Language: UR
درس القرآن بسم الله الرحمن الرحيم 365 دن (حصہ اول)
درس القرآن نام کتاب: 365 دن (حصہ اول) ایڈیشن: سن اشاعت: اول مارچ2012
درس القرآن بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين تعارف سیدی حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ایک خادم نے خط لکھا تھا کہ ایسی جماعتوں کے لئے جہاں قرآن شریف، حدیث اور روحانی خزائن کا درس ہوتا ہے.ریسرچ سیل کی طرف سے سادہ زبان میں ترجمہ و تفسیر ، احادیث اور روحانی خزائن کے درس تیار کر دیئے جائیں اور جو جماعتیں پسند کریں وہ اس میں سے پڑھ کر درس دے سکتے ہیں.حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور ان درسوں کی تحریر پر شفقت اور حوصلہ افزائی بھی فرمائی.اس لئے حضور ایدہ اللہ کی اجازت سے یہ 3 ماہ کے لئے درس شائع کئے جار ہے ہیں.قرآن مجید کے درس فی مہینہ 26 کی تعداد میں ہیں کیونکہ جمعہ کے روز بالعموم درس نہیں دیا جاتا اور احادیث اور روحانی خزائن کے درس 13،13 کی تعداد میں ہیں کیونکہ وہ ہفتہ میں 3، 3 دن پیش کئے جاتے ہیں.جو احباب جماعت ان دروس سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ بخوشی ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں احباب سے درخواست دعا بھی ہے.
درس القرآن بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين دروس درس القرآن درس حدیث درس روحانی ختنه ائن 365 دن صفحہ نمبر 99-1 145-100 203-146
درس القرآن بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين درس القرآن نمبر 1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (الفاتحہ : 1) اللہ کا نام لے کر اور اس کی مدد کے ساتھ اس کتاب قرآن مجید کو شروع کرتا ہوں.اللہ رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے.بہت بے انتہار حم کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے.رحمان اس کو کہتے ہیں جو بغیر کسی عمل کے انعام فرماتا ہے، بغیر کسی کو شش کے احسان فرماتا ہے، بغیر کسی کے مستحق ہونے کے دیتا ہے ، اس نے بغیر کسی کی کوشش کے بغیر کسی کی نیکی کے ، آسمان، زمین، سورج، چاند انسانوں کے فائدہ اور آرام کے لئے پیدا کئے.پانی مہیا فرمایا، ہوا بنائی، طرح طرح کی نعمتیں مہیا فرمائیں جن میں انسانوں کی کسی کوشش اور محنت کا دخل نہیں.انسانوں کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے نبی اور رسول بھیجے اور دنیا کی ہر امت اور قوم کی راہنمائی فرمائی اور پھر سب سے بڑھ کر ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی الیم کو قرآن شریف کو ساری دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا اور ہمارا اللہ رحیم بھی ہے انسان کی تھوڑی سی کوشش، تھوڑی سی محنت ، تھوڑے سے عمل، تھوڑی سی نیکی پر بہترین جزاء دیتا ہے، بہت اعلیٰ بدلہ عطا فرماتا ہے اور ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار دیتا ہے.اس آیت کو قرآن شریف کے شروع میں اور سورتوں کے شروع میں رکھ کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اگر چہ قرآن شریف کسی انسان کی نیکی، کسی انسان کی محنت اور کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا نتیجہ ہے، لیکن جو قرآن شریف پڑھے گا، اس پر عمل کرے گا اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی جدوجہد کرے گا اللہ کی رحیمیت اس کو بہت بڑھ چڑھ کر دے گی اور اس کو بے انتہا بر کتوں اور رحمتوں سے نوازے گی.اس بات کی ایک مثال حضرت ابن عباس کی ہے.حضور صلی الی یوم کے لئے ایک دفعہ حضرت ابن عباس نے جو 9-10 سال کے لڑکے تھے پانی کی ایک چھاگل بھر کر رکھی تا کہ آپ وضو فرما سکیں.آپ نے پوچھا وضو کے
درس القرآن 2 لئے پانی کس نے رکھا ہے؟ بتایا گیا کہ ابن عباس نے.آپ نے ان کو گلے لگایا اور ان کے لئے دعا کی: اللهمَّ عَلّمْهُ الْكِتَابَ وَ فَقِهْهُ فِي الدِّيْنِ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 799/ 897 مسند عبد اللہ بن عباس 3379/2881 عالم الكتب بيروت 1998ء) کہ اے اللہ اس کو قرآن شریف کا علم عطا فرما اور دین کی سمجھ دے اور دیکھیں کہ اس چھوٹی سی نیکی کا اتنا بڑ ابدلہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا کہ شاید ہی کوئی تفسیر کی کتاب لکھی گئی ہو جس میں حضرت ابن عباس کے تفسیری معنوں کا ذکر نہ ہو.اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ
درس القرآن 3 رس القرآن نمبر 2 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (الفاتحہ : 1) اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے جیسا کہ احباب جانتے ہیں قرآن شریف شروع بھی اس آیت سے ہوتا ہے اور پھر قرآن شریف کی سورتیں بھی اس آیت سے شروع ہوتی ہیں.اس چھوٹی سی آیت میں ایک بہت اہم اور مفید اور ضروری بات قرآن شریف کے متعلق بتائی گئی ہے اور پھر اس آیت کو بار بار دہرا کر اس کا مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو جو سارے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اتارا ہے تو یہ سر اسر اللہ تعالیٰ کا دنیا پر احسان ہے ، یہ اس کا فیض اور فضل ہے جو انسانوں کو دیا گیا، نہ کسی انسان نے اس کے لئے کوشش اور محنت کی ، نہ اس کے لئے کوئی عمل کیا، نہ اس کے لئے دعا کی، اللہ تعالیٰ رحمان ہے.وہ اپنا فضل اور اپنا رحم مخلوق کے کسی کام ، کسی محنت ، کسی کو شش، کسی دعا، کسی استحقاق کے بغیر بھی کرتا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے: الرَّحْمٰنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ (الرحمن: 2،3) رحمان خدا نے اپنے فضل ور حم سے انسانوں سے نیکی کرتے ہوئے قرآن سکھایا ہے.لیکن خدا تعالیٰ رحیم بھی ہے ، رحمانیت بھی اس کی صفت ہے اور رحیمیت بھی اس کی صفت ہے، جو شخص قرآن شریف پڑھتا ہے، اس پر غور کرتا ہے، اس پر ایمان لاتا ہے، اس کے احکامات کو مانتا ہے، ان باتوں سے رکتا ہے، جن سے قرآن مجید روکتا ہے، تو وہ اللہ کی رحیمیت کی صفت سے فیض حاصل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بڑھ چڑھ کر انعام دیتا ہے، اس پر رحم کرتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے، اس کو قرآن شریف کے لطیف اور خوبصورت مضامین سکھاتا ہے.دیکھیں کس طرح ایک چھوٹی سی آیت میں نہایت لطیف مضامین اختصار سے بیان کر دیئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں شکر کی توفیق دے کہ اس نے محض اپنے فضل سے ہمیں قرآن شریف جیسی نعمت عطا کی اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کی رحیمیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآن شریف پر سچا ایمان لائیں.قرآن شریف کو پڑھیں اس کا ترجمہ پڑھیں اس کے مضامین پر غور کر کے اپنا علم بڑھائیں اور اس کے حکموں پر عمل کریں اور ان باتوں سے رک جائیں جن سے قرآن منع کرتا ہے.
درس القرآن 4 رس القرآن نمبر 3 قرآن شریف کی پہلی سورۃ، سورۃ الفاتحہ جس میں صرف سات مختصر آیتیں ہیں کی ایک بہت بڑی خوبی، ایک زبر دست کمال یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کے تمام ضروری اور بڑے بڑے مضامین کی طرف اشارے موجود ہیں.قرآن مجید کا سب سے ضروری اور سب سے اہم مضمون یہ ہے کہ اس میں بیان ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا اور اس کا مالک ایک خدا ہے جس کا نام اللہ ہے.اس اللہ میں کیا اچھی صفات پائی جاتی ہیں، اس کے کیا پیارے نام ہیں، اس میں کیا اچھائیاں اور خوبیاں پائی جاتی ہیں، وہ کیسا خوبصورت ہے ، کتنا مہربان ہے، کتنی شفقت کرنے والا ہے.یہ سب باتیں پوری طرح قرآن شریف میں ملتی ہیں.قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھیں، کوئی صفحہ کھولیں، کسی رکوع کی بھی تلاوت کریں، ہر جگہ ہمیں خدا تعالیٰ کی یہ پیاری باتیں جن کو صفات حسنہ کہتے ہیں لکھی ہوئی ملیں گی.قرآن مجید میں اللہ کی ایک سو چار صفات ت لکھی گئی ہیں اور سورۃ فاتحہ میں جس میں قرآن مجید کے تمام اہم مضامین کا خلاصہ درج ہے ان صفات میں سے چار صفات لکھی ہیں اور چار صفات باقی صفات پر چوٹی کا مقام رکھتی ہیں اس لئے عربی زبان میں ان کو ام الصفات کہتے ہیں یعنی یہ چار صفات تمام صفات میں ماں کا مقام رکھتی ہیں.ان چار صفات میں سے پہلی رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحہ : 2) ہے یعنی اللہ تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور ان کو ترقی دینے والا ہے کوئی چیز خواہ وہ آسمان کی ہو یازمین کی، پتھر ہو یا درخت ہو ، جانور ہو یا انسان ہو اللہ نے پیدا کی ہیں اور ان چیزوں کی ترقی اور فائدہ بھی اللہ کی بات ماننے میں ہے.دوسری صفت الرَّحْمنِ (الفاتحہ : 3) ہے جس کے معنے ہیں کہ تمام وہ لوگ جن میں روح یا جان پائی جاتی ہے ان کے فائدہ کے لئے ، ان کی بھلائی کے لئے ، ان کی ترقی کے لئے اللہ نے ان لوگوں کی بغیر کسی دعا کے، بغیر کسی کوشش کے بغیر کسی محنت کے ، ان لوگوں کے فائدہ کے ، ان کے پیدا ہونے سے بھی پہلے بہت سی مفید چیزیں بنائی ہیں مثلاً آسمان، زمین، سورج، چاند ، بادل، بارش، پانی وغیرہ بے شمار چیزیں انسانوں کے لئے انسانوں کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ نے مہیا کر دی ہیں.
درس القرآن 5 تیسری صفت الرَّحِيمِ (الفاتحہ : 3) ہے کہ اللہ نے جو چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں اگر انسان دعا کرے، محنت کرے، کوشش سے کام لے تو اللہ کی صفت رحیمیت اس پر انسان کو بہت اچھا بدلہ دیتی ہے اور بار بار دیتی ہے.چوتھی صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحہ : 4) ہے یعنی جزا سزا کے دن کا مالک ہے یعنی انسان کی زندگی اس دنیا پر ختم نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد اس کی ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور اللہ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے انسان کو اس کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیتا ہے.
درس القرآن 6 رس القرآن نمبر 4 گزشتہ درس میں یہ ذکر ہوا تھا کہ قرآن شریف کا سب سے ضروری اور سب سے بنیادی کام اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا سبق ساری انسانیت کو دینا ہے اور لوگوں کو بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیارا ہے اس کے تمام نام اچھے ہیں اس کی تمام صفات خوبصورت ہیں اور اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ کی ایک سو چار صفات قرآن شریف میں بیان ہیں اور سورۃ فاتحہ میں جو تمام قرآن کا خلاصہ اور عطر ہے ان ایک سو چار صفات میں سے چار صفات بیان کی گئیں ہیں یعنی رَبّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحہ : 2 تا 4) جوان 104 صفات کے لئے گویا ماں کی حیثیت رکھتی ہیں.ان چار صفات کے ذکر کے بعد سورۃ فاتحہ میں اس تعلق کا ذکر ہے جو انسان کو خدا سے ہونا چاہئے جو ان چار صفات کا ضروری تقاضا ہے یعنی یہ بیان ہے کہ جس ہستی میں یہ چار صفات پائی جاتی ہیں وہی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے.چنانچہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5) کہ اے وہ اللہ جو ان چار صفات کا مالک ہے ہمیں تیرا پیارا چہرہ ان چار صفات میں نظر آرہا ہے تو تمام تعریف کا مستحق ہے کیونکہ سب جہانوں کو تو نے پیدا کیا اور ان کی ترقی کے سامان بھی تو نے ہم تمام جان رکھنے والوں کو تو نے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہمارے فائدہ کے لئے تمام سامان رکھ دیئے اور اگر ہم ان سامانوں سے فائدہ اٹھا کر نیک کام کریں تو تو بڑھ چڑھ کر اور بار بار ہمیں بدلہ دیتا ہے نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اگلے جہان میں بھی اس لئے ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور عبادت جیسے مشکل اور اہم کام کے لئے تیری ہی مدد چاہتے ہیں.عبادت کیا ہے؟ قرآن شریف میں جگہ جگہ اس کی تفصیل بیان ہے سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے.صِبْغَةَ اللهِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةَ وَنَحْنُ لَهُ عَبدُونَ (البقرة:139) اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی عبادت کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتے ہیں یعنی جو خدا کی اچھی اچھی صفات ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں.خدا علیم ہے اس
درس القرآن 7 لئے وہ علم حاصل کرتے ہیں.خدا غفور الرحیم ہے بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.وہ بھی لوگوں کو معاف کرتے اور ان پر رحم کرتے ہیں.اس طرح عبادت کے معنے محبت کرنا بھی ہیں اور ڈرنا اور احترام کرنا بھی ہیں یعنی جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں، پیار کرتے ہیں، اس کی مرضی پر چلتے ہیں اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں اس کی سزا کا ڈر اپنے دل میں رکھتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو اس کی ناراضگی کا باعث ہو.
درس القرآن 8 رس القرآن نمبر 5 اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحه : 6،7) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا.پچھلے درس میں یہ بیان ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں بندے کا اللہ سے تعلق کا نام عبادت رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ انسان کی فطرت بولتی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ (الفاتحہ : 5 ) کہ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں نہ آسمان کی، نہ زمین کی ، نہ کسی بہت کی ، نہ کسی انسان کی، ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور عبادت کے معنے جو سارے قرآن میں تفصیل سے آئے ہیں یہ ہے کہ انسان صرف خدا کی پرستش کرے، خدا کا خوف اپنے دل میں رکھے ، خدا کی محبت سے اس کا سینہ لبریز ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی استطاعت اور اپنے ظرف اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ کا نقش اپنے اندر پیدا کرے.ظاہر ہے کہ یہ بات اگر چہ ضروری ہے مگر بہت مشکل بھی ہے اس لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد فرمایاد ايَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ : 5) کہ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں اور اس کی مدد لینے کا سب سے بڑا ذریعہ دعا ہے اس لئے فرماتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ : 6) کہ ہمیں وہ راستہ دکھا جو بالکل سیدھا ہے، جو سب سے درست ہے ، جو سب سے اعلیٰ ہے.اب یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی دعا سکھائی ہے جو ہر کام کے لئے، ہر ضرورت کے لئے خدا کے حضور کی جاسکتی ہے.اس دعا میں یہ ذکر نہیں کہ ہمیں مال دے، ہمیں اولاد دے، ہمیں تقویٰ دے، ہمیں دشمن پر فتح دے بلکہ یہ دعا ہے کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا.اس لئے یہ دعا عبادت کی توفیق ملنے کے لئے بھی کی جاسکتی ہے، صحت و عافیت کے لئے بھی کی جاسکتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں ایک بڑی جامع دعا سکھا دی ہے.بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مذہبی لوگ صرف دعوی کیا کرتے ہیں اور کچھ کام نہیں کرتے.اس سوال کا جواب ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے کہ تم سیدھے راستہ کی دعا کرو اور یہ نہ سمجھو کہ یہ صرف کھو کھلی دعا ہے.ہزاروں لاکھوں لوگ دنیا کی تاریخ میں گزر چکے ہیں جن پر اللہ نے یہ انعام کیا اور وہ اللہ کے فضل سے اس سیدھے راستہ پر چلے اور نبی اور صدیق اور شہید اور صالح بننے کا انعام انہوں نے حاصل کیا.
درس القرآن 9 درس القرآن نمبر 6 اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّانِينَ (الفاتحہ : 7 6 ) ( آمین) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ان کا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا اور نہ گمر اہوں کا.انسان اگر اپنے نفس پر غور کرے تو وہ دیکھے گا کہ بے شک اس میں بہت ساری اچھی یا بری باتیں اور طاقتیں پائی جاتی ہیں جن کو وہ اپنی زندگی میں اپنے اچھے یا برے کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن دو چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہیں اور اس کے تمام کاموں پر اچھایا برا اثر ڈالتی ہیں.ایک چیز ہے انسان کسی چیز سے نفرت کرتا ہے ، اس کو ناپسند کرتا ہے ، اس سے بچنا چاہتا ہے، نہ یہ چاہتا ہے کہ ایسی چیز کے پاس جائے جو اسے ناپسند ہے اور نہ یہ چاہتا ہے کہ ایسی چیز اس کے پاس آئے جس کو وہ اچھا نہیں سمجھتا.دوسری چیز ہے کسی چیز سے محبت، پیار اور پسند کرنا.انسان چاہتا ہے کسی انسان کو ، کسی چیز کو، جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے یا اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے.سوچ کر دیکھ لیں کہ انسان کی ساری زندگی زیادہ تر انہی باتوں کے گرد چکر لگاتی ہے.سورۃ الفاتحہ میں قرآن شریف نے جب سیدھے راستہ کی دعا سکھائی اور اچھا رستہ بتانے والا صرف اچھا راستہ نہیں بتاتا بلکہ رستہ کے خطروں اور ٹھوکروں کا بھی بتاتا ہے تا کہ انسان ان سے بچے اور اس آیت میں بتاتا ہے تم سے پہلے دو قوموں نے سیدھے راستہ کی تلاش میں ٹھوکر کھائی ایک تو یہودی قوم تھی جنہوں نے خدا کے نبی سے نفرت کی اور ان کی نافرمانی کی اس لئے خدا کا غضب ان پر اترا اور دوسری قوم عیسائی ہے جنہوں نے خدا کے سچے نبی اور مسیح سے محبت کی مگر اس محبت میں ان کو خدا بنا دیا.یہودیوں نے نبیوں سے غلط نفرت کی اور عیسائیوں نے خدا کے نبی سے غلط محبت کی اور گمراہ ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں یہ دعا سکھائی کہ تم یہود کی طرح غلط نفرت کر کے خدا کی ناراضگی مول نہ لے لینا اور غلط محبت کر کے عیسائیوں کی طرح گمراہ نہ ہو جانا.
درس القرآن 10 رس القرآن نمبر 7 بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اللہ کا نام لے کر جو بہت رحم کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا ہے.اللہ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ذلِكَ الْكِتُبُ یہ وہ کامل کتاب ہے لَا رَيْبَ فیه اس میں کوئی شک والی بات نہیں ھدی لِلْمُتَّقِينَ متقیوں کے لئے ہدایت ہے.(البقرۃ:1 تا 3) ہمارے سامنے جب کوئی نئی چیز آتی ہے، ہم کوئی نیا پھل دیکھتے ہیں، ہم کوئی نئی سواری دیکھتے ہیں، نئی مشین دیکھتے ہیں، نئی کتاب دیکھتے ہیں، نیا جانور دیکھتے ہیں، غرض جب آدمی کوئی نئی چیز دیکھتا ہے جس سے اس کو واقفیت نہیں تو عام طور پر دیکھنے والے کے دل میں چار سوال اٹھتے ہیں وہ سوچتا ہے یہ کیا چیز ہے، کوئی کھانا ہے ، کوئی پودا ہے ، کوئی جانور ہے ، کوئی مشین ہے، کوئی پرزہ اور آلہ ہے ؟ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی چیز ہے، اچھی ہے یا بری؟ فائدہ دینے والی ہے یا بے کار یا تکلیف دینے والی ہے؟ پھر یہ سوال آتا ہے کہ اس چیز کا مقصد کیا ہے، کس کام آتی ہے، کون اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ قرآن شریف کا کمال ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے بعد جو سارے قرآن شریف کا خلاصہ شروع میں درج کر کے پھر پہلی سورۃ میں ان چاروں کا جواب لکھ دیا ہے جو نئی چیز دیکھ کر سوچنے والے انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں فرماتا ہے ذلِكَ الكتب یہ وہ عظیم الشان کامل کتاب ہے لا رَيْبَ فِيهِ جس کی سب باتیں سچی ہیں کوئی شک کی بات، کوئی شبہ والی بات، اس میں نہیں هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ تمام ان لوگوں کے لئے جو نیک بننا چاہتے ہیں، جو خدا سے ملنا چاہتے ہیں اور خدا کی مخلوق سے نیک سلوک کرنا چاہتے ہیں ان کو راستہ دکھانے والی ہے ، ان کو تمام اچھی باتیں بتاتی اور تمام برائی کی باتوں سے روکتی ہے اور کہاں سے آئی ہے، کس نے بنائی ہے تو یہ الہ یہ اللہ کی طرف سے ہے جو سب سے زیادہ جاننے والا اور علم رکھنے والا ہے اس لئے اس پر عمل کرنے سے انسان جہالت کی ہر غلطی سے بچ سکتا ہے.
درس القرآن رس القرآن نمبر 8 11 الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) گزشته درس میں اس سے پہلی آیت ذَالِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة: 3 ) میں ہم نے پڑھا تھا کہ یہ کتاب قرآن شریف ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی کامل کتاب ہے جس میں کوئی شک کی بات نہیں اور یہ کتاب متقیوں کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے ان کو سیدھے راستے پر لے کر چلتی ہے اس آیت میں جو آج پڑھی گئی ہے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اوّل درجہ کی کتاب جو متقیوں کو ہدایت دیتی ہے تو متقی کون ہیں؟ پہلے متقیوں کی تین (3) بہت ضروری اور اہم صفات کا بیان ہے.(1) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں (2) جو نماز قائم کرتے ہیں(3) جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.سچے متقیوں کی جو قرآن سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہ تین صفات ہیں.پہلی صفت ہے ایمان لانا اس پر جو غیب ہے، چھپی ہوئی ہے، جو عام طور پر آنکھوں سے نظر نہیں آتی ، ہاتھوں سے ٹولی نہیں جاتی ، کانوں سے سنی نہیں جاتی اور وہ اللہ کی ذات جو نور کے پر دوں میں چھپی ہوئی ہے.منتقی ایمان لانے کے بعد دو قسم کے کام کرتا ہے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتا ہے، اللہ کا حق ادا کرتا ہے، جس کا سب سے ضروری اور سب سے پہلا عمل نماز کھڑی کرنا ہے ، ایمان لانے کے بعد ، خدا کو ماننے کے بعد ، نماز پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتی ہے.اور اللہ کے حق ادا کرنے کے لئے نماز پڑھنے کے بعد اعمال میں دوسرا درجہ بندوں کی ہمدردی اور فائدہ کے لئے کام کرنا ہے جس کے لئے جو مال، جو طاقتیں، جو عقل، علم اللہ نے دیا ہے اس کو اللہ کے راستہ میں اور اس کے بندوں کی ہمدردی کے لئے خرچ کرنا ہے.تو متقی کے لئے ضروری ہے کہ اگر قرآن سے فائدہ اٹھانا ہے تو پہلے وہ ایمان لائے پھر اللہ کے حقوق ادا کرنے کے لئے نماز ادا کرے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے اپنی دولت اور اپنی طاقتیں بندوں کے لئے خرچ کرے.
درس القرآن 12 درس القرآن نمبر و وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة: 5) ترجمہ: اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر اتارا گیا اور جو تم سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.گزشتہ درس میں اس سے پہلی آیت کا یہ مضمون بیان ہوا تھا کہ متقی جو اس کتاب سے ہدایت کا صحیح راستہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کے لئے تین (3) باتیں ضروری ہیں ایک یہ کہ وہ اللہ کی ذات پر جو نظر نہیں آتی ایمان لائیں اور اللہ کے حق ادا کرنے کے لئے نماز قائم کریں اور مخلوق کی ہمدردی اور فائدہ کے لئے اپنا مال اور جو کچھ خدا نے ان کو دیا ہے ، خرچ کریں.اس آیت میں جو آج پڑھی گئی ہے یہ بتایا گیا ہے کہ ان تینوں باتوں یعنی خدا پر ایمان، خدا کے حقوق کی ادائیگی اور خدا کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کس طرح ہو اس کو سمجھنے کے لئے خدا کی ان باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے جو خدا نے محمد رسول اللہ صلی للی کم پر اتاری ہیں.اس کلام سے جو آپ پر اتارا گیا ہے انسان کو اللہ کے حقوق ادا کرنے کے لئے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے صحیح راستہ کا بھی پتہ لگتا ہے اور ایسی دلیلیں ملتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے اور اس کے حقوق ادا کرنے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کر نے کتنے ضروری ہیں.ساتھ ہی اس کلام کو بھی ماننا ضروری چاہیئے جو آپ سے پہلے اللہ نے اپنے رسولوں پر، نبیوں پر اتارا تھا کیونکہ اس کلام میں قرآن شریف کے اترنے اور رسول اللہ صلی تعلیم کے نبی ہونے کے بارہ میں پیشگوئیاں ہیں جن سے اب قرآن شریف اور رسول کریم صلی علیم کی سچائی ثابت ہوتی ہے.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی یہ بھی یقین رکھے کہ مرنے کے بعد اس کی زندگی ہو گی جب اللہ تعالیٰ نیکوں کو اچھا بدلہ دے گا اور شرارت اور بدی کرنے والوں کو سزا ملے گی کیونکہ جب تک آخرت کی اس زندگی کا یقین نہ ہو انسان اس زندگی میں توجہ سے اچھے کام نہیں کرے گا اور برے کاموں کو نہیں چھوڑے گا.
درس القرآن 13 درس القرآن نمبر 10 أوليكَ عَلى هُدًى مِنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقرة:6) یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کی اس اعلیٰ درجہ کی کامل کتاب قرآن شریف میں کوئی شک کی بات نہیں کیونکہ یہ اس کی کتاب ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب متقیوں کو صحیح راستہ دکھاتی ہے ، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتا ہے کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ متقی وہ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر جس کی ذات بہت چھپی ہوئی ہے سچا ایمان لاتے ہیں اور ایمان لانے کے بعد اس کے جو دو ضروری تقاضے ہیں یعنی حق اللہ کی ادائیگی اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی اس کو نماز کے ہے ذریعہ اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو بندوں پر خرچ کرنے کے ذریعہ ادا کرتے ہیں.اور ان باتوں کا علم ان کو خدا کے کلام کے ذریعہ ہوتا ہے جو آنحضرت صلی کم پر اترا ہوتا ہے اس لئے اس کلام پر ایمان لاتے ہیں اور اس کلام کی سچائی کا ثبوت اس کلام میں پیشگوئیوں سے بھی ملتا ہے جو آپ صلی للی یکم سے پہلے اترا تھا اس لئے اب وہ اس کلام پر بھی ایمان لاتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ہو گی اور خدا کے حضور حاضر ہونا ہے جہاں حساب کتاب ہو گا.اب فرماتا ہے أُولبِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ہدایت پر چل رہے ہیں جو ان کے پیدا کرنے والے ان کو ترقی دینے والے مالک کی طرف سے آئی و أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور صرف یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں، اپنی مراد کو پالینے والے ہیں کیونکہ مثلاً دولت کی طلب کرنے والے کبھی دولت پالیتے ہیں، کبھی نہیں بھی پاتے ان کا اپنی مراد کو پالینا کی بات نہیں.کچھ حکومت کو طلب کرتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ کو حکومت مل جائے تو ان میں سے اکثر بری طرح ناکام ہوتے ہیں.کچھ لوگ صحت کو ڈھونڈتے ہیں مگر بیماری اور کمزوری ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی، کچھ لوگ کوٹھیوں اور جانداروں کی خواہش کرتے ہیں، اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں مگر ناکام ہو جاتے ہیں صرف وہ لوگ جو خدا کو اور خدا کی رضا کو ڈھونڈتے ہیں اور ایمان لاکر نماز ادا کرتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے قرآن پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے اس مقصد میں کبھی بھی ناکام نہیں ہوتے ، ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں.
درس القرآن 14 رس القرآن نمبر 11 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (البقرة:7) يه بتانے کے بعد قرآن شریف ایک کامل کتاب ہے جس میں کوئی شک اور شبہ والی بات نہیں اور یہ کتاب متقیوں کو ہدایت دیتی ہے اور یہ بتانے کے بعد کہ متقی کون ہوتے ہیں اور ان میں کیا کیا باتیں پائی جاتی ہیں اب یہ مضمون اس آیت سے شروع ہو تا ہے کہ متقیوں کے مقابلہ میں جو قرآن مجید سے ہدایت پاتے ہیں وہ کون لوگ ہیں اور کیسے لوگ ہیں جو اس کتاب کو نہیں مانتے اور ان سے کیا سلوک کیا جائے گا.فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وہ لوگ جنہوں نے خدا کی اس کتاب کا اور اس کے رسول کا جس پر وہ کتاب اتاری گئی انکار کرتے ہیں سَوَاء عَلَيْهِمْ وَاَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُم ان پر برابر ہے تم ان کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ ہوشیار کر دیا کرو یانہ کر دیا کرو اس انکار کی غلطی اور اس کا جو برا نتیجہ نکل سکتا ہے اس بارے میں ان کو تنبیہ کرو یا نہ کرو.لا يُؤْمِنُونَ وہ ایمان نہیں لاتے.مطلب یہ ہے کہ کافر دراصل وہ ہے جو اے نبی صلی یکم تمہارے ڈرانے یا نہ ڈرانے ، تمہارے سمجھانے یا نہ سمجھانے کو برابر سمجھتے ہیں.وہ نہ نصیحت اور وعظ اگر ہو تب بھی اس کی پروا نہیں کرتے اور اگر نہ ہو تب بھی اس کی پروا نہیں کرتے، وہ ایمان لانے والے نہیں.اس آیت میں خداوند کریم نے یہ سبق دیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اگر کوئی کتاب آئے یا کوئی ڈرانے والا بھیجا جائے تو اس کا فوراً انکار کرنا بہت ہی غلط کام ہے کتاب کو پڑھو نذیر یعنی ڈرانے اور ہوشیار کرنے والے کی بات سنو، دیانت داری سے اس پر غور کرو، کتاب کے مضامین کو دیکھو کہ وہ کیا کہتی ہے ، نذیر کی زندگی، اس کے اخلاق، اس کے حالات کا مشاہدہ کر و اور دیانت داری کے ساتھ اس کا مشاہدہ کرو پھر جو بات سچ ثابت ہو اس کو مان لو ، اگر غلط ثابت ہو تو پھر اس کا انکار کر سکتے ہو.
درس القرآن 15 رس القرآن نمبر 12 اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمانے کے بعد کہ قرآن شریف جیسی اعلیٰ اور کامل کتاب سے متقی ہدایت پاتے ہیں کچھ لوگ وہ ہیں جو اس کا انکار کرتے ہیں اور آنحضرت صلی ا ہم جیسے اعلیٰ درجہ کے نذیر کا سمجھانا اور نہ سمجھانا، ہوشیار کرنا یا نہ کرنا ان کے لئے برابر ہے اور وہ ضد اور تعصب کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے.اس کے بعد فرماتا ہے خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَبْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ( البقرة : 8) کہ ان کی ضد اور انکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے ان کا فرض تھا کہ اتنی عظیم الشان کتاب پر غور کرتے ، اپنے دل میں سوچتے، رسول اکرم صلی ا لی لی جیسے نبی کے سمجھانے اور ڈرانے پر ہوش میں آتے مگر ان کے دلوں نے بجائے سمجھنے کے انکار کی طرف جلدی کی.اس لئے ان کے اس فعل کے جواب میں اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کا فرض تھا کہ اپنے کانوں سے کام لیتے اور خدا کے کلام کو توجہ سے سنتے ، خدا کے نبی صلی علم کی باتوں کو توجہ سے سنتے ، مگر انہوں نے اپنے کانوں سے بھی کام نہ لیا، اس لئے وَ عَلى سَمْعِهِمْ ان کے کانوں پر خدا کی مہر لگ گئی ، پھر اگر انہوں نے اپنے دل سے کام نہیں لیا، اپنے کانوں سے نہیں سنا، تو کم از کم اپنی آنکھوں سے وہ نشان دیکھے جو قرآن شریف کی سچائی اور نبی صلی علیکم کی صداقت کے لئے روز ظاہر ہو رہے ہیں.مگر انہوں نے اپنی آنکھوں سے بھی کام نہ لیا گویا وَ عَلَى ابْصَارِهِمْ غِشَاو ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے.شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا معرکہ ہے جو انہوں نے مارا ہے.حقیقت یہ ہے کہ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُ (البقرة:8) کہ ان کے لئے ایک بہت بڑا عذاب ہے.ان کی جو کوششیں قرآن شریف کے خلاف اور نبی کریم صلی علیم کے خلاف ہیں وہ اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گی اور اگلے جہاں میں بھی اپنی اصلاح کے لئے وہ دکھ اٹھائیں گے اور اس عذاب سے بڑا عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ کسی کو دنیا میں سزا ملے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی میں بھی وہ دکھ اٹھائے.
درس القرآن 16 رس القرآن نمبر 13 وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرة:9،10) قرآن شریف کے شروع میں ہی یہ مضمون بیان کیا.قرآن ایک کامل اور اعلی کتاب ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے کیونکہ سب سے زیادہ ماننے والے اللہ کے علم سے اتری ہے اور متقیوں کو راستہ دکھاتی ہے یہ فرمایا تھا کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ ان میں کیا کیا باتیں پائی جاتی ہیں ؟ پھر یہ فرمایا کہ کچھ لوگ اس کتاب کا اور اس کے لانے والے رسول کا انکار کرتے ہیں اور رسول خواہ انہیں کتنا بھی ہوشیار کرے ، ڈرائے ، وہ باز نہیں آتے ، وہ اپنے دل سے بھی کام نہیں لیتے ، نہ اپنے کانوں سے کام لیتے ہیں، نہ آنکھوں سے کام لیتے ہیں، حالانکہ یہی تین بڑے ذریعے صحیح راستہ معلوم کرنے کے ہیں.اب اس کے بعد کچھ اور لوگوں کا ذکر کیا ہے جو کافروں سے بھی زیادہ خطر ناک ہیں فرماتا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو زبان سے تو کہتے ہیں امنا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ کہ ہم اللہ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور آخری دن پر بھی ایمان لاتے ہیں مگر یہ ان کا زبانی دعوی ہے حقیقت میں وہ مومن نہیں ہیں.اس کے بعد ان لوگوں کا نسبتا تفصیل سے ذکر کیا ہے.کیونکہ یہ لوگ حقیقتا اللہ کی جماعتوں کے نہایت خطرناک دشمن ہوتے ہیں.وہ لوگ جن کا پہلے ذکر ہوا وہ کھلم کھلا انکار کرتے ہیں نہ دل و دماغ سے کام لیتے ہیں ، نہ کانوں سے سچائی کی باتیں سنتے ہیں، نہ آنکھوں سے بچے سلسلہ کی سچائی کو دیکھتے ہیں مگر یہ لوگ چونکہ صاف انکار کرتے ہیں اس لئے سادہ دل مومن دھوکے میں نہیں آتے.مگر وہ لوگ جو دل سے نہیں مانتے اور زبان سے دھو کہ دیتے ہیں کہ ہم مومن ہیں، بھولے بھالے مومنوں کے بعض دفعہ ان کے فریب میں آنے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے ان کا کچھ تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ يُخْدِعُونَ اللہ اللہ کو دھوکہ دینے کی
درس القرآن 17 کوشش کرتے ہیں.اب اللہ کو کون دھوکا دے سکتا ہے ؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا اور ان کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں جو سچے دل سے ایمان لائے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلا أَنْفُسَهُم وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں وَمَا يَشْعُرُونَ مگر ان کو اس کا احساس نہیں، ان کو اس کی سمجھ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں.
درس القرآن 18 درس القرآن نمبر 14 في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (البقرة:11) قرآن شریف کی خوبیوں کا ذکر کرنے کے بعد سچے متقیوں کا جو قرآن کی ہدایت کے مطابق چلتے ہیں اور پکے کافروں کا جو باوجو د سمجھانے اور ہوشیار کرنے کے انکار کرتے ہیں اب ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو زبان سے ماننے کا اظہار کرتے ہیں اور دل میں ایمان نہیں رکھتے.فرماتا ہے ایسے لوگ بیمار ہیں مگر بدن کے بیمار نہیں بلکہ دل کے بیمار ہیں کیونکہ کسی بات کو دل میں نہ ماننا اور زبان سے اس کے ماننے کا لوگوں کے سامنے اظہار کرنا ایک بہت بڑی بیماری ہے ایسا بیمار جھوٹ پر جھوٹ بولتا چلا جاتا ہے.امام کے سامنے وہ جھوٹ بولتا ہے کہ وہ مومن ہے جھوٹی بیعت کرتا ہے مومن دوستوں کے سامنے جھوٹ بولتا ہے کہ وہ مانتا ہے جب کہ دل میں وہ انکار کر رہا ہوتا ہے.اس جھوٹ کے نتیجہ میں اس کی بیماری بڑھتی چلی جاتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ بوجہ اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں.اللہ ان کی بیماری کو بڑھاتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ امام کی اور اس کی جماعت کی مدد فرماتا ہے، ان کی تائید میں نشانات اور معجزات دکھاتا ہے، دلائل سے ان کی سچائی ظاہر کرتا ہے، اس پر ایسے لوگ جو صرف زبان سے اقرار کر رہے ہوتے ہیں سچ سچ مسلمان نہیں ہو جاتے اور کڑھتے ہیں اور اس طرح ان کی بیماری بڑھتی چلی جاتی ہے.
درس القرآن 19 درس القرآن نمبر 15 وو وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْاَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ (البقرة:12،13) اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں ہم فساد کرنے والے نہیں، ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں.ہم تو مصلح اور ریفار مر ہیں.ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو دل سے نہیں مانتے مگر زبان سے دھو کہ دینے کے لئے ، غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم ایمان لاتے ہیں فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو جب سمجھایا جاتا ہے کہ ایک بات کو نہ ماننا، ایک عقیدہ دل میں رکھنا مگر لوگوں کو دکھانے کے لئے کہنا کہ ہم مانتے ہیں یہ بہت بڑا فساد ہے.سارا معاشرہ اس سے خراب ہوتا ہے.بہت بڑی دھو کہ دہی ہے.تو ایسے لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کر رہے ہیں کہ دو قوموں کے درمیان، دو فرقوں کے درمیان ہم لڑائی جھگڑا ختم کر رہے ہیں.فرماتا ہے دیکھو یہ عجیب بات کرتے ہیں، کیا اس بات کو کہ انسان مانے کچھ اور زبان سے کچھ اور کہے ، کیا یہ خرابی کی بات ہے یا اصلاح کی بات ہے.کیا یہ فساد ہے یا نیکی ؟ یہی تو یہ لوگ ہیں جو فساد کرنے والے ہیں اور خرابی کرنے والے ہیں.کبھی نظام کے متعلق غلط باتیں مشہور کرتے ہیں، کبھی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی زکوۃ کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہیں، کبھی ایسی افواہیں پھیلاتے ہیں جس سے اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں.مگر پھر بھی اپنے آپ کو اصلاح کرنے والا کہتے ہیں.حالانکہ حقیقتا فساد کر رہے ہوتے ہیں.وَلكِنْ لا يَشْعُرُونَ مگر ان کو خود شعور نہیں، اپنے دل کے خیالات کا بھی ان کو صحیح علم نہیں ورنہ ورنہ موٹی بات ہے وہ شخص ہی فساد کرنے والا ہے جو کہتا کچھ اور ہے اور دل میں کچھ اور رکھتا ہے.
درس القرآن 20 رس القرآن نمبر 16 اللہ تعالی قرآن شریف میں ان لوگوں کا ذکر فرماتے ہوئے جو زبان سے تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل سے مسلمان نہیں اور دل میں اسلام کا صاف انکار کرتے ہیں، فرماتا ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَمِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلكِنْ لاَ يَعْلَمُونَ (البقرة:14) کہ جب ایسے لوگوں کو جو زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں مگر دل میں انکار کرتے ہیں، سمجھایا جائے اور کہا جائے کہ دیکھو دوسرے لوگ بھی تو آخر مسلمان ہوئے ہیں جو ان کی زبان کہتی ہے وہی ان کا دل مانتا ہے.تم بھی ایمان لاؤ جیسے وہ لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ویسے ہی ایمان لاویں جیسے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں.وہ سچے مسلمانوں کو اس لئے بیوقوف کہتے ہیں کہ وہ ایک فریق میں شامل ہو گئے ہیں یہ لوگ جو زبان سے اقرار اور دل سے انکار کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سمجھ دار ہیں، ہم نے دونوں طرف بنا کر رکھی ہوئی ہے اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ہم ان کے سامنے تو اسلام کا اقرار کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں کی فتح کی صورت میں بھی ہمیں فائدہ ہو گا اور اگر مسلمانوں کے دشمنوں کو فتح ہو گئی تو بھی ہمارا فائدہ ہے کیونکہ ہم دل سے تو اسلام کے دشمن ہیں.بظاہر تو یہ ا منافق اپنی طرف سے ہو شیاری دکھا رہے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ سنو اور توجہ سے سنو کہ اصل میں یہی لوگ بیوقوف ہیں ولکن لا يَعْلَمُونَ لیکن یہ لوگ جانتے نہیں کہ اسلام تو خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے ، اسلام کو تو فتح ہونی ہے یہ جانتے نہیں اور سمجھتے ہیں کہ مسلمان جیت گئے تو بھی ہمارا فائدہ ہے.اسلام کے دشمن جیت گئے تو بھی ہمارا فائدہ ہے، حالانکہ اگر مسلمان جیت گئے تو ان کا نفاق کھل جائے گا، ان کی دہری زندگی کھل کر سامنے آجائے گی، خود ان کے دل اسلام کی فتح کی وجہ سے جلن اور دکھ محسوس کریں گے اور اگر خدانخواستہ اسلام کو شکست ہوئی جس کا کوئی امکان نہیں ہے تو چونکہ یہ لوگ زبان سے اپنے آپ کو اعلانیہ مسلمان کہتے رہے ہیں اس لئے جو تکلیف دوسرے مسلمان اٹھائیں گے وہ یہ بھی اٹھائیں گے.
درس القرآن درس القرآن نمبر 17 21 قرآن شریف میں ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل میں ایمان نہیں لاتے بلکہ اسلام کا انکار کرتے ہیں، فرماتا ہے: وَاذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَ إِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ اللَّهُ , يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (البقرة:15،16) یعنی یہ منافق جو دل میں نہیں مانتے اور صرف زبان سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں جب وہ مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں مگر جب اپنے شیطانی سر داروں سے علیحدہ ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف ہنسی ٹھٹھا سے کام لے رہے ہیں، فرماتا ہے کہ اللہ ان کو ان کے ہنسی ٹھٹھا کی سزا دے گا اس وقت اللہ نے ان کو کچھ مہلت دی ہوئی ہے اور وہ اپنی شرارت اور سرکشی میں بھٹک رہے ہیں.قرآن شریف کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ منافق جو ہنسی ٹھٹھے سے کام لے رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ سزا سے بچ جائیں گے ، اگلے جہاں کی سزا کے متعلق تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا پتہ اگلا جہان ہے بھی یا نہیں اور وہاں منافقوں کو سزا ملے گی بھی یا نہیں ؟ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے نبیوں کے مقابلہ میں جو منافق آتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی سزا پاتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جیسا کہ بائبل سے معلوم ہوتا ہے ان کا مقابلہ کرنے والے منافق بری طرح ناکام ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح ہوئی.حضرت عیسی علیہ السلام سے منافقت کرنے والا یہوداہ اسکر یوطی 30 روپیہ لے کر اس نے دھوکہ دیا مگر بالآخر اس نے خود کشی کر لی اور ہمارے نبی صلی الی یوم کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کا کئی سو کا ٹولہ نہ صرف یہ کہ بری طرح ناکام ہوا بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ٹولہ کے ساتھی رسول اکرم صلی اینیم کے اخلاق اور آپ صلی علیہ یکم کی فتوحات کو دیکھ کر یا سچے دل سے مسلمان ہو گئے یا مدینہ چھوڑ کر چلے گئے اور اس بات کو گزشتہ سو سال سے ہم اپنے اندر بھی دیکھ رہے ہیں.الله
درس القرآن 22 رس القرآن نمبر 18 اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو زبان سے تو مسلمان ہونے کا اظہار کرتے ہیں مگر دل اسلام کے خلاف ہیں، فرماتا ہے: أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَلَةَ بِالْهُدَى که ان لوگوں کو دیکھو یہ کیسی نادانی سے کام لے رہے ہیں، ہر شخص تو یہ چاہتا ہے اور یہ موٹی عقل کی بات ہے کہ اس کو سیدھا رستہ ملے اور وہ صحیح راستہ سے بھٹک نہ جائے مگر یہ لوگ صحیح راستہ کو جو خدا کی کتاب اور رسول اللہ صلی ال نیم کی راہنمائی کے ذریعہ ان کو مل رہا ہے، چھوڑ کر اس کے بدلہ میں غلط راستہ ، گمراہی کا راستہ تکلیف اٹھا کر ، قیمت دے کر خریدتے ہیں فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُم مگر ان کی یہ تجارت سر اسر گھاٹے کا سودا ہے ان کو اس خرید و فروخت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.کیونکہ انہوں نے اچھی چیز چھوڑی اور غلط راستہ اختیار کیا.وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ( البقرة : 17) پھر تجارت کرنے والوں کو کوئی نفع نہ بھی ہوا ہو تو گھاٹے کی صورت میں بھی ان کو ٹھوس تجربے تو ہو جاتے ہیں جس سے وہ آئندہ خطروں اور گھاٹوں سے بچ جاتے ہیں مگر ان لوگوں کو کسی قسم کی ہلاکت نہ ملی نہ کوئی مفید تجربہ ان کو ہوا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اللہ نے ہر انسان کی طبیعت میں سیدھے راستہ پر چلنے کا اختیار رکھا مگر اللہ تعالیٰ نے زبر دستی انسان کو غلط راستہ پر چلنے سے نہیں روکا اللہ نے یہ پسند نہیں کیا کہ غلط راستہ اختیار کرے مگر نا پسند کرنے کے باوجو د انسان پر جبر نہیں کیا اس کو اختیار دیا ہے کہ اگر چاہے تو ایمان لائے اگر چاہے تو کفر اختیار کرے.تو جو آدمی ایمان کو چھوڑ کر کفر اختیار کرتا ہے تو یوں کہنا چاہیے کہ اس نے ایمان کو بیچ کر کفر خرید لیا ہے اور یہ کتنابر اسو دا ہے.
درس القرآن 23 رس القرآن نمبر 19 اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ان لوگوں کا ذکر فرماتے ہوئے جو زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل سے اسلام کو نہیں مانتے، فرماتا ہے: مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِي ظُلمتِ لا يبصرون (البقرة:18) ان کی حالت اس شخص کی حالت کی طرح ہے جس نے ایک آگ بھڑ کا نا چاہی جب اس آگ نے اس کے ارد گرد کو روشن کر دیا تو اللہ ان کے نور کو لے گیا اور ان کو ایسے اندھیروں میں چھوڑ گیا کہ وہ دیکھتے نہیں.قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ نے جو بڑے سے بڑے عالم کے لئے بھی اتارا ہے اور کم سے کم علم رکھنے والے عام آدمیوں کے لئے بھی اس لئے اس میں علمی اور روحانی باتوں کو بھی نظر آنے والی چیزوں سے مشابہہ چیزوں کے ذریعہ بھی سمجھایا ہے اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو پہلے حضور صلی علیکم پر، قرآن پر ، اسلام پر ایمان لاتے ہیں گویا ایک آگ جلانے کی کوشش کرتے ہیں جب اس آگ سے خوب روشنی ہو جاتی ہے اور ارد گر د روشنی پھیل جاتی ہے تو چونکہ ان کے دل، ان کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے ، زبان سے اقرار کرتے ہیں مگر دل انکار کرتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کی روشنی کو اللہ لے جاتا ہے اور ان کو طرح طرح کے اندھیروں میں چھوڑ دیتا ہے، وہ دیکھتے نہیں.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ ان کا نور لے جاتا ہے تو اس میں ان کا کیا قصور ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اگلی آیت میں اس کا جواب دیتا ہے کہ بكم على فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقرة: 19) کہ یہ لوگ بہرے ہیں اپنی زبان سے کام لیتے ہوئے سوال پوچھ کر اسلام کی تعلیم کے بارہ میں شبہات کو دور نہیں کرتے بکھر گونگے ہیں کہ خدا اور رسول کی باتیں توجہ سے نہیں سنتے اور عمی اندھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نشانات صبح شام نازل ہو رہے ہیں اللہ کی تائیدات جو سچے دین کو مل رہی ہیں وہ نہیں دیکھتے اور اپنی آنکھوں سے کام نہیں لیتے.حالانکہ سچائی معلوم کرنے کے یہی تین بڑے طریق ہیں.زبان سے بولنا، کانوں سے سننا اور آنکھوں سے دیکھنا فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ اس لئے جب تک ان کا یہ حال ہے وہ اس سچائی کی طرف سے جس کو انہوں نے قبول کیا تھا، واپس نہیں آئیں گے.صم
درس القرآن 24 درس القرآن نمبر 20 اوْ كَصَيِّبِ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِيطُ بِالكَفِرِينَ ( البقرة : 20) پچھلے درس میں ہم نے پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ طریق رکھا ہے کہ روحانی باتوں کو سمجھانے کے لئے جن کا سمجھنا ایک عام آدمی کے لئے آسان نہیں ہو تا دنیا کی ظاہری نظر آنے والی چیزوں سے مشابہت کے ذریعہ ان کی وضاحت فرماتا ہے ان لوگوں کی مثال جو دل سے ایمان نہیں لاتے چھپے ہوئے کافر ہوتے ہیں مگر زبان سے لوگوں کی مجلسوں میں کھل کر بڑے زور سے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اپنے آپ کو سچا مومن ظاہر کرنے کی قسمیں بھی کھا لیتے ہیں اس شخص کی طرح ہے جو بڑی کوشش سے آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے اور آگ کی روشنی سے جب ارد گر د روشن ہو جاتا ہے تو چونکہ ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی اور ان کی کوشش خدا کے حضور قبول نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیتا مگر اس آگ سے جو روشنی ہوئی تھی وہ اندھیر ابن جاتی ہے کیونکہ یہ لوگ سچائی کے لئے نہ زبان سے ٹھیک کام لیتے ہیں، نہ کانوں سے اور نہ آنکھوں سے.آج جو آیت پڑھی اس میں ایک اور مثال سے ان لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے، فرماتا ہے کہ اچھی مفید اور بھر پور بارش کتنی اچھی ہوتی ہے، اس بارش کو عربی میں صیب کہتے ہیں، فرماتا ہے: ان کی مثال اس مفید اور اچھی اور بھر پور بارش کی طرح ہے فیهِ ظلمت و رعد و برق جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں یعنی اسلام کی اچھی اور مفید بارش کے ساتھ آزمائش بھی ہوتی ہے ، ابتلاء کی تاریکیاں بھی ہوتی ہیں.اور اس میں گرج کی آواز بھی ہوتی ہے اور بجلی کی چمک بھی يَجْعَلُونَ اَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ یہ لوگ جو کمزور ایمان رکھتے ہیں اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے ہیں، گرنے والی بجلیوں کے خطرہ سے حَذَرَ المَوتِ اور موت کے ڈر سے.حالانکہ کانوں میں انگلیاں ڈال کر یہ سمجھنا کہ اس طرح بجلیوں کے خطرہ سے اور موت سے بچ جائیں گے ، نادانی نہیں تو اور کیا ہے.اصل پناہ تو اللہ ہے وَاللهُ مُحِيطٌ بِالْكَفِرِينَ کافروں کی طرف سے جو امتحان اور ابتلاء اور آزما نشیں آرہی ہیں ان
درس القرآن 25 سے بچانے والا تو صرف خدا ہی ہے جو کافروں کو گھیرے ہوئے ہے.ان آیات میں دو قسم کے کمزور ایمان والوں کا ذکر ہے ایک تو پکے منافق ہیں جو زبان سے اپنے آپ کو مومن کہتے ہوئے نہیں تھکتے مگر دل میں پختہ انکار کرنے والے ہیں، ان کا ذکر پہلی آیت میں ہے اور ان کے متعلق کہا کہ ان کے نور کو اللہ لے گیا اور اس آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو اسلام کی مفید بارش سے فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں مگر اپنی بزدلی اور کمزوری کی وجہ سے ابتلاؤں اور امتحانوں سے ڈرتے بھی ہیں اور ان سے بچنے کے لئے ایسی کوششیں کرتے ہیں جو کارآمد نہیں.
درس القرآن رس القرآن نمبر 21 26 قرآن شریف نے شروع میں ذکر فرمایا ہے کہ اس کے اترنے کے ساتھ لوگ بالعموم تین حصوں میں بٹ جاتے ہیں ایک تو وہ جو تقویٰ رکھتے ہیں اور قرآن پر ایمان لاتے ہیں ان میں مومنوں کی صفات پائی جاتی ہیں پھر وہ لوگ ہیں جو کھلم کھلا صاف طور پر انکار کرتے ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ یکم جتنا بھی سمجھائیں وہ نہیں مانتے.تیسرے وہ لوگ ہیں جو زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں مگر دل میں انکار کرتے ہیں یہ لوگ ہیں جو منافق کہلاتے ہیں.یہ دو قسم کے ہیں ایک تو پکے منافق ہیں ، دل سے پوری طرح انکار کرنے والے اور زبان سے پوری طرح اقرار کرنے والے.دوسرے وہ جو ایمان تو ایک حد تک رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی کمزوریاں بھی لگی ہوئی ہیں.جیسا کہ گزشتہ درسوں میں ذکر ہوا تھا مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا (البقرة : 18) کہ ان کی مثال اس شخص کی مثال کی طرح ہے جس نے آگ جلانا چاہی.اس آیت میں منافقوں کا ذکر ہے، مگر اس آیت میں ہے کہ اُو كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ (البقرة:20) اس بارش کی طرح جس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے ان کمزوروں کا ذکر ہے جو ایمان رکھتے ہوئے ابتلاؤں کے اندھیروں اور کڑک اور بجلی سے کمزوری محسوس کرتے ہیں.آج کے درس میں بھی ان لوگوں کا مزید ذکر ہے ، فرماتا ہے يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ ابصارهم کہ بعید نہیں کہ بجلی کی چمک ان کی نظروں کو اچک کر لے جائے كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوافِيْهِ جب کبھی وہ چپکتی ہے تو یہ لوگ اس میں چلنے لگتے ہیں یعنی جس وقت ایسی جماعت پر کچھ نسبتا سہولت اور آرام کا وقت آتا ہے تو وہ جماعت کی چال کے ساتھ اپنی چال ملانے کی کوشش کرتے ہیں وَ إِذَا أَظلَم عَلَيْهِمْ قَامُوا مگر جب وہ بجلی ان پر اندھیرا کرتی ہے یا اگر خطرہ کا باعث بنتی ہے تو پھر جماعت کے ساتھ قدم بقدم نہیں چل سکتے ، ٹھہر جاتے ہیں اور پہلے پکے منافقین کے گروپ کے مقابلہ میں ان کے کان اور آنکھیں محفوظ ہیں.مگر وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَبْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ مگر اگر ان کے گناہوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھا تو بعید نہیں کہ ان کی سننے کی طاقت بھی لے جائے اور دیکھنے کی طاقت بھی اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ ( البقرة : 21) یقینا اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے.
درس القرآن 27 رس القرآن نمبر 22 يَايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:22) قرآن شریف کے بارہ میں یہ بتانے کے بعد کہ یہ کتاب کیسی ہے اور کس نے بنائی ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے یہ فرمایا تھا کہ اس کتاب کے اترنے کے بعد کچھ لوگوں نے اس کو مان لیا ہے.کچھ لوگوں نے اس کا پوری طرح انکار کر دیا ہے اور کچھ لوگ اس کے ماننے کا زبان سے تو اقرار کرتے ہیں مگر دل سے انکار کرتے ہیں اب یہ مضمون شروع کیا ہے کہ اس کتاب کا سب سے بنیادی، سب سے بڑا، سب سے ضروری حکم کیا ہے؟ یہ کتاب کیا تعلیم دیتی ہے ؟ تو فرماتا ہے:.اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ان سب لو گوں کو بھی جو تم سے پہلے ہوئے تاکہ تمہیں تقویٰ نصیب ہو اور تم بچ جاؤ.یہ قرآن شریف کا سب سے اہم اور ضروری حکم ہے اور صرف مردوں کے لئے نہیں ، صرف عورتوں کے لئے نہیں، صرف عربوں کے لئے نہیں، بلکہ یاَيُّهَا النَّاسُ اے سب لوگو ! جو اردو بولنے والے ہو یا انگریزی، سفید رنگ کے ہو یا زرد رنگ کے ، افریقہ میں رہتے ہو یا ایشیا میں، تم سب اس کی عبادت کرو جو تمہارا رب ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری ہدایت اور ترقی کے سب سامان بنائے.صرف اس کی عبادت کرو اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا کرو، اس سے اصلی محبت کرو، اس سے ڈرو، اپنے آپ کو معبود نہ بناؤ الَّذِی خَلَقَكُمُ کیونکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ اور ان کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.یہ لوگ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں وہ مسیح ہوں یا کرشن ہوں یا رام چندر ہوں یا بدھ ہوں، سب کو اسی نے پیدا کیا ہے پس ان لوگوں کی عبادت کی بجائے اس کی عبادت کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا کہ تم دنیا میں اور آخرت میں خدا کی سزا سے بچ سکو.
درس القرآن 28 رس القرآن نمبر 23 الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَ السَّمَاءَ بِنَاءً وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا تَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ( البقرة :23 ) یہ حکم دینے کے بعد یا اَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ کہ اے تمام لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو.یہ عبادت کا حکم قرآن شریف کا سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے، فرمایا تھا کہ نہ اپنے آپ کو کچھ سمجھو اور اپنے نفس کو خدانہ بنالو اور نہ ان لوگوں کو معبود بناؤ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں جس طرح مثلا لوگوں نے یسوع کو ، کرشن کو ، رام کو ، بدھ کو ، خدا بنایا ہوا ہے اس آیت میں فرمایا ہے کہ تمہیں اور تمہارے بزرگوں کو پیدا کرنے والا بھی اللہ ہے اور یہ سارا نظام جس میں تم رہتے ہو یہ بھی خدا کا بنایا ہوا ہے.الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا اس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنا یا وَ السَّمَاء بِنَاء اور آسمان کو چھت بنایا ہے وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً اور آسمان سے پانی اتارا فَاخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ اور اس کے ذریعے طرح طرح کے پھل تمہارے لئے رزق کے طور پر نکالے ہیں فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا اللہ کے شریک نہ بناؤ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور تم جانتے بوجھتے ہو.ان دونوں آیتوں میں خدا کی عبادت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں بھی خدا نے پیدا کیا ہے اور تمہارے بزرگوں کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے پھر یہ زمین جس پر تم رہتے ہو خدا نے بنائی ہے.آسمان جو تمہارے چھت کا کام دے رہا ہے خدا نے بنایا ہے ، بادل سے جو پانی اترتا ہے جس سے رنگ برنگے نباتات پھل وغیرہ پیدا ہوتے ہیں.وہ بھی خدا نے بنائے ہیں کسی انسان نے، کسی پتھر نے ، کسی دوسرے نے نہیں بنائے، تو پھر سمجھتے بوجھتے خدا کے سوا کسی کی عبادت کرنا اور ان چیزوں کو خدا کے برابر بتانا کہاں کی عقلمندی ہے.
درس القرآن 29 رس القرآن نمبر 24 وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ منْ دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صُدِقِينَ (البقرة:24) انسان کی طبیعت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ بالعموم وہ کسی کی بات کا فوری طور پر انکار نہیں کرتا لیکن اگر اس کو کسی بات کا حکم دیا جائے کہ ایسے کر دیا یہ حکم دیا جائے کہ ایسے نہ کرو تو پھر وہ ”کیوں“ کا لفظ بولتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ اسے دلیل دی جائے کہ وہ ایسے کیوں کرے اور ایسے کیوں نہ کرے.خصوصاً جب وہ بات اس کے عام طریق کے خلاف ہو.اب اس آیت سے پہلی آیات میں قرآن شریف کا پہلا حکم دیا گیا تھا اور حکم بھی وہ جو قرآن مجید کی رو سے پہلا اور سب سے بنیادی اور سب سے ضروری حکم ہے اور پھر صرف ایک شخص کو یا ایک قوم کو یا صرف ایک علاقہ کے لوگوں کو نہیں بلکہ سب لوگوں کو سب ملکوں کے لوگوں کو سب زبانیں بولنے والوں کو ہر رنگ کے لوگوں کو دیا گیا ہے اور پھر اس حکم کو لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ حکم یہ ہے کہ اللہ کی عبادت فرض ہے اس فرض کو بجالاؤ.اس لئے یہ سوال اٹھنا ہی تھا کہ ہم کیوں عبادت کریں، تو اس آیت میں فرماتا ہے : وَإِن كُنتُم فِی ریب اگر تم اس کلام کے بارہ میں شک میں ہو مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا جو ہم نے اپنے عبد پر اتارا ہے یعنی اس بندہ پر اتارا ہے جو سب سے بڑھ کر عبادت کے حکم پر عمل کرنے والا ہے فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ تو اس جیسی کتاب کی کوئی سورۃ لاؤ جو اس سورۃ کا درجہ رکھتی ہو جس میں ہم نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو.وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِنْ دُونِ اللہ اور تم اللہ کی عبادت کے حکم کی تعمیل کرنا نہیں چاہتے تمہیں اس میں شک ہے تو اپنے مددگاروں کو بلا لو ان كُنتُم صدِقِينَ اگر تم سچے ہو.یعنی اگر تمہیں شک ہے کہ اس سے بہتر تمہارے پاس کوئی تعلیم ہے تو پیش کرو اور مقابلہ کر کے دیکھ لو.رووو روووو
درس القرآن 30 رس القرآن نمبر 25 فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتُ لكفِرِينَ (البقرة : 25) اس آیت سے پہلے تین آیات میں مضمون بیان فرمایا تھا کہ اے دنیا بھر کے انسانو! تم اللہ کی عبادت کرو.اس کے سامنے جھکو، اسی سے محبت کرو، اسی کا خوف اپنے دل میں رکھو ساری اچھی صفات اللہ میں ہیں تم اس کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو.اگر تمہیں اس حکم کے بارہ میں کوئی شک ہے اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ تعلیم (نعوذ باللہ) اچھی نہیں تو ہم نے اپنے اس عبادت کرنے والے بندے پر جو یہ تعلیم اتاری ہے اس جیسی کوئی تعلیم لا کر دکھاؤ اپنے مددگاروں سے مدد لے لو اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو.اب اس آیت میں فرمایا کہ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا اگر تم ایسانہ کر سکو وَ لَنْ تَفْعَلُوا اور ہر گز ایسا نہیں کر سکو گے فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ تو اس آگ سے ڈرو اور بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ اور وہ انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے.اس آیت میں پورے زور سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہماری یہ بات اگر ماننے کے لئے تیار نہیں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو حقیقی محبت صرف اللہ سے کرو حقیقتا صرف اسی سے ڈرو اور اس کی صفات اچھی ہیں، پیارے پیارے اسی کے نام ہیں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، تو اگر یہ تعلیم تمہیں پسند نہیں تو اس سے بہتر نہیں تو اس جیسی کوئی تعلیم لا کر دکھاؤ، کسی سے مدد لے لو.اپنے معبدوں کو ، اپنے مدد گاروں کو بلالو لیکن یا درکھو کہ تم یہ کوشش بھی کروگے تو اس میں کامیاب نہیں ہو سکو گے.کبھی تم قرآن جیسی تعلیم نہیں لا سکو گے.تو پھر جو اس انکار کا لازمی نتیجہ ہے کہ تمہاری اصلاح کے لئے جو آگ اللہ نے تیار کی ہوئی ہے اس سے کس طرح بچو گے.دیکھیں قریباً 15 سو سال سے اللہ نے قرآن کے بارہ میں یہ چیلنج دیا ہوا ہے کہ اس جیسی کتاب کی کوئی سورۃ بنا کر دکھاؤ مگر کوئی نہ بناسکا.
درس القرآن 31 رس القرآن نمبر 26 وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ اَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجُ مطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خُلِدُونَ ( البقرة : 26) گزشتہ تین درسوں میں جو آیات پڑھی گئی تھیں ان کا یہ مضمون تھا کہ اے سب انسانو! اللہ کی عبادت کرو، اس سے محبت رکھو، اسی سے ڈرو اور اسی کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو.لیکن اگر تمہیں ہمارا یہ حکم پسند نہیں آتا، تمہیں اس بارہ میں کوئی شک شبہ ہے تو آسان بات ہے کہ پھر اتنی اچھی تعلیم جیسی تعلیم تم بھی لے آؤ اور اپنے مددگاروں سے مدد لے کر بنالو.مگر تم یاد رکھو کہ یہ کام تم نہ کرو گے، نہ کر سکو گے تو پھر جو اصلاح کا تکلیف دہ ذریعہ تمہارے لئے تیار کیا گیا ہے اس سے ڈرو.آج کی آیت میں اس کا دوسرا پہلو بیان فرمایا ہے کہ تم سے جو لوگ اس خوبصورت تعلیم کو مانیں گے ، مگر صرف مانیں گے نہیں بلکہ اس کے مطابق اچھے کام کریں گے ان کو وَبَشِّرِ الَّذِينَ امَنُوا وَ عَمِلُوا الصلحت اے نبی صلی الله علم ان کو خوشخبری دو بشارت دو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے.اَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں یعنی جس طرح باغات کے درخت پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اس لئے ان ایمان لانے والوں کا ایمان ان کے اچھے نیک کاموں کی نہروں سے پھلتا پھولتا ہے اور یہ پھل ان کو ملیں گے كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثمرة ذگا جب کبھی ان باغوں میں ان کو کوئی پھل رزق کے طور پر ملے گا.قَالُوا هُذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبل کہ یہ وہ پھل ہیں جو ہمیں پہلے دیئے گئے ہیں یعنی وہ ایمان اور اچھے اور نیک اعمال جن کی اللہ کے فضل سے ہمیں توفیق ملی تھی.وَاتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا اور ان کو اس سے ملتا جلتا دیا جائے گا اور وہ ان باغات میں اکیلے نہیں ہوں گے کہ تنہائی محسوس کریں.وَ لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ان کے لئے ان باغات میں جوڑے ہوں گے مگر نہایت پاکیزہ اور ان کو یہ ڈر بھی نہیں ہو گا کہ یہ انعام کل ختم ہو جائیں گے وَهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ اور وہ ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.
درس القرآن 32 رس القرآن نمبر 27 إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَعْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَلَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَ اَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهَ إِلَّا الْفَسِقِينَ (البقرة:27) پچھلی آیات میں یہ مضمون بیان کیا گیا تھا کہ اگر تم قرآن مجید کے اس پہلے اور سب سے بڑے اور سب سے ضروری حکم کو نہیں مانتے اور قرآن کے اس حکم کو شک کی نظر سے دیکھتے ہو تو اس سے بہتر نہیں تو اس جیسی کوئی تعلیم پیش کرو اور اگر نہیں پیش کرتے اور ہر گز پیش نہیں کر سکو گے تو اس پر سخت تکلیف دہ ذریعہ اصلاح کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ جو اس اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو انکار کرنے کے نتیجہ میں تیار کیا گیا ہے اور ان لوگوں کو بشارت ہے جو اس تعلیم کو مان کر مناسب حال نیک کام کرتے ہیں وہ ان کاموں کا پھل کھائیں گے جس کا نقشہ باغات اور نہروں کی شکل میں کھینچا گیا ہے اور جن کے متعلق نہ یہ خطرہ ہے کہ وہ وہاں تنہائی محسوس کریں گے نہ یہ کہ وہ کسی وقت ختم ہو جائیں گے.جو آیت آج پڑھی گئی ہے اس میں اس اعلیٰ درجہ کی تعلیم کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ کتنی بار یکی اور عمدگی سے ان باتوں کو پیش کرتی ہے فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں رکتا کہ وہ کسی بات کو بیان کرے خواہ مچھر جتنی ہو یا اس سے بھی بڑی (یا چھوٹی) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا تو جو ایمان لائے فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ کہ علم رکھتے ہیں صرف شک یا و ہم پر ان کا خیال نہیں ہو تا بلکہ علم پر اس کی بنیاد ہوتی ہے کہ وہ بات سچ بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا مگر وہ لوگ جو انکار کرتے ہیں وہ کہہ دیتے ہیں خبر نہیں اللہ کا اس بات سے مقصد کیا ہے ؟ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرا بہت سے لوگوں کو اللہ اس تعلیم (کے انکار) کی وجہ سے یہ فرماتا ہے کہ یہ لوگ رستہ بھول گئے ہیں ويَهْدِى بِه ی برا مگر بہت سے لوگ جو علم والے ہوتے ہیں اسی تعلیم کے ذریعے صحیح راستہ پالیتے ہیں مگر یہ کوئی ظلم نہیں ہوتا جن کو رستہ بھولنے والا ٹھہراتا ہے ان کے متعلق فرماتا ہے وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الفسقین کہ وہ صرف ان کو رستہ بھولنے والا ٹھہراتا ہے جو نافرمانی کرتے اور عہد توڑتے ہیں.
درس القرآن 33 درس القرآن نمبر 28 الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ ( البقرة : 28) اس آیت میں ایک ایسے اعتراض کا جواب ہے جو بڑی کثرت سے مغرب میں اسلام اور قرآن شریف پر کیا جاتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رضی اللہ عنہ جب دوسری دفعہ سپین تشریف لائے اور بیت بشارت کے سامنے کے صحن میں کئی ہزار غیر مسلموں کے سامنے آپ نے ان کے سوالات کے جواب دیئے تو پہلا اعتراض جو کیا گیاوہ یہ تھا کہ قرآن میں لکھا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعہ بہت لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت لوگوں کو ہدایت دیتا ہے تو اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب اللہ خود ہی گمراہ کرتا ہے تو پھر لوگوں کا کیا قصور ہے اور ان کو کس بات کی سزا ملتی ہے.یہ الفاظ يُضِلُّ بِه كَثِیراً کہ اس کے ذریعہ بہت لوگوں کو گمراہ کرتا ہے یازیادہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ گمراہ ٹھہراتا ہے آج کی آیت سے پہلی آیت میں آئے ہیں اور قرآن مجید میں پہلی دفعہ آئے ہیں اس لئے قرآن مجید جو غیب جاننے والے اللہ کی کتاب ہے نے ان دونوں آیتوں کو جوڑ کر اس اعتراض کا جو آئندہ زمانہ میں ہونے والا تھا جواب دے دیا ہے، فرماتا ہے.وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفُسِقِينَ کہ قرآن کے ذریعہ صرف ان عہد توڑنے، فسق و فجور کرنے والوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ جو اللہ کے عہد کو پکا کرنے کے بعد توڑتے ہیں وَ يَقْطَعُونَ مَا اَمَرَ اللهُ بِهِ اَنْ يُوصَلَ اور جس تعلق کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اس کو توڑتے ہیں وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ اور زمین میں فساد کرتے ہیں.أولَبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ یہی لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں.اس جواب کے ذریعہ واضح کر دیا کہ ہدایت دینا یا گمراہ ٹھہرانا اندھادھند کام نہیں.جو لوگ اچھا کام کرتے ہیں ان کو اللہ ہدایت دیتا ہے اور جو گناہ کرتے ہیں، عہد توڑتے ہیں، زمین میں گڑ بڑ اور فساد کرتے ہیں ان کو گمراہ قرار دیتا ہے.
درس القرآن رس القرآن نمبر 29 ووروور ترجعون و 34 كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَ كُنتُمْ اَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُم ثُمَّ يُحْيِيكُم ثُمَّ إِلَيْهِ (البقرة:29) اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد کہ چونکہ عبادت سب سے ضروری اور بنیادی حکم ہے تم اے سب لوگو ! عبادت کرو اور اگر اس بارہ میں تمہیں کوئی شک ہے تو اس سے بہتر تعلیم نے آؤ اور یاد رکھو کہ اس سے بہتر تعلیم ہر گز نہیں لا سکو گے تو پھر اس سے انکار کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا اس سے بچنے کی کوئی تدبیر نکالو کیونکہ اس تعلیم کا انکار کرنے والے سزا پائیں گے اور ماننے والے بشر طیکہ وہ اس کے مطابق عمل کریں اپنے اعمال کے پھل کھائیں گے.اس مضمون کے بعد یہ فرماتا ہے کہ تم اللہ کا انکار کس طرح کر سکتے ہو ، تمہاری زندگی اور موت تمہارے ہاتھ میں نہیں اگر تمہارا پید اہونا، تمہارا مرنا تمہارے اپنے اختیار میں ہو تا یاکسی اور انسان یاد نیا کی کسی چیز کے ہاتھ میں ہو تا تو پھر تم اللہ کا انکار کرتے ٹھیک بھی لگتے ہو.مگر نہ تمہارا پیداہونا تمہارے ہاتھ میں، اختیار میں نہ تمہارا مرنا تمہارے اختیار میں ہے.ایک خاندان میں دس لڑکے پیدا ہو جاتے ہیں ایک خاندان والے ایک لڑکے کے لئے ترستے ہیں.ایک آدمی 95 سال کی عمر کا ہو کر مرنا چاہتا ہے ، مرتا نہیں.دوسرا دو دن پیدائش کے بعد مر جاتا ہے.نہ تم کسی کو پیدا کر سکتے ہو نہ کسی کی عمر بڑھا سکتے یا گھٹا سکتے ہو.پھر کس منہ سے اللہ کا انکار کرتے ہو ؟ گیف تَكْفُرُونَ بِاللهِ تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو وَ كُنتُم اَمْوَانًا تم مردہ تھے وَأَحْيَاكُمُ اس نے تمہیں زندہ کیا تحریمیتکم پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر اگر معاملہ یہاں ہی ختم ہو جاتا تو پھر بھی خیر تھی ثُمَّ يُحْبيكُم پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا ثُمَّ الَیهِ تُرْجَعُونَ اور تم اس کی طرف وو و لوٹائے جاؤ گے.اب تو گویا تمہارے لئے اللہ کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے.
درس القرآن 35 درس القرآن نمبر 30 هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَبِهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة :30) پچھلی آیت میں یہ مضمون تھا کہ تم اللہ کا اور اس کی عبادت کرنے کے حکم کا کس طرح انکار کر سکتے ہو جب کہ تمہاری اپنی زندگی اور موت بھی تمہارے اختیار میں نہیں.اللہ نے تمہیں پیدا کیا، اللہ ہی تمہیں موت دے گا.نہ تمہارا پید اہو نا تمہارے اختیار میں ہے نہ تمہارا مرنا تمہارے اختیار میں ہے اور پھر مرنے کے بعد تم نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے تو پھر اللہ کے انکار کی کیا گنجائش ہے اور اس کی عبادت سے کیوں بھاگتے ہو.اس آیت میں اس مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا في الْأَرْضِ جَمِيعًا کہ یہ زمین جس میں تم رہتے ہو ، جس میں تمہارے فائدہ کے سب سامان ہیں یہ بھی تو تم نے نہیں بنائی.وہی اللہ ہے جس نے زمین میں جو سب کچھ ہے تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اور ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَنهُنَّ سَبْعَ سبوت وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنائے.وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِیم اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے، فرماتا ہے.اب جس نے تمہارے فائدہ کے لئے اتنی بڑی زمین اور سب فائدے کی چیزیں جو اس میں ہیں تمہارے لئے بنائے اور سات درجوں میں تمہارے اوپر بلندیاں بنائی ہیں اور سب فائدے کے لئے ہیں، تمہارے کام آتی ہیں، کیا تم اس کی عبادت سے انکار کرتے ہو، اس کی ہستی سے انکار کرتے ہو.یہ نہ سمجھو کہ اس کو تمہاری ان باتوں کا علم نہیں ، اتنی بڑی زمین اور اس کے سامان ، اتنی بڑی بلندیاں مکمل شکل میں بنائیں.کیا وہ بھی نہ جاننے والا ہو سکتا ہے.اگر وہ جانے والا ہے تو تم اس کی عبادت سے کس طرح انکار کی جرات کرتے ہو.
درس القرآن 36 درس القرآن نمبر 31 وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة:31) اس آیت کے سادہ ترجمہ و تفسیر سے پہلے جو مضامین اس سورۃ البقرۃ میں اب تک بیان ہوئے ہیں ان کا خلاصہ لکھا جاتا ہے تاکہ ان مضامین کا جوڑ اس آیت سے بتایا جائے جس سے ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے.سورۃ البقرۃ کے شروع میں یہ مضمون ہے اللہ نے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یہ کامل کتاب جس میں کوئی کچی بات نہیں، نیک لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے اتاری ہے ، نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو اللہ ، رسول، فرشتے اور مرنے کے بعد زندگی کو مانتے ہیں، ان باتوں کو بھی مانتے ہیں کہ جو اللہ نے رسول اکرم صلی علیم پر اتاریں اور ان کو بھی مانتے ہیں جو پہلے رسولوں پر اتاری گئیں اور اگلے جہان پر اور اس کی سزا جزاء پر پکا یقین رکھتے ہیں اور لوگوں کی بھلائی کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں، فرمایا.پھر کچھ اور لوگ ہیں جو ایسی صاف سچائیوں کا بالکل انکار کر دیتے ہیں جیسے ان کے دل پر مہر لگی ہوئی ہو اور بعض ایسے بھی ہیں جو زبان سے انکار نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے ساتھ اقرار کرتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ وہ دل میں بڑے زور سے انکار کرتے ہیں.- " اس تعارف کے بعد فرمایا کہ اس کتاب کا سب سے ضروری اور بنیادی حکم یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اس سے محبت کرو اسی سے ڈرو اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ کی اچھی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو اگر تم اس اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو نہیں مانتے تو پھر اس سے بہتر تعلیم پیش کرو جو تم کبھی نہیں کر سکو گے.تو پھر انکار کرنے والوں کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جاؤ مگر جو لوگ مانتے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ اپنے اچھے کاموں کا پھل پائیں گے.اس بات پر لوگوں کو شبہ ہو سکتا تھا کہ اللہ کو ہم کیوں مانیں تو اس بارہ میں دو آیات میں اس کی وجوہات بتائی گئی ہیں.اس کے بعد یہ سوال دلوں میں اٹھ سکتا تھا کہ اب جو تعلیم ہمارے سامنے پیش کی
درس القرآن 37 جار ہی ہے کیا یہ کوئی نئی تعلیم ہے، کوئی شوشہ ہے جو چھوڑا جارہا ہے.اس سوال کا جواب اس آیت میں ہے کہ یہ تعلیم کوئی نئی تعلیم نہیں، نہ ہی کوئی نیا واقعہ ہے بلکہ تسلسل ہے اس دور کا جو حضرت آدم کے زمانہ سے چل رہا ہے اور اس دور میں ایک خلیفہ کے پیدا ہونے کا ذکر ہے اور یہ خلافت محمد رسول اللہ صلی للی نیلم کی ذات مبارک میں اپنے کمال کو پہنچی ہے.اس لئے یہ سوال تمہارے دلوں میں نہ اٹھے کہ یہ کوئی نئی بات، کوئی نیا سلسلہ ہے اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ اے محمد صلی ا ولم تمہارے رب نے فرشتوں سے یہ کہا تھا کہ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ انہوں نے کہا کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ یہ اعتراض کے طور پر نہیں کہہ رہے ، ہم تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ اللہ نے فرشتوں سے فرمایا میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.
درس القرآن 38 رس القرآن نمبر 32 وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَكَةِ فَقَالَ انْتُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنتُم صُدِقِينَ قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَادَمُ انْبِتُهُم بِأَسْمَابِهِم فَلَمَّا انْبَاهُمْ بِإِسْمَابِهِمْ قَالَ اَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرة:32تا 34) اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو یہ فرمایا کہ زمین میں ایک سلسلہ خلافت شروع ہو رہا ہے تو انہوں نے عرض کیا کہ اس سلسلہ کے باعث زمین میں فساد اور خون بہنا تو نہیں شروع ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے جو جواب دیا اس کی تشریح یہ ہے کہ تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تجلی ہے اور فرشتوں کے ذریعہ بہت سی صفات کی تجلی نہیں ہوتی، فرماتا ہے کہ اللہ نے آدم کو جو اس سلسلہ خلافت کا نقطہ آغاز تھا اپنی جملہ صفات کا علم دیا، فرماتا ہے وَ عَلَمَ آدَمَ الْأَسْمَاء كُلها کہ آدم کو تمام صفات الہیہ کا علم دیا گیا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَكَةِ پھر ان صفات سے متصف ہونے والے وجود ملائکہ کو دکھا کر ان کو کہا انتوني بِأَسْمَاء هَؤُلاء إِن كُنتُم صدِقِينَ اگر تمہارا خیال درست ہے تو تم مجھے ان کے نام بتاؤ یعنی ان صفات کا ذکر کرو جو ان وجو دوں میں پائی جاتی ہیں.قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا ما علمتنا انہوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جو تو ہمیں سکھائے.اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ کیونکہ تو خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے.گویا فرشتوں نے ان صفات کے علم سے ناواقفیت کا اقرار کیا جو اس سلسلہ خلافت کے ذریعہ ظاہر ہونے والی تھیں خدا تعالیٰ نے فرمایا اکھ اقل لكُم کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا اِنّى اَعْلَمُ غَيْبَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں.وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ اور میں وہ بھی جانتا ہوں جو (صفات) تم ظاہر کر سکتے ہو وَمَا كُنتُم تَكْتُمُونَن اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر نہیں کر سکتے.ان آیات میں ہمارے اس روحانی دور ، جس کی ابتداء آدم سے ہوئی اور جو ہمارے نبی صلی الی یکم کے ذریعہ اپنے جو بن پر پہنچا، کی ابتداء کا ذکر ہے.
درس القرآن 39 رس القرآن نمبر 33 وَاذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُ وَالأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ (البقرة:35) حضرت آدم کے ذریعہ روحانی دنیا میں یہ دور جو ہمارا دور ہے ، شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی ان صفات کا علم دیا جو فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھیں اور فرشتوں کو حکم ہوا کہ اللہ کے اس عظیم الشان کام پر اللہ کے حضور سجدہ کریں اور آدم کی پوری طرح اطاعت کریں اور اس کے کاموں میں اس کے مددگار ہوں وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا اسجدوا لادم کہ آدم کی خاطر اللہ کو سجدہ کرو اور آدم کی پوری اطاعت کرو ( یہ دونوں معنے اس فقرہ سے نکلتے ہیں) فَسَجَدُوا تو انہوں نے اللہ کو سجدہ کیا اور آدم کی اطاعت کی اور اس کے کاموں میں اس کی مدد کرنے لگے الا ابليس مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا ابی وَاسْتَكْبَرَ اس نے انکار بھی کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا وَ كَانَ مِنَ الكَفِرِینَ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کافروں میں سے ہو گیا.ہمارے نبی صلی علی کم پر جو کتاب قرآن نازل ہوئی اس کے شروع میں یہ مضمون ہے کہ اس کتاب کو ماننے والے مومن اور نہ ماننے والے کافر اور منافق بن جاتے ہیں تو اس آیت میں اس کی وجہ بھی بتادی کہ وہ کافر کیوں بنتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ نمبر ایک وہ اس کی جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کا انکار کرتے ہیں، اس کی اطاعت نہیں کرتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا بناتے اور بڑا سمجھتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو ماننے والوں سے زیادہ مال دار دیکھتا ہے، کوئی زیادہ رسوخ، عہدہ اور طاقت رکھنے والا خیال کرتا ہے، کوئی اپنے آپ کو زیادہ علم والا سمجھتا ہے اور اس وجہ سے اس میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ خدا والوں کا انکار کر دیتا ہے اور خدا کے مامور کو ماننے والے مومنوں کے مقابل میں کافروں کی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے.
درس القرآن 40 رس القرآن نمبر 34 وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هُذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ فَازَلَهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُةٌ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلى حِينِ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمَةٍ فَتَابَ عَلَيْهِ انه هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة : 36 تا 38) آنحضور صلی ال نیلم کے دعوی ماموریت کے بعد یہ سوال لازمی تھا کہ کیا یہ کوئی نیامد ہب ہے یا کسی پرانے مذہب کا جاری سلسلہ ہے اس سوال کا جواب دینے کے لئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیکم کا پیغام تمام انسانیت کو خدا کی عبادت کے لئے بلانا ہے جیسا کہ فرمایا یايُّهَا النَّاسُ اعبدوا ربكم کہ اے دنیا بھر کے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو اور یہ پیغام نیا نہیں اس دور کی ابتداء آدم سے ہوئی تھی اور اس سلسلہ میں جو اعتراض خون بہانے اور فساد کرنے کا ہو سکتا تھا اس کا جو اب بیان فرمایا کہ آدم کا سلسلہ اللہ کی صفات کی تجلی کے لئے ہے.اب ان آیات میں فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان غلطی نہیں کر سکتا.شیطان اس کو دھوکا دے سکتا ہے مگر ساتھ ہی یہ مضمون بھی بیان کر دیا کہ اگر آدم یا اس کے دور کے انسانوں سے غلطی ہو جائے تو اس کا علاج بھی موجود ہے ، فرماتا ہے:.وَقُلْنَا يَادَم ہم نے کہا اے آدم اسکن اَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ کہ تم اور تمہاری بیوی اس باغ میں رہو وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شبا اور دونوں جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ وَلَا تَقْرَبَا هذِهِ الشَّجَرَة مگر اس درخت کے قریب نہ جاؤ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے.اس آیت میں سمجھایا گیا ہے کہ دنیا کی انسان کی زندگی اسی طرح ہے جس طرح وہ ایک باغ میں زندگی گزار رہا ہو جہاں طرح طرح کی نعمتوں کے درخت انسان کے لئے مہیا کئے گئے ہیں.مگر ایک درخت خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کا بھی ہے.انسان کو چاہیے کہ اس کے قریب بھی نہ جائے ورنہ وہ ظالموں میں سے ہو جائے گا.جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں انسان کو آزادی دی گئی ہے وہ غلطی بھی کر سکتا ہے ، گناہ بھی کر سکتا ہے ، آدم اور اس کے ساتھی کو بھی
درس القرآن 41 شیطان نے پھسلا دیا.فَازَ لَهُمَا الشَّيْطن مگر شیطان نے ان کو دھوکا دے کر پھسلا دیا فَاخْرَجَهُمَ مِمَّا كَانَ فِيهِ اور اس مقام سے ان کو نکال دیا جس میں وہ تھے اور اللہ نے ان کو ہجرت کا حکم دیا، فرماتا ہے:.وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعُ إِلَى حِينٍ اور تم زمین میں رہو گے اور لمبے عرصہ تک فائدہ اٹھاؤ گے مگر اس غلطی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اگر گناہ کرے تو ہمیشہ کے لئے خدا کے تعلق سے محروم ہو جاتا ہے.فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمَتِ آدم نے اپنے رب سے کچھ تعلیم کی باتیں، کچھ دعائیں حاصل کر لیں تو اب فَتَابَ عَلَيْهِ اللہ نے بھی اس کی توبہ قبول کی.اِنَّهُ هُوَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا ہے.
درس القرآن 42 رس القرآن نمبر 35 قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَأَمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة :39،40) حضرت آدم اور ان کے ساتھیوں کی اجتہادی غلطی اور اس کی معافی اور تلافی کے سامان کے بعد اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اس قسم کے حالات کا علاج ہجرت میں ہے اس لئے قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ہم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس علاقہ سے اتر کر چلے جاؤ.یہ حکم اس لئے دیا کہ آدم کے ذریعے ایک نیا روحانی دور شروع ہو رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ایک نیا سلسلہ جاری کیا جارہا تھا تو فرمایا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِنی هدی کہ جب بھی میری طرف سے تمہاری طرف ہدایت آئے فَمَنْ تَبِعَ هُدَای تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ تو ان کو اللہ کی طرف سے کسی سزا یا ناراضگی کا خوف نہیں ہو گا وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور وہ اس ہدایت کو مان کر خوشی محسوس کریں گے نہ کہ وہ ہدایت ان کے لئے غم کا باعث ہو گی.غم تو ہو گا ان کو جو اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو قبول نہیں کریں گے.وَالَّذِینَ گفروا وہ لوگ جو اس ہدایت کا انکار کریں گے وَكَذَبُوا پایتنا اور نہ صرف ہماری ہدایت کا انکار کریں گے بلکہ وہ اس کلام کی آیات کو جو اسی ہدایت کو لے کر آئے گا جھوٹ قرار دیں گے أوليكَ اَصْحَبُ النَّارِ یہ لوگ آگ والے ہیں هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ اور وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہوں گے.یہاں اس سوال کا جواب پورا ہو گیا کہ رسول اللہ صلی علیم کی طرف سے جو تعلیم پیش کی جارہی ہے وہ اگر صحیح ہے تو پھر پہلے لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کو یہ تعلیم نہیں ملی، اس رکوع میں یہ مضمون بیان فرمایا کہ آپ کی تعلیم تو ایک سلسلہ ہے اس تعلیم کا جو آدم کے ذریعہ شروع ہوئی اور جو تعلیم آدم اللہ کی طرف سے لائے اس کو ماننے والے کامیاب اور انکار کرنے والے ناکام اور قابل سزا ہیں اور ماننے والے اگر غلطی بھی کرتے ہیں تو اللہ ان کی غلطی کی معافی اور تلافی کا سامان کر دیتا ہے اور مومنوں کی جماعت ہجرت کے ذریعے ترقیات کے سامان دیکھتی ہے اور اصل مقصد آدم کا ایک ہدایت کا سلسلہ کا شروع کرنا ہے اور اس ہدایت کو ماننے والے کامیاب اور نہ ماننے والے ناکام ہوں گے اور سزا پائیں گے.
درس القرآن 43 رس القرآن نمبر 36 يبَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَ ايَّايَ فَارهَبُونِ (البقرة:41) اس بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کے بعد کہ ہمارے نبی صلی ا یکم کی بعثت اور قرآن شریف کی تعلیم کا اس روحانی دور سے کیا تعلق ہے اور کیا یہ کوئی نئی تعلیم ہے اور پہلی تعلیم سے بالکل مختلف ہے اس سوال کا یہ جواب دے کر کہ آنحضرت صلی للی یکم اور قرآن شریف آدم کے ذریعہ شروع ہونے والے دور کا سب سے بلند اور سب سے اعلیٰ مرحلہ ہے اب اس سوال کا جواب دیا ہے کہ اس تعلیم کا بنی اسرائیل کی تعلیم سے کیا تعلق ہے جو دنیا کی مذہبی تاریخ میں بہت اونچا مقام رکھتی ہے اس آیت میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے یہ بظاہر نئی تعلیم اس عظیم الشان نعمت کو تمہیں یاد کرانے کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کی تھی اور اس تعلیم کے ذریعہ تم سے ایک عہد لیا گیا تھا کہ تمہارے بھائیوں میں سے اللہ تعالیٰ ایک نبی بھیجے گا جو تمہارے نبی کا مثیل ہو گا اور اللہ اس کے منہ میں اپنا کلام (یعنی قرآن شریف) ڈالے گا اور اس نبی کو نہ ماننے والے سے حساب لیا جائے گا.(استثناء 18/18) و اس آیت میں اس عہد کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا اور اس آیت میں فرمایا ببنی اسراءیل کہ اے بنی اسرائیل اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ اللہ نے تم پر اپنی بڑی نعمت اتاری تھی تم میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی جیسے نبی بھیجے تو رات اور انجیل جیسی کتابیں تمہیں دیں.اب جبکہ تم ان کی تعلیم کو بگاڑ چکے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم سے جو عہد لیا گیا تھا کہ اس کو پورا کرو تو میں بھی اس عہد کو جو تم سے کیا تھا پورا کروں گا وَ اِيَّايَ فَارْهَبُونِ تم اپنی قوم سے ڈر کر ، دنیا والوں سے ڈر کر اس سچائی کو جو رسول اللہ صلی علیم کے ذریعہ آئی ہے مان نہیں رہے حالانکہ تمہیں صرف مجھ سے ڈرنا چاہئے.
درس القرآن درس القرآن نمبر 37 44 وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَايَايَ فَاتَّقُونِ (البقرة: 42،43) اس سوال کو حل کرنے کے بعد کہ کیا آنحضرت صلی الی یوم کی بعثت اور قرآن شریف کا اترنا کوئی عجوبہ نہیں بلکہ بنی اسرائیل کو جو نعمت دی گئی تھی اس کا بلند تر قدم ہے اور اب بنی اسرائیل کا فرض ہے کہ جو عہد ان سے آپ کی بعثت اور قرآن مجید کے نزول کے بارہ میں لیا گیا تھا اس عہد کو پورا کریں فرماتا ہے وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ کہ جو کلام میں نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ کیونکہ اس کلام کے ذریعہ وہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے جو اس کلام میں تھی جو تمہارے پاس ہے گو یا اگر تم قرآن کا انکار کرتے ہو تو اس کلام کا بھی انکار کرنے والے ہو گے جو تمہارے پاس ہے وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِر ہے اور اس کا انکار کرنے میں پہل نہ کرو اور نہ ہی اس کے اول نمبر کے کافر بنو.ورنہ دوسرے اس سے متاثر ہوں گے.تمہارے انکار کی وجہ کوئی دینی اور روحانی وجہ نہیں بلکہ دنیا داری ہے وَلا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَنًا قَلِیلا اس دنیا کی تھوڑی سی قیمت کی خاطر تم یہ انکار کر رہے ہو تم میری آیات کے بدلے دنیا کا تھوڑا سا مول نہ لو.دنیا کا لالچ نہ کرو، نہ ہی دنیا سے ڈرو و ايَايَ فَاتَّقُونِ صرف مجھ سے ڈرو اور میری سزا اور عذاب سے بچو.پھر فرمایا وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ انْتُمْ تَعْلَمُونَ بے شک تمہارے پاس کچھ سچ ہے مگر تم اس سچ کو جھوٹ کے ساتھ نہ ملاؤ اور اس طرح سچ کو نہ چھپاؤ وَ اَنْتُم تعلمون اور یاد رکھو کہ تم یہ گناہ جانتے بوجھتے ، علم رکھتے ہوئے کر رہے ہو.حضرت ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے والد اور چا یہودی تھے.حضرت صفیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ میرے چا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ایک دن وہ ہمارے گھر آئے تو میری طرف انہوں نے توجہ نہ کی.میں کچھ افسردہ ہو گئی تو میں نے اپنے چچا اور اپنے باپ کی گفتگو سنی میرے باپ نے میرے چچا سے پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی یکم سے ملنے گئے تھے ؟ جواب دیا.گیا تھا.پوچھا کیا وہ نبی ہیں اور
درس القرآن 45 سچے نبی ہیں ؟ جواب ملا.ہاں نبی ہیں، بچے نبی ہیں.پوچھا پھر ان پر ایمان لانا ہے ؟ جواب ملا ہر گز نہیں کیونکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں تو یہ یہود باوجود اس کے کہ حضور صلی یم کو سچا نبی سمجھتے تھے آپ صلی ایم کے اسرائیلی نہ ہونے کی وجہ سے آپ صلی للی کم پر ایمان نہیں لاتے تھے.(سیرت ابن ہشام من اجتمع الى يعود من منافقى الأنصار صفحہ 364 دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء)
درس القرآن 46 رس القرآن نمبر 38 وَلَا تَلْبِسُوا الحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة: 43) بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچی تعلیم دی گئی تھی اور اس کا کچھ حصہ تمہارے پاس محفوظ بھی ہے مگر تم نے اس سچائی کو غلط اور بے کار تعلیم کے ساتھ ملا دیا ہے اور حق اور باطل کو خلط ملط کر دیا ہے تمہاری اس تعلیم میں جو ہمارے پاس ہے اس میں ہمارے سب سے بڑے رسول صلی الی یوم کے آنے کی پیشگوئی ہے تم اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اپنی مرضی کی باتیں جو بالکل باطل ہیں، سچائی کے ساتھ ملا جلا رہے ہو وَتَكْتُمُوا الْحَقِّ اور اس طرح تم سچائی پر پردہ ڈال رہے ہو اور پھر تمہارا جرم غلط فہمی کی وجہ سے نہیں تمہیں اچھا بھلا پتہ ہے کہ تمہاری کتاب میں اس عظیم الشان نبی کی جو تمہارے بھائیوں میں سے آئے گا اور موسیٰ کا مثیل ہو گا واضح پیشگوئی موجود ہے.پس تمہارا یہ جرم وَ انْتُمْ تَعْلَمُونَ تم جانتے بوجھتے ہوئے، علم رکھتے ہوئے کر رہے ہو.تم سمجھتے ہو کہ اس طرح تم اپنی قوم کی طعن و تشنیع سے بچ جاؤ گے.یہ نتیجہ ہے تمہارے اعمال کی خرابی کا اس کا اصل علاج ہم تمہیں بتاتے ہیں واقِيمُوا الصَّلوةَ تم نماز کو جو خدا کا حق ہے تمام شرائط کے ساتھ صحیح طریق سے ادا کر و وانوا الزکوۃ اور پھر بندوں کے حقوق ادا کرو جس کی بنیا د ز کوۃ ادا کرنے پر ہے اور یہ ساری باتیں توحید کو صحیح طریق اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہیں خدا کے سامنے جھکنے کے بجائے بندوں کے سامنے جھکنے سے ہیں وَارْكَعُوا مَعَ الركعِينَ (البقرة:44) تم ان لوگوں کے ساتھ جو ہمارے نبی صلی علیکم کو مان کر صحیح رنگ میں توحید پر قائم ہیں اور خدا کے سامنے جھکتے ہیں تم ان لوگوں کے ساتھ خدا کے سامنے جھکو.تو اس خطر ناک جرم سے جو تم کر رہے ہو کہ سچائی کو جھوٹ سے خلط ملط کر رہے ہو بچ جاؤ گے.
درس القرآن 47 درس القرآن نمبر 39 اَ تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (البقرة:45) اہل کتاب خصوصاً یہودیوں کے قرآن شریف کے اترنے اور رسول اکرم صلی ایم کے بھیجے جانے کی وجہ سے بنی اسرائیل اپنے خیال میں اپنی حق تلفی محسوس کرتے تھے اس سوال کا جواب تفصیل سے قرآن شریف میں دیا گیا ہے کیونکہ اسلام سے پہلے بنی اسرائیل کی شریعت اور ان کی مذہبی دنیا سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی تھی اس لئے فرمایا کہ قرآن شریف کا اترنا، رسول اکرم صلی علیم کا بھیجا جانا ، ان وعدوں اور پیشگوئیوں کے مطابق ہے جو تمہاری کتابوں میں اب بھی موجود ہیں.تم دنیا کے ڈر سے اسلام لانے سے نہ ڈرو.اس سلسلہ میں بنی اسرائیل کو ایک زبر دست نصیحت کی ہے.یہود کی عادت وہی ہے اور آج کل پریس پر ان کے قبضہ کی وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ دوسروں پر تو اعتراض کرتے ہیں اور دوسروں کو مجرم ٹھہراتے ہیں مگر اپنے گریبان میں نہیں دیکھتے.فرماتا ہے اَتَأمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ کیا تم لوگوں کو تو اعلیٰ درجہ کی نیکی کا حکم دیتے ہو وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُم اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو وَاَنْتُمْ تَتْلُونَ ور 19991 الكتب حالا نکہ تم کتاب کو پڑھتے ہو اَفَلَا تَعْقِلُونَ تم پھر عقل سے کام کیوں نہیں لیتے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمُ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ اِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة:46،47) فرماتا ہے تمہارے اس گناہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تم دنیا سے اور دنیا والوں سے ڈرتے ہو اور اس سچائی کو قبول نہیں کرتے جس کا وعدہ خود تمہاری کتاب میں موجود ہے.دنیا سے نہ ڈرو.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة بلکہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ کی مدد چاہو ، اخلاق میں صبر کو اور عبادات میں نماز اور دعا کو بلند ترین مقام حاصل ہے ان دونوں چیزوں کو دنیا کے ڈر اور دنیا کی تکلیف سے بچنے کا ذریعہ بناؤ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ اور یہ بہت بڑی بات ہے، اس میں شبہ نہیں مگر الا على الخشعین جو لوگ عاجزی اختیار کرتے ہیں ان کے لئے آسان ہو جاتی ہے.مشکل یہ ہے کہ تم لوگوں نے دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور
درس القرآن 48 آخرت کو بھلا دیا ہے اس حد تک کہ اپنی کتاب سے آخرت کا ذکر ہی نکال دیا ہے مگر صبر اور نمازوں کے ذریعہ وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُلْقُوا رَبِّهِمْ جن کو یہ خیال ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے مالک سے ملنا ہے.وَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رجِعُونَ جن کو یہ یاد ہو کہ خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے.
درس القرآن 49 رس القرآن نمبر 40 يبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةً وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدُكَ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ (البقرة: 48،49) اس سوال کا اصولی جواب دینے کے بعد کہ بنی اسرائیل کی مذہبی تعلیم اور ان کی الہامی کتاب کی موجودگی میں نئی کتاب اور نئے رسول صلی یی کم کی کیا ضرورت ہے یہ مضمون تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل اس نعمت کو بھول گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کی تھی اور اس فضیلت کو بھول گئے ہیں جو تمام دنیا میں نمایاں طور پر ان کو دی گئی تھی اور پوری تفصیل کے ساتھ قرآن مجید کی تعلیم کی برتری اور موجودہ اہل کتاب کا بگاڑ کو دوسرے پارہ کے ربع تک بیان کیا گیا ہے فرماتا ہے اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو نعمت میں نے تمہارے اوپر کی اور تمام جہان میں ایک فضیلت اور نمایاں مقام تمہیں عطا کیا.اس کے بعد ان وجوہات کا ذکر کیا ہے کہ جن کی وجہ سے بنی اسرائیل سمجھتے تھے کہ وہ ان شرارتوں کے باوجود محفوظ ہیں اور فرماتا ہے وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا جس دن کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے کام نہ آئے گا.تمہیں خیال ہے کہ تم ابراہیم کی اولاد ہو ، تم میں سے ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ یسوع تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے مگر یاد رکھو کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب کوئی شخص کسی دوسرے کے کام نہ آئے گا.وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةً نہ موسیٰ کی یا کسی اور کی شفاعت تمہاری طرف سے قبول کی جائے گی وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عدك نہ کوئی مال و دولت پیش کر کے تم بچ سکو گے.وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلُ نہ کسی شخص سے کوئی بدلہ لیا جائے گا.وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ اور نہ وہ کسی قسم کی مدد دیئے جائیں گے.
درس القرآن 50 رس القرآن نمبر 41 وَإِذْ نَجَيْنَكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَ فِي ذلِكُمْ بَلاءُ مِنْ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَانْجَيْنَكُمْ وَأَغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُونَ وَ إِذْ وَعَدْنَا مُوسَى اَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَ اَنْتُم ظُلِمُونَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَ إِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ آپ (البقرة:50 تا54) اس بات کے بیان کرنے کے بعد کہ آنحضرت صلی یم کی بعثت اور قرآن کریم کا نزول کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کو بنی اسرائیل اپنے دین اور اپنی کتاب کے خلاف سمجھیں بلکہ یہ بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے.اس لئے بنی اسرائیل کو آپ صلی یکم اور قرآن مجید پر ایمان لا کر اس عہد کو پورا کرنا چاہیے جو ان سے لیا گیا تھا اور ان نعمتوں کو یاد کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کیں تاکہ وہ اس سب سے بڑی نعمت پر ایمان لائیں جو آپ جو سب سے بڑے نبی ہیں اور قرآن کریم جو سب سے بڑی اور آخری شریعت ہے، کی شکل میں ان کو دی گئی ہے.اب ان آیات میں ان نعمتوں کا ذکر شروع ہوتا ہے جو بنی اسرائیل پر اتاری گئیں مگر انہوں نے اس کی ناقدری کی.پہلی نعمت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو ایک بہت بڑے امتحان سے چھڑایا.فرماتا ہے وَإِذْ نَجَيْنَكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ اور یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے نجات دی يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وہ سخت عذاب دیتے تھے يُذَبِّحُونَ ابْنَاءَكُم وہ بیٹوں کو ہلاک کرتے تھے وَ يَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُم اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے وَفِي ذَلِكُمْ بَلاءُ مِّن رَّبِّكُم عظیم اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا.پھر دوسری نصیحت یہ کہ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا فانجینم پس ہم نے تم کو نجات دی وَ اغْرَقُنَا الَ فِرْعَوْنَ اور فرعون کی قوم کو غرق کر دیا
درس القرآن 51 وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ اور تم دیکھ رہے تھے.تیسر ا احسان خدا نے تم پر یہ کیا کہ وَ اِذْ وَعَدُنَا مُوسَى اَرْبَعِينَ لَيْلَةً یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ؟ پھر اس کی غیر موجودگی میں تم نے بچھڑا بنالیا و انتھ ظلِمُونَ اور تم سراسر ظالم تھے کہ اس اتنے بڑے شرک میں مبتلا ہوئے لیکن ثُمَّ عَفَونَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ ہم نے اس کے بعد بھی تم سے در گزر کیا لعلكم تَشْكُرُونَ تاکہ تم شکر کرو.وَإِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَالْفُرْقَانَ اور پھر ایک اور اتنابڑا انعام اللہ نے تم پر کیا کہ ہم نے تم کو شریعت کی کتاب عطا کی اور سچ اور جھوٹ میں فیصلہ کرنے والی کتاب عطا کی لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ تا کہ تم صحیح راستہ پر چلو.
درس القرآن 52 درس القرآن نمبر 42 وَ إِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَومِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمُ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِيكُمْ فَاقْتُلُوا انْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِندَ بَارِيكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ الثَّوَابُ الرَّحِيمُ (البقرة:55) پہلی آیات میں اور آئندہ آنے والی آیات میں یہ مضمون چل رہا تھا کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے کتنے احسانات کئے اور بنی اسرائیل نے ان انعامات کے باوجو د سرکشی کی اور اس سے مقصد یہ ہے کہ اب جو رسول اکرم صلی علیم کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کے ذریعہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت تم پر اتاری گئی ہے اس کا انکار کر کے اپنی اس سرکشی کی داستان کو لمبانہ کرتے چلے جاؤ تو اس آیت میں ایک غلط فہمی جو پیدا ہو سکتی تھی اس کو دور کر دیا.غلط فہمی یہ ہو سکتی تھی کہ اتنی سرکشیاں دیکھ کر بھی خدا خاموش رہا اور ان کی اصلاح کا کوئی سامان نہ کیا اس آیت میں فرماتا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے بچھڑا بنا کر شرک جیسا سب سے بڑا گناہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے تعلیم نازل فرمائی، فرماتا ہے.وَ إِذْ قَالَ مُوسى لِقَوْمِهِ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا يُقَومِ اے میری قوم اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمُ انْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ کہ تم نے اپنی جانوں پر انتہائی ظلم کیا کہ بچھڑے کو معبود بنالیا (کیونکہ جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ الشَّرُكَ لَظُلُمٌ عَظِيمٌ (لقمان:14) کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے ) تو حضرت موسیٰ نے کہا فتوبوا إلى بَارِيكُمْ کہ تم اپنی روحوں کے بنانے والے کے حضور توبہ کرو فَاقْتُلُوا اَنْفُسَكُم اور اپنے نفسوں کو مارو( یہاں ظاہری قتل کرنا مراد نہیں کیونکہ کسی عقیدہ کو ماننے یا عقیدہ کے مطابق عمل کرنے پر اللہ تعالیٰ اس دنیا میں قتل کی سزا نہیں دیتا) بلکہ اپنے نفس کے غلط خیالات اور ناپاک رجحانات کو مارنے کا ذکر ہے.ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُم اور تمہارا اپنا فائدہ اسی میں ہے فَتَابَ عَلَيْكُم چنانچہ اللہ تم پر رجوع برحمت ہوا اِنَّه هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.طور پر
درس القرآن 53 رس القرآن نمبر 43 وَاذْ قُلْتُم لِمُوسى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّعِقَةُ وَانْتُم تَنْظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة:56،57) اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو رسول کریم صلی علی کم پر اور قرآن شریف پر ایمان لانے کے لئے بنی اسرائیل کی ماضی کی غلطیاں اور اللہ تعالیٰ کے ان پر احسانات کا ذکر فرماتا ہے.اس آیت میں ان کی ایک خطر ناک غلطی اور حماقت کا ذکر کر کے اس سے اگلی آیت میں ان پر احسان کا ذکر فرماتا ہے وَ اِذْ قُلْتُم یموسی کہ دیکھو جب تم نے موسیٰ سے کہا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے حتٰی نَرَى اللهَ جَهْرَةً یہاں تک کہ ہم اللہ کو ظاہر و باہر دیکھ نہ لیں فَاخَذَتْكُمُ الصعِقَةُ پس تمہیں آسمانی بجلی نے آپکڑا وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ اور تم دیکھتے رہ گئے ثُمَّ بَعَثْنَكُم مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ پھر ہم نے تمہاری یہ موت کی سی حالت سے تمہیں اٹھایا لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تاکہ تم شکر کرو.ان آیات میں بنی اسرائیل کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ تم رسول کریم صلی یکم کو ماننے سے انکار کرتے ہو.قرآن شریف کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہو اور اس کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے کرتے ہو.سوچو! تم اس قوم کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہو جنہوں نے حضرت موسیٰ کو جن کو تم خود نبی مانتے ہو صاف صاف نہیں کہہ دیا تھا کہ ہم تمہاری بات اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہم کھلم کھلا اللہ کو نہ دیکھ لیں.اگر اللہ کو دیکھے بغیر تمہارے باپ دادا نے حضرت موسیٰ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا تو تم نے تو سچائی کے انکار کی عادت ورثہ میں پائی ہے.تمہارا یہ کہنا کہ یہ وجہ ہے جو ہم رسول اکرم صلی لنی کیم کو نہیں مانتے اور وہ وجہ ہے کہ ہم قرآن شریف کو قبول نہیں کرتے، کوئی مطلب نہیں رکھتا جب تک تم کوئی پختہ دلیل نہ لاؤ کیونکہ اس قسم کے بہانے بنانا تو صدیوں سے تمہاری قوم کی عادت ہے.
درس القرآن 54 رس القرآن نمبر 44 وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَ وَالسّلوى كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَ وور مَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (البقرة:58) بنی اسرائیل کو توجہ دلانے اور ان کے اعتراض کا جواب دینے کے لئے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ان کی سرکشیوں کا مضمون چل رہا ہے مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو صحرائے سیناء میں لمبا عرصہ چکر لگانے پڑے اس دور میں بادلوں کے قدرتی نظام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سائے کی سہولت عطا فرمائی اور کھانے کے لئے من عطا کیا یعنی ایسی کھانے کی چیزیں ان کے لئے مہیا کیں جن پر زمینداروں کی طرح خاص محنت اور تردد نہیں کرنا پڑتا تھا نیز سلویٰ کا انتظام کیا یعنی ایسے پرندے مہیا کئے جو گرمی کی ابتداء میں افریقہ سے یورپ کی طرف روانہ ہوتے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں یورپ کے پہاڑوں کو عبور کرنے کی غرض سے صحرائے سیناء کے میدانی علاقہ میں آرام کے لئے اترتے تھے اور سردیوں کے شروع میں یورپ کے پہاڑوں کی سردی سے بچنے کے لئے واپس افریقہ کا رخ کرتے.بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَام ہم نے بادلوں کے ذریعہ تم پر سایہ کیا وَ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَ السلوى اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ہے اور تمہیں ارشاد کیا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر دی ہیں ان کو کھاؤ وَمَا ظَلَمُونَا اور ان سرکشیوں اور ناشکریوں کے ذریعے تم نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وَلكِن كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرتے تھے.
درس القرآن 55 درس القرآن نمبر 45 وَاذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُم رَغَدًا وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَ قُولُوا حِطَةٌ تَغْفِرُ لَكُمْ خَطيكُمْ وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيْلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجَزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (البقرة: 59،60) بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے جو احسانات تھے اور بنی اسرائیل نے ان احسانات کی جو ناشکری کی اور سرکشی سے کام لیتے رہے اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ صحرائی زندگی میں ان کو وقتاً فوقتاً شہروں میں جاکر کھانے پینے کی چیزیں حاصل کر سکتے ہو مگر اخلاق اور دعاؤں پر زور دیتے ہوئے مگر بنی اسرائیل اس معاملہ میں سرکشی اور ناشکری کا اظہار کیا، فرماتا ہے.اس وقت کو یاد رکھو جب ہم نے کہا اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور اس میں سے جہاں بھی مناسب سمجھو با فراغت کھاؤ.وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا مگر فرمانبرداری کی حالت میں شہر میں داخل ہو اور ایسے اخلاق دکھاؤ جو ایک نبی کی امت کے مناسب حال ہوں تا ان لوگوں پر برا اثر نہ پڑے.وَقُولُوا حظة اور اپنی کمزوریوں کی معافی کے لئے دعائیں کرتے رہو تا کہ شہری زندگی کے غلط اثرات تم پر نہ پڑیں نَغْفِرُ لَكُمْ خَطیكُمْ ہم تمہاری خطاؤں کو معاف کر دیں گے وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِینَ اور صرف سابقہ گناہوں کی معافی ہی نہیں بلکہ ہم محسنوں کو ضرور بڑھائیں گے اور ان کو زیادہ دیں گے یعنی تمہارے دل میں گناہ کے مقابلہ کی ہی طاقت نہیں پیدا ہو جائے گی بلکہ اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی قدرت بھی تم کو حاصل ہو جائے گی.فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمُ پس ان لوگوں نے اس بات کو جو انہیں کہی گئی تھی بالکل بدل دیا فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِ جُنَّا مِنَ السَّمَاءِ پس ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے ایک عذاب نازل کیا بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے.
درس القرآن 56 درس القرآن نمبر 46 وَ إِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبُ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَنَاسِ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (البقرة:61) بنی اسرائیل کے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے کیوں بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسماعیل میں نبوت کا سلسلہ شروع کیا اور آنحضرت صلی علی کلم کو نبی بنا کر بھیجا گیا بنی اسرائیل کی مسلسل ناشکریوں اور سرکشیوں اور خدا تعالیٰ کی مسلسل نعمتوں کی ناقدریوں کا تفصیلی بیان جاری ہے کہ ہر موقع پر خدا تعالیٰ نے تم پر احسان کئے.تمہیں ساری دنیا میں فضیلت کا مقام دیا اور تمہاری تربیت اور تمہیں جفاکشی کی زندگی کا سبق دینے کے لئے جب تمہیں صحرائی زندگی کی ہدایت کی اس وقت بھی تمہارے لئے بغیر کسی خاص محنت اور کوشش کے تمہارے لئے کھانے کا بھی انتظام کیا.چنانچہ وَ اِذِ اسْتَسْقَى مُوسى لِقَوْمِهِ کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا فقلنا اضْرِبُ بَعَصَاكَ الْحَجَرَ کہ چٹان پر اپنے عصا سے ضرب لگاؤ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا تب اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ اور سب لوگوں نے اپنے پانی حاصل کرنے کی جگہ معلوم کر لی كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللہ تو اللہ کے رزق سے کھاؤ اور پیو وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِین اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو کہ کسی ناجائز طریق سے بے گانہ مال پر قبضہ کریں.
درس القرآن 57 درس القرآن نمبر 47 وَاذْ قُلْتُمْ يمُوسى لَنْ نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجُ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَعْلِهَا وَقِتَابِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ اتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرُ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَ لَكُمْ مَّا سَأَلْتُمْ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُو بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَواو كَانُوا يَعْتَدُونَ (البقرة : 62) بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور بنی اسرائیل کی ناشکری کے بیان کا سلسلہ جاری ہے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ فضیلت عطا فرمائی کہ دنیا کی دوسری قوموں کے لئے نمونہ بنیں اور دنیا کے استاد اور راہنما ثابت ہوں اور اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے سادہ اور جفاکشی کی زندگی اور مجاہدانہ زندگی اور فاتحانہ اخلاق کی ضرورت ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے لئے صحرا کی مجاہدانہ زندگی اور صحت مند غذا کا انتظام فرمایا مگر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا وَ اذْ قُلْتُم یہوسی اور اس وقت کو یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا کن نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکیں گے فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ پس ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر يُخْرِجُ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الأَرْضُ کہ وہ ہمارے لئے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے مِن بقلھا اس کی سبزیوں میں سے وقتا تھا اور اس کی لکڑیوں میں سے وفومِھا اور اس کی گندم میں سے وعدھا اور اس کی دالوں میں سے وَبَصَلِھا اور اس کے پیاز میں سے قَالَ اسْتَبْدِلُونَ الَّذِى هُوَ اَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَیر کیا تم ادنی چیز کو بہترین چیز کے بدلہ میں لینا چاہتے ہو.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں اس مجاہدانہ زندگی سے گزار کر دنیا کا راہنما اور اپنے علاقے کا حاکم بنائے تا کہ تم ان علاقوں میں اس کی شریعت کا نظام نافذ کرو اور تیم وہی چیزیں طلب کر رہے ہو جو تمہیں پرانی غلامانہ زندگی کی طرف لے جائے گی.یہ چیزیں تو تمہیں کسی بڑے شہر میں مل جائیں گی اهبطوا مِصرا کسی بڑے شہر میں اتر جاؤ فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُهُ جو تم مانگ رہے ہو وہ تمہیں یقیناً مل جائے گی وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ اور بلند روو
درس القرآن 58 پروازوں کے بجائے ان پر درماندگی اور کمزوری کی مار ماری گئی وَ بَاءُ وَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات و احکامات کا انکار کرتے تھے وَ يَقْتُلُونَ النَّيْنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ اور نبیوں کو ناحق قتل کرنے کے درپے تھے اور یہ اتنے بڑے گناہ کا نتیجہ تھے اس بات کا کہ ذلِكَ بِمَا عَصَوا کہ انہوں نے نافرمانی کی وَكَانُوا يعتدون اور مقررہ حدود سے تجاوز کرتے تھے.
درس القرآن 59 رس القرآن نمبر 48 تا.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرِى وَ البِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( البقرة : 63) قرآن شریف کا ایک طریق یہ ہے کہ جب ایک مضمون میں یہ شدت ہو کہ سچائی کو نہ ماننے والے اور کفر اور نافرمانی کرنے والے خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے تو چونکہ اس قسم کے مضمون سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ نا امید اور مایوس ہو کر نیکی اور صداقت سے بد دل نہ ہو جائیں تو قرآن شریف وہاں ایسا مضمون بیان فرماتا ہے جس سے مایوسی اور ناامیدی کے بجائے حوصلہ اور نیکی کی امنگ پید اہو اور اگر ایسا مضمون آئے جس میں بشاشت اور امنگ کا بیان ایسے زور سے ہو کہ یہ خطرہ ہو کہ لوگ اس کی وجہ سے نیکی اور جد وجہد اور محنت سے غافل اور لا پر واہ ہو جائیں گے تو انذار اور جدوجہد اور محنت کرنے کی تلقین کا مضمون بیان کرتا ہے.آج کی آیت سے پہلے بنی اسرائیل کی نافرمانی اور سرکشی کا مضمون اس غرض سے چل رہا تھا کہ ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جائے کہ روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان میں قائم کیا گیا تھا وہ اب ان سے چھین کر ان کے بھائیوں بنی اسماعیل میں کیوں منتقل کیا گیا ہے تو اس مضمون میں بار بار بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ذکر تھا.جس سے یہودیوں میں عیسائیوں میں اور بنی اسرائیل کے دوسرے چھوٹے فرقوں میں جو ان دو بڑے فرقوں کے علاوہ تھے جن کا صابی کے نام سے ذکر ہے ان میں مایوسی اور نا امیدی کا پہلو پیدا ہو سکتا تھا اس سے اس آیت میں یہ فرمایا کہ ڈرنے اور غم کرنے کی ضرورت نہیں اگر اللہ اور رسول پر نام کا مومن کہلانے والا حقیقتاً سچا ایمان لائے یا یہودی کہلانے والا یا عیسائی کہلانے والا یا صابی کہلانے والا اللہ اور آخرت کے دن پر سچا ایمان لائے اور یہ یادر ہے کہ ایمان کی پہلی کڑی اللہ پر ایمان اور ایمان کی آخری کڑی آخری دن پر ایمان ہے جن کے درمیان قرآن شریف نے بار بار رسولوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، فرشتوں پر ایمان کا ذکر فرمایا.تو جو شخص ایسا ایمان لاتا ہے اس کے لئے مایوسی اور نا امیدی کا کوئی ڈر نہیں، نہ ہی غلط امید کی وجہ سے وہ لا پر واہ اور غافل ہو کر آئندہ زمانہ سزا جزا میں غم کا شکار نہ ہو گا.
درس القرآن 60 رس القرآن نمبر 49 وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُم وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا أَتَيْنَكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَسِرِينَ الله سة (البقرة:64،65) بنی اسرائیل کے اعتراض کے جواب میں اور ان کو قرآن شریف اور نبی کریم صلی الیکم پر ایمان لانے کی ترغیب دینے کے لئے یہ مضمون جاری ہے کہ بنی اسرائیل اگر قرآن شریف کے اور ہمارے نبی صلی الی یوم کے انکار پر اڑے ہوئے ہیں تو ان کی اپنی تاریخ تو یہ ہے کہ خود اس عہد کی خلاف ورزی کرتے رہے اور کرتے چلے جاتے ہیں جو ان سے ان کے نبیوں کی معرفت لیا گیا تھا اور جس عہد کا ذکر خود اس کتاب میں جس کو وہ اپنی کتاب تسلیم کرتے ہیں اب تک موجود ہے اور وہ عہد ایسے طور سے لیا گیا تھا کہ اس کو ایک پوری قوم کا بھول جانا بھی آسان نہیں کیونکہ بنی اسرائیل کو ایک پہاڑ کے دامن میں کھڑا کر کے ان سے عہد لیا گیا بلکہ اس پہاڑ میں کچھ لرزش محسوس ہوئی جیسے زلزلہ ہو اور یہ خطرہ محسوس ہوتا ہو کہ گویا وہ ان پر گرنے والا ہے اس رنگ میں پر زور طور پر عہد لئے جانے کے باوجود اگر بنی اسرائیل اس کو بھولے بیٹھے ہیں تو آنحضرت صلی علی یکم اور قرآن مجید پر ان کا ایمان نہ لانا کس طرح ان کی سچائی کا ثبوت بن سکتا ہے ؟ خصوصاً جب کہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو بنی اسرائیل سے استثناء باب 18 آیت 18 کے مطابق ایک خاص عہد ”بنی اسرائیل کے بھائیوں میں ایک عظیم نبی“ کے ظہور کا بھی تھا مگر ان کا اپنے اس عہد کو جو خاص ان کی قوم سے لیا گیا تھا توڑ نا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا بنی اسماعیل میں نبی کے آنے کے عہد کی خلاف ورزی کا جرم کیوں بنی اسرائیل سے ممکن نہیں ؟ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے ان آیات میں فرماتا ہے اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب کے ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا اور پہاڑ کو تمہارے اوپر بلند کیا تھا اور کہا تھا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یادر کھوتا کہ تم بچ جاؤ پھر اس واضح ہدایت کے مل جانے کے بعد بھی تم نے پیٹھ پھیر لی اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاتے.
درس القرآن 61 درس القرآن نمبر 50 وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَسِبِيْنَ فَجَعَلْنَهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (البقرة:66،67) بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانیوں اور سرکشیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس آیت میں ان کی سبت کی بے حرمتی کا تذکرہ ہے اور اس میں جمعہ کی عبادت سے تساہل کرنے والے مسلمانوں کے لئے بھی بہت اہم سبق ہے.اللہ تعالیٰ نے تورات میں بنی اسرائیل کے لئے ہفتہ کا ایک دن عبادت اور دنیوی کاموں اور جفاکشی اور محنت سے آرام کا مقرر فرمایا تھا.اور اس حکم میں سبت جیسی روحانی برکات بھی تھیں اور بہت سے تمدنی اور معاشی فوائد بھی تھے.خصوصاً جو لوگ کم آمدنی والے دوسروں کے ملازم تھے ان کے لئے بہت سہولت کا سامان تھا اور روحانی برکات کے علاوہ یہ بات بھی مد نظر تھی کہ ایسے لوگ اپنے کام لینے والوں سے بغیر ظاہری کام کے بھی تنخواہ وصول کریں گے.لیکن بنی اسرائیل نے بحیثیت مجموعی اس بابرکت حکم اور مفید حکم کی شدید نافرمانی کی بعض تو روحانی برکات چھوڑ کر دنیوی کام اور تجارتوں میں پڑ گئے اور عبادت کا پہلو نظر انداز کر دیا.نتیجہ یہ نکلا کہ بندروں کی طرح دوسری اقوام کی نقل کرنے لگے.فرماتا ہے تم خوب جانتے ہو ان لوگوں کے بارہ میں جنہوں نے سبت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز کیا تو ہم نے کہا کہ ذلیل بندر ہو جاؤ اور ہم نے ان کے اس عمل اور اس کی سزا کو اس وقت کے لئے اور بعد کے لئے عبرت بناد یا مگر وہ لوگ جو تقویٰ سے کام لیں اس میں ایک زبر دست نصیحت ہے.
درس القرآن 62 رس القرآن نمبر 51 وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِةِ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا اتَتَّخِذُنَا هُزُوا قَالَ أَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ (البقرة: 68) بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ان کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا بیان کرتے ہوئے قرآن شریف اب ایک ایسے واقعہ کا ذکر کرتا ہے جو نہ صرف بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا ذکر کرتا ہے بلکہ یہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ اگر بنی اسرائیل کو مسلسل تبلیغ اور حکیمانہ رنگ میں نصیحت کا سلسلہ جاری رہے تو بعید نہیں کہ یہ اسلام کی طرف رجوع کریں اور وہ بیان اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل چونکہ لمبا عرصہ مصر میں رہے ، مصری نہ صرف ان پر حاکم تھے بلکہ معاشی اور تمدنی طور پر بھی ان پر غالب تھے اس لئے بنی اسرائیل مذ ہبی اور نظریاتی لحاظ سے بھی مصریوں سے متاثر تھے.مصری گائے کا احترام کرتے تھے اور یہ احترام ہندوستان کے لوگوں کی طرح گائے کا احترام اور محبت ، عقیدت اور پرستش کو چھو رہی تھی اس لئے غیر معمولی قسم کی گائے بنی اسرائیل کی عقیدت کا مرکز بن گئی اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ بنی اسرائیل پر یہ احسان کیا کہ ان کو شرک جیسے گناہ کی طرف مائل ہو جانے سے پہلے پہلے ان کو حکم دیا کہ اس گائے کو ذبح کر دیں تو وہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ یہ حکم ٹل جائے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام حیلے بہانے توڑ کر رکھ دیئے اور وہ گائے کو ذبح کرنے پر مجبور کر دیئے گئے.اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو انہوں نے کہا کیا تم ہم سے ہنسی کر رہے ہو ؟ حضرت موسیٰ نے جواب دیا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں انہوں نے کہا اپنے رب سے ہماری خاطر دعا کر کہ وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ وہ کونسی ہے ؟ حضرت موسیٰ نے
درس القرآن 63 کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے جو نہ بہت بوڑھی اور نہ بالکل کم عمر ہے اس کے بین بین درمیانی عمر کی ہے.پس وہی کرو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے انہوں نے کہا اپنے رب سے ہماری خاطر دعا کر کہ وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ وہ کیا ہے ؟ یقینا گائیاں ہم پر مشتبہ ہو گئی ہیں اور ہم یقیناً انشاء اللہ ہدایت پانے والے ہیں.اس نے کہا کہ بلاشبہ وہ کہتا ہے کہ وہ ضرور ایک ایسی گائے ہے جسے اس غرض سے جوت نہیں ڈالی گئی کہ وہ زمین میں ہل چلائے ، نہ وہ کھیتوں کو سیراب کرتی ہے.وہ صحیح سلامت ہے.اس میں کوئی داغ نہیں.انہوں نے کہا اب تو سچی بات لایا ہے پس انہوں نے اسے ذبح کر دیا اگر چہ وہ ایسا کرنے والے نہ تھے.
درس القرآن 64 درس القرآن نمبر 52 وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادْرَعْتُم فِيهَا وَاللهُ مُخْرِجٌ مَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذلِكَ يُحْيِ اللهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمُ ايْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَ إِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهُرُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءِ وَ إِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرة:73 تا75) بنی اسرائیل کے جرائم کی تاریخ کو اس غرض سے بیان کرتے ہوئے کہ وہ ہر گز اس قابل نہیں رہے تھے کہ ان میں نبوت کا سلسلہ جاری رہتا.خصوصاً وہ نبی ان میں مبعوث ہو جو خاتم الانبیاء اور تمام دنیا کے لئے ہادی ہو.اب بنی اسرائیل کے جرائم کی چوٹی کا ذکر فرماتا ہے کہ یاد کرو اس وقت کو جب تم نے ایک عظیم الشان نفس کو قتل کیا مراد یہ ہے کہ تم نے اپنی طرف سے پوری طرح قتل کر دیا تھا یہ الگ بات ہے کہ خدا کی خاص تقدیر نے اس کو صلیب کی موت سے بچا لیا تم نے تو عیسی ابن مریم جیسے عظیم نفس کو اپنی طرف سے قتل کر دیا فَاذْرَ وتُهُ فِيهَا پھر تم میں ایک زبر دست سلسلہ بحث مباحثہ ، مناظرہ الزام تراشیوں کا شروع ہوا ( جو آج تک جاری ہے) وَاللهُ مُخْرِج مَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ مگر تمہارے یہ جرائم اور ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کو اللہ تعالیٰ ایک دن نکالنے اور ظاہر کرنے والا ہے.فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا پس ہم نے کہا کہ اس واقعہ کو اس نفس کے ساتھ ہونے والے بعض واقعات کے ساتھ ملا کر دیکھو كَذلِكَ يُخي اللهُ الموتى اس طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرتا ہے.تم ان کو مردہ سمجھتے ہو حقیقت میں اللہ نے ان کو زندگی دی ہوتی ہے تم نے تو عیسی بن مریم کو مردہ قرار دیا ہے.بعض نے اس کو نعوذ باللہ لعنتی موت سے مرنے والا قرار دیا.بعض نے اس کو اپنے گناہوں کا کفارہ قرار دے کر صلیب پر مرنے والا قرار دیا.مگر خدا نے اس کو صلیب کی موت سے بچایا اور اس طرح وَيُرِيكُم ايته تمہیں آئندہ وہ عظیم الشان نشانات دکھائے گا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ تا کہ تمہیں عقل آوے.اس واقعہ کا جو تمہاری قتل کی کوشش کا تھا ایک خطرناک نتیجہ یہ نکلا کہ تم سب بنی
درس القرآن 65 اسرائیل کے دل پتھر کے ہو گئے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ پھر تمہارے دل اس واقعہ کے بعد سخت ہو گئے عیسی بن مریم کو صلیب دینے سے پہلے جو کچھ نرمی تھی وہ بھی جاتی رہی فمی كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسوَةٌ گویاوہ پتھر کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت.وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهرُ جبکہ پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ پڑتی ہیں وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ اور ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ پھٹ جائیں تو ان میں سے پانی نکلتا ہے وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ان میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اور اللہ اس سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو.
درس القرآن رس القرآن نمبر 53 66 افَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْعُونَ كَلَّمَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرة : 76) جیسا کہ گزشتہ درس کے مضمون میں بیان ہوا تھا حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر چڑھانے اور ان کو اپنے زعم میں قتل کر دینے کے بعد یہودی قوم پر سخت دلی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر چڑھانے کے بعد اس قوم سے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت کا انعام چھین لیا اور ان کو قرآن مجید کے ذریعہ کہدیا گیا کہ اب تمہاری روحانی ترقی بنی اسماعیل میں آنے والے عالمگیر نبی ورسول صلی علی کم پر ایمان لانے کے ساتھ وابستہ ہے یہاں اب ایک نیا دور بنی اسرائیل کا شروع ہوا اور قرآن شریف میں اس بیان کے لئے اس آیت سے سابقہ مضمون نئے رنگ میں شروع ہو رہا ہے.اب تک واضح طور پر بنی اسرائیل کی امت محمدیہ سے کش مکش کا مضمون بیان نہیں ہوا تھا اس آیت سے یہ مضمون شروع ہے اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے اللہ فرماتا ہے اَفَتَطْمَعُونَ اَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ کہ کیا تم امید لگائے بیٹھے ہو کہ وہ لوگ تمہاری بات مان جائیں گے.وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلمَ اللهِ جبکہ ان میں سے ایک فریق کلام الہی کو سنتا ہے.ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے باوجود اس میں تحریف کرتا ہے وَهُمْ يَعْلَمُوں اور وہ جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں.اس آیت میں کلام الہی سے مراد قرآن ہے یعنی جب قرآن ان کو سنایا جاتا ہے اور لکھایا جاتا ہے تو وہ بدل دیتے ہیں.بالعموم پرانے مفسرین نے کلام اللہ سے مراد اس آیت میں وہ کلام لیا ہے جو اللہ کی طرف سے بنی اسرائیل پر سابقہ زمانوں میں اترا کرتا تھا.بے شک یہ معنے بھی کئے جائیں تو قرآن کے مخالف یہود نے جی بھر کر یہ تحریف بھی کی ہے اور خود اپنی کتابوں کو بدلا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے ایمان لانے کی امید لگاتے ہو جو تمہارے کلام میں بھی تحریف کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے کلام میں تو کثرت سے یہ شرارت کر چکے ہیں.
درس القرآن 67 درس القرآن نمبر 54 وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا أَمَنَا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا الْحَدِثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (البقرة: 77) گزشتہ آیت سے بنی اسرائیل کی سرکشی اور نافرمانی کو ایک اور پہلو سے بیان کرنا شروع کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل پر احسانات کے باوجود ان کی نافرمانیوں اور سرکشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس مسلمانوں کی جماعت سے جن کو ہمارے نبی صلی ا ہم کو ماننے اور قرآن شریف پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اس جماعت مومنین سے بھی بنی اسرائیل نے کش مکش کا آغاز کیا ہوا ہے.گزشتہ آیت میں یہ بتایا که مومن تو یہ طمع کر رہے تھے کہ بنی اسرائیل ان مومنوں کی بات مان لیں گے مگر ان کا یہ حال ہے کہ مومنوں کی بات تو کیا مانا وہ تو کلام الہی میں خواہ وہ ان کے اپنے انبیاء پر نازل ہونے والا کلام ہو یا ہمارے نبی صلی یکیم پر اترنے والا کلام مجید ہو اس میں تحریف کرتے اور الٹے پلٹے معنے کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آج کی آیت میں یہ مضمون ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ مومنوں کی جماعت کے آدمیوں سے ملتے جلتے ہیں ان سے مذہبی امور پر گفتگو بھی کرتے ہیں اور لازماً مسلمانوں سے گفتگو میں یہ موضوع بھی زیر بحث آتا ہے کہ بائبل میں قرآن مجید اور آنحضرت صلی ایم کے بارہ میں کیا پیشگوئیاں درج ہیں.مگر یہی لوگ جب خالصہ اپنی مجالس میں جاتے ہیں تو وہ تھوڑا بہت اقرار جو مسلمانوں کے سامنے کرتے ہیں وہ بھی غتر بود ہو جاتا ہے کیونکہ ان کے ہم مذہب ان کو یہ سمجھاتے ہیں کہ تم کیا نادانی کرتے ہو کہ مجلس بحث و مباحثہ و گفتگو میں مسلمانوں کے سامنے ان باتوں کی موجودگی کا اقرار کر لیتے ہو جن کو مسلمان اپنے حق میں پیش کر سکتے ہیں.اس مضمون کو اس آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ لوگ مومنوں سے ملتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور جب ایک دوسرے سے علیحدگی میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو الزام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا تم انہیں وہ بات جو اللہ نے تم پر کھولی ہے بتاتے ہو جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ سے تمہارے رب کے حضور تم سے بحث کریں گے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے..مة الله سة.
درس القرآن 68 درس القرآن نمبر 55 اَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (البقرة:78) اس سے پہلی آیت میں یہ مضمون تھا کہ بنی اسرائیل کے جو لوگ مسلمانوں سے ملتے اور مسلمانوں کی مجلس میں آتے اور مذہبی امور پر ان سے باتیں کرتے ہیں ان کا رویہ منافقانہ ہوتا ہے.مسلمانوں کے سامنے وہ اپنی طرف سے ان کو دھوکہ دینے کے لئے ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں جو بعض دفعہ مسلمانوں کے حق میں جاتی ہیں اور بائبل کی پیشگوئیوں کا بھی ذکر ان کی گفتگو میں آجاتا ہے.مگر جب یہ لوگ ایسی مجالس میں جاتے ہیں جو خالصہ ان کے اپنے لوگوں پر مشتمل ہو تو ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہیں کہ اس معاملہ میں احتیاط کریں اور مسلمانوں کے سامنے ایسی باتوں کا تذکرہ نہ کریں جو مسلمانوں کی طرف سے ان کے خلاف بطور دلیل پیش ہو سکے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ یقینا اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں.تو کیا وہ خدا ان کے اس دہرے رویہ سے غافل ہے اور اس کو ان کی اس ڈبل گیم کا پتہ نہیں.آگے چل کر فرماتا ہے کہ ان میں تو ایسے لوگ بھی ہیں مِنْهُمُ امّون ان میں ایسے لوگ ہیں جو بالکل لاعلم ہیں خود اپنی کتاب سے اور اس کے معارف و مطالب سے بھی واقف نہیں لا يَعْلَمُونَ الْكِتَبَ إِلَّا أَمَانِی وہ اپنی کتاب کو بھی اپنی امیدوں اور خواہشات کی حد تک ہی جانتے ہیں.اصل کتاب کیا کہہ رہی ہے اس سے غافل ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ اصل کتاب نہیں بلکہ ان کے ذاتی خیالات ہیں وَإِنْ هُم الا يظُنُّونَ (البقرة: 79) اور وہ صرف اپنے ذاتی خیالات اور اپنی قیاس آرائیاں کرتے ہیں.ان آیات میں قرآن شریف نے بائبل کے ماننے والوں کی کیسی زبر دست تردید کر دی ہے کہ اپنے مذہب اور اپنی کتاب کی نمائندگی کے طور پر جو باتیں وہ پیش کرتے ہیں وہ صرف ان کے اپنے خیالات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جملہ مذاہب کی طرف سے بحث کرنے والے نمائندگان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ اپنا دعویٰ بھی اپنی کتاب مقدس سے پیش کریں گے اور اس دعویٰ کی عقلی دلیل بھی اپنی کتاب سے پیش کریں گے مگر کوئی اس شرط پر پورا نہ اترا.
درس القرآن درس القرآن نمبر 56 69 فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ( البقرة :80) بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں اور اس سلسلہ میں ان کی مسلمانوں سے کش مکش کا بیان اور کلام الہی کے بارہ میں ان کی شرارتوں کا بیان جاری ہے اور اس آیت میں فرماتا ہے کہ ان میں وہ لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر اس کو خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِاَيْدِ یھم پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے لِيَشْتَرُوا به تمنا قليلا اور اس گناہ کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی دولت اور ساز و سامان کو جو بالکل بے حیثیت اور معمولی قیمت کا ہے، حاصل کریں فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ فرماتا ہے جو وہ اپنی طرف سے اپنے ہاتھوں سے تحریرات اور مضامین لکھتے ہیں وہ بھی ان کے لئے باعث ہلاکت ہیں ان کی یہ تحریرات جو کلام الہی کی تحریف کر کے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ڈالی ہیں ان کو دینی بلکہ دنیوی طور پر بھی سخت نقصان پہنچایا ہے وَوَيْلٌ لَهُمْ مِنَا يَكْسِبُونَ اور جو کمائی وہ ان تحریرات سے کرتے ہیں وہ بھی ان کے لئے نقصان اور ہلاکت کا باعث ہے.ان نصیحتوں کے جواب میں بنی اسرائیل جو بہانے بناتے ہیں ان میں سے ایک بہانہ یہ ہے وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا معدودة کہ ہمیں آگ ہر گز نہ چھوٹے گی مگر گنتی کے چند دن، یہودیوں میں یہ تصور تھا کہ ہم خدا کی چنیدہ قوم اور اس کی محبوب قوم ہیں باقی دنیا تو اپنے برے اعمال کا نتیجہ بھگتے گی.مگر ہمیں سزا یا تو نہیں ملے گی یا ملی بھی تو بالکل معمولی دو چار دن کے لئے.فرماتا ہے ان سے پوچھو قل اتَّخَذْتُم عِنْدَ اللهِ عَهْدًا کیا تم نے اس بارہ میں اللہ سے کوئی عہد باندھا ہوا ہے فَلَنْ يُخْلِفَ اللهُ عهدة اس صورت میں اللہ تو اپنے عہد کی عہد شکنی نہیں کرے گا آم تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تعلَمُونَ (البقرة:81) یا تم خدا کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رہے ہو جن کا تمہیں علم نہیں.
درس القرآن 70 رس القرآن نمبر 57 بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَ اَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ وَ (البقرة:82) گزشتہ آیت میں ذکر تھا کہ بنی اسرائیل اپنی شرارتوں اور سرکشیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا اور تنبیہہ سے ڈرانے پر یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم خدا کی پسندیدہ اور چنیدہ قوم ہیں اوّل تو ہمیں کوئی عذاب نہیں ملے گا.اگر ملے گا بھی تو صرف اتنا کہ دوچار دن ہمیں دوزخ کی آگ چھولے گی.آج کی دو آیات میں اس جھوٹے تصور کا اصولی جواب دیا ہے.سزا اور جزاء کا کسی قوم یا رنگ یا نسل یا زبان سے ہونے کا کیا تعلق ہے ؟ سزا اور جزاء کا تعلق تم بھی جانتے ہو صحیح ایمان اور اچھے اعمال سے ہے.کوئی شخص سفید رنگ کا ہے مگر خدا کی عبادت نہیں کرتا اور انسانیت کو دکھ دیتا ہے وہ بھی اسی طرح پکڑا جائے گا جس طرح ایک گندمی رنگ کا آدمی اگر ایسا کرتا ہے.کوئی کسی نسل سے ہو یا کسی ملک میں پید اہو ، سب ایک خدا کے بندے ہیں، ایک رب العالمین کی مخلوق ہیں، سزا جزاء کے لئے کوئی خاص قوم چنیدہ یا پسندیدہ نہیں، فرماتا ہے.بلی کیوں نہیں، حقیقت یہ ہے کہ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةٌ جس شخص نے بدی کمائی اور لوگوں کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث ہو او احاطت به خطی یا اس کی اپنی انفرادی غلطیوں اور گناہوں میں اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے اس کو ہر طرف سے گھیر لیا فَأُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ تو یہ لوگ آگ والے ہیں.تم کہتے ہو کہ آگ ہمیں معمولی سا چھوٹے گی وہ بھی دو چار دن.ہم کہتے ہیں کہ ایسے لوگ جو دوسروں کو دکھ پہنچانے کے مرتکب ہیں یا ان کی ذاتی برائیوں نے ان کو گھیر رکھا ہے وہ اس آگ میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ ہاں جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے أُولبِكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ یہ جنت والے ہیں هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ (البقرة: 83) وہ اس میں رہ پڑنے والے ہیں.
درس القرآن 71 درس القرآن نمبر 58 وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِى الْقُرْبى وَالْيَتَنى وَالْمَسْكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَ أَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأَتُوا الزَّكَوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (البقرة:84) بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ذکر جاری رکھتے ہوئے اس آیت میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ جو تعلیم بنی اسرائیل کو دی گئی تھی صرف تعلیم کے طور پر نہیں دی گئی تھی بلکہ ایک نہایت پختہ عہد ان سے لیا گیا تھا کہ وہ اس تعلیم پر عمل کریں گے مگر اب دیکھ لو کہ وہ کیا اس عہد پر عمل کر رہے ہیں اور اگر وہ عمل نہیں کر رہے تو وہ کس منہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم میں سلسلہ نبوت جاری رہنا چاہیے تھا کیا وہ اس کے مستحق ہیں کہ عہد توڑتے ہوئے بھی خدا ان سے اپنا عہد پورا کرے.دوسرا مضمون اس آیت میں یہ ہے کہ جس تعلیم کو یہ بنی اسرائیل چھوڑ بیٹھے ہیں وہ کوئی گھٹیا تعلیم بھی نہیں تھی نہایت خوبصورت اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم تھی ایسی تعلیم تھی جس میں حقوق اللہ کا بھی پاس رکھا گیا تھا اللہ کے بعد انسانوں میں سے سب سے زیادہ ماں باپ انسان کے محسن ہیں ان کے حقوق بھی بتائے گئے تھے پھر دوسرے رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی تھی.شاید رشتہ داروں سے حسن سلوک تو لوگ کچھ نہ کچھ کرتے ہیں مگر اس تعلیم میں ان کے حق میں بھی تعلیم تھی جن کے سروں سے ماں باپ کا سایہ اٹھ چکا ہو اور ماندہ بے کس محتاج لوگوں کے حقوق بھی بتائے گئے تھے.اور باقی ساری انسانیت سے حسن کلام کا ارشاد تھا کہ کہیں تم اپنے آپ کو چنیدہ قوم سمجھ کر دوسروں سے بد سلوکی کرنے لگو ( جیسے آج کل کے یہودی خاص طور پر کرتے ہیں) اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے تمہیں نماز کا حکم تھا حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے زکوۃ مقرر کی گئی تھی اب بتاؤ کہ کیا تم اس تعلیم پر عمل کر رہے ہو سوائے چند ایک لوگوں کہ تم اس تعلیم سے اعراض کرتے ہوئے پیٹھ پھیر رہے ہو.
درس القرآن 72 رس القرآن نمبر 59 وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ ثُمَّ اَنْتُمْ هَؤُلاء تَقْتُلُونَ اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أَسْرَى تُفْدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّم عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَرِّ الْعَذَابِ وَ مَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَوةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ وور وور يُنصَرُونَ (البقرة: 85 تا 87) بنی اسرائیل سے نبوت کا عظیم الشان سلسلہ بنی اسماعیل میں منتقل کرنا تاریخ انسان کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا اور مذہبی دنیا میں اس کی بہت اہمیت تھی اور آج تک جو دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے واقعات نظر آتے ہیں ان کے پیچھے اس تبدیلی کے نشانات ہیں.اس لئے قرآن مجید نے شروع میں ہی اس مضمون کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر یہ تبدیلی کی گئی.آج کی تین آیات میں بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ایک اور پہلو بیان کیا گیا ہے جو اس تبدیلی کا باعث ہوا اور وہ خود بنی اسرائیل کے باہمی تعلقات سے تعلق رکھتا ہے اور فرماتا ہے کہ باوجود اس کے ان سے پختہ اقرار لیا گیا تھا کہ تم باہمی تعلقات استوار رکھو گے.تم نے ایک دوسرے پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا، فرماتا ہے.اس بات کو یاد کرو کہ ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی آبادیوں سے نہیں نکالو گے تم نے یہ اقرار کیا اور تم اس کے گواہ تھے.اس کے باوجود تم وہ ہو کہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کرتے ہو تم اپنے میں سے ایک فریق کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو.تم گناہ اور ظلم کے ذریعہ ان کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہو اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو فدیہ لے کر ان کو چھڑاتے ہو جبکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام تھا پس کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے اور بعض کا انکار کرتے ہو پس تم میں
درس القرآن 73 سے جو ایسا کرے اس کی جزاء دنیا کی زندگی میں سخت ذلت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے ؟ (مطلب یہ کہ تمہیں تو یہ اعتراض ہے کہ تم سے نبوت کا سلسلہ کیوں چھین لیا گیا مگر تم روحانی بلندی تو الگ رہی دنیا کی عزت کے بھی مستحق نہیں رہے) فرماتا ہے اور قیامت کے دن وہ سخت تر عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے.اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو.فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی.پس نہ ان سے عذاب کم کیا جائے گا اور نہ ہی وہ مدد دیئے جائیں گے.
درس القرآن 74 درس القرآن نمبر 60 وَ لَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَ أَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيْنتِ وَاَيَّدُ لَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهُوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرتُه فَفَرِيقًا كَنَّ بِتُم وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ (البقرة:88،89) بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسماعیل میں نبوت کا قیام صرف مذہبی نہیں بلکہ دنیا کی عام تاریخ میں بھی عظیم الشان تبدیلی تھی جس کے اثرات و نتائج مذہبی اور غیر مذہبی دونوں قسم کی تاریخ میں ظاہر ہوئے اس آیت سے اس مضمون کے ضمن میں بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے ایک اور پہلو کا بیان ہے جس کا تعلق اس سلسلہ انبیاء سے ہے جو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے اور بنی اسرائیل نے خود اپنے انبیاء کی تکذیب کی اور ان کو دکھ دیئے.فرمایا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو موسیٰ جیسا عظیم نبی دیا جس کو ہم نے کتاب عطا کی ان کو صاحب شریعت نبی بنایا.اور پھر قفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ اور ہم نے رسولوں کا ایک سلسلہ حضرت موسیٰ کے پیچھے چلایا.یہ رسول ان کی شریعت پر عمل کرنے والے تھے اور بنی اسرائیل کی تاریخ کے لحاظ سے ان میں ایک اہم نبی عیسی ابن مریم تھے جن کو ہم نے کھلے کھلے نشانات دیئے اور پاکیزہ روح کے ساتھ ہم نے ان کی مدد کی.حضرت عیسی کے خصوصی ذکر کی اس آیت میں یہ وجہ بھی ہے کہ اگرچہ دوسرے انبیاء کی مخالفت اور تکذیب کی مگر حضرت عیسی کی غیر معمولی مخالفت کی داستان سب جانتے ہیں افعلَمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهْوَى اَنْفُسُكُم جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول آیا جو تمہاری نفس کی گری ہوئی خواہشات کے مطابق تعلیم نہیں لایا تھا تو است بر تم تم نے تکبر سے کام لیا اور فَفَرِيقًا كَذَ بتُم اور کچھ انبیاء کی تم نے تکذیب کی وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ اور کچھ کو تم نے قتل کرنے کی کوشش کی.اس لئے اب اگر تم رسول اللہ صلی علی یم اور قرآن مجید کی تکذیب کرو تو کیا تعجب کی بات ہے تم سمجھتے ہو وَقَالُوا قُلُوبُنَا خُلف اور کہتے ہو کہ ہمارے دل محفوظ ہیں اسلام کی تعلیم ان میں داخل نہیں ہو سکتی.نہیں بَلْ لَعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی ہے وَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ اور وہ ایمان کے قریب نہیں جاتے.ވ و، 17/19
درس القرآن درس القرآن نمبر 61 75 وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتب مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِينَ (البقرة: 90) اس آیت میں بنی اسرائیل کی نافرمانی اور سرکشی کا ایک اور اہم پہلو بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل کے پاس اللہ کی کتاب قرآن شریف اللہ کے حضور سے آئی ہے اور جو کتاب ان کے پاس ہے خود اس کی سچائی بھی قرآن شریف سے ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان کی کتاب میں پیشگوئیاں قرآن شریف کے بارہ میں رسول اکرم صلی ا یکم کی بعثت سے پوری ہو رہی ہیں اور اس طرح اصل سچی بائبل کی تصدیق ہوتی ہے مگر یہ لوگ اس کا بھی انکار کر رہے ہیں جس سے خود ان کی اپنی کتاب کی صداقت ثابت ہوتی ہے.حالانکہ یہی لوگ قرآن شریف کے نزول اور رسول اکرم صلی علیکم کی بعثت سے قبل ” خدا تعالیٰ سے نصرت دین کے لئے مدد مانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہوتا تھا.اور وہ ہمیشہ اس بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر زمان اور امام دوران جلد پیدا ہو گا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ملک عرب میں آرہے تھے اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا.مگر جبکہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہو گیا تب خود بینی اور تعصب نے اکثر راہبوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دل سیہ ہو گئے.“ ( ضرورة الامام روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 476) اس آیت کا ترجمہ اس طرح ہے کہ جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی جو اس (تعلیم) کی جو ان کے پاس تھی، تصدیق کر رہی تھی جبکہ حال یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے کفر کیا ( اللہ سے) مددمانگا کرتے تھے پس جب وہ ان کے پاس آگیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو ( پھر بھی) اس کا انکار کر دیا پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو.
درس القرآن 76 رس القرآن نمبر 62 بِئْسَمَا اشْتَرُوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى 609 مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُ وَ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبِ وَ لِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ (البقرة:91) بنى اسرائیل کی سرکشیوں اور شرارتوں کے مضمون کے بیان میں اس آیت سے یہ مضمون بھی شروع ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل قرآن مجید کا انکار کیوں کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ ان کے انکار کا باعث یہ ہے کہ وہ یہ برداشت نہیں کرتے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ کسی اور قوم پر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنا کلام نازل فرمائے اور ایسے لوگوں کو جو اس کے حقیقی بندے ہیں اور جن پر وہ اپنا کلام اتار نامناسب دیکھتا ہے ان کو اپنے کلام سے نوازے.بنی اسرائیل کی یہ مصیبت قدیم زمانہ میں بھی تھی اور آج بھی چل رہی ہے.اس کیفیت کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے جو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جو حضور صلی ایلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، نے بیان فرمایا ہے حضرت صفیہ ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور ان کا چچا بھی بڑے سر داروں میں سے تھا حضرت صفیہ بیان فرماتی ہیں کہ ان کا چا ان سے بہت لاڈ کر تا تھا مگر وہ ایک دن آیا تو اس نے میری طرف توجہ نہ کی اور انہوں نے اپنے باپ اور چا کی ایک گفتگو بیان کی کہ میرے باپ نے پوچھا.ملاقات ہوئی؟ ہاں ہوئی.کیا وہ سچے نبی ہیں؟ ہاں سچے نبی ہیں.پھر ایمان لانا ہے ؟ ہر گز نہیں کیونکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں.(سیرت ابن ہشام من اجتمع الى يهود من منافقی الانصار صفحہ 364 دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء) اس آیت میں فرماتا ہے بہت برا ہے جو انہوں نے اپنے نفوس بیچ کر ان کے بدلے حاصل کیا کہ اس حق کا انکار کر رہے ہیں جو اللہ نے اتارا اس بات کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کہ اللہ اپنے بندوں میں جن پر مناسب سمجھے اپنے فضل سے اپنا کلام اتارے.پس وہ.غضب پر غضب پر لئے ہوئے لوٹے اور ایسے کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے.
درس القرآن 77 درس القرآن نمبر 63 وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ يَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ انْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (البقرة:92) بنی اسرائیل کو یہ غصہ تھا کہ ان میں سلسلہ نبوت جاری رہنا چاہیئے تھا اس لئے جب ان سے کہا جاتا تھا کہ قرآن مجید پر ایمان لاؤ تو ان کا جواب تھا کہ ہم تو صرف اس کلام پر ایمان لائیں گے جو ہم بنی اسرائیل پر اتارا جائے اور اس کے علاوہ وہ ہر کلام کا انکار کرتے ہیں خواہ اس کلام میں دوز بر دست صفات پائی جائیں ایک تو یہ کہ وہ سراسر سچ اور حقیقت پر مشتمل ہو اور صرف سچا نہیں بلکہ بچے کاموں سے بڑھ کر سچا اور کامل صداقت پر مشتمل ہو.پر دوسرے وہ کلام خود بنی اسرائیل پر اتارے گئے کلام کی تصدیق کرتا ہو اور ان کے کلام کی پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہو.تعجب کی بات ہے وہ ایسے کلام کا بھی انکار کرتے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ کہ وہ صرف بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے کلام کو ہی مانتے ہیں درست نہیں کیونکہ اگر تم ایسے ہی مومن ہو تو تم تو خود اپنے اپنے نبیوں کی مخالفت کرتے رہے اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہو.پھر تمہارا یہ بہانہ کہ ہم قرآن پر اس لئے ایمان نہیں لاتے کہ وہ بنی اسرائیل پر نہیں نازل ہو اسر اسر جھوٹ ہے اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کا تو تم انکار کرو تم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کرتے رہے ہو ، فرماتا ہے وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَ اَنْتُم ظُلِمُونَ (البقرة : 93) کہ حضرت موسیٰ تمہارے پاس کھلے کھلے دلائل اور نشانات لے کر آئے تھے پھر ان کی غیر موجودگی میں تم نے ایک بچھڑے کو خدا بنالیا ذرا سوچو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے اس لئے تمہارا یہ دعویٰ کہ تم صرف بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے کلام الہی کو مانتے ہو بھی سراسر غلط ہے.
درس القرآن 78 رس القرآن نمبر 64 وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُم وَرَفَعْنَا فَوقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا أَتَيْنَكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا وَاشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (البقرة:94) حضرت مصلح الموعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.اس میں یہود کی عہد شکنی کی ایک اور مثال بیان کی ہے کہ تم اس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کے زمانہ میں تم سے ایک عہد لیا اور عہد بھی ایسی حالت میں لیا جبکہ تم طور کے دامن میں کھڑے تھے جو ایک مقدس مقام تھا مگر پھر بھی تم نے بد عہدی سے کام لیا اور طور کی تقدیس اور اس کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا.یہ عہد کیا تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود ہی کر دیا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور ہماری اطاعت کرو مگر انہوں نے بجائے اطاعت کرنے کے کہا کہ ہم نے بات تو سن لی ہے مگر ہم یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہم اس کی نافرمانی کریں گے.یہ ضروری نہیں کہ انہوں نے اپنی زبانوں سے ہی یہ الفاظ کہے ہوں بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کی عملی نافرمانی کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہو.یعنی ان کے اندر روحانی لحاظ سے ایسا بگاڑ تھا کہ وہ ادھر بات سنتے اور ادھر اس کی نافرمانی شروع کر دیتے وَأَشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ یعنی ان کے دلوں میں اس ( بچھڑے) کی محبت گھر کر گئی تھی.قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ اِيْمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُؤْمِنِينَ فرماتا ہے اگر تم واقعہ میں ایمان لانے والے ہوتے تو کیا تمہارے ایمان تمہیں اس بات کی اجازت دے سکتے تھے کہ جب موسیٰ چند دنوں کے لئے باہر جاتے تو تم بت پرستی شروع کر دیتے.پھر تو اس ایمان سے کفر ہی بہتر ہے.اگر تمہیں ایمان کا دعویٰ ہے تو پھر تو وہ تمہارا ایمان تمہیں بہت برا حکم دیتا ہے کیونکہ تم ابتداء سے ہی اللہ تعالیٰ کے نبیوں کا انکار کرتے چلے آئے ہو اور نبیوں کی مخالفت خواہ زبان سے ہو خواہ اعمال سے کبھی نیک نتائج پید انہیں کرتی پھر اس کے ہوتے ہوئے تم اپنے آپ کو ایمان دار اور مؤمن کیسے کہتے ہو.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 42-43 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 79 رس القرآن نمبر 65 قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إن كُنتُم صُدِقِينَ وَ لَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيوةٍ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (البقرة:9795) بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ذکر چل رہا ہے اور ان آیات میں اس کا ایک اور پہلو بیان ہے وہ یہ کہ بنی اسرائیل میں یہ خیال راسخ تھا کہ ہم خدا کی چنی ہوئی قوم ہیں.نبوت بھی ہم میں ہے.شریعت بھی ہمیں دی گئی ہے.ساری دنیا میں عزت و فضیلت کا مقام صرف ہمیں حاصل ہے اور دنیا تو دنیا آخرت کا گھر بھی ہمارے لئے ہو گا، فرماتا ہے قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ تم کہو کہ اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر بھی سب لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے ہے فتمنوا الموت تو موت کی تمنا کرو مطلب یہ کہ اگر آدمی ایک رڈی مقام پر ہو مگر ایک اور اچھا اور اعلیٰ اور خوبصورت اور ہر قسم کی نعمتوں سے بھرا ہوا اور مقام موجود ہو تو لازما یہ رڈی مقام والا آدمی اچھے مقام میں جانے کی خواہش کرے گا اور اس کے لئے کوشش کرے گا.اب اگر تمہیں خیال ہے کہ تم بحیثیت نسل و قوم مرتے ہی جنت کے مستحق ہو تو اس تکلیف دہ دنیا میں رہنے کے بجائے ذرا خواہش تو کرو کہ ہم مر کر اگلے جہان چلے جائیں.کیونکہ یہ تو دنیا بھی جانتی ہے کہ یہودی قوم سب لوگوں سے زیادہ دنیا میں لمبی عمر پانے کی خواہش مند ہے.فتمنوا المَوت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ پھر مسلمانوں سے مباہلہ کر لو اگر تمہیں یہ یقین ہے کہ تم مرتے ساتھ ہی جنت میں جاؤ گے تو تم مسلمانوں سے مباہلہ کر کے تم اپنے خیال اور خواہش کے مطابق اسلام کو بھی شکست دے دو گے.خود بھی جنت میں جاسکتے ہو مگر فرماتا ہے یہ کبھی موت کی خواہش یا موت کے لئے مباہلہ نہیں کریں گے.وَ کن يتمنون ابد اوہ ہر گز کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ بوجہ ان کاموں کے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں وَاللهُ عَلِيمٌ بِالظلمین اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے
درس القرآن 80 لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَیوۃ اور تم سب لوگوں سے زیادہ ان کو زندگی کے لئے حریص 19 پاؤگے وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا ان سے بھی زیادہ جنہوں نے شرک کیا.يَوَدُّ اَحَدُهُم لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کو ہزار سال کی عمر دی جائے.وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِهِ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُعَمر حالانکہ اس کا عمر دیا جانا اس کو عذاب سے بچانے والا نہیں.وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ اور اللہ اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے جو وہ کرتے ہیں.
درس القرآن 81 رس القرآن نمبر 66 قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (البقرة : 98) بنی اسرائیل کی سرکشی اور نافرمانی کا ایک غیر معمولی پہلو بیان کیا ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علم کی دشمنی میں اس عظیم فرشتے سے بھی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں جو تمام روحانی تحریکات کو اللہ تعالیٰ سے حاصل کر کے انسانوں کے دلوں میں ملا ئکہ کے ذریعہ پہنچاتا ہے.فرماتا ہے مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ کہ جو جبریل کا دشمن ہے فَإِنَّهُ نَزِّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ باذن اللہ تو وہی جس نے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے کلام اتارا ہے اشارہ یہ ہے کہ تیرے دل جیسا دل ہو اور اس پر جو کلام اتارا گیا ہو وہ باذن الله ہو خدا کے حکم پر وہ کلام اترا ہو مُصَدِّقًا لمَا بَيْنَ يَدَيْهِ اور وہ کلام ایسا ہو کہ اس سے پہلے نازل شدہ کلام کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہوں اور اسی کلام کی تائید اور تصدیق کرتا ہو وھدی پھر ہر قسم کی رہنمائی، ہر مزاج اور ہر مقام کے آدمی کے لئے رہنمائی اس میں موجود ہو اور صرف رہنمائی نہ ہو بلکہ بشرى لِلْمُؤْمِنِينَ ان لوگوں کے لئے جو اس پر ایمان لائیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں ملنے والی نعماء کی ہر طرح کی بشارتیں ہوں ایسے کلام کو ایسے دل پر نازل کرنے کا ذریعہ بننے والے فرشتہ سے دشمنی کرنا کتنی نادانی ہے.اس لئے مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلهِ وَمَلَبِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَ جِبْرِيلَ وَمِيْكُلَ پس جو لوگ اس قسم کی نادانی میں مبتلا ہیں وہ یاد رکھیں کہ اللہ کے ملائکہ سے دشمنی کرنے والے، اللہ کے رسولوں سے جن پر یہ ملائکہ اللہ کا کلام اتارتے ہیں دشمنی کرنے والے اور جبریل سے جو تمام دلوں پر روحانی علوم اتارنے کا ذریعہ بنتا ہے.دشمنی کرنے والے یا میکائیل سے جو تمام دماغوں کو ان روحانی علوم کی جو دلوں پر نازل ہوتے ہیں.حکمت سکھانے کا ذریعہ بنتا ہے دشمنی کرنے والے جان لیں.فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ تِلْكَفِرِينَ (البقرة : 99) کہ وہ ملائکہ اور رسولوں سے دشمنی مول نہیں لے رہے بلکہ خدا سے دشمنی مول لے رہے ہیں.خدا ایسے کافروں کا دشمن ہے.
درس القرآن 82 رس القرآن نمبر 67 وَ لَقَد أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ أَيْتِ بَيِّنَتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَسِقُونَ اَوَ كُلَّمَا عَهَدُ وَاعَهْدَ اتَّبَذَة فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَ لَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولُ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِقٌ لِمَا مَعَهُم نَبَد فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ كِتَبَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (البقرة:100 تا102) اس بات کے بیان کے بعد کہ بنی اسرائیل قرآن مجید کے انکار اور آنحضرت صلی ال نیم کی تکذیب میں اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ اس عظیم الشان فرشتہ جبریل سے بھی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں جو اللہ کی طرف سے تمام روحانی وحی اور رسالت کا واسطہ ہے اور انسانی قلوب پر اور سب سے بڑھ کر حضور صلی نمی کم کے دل پر اللہ کا کلام نازل کرنے کا ذریعہ ہے اور اس فرشتہ سے بھی دشمنی کرتے ہیں جس کا نام میکائیل ہے جو انسانی دماغ کو روحانی علوم و احکام کی حکمتیں سکھاتا ہے حالانکہ جن آیات کا یہ انکار کر رہے ہیں اور جس رسول کی تکذیب کر رہے ہیں اس کی کیفیت یہ ہے کہ وَ لَقَد أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ أَيْت بَيِّنت کہ ہم نے تیری طرف روشن اور واضح آیات اور نشانات اتارے ہیں وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفُسِقُونَ اور وہی لوگ اس کا انکار کر سکتے ہیں جو عہد کر کے اپنے گناہوں کی وجہ سے اس کو توڑنے والے ہیں اور یہ عہد شکنی ان کی تاریخ کا حصہ ہے او كُلَّمَا عَهَدُوا عَهْدًا نَبَذَة فَرِيق مِنْهُم جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس عہد کو پھینک دیا بک اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ بلکہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِنْدِ اللَّهِ اور اب جو ان کے پاس رسول خاص خدا کے حضور سے آیا ہے مُصَدِّقُ لِمَا مَعَهُمُ اور جو ان کے پاس ہے اس کی تصدیق بھی کرتا ہے اور ان کی پیشگوئیوں کو پورا بھی کرتا ہے.نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ كِتَبَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِم تو ان لوگوں میں سے ایک فریق نے جن کو کتاب دی گئی تھی اللہ کی اس کامل کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے.گانهُم لَا يَعْلَمُونَ گویاوہ جانتے ہی نہیں یعنی گویا ان کو علم ہی نہیں کہ ان کی اپنی سابقہ کتاب میں اس کتاب کے حق میں پیشگوئیاں ہیں.
درس القرآن 83 رس القرآن نمبر 68 ورسوور وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيطِيْنُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَنَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلَكِنَّ الشَّيطِيْنَ كَفَرُوا يُعَلِمُونَ النَّاسَ السّحر ( البقرة : 103) اس آیت سے بنی اسرائیل کی رسول کریم صلی اللی علی کی تکفیر و تکذیب اور بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور سرکشیوں کے ایک اور پہلو کا ذکر شروع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل نے آپ صلی ا یکم کے خلاف صرف زبانی تکفیر و تکذیب کا سلسلہ جاری نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ایسی کاروائیاں آپ صلی للی یکم کی مخالفت میں شروع کر دی ہوئی ہیں اور جس طرح بنی اسرائیل کے ایک طبقہ نے خدا کے ایک سچے اور زبر دست نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف کاروائیاں شروع کی تھیں آج کے بنی اسرائیل رسول اللہ صلی الل علم کے خلاف وہی کاروائیاں کر رہے ہیں، فرماتا ہے وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيطِین اور یہ پیروی کرتے ہیں ان باتوں کی جو شیطان جیسے شرارتی لوگ پڑھتے اور کرتے تھے عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَنَ حضرت سلیمان کی حکومت کے خلاف وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ سلیمان نے تو ہر گز کفر نہیں کیا تھا مگر یہ لوگ حضرت سلیمان پر شرک اور کفر کا جھوٹا الزام لگاتے تھے اور آج تک یہ الزام محرف شدہ بائبل میں لکھا ہوا موجود ہے وَلكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا حقیقت میں یہ شرارتی لوگ ہی توحید اور سچے دین کا انکار کرتے ہیں يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السّحْرَ اور لوگوں کو نہایت باریک پر اسرار باتیں دور سکھاتے ہیں.پھر فرماتا ہے وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ یہ بنی اسرائیل ان سر گرمیوں کی پیروی کر رہے ہیں جس کی تعلیم جو دو فرشتہ نما وجودوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی تھی.یہاں اس زمانہ کا ذکر ہے جب بنی اسرائیل قید کر کے فلسطین سے عراق میں غلام بنا کر لائے گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے اندرونی طور پر ہاروت اور ماروت کی سرگرمیوں کے ذریعہ اور بیرونی طور پر حضرت ذوالقرنین خورس کے ذریعہ ان بنی اسرائیل کو آزاد کر وایا اور وہ واپس یروشلم اور فلسطین جانے کے قابل ہوئے.رسول کریم صلی ال نیم کے خلاف یہودی وہ تدابیر استعمال کر رہے ہیں جو بابل میں اندرونی اور بیرونی طور پر کی گئی تھیں اندرونی طور پر
درس القرآن 84 یہودی قبائل حضور صلی الیکم کے خلاف فتنہ پردازی کرتے ہیں اور بیرونی طور پر مکہ والوں اور ایران کے بادشاہ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.حالانکہ ہاروت ماروت کی سر گرمیاں صداقت اور انصاف کی خاطر اور ظلم مٹانے کے لئے تھیں.جبکہ ان یہود کی کوشش سراسر کفر اور ظلم کے لئے ہیں.فرماتا ہے وَمَا يُعَلّمن مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فلا تكفر کہ ہاروت ماروت دونوں جو تدابیر لوگوں کو سکھاتے تھے اس کے متعلق کہہ دیتے تھے کہ ہم لوگ آزمائش کے طور پر ہیں پس ان تدابیر کو کفر کا ذریعہ نہ بنالینا فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوجِه تو وہ لوگ ایسی گہری تدابیر ان دونوں سے سیکھتے جو خاوند اور بیوی کو جدا کر کے رکھ دیں وَمَا هُم بِضَارِینَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ مگر وہ اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو نقصان نہ پہنچاتے تھے مگر ان لوگوں کا جو رسول کریم صلی ال یکم کے خلاف شرارت کر رہے ہیں حال یہ ہے کہ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ یہ وہ کچھ سیکھ رہے ہیں جو ان کو نقصان دیتا ہے اور نفع نہیں دیتا.پھر یہ لوگ بھی جانتے ہیں وَ لَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَريهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ کہ جس نے یہ سودا کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں وَلَبِئْسَ مَا شَرَوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ پس بہت برا ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنے نفسوں کو پیچ ڈالا لو كَانُوا يَعْلَمُونَ کاش وہ جانتے.
درس القرآن 85 درس القرآن نمبر 69 الله سة وَلَوْ أَنَّهُمْ أمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَيْرٌ لَو كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة:104) یہ آیت گزشتہ آیات کے مضمون کی تکمیل کے طور پر ہے گزشتہ آیات کا مضمون تھا کہ یہ بنی اسرائیل اس لئے رسول اکرم صلی علیہ علم اور قرآن شریف پر ایمان نہیں لاتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح بنی اسرائیل کو صدیوں سے جو فضیلت دی جارہی تھی اس میں فرق آجائے گا اور ان کی عظمت نہیں رہے گی.فرماتا ہے کہ معاملہ بالکل الٹ ہے وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا اگر یہ لوگ ایمان لے آتے مگر صرف ایمان کا لفظی اقرار کافی نہیں وَاتَّقُوا عملی طور پر تقویٰ اختیار کرتے لَمَتُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ تو اللہ کی طرف سے جو بدلہ ان کو ملتا وہ اس سے بہت بہتر ہوتا جس عظمت، فضیلت کو اپنے گمانوں سے بچانے کے لئے وہ ایمان نہیں لا رہے لَو كَانُوا يَعْلَمُونَ کاش وہ جانتے کہ اب ایمان لانے والے عظمت و فضیلت پائیں گے اور نہ ماننے والے رسوا ہوں گے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرُنَا وَاسْمَعُوا وَ لِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ اليه (البقرة : 105) بنی اسرائیل کی شرارتوں اور سرکشیوں کے ایک اور بہت ہی اہم پہلو کا بیان شروع ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور صلی علیکم کے خلاف جو ہتھکنڈے یہود نے اختیار کئے ان میں سے ایک نہایت اہم ہتھکنڈے کا ذکر کر کے مسلمانوں کو اس کے بارہ میں توجہ دلائی گئی ہے یہود کی شرارت کی تکنیک یہ تھی کہ مجالس میں ایسے الفاظ کا استعمال کریں جس کے ایک طرف تو بہت اچھے معنے ہوں مگر دوسری طرف اس کے ایسے معنے بھی نکل سکتے ہوں جو بے ادبی پر مشتمل ہوں یا اچھے معنے والے لفظ کو اگر ذرا تلفظ میں ہلکی سی تبدیلی کے ساتھ کہا جائے تو اس کے معنے نامناسب سمجھے جائیں.مسلمانوں کو اس آیت میں راعِنَا کا لفظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ جہاں راعنا کے لفظ کے یہ معنے ہیں ہمارا خیال رکھیئے وہاں یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ آپ ہمارا خیال رکھیں ہم آپ کا خیال رکھیں گے یا اگر راعنا کے لفظ کو تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ را عینا کر کے پڑھے جائیں تو معنے بن جائیں گے اے ہمارے چرواہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو راعنا نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہم پر نظر فرما اور ارشاد کیا کہ غور سے سنا کر وایسے کافروں کے لئے جو اس قسم کی شرارت کرتے ہیں درد ناک عذاب ہے.
درس القرآن 86 رس القرآن نمبر 70 مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ ربَّكُم وَاللهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (البقرة:106) بنی اسرائیل کے اس حسد اور جلن کا ذکر جاری ہے جو ان کو حضور صلی یم اور قرآن سے تھا.فرماتا ہے کہ اہل کتاب میں سے انکار کرنے والے اور مشرک بھی یہ نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی خیر اتاری جائے (کیونکہ وہ اپنے آپ کو خدائی ٹھیکہ دار سمجھتے ہیں) حالا نکہ اللہ جسے چاہے، جس کو مناسب سمجھے اپنی رحمت خاص سے متمتع فرماتا ہے.دراصل یہ مخالفین اللہ کے فضل کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے ، بہت بڑا ہے ، ساری دنیا ہی اس کی دنیا ہے، ساری انسانیت ہی اس کی مخلوق ہے، سب قومیں اسی کی پیدا کر دہ ہیں.اگر بنی اسرائیل اس کے حکم پر عمل نہیں کرتے تو وہ کوئی حق نہیں رکھتے کہ اس کے صرف وہی اس کے فضل کے وارث ہوں دوسری قوموں پر بھی خدا اپنے عظیم فضل سے اپنی رحمت نازل کر سکتا ہے.حضرت مصلح الموعود اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.”نہ اہل کتاب اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ تم پر خدا کا فضل نازل ہو اور نہ ہی مشرک.وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کی وجہ سے تم محمد رسول اللہ صلی الم کا ظاہری ادب ترک کر دو اور تمہارے دلوں میں ان کی وقعت کم ہو جائے اور اس طرح تم میں تفرقہ اور شقاق اور فساد پیدا ہو جائے اور تمہارا اتحاد جس کی وجہ سے تمہیں طاقت حاصل ہے جاتا رہے......فرماتا ہے ان باتوں سے کیا بنتا ہے خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مختص کر لیتا ہے.اس وقت اس نے محمد رسول اللہ صلی علی ریم کے ساتھ اپنی رحمت کو مخصوص کر دیا ہے.پس تم چاہے کتنی گالیاں دے لو خدا کا نبی جیتتا چلا جائے گا کیونکہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی ہوئی ہے وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ میں اس طرف توجہ دلائی کہ اس کی رحمت عام ہے اس لئے اگر تم ایمان لے آؤ تو ہماری رحمت ختم نہیں ہو گئی اگر تم تو بہ کر لو تو تمہیں بھی ہماری رحمت سے حصہ مل جائے گا.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 94-95 مطبوعه ربوہ)
درس القرآن 87 درس القرآن نمبر 71 مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا اَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اَلَمْ تَعْلَمُ اَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلي وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: 107،108) بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے سلسلہ میں جو مضمون بیان ہو رہا ہے اس کا ایک اہم پہلو ان دو آیات میں بیان کیا گیا ہے اور وہ مضمون یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل پر جو کلام نازل ہو ا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا جو احکامات حضرت موسیٰ اور سابقہ انبیاء کو دیئے گئے وہ خدا کی طرف سے تھے تو پھر یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم صلی الیم نے اس کلام اور ان احکامات کی جگہ دوسر ا کلام اور دوسرے احکامات دنیا کو دیئے ہیں اس سوال کا جواب ان دو آیات میں بڑی مضبوطی سے دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل پر اترنے والے کلام اور احکامات کو ہم نے منسوخ کیا ہے اور بنی اسرائیل کی بد عملیوں کی وجہ سے ہم نے ہی ان کو بھلایا ہے.رسول اکرم صلی علیم نے از خود منسوخ نہیں کیا.ہم نے ہی بنی اسرائیل پر وہ کلام اور وہ احکام نازل فرمائے تھے اور اب ضرورت کے بدلنے پر اور ان کے بھلائے جانے کے بعد ہم نے ہی ان کا نعم البدل اتارا ہے یا بھولے ہوئے حصہ کو جس کا قائم رکھنا ضروری ہے ہم نے ہی مہیا کیا ہے یہ سارا کام خدا کی قدرت سے ہوا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کی دائمی سنت ہے ماضی کے صحائف کے مٹ جانے اور بھلائے جانے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صحائف خدا نے اتارے اور اب موسوی صحائف کے مٹ جانے اور بھلائے جانے پر رسول اکرم صلی الی یوم کے ذریعہ کامل کتاب اتاری.حضرت مصلح موعودؓ دوسری آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.”فرماتا ہے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ہم ایک انقلاب عظیم کے پیدا کرنے کے لئے اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی الم کے زمانہ کے کفار کو
درس القرآن 88 صرف اس امر کا تو غصہ نہ تھا کہ ان کے خیالات کے خلاف ایک نیا خیال رسول کریم صلی الی یوم کیوں پیش کرتے ہیں انہیں جس بات کا خطرہ تھا اور جس کا تصور کر کے بھی انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی وہ یہی تھی کہ کہیں قرآن کی حکومت قائم نہ ہو جائے پس فرمایا اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ اے انکار کرنے والو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.پس جب اس نے اس بادشاہت کو ایک نئے رنگ میں قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے فیصلہ کے پورا ہونے کو کون روک سکتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 102 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 89 رس القرآن نمبر 72 ام تُرِيدُونَ أَن تَسْتَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُبِلَ مُوسى مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ( البقرة: 109) بنی اسرائیل کی سرکشیوں کا ایک پہلو جس کا اس آیت میں ذکر ہے یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں ہمارے نبی صلی الی یکیم کے ادب و احترام کو کم کرنے کے لئے جو کوشش کرتے تھے اس کا ایک طریق یہ تھا کہ مسلمانوں کو یہ عادت پڑے کہ وہ حضور صلی الله ولم سے نامناسب سوالات کریں.جہاں صاحب علم سے سوال کرنا علم بڑھانے کا ذریعہ ہے وہاں صاحب علم سے بے کار سوال کرنا نہ صرف ضیاع وقت ہے بلکہ بے ادبی پر منتج ہو سکتا ہے نیز علم حاصل کرنے والوں کی ذہنی استعدادوں کو کمزور کرنے کا باعث بھی ہو سکتا ہے اس لئے فرمایا کیا تم اپنے رسول سے اسی طرح سوال کرنا چاہتے ہو جس طرح اس سے پہلے موسیٰ سے سوال کئے گئے تھے (اور بھول جاتے ہو ) جو شخص کفر کو ایمان سے بدل لے تو سمجھو کہ وہ سیدھے راستہ سے بھٹک گیا.حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:.الله ” نادان عیسائی مصنف اعتراض کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا لم نعوذ باللہ اپنی کم علمی چھپانے کے لئے صحابہ کو سوال کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے.لیکن قرآن کریم کی یہ آیت بتاتی ہے کہ صحابہ کو سوال کرنے سے نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کے زمانہ کے لوگوں جیسے سوال کرنے سے روکا گیا تھا.اصل بات یہ ہے کہ کوئی سوال زیادتی علم کے لئے ہوتا ہے اور کوئی کج بھی کے لئے.کوئی بے ادبی کے لئے ہوتا ہے اور کوئی تحقیر و تذلیل کے لئے ، غرض ہر سوال الگ رنگ رکھتا ہے.معقول انسان کبھی بھی کسی غیر معقول سوال کی دوسرے کو اجازت نہیں دے سکتا.اگر کوئی لڑکا کالج میں پروفیسر کے سامنے کھڑے ہو کر سوال پر سوال کرتا چلا جائے تو وہ لازماً اُسے ڈانٹے گا اور کہے گا کہ تم فضول وقت ضائع کر رہے ہو.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ پروفیسر اپنی کم علمی کی وجہ سے اسے سوال کرنے سے روک رہا ہے.اسی طرح قرآن کریم نے لغو اور بے ہودہ سوالات کو نا پسند کیا ہے نہ کہ محض سوالات کو چنانچہ سُہل ھوٹلی میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے اور حضرت موسیٰ سے لوگ جس قسم کے سوالات کیا کرتے تھے.
درس القرآن 90 ان کا نمونہ قرآن کریم کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے کہ يَسْتَلْكَ أَهْلُ الْكِتَبِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتبًا مِنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَاَلُوا مُوسَى أَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ فَقَالُوا اَرِنَا اللهَ جَهْرَةً ( النساء : 154 ) یعنی یہ اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو آسمان سے ان پر ایک کتاب اتار کر لے آئے.یہ سوال تو انہوں نے پھر بھی کم کیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو اس سے بھی بڑا سوال کیا گیا تھا.اور کہا گیا تھا کہ تو خدا کو پکڑ کر ہمارے سامنے لے آتب ہم ایمان لائیں گے.اسی طرح تورات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات بات پر سوال کیا کرتے تھے.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 108-109 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 91 رس القرآن نمبر 73 وَذَ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَ اصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ ( البقرة : 110) یہ آیت اہل کتاب کی اسلام کے خلاف کوششوں کا ذکر کر کے پھر ان کے اس زبر دست پر اپیگنڈا کا قلع قمع کرتی ہے جو کئی صدیوں سے عالمی سطح پر نہایت زور سے کیا جارہا ہے، فرماتا ہے : اہل کتاب میں سے بہت سے ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کاش تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کافر بنادیں اس حسد کی وجہ سے جو ان کے دلوں میں ہے وہ ایسا کرتے ہیں بعد اس کے کہ حق ان پر روشن ہو چکا ہے فَاعْفُوا وَ اصْفَحُوا تم انہیں معاف کر دو اور ان سے در گزر کر و حَتى يَأْتِيَ اللهُ بِاَمرِہ یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے کر آئے اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر یقینا اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے.آیت کے اس حصے میں مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ اگر چہ اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تم ایک دفعہ پھر کافر بن جاؤ اور یہ کسی حکمت اور نیک خواہش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس حسد اور جلن کی وجہ سے ہے جو ان کے دلوں میں ہے پھر کسی ناواقفیت کی وجہ سے بھی نہیں، اسلام کی صداقت اور حقانیت خوب ان پر روشن ہو چکی ہے مگر تم ان کو معاف کرو اور ان سے در گزر کرو، خدا تعالیٰ خود اس بارہ میں حکم نازل فرمائے گا لیکن ملا کہتا ہے کہ کافر کو پکڑو اور ان کو تلوار کے زور سے مسلمان بنالو ( اور یہ بھی ملا صرف کہتا ہے کسی یہودی اور عیسائی پر تلوار اٹھانے کی جرات نہیں کرتا صرف نہتے شریف احمدی مرد، عورتوں، بچوں پر حملہ کرتا ہے) اللہ نے جو حکم دیاوہ تو یہ تھا کہ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ ولا تعتدوا (البقرۃ:191) کہ جو تم پر حملہ آور ہیں ان سے لڑائی کرو اور Aggression نہ کرو.نیز فرمایا اذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ( الحج:40) کہ لڑائی کی اجازت ان مسلمانوں کو دی گئی ہے جن پر حملہ کیا جاتا ہے کیونکہ ایسے مسلمان مظلوم ہیں.غرض یہ آیت مغرب کے مخالفین اسلام کے خلاف ایک زبر دست دلیل ہے کہ ان کا اسلام پر جارحانہ حملہ کرنے کی تعلیم دینے کا الزام بالکل غلط ہے بلکہ اسلام ان سے عفو اور در گزر کے سلوک کا حکم دیتا ہے.
درس القرآن رس القرآن نمبر 74 92 وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَمَا تُقَدِمُوا لأنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِير ( البقرة: 111) بنی اسرائیل کا حضور صلی ال نیم کی نبوت اور قرآن مجید کے کلام الہی ہونے کا انکار دنیا کی مذہبی تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے اور بنی اسرائیل نے گزشتہ 14 سو سال میں جو مخالفت کی اس کا دنیا کی نہ صرف مذہبی تاریخ پر اثر پڑا ہے بلکہ دنیا کی عام تاریخ اور دنیا کی تاریخ میں ممالک کی تشکیل پر بھی اس کا گہرا اثر ہے.قرآن شریف کے اس حصہ میں جہاں تفصیل کے ساتھ اس کش مکش کا ذکر ہے وہاں قرآن شریف کے طریق کے مطابق پیش آمدہ مسائل کا حل اور ان کے بارہ میں رہنمائی بھی کی گئی ہے چنانچہ اس آیت میں بنی اسرائیل کی اس لمبی کش مکش کے بیان کے دوران میں مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے کہ اگر وہ اس کش مکش کے تکلیف دہ نتائج سے بچنا چاہتے ہیں تو دو باتوں کی طرف توجہ کریں.(1) حقوق اللہ (2) حقوق العباد.حقوق اللہ کی طرف وَاقِیمُوا الصلوۃ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ نماز قائم کرو تمام شرائط کے ساتھ باجماعت نماز کی پابندی کر وجو ذکر الہی، دعا، تحمید و تسبیح و استغفار پر مشتمل ہے اور حقوق العباد کی طرف وَآتُوا الزَّکوة کی طرف توجہ کرو اور لوگوں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچاؤ.اگر ایسا کرو گے تو تمہاری کوششیں ضائع نہیں جائیں گی.وَمَا تُقَدِ مُوالِانْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللہ تم جو نیک کام اپنے نفسوں کی خاطر آگے بھیجو گے اس کو خدا کے حضور پاؤ گے.تمہارے یہ کام، تمہاری یہ جد وجہد پر خدا کی نظریں ہیں.اِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ تم جو کام کرتے ہو اللہ ان کو خوب دیکھ رہا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ تم ان لوگوں کو سزا نہ دو(جیسا کہ پہلی آیت میں ذکر ہے.ناقل) بلکہ اسے ہم پر چھوڑ دو چونکہ مسلمانوں پر گراں گزر سکتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جب تمہیں دشمن کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کو دیکھ کر غصہ آئے اور تمہارے لئے صبر کرنا مشکل ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھک جاؤ اور نمازوں میں ہم سے دعائیں مانگ...واتوا الزکوۃ اور دوسر ا علاج یہ ہے کہ تم زکوۃ کے ذریعہ غرباء کی مدد کرو.بتائی و مساکین اور بیوگان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ.“ تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 114-115 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن رس القرآن نمبر 75 93 وَقَالُوا لَنْ يَدخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا اَوْ نَصْرى تِلْكَ آمَانِتُهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُم صدِقِينَ (البقرة: 112) گزشتہ آیت میں بنی اسرائیل کے اسلام سے انکار اور مسلمانوں کے خلاف لمبی کوشش کے مقابلہ میں ہدایت دی تھی کہ تم صبر سے کام لیتے ہوئے ان سے معافی اور در گزر کرنے کا سلوک کرو اور ان کے مقابلہ کے لئے نماز با جماعت اور ادائیگی زکوۃ سے کام لو.آج کی آیت میں اہل کتاب کی ایک اور شرارت کا ذکر کر کے اس کی تردید فرمائی ہے ، فرماتا ہے: وہ کہتے ہیں کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا.سوائے ان کے جو یہودی ہوں یا عیسائی ہوں.یہود کا خیال تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی چنی ہوئی قوم ہیں اور اللہ کی رحمت کے تمام وعدے انہیں کے لئے ہیں اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت نے ان کی تمام گناہوں کی سزا سے بچنے کا سامان کر دیا ہے اس لئے یہ دونوں قومیں اس بات کی دعویدار تھیں کہ جنت میں صرف ہم ہی جاسکتے ہیں.یہود اور عیسائیوں کے اسی نظریہ کی مؤثر رنگ میں تردید کرنا اس لئے ضروری تھا کہ عام سادہ دل آدمی کے لئے یہ خیال بہت ہی دل لبھانے والا ہے کہ جنت میں جانے کا بہت آسان اور ستا ذریعہ بتایا جارہا ہے کہ نہ تمہیں اقامت صلوۃ کی پانچ دفعہ تکلیف اٹھانی پڑے گی، نہ مال کی ادائیگی کی پابندی کرنا ہو گی اور مفت جنت ملے گی.یہودیت میں تو صرف نام لکھانا ہو گا اور عیسائیت میں اپنے تمام گناہوں کا بوجھ مسیح کی صلیبی موت پر ڈال دینا ہو گا اور جنت کا دروازہ کھل جائے گا.اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں صرف دو فقروں میں اس جھوٹے تصور کا تانا بانا کاٹ کر رکھ دیا ہے فرماتا ہے تِلْكَ آمَانِتُهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُم صدِقِینَ یہ تو محض ان کی آرزوئیں ہیں، تمنائیں ہیں، خواہشیں ہیں، کیا جنت میں جانے جیسے عظیم الشان مقصد کے لئے صرف آرزو اور تمنا اور خواہش کافی ہے.کیا دنیا کے بڑے بڑے مقاصد میں کامیابی صرف تمنا کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے.کیا اس کے لئے صحیح تکنیک، صحیح عقیدہ، صحیح عمل کی ضرورت نہیں ہوتی.پھر جنت میں جانے کے لئے صرف نفس کی خواہش کس طرح کافی ہو سکتی ہے.پھر فرمایا اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ جنت میں یہود اور عیسائیوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا تو اس کے لئے جس میں یہ دعویٰ ہے تو سامنے لاؤ تمہاری خواہشات اور محض تمہارے بے دلیل دعوؤں سے تو تمہاری بات سچی نہیں ہو سکتی.
درس القرآن 94 درس القرآن نمبر 76 عَلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : 113) یهود و نصاریٰ کے اس دعویٰ کی قلعی کھولنے کے بعد کہ جنت میں کوئی داخل نہ ہو گا سوائے اس کے کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ہو اب اس آیت میں جنت میں داخل ہونے کے مستحق ہونے کا بنیادی اصول بہت خوبصورت الفاظ میں بیان فرماتا ہے جو حکمت اور دانائی اور معقولیت سے بھر پور ہے کہ جنت میں داخل ہونے کا تعلق نہ کسی نسل سے ہونے سے وابستہ ہے نہ کسی شخص کی اپنی قربانی کے بجائے کسی اور کی قربانی اور کسی اور کے صلیب پر مرنے سے ہے بلکہ اس کا تعلق دو باتوں سے ہے نمبر ایک مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ سے اور نمبر دو(2) وَهُوَ مُحْسِنُ سے.ان دونوں باتوں کی تشریح ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت بلند پایہ اور نہایت لطیف اور نہایت خوبصورت رنگ میں اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرمائی ہے اس کو ہم یہاں تفصیل سے تو درج نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ اس کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کی خوبصورتی کا مزہ اٹھائیں.مگر اس کی برکت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہم آپ کی عبارت کا کچھ حصہ یہاں درج کرتے ہیں.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ کی تشریح میں آپ فرماتے ہیں:.” ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسر اشر یک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادت تام سر پر اٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مر تبہ کو معلوم کرنے کیلئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کیلئے ایک قومی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں.66 (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 60)
درس القرآن 95 وَهُوَ مُحْسِن کی تشریح میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.”اس کے بندوں کی خدمت اور محمد ردی اور چارہ جوئی اور بار برداری اور کچی غم خواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے دوسروں کو آرام پہنچانے کیلئے دکھ اٹھاویں اور دوسروں کی راحت کیلئے اپنے پر رنج گوارا کرلیں.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 60) درس دینے والے احباب سے گزارش ہے کہ آئینہ کمالات اسلام کی اس عبارت کو حسب وقت دو تین دفعہ دہرا کر سامعین کو سمجھا دیں.بعض الفاظ کے معنے: رجاء: امید تذلل: عاجزی قوی مضبوط اوامر : احکامات نیستی: نہ ہونا ملکوت: بادشاہت بارادت تام: پوری مرضی کے ساتھ علومر تتنبہ : مرتبہ کی بلندی آلاء نعمتیں
درس القرآن 96 رس القرآن نمبر 77 وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرِى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصْرَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَتبَ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (البقرة:114) مسلمانوں کے مقابل پر یہود و نصاریٰ کے اس دعویٰ کا کہ جنت میں کوئی نہیں جائے گا جب تک کہ وہ یہودی یا عیسائی نہ ہو.پچھلی آیت میں نہایت ٹھوس اور لطیف جواب دے کر اس آیت میں الزامی رنگ میں بھی جواب دیا ہے کہ تم کہتے ہو کہ مسلمان چونکہ یہودی نہیں یا عیسائی نہیں اس لئے جنت میں نہیں جاسکتے مگر ان دونوں قوموں کا اپنا حال یہ ہے کہ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی کسی سچی بات پر قائم نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی کسی سچی بات پر قائم نہیں وَهُمْ يَتْلُونَ الكتب حالا نکہ وہ ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں.اس کے بعد ان کا مسلمانوں پر الزام لگانا کیا معنے رکھتا ہے كَذلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قُولِهم اس قسم کی بات تو ان کے قول کے مشابہہ ہے جو علم نہیں رکھتے جہالت اور نادانی سے بات کرتے فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ تو جس بات میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا اور اس آیت کے مضمون کا تعلق صرف گزشتہ دو آیتوں سے ہی نہیں ہے بلکہ اس سارے مضمون سے ہے جس میں بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں اور اسلام کے انکار اور رسول کریم صلی علیم کے انکار کے بیان سے تعلق ہے کہ خود بنی اسرائیل میں دو شاخیں ہو چکی ہیں جو ایک دوسرے سے ہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں، توحید کے بارہ میں، نجات کے بارہ میں، شریعت کے واجب العمل ہونے یا نہ ہونے کے بارہ میں، مسیح علیہ السلام کے سچے ہونے یا نہ ہونے کے بارہ میں شدید اختلاف رکھتے ہیں.پھر بنی اسرائیل کا یہ کہنا کہ نبوت کا سلسلہ ان سے کیوں چھین لیا گیا اور بنی اسماعیل کی طرف کیوں منتقل کیا گیا کیا حیثیت رکھتا ہے.ان کے اس باہمی اختلاف کا فیصلہ ان کی باہمی کوششوں سے ناممکن ہے اس کے لئے اگر ضرورت تھی تو ایک ایسے نبی کامل کی جو ان دونوں فریقوں سے تعلق نہ رکھتا ہو.حضرت مصلح
درس القرآن 97 موعود اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:.فرمایا یہ لوگ تمہیں تو غیر ناجی قرار دیتے ہیں لیکن خود ان کی یہ حالت ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ میں کوئی خوبی نہیں پائی جاتی اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود اپنے اندر کوئی نیکی اور روحانیت نہیں رکھتے حالانکہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 128 مطبوعہ ربوہ)
درس القرآن 98 درس القرآن نمبر 78 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَبِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَابِفِينَ لَهُمُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌّ وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة:115،116) ان آیات سے بنی اسرائیل کی دونوں شاخوں یہود اور نصاریٰ کی سرکشیوں اور نافرمانیوں اور اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے ایک اور پہلو کا بیان شروع ہو تا ہے اور یہ مضمون قبلہ کی تبدیلی اور باقی قبلوں کو چھوڑ کر بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کے مضمون تک پہنچتا ہے اور اس حصہ میں یہود کے علاوہ نصاریٰ کی سرگرمیوں کا اسلام کے خلاف خصوصی ذکر بھی ہے ، فرماتا ہے.اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مساجد سے روکے کہ اس میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کر کے.مراد یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیم کسی دنیوی مقصد کے لئے نہیں، کوئی دولت کمانے کے لئے نہیں، کوئی حکومت بنانے کے لئے نہیں، اسلام کی تعلیم کا ہر حکم خدا کے ذکر کے گرد گھومتا ہے اب اگر یہودو نصاری اسلام کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں تو گویا وہ اس مقصد کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اسلام کا اصل مقصد ہے کہ اللہ کی توحید دنیا میں قائم ہو اور اس کا ذکر ہر شخص کے دل و دماغ اور زبان پر ہو.ان لوگوں کا فرض تو یہ تھا کہ ایسی سازشیں کرنے کے بجائے جس سے معبدوں کے قیام میں روک ہو ان کو خود ان مساجد میں جو اسلامی تعلیم کے نتیجہ میں قائم کی جارہی ہیں خدا کی خشیت رکھتے ہوئے داخل ہوتے.مگر وہ یاد رکھیں کہ ان کی یہ کوششیں ناکام ہوں گی.دنیا میں مساجد کروڑوں کی تعداد میں قائم ہوں گی اور ان کو اپنی کوششوں میں ناکامی ہو گی اور ان کے لئے آخرت میں بھی بہت بڑی سزا ہے.دوسری آیت میں یہ اشارہ ہے یہودو نصاری ڈرتے ہیں کہ اسلام کے غلبہ سے ان کا قبلہ متروک ہو جائے گا اور لوگ ان کے قبلہ کی طرف رخ نہیں کریں گے اس بارہ میں فرمایا
درس القرآن 99 وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ کہ مشرق اور مغرب خدا کے ہیں، خدا کی تخلیق ہیں، وہی بتا سکتا ہے کہ اب کس طرف رخ کر کے عبادت کی جائے.عبادت تو خدا کی کرنی ہے نہ کہ ان کے خود ساختہ قبلوں کی.خدا کے حکم کے موافق أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ تم جدھر بھی رخ کرو گے خدا کا چہرہ ادھر ہی ہو گا.خدا کی توجہ اور اس کی رضا تمہاری پیشوائی کرے گی اور تمہاری عبادت قبول فرمائے گی.اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ یہ قبلہ کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی صفت واسع کا نتیجہ ہے کیونکہ تمہاری مساجد اور تمہارے قبلے صرف محدود قوموں اور محدود وقتوں کے لئے تھے.اسلام کے ذریعہ ایک عالمگیر ضابطہ حیات نازل کیا جا رہا ہے.خدا تعالیٰ کا لا محدود علم ایک ایسی کتاب اور ایک ایسا نبی صلی علیکم بھیج رہا ہے جو تمام قوموں، تمام علاقوں، تمام رنگوں، تمام نسلوں، تمام زمانوں کے لئے ہے.
100 درس القرآن
درس حدیث درس حدیث نمبر 1 101 ہمارے نبی صلی ا لم فرماتے ہیں: كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ دو باتیں ہیں جو زبان پر بہت آسان اور ہلکی ہیں ثَقِيلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ مگر خدا تعالیٰ کی طرف اجر اور بدلہ کے ترازو میں بہت بھاری ہیں حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ خدائے رحمان کو جو بغیر عمل اور محنت کے بڑھ چڑھ کر اجر دیتا ہے بہت پیارے ہیں اور وہ دو باتیں ہیں ایک سُبْحَنَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ الله تعالیٰ پاک ہیں ہر قسم کی برائی سے کمزوری سے گناہ سے اور صرف پاک ہی نہیں سب تعریف کا سب خوبیوں کا ہر طرح کے حسن و احسان کا مالک ہے اور یہ صرف چھوٹے درجہ پر نہیں بلکہ سُبْحْنَ اللہ العظیم اللہ ہر طرح کی کمزوری اور نقص سے پاک ہونے کے علاوہ ہر طرح کی بڑائی اور عظمت اور شان بھی اسی کے لئے ہے.( بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى ونضع الموازين القسط...7563) ان دو چھوٹے سے مگر بہت پیارے فقروں میں ہمارے رب کی ایسی تعریف ہے جو بڑی بڑی کتابوں میں بھی نہیں ہو گی.ہمارے رب کی کتاب قرآن شریف میں اور ہمارے نبی صلی الم کی باتوں میں جہاں اچھی طرح کھول کر پوری تفصیل میں ہمارے رب کی صفات اور پیارے نام بیان کئے گئے ہیں وہاں بڑے بڑے مضامین جو باریک اور لطیف مضمونوں کو بیان کرتے ہیں بہت ہی تھوڑے ہیں جن کو سمجھنا اور یاد رکھنا بہت آسان ہے بیان کئے گئے ہیں.ہمارا رب ہر قسم کے نقص سے پاک ہے کوئی کمزوری اس میں نہیں پائی جاتی، اس میں کوئی عیب نہیں، اس سے کوئی غلطی، کوئی نادانی، کوئی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا.دوسری طرف ہر خوبی جو ہو سکتی ہے اور ہر خوبصورتی جو انسان کی عقل میں آسکتی ہے ہمارے رب میں پائی جاتی ہے اور یہ سارے مضامین ان چھوٹے سے دو فقروں میں آجاتے ہیں.آئیے ہم ان دونوں فقروں کو زبانی یاد کر لیں اور ان کو دہراتے رہیں : سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ
درس حدیث 102 درس حدیث نمبر 2 ہمارے نبی صلی علی کرم فرماتے ہیں حضرت عمررؓ سے روایت ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنیات کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.یعنی انسان کے ارادہ، اس کی سوچ، اس کی نیت پر ہی اس کے کام کا انحصار ہے.انسان ظاہری شکل کے لحاظ سے اچھے سے اچھا کام کر رہا ہو مگر اس کی نیت خراب ہو اور وہ ظاہر اچھے کام کو کسی برے مقصد کے لئے کر رہا ہو نماز پڑھ رہا ہو مگر اس سے مقصد دکھاوا ہو صدقہ دے رہا ہو مگر اس سے شہرت مقصود ہو جہاد کر رہا ہو مگر اس سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتا ہو تو یہ سب نیک کام غارت جائیں گے اور خدا کے حضور نیکی کے بجائے بدی سمجھے جائیں گے.حضور صلی اللہ ﷺ نے فرمایا وَانَّمَا لِكُلِّ امْرِی مَا نَوی کہ ہر انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی یعنی جس قدر قوت اور سنجید گی اور توجہ کے ساتھ کوئی عمل کیا جائے گا اس کے مطابق اس کے نتائج دنیا اور آخرت میں ظاہر ہوں گے.الشرسة اس بنیادی مضمون کو بیان کرنے کے بعد حضور صلی علیم نے ایک مثال سے اس مضمون کو خوب واضح فرمایا ہے ، حضور فرماتے ہیں فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيْبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله الله (1) احباب جانتے ہیں کہ ہجرت کتنا مشکل کام ہے ایک انسان ہجرت کے وقت وہ جگہ چھوڑتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا یا جہاں وہ سالہا سال رہا وہ اپنا گھر بار چھوڑتا ہے، اپنا ماحول چھوڑتا ہے، بسا اوقات وہ جگہ چھوڑتا ہے جہاں اس کی زبان بولی جاتی ہے بعض دفعہ ہجرت کرتے ہوئے وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑتا ہے.ہجرت معمولی بات نہیں ہے اپنے پیارے وطن، اپنے ماحول، اپنا گھر ، اپنے دوست ، اپنے روز و شب جن سے وہ مانوس ہے اس کو یکدم چھوڑنے پڑتے ہیں ایسے مشکل کام کی مثال دیتے ہوئے حضور صلی الی مریم نے فرمایا کہ اگر ہجرت جیسا مشکل کام بھی خدا کی خاطر ، خدا کے دین کی خاطر نہ ہو بلکہ اپنی دنیوی اغراض کے لئے ہو کسی مالی فائدہ کے لئے ہو یا کسی عورت کے پیچھے اتنے بڑے مرحلہ سے انسان گزر رہا ہو تو ہجرت کی تکالیف اور
درس حدیث 103 شدائد کی برداشت تسلیم.مگر یہ ہجرت خدا اور اس کے دین کے لئے نہیں ہو گی بلکہ اس دنیا کے لئے ہو گی جو حاصل کرنے کے لئے اپنا وطن چھوڑا.اس عورت کے لئے ہو گی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی.کیونکہ اعمال کا تعلق ، اعمال کا سارا مدار نیت پر ہے ثواب کا تعلق صرف عمل کی ظاہری شکل سے نہیں بلکہ اس نیت اور ارادہ سے ہے جو عمل کرنے والے کے دل میں ہے.
درس حدیث 104 درس حدیث نمبر 3 رض حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ اس کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے لا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا حَتَّی اَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ پیارا اور محبوب نہ ہوں.(بخاری کتاب الایمان باب حبّ الرسول من الايمان (14) م اسی طرح حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا حَتَّی اَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ جب تک کہ اس کو زیادہ پیارا نہ ہوں مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ اس کے والد سے، اس کی اولاد سے اور دنیا بھر کے تمام انسانوں سے.(بخاری کتاب الایمان باب حبّ الرسول من الايمان (15) کہنے کو تو بہت سے لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.اپنے آپ کو سچا مومن قرار دیتے ہیں اور دوسروں پر جن سے ان کو ذرا بھی کسی بات میں اختلاف پید اہو کافر قرار دیتے ہیں اور دائرہ اسلام سے باہر نکال دیتے ہیں اور ایسے لوگ بعض دفعہ ظاہری طور پر نماز روزہ کا دکھاوا بھی کرتے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کا بڑے تکبر سے اظہار بھی کرتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی الم نے ان دو احادیث میں بھی جو شرط سچے مسلمان کے لئے لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کے بعد رسول اکرم صلی الی ٹیم کی محبت سے بھرا ہوا ہو.بے شک وہ اپنے ماں باپ سے محبت کرے، بے شک اپنے بچوں سے پیار کرے، بے شک اپنی بیوی سے شفقت اور رحمت سے پیش آئے ، لیکن اگر ایک شخص کے دل میں اپنے عزیزوں سے ، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے جگر کے ٹکڑوں سے اس سے زیادہ محبت ہے جو اس کے دل میں نبی صلی علیم کے لئے ہے تو وہ سچا مومن نہیں.سچا مومن وہی ہو سکتا ہے جس کے سینہ میں دنیا کے ہر رشتہ سے، ہر عزیز سے زیادہ رسول پاک صلی ملی یکم سے محبت اور عشق ہو اور یہ حقیقی محبت ہو نہ کہ محض محبت کا دعویٰ ہو الله سة
درس حدیث 105 اور نعرے لگانے کے ذریعہ اس کا اظہار ہو اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص اپنے ماں باپ کی بات تو مانتا ہے مگر نبی کریم صلی علیم کی بات پر عمل نہیں کرتا اگر وہ بچوں سے پیار کرتا ہے اور ان کے پیار کی وجہ سے ان کی باتیں مانتا ہے مگر رسول اکرم صلی ا لی ایم کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا تو اس کا محبت رسول صلی الم کا دعویٰ محض دھو کہ ہے.اس زمانہ میں حضور صلی علیم سے محبت اور پیار اور آپ کی اطاعت اور آپ کے احکامات کی تعمیل کا سب سے بڑھ کر نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا ہے اور جس کا اظہار آپ نے اپنے اس شعر میں فرمایا ہے کہ بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم (ازالہ اوہام حصہ اوّل روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 185) کہ خدا کے بعد میں محمد صلی ال نیم کے عشق سے مخمور ہوں اور اگر یہ کفر ہے تو میں خدا کی قسم سخت کافر ہوں.
درس حدیث درس حدیث نمبر 4 106 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایاثَلَاثُ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةً الْإِيْمَانِ کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں وہ ایمان کی شیرینی کو محسوس کرتا ہے.ان باتوں میں پہلی بات حضور نبی صلی الہ ہم نے یہ فرمائی ہے من كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهَا کہ اللہ اور اس کار سول ان دونوں کے سواہر ر شخص سے، ہر چیز سے زیادہ پیارے اور محبوب ہوں.( بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان 16) اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کا تعلق صرف ظاہری اقرار سے نہیں صرف ظاہری اعمال سے نہیں بلکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کے جذبات سے ہے.اگر کوئی شخص زبان سے تو مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے ظاہری شکل کے لحاظ سے اسلام کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے مگر اس کے دل میں اللہ اور رسول صلی علیکم کی محبت نہیں.اس کو اپنے بیوی بچوں سے زیادہ محبت ہے، روپیہ پیسہ سے زیادہ محبت ہے، مال اور جائیداد سے زیادہ محبت ہے ، اپنے آپ سے زیادہ محبت ہے تو وہ بے شک قانونی طور پر مسلمان ہی سمجھا جائے گا.ظاہر ی لحاظ سے اس کا شمار مسلمانوں میں سے ہی ہو گا مگر ابھی اس کو ایمان کا مزہ نہیں آیا.سچا مومن دنیا کی ہر چیز سے ، ہر شخص سے زیادہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے.اللہ کے بعد وہ رسول اکرم رسول اللہ صلی الم سے محبت کرتا ہے وہ سچا مومن ہے اور اس نے ایمان کا سچا مزہ پالیا ہے.اس کے لئے ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا حُبَّكَ اے اللہ ہمیں اپنی محبت اس طرح عطا فرما جس طرح کسی کو رزق دیا جاتا ہے وَحُبّ مَنْ احبك اور ہمیں اس کی محبت عطا فرما جو تجھ سے محبت کرتا ہے وَحُبّ مَا يُقَرِّبُنَا إِلَى حُبِكَ اور ان کاموں کی ان باتوں، ان چیزوں کی محبت عطا فرما جو ہمیں تیرے قریب کر دیں اللهم اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اور اپنی محبت ہمیں ٹھنڈے خوشگوار پانی سے زیادہ محبوب بنا دے.( دروس للشيخ ابى اسحاق الحويني الدفاع عن السنتہ باب حاجتنا الى العلماء العاملين جز 144 صفحه 18 مأخوذاز مكتبة الشاملة) ا
درس حدیث 107 درس حدیث نمبر 5 ہمارے نبی صلی الله علم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہ کہ تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھتے اور خود سیکھ کر پھر لوگوں کو سکھاتے ہیں.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن وعلمه 5027) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہم احمدیوں پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ آپ کی آمد سے پہلے بہت سے مسلمان جو علم دین حاصل کرتے ان کی ساری توجہ نحو، صرف اور فقہ اور منطق و فلسفہ پڑھنے پڑھانے کی طرف ہوتی تھی اور مسلمانوں کے مدر سے اور مکتب نوجوان طلبہ کے سالہا سال ان مضمون کو پڑھانے میں ضائع کر دیتے تھے پھر به مشکل حدیث کی باری آتی تھی اور حدیث کے پڑھنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت اور رسول کریم صلی یکم کا پیار اور آپ کے اخلاق اور جمال کے بجائے ایسے مسائل پر بحث ہوتی تھی جن کا تعلق فقہ سے تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم احمدیوں کو قرآن سے دوبارہ تعارف کر ایا اور اس کی ایسی تفسیر بیان کی جس نے احمدیوں کے دلوں میں قرآن کی محبت پیدا کی اور ثابت کیا کہ قرآن ہی ایسی کتاب ہے جو ایک انسان کی اصلاح کر سکتا ہے، اس کو پاک کر سکتا ہے، بلکہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کر سکتا ہے اور تمام دنیا کی راہنمائی کر سکتا ہے.آپ نے ہمیں یاد کرایا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور وہ آخری کتاب ہے جو سب نبیوں کے سردار حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ملی لی کم پر نازل ہوئی اور وہ انسانی زندگی کے تمام مسائل میں دنیا کی راہنمائی کر سکتا ہے.آپ نے بتایا کہ مسلمانوں کو ساری دنیا میں شکست ہو رہی ہے.آپ نے فرمایا: تب ادبار آیا کہ جب تعلیم قرآں کو بھلا یا مسیحا کو فلک پر ہے بٹھا یا مسلما نو سول حق کو مٹی میں سلا یا
108 یہ تو ہیں کر کے پھل ویسا ہی پایا اہانت نے انہیں کیا کیا دکھایا خدا نے پھر تمہیں اب ہے بلایا کہ سوچو عزّت خیر البرا یا ہمیں یہ رہ خدا نے خود دکھا دی فَسُبْحْنَ الَّذِي أَخْزَى الْآعَادِي در ثمین صفحه 66 زیر عنوان "بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین)
درس حدیث 109 درس حدیث نمبر 6 حضرت ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے نبی صلی ﷺ سے عرض کیا: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ ( بخاری کتاب الایمان باب أى الاسلام أفضل؟ (11) یا رسول اللہ صلی ل کی سب سے افضل اسلام کیا ہے آپ مصلی یم نے فرمایا سب سے افضل اسلام اس شخص کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں.اس حدیث میں ایک بہت ضروری اور اہم سبق دیا گیا ہے جس کو لوگ بھولے بیٹھے ہیں ہمارے دین کے دو ہی حصے ہیں ایک یہ کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کا جو حق ہمارے پر ہے وہ ادا کیا جائے اور دوسرے اللہ کی مخلوق سے ہمدردی اور خدمت کا سلوک کیا جائے.دین کی ساری باتیں ان ہی دو باتوں کے گرد گھومتی ہیں.اور اللہ کے دین کا اصل اور ضروری مقصد بھی یہی ہے باقی سب تفاصیل ہیں.اصل کام، بنیادی کام ضروری کام یہ ہے کہ انسان خدا کی عبادت کرے اور اس کے بندوں کی ہمدردی اور خدمت کی کوشش کرے، ان کو اپنی زبان سے یا اپنے ہاتھ سے کسی طرح کی تکلیف نہ دے.بعض لوگ لمبی چوڑی نمازیں پڑھتے ہیں، وظیفے ، ریاضتیں کرتے ہیں.مگر اپنے بھائی، بہنوں کو تکلیف دیتے ہیں.ہمارے نبی صلی علیم کے سامنے دو عورتوں کا ذکر کیا گیا ایک تو وہ جو نمازوں میں، روزے رکھنے میں بہت آگے تھی.مگر اپنے ہمسایوں کو تکلیف دیتی ہے دوسری عورت وہ جو نماز، روزہ تو فرض کے طور پر ادا کرتی ہے مگر ہمسایوں اور غریبوں کی خدمت کرتی ہے ، پنیر بناکر ، ٹکڑے کاٹ کر لو گوں کو دیتی ہے.آپ نے پہلی کے متعلق فرمایا: ” وہ آگ میں ہے اور دوسری کی متعلق فرمایا وہ جنت میں ہے.“ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی ہریرۃ جلد 3 صفحہ 556 حدیث 9673 عالم الكتب بيروت :1998ء) اگر چہ ہمارے نبی صلی علیم نے تمام انسانوں پر رحم اور شفقت کرنے کا حکم دیا ہے مگر
درس حدیث 110 اس حدیث میں خاص طور پر ذکر ہے کہ اچھا مسلمان دوسرے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ اور زبان سے دکھ نہیں دیتا کیونکہ ایک مسلمان کو جو مسلمانوں کے محلہ میں رہتا ہے روز مرہ زیادہ واسطہ مسلمانوں سے پڑتا ہے مگر جس طرح ہمارا اللہ تمام جہانوں کا رب ہے جس طرح ہمارے نبی صلی ای کم تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں اسی طرح ایک مسلمان بھی دنیا کے تمام لوگوں کی ہمد ردی اور غمخواری کرتا ہے.
درس حدیث رس ސލ ریٹ نمبر 7 ہمارے پیارے نبی صلی تعلیم کے صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: سَأَلْتُ النَّبِي يا الله أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ ؟ کہ میں نے نبی صلی علیم سے پوچھا اللہ کو سب سے پیارا کام کیا ہے قَالَ الصَّلوةُ عَلَى وَقْتِهَا آپ نے فرمایا وقت پر نماز ادا کرنا.(بخاری کتاب مواقيت الصلوۃ باب فضل الصلوة لوقتها (527) جیسا کہ پہلے ایک دن درس میں ذکر کیا گیا تھا کہ ہمارے دین کے دو بڑے حصے ہیں ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کا حق جو ہم پر ہے ادا کرنا.دوسرے اللہ کی مخلوق سے ہمدردی کرنا، شفقت اور بندوں کے حقوق ادا کرنا.آج کی حدیث میں اللہ کی عبادت اور اللہ کے حقوق ادا کرنے کے سلسلہ میں سب سے ان پر ضروری عبادت اور سب سے اہم عبادت جو 7 سال سے زیادہ عمر والے ہر مسلمان کے لئے دن میں پانچ دفعہ پڑھنا خدا کا حکم ہے اور جس پر عمل کرنا مسلمان ہونے کے لئے لازمی ہے ، وہ نماز ہے.جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے تمام کام، اپنی تمام تفریحیں، اپنی تمام باتیں اور دلچسپیاں چھوڑ کر اپنے رب کو یاد کرے جس نے اس کو پیدا کیا اس پر طرح طرح کے احسان کئے اور جس کے پاس اس نے مرنے کے بعد حاضر ہونا ہے اور اس کو اپنے کاموں کا حساب دینا ہے.کہنے والے نے کہا ہے کہ قیامت کے دن جب خدا کے حضور پیش ہو گا اور انسان خدا کے ڈر سے کانپ رہا ہو گا، سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا وہ نماز ہے اگر اس امتحان میں پورا اتر آیا تو پھر بعد کی باتیں آسان ہوں گی.( ترمذی کتاب الصلوۃ باب ان اوّل ما يحاسب به العبد يوم القيامة الصلوة 413) بعض لوگ نماز کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ کے ذکر اور اس سے مانگنے کے علاوہ اگر دنیوی طور پر بھی دیکھا جائے تو نماز ایک بوجھ نہیں بلکہ لوگوں سے محبت سے ملنے ، ان کی ہمدردی کرنے ، ان کو فائدہ دینے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا بہترین ذریعہ ہے.صفائی اختیار کرنے اور پریشانیوں کو دور کرنے اور طبیعت میں خوشی پیدا کرنے کا سبب ہے.ایک انسان دنیا
درس حدیث 112 کے کاموں سے تھک کر اور پریشانیوں سے تنگ آکر وضو کرتا ہے، وضو کا پانی اپنے منہ پر ، اپنے ہاتھوں پر ، اپنے پاؤں پر ڈالتا ہے پھر چلتا ہوا اللہ کے گھر میں جاتا ہے اپنے مومن بھائیوں سے ملاقات ہوتی ہے اور اپنے رب کے حضور سر جھکاتا ہے اور اپنی پریشانیوں کے دور ہونے کے لئے دعا کرتا ہے اور تازہ دم ہو کر واپس دنیا کے کاموں کی طرف لوٹ جاتا ہے.ہمارے میں ملا ایم کو ذرا بھی غم ہو تا تو آپ نماز کے لئے کھڑا ہو جاتے تھے.
به ر درس حدیث نمبر 8 113 اگر ہمیں ہمارے حضرت صاحب کی خدمت کا تھوڑا سا موقعہ بھی ملے تو ہمیں کتنی خوشی ہو گی اور ہم اپنے آپ کو کتنا خوش قسمت محسوس کریں گے.شاید خوشی اور مسرت سے ہمیں نیند نہ آئے اور ہم اپنے بیوی بچوں سے ، دوستوں سے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کریں کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں، کتنا ہم پر اللہ کا فضل ہوا ہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم یہ خدمت بجالائیں.ہمارے نبی صلی الہ یکم کا ایک خادم تھا اس کا نام مدعم تھا وہ ایک غزوہ کے موقعہ حضور صلی علیم کی سواری سے پالان وغیرہ اتار رہا تھا کہ ایک تیر آیا، دور سے آیا، کس نے مارا بتہ نہیں لگا، ہو سکتا ہے کسی نے حضور صلی الظلم کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہو یا آپ کی سواری کو ختم کرنا اس کا مقصد ہو بہر حال مدعم اس تیر کا نشانہ بن کر موت کے گھاٹ اتر گیا.صحابہ نے کہا واہ کیا ہی خوش قسمت ہے یہ نوجوان، جہاد کا موقعہ ہے، یہ نوجوان حضور کی سواری پر کام کر رہا ہے.حضور صلی اللی کم کی خدمت میں مصروف ہے، صحابہ نے خیال کیا کہ یہ نوجوان تو سیدھا جنت میں گیا ہو گا.مگر آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا اس نوجوان نے بغیر اجازت کے غنیمت کے مال سے ایک چادر یا عباء لی تھی وہ چادر اس پر آگ بھڑ کار ہی ہے.(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر 4234) اس حدیث میں مالی بد دیانتی خصوصاً قومی اموال میں خیانت کے خلاف ہم سب کے لئے سبق ہے اور آج کی دنیا میں خصوصاً ہمارے تیسری دنیا کے ممالک قومی اموال کے معاملہ میں بد دیانتی میں قابل فکر حد تک بڑھ چکے ہیں.حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ خیبر سے واپس آرہے تھے اور وادی القریٰ کی طرف جارہے تھے اور آپ کا خادم مدعہ آپ کی سواری سے کجاوہ اتار رہا تھا کہ ایک تیر اس کو آکر لگا.لوگوں نے کہا اس کو شہادت مبارک ہو تو رسول اللہ صلی ا یم نے فرمایا اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمتوں کے اموال سے جو ابھی تقسیم نہیں ہوئے تھے لے لی تھی اس کے اوپر آگ بھڑ کار ہی ہے.ایک شخص نے جب نبی صلی اللہ ہم سے بات سنی تو وہ ایک یادو (جوتی کے) تسمے لے کر آیا اور اس نے کہا یہ چیزیں میں نے لے لی تھیں آپ نے فرمایا آگ کا ایک تسمہ یا دو تھے.(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر 4234)
درس حدیث درس حدیث نمبر و ย 114 ہمارے دین اسلام کی تعلیم انسان کی زندگی کی تمام شاخوں پر پھیلی ہوئی ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کی راہنمائی کرتی ہے.ہمارا دین کچھ باتیں مانے کا حکم دیتا ہے اور کچھ کام کرنے کا حکم دیتا ہے.ان تمام باتوں کو جاننا ہمارے لئے ضروری ہے حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ كَانَ النَّبِ له تارا يَوْمًا لِلنَّاسِ کہ نبی صلی الیکم ایک دن لوگوں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ تو ایک شخص آپ کے پاس آیا فَقَالَ مَا الْإِيْمَانُ اس نے پوچھا ایمان کیا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا الْإِيْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَ بِلِقَائِهِ وَ رُسُلِهِ وَ تُؤْمِنَ بالبعث کہ ایمان اس بات کا نام ہے کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ، اس کے فرشتوں پر ایمان لاؤ، اس سے ملاقات پر ایمان لاؤ، اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مر کر دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لاؤ.( بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبريل النبي صلى.......50) تو یہ وہ باتیں جو ایمان کی بنیاد ہیں جو شخص مومن ہونا چاہتا ہے اس کو ماننا ہو گا کہ ایک اللہ ہے جو ہم سب کا خالق و مالک ہے اس کے فرشتوں پر ایمان لاؤ جو جسمانی اور روحانی دنیا کا نظام چلاتے ہیں اور اللہ کے سامنے ایک دن جانا ہو گا اور اس سے ملاقات ہو گی اور اس کے رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے بھیجے جاتے اور انسانوں کی راہنمائی کرتے ہیں اور مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا.یہ تو وہ باتیں ہیں جن کا ماننا ضروری ہے اور کچھ باتیں ہیں جن کا کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا بَنِي الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْس کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کے قابل نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں واقام الصلوۃ اور نماز قائم کرنا ایتاء الزکوۃ اور زکوۃ دینا والحَج اور اللہ کے گھر کا حج کر نا وَصَوْمِ رَمَضَانَ اور رمضان کے روزے رکھنا.( بخاری کتاب الایمان باب دعاؤ کم ایمانکم 8) اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی باتوں کو ماننے اور اسلام کی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
درس حدیث ސލ نمبر 10 115 ہمارے نبی صلی الم نے ایک لڑکے کو جو آپ کے گھر میں رہتا تھا اور آپ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ارشاد فرمایا يَا غُلَامُ سَةِ اللهَ وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيْكَ کہ اے لڑکے ! اللہ کا نام لو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ.( بخاری کتاب الأطعمة باب التسمية على الطعام والأكل باليمين 5376) ہمارے نبی صلی ا م ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو نہ صرف یہ کہ اللہ پر سچا ایمان نہ رکھتی تھی اور خدا کا نام تو لیتی تھی مگر بچے خدا سے غافل تھی بلکہ عام اچھے اخلاق جو مذہب کے نہ ماننے والوں میں بھی پائے جاتے ہیں سے محروم تھی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اٹھنے، بیٹھنے، چلنے ، پھرنے، کھانے، پینے، سونے، جاگنے کے آداب بھی ان میں نہیں پائے جاتے تھے.ہمارے نبی صلی ا ہم اس قوم کو نہ صرف روزمرہ کی زندگی کے آداب سکھائے بلکہ ان کو اچھے اخلاق کا سبق بھی دیا.صبر ، شفقت، شجاعت، تعلیم ، حلم، ماں باپ کی خدمت اور اطاعت اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک، غرض تمام قسم کے اخلاق کی تعلیم دی اور اس کے اوپر ان کے دلوں میں اپنے خالق و مالک رب کے ساتھ پیار کرنا سکھایا.یہ حدیث جو ہم نے آج پڑھی ہے اس میں حضور نے کھانے کے تین ابتدائی آداب سکھائے ہیں.کھانا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اور بہت بڑی نعمت ہے اس لئے کھانا اللہ کے نام سے شروع کرنا چاہئے.اللہ کے فضل کے بغیر وہی کھانا جو بظاہر ایک نعمت ہے تکلیف اور بیماری کا باعث بھی ہو سکتا ہے.دوسری بات جو آپ نے فرمائی یہ ہے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے کیونکہ عام طور پر انسان ایسے کام جس سے ہاتھ گندہ ہو بائیں ہاتھ سے کرتا ہے اور ایسے کام جو صاف ہوں دائیں ہاتھ سے کرتا ہے اس لئے فرمایا کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے.تیسری بات جو آپ نے فرمائی کہ کھانا اپنے سامنے سے کھانا چاہئے اس طرح کھانا کھانا جس سے پلیٹ یا بر تن میں گندیا بے ترتیبی پیدا ہو درست نہیں، بلکہ بد تمیزی ہے.دیکھنے والے کو بھی کراہت آتی ہے اور ساتھ کھانے والے کو بھی تکلیف ہوتی ہے.پس ہمارے نبی صلی علی کریم کا ارشاد ہے کہ اللہ کے نام سے کھانا شروع کرو.دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور تمیز کے ساتھ اپنے سامنے سے کھاؤ.
درس حدیث 116 درس حدیث نمبر 11 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ الله أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ قَالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَ تَقْرَءُ السَّلَامَ عَلى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفُ (بخاری کتاب الایمان باب افشاء السلام من الاسلام 28) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی علیم سے پوچھا أَى الْإِسْلَامِ خَيْرٌ کہ اچھا اسلام کون سا ہے ؟ قَالَ آپ نے فرمایا تُطْعِمُ الطَّعَام کہ تم کھانا کھلاؤ، وَ تَقْرَءُ السّلام اور سلام کہو ، عَلَى مَنْ عَرَفْتَ اس کو بھی جن سے تمہاری واقفیت ہے وَمَنْ لَمْ تَعْرِفُ اور اس کو بھی جس سے تمہاری واقفیت نہیں ہے.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی الی یکم نے بڑے پیارے انداز میں اسلام کی پیاری بیان فرمائی ہے.اسلام کی تعلیم کے بہترین حصہ میں سے ایک بات یہ ہے کہ جو شخص طاقت رکھتا ہے وہ ایسے لوگوں کا پیٹ بھرے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے یا کم ہے.آج کی دنیا میں بھی جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ دنیا سمجھتی ہے کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو رات کو ناکافی غذا کھا کر سوتے ہیں.دوسری طرف کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے وکتوں کو انسانوں سے اچھی غذا ملتی ہے.اگر یہ مال و دولت رکھنے والے لوگ ان کو دیں جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں رکھتے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.دوسرا مسئلہ آج کی دنیا میں بدامنی کا ہے لوگوں کی جان خطرہ میں ہے.لوگ اپنے عقیدہ اور اپنی پہچان کے لوگوں کی سلامتی کا تو خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جو تعلیم ہمارے نبی صلی علیم نے اس حدیث میں دی ہے وہ تو یہ ہدایت دیتی ہے کہ ہر شخص کو خواہ تم اس کو جانتے ہو یا نہ جانتے ہو ، سلامتی کی ضمانت دو اور سلام کہہ کر اس کو یہ تسلی دو کہ تمہاری طرف سے اس کو کوئی خطرہ نہیں.تمہاری طرف سے اس کی جان بھی محفوظ ہے، اس کا مال بھی محفوظ ہے، اس کی عزت بھی محفوظ ہے، اگر آج کی دنیا ہمارے نبی صلی ایم کے ان دو ارشادات کی طرف توجہ کرے تو دنیا کی حالت بدل سکتی ہے.
درس حدیث ސލ نمبر 12 117 ہمارے نبی صلی ال کی اپنی امت کے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اغسلوا ثِيَابَكُمْ وَخُذُوا مِنْ شَعْرِكُمْ وَاسْتَاكُوْا وَتَزَيَّنُوا وَتُنَظِفُوْا ( تاریخ دمشق الکبير لابن عساکر باب ذكر من اسمه عبدالرحیم جلد 19 جزء 38 صفحہ 84 دار الاحیاء التراث العربی بیروت 2001ء) الله سة اس حدیث میں ہمارے نبی صلی علی کرم نے مسلمانوں کو لباس اور بدن کی صفائی کی بہت زور سے تاکید فرمائی ہے.اسلام سے پہلے بعض مذاہب کے لوگوں میں یہ خیال پید اہو گیا کہ گندے رہنا، صاف ستھرے کپڑے نہ پہنا، ناخن بڑھانا اور سر کے بالوں میں جوئیں پالنا کوئی بہت بڑی نیکی کا کام ہے.اسلام نے ان خیالات کی بڑے زور سے تردید کی.قرآن شریف نے روحانی صفائی اور ظاہری صفائی کا اکٹھا ذکر کیا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ( البقرة:223) کہ اللہ ان سے بھی پیار کرتا ہے جو تو بہ کرتے ہیں اور ان سے بھی پیار کرتا ہے جو صفائی اختیار کرتے ہیں.یہ حدیث جو آج ہم نے پڑھی ہے اس میں حضور صلی ا لم فرماتے ہیں اِغْسِلُوا ثِيَابَكُمْ اپنے کپڑے دھو لیا کرو، وَخُذُوا شَعْرَكُمْ اور حجامت بنواؤ داستا گوا اور مسواک کیا کرو وتزينوا اور زینت کا خیال رکھو دَ تُنظفوا اور صاف ستھرے رہا کرو.دانتوں کی صفائی کے متعلق ہمارے نبی صلی ا یکم نے فرمایا کہ اگر میں اپنی امت پر زیادہ بوجھ نہ ڈال دیتا تو حکم دیتا کہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کیا کرو.ایک دفعہ حضور صلی لی نام نے صفائی کا حکم دیتے ہوئے اپنے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ تم اپنے گھروں کے صحن بھی صاف کیا کرو اور صفائی کی اتنی تاکید فرمائی کہ یہ بھی کہا کہ یہودی مرد چونکہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے اس لئے ان کی عورتوں میں (نعوذ باللہ ) کنچنی بننے کا گناہ پید اہو گیا.الله سة
درس حدیث 118 ސލ نمبر 13 ہمارے نبی صلی الی یوم نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ انسان اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرے.رشتہ داروں میں نیک سلوک کرنے کے سلسلہ میں سب سے پہلا نام ماں باپ کا آتا ہے.قرآن شریف نے ماں باپ کی اطاعت اور ان سے نیک سلوک کی بہت تاکید کی ہے اور ہمارے نبی صلی علیم سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے پوچھا آئی الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى الله ؟ کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا کام کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا الصَّلُوةُ عَلَى وَقْتِهَا کہ نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کو سب سے زیادہ پیارا عمل ہے.حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا بر الوالِدَيْنِ کہ ماں باپ سے نیک سلوک کرنا.(بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب فضل الصلوة لوقتها 527) اس حدیث میں دو حقوق کا ذکر کیا ہے اسلام کی تعلیم ان دو حقوق کے گرد گھومتی ہے ایک اللہ کا حق اور دوسرے بندوں کا حق.اللہ کے حق ادا کرنے کے لئے سب سے اہم ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی ہے ، ان کی اطاعت ہے، ان کی خدمت ہے ، ان سے نیک سلوک ہے، خصوص ماں کی خدمت اور اس کی فرمانبرداری کی ہمارے نبی صلی ا یم نے بہت تاکید فرمائی ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا الْجَنَّةُ تَحْتَ اَقْدَامِ الأُمَّهَاتِ کہ جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے.(کنز العمال كتاب النكاح الباب الثامن في بر الوالدین الالم جزء 6 1 صفحہ 192 حدیث 45431) یعنی اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ جنت میں جائے تو اس کو چاہیئے کہ ماں کی خدمت اور اطاعت اور حسن سلوک کے ذریعہ اپنا راستہ جنت میں بنائے.
درس حدیث 119 رس حدیث نمبر 14 حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الم نے فرمایا مَنْ أَحَبَّ ان يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ( بخاری کتاب الأدب باب من بسط له فى الرزق بصلة الرحم5986) کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جو اس کو رزق مل رہا ہے اس میں فراخی ہو اس کو رزق زیادہ ملے اور جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اس کی عمر میں لمبی ہو، اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے، نیک سلوک کرے.ہمارے نبی صلی علیم نے اس حدیث میں ایک ایسی نیکی کی جو ہر شریف آدمی کا فرض ہے اور وہ لوگ بھی جو مذہب کو نہیں مانتے اس بات کو نیکی ہی سمجھتے ہیں کہ رشتہ داروں سے نیک سلوک کیا جائے.اس نیکی کے دو ایسے پھل بتائے ہیں جو اکثر لوگوں کی اس دنیا میں خواہش ہوتی ہے، اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو رزق زیادہ ملے ، اکثر لوگ یہ خواہش کرتے ہیں کہ ان کی عمر زیادہ ہو، تھوڑے لوگ ہوں گے جو زیادہ مال نہ چاہتے ہوں، جن کو لمبی عمر کی خواہش نہ ہو، تو ہمارے نبی صلی علیم نے ایک اچھی نیکی کی ، جس کے کرنے میں انسان کو زیادہ مشکل اور محنت اور مصیبت بھی نہیں اٹھانی پڑتی دو ایسے بڑے فائدے بتائے ہیں جو اسی دنیا میں ہی انسان کو حاصل ہو جاتے ہیں اور اگلے جہان میں جاکر اس کے فائدے اور بھی ہیں.انسان طبعاً یہ چاہتا ہے کہ اس کے ملک میں، اس کے علاقے میں، اس کے ماحول میں امن اور آرام اور آسائش ہو ، فساد نہ ہو، گڑ بڑ نہ ہو اور ظاہر ہے ملک اور علاقہ بنتا ہے انسانوں کے گھر سے ، کنبہ سے، خاندان سے.اگر کنبہ و خاندان میں امن و امان ہو ، فساد اور تکلیف نہ ہو تو ملک اور علاقہ میں بھی فساد اور گڑ بڑ نہیں ہوگی اور انسان کو اچھا ماحول ملے گا اور اس کے مال میں بھی برکت ہو گی اور عمر میں بھی برکت پڑے گی.
درس حدیث 120 درس حدیث نمبر 15 ہمارے نبی صلی علم فرماتے ہیں اَلتَّائِبُ مِنَ الذُّنْبِ كَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهُ که جس شخص سے کوئی گناہ ہو گیا ہو، پھر وہ اس سے تو بہ کرتا ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا.(سنن ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذكر التوبة 4250 ہمارے نبی صلی اللہ نام کا یہ ارشاد گناہ گار لوگوں کے دل میں ایک نئی زندگی پیدا کرنے والا ہے.انسان کمزور ہے اور گناہ اس سے ہو جاتے ہیں.لیکن یہ خدا کا فضل ہے اور اس کا بہت احسان ہے کہ اس نے انسان کو مایوس نہیں ہونے دیا.انسان مایوس ہو کر نا امید ہو کر بعض دفعہ گناہوں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے.ہماری کتاب قرآن شریف کی یہ خوبی ہے کہ وہ بار بار اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم کہتی ہے اور انسان کو یہ حوصلہ دلاتی ہے کہ بے شک تم نے گناہ کیا، تم نے غلطی کی لیکن خدا تعالیٰ کی بخشش تمہاری غلطیوں سے زیادہ ہے.شرط یہ ہے کہ تم سچے دل سے اپنے گناہ پر شر مندہ ہو ، نادم ہو اور آئندہ اس سے بچنے کا سچے دل سے عہد کرو اور سچے دل سے یہ اقرار کرو کہ تم آئندہ یہ گناہ نہیں کروگے اور اگر وہ کوئی ایسا گناہ ہے جس کے نقصان کی تلافی کی جاسکتی ہے مثلاً کسی کا مال کھایا ہے تو تم کوشش کرو کہ اس کے مال کا نقصان پورا کر و.اگر تم نے کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے اگر مناسب ہو تو معذرت کرو، معافی مانگو.بہر حال سچی توبہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس غلط راستہ پر کوئی چل رہا ہے اس کو چھوڑ کر واپس آجائے اور اس رستہ کے دوسری طرف چل پڑے.ہمارے نبی صلی اللہ ہم نے سچی توبہ کی اہمیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے گناہ گار بندہ کی تو بہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس طرح وہ بندہ خوش ہوتا ہے جو کسی صحراء میں، کسی ویرانہ میں، اپنی اونٹنی پر جارہاہو، جہاں نہ کوئی آدمی ہے ، نہ آدم زاد، جہاں نہ کھانا ہے نہ پانی اور وہ اونٹنی سوار سفر کرتا ہوا تھک کر کسی جگہ لیٹ جائے اور اس کی آنکھ لگ جائے اور جب اس کی آنکھ کھلے تو وہ دیکھے کہ اس کی اونٹنی غائب ہے اور اس اونٹنی پر اس کا کھانا بھی ہے اور پانی بھی اور سامان بھی.وہ اونٹنی کو چاروں طرف تلاش کرے
121 مگر نہ پائے اور پانی اور کھانے سے محروم ہو کر وہ اپنی جگہ آکر لیٹ جائے اور سمجھے کہ اب موت کے سوا اس کے لئے کچھ نہیں، اتنے میں سو جائے.جب اس کی آنکھ کھلے تو وہ دیکھے کہ اس کی اونٹنی اس کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مسافر اپنی خوشی میں بے ساختہ یہ کہہ بیٹھے کہ اے اللہ ! تیر اشکر ہے تو میر ا بندہ ہے اور میں تیر ارب ہوں.اس کا خوشی کی وجہ سے بد حواسی کا یہ حال ہو تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندہ کی تو بہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہو تا ہے جتنا یہ مسافر.(مسلم کتاب التوبة باب فى الحض على التوبة والفرح بها 6960/6955)
درس حدیث 122 رس حدیث نمبر 16 حضرت سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی الم نے فرمایا: لا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَّوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَ يَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ يُصَلِّى مَا كُتِبَ لَهُ ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى (بخاری کتاب الجمعة باب الدهن للجمعة 833) کہ جو شخص جمعہ کے دن نہاتا ہے اور جتنی صفائی وہ کر سکتا ہے، کرتا ہے اور (بالوں) کے لئے چکنائی استعمال کرتا ہے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو وہ لگاتا ہے پھر جمعہ کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور جمعہ میں دو آدمی جو اکٹھے بیٹھے ہیں ان کو الگ الگ کر کے اپنے لئے جگہ نہیں بناتا اور پھر جتنی اس کی قسمت میں ہو نماز پڑھتا ہے اور پھر جب امام خطبہ دے رہا ہو تو مکمل خاموشی اختیار کرتا ہے تو اس جمعہ سے اگلے جمعہ تک کے درمیان اس کی مغفرت ہو جاتی ہے.قرآن شریف نے جمعہ میں حاضری پر بہت زور دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ جمعہ کے دن جب اذان کا وقت ہو تو تجارت وغیرہ سب کام چھوڑ کر جلد از جلد جمعہ کے لئے خدا کے گھر جانا چاہیئے اور پھر جب جمعہ کی نماز ہو جائے تو پھر اپنا کام کر سکتے ہو.(الجمعۃ:10-11) جو حدیث ہم نے آج پڑھی ہے اس میں تفصیل سے جمعہ کے آداب بتائے گئے ہیں، جمعہ کے دن نہانا، دھونا، پوری طرح صفائی کرناضروری ہے اور صفائی اور زیب و زینت کا حصہ ہی ہے کہ آدمی تیل وغیرہ استعمال کرے اور خوشبو لگائے.پھر بعض لوگ جب جمعہ کے لئے جاتے ہیں تو پہلے سے آئے ہوئے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے جا کر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں یا اکٹھے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر اپنے لئے جگہ بناتے ہیں یہ نہایت نا پسندیدہ بات ہے جہاں جگہ ہو وہاں جاکر جتنی سنتوں کی توفیق ملے ، جتنی رکعتیں نصیب میں ہوں ادا کرنی چاہئیں اور ایک بہت ضروری بات یہ ہے کہ جمعہ کے دوران میں مکمل خاموشی ہونی چاہیئے ، باتوں کی آواز بالکل نہیں آنی چاہیئے.حضور صلی نیلم نے فرمایا ہے کہ جو ان آداب کے ساتھ جمعہ ادا کرتا ہے وہ ہفتہ بھر کے لئے اللہ کی طرف سے اپنی مغفرت کا سامان کر لیتا ہے.
درس حدیث 123 درس حدیث نمبر 17 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا.يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِيْنَ يَبْقَى ثُلُثَ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُوْلُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيْب لَهُ؟ مَنْ يَسْأَلُنِى فَأَعْطِيَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَاغْفِرَلَهُ؟ ( بخاری کتاب التهجد باب الدعا والصلوة من آخر الليل1145) الله سة کہ اللہ جو بہت برکت والا اور بہت بلند ہے ہر رات جب رات کا آخری تیسر ا حصہ رہ جاتا ہے نچلے آسمان پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اس کو دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اس کو مغفرت عطا کروں.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی ال کلم نے بڑے لطیف اور مؤثر رنگ میں رات کے آخری حصہ میں نفل جن کو تہجد کہتے ہیں اور دعا کی تحریک فرمائی ہے.ہر شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے، چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے اور دنیاو آخرت کی تکلیفوں سے اسے محفوظ رکھے.بے شک انسان دن یارات کے کسی حصہ میں یہ دعائیں کر سکتا ہے اور قبول بھی ہو جاتی ہیں مگر قرآن شریف اور ہمارے نبی صلی ال یکم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے وقت نفل خصوصاً نصف رات کے بعد جو نفل پڑھے جائیں اور جو دعا کی جائے وہ خدا کے حضور خاص مقبولیت پاتے ہیں اور وہ وقت خاص برکت کا وقت ہوتا ہے جس کو اسی طرح سمجھنا چاہیئے کہ گویا اللہ تعالیٰ نیچے اتر آتا ہے اور اپنے بندوں کے لئے جو اس سے دعا کرتے ہیں، جو اس سے مانگتے ہیں، جو اس سے بخشش طلب کرتے ہیں ایک خزانہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور بندہ جو اس سے چاہتا ہے اس کو دیتا ہے.ہمارے نبی صلی علیم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی ام رات کو 11 رکعتیں ادا فرماتے.پہلے چار رکعت پڑھتے اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں لَا تَسْأَلُ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَ طولمن کہ کچھ نہ پوچھو کہ وہ چار رکعتیں کتنی خوبصورت ہوتی تھیں اور کتنی لمبی ہوتی تھیں.پھر آپ صلی الی یوم مزید چار ره مزید چار رکعتیں پڑھتے اور کچھ نہ پوچھو کہ وہ کتنی خوبصورت اور کتنی لمبی ہوتی تھیں ย اور پھر آپ تین رکعتیں ادا کرتے.( بخاری کتاب المناقب باب كان النبى صلى العموم تنام عينه ولا ينام قلبه 3569)
124 درس حدیث درس حدیث نمبر 18 ہمارے دین اسلام کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کریں جو حکم اللہ نے دیا ہے اس کی اطاعت کریں اس سے محبت کریں اس کی نعمتوں کی جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں شکر ادا کریں اس کو حقوق اللہ کی ادائیگی کہتے ہیں دوسرا حصہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی مخلوق پر شفقت کریں، ان پر رحم کریں، ان کی خدمت کریں اور ساری مخلوق میں سے خصوصاً انسانوں کے حقوق ادا کریں.ہمارے نبی صلی الیم نے جہاں حقوق اللہ ادا کر نے پر خاص زور دیا ہے وہاں بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی خاص تاکید کی ہے.آپ صلی اللہ ہم نے ایک دفعہ فرمایا حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ آمَرَنَا رَسُولُ اللهِ بِسبع کہ ہمارے نبی صلی الم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ کہ آپ نے ہمیں حکم فرمایا کہ اگر ہم میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی تیمار داری کریں وَ اتَّبَاعِ الْجَنَازَةِ اگر کوئی فوت ہو جائے تو ہم جنازہ کے ساتھ جائیں وَ تَشْمِيْتِ الْعَاطِيسِ اور اگر کوئی چھینک لیتا ہے تو ہم اس کو يَرْحَمُكَ الله یعنی اللہ تم پر رحم کرے کی دعا دیں وَاجَابَةِ الدَّا عِنی اور اگر کوئی ہمیں بلاتا ہے یا ہمیں دعوت دیتا ہے تو ہم اس کے بلاوے پر لبیک کہیں اور اس کی دعوت کو قبول کریں و افشاءِ السَّلَامِ اور حضور صلی علیم نے ہمیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہم سلام کو رواج دیں، سے ملیں، کسی کے پاس سے گزریں، کسی کے ہاں جائیں تو سلام کہیں وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ اور بر ظلم ہو رہا ہو ، جس کی حق تلفی ہو رہی ہو اس کی مدد کریں اور ساتویں بات یہ ہے کہ کوئی قسم کھاتا ہے اور ظاہر ہے کہ قسم خدا کا نام لے کر کھائی جاتی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ کوشش کریں کہ اس شخص کی قسم جھوٹی نہ نکلے بلکہ جو عہد یا وعدہ اس نے قسم کھا کر کیا ہو وہ بس: 22 وہ پورا ہو جائے.( بخاری کتاب الأشربة باب آنية الفضة 5635) اب دیکھیں کس طرح ہمارے نبی صلی علیم نے ہمیں ان سات باتوں کا حکم دے کر ایک اچھے گھر ، ایک اچھی سوسائٹی کی تعمیر فرمائی ہے اور جس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کو سلام کریں، مظلوم کی مدد کریں، بیماروں کی عیادت کریں، خدانخواستہ کوئی فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ وغیرہ میں حاضر ہوں، ایک شخص جو ہمیں اپنے کام کے لئے بلا رہا ہے اس کی آواز پر توجہ کریں تو وہ معاشرہ کتنا اچھا اور پر امن ہو گا.
درس حدیث ސލ نمبر 19 125 ہمارے نبی صلی علیم نے فرمایا ہے اور یہ حدیث حدیث کی کتاب نمبر 2 صحیح مسلم میں درج ہے کہ آپ نے فرمایا.اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضّعِيف کہ وہ مومن جو مضبوط اور طاقتور ہو زیادہ اچھا ہے اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے اس مومن سے جو کمزور ہو.( مسلم كتاب القدر باب في الأمر بالقوة وترك العجز واستعانة بالله...6774) آپ جانتے ہیں کہ ایک بچے مؤمن کی زندگی مجاہدانہ زندگی ہوتی ہے اس کو دن میں پانچ دفعہ نماز کے لئے بھی جانا ہوتا ہے.اپنے روز مرہ کے کھانے پینے کے لئے اس کو دیانت داری کے ساتھ محنت کے ساتھ روزی کمانی پڑتی ہے.اس کو اجازت نہیں کہ جھوٹ کے ساتھ ،رشوت کے ساتھ ، بددیانتی کے ساتھ پیسہ کمائے.اس کو گھر والوں کی خدمت، ہمسایوں کی دیکھ بھال، غریبوں، کمزوروں کی امداد اور بیمار کی عیادت کا بھی حکم ہے.اچھا مومن رات کو تہجد بھی پڑھتا ہے ، رمضان کے مہینے میں سارے اور سال میں کبھی کبھی نفلی روزہ بھی رکھتا ہے اگر ج کی توفیق ہو تو سفر اور حج کے ارکان ادا کرنے کے لئے بعض دفعہ مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے.غرض مومن کی زندگی ہمت اور کوشش اور مجاہدہ کی زندگی ہے.اگر انسان کی صحت کمزور ہو تو وہ اچھی طرح اپنے فرائض کو جو اللہ نے اس پر لگائے ہیں ادا نہیں کر سکتا اس لئے ہمارے نبی صلی ایم نے فرمایا کہ صحتمند ، مضبوط مسلمان کمزور مسلمان سے بہتر ہے.ہمارے آج کل کے معاشرہ میں بہت سی باتیں رواج پاگئی ہیں جو اسلام کی تعلیم کے بھی خلاف ہیں اور صحت کو بھی کمزور کرتی ہیں مثلاً رات کو بے کار باتیں کرنے کے لئے جاگنا، حقیقی ضرورت سے زیادہ کھانا کھانا، تمباکو نوشی، لباس اور جسم کی صفائی خصوصاً دانتوں کی صفائی کا خیال نہ رکھنا وغیرہ مگر سچے مسلمان کے لئے ہمارے نبی صلی علی کم کا یہ ارشاد ہے کہ صحت مند اور توانا مسلمان کمزور مسلمان کے مقابلہ میں اللہ کو زیادہ پیارا ہے.
درس حدیث 126 س حد نمبر 20 ہمارے نبی صلی ا لم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں سے بہترین سلوک کرتا ہے.وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِ اور اس بارہ میں میر انمونہ تم سب سے بہتر ہے میں اپنے گھر والوں سے سب سے بہتر سلوک کرتاہوں.( ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبي صلى الم 3895) سة ہمارے دین اسلام میں اس بات پر بہت ہی زیادہ زور دیا گیا ہے کہ خاوند اور باپ اپنی بیوی اور بچوں سے بہت زیادہ نیک سلوک کرے.آپ اگر قرآن شریف پڑھنا شروع کریں تو اس میں مذہب کے بنیادی اصول اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نماز اور زکوۃ اور روزہ اور حج کے بعد سب سے زیادہ لمبا اور تفصیلی ذکر عائلی تعلقات یعنی میاں بیوی اور خاندانی تعلقات کے بارہ میں حکم اور نصیحت کے بارہ میں کیا گیا ہے.چنانچہ یہ ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت 222 سے شروع ہو کر 243 تک پہنچتا ہے.پھر اس کے بعد بھی بار بار میاں بیوی کے بارہ میں ارشادات ہیں اور ہمارے نبی صلی الی یوم کے ایک صحابی کو جو بہت زیادہ تہجد پڑھتے اور روزے رکھتے تھے فرمایلانَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ کہ تمہارے اپنے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے.( بخاری کتاب النکاح باب لزوجك عليك حق 5199) حضرت ابو ہریرۃ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ال ولیم نے فرمایا کہ عورتوں کے متعلق تاکید ، احکامات کو قبول کرو کہ وہ پہلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی کا وہ حصہ ہی سب سے ٹیڑھا ہوتا ہے جو سب سے اعلیٰ ہوتا ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اس کو توڑ دو گے اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھا ہی رہے گا.( بخاری کتاب النکاح باب الوصاة بالنساء 5186) پس عورتوں کی بھلائی کے بارہ میں تاکیدی احکامات کی تعمیل کرو.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حبشہ کے لوگ اپنی بر چھیوں سے کھیلا کرتے تھے اور حضور صلی ا یکم مجھے اوٹ میں
رس حدیث 127 لے لیتے اور میں دیکھتی رہتی، دیکھتی چلی جاتی.( بخاری کتاب الصلوۃ باب اصحاب الحراب في المسجد (454) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حديث خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.تم میں سے سب سے زیادہ بنی نوع کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہو سکتا ہے کہ پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤر کھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے.“ ( عصمت انبیاء علیہ السلام روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 660 کمپوزڈایڈیشن)
درس حدیث 128 س حديد نمبر 21 ہمارے نبی صلی ال ولم فرماتے ہیں اَلسَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِيْنِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيْلِ اللهِ كَالْقَائِمِ لَا يَفْتُرُ وَكَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ ( بخاری کتاب الأدب باب الساعي على المسكين 6007) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ہمارے دین اسلام کے دو بڑے حصے ہیں ایک حصہ کا زیادہ تعلق اللہ کے حضور نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور اس کے دین کے لئے جہاد کرنے سے ہے اس کو عموماً ہم اللہ کا حق کہتے ہیں اور دوسرے حصہ کا تعلق بندوں کی خدمت اور ان سے نیک سلوک سے ہے جس کو ہم بندوں کا مخلوق کا حق کہتے ہیں.بعض لوگ اللہ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نماز روزہ کا بڑا خیال رکھتے ہیں مگر بعض دفعہ ایسے لوگوں کے ہمسائے اور م الله رشتہ دار ان سے خوش نہیں ہوتے کیونکہ وہ ان کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں.ہمارے نبی صلی ا ظلم کی زندگی کو دیکھیں تو جہاں آپ صلی ال یکم رات کو بھی بہت دیر تک نفل ادا کرتے اور دن کو نماز با جماعت کی پابندی کرتے، روزے رکھتے اور جب بھی ضرورت ہوتی جہاد کے لئے تشریف لے جاتے.وہاں آپ صلی یا کام غریبوں کا خیال رکھتے ، مسکینوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سعی کرتے.اس حدیث میں ارشاد ہے کہ بیواؤں اور مساکین کے لئے جد و جہد کرنے والے کا مقام معمولی نہ سمجھو اس کا وہی مقام ہے جو اس شخص کا ہے جو کا دن رات جہاد میں مصروف ہے اس شخص کا ہے جو عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور تھکتا نہیں اس روزہ دار کی طرح ہے جو با قاعدہ روزے رکھتا چلا جاتا ہے اور روزہ چھوڑتا نہیں.
درس حدیث 129 درس حدیث نمبر 22 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ سُئِلَ النَّبِی یا الله أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى الله ؟ کہ اللہ کو سب سے زیادہ پیارے اعمال کون سے ہیں قَالَ أَدْوَمُهَا وَاِنْ قَلَّ (بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل 6465) الله اللہ کو سب سے پیارے وہ اعمال ہیں جو ہمیشہ باقاعدگی سے کئے جائیں اگر چہ وہ تھوڑے ہوں.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی علیم نے دین اور دنیا میں کامیابی اور ترقی کا ایک زبر دست گر بیان فرمایا ہے.کام دین کا ہو یاد نیا کا، نماز پڑھنا ہو یازراعت کرنا، خدمت دین کرنا ہو یا دنیا کمانے کے لئے تجارت، ملازمت وغیرہ کرنا اگر اس میں باقاعدگی نہ رکھی جائے، ضرورت کے مطابق با قاعدہ محنت نہ کی جائے تو وہ کام سرے نہیں چڑھتا.بعض طالبعلم امتحان کے قریب جوش میں ساری ساری رات پڑھتے ہیں، پاس بھی ہو جاتے ہیں، مگر اس طالبعلم کی طرح اس کو علم حاصل نہیں ہوتا، گہرا اور مفید علم اس کو حاصل نہیں ہو تا جبکہ وہ طالبعلم جو با قاعدہ کلاس میں جاتا ہے توجہ سے سنتا ہے، نوٹ لیتا ہے ، استاد کا دیا ہوا کام کرتا ہے اور روزانہ سٹڈی کے اوقات میں کام کرتا ہے، نہ چند دن جوش و خروش سے ساری ساری رات پڑھ کر اپنی صحت کا نقصان کرتا ہے ، نہ باقی سال وقت ضائع کر کے اپنی تعلیم کا نقصان کرتا ہے.یہی حال باقی تمام کاموں اور پیشوں کا ہے خواہ تجارت ہو، خواہ زراعت ہو، خواہ ملازمت ہو ، حضرت عائشہ نے ہمارے نبی صلی علیکم کی پسند و ناپسند کو بہت قریب سے دیکھا اور آپ فرماتی ہیں.كَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى رَسُولِ اللهِ اللهِ الَّذِي يَدُوْمُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ ( بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل (6462 کہ رسول اللہ صلی علیم کو سب سے پیارا کام وہ لگتا تھا جس میں کام کرنے والا با قاعدہ ہو.
درس حدیث درس حدیث نمبر 23 130 حضرت انس جو ہمارے نبی صلی الی یوم کے خادم تھے اور قریباً دس سال آپ کو حضور صلی الم کی خدمت کا موقع ملا، بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا لَا يُؤْ مِنْ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِآخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ا ( بخاری کتاب الایمان باب من الايمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه 13) کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.اس ایک مختصر سی حدیث کے ذریعہ حضور صلی الم نے خاندانوں میں، رشتہ داروں میں، دوستوں میں، معاشرہ میں، جھگڑوں کی جڑھ کاٹ دی ہے، زیادہ تر جھگڑے، فساد اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ انسان اپنے لئے کچھ چاہتا ہے مگر دوسروں سے سلوک کرتے ہوئے اس بات کو بھول جاتا ہے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.ہمارے نبی صلی ا یکم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مومن بننا چاہتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو وہ اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتا، مومن نہیں بن سکتا، جب تک اس کے دل کی حالت یہ نہ ہو جائے کہ جو چیز ، جو سلوک، جو حالات اپنے لئے چاہتا ہے وہی اپنے دوستوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں، اپنے ملازموں، اپنے جاننے بوجھنے والوں کے لئے پسند نہ کرے.اگر لوگ صرف ہمارے پاک رسول اللہ صلی علیم کی اس حدیث پر عمل کرنے لگ جائیں تو دنیا کی حالت بدل سکتی ہے.
درس حدیث 131 رس حدیث نمبر 24 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الی یوم کو فرماتے ہوئے سنامَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلوةٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا (مسلم کتاب الصلوۃ باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمع....84) کہ جس شخص نے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا تو اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت فرمائے گا.ہمارے نبی صلی یکم سب نبیوں میں افضل اور خاتم الانبیاء ہیں اور آپ صلی للی کم پہلے انبیاء اور رسولوں کے مقابلہ میں جو اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے تھے ، ساری دنیا کی طرف بھیجے گئے ہیں اور آپ صلی یہ کام انسانوں کے لئے سب سے پہلے اور سب سے بڑے شفیع ہیں اور آپ صلی للی کم سے محبت کرنا اور آپ صلی علی یکم کی ذات مبارک پر درود بھیجنا ہر مومن کا فرض ہے اور جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا اللہ سے محبت کا تعلق ہو اور اللہ اس پر محبت کی نظر ڈالے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ صلی علیم سے محبت کرے اور آپ صلی الی یکم کی پیروی کرے اور آپ صلی الی یم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں آپ صلی للی کیم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ لوگوں کو کہدو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے پیچھے چلو، تم اللہ کے محبوب اور پیارے بن جاؤ گے.(آل عمران: 32) حضور صلی یکم کی پیروی کرنے اور آپ صلی الی الم سے محبت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں مومنوں کو حکم دیا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ( الاحزاب:57) کہ اے وہ لو گو جو ایمان لائے ہو، نبی صلی للی کم پر درود بھیجو اور بہت سلام بھیجو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
درس حدیث 132 رس حدیث نمبر 25 حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا کہ ہمارے نبی صلی الی یوم کے اخلاق کیسے تھے تو حضرت عائشہ نے جواب دیا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (مسند احمد بن حنبل حدیث السيدة عائشہ جلد 8 صفحہ 144 عالم الكتب بيروت 1998ء حدیث 25108) آپ صلی الی یوم کے اخلاق سراسر قرآن تھے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں راستہ دکھانے کے لئے قرآن شریف اتارا اور اس میں ہماری زندگی کی سب باتوں کے لئے حکم دیئے ہیں جن پر چل کر ایک انسان اللہ کو راضی کر سکتا ہے، اچھا مسلمان بن سکتا ہے، اچھا انسان بن سکتا ہے، دنیا کے لئے اچھا اور فائدہ مند ہو سکتا ہے، مرنے کے بعد اللہ کے حضور بڑا درجہ پاسکتا ہے.مگر انسان، تعلیم کے ساتھ نمونہ کا بھی محتاج ہے.قرآن نے حکم دیا کہ نماز پڑھو، مگر نماز کس طرح پڑھنی ہے؟ قرآن نے حکم دیا کہ اپنے بیوی بچوں، رشتہ داروں، ہمسایوں سے نیک سلوک کرو، اس کا کیا طریق ہے؟ قرآن مجید نے حکم دیا کہ زکوۃ دو، روزہ رکھو، حج کرو، لیکن ان حکموں پر کس طرح عمل کرنا ہے؟ قرآن مجید نے حکم دیا کہ دشمن اگر حملہ کرے تو کس طرح جواب دینا ہے؟ اگر قرآن کہتا ہے کہ نکاح و شادی کرو تو اس کا کیا مناسب طریق ہے؟ ایسے کئی سو حکم قرآن شریف میں ہیں.پھر کئی طرح کے آداب و اخلاق قرآن شریف نے سکھائے ہیں ان کو کام کی شکل میں کس طرح کیا جائے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی یی کم کو بھیجا.آپ صلی الیکم نے قرآن کے ہر حکم پر بہترین رنگ میں عمل کیا اور قرآن کی خوبصورت تعلیم کو خوبصورت شکل میں کر کے دکھایا.اس لئے قرآن شریف فرماتا ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : 22) کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول (صلی علیم میں بہت خوبصورت نمونہ ہے.
درس حدیث رس حدیث نمبر 26 133 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں جَاءَ ثنِي مِسْكِينة کہ میرے پاس ایک غریب عورت آئی تَحْمِلُ ابْنَتَيْنِ لَھا جو اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے تھی فَاطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ میں نے اس کو کھانے کے لئے 3 کھجوریں دیں فاعْطَتْ كُلّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُمَا تَمَرَةٌ اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دی وَرَفَعَتْ إِلى فِيهَا تَمَرَةٌ لِتَأْكُلَهَا اور ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی کہ اس کو کھائے فَاسْتَطْعَمَتْهَا ابْنَتَاهَا مگر اس کی دونوں بیٹیوں نے اس کھجور کو بھی اپنے کھانے کے لئے مانگ لیا فَشَقَّتِ الثَّمَرَةَ الَّتِي كَانَتْ تُرِيْدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بَيْنَهُمَاتو اس عورت نے وہ کھجور جو وہ خود کھانا چاہتی تھی، ٹکڑے کر کے ان دونوں کو دے دی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں فَأَعْجَبَنِي شَأْنَهَا مُجھے اس کی یہ بات اچھی لگی فَذَكَرْتُ الَّذِي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللہ میلہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے اس کا ذکر کیا جو اس عورت نے کیا تھا فقال تو آپ صلی للی ایم نے فرمایا.اِنَّ اللهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ کہ اللہ نے اس عورت کے لئے اس بات کی وجہ سے جنت واجب کر دی ہے أَوْ أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّارِ اور اس کی وجہ سے اس کو آگ سے آزاد کر دیا ہے.(مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب فضل الاحسان الى البنات 6694) اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو لڑکیوں کی پیدائش کو برا مناتے اور ان کے پالنے کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں.ہمارے نبی صلی اہل علم کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے بھی عطا فرمائے اور بیٹیاں بھی عطا فرمائیں.آپ صلی الی یکم کے بیٹے چھوٹی عمر میں فوت ہوتے رہے.بے شک آپ صلی یہ کالم ان پر شفقت فرماتے اور ان سے محبت کرتے مگر اپنی بیٹیوں سے آپ صلی علیکم کا سلوک حد درجہ مشفقانہ تھا.آپؐ ان سے محبت کرتے اور ان کے جذبات کا خاص خیال رکھتے اور اس بارہ میں بہت سی مستند روایات میں اس کا ذکر ہے.
درس حدیث 134 درس حدیث نمبر 27 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةٌ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ اللَّهُ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِيْنَّا قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُوْبَكُرٍ أنا فَقَالَ رَسُولُ الله الا الله مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِي إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ مسلم کتاب الزکوۃ باب فضل من ضم الى الصدقة غيرها من اعمال البر 2374) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا ” آج تم سے کون روزہ دار ہے “ حضرت ابو بکر نے کہا میں روزہ دار ہوں پھر آپ صلی الکریم نے فرمایا ” آج تم سے کون جنازہ کے ساتھ گیا ہے“ حضرت ابو بکر نے عرض کیا آج میں جنازہ کے ساتھ گیا ہوں.پھر آپ صلی اللہ کریم نے دریافت فرمایا ” آج تم میں سے کس نے کسی محتاج کو کھانا کھلایا ہے“ حضرت ابو بکڑ نے کہا میں نے کھلایا ہے.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ”تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی ہے“ تو حضرت ابو بکر نے عرض کیا میں نے عیادت کی ہے.اس پر رسول اللہ صلی علیکم الله سة نے فرمایا: ”یہ باتیں کس شخص میں اکٹھی نہیں ہوتیں مگر وہ جنت میں داخل ہوتا ہے“ اس حدیث میں جہاں ہمارے نبی صلی اللہ یکم نے بڑے اثر کرنے والے رنگ میں نیکیوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور اپنے صحابہ کو ان نیکیوں کی تحریک فرمائی ہے وہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آپ صلی علیہ ہم اپنے زیر تربیت صحابہ کی تربیت کا وقتاً فوقتاً جائزہ بھی لیتے رہتے تھے اور سوال پوچھ کر ان کی حالت معلوم کرتے تھے.اس حدیث میں روزہ رکھنے کا ذکر ہے جو انسان کی اپنی تربیت اور پاکیزگی کے لئے ضروری ہے مگر اس کا اثر دوسرے لوگوں پر بھی پڑتا ہے مگر حضور صلی الیم کے باقی تینوں سوال کا تعلق بندوں کے حقوق سے اور ان کی ہمدردی سے ہے.جنازہ کے ساتھ جانا، محتاج کو کھانا کھلانا، بیمار کی عیادت کرنا یہ سب کام انسان کی ہمدردی اور غمخواری سے ہے اور حضور صلی الی یکم نے توجہ دلائی ہے کہ روزہ رکھ کے جہاں انسان اپنی ذاتی نیکی کی طرف توجہ کرتا ہے وہاں اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور ان کی تکلیف کے وقت ان کی ہمدردی کرنا، بھوکوں کو الله سة کھانا کھلانا، جنازہ کے ساتھ جانا اور مریضوں کی خدمت کرنا بہت بڑے ثواب کا باعث ہیں.
درس حدیث 135 درس حدیث نمبر 28 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الم نے فرمایا مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا سَيِّئَتِهِ وَحُطَّتْ عَنْهُ ذُنُوبُهُ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا ریاض الصالحين ابواب المأمورات باب الصبر حدیث 38 دار الكتاب العربي 2005ء) کہ کوئی مسلمان نہیں جس کو کوئی تکلیف پہنچے (کوئی کانٹا چبھے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف ہو) مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کی برائیاں دور کر دیتا ہے اور اس کے گناہ اس سے گرا دیئے جاتے ہیں جس طرح درخت اپنے پنے گراتا ہے.آپ لوگوں نے خزاں میں درختوں کے پتے تو گرتے دیکھے ہوں گے.وہی درخت جو پتوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے خزاں کے موسم کے آنے پر ٹپ ٹپ اس کے پتے گرنے شروع ہو جاتے ہیں اور چند دن میں وہ ٹنڈ منڈ نظر آنے لگتا ہے.ہمارے نبی صلی العلیم نے یہاں بڑی روشن مثال اس بات کی دی ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے، غلطیاں اس سے سرزد ہوتی ہیں، کبھی نمازوں میں سستی ہو جاتی ہے، کبھی انسانوں کے حقوق ادا کرنے میں کمزوری ہو جاتی ہے لیکن اگر وہ تو بہ کرتا ہے، استغفار کرتا ہے تو اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اسی طرح جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے، کبھی بخار ہو جاتا ہے، کبھی کوئی کانٹا چھ جاتا ہے، کبھی چوٹ لگتی ہے، کبھی کوئی مالی نقصان ہو جاتا ہے، کبھی کوئی غم پہنچتا ہے، کبھی کسی عزیز کی موت فوت سے صدمہ ہوتا ہے تو یہ سب باتیں اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتی ہیں انسان سمجھتا ہے کہ اس کو بہت تکلیف ہے، بہت مصیبت ہے ، وہ روتا دھوتا ہے مگر یہی درد، یہی بیماری، یہی صدمہ، اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اس کو دوزخ کی سزا سے بچالیتا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ ہم نے کتنی واضح مثال دی ہے کہ جس طرح ایک درخت سے خزاں کے موسم میں ٹپ ٹپ پتے گرتے ہیں اسی طرح ایک شخص کے گناہ اس کی تکالیف کی وجہ سے گر جاتے ہیں، معاف ہو جاتے ہیں اور وہ گناہوں اور غلطیوں سے پاک ہو کر ان کی سزا سے محفوظ ہو جاتا ہے.
درس حدیث درس حدیث نمبر 29 136 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى ﷺ نے فرمایا إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إلى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِى الْمَالِ وَالْخَلْقِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ ( بخاری کتاب الرقاق باب لينظر الى من هو اسفل منه، ولا ينظر.....6490) کہ جب تم میں سے کوئی شخص اس شخص کو دیکھے جس کو اس سے مال میں اور شکل و بناوٹ میں برتری ہے تو اس کی طرف بھی دیکھے جو اس سے نیچے ہے.اس مختصر سی حدیث میں ہمارے نبی صلی الم نے جھوٹی فکر مندی اور حسد کی جڑھ کاٹ دی ہے.اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے انسان جن کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہوئی ہیں.ان لوگوں کو دیکھ جو زیادہ مال دار ہوں، زیادہ بڑا عہدہ ہوں، شکل و شباہت صحت و قوت میں بہتر ہوں، جلتے ہیں اور دکھ محسوس کرتے ہیں اور حسرت رکھتے ہیں کہ ان کو یہ چیزیں کیوں حاصل نہیں.اگر انسان غور سے دیکھے تو اگر چہ بیماری، بھوک وغیرہ دنیا میں انسان کو ہزاروں بلائیں ہیں جن سے ایک انسان دکھ اٹھاتا ہے مگر بے شمار انسان بہت سی نعمتیں رکھتے ہوئے بھی دکھ اور جلن اور حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس مال اس سے زیادہ ہے ، اس کی کو بھی اس کی کوٹھی سے بڑی ہے، اس کی بیوی اس کی بیوی سے زیادہ خوبصورت ہے، اس کی موٹر اس کی موٹر سے زیادہ اچھی ہے، ایسے آدمی کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کتنے آدمی اس سے بہت زیادہ تکلیف اٹھا رہے ہیں.اس کی آنکھیں ہیں، مگر ہزاروں آدمی ہیں جو دیکھ نہیں سکتے ، نابینا ہیں.ایسے بھی ہیں جو دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں، ایسے بھی ہیں جو چلنے پھرنے سے معذور ہیں، ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی جرم کرنے کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پڑے جیل میں سڑ رہے ہیں.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی علیم نے انسان کو تکالیف کے باوجو د خوش رہنے کا ایک گر بھی بتا دیا ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو گے جو تم سے زیادہ بیمار ، تم سے زیادہ غریب، تم سے زیادہ تکلیف میں ہو تو بھی شکر پیدا ہو گا اور اپنی حالت پر اطمینان کی کیفیت ہو گی.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا گاؤں بھی نہیں جس میں آدمی اپنے سے زیادہ نیچے کو نہ دیکھ سکتا ہو.
درس حدیث 137 رس حدیث نمبر 30 حضرت انس بیان کرتے ہیں مَر النَّبِ الله بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ که نبی صلی ال یکم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس رور ہی تھی.آپ صلی للہ ہم نے اس عورت کو فرمایا اتقى اللهَ وَاصْبِرنی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صبر کرو قَالَتْ إِلَيْكَ عَنِّي فَإِنَّكَ لَمْ تُصِبْ بِمُصِيبَتِي وَ لَمْ تَعْرِفْهُ اس عورت نے حضور صلی کم کو پہچانا نہیں اور کہہ دیا جاؤ جاؤ تمہیں میری جیسی مصیبت نہیں پہنچی.فَقِيلَ لَهَا إِنَّهُ النَّبِيُّ يا الله کہ یہ نبی صلی ا م ہیں.فَأَتَتْ بَابَ النَّبِي الله فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوابِيْنِ وہ نبی صلی الم کے دروازہ پر پہنچی اور وہاں اس کو کوئی دربان نہ ملا فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفُكَ اس نے حضور صلی الم سے عرض کی کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا.فقال تو حضور صلی الم نے فرما یا إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدَمَةِ الأولى که صبر تو صرف وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو.( بخاری کتاب الجنائز باب زيارة القبور (1283) ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے اس چھوٹے سے فقرہ میں ایک بہت بڑا سبق انسانوں کو دیا ہے.انسان اس دنیا میں خوشیوں اور آرام کے ساتھ غم بھی اٹھاتا ہے، کبھی بیماری آتی ہے، کبھی مال کا نقصان ہو جاتا ہے، کبھی ماں باپ، بہن بھائیوں، خاوند بیوی، بچوں بچیوں کی وفات ہو جاتی ہے.ان نقصانوں اور غموں کے باوجو د انسان کو اپنی زندگی گزارنی پڑتی ہے اور صبر کرنا پڑتا ہے.مگر بعض لوگ اپنے غم کو لمبا کر کے بڑھاتے ہیں اور دراصل وہ اپنی تکلیف کو لمبا کر رہے ہوتے ہیں.ہمارے نبی صلی ا ہم کو بھی ہر طرح کے غم آئے ، آپ صلی الم نے آنسو بھی بہائے مگر کبھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا، کبھی کوئی بات جو اللہ کی ناراضگی کا موجب ہو زبان سے نہیں نکالی، لوگ بے صبری کا اظہار کرتے ہیں لیکن پھر آخر کار صبر کرنا ہی پڑتا ہے جو زندگی کی مجبوری ہے لیکن وہ صبر اصل صبر نہیں، اصل صبر تو صدمہ کے وقت ہوتا ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث بنتا ہے.
درس حدیث درس حدیث نمبر 31 138 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل الم نے فرمایا لَيْسَ الشَّدِيدُ بالصُّرْعَةِ کہ بہادر اور مضبوط شخص وہ نہیں جو کشتی میں مقابل کو پچھاڑ لینے میں بہادر ہوا نما الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ بہادر اور مضبوط تو وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر کنٹرول اور ضبط رکھتا ہے.( بخاری کتاب الأدب باب الحذر من الغضب 6114) اس حکمت اور دانائی سے بھری ہوئی حدیث میں جو بالکل مختصر الفاظ میں ہے ہمارے نبی صلی الم نے ایک ایسی بات فرمائی ہے کہ اگر انسان اس پر عمل کرے تو بہت سے جھگڑے، لڑائیاں، تلخیاں اور خون اور قتل جو لوگوں میں ہوتے ہیں ان کا خاتمہ ہو جائے اور ہماری سوسائٹی، ہمارا معاشرہ محبت اور امن اور سکون کا معاشرہ بن جائے.دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچوں کی تربیت جو خراب ہوتی ہے وہ ماں باپ کی آپس کی تلخی اور کج بحثی کا نتیجہ ہوتی ہے.خاوند ایک بات کہتا ہے اور بیوی اس کو برداشت نہیں کرتی اور وہ غصہ میں آکر خاوند کو اس سے بڑھ کر تلخ بات کہتی ہے یا بیوی ایک معمولی سی بات خاوند کو ناراضگی سے کہتی ہے اور خاوند اس کو بر داشت نہیں کرتا اور وہ بیوی سے زیادہ سخت جواب دیتا ہے اور اس رشتہ میں جو محبت کا رشتہ ہے ، غصہ اور ناراضگی اور تلخی پید اہو کر گھر کی فضاء زہریلی ہو جاتی ہے لیکن اگر خاوند اپنے نفس کے غصہ پر تھوڑی دیر کے لئے ضبط کر لے یا بیوی اپنے آپ تھوڑا ساکنٹرول کرے تو تھوڑی دیر میں بات آئی گئی ہو جاتی ہے اور صرف گھر کی بات نہیں بعض ملکوں اور قوموں کی بڑی بڑی جنگیں چند آدمیوں کے اپنے غصہ کو نہ دبانے کی وجہ سے ہوئی ہیں.ہمارے نبی صلی الی یکم نے امن اور چین اور پیار کا ماحول بنانے کے لئے کیا اچھا فرمایا ہے کہ بہادر وہ ہے جو اپنے نفس پر ، اپنے جذبات پر کنٹرول کرتا ہے.
درس حدیث رس حدیث نمبر 32 139 حضرت جندب بن جنادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے.اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم حرام کیا ہوا ہے اور تمہارے درمیان بھی اس کو حرام کر دیا ہے اس لئے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو.اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں پس مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا.اے میرے بندو! تم سب بھو کے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلاؤں، پس مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمہیں کھانا دوں گا.اے میرے بندو! تم سب بغیر لباس کے ہو سوائے اس کے جس کو میں لباس دوں پس مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا.اے میرے بندو! رات کو بھی گناہ کرتے ہو اور دن کو بھی اور میں سب گناہ بخش دیتا ہوں پس مجھ سے استغفار کرو میں تمہیں بخش دوں گا.اے میرے بندو! تمہیں میرے نقصان کی طاقت نہیں کہ تم مجھے نقصان پہنچاسکو، نہ ہی تمہیں مجھے نفع پہنچانے کی طاقت ہے کہ تم مجھے نفع پہنچا سکو.اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے آخری، تمہارے انسان اور تمہارے جن ، تم میں کسی سب سے زیادہ متقی دل والے ہو جائیں تو میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور اگر تمہارے پہلے اور آخری اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ گناہگار آدمی کے دل پر ہو جائیں، تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہوتی.اگر تمہارے پہلے اور تمہارے آخری اور تمہارے انسان اور تمہارے جن ایک کھلے میدان میں اکھٹے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر انسان کو جو کچھ وہ مانگ رہا ہے ، دے دوں تو میرے پاس جو ہے اس میں اتنی کمی بھی نہیں ہو گی جتنی سوئی کرتی ہے جب وہ سمندر میں ڈالی جائے.اے میرے بندو! یہ صرف تمہارے اعمال ہیں جو میں تمہاری خاطر شمار کرتا ہوں.پھر میں تمہیں پورا پورا دوں گا.پس جو خیر پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے الٹ پائے تو اپنے نفس کو ملامت کرے.(مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب تحریم الظلم 6572)
درس حدیث رس حدیث نمبر 33 140 حضرت ابوہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل الم نے فرمایا: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثلاث تین باتیں منافق کی علامت ہیں.اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ جب وہ بات بیان کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ اور جب وہ وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ بد دیانتی اور خیانت سے کام لیتا ہے.بخاری کتاب الایمان باب علامة المنافق (33) اس حدیث میں ہمارے نبی صلی اللہ کریم نے اخلاقی کمزوریوں کی نشان دہی فرمائی ہے بعض مذہبی لوگ عبادات کی ظاہری شکل و صورت پر زور دیتے ہیں.اسلام نے جہاں عبادت پر غیر معمولی زور دیا ہے وہاں اخلاق پر بھی غیر معمولی زور دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں بار بار یہ فرمایا ہے کہ روحانی عبادات کے مقام کو انسان حاصل نہیں کر سکتا جب تک اخلاق میں اعلیٰ درجہ پر نہ ہو اور اخلاق میں کمال حاصل نہیں کر سکتا جب روزانہ کی انسانی زندگی میں اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے ، چلنے پھرنے، باتیں کرنے، خاموش رہنے میں جو ضروری آداب ہیں ان کو اختیار نہ کرے.جن اخلاقی کمزوریوں کا اس حدیث میں ذکر ہے ان میں سے ایک جھوٹ ہے، ایک وعدہ خلافی ہے اور ایک امانت میں خیانت ہے اور یہ تینوں باتیں خاندانی تعلقات میں، معاشرتی تعلقات میں، ملکوں کے تعلقات میں سخت فساد کا باعث ہو سکتی ہیں اور منافقت کسی بھی تنظیم میں گڑ بڑ پیدا کرتی ہے اور یہ تینوں باتیں منافق کی نشانی ہیں.
درس حدیث 141 رس حدیث نمبر 34 حضرت جابر سے روایت ہے قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِ اللهِ يَوْمَ أُحُدٍ أَرَعَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَيْنَ آنَا؟ قَالَ فِى الْجَنَّةِ فَأَلْقَى تَمَرَاتٍ فِي يَدِهِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ.( بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد 4046) ہمارے نبی صلی یکم کی تربیت اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں آپ کے صحابہ کرام میں جو پاک تبدیلی ہوئی اس کی مثال کسی اور روحانی یا دنیوی جماعت میں نہیں ملتی.آپ صلی یہ کام کے مبعوث ہونے کے وقت عرب کے لوگ جس جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے اس میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی.بدکاری، لوٹ مار ، ظلم ، جہالت، خود غرضی میں وہ اپنی مثال آپ تھے.ہمارے نبی صلی علیکم کی پاکیزہ تعلیم اور آپ کی روحانی تربیت کے نتیجہ میں ان کی کایا پلٹ گئی.آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا نقشہ اپنے عربی کلام میں یوں کھینچتے ہیں: صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيْئَةِ الْعِقْيَانِ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 591) کہ آپ نے ان کو ایک ایسی قوم پایا جو گوبر کی طرح ذلیل تھی اور آپ نے ان کو سونے کی ڈلی کی طرح بنا دیا.انہوں نے مسلمان ہو کر اور ہمارے نبی صلی علیم کی تربیت میں آکر عبادت، اخلاق، آداب میں ایسی پاک تبدیلی کی جس کو پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے.خدا کی خاطر انہوں نے نہ اپنی جان کی پرواہ کی نہ مال کی.اس قربانی کی ایک مثال آج کی مختصر حدیث میں ہے.احد کے دن مسلمانوں کو اپنے سے کئی گنا دشمن سے مقابلہ تھا کہ ایک صحابی نے جو بھوک کی وجہ سے ہاتھ میں کچھ کھجوریں لئے کھارہے تھے حضور صلی ال نیم کے پاس سے گزرے اور حضور سے پوچھا.حضور اگر میں اس وقت دشمن کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں تو کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا جنت میں.یہ سنتے ہی اس صحابی نے یہ بھی انتظار نہیں کیا کہ وہ دو چار کھجوریں جو ان کے ہاتھ میں تھیں، کھالیں.انہوں نے وہ کھجوریں ہاتھ سے پھینک دیں اور بڑی بہادری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے اور شہید ہو گئے.
درس حدیث 142 رس حدیث نمبر 35 رض حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِيْنِهَا فَاظُفَرُ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (مسلم کتاب الرضاع باب استحباب نكاح ذات الدين 3635) ہمارے نبی صلی الیم نے انسان کی زندگی کی تمام اہم شاخوں کے بارہ میں اپنی امت کو راستہ دکھایا ہے.شادی بیاہ کا معاملہ انسان کی زندگی کا بہت اہم معاملہ ہے اور انسان کی دینی اور دنیوی خوشی کا بہت انحصار شادی سے پیدا ہونے والے تعلقات پر ہے اور انسان کی زندگی میں بہت زیادہ ناکامی کا باعث بھی خراب شادی ہے.اس لئے آپ نے شادی بیاہ کے معاملات میں بھی مسلمانوں کو راستہ دکھایا ہے.حضرت ابوہریرۃ روایت کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی الی کلم نے فرمایا کہ عام طور پر نکاح کرتے ہوئے عورت کے مال و دولت کو مد نظر رکھا جاتا ہے کبھی اس کے خاندان اور حسب و نسب کا خیال کیا جاتا ہے کبھی اس کی شکل و شباہت کی خوبصورتی دیکھی جاتی ہے اور کبھی اس کے دین کو سامنے رکھا جاتا ہے.آپ نے فرمایا: اللہ تیرا بھلا کرے تم دیندار عورت سے شادی کرنے میں کامیابی حاصل کرو“ اس نہایت بلند پایہ نصیحت میں حضور صلی نیلی نیلم نے انسان کی خوش زندگی کے ایک راز سے پردہ اٹھایا ہے.لوگ امیر عورتوں سے شادی کر لیتے ہیں مگر خاوند کی غربت اور بیوی کی دولت خاوند کو غلام بنائے رکھتی ہے.بڑے سمجھے جانے والے خاندان کی عورت خاوند کو اپنے سے کم تر سمجھتی ہے.خوبصورت عورت اپنی ظاہری شکل و شباہت پر نخرہ کرتی ہے مگر دیندار عورت جو دین کی اخلاقی تعلیم نرمی، نرم زبانی، تعاون، شفقت، اطاعت پر عمل کرنے والی ہو اپنے گھر کو جنت کو نمونہ بنادیتی ہے.ہمارے نبی صلی علیم کایہ تجزیہ کتنا گہرا اور سچا ہے.
درس حدیث 143 ریث نمبر 36 حضرت حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الم نے فرمایا: الْبَيْعَانِ بِالْخِيَارِ مَالَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَ بَيَّنَا بُوْرِكَ لَهُما فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَ كَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا ( ترمذی ابواب البيوع باب البيعين بالخيار مالم يتفرقا 1246) دنیا کے ہر ملک میں ، ہر معاشرہ میں تجارت کو ، خرید و فروخت کو مالی معاملات میں بہت ہی بنیادی حیثیت حاصل ہے.ملکوں کی زندگی اور خوشحالی قوموں کی زندگی اور خوشحالی خاندانوں کی زندگی اور خوشحالی کا بہت حد تک تجارت و خرید و فروخت پر انحصار ہے.روزانہ لاکھوں لاکھ ، کروڑوں کروڑ بلکہ اربوں ارب کی چیزیں ادھر سے ادھر جاتی ہیں.کچھ ہاتھوں سے نکل کر دوسرے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں اور یہ دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ وہ تاجر جو مسلمان نہیں ان کی تجارت میں برکت پڑ رہی ہوتی ہے اور وہ تاجر جو مسلمان ہیں وہ گھاٹا کھا رہے ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض مسلمان تاجر حضور صلی علیم کی اس نصیحت پر عمل نہیں کر رہے ہوتے جس کا اس حدیث میں حکم دیا گیا ہے اور بہت سے غیر مسلم، غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی اس حدیث پر عمل کر رہے ہوتے ہیں جس کا اس حدیث میں حکم ہے.ہمارے نبی صلی ا ہم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو دو آدمی خرید و فروخت کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ سچ بول رہے ہوں اور صاف صاف سچی اور کھری بات کر رہے ہوں تو اس کی تجارت میں برکت پڑتی ہے اور دونوں کو اس برکت سے حصہ ملتا ہے لیکن اگر وہ دونوں کوئی بات چھپا رہے ہوں اور غلط بیانی کر رہے ہوں تو ان کی تجارت کی برکت مٹ جاتی ہے.آج کی دنیا بین الا قوامی تجارت میں اس کا تجربہ خوب کر چکی ہے.دیانت داری سے کام کرنے والی کمپنیاں اور ادارے اور تاجر دنیا میں اپنی ساکھ بنا لیتے ہیں اور ان کی شہرت اچھی ہو جاتی ہے.شروع میں کچھ کمزوری ہو تو ہو مگر Long Range میں ان کو سراسر فائدہ ہوتا ہے مگر دھو کہ دینے ، غلط بیانی کرنے والوں کی تجارت شروع میں اگر کچھ فائدہ بھی اٹھالے تو آگے چل کر ان کی تجارت کو نقصان ہوتا ہے اور بیرونی ممالک ان سے سو دے کرنے میں احتیاط کرتے ہیں.
درس حدیث 144 درس حدیث نمبر 37 حضرت ابو ذر روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ال کلم نے فرمایا: الْإِيْمَانُ بِضْعُ وَ سَبْعُوْنَ أَوْ بِضْعُ وَ سِتُّوْنَ شُعْبَةً فَاَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَدْنَاهَا اِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ (مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الايمان وافضلها وادناها...153) حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا ایمان کی 70 سے اوپر کچھ یا فرمایا 60 سے اوپر کچھ شاخیں ہیں.ایمان کی سب سے افضل شاخ تو یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الله کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں دادناھا اور سب سے عام بات یہ ہے اِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانا.اس حدیث میں ہمارے نبی صلی علیکم نے اپنی امت کو ایک بڑا اہم سبق دیا ہے کہ ایمان کے دو بڑے حصے ہیں ایک جس کو حق اللہ کہتے ہیں اور دوسرا جس کو حق العباد کہتے ہیں.ان میں سے ہر ایک کی کئی کئی شاخیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی توحید سب سے اہم، سب سے ضروری، سب کی جڑ کی حیثیت رکھتی ہے.حقوق العباد بندوں کے حقوق کی بہت سی شاخیں ہیں، ماں باپ کے حقوق ، بچوں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، افسروں کے حقوق ، ماتحتوں کے حقوق، غریبوں، کمزوروں، مزدوروں کے حقوق ، ہمسایوں کے حقوق.ان حقوق میں سے ایک حق جس سے ہمارے ملک میں لوگ بہت غافل ہیں وہ راستے کے حق ہیں.کیلا کھایا اور چھلکے سڑک پر پھینک دیئے، گھر کا گند صاف کیا اور سڑک پر ڈال دیا.موٹر اتنی تیز رفتار سے چلائی کہ لوگوں کو جان بچانی مشکل ہو گئی.یہ معمولی سی بات ہے مگر ہمارے ملکوں میں ہزاروں، لاکھوں ہر گھڑی یہ بات جو ہمارے حضور صلی ایم ایمان کے خلاف قرار دے رہے ہیں اس کا ارتکاب کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے.
درس حدیث 145 درس حدیث نمبر 38 حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا: أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ( بخاری کتاب الأدب باب فَضْلِ مَنْ يَّعُوْلُ يَتِيْمًا 6005) ہمارے نبی صلی الیم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس سے محبت ، اس کے خوف، اس سے زندہ اور مضبوط تعلق کی تعلیم دی ہے اور بار بار اپنی امت کو یہ ہدایت دی ہے ، وہاں مخلوق کی ہمدردی اور غمخواری پر بھی غیر معمولی زور دیا ہے.خصوصاً ایسے لوگوں کی مدد اور خدمت کی تعلیم دی ہے جو بے سہارا ہوں اور جن کے ظاہری اسباب اور ذرائع موجود نہ ہوں.ایسے لوگوں میں سب سے نمایاں وہ بچے ہیں جو چھوٹی عمر کے ہوں اور ان کے باپ یا ان کے ماں باپ دونوں فوت ہو چکے ہوں.قرآن شریف میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال پر بہت زور دیا ہے.بلکہ یتیما ذَا مَقْرَبَةِ (البلد : 17) کہہ کر ایسے یتیموں کی پرورش کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو یتیم ہوں مگر ان کے کوئی رشتہ دار موجود ہوں اور یہ سمجھا جائے کہ ان کے ایسے رشتہ دار موجود ہیں جو ان کو سنبھال سکتے ہیں اور اس غلط فہمی میں ان کی دیکھ بھال میں غفلت ہو جائے.یتیم کی پرورش کرنے کے بارہ میں اس حدیث میں ایسے رنگ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ ہر ایک سچے مومن کا دل بے ساختہ اس نیکی کی طرف جھکتا ہے.حضور علی ایم نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور حضور صلی الم نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا ایک وہ انگلی جو قعدہ کے وقت کلمہ طیبہ پڑھتے وقت بلند کی جاتی ہے اور دوسری اس کے ساتھ کی انگلی جو درمیانی انگلی کہلاتی ہے.اب ہم میں سے کون ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ اسے حضور صلی ال یکم کا قرب حاصل ہو اور وہ قرب بھی جنت میں ہو.
درس حدیث 146 رس حدیث نمبر 39 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا وَ أَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ أَسْوَاقُهَا (مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ باب فضل الجلوس في مصلاه...وفضل المساجد 1528) جیسا کہ ہماری مجالس میں اکثر ذکر ہو تا رہتا ہے ہمارے دین کی تعلیم کی بہت سی شاخیں ہیں، بہت سے پہلو ہیں مگر ہمارے دین کی عمارت کی بنیاد، ہمارے مذہب کے درخت کی جڑھ ، اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس سے تعلق اور اس سے محبت ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کے حسن کو انسان یاد رکھے اور اس سے ڈرتا رہے ،اس کی ناراضگی اور اس کی سزا کے خوف کا احساس رہے.اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے ذکر کی بار بار تاکید کی ہے.اللہ تعالیٰ کے ذکر سے گویا یوں کہیں اس کی خوبصورت شکل انسان کے سامنے آجاتی ہے.اور اس کی نعمتوں کو انسان گویا دیکھتا ہے نیز اس کے غضب اور اس کی ناراضگی کا احساس انسان کو ہوتا ہے اور اس طرح انسان کو خدا کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس کا ڈر بھی پیدا ہوتا ہے.اور ذکر الہی اگر چہ ہر جگہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی بہترین جگہ اللہ کے گھر ہیں جو مساجد کہلاتے ہیں اس لئے مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ پانچوں وقت مساجد میں نماز پڑھیں اور جمعہ کے دن خطبہ سنیں.اس لئے اس حدیث میں جو ہم نے آج پڑھی ہے ہمارے نبی صلی علی کرم فرماتے ہیں کہ سب جگہوں میں اللہ کو سب سے زیادہ پیاری جگہ مساجد ہیں جہاں دن رات ذکر الہی ہوتا ہے اور اللہ کی اچھی صفات کا تذکرہ ہوتا ہے نیز فرمایا و أَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى الله اسواقھا کہ سب سے زیادہ ناپسند اللہ کو بازار ہیں کیونکہ بازاروں کا ماحول اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرتا ہے.
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.147 مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پچھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.“ مانده مشکل الفاظ کے معانی: لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 223) تھکا ہوا، پیچھے رہا ہوا خارق عادت معمول کے بر خلاف، عادت کو توڑنے والا، معجزہ، کرامت از خود رفته انجام سے بے خبر
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.148 واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِى الدَّار یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں پیروی کرنے کے لئے یہ باتیں ہیں کہ وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا وہ دکھ اُٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے.وہ ایسا کہ باوجود دور ہونے کے نزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دور ہے اور باوجود ایک ہونے کے اس کی تجلیات الگ الگ ہیں انسان کی طرف سے جب ایک نئے رنگ کی تبدیلی ظہور میں آوے تو اس کے لئے وہ ایک نیا خدا بن جاتا ہے اور ایک نئی بجلی کے ساتھ اس سے معاملہ کرتا ہے اور انسان بقدر اپنی تبدیلی کے خدا میں بھی تبدیلی دیکھتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا میں کچھ تغیر آ جاتا ہے بلکہ وہ ازل سے غیر متغیر اور کمال تام رکھتا ہے لیکن انسانی تغیرات کے وقت جب نیکی کی طرف انسان کے تغیر ہوتے ہیں تو خدا بھی ایک نئی تجلی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے اور ہر ایک ترقی یافتہ حالت کے وقت جو انسان سے ظہور میں آتی ہے خدا تعالیٰ کی قادرانہ تجلی بھی ایک ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے وہ خارق عادت قدرت اُسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے.خوارق اور معجزات کی یہی جڑ ہے یہ ہے
درس روحانی خزائن خدا 149 ہے ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اُس کے کل تعلقات پر اُس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلاؤ دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدم نہیں رکھتی مگر تم اُس کو مقدم رکھو تا تم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 10-11) مشکل الفاظ کے معانی: دل کی عزیمت دل کا پکا ارادہ غیر متغیر تبدیل نہ ہونے والا خاک و خشت مٹی اور اینٹیں کمال تام پورا کمال بود وباش رہائش خارق عادت غیر معمولی خالق الكل سب کو پیدا کرنے والا مقدم رکھو ترجیح دو ازلی ہمیشہ سے ابدی ہمیشہ تک
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 3 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.150 رحمت کے نشان دکھلانا قدیم سے خدا کی عادت ہے.مگر تم اُس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی میں اُس کے آستانہ پر پڑا رہے تا جو چاہے سو کرے اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہو گا جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کا طالب ہو جائے اور اس کی قضاء و قدر پر ناراض نہ ہو سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے اور اُس کی توحید زمین پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اُس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کیلئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11،12) مشکل الفاظ کے معانی: 66 مرادیابی مراد کا حاصل ہونا آستانه دہلیز ، چوکھٹ ، ڈیوڑھی خود نمائی دکھاوا تذلیل ذلیل کرنا قضاء و قدر خدا تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کی تقدیر خود پسندی تکبر ، اپنے آپ کو پسند کرنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.151 ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اُسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12) مشکل الفاظ کے معانی: دل بر داشته دل نہ لگانا ریاکاری دکھاوا بیخ کنی کرنا جڑ سے اکھیڑ دینا یاستال گہرائی، آخری تہہ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 5 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.152 میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی رُوح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو اور دیوانہ کر دے اور اُس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں آشفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اُس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدت دراز تک اس کے قومی میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.“ نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 402)
153 درس روحانی خزائن متکبر مشکل الفاظ کے معانی: اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ذوالجلال عظمت رکھنے والا مکروہ ناپسندیده قویٰ جاہ و حشمت طاقتیں عزت و احترام اسفل السافلین سب سے زیادہ نیچی جگہ
154 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 6 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے دُعا مانگنے میں شست ہے وہ متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیزو ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبیر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور ممنہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دُعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 403) اور بے شر تا تم پر رحم ہو.“ مشکل الفاظ کے معانی: تواضع عاجزی، خاکساری مُرسل بھیجا ہوا ٹھٹھا ہنسی، تمسخر مسكين
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 7 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.155 تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ.نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا خائن اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گڈوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دور ہے ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12،13)
درس روحانی خزائن مشکل الفاظ کے معانی: تفرقه اختلاف فربہی موٹاپا نفسانیت خود غرضی قدوس پاک غتور غیرت رکھنے والا خائف ڈرنے والا خائن بد دیانت 156
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 8 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.157 ”یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا.دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.شخص جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ (کشتی نوح روحانی خزائن 19 صفحہ 18،19)
درس روحانی خزائن 158 تصرف قبضہ مقدم کرنا ترجیح دینا مشکل الفاظ کے معانی: امور معروفہ نیک کام تعهد خدمت خدمت کی ذمہ داری قمار بازی جوا مستثنیات وہ امور جن میں استثناء رکھا گیا ہو سبکدوش ہونا ذمہ داری ادا کر کے فارغ ہونا
159 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.وجو.شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک زانی، فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، ،مرتشی غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اُس برکت کو ہر گز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہر گز ضائع نہیں کئے جائیں گے ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدااُن کا وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے.احمق ہے وہ دشمن جو اُن کا قصد کرے کیونکہ وہ خدا گود میں ہیں اور خدا ان کی حمایت میں کون خدا پر ایمان لایا؟ صرف وہی جو ایسے ہیں.ایسا ہی وہ شخص بھی احمق ہے جو ایک بے باک گنہ گار اور بد باطن اور شریر النفس کے فکر میں ہے کیونکہ وہ خود ہلاک ہو گا جب سے خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا کہ اس نے نیکوں کو تباہ اور ہلاک اور نیست و نابود کر دیا بلکہ وہ اُن کے لئے بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے اور اب بھی دکھلائے گا وہ خدا نہائت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اُس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں دنیا چاہتی ہے کہ ان کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن ان پر دانت پیستا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے ان کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان ہو
درس روحانی خزائن 160 کو فتح بخشتا ہے کیا ہی نیک طالع وہ شخص ہے جو اُس خدا کا دامن نہ چھوڑے.ہم اُس پر ایمان لائے ہم نے اُس کو شناخت کیا.“ مشکل الفاظ کے معانی: مرتشی رشوت لینے والا دروغ گو جھوٹ بولنے والا نیک طالع خوش قسمت غاصب کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 20، 19) بے باک لا پرواہ افعال شنیعہ برے کام آلودگی گند ظلم سے دوسرے کی چیز پر قبضہ کرنے والا بدباطن برے اندرونہ والا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 10 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.161 ”ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اُس جس کے صادق وفادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کیا بدبخت وہ انسان ہے کو اب تک نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس ؤف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ ٹن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں.اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتا کہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیچنیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار
درس روحانی خزائن 66 ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22،21) مشکل الفاظ کے معانی: رف ڈفلی، ڈھولکی لعل موتی منادی اعلان بے خود بے خبری کی حالت، دیوانگی 162
163 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 11 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.سمجھو کہ ”اے وے لوگو جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو تم یقینا خدا کی کشش اُس وقت تم میں پیدا ہوگی اور اُسی وقت تم گناہ کے مکروہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے ہے سو یاد رہے تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے یقین تمہیں ہر گز حاصل نہیں کیونکہ اُس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اُٹھاتے جو اُٹھانا چاہئے تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بن میں ایک ہزار خونخوار ہے اُس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بن کی طرف اُٹھ سکتا ہے.سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے گناہ یقین پر غالب نہیں ہو سکتا اور جب کہ تم ایک بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اس آگ میں اپنے تئیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیواریں آسمان تک نہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا ہر ایک جو پاک ہوا وہ یقین سے پاک ہوا.یقین دکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے.یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے ہر ایک کفارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے.اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 67 ) مشکل الفاظ کے معانی: لوازم ضروری اشیاء جامہ کپڑے، پوشاک ثبات ثابت قدمی گناہ پر "
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 12 ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.164 ”اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں.اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتا کہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی.اور جیسے گڑ اور کتے مُردار کھاتے ہیں انہوں نے مُردار پر دانت مارے وہ خدا سے بہت دُور جا پڑے انسانوں کی پرستش کی اور خنزیر کھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے سے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح اُن میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے ان کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نے ان کے تمام اندرونی اعضا کاٹ دیئے ہیں پس تم اس جذام سے ڈرو.میں تمہیں حد اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اُس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آجائے کہ خدا ہی خدا ہے اور
درس روحانی خزائن 165 سب بیچ ہے.تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہو مگر اُس کے اذن سے.ایک مردہ اس پر ہنسی کرے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سے اس کے لئے بہتر تھا.“ مشکل الفاظ کے معانی: تقلید پیروی حد اعتدال میانه روی، در میانه راسته سفلی جذام کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22 ) کوڑھ اذن اجازت
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 13 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.166 ”اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے.یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو.کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تجلی کے رُک سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پا سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو.کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آسکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے.مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے.مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پا گئے ہیں کیونکہ وہی گناہ نجات پائیں گے.مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہو گا.گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہ آتش افشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسان کو معدوم کر رہی ہے پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اُس سے تعلق توڑ سکو.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 66،67)
درس روحانی خزائن مشکل الفاظ کے معانی: جذبات نفس نفس کی خواہشات فدیه بدلہ معدوم مہلک غائب، مٹانا ہلاک کرنے والی 167
168 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 14 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.عملوں پر جن کو اللہ تعالیٰ دنیا میں تکالیف دیتا ہے اور جو لوگ خود خدا تعالیٰ کے لیے دُکھ اُٹھاتے ہیں.اُن دونوں کو خدا تعالیٰ آخرت میں بدلہ دیگا.دنیا تو چلنے کا مقام ہے، رہنے کا نہیں.اگر کوئی شخص سارے سامان خوشی کے رکھتا ہے ، تو خوشی کا مقام نہیں.یہ سب آرام اور دُکھ ختم ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا جہان آنیوالا ہے جو دائمی ہے.جو لوگ اس مختصر جہاں میں انسانی بناوٹ میں فرق اور کمی بیشی دیکھ کر دوسرے جنم کے گناہوں اور محمول کر لیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.وہ یہ معلوم نہیں کرتے کہ آخرت کا ایک بڑا جنم آنیوالا ہے اور جن کو خد اتعالیٰ نے پیدائش میں کوئی نقص عطا کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود بخود خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے دُکھوں میں ڈال دیا ہے ان دونوں کو وہاں چل کر بدلہ ملے گا.یہ جہان تو تخم ریزی کا جہان ہے اور ایسے موقع حاصل کرنے کے واسطے ہے.جن سے خدا تعالیٰ راضی ہو.بعض لوگ اپنے عملوں سے خدا کو راضی کرتے اور بعض اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر خدا کو راضی کرتے ہیں.ایک شخص کے دو خدمتگار ہیں.ایک کو وہ ایسے کام اور سفر پر روانہ کرتا ہے کہ جہاں اس کو سواری مل سکتی اور راستہ میں بھی سایہ دار اور ٹھنڈا ہے اور ہر طرح کا آرام ہے.دوسرے خدمتگار کو ایسی طرف روانہ کرتا ہے جس راستہ میں نہ تو سواری مل سکتی ہے اور نہ سایہ ہے بلکہ پیدل چلنا اور سخت گرمی اور دھوپ اور لُو کا سامنا ہے.مگر وہ جانتا ہے کہ جس کو جتنی تکلیف ہو گی اس کو اتنا ہی بدلہ اور عوض خدمت دوں گا.پس پھر ان دونوں خدمتگاروں کو اپنے سفر پر کیا اعتراض ہے ؟ اس طرح لنگڑے ، اندھے ، اپاہج ، غریب، فقیر وغیرہ لوگ جو خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اُن کو جب اس آخری جہان میں چل کر بدلہ ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم گوناگوں جنم مان لیں اور اس بڑے اور حقیقی جنم سے اعتراض کریں.جو دُکھ اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں.وہ تو ثواب حاصل کرنے کو دیئے ہیں، جبکہ وہ رحم کر نیوالا ہے تو
درس روحانی خزائن 169 کسی کو کسی طرح اور کسی کو کسی طرح بدلہ دیتا اور دیتا رہے گا.پس اپاہج اور اندھے وغیرہ کو اپنی ان نقائص خلقت کا بدلہ قیامت میں مل جاویگا.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شاہی گھر میں پید اہو اہے اور سارے سامان عیش و نشاط مہیا ہیں پر وہ بار یک در بار یک دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو گدائی اور فقیری حیثیت میں بھیک مانگتا پھر تا ہے ایسے سکھوں میں ہو کہ اس امیر زادے کو کبھی میسر نہیں.پھر کیا کہیں دولت والے کو یہ حکم دیا ہے کہ اس سے عیاشی کر بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ غریب بھائی کی طرح عبادت کر.بہر حال یہ دنیا چند روزہ ہے.انسان کیا سمجھتا ہے کہ میری عمر کس قدر ہے.“ مشکل الفاظ کے معانی: تخم ریزی بیج بونا خلقت ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 72-73) تخلیق ، بناوٹ
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 15 وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.170 ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جو یقینی وسائل سے خدا کو دکھا نہیں سکتا وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جس میں بجز پرانے قصوں کے اور کچھ نہیں وہ جھوٹا ہے.خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی اس کی قدرتیں جیسی پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں اور اُس کا نشان دکھلانے پر جیسا کہ ہے اور یقینی پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو وہ مذہب ہلاک شدہ ہے جس کے معجزات صرف قصے ہیں جس کی پیشگوئیاں صرف قصے ہیں اور وہ جماعت ہلاک شدہ ہے جس پر خدا نازل نہیں ہوا اور جو یقین کے ذریعہ سے خدا کے ہاتھ سے پاک نہیں ہوئی.جس طرح انسان نفسانی لذات کا سامان دیکھ کر اُن کی طرف کھینچا جاتا ہے اسی طرح انسان جب روحانی لذات یقین کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کا حسن اس کو ایسا مست کر دیتا ہے کہ دوسری تمام چیزیں اُس کو سراسر رڈی دکھائی دیتی ہیں اور انسان اُسی وقت گناہ سے مخلصی پاتا ہے جب کہ وہ خدا اور اس کے جبروت اور جزا سزا پر طور پر اطلاع پاتا ہے ہر ایک بیباکی کی جڑھ بے خبری ہے جو شخص خدا کی یقینی معرفت سے کوئی حصہ لیتا ہے وہ پیاک نہیں رہ سکتا.اگر گھر کا مالک جانتا ہے کہ ایک پُر زور سیلاب نے اس کے گھر کی طرف رخ کیا ہے اور یا اس کے گھر کے ارد گرد آگ لگ چکی ہے اور صرف ایک ذرہ سی جگہ باقی ہے تو وہ اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا.تو پھر تم خدا کی جزا سزا کے یقین کا دعویٰ کر کے کیونکر اپنی خطرناک حالتوں پر ٹھہر رہے ہو سو تم آنکھیں کھولو اور خدا کے اُس قانون کو دیکھو جو تمام دنیا میں پایا جاتا ہے چوہے مت بنو جو نیچے کی طرف جاتے ہیں بلکہ بلند پرواز کبوتر بنو
درس روحانی خزائن 171 جو آسمان کے فضا کو اپنے لئے پسند کرتا ہے.“ مشکل الفاظ کے معانی: وسائل ذرائع ، اسباب بیباک بے خوف، گستاخ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 67،68) مخلصی جبروت چھٹکارا عظمت و جلال
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 16 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.172 اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصہ ملے گا.اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہو گا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں اُن لوگوں میں پھیلیں گی.اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے.در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدائے تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے.“ مشکل الفاظ کے معانی: ضلالت گمراہی (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 376،377) مدلل دلیلوں والا ولایت ولی بننا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 17 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.اُن دوستوں کے لئے جو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں نصیحت کی باتیں عزیزاں بے خلوص و صدق نکشا بند را ہے را مصفا قطره باید که تا گوہر شود پیدا 173 اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو.خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے.ہر یک طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے.اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو.یا گالی کے مقابل پر گالی دو.کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 546،547)
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 18 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.174 ”یقینا یاد رکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدائے تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے.لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا.ہم کیوں کر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو.اس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے.سو اے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ.اور پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ سچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیر تا رہتا ہے اور رڈی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے.اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو رڈی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 547،548) مشکل الفاظ کے معانی: نابود نیست، ناپید ، معدوم ملکہ خاصیت، خوبی رعایت رکھنا خیال رکھنا ملكات خوبیاں، خاصتیں
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 19 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.175 انبیاء اور رسل کو جو بڑے بڑے مقام ملتے ہیں وہ ایسی معمولی باتوں سے نہیں مل جاتے جو نرمی سے اور آسانی سے پوری ہو جائیں بلکہ ان پر بھاری ابتلاء اور امتحان وارد ہوئے جن میں وہ صبر اور استقلال کے ساتھ کامیاب ہوئے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو بڑے بڑے درجات نصیب ہوئے.دیکھو حضرت ابراہیم پر کیسا بڑا ابتلاء آیا.اس نے اپنے ہاتھ میں چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور اس چھری کو اپنے بیٹے کی گردن پر اپنی طرف سے پھیر دیا مگر آگے بکرا تھا.ابراہیم امتحان میں پاس ہوا.اور خدا تعالیٰ نے بیٹے کو بھی بچا لیا.تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہوا کہ اُس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیا ورنہ ابراہیم نے اس کو ذبح کر دیا تھا.اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا.اور توریت میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر کیا تو ان کو گن سکتا ہے.اسی طرح تیری اولاد بھی نہ گنی جائے گی.تھوڑے سے وقت کی تکلیف تھی وہ تو گذر گئی.اس کے نتیجہ میں کس قدر انعام ملا.آج تمام سادات اور قریش اور یہود اور دیگر اقوام اپنے آپ کو ابراہیم کا فرزند کہتے ہیں.گھڑی دو گھڑی کی بات تھی وہ تو ختم ہو گئی اور اتنا بