور کرنے کی جاہے کہ کیا یہ کسی انسان کا اقرار ہو سکتا ہے اور پھر ایک زبان میں نہیں بلکہ چار زبانوں میں یہ الہام فوج در فوج لوگوں کے ساتھ ہونے کا ہے یعنی انگریزی، اردو، فارسی، عربی میں.بڑے بڑے گواہ اگر چہ ہمارے مخالف ہیں، موجود ہیں.محمد حسین بھی زندہ ہے یہاں کے لوگ بھی جانتے ہیں کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ اس وقت کون کون ہمارے ساتھ بلکہ وہ ایک گم زمانہ تھا کوئی مجھے نہ جانتا تھا اب دیکھو کہ وہ بات کیسی پوری ہوئی ہے حالانکہ ہر فرقہ اور ملت کے لوگوں نے ناخنوں تک مخالفت میں زور لگایا اور ہماری ترقی اور کامیابی کو روکنا چاہا لیکن ان کی کوئی پیش نہ گئی اور اس مخالفت کا ذکر بھی اسی کتاب براہین میں موجود ہے اب بتلاویں کہ کیا یہ معجزہ ہے کہ نہیں ؟ ہم ان سے نظیر طلب کرتے ہیں کہ آدم سے لے کر اس وقت تک وہ کسی ایسے مفتری کی خبر دیویں کہ اس نے افتراء علی اللہ کیا ہو اور اس پر مصر رہ کر 24 یا 25 سال کا زمانہ پایا ہو.یہ ایک بڑا نشان اور معجزہ ہے اسے عقلمندوں اور اہل الرائے کو دکھلاؤ اور ان کے سامنے پیش کرو کہ وہ اس کی نظیر پیش کریں کہ اس طرح کی پیشگوئی ہو اور باوجود اس قدر مخالفت کے پھر پوری ہو جاوے ایک ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 491 مطبوعہ ربوہ) طالب حق کے لیے یہ معجزہ کافی ہے.،، مشکل الفاظ اور ان کے معانی چین بجبیں اکتانا، غصے میں آنا اہل الرائے عظمند
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 96 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.163 قرآن کے نام میں پیشگوئی: اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان و اعتقاد ہوتے ، تو ہم قوموں کو شر مساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے.میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی.تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے.وہ یہ ہے کہ یہی قرآن پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے لائق کتاب ہو گی.جبکہ اور کتابیں بھی اس کے ساتھ پڑھنے میں شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.فرقان کے بھی یہی معنی ہیں.یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی.اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا ر ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں.بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتناء اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 386 مطبوعہ ربوہ) بطلان جھوٹ ، باطل استیصال ختم، نابود افسوس متأسف التفات توجہ تعلیم اعتناء خیال تدارس
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 97 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.164 آنحضرت مصلی الم کے معجزات: آنحضرت صلی ا کرم کا کروڑ معجزوں سے بڑھ کر معجزہ تو یہ تھا کہ جس غرض کے لئے آئے تھے اسے پورا کر گئے.یہ ایسی بے نظیر کامیابی ہے کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی میں کامل طور سے نہیں پائی جاتی.حضرت موسیٰ بھی رستے ہی میں مر گئے اور حضرت مسیح کی کامیابی تو ان کے حواریوں کے سلوک سے ہویدا ہے.ہاں آپ کو ہی یہ شان حاصل ہوئی کہ جب گئے تو رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا ( النصر : 3) یعنی دین اللہ میں فوجوں کی فوجیں داخل ہوتے دیکھ کر.دوسرا معجزہ تبدیل اخلاق ہے کہ یا تو وہ اولبِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الاعراف:180) چارپایوں سے بھی بدتر تھے یا يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ( الفرقان: 65) رات دن نمازوں میں گزارنے والے ہو گئے.تیسرا معجزہ آپ کی غیر منقطع برکات ہیں کل نبیوں کے فیوض کے چشمے بند ہو گئے.مگر ہمارے نبی کریم ملی ای کم کا چشمہ فیض ابد تک جاری ہے چنانچہ اسی چشمہ سے پی کر ایک مسیح موعود اس امت میں ظاہر ہوا.چوتھی یہ بات بھی آپ ہی سے خاص ہے کہ کسی نبی کے لیے اس کی قوم ہر وقت دعا نہیں کرتی مگر آنحضرت صلی الی یوم کی امت دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں نماز میں مشغول ہوتی ہے اور پڑھتی ہے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ اس کے نتائج برکات کے رنگ میں ظاہر ہو رہے ہیں.چنانچہ انہی میں سے سلسلہ مکالمات الہی ہے جو اس امت کو دیا جاتا ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 205 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی ہویدا ظاہر ، عیاں چارپایوں چار پاؤں والے جانور
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 98 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.165 واضح ہو کہ قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لاشریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کے رو سے بھی اس کو واحد لاشریک ٹھہراؤ.جیسا کہ کلمہ لا إلهَ إِلَّا الله جوہر وقت مسلمانوں کو ورد زبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ اله.ولاہ سے مشتق ہے.اور اس کے معنے ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے.یہ کلمہ نہ توریت نے سکھلایا اور نہ انجیل نے صرف قرآن نے سکھلایا اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے.یہی کلمہ پانچ وقت مساجد کے مناروں میں بلند آواز سے کہا جاتا ہے جس سے عیسائی اور ہند و سب چڑتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو محبت کے ساتھ یاد کرنا ان کے نزدیک گناہ ہے.یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ صبح ہوتے ہی اسلامی مؤذن بلند آواز سے کہتا ہے کہ اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا الله یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی ہمارا پیارا اور محبوب اور معبود بجز اللہ کے نہیں.پھر دو پہر کے بعد یہی آواز اسلامی مساجد سے آتی ہے.پھر عصر کو بھی یہی آواز پھر مغرب کو بھی یہی آواز اور پھر عشاء کو بھی یہی آواز گونجتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے.کیا دنیا میں کسی اور مذہب میں بھی یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے ؟!! پھر بعد اس کے لفظ اسلام کا مفہوم بھی محبت پر ہی دلالت کرتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے آگے اپنا سر رکھ دینا اور صدق دل سے قربان ہونے کے لئے طیار ہو جانا جو اسلام کا مفہوم ہے یہ وہ عملی حالت ہے جو محبت کے سر چشمہ سے نکلتی ہے.اسلام کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے صرف قولی طور پر محبت کو محدود نہیں رکھا بلکہ عملی طور پر بھی محبت اور جان فشانی کا طریق سکھایا ہے.دنیا میں اور کونسا دین ہے جس کے بانی نے اس کا نام اسلام رکھا ہے ؟ اسلام نہایت پیارا لفظ ہے اور صدق اور اخلاص اور محبت کے معنے کوٹ کوٹ کر اس میں بھرے ہوئے ہیں.پس مبارک وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے.ایسا ہی خدا کی محبت کے بارے
درس روحانی ختنه ائن 166 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة : 166) یعنی ایماندار وہ ہیں جو سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں.پھر ایک جگہ فرماتا ہے فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذكرًا ( البقرة : 201) یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو.“ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 367،366) مشکل الفاظ اور ان کے معانی اله معبود، قابل عبادت مشتق اخذ کیا ہوا، نکلا ہوا، ماخوذ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.167 ”جب میری عمر غالباً پندرہ برس کی ہوگی ایک کھتری سے میں نے کہا جو حضرت والد صاحب کے حضور میں بیٹھا ہوا اپنی تلخ کامیابیاں اور نامر ادیاں بیان کر تا اور سخت گڑھ رہا تھا.میں نے کہا.لوگ دنیا کے لیے کیوں اس قدر دُکھ اُٹھاتے اور اس کے غم و ہم میں گرفتار ہیں.اس نے کہا تم ابھی بچہ ہو.جب گرہستی ہو گے تب تمہیں ان باتوں کا پتہ لگے گا.فرمایا: ایک عرصہ کے بعد جب غالباً میری عمر چالیس کے قریب ہو گی کسی تقریب سے پھر اسی کھتری سے گفتگو کا اتفاق ہوا.میں نے کہا.اب بتاؤ اب تو میں گر ہستی ہوں.اس نے کہا.تم تو ویسے ہی ہو.فرمایا: ہر شخص اپنے دل میں جھانک کر دیکھے کہ دین و دنیا میں سے کس کا زیادہ غم اس کے دل پر غالب ہے.اگر ہر وقت دل کا رخ دنیا کے امور کی طرف رہتا ہے تو اُسے بہت فکر کرنی چاہیے.اس لیے کلماتِ الہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی.فرمایا: کاش لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ جس شخص کا تمام ہم و غم دین کے لیے ہوتا ہے.اس کے دنیا کے ہم و غم کا اللہ تعالیٰ متکفل و متولی ہو جاتا ہے.فرمایا: میں نے کبھی نہیں سنا اور نہ کوئی کتاب گواہی دیتی ہے کہ کبھی کوئی نبی بھو کا مرا ہو یا اس کی اولاد دروازوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہو.ہاں دنیا کے ملوک اور امراء اور اغنیاء کا یہ برا حال اکثر سنا گیا ہے کہ اُن کی اولاد نے در بدر ٹکڑے مانگے ہیں.خدا تعالیٰ کی سنت مستمرہ ہے کہ کبھی کوئی کامل مومن بستر نرم سے خاکستر گرم پر نہیں بیٹھا اور نہ اس کی اولاد کو روز بد دیکھنا نصیب ہوا.اگر لوگ ان باتوں پر پختہ ایمان لے آئیں اور سچا اور پاک بھر وسہ اللہ تعالیٰ پر کر لیں تو ہر قسم کی روحانی خود کشی اور دلی جلن سے رہائی پا جائیں.فرمایا: اکثر لوگوں کو اولاد کی آرزو بھی اس خیال سے لگی رہتی ہے کہ کوئی اُن کی مردار دنیا کا وارث پیدا ہو جائے.نہیں جانتے کہ اگر وہ بد کار و ناہنجار نکلے تو اُن کا کمایا ہوا روپیہ اور
درس روحانی خزائن 168 اندوختہ فسق و فجور میں ان کا معاون ہو گا اور ان کی سیاہ کاریوں کا ثواب اُن کے نامہ اعمال میں ثبت ہو تا رہے گا.فرمایا: اولاد کی آرزو کے لیے حضرت زکریا علیہ السلام کا سادل درکار ہے.اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں اس کا ذکر کرنا اس لیے ہے کہ حضرت زکریا کی دعاولد صالح کے لیے مومنوں کے لیے اُسوہ ٹھہر جائے.فرمایا: زندگی نا قابل اعتبار ہے.فرصت بہت کم ہے.ہر ایک کو چاہے کہ دین کی فکر میں لگ جائے.اس سے بہتر نسخہ عمر بڑھانے اور برکت کا نہیں.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 305،304 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی کھتری ایک قوم گڑھنا جلنا گرہستی گھر بار والا، اہل و عیال والا متكفل کفیل، ذمہ دار، ضامن متولى نگران، سرپرست سنت مستمره جاری سنت خاکستر گرم گرم راکھ ناہنجار سیج روش، بے راہ ، گمراہ اندوخته کمایا ہوا ولد صالح نیک بیٹا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 100 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:." 169 تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ : دن بہت ہی نازک ہیں.اللہ تعالیٰ کے غضب سے سب کو ڈرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا، مگر صالح بندوں کی.آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کر و اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہنرل اور تمسخر سے کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا نہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں.تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے.تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے.اور کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے ، مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں، ان کی مالک پر واہ نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑ ہارا ان کو کاٹ کر تنور میں پھینک دیوے.سو ایسا ہی تم بھی یادرکھو.اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہر وگے ، تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو ، تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پرواہ نہیں.ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتیں ہیں، پر ان پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے، تو کتنی باز پرس ہوتی ہے.سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بے کار اور لاپر واہ بناؤ گے ، تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا.چاہیے کہ تم خدا کے عزیزوں میں
درس روحانی خزائن 170 شامل ہو جاؤ.تا کہ کسی وباء یا کسی آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے، کیونکہ کوئی بات بھی اللہ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ.لوگ تمہاری مخالفت کریں گے اور انجمن کے ممبر تم پر ناراض ہوں گے.پر تم ان کو نرمی کے ساتھ سمجھاؤ اور جوش کو ہر گز کام میں نہ لاؤ.یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز مندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 175،174 مطبوعہ ربوہ) منزل ہنی، تمسخر ساعی کوشش کرنے والا باز پرس پوچھ کچھ مدی تیزی، طراری، شدت
