Language: UR
سم الله الرحمن الرحيم 365 دن (حصہ دوم)
نام کتاب: 365 دن (حصہ دوم) ایڈیشن: اول سن اشاعت: اپریل 2012ء
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين تعارف سیدی حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ایک خادم نے خط لکھا تھا کہ ایسی جماعتوں کے لئے جہاں قرآن شریف، حدیث اور روحانی خزائن کا درس ہوتا ہے.ریسرچ سیل کی طرف سے سادہ زبان میں ترجمہ و تفسیر ، احادیث اور روحانی خزائن کے درس تیار کر دیئے جائیں اور جو جماعتیں پسند کریں وہ اس میں سے پڑھ کر درس دے سکتے ہیں.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور ان درسوں کی تحریر پر شفقت اور حوصلہ افزائی بھی فرمائی.اس لئے حضور ایدہ اللہ کی اجازت سے یہ 3 ماہ کے لئے درس شائع کئے جارہے ہیں.قرآن مجید کے درس فی مہینہ 26 کی تعداد میں ہیں کیونکہ جمعہ کے روز بالعموم درس نہیں دیا جاتا اور احادیث اور روحانی خزائن کے درس 13،13 کی تعداد میں ہیں کیونکہ وہ ہفتہ میں 3 ، 3 دن پیش کئے جاتے ہیں.اس سے قبل اس کا پہلا حصہ شائع ہوا تھا اب اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے دوسراحصہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے.جو احباب جماعت ان دروس سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ بخوشی ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں احباب سے درخواست دعا بھی ہے.
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين 365 دن دروس درس القرآن (نمبر 79-154) حصہ دوم درس حدیث (نمبر 40-78) درس روحانی خزائن (نمبر 40-78) صفحہ نمبر 108-1 154-109 221-155
درس القرآن بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين رس القرآن نمبر 79 161199 وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبُحْنَةَ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمُوتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَّهُ قَنِتُونَ بَدِيعُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (البقرة: 118,117) گزشتہ کچھ آیات سے بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہود کے ساتھ عیسائیوں کا ذکر بھی شروع ہے یہود کی غلط کاریوں کا تفصیلی ذکر پہلے ہو چکا ہے اور آئندہ بھی جاری ہے نصاریٰ کے ذکر کی وجہ سے ان کے عقیدہ کی بنیادی غلطی کا ذکر اور اس کی تردید اس آیت میں کی گئی ہے اور اس طرح ان کے اس دعویٰ کی تردید بھی کر دی ہے کہ جو شخص عیسائی نہ ہو وہ جنت میں نہیں جاسکتا، فرماتا ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک بیٹا بنالیا ہے سُبحنه مگر یہ تو عیسائی بھی مانتے ہیں اور مسلمان بھی مانتے ہیں کہ وہ ہر نقص سے ، ہر عیب سے ، ہر کمزوری سے پاک ہے.مگر بیٹا ہونا تو جنسی خواہشات کا تقاضا کرتا ہے جو ایک عیب ہے.بیٹا ہونا تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ باپ نے ایک دن مرنا ہے اس لئے اس کے بعد اس کے قائم مقام کی ضرورت ہے مگر خدا تو نہیں مرتا، بیٹا ہو نا تو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ باپ کو اپنی زندگی میں بھی اپنے کاموں کے لئے مددگار کی ضرورت ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ کو تو کسی مدد گار کی ضرورت نہیں.نہ صرف یہ کہ خدا میں یہ عیب، یہ کمزوریاں نہیں پائی جاتیں بک له مَا فِي السَّمواتِ وَالْأَرْضِ بلکہ جو کچھ آسمانوں میں ہے ، جو کچھ زمین میں ہے اس کے کنٹرول میں ہے، اس کی ملکیت ہے، پھر اس کو بیٹا بنانے کی ضرورت کیا ہے ؟ پھر اس پر یہ بات بھی صاف ہے کہ كُن له قنتُون کائنات کی ہر چیز اس کی فرمانبردار ہے ، اس کے بنائے ہوئے قانون کی پابند ہے اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتی، اس کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی، پھر اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے؟
درس القرآن 2 بدِيعُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وہ آسمان اور زمین کو بغیر کسی سابق نمونہ کے پیدا کرنے والا ہے.انسان جو ایک عمارت بناتا ہے اس بنانے والے کو نقشہ بنانے والے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے مطابق وہ عمارت بنائے مگر اتنی عظیم قدرت والے خدا کو جس نے آسمان وزمین کی بغیر کسی پہلے نمونہ کی موجودگی کے تخلیق کرلی، کیا وہ بھی کسی بیٹے کا محتاج ہو سکتا ہے؟ وَ اذَا قَضَی امرا جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ تو وہ صرف اس کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایسا ہو جائے اور ویسے ہی ہو جاتا ہے وہ انسانوں کی طرح نہ کسی اینٹ سیمنٹ کا محتاج ہے نہ کسی مزدوروں کی اس کو ضرورت ہے.ایسے خدا کے متعلق کہنا کہ اس نے اپنی مدد کے لئے بیٹا بنا لیا ہے ، نادانی نہیں تو اور کیا ہے.
درس القرآن 3 درس القرآن نمبر 80 وَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْ لَا يُكَلِّمُنَا اللهُ اَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ (البقرة:120،119) قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَا الْآيَتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَ لَا تُسْلُ عَنْ أَصْحِبِ الْجَحِيمِ بنی اسرائیل کے اس اعتراض کے سلسلہ میں نبوت بنی اسماعیل میں کیوں چلی گئی اور الہام الہی کا سلسلہ بنی اسرائیل سے کیوں منقطع کر دیا گیا اس آیت میں فرماتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا علم نہیں رکھتے ان کا یہ وطیرہ ہے کہ یہ نبی جو اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا دعویٰ کرتا ہے اس کی کیا ضرورت ہے لَو لَا يُكَلِّمُنَا اللہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست کیوں بات نہیں کرتا، کیوں ہم پر براہ راست کلام نازل نہیں ہوتا او تأتينا ايةً یا اگر ہم اس قابل نہیں تو کوئی عذاب کا نشان دکھا کر ہمیں ختم کیوں نہیں کر دیا جاتا كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِم اس قسم کی باتیں پہلے انبیاء کے مقابلہ میں بھی کہی جاتی تھیں.حضرت موسیٰ کو کہا گیا تھا کہ تم نے ہمیں اس سر زمین میں پہنچانے کا وعدہ پورا نہیں کیا جو ایک زبر دست نشان کے وعدہ کے طور پر تھا.حضرت مسیح ناصری سے بار بار کہا گیا کہ رومنوں سے آزادی دلوانے کا نشان تم نے نہیں دکھایا تشَابَهَتْ قُلُوبُهُم موجودہ بنی اسرائیل کے دل جو رسول اللہ صلی علی کم پر اعتراض کر رہے ہیں ان پہلے مخالفین کے دلوں کی طرح ہی ہیں ورنہ جہاں تک نشانوں کا تعلق ہے قد بَيَّنَا الأيتِ لِقَومِ يُوقنون یقین کرنے والے لوگوں کے لئے تو ہم نے خوب کھول کر روشن نشان دکھا دیئے ہیں اور ان کا یہ اعتراض کہ کلام آنحضرت صلی علی کم پر کیوں اترا، ہم پر جو بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں کیوں نہیں اترتا، تو اے محمد صلی اللہ علیک اِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا کہ ہم نے تمہیں اس حال میں بھیجا ہے کہ تم ہی اس بات کے حق دار تھے کہ تمہیں بھیجا جاتا.تم بشیرا بھی ہو، ماننے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے لئے تمہیں بشارت دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہے ونذیرا اور انکار کرنے والوں اور شرارت کرنے والوں کے لئے تمہیں ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے وَلَا تُسْتَلُ عَنْ اصحب الْجَحِيمِ تمہارے لئے گھبرانے کے کوئی بات نہیں جو لوگ انکار اور شرارت کی راہ سے اپنے آپ کو دوزخی بنارہے ہیں ان کے انکار کی ذمہ واری تم پر نہیں، تمہارا کام بشارت دینا اور انذار کرنا ہے.
درس القرآن درس القرآن نمبر 81 وَ لَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصْرَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدى وَلَبِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرِ الَّذِينَ اتَيْنُهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِه أوليكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرُ بِهِ فَأُولَبِكَ (البقرة:122،121) هُمُ الْخَسِرُونَ ان دو آیات پر بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور سرکشیوں کا مضمون (جس کی ایک بنیادی غرض یہ بتانا تھی کہ بنی اسرائیل سے نبوت کیوں بنی اسماعیل کی طرف منتقل کی گئی) تکمیل کو پہنچ رہا ہے اور یہود اور نصاری سے کش مکش کا مضمون نئے رنگ میں شروع ہو رہا ہے جس کا ذکر اگلی آیات میں آئے گا.ان آیات میں فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہ ہوں گے جب تک ان کی ملت کی پیروی نہ کرے.حالانکہ یہ سیدھی سادی موٹی عقل کی بات ہے ان هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی کہ سچی حقیقی ہدایت تو وہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہدایت ہو، اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر انسانوں کی رہنمائی میں چلنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے ؟ اب اے مسلمان اگر تم ان کی کھو کھلی خواہشات کی پیروی کرو بعد اس کے کہ ایک عظیم الشان علم تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آچکا ہے تو پھر نہ تو اللہ کی طرف سے تمہارا کوئی دوست ہو گا، نہ کوئی مددگار.وہ عظیم الشان علم جو ہم نے تم کو دیا ہے وہ قرآن کی شکل میں الَّذِینَ آتَيْنَهُمُ الكتب وہ لوگ جن کو ہم نے یہ کامل کتاب دی ہے يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِه وہ اس کو پڑھتے بھی اس طرح ہیں جو اس کے پڑھنے کا حق ہے اور اس کی ہدایات و تعلیمات کی اس طرح پیروی کرتے ہیں جو اس کی پیروی کا حق ہے اُولبِكَ يُؤْمِنُونَ بِہ یہ لوگ ہیں جو حقیقتاً اس کو مانتے ہیں محض لفظ ماننے کا دعویٰ کرنا کافی نہیں وَمَنْ يَكْفُرُ بِہ اور جو اس کا انکار کرتا ہے فَأُولَيكَ هُمُ الْخَسِرُونَ تو حقیقتا وہ لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ؟
درس القرآن درس القرآن نمبر 82 يبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدُكَ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ 159179 يُنصَرُونَ (البقرة: 124،123) جیسا کہ گزشتہ درس میں ذکر ہوا تھا اب بنی اسرائیل کے بارہ میں مضمون کا رنگ بدل رہا ہے اور یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے نبوت کا انتقال بنی اسماعیل کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان سے کئے گئے وعدوں کے خلاف نہیں بلکہ اس کے مطابق ہے.مضمون کی تبدیلی کا اشارہ ان الفاظ کے دہرانے سے بھی ملتا ہے يُبَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكم کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی ہے.یہ الفاظ بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے مضمون کے شروع میں بھی 9 آیت 41 میں تھے اور اب اس مضمون کا رنگ بدلنے پر آیت 123 میں بھی ہیں.فرماتا ہے.یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر کی اور اس بات کو بھی یاد کرو کہ تمام جہانوں میں تمہیں ایک فضیلت کا مقام دیا وَ اتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا اور اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص قطعاً کسی دوسرے شخص کا قائمقام نہ ہو سکے گا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدل اور نہ اس سے کسی قسم کا معاوضہ قبول کیا جائے گا وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةُ اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ دے گی وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ اور نہ ان ان کی کوئی مدد کی جائے گی.اس آیت کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں اس لئے بخشے جائیں گے یا اس لئے کہ ان پر روحانی انعامات کا سلسلہ بند نہیں ہو سکتا، غلط فہمی ہے.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:.حقیقت یہ ہے کہ جب قومیں اپنے تنزل کے دور میں اعمال صالحہ کی بجا آوری میں کمزور ہو جاتی ہیں تو وہ شفاعت انبیاء پر زور دینے لگ جاتی ہیں...جوں جوں انبیاء سے بُعد ہوتا جاتا ہے لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم اپنے نبیوں کی شفاعت سے جنت میں چلے جائیں
درس القرآن 6 گے.چونکہ یہود بھی شفاعت انبیاء پر بھروسہ کر کے بیٹھے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا اس آیت میں رڈ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کا یہ خیال اُن کو کچھ فائدہ نہیں دے گا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اس لئے ابراہیم ہماری شفاعت کریں گے یا ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے ہیں اس لئے موسی ہماری شفاعت کرینگے وہ غلطی پر ہیں.“ 66 ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 154 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 7 درس القرآن نمبر 83 وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَاتَتَهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (البقرة:125) جیسا کہ گزشتہ درس میں بیان ہوا بنی اسرائیل کی دونوں شاخوں یہود و نصاریٰ کے اس اعتراض کہ نبوت کا سلسلہ ان کی قوموں سے لے کر بنی اسماعیل میں منتقل کیوں کیا جبکہ وہ حضرت ابراہیم کے وارث ہیں اور حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے ان کے ورثاء کے بارہ میں بشارتیں دی تھیں.اس اعتراض کے جواب میں بڑا زور دار جواب دیتا ہے کہ اوّل تو حضرت ابراہیم کو مفت میں ہی بلند مقام نہیں مل گیا تھا ان کے رب نے ان کو آزمایا تھا اور صرف ایک بات میں نہیں بلکہ کئی باتوں میں آزمایا ان کی ذات میں بھی ان کو آزمایا گیا ان کی بیوی کی ذات میں بھی ان کے بچوں کے ذریعے بھی فاتتهنّ اور حضرت ابراہیم نے ان سب کو پورا کر دیا ہر ابتلاء اور امتحان میں وہ کامیاب اترے.مگر یہ بنی اسرائیل جو اپنی محرومی کا شکوہ کرتے ہیں ہر امتحان میں ناکام اتر رہے ہیں، فرمایا ہے.حضرت ابراہیم کو بشارت ملی کہ میں تم کو امام بنانے والا ہوں.چنانچہ آج کی دنیا کی غالب اکثریت یہودی بھی، نصاریٰ بھی، مسلمان بھی ان کو اسوہ اور مقتداء تسلیم کرتے ہیں مگر انہوں نے خود دعا کی تھی وَمِنْ ذُرِّيَّتِي کہ میری نسل میں بھی یہ سلسلہ امامت جاری رہے تو اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا تھا لا يَنَالُ عَهْدِى الظلمین کہ میرا یہ عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا.اس لئے یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم کی نسل سے ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم سے کئے گئے وعدوں میں حصہ دار ہیں، بالکل غلط خیال ہے.یہ بنی اسرائیل ظالم ہو چکے ہیں.نصاریٰ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں ظالم ہو چکے ہیں کیونکہ شرک سے بڑا ظلم کوئی نہیں جس کے وہ مر تکب ہیں اور ایک کمزور انسان کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور یہودی بھی ظالم ہو چکے ہیں جو حقوق انسانی تلف کرنے کے مرتکب ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ ابراہیمی وعدے صرف بنی اسرائیل کے لئے نہیں تھے، حضرت ابراہیم کی تمام اولاد سے تھے اور بنی اسماعیل بھی حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں بلکہ ان کے بڑے بیٹے کی اولاد ہیں جو بائبل کی رو سے زیادہ بلند مقام رکھتا ہے اس لئے یہ اعتراض ہی غلط ہے کہ ابراہیم کی اولاد کو ان وعدوں سے محروم کیا جا رہا ہے جو حضرت ابراہیم سے کئے گئے تھے.
درس القرآن 8 درس القرآن نمبر 84 وَاذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ( البقرة : 126) بنی اسرائیل کے اس اعتراض کا ہم حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور ابراہیمی وعدوں کی وجہ سے صرف ہم ہی نبوت کے مستحق ہیں جواب جاری ہے کہ بنی اسماعیل اور مکہ اور بیت اللہ حضرت اسماعیل کے ذریعہ حضرت ابراہیم کا ورثہ ہے.یہاں بنی اسماعیل اور مکہ اور اسلام کے ابراہیمی ورثہ ہونے کی ایک زبر دست دلیل بنی اسرائیل کے مقابلہ میں یہ دی ہے کہ بنی اسرائیل کا جو قبلہ بائبل کی رو سے حضرت موسیٰ نے مقرر کیا تھا یعنی کوہ عیبال پر اس کا بھی حضرت ابراہیمؑ سے کوئی تعلق بنی اسرائیل کی اپنی کتابوں یا روایات سے ثابت نہیں ہوتا اور پھر بعد میں جب موسوی شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنی اسرائیل نے یروشلم کو قبلہ بنالیا اس کا بھی کوئی تعلق حضرت ابراہیمؑ سے بنی اسرائیل کی کتابوں اور روایات میں ثابت نہیں.مگر وہ بیت اللہ جو مکہ میں ہے جو رسول اللہ صلی علیم کا قبلہ ہے وہ ابراہیمی یاد گار ہے اور اسی وجہ سے مثابَةً لِلنَّاسِ یعنی لوگوں کے بار بار اکھٹی ہونے کا مقام ہے اور حضرت ابراہیم کی دعا کی وجہ سے امن کا مقام ہے اور یہ وہ مقام ہے ابراہیمی تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کو نماز کی جگہ بناؤ اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل دونوں کو اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی تھی کہ یہ میراگھر ہے اس کی روحانی اور ظاہری صفائی کا سامان کرو کیونکہ ساری دنیا سے یہاں طواف کرنے والے بھی آئیں گے ، اعتکاف کرنے والے بھی آئیں گے ، رکوع و سجود کے ذریعہ عبادت کرنے والے بھی آئیں گے مگر بنی اسرائیل کے کسی قبلہ کو خواہ یہود کا قبلہ ہو یا نصاری کا قبلہ ہو یہ ابراہیمی تعلق حاصل نہیں تم تو اپنے قبلوں کے متعلق ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے.اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے اور جب ہم نے اپنے گھر کو لوگوں کے بار بار اکھٹا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم کے مقام میں نماز کی جگہ پکڑو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک صاف بنائے رکھو.
درس القرآن 9 درس القرآن نمبر 85 وَاذْ قَالَ ابْرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا مِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ أَمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اَضْطَرَةَ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (البقرة:127) بنی اسرائیل کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ابراہیمی وعدوں کی وجہ سے نبوت بنی اسرائیل میں ہونی چاہئے بنی اسماعیل میں سے نبی کو ماننے کے لئے تیار نہیں.گزشتہ آیت میں یہ جواب دیا تھا کہ بیت اللہ اور مکہ اور بنی اسماعیل بھی ابراہیمی وعدوں کے وارث ہیں اور بیت اللہ اور مکہ مقام ابراہیم ہیں جبکہ تم خود اپنے قبلہ کو خواہ وہ کوہ عیبال پر ہو، خواہ یروشلم میں ہو ابراہیمی قبلہ نہیں کہتے تو اس کے جواب میں بنی اسرائیل یہ کہہ سکتے تھے کہ کس طرح معلوم ہو کہ یہ مقامات ابراہیم اس مقام پر آئے تھے اور انہوں نے مکہ شہر کے لئے دعا کہ تھی کہ یہ بكدا بن جائے یعنی شہر بن جائے جبکہ اس وقت یہ جگہ ویرانہ تھی اور امنا شہر بن جائے، پر امن شہر ہو اور امن دینے والا شہر ہو اور تیری دعا یہ تھی کہ تازہ بتازہ پھل اس شہر کے رہنے والوں کو ملتے رہیں.اب دیکھو کہ وہ ویرانہ دنیا کے معروف شہروں کی شکل اختیار کر گیا اور امن والا شہر بن گیا جس دور میں سارا عرب جنگوں اور لوٹ مار کرنے والوں کی آماجگاہ تھا اس وقت بھی مکہ کے شہر پر کوئی دشمن بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا اور پھر اسی ویرانہ میں دنیا کے کناروں سے آم اور انگور اور اناس آتے ہیں.اور فرمایا کہ ان نعمتوں سے صرف ایمان لانے والے نہیں بلکہ منکرین بھی فائدہ اٹھائیں گے.اس آیت کا لفظی ترجمہ اس طرح ہے اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے میرے رب اس جگہ کو پر امن شہر بنادے اور اس کے باشندوں میں سے جو بھی اللہ اور آنے والے دن پر ایمان لائیں انہیں ہر قسم کے پھل عطا فرما اس پر اللہ نے فرمایا اور جو شخص کفر کرے اسے بھی میں تھوڑی مدت کے لئے فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے مجبور کر کے دوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا اور یہ بہت برا انجام ہے.
درس القرآن 10 درس القرآن نمبر 86 دو الْعَلِيمُ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ (البقرة: 128) ان آیات میں یہ مضمون چل رہا ہے کہ بنی اسرائیل اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت ابراہیم کے نیچے وارث ہونے کی وجہ سے ان وعدوں کے وارث ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے کئے تھے تو ان آیات میں یہ مضمون ہے کہ حضور صلی ال کی اور بیت اللہ اور اسلام حضرت ابراہیم کے حقیقی وارث ہیں اور حضرت ابراہیم سے آنحضرت صلی العلم بلند مقام رکھتے ہیں.بنی اسرائیل کے پاس نہ کوئی قبلہ ہے جس کی بنیادیں حضرت ابراہیم نے اٹھائی ہوں، نہ کوئی ابراہیمی دعا ہے جو صرف بنی اسرائیل کے لئے ہو ، نہ کوئی وعدہ ہے جو صرف بنی اسرائیل کے لئے محدود ہو، بلکہ جہاں بنی اسرائیل کے لئے وعدے ہیں وہاں بنی اسماعیل کے لئے بھی زبر دست وعدے ہیں اور بنی اسرائیل کی کتاب میں اسرائیلی قبلہ کے لئے حضرت ابراہیم کے کسی کام کرنے کا کوئی ذکر نہیں جبکہ عربوں کی روایات میں اور قرآن شریف میں حضرت ابراہیم کے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر بیت اللہ کی تعمیر کا ذکر ہے.بنی اسرائیل کی کتب میں جو حضرت ابراہیم کی بنی اسرائیل کے اس قسم کی دعا کا ذکر نہیں جو بنی اسماعیل کے لئے پائی جاتی ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ابراہیم اس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی یہ دعا کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ہمارے طرف سے قبول کر لے یقینا تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اور اے ہمارے رب ہمیں اپنے دو فرمانبر دار بندے بنادے اور ہماری طرف سے قبول کر لے.یقیناً تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اور اے ہمارے رب ہمیں اپنے دو فرمانبر دار بندے بنا دے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبر دار امت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.یقینا تو بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.
درس القرآن 11 درس القرآن نمبر 87 رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 129) اس آیت میں یہ مضمون اپنے معراج پر پہنچتا ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ اعتراض کہ نبوت ان سے چھین کر بنی اسماعیل میں کیسے جا سکتی ہے جبکہ بنی اسرائیل ابراہیمی وعدوں کے وارث ہیں.یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت ابراہیم نے تو ایک عظیم الشان نبی کے آنے کے متعلق دعا کی تھی اور اس کے معرکۃ الآراء کاموں کا اپنی دعا میں ذکر کیا ہے اور ان کاموں کو دیکھا جائے تو یہ کام کوئی بنی اسرائیلی کر ہی نہیں سکتا تھا مثلاً حضرت موسیٰ کا تابع بنی اسرائیلی نبی لازماً اپنی کتاب کے مطابق تعلیم دیتا اور اس دعا میں الکتاب یعنی کامل کتاب کے لئے دعا ہے جبکہ حضرت موسیٰ کی کتاب کامل کتاب نہیں تھی بلکہ نَصِيباً مِّنَ الْكِتَابِ یعنی کتاب کا کچھ حصہ تھی.بہر حال نبیوں کے سردار صلی الی یکم کے بارہ میں حضرت ابراہیمؑ نے جو دعا کی تھی اس میں آپ کے چار عظیم الشان کام بیان کئے گئے ہیں.پہلا عظیم الشان کام: يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايتك ہے کہ وہ رسول میری آیات کو پڑھ کر سنائے گا، چنانچہ قرآن مجید کی آیات آپ پر نازل ہوئیں اور آپ نے ہر آیت پڑھ کر سنائی ر لکھوا بھی دی اور آیات کے دوسرے معنے کے لحاظ سے تمام احکامات جو اللہ کے حکم سے اور اترے، آپ صلی ا یکم نے دنیا کو پہنچا دیئے.آپ عظیم الشان کام ایک کامل شریعت کا سکھانا تھا جو تمام دنیا کے لئے رو واجب العمل ہو اور یہ کام بھی ہمارے نبی صلی یہ کام احسن طور پر بجالائے اور جن کاموں کی عملی شکل دکھانا مقصود تھی اپنی سنت سے آپ نے کر کے دکھا بھی دیئے.تیر ا عظیم الشان کام جو آپ صلی الیہ کے بجالائے وہ احکام اور شریعت کا فلسفہ اور حکمت تھا جو آپ نے دنیا کو سکھایا.سابقہ شریعتوں میں بعض دفعہ حکم دیا گیا مگر ان کی وجہ نہیں بتائی گئی.اور
درس القرآن 12 چوہت عظیم الشان کام جو ہمارے نبی صلی الم نے فرمایا اور جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے وہ حضور صلی علیکم کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں روحانی پاکیزگی ہے جو امت محمدیہ میں آپ کی برکت سے پیدا ہوئی.
درس القرآن 13 درس القرآن نمبر 88 وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة: 131 132) جس طرح ایک حق اور صداقت پر قائم فوج کسی ظالم فوج کے حملہ کو روکتی ہے دفاع کرتی ہے پھر دفاع کرنے کے بعد اور دشمن کے حملے کو روکنے کے بعد جوابی حملہ کرتی ہے اور دشمن کے علاقہ کی طرف پیش قدمی کرتی ہے اسی طرح قرآن شریف میں پہلے بنی اسرائیل کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ ابراہیمی وعدوں کے وارث بنی اسرئیل تھے اب ان آیات کے ساتھ ان کے اعتراضات کے مقابلہ میں جوابی حملہ کا مضمون شروع ہوتا ہے ، فرماتا ہے.اور کون ابراہیم کی ملت سے اعراض کرتا ہے سوائے اس کے جس نے اپنے نفس کو بے وقوف بنایا.نادانی اور جہالت سے کام لیا کیونکہ تم بھی مانتے ہو وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو دنیا میں بھی چن لیا اور ہم مسلمان بھی یہ مانتے ہیں کہ وہ آخرت میں صالح لوگوں میں سے ہو گا اور خیر و برکت یاد نیا کی ہے یا آخرت کی ہے.ہم دونوں فریقوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ابراہیم کو دنیا میں خیر و برکت حاصل تھی اور آخرت میں بھی وہ خیر و برکت کا وارث ہو گا اب دیکھو کہ ابراہیم کی ملت پر کون عمل کر رہا ہے اس کے لئے پہلے دیکھو کہ ابراہیم کی ملت کیا تھی، ابراہیم کا طریق عمل کیا تھا، ابراہیم کا طریق عمل یہ تھا اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّة اسلم جب اس کے رب نے اس کو کہا اسلام لے آ.جس کے معنے ہیں کہ اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کو اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دے اور اپنی گردن فرمانبر داری کے لئے رکھ دے، اپنی خواہش، اپنا ارادہ کچھ باقی نہ رہے.اب بتاؤ کہ کیا تم ابراہیم کے طریق پر اس پر عمل کر رہے ہو ، یا تم اپنے ارادوں، اپنی خواہشوں، اپنے ملکی رسم و رواج، قومی عادات اور شعائر کو مقدم کر رہے ہو اور الہی قوانین اور فرمانوں کی اتنی پرواہ بھی نہیں کرتے کہ رسم و رواج یا سوسائٹی اور برادری کے اصولوں پر اللہ تعالیٰ کی باتوں کو مقدم کر لو تو پھر تم ابراہیمی ملت پر عمل نہیں کر رہے اور اگر ایسا ہے تو پھر تمہارا یہ دعویٰ کہ تم ابراہیم کی اولاد ہونے کی وجہ سے ابراہیمی وعدوں کے وارث ہو ، بالکل غلط ہے.
درس القرآن 14 درس القرآن نمبر 89 رووو وَوَلّى بِهَا إبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِى إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَ ވ މ وور روووو الا وانتُم مُّسْلِمُونَ أم كُنتُمْ شُهَدَاءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَالهَ بَابِكَ إبراهيمَ وَإِسْعِيلَ وَإِسْحَقَ الهَا وَاحِدًا وَ نَحْنُ (البقرة:134،133) لَهُ مُسْلِمُونَ بنی اسرائیل کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے گویا جوابی حملہ کرتے ہوئے اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ ابراہیم نے نہ صرف خدا تعالیٰ کے حکم پر اپنا تمام وجو د سونپ دیا اپنی تمام طاقتیں، صلاحیتیں ، استعدادیں خدا کی راہ میں لگا دیں، بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت کی.اس لئے اگر بنی اسرائیل اپنے آپ کو سلسلہ نبوت کا حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ ابراہیم کی وصیت پر عمل کر رہے ہیں؟ کیا وہ اسلام لائے ہیں جس کے معنے ہیں اپنے آپ کو اور اپناسب کچھ خدا کو سونپ دینا اور پھر صرف حضرت ابراہیم نہیں بلکہ یہ لوگ اپنے آپ کو بنی اسرائیل کہتے ہیں اور اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب ہے اور حضرت یعقوب نے بھی حضرت ابراہیم کی طرح اپنی اولاد کو یہی وصیت کی تھی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یقیناً دین کو چن لیا ہے اس لئے تم نے مرنا نہیں مگر اسلام کی حالت میں جب کہ تم نے اپنے وجود کو پوری طرح خدا کو سونپ دیا ہو ام كُنتُم شُهَدَاء کیا تم اس وقت موجود تھے اِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ جب یعقوب پر موت آئی إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ جب اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی وہ کیا ہے جس کی تم میرے بعد عبادت کرو گے ؟ قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَإِلَهَ بَابِكَ اِبْراهِيمَ وَإِسْمعِيلَ وَإِسْحَقَ الهَا وَاحِدًا انہوں نے کہا ہم عبادت کرتے رہیں گے تیرے معبود کی اور تیرے باپ دادا کے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے.وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ اور ہم اس کو اپنا سب کچھ سونپنے والے ہیں.ان آیات میں زور دار الفاظ میں یہ مضمون بیان کیا ہے کہ جب تک بنی اسرائیل ایک خدا کو اپنا سب کچھ سونپ نہیں دیتے یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ ابراہیم و اسرائیل کی نسل ہونے کی وجہ سے روحانی انعامات کے وارث ہیں.
درس القرآن 15 درس القرآن نمبر 90 تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (البقرة: 135) اس آیت میں بنی اسرائیل کے اس دعوی کا بڑا اصولی اور حکیمانہ جواب دیا ہے کہ ہم ابراہیم اور یعقوب کی اولاد ہونے کی وجہ سے ان وعدوں کے وارث ہیں جو ان سے کئے گئے تھے اور سلسلہ نبوت صرف بنی اسرائیل میں جاری رہے گا، بنی اسماعیل میں نہیں جائے گا.یہ آیت اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہر شخص اپنے کاموں کا پھل پائے گا.یہ امت حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب وہ تمام نبی جو بنی اسرائیل میں آئے ان کو ان کے کاموں کے پھل ملے اور اگلے جہان میں ملیں گے اور تمہارے لئے وہی ہے جو تم کماتے ہو.ان لوگوں کی نیکیاں تمہارے کام نہیں آئیں گی وَ لا تُسْتَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ اگر تم ان کی نیکیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے پر مصر ہو تو کیا ان کے اعمال کی جواب دہی تم سے کی جائے ؟ ظاہر ہے کہ تم ان لوگوں کے اعمال کے بارہ میں نہ پوچھے جاؤ گے جو انہوں نے کئے پھر تم ان کی نیکیاں اپنے کھاتہ میں کس طرح ڈال سکتے ہو.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:.“ عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کے اعمال ہمارے کام آجائیں گے اگر وہ نیک اور پار سا تھے تو ہم بھی اُن کی اولاد ہونے کی وجہ سے انہی کے ساتھ جگہ پائیں گے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس خیال کی تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اُن کے اعمال اُن کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ.تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیسے اعمال کرتے تھے.بلکہ یہ سوال ہو گا کہ تم کیا کرتے رہے.اگر یہ سوال ہونا ہو تا کہ تمہارے باپ دادوں نے کیا کیا تھا تو شاید تم بچ جاتے مگر سوال تو یہ ہو گا کہ تم نے کیا کیا ہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 207 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 16 درس القرآن نمبر 91 الْمُشْرِكِينَ وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصْرِى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ (البقرة:136) مجھے یاد ہے کہ لندن یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں یونیورسٹی کے ایک کیفیٹیریا میں خاکسار ایک عیسائی نوجوان سے اسلام اور عیسائیت پر بات کر رہا تھا اور زیر بحث یہ بات تھی کہ عیسائیت کے عقائد تثلیث وغیرہ عقلاً درست نہیں بلکہ سمجھ میں نہیں آتے تو اس جوان نے جواب دیا کہ تم عیسائی ہو جاؤ تو وہ سمجھ آجائیں گے اس موقعہ پر اس نے انگریزی ضرب المثل جس کا مطلب یہ ہے کہ پڈنگ کا مزہ کھانے میں ہے تم پڈنگ کھا کر دیکھ لو.میں نے کہا اگر مجھے معلوم ہے کہ اس پڈنگ میں زہر ملایا گیا ہے تو میں اس کو کیوں کھاؤں.جو آیت ہم نے آج پڑھی ہے اس میں یہود اور نصاریٰ کی اس تکنیک کا ذکر ہے کہ وہ کہتے ہیں یہودی ہو جاؤ، عیسائی ہو جاؤ، تمہیں صحیح ہدایت مل جائے گی، سمجھ آجائے گی، فرماتا ہے.تم تو کہتے تھے کہ ابراہیم کا ورثہ ہم نے لیا ہے ہم ابراہیم کی ملت پر قائم ہیں اور ابراہیمی وعدے ہمارے ذریعہ پورے ہونے چاہیں قُل بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِمَ حَنِيفًا تو کیوں نہ ہم ابراہیم کی ملت کی پیروی کریں حَنِيفًا جو سراسر موحد تھا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا.مراد یہ ہے کہ اگر چہ تم دونوں فریق موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، لیکن تمہارے عقائد صاف طور پر مشرکانہ ہیں.تم بیٹے اور روح القدس کو خدا باپ کی طرح خدا کہتے ہو ، دونوں کو علم، مرتبہ ، مقام، ارادہ، اختیار اور طاقت میں خدا باپ کے برابر سمجھتے ہو، ساتھ ہی یہ اعتقاد بھی رکھتے ہو کہ باپ، بیٹے ، روح القدس میں حقیقی امتیاز اور تینوں حقیقتاً الگ الگ ہیں تو یہ شرک نہ ہو ا تو اور کیا ہوا؟ اور یہودا گر چہ لفظ توحید پر زور دیتے ہیں مگر ان کے شرک کی جو حالت تھی چه اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام براہین احمدیہ میں اس طرح فرماتے ہیں:.آنحضرت صلی علیم کے ظہور کے وقت تک ہر یک قوم کی ضلالت اور گمراہی کمال کے
درس القرآن 17 درجہ تک پہنچ چکی تھی اور کسی صداقت پر کامل طور پر ان کا قیام نہیں رہا تھا.چنانچہ اگر اول یہودیوں ہی کے حال پر نظر کریں تو ظاہر ہو گا کہ ان کو خدائے تعالیٰ کی ربوبیت تامہ میں بہت سے شک اور شبہات پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے ایک ذات رب العالمین پر کفایت نہ کر کے صدہا ارباب متفرقہ اپنے لئے بنارکھے تھے یعنی مخلوق پرستی اور دیوتا پرستی کا بغایت درجہ ان میں بازار گرم تھا.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال قرآن شریف میں بیان کر کے فرمایا ہے اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ......(التوبة: 31)" (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 463 بقیہ حاشیہ نمبر 11)
درس القرآن 18 درس القرآن نمبر 92 قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْعِيْلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُم (البقرة:137) وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ بنی اسرائیل کے اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے بعد کہ نبوت کیوں بنی اسرائیل سے چھین لی گئی اب اسلام کی ان تمام سابقہ مذاہب کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ درجہ کی خوبصورتی کا ذکر فرماتا ہے، جو بنی اسرائیل اور دیگر تمام نبیوں کو ماننے والوں پر زبر دست حجت ہے کہ تم لوگ ایک یا دو یا تین نبیوں پر ایمان لاتے ہو یا ایک علاقہ یا ایک قوم و نسل یا ایک زبان بولنے والے نبیوں پر ایمان لاتے ہو.مگر اسلام کی یہ امتیازی خوبی اور خوبصورتی ہے کہ وہ تمام نبیوں اور رسولوں اور پیشوایان مذاہب پر ایمان لانا ضروری قرار دیتا ہے گویا ہر مذہب اپنے ماننے والوں کے ہاتھ میں ایک یا دو یا تین پھول پکڑوا تا ہے مگر اسلام اپنے ماننے والوں کے ہاتھ میں ایسا گل دستہ پکڑا تا ہے جس میں دنیا بھر کے پھول موجود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوبصورت تشریحی ترجمہ اس آیت کا فرماتے ہیں:.“اے مسلمانو! تم اس طرح پر ایمان لاؤ اور یہ کہو کہ ہم اس خدا پر ایمان لائے جس کا نام اللہ ہے یعنی جیسا کہ قرآن شریف میں اُس کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ جامع تمام صفات کاملہ کا ہے اور تمام عیبوں سے پاک ہے اور ہم خدا کے اُس کلام پر ایمان لائے جو ہم پر نازل ہوا یعنی قرآن شریف پر اور ہم خدا کے اس کلام پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم نبی پر نازل ہو ا تھا اور ہم خدا کے اس کلام پر ایمان لائے جو اسمعیل نبی پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ایمان لائے جو اسحاق نبی پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ایمان لائے جو یعقوب نبی پر نازل ہوا تھا اور اُس کلامِ خدا پر ایمان لائے جو یعقوب نبی کی اولاد پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ہم ایمان لائے جو موسیٰ نبی کو دیا گیا تھا اور اُس کلام خدا پر ہم ایمان لائے جو عیسی نبی کو دیا گیا تھا اور ہم اُن تمام
درس القرآن 19 کتابوں پر ایمان لائے جو دُنیا کے گل نبیوں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھیں یعنی اس کی طرف سے جس نے کھلے کھلے طور پر اُن کی ربوبیت کی اور دنیا پر ثابت کیا کہ وہ اُس کا ناصر اور حامی اور عربی ہے خواہ وہ کسی قوم یا کسی ملک میں پیدا ہوئے تھے.ہم خدا کے نبیوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے جو بعض کو قبول کریں اور بعض کو رڈ کریں بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں جو خدا کی طرف سے دنیا میں آئے اور ہم اس طرح پر جو خدا نے سکھایا ہے اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور خدا کے آگے اپنی گردن ڈالتے ہیں." چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 377،376)
درس القرآن 20 درس القرآن نمبر 93 فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا أَمَنْتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَاهُمْ فِي شِقَاقٍ 99119 فَسَيَكفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرة:138) گزشتہ سے پچھلی آیت میں یہود اور نصاریٰ کا یہ دعویٰ بیان کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو کہتے ہیں سچائی کو سمجھنا ہے اور ماننا ہے تو یہودی یا عیسائی بن کر دیکھو جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں پڈنگ کا مزہ اس کے کھانے میں ہے.اگر یہودی یا عیسائی ہو گے تو تمہیں صداقت کا صحیح مزہ کا پتہ لگے گا.پچھلی آیت میں اس آیت کا ایک ٹھوس جو اب مسلمانوں کی زبانی ان کو دیا گیا تھا کہ ان لو کہہ کہ ہم اللہ پر ایمان لا کر جس پر ایمان لانا دراصل تمام صداقتوں کی جڑھ ہے اس کلام پر بھی ایمان لاتے ہیں جو ابراہیم پر اتارا گیا، جو اسماعیل، اسحاق ، یعقوب اور ان کی اولا د پر اتارا گیا.ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ اور عیسی اور تمام نبیوں کو دیا گیا.ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے.اس لئے تمہارا یہ کہنا ہی کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سمجھ آئے گی مضحکہ خیز بات ہے.صحیح معنوں میں تو یہودی اور عیسائی ہم ہی ہیں اور پھر ہم نے اپنا سارا وجود ، اپنی ساری صلاحیتیں اور استعدادیں اپنی جان، مال اور اولاد، اپنا سب کچھ خدا کے سپر د کر دیا ہے تو پھر حقیقی یہودی و عیسائی کون ہوا؟ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تم ہم پر اعتراض کرتے ہو کہ تم نے جھگڑا اور شقاق پیدا کر دیا ہے، ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنالی ہے.شقاق تو تم پیدا کر رہے ہو.مسلمانو! ان یہود و نصاری کو کہہ دو کہ اگر تم ہماری طرح ایمان لاؤ جو صرف اپنے پر اترنے والے کلام پر ایمان نہیں لاتے بلکہ ابراہیم ، اسماعیل، اسحاق، یعقوب ان کی اولاد پر اترنے والے کلام پر ایمان ہیں.ہم جو کچھ موسیٰ عیسی اور سب نبیوں کو دیا گیا اس پر ایمان رکھتے ہیں ہم لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، فرق تو تم کرتے ہو شقاق تو تم پیدا کرتے ہو الزام ہمیں دیتے ہو فَسَيَكفِيكَهُمُ اللهُ اتنی صاف واضح صداقت سے تم انکار کر رہے ہو.یہ اللہ ہی سے نپٹے گا وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اور خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے.وو
درس القرآن 21 درس القرآن نمبر 94 صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةَ وَنَحْنُ لَهُ عَبدُونَ (البقرة:138) اس مضمون کو ختم کرنے کے سے پہلے کہ بنی اسرائیل اعتراض کرتے ہیں کہ ان سے سلسلہ نبوت کس طرح سے لے لیا گیا اور بنی اسماعیل میں منتقل ہو گیا اب ایک نصیحت دونوں قوموں کو اس آیت میں کی گئی ہے جو دونوں قوموں کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے.بنی اسرائیل کو تو کہا گیا ہے کہ تم چاہتے ہو کہ بپتسمہ لے کر تمہاری ملت تمہارا مذہب اختیار کیا جائے.مگر اصل بپتسمہ تو وہ ہے جو صِبْغَةَ الله ہے.تم اس بپتسمہ کو اختیار کر وجو اللہ کا بپتسمہ ہے ، جو طریق اللہ نے رسول اکرم صلی علیم کو بھیج کر اور قرآن مجید کو نازل کر کے اصطباغ یعنی بپتسمہ کا بتایا ہے اور اس سے زیادہ خوبصورت بپتسمہ کون سا ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سکھائے، ساتھ ہی مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا کو یہ تعلیم دی ہے کہ نیکی نام ہے اللہ کارنگ اختیار کرنے کا.اللہ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کا.اللہ کے اسماء حسنیٰ کا نقش اپنے اندر اتارنے کا.وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةَ اور اللہ سے زیادہ خوبصورت اور کس کی صفات ہیں.بنیادی مقصد جو تخلیق کا ہے وہ عبادت کا ہے جیسا کہ اس بحث سے پہلے قرآن کے نزول کے بنیادی مقصد کے طور پر بیان کیا گیا تھا اور یہ مقصد حاصل ہو ہی نہیں سکتا جب تک اللہ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر نہ چڑھایا جائے.یہ ہے عبادت کہ انسان خدا کی گویا نقل کرے.اگر خدا علیم ہے تو وہ بھی علم حاصل کرے.اگر خدا رحمان ہے ، رحیم ہے، تو وہ بھی رحم کرے.اگر خدا حکیم ہے تو وہ بھی حکمت سے کام کرے.غرض ہم مسلمان جو خدا کی صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں و نَحْنُ لَهُ عبدون ہم ہی اس کی عبادت کرنے والے ہیں.
درس القرآن درس القرآن نمبر 95 22 مُخْلِصُونَ 191 قُلْ اتحاجونَنَا فِي اللهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ (البقرة: 140) بنی اسرائیل کے اس شکوہ کے جواب میں بہت سے ٹھوس دلائل کے بعد جب کہ یہ مضمون بدل کر قبلہ کے رخ کے بدلنے کا مضمون شروع ہو رہا ہے.ایک زبر دست نکتہ اس مضمون کے متعلق اس آیت میں پیش فرماتا ہے جس کو حضرت مصلح موعودؓ نے بڑے عمدہ رنگ میں پیش فرمایا ہے ، فرماتے ہیں:.“ اس آیت میں کیا ہی لطیف دلیل دی ہے.فرماتا ہے کہ تمہارا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے ہدایت صرف ہماری قوم میں محدود کر دی ہے اس کو ہم کب مان سکتے ہیں اگر کسی اجنبی شے کے متعلق تم یہ بات کہتے تو تحقیق کی ضرورت بھی ہوتی مگر تم تو خدا کے متعلق یہ بات کہتے ہو جو ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی.پھر ہم کس طرح اس بات کو مان لیں کہ بنو اسحاق سے باہر نبی نہیں آسکتا.اصل سوال تو یہ ہے کہ نبی بھیجا کون کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے تو تم ایسی بات کیوں کہتے ہیں جسے کوئی فطرت صحیحہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی.وہ تمہارا بھی رب ہے اور ہمارا بھی.اگر وہ صرف تمہارا ہی رب ہو تا تو تم کہہ سکتے تھے کہ وہ ہمارے سوا کسی اور سے تعلق نہیں رکھ سکتا مگر جب وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں تو دے دے اور ہمیں چھوڑ دے لَنا أَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ فرماتا ہے کہ دین میں حسد کی بھی کوئی وجہ نہیں کیونکہ کوئی شخص دوسرے کی کمائی نہیں لے سکتا.ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جزا کا مستحق ہو گا.تمہارے اعمال تمہارے کام آئیں گے اور جس قوم میں سے یہ نبی آیا ہے اس کے افراد کے اعمال اس کے کام آئیں گے جو شخص جس قدر کوشش کرے گا اسی قدر انعام پائیگا.کوئی قومی رعایت نہیں ہو گی وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ اور ہم تو اسی سے اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اس میں بتایا کہ ہماری محبت ایسی نہیں کہ اگر وہ کچھ دے تو ہم اس پر ایمان لائیں.بلکہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ خواہ وہ ہمیں کچھ دے یا نہ دے تب بھی ہم اسی کے لئے وقف ہیں اور اسی کے اطاعت گزار رہیں گے.اس کے سوا ہمیں کوئی اور چیز مطلوب نہیں." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 220،219 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 23 درس القرآن نمبر 96 ام تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَاسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصْرُى قُلْ وَ انْتُمْ أَعْلَمُ اَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (البقرة:142،141) ان دو آیتوں پر بنی اسرائیل کے سلسلہ نبوت کی تبدیلی پر اعتراض کے مضمون کے جواب کا ایک پہلو پورا ہوتا ہے اور اس مضمون کا دوسرا پہلوجو قبلہ بدلنے سے تعلق رکھتا ہے ان آیتوں کے بعد شروع ہوتا ہے ان دو آیات کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں:.“اللہ تعالیٰ یہود کا یہ دعوی بیان کرتا ہے کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب اور اس کی اولاد بھی یہودی یا مسیحی تھے.قرآن کریم اس کا ایک سادہ سا جواب دیتا ہے مگر وہ ایسا جواب ہے کہ جس سے اُن پر موت وارد ہو جاتی ہے حضرت ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد سے تعلق رکھنے والے افراد توریت اور انجیل کے زمانہ سے بہت پہلے گزر چکے تھے اور توریت جسے وہ الہامی مانتے ہیں.اس میں اس کا صاف طور پر ذکر آتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دانستہ جھوٹ بولتے ہو اور ان گواہیوں کو چھپاتے ہو جو تورات میں موجود ہیں...تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُم مَّا كَسَبْتُم فرماتا ہے یہ ایک امت تھی جو گزر چکی.تم کیوں اپنی غلطیوں میں ان کو شریک کرتے ہو.وہ اپنے اعمال کے آپ ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہو.پس اس بات سے کیا فائدہ کہ تم ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہو.تم اپنے ایمان کی فکر کرو.اُن کا ایمان تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا.اور نہ اُن کی نیکیاں تمہاری نجات کا موجب بن سکیں گی......ان نبیوں کے اعمال تمہارے کام نہیں آسکتے، نہ مسیح کی تکلیف اُٹھانا تمہاری نجات کا موجب بن سکتا ہے.تم سے تمہارے اعمال کی نسبت پوچھا جائیگا.اس لئے تمہیں اپنا فکر کرنا چاہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 220 تا222 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن درس القرآن نمبر 97 24 سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرة:143) اسلام کی تعلیم میں روح اور جسم دونوں کو ایک دوسرے پر اثر ڈالنے والا قرار دیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے.اسلامی تعلیم میں جہاں باطن پر زور ہے وہاں ظاہر پر بھی زور ہے.اسلامی کی تعلیم کے ذریعہ جہاں ایک عالمگیر ، زبر دست تبدیلی روحانیت اور عقائد میں کی گئی وہاں اس تبدیلی کا ظاہری سمبل (Symbol)، ظاہری علامت قبلہ کی تبدیلی سے کیا گیا تا کہ ہر ایک کو احساس ہو جائے کہ کوئی زبر دست تبدیلی کی جارہی ہے.یہ بھی مد نظر رہے کہ بظاہر نظر ان آیات میں بنی اسرائیل کی دو شاخوں یہود اور نصاری مخاطب نظر آتی ہیں جو عالمی اثرات رکھتی ہیں اور ان دونوں سے ہی زیادہ مسلمانوں کی عالمی سطح پر کش مکش ہونے والی تھی مگر ان دونوں مذاہب سے بحث کرتے ہوئے دراصل ہندومت، بدھ مت، زر تشت ازم وغیرہ ماننے والوں کو بھی خطاب ہے کہ اب قبلہ نہ یروشلم ہے ، نہ بنارس، نہ کپل وستو، نہ کوہ سبلان.فرماتا ہے کہ نادان لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا جس پر وہ تھے.کوئی یروشلم کو قبلہ بنائے بیٹھا تھا، کوئی بنارس کو ، کوئی کپل وستو کو، کوئی سبلان کے پہاڑ کو.فرماتا ہے تم کہو کہ یہ فیصلہ کرنا کہ مشرق کی طرف رُخ کیا جائے یا مغرب کی طرف، یہ زید ، بکر کا کام نہیں، یہ تو محض اللہ کا کام ہے.سیدھا راستہ کون سا ہے اس کا فیصلہ کرنا اور پھر اس کی طرف رہنمائی کر ناخد اتعالیٰ کا کام ہے.
درس القرآن 25 درس القرآن نمبر 98 وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (البقرة:144) الله جیسا کہ پچھلی آیت کی تشریح میں بتایا گیا تھا کہ قبلہ کا بدلنا تاریخ انسان کے بہت بڑے اور بہت اثرات پیدا کرنے والے واقعات میں سے ہے اور یہ ایک ظاہری علامت ہے اس بات کی کہ اب پہلے مذاہب، پہلے رسول اور انبیاء پہلے مقدس مقامات، پہلی الہامی کتابوں کا دور پورا ہو کر اب اسلام کا دور ہے ، محمد رسول اللہ صلی علیکم کا دور ہے ، اب یروشلم اور بنارس کے بجائے مکہ اور مدینہ کا دور ہے، اب ژند اوستا، وید اور بائبل کے بجائے قرآن کا دور ہے.اور اے مسلمانو ! اب اس قدر تبدیلی کے ساتھ تمہاری بہت بڑی ذمہ واری ہے.تم جس طرح مجلس میں وسط میں میر مجلس کا بٹھایا جاتا ہے اس طرح تمہیں وسطی امت، بہترین امت بنایا جارہا ہے لِتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ تاکہ تم تمام دنیا کے لوگوں کے لئے ایک معیار قرار پائے، ایک گواہ کی حیثیت تمہاری ہو وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا اور رسول صلی اللی علم کی ذات مبارک تمہارے لئے معیار اور گواہ ٹھہرے یہ تبدیلی ایمان ضائع کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایمان بڑھانے کے لئے ہے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا وہ قبلہ جس پر اب تو قائم ہوا ہے اس لئے ہے لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ تا کہ ہم جانچ لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے ، کون اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ بے شک یہ بہت بڑا امتحان ہے اپنا مذہب چھوڑ کر، اپنی رسوم چھوڑ کر ، اپنے تعلقات چھوڑ کر ، اپنے بچپن سے دلوں میں ڈالے گئے خیالات کو چھوڑ کر نئے دین میں داخل ہونا، نیا قبلہ اختیار کرنا آسان بات نہیں مگر یہ بات انہیں کو ملتی ہے جن کو اللہ ہی دے.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ اور یہ تبدیلی اللہ تعالیٰ نے تمہارے ایمان کو ضائع کرنے کے لئے نہیں کی إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ الله تعالیٰ تو شفقت کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا ہے.
درس القرآن 26 درس القرآن نمبر 99 قَد نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِيَنَكَ قِبْلَةً تَرْضُهَا فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (البقرة:145) پچھلے درس میں یہ ذکر ہوا تھا کہ قبلہ کا بدلنا ایک ظاہری علامت تھی اس بات کی کہ دنیا میں ایک زبر دست روحانی تبدیلی ہو رہی ہے جو رسول کریم صلی کمی کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہے.رسول کریم صلی یی کم کی بعثت سے اب نہ یہودیت قابل عمل رہی، نہ عیسائیت واجب العمل رہی، زر تشت ازم کا دور ختم ہوا، ہندومت اور بدھ مت رخصت ہوئے.ان سب کی اچھی تعلیم اسلام میں شامل ہے اور ان کے بگاڑ سے اسلام کی تعلیم پاک ہے.اب اللہ تعالیٰ کی رضا محمد مصطفی صلی اللی علم کی رضاء میں ہے قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ہم تمہاری یہ خواہش اور یہ مرضی جانتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں فَلَنُوَلِيَنَّكَ قِبلَةٌ تَرضُهَا اب ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جو تمہیں پسند ہے فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اس لئے تم اپنا رخ قابل احترام مسجد کی طرف پھیر و.اور اے مسلمانو!) وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَہ اور تم جہاں کہیں بھی ہو ، اپنا رخ اس کی طرف کرو وَ إِنَّ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ اور وہ لوگ جن کو ماضی میں کتاب دی گئی تھی، جانتے ہیں کہ یہ بات (جو ہم نے بیان کی ہے) کامل صداقت ہے ان کے رب کی طرف سے وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ اور تم اس دھو کہ میں نہ رہنا کہ تمہارے انکار کا کسی کو علم نہیں ہو رہا.اللہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے.
درس القرآن 27 س القرآن نمبر 100 وَلَبِنْ آتَيْتَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنْتَ بِتَابع (البقرة:146) قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعِ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَبِنِ اتَّبَعْتَ أهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَا تَمِنَ الظَّلِمِينَ قبلہ کی تبدیلی جو دراصل مذہب کی تبدیلی کی ظاہری علامت ہے اس کے متعلق ان لوگوں کا رویہ جن کو کتاب دی گئی، شروع اسلام سے سخت مخالفانہ رہا اور آج جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر کے ذریعہ حقیقت کے لحاظ سے کسر صلیب ہو چکا ہے، آج بھی مخالفانہ ہے.خواہ ہزار دلائل دو، وہ مخالفانہ بحث کرتے چلے جائیں گے مثلاً ان کا عقیدہ ہے کہ الوہیت میں تین (3) وجود ہیں، تینوں الگ الگ ہیں، تینوں خدا ہیں مگر پھر بھی تین نہیں بلکہ ایک خدا ہے.اب اس پر کئی دفعہ بات ہوتی ہے ظاہر آیہ نظر آتا ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ آدمی اس بات کو نہیں مان سکے گا.مگر ہوتا یہی ہے کہ ضد پر اڑ جاتے ہیں.و یہاں یہ بات مد نظر رہے کہ اس آیت میں ان اہل کتاب کا جو مخالفانہ انداز رکھتے ہیں أوتُوا الكتب کے الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے یعنی ان کو کتاب دی گئی تھی مگر اس سے اگلی آیت میں جہاں اہل کتاب کے ایک گروہ کی تعریف کی گئی ہے اتنهُمُ الْكِتَب کے الفاظ ہیں یعنی ہم نے ان کو کتاب دی.اس معمولی سی تبدیلی کے ساتھ قرآن مجید نے الگ الگ مضامین بیان فرمائے ہیں.بہر حال فرماتا ہے کہ انکار کرنے والے اپنی مخالفت پر نشان اور دلائل کے باوجود اڑے ہوئے ہیں اور آپ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح حکم آجانے کے بعد ان کے قبلہ کی پیروی نہیں کر سکتے.مگر یہ اعتراض تو قبلہ کی تبدیلی کا آپ پر کرتے ہیں.خود ان کی تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ یہ قبلہ تبدیل کرتے رہے ہیں.موسوی شریعت کے مطابق اصل قبلہ تو جیسا کہ استثناء کی کتاب میں حکم ہے کوہ عیبال پر تھا.پھر حضرت موسی کے لمبے عرصہ بعد یروشلم کو قبلہ قرار دیا گیا.(اگر حضرت موسیٰ کے حکم کو اور پھر اس کی تعمیل کو دیکھا جائے تو یروشلم پر اہل کتاب کا کوئی حق نہیں بنتا) پھر یہود و نصاریٰ کے قبلہ میں بھی اختلاف رہا ہے.پس اگر ان حقائق کے باوجو د بھی (اے مخاطب) تم اہل کتاب کی کھو کھلی خواہشات کی پیروی کرو تو تم سراسر ظلم کرنے والے ہو.
درس القرآن 28 درس القرآن نمبر 101 و الَّذِينَ اتَيْنُهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُبُونَ 199191 الْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرة: 147) قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جس کے مضامین عدل اور انصاف پر مشتمل ہیں اگر قرآن شریف نے پچھلی آیات میں بنی اسرائیل کو ملامت کی ہے کہ صداقت کو پہچانتے ہوئے اس پر ایمان نہیں لاتے تو اب ان لوگوں کا ذکر بھی کر دیا جو اچھی طرح صداقت کی معرفت رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی بتا دیا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک فریق وہ بھی ہے جو حق کو چھپاتے ہیں مگر جان بوجھ کر اور وہ جانتے ہیں.ایسے لوگ بنی اسرائیل میں قدیم زمانہ میں بھی تھے اور اب بھی ہیں.حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کو ہمارے نبی صلی یی کم کی زوجہ محترمہ بننے کا شرف حاصل ہوا، ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور ان کا چا بھی یہودی سردار تھا.وہ بیان کرتی ہیں کہ میرے چا مجھ سے بہت لاڈ کرتے تھے ، ایک دن وہ ہمارے ہاں آئے تو انہوں نے میری طرف توجہ نہ کی.میں کچھ اداس ہو کر الگ ہو گئی تو میں نے ان دونوں کی گفتگو سنی جو کچھ اس طرح تھی: میرا باپ: گئے تھے ؟ چا: ہاں گیا تھا.باپ: ملاقات ہوئی؟ چا: ہاں ہوئی.باپ: وہ بچے نبی ہیں ؟ چا: ہاں وہ سچے نبی ہیں.باپ: ماننا ہے؟ چان نہیں ماننا، کیونکہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.“اللہ تعالیٰ اس آیت میں اہل کتاب کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی یی کم کو
درس القرآن 29 اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا جاتا ہے.یعنی جس طرح ہر انسان اپنی بیوی کی پاکدامنی پر اعتبار کرتے ہوئے اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کو اپنی اولاد سمجھتا ہے اور کبھی اس واہمہ میں گرفتار نہیں ہوتا کہ شاید یہ کسی اور کی اولاد ہو اسی طرح جن لوگوں نے محمد رسول صلی علیکم کی دیانت اور آپ کی راستبازی کو دیکھا ہے اُن کے لئے آپ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل خود آپ کا اپنا وجو د ہے.میر کبیر جلد دوم صفحہ 251،250 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 30 درس القرآن نمبر 102 الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (البقرة: 148) پہلا قبلہ چھوڑ کر بیت اللہ کو قبلہ بنانا ہر شخص کا فرض ہے خواہ وہ عیسائی ہو یا یہودی ہو یا زرتشتی مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا ہندومت ہو یا بدھ ہو اس لئے تبدیل قبلہ کے بعد فرمایا کہ تمہیں، ہر انسان کو ، خدا نے پیدا کیا ہے خدا نے ہی دل و دماغ دیئے ، خدا نے ہی رزق عطا فرمایا اور خدا ہی مالک ہے ، یہ سب معنے ربک کے ہیں.جو پیدا کرنے والا، نشو و نما کرنے والا، رزق دینے والا اور تمہارا مالک ہے.یہ کامل صداقت کہ دوسرے قبلوں کو چھوڑ کر حقیقی قبلہ کی طرف رخ کر وجب اس ہستی کی طرف سے ہے جس میں یہ صفات ہیں تو پھر جو اس کا حکم ہے، جو اس کی طرف سے صداقت آئی ہے اس کو ماننا ضروری ہے.شک تو اس صورت میں ہو کہ یہ صداقت کسی اور کی طرف سے ہو جو نہ پیدا کرنے والا، نہ نشو و نما کرنے والا، نہ رزق دینے والا، نہ ہی مالکانہ حیثیت رکھتا ہے، پھر بے شک اس کے متعلق شک کیا جاسکتا ہے مگر اس خدا کی طرف سے آنے والی صداقت کا جو حقیقتا تمہارا رب ہے شک کرنا سراسر نادانی ہے.یہ معنے اس صورت میں ہیں کہ من ربک کا خطاب ہر انسان کے لئے ہو.اگر خطاب رسول کریم صلی علیم کی طرف ہو تو مراد یہ ہے کہ رسول اکرم صلی علیم کے رب کی طرف سے یہ کامل صداقت ہے اور رسول کریم صلی اللی کمی کی پیدائش اور نشو و نما اور دعویٰ اور نشانات و ترقیات و معجزات محض آپ کا چہرہ اور وجود ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہیں اس لئے جو حکم آپ کی معرفت دیا جارہا ہے وہ کامل حق ہے اس لئے اے مخاطب اس کے بارہ میں شبہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.
درس القرآن 31 درس القرآن نمبر 103 وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ اَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ (البقرة:149) اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ظاہری قبلہ کی تبدیلی کے حکم کے بعد اب اس آیت میں ، اس سلسلہ میں، اللہ تعالیٰ ایک نہایت اہم اور بنیادی بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ محض ظاہری رخ بدلنا کافی نہیں، صرف ایک عمارت کی طرف منہ کر لینا فائدہ مند نہیں جب تک وَلِحْلٌ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کہ ہر انسان، ہر قوم ، ہر ملک کا کوئی مطمح نظر ہو تا ہے، کوئی مقصد ہوتا ہے.جس کو انہوں نے اپنے سامنے رکھا ہوتا ہے.اور اس کے لئے وہ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں، کسی نے تجارت کو ، کسی نے زراعت کو ، کسی نے حکومت کو ، کسی نے عیش و عشرت کو ، کسی نے کوئی اور کسی نے کوئی اپنا ٹارگٹ بنایا ہوتا ہے.تو اب اے مسلمانو! تم نے جب ظاہری طور پر قبلہ کی طرف رخ کر لیا تو تمہارا یہ رخ ظاہری طور پر کر لینا کافی نہیں.لیکن تمہارا ٹارگٹ، تمہارا مطمح نظر، تمہاری تمام کوشش کا ، جد وجہد کا مقصد فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ہونا چاہیے.یعنی تم تمام خیر کے کاموں میں، تمام نیکیوں میں آگے بڑھو، یہاں نیکیوں کے لئے خیرات کا لفظ رکھ کر توجہ دلائی ہے کہ تم ایسے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو.جن سے اللہ کی طرف سے خیر و برکت تمہیں ملے اور لوگوں کو تمہاری وجہ سے فائدہ اور خیر و برکت ملے.اس مضمون کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں:.“ ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے نفس کو ٹٹولتا رہے اور دین کے ساتھ ایک گہری محبت اور شیفتگی پیدا کرنے کی کوشش کرے.اور سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے بس اور یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا ہے.جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے." ا ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 256 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 32 پھر اللہ تعالیٰ اس حکم کو دینے کے بعد فرماتا ہے اَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا حضرت مصلح موعود اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.فرماتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو گے آخر ایک دن اللہ تعالیٰ تم سب کو اکٹھا کر کے اپنے پاس لے آئیگا اور تمہیں اپنی مستیوں اور غفلتوں اور لوگوں کو نیکیوں کی دوڑ میں پیچھے چھوڑنے کا جواب دینا پڑے گا.پس اس دن کا تمہیں خیال رکھنا چاہیے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے.” ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 258 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن در س القرآن نمبر 104 33 وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُم فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةً لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمُ حُجَّةُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوْنِ وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (البقرة:151،150) پچھلی آیات میں یہ مضمون بیان کرنے کے بعد کہ اب قبلہ کا رخ تبدیل کیا جاتا ہے اب نہ یروشلم ، نہ بنارس، نہ کوہ سبلان، نہ کوئی اور قبلہ ہو گا بلکہ اب دائمی قبلہ مسجد الحرام ہے.اس آیت میں یہ مضمون بیان کیا ہے کہ صرف نماز کے وقت مسجد الحرام کی طرف رخ کرنا کافی نہیں بلکہ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجَت آپ کی جو بھی سرگرمی ہو ، جو مہم ہو آپ کی تمام سرگرمیوں اور تو جہات کا مرکزی نقطہ مسجد الحرام ہونی چاہیئے اور جس مقصد کے لئے مسجد الحرام کو قائم کیا گیا ہے آپ کے تمام کاموں کا محور وہ ہونا چاہیئے اور یہ کوئی وقتی حکم نہیں وَ إِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ یہ ایک دائمی صداقت اور کامل صداقت ہے جو آپ کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہے کیونکہ زید و بکر کے رب نے نہیں بلکہ آپ کے رب نے یہ حکم دیا ہے.پھر فرماتا ہے.یہ حکم سب سے پہلے تو آپ کو ہے وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کہ آپ کی عظیم الشان سرگرمیوں کا رخ مسجد الحرام کی طرف ہونا چاہیئے مگر اے مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی ہو ، تمہارا رخ تمہارے کاموں کا مرکزی نقطہ مسجد الحرام ہونا چاہیئے (حضور صلی یکم کی عظیم الشان سر گرمیوں کو عام مسلمانوں کے کاموں سے ممتاز کرنے کے لئے حضور کے لئے خرجت کا لفظ استعمال کیا ہے اور مسلمانوں کے لئے گنتھ کا لفظ استعمال کیا ہے) فرماتا ہے.اے مسلمانو! اگر تمہاری پوری توجہ کا مرکز مسجد الحرام اور اس کے قیام کے مقاصد کو پورا کرنا نہ ہو گا تو لازماً لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُم حُجَّةٌ لوگوں کو تم پر اعتراض کرنے کا موقعہ ملے گا.الا الَّذِينَ ظَلَمُوا سوائے ان ظالموں کے جو جابے جا اعتراض کرتے ہیں ان کی پر واہ نہ کر
درس القرآن 34 فَلَا تَخْشَوهُمُ اور ان سے ڈرو واخشونی صرف مجھ سے ہی ڈرو.اور یہ حکم کہ تمہاری تمام تر توجہ مسجد الحرام کے مقاصد کے پورا کرنے کے لئے ہونا چاہیئے اس لئے ضروری ہے کہ ولاتم نعمتی علیکم اللہ تعالیٰ کی نعمت تم پر کمال کو پہنچے.سابقہ اقوام کی طرح نہ ہو جو راستہ میں ہی رہ گئے وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اور تاکہ ان قوموں کی طرح تم گمراہ نہ ہو جاؤ بلکہ تمہیں ہدایت ملتی رہے.
درس القرآن 35 درس القرآن نمبر 105 اس قبلہ کی تبدیلی اور مسجد الحرام کو اپنی تمام سرگرمیوں کا مرکزی نقطہ بنانے کے مضمون کو مضمون سے جوڑا گیا ہے کہ یہ تمام ہدایات ہمارے رسول صلی علیم کے مقام اور آپ صلی ال نیم کی عظیم ذمہ داریوں کے ساتھ وابستہ ہیں، فرماتا ہے: كَما اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ابْتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرة:152) کہ قبلہ کی تبدیلی اور مسجد الحرام کے مقاصد کو اپنے تمام کاموں کا مرکزی نقطہ قرار دینا اس لئے ضروری ہے کہ ہم نے تم میں وہ عظیم الشان رسول یعنی محمد مصطفی صلی علم کو جو تمہاری روحانی تعلیم و تربیت کے لئے ہماری آیات تم لوگوں کو پڑھ کر سناتا ہے مگر صرف پڑھ کر نہیں سناتا بلکہ اپنی قوت قدسیہ اور دعا اور پاک نمونہ کے ذریعہ تمہیں پاک بھی کرتا ہے اور تمہاری روز افزوں ترقی اور بڑھنے کا ذریعہ بھی ہے اور اس غرض کے لئے جس کتاب کی ضرورت ہے اس کے لئے جو احکامات اور قوانین درکار ہیں ان کی تمہیں تعلیم دیتا ہے اور دیگر مذاہب کی طرح صرف قوانین نافذ کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ان کی فلاسفی اور ان کی حکمت بھی سکھاتا ہے اور اس پر مزید یہ کہ بہت سی تعلیمات جو ماضی کے مذاہب میں رہ گئی تھیں وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ وہ تعلیمات بھی تمہیں دیتا ہے کیونکہ پرانے مذاہب وقتی اور علاقائی تھے اس لئے ان میں پوری تعلیم نہیں تھی.فرماتا ہے فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة:153) اب اتنابڑا احسان ہم نے تم پر کیا ہے تو اب تمہارا فرض میر اذکر اور شکر ہے اگر میر اذکر کرو گے تو میں بھی تمہیں یا درکھوں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو.
درس القرآن 36 درس القرآن نمبر 106 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ ( البقرة:154) اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد کہ اب خدا کی نظر میں مقبول مذہب اسلام ہے اور سب سے بڑے اور اللہ تعالیٰ کے منظور نظر نبی حضرت محمد مصطفی صلی الی ظلم ہیں اور قبلہ کی تبدیلی کے ذریعہ اس مضمون کو خوب واضح کر دیا تو آج کی آیت سے یہ مضمون شروع ہو رہا ہے کہ اب مسلمانوں کو سارے سابقہ مذاہب کے ماننے والوں، سارے سابقہ انبیاء کو مقدم کرنے والوں اور سارے دوسرے قبلوں کی طرف رخ کرنے والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا.ان کی طرف سے اعتراض بھی کئے جائیں گے ، دکھ بھی دیئے جائیں گے.اس لئے اے وہ لو گو جو ایمان لائے ہو، دو چیزوں کے ذریعہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنا ہو گی ایک صبر اور دوسری نماز.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے." کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 69،68) نماز کا تعلق عبادات سے ہے اور نماز کو عبادات میں بلند مقام حاصل ہے.عبادات کے علاوہ دوسری چیز جو انسان کو ترقی کے لئے دی گئی ہے وہ اخلاق ہیں.اخلاق میں صبر کو بلند مقام حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبر کے متعلق فرماتے ہیں:.وو “جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے.اور یہ کہے کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اُس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں." اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 362) الغرض اس آیت کا مضمون یہ ہے کہ تم لوگ جو مسلمان ہوئے ہو، تمہیں ہر قسم کی مشکلات اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا.اگر ان کے مقابلہ کے لئے تم کوئی کوشش کرنا چاہتے ہو تو اس کے دو طریق ہیں اخلاق میں صبر کو اختیار کرو اور عبادات میں سے نماز کے ذریعہ مدد چاہو.
درس القرآن 37 درس القرآن نمبر 107 وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ اَمَوَاتٌ بَلْ أَحْيَا وَلكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرة : 155) اسلام قبول کرنے اور سابقہ مذاہب کو چھوڑنے کے جو نتائج نکلیں گے ان کو ذکر گزشتہ درس سے شروع ہے.قرآن شریف نے اس آیت میں بجائے یہ کہنے کے کہ تمہیں جانی قربانیاں بھی دینی پڑیں گی.اس مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے کہ تم سے جو اللہ کے راستہ میں قتل ہوں گے ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں گو تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں.اس آیت میں براہ راست جانی قربانیوں کا ذکر کرنے کے بجائے بالواسطہ ذکر کیا ہے.اس رنگ میں کہ زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کے مضمون سے ان کا ذکر کیا ہے.یہاں فرماتا ہے کہ شہید ہونے والے کی زندگی کا تمہیں پتہ نہیں کیونکہ شہید خدا کے حضور زندہ ہیں اور روحانی رزق ان کو مل رہا ہے اور دنیا میں بھی وہ ان معنوں میں زندہ ہیں کہ ایک شہید پر اس کے قائمقام پیدا ہو جاتے ہیں اور شہداء کا مشن کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں پر آج لوگ لعنت بھیجتے ہیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام اور کام زندہ ہے.قربانیوں کے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة:156 تا158) اس آیت کا مضمون بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.“اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے کہ کبھی کوئی خوفناک حالت تم پر طاری ہو گی اور کبھی فقر و فاقہ تمہارے شامل حال ہو گا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہو گا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولاد مرے گی.پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ
درس القرآن 38 جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں اور اس کی امانتیں اور اس کے مملوک ہیں.پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے.یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پاگئے." وو اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 362)
درس القرآن 39 درس القرآن نمبر 108 إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَابِدِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ تَطَوَّفَ بِهِمَا وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (البقرة:159) گزشتہ آیات میں یہ مضمون چل رہا تھا کہ سابقہ مذاہب اور سابقہ قبلے چھوڑنے پر اسلام لانے والوں کو بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، بہت سی قربانیاں دینا پڑیں گی، بہت سے دکھ اٹھانے پڑیں گے ، اس لئے مسلمانوں کو صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہیئے اور اس سے مددمانگنی چاہیئے.اس آیت میں ایک عظیم الشان قربانی کی طرف اشارہ ہے جو ایک عمر رسیدہ نبی نے بھی کی، ایک نوجوان عورت نے بھی کی اور ایک بچہ نے بھی کی.اور جس قربانی کے نتیجہ میں مکہ جیسی بستی میں ہمارے نبی صلی ال یکم کی بعثت ہوئی.یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تھی.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اپنے پلوٹھے بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ اور بے آباد وادی میں چھوڑ آئے.ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی دے کر.اور خود واپس وطن چلے گئے.اس عظیم الشان قربانی کے موقعہ پر جب چھوٹی عمر کے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس سے بے حال ہو رہے تھے ، حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے صفا اور مروہ کے درمیان پانی اور کسی آدمی کی تلاش میں چکر لگائے اور اللہ تعالیٰ نے زمزم کے ذریعہ ان کے پانی کا انتظام فرمایا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صفا اور مروہ اللہ کے نشانات میں سے ہیں پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ تو کوئی گناہ نہیں ہو گا کہ وہ صفا و مروہ کا طواف بھی کرے اور جو نفلی طور پر یہ نیکی کرنا چاہے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ قدردان بھی ہے اور خوب جاننے والا بھی ہے.
درس القرآن 40 درس القرآن نمبر 109 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا انْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيْنَهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَبِ أولبِكَ يَلْعَنْهُمُ اللهُ وَيَلْعَنْهُمُ اللَّعِنُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَ أَصْلَحُوا وَ بَيَّنُوا فَأُولَبِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَابُ الرَّحِيمُ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَارُ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَيْكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خُلِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفْ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظُرُونَ (البقرة: 160 تا 163) سابقہ قبلوں کو چھوڑ کر بیت اللہ کو قبلہ بنانا اور سابقہ مذاہب کو چھوڑ کر اسلام کو اپنا مذہب بنانا ایک بہت بڑی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے اور اس مضمون کو گزشتہ آیات میں بیان کر کے بتایا تھا کہ مسلمان ہونے والوں کو صبر اور دعا کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگنی چاہیئے اور اس سلسلہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا اور اس کی یاد دہانی کے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو حج اور عمرہ کی عبادت کا حصہ قرار دیا.آج کی ان چار آیات میں یہ مضمون ہے کہ بے شک اسلام لانے اور قرآن میں واضح طور پر دلائل کے ساتھ بیان شدہ ہدایت کو قبول کرنا اور مخالفتوں اور قربانیوں کو برداشت کرنا مشکل کام ہے مگر فرماتا ہے کہ جو لوگ ان روشن دلائل اور ہدایت کو جو ہم نے لوگوں کے لئے قرآن میں کھول کر بیان کر دیئے ہیں چھپائیں.ان کے لئے ان مخالفتوں اور قربانیوں کو بر داشت کرنے سے بہت زیادہ دکھ کا سامان ہے اور وہ یہ کہ ایسے لوگوں پر لعنت کرتا ہے اور ان پر سب لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں.گو تو بہ اور اصلاح کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، ہاں مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور اس صداقت کو جو اللہ کی طرف سے آئی ہے کھول کر بیان کر دیا تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر میں تو بہ قبول کرتے ہوئے جھکوں گا اور میں تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہوں اور وہ لوگ جو اس کامل صداقت سے انکار کرتے ہیں اور کفر کی حالت میں ہی مر گئے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کے اور تمام انسانوں کی.اور اس لعنت میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے ان پر سے عذاب کو ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی وہ مہلت دیئے جائیں گے.
درس القرآن درس القرآن نمبر 110 41 وَالهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقرة:164) بنی اسرائیل - بنیادی کش مکش کا مضمون جو ایک نئے مذہب اور نئی کتاب کے لئے نہایت ضروری مضمون تھا اب یہاں ختم ہو رہا ہے اس مضمون کی ضرورت یہ تھی کہ جو مذ ہب زمانہ کے لحاظ سے بعد میں آرہا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سابقہ مذاہب کی موجودگی میں نئے مذہب کی ضرورت بتائے قرآن شریف نے یہودیت، عیسائیت اور اس ضمن میں دیگر تمام سابقہ مذاہب کی موجودگی میں اسلام اور قرآن کی ضرورت کا مضمون پیش کیا ہے.اور اس آیت سے اسلامی شریعت کے بنیادی ارکان و عبادات و احکامات کا تذکرہ شروع ہے مگر ان کے بیان سے پہلے ضروری تھا کہ توحید کا ذکر کیا جائے جو اسلام کے تمام ارکان و عبادات و احکامات کی بنیاد ہے.چنانچہ اس آیت سمیت انگلی پانچ آیات میں ہستی باری تعالیٰ اور محبت الہی کا بیان ہے اور پھر دو (2) بنیادی عقیدہ کی خلاف ورزی کے نتائج بیان ہیں.فرماتا ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے اس کی عبادت ہی تم سب کے لئے لازمی ہے.عبادات و احکامات صرف وہی قابل قبول ہیں جو توحید اور محبت الہی کے تابع ہوں.فرماتا ہے نہ صرف یہ کہ تم سب کا معبود ایک ہے بلکہ لَا اِلهَ اِلَّا هُوَ اس کے سوا اور کوئی قابل عبادت نہیں ھو الرحمن اس نے انسان کے کسی عمل اور کوشش کے بغیر یہ تعلیم دی ہے الرَّحِیم اور جو اس تعلیم پر عمل کرتا ہے اس کے لئے نیک نتائج اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے.اگر یہ سوال ہو کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایسا معبود جو ایک ہو ، رحمان بھی ہو، رحیم بھی ہو تو اس کے لئے نظام قدرت سے ایک تفصیلی دلیل دیتا ہے إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَ الارض یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے واخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اور رات اور دن کے اختلاف وَالْفُلْكِ الَّتِى تَجْرِى فِى الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں وَ مَا انْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد
درس القرآن 42 زندہ کیا وَ بَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیے و تَصْرِيفِ الرّيحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا لایت لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرة : 165) یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مدبر بالا رادہ ہونے پر نشانات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے مذکورہ ترجمہ کے بعد فرماتے ہیں:.“ اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہ لا شریک اور مدبر بالا رادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے." جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 125)
درس القرآن 43 درس القرآن نمبر 111 وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحْتِ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَ أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ اِذْ تَبَرا الَّذِينَ اتَّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَ رَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَو اَن لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَا مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا كَذلِكَ يُرِيْهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخْرِجِينَ مِنَ النَّارِ (البقرة: 166 تا168) جیسا کہ گزشتہ درس میں بیان ہوا تھا بنی اسرائیل سے کش مکش کے مضمون کے خاتمہ اور اسلامی شریعت کے بیان کے مطابق عبادات اور احکامات کے تفصیلی ذکر سے پہلے 5 آیات میں ہستی باری تعالیٰ، توحید باری تعالیٰ، محبت الہی اور ان تینوں چیزوں سے غفلت کرنے کے نتیجہ میں اس کے برے نتیجہ کا بیان ہے، فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مقابل شریک بنالیتے ہیں اور ان سے اللہ سے محبت کرنے کی طرح محبت کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی محبت میں ہر محبت سے زیادہ ہیں.کاش وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا سمجھ سکیں جب وہ عذاب دیکھیں گے کہ تمام قوت ہمیشہ سے اللہ ہی کی ہے اور یہ کہ اللہ عذاب میں بہت سخت ہے.توحید باری تعالیٰ اور محبت الہی کے بعد دو آیات میں ان بنیادی باتوں سے غفلت کرنے کے نتائج کا ذکر ہے ، فرماتا ہے.جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور وہ عذاب کو دیکھیں گے جبکہ ان سے نجات کے سب ذرائع اور باہمی محبتیں اور تعلقات سب کٹ جائیں گے اور وہ لوگ جنہوں نے پیروی کی کہیں گے کاش ہمیں ایک اور موقعہ ملتا تو ہم ان سے اسی طرح بیزاری کا اظہار کرتے جس طرح انہوں نے ہم سے بیزاری کا اظہار کیا ہے اس طرح اللہ انہیں ان کے اعمال ان پر حسرتیں بنا کر دکھائے گا اور وہ اس آگ سے نکل نہیں سکیں گے.توحید و ہستی باری تعالیٰ اور محبت الہی کے اس بنیادی مضمون کے بعد اور خدا کے ساتھ شریک بنانے کے نتائج کے بیان کے بعد اب یہاں سے شریعت اسلامی کے تفصیلی احکام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طيبتِ مَا رَزَقْنَكُمُ (البقرة:173) جس کی تشریح انشاء اللہ اگلے درس میں کی جائے گی.
درس القرآن 44 س القرآن نمبر 112 يَايُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَلًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ (البقرة:169) عَدُو مُّبِينٌ سورۃ البقرۃ میں قرآن شریف کے چار اہم مضامین بیان ہیں جن کا ذکر اس دعا میں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے بیت اللہ کی دوبارہ تعمیر کے وقت اللہ کے حضور کی تھی کہ ان میں وہ عظیم الشان رسول مبعوث فرما جو چار عظیم الشان کام سر انجام دینے والا ہو گا.پہلا کام : تلاوت آیات جس سے مراد اسلام کے بنیادی عقائد وارکان ایمان کی تعلیم ہے.دوسرے: تعلیم کتاب یعنی اسلام کے بنیادی احکامات و اعمال جو ایک مسلمان کو کرنے چاہئیں.اور تیسرے: تعلیم حکمت یعنی ان قوانین و احکامات کی حکمت اور ان کے فوائد کا بیان.اور چوتھے: اسلام لانے والوں کے تزکیہ اور پاکیزگی اور ان کے نشو و نما کے ذرائع.آج کی آیات سے تعلیم کتاب او تعلیم حکمت کا مضمون شروع ہوتا ہے.کتاب یعنی قوانین جن پر عمل کرنا انسان کے مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے اور ان قوانین کی حکمت کے بیان میں سب سے پہلے اس چیز کو لیا ہے جو انسانی زندگی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے کھانا پینا.شاید کسی کو خیال جائے کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اسلام کے بنیادی احکامات ہیں ان کا ذکر پہلے چاہیئے تھا.بے شک یہ چیزیں ضروری ہیں مگر ایک انسان ان چیزوں کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر زندگی ہی نہ ہو تو ان میں سے کوئی کام نہیں ہو سکتا.نیز یہ عبادات بھی مال حرام کھاتے ہوئے اور ناپاک اور نامناسب غذا استعمال کرتے ہوئے نہ صحیح رنگ میں کی جاسکتی ہیں، نہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہو سکتی ہیں اس لئے قوانین و احکامات کی تفصیل کی ابتداء حلال و طیب کھانے پینے سے شروع کی ہے اور فرماتا ہے.اے سب لو گو کیونکہ یہ پیغام سب قوموں، ملکوں، رنگوں اور نسلوں کے لئے ہے اس میں سے جو زمین میں جائز ہے اور شریعت نے اس کو حلال قرار دیا ہے کھاؤ مگر صرف جائز نہیں وہ تمہارے مزاج اور طبیعت اور صحت کے لحاظ سے طیب اور پاکیزہ بھی ہونا چاہیئے.اگر ایسا نہ کرو گے تو تم شیطان کے پیچھے چلنے والے بن جاؤ گے اور وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.تو دیکھو یہ کتنی بڑی نادانی ہے اور حکمت کے سراسر خلاف ہے کہ انسان اپنے کھلے کھلے دشمن کی بات ماننے لگ جائے.
درس القرآن 45 درس القرآن نمبر 113 إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَ اَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا اَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَ لَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (البقرة: 171,170) گزشتہ درس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں جو رسول پاک صلی یی کم کے عظیم کاموں کا جو ذکر ہے ان میں دوسرے اور تیسرے کام یعنی کتاب شریعت، قوانین و احکامات کا ذکر اور ان کی حکمت کا بیان شروع ہوا تھا اور پہلا حکم یہ تھا كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلْلًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشیطن کہ زمین میں جو کچھ جائز اور پاکیزہ ہے کھاؤ مگر شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو.آج کی آیت میں یہ بیان ہے کہ حلال و پاکیزہ کھانے کا حکم اور شیطان کے پیچھے چلنے سے ممانعت کی حکمت کیا ہے؟ فرماتا ہے: اِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء اور دوسرے یہ کہ وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تعلمون پہلی بات یعنی شیطان تمہیں سوء اور فحشاء کا حکم دیتا ہے کی تشریح یہ ہے کہ شریعت نے جو حکم دیا ہے کہ حلال اور طیب کھاؤ وہ حکم تمہارے لئے ذاتی طور پر بھی مفید ہے اور تمہارے دوسروں سے تعلقات کے لحاظ سے بھی مفید ہے.مگر غور کر کے دیکھ لو شیطانی تحریکات تمہاری ذات کے لئے بھی مضر ہیں اور تمہارے دوسروں سے اچھے تعلقات کے لئے بھی نقصان دہ ہیں.حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.“ شیطان کے پیچھے چلنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر انسان کو مختلف قسم کی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے جیسے بد ظنی ہے یا جھوٹ ہے یا کینہ ہے یا جہالت ہے یا سستی اور غفلت ہے یا بُزدلی ہے یا تکبر ہے یا بے غیرتی ہے یا نا شکری ہے یہ وہ بُرائیاں ہیں جن سے صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور جن کی طرف سوء کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے.لیکن جب انسان اپنی اصلاح نہیں کرتا تو دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فحشاء یعنی ایسی بدیاں کرواتا ہے
درس القرآن 46 جن کا دوسرے لوگوں پر بھی اثر پڑتا ہے جیسے خیانت اور تہمت اور ظلم اور دھوکا اور قتل اور چوری اور مار پیٹ اور گالی اور ناواجب طرفداری اور رشوت و غیره " ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 333،332 مطبوعہ ربوہ) دوسری وجہ شیطان کی پیروی نہ کرنے کی بتائی وَاَنْ تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.“ پھر وہ (شیطان.ناقل ) بدیوں میں اور زیادہ بڑھاتا ہے اور آخر انسان کو خدا کے مقابلہ میں کھڑا کر دیتا ہے.یا انسان کے اندر ایسی بے حیائی پیدا کر دیتا ہے کہ اُسے دوسروں کے سامنے بھی برائیوں کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہو تا.اور وہ بر ملا خدائی احکام کے خلاف لب کشائی شروع کر دیتا ہے.” نسیر کبیر جلد دوم صفحہ 333 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 47 درس القرآن نمبر 114 وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا انْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَ لَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (البقرة:171) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 169 سے مضمون کا رنگ بدل گیا ہے.آیت 169 تک آیات کی تلاوت کے پہلو پر زور تھا اب اس کے بعد قوانین و احکامات اور ان کی حکمت بیان کرنے پر زور ہے اور اس سلسلہ میں فرمایا تھا کہ حلال اور طیب کھانے کھاؤ.اور اب چند آیات میں اس حکم کی اہمیت اور ضرورت اور اس کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی گئی ہے.آج کی آیت میں اس حکم کی نافرمانی کی بہت اہم وجہ بیان کی گئی ہے فرماتا ہے کہ لوگوں کو جب حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوانین اور احکامات کے بارہ میں جو تعلیم اتاری ہے اس کی پیروی کرو تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ہم تو اس طریق کی پیروی کریں گے جو ہمارے باپ دادا کی طرف سے چلتا چلا آرہا ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو سچے مذہب کا سب سے بڑا دشمن شاید یہی خیال ہے.انگلستان کے قیام کے دوران میں اسلام کی تعلیم کی کوئی اچھی بات بھی مقامی لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی تو بالعموم جواب ملتا But we English are not like that بہت ہی ہمت والے وہ شخص ہوتے ہیں جو جو اپنے ماحول کے اثرات، اپنے ماں باپ سے سنی ہوئی باتیں اپنے کنبہ اور قوم کے خیالات و عقائد پر ناقدانہ نظر ڈال کر سچے مذہب کی پیش کر وہ صداقتوں کو اختیار کرنے والے ہوں.سؤر ، شراب، عریانی خلاف عقل عقائد کے بارہ میں جتنا بھی لوگوں کو سمجھایا جائے وہ ورثہ میں ملے ہوئے طریق چھوڑنے کو کم ہی تیار ہوتے ہیں.قرآن شریف فرماتا ہے اَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ کیا ایسی صورت میں بھی وہ اپنے آباء واجداد کی پیروی کریں گے.جبکہ ان کے باپ دادا خلاف عقل خیالات اور باتیں کر رہے ہوں اور سیدھے راستہ پر نہ چل رہے ہوں.یہ کون سی دانائی کی بات ہے ؟؟؟
درس القرآن 48 درس القرآن نمبر 115 وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاء وَنِدَاءً صُهُ بُكُمْ (البقرة:172) دوو بوو عَلَى فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ جیسا کہ گزشتہ درسوں میں بتایا گیا ہے آیت یااَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلْلًا طيبا (البقرة: 169) سے سورۃ البقرۃ کے پہلے مضمون تلاوت آیات کے بعد دوسرا مضمون کتاب یعنی شریعت کے احکامات اور قوانین اور تیسر ا مضمون احکامات قوانین کی حکمتوں کا بیان شروع ہے.پہلا قانون اور حکم یہ تھا کہ حلال اور طیب ہی کھاؤ.اس کے بعد کی آیات میں اس حکم کی حکمت اور اس حکم کے انکار کرنے والوں کی نادانی کا بیان ہے.آج کی آیت میں یہ مضمون ہے کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دین اور دنیا کے لحاظ سے مفید تعلیم، پاکیزہ اور بابرکت تعلیم کہ جائز کھاؤ اور طبیب کھاؤ کالوگ اپنی نادانی سے انکار کر رہے ہیں.یہ کتنی نادانی کی بات ہے ان کی مثال تو یہ ہے کہ جس طرح چوپایوں کو بلانے والا ان کو بلا تا ہے.مگر وہ سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتے.یہ لوگ بہرے ہیں، گونگے ہیں ، اندھے ہیں اور عقل سے کام نہیں لیتے.حضرت مصلح موعود اس آیت کا پہلی آیت سے تعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.“ جب انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا اس کی اتباع کرو تو وہ اُسے سن کر اعراض اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اسی طریق کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا.گویا محمد رسول اللہ صلی للی کم کا انہیں دعوت حق دینا ایسا ہی ہے جیسے جانوروں کو اپنی طرف بلانا.یہ لوگ بھی آپ کی آواز سُنتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ اس آواز پر لبیک کہنا کس قدر ضروری ہے اور وہ اپنے باپ دادا کے طریق پر چلتے چلے جاتے ہیں." تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 336 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 49 درس القرآن نمبر 116 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ الله (البقرة:173) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کی ان آیات میں حضور صلی ال نیم کے ابراہیمی پیشگوئی کے مطابق چار عظیم الشان کاموں میں سے دوسرے اور تیسرے کاموں کا ذکر ہے شروع ہے اور اس ضمن میں پہلا حکم حلال اور طیب کھانے کا ارشاد ہے جس کا ذکر یا يُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَا طَيِّبًا ( البقرة : 169 سے شروع ہوتا ہے اس کے بعد تین آیات میں اس عظیم الشان حکم کی اہمیت بتائی گئی ہے اور اس حکم کا جو انکار کرتے ہیں ان کی نادانی کا ذکر ہے.آج کی آیت میں مومنوں کو خاص طور پر مخاطب کر کے اس حکم کا ذکر ہے اور کھانے 66 پینے کا عبادت کے ساتھ جوڑ قائم کیا ہے ، فرمایا ہے:.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے بطور رزق تمہیں عطا کی ہیں، کھاؤ.مومنوں کے متعلق حلال کھاؤ” کے عمومی حکم کے بعد ناجائز کھانے کا تو تصور بھی نہیں ہو سکتا.البتہ طیب کے بارہ میں یعنی طبیعت، مزاج، صحت، معاشرہ کے رواج کو مد نظر رکھنا اتنا آسان نہیں جتنا حرام و حلال کا فرق ہے اس لئے مومنوں کے لئے اس بات کو دہراتے ہوئے خصوصاً طیبات کا ذکر ہے.مگر اس آیت میں صرف کھانے کا حکم نہیں بلکہ کھانے کا حکم خد اتعالیٰ کے احسانات کے شکر اور عبادت سے باندھا گیا ہے، فرماتا ہے کہ یہ طیبات تم نے خود پیدا نہیں کیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اس لئے تم پر شکر واجب ہے کیونکہ تم اگر ہر قسم کے شرک سے پاک ہوتے ہوئے صرف اللہ کی عبادت کرتے ہو تو شکر عبادت کا لازمی حصہ ہے.خدا تعالیٰ کی پاکیزہ نعمتوں پر شکر کئے بغیر عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں:.“ یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم صرف طیبات ہی استعمال کرو گے تو اس کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا شکر بجالا سکو گے یعنی تمہیں ایسے نیک اعمال کی توفیق ملے گی جو تمہاری روح کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے." وو (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 338 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 50 درس القرآن نمبر 117 إنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطَرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة:174) شریعت کے احکامات اور قوانین کا مضمون جاری ہے اور حلال اور طیب کھانوں کی تاکید اور اس کلمہ کی حکمتیں بیان کی گئیں ہیں.آج کی آیت میں اس حکم کا ایک پہلو بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ پھر کون سے کھانے قطعی حرام ہیں اور کیوں؟ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ کہ الله تعالیٰ نے مردار حرام کیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ حرام کیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو.یہ چار چیزیں قطعی حرام ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے چار قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں عطا فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسم دیا ہے ، بدن دیا ہے اور اس لئے دیا ہے کہ وہ اپنے جسم اور جسمانی طاقتوں اور صلاحیتوں سے اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کرے اور مردار چونکہ جسم انسانی کی صحت و صلاحیت کے لئے نقصان دہ ہے اس لئے اس کو منع فرمایا ہے.دوسری اہم چیز جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہے، دماغ ہے اور خون چونکہ انسانی دماغ میں جوش پیدا کر تا ہے اس لئے اس کو حرام قرار دیا ہے.تیسری قوت جو انسان کو دی گئی ہے وہ اخلاقی قوت ہے ، اخلاقی پاکیزگی ہے اور جیسا کہ اب سائنسدان بھی اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ غذاؤں کا اثر انسان کے اخلاق پر بہت گہر اہوتا ہے اس لئے خنزیر کے گوشت کو کھانے والی اقوام میں بعض قسم کی اخلاقی کمزوریاں نہ کھانے والی اقوام میں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں.چوتھی چیز تقویٰ اور روحانیت ہے جس کی لطیف صلاحیت انسان کو دی گئی ہے اور شرک اور ایسے افعال سے منع کیا گیا ہے جو شرک کی طرف لے جائیں.اس آیت میں اس چیز کے کھانے سے منع کیا گیا ہے جو اللہ کے سوا کسی ہستی سے نامزد کی گئی ہو.ہاں مگر انتہائی اضطرار
درس القرآن 51 کے وقت جب انسانی زندگی خطرہ میں ہو اس کو بچانے کے لئے ان چیزوں کے استعمال کی اجازت بغیر خواہش کے اور حقیقی ضرورت سے زیادہ استعمال کے ، جائز ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اس لئے اس مجبوری کے استعمال کے مضر اثرات سے اللہ تعالیٰ کی صفت غفور اور رحیم محفوظ رکھنے والی ہے.(اس مضمون کی تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر کبیر جلد دوم از حضرت مصلح موعودؓ)
درس القرآن 52 درس القرآن نمبر 118 اِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتَبِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَبِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمْ أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّالَةَ بِالهُدى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الكتب بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَب لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (البقرة:175تا177) تعلیم کتاب و حکمت یعنی احکام و قوانین شریعت کی تعلیم اور ان قوانین و احکامات شریعت کی حکمتیں بتانا جو سورۃ البقرۃ کے چار اہم مضامین میں سے دوسرا اور تیسرا مضمون ہے کی ابتداء آیت يَايُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَلًا طَیبا(البقرة:169) سے شروع ہو چکی ہے.اس مضمون کا ایک بہت اہم پہلو یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے پہلے اور خود بعض مسلمانوں نے بعد میں حلت و حرمت کے احکامات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے.بعض لوگوں نے حلال چیزوں کو حرام قرار دینے کی کوشش کی ہے اور بعض لوگوں نے حرام کو حلال ٹھہر انے پر پورا زور لگایا ہے اس لئے اس مضمون کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ یہ وضاحت ہو جائے کہ بنی اسرائیل کی الہامی کتاب میں جو قرآن شریف سے حلت و حرمت کے مسائل میں اختلاف ہے اس کی وجہ ان کا اصل تعلیم کو چھپانا ہے اور آئندہ کے مسلمانوں کو بھی وار نگ دے دی جائے کہ وہ شریعت کے احکامات کو چھپانے کی کوشش نہ کریں جیسے بعض مسلمان شراب کی حرمت کے حکم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بہانے بناتے ہیں کہ شراب کے بارہ میں لفظ حرام قرآن میں نہیں ہے.یقینا وہ لوگ جو اسے چھپاتے ہیں جو کتاب میں سے اللہ نے نازل کیا ہے اور اس کے بدلے معمولی قیمت لے لیتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو آگ کے سوا اپنے پیٹوں میں کچھ نہیں جھونکتے اور اللہ ان سے قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے.اس تسلسل میں فرماتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب.پس آگ پر یہ کیا ہی صبر کرنے والے ہوں گے.یہ اس لئے ہو گا کہ اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا ہے اور یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کتاب کے بارہ میں اختلاف کیا ہے وہ بہت دور کی مخالفت میں مبتلا ہیں.
درس القرآن 53 درس القرآن نمبر 119 لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَب وَالنَّبِيَّنَ وَأتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكَوةَ وَالْمُؤْفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عُهَدُوا وَالصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرة:178) اگرچہ قرآن مجید کی ہر آیت اہم ہے مگر یہ آیت بعض لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اس کا تعلق گزشتہ مضمون سے بھی ہے اور اب جو مضمون شروع ہو رہا ہے اس سے بھی گہرا تعلق ہے.ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی کے مضمون کے ذریعہ یہ بات واضح کی گئی تھی اب اسلام کا خدا ہی زندہ اور حقیقی خدا ہے اور رسول اکرم صلی الی یہ ہی اب حقیقی رسول اور نبی ہیں اور قرآن مجید ہی حقیقتاً محفوظ الہامی کتاب ہے جس کی رہنمائی کے بعد سابقہ الہامی کتب کی الگ الگ پیروی کی ضرورت نہیں اور اب اسلامی شریعت ہی حقیقی شریعت ہے جو واجب العمل ہے.اب اس آیت میں اسلام کی تمام اعتقادی اور شرعی اور اخلاقی تعلیم کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.کیونکہ یہاں سے اسلامی شریعت کے احکامات کی تفاصیل کا بیان شروع ہو رہا ہے.قصاص، وصیت ، روزہ، حج، عائلی تعلقات وغیرہ کے بارہ میں احکام کا بیان شروع ہو رہا ہے اس لئے بڑے لطیف انداز میں ان تمام مضامین کو اجمالاً بیان کیا گیا ہے ، فرماتا ہے:.اعلیٰ درجہ کی نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر و بلکہ اعلیٰ درجہ کی نیکی تو اس کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر.اور اللہ کی محبت رکھتے ہوئے پسندیدہ مال رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے آزاد کرنے کے لئے دے اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے.یہ لوگ ہیں جو اپنے عہد کو جب بھی وہ عہد کریں پورا کرتے ہیں اور تکلیفوں اور دکھوں کے دوران صبر کرنے والے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان اور عمل سے صدق دکھایا اور یہی لوگ ہی متقی ہیں.
درس القرآن 54 درس القرآن نمبر 120 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُ بِالْحُرِ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ والأنثى بِالْأُنثى فَمَنْ عُفِى لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٍ فَاتِبَاعُ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَدَاءِ إِلَيْهِ بِإِحْسَانِ ذلِكَ تَخْفِيفَ مِنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابُ الِيمُ (البقرة:179) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں ہمارے نبی صلی ایم کے عظیم کاموں میں سے دوسرے اور تیسرے کام کا بیان ہے یعنی تعلیم کتاب اور حکمت.قوانین اور احکام کا بیان اور ان کی حکمتوں کا بیان اور اس کی ابتدا آيت كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَللًا طيبا (البقرة: 169) سے ہوئی ہے کیونکہ تمام احکام و قوانین پر عمل زندگی کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے اور زندہ رہنے کے لئے پہلی اور بنیادی چیز کھانا پینا ہے اس کے بعد زندہ رہنے کے لئے جان کے تحفظ کا انتظام ضروری ہے اور جان کا تحفظ نہیں ہو سکتا اگر قصاص کا نظام نہ ہو اگر قصاص کا نظام نہ ہو تو معاشرہ میں انسانی زندگی کی حفاظت کا تسلی بخش انتظام نہیں ہو سکے گا.اگر قاتل کو اپنے قتل کئے جانے کا ڈر نہ ہو تو وہ بے تکلف دوسروں پر حملہ کرتارہے گا.مگر ساتھ ہی اس آیت میں قصاص کے نظام کو کچھ حدود کے ساتھ باندھا گیا ہے.پہلی بات تو لفظ قصاص میں ہی پائی جاتی ہے کہ کھوج اور تفتیش کے بعد قصاص نافذ ہونا چاہیئے.دوسری بات یہ ہے کہ انسان قصاص کے معاملہ میں برابر ہیں.کسی قبیلہ یا قوم یا رنگ والے کا یہ کہنا کہ ہمارا غلام تمہارے آزاد سے بڑھ کر ہے یا ہماری عورت تمہارے مرد سے بڑھ کر ہے اس لئے اس سے قصاص نہیں لیا جاسکتا، بالکل غلط ہے.تیسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ انسانی اخوت کے نتیجہ میں اگر کسی مقتول کے وارث قاتل کو معاف کر دیتے ہیں اور دیت پر راضی ہو جاتے ہیں تو قتل کرنے والوں کو معروف طریق کی پیروی کرتے ہوئے اور نیک طور سے اس کی ادائیگی ہونا چاہیے.یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور رحمت ہے.پس جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے تو اس کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے.
درس القرآن 55 درس القرآن نمبر 121 وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوةٌ يَأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:180) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے جس طرح انسانی زندگی کی حفاظت کے لئے کھانے پینے کی ضرورت ہے اس طرح انسانی جان کی حفاظت کے لئے قصاص کے نظام کی ضرورت ہے اس لئے عبادات اور احکامات شریعت کی تفاصیل کے بیان سے پہلے ان چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانی زندگی کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں.اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.“فرماتا ہے اے عظمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے.اسے کبھی نہ چھوڑنا.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائیگا.تو مقتول تو زندہ نہیں ہو سکتا پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی ؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قاتل کو قتل نہ کیا جائے تو بالکل ممکن ہے کہ کل وہ کسی دوسرے کو قتل کر دے اور پرسوں کسی اور کو مار ڈالے اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے.پھر اس رنگ میں بھی قصاص حیات کا موجب ہے کہ جب قاتل کو سزا مل جاتی ہے تو رشتہ داروں کے دلوں میں سے بغض اور کینہ نکل جاتا ہے اور مقتول کی عزت قائم ہو جاتی ہے.پس قصاص مقتول کی عزت قائم کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے...اس آیت میں موجودہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے.اس میں بتایا گیا ہے.کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ قصاص کو اڑانے کی تلقین کی جائیگی.اس وقت تم مضبوطی سے اس تعلیم پر قائم رہنا جیسے آج کل بعض یوروپین ممالک میں اس قسم کی تحریکات وقتا فوقتا اٹھتی رہتی ہیں کہ موت کی سزا منسوخ ہونی چاہیے.” ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 365،364 مطبوعہ ربوہ) پھر فرماتے ہیں:.“ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ کے ایک اور معنے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ان الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی تمہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم اور تقویٰ حاصل کر لو.گویا بتایا کہ بے فائدہ جان گنوانا اس لئے قابل احتراز ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے اس میں رہنے سے آخرت کا توشہ انسان جمع کر لیتا ہے پس اس کی حفاظت بھی ضروری ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر سکو.غرض ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وجہ بتادی کہ مومن باوجود آخرت پر ایمان رکھنے کے زندگی کی کیوں قدر کرتا ہے.”( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 365 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 56 درس القرآن نمبر 122 كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِلُونَهُ إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصِ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ ود و دو عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة:181تا183) عبادات اور شرعی قوانین و احکامات کے بارہ میں تفصیلی احکامات کے بیان سے پہلے انسانی جان کی حفاظت کے لئے یہاں تیسری ہدایت دی گئی ہے.پہلی ہدایت حلال اور طیب کھانے پینے کے بارہ میں تھی.دوسری ہدایت قصاص کے نظام کے بارہ میں تھی جو انسانی جان کے تحفظ کے لئے ضروری ہے.تیسری ہدایت آج کی آیات میں اس مالی نظام سے ہے جو فوت ہونے والوں کے مال، مکان، جائیداد سے زندہ رہنے والے مستفیض ہو رہے ہوتے ہیں.اس بارہ میں ہدایت ہے کہ مرنے والا موت سے پیشتر اپنی اولاد کو یہ تاکیدی ہدایت دے جائے کہ والدین اور دوسرے رشتہ دار اس کے مال سے خیر حاصل کر رہے تھے وہ معروف کے مطابق فائدہ اٹھاتے رہیں.یہ متقی لوگوں پر ایک ذمہ داری ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جس وقت تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاوے تو اگر اُس نے کچھ مال چھوڑا ہے تو چاہئے کہ ماں باپ کے لئے اس مال میں سے کچھ وصیت کرے ایسا ہی خویشوں کے لئے بھی معروف طور پر جو شرع اور عقل کے رُو سے پسندیدہ ہے اور مستحسن سمجھا جاتا ہے وصیت کرنی چاہئے یہ خدا نے پر ہیز گاروں کے ذمہ ایک حق ٹھہر ادیا ہے جس کو بہر حال ادا کرنا چاہئے یعنی خدا نے سب حقوق پر وصیت کو مقدم رکھا ہے اور سب سے پہلے مرنے والے کے لئے یہی حکم دیا ہے کہ وہ وصیت لکھے.اور پھر فرمایا کہ جو شخص سننے کے بعد وصیت کو بدل ڈالے تو یہ گناہ اُن لوگوں پر ہے جو جرم تبدیل وصیت کے عمد أمر تکب ہوں.
درس القرآن 57 تحقیق اللہ سنتا اور جانتا ہے یعنی ایسے مشورے اُس پر مخفی نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں کہ اُس کا علم ان باتوں کے جاننے سے قاصر ہے اور پھر فرمایا کہ جس شخص کو یہ خوف دامنگیر ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ کچھی اختیار کی ہے یعنی بغیر سوچنے سمجھنے کے کچھ غلطی کر بیٹھا ہے یا کسی گناہ کا مر تکب ہوا ہے یعنی عمد اکوئی ظلم کیا ہے اور اُس نے اس بات پر اطلاع پاکر جن کے لئے وصیت کی گئی ہے اس میں کچھ مناسب اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں تحقیق اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.” چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 211،210)
درس القرآن 58 درس القرآن نمبر 123 تَتَّقُونَ ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ (البقرة:184) جیسا کہ گزشتہ درسوں میں وضاحت کی گئی ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں ابراہیمی دعا کے مطابق تعلیم کتاب اور حکمت کا مضمون جاری ہے پہلے تین ذرائع کا ذکر ہے جو انسانی جان کی حفاظت کرتے ہیں اب رمضان کے روزوں کا ذکر ہے.یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ رمضان کے روزوں سے پہلے نماز اور زکوۃ کا ذکر کیوں نہیں؟ یہاں ان دونوں کا ذکر نہ کرنا بھی قرآن مجید کی لطیف حکمت بتاتا ہے.نماز اور زکوۃ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ رمضان اور حج ان کے مقابلہ میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور لئے سورۃ البقرۃ کے شروع میں ہی پہلے ایمان کا ذکر ہے جو دین میں بنیادی مقام رکھتا ہے اور پھر اس کی دو شاخوں یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ (البقرة:4) کہ متقی جو قرآن کو مانتے ہیں ان کی بنیادی صفات تین ہیں ایمان، اقامت صلوۃ اور جو اللہ نے دیا ہے اس کو مخلوق کی بہبودی کے لئے خرچ کرنا.پس نماز جو اللہ کے حقوق کی ادا ئیگی میں سر فہرست ہے اور اللہ کا دیا ہو ا خرچ کرنا جو بندوں کی بھلائی کے لئے سر فہرست ہے سے تو وہ قرآن کے ماننے والے کی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے رمضان کے روزے اور حج وغیرہ نماز اور بندوں کی بھلائی کے مقابلہ میں دوسرا درجہ رکھتے ہیں.نماز اور بندوں کی بھلائی بہر حال ہر شخص پر فرض ہے جبکہ رمضان کے روزے اور حج صرف طاقت رکھنے والوں پر لازمی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.“ تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے.روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسار ہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم
درس القرآن 59 کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے.” (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102 مطبوعہ ربوہ) پھر فرمایا:.روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوزو گداز پیدا ہوتا ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پید اہوتی ہے.اس میں کوئی شامل نہیں." دو ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 292، 293 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن درس القرآن نمبر 124 60 ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:184) فرماتا ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے یعنی یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں جو تم پر ڈالا جارہا ہے.تمام مذہبی سلسلوں میں جن کی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی تھی روزوں کی عبادت مقرر کی گئی تھی.گویا یہ عبادت مذہبی دنیا کے بنیادی اور دائمی ارکان میں سے ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ یہ عبادت تمہیں دکھ میں ڈالنے کے لئے نہیں خود تمہارے فائدہ کے لئے ہے.تمہاری جسمانی اور روحانی ترقیات کے لئے ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.“روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں." (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102 مطبوعہ ربوہ) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ میں صرف روحانی شفاء اور ترقیات کی طرف اشارہ نہیں بلکہ جسمانی وو بہتری اور شفاء کی طرف بھی اشارہ ہے ، اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں:.آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہوتی ہے.تھکان اور کمزوری وغیرہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے.اور روزہ اس کے لئے ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 375 مطبوعہ ربوہ) بہت مفید ہے." پھر فرماتے ہیں:.“ اسی طرح روزوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنوں کو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کو بھی ترک کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے.انسان گیارہ مہینے حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارہویں مہینہ میں وہ حرام نہیں بلکہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے.یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کیلئے ہم کس طرح حرام چھوڑ سکتے ہیں.مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 380 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 61 درس القرآن نمبر 125 اَيَّامًا مَّعْدُودَت فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ (البقرة: 185) و رووود دوور إن كنتم تعلمون رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ارشاد کے بعد فرمایا یہ بوجھ کوئی ایسا بوجھ نہیں جو انسانی طاقت سے باہر ہو گنتی کے چند دن ہیں سارا سال یا ساری زندگی کے لئے حکم نہیں.ہاں بیمار کے لئے یا مسافر کے لئے بوجھ ہو سکتا ہے اس لئے جو بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھ کر گنتی پوری کر سکتا ہے وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ لیکن ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو دائمی طور پر اس ذمہ واری کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ کے دیں.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ بے شک روزہ رکھنا ایک بوجھ نظر آتا ہے مگر جو شخص پوری بشاشت اور ذوق کے ساتھ نیکی کا کام کرتا ہے تو وہ نیکی اس کے لئے نیک نتائج پیدا کرنے والی ہو گی وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ اور تمہارا روزے رکھنا تمہیں تکلیف دینے کے لئے نہیں بلکہ سراسر تمہارے فائدے کے لئے ہے اِن كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم علم رکھتے ہو.حضرت مصلح موعودؓ اس آیت میں الفاظ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مسکین کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.“ ایک اور معنے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ يُطِيقُونَ میں ڈا کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن کا سفر پر مشقت ہے وہ تو بہر حال فَعِدَّةٌ مِنْ آيَامٍ اُخَرَ کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے.لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں.اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو.وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہو کہ وہ روزہ ترک کر سکیں.یاوہ اپنے آپ کو
درس القرآن 62 مسافر سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو.پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہر وقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کو چاہیے کہ ان میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں.وو ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 389 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 63 درس القرآن نمبر 126 شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدْ لَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة:186) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے علم قرآن کے مطابق احکام شریعت اور ان کے ساتھ ان کی حکمت بیان ہے.آج کی آیت سے پہلی دو آیات میں روزے رکھنے کی فرضیت کا ذکر تھا آج کی آیت میں اس حکم کی حکمت کا بیان ہے.دنیا کے لوگ اپنے یوم پیدائش کی ، اپنی شادی کے دن کی ، اپنے ملک کی کسی فتح وغیرہ کی سالگرہ مناتے ہیں.قرآن نے صرف ایک سالگرہ منانے کی ہدایت کی ہے اور وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ اور سب سے بڑا بابرکت واقعہ یعنی قرآن شریف کے نزول کی ابتداء اور رسول اللہ صلی الی یوم کی بعثت.یہ ہے تاریخ انسانیت میں سب سے اہم، سب سے بابرکت، سب سے زیادہ انقلاب انگیز واقعہ ، مگر اس واقعہ کی سالگرہ پارٹیوں اور شراب کے گلاسوں کے ساتھ نہیں بلکہ ریاضات، مجاہدات، عبادات اور دعاؤں کے ذریعہ.کیونکہ رمضان کے مہینہ میں قرآن نازل ہو ا جس میں یہ تین عظیم الشان مضامین ہیں.هُدًى لِلنّاس یہ ساری انسانیت کے لئے ہدایت ہے جبکہ پہلی کتابیں ایک ملک یا قوم یا قبیلہ یا نسل کے لئے تھیں اور اس میں ایسے مضامین ہدایت کے ہیں جو سابقہ کتب میں نہیں تھے.وَبَيِّنت من الهدی دوسرے اس میں ساری انسانیت کے لئے ہدایت کے دلائل ہیں جو سابقہ کتابوں میں موجود تھی مگر ان کی حکمت اور ان کے حق میں دلائل ان کتب میں موجود نہیں تھے.وَالْفُرْقَانِ اور قرآن مجید میں ان تمام اختلافات کا فیصلہ کن حل ہے جو سابقہ مذاہب میں اور سابقہ نظریات میں ایک دوسرے سے مختلف تھے.
درس القرآن 64 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو نہایت لطافت سے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں:.یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا.ان کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا.ان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے." براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 225) ( اس آیت کا مضمون جاری ہے)
درس القرآن 65 درس القرآن نمبر 127 شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدْ لَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة:186) جیسا کہ کل کے درس میں بیان ہوا تھا سورۃ البقرۃ کے اس حصہ احکام قرآنیہ اور ان کی حکمتیں بیان ہیں، پچھلی آیت میں روزوں کا حکم تھا اس آیت میں روزوں کی حکمت بیان ہے کہ یہ روزے رمضان میں اس سب سے بڑے انعام کے شکرانہ کے طور پر ہیں جو انعام انسانیت پر رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا تھا.بعض قرآن کا ہمارے نبی صلی الی کم پر نزول جس کتاب میں ہدایت بھی ہے، ہدایت کی تفاصیل اور دلائل بھی ہیں اور پرانے بگڑے ہوئے مذاہب کے اختلافات کا فیصلہ بھی ہے فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُه پس جو تم میں سے اس مہینہ کو پائے اسے چاہیے کہ وہ اس میں روزہ رکھے کیونکہ اس مہینہ کا قرآن کے نزول سے گہرا تعلق ہے.لیکن اگر مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ جو رمضان میں بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے کیونکہ اللہ کا مقصد تمہیں دکھ دینا نہیں يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ مقصد روزوں کا اذیت دینا نہیں اور بیماری اور سفر کی صورت میں پابندی بھی اس لئے بتائی گئی ہے کہ تمہیں سہولت ہو وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وہ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ رمضان میں سفر یا بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھو تو دوسرے ایام میں رکھ کر گنتی پوری کر لو یعنی جس حد تک حکم کی تعمیل کر سکتے ہو کرو.اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لئے قرآن جیسی کتاب رسول اللہ صلی علی یکم جیسے رسول پر نازل کی ہے تمہاری ہدایت کے لئے کتنا بڑا سامان کیا ہے اس لئے لِتُكَبّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدكُمْ تمہارا بھی فرض ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدات کے لئے اتنا بڑا احسان کیا ہے تم بھی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار کر و اور اس احسان کی جو تم پر ہوا ہے لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تم خدا تعالیٰ کا شکر اور اس کے احسان کی قدر دانی کرو.
درس القرآن 66 درس القرآن نمبر 128 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة:187) رمضان کے روزوں کی فرضیت اور اس کے مسائل بیان کرتے ہوئے اور روزوں کے فوائد اور حکمتیں بیان کرتے ہوئے آج کی آیت میں ایک بہت اہم مضمون بیان فرمایا ہے.جس کار مضان سے بہت گہرا تعلق ہے اور وہ ہے کیا خدا ہے اور اگر ہے تو کہاں ہے ؟ فرماتا ہے کی جب میرے بندے تم سے میرے بارہ میں سوال کریں کہ خدا کہاں ہے تو فائی قریب میں دور نہیں ہوں میں قریب ہوں اور اس کی ہستی کا ثبوت، اس کے قریب ہونے کا ثبوت وہی ہے جو ہر کسی انسان کے بارہ میں تم ثبوت سمجھتے ہو جس طرح تم کسی انسان کو آواز دیتے ہو اور وہ تمہاری بات کا جواب دیتا ہے یہی ثبوت خدا کی ہستی اور پھر اس کے قریب ہونے کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.“ جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے.پس میں بہت ہی قریب ہوں.میں پکار نے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو.میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تو تمہاری آواز سنکر تم کو جواب دیگا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم بہ باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے.پس جوں جوں تمہارے درمیانی پر دے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی، تو تم ضرور آواز کو سنو گے.” 66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 175 176 مطبوعہ ربوہ) اور اس دوری اور بہرہ پن کا علاج یہ بتایا جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.وہ صرف اس شخص کی پکار کو سنتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ پر ہی سب ذمہ
درس القرآن 67 داری نہیں بلکہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داری ہے.پس فرمایا فَلْيَسْتَجِيبُوا نی میں ہر اس دعا کو سنتا ہوں جس کا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے مجھ پر پورا یقین بھی ہو...پس فرمایا وَلْيُؤْمِنُوا ئی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے اور میرے منشا کے مطابق دُعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں پھر فرماتا ہے لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اس کے نتیجہ میں یقیناوہ کامیاب ہونگے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 406 407 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 68 درس القرآن نمبر 129 أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَا بِكُم هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا القِيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَاَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (البقرة : 188) قرآن شریف کا ایک طریق یہ ہے کہ کسی حکم یا مسئلہ کے بیان پر اگر کوئی اعتراض پیدا ہو تو بغیر اس اعتراض کا واضح ذکر کرنے کے اس کا جواب دے دیتا ہے.رمضان سے پہلے کھانا پینا، قصاص اور وصیت کے مضامین کا ایک پہلو یہ تھا کہ انسانی زندگی اور جان کی حفاظت کے لئے قوانین بنائے جائیں.اس مضمون کے بعد رمضان میں کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات کی پابندیوں کی وجہ سے یہ اعتراض پیدا ہو سکتا تھا کہ ان پابندیوں کی وجہ سے انسانی جان کے تحفظ اور نوع انسان کی بقاء خطرہ میں تو نہیں پڑے گی اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ پابندیاں صرف دن کے وقت ہیں رات کو ازدواجی تعلقات کی بھی اجازت ہے اور کھانے پینے کی بھی اجازت ہے، فرماتا ہے تمہارے لئے روزہ رکھنے کی رات میں اپنی بیویوں سے تعلقات جائز قرار دیئے گئے ہیں.هُنَّ لِبَاسٌ تَكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو اس لئے جس طرح لباس سردی گرمی وغیرہ سے بچاؤ اور آرام کا ذریعہ بنتا ہے تمہیں بھی ایک دوسرے کے لئے بچاؤ اور آرام کا ذریعہ بننا چاہیئے اور جس طرح لباس زینت کا باعث ہے تمہیں بھی ایک دوسرے کے لئے زینت کا باعث ہونا چاہیئے اور جس طرح لباس پر دہ پوشی کرتا ہے تمہیں بھی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم اپنے آپ کی اور اپنوں کی حق تلفی کرتے رہے ہو پس وہ تم پر رحمت کے ساتھ جھکا اور تم سے در گزر کی، اب ان سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتے ہو اور جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اس کی طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے اور تم ان سے ازدواجی تعلقات قائم نہ کرو جب کہ تم مساجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو.یہ اللہ کی حدود ہیں پس ان کے قریب بھی نہ جاؤ اس طرح اللہ اپنی آیات کو لوگوں کے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں.
درس القرآن 69 القرآن نمبر 130 وَلا تَأكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْ نُوا بِهَا إِلَى الْحُكَامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ (البقرة:189) النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت اور روزوں کے مسائل اور ان کی حکمتوں کو اس آیت پر ختم کیا ہے جو ایک نہایت اہم ، نہایت ضروری اور نہایت بابرکت اور مفید بات پر مشتمل ہے.اور وہ یہ کہ رمضان کے روزوں کے ذریعہ تمہیں یہ ٹریننگ دی گئی ہے کہ وہ چیزیں جو تمہارے لئے حلال بلکہ تمہاری زندگی کے لئے بنیادی طور پر ضروری ہیں ان کو بھی چھوڑ دو تو پھر کتنا بڑا گناہ ہو گا اگر تم ایک دوسرے کے مال ناجائز طریق سے کھاؤ.گویا یہ آیت رمضان کے روزوں کے مسائل کا لازمی جزو ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:.یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر مت کھایا کرو اور نہ اپنے مال کو رشوت کے طور پر حکام تک پہنچایا کرو.تا اس طرح پر حکام کی اعانت سے دوسرے کے مالوں کو اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 347) دبالو.” وو 66 حضرت مصلح موعود اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:.مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ مت کھاؤ.انسان دوسرے کا مال کئی طرح کھاتا ہے.اوّل جھوٹ بول کر.دوم نا جائز ذرائع سے چھین کر.سوم سود کے ذریعہ سے.چہارم رشوت لے کر.یہ سب امور باطل میں داخل ہیں.وَتُدُ نُوا بِهَا إِلَى الْحُكَامِ میں بتایا کہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانانا جائز ہے.اسی طرح تم حکام کو بھی روپیہ کا لالچ نہ دو تا کہ اس ذریعہ سے تم دوسرے کا مال کھا سکو.اس آیت میں افسران بالا کو رشوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور اُسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا.دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اپنے مالوں کو حکام کے پاس نہ لے جاؤ تا کہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ کھا جاؤ یعنی ان کے متعلق جھوٹے مقدمات دائر نہ کرو.اور یہ نہ سمجھو کہ اگر حاکم انصاف کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے تمہیں کسی کا حق دلا دے گا تو وہ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 415 مطبوعہ ربوہ) تمہارے لئے جائز ہو جائیگا."
درس القرآن 70 درس القرآن نمبر 131 يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَقِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَ لكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقرة: 190) رمضان کی عبادت اور اس کے احکامات اور اس پر اعتراضات کا جواب دے کر اب حج کی عبادت کا ذکر شروع ہونے والا ہے.اس سے پہلے جیسا کہ قرآن شریف کا طریق ہے.ضمناً پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیتا ہے.اس آیت میں ابتدائی راتوں کے چاندوں کے بارہ میں سوال کا جواب دیا ہے کیونکہ رمضان کا تعلق بھی ان چاندوں سے ہے اور حج کا تعلق بھی ان چاندوں سے ہے.اور بعض سابقہ بگڑے ہوئے مذاہب میں چاند کو دیوتا کا مقام دیا جاتا تھا اس لئے یہ خطرہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان مذاہب سے آنے والے نئے مسلمان چاند کو رمضان اور حج کی عظیم عبادتوں سے تعلق کی وجہ سے کوئی غیر معمولی مقام نہ دے دیں.جس طرح زرتشتی مذہب میں شعری ستارہ کو قریباً الوہیت کا درجہ دے دیا گیا تھا اس لئے رمضان کے ذکر کے بعد اور حج کے ذکر سے پہلے اس آیت میں اس خطرہ کو دور کر دیا گیا ہے، فرماتا ہے لوگ آپ سے نئی راتوں کے چاندوں کے بارہ میں سوال کریں گے تو یاد رکھو کہ ان کی حیثیت گھڑیوں کی ہے نہ وہ معبود ہیں نہ ان کو عبادات رمضان اور حج کی وجہ سے کوئی مقام الوہیت حاصل ہے تم کہو کہ یہ ابتدائی راتوں کے چاند صرف لوگوں کی سرگرمیوں کے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج کے متعد دار کان کے وقت کی تعیین بھی ان کے ذریعہ ہوتی ہے اس لئے ان گھڑیوں کو خدانہ بنالینا.قرآن مجید کے اس بنیادی مضمون کو جو توحید کا مضمون ہے اور جس کو قرآن شریف کئی رنگ میں بار بار بیان کرتا ہے یہاں ایک بڑی زبر دست دلیل کو بڑے سادہ الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے اور وہ دلیل یہ ہے وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا کہ یہ کوئی نیکی نہیں کہ گھروں میں دیواروں پر سے کود کر نہ جایا کرو بلکہ گھروں میں گھروں کے دروازہ میں سے جاؤ.بلکہ نیکی اسی کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے اور
درس القرآن گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو ا کرو.71 اس بظاہر سادہ مگر حقیقت نہایت گہری معرفت کی بات میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہر کام کو سر انجام دینے کے جو صحیح طریق مقرر کئے گئے ہیں تم ان سے کام لو ورنہ تمہیں کامیابی حاصل نہ ہو گی.اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کو پانے کا صحیح ذریعہ تقویٰ ہے نہ کہ چاند کو خد ابنالینا.وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو.
درس القرآن 72 درس القرآن نمبر 132 وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة:191) رمضان کے روزوں کی عبادت کے احکام و ہدایات کے بعد بظاہر نظر حج و عمرہ کی عبادت کا ذکر مقصود تھا مگر اس سے پہلے قتال کا ذکر ہے جو بظاہر بے ربط معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً اس میں بہت گہری ترتیب ہے.اس آیت میں فرماتا ہے اللہ کی راہ میں صرف ان لوگوں سے لڑائی کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور جارحیت کا ارتکاب نہ کرو اللہ تعالیٰ جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اب رمضان کے بعد حج اور عمرہ کی عبادات کے ذکر سے پہلے یہ آیت لائی گئی ہے کہ ہر گزان لوگوں سے لڑائی نہ کرو جنہوں نے لڑنے میں تم سے سبقت کی ہے.حج اور عمرہ کے بیان سے پہلے ایسے دشمن سے جو حملہ میں ابتداء نہیں کرتا، نہ لڑنے کا حکم دیا کیونکہ حج و عمرہ کی عبادت مکہ میں کی جاتی تھی اور مکہ والے باوجود اس کے کہ مکہ کی عبادتگاہوں کے متولی ہونے کے فرائض کے لحاظ سے اس بات کے پابند تھے کہ وہ کسی کو حج و عمرہ سے نہ روکیں، وہ دھاندلی کرتے ہوئے مسلمانوں کو روکتے تھے.اس لئے لازما مسلمانوں کو یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ اب جو ان پر حج اور عمرہ فرض ہو چکا ہے وہ مکہ جانے اور اگر اس کے راستہ میں روک ہو تو لڑائی کے ذریعہ اپنا حق لینے کے مجاز ہیں اس لئے حج اور عمرہ کی فرضیت سے یہ نتیجہ نہ نکال لینا کہ تمہیں اب حملہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ، تمہیں لڑائی کی اجازت صرف انہی سے ہے جو تم سے لڑیں.اس آیت میں اس غلط تصور کی پورے طور پر نفی ہے جو آج کل جہاد کے نام پر بعض لوگوں میں راسخ ہے اور پھر مزید زیادتی یہ ہے کہ جہاد کا یہ تصور ان کے خلاف نہیں جو علی الاعلان اپنے آپ کو غیر مسلم کہتے ہیں بلکہ ان کے خلاف جو علی الاعلان اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں تمام عقائد اسلام کا اقرار کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ مسلمانوں کو پہلے غیر مسلم قرار دیتے ہیں پھر ان پر جارحانہ حملے کرتے ہیں، اللہ رحم کرے.
درس القرآن 73 درس القرآن نمبر 133 وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَاخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ اَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقْتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقْتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاء الْكَفِرِينَ فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ (البقرة:193،192) ހ گزشتہ درس میں ذکر ہو چکا ہے کہ حج کے ذکر سے پہلے جنگ کے احکام بیان کر کے وضاحت کر دی کہ حج اور عمرہ کی فرضیت کی بناء پر تمہیں اے مسلمانو! مکہ میں داخل ہونے کے لئے جارحانہ جنگ کی اجازت نہیں.لڑائی صرف ان سے کر سکتے ہو جو تم سے لڑتے ہیں، تم پر حملہ آور ہیں، آج کی آیت میں یہ بتایا کہ دشمن کی فوج سے مٹھ بھیڑ ہو تو قتل کی اجازت ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.“اور حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جہاں کہیں بھی تمہاری اور ان کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہو جائے وہاں تم ان سے جنگ کرو.یہ نہیں کہ اکاڈ کا ملنے پر حملہ کرتے پھرو." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 424 مطبوعہ ربوہ) پھر فرمایا وَ اخْرِجُوهُهُ مِنْ حَيْثُ اَخْرَجُوكُمْ کہ انہوں نے تمہارے گھروں سے، تمہارے وطن سے ، تمہاری جائیدادوں سے، بغیر تمہارے کسی قصور اور جرم کے نکالا.اس لئے اگر وہ حملہ آور ہو تو تمہیں بھی قانو نا اختیار ہے.بے شک یہ قتل کی اجازت جو تمہیں دی جارہی ہے بڑا بھاری کام ہے مگر جو فتنہ وفساد تمہارے دشمنوں نے کیا تمہارے آدمی بے قصور قتل کئے تمہیں گھروں اور وطن سے نکالا.تمہیں ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کیا یہ فتنہ جو انہوں نے شروع کیا اور مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں.چند آدمیوں کے قتل سے زیادہ خطر ناک ہے اگر تمہارے دشمن یہ اعتراض کریں کہ تمہاری جنگ سے بیت اللہ کی بے حرمتی ہوئی ہے تو یاد رکھو اس کی ابتداء بھی تمہاری طرف سے نہیں ان کی طرف سے ہوئی ہے.وَلَا تُقتِلُوهُم عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ تمہیں تو یہ بھی اجازت نہیں کہ مقدس مسجد کے
درس القرآن 74 قریب بھی لڑو حَتَّی يُقتِلُولُهُ فِیهِ سوائے اس کے کہ اس مقدس مقام میں تم سے لڑیں فان قتَلُوكُم فَاقْتُلُوهُم پس اگر وہ تمہیں قتل کرنے کے لئے لڑتے ہیں تو تمہیں ان کو قتل کرنے کی اجازت ہے كذلِكَ جَزَاءُ الكَفِرِينَ یہ ان پر ظلم نہیں بلکہ ان کو جو صلح کا، محبت اور امن کا پیغام دیا گیا ہے اس کا وہ انکار کر رہے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو یہی سزا دی جاسکتی ہے مگر تمہیں زیادتی کی ، جارحیت کی ہر گز اجازت نہیں فَإِنِ انْتَهَوا اگر وہ باز آجاتے ہیں فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ تو اللہ نہ صرف گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم بھی فرماتا ہے.
درس القرآن 75 درس القرآن نمبر 134 الظَّلِمِينَ وَقتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى ވ (البقرة:194) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ کے اس حصہ میں احکام شریعت اور ان کی حکمتیں بیان ہیں.قتال کی اجازت کے ساتھ اب اس کی حکمت بتائی گئی ہے.دنیا کی لڑائی دولت کے لئے ہوتی ہے ، علاقائی وسعت کے لئے ہوتی ہے، ظلم کے لئے ہوتی ہے یہ سب فتنے ہیں فرماتا ہے قَاتِلُوهُم ان سے لڑو مگر دین تو ہوتا ہی خدا کے لئے ہے جب تک وہ اپنی مرضی کے دین کو منوانے کے لئے جبر کریں ان سے لڑائی کر سکتے ہو اور صرف اس وقت لڑ سکتے ہو جب تک یہ فتنہ قائم ہے جب یہ فتنہ اٹھ جائے وَ يَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ دین کسی جبر اور دباؤ اور ظلم کے بجائے اللہ کے لئے اس کا ماننا یا نہ ماننا ہو تب لڑائی بند ہو جائے.فإن انتهوا پس اگر وہ رک جائیں دین کے لئے جبر و استبداد کا فتنہ نہ ڈالیں فَلَا عُدْوَانَ تو کسی قسم کی زیادتی کی اجازت نہیں الا على الظلمین زیادتی کی سزا تو صرف ان کو دی جاسکتی ہے جو ظلم کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں اگر ہمدردی کی تعلیم ہوتی تو آنحضرت صلی للی کم لڑائیاں کیوں کرتے.وہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت صلی الم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ (13) برس تک خطر ناک دکھ اور تکلیف پر تکلیف اٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی صرف مدافعت کے طور پر.تیرہ (13) برس تک ان کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اٹھاتے رہے.ان کے عزیز دوست اور یاروں کو سخت سخت عذاب دیا جاتا رہا اور جور و ظلم کا کوئی بھی ایسا پہلو نہ رہا جو کہ مخالفوں نے ان کے لئے نہ برتا ہو.یہاں تک کہ کئی مسلمان مرد اور مسلمان عور تیں ان کے ہاتھ سے شہید بھی ہو گئے اور ان کے ہر وقت کے ایسے شدید ظلموں سے تنگ آکر بحکم الہی
درس القرآن 76 شہر بھی چھوڑنا پڑا.جب مدینہ منورہ کو تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھانہ چھوڑا.جب ان کے ظلموں اور شرارتوں کی بات انتہا تک پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو اس مظلومانہ حالت میں مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لئے کہ شریر اپنی شرارت سے باز آجاویں اور ان کی شرارت سے مخلوق خدا کو بچایا جاوے اور ایک حق پرست قوم اور دین حق کے لئے ایک راہ کھل جاوے." تقریرین بمقام قادیان 29 و 30 دسمبر 1904ء بتقریب جلسہ سالانہ " صفحہ 28 بار دوم دسمبر 1922ء مطبوعہ قادیان)
درس القرآن 77 درس القرآن نمبر 135 الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَتُ قِصَاصُ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرة: 195) عرب میں عموماً اور بیت اللہ کے قریب کے علاقہ میں خصوصا سال کے کچھ مہینوں کو بیت اللہ کے قریب کچھ علاقے کو خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان مہینوں میں جنگ کو اور اس علاقہ میں جنگ کو انتہائی بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا.یہ تصور چونکہ جنگ و جدل اور خونریزی سے بچنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ تھا اور مقدس مقامات کے تقدس کو مضبوطی سے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے اسلام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس تقدس کو قائم رکھا اور اب جو دشمن کے مقابلہ کے لئے دفاعی جنگ کی اجازت دی جارہی تھی اس حرمت کو قائم رکھنے کا ارشاد فرمایا لیکن ایک خطرہ بھی تھا کہ قریش مکہ جو مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی ظالمانہ کاروائیوں کی تاک میں رہتے تھے وہ اس حرمت سے فائدہ اٹھا کر دھوکہ دیتے ہوئے ان مقدس مہینوں میں اور اس مقدس علاقہ میں مسلمانوں پر حملہ نہ کر دیں.اس لئے اس آیت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ کفار کے حملہ کی صورت میں جو قابل احترام مہینہ میں ہو یا قابل احترام علاقہ میں ہو دفاعی جنگ کی اجازت ہے.فرمایا الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ یعنی اگر دشمن حرمت والے مہینہ میں جنگی کاروائی کرتا ہے تو حرمت والے مہینہ میں تمہارے لئے دفاعی کا روائی جائز ہے وَالْحُرُمتُ قِصَاصُ اگر قابل حرمت علاقہ میں دشمن تم پر حملہ کرتا ہے تو تمہیں قصاص کی اجازت ہے فَمَنِ اعْتَدی عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُم جو زیادتی کوئی تم پر کرتا ہے اس کی سزا تم زیادتی کرنے والے کو دے سکتے ہو.وَاتَّقُوا الله مگر اللہ سے ڈرتے رہو اس اجازت سے غلط فائدہ نہ اٹھانا اگر خدا کا ڈر رکھتے ہوئے اس کی اجازت پر عمل کرو گے تو یاد رکھو أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال ہو گی، اللہ متقیوں کے ساتھ ہے.
درس القرآن 78 درس القرآن نمبر 136 الْمُحْسِنِينَ وَ أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِاَيِّدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَ اَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ (البقرة:196) قتال کی اجازت اور اس کے بارہ میں ضروری ہدایات اور حکمتوں کا مضمون اس آیت پر ختم ہوتا ہے جس میں قتال کا ایک پہلو بیان ہے اور وہ ہے جنگ کے لئے اخراجات کے مہیا ہونے کا مضمون.ظاہر ہے کہ جنگ کا ملکی اور قومی معاشیات سے گہرا تعلق ہے اور اس کا اثر تمام معاشرے پر پڑتا ہے اگر جنگ کے موقعہ پر کوئی ملک معاشی طور پر اپنی جنگوں کے لئے سامان مہیا نہیں کر سکتا تو اس کی شکست لازمی ہے اور وہ خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے اس لئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.“ اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے.انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فورا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں.حالانکہ اس کے ہر گز یہ معنے نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب دشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ کر و.اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے.چنانچہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جب کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارہ میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے تو ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خوب خرچ کیا کرتے تھے.لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو قُلْنَا هَلْ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحْهَا ( ابو داؤد جلد اول کتاب الجہاد) ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا.اس وقت یہ آیت اتری کہ اللہ
درس القرآن 79 تعالیٰ کے راستہ میں اپنے اموال خرچ کرنے سے دریغ نہ کرو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو....واحسنوا اور اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کرو." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 429 مطبوعہ ربوہ) پھر فرماتے ہیں:.پھر فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا.اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے.تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی درست ہو جائیگی." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 431 مطبوعه ربوہ)
درس القرآن 80 درس القرآن نمبر 137 وَاتِمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أَحْصِرُتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدِّي وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدَى مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكِ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجَ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدِّي فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَقِّ وَسَبْعَةِ إِذَا رَجَعْتُم تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ( البقرة : 197) جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک القاء کے نتیجہ میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں چار بنیادی مضامین ہیں.(1) تلاوت آیات (2) کتاب (3) اور حکمت (4) تزکیہ وو یہ حصہ جس کا آج کل درس جاری ہے کتاب و حکمت ” سے تعلق رکھتا ہے یعنی اسلامی شریعت مسلمانوں کو کیا حکم دیتی ہے اور کیوں دیتی ہے.اس میں نماز، زکوۃ، روزہ کا ذکر پہلے ہو چکا ہے.اب حج اور عمرہ کا ذکر شروع ہو رہا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء نے فرمایا ہے کہ اسلامی عبادات میں جہاں خادمانہ رنگ کی اطاعت پائی جاتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں کی طرف سے اللہ کے لئے عشق و محبت کا اظہار بھی ملتا ہے اور یہ پہلو حج اور عمرہ میں بہت نمایاں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کے لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے.سر منڈایا جاتا ہے، دوڑتے ہیں، محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے، جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے، پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے.اسلام نے پورے طور پر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے." ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 225 مطبوعہ ربوہ) ( اس آیت کا مضمون جاری ہے)
درس القرآن 81 درس القرآن نمبر 138 وَاتِقُوا الحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلهِ اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کر وفان أحْصِرتُم اگر تم ا وووررود روک دیئے جاؤ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي تو جو بھی قربانی میسر آئے کر دو وَلَا تَحْلِقُوا رُ وسَكم حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدِّى مَحِلَّہ اور اپنے سروں کو نہ منڈاؤ یہاں تک کہ قربانی اپنی ذبح کی مقررہ جگہ پر پہنچ جائے فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَّرِيضًا پس اگر تم سے کوئی مریض ہو اؤ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَو نُسُكِ تو کچھ روزوں کی صورت میں ، یا صدقہ دے کر یا قربانی پیش کر کے فدیہ دینا ہو گا.فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَقِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي پس جب تم امن میں آجاؤ تو جو بھی عمرہ کو حج سے ملا کر فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرے تو چاہیے کہ جو بھی اسے قربانی میسر آئے کر دے فَمَن لَّمْ يَجِد اور جس کو توفیق نہ ہو فَصِيَامُ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجَّ تو اسے حج کے دوران تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُم اور سات دن کے جب تم واپس چلے جاؤ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ یہ دس دن مکمل ہوئے ذَلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے قریب رہنے والے نہ ہوں.وَاتَّقُوا اللہ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو وَاعْلَمُوا اور جان لو أَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ کہ اللہ سزا میں بہت سخت ہے.(البقرة: 197) اس آیت اور اس سے اگلی آیات میں تفصیل کے ساتھ اس عبادت کی بنیادی اور ضروری باتیں درج ہیں اس عبادت کا تعلق اس گھر سے ہے جو اللہ کا گھر قرار دیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو وہ امن اور تسکین عطا کرے جو ایک گھر اس میں رہنے والوں کو دیتا ہے اور جہاں جاکر جانور کی قربانی تصویری زبان میں اپنے نفس کی قربانی محبت اور پیار کے ساتھ خدا کے حضور پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے سر کے بال منڈا کر گویا ایک نئی زندگی حاصل کرتا اور بچے کی طرح ایک نئی زندگی شروع کرتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی وضاحت ہے کہ اگر باوجود جذبہ اور خواہش کے وہ اس گھر تک پہنچ نہیں پاتا تو جہاں بھی اسے مجبوراًر کنا پڑے اس کی نیت کا پھل اسے مل جائے گا اور اگر وہ حج کے بعض تفصیلی احکامات کو توفیق نہ ملنے کی وجہ سے ادا نہیں کر سکا تو فدیہ ، روزے یا صدقہ یا قربانی کے ذریعہ اس کی تلافی کر سکتا ہے.
درس القرآن 82 درس القرآن نمبر 139 اَلْحَجُّ اشْهُرُ مَعْلُومَنَّ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَقِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَأُولِي الْأَلْبَابِ (البقرة:198) حج کی عالمگیر اجتماعی عبادت کے حکم اور اس کے بارہ میں مسائل اور ہدایات کا تذکرہ جاری ہے اور چونکہ یہ عبادت اسلام سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جاری تھی اور لوگ اس کے طریق سے واقف تھے اس لئے تفصیلی طریق حج کی ضرورت نہیں تھی.اس لئے قرآن شریف میں طواف بیت اللہ ، سعی صفا و مروہ قربانی، عرفات اور مزدلفہ کا ذکر کر کے حج کے سابقہ طریق کے بنیادی ارکان کی تصدیق کر دی ہے.قرآن شریف کا کمال یہ ہے کہ بنیادی امور کو بیان کرنے کے ساتھ ایسی جزوی اور فروعی تفصیلات کو چھوڑ دیتا ہے جن کی حقیقی ضرورت نہیں ورنہ بعض سابقہ مذاہب مثلاً بدھ ازم کی 5 ہزار کتب کی طرح قرآن شریف کو پڑھنا، سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا ماننے والوں کے لئے مشکل ہو جاتا.پہلا سوال یہ تھا کہ حج کب کیا جائے فرماتا ہے الْحَجُّ اشْهُرُ مَعْلُومَت حج کے مہینے معروف ہیں، مقررہ وقت پر عمل کرنے کے ساتھ حج کو ہر قسم کے گناہوں سے پاک کرنا ضروری ہے.حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.“ یہاں رفت، فسوق اور جدال تین گناہوں کے چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے.رفت مرد عورت کے مخصوص تعلقات کو کہتے ہیں.لیکن اس کے علاوہ بد کلامی کرنا.گالیاں دینا.گندی باتیں کرنا.قصے سنانا.لغو اور بے ہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مار نا کہتے ہیں.یہ تمام امور بھی رفت میں ہی شامل ہیں.اور فسوق وہ گناہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسان اس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جاتا ہے.آخر میں جدال کا ذکر کیا ہے جو تعلقات باہمی کو توڑنے والی چیز ہے.ان تین الفاظ کے ذریعہ در حقیقت اللہ تعالیٰ نے تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی ہے، فرمایا ہے.
درس القرآن 83 (1) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک میلانات سے پاک رکھو.(2) اللہ تعالیٰ سے اپنا مخلصانہ تعلق رکھو وو (3) انسانوں سے تعلقات محبت کو استوار رکھو." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 438 مطبوعہ ربوہ) ( اس آیت کی تفسیر جاری ہے)
درس القرآن 84 درس القرآن نمبر 140 اَلْحَجُّ اشْهُرُ مَعْلُومَنَّ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَقِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَأُولِي الْأَلْبَابِ (البقرة:198) حج کی عالمگیر عبادت کے بارہ میں اس آیت کے کچھ حصہ کا درس کل بیان ہو چکا ہے.بقیہ آج پیش خدمت ہے.جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اس آیت میں حج کے بارہ میں اس کے بنیادی ارکان بیان ہو رہے ہیں.حج چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے شروع تھا اس لئے اس کے بنیادی ارکان سے دنیا ایک حد تک متعارف تھی.قرآن شریف نے اس کے بنیادی ارکان مختصر ابتا کر اس کے اخلاقی اور روحانی برکات پر زور دیا ہے.چنانچہ جیسا کہ کل کے درس میں بھی بیان تھا حج کے سلسلہ میں فرمایا تھا.(1) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک علاقات سے پاک کرو.(2) اللہ تعالیٰ سے اپنا پاک مخلصانہ تعلق رکھو.(3) انسانوں سے تعلقات محبت استوار رکھو.پھر فرماتا ہے وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمَهُ الله کہ یہ نصیحت اس لئے بھی ہے کہ جس کی طرف سے یہ نصیحت ہے وہ تمہاری نیکیوں کو خوب جانتا ہے نہ اس کو کوئی غلط فہمی ہے نہ اس کو کوئی دھو کہ دیا جاسکتا ہے.وَتَزَوَدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوی پھر تاکیدی رنگ میں ارشاد فرماتا ہے کہ سفر کے لئے زاد راہ لے لیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے اس حصہ کا ترجمہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:.جب سفر کرو تو ہر ایک طور پر سفر کا انتظام کر لیا کرو اور کافی زاد راہ لے لیا کرو." اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 337) ایک اور جگہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:." اور اپنے پاس تو شہ رکھو کہ توشہ میں یہ
درس القرآن 85 فائدہ ہے کہ تم کسی دوسرے سے سوال نہیں کرو گے یعنی سوال ایک ذلت ہے اس سے بچنے کے لئے تدبیر کرنی چاہئے." (شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 336) ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:.مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے تیار وو اور محتاط رہنا چاہیے اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے.” ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 394 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 86 درس القرآن نمبر 141 لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفْتٍ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدُ لَكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ثُمَّ أَفِيُضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ (البقرة: 200،199) فرماتا ہے تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ حج کے ایام میں اپنے رب سے کوئی اور فضل بھی مانگ لو پھر جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام جو عام طور پر مزدلفہ کے نام سے معروف ہے اللہ کا ذکر کرو اور جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اس کے مطابق اسے یاد کر واگر چہ اس سے پہلے تمہیں خدا کی طرف جانے کا راستہ معلوم نہیں تھا.حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.بعض لوگ کہتے ہیں کہ فضل سے مراد اس جگہ تجارت ہے اور میرے نزدیک بھی یہ درست ہے مگر فضل سے صرف تجارت مراد لینا ایک وسیع مضمون کو محدود کر دینا ہے.در حقیقت آج اسلام کو جس بہت بڑی مصیبت کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں چاروں طرف کفر غالب ہے اور مسلمان جمود اور بے حسی کا شکار ہیں.ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس جنون سے کام لیں جس جنون سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کام لیا تھا اور اسلام کو تھوڑے عرصہ میں ہی تمام معلومہ دنیا میں غالب کر دیا تھا پس حج کے ذکر کے ساتھ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ فرما کر میرے نزدیک اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اس عظیم الشان اجتماع سے بعض دوسرے فوائد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں مسلمان قعر مذلت سے نکل کر بام عروج پر پہنچ جائیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے مختلف ممالک کے با اثر اور ممتاز افراد کے ساتھ مل کر ایسی سکیمیں سوچو جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے اور اسلام دنیا پر غالب آجائے.غرض اس فضل کو تلاش کرنا جس کے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو اللہ تعالیٰ نے ہمارا فرض قرار دیا ہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 441،440 مطبوعہ ربوہ) ان دو آیات کی تشریح جاری ہے ) وو
درس القرآن 87 درس القرآن نمبر 142 وو لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَّبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفْتٍ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدِيكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة:200،199) ان دو آیات کی تفسیر گزشتہ درس سے جاری ہے اور اس بارہ میں حضرت مصلح موعود کا یہ لطیف نکتہ آپ کے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے کہ ان تبتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ سے مراد صرف عام مالی تجارت ہی نہیں گو وہ بھی منع نہیں بلکہ اس سے مراد اس عظیم الشان فضل کے لئے کوشش اور جد وجہد اور دعا ہے کہ اسلام کی عالمگیر فتح کے لئے اس موقعہ پر کہ جب ساری دنیا سے مسلمان جمع ہیں دعا کی جائے اور تدابیر سوچی جائیں.چونکہ اس فضل کے حصول میں مسلمانوں کی کمزوریاں حائل ہو چکی ہیں اس لئے خصوصیت سے ان آیات میں استغفار کا حکم ہے، چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.روحانی سر سبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا بھی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سے موسوم کرتا ہے." ( نور القرآن نمبر 1 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 357) ایک بات جس کی طرف حکیمانہ رنگ میں ان دو آیات میں توجہ دلائی گئی ہے یہ ہے کہ حج کے ارکان چونکہ ایک خاص علاقے کے مختلف حصوں بیت اللہ ، صفا مروہ، منی، مزدلفہ میں ہوتے ہیں اور یہ حصے سب کے سب اس علاقہ میں ہیں جو حرم کہلاتا ہے اور مقدس بھی کہلاتا ہے اور امن کا علاقہ بھی سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس علاقہ کی حدود سے باہر نکلتے ہی سیلاب کی طرح تمام بند توڑ دو جہاں تک خدا کی عبادت اور بندوں کے حقوق کی حفاظت کا تعلق ہے وہ حرم کے علاقہ میں بھی اسی طرح فرض ہے اور حرم کی حدود سے باہر بھی اسی طرح فرض ہے.خدا کے حقوق کی بجا آوری اور انسانوں کے حقوق کا تحفظ دنیا کے چپے چپے پر ضروری
درس القرآن 88 ہے اس لئے عرفات جو حرم کی حدود سے باہر ہے وہاں جانا اور ذکر الہی کرنا حج کی تکمیل کے لئے ضروری ہے حالانکہ جیسا ذ کر ہو اوہ حرم کی مقررہ حدود میں نہیں ہے اور پھر عرفات سے واپس آکر مشعر الحرام کی پہاڑی پر جو مزدلفہ مقام میں ہے ، ذکر الہی ضروری ہے جو حرم کی حدود کے اندر ہے گویا یہ علاقہ تو ایک تربیتی کیمپ کا مقام ہے ورنہ تمام دنیا میں حرم اور مسجد کا مقام رکھتی ہے اس لئے فرمایا.فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَةٍ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ کہ جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کا ذکر کر و وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَد لكم اور اللہ نے تمہیں قرآن مجید اتار کر اور رسول اللہ صلی علیم کو بھیج کر تمہارے لئے ہدایت کا احسان کیا ہے اس لئے اللہ کو یاد كر ووَإِن كُنتُم مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الصَّالِينَ اور اس سے پہلے تم یقینا گمراہوں میں سے تھے.تھ افِيُضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ اور جہاں سے لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں تم بھی واپس لوٹو.گویا کفار قریش کی طرح اس جھوٹے زعم میں نہ پڑو کہ ہم معزز لوگ حرم کی حدود سے باہر نہیں جائیں گے.وَاسْتَغْفِرُوا اللہ عزت قبائلی نسل میں نہیں ہے اللہ سے استغفار کر وان اللہ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اللہ بہت بخشنے والا، بار بار رحم کرنے والا ہے.
درس القرآن 89 درس القرآن نمبر 143 فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكَرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 201 202) حج کے ارکان کی ادائیگی کے مضمون کے اختتام پر بڑے زور سے دعا کے مضمون کو بیان کیا ہے.اسلام کی عبادات کا گہرا تعلق دعا سے ہے، نماز سراسر دعا ہے.رمضان کی عبادات کے ذکر کے اختتام پر فرمایا تھا.کہ اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دو کہ میں ان کے پاس ہی ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں اور اب یہاں حج کے ارکان کے بیان کے اختتام پر دعا کا خصوصی ذکر ہے فرماتا ہے فَإِذَا قَضَيْتُم مناسككم کہ جب تم مناسک حج ادا کر چکو فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا کہ تم خدا تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.یعنی جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو اپنی ماں سے جد اہوتا ہے روتا اور چلاتا ہوا کہتا ہے کہ میں نے اپنی اناں کے پاس جانا ہے اسی طرح تم بھی بار بار خد اتعالیٰ کا ذکر کرو تا کہ اس کی محبت تمہارے رگ وریشہ میں سرایت کر جائے جس طرح بچوں کے دل میں اپنے ماں باپ کی ملاقات کا اشتیاق ہوتا ہے.اسی طرح تمہارا بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہی روحانی تعلق ہونا ہیے....جولوگ اپنے ماں باپ کی محبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں ماں باپ کے تعلق کو بالکل بیچ سمجھتے ہیں.ان کو چاہیے کہ وہ خد تعالیٰ کا ایسے رنگ میں ذکر کریں کہ ان کے دنیوی تعلقات میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہ دے اور ماں باپ کا ذکر اس کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہو جائے.” ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 444،443 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 90 فرماتا ہے فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ كه بعض لوگ ایسے ہیں جو خدا سے صرف دنیا ہی مانگتے ہیں ان کا مقصد دنیا ہی ہوتا ہے اور ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں مگر فرماتا ہے ایک گروہ وہ بھی ہے جو کہتا ہے رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ حضرت مصلح موعود اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:.یعنی الہی ہمیں دنیا میں بھی عزت بخش اور آخرت میں بھی ہمارے مقام کو بلند کر.اگر ہمیں دنیا ملے تو ہم اسے اپنی ذات کے لئے استعمال نہ کریں بلکہ تیرے دین کی شوکت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کریں اور تیری رضا اور خوشنودی کے لئے اُسے صرف کریں.اگر ایسا ہو تو پھر انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے.اور خدا تعالیٰ کے حضور بھی اس کا مر تبہ بڑھتا ہے.یہ دُعا جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے بظاہر بہت چھوٹی سی دعا ہے لیکن ہر قسم کی انسانی ضرورتوں پر حاوی ہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 445 مطبوعہ ربوہ) فرماتے ہیں:.پس یہ ایک جامع دُعا ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور جسے رسول کریم صلی علی کی بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 446 مطبوعہ ربوہ) اس مضمون کو پورا کرتے ہوئے آخر میں فرمایا أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی نیک کمائی کے سبب سے ثواب کا ایک بہت بڑا حصہ مقدر ہے واللہ سَرِيعُ الْحِسَابِ اور اللہ بہت جلد حساب چکا دیتا ہے.(البقرة: 203)
درس القرآن 91 درس القرآن نمبر 144 وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَتِ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ (البقرة:204) فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اس آیت کی تفصیل میں حضرت مصلح موعودؓ نے پانچ (5) صفحات پر مشتمل حج اور اس کے ارکان کی برکات اور حکمتوں پر مشتمل جو مضمون تحریر فرمایا ہے اس کو یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا.حج کے ارکان کی تفصیلات اور برکات اور حکمتوں کے مضمون پر مشتمل بہت اعلیٰ مضمون ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے.اس آیت میں حج کے ایام میں ذکر اللہ پر بھی زور ہے اور جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے ذکر فرمایا ہے ایام تشریق میں ذکر الہی پر خصوصی زور ہے مگر جیسا کہ قرآن مجید کا طریق ہے ایک سے زیادہ مطالب قرآن شریف سے نکلتے ہیں حج کے بعد ذکر الہی کا سلسلہ بند نہیں ہو جانا بلکہ حج کے بعد ایک نئی زندگی انسان کی شروع ہوتی ہے کون جانتا ہے کہ دو دن کی زندگی ہے یا زیادہ یا کم ہے اس لئے فرماتا ہے.وَاذْكُرُوا اللهَ فِي آيَامٍ مَعْدُودَت اور اللہ کو بہت یاد کرو ان گنتی کے چند دنوں میں.فَمَنْ تَعَجَلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ پھر جو ذکر الہی کرتا ہوا دو دن میں خدا کے حضور جلد آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں وَمَنْ تَاخَرَ فَلَا اثْمَ عَلَيْهِ اور جو پیچھے رہ جائے اس پر کوئی گناہ نہیں لِمَنِ اتَّقی مگر یہ شفقت ان پر ہے جو تقویٰ اختیار کریں وَاتَّقُوا اللہ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو واعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور جان لو کہ تم اس کی طرف اکھٹے کئے جاؤ گے.
درس القرآن 92 درس القرآن نمبر 145 وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ (البقرة: 205) الدُّ الْخِصَامِ حج کے ایام میں خصوصاً اور اپنی زندگی کے گنے چنے ایام میں عموماً گزشتہ آیت میں ذکر الہی پر جو زور دیا گیا ہے اس آیت میں ذکر الہی کے حکم پر عمل کرنے والوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو واہ وا یہ کتنے عقلمند اور سمجھدار ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم پر حاوی ہیں اور انکی عقل کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور پھر وہ اپنی دینداری کے متعلق اتنا یقین لوگوں کو دلاتے ہیں کہ کہتے ہیں خدا کی قسم ہمارے دل میں جو نیکیاں بھری ہوئی ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا ہم سے مشورہ لیا جائے تو ہم یوں کر دیں گے دُوں کر دیں.مگر فرماتا ہے حقیقت کیا ہوتی ہے.حقیقت یہ ہوتی ہے کہ بدترین دشمن جو تمہارے ہو سکتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ جھگڑالو اور خطرناک ہوتا ہے وہ ہو تا تمہارے ساتھ ہے وہ مسلمان کہلا تا ہے اور جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے تو ساری مجلس پر چھا جاتا ہے اور اپنی دینداری اور تقویٰ پر قسمیں کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میر ادل تو قوم کے لئے گھلا جارہا ہے.جب دیکھنے والا اسے دیکھتا ہے اور سننے والا اس کی باتیں سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ قطب الاقطاب بیٹھا ہے مگر فرماتا ہے.دنیا میں تمہارے یہودی بھی دشمن ہیں.عیسائی بھی دشمن ہیں اور قومیں بھی دشمن ہیں مگر یہ ان سے بھی بڑا اور خطرناک دشمن ہوتا ہے بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کا ایک مجسمہ ہے لیکن معاملہ بر عکس ہوتا ہے وہ کوئی دینی نکتے بیان نہیں کرتا بلکہ دنیوی امور کے متعلق ایسی باتیں کرتا ہے جو بظاہر تو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر در حقیقت ان کی تہہ میں منافقت کام کر رہی ہوتی ہے.اور پھر اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا گواہ ہے میرے دل میں تو اخلاص ہی اخلاص ہے اور میں تو محض اپنے ا
درس القرآن رو 93 وستوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں.فرماتا ہے تم ایسے شخص کی چکنی چپڑی باتوں سے کبھی دھوکا نہ کھاؤ.اور جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آئے.فوراً لا حول پڑھ کر اس سے علیحدہ ہو جاؤ اور سمجھ لو کہ تمہارے سامنے ایک شیطان بیٹھا ہے جو قسمیں کھا کھا کر اور اپنی خیر خواہی کا لوگوں کو یقین دلا دلا کر انہیں دھوکا اور فریب دے رہا ہے.” وو ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 453،452 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 94 درس القرآن نمبر 146 وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرة: 206) گزشتہ آیت میں ایسے آدمی کا ذکر تھا جو حقیقی معنوں میں ذکر الہی کرنے کے بجائے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنی عظمت قائم کرنا چاہتے ہیں.اس آیت میں یہ مضمون ہے کہ ایسے لوگ جب اپنے پراپیگینڈا کے ذریعہ طاقت و حکومت حاصل کر لیتے ہیں تو جو ان کا حال ہوتا ہے اس کا نقشہ حضرت مصلح موعودؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں:.“فرمایا ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کر دہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے ، قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اخلاقی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بریکار ہو جاتی ہیں.حرث کے لغوی معنے تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارہ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں ان ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو.اقتصاد بر باد ہو.مالی حالت میں ترقی نہ ہو.اس طرح وہ نسل انسانی کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں.اور ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں ان سے محروم رہ جاتی ہیں.پھر فرماتا ہے کہ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ اللہ تعالیٰ فساد پسند نہیں کرتا.اس لئے ایسے
درس القرآن 95 بادشاہ اور حکمران خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیں اور وہ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے.ان کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور انکی جانوں کی حفاظت کرے.کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلاوجہ مرنے نہ دے.گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ واری اسلام کے نزدیک حکومت پر عاید ہوتی ہے.اور وہ اس امر کی پابند ہے کہ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 454،453 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 96 درس القرآن نمبر 147 وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ حضرت مصلح موعود اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.(البقرة:207) “ فرماتا ہے جب اُسے کہا جائے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو.تم تو دو کوڑی کے بھی آدمی نہیں تھے تمہیں تو جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کی وجہ سے ملا ہے تو اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالِاتم اُسے اپنی جھوٹی عزت کی پیچ گناہوں پر اور زیادہ دلیر کرتی ہے.اس کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ اس کے پہلے گناہوں اور شامت اعمال کی وجہ سے ہتک عزت کا جنون اس کے سر پر سوار ہو جاتا ہے اور اسے ہدایت سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے.اور یہ بھی کہ اپنی عزت کی بچ اُسے گناہوں کے لئے پکڑ لیتی ہے یعنی اس سے اور زیادہ گناہوں کا ار تکاب شروع کرادیتی ہے.فرماتا ہے یہاں ممکن ہے تم لوگوں کو فریب دے لو لیکن آخر جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ اور وہ بہت بُر اٹھکانا ہے.جہنم بے شک اگلے جہان میں ہے لیکن ایک جہنم ایسے انسانوں کے لئے اس جہان میں بھی پیدا کر دیا جاتا ہے جب شریف انسان مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں تو انہیں ایسا جواب مل جاتا ہے کہ یہی دنیا ان کے لئے جہنم بن جاتی ہے افسوس ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ صرف اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی غلطی بتائی جائے اور کہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.تو اپنی ہتک عزت کے خیال سے وہ دیوانہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے ہیں مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں کوئی غلطی یا نقص دیکھیے بازار میں کھڑے ہو کر اسے تنبیہ کرنا شروع کر دے.سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہیے اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور قابلیت بھی دیکھنی چاہیے کہ وہ جس شخص کو سمجھانا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں.تا کہ اس کا الٹا نتیجہ نہ نکلے غرض جہاں غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت اپنے
درس القرآن 97 اندر پیدا کرنی چاہیے اور سمجھانے والے کی بات کو ٹھنڈے دل سے سُننا چاہیے.وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا احتیاط سے کام لے.یہ نہ ہو کہ وہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کر نا شروع کر دے.اس مثال کو حج کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حج کی بڑی غرض قومی تفرقوں کو مٹاکر اتفاق و اتحاد اور محبت و یگانگت کے تعلقات کو بڑھانا ہے.مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں لڑتے جھگڑتے اور فساد پیدا کرتے رہتے ہیں.انہیں متوجہ کیا گیا ہے کہ جب خد اتعالیٰ ساری دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ اتفاق و اتحاد قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کینے اور بغض چھوڑ دیں.در حقیقت صحیح معنوں میں حج کرنے والا صرف وہی شخص کہلا سکتا ہے جو اس قسم کے فتنہ وفساد سے مجتنب رہے.لیکن جو شخص فساد کرتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا ہے وہ اپنے عمل سے اس وحدت اور مرکزیت کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو قائم کرنے کیلئے اسلام نے حج بیت اللہ کا حکم دیا ہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 455،454 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 98 درس القرآن نمبر 148 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة: 208) قرآن شریف کا یہ طریق ہے کہ وہ تقابل کے ذریعہ ایک مضمون کو خوب کھولتا ہے.نماز، زکوۃ، روزہ، حج کے مسائل اور حکمتوں کے بیان کے بعد جو انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے.خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اور اس کی یاد کا مضمون اس آیت سے شروع ہوا تھا فَإِذَا قَضَيْتُمُ منَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ کہ ان عبادات کی ادائیگی کے بعد تمہارا ذ کر الہی کا کام ختم نہیں ہو جا تا بلکہ بڑھ جاتا ہے اور اس سلسلہ میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو دنیوی زندگی میں اپنی بڑائی اور اپنی حکومت کی طلب میں رہتے ہیں اس کے مقابل میں وہ لوگ ہیں جن کا آج کی آیت میں ذکر ہے کہ انسانوں میں وہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں جو خدا کی رضاء میں کھوئے جاتے ہیں اور اللہ کی رضاء حاصل کرنے کے لئے اپنی جان کو ہی بیچ ڈالتے ہیں وہ اپنے آپ کو فروخت کر دیتا ہے اس کا سکھ اس کا سکھ اس کا آرام اس کی کوئی خواہش اپنے نفس کے لئے نہیں ہوتی.اس آیت کی جو نہایت لطیف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اس کا کچھ حصہ درج ہے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.“انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں.وہ اپنی جان پہنچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے." وو اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 385)
درس القرآن 99 درس القرآن نمبر 149 ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُةٍ مُّبِين فَإِنْ ذَكَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ تَكُمُ الْبَيِّنْتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ (البقرة: 210،209) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے سورۃ البقرۃ میں اس سے قبل عبادات و ارکان روزہ، حج وغیرہ کے بارہ میں تفصیلی ہدایات اور حکمتوں اور برکتوں کا بیان ہے اب مضمون آہستہ آہستہ حقوق انسانی کی طرف منتقل ہو رہا ہے.ان دونوں مضامین کے درمیان پہلے مضمون کے تتمہ اور دوسرے مضمون کی تمہید کے طور پر ذکر الہی اور اسلام کی تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے کی تلقین اور شیطانی راہوں سے بچنے کے لئے اندار ہے یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةً فرماتا ہے.اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب فرمانبرداری کے دائرہ میں آجاؤ ولا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشیطن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ مفہوم بیان فرماتے ہیں کہ : “اے ایمان والو خدا کی راہ میں گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیار مت کرو کہ دو شیطان تمہارا دشمن ہے.اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں." (یادداشتیں براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 416) اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:.“اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جاؤ اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر رکھ لو.یا اے مسلمانو تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو.اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو...پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو.....دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں وو کہ تم پورے کا پورا اسلام قبول کرو.یعنی اس کا کوئی حکم ایسانہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 456 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 100 فَإِن زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنْتُ اور اگر تم باوجود اس کے کہ تمہارے پاس کھلے کھلے نشان آئے ، ڈگمگا گئے فَاعْلَمُوا تو جان لو اَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ کہ اللہ یقیناً غالب اور حکمت والا ہے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.“فرماتا ہے اگر تم اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور طاقت اور قوت حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے ان پر ظلم کرنا شروع کرو گے.اور انہیں مالی اور جسمانی نقصانات پہنچاؤ گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے سر پر ایک غالب خدا موجود ہے.” ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 457 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 101 درس القرآن نمبر 150 هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَاءِ وَالْمَلَبِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (البقرة:211) جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے عبادات کے ارکان اور ان کی حکمت کی تفاصیل بیان کرنے کے بعد اور بندوں کے حقوق کی تفاصیل بیان کرنے سے پہلے نہایت پر زور الفاظ میں ذکر اللہ اور تعلق باللہ کا مضمون تھا اور جو لوگ اس سے غفلت کرتے ہیں ان کو آج کی آیت میں پوچھتا ہے کہ آخر تم کن دلائل اور نشانات کے منتظر ہو.زبر دست عقلی دلائل اور نشانات کی موجودگی میں کیا تم اس بات کے منتظر ہو کہ اَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَبِكَةُ کہ اللہ اور فرشتے بادلوں کے سائبانوں میں ان کے پاس آئیں وَقُضِيَ الْأَمْرُ اور سچ اور جھوٹ کا فتح و شکست کا جھٹ پٹ فیصلہ ہو جائے.فرماتا ہے وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ معاملات تو سارے خدا کے ہاتھ ہیں.تمام امور اللہ کی طرف پھیرے جاتے جس طرح کے نشانات کی انتظار میں وہ بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی آسکتے ہیں اور بدر وغیرہ کے مواقع پر دیکھنے والوں نے دیکھے اور خدائی تجلیات کو انسانی شکل میں ظاہر ہوتے دیکھا.حضرت مصلح موعود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.“اس میں بتایا کہ یہ کفار جو مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور منافق جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور اسلام کی تباہی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں.یہ لوگ بظاہر تو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ دن آئے کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اور خدائے واحد کی حکومت پر شیطانی طاقتیں غلبہ حاصل کر لیں لیکن در حقیقت اپنے عمل سے وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے سایوں میں آئے.یعنی اپنی مخفی تدبیر سے ان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان پیدا کر دے.وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ آسمان سے اس کے فرشتے نازل ہوں جو انہیں کچل کر رکھ دیں.وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ایسا نشان ظاہر ہو جس کے نتیجہ میں یہ روز روز کے جھگڑے مٹ جائیں اور خدا تعالیٰ کا آخری فیصلہ ایک چمکتے
درس القرآن 102 ہوئے نشان کی صورت میں سب کو نظر آجائے.اور آخر ایک دن ایسا ہی ہو گا.خدا ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گا اور ان کی ہلاکت کی ساعت ان کے سروں پر منڈلانے لگے گی.چنانچہ جنگ بدر میں خدا تعالیٰ نے بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا...وو ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 458 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 103 درس القرآن نمبر 151 سَلْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ كَمْ أَتَيْنَهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَنْ يُبَدِّلُ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (البقرة:212) ان لوگوں کا ذکر چل رہا ہے جو غیر معمولی عظیم نشانات دیکھنا چاہتے ہیں.گزشتہ آیات میں یہ مضمون تھا کہ بعض لوگ جن کو تعلق باللہ اور ذکر الہی کی نعمت دی گئی ہے ازراہ انکار غیر معمولی نوعیت کے نشان دیکھنا چاہتے ہیں اور بادلوں میں اللہ اور اس کے ملائکہ کے اترنے کے منتظر ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے بنی اسرائیل بھی جن کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے اس قسم کی الجھنوں میں گرفتار رہے.سَلْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ كَمْ أَتَيْنَهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةِ بَنى اسرائیل سے پوچھو ان کی تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ ہم نے ان کو کتنے روشن نشان دیئے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان تھا جو ان پر ہوا وَ مَنْ يُبَدِّلُ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ اب جو شخص اللہ کی نعمت کو جو اس پر ہوئی بدل دے فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ تو اللہ سزا میں سخت ہے.حضرت مصلح موعود اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:.“ ہم نے یہود کو پہلے بھی بہت سے نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن کی انہوں نے ناشکری کی مثلاً سب سے بڑی نعمت تو ان پر یہی نازل ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے متواتر انبیاء ان میں مبعوث فرمائے لیکن یہود نے ہمیشہ ان کی تکذیب کی اور ان کی مخالفت کو اپناشعار بنائے رکھا.یہاں تک کہ بعض انبیاء کو انہوں نے جان سے بھی مارڈالا.یہ خدا تعالیٰ کی نعمت کی ایک عظیم الشان ناشکری تھی جو ان سے ظاہر ہوئی.اسی طرح عیسائیوں نے جو یہود کی ایک شاخ ہیں اس قدر ناشکری کی کہ شریعت کو لعنت قرار دیدیا.غرض یہود کی ان متواتر سرکشیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت نبوت ان سے واپس لے لی کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا الہی سنت کے مطابق وہ نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں اور اسے رنج و غم اور حسرت و یاس کے لمبے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 460،459 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 104 درس القرآن نمبر 152 زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوا وقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (البقرة:213) قرآن شریف اس ہستی کی کتاب ہے جس نے انسانی نفس کو پیدا کیا اور کتاب بھی اس نفس کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے اتاری.اس لئے وہ انسانی نفس کی گہرائیوں کو جانے والی ہے.یہ ذکر الہی اور تعلق باللہ سے اعراض کرنے والوں کا ذکر کر کے اس آیت میں ان کے اعراض اور انکار کی دو بنیادی نفسیاتی وجوہات کا ذکر فرماتا ہے ایک تو یہ کہ ان انکار کرنے والوں کو دنیا کی زندگی بڑی خوبصورت نظر آتی ہے اور بظاہر جھم جھم کرنے والی یہ زندگی ان کے انکار کا باعث ہے.دوسرے وہ ایمان لانے والوں سے تمسخر کرتے ہیں اور یہ غلط سوچ رکھنے والے لوگوں کے لئے نہایت دلچسپ مشغلہ ہے فرما یا زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا ان لوگوں کو جنہوں نے انکار کیا دنیا کی زندگی بڑی خوبصورت نظر آتی ہے وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا اور وہ ان سے جو ایمان لائے تمسخر کرتے ہیں.یہ دوز بر دست محرکات ان کے انکار کے ہیں.اس کی تشریح میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.دنیا اپنی تمام دلفریبیوں اور رعنائیوں کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہے اور طاقت اور دولت کے نشہ نے ان کی نگاہوں کو ایسا خیرہ کر رکھا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں سے کہاں شکست کھا سکتے ہیں بلکہ وہ ان پیشگوئیوں پر (جو اسلام اور مسلمانوں کی فتح کے بارہ میں ہوں.ناقل ) مسلمانوں سے تمسخر کرتے اور ان کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور انہیں طعنے دیتے ہیں کہ ہمیں تو نقد مل رہا ہے.تمہارا انعام کہاں ہے." نفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 460 مطبوعہ ربوہ) کفار کے اس اعراض اور تمسخر کے جواب میں فرماتا ہے وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ القيمة کہ یہ اعراض و انکار اور یہ تمسخر صرف اس دنیا میں ہے مگر ابھی تو ایک اور عالم آنے والا ہے، ایک قیامت آنے والی ہے جس میں متقی اعراض کرنے والوں اور تمسخر کرنے والوں پر
درس القرآن 105 غالب آئیں گے.شاید تم کہو کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایسا دن آنے والا ہے جب پانسہ پلٹ جائے گا، جن کو تمسخر کیا جارہا ہے وہ غالب ہوں گے ، تو فرماتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں ہی اس کا ایک قرینہ موجود ہے وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ کہ اس دنیا میں ہی بڑے بڑے امیر ، بڑے صاحب جائیداد، بڑے بڑے بینک بیلنس والے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے ہیں اور حد درجہ غریب ارب پتی بن جاتے ہیں حالانکہ دنیوی قواعد کے مطابق دونوں طرف جد وجہد ہوتی ہے.یہ بتاتی ہے کہ رزق کا معاملہ صرف تمہارے ہاتھ میں نہیں.کوئی بالا ہستی بھی ہے جس کا عمل دخل اس میں ہے اور تم اپنی جد و جہد میں مختار گل نہیں.کوئی اور طاقت اس پر اثر انداز ہو رہی ہے.
درس القرآن 106 درس القرآن نمبر 153 كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَ انْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُم بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتُهُمُ الْبَيِّنْتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرة:214) مذہب اسلام کی تعلیم اور احکامات ، عبادات و ارکان کے ذکر پر لازماًیہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ مذاہب میں یہ اختلاف کیوں ہے اور اس اختلاف میں کون حق پر ہے.اس اہم سوال کو اس آیت میں تفصیل سے حل کیا گیا ہے، فرماتا ہے گانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً کہ لوگوں میں جب بگاڑ پید اہوتا ہے اور سب لوگوں میں سچے خدا سے بے تعلقی پید اہو کر ساری قوم قومی انبیاء سے پہلے یا ساری دنیا ہمارے نبی صلی علیم سے پہلے گمراہی کا ایک رنگ پید ا ہو جاتا ہے.فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيَّنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ تو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جوش میں آتی ہے اور وہ بشارت دینے اور ڈرانے کے لئے نبی بھیجتا ہے وَ انْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ اور حق و صداقت سے بھری ہوئی شریعت ان کے ساتھ ہوتی ہے خواہ وہ پہلے شرعی نبی کی شریعت ہو یا نئی شریعت ہوتی ہے.لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ تا کہ جو لوگوں کے درمیان اس اختلاف کے بارہ میں فیصلہ کرے جو لوگوں نے دائمی مذہبی صداقتوں اور اصولوں سے کیا ہو تا ہے.حالانکہ ان کا یہ اختلاف کسی صداقت، کسی اصول، کسی تحقیق پر مبنی نہیں ہو تا بلکہ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنْتُ بَغْيًا بَيْنَهُم بلکہ ان کا یہ اختلاف اس شریعت سے جو ان کو دی گئی روشن دلائل کے ان کے پاس آنے کے بعد ہوتا ہے اور اس کا محرک علمی تحقیق نہیں بلکہ باہمی سرکشی ہوتی ہے تو فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهِ اس لئے اللہ نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہدایت دی کیونکہ انہوں نے جو اس میں اختلاف کیا وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور صداقت پر مبنی تھا کیونکہ وَاللهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ اللہ ہی ہے جو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے.
درس القرآن درس القرآن نمبر 154 107 مذاہب کے اختلاف کے بارہ میں ایک سوال کا جواب کل کے درس میں دیا گیا تھا آج کی آیت میں ایک دوسرے سوال کا جواب دیا گیا ہے ، فرماتا ہے : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيب (البقرة: 215) آج کا سوال یہ ہے کہ اختلاف مذاہب کے نتیجہ میں نئے سچے مذہب کے ماننے والوں کو ابتلاؤں اور امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.اس آیت میں ان ابتلاؤں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں پر آنے والے تھے.چونکہ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ جب دنیا پر ضلالت چھا جاتی ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے جس کی لوگ مخالفت کرتے ہیں.اس لئے اب فرماتا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ بغیر ابتلاؤں کے تم ترقی کر جاؤ گے.تمہاری ترقی ابتلاؤں کے آنے پر ہی موقوف ہے جیسا کہ پہلوں کی ترقی کا باعث بھی ابتلاء ہی ہوئے.چنانچہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مستهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نصر اللہ انہیں مالی مشکلات بھی پیش آئیں اور جانی بھی اور وہ سر سے پاؤں تک ہلا دیئے گئے اور ان پر اسقدر ابتلاء آئے کہ آخر اس وقت کے رسول اور مومنوں کو دُعا کی تحریک پید اہو گئی اور وہ پکار اُٹھے کہ اسے خدا تیری مدد کہاں ہے.اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے پاک بندے بھی کسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایسے مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں متى نصر اللہ کہنا پڑتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ جس مایوسی کا تصور بادی النظر میں پیدا ہوتا ہے اس سے انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے کلیۂ پاک ہوتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهُ لَا يَايْسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفُرُونَ (یوسف آیت 88) کہ صرف کافر ہی خدا تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں.بات یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب متی کا لفظ بولیں تو اس سے مراد مایوسی نہیں ہوتی بلکہ تعین کے لئے ایک درخواست ہوتی ہے
درس القرآن 108 ور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلاں بات کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا جائے.ایسا ہی اس جگہ متی نصر اللہ کے یہ معنے نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر ایسا کہتے ہیں بلکہ در حقیقت ان الفاظ میں وہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ الہی اس بات کی تعیین فرما دی جائے کہ وہ مد د کب آئیگی.یہ دعا کا وو ایک موثر طریق ہے." ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 467 مطبوعہ ربوہ) یہاں سے آگے قرآن مجید کا مضمون بدل رہا ہے اور حقوق العباد کے مختلف پہلوؤں پر خاص زور ہے اس لئے اس کتاب 365 دن کا دوسرا حصہ یہاں مکمل ہوتا ہے.انشاء اللہ آئندہ مضمون کتاب 365 دن کے تیسرے حصہ میں درج ہو گا.
درس حدیث 109 درس حدیث نمبر 40 حضرت کعب بن عیاض بیان کرتے ہیں سَمِعْتُ النَّبِى يا الله يَقُولُ إِنَّ لِكُلّ أُ فِتْنَةٌ وَفِتْنَةٌ أُمَّتِي الْمَالُ.ا (ترمذی کتاب الزهد باب ان فتنة هذه الامة في المال حديث نمبر 2336) ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو بعض قوموں کو دنیا میں حکومت اور قوت اور طاقت اور غلبہ عطا ہوتا ہے اور وہ اپنے رسوخ اور غلبہ پر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں جیسا کہ آج ا کل مغرب کے بعض ممالک کا حال ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلبہ ان کو اپنی اچھی تدبیر کے ذریعہ حاصل ہوا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک امتحان ہے ایک ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا لیا جا رہا ہے کہ وہ اس حکومت اور غلبہ کے باوجو د عدل اور انصاف اور نرمی اور مخلوق کی ہمدردی کے کام کرتے ہیں یا نہیں.بعض مردوں اور عورتوں کو حسن و جمال ملا ہوتا ہے اور وہ اس پر ناز کرتے ہیں مگر عالم یہ ہے کہ وہ اپنے حسن و جمال کو خود دیکھ بھی نہیں سکتے جب تک ان کے پاس آئینہ نہ ہو اور روشنی نہ ہو جس سے وہ خود اپنا حسن و جمال دیکھ سکیں.بعض لوگ زمینوں اور کھیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور اس پر ان کو فخر ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنے جیسے انسانوں کی حق تلفی کر رہے ہوتے ہیں.حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں ایک شخص نے یہ مقدمہ دائر کیا کہ اس کے پاس ایک بکری ہے اس کے دوست کے پاس 99 بکریاں ہیں مگر اس کے دوست کی میری ایک بکری کو بھی ہتھیانے کی نظر ہے.بعض لوگوں کو صحت اور لمبی عمر ملتی ہے اور وہ اس کو اپنی کسی خوبی کا نتیجہ سمجھتے ہیں مگر یہ مد نظر نہیں رکھتے کہ ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اپنی یہ صحت اور عمر کس اچھے کام میں گزاری.جو حدیث آج ہم نے پڑھی ہے اس میں حضور صلی ا لم یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے کوئی امتحان رکھا ہوا ہے کس کو طاقت کا، کسی کو کو ٹھیوں کا، کسی کو علم کا، کسی کو زمینوں کا، کسی کو جانوروں کے گلوں کا اور میری امت کے لئے جو خاص امتحان ہے ، وہ مال کا
110 ہے، دولت کا ہے، کسی کو امت میں مال اور دولت دیا گیا ہے اور اس کا امتحان یہ ہے کہ کیا وہ مال و دولت کا صحیح استعمال کرتا ہے یا نہیں.اور اللہ کے اس عطیہ پر شکر کرتا ہے یا نہیں.اور کسی کو مال دولت سے کم حصہ ملا ہے اور اس کا امتحان یہ ہے کیا وہ صبر اور سکون سے زندگی گزار تا ہے یا جائز ذرائع سے دولت حاصل کرنا چاہتا ہے ؟
درس حدیث 111 درس حدیث نمبر 41 حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى ال ولم نے فرمایا: لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُوْمُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَ آنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ (مسلم کتاب الصلاة باب فضل من يقوم بالقرآن و يعلمه...حديث نمبر (266) لوگ جب کسی شخص کو دیکھتے ہیں جو کسی بڑی کو ٹھی میں رہتا ہے تو حسد سے یہ کہتے ہیں کہ کاش ایسی کوٹھی ہمارے پاس بھی ہوتی.اگر کسی کو چمکتی دمکتی تیز رفتار موٹر میں جاتے ہوتے دیکھتے ہیں تو خواہش کرتے ہیں کہ ان کے پاس بھی ایسی موٹر ہو.کسی کو اعلیٰ کپڑے کا اچھا سلا ہوا سوٹ پہنے ہوئے پاتے ہیں تو تمنا کرتے ہیں کہ ان کے پہنے کے لئے ایسے سوٹ ہوں.کسی خوبصورت کو دیکھتے ہیں تو تڑپتے ہیں کہ وہ بھی خوبصورت ہوتے.اگر کسی کے ہاں اولاد نہ ہو ی نرینہ اولاد نہ ہو تو چاہتے ہیں کہ ان کو بھی اولاد ملے.غرض ہر دنیوی نعمت کو دیکھ کر جو ان کے پاس نہ ہو اور کسی دوسرے کے پاس ہو اپنا دل برا کرتے ہیں اور رشک کرتے ہیں بلکہ حسد کرتے ہیں.ہمارے نبی صلی اللی یکم نے اس حدیث میں بہت پیاری نصیحت کی ہے جو انسان کے دین کو بھی سنوارتی ہے اور اس کے دل کی تکلیف اور جلن کو بھی دور کرتی ہے آپ نے فرمایا کہ لا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ کہ رشک تو صرف دو آدمیوں پر ہی ہو سکتا ہے اور ہونا چاہئے دوسروں پر رشک درست نہیں رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْقُرْآنَ ایک تو وہ شخص جس کو اللہ نے قرآن دیا ہے قرآن کا علم عطا کیا ہے فَهُوَ يَقُوْمُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ اور وہ اس قرآن کے ذریعہ رات کی گھڑیوں میں بھی عبادت کرتا ہے اور آنَاءَ النَّهَارِ اور دن کی گھڑیوں میں بھی قرآن کے ذریعہ عبادت کرتا ہے قرآن پڑھتا ہے، پڑھاتا ہے، اس پر غور کرتا ہے، اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، ایسے دو شخصوں پر رشک تو جائز ہے باقی لوگوں پر رشک صرف دل کو جلانے والی بات ہے.دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا ہے اور وہ اس کو بے دھڑک خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے.
درس حدیث 112 درس حدیث نمبر 42 ہمارے نبی صلی الی یوم کے ایک صاحبزادہ کا نام ابراہیم تھا آپ چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب صاحبزادہ ابراہیم کی وفات ہوئی تو ہمارے نبی صلی الیکم نے فرمایا: اِنَّ الْعَيْنَ تَطْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا.کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم زبان سے صرف وہی بات نکالتے ہیں جو ہمارے رب کو راضی کرے.( بخاری کتاب الجنائز باب قول النبى الله الله انا بك لمحزونون حديث نمبر 1303) ہمارے نبی صلی اللی نیلم کے اس صبر وضبط کے عظیم نمونہ میں آپ کی امت کے لئے ایک عظیم الشان سبق ہے راقم الحروف نے ایک ہسپتال میں ایک مریض کے مرنے پر ایک ایسا تکلیف دہ نظارہ دیکھا کہ بڑی تعداد میں مسلمان کہلانے والی عور تیں رونا پیٹنا، ماتم ، نوحہ میں مصروف تھیں اور ہاتھ لمبے کر کر کے اور آسمان کی طرف اٹھا کر شکوہ شکایت کے ناپاک کلمات بلند آواز سے بول رہی تھیں اور یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی علی یلم کی امت میں وہ لوگ اور بھی ہیں جو قرآن کریم کی صبر کے بارہ میں بار بار دی گئی تعلیم کو بھلا کر دو ہتر مارتے اور خنجر سے اپنے آپ کو زخمی کرتے اور روتے پیٹتے ہیں اور اس چند دن کے ماتم کے بعد پھر سارا سال ہر قسم کی راحت و آرام اور عیش و تفریح میں گزارتے ہیں.نہیں کہ وہ غم دس راتوں کے بعد پھر عیاشی کی زندگی میں کس طرح بدل جاتا ہے اور عیش و عشرت کی زندگی کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور سال کے بعد پھر وہ دس راتیں جب آتی ہیں.تو آنسو بہتے ہیں اور سینہ کوبی کی جاتی ہے ، خون بہایا جاتا ہے بازاروں میں اور گلیوں میں اچھل کو دکر کے غم کا اظہار کیا جاتا ہے اور نماز با جماعت بھول جاتی ہے.معلوم
درس حدیث درس حدیث نمبر 43 113 بعض دفعہ یہ دیکھتے میں آتا ہے کہ جب نماز با جماعت شروع ہو جاتی ہے یا جب امام نماز پڑھاتے ہوئے رکوع میں چلا جاتا ہے تو بعض بچے بلکہ بعض بڑی عمر کے دوست بھی نماز میں شامل ہونے کے لئے جلدی کی کوشش میں دوڑتے ہوئے آتے ہیں.اور بعض اوقات تو ان کے دوڑنے کی وجہ سے ان کے قدموں کی آواز سے نمازیوں کی نماز میں خلل بھی آتا ہے.ہمارے نبی صلی اللی یکم نے اس سے بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ر م نے فرمایا : إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ کہ جب تم تكبير تحریمہ کی آواز سنو تو چل کر نماز کے لئے آوَوَعَلَيْكُمْ بِالسّكِينَةِ وَالْوَقَارِ اور تم پر سکینت اور و قار لازم ہے وَلَا تُسْرِعُوا اور جلد بازی سے کام نہ لو فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا اور نماز تمہیں (امام کے ساتھ مل جائے وہ پڑھ لو وَمَا فَاتَكُمْ فَاتِمُّوا اور جو تم سے رہ جائے وہ پوری کر لو.( بخاری کتاب الاذان باب لا يسعى الى الصلوة وليأت بالسكينة والوقار حديث نمبر 636) یہاں حضور علی ملی یکم نے بڑی وضاحت سے حکم دیا ہے کہ نماز شروع ہو چکی ہو تب بھی بھاگ دوڑ درست نہیں وقار کے ساتھ سکینت کے ساتھ آؤ اور نماز میں شامل ہو.ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو جو رکوع میں شامل ہونے کے لئے دوڑ کر آتے ہیں کیونکہ نماز تو ہم اس لئے پڑھتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے نبی صلی ال نیم کے ذریعہ ہمیں نماز کا حکم دیا ہے.اس لئے لازمی ہے کہ ہم نماز پڑھیں مگر اس طرح جس طرح ہمارے نبی کریم علی ای کم کا حکم ہے.یہ تو عجیب بات لگتی ہے کہ نماز ہم وہ پڑھیں جس کا حضور صلی الی یکم نے ہمیں حکم دیا ہے مگر پڑھیں اس طریق سے جس سے ہمارے نبی صلی الی یکم نے منع فرمایا ہے.
درس حدیث 114 درس حدیث نمبر 44 حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے نبی صلی للی نام سے عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے کوئی دعا سکھائے جو میں اپنی نماز میں کیا کروں.آپ نے فرمایا کہو: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْلِيْ مِنْ عِنْدِكَ مَغْفِرَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ( بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى و كان الله سميعا بصير حديث نمبر 7388،7387) کہ اے میرے اللہ میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشا تو مجھے اپنی جناب سے مغفرت عطا فرما.یقینا تو ہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.یہ ایک بہت ہی لطیف دعا مغفرت کے لئے ہے قرآن شریف فرماتا ہے کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگو اور یاد رکھو کہ اللہ تمام گناہ بخش دیتا ہے اور یہ بھی فرماتا ہے کہ گناہ بخشنے کی صفت خاص خدا تعالیٰ کی صفت ہے کوئی بھی اس کے سوا یہ اختیار نہیں رکھتا کہ گناہ بخشتا پھرے.اور یہ نہیں کہ خدا تھوڑا گناہ بخش کر پھر اگلی جون میں سزا دینے کے لئے رکھ لیتا ہے.وہ پوری طرح ہر گناہ کو بخش دیتا ہے اگر بخشش مانگنے والا دیانت داری کے اخلاص کے ساتھ دعامانگ رہا ہے صرف ہونٹوں کی بڑبڑاہٹ نہیں ہے اس کی دائمی صفت غفور اور رحیم ہے وہ بہت بخشنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے.
درس حدیث درس حدیث نمبر 45 115 ہمارے نبی صلی اللی کمر پر جب پہلی قرآنی وحی نازل ہوئی اور آپ کو دنیا کی سب سے بڑی ذمہ واری سونپی گئی اور تمام دنیا کے لئے ، دنیا کی تمام قوموں کے لئے ہر سفید وسیاہ کے لئے آپ کو ہادی بنا کر بھیجا گیا تو چونکہ یہ بہت ہی عظیم اور بہت ہی مشکل ذمہ واری تھی اس لئے طبعا آپ صلی اللہ کریم کی طبیعت میں فکر پیدا ہوئی کہ یہ عظیم الشان کام جس کی ذمہ واری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے کس طرح سر انجام دیا جائے گا اور اس فکر میں آپ غار حر اسے اپنے گھر تشریف لائے اور اپنی بہت بصیرت رکھنے والی زوجہ مطہرہ سے اس کا ذکر فرمایا کہ مجھے تو اپنی جان کا خوف ہے.حضرت خدیجہ نے آپ کی عظیم الشان اخلاقی قوتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہ آپ بالکل فکر نہ کریں انہوں نے کہا: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ أَبَدًا ہر گز آپ ناکام نہیں ہونگے مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا اللہ کبھی آپ کے بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں وَتَحْمِلُ الْكَلَّ تھکے ماندے خستہ حال کا بوجھ اٹھاتے ہیں وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُوم آپ وہ نیکیاں کماتے ہیں جو دنیا سے مٹ چکی ہیں وَ تَقدِی الضَّیف آپ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں.وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ اور حادثات زمانہ میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.( بخاری کتاب بدء الوحی باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلی اللہ حدیث نمبر (3) یہ وہ عظیم نذرانہ ہے جو ایک عظیم بیوی نے اپنے عظیم خاوند کے حضور پیش کیا.اور یہ ایک ثبوت ہے ہمارے نبی صلی الی یوم کے اخلاق فاضلہ کا جو ایک ایسی ہستی نے دیا جس نے صبح اور شام دن اور رات سفر اور حضر میں آپ کو نہایت قریب سے مشاہدہ کیا تھا.
درس حدیث درس حدیث نمبر 46 116 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی ا یکم ایک مجلس میں کچھ بیان فرمارہے تھے کہ ایک بدوی آیا اور اس نے پوچھا کہ وہ گھڑی یعنی قیامت کی گھڑی یا تباہی کی گھڑی کب آئے گی.رسول اللہ صلی علی یکم جو بیان فرمارہے تھے وہ بیان فرماتے چلے گئے اور جب فارغ ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ اس گھڑی کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے.اس نے یا رسول اللہ میں یہ حاضر ہوں.آپ نے فرمایا: إِذَا ضَيَّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ كہ جب امانت ضائع کر دی جائے تو تم اس گھڑی کے منتظر رہنا.اس بدوی نے پوچھا كَيْفَ إِضَاعَتُهَا کہ امانت کو ضائع کرنا کیسے ہو گا؟ آپ نے جواب میں فرمایا: إِذَا أَسْنِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ كہ جب انتظام ان لوگوں کے سپر د کیا جائے جو اس کے اہل نہ ہوں تو اس گھڑی کا انتظار کرنا.(بخاری کتاب الرقاق باب رفع الامانة حديث نمبر 6496) ہمارے نبی صلی علی یم نے نو (9) الفاظ پر مشتمل اس فقرہ میں حکمت و دانائی اور قومی ترقی کا ایک ایسا راز بتایا ہے جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل اور موتیوں میں تولے جانے کے لائق ہے.جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے امانت سے مراد انتظام اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہمارے نبی صلی ال ایام فرماتے ہیں کہ جب حکومت کی ذمہ داریاں اور انتظامات کے فرائض ایسے لوگوں کے سپر د کئے جائیں جو ان کاموں کو نہیں سنبھال سکتے تو سمجھو کہ خرابی اور تباہی کی گھڑی آگئی.ہم لوگ جو اپنی جماعت میں جماعتی کارکنوں کا یا ذیلی تنظیموں کے کارکنوں کا انتخاب کرتے ہیں ایک بہت بڑا سبق ہے.
درس حدیث 117 درس حدیث نمبر 47 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علم کو فرماتے ہوئے سنا: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابٍ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيْهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُوْلُ ذُلِكَ يُبْقِى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا قَالُوا لَا يُبْقِى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا قَالَ فَذَالِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا ( بخاری کتاب مواقيت الصلوۃ باب الصلوات الخمس كفارة حديث نمبر 528) رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا: بتاؤ تو سہی اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر ایک نہر بہتی ہو جس میں وہ ہر روز پانچ بار نہائے تو کیا یہ بات اس کی کوئی میل باقی رہنے دے گی.لوگوں نے عرض کیا.اس کی کوئی میل باقی نہ رہنے دے گی.آپ نے فرمایا.یہ ہے مثال پانچ نمازوں کی، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ غلطیوں کو مٹاڈالتا ہے.اس مبارک حدیث میں ہمارے نبی صلی الی یکم نے ہم گناہگاروں کے گناہوں سے بچنے اور ان کی سزا سے بچنے کے لئے کیا لطیف طریق اختیار فرمایا ہے اور ایسی تشبیہ دی ہے جو خوب اس مضمون کو واضح کرتی ہے اور دل پر اثر ڈالتی ہے کہ ہمارے رحم کرنے والے اللہ نے گناہوں کو مٹانے کا عجیب طریق بیان فرمایا ہے.انسان گناہ کرتا ہے کبھی زبان سے کبھی ہاتھ سے کبھی اپنے گھر میں کبھی اپنے ہمسایہ کے ساتھ کبھی بازار میں.مگر دن میں پانچ مرتبہ اللہ نے ہمارے گناہوں کو معاف کرنے کا اور ان کا نام و نشان مٹانے کا سامان فرما دیا.اور ہمارے پیارے اور محسن نبی صلی اللہ ولیم نے بڑے موثر انداز میں اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے ہمیں اطلاع فرمائی ہے.
درس حدیث 118 درس حدیث نمبر 48 حضرت زبیر بن عوام بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الہ وسلم نے فرمایا: لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَأْتِي بِحُزْمَةِ الْحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيْعَهَا فَيَكُفَّ اللَّهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنْعُوْهُ ( بخاری کتاب الزكوة باب الاستعفاف عن المسألة حديث نمبر 1471) مشرق کے رہنے والے بعض دفعہ مغرب کے رہنے والوں کی کمزوریاں اور عیب بیان کرتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی ہر قوم میں ہر ملک کے لوگوں میں ہر نسل اور ہر رنگ کے لوگوں میں کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں کچھ عیب بھی ہوتے ہیں مگر مشرق والوں کو یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئیے کہ مغرب میں رہنے والوں میں مشرق کے رہنے والوں کے مقابلہ میں ایک خوبی زیادہ نظر آتی ہے اور وہ ہے ہاتھ سے کام کرنے کو عار نہ سمجھنا.اور اس کی وجہ سے ان میں ایک صفت پائی جاتی ہے جس پر ہمارے دین میں بہت زور دیا گیا ہے.اور وہ ہے مانگنے اور سوال کرنے کے بجائے محنت اور مزدوری کر کے کمانا اور کھانا.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام جو بادشاہ تھے اور اس علاقہ کے بادشاہ تھے جس میں آج اسرائیل کی حکومت قائم ہے.مگر حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت آج کی اسرائیل کی حکومت سے علاقہ میں بڑی تھی.اتنے بڑے علاقہ کی حکومت کے بادشاہ ہونے کے باوجو د ہمارے نبی صلی کم فرماتے ہیں کہ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ ( بخاری کتاب البیوع باب كسب الرجل وعمله بيده حديث نمبر 2072) حضرت داؤد علیہ السلام ہاتھ سے کام کر کے اپنی روٹی کھاتے تھے.خدا کے ایک نبی کا جو بادشاہ بھی تھا یہ کتنا بڑا نمونہ تھا جو آپ نے دنیا کو دکھایا.افسوس ہوتا ہے ان لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ پاؤں مضبوط رکھتے ہیں صحت مند ہیں لیکن محنت کرنے کے بجائے لوگوں سے مانگ کر کھا رہے ہوتے ہیں.ہمارے نبی صلی الیم نے اس حدیث میں جو ہم نے پڑھی ہے فرمایا کہ: لأَن يَأْخُذُ
درس حدیث 119 أَحَدُكُمْ کہ اگر تم میں سے کوئی اپنی رسی لے فَيَأْتِي بِحُزْمَةِ الْحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ اور اپنی پیٹھ پر ایندھن کی لکڑی کا ایک ڈھیر لے کر آئے فَيَبِيعَهَا اور اس کو فروخت کرے فَيَكُفَّ اللهُ بِهَا وَجْهَهُ اور اس طرح اللہ اس کی عزت و آبرو محفوظ رکھے خَيْرٌ لَّهُ اس کے لئے بہتر ہے مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ اس بات سے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوْهُ اب لوگوں کی مرضی کہ اس کو دیں یا نہ دیں.
درس حدیث 120 درس حدیث نمبر 49 حضرت ابو برزة بیان کرتے ہیں اَنَّ رَسُولَ الله صل الله كَانَ يَكْرَهُ الثَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا کہ رسول الله صلى الله علم عشاء کی نماز ادا کرنے سے پہلے سو جانا نا پسند فرماتے تھے اور عشاء کی نماز کے بعد ( غیر ضروری باتیں کرنا نا پسند فرماتے تھے.( بخاری کتاب مواقیت الصلوة باب ما يكره من النوم قبل العشاء حديث نمبر 568) ہمارے نبی صلی ا نام کے طریق عمل کی یہ حدیث ہمارے دین اور ہماری دنیا کی خیر و بھلائی کے مضمون سے بھری پڑی ہے.اور اس مختصر سی حدیث میں ان دونوں بھلائیوں کا ذخیرہ ہے.ہماری دینی بھلائی کے لئے نماز چوٹی کا عمل ہے قرآن شریف نے ایمان کے بعد اعمال میں جس عمل پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ نماز ہے.اور ہمارے نبی صلی الی یکم نے فرمایا ہے کہ فجر اور عشاء یہ دونوں نمازیں منافقین پر بہت بھاری ہیں.( بخاری کتاب الاذان باب فضل صلاة العشاء فى الجماعة حديث نمبر 657) تو ہماری دینی بھلائی کے لئے نماز نہایت ضروری اور اہم چیز ہے اور اس کو پڑھے بغیر سو جانا یہ خطرہ پیدا کرتا ہے کہ شاید آدمی صبح تک سو تار ہے اور نماز رہ ہی جائے.دنیا کی ایک بہت بڑی بھلائی کا ذکر بھی اس حدیث میں ہے.صحت دنیا کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت ہے اور آج کی دنیا میں لوگوں نے جو تمدن اختیار کیا ہوا ہے بعض سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ آدھی رات سے پہلے کی ایک گھنٹہ نیند اپنے فائدہ اور آرام کے لحاظ سے آدھی رات کے بعد کی دو گھنٹہ کی نیند کے برابر ہے.اور پھر جلدی سونے کا دینی فائدہ بھی زبر دست ہے کہ انسان تہجد کی نماز کے لئے جاگ سکتا ہے فجر کی نماز کے لئے تازہ دم ہو کر کھڑا ہو سکتا ہے.اب دیکھیں کہ ہمارے نبی کریم صلی نیا کی کسی چیز کے لئے نا پسندیدگی انسان کے کے لئے کتنی نقصان دہ ہے.اور آپ کا کسی چیز کو پسند کرنا انسان کے دینی اور دنیوی فائدہ کے لئے کتنا اچھا ہے.
درس حدیث 121 درس حدیث نمبر 50 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الله عزو جل قیامت کے دن فرمائے گا يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تعذني کہ اے ابن آدم میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أعُوْدُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ وہ بندہ کہے گا اے میرے رب میں کیسے تیری عیادت کرتا اور تورب العالمین ہے.قال اللہ فرمائے گا أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فَلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدَهُ کیا تمہیں پتہ نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِيْ عِنْدَه! کیا تمہیں علم نہیں تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا چاہا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أطْعِمُكَ وَأنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وہ بندہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کیسے کھلاتا اور تو رب العالمین ہے؟ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ اللہ کہے گا کیا تمہیں علم نہیں تھا کہ تم سے میرے فلاں بندہ نے کھانا مانگا مگر تم نے اسے کھانا نہ کھلایا أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذالك عِنْدِي کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تم اس کو کھانا کھلاتے تو (اس کی جزاء) میرے پاس پاتے يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِی اے میرے بندے میں نے تجھ سے پینے کو مانگا مگر تم نے مجھے نہ پلایا قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وہ بندہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کیسے پلاتا اور تو رب العالمین ہے ؟ قَالَ اسْتَسْقَاكَ عَبْدِيْ فُلَانٌ فَلَمْ تنقم اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پینے کو مانگا مگر تم نے اس کو نہ پلایا اما عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْسَقَيْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَالِكَ عِنْدِي کیا تمہیں پتہ نہیں کہ اگر تم اس کو پلاتے تو (اس کا اجر ) میرے پاس پاتے.مسلم کتاب البر والصلة والآدب باب فضل عيادة المريض حديث نمبر 6556)
درس حدیث 122 حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى لم نے فرمایا: أَطْعِمُوا الْجَائِعَ بھوکے کو کھانا کھلاؤ وَعُودُوا الْمَرِيضَ اور بیمار کی عیادت کرو وَفكُوا العَانِی اور قیدی کو رہا کرو.( بخاری کتاب المرضى باب وجوب عيادة المريض حديث نمبر 5649)
درس حدیث درس حدیث نمبر 51 123 اسلام کی تعلیم میں جہاں دل کی پاکیزگی اور نیکی کا حکم دیا گیا ہے وہاں ظاہری نیکی اور پاکیزگی پر بھی بہت زور ہے.کیونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اور باطن کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے.دونوں ایک دوسرے پر اچھائی یا برائی میں اثر ڈالتے ہیں.حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الیم کو یہ فرماتے سنا لَتُسَوَّنَ صُفُوْفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ کہ تم لوگ اپنی صفیں ( نماز پڑھتے ہوئے) سیدھی بناؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے در میان مخالفت پیدا کر دے گا.(بخاری کتاب الجماعة والامامۃ باب تسوية الصفوف عند الاقامة و بعدها حديث نمبر 717) الله سة اور مسلم میں ہے كَانَ رَسُولُ الله الله يُسَوّى صُفُوفَنَا کہ رسول الله صلى ا م ہماری (نماز کی صفیں سیدھی کروایا کرتے تھے حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ یہاں تک کہ گویا آپ ان سے تیر سیدھا کر رہے ہیں.حَتَّى رَأَي أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا یہاں تک کہ آپ نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں پھر آپ ایک دن باہر تشریف لائے اور ( نماز کے لئے) کھڑے ہوئے حَتَّى كَادَ يُكَبِرُ یہاں تک کہ قریب تھا کہ اقامت کہی جائے.فَرَأَي رَجُلًا بَادِيًا صَدْرَهُ آپؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنا سینہ نکالا ہوا تھا فقال تو آپ نے فرمایا: عِبَادَ الله لَتُسَوَّنَ صُفُوْفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ که بخدا تو اپنی صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تمہارے چہروں کے در میان مخالفت ڈال دے گا.(مسلم کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف واقامتها وفضل الاول فأول منها...حديث نمبر 979) اس حدیث میں یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ ظاہر کا دل پر اور دل کا ظاہر پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور ظاہر کا ٹیڑھا پن اور غلط روش تعلقات کی غلط روش کا باعث ہو سکتے ہیں.نماز خدا کا حکم ہے جو ہمارے نبی صلی الی ایم کے واسطے سے ہم کو ملا اور صحیح نماز وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ ہم نے ہمیں سکھائی اس لئے ہمارا فرض ہے کہ نماز اسی طرح ادا کریں جس طرح ہمیں سکھائی گئی ہے.
درس حدیث 124 درس حدیث نمبر 52 حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الیم کو سنا آپ فرماتے تھے: عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ عَيْن بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ الله (ترمذی کتاب فضائل الجهاد باب ما جاء في فضل الحرس فی سبیل اللہ حدیث نمبر 1639) کہ دو آنکھیں ہیں جن کو کبھی آگ نہیں چھوٹے گی ایک تو وہ آنکھ جو اللہ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہائے اور دوسری وہ آنکھ جو خدا کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے بیدار رہے.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی یکم نے دین کے دو پہلوؤں کا نہایت لطیف رنگ میں تذکرہ فرمایا ہے.دین کا ایک پہلو خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کی وجہ سے اس سے محبت اور خدا تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے احساس کی وجہ سے اس کا خوف اور ڈر ہے اور یہ دونوں باتیں ہیں جن کی وجہ سے انسان کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں.محبوب کی محبت کی وجہ سے بھی انسان روتا ہے اور محبوب کی ناراضگی اور جدائی کے ڈر سے بھی انسان روتا ہے اس لئے وہ آنکھ جو خدا کی محبت میں آنسو بہاتی ہے اور خدا کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے آگ اس کے قریب بھی نہیں جاسکتی.دین کا دوسرا پہلو ہے دین کی خدمت کے کام میں محنت کرنا جہد و جہد کرنا کوشش کرنا دین کی حفاظت کے لئے جانفشانی کرنا حضور علی الی یکم نے فرمایا کہ جو آنکھ اللہ کے راستہ میں پہرہ دیتی ہیں رات جاگتے گزار دیتی ہو اس آنکھ کو بھی آگ نہیں چھوئے گی.اس آنکھ نے خدمت کرتے ہوئے جاگتے رات گزاری ہے.تو ہمارے نبی صلی علیم نے ایک طرف روحانیت اور محبت الہی اور خوف خدا کرنے والی آنکھ کو عذاب سے محفوظ قرار دیا ہے اور دوسری طرف خدمت دین کرنے والی آنکھ کو عذاب سے محفوظ قرار دیا ہے.
درس حدیث 125 درس حدیث نمبر 53 حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمر و جو انصار میں سے تھے اور ان کو بدر میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل تھا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا: مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ آخرِ فَاعِلِهِ (مسلم کتاب الامارۃ باب فضل اعانة الغازى فى سبيل الله بمركوب...حديث نمبر 4899) ان مختصر سے الفاظ میں ہمارے نبی صلی ال یکم نے نیکی کرنے اور ثواب حاصل کرنے کا ایک عظیم الشان دروازہ کھول دیا ہے.جب ہماری جماعت میں دربار خلافت سے کسی نیک کام کے لئے چندہ کی تحریک ہوتی ہے تو جو لوگ معمولی آمد رکھتے ہیں اور بہ مشکل گزارہ کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کے دل میں اخلاص اور نیکی جوش مار ہی ہوتی ہے وہ تڑپتے اور بے چین ہو رہے ہوتے ہیں کہ کاش ان کو بھی مالی خوشحالی ہوتی اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے.جب حضرت صاحب کی طرف سے اپنے بچوں کو وقف کرنے کی تحریک فرماتے ہیں تو وہ احمدی جن کے بچے نہ ہوں یہ خواہش کرتے ہیں کہ اللہ ان کو اولاد دیں اور وہ اس کو وقف کر کے اللہ کے حضور پیش کریں.جو مختصر حدیث آج کے درس میں ہے اس کے مضمون پر عمل کر کے ایسے بے دست و پالوگ بھی خدمت میں حصہ لے سکتے ہیں ، حضور صلی ا یکم فرماتے ہیں: مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ کہ جو شخص کسی کو نیکی کی تحریک کرتا ہے کسی اچھے کام کی راہ دکھاتا ہے اس کے لئے وہی اجر ہے جو ان نیکی کے اچھے کام کرنے والے کو ملے گا.اس لطیف نکتہ معرفت کے ذریعہ ہمارے نبی صلی الیم نے نیکی اور ثواب کا ایک وسیع میدان کھول دیا ہے اور معاشرہ میں بھی باہمی تعلقات کو اچھے رنگ میں پڑھانے کا رستہ کھول دیا ہے اور ان لوگوں کی تسکین کے سامان بھی فرما دیئے ہیں جو دوسروں کو نیک کام کرتے دیکھ کر اپنی محرومی پر دکھ محسوس کرتے ہیں.ہر وہ شخص جو خود مجبوریوں کی وجہ سے نیک کام میں شمولیت نہیں کر سکتا وہ اپنی زبان و قلم سے دوسروں کو نیکی کی تحریک کر کے وہی نیکی کماسکتا ہے.
درس حدیث 126 درس حدیث نمبر 54 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ كَانَ رَسُولُ الله الله إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ نَفَتَ فِي كَفَّيْهِ بِقُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ وَ بِالْمُعَوَّذَتَيْنِ جَمِيْعًا ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ وَمَا بَلَغَتْ يَدَاهُ مِنْ جَسَدِه ( بخاری کتاب الطب باب النفث في الرقية حديث نمبر 5748) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو سورة قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اور وہ دو سورتیں جو معوذتین کہلاتی ہیں یعنی قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ یہ سب اکٹھی پڑھ کر پھر دونوں ہاتھوں پر پھونکتے پھر ان ہاتھوں کو اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتے اور اپنے جسد مبارک پر بھی جہاں تک ہاتھ پہنچتے.اس حدیث کو پڑھ کر حضرت مصلح موعود کا ایک مصرع یاد آجاتا ہے کہ سؤوں تو تجھ کو دیکھ کر جاگوں تو تجھ پہ ہو نظر ہمارے نبی صلی اللی علم کے متعلق امام بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی ا لم كَانَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ (ابن ماجہ کتاب الطهارة وسننها باب ذكر الله عزوجل على الخلاء والخاتم في الخلاء حدیث نمبر 302) کہ آپ ہر وقت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے.تو جیسا کہ اس حدیث میں ہے آپ مصلی یکم سونے سے قبل بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے سوتے اور رات کو آنکھ کھلتی تو اللہ کا ذکر فرماتے.تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو اس وقت ذکر اللہ کرتے اس طرح ہر کام سے پہلے اور بعد اللہ کا ذکر کرنا آپ صلی للی کم کا معمول تھا.سونے سے پہلے آپ صلی للی علم قرآن شریف کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مار کر ان کو اپنے چہرہ اور جسد پر پھیر لیتے.سورۃ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ میں توحید کی کامل تعلیم ہے اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ میں تمام خارجی چیزوں کے شر سے بچنے کی دعا ہے اور قُل اعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ میں انسان کے نفس کے اندر جو خیالات اٹھتے ہیں ان کی برائیوں سے بچنے کے لئے دعا کی گئی ہے.
درس حدیث 127 درس حدیث نمبر 55 ا عَنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ اَنَساً مَا سَمِعْتَ نَبِيَّ اللَّهِ يا الله فِي النُّوْمِ؟ فَقَالَ قَالَ النَّبِيُّ الله مَنْ أَكَلَ مِنْ هذِهِ الشَّجَرَةِ فَلَا يَقْرَبْنَا أَوْلَا يُصَلِّيَنَّ مَعَنَا ( بخاری کتاب الاذان باب ماجاء في الثوم النئ والبصل الكراث حدیث نمبر 856) اسلام سے پہلے بعض مذاہب میں یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ مذہب گندہ رہنا اور گندے کپڑے پہننا سکھاتا ہے.یہ خیال بھی پیدا ہو تا رہا کہ جتنی جوئیں ایک آدمی کے سر اور کپڑوں میں ہوں گی اتنا ہی ثواب اس کو ملے گا.بعض شدت پسند مسلمانوں میں بھی یہی خیال رہا ہے جو اسلام کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے.ہمار نبی صلی ای کم اپنی تمام تر سادگی کے باوجود نہایت صاف اور پاکیزہ رہتے تھے آپ کا بدن اور آپ کے بال اور آپ کا لباس حد درجہ پاکیزہ ہو تا اور صاف اور نفیس مگر سادہ ہو تا تھا.آپ خوشبو کو حد درجہ پسند فرماتے اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے کوئی ریشم آپ کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہیں چھوٹی اور میں نے کوئی مہک آپ کی مہک سے زیادہ عمدہ نہیں سونگھی.الله سة مسلم کتاب الفضائل باب طيب رائحة النبي يا الله...حدیث نمبر 6053) جو حدیث آج پڑھی گئی ہے اس میں عبد العزیز بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ آپ نے حضور صلی ا ظلم سے لہسن کے بارہ میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی صلی الیم نے فرمایا کہ جو شخص یہ سبزی کھائے وہ ہمارے قریب نہ آئے اور نہ ہی ہمارے ساتھ نماز پڑھے.اب اس کے باوجود کہ حضور صلی یکم نماز با جماعت کے لئے حاضر ہونے کی حد درجہ تاکید فرماتے تھے.آپ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کچا لہسن کھایا ہو ، مجمع میں آنے اور نماز با جماعت میں حاضر ہونے سے منع فرمایا کیونکہ اس میں ایسی بو اٹھتی ہے جو دوسروں کو تکلیف دیتی ہے.الله سة
درس حدیث 128 درس حدیث نمبر 56 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ أُتِي بِلَبَنٍ قَدْ شِيْبَ بِمَاءٍ وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِى وَعَنْ شِمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ فَشَرِبَ ثُمَّ أَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ وَقَالَ الْأَيْمَنَ الْأَيْمَنَ م الله (بخاری کتاب الاشربة باب الأيمن فالأيمن في الشرب حديث نمبر 5619) قرآن شریف میں اچھے لوگوں کا ذکر دائیں طرف والوں کے طور پر کیا گیا ہے اور نابکار لوگوں کا ذکر بائیں طرف والوں کے طور پر کیا گیا ہے.یہ ایک قدرتی انداز ہے دو گواہوں کو الگ الگ کر کے دکھانے کا.ہمارے نبی صلی ا یکم جو کام بجا لاتے اس کو اگر دائیں اور بائیں دونوں طرف سے شروع کیا جا سکتا ہو تو حضور صلی الیہ کی بہت باقاعدگی سے دائیں طرف سے ابتداء کرتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی ل کی اپنے کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے.اگر اجتماعی طور پر کھانا پینا ہو تو اس میں بھی حضور صلی ا یہ پسند فرماتے کہ درمیانی بزرگ کے بعد ڈش وغیرہ دائیں طرف چلایا جائے.حضرت انس بن مالک جن کو لمبا عرصہ حضور صلی للی نیلم کی خدمت کا موقع ملا، بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی ا کرم کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا ہمارے ملک میں غالباً اس کو کچی لسی کہتے ہیں) حضور صلی اللہ ﷺ نے اس میں سے کچھ پیا اس وقت حضور صلی الی یکم کے دائیں ہاتھ ایک بدو بیٹھا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ حضرت ابو بکر تشریف فرما تھے.آپ نے اس دودھ میں سے کچھ پیا پھر اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے بدو کو پینے کے لئے دیا اور اس کی وجہ کی وضاحت بھی یہ کہہ کر فرما دی کہ الْأَيْمَنَ الْأَيْمَنَ دائیں طرف پھر دائیں طرف.سة
درس حدیث 129 درس حدیث نمبر 57 حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اﷺ نے فرمایا: مَنْ لَا يَرْحَمِ النَّاسَ لَا يَرْحَمْهُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ مسلم کتاب الفضائل باب رحمة الصبيان و العيال وتواضعه وفضل ذالك حديث نمبر 6030) حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا.یہ چھوٹا سا فقرہ جو ہمارے نبی صلی علیم کی زبان مبارک سے نکلا ہے دنیا کی ہر بے رحمی، ناجائز سختی ، بد مزاجی، بد اخلاقی، دوسروں کی حق تلفی، بچوں اور عورتوں اور اپنے جیسے کمزوروں پر ظلم کی جڑھ کاٹنے کے لئے کافی ہے.لوگ خدا کا نام لیتے ہیں بظاہر اس سے خوف کا اظہار کرتے ہیں، اس کی عبادت اور اس کی محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اگر وہ خدا کی مخلوق پر شفقت نہیں کرتے ، ان سے محبت نہیں کرتے ، ان سے ہمدردی کا سلوک نہیں کرتے تو ان کا یہ دعویٰ کہ وہ خدا کی عبادت کرتے ہیں اور خدا کے بندے ہیں اور اگلے جہان میں خدا سے نرمی اور پیار کا سلوک کرے گا سراسر بے معنی ہے.مشہور حدیث ہے کہ الْخَلْقُ عَيَالُ اللهِ (المعجم الاوسط جلد 5 صفحہ 153 حدیث نمبر 5541 باب من اسمه محمد، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1999ء) کہ خدا کے بندوں کو خدا سے وہی تعلق ہے جو بچوں کو اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے.جس طرح کوئی ماں باپ اس شخص سے خوش نہیں ہو سکتے جو ان کے بچوں کو دکھ دیتا ہے اور رحم سے کام نہیں لیتا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا جو اس کے بندوں پر ظلم کرتا ہے.ایک دفعہ کچھ صحرائی بڈو حاضر تھے انہوں نے پوچھا کیا تم لوگ اپنے بچوں کو چومتے ہو ؟ جواب ملاہاں ان بڑوؤں نے کہا مگر ہم تو نہیں چومتے.اس پر حضور صلی یکم نے فرمایا اگر تمہارے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں.الله
درس حدیث 130 درس حدیث نمبر 58 رض حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی نیلم نے فرمایا: صَلوةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلوةَ الْفَكِّ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً ( بخاری کتاب الاذان باب فضل صلاة الجماعة وكان الأسود...حديث نمبر 646) ایک شخص کی زندگی کے دو پہلو ہیں ایک پہلو اس کی اپنی زندگی کا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ایک معاشرہ کا ایک سوسائٹی کا حصہ ہے جس میں اس کے تعلقات دوسرے لوگوں سے قائم ہوتے ہیں.ایک انسان کی اپنی زندگی میں بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، کچھ ضرور تیں ہیں، کچھ کام اس کو اپنی ذاتی زندگی کے بارہ میں بھی کرنے پڑتے ہیں اور کچھ ذمہ واریاں انسان کی لوگوں سے تعلقات وجہ سے بھی پڑتی ہے اس کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ، اپنے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ، اپنے محلہ والوں کے ساتھ ، ہم سایوں کے ساتھ ، شہر والوں کے ساتھ ، اپنے ملک والوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ذمہ واریاں ادا کرنا پڑتی ہیں.اسلام نے جو تعلیم ایک انسان کو دی ہے اس کے بھی یہی دو پہلو ہیں.بعض احکامات ور بعض چیزوں سے رکنے کا حکم ایک انسان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور بعض احکامات اور بعض چیزوں سے رکنے کا حکم ایک شخص کے دوسروں سے تعلقات کی وجہ سے ہے.عبادت کے بارہ میں جو حکم ہیں وہ بھی دو طرح کے ہیں.بعض عباد تیں ایک آدمی کی ذاتی عبادتیں ہیں.وہ رات کو اٹھتا ہے ، وضو کرتا ہے، نفل پڑھتا ہے، باقی دنیا کو اس کا پتہ بھی نہیں لگتا.دوسری طرف ایک مرد کو یہ حکم ہے کہ پانچ وقت اپنے محلہ کی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرے، جمعہ کے دن شہر کے لوگوں کے ساتھ جمعہ ادا کرے، سال میں دو دفعہ اپنے علاقہ کے لوگوں کے ساتھ عیدین کی نماز پڑھے.توفیق ہو تو حج کے لئے مکہ جاکر ملک ملک کے لوگوں کے ساتھ عبادت میں شریک ہو.الگ تنہائی میں اکیلے نماز پڑھنے کی برکتیں بھی ہیں.مگر دن میں پانچ دفعہ اپنے محلہ کے لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز کی اپنے برکتیں ہیں اس لئے جو نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے اس کے متعلق ہمارے نبی صلی للی کرم نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز سے 25 درجہ زیادہ ہے.
درس حدیث 131 درس حدیث نمبر 59 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ النُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ ( بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم حدیث نمبر 1903) رمضان المبارک کے روزے رکھ کر صبح سے شام تک کچھ نہ کھانا نہ پینا اور بھوک اور پیاس کا مقابلہ کرنا خصوصاً بعض علاقوں میں جہاں سخت گرمی پڑتی ہے اور دن بھی 18،17 گھنٹے کا ہو جاتا ہے ایک زبر دست مجاہدہ ہے اور اللہ کے فضل سے سچے مومن اس مجاہدہ میں پورے اترتے ہیں.مگر حضور صلی للی کم کی جو حدیث مبارکہ پڑھی گئی ہے اس میں ایک زبر دست انذار بھی ہے.بعض لوگ روزہ رکھتے ہیں بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرتے ہیں لیکن اگر تاجر ہیں تو سودے میں خیانت کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں، افسر ہیں تو رشوت لینے سے گریز نہیں کرتے، زمیندار ہیں تو دوسروں کی زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں.طالبعلم ہیں تو امتحان دیتے ہوئے نقل کرتے ہیں، استاد ہیں تو اپنی گھنٹی میں سنجیدگی کے ساتھ پڑھانے کے بجائے بے کار باتیں کر رہے ہوتے ہیں، خاتون خانہ ہیں تو اپنی ہمسائی خواتین کی عیب شماری کر رہی ہوتی ہیں، گواہ ہیں تو جھوٹی گواہی دے رہے ہوتے ہیں، ڈرائیور ہیں تو ٹریفک کے قواعد کی پابندی نہیں کرتے، اگر حکیم ہیں تو غلط دوائی تجویز کرتے ہیں، اگر پنساری ہیں تو ناقص دوائی مریض کو مہیا کرتے ہیں، اگر دودھ فروش ہیں تو اس میں پانی ملا دیتے ہیں، اگر مولوی ہیں تو جھوٹے فتاویٰ دیتے ہیں بلکہ نکاح پر نکاح پڑھا دیتے ہیں.ہمارے نبی صلی کریم نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ جو جھوٹی بات نہیں چھوڑتا، جھوٹی بات پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ (روزہ رکھ کر) اپنا کھانا پینا چھوڑے.
درس حدیث درس حدیث نمبر 60 132 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صل اللہ ﷺ نے فرمایا: اِتَّقُوا اللَّقَانِيْنَ قَالُوا وَمَا اللَّقَانَانِ يَا رَسُوْلَ اللهِ ؟ قَالَ الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيْقِ النَّاسِ أَوْ ظِلِّهِمْ (مسلم کتاب الطهارة باب النهي عن التخلى فى الطرق والظلال حدیث نمبر 618) ہمارے نبی صلی الی و کم تو ہر نیکی اور ہر خوبی میں تمام بنی آدم سے بڑھے ہوئے تھے آپ کی دو خوبیوں کی جھلک اس مختصر فقرہ میں نظر آجاتی ہے.آپ صلی کم حد درجہ پاک صاف، نفیس اور لطیف تھے.آپ کا لباس بہت سادہ مگر پاکیزہ ہوتا تھا.آپ کے بدن مبارک سے خوشبو کی مہک آتی تھی.آپ کی حد درجہ مجاہدانہ زندگی کے باوجود آپ کی ہتھیلی کو چھونے والے بتاتے ہیں کہ ہر قسم کے ریشم سے زیادہ ملائم تھی.دوسری خوبی جو اس فقرہ میں جھلکتی ہے یہ ہے کہ آپ صلی الی یکم انسانوں کو دکھ پہنچانے والی ہر چیز کو حد درجہ نا پسند کرتے اور اس سے منع فرماتے تھے.حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے فرمایا: دو باتوں سے جو لعنت کا باعث ہوتی ہیں بچو.ایک لعنت تو اس شخص کو دی جاتی ہے جو لوگوں کے چلتے راستے پر قضاء حاجت کرتا ہے اور دوسرے اس شخص کے لئے جو لوگوں کی سایہ دار جگہ پر (جہاں لوگ آرام کرتے ہیں) قضاء حاجت کرتا ہے.ان دونوں ارشادات سے جہاں حضور صلی للی کلم کے پبلک کو تکلیف دہ چیزوں سے بچانے کا حکم ہے ، وہاں حضور صلی الیکم کی صفائی اور نفاست کا اظہار بھی ہوتا ہے.
درس حدیث 133 درس حدیث نمبر 61 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں: اني سَمِعْتُ النَّبِ يا الله يَقُوْلُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا....بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ (بخاری کتاب الصلوۃ باب من بنى مسجداً حديث نمبر 450) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو دنیا کے ملک ملک میں خدا کی عبادت اور اس کے نام کو بلند کرنے کے لئے مساجد کی تعمیر کی توفیق مل رہی ہے اور جماعت اللہ کے فضل سے تعمیر مساجد کی برکتوں سے متمتع ہو رہی ہے اور ہزاروں اشخاص اسلام اور احمدیت کی آغوش میں آرہے ہیں دراصل مساجد کو اسلام میں مرکز کی حیثیت حاصل ہے.پانچ (5) وقت مسلمان بھائی خدا کے گھر میں اکھٹے ہوتے ہیں، عبادت بھی کرتے ہیں اور اسلام کی اشاعت اور خدمت کے مختلف پہلوؤں پر مشورہ بھی کرتے ہیں.ایک دوسرے کی خیریت کا علم بھی ان کو ہوتا ہے.غیر مسلموں کو بھی مسجد آکر اسلام کی اصل اور صحیح تعلیم سے واقفیت ہوتی ہے.ہمارے نبی صلی للی یکم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپنے رہائشی گھروں کی تعمیر سے بھی پہلے حضور صلی علی رام نے مسجد کی تعمیر کی.بلکہ خود اس کی تعمیر میں بنفس نفیس کام کیا.حضرت عثمان بن عفان بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے سنا: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا کہ جو شخص مسجد کی تعمیر کرتا ہے بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ الله تعالى و اس کے لئے جنت ویسی ہی تعمیر کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.“ اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑگئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو.محض اللہ اُسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے ، ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 93 مطبوعہ ربوہ) گا."
درس حدیث 134 درس حدیث نمبر 62 عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ...قَالَ سَمِعْتُ النَّبِالله يَقُولُ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَةٌ سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ ( ترمذی کتاب العلم باب الحث على تبليغ السماع حدیث نمبر 2657) ہماری جماعت کی تعلیم کی اصل بنیاد قرآن شریف پر ہے، اس کے بعد ہمارے نبی صلی ا ظلم کی سنت پر.پھر احادیث ان دونوں بنیادی چیزوں کے لئے گواہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن مجید اور سنت کی تعلیمات کو سمجھانے اور تشریح کرنے کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.آپ کے خلفاء کرام اللہ تعالیٰ کے القاء سے جماعت کی علمی رہنمائی کرتے ہیں.یہ رہنمائی جہاں تحریر کی شکل میں ہوتی ہے وہاں زبانی سوالات کی شکل میں بھی ہوتی ہے اسی طرح جماعت کی تاریخ بھی زبانی روایات کی شکل میں ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچی ہے.یہ روایات چونکہ زبانی چلتی ہیں اور ان کی بنیاد ہی حافظہ پر ہوتی ہے اس لئے اس میں غلطی یا غلط فہمی کا امکان ہو سکتا ہے.اس لئے روایت کے بیان کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے.جو حدیث آج کے درس میں پیش کی جارہی ہے اس میں یہ مضمون بھی ہے.حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی العلیم سے سنا، آپ فرمارہے تھے نَضَّرَ اللهُ امْرَ اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا جس نے ہم سے کوئی بات سنی فَبَلَغَهُ كَمَا سَمِعَہ اور جس طرح اس نے وہ بات سنی اسی طرح ہی آگے پہنچائی.اس حدیث میں ور علی ایم نے بڑی پیاری دعا اس شخص کو دی ہے جو جس طرح بات سنتا ہے اسی طرح ٹھیک حضور الله ٹھیک بغیر کسی کمی بیشی کے آگے پہنچاتا ہے.
درس حدیث 135 درس حدیث نمبر 63 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا: عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيْمَا حَبٌ وَكَرِهَ إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ (مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فى غير معصية و تحريمها في المعصية حديث نمبر 4763) بعض دفعہ یہ افسوسناک بات دیکھنے میں آتی ہے بعض لوگ اس وقت تک بڑے ذوق و شوق سے ذمہ وار عہدیداروں کی فرمانبرداری کرتے ہیں کہ جب وہ حکم یا فیصلہ جو دیا جارہا ہے ان کی پسند کے مطابق ہو مگر جب کوئی ایسا حکم ہو یا ایسا فیصلہ ہو جو انہیں نا پسند ہو تو ادھر اُدھر کے بہانے بنانے لگتے ہیں.ہمارے نبی صلی اللہ علم کی یہ تعلیم نہیں جو حدیث پڑھی گئی ہے اور حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبد اللہ سے مروی ہے جس میں ہمارے نبی صلی یکلم نے صاف صاف ارشاد فرمایا ہے کہ ایک مسلمان پر حکم اور فیصلہ کا سنا اور پھر اس کی اطاعت کرنالازمی ہے صرف ایک صورت ہے کہ واضح طور پر وہ حکم کسی گناہ کا حکم ہو اور کوئی شبہ نہ ہو کہ یہ حکم اسلام کی تعلیم کے صریحاً خلاف ہے اگر وہ اپنی پسند کا ہو انسان کو اچھا لگتا ہو تب بھی اس کی اطاعت لازمی ہے اور اگر وہ حکم شخصة انسان کو پسند نہ ہو اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو تب بھی اس کی اطاعت ضروری ہے.یہ صاف بات ہے کہ انسان دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا انسان کی زندگی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ اس کو حاصل ہی نہیں ہو سکتیں اگر وہ تن تنہا زندگی گزار رہا ہو.انسان کو زندہ رہنے کے لئے کھانے پینے کی ضرورت ہے ، لباس کی ضرورت ہے ، مکان کی ضرورت ہے ، علاج کی ضرورت ہے اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حاصل کرنے کے لئے انسانوں کو مل جل کر رہنا پڑتا ہے اور مل جل کر رہنے کی صورت میں انسان ایک نظام کا محتاج ہے.اگر کوئی نظام نہ ہو ، کوئی قانون نہ ہو یا نظام اور قانون کی پابندی نہ ہو تو مل جل کر رہنے کا جو مقصد ہے اس میں ہزار خرابیاں پید اہوں گی.اس لئے ہمارے نبی صلی ا ہم نے انسان کے مل جل کر رہنے کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے نظام کی اطاعت اور قانون کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے.
درس حدیث 136 درس حدیث نمبر 64 رض حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا آنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَاسَمِعَ.مسلم المقدمة المؤلف باب النهي عن الحديث بكل ما سمع حديث نمبر (7) اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : وَ اِذَا جَاءَهُم أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَ إِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمُ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُم (النساء:84) کہ جب ان کے پاس کوئی امن یا خوف کی خبر آئے تو اس کو مشتہر کر دیتے ہیں وہ اگر اسے پھیلانے کے بجائے رسول کو پہنچاتے یا اپنے ہی ذمہ دار آدمیوں کو پہنچاتے تو ان میں سے جو اس سے استنباط کر سکتے ہیں اس کی اصلیت کو جان لیتے.یہ معاشرہ کی بیماری جس کا اس آیت میں ذکر ہے بہت کثرت سے ہمارے مشرقی ممالک میں پائی جاتی ہے.جس کے نتیجہ میں بڑی کثرت سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، بدظنیاں پھیلتی ہیں، شرارتیں پھوٹتی ہیں اور جھگڑے پید اہوتے ہیں اور دشمن ممالک کو موقعہ ملتا ہے کہ وہ اپنے مخالف ممالک کو کمزور کریں اور انہیں نقصان پہنچائیں.بلکہ بعض ممالک با قاعدہ تکنیک طور پر اپنے دشمن ممالک سے یہ سلوک کرتے ہیں، جو حدیث ہم نے آج پڑھی ہے اس میں اس بیماری کا علاج بتایا گیا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے فرمایا لوگ اس بات کو معمولی بات سمجھتے ہیں کہ ایک بات کسی سے سنی اور اس کو آگے بیان کر دیا نہ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا بات درست ہے یا نہیں، یا درست ہو بھی سکتی ہے یا نہیں، نہ یہ دیکھتے ہیں کہ کون لوگ اس کو بیان کر رہے ہیں اور اس کے بیان سے ان کا مقصد کیا ہے ، حضور صلی الی یکم فرماتے ہیں کہ انسان کے جھوٹ کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر چیز جو سنتا ہے آگے بیان کر دیتا ہے.اس مختصر سی حدیث میں حضور صلی الیم نے ایک سخت انذار کیا ہے کہ وہ شخص جو ارادةً جھوٹ نہیں بول رہا مگر بے احتیاطی سے سنی سنائی بات آگے بیان کرتا چلا جاتا ہے وہ بھی جھوٹ بولنے کا مر تکب ہو رہا ہے.
درس حدیث 137 درس حدیث نمبر 65 حضرت ابوہریر ہؓ بیان کرتے ہیں کہ اَنَّ رَسُولَ الله له الله قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْغِيْبَةُ؟ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ قِيْلَ أَفَرَتَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ قَالَ إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيْهِ فَقَدْ بَهَنَّهُ (مسلم کتاب البر والصلۃ والادب باب تحريم الغيبة حديث نمبر 6593) قرآن شریف کی سورۃ الحجرات میں دس بارہ کے لگ بھگ ایسی باتوں کا ذکر ہے جو لوگوں اور دوستوں اور رشتہ داروں کے تعلقات میں فساد پیدا کرتے ہیں اور قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں میں جھگڑے کا باعث بنتے ہیں ان باتوں میں جن سے منع کیا گیا ہے شاید سب سے زیادہ زور غیبت کی ممانعت پر دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَغْتَب بَعْضُكُم بَعْضًا (الحجرات:13) کہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے ا يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ اخِيهِ مَيْتًا کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے فوت شدہ بھائی کا گوشت کھائے.اب ذرا تصور کریں اس بات کا ایک شخص کا بھائی فوت ہو گیا ہے اس کے ماں باپ اپنے بیٹے کی وفات کے غم میں نڈھال پڑے ہیں، اس کی بیوی خاوند کی مستقل جدائی سے تڑپ رہی ہے ، اس کے بیٹے، بیٹیاں اپنے شفقت کرنے والے باپ کی وفات کے غم میں آنسو بہارہے ہیں مگر مرنے والے کا بھائی اٹھتا ہے اور بھائی کی لاش سے گوشت کاٹ کر کھاناشروع کر دیتا ہے.کیا آپ اس کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟ مگر قرآن شریف جو سب کچھ جاننے والے کا کلام ہے یہ فرماتا ہے کہ جو شخص کسی آدمی کی غیر موجودگی میں اس کی غیبت کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے.بعض دفعہ لوگ غیبت کے شوق میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم جو بات کر رہے ہیں وہ بالکل سچ ہے اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں یہ یہ بات پائی جاتی ہے.ہمارے نبی صلی علیہ کم نے اس بارہ میں فرمایا: جانتے ہو غیبت کیا ہوتی ہے ؟ صحابہ کرام نے حسب معمول ادب سے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.حضور صلی ا ولم نے فرمایا اگر تم کسی شخص کی غیر کی موجودگی میں کسی شخص کے متعلق بات کرو جو اس میں پائی جاتی ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر تم کوئی ایسی بات اس کے متعلق بیان کرو جو اس میں نہیں پائی جاتی تو یہ تو بہتان ہے.
درس حدیث 138 درس حدیث نمبر 66 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: بَيْنَمَا كَلْبُ يُطِيْفُ بِرَكِيَّةٍ قَدْ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بِغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَهَا فَاسْتَقَتْ لَهُ بِهِ فَسَقَتْهُ إِيَّاهُ فَغُفِرَ لَهَا به (مسلم کتاب الطب باب فضل ساقى البهائم المحترمة واطعامها حديث نمبر 5861) تیسری دنیا کے بعض ممالک میں جو باتیں ہمیں قابل اصلاح نظر آتی ہیں ان میں ایک بات جانوروں سے حسن سلوک کی کمی ہے.بعض دفعہ ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک ریڑھے پر چارہ وغیرہ لا دا ہوا ہے، گھر والوں نے ایک چھوٹا بچہ اس ریڑھے کو چلانے کے لئے بٹھایا ہوا ہے اور ریڑھے کو ایک دبلا پتلا، سوکھا ہوا گدھا چلا رہا ہے جس کو دیکھ کر یہ احساس ہو تا ہے کہ گدھے کو شاید کچھ کھانے کو بھی نہیں دیا گیا اور وہ کم عمر بچہ اس گدھے کو چلنے پر مجبور کرنے کے لئے سوٹی پر سوٹی مار رہا ہے.ہمارے نبی صلی ال نیلم نے بار بار جانوروں سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے جو حدیث ابھی پڑھی گئی ہے وہ اس مضمون کو خوب بیان کرتی ہے.حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک کتا ایک کنویں کے گرد چکر لگارہا تھا اور بعید نہیں تھا کہ پیاس اس کو ہلاک کر دے کہ بنی اسرائیل کی کنچنیوں میں سے ایک کنچنی نے اسے دیکھ لیا، اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کے ذریعہ اس کتے کے لئے پانی نکالا اور اس کو پلایا.اس کنچنی کو اس وجہ سے بخش دیا گیا.دیکھیں کس طرح بظاہر نظر ایک چھوٹے سے کام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بظاہر نظر ایک بہت بڑے گناہگار کو مغفرت سے نوازا.اسی قسم کے ایک بیان پر ہمارے نبی صلی علی کرم کے صحابہ نے حضور سے پوچھا: اِنَّ لَنَا فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا کہ کیا ہمارے لئے جانوروں (سے نیک سلوک) میں بھی اجر ہے.صلى الم نے فرمایا: فِي كُلِّ كَبِدِ رَطْبَةٍ أَجْرُ کہ ہر جاندار سے نیک سلوک میں اجر ہے.(مسلم کتاب الطب باب فضل الساقى البهائم والمحترمة واطعامها حديث نمبر 5859)
درس حدیث 139 درس حدیث نمبر 67 حضرت مغیرہ بن شعبہ نے امیر معاویہ کو خط لکھا کہ سَمِعْتُ النَّبِي يا الله يَقُولُ إِنَّ اللهَ كَرِةَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيْلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَ كَثْرَةَ السُّؤَالِ (بخاری کتاب الزکوۃ باب قول الله تعالى لا يسألون الناس الحاف...حديث نمبر 1477) اس حدیث میں ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے معاشرہ میں پائی جانے والے تین کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ کی نفرت و کراہت کا ذکر فرمایا ہے اور تینوں کمزوریوں ایسی ہیں جو انسانی معاشرہ کے لئے حد درجہ نقصان دہ اور جسمانی اور روحانی طور سخت مضر ہیں.پہلی بات جس کے متعلق ہمارے نبی صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ اللہ اس سے کراہت کرتا ہے وہ قیل و قال یعنی بے کار باتیں اور بے فائدہ گفتگو ہے ذرا سا غور کرنے والا مشاہدہ کرنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ بے کار باتیں اور بے تحقیق گفتگو کس طرح معاشرہ کے امن و چین کو برباد کر سکتی ہیں، کس طرح دنیا میں فساد و بگاڑ پیدا کر سکتی ہیں.کس طرح افراد خاندانوں، اداروں بلکہ ملکوں کے تعلقات کو بگاڑ سکتی ہیں.اور کس طرح نوجوانوں کے قیمتی وقت کو جو محنت اور جانفشانی کا وقت ہو ضائع کر سکتی ہیں.دوسری بات جس کے بارہ میں ہمارے نبی صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ اسے نا پسند کرتا ہے إضَاعَةُ الْمَالِ ہے.مذہب جہاں مال کی محبت سے منع کرتا ہے وہاں مال کے غلط استعمال اور فضول خرچی سے بھی سختی سے روکتا ہے.قرآن شریف میں وضاحت ہے کہ مال اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قیام یعنی ان کے سہارے کا ذریعہ بنائے ہیں اور فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں.تیسری بات جس کے متعلق ہمارے نبی صلی علی کنیم فرماتے ہیں کہ اللہ کو ناپسند ہے کثرت سوال ہے.کثرت سوال کے دو معنے ہیں ایک بہت مانگنا دوسرے پوچھنا.بہت مانگنے کا مطلب ہے کہ محنت اور کوشش کر کے حلال کمائی کے بجائے لوگوں سے مانگ مانگ کر اپنا پیٹ پالنا اور دوسرا بہت پوچھنے سے مراد یہ ہے کہ علمی باتوں پر غور و فکر کر کے سچائی معلوم کرنے کے
درس حدیث 140 بجائے سستی اور دماغی محنت نہ کرنے کی خاطر ہر بات دوسروں سے دریافت کرنا.تو جہاں بھیک مانگنا ایک برائی ہے وہاں دماغی کاوش اور جدوجہد کے بجائے اور خود مطالعہ اور تدبر کو چھوڑ کر صرف دوسروں کے علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا جو انسان کی اپنی صلاحیتوں کو بے کار چھوڑنے کا دوسر انام ہے.
درس حدیث 141 درس حدیث نمبر 68 حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ﷺ نے فرمایا: الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَقْرَاءُ الْقُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ كَالْأُ تُرجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيْحُهَا طَيِّبُ وَالْمُؤْمِنُ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا ( بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأى بقراءة القرآن....حديث نمبر 5059) اس حدیث میں ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے بڑے لطیف انداز میں اور ایک خوبصورت مثال کے ساتھ اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ اچھے مومن کا دل بھی ایمان اور محبت سے بھرا ہوا ہو تا ہے اور اس کا عمل بھی دوسروں کو فیض پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے.حضور صلی الم نے فرمایاوہ مومن جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے وہ اس سنگترہ یا نارنگی کی طرح ہے جس کا مزہ بھی خوشگوار ہوتا ہے اور اس کی خوشبو بھی خوشگوار ہوتی ہے.اس کے بالمقابل وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس کے دل میں ایمان ہے اور وہ قرآن پر عمل بھی کرتا ہے ایک چھوہارہ کی طرح ہے جس کا مزہ تو خوشگوار ہوتا ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی.اس لطیف تمثیل میں ہمارے نبی مصلی نیلم نے یہ توجہ دلائی ہے کہ بے شک وہ شخص بھی سچا مومن ہے جو دل میں ایمان رکھتا ہے اور قرآن پر عمل کرتا ہے مگر اس سے بہتر وہ مومن ہے جو دل میں ایمان بھی رکھتا ہے اور قرآن پر عمل بھی کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ قرآن پڑھ کر اس کی خوشبو اور مہک کو دنیا میں پھیلاتا ہے اور دنیا اس کے فیض سے مستفیض ہوتی ہے.
درس حدیث 142 درس حدیث نمبر 69 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی ا ولم نے فرمایا إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَامِكُمْ وَلَا إِلى صُوَرِكُمْ وَلكِنْ يَنْظُرُ إِلى قُلُوبِكُمْ (مسلم کتاب البر والصلۃ والادب باب تحریم ظلم المسلم حديث نمبر 6542) یہ مختصر سی حدیث جو آج میں نے پڑھی ہے اگر انسان اس پر غور اور توجہ کر کے عمل کرے تو شاید انسان کی اور انسان کے معاشرہ کی بیسیوں بلکہ سینکڑوں مشکلات اور پریشانیوں اور الجھنوں سے نجات دے سکتی ہے.آپ اگر اپنے گھر یا اپنے ماحول کا مشاہدہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ انسان اپنی شکل و صورت کو بہتر بنانے کے لئے کیا کیا جتن کرتا ہے اور خصوصاً خواتین اور کم عمر کے مردوں کے لئے تو یہ بہت ہی سخت مسئلہ بن جاتا ہے.پکے رنگ والے اپنے رنگ کو سفید بنانے کے لئے تڑپتے ہیں.سر کے بالوں کی گنج دور کرنے کے لئے لوگ کیا کیا نسخے استعمال کرتے ہیں چھوٹے قد والے اپنا قد لمبا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں.بھینگی آنکھوں والے اپنی آنکھوں کو سیدھا کر وانے کے لئے ڈاکٹروں سے کھینچا تانی کرواتے ہیں.کچھ لوگ صرف خوبصورت بننے کے لئے پلاسٹک سرجری کی خاطر غیر ممالک کا سفر کرتے ہیں اور ہزاروں ڈالر خرچ کرتے ہیں جبکہ ان کے ہمسائے میں خاندان روکھی سوکھی روٹی کو ترس رہے ہوتے ہیں.بدن اور شکل کی خاطر کروڑوں کروڑ روپیہ کے شیمپو، کریم ،Colour اور خدا جانے کیا الا بلا کا بزنس ہوتا ہے اور بدن کی خاطر فیشن ایبل ملبوسات کا کاروبار بھی اربوں روپیہ میں جاتا ہے ، پھر اس کے ساتھ ذہنی الجھنیں اور تمنائیں اور آرزوئیں ہیں.مگر ہمارے نبی صلی ا یہ کام اس حکمت اور دانائی سے بھری ہوئی حدیث میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر نہ تمہارے جسموں پر ہے نہ تمہاری شکلوں پر ہے اس کی نظر تمہارے دل و دماغ پر ہے.نہ تمہاری شکل خدا کے حضور وقعت رکھتی ہے ، نہ تمہارا بدن خدا کو اچھا لگتا ہے بلکہ تمہارے دماغ کی سوچ اور تمہارے دل کی پاکیزگی اس کی نظر میں مقبول ہے.بے شک ہمارے نبی صلی الم نے جسم کی زیب وزینت اور لباس کی صفائی کا حکم بھی دیا ہے مگر یہ چیزیں صرف ایک چھلکا ہیں اور دل و دماغ کی پاکیزگی مغز کی حیثیت رکھتی ہے.
درس حدیث 143 درس حدیث نمبر 70 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی الم نے فرمایا: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيْهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ ( بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه حديث نمبر 13) کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ نہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.اس صرف دس (10) الفاظ پر مشتمل حدیث میں ہمارے نبی صلی الیم نے نہ صرف اپنے رشتہ میں بھائی سے یا مذہب اور وطن کے لحاظ سے بھائی سے بلکہ اپنے ہر انسان بھائی سے محبت اور حسن سلوک کی ایک ایسی تعلیم دی ہے جو انسانیت کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کو مٹاسکتی ہے.بعض دفعہ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ سگے بھائی بھی آپس میں الجھ پڑتے ہیں اور اپنے وطنی یا مذ ہبی بھائیوں سے نقار دنیا میں عام ہے پھر دوسرے رنگ یا نسل یا مذ ہب یا ملک سے تعلق رکھنے والوں سے بیر رکھنا تو ایک طرح کا فیشن بن چکا ہے اگر انسان ہمارے نبی صلی ا نام کی اس نصیحت کی طرف توجہ کرے اور اپنے ہر انسان بھائی کے لئے وہی بات پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو یہ دنیا امن و امان کی جنت بن سکتی ہے.بے شک لوگوں میں مذہب کی بنیاد پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر اختلاف رائے اور چیز ہے اور مختلف رائے رکھنے والوں سے بغض اور نفرت بالکل الگ چیز ہے.ہماری کتاب قرآن شریف نے اسلام سے سخت بغض رکھنے والے یہود و نصاریٰ کو بھی مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ قُلْ يَاهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اے نبی اہل کتاب کو کہو کہ اس بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تمہارے درمیان مشترک ( یعنی تم بھی کہتے ہو کہ خدا ایک ہے اس کی عبادت کرنی چاہئے ہم بھی کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اس کی عبادت کرنی چاہئے ) اور فرماتا ہے فان تولوا اگر وہ پھر جائیں فَقُولُوا اشْهَدُوا تو تم کہو پھر گواہ رہو پانا مُسْلِمُونَ کہ ہم نے صلح کی پیش کش کر دی ہے.
درس حدیث 144 درس حدیث نمبر 71 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ مِ اللهِ قُلْتُ يَارَسُوْلَ اللهِ! أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ الصَّلوةُ عَلَى مِيْقَاتِهَا قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ (بخاری کتاب الجهاد والسير باب فضل الجهاد والسير حديث نمبر (2782) ہمارے نبی صلی اللہ نیلم نے بہت حکیمانہ رنگ میں اس حدیث میں اعمال کی فضیلت کا ذکر فرمایا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ا کرم کی خدمت میں عرض کیا.یارسول اللہ ! سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والا کونسا عمل ہے.آپ صلی ا ہم نے فرمايا: الصَّلوةُ عَلَى مِيقَاتِها که نماز وقت مقررہ پر ادا کرنا سب سے افضل عمل ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے پھر عرض کیا اس کے بعد ؟ آپ صلی الم نے فرمایا: بِرُّ الْوَالِدَيْنِ ماں باپ سے نیک سلوک.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے پھر عرض کیا اس کے بعد ؟ آپ صلی الم نے فرمایا: الْجِهَادُ فِي سَبِیلِ اللہ اللہ کے راستہ میں جدوجہد.اس مختصر سے سوال جواب سے ہی اسلام کی فضیلت اور رسول اکرم صلی الم کے حکیمانہ ارشادات کی عظمت کا احساس ہوتا ہے کہ حضور صلی الی یم نے سب سے پہلے حقوق اللہ میں سے چوٹی کے حق کا ذکر فرمایا جو وقت پر نماز کی ادائیگی ہے اس کے بعد حضور صلی الی کلم نے حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ اہم حق کا ذکر فرمایا جو والدین کی اطاعت اور ان سے نیک سلوک ہے اور تیسرے نمبر پر اللہ کے راستہ میں جہاد کا ذکر فرمایا جس سے مراد دین کی خدمت اور اس کے لئے جد و جہد ہے.یہ اللہ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگرانی میں ان تینوں نیکیوں کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں.اللہ کے فضل سے نماز بہ جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ماں باپ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور دین کی خدمت کے لئے مالی قربانی اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ
درس حدیث 145 درس حدیث نمبر 72 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے غزوہ خیبر کے موقعہ پر فرمایا: مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ يَعْنِي التَّوْمَ فَلَا يَأْتِيَنَّ الْمَسَاجِدَ (مسلم کتاب المساجد باب نهى من أكل ثوماً أو بصلاً أو كراثاً أو نحوها...حديث نمبر 1248) کہ جو شخص اس پودہ ( یعنی لہسن) سے کچھ کھا کر آئے وہ مساجد میں نہ آئے.ہمارے نی مصل الم کا یہ ارشاد قرآن شریف کے اس ارشاد کی تعمیل ہے کہ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (اعراف:32) کہ ہر مسجد میں اور ہر مسجد میں آتے ہوئے اپنی زینت کا سامان کرو، مراد یہ ہے کہ روحانی زینت یعنی تقویٰ بھی اختیار کرو اور ظاہری زینت اور صفائی کا بھی خیال رکھو.حضرت عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم مسجد میں تھے تو ایک شخص داخل ہوا جس کے سر اور داڑھی کے بال پراگندہ تھے.رسول اللہ صلی العلیم نے اپنے ہاتھ سے اسے اشارہ فرمایا کہ باہر جاؤ.گویا آپ کی مراد تھی سر اور داڑھی کے بالوں کی اصلاح کرے.اس شخص نے ایسا ہی کیا اور پھر واپس آیا تو رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: أَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِّنْ أَنْ يَأْتِي أَحَدُكُمْ ثَائِرَ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ شَيْطَانٌ کہ کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی آئے اور اس کے سر کے بال پراگندہ ہوں گویاوہ شیطان ہے.الشرسة (موطا امام مالک کتاب الشعر باب اصلاح الشعر حدیث نمبر 1770) حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ ایک بڈو مسجد میں داخل ہوا اور نبی صلی اللی علم تشریف فرما تھے اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ اس بڈو نے مسجد میں پیشاب کر دیالوگ اس کی وو طرف جھپٹے.آپ نے فرمایا: اس پر پانی کا ڈول بہا دو." (ترمذی کتاب الطهارة باب ماجاء فى البول يصيب الارض حدیث نمبر (147) حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سیاہ فام مرد یا عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی اس کی وفات ہو گئی اور رسول اللہ صلی ال نیم کو اس کی وفات کا علم نہ ہوا.آپ نے ایک دن اس کا ذکر فرمایا اور اس کے بارہ میں پوچھا تو اس کی وفات کا بتایا گیا.آپ نے فرمایا مجھے تم لوگوں
146 نے اطلاع کیوں نہ دی؟ لوگوں نے عرض کیا یہ بات تھی، یہ بات تھی.راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس کی شان کو معمولی سمجھا.آپ نے فرمایا مجھے اس کی قبر کا پتہ دو.آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی.( بخاری کتاب الجنائز باب الصلاة على القبر بعد ما يدفن حديث نمبر 1337) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الکریم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لئے آئے تو چاہیے کہ نہا کر آئے.( بخاری کتاب الجمعه باب هل على من لم يشهد الجمعة غسل...حديث نمبر 894)
ریت 147 سة علیہم درس حدیث نمبر 73 ہمارے نبی صلی علی کم پر ایمان لانے اور آپ صلی علیم سے علم دین سیکھنے اور آپ صلی الله یم کی جدوجہد میں قربانی کرنے میں جہاں مردوں نے عظیم الشان نمونہ دکھایا وہاں صحابیات نے بھی عظیم الشان نمونہ پیش کیا.حضور صلی علیہ کم کو جب اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت پر فائز فرمایا تو سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والی ایک خاتون تھیں جو نہ صرف ایمان لائیں بلکہ آپ کی اس عظیم الشان مہم میں پہلے دن سے ہی آپ کی مددگار بنیں اور نہایت زریں الفاظ میں آپ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.آپ صلی نیلم کے دین کی جدوجہد میں جان دینے والی بھی سب سے پہلے ایک خاتون حضرت ام سمیہ تھیں جنہوں نے غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ فرمایا.آپ صلی ا ظلم کی حفاظت کے لئے احد جیسے نازک موقعہ پر حضرت ام عمارہ آپ صلی علیکم کے دائیں بھی لڑیں اور بائیں بھی لڑیں اور دشمن کو آپ تک نہ پہنچنے دیا.حدیبیہ کی صلح کے موقعہ پر جب حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی بھی صلح کرنے پر مطمئن نہیں تھے حضرت ام سلمہ مغکا مشورہ تھا جس نے صحابہ کی کیفیت کو بدل دیا.آپ صلی علیہم کے دین کے علم کی گہرائی اور وسعت جو حضرت عائشہ کو حاصل تھی اس کا نتیجہ تھا کہ صحابہ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے تھے.نیا قرآن مجید مومن خواتین کی تعریف میں ان کی ایک صفت السائحات فرماتا ہے یعنی دین کی خاطر سفر کی مشقت برداشت کرنے والی ہیں.اس بارہ میں ایک نمونہ حضرت ام حرائم بنت ملحان کا ہے.حضور صلی علیکم ایک دفعہ نیند سے بیدار ہوئے اور آپ خوشی سے ہنس رہے تھے.حضرت ام حرام بنت ملحان نے پوچھا.حضور کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے یہ نظارہ دیکھا ہے کہ میرے صحابہ جہاد کے لئے سمندر کا سفر کر رہے ہیں مگر اس طرح بیٹھے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر ہوتے ہیں.حضرت ام حرام بنت ملحان نے عرض کیا.حضور دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں سے بنا دے.آپ نے فرمایا.تو ان میں سے ہے.( بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الدعا بالجهاد والشهادة للرجال والنساء حدیث نمبر 2789،2788) چنانچہ سائپرس کے خلاف جہاد میں حضرت ام حرام سمندری سفر میں شامل ہوئیں اور سائپرس میں ہی ان کی وفات ہوئی اور ان کا مزار ابھی تک وہاں موجود ہے.
درس حدیث 148 درس حدیث نمبر 74 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی الم نے فرمایا: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ آخِيْهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ( بخاری کتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه حدیث نمبر (2442) اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں دو قسم کی برادری قائم کی ہے ایک وہ برادری ہے جو نسب کے ذریعہ بنتی ہے دو شخص ایک ماں باپ کے بیٹے ہیں یا ایک ماں کے بیٹے ہیں اور باپ مختلف ہیں یا ایک باپ کے بیٹے ہیں اور مائیں مختلف ہیں یہ برادری ایک باہمی تعلق رکھتی ہے جس کے پیچھے خونی رشتہ ہوتا ہے اس تعلق کے تقاضے پورے کرنا بھی انسان کا اخلاقی فرض بھی ہے اور اس کے لئے شریعت اور قانون میں بھی کچھ گنجائش ہے.دوسری برادری ایک خدا اور ایک نبی صلی للی کم اور ایک کتاب قرآن شریف اور ایک دین اسلام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اور اس تعلق کے تقاضے پورے کرنے کے لئے قانونی دباؤ کے بجائے اخلاقی سبق پر زور دیا گیا ہے.قرآن شریف اور ہمارے نبی صلی نیلم نے اس اخلاقی سبق پر غیر معمولی زور دیا ہے.جو تمہارا خونی رشتہ دار ہے بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے بھائی کا مقام رکھتا ہے.لا يَظْلِمُہ اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس کے حقوق تلف نہ کرے وَلا يُسْلِمُہ اور نہ ہی اس کو بے مددگار چھوڑ دے اور پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی حق تلفی نہ کرے مگر مثبت طور پر اس کے کام آئے، فرمایا من كَانَ فِي حَاجَةٍ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ جو اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے ، اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے ، اس کے کام آتا ہے وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ كربةً اور جو کسی مسلمان کی کسی تکلیف کو دور کرتا ہے فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی تکالیف میں سے تکلیف دور فرمائے مُسْلِمٍ
درس حدیث 149 گا.اس کے بعد حضور صلی الی یم نے ایک نہایت اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے جس کی طرف ہمارے معاشرے میں بہت ہی توجہ کی ضرورت ہے، آپ صلی ﷺ نے فرمایا مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اس کے عیب اور غلطی کی تشہیر کے بجائے اس کو ڈھانکتا ہے سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اس کے عیوب اور غلطیاں لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دے گا.
درس حدیث 150 درس حدیث نمبر 75 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں: اَنَّ رَسُولَ اللهِ يا قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ يَمْشِي فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَنَزَلَ بِثْرًا فَشَرِبَ مِنْهَا ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا هُوَ بِكَلْبٍ يَلْهَتُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ فَقَالَ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا مِثْلُ الَّذِي بَلَغَ بِي فَنَزَلَ بِثْرًا فَمَلَا خُفَّهُ ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيْهِ ثُمَّ رَقِيَ فَسَقَى الْكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ ( بخاری کتاب المساقاة باب فضل سقى الماء حدیث نمبر 2363) حضرت اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں: اَنَّ النَّبِيَّ اللهِ صَلَّى صَلوةَ الْكُسُوْفِ فَقَالَ دَنَتْ مِنِّي النَّارُ....فَإِذَا امْرَأَةٌ...تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ قَالَ مَا شَأْنُ هَذِهِ؟ قَالُوْا حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَث جوعا.( بخاری کتاب المساقاة باب فضل سقى الماء حدیث نمبر 2364) آج کے درس میں دو احادیث پڑھی گئی ہیں پہلی حدیث میں ایک کتے سے نیک سلوک پر ایک شخص کی مغفرت کا ذکر ہے اور دوسری حدیث میں ایک بلی کو دکھ دینے پر ایک عورت کے آگ میں جانے کا ذکر ہے (اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوْبُ إِلَيْهِ) حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اس دوران میں ایک شخص پیدل جار ہا تھا کہ اس کو شدید پیاس لگی.وہ ایک کنویں میں اترا اور اس نے پانی پیا.پھر باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا ہے.اس نے سوچا اس کتے کو بھی وہی تکلیف ہے جو مجھے ہوئی تھی تو وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اس کو اپنے منہ میں پکڑا اور چڑھ کر باہر آیا اور تے کو پانی پلایا.اللہ تعالی نے اس کی قدر دانی فرمائی اور اس شخص کو بخش دیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسماء بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے سورج گرہن کی نماز پڑھائی.آپ نے فرمایا کہ دوزخ میرے قریب آئی تو ایک عورت کو ایک بلی پنجے مار کر زخمی کر رہی تھی.آپ نے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو قید کر رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی.یہ دونوں احادیث ہمارے انڈو پاکستان کے معاشرے میں بہت قابل توجہ ہیں جہاں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ کوئی شخص ریڑھے کو کھینچنے والے گدھے کو اپنی سوٹی سے مارتا چلا جارہا ہے.
درس حدیث 151 درس حدیث نمبر 76 ہمارے نبی صلی یکم فرماتے ہیں: فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ ( بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة ابليس و جنوده حدیث نمبر 3289) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عظیم الشان کتاب “اسلامی اصول کی فلاسفی ” میں اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اسلام نے اصلاح نفس کے تین مراتب مقرر کئے ہیں.پہلا مر تبہ آداب کا ہے جس میں انسان کو بیٹھنے اٹھنے ، کھانے پینے ، بات چیت کرنے وغیرہ روز مرہ کی باتوں کے آداب سکھائے گئے ہیں جب انسان اس مرحلہ پر کامیابی سے گزر جائے تو دوسر ا مر حلہ اخلاق کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اخلاق کے نظام کو ایسے طور پر پیش کیا ہے کہ جس سے انسان ادنیٰ خلق سے اعلیٰ خلق کی طرف ترقی کر سکے.پھر تیسرا مرحلہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضاء حاصل کرنے کا مرحلہ ہے.جو حدیث آج پڑھی گئی ہے اس کا تعلق پہلے مرحلہ سے ہے.اباسی یا جماہی لیتے ہوئے انسان کی حالت کچھ غیر مناسب سی ہو جاتی ہے.آدمی پورے زور سے منہ کھولتا ہے اور بظاہر نظر یہ فعل تمیز کے خلاف معلوم ہوتا ہے.پھر اس میں یہ بھی خطرہ ہو تا ہے کہ کوئی مکھی وغیرہ منہ کے اندر چلی جائے.دیکھنے والے کو اس سے گھن آتی ہے پھر بالعموم جماہی یا اباسی سستی اور کسل کی علامت ہے.اس لئے ہمارے نبی صلی ا ہم نے اس فعل کے متعلق فرمایا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اگر اسے جماہی آئے تو اس کو روکنے کی کوشش کرے جس حد تک وہ کر سکتا ہے.یہ مختصر سی حدیث ہمیں اس بات کی بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ اسلام کی تعلیم صرف ایک چھوٹے سے دائرہ تک محدود نہیں انسانی زندگی کے تمام مراحل پر رہنمائی کرتی ہے.
درس حدیث 152 درس حدیث نمبر 77 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا: لَيْسَ صَلوةٌ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِيْنَ مِنْ الْفَجْرِ وَالْعِشَاءِ وَلَوْ يَعْلَمُوْنَ مَافِيْهَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْحَبْوا ( بخاری کتاب الاذان باب فضل صلاة العشاء في الجماعة حديث نمبر (657) نماز اسلامی احکام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے سب سے پہلی چیز تو ایمان ہے جو شخص ایمان لے آتا ہے اس کے ایمان کے بعد اللہ کے حقوق میں سے پہلی چیز نماز مقررہ وقت پر ہے اور نماز کی ادائیگی پر قرآن شریف میں بار بار زور دیا گیا ہے اور ہمارے نبی صلی علیکم جیسے رحمدل، شفیق مهربان وجود بھی فرماتے ہیں کہ میر ادل کرتا ہے کہ جو لوگ نماز باجماعت میں نہیں آتے ان کے گھروں کو آگ لگادوں.آج جو حدیث ہم نے پڑھی ہے اس میں حضور صلی یکم فرماتے ہیں کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ بو جھل نماز کوئی نہیں.منافق وہ ہوتا ہے جو دل میں تو ایمان نہ رکھتا ہو مگر کسی فائدہ یا ضرورت کے لئے ایمان کا اظہار کرتا ہو.ایسے منافقین دوسری نمازوں میں تو خدا کے گھر میں آجاتے تھے مگر صبح اور عشاء کی نماز میں جو تھوڑی سی ہمت کا تقاضا کرتی ہیں، تھوڑی بہت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس میں سستی اور تساہل کرتے تھے.باقی نمازوں میں دکھاوے کے لئے آجاتے تھے.حضور صلی ال کلیم نے فرمایا فجر اور عشاء کی نمازیں منافقوں پر بھاری ہیں حالانکہ اگر ان کو معلوم ہو کہ ان دو نمازوں کا کتنا ثواب ہے، کتنا فائدہ اور کتنی برکات ہیں تو وہ گھٹنوں کے بل چل کر بھی آنا پڑتا تو آتے.الله سة
درس حدیث 153 درس حدیث نمبر 78 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ قضَى النَّبِيُّ اللهِ إِذَا تَشَاجَرُوا فِي الطَّرِيْقِ بِسَبْعَةُ أَذْرُعٍ ( بخاری کتاب المظالم والقصاص باب اذا اختلفوا فى الطريق......حديث نمبر 2473) ہمارے نبی صلی الی یوم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی عبادت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کے بارہ میں ہمیں جامع اور تفصیلی تعلیم دی ہے وہاں انسانوں کے حقوق اور ان کی بھلائی کے بارہ میں بہت اعلیٰ ہدایات دی ہیں.انسانوں کے حقوق میں ایک حق راستہ کا حق ہے.آپ صلی یکم نے راستہ کے بارہ میں نہ صرف توجہ دلائی ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہیئے کہ گویا اس کو انسانوں کے بنیادی حقوق میں سے قرار دیا ہے.آپ صلی علی یکم نے فرمایا کہ جو شخص راستہ کو ناپاک کرتا ہے وہ گو یا لعنت کا خریدار ہے.آپ صلی علیم نے ایک دفعہ مدینہ کے باشندوں کو توجہ دلائی کہ بہتر ہے کہ وہ سڑکوں کے کنارے نہ بیٹھا کریں.لوگوں نے عرض کیا ہمارے لئے اس کے بغیر چارہ نہیں.سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر ہی ہم اپنے معاملات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں.آپ صلی اسلام نے فرمایا اگر تم نہیں مانتے تو کم از کم راستہ کا حق دو.عرض کیا گیار استہ کے حق سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا: نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو، کسی کے لئے باعث تکلیف نہ بنو ، اچھی بات کا حکم دو اور بری بات سے منع کرو.( بخاری کتاب المظالم باب افنية الدور والجلوس فيها...حديث نمبر (2465) ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ایک کانٹے دار ٹہنی چلتے ہوئے دیکھی تو اس نے اس کو ہٹا دیا.اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بخش دیا.( بخاری کتاب الاذان باب فضل التهجير الى الظهر حدیث نمبر 652) حضور صلی الہ وسلم نے فرمایا کہ نیکی کی بہت سی شاخیں ہیں اور ا مَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيْقِ یعنی راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا بھی نیکی ہے.(بخاری کتاب الهبة وفضلها باب فضل المنيحة حديث نمبر 2631)
درس حدیث 154 ہمارے ملک میں عام دستور ہے کہ لوگ راستہ پر تجاوزات کر لیتے ہیں اور اپنی فروخت کا سامان راستہ پر رکھ دیتے ہیں جس سے راستہ تنگ ہو جاتا ہے اور گزرنے والوں کو دقت ہوتی ہے.حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علی کریم نے جب رستہ چھوڑنے کے بارہ میں رض اختلاف رائے ہو ا تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ راستہ (کم از کم) سات (7) گز ہونا چاہیئے.(بخاری کتاب المظالم باب اذا اختلفوا فى الطريق...حديث نمبر 2473)
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 40 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.155 “(1) خدا نے مجھے قرآنی معارف بخشے ہیں (2) خدا نے مجھے قرآن کی زبان میں اعجاز عطا فرمایا ہے (3) خدا نے میری دُعاؤں میں سب سے بڑھ کر قبولیت رکھی ہے (4) خدا نے مجھے آسمان سے نشان دیئے ہیں.(5) خدا نے مجھے زمین سے نشان دیئے ہیں (6) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقابلہ کرنے والا مغلوب ہو گا (7) خدا نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرے پیرو ہمیشہ اپنے دلائل صدق میں غالب رہیں گے اور دنیا میں اکثر وہ اور اُن کی نسل بڑی بڑی عرب تیں پائیں گے تا اُن پر ثابت ہو کہ جو خدا کی طرف آتا ہے وہ کچھ نہیں اٹھاتا (8) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ قیامت تک اور جب تک کہ دنیا کا سلسلہ منقطع ہو جائے میں تیری برکات ظاہر کرتارہوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے (9) خدا نے آج سے بیس برس پہلے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرا انکار کیا جائے گا اور لوگ تجھے قبول نہیں کریں گے پر میں تجھے قبول کروں گا اور بڑے زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کر دوں گا.(10) اور خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا جس میں میں رُوح القدس کی برکات پھونکوں گا.وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا اور مَظْهَرُ الْحَقِّ والعلا ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.وَتِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دُنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں." وو (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 182،181) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: اعجاز معجزه پیرو پیروی کرنے والے
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 41 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.156 اپنی جماعت کیلئے ایک بہت ضروری نصیحت : آج کل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے.قسم قسم کا شرک بدعت اور کئی خرابیاں پید اہو گئی ہیں.بیعت کے وقت جو اقرار کیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے اب چاہیئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم ہو گے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں برکت دے گا.اپنے اللہ کے مطابق پورا تقویٰ اختیار کر و.زمانہ نازک ہے.قہر الہی نمودار ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنالے گا.وہ اپنی جان اور اپنی آل و اولا د پر رحم کرے گا.دیکھو انسان روٹی کھاتا ہے جب تک سیری کے موافق پوری مقدار نہ کھالے تو اس کی بھوک نہیں جاتی.اگر وہ ایک بھورہ روٹی کا کھالیو لے تو کیا وہ بھوک سے نجات پائے گا؟ ہر گز نہیں اور اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اُسے ہر گز نہ بچا سکے گا بلکہ باوجود اس قطرہ کے وہ مرے گا.حفظ جان کے واسطے وہ قدر محتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھالے اور نہ پیوے نہیں بچ سکتا.یہی حال انسان کی دینداری کا ہے جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو بچ نہیں سکتا.دینداری، تقویٰ، خدا کے احکام کی اطاعت کو اس حد تک کرنا چاہیئے جیسے روٹی اور پانی کو اس حد تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بھوک اور پیاس چلی جاتی ہے.خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے اگر ایک حصہ شیطان کا ہے اور ایک اللہ کا تو اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا.یہ سلسلہ اس کا اسی لیے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے.اگر چہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہو تا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے.جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر پھینک دیتا ہے وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے.لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا
درس روحانی خزائن 157 آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو.بیعت کچھ چیز نہیں ہے جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہو گا.اسی طرح خدا کا معاملہ ہے وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے کیا ہو سکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو اس کا نام تو نفاق ہے.انسان کو چاہیئے کہ اس مرحلہ میں زید و بکر کی پروانہ کرے مرتے دم وو تک اس پر قائم رہو." (ملفوظات جلد سوم صفحہ 68،67 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: بدعت دین میں نئی بات، رسم نکالنا نفاق منافقت، دور نگی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 42 158 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.جماعت کو نصائح: بیعت کے بعد ایک شخص نے اپنے گاؤں میں کثرت طاعون کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی.فرمایا: میں تو ہمیشہ دعا کر تا ہوں مگر تم لوگوں کو بھی چاہئیے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو نمازیں پڑھو اور تو بہ کرتے رہو.جب یہ حالت ہو گی تو اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گا اور اگر سارے گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کے باعث سے دوسروں کی بھی حفاظت کرے گا.کوئی بلا اور دکھ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے سوا نہیں آتا اور وہ اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کی جاوے.ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کام آتا ہے.جو لوگ عام ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالی ان کی طرف رجوع کرتا ہے اور آپ ان کی حفاظت فرماتا ہے مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللَّهُ لَہ بہت سے لوگ ہیں جو زبان سے لا الهَ اِلَّا اللہ کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے اسلام اور ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں.مگر وہ اللہ تعالیٰ کے لیے دکھ نہیں اٹھاتے.کوئی دکھ یا تکلیف یا مقدمہ آجاوے تو فوراً خدا کو چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اس کی نافرمانی کر بیٹھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا مگر جو خاص ایمان رکھتا ہو اور ہر حال میں خدا کے ساتھ ہو اور دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس سے دکھ اٹھالیتا ہے اور دو مصیبتیں اس پر جمع نہیں کرتا دکھ کا اصل علاج دکھ ہی ہے اور مومن پر دو بلائیں جمع نہیں کی جاتیں.ایک وہ دکھ ہے جو انسان خدا کے لیے اپنے نفس پر قبول کرتا ہے اور ایک وہ بلائے ناگہانی.اس بلا سے خدا بچالیتا ہے.پس یہ دن ایسے ہیں کہ بہت تو بہ کرو.اگر چہ ہر شخص کو وحی یا الہام نہ ہو مگر دل گواہی دے دیتا ہے کہ خد تعالیٰ اُسے ہلاک نہ کرے گا.دُنیا میں دو دوستوں کے تعلقات ہوتے ہیں.ایک دوست دوسرے دوست کا مرتبہ شناخت کر لیتا ہے کیونکہ جیساوہ اس کے ساتھ ہے ایسا ہی وہ بھی اس کے ساتھ ہو گا.دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.محبت کے عوض محبت اور دعا کے عوض دغا.خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ میں اگر کوئی حصہ کھوٹ کا ہو گا تو اسی قدر ادھر
درس روحانی خزائن 159 سے بھی ہو گا.مگر جو اپنا دل خدا سے صاف رکھے اور دیکھے کہ کوئی فرق خدا سے نہیں ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے کوئی فرق نہ رکھے گا.انسان کا اپنا دل اس کے لیے آئینہ ہے وہ اس میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے.پس سچا طریق دُکھ سے بچنے کا یہی ہے کہ بچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور وفاداری اور اخلاص کا تعلق دکھاؤ اور اس راہ بیعت کو جو تم نے قبول کی ہے سب پر مقدم کرو کیونکہ اس کی بابت تم پوچھے جاؤ گے.جب اسقدر اخلاص تم کو میسر آجاوے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو ضائع کرے.ایسا شخص سارے گھر کو بچالے گا.اصل یہی ہے اس کو مت بھولو.نری زبان میں برکت نہیں ہوتی کہ بہت سی باتیں کرلیں.اصل برکت دل میں ہوتی ہے اور وہی برکت کی جڑ ہے.زبان سے تو کروڑہا مسلمان کہلاتے ہیں جن لوگوں کے دل خدا کے ساتھ مستحکم ہیں اور وہ اس کی طرف سے آتے ہیں خدا بھی ان کی طرف وفا سے آتا ہے اور مصیبت اور بلا کے وقت ان کو الگ کر لیتا ہے.یاد رکھو یہ طاعون خود بخود نہیں آئی اب جو کھوٹ اور بے وفائی کا حصہ رکھتا ہے وہ بلا اور وبا سے بھی حصہ لے گا مگر جو ایسا حصہ نہیں رکھتا خدا اُسے محفوظ رکھے گا." ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 64،63 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: دعا فریب، دھو کہ کھوٹ نقص، عیب
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 43 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.160 سمیں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور شست اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور شرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ کل کی یہی ہے.پھر شہر وں اور گاؤں میں تو اور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے.سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتے، پھر سوال یہی ہوتا ہے کیوں اُن کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی اس مزے کو انہوں نے چکھا.اور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے.پھر وہ سُننا بھی نہیں چاہتے.گویا اُن کے دل دُکھتے ہیں.یہ لوگ بہت ہی قابلِ رحم ہیں.بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دوکانیں دیکھو تو مسجد کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دُعا مانگنی چاہیئے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھادے، کھایا ہوا یاد رہتا ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اُسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اس کے بالمقابل مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے.ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا.اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کر کے خواب راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے.پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو." ( ملفوظات سوم صفحہ 28،27 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: سستی، کوتاہی کل تاوان جرمانہ مکروہ ناپسندیدہ، جس سے کراہت آئے شکل
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 44 161 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے در پے پیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے.دانشمند اور زیرک انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سُرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسی سرور کو حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دُعا پید اہو کر وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہو جائے گی.پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اُس سے ہوتے ہیں اور احسان پیش نظر رہے اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ ( بود : 115) نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں.پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دُعا کرے کہ وہ نماز جو صد یقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے.یہ جو فرمایا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہیں یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ رُوح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں.اُن کی رُوح مُردہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنی وہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی رُوح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقینا یقینابُرائیوں کو دور کر دیتی ہے.نماز نشت و برحناست کا نام نہیں.نماز کا مغز
درس روحانی خزائن 162 اور رُوح وہ دُعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے.ارکانِ نماز دراصل روحانی نشست و برخاست کے اظلال ہیں.انسان کو خدائے تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گو یا طیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کے لیے کس قدر گردن جھکاتا ہے.اور سجدہ کمال ادب اور کمال تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یاداشت کے مقرر کر دیئے ہیں.اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر اُن کو مقرر کیا ہے.علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے) صرف نقال کی طرح نقلیں اُتا ری جائیں اور اُسے ایک بار گراں سمجھ کر کر اُتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتلاؤ اس میں کیا لذت اور حظ آسکتا ہے.اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اُس کی حقیقت کیونکر متحقق ہو گی اور یہ اس وقت ہو گا جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے.اس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.” ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 28، 29 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: وو زیرک عقلمند، دانشمند دوام ہمیشگی نشست و برحناست بیٹھنا اور اٹھنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 45 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.163 پھر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دُعا سے حاصل ہوتی ہے غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے.کیونکر یہ مرتبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے.سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مومن اور سچا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں.جس طرح پر ایک بڑا انجمن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے.پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون تک کو اسی انجن کی طاقت عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیونکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہو سکتا ہے؟ اور اپنے آپ کو اني وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ (الانعام:80) کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے منہ سے کہتا ہے دل سے بھی اُدھر کی طرف متوجہ ہو تو لاریب وہ مسلم ہے.وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یادرکھے کہ بڑاہی بد قسمت اور محروم ہے کیونکر اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے.ترک نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے تو روح اور دل اس کی طرف جھکتا ہے اور روح اور دل کی طاقتیں بھی اس درخت کی طرح جس کی شاخیں ابتداء ایک طرف کر دی جائیں اور پرورش پالیس) ادھر ہی جھک جاتی ہیں اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیدا ہو کر اُسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے.جیسے وہ شاخیں پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتیں.اسی طرح پر وہ دل اور رُوح دن بدن خدائے تعالیٰ سے دُور ہوتے جاتے ہیں.پس یہ بڑی خطر ناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے.اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی
درس روحانی خزائن 164 بڑی ضروری چیز ہے تاکہ اوّلاً وہ ایک عادت راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو.پھر رفتہ رفتہ وہ وقت آجاتا ہے کہ انقطاع کلی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وو وارث ہو جاتا ہے." ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 30 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: کامل موحد کلوں مشینوں حنیف
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 46 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.165 بلند ہمتی : ہمت نہیں ہارنی چاہیے.ہمت اخلاق فاضلہ میں سے ہے اور مومن بڑا بلند ہمت ہوتا ہے ہر وقت خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید کے لیے تیار رہنا چاہیے اور کبھی بزدلی ظاہر نہ کرے بزدلی منافق کا نشان ہے.مومن دلیر اور شجاع ہو تا ہے مگر شجاعت سے یہ مراد نہیں کہ اس میں موقع شناسی نہ ہو موقع شناسی کے بغیر جو فعل کیا جاتا ہے وہ تہور ہو تا ہے مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت ہو شیاری اور تحمل کے ساتھ نصرت دین کے لیے تیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا.انسان سے کبھی ایسا کام ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے مثلاً کسی سائل کو اگر دھکا دیا تو سختی کا موجب ہو جاتا ہے اور خد اتعالیٰ کو ناراض کرنے والا فعل ہو تا ہے اور اسے توفیق نہیں ملے گی کہ اسے کچھ دے سکے ، لیکن اگر نرمی یا اخلاق سے پیش آوے گا اور خواہ اُسے پیالہ پانی ہی کا دیدے تو وہ ازالہ قبض کا موجب ہو جاوے گا.تبض و بسط : انسان پر قبض و بسط کی حالت آتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہے.نمازوں میں لذت اور سرور پیدا ہو تا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتارہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی سی حالت ہو جاتی ہے.جب یہ صورت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کیساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے.نماز بھی بار بار پڑھے.قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: وو ( ملفوظات سوم صفحہ 7،6 مطبوعہ ربوہ) تہور بے موقع، بغیر سوچے سمجھے زور آزمائی طاقت کا استعمال کرنا شتاب کاری جلد بازی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 47 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.166 کیا خدا اس جہان میں سزا دیتا ہے یا دوسرے جہان میں ؟“ میں نے آپ کے سوال کو سمجھ لیا ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی معرفت ہمیں بتایا ہے کہ اور واقعات صحیحہ نے جس کی شہادت دی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سزا و جزا کا قانون خدا نے ایسا مقرر کیا ہے کہ اس کا سلسلہ اسی دنیا سے شروع ہو جاتا ہے اور جو شوخیاں اور شرارتیں انسان کرتا ہے وہ بجائے خود انہیں محسوس کرتا ہے یا نہیں کرتا.ان کی سزا اور پاداش جو یہاں ملتی ہے اس کی غرض تنبیہہ ہوتی ہے تا کہ تو بہ اور رجوع سے شوخ انسان اپنی حالت میں نمایاں تبدیلی پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ عبودیت کا جو رشتہ ہے اس کو قائم کرنے میں جو غفلت اس نے کی ہے اس پر اطلاع پا کر اسے مستحکم کرنا چاہئے.اس وقت یا تو انسان اس تنبیہ سے فائدہ اٹھا کر اپنی کمزوری کا علاج اللہ تعالیٰ کی مدد سے چاہتا ہے اور یا اپنی شقاوت سے اس میں دلیر ہو جاتا اور اپنی سرکشی اور شرارت میں ترقی کر کے جہنم کا وارث ٹھہر جاتا ہے.اس دنیا میں جو سزائیں بطور تنبیہہ دی جاتی ہیں، ان کی مثال مکتب کی سی ہے.جیسے مکتب میں کچھ خفیف سی سزائیں بچوں کو ان کی غفلت اور سستی پر دی جاتی ہیں.اس سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ علوم سے انہیں استاد محروم رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنی غرض پر اطلاع دے کر آئندہ کے لئے زیادہ محتاط اور ہوشیار بناوے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جو شرارتوں اور شوخیوں پر کچھ سزا دیتا ہے ، تو اس کا مقصد یہی ہو تا ہے کہ نادان انسان جو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے اپنی شرارت اور اس کے نتائج پر مطلع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت سے ڈر جاوے اور اس کی طرف رجوع کرے.میں نے اپنی جماعت کے سامنے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب آپ کو بھی بتاتا ہوں کہ جب انسان ایک کام کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک فعل اس کے نتیجہ کے طور پر مرتب ہو تا ہے.مثلاً جب ہم کافی مقدار زہر کی کھالیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم بلاک ہو جائیں گے.
درس روحانی خزائن 167 اس میں زہر کھانا یہ ہمارا اپنا فعل تھا اور خدا کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوا کہ اس نے ہلاک کر دیایا مثلاً یہ کہ اگر ہم اپنے گھر کی کوٹھڑی کی کھڑکیاں بند کر لیں، تو یہ ہمارا فعل ہے.اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ کو ٹھڑی میں اندھیرا ہو جائے گا اس طرح پر انسان کے افعال اور اس پر بطور نتائج اللہ تعالیٰ کے افعال کے صدور کا قانون دنیا میں جاری ہے اور یہ نظام جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے اور جسمانی نظام میں اس کی نظیر میں ہم روز دیکھتے ہیں اسی طرح پر باطن کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اور یہی ایک اصول ہے جو قانون سزا کے سمجھنے کے واسطے ضروری ہے اور وہ یہی ہے کہ ہمارا ہر ایک فعل نیک ہو یا بد اپنے فعل کے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے.وو (ملفوظات جلد دوم صفحه 17،16 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: شقاور بد بختی، سنگدلی نظیریں مثالیں
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 48 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.168 “انسان کی تدریجی ترقی میں جب خدا کے پاک کلام پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیونکر اس نے اپنی تعلیموں میں انسان کو اس کی طبعی حالتوں کی اصلاح کے قواعد عطا فرما کر پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف کھینچا ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت تک پہنچانا چاہا ہے.تو مجھے یہ پر معرفت قاعدہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اول خدا نے یہ چاہا ہے کہ انسان کو نشست برخاست اور کھانے پینے اور بات چیت اور تمام اقسام معاشرت کے طریق سکھلا کر اس کو وحشیانہ طریقوں سے نجات دیوے اور حیوانات کی مشابہت سے تمیز کلی بخش کر ایک ادنیٰ درجہ کی اخلاقی حالت جس کو ادب اور شائستگی کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں سکھلاوے.پھر انسان کی نیچرل عادات کو جن کو دوسرے لفظوں میں اخلاق رذیلہ کہہ سکتے ہیں اعتدال پر لاوے تاوہ اعتدال پا کر اخلاق فاضلہ کے رنگ میں آجائیں.مگر یہ دونوں طریقے دراصل ایک ہی ہیں کیونکہ طبعی حالتوں کی اصلاح کے متعلق ہیں صرف ادنی اور اعلیٰ درجہ کے فرق نے ان کو دو قسم بنادیا ہے.اور اس حکیم مطلق نے اخلاق کے نظام کو ایسے طور سے پیش کیا ہے کہ جس سے انسان ادنی خلق سے اعلیٰ خلق تک ترقی کر سکے.اسلام کی حقیقت اور پھر تیسر امرحلہ ترقیات کا یہ رکھا ہے کہ انسان اپنے خالق حقیقی کی محبت اور رضا میں محو ہو جائے اور سب وجو د اس کا خدا کیلئے ہو جائے.یہ وہ مرتبہ ہے جس کو یاد دلانے کیلئے مسلمانوں کے دین کا نام اسلام رکھا گیا ہے.کیونکہ اسلام اس بات کو کہتے ہیں کہ بکلی خدا کیلئے ہو جانا اور اپنا کچھ باقی نہ رکھنا." اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 324) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: نشست بر حناست بیٹھنا اٹھنا اخلاق رذیلہ برے اخلاق
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 49 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.169 اسلام کے عروج و زوال کے حقیقی اسباب: ہمارے زمانہ میں جو سوال پیش ہوا کہ کیا وجوہات ہیں جن سے اسلام کو زوال آیا اور پھر وہ کیا ذریعے ہیں جن سے اس کی ترقی کی راہ نکل سکتی ہے اس کے مختلف قسم کے لوگوں نے اپنے اپنے خیال کے مطابق جواب دیئے ہیں مگر سچا جو اب یہی ہے کہ قرآن کو ترک کرنے سے تنزل آیا اور اسی کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے سے ہی اس کی حالت سنور جاوے گی.موجودہ زمانہ میں جو ان کو اپنے خونی مہدی اور مسیح کی آمد کی امید اور شوق ہے کہ وہ آتے ہی ان کو سلطنت لے دے گا اور کفار تباہ ہوں گے.ان کے خام خیال اور وسوسے ہیں.ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گانہ تلوار سے.ہر ایک امر کے لئے کچھ آثار ہوتے ہیں اور اس سے پہلے تمہیدیں ہوتی ہیں ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات بھلا اگر ان کے خیال کے موافق یہ زمانہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آکے ان کو سلطنت دلائی تھی تو چاہئیے تھا کہ ظاہری طاقت ان میں جمع ہونے لگتی.ہتھیار ان کے پاس زیادہ رہتے.فتوحات کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جاتا.مگر یہاں تو بالکل ہی بر عکس نظر آتا ہے ہتھیار ان کے ایجاد نہیں.ملک و دولت ہے تو اور وں کے ہاتھ ہے.ہمت و مردانگی ہے تو اوروں میں.یہ ہتھیاروں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج.دن بدن ذلت اور ادباران کے گرد ہے جہاں دیکھو.جس میدان میں سنوا نہیں کو شکست ہے.بھلا کیا یہی آثار ہو ا کرتے ہیں اقبال کے ؟ ہر گز نہیں یہ بھولے ہوئے ہیں زمینی تلوار اور ہتھیاروں سے ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے.ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بے دینی اور لامذہبی کا رنگ ایسا آیا ہے کہ قابل عذاب اور مورد قہر ہیں.پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے ؟ ہر گز نہیں.ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے
درس روحانی خزائن 170 مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں ان کو اب اگر مدد آوے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے نہ اپنی کوششوں سے اور دعا ہی سے ان فتح ہے نہ قوت بازو سے یہ اس لیے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انتہا بھی اسی طرح ہو.آدم اول کو فتح دعاہی سے ہوئی تھی رَبَّنَا ظَلَمْنَا الخ (الاعراف:24) اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری انْفُسَنَا جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 190،191 مطبوعہ ربوہ) ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات صاحب نصیب اور صاحب اقبال اولاد کے آثار اقبال غلبه ، عروج، شروع سے ہی اچھے ہوتے ہیں عزت
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 50 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.تقوی کی بابت نصیحت اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لیے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے، کیونکہ یہ بات عقل مند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہو تا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُونَ (النحل: 129) ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے.خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ خواہ کسی قسم کے بعضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی روبہ دنیا تھے ، ان تمام آفات سے نجات پاویں.آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوانہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھا یا جاوے بیمار اچھا نہیں ہو سکتا.ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا گل منہ کو کالا نہ کر دے.اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے.صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں.صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار گل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے.ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف و گزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں، تو اس کا غیض و غضب بڑھ جاتا ہے.پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے.جولوگ تاریخ سے واقف ہیں.وہ جانتے ہیں کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے.جیسے چنگیز خاں اور ہلاکو خاں نے مسلمانوں کو تباہ کیا، حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے ، لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے.اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آئے.اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللہ تو پکارتی ہے، لیکن اس کا دل اور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رو بدنیا ہے تو پھر اس کا قہر اپنا رنگ
درس روحانی خزائن دکھاتا ہے.” مشکل الفاظ اور ان کے معانی: 172 ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 7 مطبوعه ربوہ) منتقم انتقام لینے والا لاف و گزاف شیخی، ڈینگ رو بدنیا دنیا کی طرف جھکا ہوا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 51 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں:.173 تمام سعادت مندیوں کا مدار خداشناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کا ملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے.وہ بڑا قادر ہے وہ ذوالعذاب الشدید ہے یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمر دانہ زندگی پر ایک بھسم کر نیوالی بجلی گراتا ہے پس جب تک انسان آمنتُ بِاللہ کی حدود سے نکل کر عرفت اللہ کی منزل پر قدم نہیں رکھتا اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پر یقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے.ہمارا روزانہ تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس سے انسان ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا مثلاً جب کہ یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہو اہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانش مند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو در کنار کبھی ایسے سوٹے کے نزدیک بھی جانا پسند کرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو.اسے خیال ہو تا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم از کم تنہا جاسکے بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں.پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر کا یقین پیدا نہ ہو ، کوئی اور طریق خواہ کسی کی خود کشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں کر سکتا یقیناً یا درکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبات کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے.جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اور اس بات پر بھی ایمان لاتے کہ وہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے.میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے اور نفس کا مغالطہ ہے بچے ایمان اور بچے یقین اور گناہ میں باہم عداوت ہے جہاں سچی معرفت
درس روحانی خزائن 174 وو اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں کہ گناہ رہے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 4،3 مطبوعہ ربوہ) مدار مرکز متمردانه سر کشیانہ ذوالعذاب الشديد سخت عذاب دینے والا عرفت الله میں نے اللہ کو پہچانا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 52 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.175 بیعت اور توبہ: بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے ؟ جب تک کسی شئے کا فائدہ اور قیمت معلوم نہ ہو ، تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں ساتی.جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال و اسباب ہوتا ہے.مثلا روپیہ ، پیسہ، کوڑی، لکڑی وغیرہ.تو جس قسم کی شے ہے، اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی.ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تو یو نہی ایک کو نہ میں ڈال دے گا.علی ہذالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے.اس کی زیادہ حفاظت کرے گا.اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات تو بہ ہے.جس کے معنی رجوع کے ہیں.تو بہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہوئی ہے.اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب و طن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چار پائی، فرش و ہمسائے ، وہ گلیاں کوچے ، بازار سب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس (سابقہ) وطن میں کبھی نہیں آتا.اس کا نام تو بہ ہے.معصیت کے دوست اور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اور.اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے جو تو بہ کرتا ہے ، اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی تو بہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالی رحیم و کریم ہے.وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطانہ فرماوے، نہیں مارتا.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ (البقره: 223) میں یہی اشارہ ہے کہ وہ تو بہ کر کے غریب، بیکس ہو جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور اسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.دوسری قومیں خدا کو رحیم و کریم
درس روحانی خزائن 176 خیال نہیں کرتیں.عیسائیوں نے خدا کو تو ظالم جانا اور بیٹے کو رحیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دے کر بخشوائے بڑی بے وقوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق ہو والد مولود میں مناسبت اخلاق، عادات کی ہوا کرتی ہے.(مگر یہاں تو بالکل ندارد) اگر اللہ رحیم نہ ہو تا تو انسان کا ایک دم گزارہ نہ ہوتا.جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اُس کے لئے مفید بنائیں، تو کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ تو بہ اور عمل کو قبول نہ کرے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: کوڑی ( ملفوظات جلد اول صفحہ 2 مطبوعہ ربوہ) تھوڑا سامال، حقیر اور معمولی علی ہذا القیاس اسی طرح پر نیست و نابود ہونا گناه معاصی نعم البدل گناہوں اچھا بدلہ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 53 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.66 177 با ہم اتفاق و محبت : جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی.کہ تم وجود واحد رکھو، ور نہ ہو انکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو ، اتحاد نہ ہو.تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کر و.اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو، تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.ย میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوتی تھی كُنتُم اَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ (آل عمران:104) یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یاد رکھو! جبتک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے ، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے.اس کا انجام اچھا نہیں.میں ایک کتاب بنانے والا ہوں.اس میں ایسے تمام لوگ الگ کر دیئے جائیں گے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے.چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے.دوسر ا اُس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے.یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی.وہ ضرور ہو گی.تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جبتک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہو تا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک
درس روحانی خزائن 178 صالح جماعت پیدا ہو گی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے.بخل ہے ، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں میں نے بتلایا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا.جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں.جبتک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336 مطبوعہ ربوہ) کرامت معجزه متلع قمع نیست و نابود ، تباہ و برباد کرنا رعونت تکبر
درس روحانی خزائن 179 درس روحانی خزائن نمبر 54 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.“اے نادانو خوب سمجھو اے غافلو خوب سوچ لو کہ بغیر سچی پاکیزگی ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہائی نہیں اور جو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اٹھا لیتے اور رسول کریم کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں.اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے.مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یاد رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں.سو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات طیار کی گئی ہے.جو شخص شرارت اور تکبر اور خود پسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہو گا.میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ کے دلوں پر کار گر ہوں خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دور کر دیں.میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے در حقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہر یک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے." (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398,397)
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 55 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.180 گناہ اور توبہ کی حقیقت : گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سُوجھے.جیسے ملٹھی کے دو پر ہیں.ایک میں شفا اور دوسرے میں زہر.اسی طرح انسان کے دو پر ہیں.ایک معاصی کا دوسرا خجالت، تو بہ ، پریشانی کا.یہ ایک قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اُس کے بعد بچھتاتا ہے.گویا کہ دونوں پر اکٹھے حرکت کرتے ہیں.زہر کے ساتھ تریاق ہے.اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا؟ تو جواب یہ ہے کہ گو یہ زہر ہے ، مگر گریہ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے.اگر گناہ نہ ہو تا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا.توبہ اس کی تلافی کرتی ہے.کبر اور محجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے.جب نبی معصوم ستر بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ گناہ سے توبہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے اور جو گناہ کو گناہ جانتا ہے ، وہ آخر اُسے چھوڑے گا.حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان بار بار رورو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخشش دیا.اب تیر اجو جی چاہے سو کر.اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اور اب گناہ اُسے بالطبع بُرا معلوم ہو گا.جیسے بھیٹر کو میلا کھاتے دیکھ کر کوئی دو سر احرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھاوے، اسی طرح وہ انسان بھی گناہ نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے.مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے، حالانکہ اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں.تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کر اہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھا دیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہو جاوے.دعا تریاق ہے: گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کر کے دُعا سے ہر گز باز نہ رہے.دعا تریاق ہے.آخر دعاؤں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا.جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے ، آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں.
درس روحانی خزائن 181 توب مجزو بیعت ہے: یہ توبہ کی حقیقت ہے (جو اوپر بیان ہوئی) اور یہ بیعت کی جز کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے.جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بیان بخشی ہو ، تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے.اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں) بشر طیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو.خشک شاخ کی طرح نہ ہو.اس کی شاخ ہو کر پیوند ہو جاوے.جس قدر یہ نسبت ہو گی اسی قدر فائدہ ہو گا." (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 3 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: خجالت شرمندگی رعونت عجب تریاق زہر کی دوا مارا ہو ا، طب کی اصطلاح میں کسی زہر کو آگ اکسیر نہایت فائدہ مند اور قیمتی چیز، میں ایک خاص طریق سے جلا کر اس کازہر مارنا تکبر تلافی زہر کا اثر زائل کرنے والی دوائی عوض، بدله غرور، تکبر
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 56 182 ایک گندے اشتہار کا جواب لکھنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے تحریر فرمایا:.مگر قبل اس کے کہ میں اس اشتہار کا جواب لکھوں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ جو کچھ اس اشتہار کے لکھنے والوں اور ان کی جماعت نے محض دل دُکھانے اور توہین کی نیت سے ہمارے نبی کریم صلی علیکم کی نسبت اعتراضات کے پیرایہ میں سخت الفاظ لکھے ہیں یا میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لائے ہیں اور مجھے لوگوں کا دغا بازی سے مال کھانے والا قرار دیا ہے اور یا جو خود میری جماعت کی نسبت سؤر اور کتے اور مُردار خوار اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھا ہے.ان تمام دُکھ دینے والے الفاظ پر وہ صبر کریں اور میں اس جوش اور اشتعال طبع کو خوب جانتا ہوں کہ جو انسان کو اس حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ نہ صرف اس کو گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس کے رسول اور پیشوا اور امام کو توہین اور تحقیر کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور سخت اور غضب پیدا کرنے والے الفاظ سنائے جاتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر تم ان گالیوں اور بد زبانیوں پر صبر نہ کرو تو پھر تم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہو گا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ تمہارے ساتھ ہوئی اور پہلے کسی سے نہیں ہوئی ہر ایک سچا سلسلہ جو دنیا میں قائم ہو اضر ور دنیا نے اس سے دشمنی کی ہے.سوچونکہ تم سچائی کے وارث ہو ضرور ہے کہ تم سے بھی دشمنی کریں سو خبر دار رہو نفسانیت تم پر غالب نہ آوے، ہر ایک سختی کی برداشت کرو ہر ایک گالی کا نرمی سے جواب دو.” نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 364) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: مال خور مال کھانے والا ٹھگ دھو کہ باز میلچھ غیر ملک کا باشندہ، غیر ہند و، ناپاک
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 57 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.183 ری بیعت فائدہ نہیں دیتی : بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی.ایسے بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے.اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے.منافق آنحضرت صلی اللہ یلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے.ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا، اس لیے ظاہری لا اِلهَ اِلَّا الله ان کے کام نہ آیا.تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑاضروری امر ہے.اگر ان تعلقات کو وہ (طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا، تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے.محبت اور اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہیے.جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مرشد) کے ہمرنگ ہو.طریقوں میں اور اعتقاد میں.نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے.یہ دھو کہ ہے.عمر کا اعتبار نہیں ہے.جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے.اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیے.تہجد کی تاکید : اس زندگی کے کل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گذر گئے ، تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا؟ تہجد میں خاص کر اُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو.درمیانی نمازوں میں یہ باعث ملازمت کے ابتلا آجاتا ہے.رازق اللہ تعالیٰ ہے.نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے.ظہر اور عصر کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے ،اس لیے یہ گنجائش رکھ دی ، مگر یہ گنجائش تین کے جمع کرنے میں نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھانا جبکہ ملازمت میں اور دوسرے کئی امور میں لوگ سزا پاتے ہیں (اور مورد عتاب حکام ہوتے ہیں) تو اگر اللہ تعالیٰ کے لئے تکلیف اٹھاویں تو کیا خوب ہے.جو لوگ راستبازی کے لیے تکلیف اور نقصان اٹھاتے ہیں وہ لوگوں کی نظروں میں بھی مرغوب ہوتے ہیں.اور یہ کام نبیوں اور صدیقوں کا ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے دنیاوی نقصان کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کبھی اپنے ذمہ نہیں رکھتا، پورا اجر دیتا ہے.انسان منافقانہ طرز نہ رکھے (انسان کو لازم ہے) منافقانہ طرز نہ رکھے.مثلاً اگر
درس روحانی خزائن 184 ایک ہندو (خواہ حاکم یا عہدیدار ہو) کہے کہ رام اور رحیم ایک ہے، تو ایسے موقع پر ہاں میں ہاں نہ ملائے.اللہ تعالیٰ تہذیب سے منع نہیں کرتا.مہذبانہ جواب دیوے.حکمت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایسی گفتگو کی جاوے جس سے خوانخواہ جوش پیدا ہو اور بیہودہ جنگ ہو.کبھی اخفائے حق نہ کرے.ہاں میں ہاں ملانے سے انسان کا فر ہو جاتا ہے.یار غالب شوکه تا غالب شوی اللہ تعالیٰ کا لحاظ اور پاس رکھنا چاہیے.ہمارے دین میں کوئی بات تہذیب کے خلاف وو ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 4،3 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: انفاس سانسیں، دم ،(مجازاً) لمحات زندگی اخفائے حق حق کا پوشیدہ رکھنا یار غالب شوکه تا غالب شوی غالب کے دوست بنو تا کہ تم غالب ہو جاؤ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 58 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.185 حضرت ابراہیمؑ کیلئے آگ کا ٹھنڈا کیا جانا: حضور علیہ السلام نے فرمایا فتنہ وفساد کی آگ تو ہر نبی کے مقابل میں ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کوئی ایسارنگ اختیار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک معجزہ نما طاقت اپنے نبی کی تائید میں اس کے بالمقابل دکھاتا ہے.ظاہری آتش کا حضرت ابراہیم پر فرو کر دینا خدا تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل امر نہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.حضرت ابراہیم کے متعلق ان واقعات کی اب بہت تحقیقات کی ضرورت نہیں کیونکہ ہزاروں سالوں کی بات ہے.ہم خود اس زمانہ میں ایسے واقعات دیکھ رہے ہیں اور اپنے اوپر تجربہ کر رہے ہیں.معجزانہ حفاظت کے چند واقعات : (1) ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا تو ایک دن بارش ہو رہی تھی.جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح بھر گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی، لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے مطابق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور وہ اندر بیٹھا ہوا تھا.بجلی ان تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا.دیکھو وہی بجلی کی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہیں دے سکی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.(2) ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو میں ایک مکان کی دوسری منزل میں سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اور آدمی بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیئے.انہوں نے کہا کوئی چوہا ہو گا کچھ خوف کی بات نہیں.اور یہ کہہ کر پھر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی آواز سنی.تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں
درس روحانی خزائن 186 نے کچھ پروانہ کی.پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی.تب میں نے اُن کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سب باہر نکلا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی میں دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گرمی اور دوسری چھت کو بھی ساتھ لے کر نیچے جا پڑی.اور چار پائیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں اور ہم سب بچ گئے.یہ خدا تعالیٰ کی معجزہ نما حفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیر گرنے سے محفوظ رہا.(3) ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہوا پایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا.مگر ہر دو بار خدا تعالیٰ نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا.(4) ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی.مجھے خبر بھی نہ ہوئی.ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور اس آگ کو بجھا دیا.خدا تعالی کے پاس کسی کے بچانے کی ایک راہ نہیں بلکہ بہت راہیں ہیں.آگ کی گرمی اور سوزش کے واسطے بھی کئی ایک اسباب ہیں اور بعض اسباب مخفی در مخفی ہیں.جن کی لوگوں کو خبر نہیں اور خدا تعالیٰ نے وہ اسباب اب تک دُنیا پر ظاہر نہیں کئے جن سے اس کی سوزش کی تاثیر جاتی رہے.پس اس میں کون سی تعجب کی بات ہے کہ حضرت ابراہیم پر آگ ٹھنڈی ہو گئی." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: وو ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 225 226 مطبوعہ ربوہ) رو بجھانا، دور کرنا زینہ سیڑھی مخفی در مخفی پوشیدہ، چھپا ہوا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 59 و حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.187 اپنی نیک نیت میں فرق نہ لاؤ: “خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادہ بزرگ تم میں سے وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے.جیسے قرآن شریف میں ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتقاكم (الحجرات : 14) اور متقیوں کے صفات میں سے ہے کہ وہ بالغیب ایمان لاتے ہیں.نمازیں پڑھتے ہیں اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4 ) یعنی علم ، مال اور دوسرے قومی ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے.سب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے انعام کے کئے ہیں.انسان ایک کارِ خیر کے لیے جب نیت کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پھر اس میں کسی قسم کا فرق نہ لاوے.اگر کوئی دوسرا جو اس میں حصہ لینے والا تھا یا نہ تھا، مزاحم ہو اور بد دیانتی کرے تو بھی اول الذکر کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کا تغیر اپنے ارادہ میں نہ کرے.اس کو اس کی نیت کا اجر ملے گا اور دوسرا اپنی شرارت کی سزا پاوے گا.دنیا میں لوگوں کو ایک یہ بھی بڑی غلطی لگی ہے کہ دوسرے سے مقابلہ کے وقت یا اس کی نیت میں فرق آتا دیکھ کر اپنی نیت کو جو خیر پر مبنی ہوتی ہے ، بدل دیا جاتا ہے.اس طرح سے بجائے ثواب کے عذاب حاصل ہوتا ہے.یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے نقصان روا نہیں رکھتا وہ عند اللہ کسی اجر کا بھی مستحق نہیں.خدا کے لیے تو جان تک دریغ نہ کرنی چاہیے.پھر زمین وغیرہ کیا شئے ہے.جس قدر کوئی دکھ اٹھانے کے لیے تیار ہو گا اتنا ہی اُسے ثواب ملے گا.اگر کوئی شخص یہ اصول اختیار نہیں کرتا تو اس نے ابھی تک ہمارے سلسلہ کا مطلب اور مقصود ہی نہیں جانا.جو لوگ اس جماعت میں داخل ہیں.اگر وہ عام لوگوں کے سے اخلاق، مروت اور ہمدردی برتتے ہیں تو اُن میں اور دوسرے لوگوں سے کیا فرق ہوا؟ شریر کی شرارت کو شریر کے حوالہ کرو.اور اپنے نیک جو ہر دکھاؤ.تب تمیز ہو گی.دنیاوی تنازعات کے وقت مالی نقصان برداشت کرنے اور
درس روحانی خزائن 188 نور نفس سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں ہوا کرتا اور نہ انسان کو ہمیشہ اس قسم کے مواقع ہاتھ آتے ہیں کہ وہ فطرت کے یہ نیک جوہر دکھا سکے.اس لیے اگر کوئی ایسا موقعہ ہاتھ آجاوے تو وو اُسے غنیمت خیال کرنا چاہیے.” مشکل الفاظ اور ان کے معانی: کار خیر جور ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 92 مطبوعہ ربوہ) نیک کام روا درست، بجا، مناسب ظلم
درس روحانی خزائن 189 درس روحانی خزائن نمبر 60 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.رسول کریم صل علیم کے اخلاق عالیہ “ سب سے اکمل نمونہ اور نظیر آنحضرت صلی اللہ علم ہیں جو جمیع اخلاق میں کامل تھے.اسی لئے آپ کی شان میں فرمایا: اِنَّكَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ( القلم :5) ایک وقت ہے کہ آپ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں.ایک وقت آتا ہے کہ تیر و تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں.سخاوت پر آتے ہیں، تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں.علم میں اپنی شان دکھاتے ہیں، تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں.الغرض رسول اللہ صلی علیم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے.جو خدا تعالیٰ نے دکھادیا ہے.اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے.جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرلے.اس کا پھل اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے.غرض کہ ہر چیز مفید ہو.آنحضرت صلی ال یکم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں.جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے.لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی نیم کے پاس ہو تا تھا، کیونکہ آپ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے.سبحان اللہ ! کیا شان ہے.اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں.ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ "بر داشت نہیں کر سکتے مگر یہ مردِ میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے اس میں صحابہ کا قصور نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا، بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللی علم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے.ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں.کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے.مگر زخم خفیف تھے ، یہ خُلق عظیم تھا.ایک وقت آتا ہے کہ آپ کے پاس اس قدر بھیڑ بکریاں تھی کہ قیصر و کسری کے پاس بھی نہ ہوں.آپ نے وہ سب ایک سائل کو بخش دیں.اب اگر پاس نہ ہوتا تو کیا بخشتے.
درس روحانی خزائن 190 اگر حکومت کا رنگ نہ ہوتا، تو یہ کیونکر ثابت ہوتا کہ آپ واجب القتل کفارِ مکہ کو باوجود مقدرت انتقام کے بخش سکتے ہیں.جنہوں نے صحابہ کرام اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور مسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں.جب وہ سامنے آئے تو آپ نے فرمایا: لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف:93) میں نے آج تم کو بخش دیا.اگر ایسا موقع نہ ملتا تو ایسے اخلاق فاضلہ حضور کے کیونکر ظاہر ہوتے.یہ شان آپ کی اور صرف آپ کی ہی تھی.کوئی ایسا خُلق بتلاؤ جو آپ میں نہ ہو اور پھر بدرجۂ غایت کامل طور پر نہ ہو." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: فصاحت کلامی خوش کلامی ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 85،84 مطبوعہ ربوہ) سینہ سپر سینہ تان کر مقدرت انتقام بدلہ لینے کی طاقت بدرجہ کفایت پوری طرح مکمل طور پر
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 61 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.191 قول و فعل میں مطابقت: “اللہ کا خوف اس میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے.پھر جب دیکھے کہ اس کو قول و فعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ مورد غضب الہی ہو گا.جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا.پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جائے پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے ؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے ؟ اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا.اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے.اور زبانی دعوے کرتی ہے.وہ غنی ہے.وہ پر واہ نہیں کرتا.بدر کی فتح کی پیش گوئی ہوچکی تھی ، ہر طرح فتح کی امید تھی، لیکن پھر بھی آنحضرت صلی ال رورو کو دعامانگتے تھے.حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا کہ جب ہر طرح کا فتح کا وعدہ ہے، تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے ؟ آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے، یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں.برکات تقوی: پس ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے.اس کا معیار قرآن ہے.اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود کفیل ہو جاتا ہے.جیسے کے فرمايا: وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق:43) جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں، یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.مثلاً ایک دکان دار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا، اس لئے وہ درونگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے ، لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں.
درس روحانی خزائن 192 خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اسے ایسے مواقع سے بچالیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں.یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا ، تو خدا نے اسے چھوڑ دیا.جب رحمان نے چھوڑ دیا، تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا.یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے.وہ بڑی طاقت والا ہے.جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق:4) لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے ، وہ اہل دین تھے.ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لئے تھیں اور دنیوی امور حوالہ بخدا تھے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور میں حارج ہوں." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: الحاح ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 8 مطبوعہ ربوہ) گڑ گڑانا، زاری کرنا مخلصی بچ نکلنے کی راہ نابکار خارج بے کار ، بے فائدہ، دروغ گوئی جو کسی کے کام میں نہ آئے روکنے والے، مزاحم
درس روحانی خزائن 193 درس روحانی خزائن نمبر 62 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.“حدیث میں آیا ہے.اگر فضل نہ ہوتا، تو نجات نہ ہوتی.ایسا ہی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ نے آپ سے سوال کیا کہ یا حضرت! کیا آپ کا بھی یہی حال ہے.آپ نے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا : ہاں.نادان اور احمق عیسائیوں نے اپنی نافہمی اور ناواقفی کی وجہ سے اعتراض کیے ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپ کی کمال عبودیت کا اظہار تھا جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو جذب کر رہا تھا.ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے اور متعدد مر تبہ آزمایا ہے ، بلکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب انکسار اور تذلل کی حالت انتہا کو پہنچتی ہے اور ہماری روح اس عبودیت اور فروتنی میں بہہ نکلتی ہے اور آستانہ حضرت واہب العطایا پر پہنچ جاتی ہے تو ایک روشنی اور نور اوپر سے اترتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک نالی کے ذریعے سے مصفا پانی دوسری نالی میں پہنچتا ہے.آنحضرت صلی السلام کے انوار و برکات : پس آنحضرت صلی ایم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے.وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسی قدر آپ رُوح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤید اور منور ہیں.جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی الم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے یہانتک کہ آپ کے انوار و برکات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ابد الآباد تک اس کا نمونہ اور ظل نظر آتا ہے، چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہو رہا ہے ، وہ آپ ہی کی اطاعت اور آپ ہی کی اتباع سے ملتا ہے.میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا، جو اعلیٰ درجہ کے تزکیۂ نفس پر ملتے ہیں.جب تک کہ وہ رسول اللہ صل الل علم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے : قُل اِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) اور خدا تعالیٰ کے اس دعوی کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں.ان نشانات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کے محبوبوں اور ولیوں کے قرآن 79
درس روحانی خزائن 194 شریف میں مقرر ہیں مجھے شناخت کرو.غرض نبی کریم صلی للی نیم کے اخلاق کا کمال یہا تک ہے کہ اگر کوئی بڑھیا بھی آپ کا ہاتھ پکڑتی تھی تو آپ کھڑے ہو جاتے اور اس کی باتوں کو نہایت توجہ سے سنتے اور جب تک وہ خود آپ کو نہ چھوڑتی.آپ نہ چھوڑتے تھے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: عاجزی فروتنی مصفا صاف شفاف ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 131 132 مطبوعہ ربوہ) واہب العطايا نعمتیں دینے والی ذات
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 63 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.195 ترقیات کی دور ہیں: سلوک : صوفیوں نے ترقیات کی دور انہیں لکھی ہیں ایک سلوک دوسر ا جذب.سلوک وہ ہے جو لوگ آپ عظمندی سے سوچ کر اللہ ورسول صلی علیم کی راہ اختیار کرتے ہیں جیسے فرمایا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننا چاہتے ہو، تو رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کر و.وہ ہادی کامل وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اٹھائیں کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی.ایک دن بھی آرام پایا.اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے.جو اپنے متبوع کے ہر قول و فعل کی پیروی پوری جدوجہد سے کریں.متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا.سہل انگار اور سخت گزار کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا.یہاں جو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی للی کم کی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اول رسول اکرم صلی نیلم کی مکمل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے.اسی کا نام سلوک ہے.اس راہ میں بہت مصائب و شدائد ہوتے ہیں ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہو تا ہے.جذب: اہل جذب کا درجہ سالکوں سے بڑھا ہوا ہے.اللہ تعالی انہیں سلوک کے درجہ پر ہی نہیں رکھتا، بلکہ خود اُن کو مصائب میں ڈالتا اور جاذبہ ازلی سے اپنی طرف کھنچتا ہے.گل انبیاء مجذوب ہی تھے.جس وقت انسانی روح کو مصائب کا مقابلہ ہوتا ہے.ان سے فرسودہ کار اور تجربہ کار ہو کر روح چمک اٹھتی ہے.جیسے کہ لوہا یا شیشہ اگر چہ چمک کا مادہ اپنے اندر رکھتا.لیکن صیقلوں کے بعد ہی مجلی ہوتا ہے ، حتی کہ اس میں منہ دیکھنے والے کا منہ نظر آجاتا ہے.مجاہدات بھی صقیل کا ہی کام کرتے ہیں.دل کا صقیل یہاں تک ہونا چاہیے کہ اس میں سے بھی منہ نظر آجاوے.منہ کا نظر آنا کیا ہے ؟ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللہ کا مصداق ہونا.سالک کا دل آئینہ ہے جس کو مصائب و شدائد اس قدر صقیل کر دیتے ہیں کہ اخلاق النبی اس ہے.
درس روحانی خزائن 196 میں منعکس ہو جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بہت مجاہدات اور تزکیوں کے بعد اس کے اندر کسی قسم کی کدورت یا کثافت نہ رہے تب یہ درجہ نصیب ہوتا ہے.ہر ایک مومن کو ایک حد تک ایسی صفائی کی ضرورت ہے.کوئی مومن بلا آئینہ ہونے کے نجات نہ پائیگا.سلوک والا خود یہ صقیل کرتا ہے، اپنے کام سے مصائب اٹھاتا ہے ،لیکن جذب والا مصائب میں ڈالا جاتا ہے.خدا خود اس کا مصقل ہوتا ہے اور طرح طرح کے مصائب و شدائد سے صیقل کر کے اس کو آئینہ کا درجہ عطا کر دیتا ہے.دراصل سالک و مجذوب دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے سو متقی کے دو حصے ہیں.سلوک و جذب.مشکل الفاظ اور ان کے معانی: (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 18،17 مطبوعہ ربوہ) جس کی پیروی کی جائے سالک راہ چلنے والا عابد ، زاہد، صوفی متبوع صیقلوں کدورت صفائیوں کے بعد جلا کر صاف کرنا کینه ، دشمنی، گند روشن، چمکدار کثافت میلا پن، گندگی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 64 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں:.197 حضرت یوسف علیہ السلام کا معتام صدیقیت: “اگر گذشتہ زمانہ میں اس کی نظیر دیکھی جائے تو پھر یوسف صدیق ہے.جس نے ایسا صدق دکھایا کہ یوسف صدیق کہلایا.ایک خوبصورت، معزز اور جوان عورت جو بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، عین تنہائی اور تخلیہ میں ارتکاب فعل بد چاہتی ہے، لیکن آفرین ہے اس صدیق پر کہ خدا تعالیٰ کے حدود کو توڑنا پسند نہ کیا اور اس کے بالمقابل ہر قسم کی آفت اور دُکھ اُٹھانے کو آمادہ ہو گیا.یہاں تک کہ قیدی کی زندگی بسر کرنی منظور کرلی، چنانچہ کہا: رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَى مِنَا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ (یوسف:34) یعنی یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہے.اس سے حضرت یوسف کی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا کیسا پتہ لگتا ہے کہ دوسرے امر کا ذکر تک نہیں کیا.کیا مطلب کہ اُس کا نام نہیں لیا.یوسف اللہ تعالیٰ کے حسن واحسان کے گرویدہ اور عاشق زار تھے.اُن کی نظر میں اپنے محبوب کے سوا دوسری کوئی بات بیچ نہ سکتی تھی.وہ ہر گز پسند نہ کرتے تھے کہ حدود اللہ کو توڑیں.کہتے ہیں کہ ایک لمبازمانہ جو بارہ برس کے قریب بتایا جاتا ہے ، وہ جیل میں رہے.لیکن اس عرصہ میں کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آیا.اللہ تعالیٰ اور اُس کی تقدیر پر پورے راضی رہے.اس عرصہ میں بادشاہ کو کوئی عرضی بھی نہیں دی کہ اُن کے معاملہ کو سوچا جائے یا اُنہیں رہائی دی جائے.بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس خود غرض عورت نے تکالیف کا سلسلہ بڑھا دیا.کہ کسی طرح پر وہ پھسل جاویں، مگر اس صدیق نے اپنا صدق نہ چھوڑا.خدا نے ان کو صدیق ٹھہرایا.یہ بھی صدق کا ایک مقام ہے کہ دُنیا کی کوئی آفت ، کوئی تکلیف اور کوئی ذلت اُسے حدود اللہ کے توڑنے پر آمادہ نہیں کر سکتی.جس قدر بلائیں بڑھتی جاویں، وہ اُس کے مقام صدق کو زیادہ مضبوط اور لذیذ بناتی جاتی ہیں.خلاصہ یہ کہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ جب انسان اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہہ کر صدق
درس روحانی خزائن 198 اور وفاداری کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہے ، تو خدا تعالیٰ ایک بڑی نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آگرتی ہے اور اُسے صدق سے بھر دیتی ہے وہ اپنی طرف سے بِضَاعَةِ مُزْجَاةٌ لاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی گراں قدر جنس اُسے عطا کرتا ہے اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہاں تک قدم مارتا ہے کہ وہ صدق اس کے لیے ایک خارق عادت نشان ہو جاتا ہے.اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا دریا کھلتا ہے یعنی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کر سکے.دو ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 253 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: تخلیه علیحدگی گراں قدر بیش قیمت، قیمتی حارق عادت بضاعة مزجاة حقیر جمع پونجی معجزانہ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 65 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.199 اقامت صلوۃ: اس کے بعد متقی کی شان میں آیا ہے وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ (البقرة:4) یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتا ہے.یہاں لفظ کھڑی کرنے کا آیا ہے.یہ بھی اس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے.جو متقی کا خاصہ ہے.یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے.تو طرح طرح کے وساوس کا اسے مقابلہ ہوتا ہے جن کے باعث اس کی نماز گویا بار بار گری پڑتی ہے، جس کو اس نے کھڑا کرنا ہے جب اس نے اللہ اکبر کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اس کے حضور قلب میں تفرق ڈال رہا ہے.وہ ان سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے.پریشان ہوتا ہے.ہر چند حضور و ذوق کے لئے لڑتا مرتا ہے، لیکن نماز جو گری پڑتی ہے، بڑی جان کنی سے اسے کھڑا کرنے کی فکر میں ہے.بار بار ايَّاكَ نَعْبُدُ وَايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہہ کر نماز کے قائم کرنے کے لئے دعا مانگتا ہے اور ایسے الصراط المستقیم کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اس کی نماز کھڑی ہو جائے.ان وساوس کے مقابل میں متقی ایک بچہ کی طرح ہے، جو خدا کے آگے گڑ گڑاتا ہے.روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آخُلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: 177) ہو رہا ہوں.سو یہی وہ جنگ ہے جو متقی کو نماز میں نفس کے ساتھ کرنی ہوتی ہے اور اسی پر ثواب مترتب ہو گا.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور دور کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ وَيُقِيمُونَ الصَّلوة کی منشاء کچھ اور ہے کیا خدا نہیں جانتا؟ حضرت شیخ عبد القادر گیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) کا قول ہے کہ ثواب اس وقت تک جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہوئے، تو ثواب ساقط ہو جاتا ہے.گویا صوم و صلوۃ اس وقت تک اعمال ہیں جب تک ایک جد وجہد سے وساوس کا مقابلہ ہے، لیکن جب ان میں ایک اعلیٰ درجہ پیدا ہو گیا اور صاحب صوم و صلوۃ تقویٰ کے تکلف سے بچ کر صلاحیت سے رنگین ہو گیا، تو اب صوم و صلوۃ اعمال نہیں رہے.اس موقع پر انہوں نے سوال کیا کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے ؟ کیونکہ ثواب تو اس وقت تھا جس وقت
درس روحانی خزائن 200 تک مکلف کرنا پڑتا تھا.سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے.یہ نماز اس کی دو ایک غذا ہے ، جو اس کے لئے قرةُ الْعَيْنِ ہے.یہ گو یا نقد بہشت ہے.” ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 19،18 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: وساوس شکوک و شبہات تفرق علیحدگی، الگ ہونا حان کنی جان نکلنا اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ زمین / دنیا کی طرف جھکا ہوا مترتب ترتیب دیا ہوا، درست کیا ہوا مجاہدات ریاضتیں ساقط گرا ہوا، رد کیا ہوا تکلف بناوٹ قرة الْعَيْنِ آنکھوں کی ٹھنڈک
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.201 میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میر افرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اُس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا.اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا پس اس قدر دولت پاکر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہو گا.میر ادل ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ اُن کے دامن استعداد پر ہو جائیں." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: (اربعین نمبر 1 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 345،344) محرک تحریک کرنے والا، باعث معدن جواہر موتی دفینه ، خزانه دامن استعداد طاقت اور ہمت کی جھولی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 67 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.202 “سچا مذہب انسانی قوی کا مربی ہوتا ہے: ایسا ہی جو لوگ انتقام ، غضب یا نکاح کو ہر حال میں برا مانتے ہیں، وہ بھی صحیفہ قدرت کے مخالف ہیں اور قویٰ انسانی کا مقابلہ کرتے ہیں.سچا مذ ہب وہی ہے جو انسانی قویٰ کا مربی ہو ، نہ کہ ان کا استیصال کرے.رجولیت یا غضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرت انسانی میں رکھے گئے ہیں.ان کو چھوڑ نا خدا کا مقابلہ کرنا ہے.جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا.یہ تمام امور حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں.اگر یہ امر ایسا ہی ہو تا تو گویا اس خدا پر اعتراض ہے جس نے یہ قوی ہم میں پیدا کیے....پس ایسی تعلیمات جو انجیل میں ہیں اور جن سے قوی کا استیصال لازم آتا ہے ، ضلالت تک پہنچاتی ہیں.اللہ تعالیٰ تو اس کو تعدیل کا حکم دیتا ہے.ضائع کرنا پسند نہیں کرتا.جیسے فرمایا انَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (النحل:91) عدل ایک ایسی چیز ہے ، جس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے.حضرت مسیح کا یہ تعلیم دینا کہ اگر تو بری آنکھ سے دیکھے ، تو آنکھ نکال ڈال اس میں بھی قویٰ کا استیصال ہے، کیونکہ ایسی تعلیم نہ دی کہ تو غیر محرم عورت کو ہر گز نہ دیکھ ، مگر بر خلاف اس کی اجازت دی کہ دیکھ تو ضرور ، لیکن زنا کی آنکھ سے نہ دیکھ.دیکھنے سے تو ممانعت ہے ہی نہیں.دیکھے گا تو ضرور ، بعد دیکھنے کے دیکھنا چاہیے کہ اس کے قویٰ پر کیا اثر ہو گا.کیوں نہ قرآن شریف کی طرح آنکھ کو ٹھو کر والی چیز ہی کے دیکھنے سے روکا.اور آنکھ جیسی مفید اور قیمتی چیز کو ضائع کر دینے کا افسوس لگایا.اسلامی پر وہ آجکل پردہ پر حملے کیے جاتے ہیں.لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں، بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہو گا، ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں، سیر میں کریں.کیونکر جذبات نفس سے اضطرار آ ٹھو کر نہ کھائیں گے.
درس روحانی خزائن 203 بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو.کوئی عیب نہیں سمجھتیں.یہ گویا تہذیب ہے ، انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی.جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مردو عورت ہر دو جمع ہوں.تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان ناپاک نتائج پر غور کرو.جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو.اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں، تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی.اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی." ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 22،21 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: مربی تربیت کرنے والا رجولیت مردانگی استیصال تارک الدنيا تباہ کرنا، قلع قمع کرنا دنیا کو چھوڑنا راہب تارک الدنیا بلا تامل بغیر سوچے سمجھے بلا جھجک ، بلا تکلف بے محابا شارع اسلام شریعت اسلام لانے والے مراد حضرت محمد صلی اليوم خليع الرسن ہر قسم کی پابندی سے آزاد
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 68 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.204 انسانی قوی کی تعدیل اور جائز استعمال: اللہ تعالیٰ نے جس قدر قوی عطا فرمائے ، وہ ضائع کرنے کے لیے نہیں دیئے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشو و نما ہے.اسی لیے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی.بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا.جیسے فرمایا قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (المومنون : 2 ) اور ایسے ہی یہاں بھی فرمایا: متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا.وَ أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( البقرہ : 6) یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں.ایمان بالغیب لاتے ہیں.نماز ڈگمگاتی ہے.پھر اسے کھڑا کرتے ہیں.خدا کے دیئے ہوئے سے دیتے ہیں.باوجود خطرات نفس بلا سوچے، گزشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں.وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں.وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جارہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے.پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پاچکے ہیں، اس لیے شروع میں ہی اللہ تعالی نے ہمیں تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک کتاب ہم کو عطا کی.جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دیئے.سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں.اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کرو: اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں.یہ تقویٰ کے ایک شاخ ہے، جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے، بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے.مُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ غضب اس وقت ہو گا.جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا
درس روحانی خزائن 205 سمجھیں، یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں.خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے.یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے.جس کے اندر حقارت ہے ڈر ہے کہ یہ حقارت بیچ کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے.بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں.لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے.اس کی دلجوئی کرے.اس کی بات کی عزت کرے.کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے.خدا تعالی فرماتا وَلا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الحجرات:12) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو.یہ فعل فساق وفجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑاتا ہے ،وہ نہ مرے گا.جبتک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو ، تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات :14) ذاتوں کا امتیاز : یہ جو مختلف ذاتیں ہیں.یہ کوئی وجہ شرافت نہیں.خدا تعالی نے محض عرف کے لیے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چار پشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے.جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا مشکل ہے.وو کہ میرے نزدیک ذات کی کوئی سند نہیں.حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: تعدیل ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 22، 23 مطبوعہ ربوہ) درست استعمال، بر محل قوائے رجولیت مردانہ طاقتیں قَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ یقیناً مومن کامیاب ہو گئے وَ أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور یہی کامیاب ہونے والے ہیں محجب و پندار غرور و تکبر استخفاف حقارت فاق وفجار بد کردار ، بد چلن غرف جان پہچان مَكْرِمَتْ بڑائی، بزرگی فقط صرف
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 69 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.206 متقی کون ہیں؟ خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں.وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے.ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے.ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہیئے.جس سے ہماری فلاح ہو.اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں.وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے جو تقویٰ کریگا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا.آنحضرت صلی للی کم یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت سے تو عزت نہیں پائی.گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی الی ظلم کے والد ماجد عبد اللہ مشرک نہ تھے ، لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی.یہ تو فضل الہی تھا.ان صدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے.یہی فضل کے محرک تھے حضرت ابراہیم علیہ اسلام جو ابوالا نبیا تھے ، انہوں نے اپنے صدق و تقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا.خود آگ میں ڈالے گئے.ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی ا لی ایم کا ہی صدق و وفا دیکھئے.آپ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے ، لیکن پروانہ کی.یہی صدق و وفا تھا، جس کے باعث اللہ تعالی نے فضل کیا.اسی لیے تو اللہ تعالے نے فرمایا إِنَّ اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) ترجمہ : اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو ! تم درود و سلام بھیجو نبی پر.اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی لی نام کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے ، لیکن خود استعمال نہ کیے.یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.آپ کی ہمت وصدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ
درس روحانی خزائن 207 کریں تو اس کی نظیر نہیں ملتی.خود حضرت مسیح کے وقت کو دیکھ لیا جاوے کہ ان کی ہمت یا روحانی صدق و وفا کا کہاں تک اثر ان کے پیرؤوں پر ہوا.ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بدروش کو درست کرنا کس قدر مشکل ہے.عادات راسخہ کا گنوانا کیسا محالات سے ہے.لیکن ہمارے مقدس نبی آنحضرت صلی علی کریم نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا، جو حیوانوں سے بد تر تھے.بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں کی طرح فرق نہیں کرتے تھے ، یتیموں کا مال کھاتے ، مر دوں کا مال کھاتے ، بعض ستاره پرست، بعض دہریہ ، بعض عناصر پرست تھے.جزیرہ عرب کیا تھا.ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا.مقر آن مجید کا مل ہدایت ہے: اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن کریم ہر ایک قسم کی تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے.ہر ایک غلط عقیدہ یا بری تعلیم جو دنیا میں ممکن ہے ،اس کے استیصال کے لئے کافی تعلیم اس میں موجود ہے.یہ اللہ تعالی کی عمیق حکمت و تصرف ہے.چونکہ کامل کتاب نے آکر کامل اصلاح کرنی تھی.ضرور تھا کہ اس کے نزول کے وقت اس کے جائے نزول میں بیماری بھی کامل طور پر ہو.تا کہ ہر بیماری کا کامل علاج مہیا کیا جاوے.سو اس جزیرہ میں کامل طور سے بیمار (لوگ موجود تھے اور جن میں وہ تمام روحانی بیماریاں موجود تھیں.جو اس وقت یا اس کے بعد آئندہ نسلوں کو لاحق ہونے والی تھیں.یہی وجہ تھی کہ قرآن شریف نے کل شریعت کی تکمیل کی.دوسری کتابوں کے نزول کے وقت نہ یہ ضرورت تھی نہ ان میں ایسی کامل تعلیم ہے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 23، 24 مطبوعہ ربوہ) ގ حرکت دینے والا، تحریک کرنیوالا، اوصاف خوبیاں،خصائل باعث تحديد حد مقرر کرنا بد روش بری عادت عادات راسخه پختہ عادات عناصر پرست مختلف اشیاء کی پوجا کر نیو الے استیصال تباہ کرنا، قلع قمع کرنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 70 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.208 آنحضرت علی ای کم اور آپ کے صحابہ کا معتام“ جو صدق و وفا آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے دکھلایا اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی.جان دینے تک سے دریغ نہ کیا.حضرت عیسی کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا اور نہ ہی کوئی منکر الہام تھا.برادری کے چند لوگوں کو سمجھانا کونسا بڑا کام ہے.یہودی توریت تو پڑھے ہوئے تھے.اس پر ایمان رکھتے تھے.خدا کو وحدہ شریک جانتے ہی تھے.بعض وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ حضرت مسیح کیا کرنے آئے تھے.یہودیوں میں تو توریت کے لئے اب بھی غیرت پائی جاتی ہے.نہایت کار یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید اخلاقی نقص یہود میں تھے.لیکن تعلیم تو توریت میں موجود ہی تھی.باوجود اس سہولت کے کہ قوم اس کتاب کو مانتی تھی.حضرت مسیح نے وہ کتاب سبقا سبقا ایک استاد سے پڑھی تھی.اس کے مقابل ہمارے سید و مولی بادی کامل امی تھے.آپ کا کوئی استاد نہ تھا اور یہ ایک واقعہ ہے کہ مخالف بھی اس امر سے انکار کر سکے.پس حضرت عیسی “ کے لئے دو آسانیاں تھیں.ایک تو برادری کے لوگ تھے اور جو بھاری بات ان سے منوانی تھی ،وہ پہلے ہی مان چکے تھے.ہاں کچھ اخلاقی نقص تھے ، لیکن باوجود اتنی سہولت کے حواری بھی درست نہ ہوئے.لالچی رہے.حضرت عیسی اپنے پاس روپیہ رکھتے تھے.بعض حواری چوریاں بھی کرتے تھے.چنانچہ وہ (حضرت مسیح) کہتے ہیں.کہ مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں.لیکن ہم حیران ہیں کہ ایسا کہنے کے کیا معنی ہیں.جب گھر بھی ہو.مکان بھی ہو.اور مال میں گنجائش اس قدر کہ چوری کی جاوے.تو پتہ بھی نہ لگے.خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا.دکھانا یہ منظور ہے کہ باوجود ان تمام سہولتوں کے کوئی اصلاح نہ ہو سکی.پطرس کو بہشت کی کنجیاں تو مل جاویں، لیکن وہ اپنے استاد کو ا لعنت دینے سے نہ رک سکے.اب اس کے مقابلہ میں انصا ف دیکھا جاوے کہ ہمارے بادی اکمل کے صحابہ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیا کیا جان نثاریاں کیں، جلا وطن ہوئے، ظلم اٹھائے، طرح طرح کے
درس روحانی خزائن 209 مصائب بر داشت کیے، جانیں دیں.لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے.پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جان نثار بنا دیا.وہ سچی الہی محبت کا جوش تھا.جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی، اس لئے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے.آپ کی تعلیم ، تزکیہ نفس، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کر ادینا.شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہا دینا.اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی.یہ مقام آنحضرت صلی اللہ ظلم کے صحابہ کا ہے اور ان میں جو باہمی الفت و محبت تھی.اس کا نقشہ دو فقروں میں بیان فرمایا ہے وَ أَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ما الفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال : 64) یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہر گز پیدانہ ہوتی ، خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا.” " مشکل الفاظ اور ان کے معانی: لیہ مثال ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 26 ، 27 مطبوعہ ربوہ) اقی ان پڑھ ، ناخوانده تالیف بات کے درمیان میں بولا جانے والا وہ جملہ کسی امر یا وضاحت جملہ معترض یا تحسین کلام یاد عاوغیرہ کے لیے آتا ہے اگر یہ فقرہ درمیان سے نکال دیا جائے تب بھی کلام میں خلل نہیں پڑتا.الفت و محبت ، دوستی، دل جوئی، جوڑنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 71 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.210 میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچادوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سُنے ! اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلب گار ہے ، تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نماز یں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے.اسکمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (بقرہ:132) جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو ، تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں.پھر تم اپنے اندر دیکھو تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور خدا کے لئے زندگی وقف رکھنے کو عزیز رکھتے ہیں." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 370 مطبوعہ ربوہ) أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ میں تمام جہانوں کے رب پر ایمان لایا عزیز محبوب، پیارا
درس روحانی خزائن 211 درس روحانی خزائن نمبر 72 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.بلند ہمتی اور شجاعت : “ ہمت نہیں ہارنی چاہیے.ہمت اخلاق فاضلہ میں سے ہے اور مومن بڑا بلند ہمت ہوتا ہے اور اسے ہر وقت خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت اور تائید کے لئے تیار رہنا چاہیے اور کبھی بزدلی ظاہر نہ کرنی چاہیے.بزدلی منافق کا نشان ہے.مومن دلیر اور شجاع ہوتا ہے ، مگر شجاعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس میں موقعہ شناسی نہ ہو.موقعہ شناسی کے بغیر جو فعل کیا جاتا ہے.وہ تہور ہوتا ہے.مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی، بلکہ وہ نہایت ہوشیاری اور تحمل کے ساتھ نصرت دین کے لئے تیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا.انسان سے کبھی ایسا فعل سر زد ہو جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے اور کبھی خوش کر دیتا ہے.مثلاً اگر کسی سائل کو دھکا دیا تو وہ سختی کا موجب ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا فعل ہو تا ہے، اس لئے اسے توفیق نہ ملے گی کہ وہ اسے کچھ دے سکے، لیکن اگر اس سے نرمی اور اخلاق سے پیش آئے گا، تو خواہ اسے پانی کا پیالہ ہی دیدے، تو وہ بھی ازالہ قبض کا موجب ہو جائے گا.استغفار.قبض کا علاج: انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے.نمازوں میں لذت اور سرور پیدا ہوتا ہے، لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے.کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی حالت ہو جاتی ہے.جب ایسی حالت ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بھی پڑھے.نماز بھی بار بار پڑھے.قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے.” مشکل الفاظ اور ان کے معانی: وو ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 195،194 مطبوعہ ربوہ) تہور بے موقع، بغیر سوچے سمجھے زور آزمائی طاقت کا استعمال کرنا شتاب کاری جلد بازی
212 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 73 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.“خدا تعالیٰ کے بندے کون ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو دی ہے.اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اُس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں، مگر جو لوگ دُنیا کی املاک و جائداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں، وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں، مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے.سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے، تاکہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ اس للہی وقف کی طرف ایماء کر کے فرماتا ہے.مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره: 113) اس جگہ اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کے معنی یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلل کا لباس پہن کر آستانہ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبر و غرض جو کچھ اس کے پاس ہے.خدا ہی کے لیے وقف کرے اور دنیا اور اس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنادے.حصول دنیا میں مقصود بالذات دین ہو: کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دُنیا سے کچھ غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے.میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دُنیا کے حصول سے منع کرتا ہے، بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے.یہ بزدلوں کا کام ہے.مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں، کیونکہ اُس کا نصب العین دین ہو تا ہے اور دُنیا، اُس کا مال وجاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دُنیا مقصود بالذات نہ ہو.بلکہ حصولِ دُنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو.جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات.اس طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر.اللہ تعالیٰ نے جو یہ دُعا تعلیم فرمائی ہے کہ ربَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرہ:202) اس میں بھی دُنیا کو م کیا ہے ، لیکن کس دُنیا کو ؟ حَسَنَةُ الدُّنْیا کو جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے.اس دُعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دُنیا کے حصول میں حَسَنَاتُ الْآخِرَةِ کا خیال مقدم
درس روحانی خزائن 213 رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی حَسَنَةُ الدُّنْيَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دُنیا کے لئے اختیار کرنے چاہیں.دُنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو.جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو.نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو.نہ ہم جنسوں میں کسی عارو شرم کا باعث.ایسی دنیا بے شک حَسَنَةً الْآخِرَةِ کا موجب ہو گی.ست نہ بنو: پس یادرکھو کہ جو شخص خدا کے لئے زندگی وقف کر دیتا ہے.یہ نہیں ہو تا کہ وہ بے دست و پا ہو جاتا ہے..نہیں ہر گز نہیں.بلکہ دین اور للہی وقف انسان کو ہوشیار اور دست پا یا اتار چابکدست بنادیتا ہے.کستی اور کنسل اُس کے پاس نہیں آتا.حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا ہے تو میرے باپ نے جواب دیا کہ میں بڑھا ہوں.کل مر جاؤں گا.پس اُس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگائے.پھر میں نے حضرت عمر کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی لی یکم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے.میں پھر کہتا ہوں کہ سست نہ بنو.اللہ تعالیٰ حصولِ دنیا سے منع نہیں کرتا، بلکہ حَسَنَةُ الدُّنْيَا کی دُعا تعلیم فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہے بلکہ اُس نے صاف فرمایا ہے لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سعى ( انجم :40) اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ جد وجہد سے کام کرے، لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنالو.دین کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اور دنیا اس کے لئے بطور خادم اور مذکب کے ہو.دولت مندوں سے بسا اوقات ایسے کام ہوتے ہیں کہ غریبوں اور مفلسوں کو وہ موقع نہیں ملتا.” مشکل الفاظ اور ان کے معانی: سعاد الماء عار و شرم مَرْكَبْ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 365،364 مطبوعہ ربوہ) خوش بختی مادام الحيات جب تک زندگی ہے اشاره حياه مقام و مرتبه ، شان بے عزتی للہی وقف اللہ کی خاطر وقف، قربان کرنا سواری
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 74 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.214 والدہ کی خدمت : “ پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ وہ والدہ کی عزت کرے.اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اللہ صلی الی ظلم یمن کی طرف کو منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا.بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر صلی علی کرم موجود ہیں، مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے.صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی للی یکم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی.یا اولیس ہو یا مسیح کو.یہ ایک عجیب بات ہے، جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں - چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمران سے ملنے گئے ، تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی.ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قو میں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہوں گے.ہماری تعلیم کیا ہے ؟ صرف اللہ اور رسول اللہ صل الی ایم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے.اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو مانا نہیں چاہتا، تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے.مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کامنہ نہ دیکھیں گے: میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے.پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں رسولِ خدا کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو
درس روحانی خزائن 215 جاؤ.بہتری اسی میں ہے.ورنہ اختیار ہے.ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے." سعی مشکل الفاظ اور ان کے معانی: ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 196،195 مطبوعہ ربوہ) کوشش رزیل حقیر، ذلیل، کمینه
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 75 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.216 “انصاف دیکھا جاوے کہ ہمارے ہادی اکمل کے صحابہ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیا کیا جان شاریاں کیں.جلا وطن ہوئے، ظلم اٹھائے، طرح طرح کے مصائب برداشت کیے، جانیں دیں.لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے.پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جاں نثار بنا دیا.وہ سچی الہی محبت جوش تھا.جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی، اس لئے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے.آپ کی تعلیم تزکیہ نفس اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کر ادینا.شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہا دینا.اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی.یہ مقام آنحضرت صلی اللی علم کے صحابہ کا ہے اور ان میں جو باہمی الفت و محبت تھی.اس کا نقشہ دو فقروں میں بیان فرما ہے وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الَفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِم (الانفال:64 ) یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہر گز پیدا نہ ہوتی، خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا.اب ایک اور جماعت مسیح موعود کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہ کار نگ پیدا کرنا ہے.صحابہ کی تو وہ پاک جماعت تھی.جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑا ہے.کیا آپ لوگ ایسے ہیں ؟ جب خدا کہتا ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے ، جو صحابہ کے دوش بدوش ہوں گے.صحابہ تو وہ تھے جنہوں نے اپنا مال، اپنا وطن راہ حق میں دیدیا اور سب کچھ چھوڑ دیا.حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا.ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا، تو گھر کا کل اثاثہ لے آئے.جب رسول کریم صلی ا ہم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے، تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر چھوڑ آیا ہوں.رئیس مکہ ہو اور کمبل پوش غرباء کا لباس پہنے.یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے." مشکل الفاظ اور ان کے معانی: دوش بدوش (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 27 مطبوعہ ربوہ) ساتھ ساتھ اثاثہ مال و متاع، جمع پونجی، سرمایه
217 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 76 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.ایمان کی قوت: “خدا کی راہ میں سختی کا برداشت کرنا.مصائب اور مشکلات کے جھیلنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جانا ایمانی تحریک ہی سے ہوتا ہے.ایمان ایک قوت ہے.جو سچی شجاعت اور ہمت انسان کو عطا کرتا ہے.اس کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی زندگی میں نظر آتا ہے.جب وہ رسول اللہ صلی علیکم کے ساتھ ہوئے، تو وہ کونسی بات تھی کہ اس طرح پر ایک بیکس ناتواں انسان کے ساتھ ہو جانے سے ہم کو کوئی ثواب ملے گا.ظاہری آنکھ تو اس کے سوا کچھ نہ دکھاتی تھی کہ اس ایک کے ساتھ ہونے سے ساری قوموں کو اپنا دشمن بنالیا ہے.جس کا نتیجہ صریح یہ معلوم ہوتا تھا کہ مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑے گا اور وہ چکنا چور کر ڈالے گا، اسی طرح پر ہم ضائع ہو جائیں گے.مگر کوئی اور آنکھ بھی تھی جس نے ان مصائب اور مشکلات کو بیچ سمجھا تھا اور اس راہ میں مر جانا اس کی نگاہ میں ایک راحت اور سرور کا موجب تھا.اس نے وہ کچھ دیکھا تھا جو ان ظاہر بین آنکھوں کے نظارہ سے نہاں در نہاں اور بہت ہی دور تھا.وہ ایمانی آنکھ تھی اور ایمانی قوت تھی جو ان ساری تکلیفوں اور دکھوں کو بالکل بھیج دکھاتی تھی.آخر ایمان ہی غالب آیا اور ایمان نے وہ کرشمہ دکھایا کہ جس پر ہنستے تھے.جس کو ناتواں اور بیکس کہتے تھے.اس نے اس ایمان کے ذریعہ سے ان کو کہاں پہنچا دیا.وہ ثواب اور اجر جو پہلے مخفی تھا.پھر ایسا آشکارا ہوا کہ اس کو دنیا نے دیکھا اور محسوس کیا کہ ہاں یہ اسی کا ثمرہ ہے.ایمان کی بدولت وہ جماعت صحابہ کی نہ تھکی اور نہ ماندہ ہوئی.بلکہ قوت ایمانی کی تحریک سے بڑے بڑے عظیم الشان کام دکھائے.اور پھر بھی کہا تو یہی کہا کہ جو حق کرنے کا تھا نہیں کیا.ایمان نے ان کو وہ قوت عطا کی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سر کا دینا اور جانوں کا قربان کر دینا ایک ادنی سی بات تھی اور اہل اسلام نے جب کہ ابھی کوئی بین نتا ئج نظر نہ آتے تھے.دیکھو! کس قدر مسلمانوں نے دشمنوں کے ہاتھوں سے کیسی کیسی تکلیفیں اور محض لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کہنے کے بدلے برداشت کیں.مصیبتیں
درس روحانی خزائن 218 ایک وہ زمانہ تھا کہ سر دینا کوئی بری بات نہ تھی اور یا ایک یہ زمانہ ہے کہ باوجو داس کے کے مخالف اس قسم کی اذیتیں نہیں دیتے.ایک عادل گورنمنٹ کے سائے میں رہتے ہیں.ت کسی قسم کا تعرض نہیں کرتی.علوم دین حاصل کرنے کے پورے سامان میسر ہیں.وو ارکان مذہبی ادا کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہے.ایک سجدہ کا کر نابار گراں معلوم ہوتا ہے.” ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 407،406 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: تعرض مخالفت، مزاحمت بار گراں ناگوار بوجھ ، بھاری بوجھ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 77 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں:.66 219 صلح کی دعوت : ہم تیار ہیں کہ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ صلح کر لیں.میرے پاس ایک تھیلہ اُن گالیوں سے بھرے ہوئے کاغذات کا پڑا ہے.ایک نیا کاغذ آیا تھا.وہ بھی آج میں نے اس میں داخل کر دیا ہے.مگر ان سب کو ہم جانے دیتے ہیں.اپنی جماعت کے ساتھ اگرچہ میری ہمدردی خاص ہے.مگر میں سب کے ساتھ ہمدردی کرتا ہوں اور مخالفین کے ساتھ بھی میری ہمدردی ہے.جیسا کہ ایک حکیم تریاق کا پیالہ مریض کو دیتا ہے کہ وہ شفا پاوے، مگر مریض غصہ میں آکر اس پیالہ کو توڑ دیتا ہے.تو حکیم اس پر افسوس کرتا ہے اور رحم کرتا ہے.ہمارے قلم سے مخالف کے حق میں جو کچھ الفاظ سخت نکتے ہیں.وہ محض نیک نیتی سے نکلتے ہیں.جیسے ماں بچہ کو کبھی سخت الفاظ بولتی ہے، مگر اس کا دل درد سے بھرا ہوا ہوتا ہے.صادق اور کاذب کا معاملہ خدا کے نزدیک ایک نہیں ہوتا.خدا جس کو محبت کے ساتھ دیکھتا ہے.اس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ اس کا ایک سلوک نہیں ہوتا.کیا سب کے ساتھ اس کا معاملہ ایک ہی رنگ کا ہے.مخالفین ہم سے صلح کر لیں.ملنا جلنا شروع کر دیں.بے شک اپنے اعتقاد پر رہیں.ملاقات سے اصلی حالات معلوم ہو جاتے ہیں.امر تسر کے بعض مخالف سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کے ا منکر ہیں اور شراب پیتے ہیں.ایسی بدظنی کا سبب یہی ہے کہ وہ ہم سے بالکل الگ ہو گئے ہیں.اس قسم کا انقطاع تو کمزور لوگ کرتے ہیں کہ بالکل الگ ہو جائیں.الْحَقُّ يَعْلُو وَلَا يُعْلَے تم ہم سے ڈرتے ہو.اگر ہم حقیر ہیں تو تم ہم پر غالب آجاؤ گے.اگر صلح بھی نہیں کرتے ، تو پھر مقابلہ میں آنا چاہیے.مقابلہ کے وقت خد ا صادق کی مدد کرتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَرُسُلِي ( مجادلہ :22) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: تریاق زہر کی دوا اعتقاد ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 455،454 مطبوعہ ربوہ) یقین، ایمان انقطاع کٹنا، الگ ہونا الْحَقُّ يَعْلُو وَلَا يُعْلى حق غالب آتا ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 78 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.220 عبادت محبت ہی کا دوسرا نام ہے: اگر اسلام کی عزت کے لئے دل میں محبت نہیں ہے، تو عبادت بھی بے سود ہے، کیونکہ عبادت محبت ہی کا دوسرانام ہے.وہ تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جس پر کوئی سلطان نازل نہیں ہوا، وہ سب مشرک ہیں.سلطان تسلط سے لیا گیا ہے جو دل پر تسلط کرے اس لیے یہاں دلیل کا لفظ نہیں لکھا ہے.عبادت کیا ہے.جب انتہا درجہ کی محبت کرتا ہے.جب انتہا درجہ کی اُمید ہو.انتہا درجہ کا خوف ہو.یہ سب عبادت میں داخل ہے.غیر اللہ کی عبادت کا اتناہی مفہوم نہیں ہے کہ سجدہ نہ کیا جاوے.نہیں.بلکہ اُس کے مختلف مدارج ہیں.اگر کوئی مال سے انتہاء درجہ کی محبت کرتا ہے تو وہ اس کا بندہ ہوتا ہے خدا کا بندہ وہ ہے جو خدا کے سوا اور چیزوں کی حد اعتدال تک رعایت کرتا ہے.اسلام میں محبت وامید منع نہیں ہے، مگر ایک حد تک.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ جو خدا سے محبت کرتے ہیں.اسی سے ڈرتے اسی سے اُمید رکھتے ہیں.وہ ایک سلطان رکھتے ہیں، لیکن جو نفس کے تابع ہوتے ہیں.ان کے پاس کوئی سلطان نہیں ہے.جو محکم طور پر دل کو پکڑے.غرض انسان کا کوئی فعل اور قول ہو جب تک وہ خدائی سلطان کا پیرو نہ ہو.شرک کرتا ہے.پس ہم جو اپنی کاروائی کی دو طور پر اشاعت چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی شاہد نہیں ہو سکتا کہ کس قدر سچے جوش اور خالصہ للہ اس کو پیش کرتے ہیں.ہمیں اتفاق نہیں ہوا کہ انگریزی میں لکھ پڑھ سکتے.اگر ایسا ہو تا تو ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کو تکلیف نہ دیتے، مگر اس میں مصلحت یہ تھی کہ تا دوسروں کو ثواب کے لیے بلائیں، ورنہ میری طبیعت تو ایسی واقع ہوتی ہے کہ جو کام میں خود کر سکتا ہوں.اُس کے لئے کسی دوسرے کو کبھی کہتا ہی نہیں.اگر آنحضرت صلی علیہ کی اور چار برس زندگی پاتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہو جاتے.دراصل آنحضرت صلی اعلی ولوم و فتح عظیم جس کا آپ کے ساتھ وعدہ تھا، حاصل کر چکے تھے رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا ( النصر :3) دیکھ چکے تھے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ (المائدہ:4) ہو چکا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اُن کو محروم رکھے، بلکہ یہی چاہا کہ اُن کو بھی ثواب میں داخل کر دے.اسی وہ طرح پر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پروا بھی نہ رہتی.
درس روحانی خزائن 221 مگر خدا ثواب میں داخل کرتا ہے، جس کو وہ چاہتا ہے.یہ سب جو بیٹھے ہیں یہ قبریں ہی سمجھو، کیونکہ آخر مرنا ہے.پس ثواب حاصل کرنے کا وقت ہے.میں ان باتوں کو جو خُدا نے میرے دل پر ڈالی ہیں.سادہ اور صاف الفاظ میں ڈالنا چاہتا ہوں.اس وقت ثواب کے لیے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے ، تو کچھ کم ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پوری ہو جائیں گی.مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ ( الز لز ال:8) ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 478،477 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ اور ان کے معانی: بے شود بے فائدہ