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 101 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.171 ”انسان کی حقیقت: انسان اصل میں انسان سے لیا گیا ہے یعنی جس میں دو حقیقی انس ہوں.ایک اللہ تعالیٰ سے اور دوسر اپنی نوع انسان کی ہمدردی سے.جب یہ دونوں انس اس میں پیدا ہو جاویں.اس وقت انسان کہلاتا ہے اور یہی وہ بات ہے جو انسان کا مغز کہلاتی ہے اور اسی مقام پر انسان اولو الألباب کہلاتا ہے.جب تک یہ نہیں کچھ بھی نہیں.ہزار دعویٰ کر دکھاؤ، مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک، اس کے نبی اور اس کے فرشتوں کے نزدیک بیچ ہے.اسوۂ انبیاء علیہم السلام: پھر یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ تمام انسان نمونہ کے محتاج ہیں اور وہ نمونہ انبیاء علیہم السلام کا وجو د ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ درختوں پر کلام الہی لکھاتا، مگر اس نے جو پیغمبروں کو بھیجا اور ان کی معرفت کلام الہی نازل فرمایا.اس میں یہی ستر یہ تھا کہ تا انسان جلوہ الوہیت کو دیکھے، جو پیغمبروں میں ہو کر ظاہر ہوتا ہے.پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدا نما ہوتے ہیں.پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے، جو پیغمبروں کا مظہر بنے.صحابہ کرام نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول اکرم صلی لنی کیم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھوئے گئے کہ ان کے وجود میں کچھ اور باقی رہا ہی نہیں تھا.جو کوئی ان کو دیکھتا تھا ان کو محویت کے عالم میں دیکھتا تھا.پس یاد رکھو کہ اس زمانہ میں بھی جب تک وہ محویت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہو گی جو صحابہ کرام میں پیدا ہوئی تھی.مریدوں معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہو گا.یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لو کہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں.اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل و دخل موجود ہے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 416 417 مطبوعہ ربوہ) دو محبتیں أولُو الْأَلْبَابِ عقل مند انان محویت خود فراموشی ، خیال میں ہونا سکونت بود و باش، قیام
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 102 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.172 انسان اور بہائم میں فرق: بچپن کی عمر کا ذکر ہو ا فرمایا کہ: انسان کی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے.بچوں میں عادت ہوتی ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں.آپس میں گالی گلوچ ہوتے ہیں.ذرا ذراسی باتوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں جوں جوں عمر میں وہ ترقی کرتے جاتے ہیں عقل اور فہم میں بھی ترقی ہوتی جاتی ہے.رفتہ رفتہ انسان تزکیہ نفس کی طرف آتا ہے.انسان کی بچپن کی حالت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گائے بیل وغیرہ جانوروں ہی کی طرح انسان بھی پیدا ہوتا ہے.صرف انسان کی فطرت میں ایک نیک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر نیکی کو اختیار کرتا ہے اور یہ صفت انسان میں ہی ہوتی ہے.کیونکہ بہائم میں تعلیم کا مادہ نہیں ہو تا.سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ایک قصہ نظم میں لکھا ہے کہ ایک گدھے کو ایک بیوقوف تعلیم دیتا تھا اور اس پر شب و روز محنت کرتا.ایک حکیم نے اسے کہا کہ اے بیوقوف تو یہ کیا کرتا ہے ؟ اور کیوں اپنا وقت اور مغز بے فائدہ گنواتا ہے ؟ یعنی گدھا تو انسان نہ ہو گا تو بھی کہیں گدھانہ بن جاوے.در حقیقت انسان میں کوئی ایسی الگ شے نہیں ہے جو کہ اور جانوروں میں نہ ہو.عموماً سب صفات درجہ وار تمام مخلوق میں پائے جاتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق میں ترقی کرتا ہے اور حیوان نہیں کرتا.اخلاق کی حقیقت دیکھوار نڈ کا تیل اور کھانڈ کیسے غلیظ ہوتے ہیں ، لیکن جب خوب صاف کیا جاوے تو مصفی ہو کر خوشنما ہو جاتے ہیں.یہی حال اخلاق اور صفات کا ہے.اصل میں صفات کل نیک ہوتے ہیں جب ان کو بے موقعہ اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاوے تو وہ برے ہو جاتے ہیں اور ان کو گندہ کر دیا جاتا ہے لیکن جب ان ہی صفات کو افراط تفریط سے بچا کر محل اور موقعہ پر استعمال کیا جاوے تو ثواب کا موجب ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ( الفلق : 6) اور دوسری جگہ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ اب سبقت لے جانا
درس روحانی خزائن 173 بھی تو ایک قسم کا حسد ہی ہے سبقت لے جانے والا کب چاہتا ہے کہ اس سے اور کوئی آگے بڑھ جاوے یہ صفت بچپن ہی سے انسان میں پائی جاتی ہے اگر بچوں کو آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو تو وہ محنت نہیں کرتے اور کوشش کرنیوالے کی استعداد بڑھ جاتی ہے سابقون گویا حاسد ہی ہوتے لیکن اس جگہ حسد کا مادہ مصفی ہو کر سابق ہو جاتا ہے اسی طرح حاسد ہی بہشت میں سبقت لے جاویں گے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 197 مطبوعہ ربوہ) ارنڈ کا تیل کسٹر آئل(CastorOil) بہائم جانور کھانڈ چینی، شکر (Sugar) سَابِقُون سبقت لے جانے والے حاسد حد کرنے والا مصفى صاف شفاف ، روشن
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 103 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی السلام بیان کرتے ہیں:.دو 174 ” بیعت کی غرض: ہر ایک شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کی بیعت کی کیا غرض ہے ؟ کیا وہ دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے.بہت سے ایسے بد قسمت انسان ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غایت اور مقصود صرف دنیا ہوتی ، ورنہ بیعت سے ان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی یقین اور معرفت کا نور جو حقیقی بیعت کے نتائج اور ثمرات ہیں ان میں پیدا نہیں ہوتا ان کے اعمال میں کوئی خوبی اور صفائی نہیں آتی نیکیوں میں ترقی نہیں کرتے گناہوں سے بچتے نہیں ایسے لوگوں کو جو دنیا کو ہی اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں یا درکھنا چاہیئے کہ دنیا روزے چند آخر کار با خداوند یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گزر جاوے گی خواہ تنگی میں گذرے خواہ فراخی میں.مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفائی کر لی تھی اور اللہ تعالٰی کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیت سے تو بہ کر کے ہر ایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کر کے پکارا ہے بچتا رہا تو خدا تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرے گا اور وہ اس مقام پر ہو گا.کہ خدا اس سے راضی ہو گا.اور وہ اپنے رب سے راضی ہو گا.اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لا پرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا انجام خطر ناک ہے اس لیے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ ہے لیکن اگر دین کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منافع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں.“ 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 432،431 مطبوعہ ربوہ) ترجمہ: دنیا چند روزہ ہے بالآخر خدا کے پاس حاضر ہو جانا ہے.مشکل الفاظ اور ان کے معانی مستولی غالب، چھا جانے والا دستگیری معین و مددگار
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 104 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.175 جماعت میں شامل ہونے والوں کے لیے نصائح: ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ ﷺم کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے ، چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معا دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں.السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے.اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں.لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے.تم انبیاء ورسل سے زیادہ نہیں ہو.ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے.دعاؤں میں لگے رہو.پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء ورسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو.تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا.وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے، ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہو تا.تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے.دیکھو میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سُن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا
درس روحانی خزائن 176 ہے جو مفسدانہ طریق ہو.جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا، تو خود اُسے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو.صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ تو پوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے.صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے.یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.اس طریق کو میں ہر گز پسند نہیں کرتا.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی دنگه ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 156 157 مطبوعہ ربوہ) فساد اشتعال جوش، غصه
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 105 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.177 قرآن کریم کی یہ تعلیم ہر گز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ( البلد :18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مر تبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے.جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دعا کی ہو.خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے، مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہو تا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے.تمہیں چاہیے کہ تَخَلْقُوْا بِاخْلَاقِ اللهِ بنو.ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو، کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے.شیخ سعدی کے دو شاگر د تھے ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کیا کرتا تھا دو سر اجلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسر اجلتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تو نے غیبت کی.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا.جب تک رحم، دعا، ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی مرحمه رحم ستار ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 60، 61 مطبوعہ ربوہ) تاثیر اثر ، خاصیت پردہ پوشی کرنے والا تَخَلَّقَوْا بِاخْلاقِ اللہ اللہ کے اخلاق اختیار کرو
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 106 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.178 اب جاننا چاہئے کہ مذہب اسلام کے تمام احکام کی اصل غرض یہی ہے کہ وہ حقیقت لفظ اسلام میں مخفی ہے اُس تک پہنچایا جائے.اسی غرض کے لحاظ سے قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں.ہمیں ہیں کہ جو خدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہیں اور کہیں اُس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں.کیونکہ کسی کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے.چنانچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لا شریک ہے کوئی بھی اس میں نقص نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کا ملہ کا اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبد آہے تمام مخلوق کا، اور سر چشمہ ہے تمام فیضوں کا، اور مالک ہے تمام جزا سزا کا، اور مرجع ہے تمام امور کا، اور نزدیک ہے باوجو د دُوری کے اور دُور ہے باوجود نزدیکی کے ، وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے ، اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے.وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے.وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے.اُس نے ہر یک چیز کو اُٹھارکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اُس کو اُٹھارکھا ہو.کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے.وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے.وہ آسمان اور زمین کی ہر یک چیز کانور ہے اور ہر یک نور اسی کے ہاتھ سے چمکا.اور اُسی کی ذات کا پر توہ ہے.وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے.کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو.کسی رُوح کی کوئی قوت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو اور اُس کی رحمتیں دو قسم کی ہیں (1) ایک وہ جو بغیر سبقت عمل کسی عامل کے قدیم سے ظہور پذیر ہیں جیسا کہ زمین اور آسمان اور سورج اور چاند اور ستارے اور پانی اور آگ اور ہوا اور تمام ذرات اس عالم کے جو ہمارے آرام کے لئے بنائے گئے.ایسا ہی جن جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی وہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہمارے لئے مہتا
درس روحانی خزائن 179 کی گئیں اور یہ سب اُس وقت کیا گیا جبکہ ہم خود موجود نہ تھے.نہ ہمارا کوئی عمل تھا.کون کہہ سکتا ہے کہ سورج میرے عمل کی وجہ سے پیدا کیا گیا یاز مین میرے کسی شدھ کرم کے سبب سے بنائی گئی.غرض یہ وہ رحمت ہے جو انسان اور اس کے عملوں سے پہلے ظاہر ہو چکی ہے جو کسی کے عمل کا نتیجہ نہیں (2) دوسری رحمت وہ ہے جو اعمال پر مترتب ہوتی ہے اور اس کی تصریح کی کچھ ضرورت نہیں.“ لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 153،152) مشکل الفاظ اور ان کے معانی حسن و جمال خوبصورتی فیضوں فوائد، نفع پر توہ عکس، سایہ، پر چھاواں شده کرم عمل صالح ، نیک کام مترتب درست کیا ہوا، ترتیب دیا ہوا تفریح وضاحت سے بیان کیا ہوا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 107 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.180 یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اُس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو، بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے.تھوڑے دن ہوئے کہ بمقام گورداسپور مجھ کو الہام ہوا تھا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اَنَا فَاتَّخِذَنِي وَكِيلاً یعنی میں ہی ہوں کہ ہر ایک کام میں کار ساز ہوں.پس تو مجھ کو ہی وکیل یعنی کار ساز سمجھ لے اور دوسروں کا اپنے کاموں میں بھی دخل مت سمجھ.جب یہ الہام مجھ کو ہوا تو میرے دل پر ایک لرزہ پڑا اور مجھے خیال آیا کہ میری جماعت ابھی اس لائق نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کا نام بھی لے اور مجھے اس سے زیادہ کوئی حسرت نہیں کہ میں فوت ہو جاؤں اور جماعت کو ایسی نا تمام اور خام حالت میں چھوڑ جاؤں.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے.وہ اپنامال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور امساک اس سے اس طرح دُور ہو جاتا ہے جیسا کہ روشنی سے تاریکی دور ہو جاتی ہے اور یقیناً سمجھو کہ صرف یہی گناہ نہیں کہ میں ایک کام کے لئے کہوں اور کوئی شخص میری جماعت میں سے اس کی طرف کچھ التفات نہ کرے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی گناہ ہے کہ کوئی کسی قسم کی خدمت کر کے یہ خیال کرے کہ میں نے کچھ کیا ہے.اگر تم کوئی نیکی کا کام بجالاؤ گے اور اس وقت کوئی خدمت کروگے تو اپنی ایمان داری پر مہر لگا دو
درس روحانی خزائن 181 گے اور تمہاری عمریں زیادہ ہوں گی اور تمہارے مالوں میں برکت دی جائے گی.مجھے اس بات کی تصریح کی ضرورت نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی الی یکم کے سامنے کیا خدمت بجالاتے تھے.اب تم سوچ کر دیکھو کہ یہ خدمات ان خدمات کے مقابل پر کیا چیز ہیں.میں تم میں بہت دیر تک نہیں رہوں گا اور وہ وقت چلا آتا ہے کہ تم پھر مجھے نہیں دیکھو گے اور بہتوں کو حسرت ہو گی کہ کاش ہم نے نظر کے سامنے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا.سو اس وقت ان حسرات کا جلد تدارک کرو.جس طرح پہلے نبی رسول اپنی اُمت میں نہیں رہے میں بھی نہیں رہوں گا سو اس وقت کی قدر کرو اور اگر تم اس قدر خدمت بجالاؤ کہ اپنی غیر منقولہ جائیدادوں کو اس راہ میں بیچ دو، پھر بھی ادب سے دُور ہو گا کہ تم خیال کرو کہ ہم نے کوئی خدمت کی ہے.تمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت رحمت الہی اس دین کی تائید میں جوش میں ہے اور اس کے فرشتے دلوں پر نازل ہو رہے ہیں.ہر ایک عقل اور فہم کی بات جو تمہارے دل میں ہے وہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.آسمان سے عجیب سلسلہ انوار جاری اور نازل ہو رہا ہے.پس میں بار بار کہتا ہوں کہ خدمت میں جان توڑ کر کوشش کرو مگر دل میں مت لاؤ کہ ہم نے کچھ کیا ہے.اگر تم ایسا کرو گے ہلاک ہو جاؤ گے.یہ تمام خیالات ادب سے دُور ہیں اور جس قدر بے ادب جلد تر ہلاک ہو جاتا ہے ایسا جلد کوئی ہلاک نہیں ہوتا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 614،613 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی فرستاده بھیجا ہوا، رسول پہلو تہی کرنا ترک کرنا، دست بردار ہونا لرزه شدید خوف، کانپنا امساک بندش، رکاوٹ تصریح صراحت، کھول کر بیان کرنا حسرات حسرت کی جمع، ناامیدی
درس روحانی خزائن 182 درس روحانی خزائن نمبر 108 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.قرآن شریف میں وارد ہے کہ خدا کی ذات ہر یک عیب سے پاک ہے اور ہر ایک نقصان سے مبرا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اس کی تعلیم کی پیروی کر کے عیبوں سے پاک ہو.اور وہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى ( بنی اسرائیل : 73) یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے گا اور اُس ذات بیچوں کا اس کو دیدار نہیں ہو گا وہ مرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہو گا اور تاریکی اس سے جدا نہیں ہو گی کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی دنیا میں حواس ملتے ہیں اور جو شخص ان جو اس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے.پھر اس کے بعد وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آسکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحَاوَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا ( الكليف : 111) یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ اُن کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ اُن میں کوئی ایسی بد بو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز.بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح گری رہے اور دُعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے.“ لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 154،153)
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 109 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.183 فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم : صحابہ رسول اللہ صلی للی یکیم کے ایسے وفادار اور مطبع فرمان تھے کہ کسی نبی کے شاگردوں میں ایسی نظیر نہیں ملتی اور خدا کے احکام پر ایسے قائم تھے کہ قرآن شریف ان کی تعریفوں سے بھرا پڑا ہے لکھا ہے کہ جب شراب کی حرمت کا حکم ہوا تو جس قدر شراب برتنوں میں تھی وہ گرادی گئی اور کہتے ہیں کہ اس قدر شراب یہی کہ نالیاں بہ نکلیں اور پھر کسی سے ایسا فعل شنیع سرزد نہ ہوا اور وہ شراب کے پکے دشمن ہو گئے دیکھو یہ کیسا ثبات اور استقلال علی الطاعت تھار سول اللہ صلی للی کم کی اطاعت جس وفاداری، محبت اور ارادت اور جوش سے انہوں نے کی کبھی کسی نے نہیں کی.موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی بار پتھراؤ کرنا چاہتی تھی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری تو ایسے کمزور اور ضعیف الاعتقاد تھے کہ خود عیسائیوں کو تسلیم کرنا پڑا ہے اور حضرت مسیح آپ انجیل میں ست اعتقادان کا نام رکھتے ہیں انہوں نے اپنے استاد کے ساتھ سخت غداری کی اور بے وفائی کا نمونہ دکھایا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں الگ ہو گئے ایک نے گرفتار کر دیا دوسرے نے لعنت بھیج کر انکار کر دیا.رض مگر صحابہ ایسے ارادت مند اور جان نثار تھے کہ خود خدا تعالیٰ نے ان کی شہادت دی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں جانوں تک دینے میں دریغ نہیں کیا اور ہر صفت ایمان کی ان میں پائی جاتی ہے.عابد ، زاہد، سخی، بہادر اور وفادار یہ شرائط ایمان کی کسی دوسری قوم میں نہیں پائی جاتیں.جس قدر مصائب اور تکالیف صحابہ کو ابتدائے اسلام میں اٹھانی پڑیں ان کی نظیر بھی کسی اور قوم میں نہیں ملتی اس اس بہادر قوم نے ان مصیبتوں کو برداشت کرنا گوارہ کیا لیکن اسلام کو نہیں چھوڑا ان مصیبتوں کی انتہا آخر اس پر ہوئی کہ ان کو وطن چھوڑنا پڑا اور نبی کریم کے ساتھ ہجرت کرنے پڑی اور جب خدا تعالیٰ کی نظر میں کفار کی شرارتیں حد سے تجاوز کر گئیں اور وہ قابل سزا ٹھہر گئیں تو خدا تعالیٰ نے انہیں صحابہ کو مامور کیا کہ اس سرکش قوم کو سزا
درس روحانی خزائن 184 دیں چنانچہ اس قوم کو جو مسجدوں میں دن رات اپنے خدا کی عبادت کرتی تھی اور جس کی تعداد بہت تھوڑی تھی جس کے پاس کوئی سامان جنگ نہ تھا مخالفوں کے حملوں کو روکنے کے واسطے میدان جنگ میں آنا پڑا.اسلامی جنگیں دفاعی تھیں.پھر ان جنگوں میں یہ چند سو کی جماعت کئی کئی ہزار کے مقابلہ میں آئی اور ایسی بہادری اور وفاداری سے لڑی اگر حواریوں کو اس قسم کا موقع پیش آتا تو ان میں سے ایک بھی آگے نہ ہو تا.ایک ذرا سے ابتلاء پر وہ اپنے آقا کو چھوڑ کا الگ ہو گئے تو ایسے معرکوں میں ان کا ٹھہر نا ایک نا ممکن بات ہے مگر اس ایمان دار اور وفادار قوم نے اپنی شجاعت اور وفاداری کا پورا نمونہ دکھایا اور جو کچھ جو ہر انہوں نے دکھائے وہ بچے ایمان اور یقین کے نتائج تھے موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو کہا کہ بڑھ کر دشمن پر حملہ کرو تو انہوں نے کیا شرمناک جواب دیا فَاذْهَبُ انْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلاً إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ (المائدة: 25) تو اور تیرا رب جاؤ اور لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گئے صحابہ کی لائف میں ایسا کوئی موقع نہیں آیا بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں جنہوں نے یہ کہا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ ایسی قوت شجاعت اور وفاداری کا جوش کیونکر پیدا ہو گیا تھا؟ یہ سب ایمان اور یقین کا نتیجہ تھا جو آپ کی قوت قدسی اور تاثیر کا اثر تھا آپ نے ان کو ایمان سے بھر دیا تھا.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی فعل شنیع براکام ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 462،461 مطبوعہ ربوہ) ثابت قدمی ثبات استقلال على الطاعت اطاعت پر قائم رہنا ضعیف الاعتقاد کمزور ایمان والا ارادت مریدانہ اطاعت کا جذبہ زاہد عابد، پرہیز گار لائف زندگی (Life) قوت قدی پاکیزہ صفات
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 110 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.185 سچا مذ ہب انسانی قوی کا مربی ہوتا ہے: ایسا ہی جو لوگ انتقام، غضب یا نکاح کو ہر حال میں برا مانتے ہیں ،وہ بھی صحیفہ قدرت کے مخالف ہیں اور قویٰ انسانی کا مقابلہ کرتے ہیں.سچا مذہب وہی ہے جو انسانی قوی کا مربی ہو ، نہ کہ ان کا استیصال کرے.رجولیت یا غضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرت انسانی میں رکھے گئے ہیں.ان کو چھوڑ نا خدا کا مقابلہ کرنا ہے.جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا.یہ تمام امور حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں.اگر یہ امر ایسا ہی ہوتا تو گویا اس خدا پر اعتراض ہے جس نے یہ قومی ہم میں پیدا کئے.پس ایسی تعلیمات جو انجیل میں ہیں اور جن سے قویٰ کا استیصال لازم آتا ہے، ضلالت تک پہنچاتی ہیں.اللہ تعالیٰ تو اس کی تعدیل کا حکم دیتا ہے.ضائع کرنا پسند نہیں کرتا.جیسے فرمایا إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (النحل: 91) عدل ایک ایسی چیز ہے، جس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے.حضرت مسیح کا یہ تعلیم دینا کہ اگر تو بری آنکھ سے دیکھے ، تو آنکھ نکال ڈال اس میں بھی قوی کا استیصال ہے، کیونکہ ایسی تعلیم نہ دی کہ تو غیر محرم عورت کو ہر گز نہ دیکھ ، مگر بر خلاف اس کے اجازت دی کہ دیکھ تو ضرور ، لیکن زنا کی آنکھ سے نہ دیکھ.دیکھنے سے تو ممانعت ہے ہی نہیں.دیکھے گا تو ضرور ، بعد دیکھنے کے دیکھنا چاہیے کہ اس کے قویٰ پر کیا اثر ہو گا.کیوں نہ قرآن شریف کی طرح آنکھ کو ٹھو کر والی چیز ہی کے دیکھنے سے روکا.اور آنکھ جیسی مفید اور قیمتی چیز کو ضائع کر دینے کا افسوس لگایا.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی استیصال تباہ کرنا، قلع قمع کرنا ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 21، 22 مطبوعہ ربوہ) رجولیت تلف ختم کرنا، تباہ کرنا تارک الدنیا ہونا راہب بن جانا تارک الدنیا ہو جانا تعدیل مردانگی دنیا کو چھوڑنا موقع و محل پر استعمال کرنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 111 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.وو 186 یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گزر جاوے گی خواہ تنگی میں گزرے خواہ فراخی میں.مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفائی کر لی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیت سے تو بہ کر کے ہر ایک گناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کر کے پکارا ہے بچتا رہا تو خدا تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرے گا اور وہ اس مقام پر ہو گا کہ خدا اس سے راضی ہو گا.اور وہ اپنے رب سے راضی ہو گا.اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لا پرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا انجام خطر ناک ہے اس لیے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ ہے لیکن اگر دین کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منافع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں.مشکل الفاظ اور ان کے معانی 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 432 مطبوعہ ربوہ) فراخی خوشحالی، آسودگی انقطاع کٹنا، الگ ہونا مستولی غالب، چھا جانے والا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 112 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.187 تو به حقیقت میں ایک ایسی شئے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کیساتھ ہی انسان کے اندر ایک پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے جو اس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے یہی باعث ہے.جو آنحضرت صلی للی ایم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے تو بہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا یعنی تو بہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں اس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بیجا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہو تا ہے پس اگر اس نے خدا تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کی ہے تو اسے چاہیئے کہ اب اپنے گناہوں کا نیا حساب نہ ڈالے اور پھر اپنے آپ کو گناہ کی ناپاکی سے آلودہ نہ کرے بلکہ ہمیشہ استغفار اور دعاؤں کے ساتھ اپنی طہارت اور صفائی کی طرف متوجہ رہے اور خد اتعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کی فکر میں لگار ہے اور اپنی اس زندگی کے حالات پر نادم اور شر مسار رہے جو تو بہ کے زمانہ سے پہلے گذری ہے.انسان کی عمر کے کئی حصے ہوتے ہیں اور ہر ایک حصہ میں کئی قسم کے گناہ ہوتے ہیں مثلاً ایک حصہ جوانی کا ہوتا ہے جس میں اس کے حسب حال جذبات کسل و غفلت ہوتی ہے پھر دوسری عمر کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں دغا، فریب، ریاکاری اور مختلف قسم کے گناہ ہوتے ہیں غرض عمر کا ہر ایک حصہ اپنی طرز کے گناہ رکھتا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور وہ تو بہ کرنے والے کے گناہ بخش دیتا ہے اور تو بہ کے ذریعہ انسان پھر اپنے رب سے صلح کر سکتا ہے.دیکھو انسان پر جب کوئی جرم ثابت ہو جائے تو وہ قابل سزا ٹھہر جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ ( 2 : 75) یعنی جو اپنے رب کے حضور مجرم ہو کر آتا ہے اس کی سزا جہنم ہے وہاں وہ نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے یہ ایک جرم کی سزا ہے اور جو ہزاروں
درس روحانی خزائن 188 لاکھوں جرموں کا مر تکب ہو اس کا کیا حال ہو گا؟ لیکن اگر کوئی شخص عدالت میں پیش ہو اور بعد ثبوت اس پر فرد قرار داد جرم بھی لگ جاوے اور اس کے بعد عدالت اس کو چھوڑ دے تو کس قدر احسان عظیم اس حاکم کا ہو گا.اب غور کرو کہ یہ تو بہ وہی بریت ہے جو فرد قرار داد جرم کے بعد حاصل ہوتی ہے تو بہ کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 433،432 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی بے اعتدالیاں راستے سے ہٹی ہوئی کسل سستی کاہلی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 113 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.189 ނ ” اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گر بیان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ کس قدر گناہوں میں وہ مبتلا تھا اور ان کی سزا کس قدر اس کو ملنے والی تھی.جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل.معاف کر دی.پس تم نے جواب تو بہ کی ہے چاہیئے کہ تم اس تو بہ کی حقیقت سے واقف ہو کر ان تمام گناہوں سے بچو جن میں تم مبتلا تھے اور جن سے بچنے کا تم نے اقرار کیا ہے ہر ایک گناہ خواہ وہ زبان کا ہو یا آنکھ یا کان کا غرض ہر اعضاء کے جد اجد ا گناہ ہیں ان سے بچتے رہو کیو نکہ گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے گناہ کی زہر وقتا فوقتا جمع ہوتی رہتی ہے اور آخر اس مقدار اور حد تک پہنچ جاتی ہے جہاں انسان ہلاک ہو جاتا ہے پس بیعت کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ گناہ کے زہر کے لیے تریاق ہے.اس کے اثر سے محفوظ رکھتی ہے اور گناہوں پر ایک خط سیخ پھیر دیتی ہے.دوسرا فائدہ اس توبہ سے یہ ہے کہ اس توبہ میں ایک قوت واستحکام ہو تا ہے جو مامور من اللہ کے ہاتھ پر سچے دل سے کی جاتی ہے.انسان جب خود تو بہ کرتا ہے تو وہ اکثر ٹوٹ جاتی ہے بار بار توبہ کرتا اور بار بار توڑتا ہے مگر مامور من اللہ کے ہاتھ پر جو تو بہ کی جاتی ہے جب وہ سچے دل سے کرے گا تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہو گی وہ خداخو دا سے قوت دے گا اور آسمان سے ایک طاقت ایسی دی جاوے گی جس سے وہ اس پر قائم رہ سکے گا اپنی تو بہ اور مامور کے ہاتھ پر تو بہ کرنے میں یہی فرق ہے کہ پہلی کمزور ہوتی ہے دوسری مستحکم.کیونکہ اس کے ساتھ مامور کی اپنی توجہ ، کشش اور دُعائیں ہوتی ہیں جو تو بہ کرنے والے کے عزم کو مضبوط کرتی ہیں اور آسمانی قوت اُسے پہنچاتی ہیں جس سے ایک پاک تبدیلی اس کے اندر شروع ہو جاتی ہے اور نیکی کا بیج بویا جاتا ہے جو آخر ایک بار دار درخت بن جاتا ہے پس اگر صبر اور استقامت رکھو گے تو تھوڑے دنوں کے بعد دیکھو گے کہ تم پہلی حالت سے بہت آگے گزر گئے ہو.غرض اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے دوسرے مامور
درس روحانی خزائن 190 کے سامنے تو بہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے.یاد رکھو کہ اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.کیونکہ دنیا تو گزرنے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 434،433 مطبوعہ ربوہ) خط لخ منسوخ کرنے والی لکیر مامور من الله اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 114 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.191 دنیا اور اس کے اغراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو.ان کو دین کے ساتھ ہر گزنہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے.دنیا کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے تم دیکھتے ہو کہ ہر آن اور ہر دم میں ہزاروں موتیں ہوتی ہیں.مختلف قسم کی وبائیں اور امراض دنیا کا خاتمہ کر رہی ہیں.کبھی ہیضہ تباہ کرتا ہے، اب طاعون ہلاک کر رہی ہے، کسی کو کیا معلوم ہے کہ کون کب تک زندہ رہے گا.جب موت کا پتہ نہیں کہ کس وقت آجائے گی.پھر کیسی غلطی اور بیہودگی ہے کہ اس سے غافل رہے اس لیے ضروری ہے کہ آخرت کی فکر کرو جو آخرت کی فکر کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں اس پر رحم کرے گا.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے اس لیے پہلے مومن بنو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہر گز نہ ملا ؤ نمازوں کی پابندی کر و اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو، نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو، راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے رو کو پاکبازی اور راستبازی ان کو ا سکھاؤ ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے.پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہو اور حضورِ قلب نہیں ہو تا ہے جب تک عاجزی نہ ہو عاجزی جب پیدا ہوتی ہے.جو یہ سمجھ آجائے کہ کیا پڑھتا ہے اس لیے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لیے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے مگر اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیئے کہ نماز کو اپنی زبان میں پڑھو نہیں میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے نماز دعا ہی کا نام
درس روحانی خزائن ہے اس لئے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالی اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی دعا کرو نیک انسان بنو ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو.“ 192 ہو ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 435،434 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی ثمرات پھل مسنون ادعیہ حضور صلی ال نیلم کی سنت سے ثابت شدہ دعائیں اذکار یاد الہی ، اللہ کی حمد و ثناء خاتمہ بالخیر انجام بخیر ہونا ، عاقبت سدھرنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 115 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.193 ترک دنیا کی اہمیت : جو شخص دنیا کو رڈ نہیں کر سکتا وہ ہمارے سلسلہ کی طرف نہیں آسکتا.دیکھو حضرت ابو بکر نے سب سے اول دنیا کو ر ڈ کیا اور آپ کی آخری پوشاک یہی تھی کہ کمبل پہن کر آپ آحاضر ہوئے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے اوّل تخت پر جگہ دی وجہ اس کی یہی تھی کہ آپ نے سب سے اول فقر اختیار کیا تھا خدا تعالیٰ کی ذات پاک ہے کہ کسی کا قرضہ اپنے ذمہ نہیں رکھتی.اوائل میں نقصان ضرور ہوتے ہیں دوستوں یاروں کے تعلقات قطع کرنے پڑتے ہیں لیکن ان سب کا بدلہ آخر کار دیتا ہے.ایک چوڑھے اور چمار کی خاطر جب ایک کام کیا جاوے اور تکلیف برداشت کی جاوے تو وہ اپنے ذمہ نہیں رکھتا تو پھر خدا کس لیے اپنے ذمہ رکھے وہ آخر کار سب کچھ دیدیتا ہے.بارہا ہم نے سمجھایا ہے کہ جس شخص کو اور اور اغراض سوائے دین کے ہیں وہ ہمارے سلسلہ میں داخل نہیں ہو سکتا.دو کشتیوں میں پاؤں رکھ کر پار اترنا مشکل ہے اس لیے جو ہمارے پاس آوے گا وہ مر کر آوے گالیکن خدا اس کی قدر کرے گا اور وہ نہ مرے گا جب تک کہ دنیا میں کامیابی نہ دیکھ لے جو کچھ برباد کر کے آوے گا خدا اسے سب کچھ پھر دے گا.لیکن ایک دنیا دار قدم نہیں اُٹھا سکتا.اصل بات یہ ہے کہ انسان خود ہی غداری کرتا ہے کہ نام تو خدا کی طرف آنے کا کرتا ہے اور اس کی نظر اہل دنیا کی طرف ہوتی ہے.جو قدر اس سلسلہ میں داخل ہونے کی اس وقت ہے وہ بعد ازاں نہ ہو گی.مہاجرین وغیرہ کی نسبت قرآن شریف میں کیسے کیسے الفاظ آئے ہیں جیسے رضی اللہ عنہم.لیکن جو لوگ فتح کے بعد داخل ہوئے کیا اُن کو بھی یہ کہا گیا؟ ہر گز نہیں ان کا نام ناس رکھا گیا.اور لوگوں سے بڑھ کر کوئی خطاب ان نہ ملا.خدا کے نزدیک عزتوں اور خطابوں کے یہی وقت ہوتے ہیں کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہونے سے برادری، رشتہ دار وغیرہ سب دشمن جان ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ شرک کو ہر گز پسند نہیں کرتا کہ کچھ حصہ اس کا ہو اور کچھ غیر کا بلکہ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ مجھ کو دینا چاہتے ہو اور کچھ بتوں کو تو سب کا
درس روحانی خزائن 194 سب بتوں کو دیدو.اس وقت کا تم بویا ہوا ہر گز ضائع نہیں ہو گا.کیا آج تک کے تجربہ نے ان لوگوں کو بتلا نہیں دیا کہ یہ پودا ضائع ہونے والا نہیں.قرآن شریف، احادیث صحیحہ اور نشاناتِ آسمانی سب ہماری تائید میں ہیں اور بین طور پر سب کچھ ثابت ہو گیا ہے.اب جو اس سے فائدہ نہ اُٹھادے وہ مورد غضب الہی ہے.خدا غفور اور کریم، حنان اور منان ہے مگر یہ انسان کی شوخی اور بد بختی ہے کہ اس کے مائدہ کو وہ رڈ کرتا ہے اور غضب کا مستحق ہو جاتا ہے اگر یہ انسان کا کاروبار ہو تا تو کب کا تباہ ہو جاتا.انسان کو خدا کا خوف اور ڈر رکھنا چاہیے اور برادری اور رسوم سے ڈر کر خدا کی راہ کو ترک نہ کرنا چاہیے.جب انسان کا مددگار اور معاون خد ا ہو جاتا ہے تو پھر اُسے کوئی کمی نہیں.خداداری چه غم داری اس قدر انبیاء جو آئے ہیں کیا خدا نے ان سے کسی قسم کی دغا کی ہے جو اب کسی سے کرے گا آنحضرت صلی ال نیلم کے ساتھ کیا کچھ ہوا.ہر وقت جان کا خطرہ تھا.ہر ایک طرف سے دھمکی ملتی تھی مگر کیا لوگوں نے اور قوم اور برادری نے آپ کو تباہ کر دیا؟ ہر گز نہیں.بلکہ وہ خود تباہ ہوئے اور جو کوئی ایک بھی نہیں جو اپنے آپ کو ابو جہل کی اولا د بتلاتا ہو مگر آنحضرت کے نام لیواؤں اور آپ کی اولاد سے دنیا بھری پڑی ہے.“ الترجمہ : اگر تو خدار کھتا ہے تو پھر کیا غم ہے.مشکل الفاظ اور ان کے معانی فقر درویشی، قناعت و ریاضت کی زندگی قتم مانده منان یچ دستر خوان ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 452، 453 مطبوعہ ربوہ) چمار پہنچ ذات مورد غضب الہی جس پر اللہ کا عذاب نازل ہو ، سزاوار حنان بہت زیادہ احسان کرنے والا نام لیوا بخشنے والا ، مہربان ماننے والے، عقیدت مند
درس روحانی خزائن 195 درس روحانی خزائن نمبر 116 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں:.حقیقی پاکی تب حاصل ہوتی ہے جب انسان گندی زندگی سے تو بہ کر کے ایک پاک زندگی کا خواہاں ہو.اور اس کے حصول کے لئے صرف تین باتیں ضروری ہیں.(1) ایک تدبیر اور مجاہدہ کہ جہاں تک ممکن ہو گندی زندگی سے باہر آنے کے لئے کوشش کرے.اور (2) دوسری دعا کہ ہر وقت جنابِ الہی میں نالاں رہے.تا وہ گندی زندگی سے اپنے ہاتھ سے اس کو باہر نکالے اور ایک ایسی آگ اس میں پیدا کرے جو بدی کے خس و خاشاک کو بھسم کر دے اور ایک ایسی قوت عنایت کرے جو نفسانی جذبات پر غالب آجاوے اور چاہئے کہ اسی طرح دُعا میں لگا ر ہے جب تک کہ وہ وقت آجاوے کہ ایک الہی نور اس کے دل پر نازل ہو اور ایک ایسا چمکتا ہو اشعاع اُس کے نفس پر گرے کہ تمام تاریکیوں کو دور کر دے اور اس کی کمزوریاں دور فرمائے اور اس میں پاک تبدیلی پیدا کرے.کیونکہ دعاؤں میں بلاشبہ تاثیر ہے.اگر مردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر اسیر رہائی پاسکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے.مگر دعا کرنا اور مرنا قریب قریب ہے.(3) تیسرا طریق صحبت کا ملین اور صالحین ہے.کیونکہ ایک چراغ کے ذریعہ سے دوسرا چراغ روشن ہو سکتا ہے غرض یہ تین طریق ہی گناہوں سے نجات پانے کے ہیں.جن کے اجتماع سے آخر کار فضل شامل حال ہو جاتا ہے.66 لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 234) مشکل الفاظ اور ان کے معانی شعاع روشنی، کرن صالحین نیک، راستباز
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 117 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.196 ”اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پاسکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اُسی کے فضل اور کرم سے اُس کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے.دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور اُن سے محبت کرتا ہے یا اُن سے ڈرتا ہے اور دُور بھاگتا ہے.یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو.اور نہ مفید ہو سکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے.تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے اور پھر بار بار دور فضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور بند نہیں ہو تا.غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے.فضل معرفت کو نہایت مصفی اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو در میان سے اُٹھا دیتا ہے اور نفس امارہ کے لئے گردو غبار کو دور کر دیتا ہے اور رُوح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفس انارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بد خواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے.تب انسان میں ایک تبدیلی پید اہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعا بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے رُوح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے.“ مشکل الفاظ اور ان کے معانی حجاب لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222،221) پرده، روک زندان جیل، قید خانہ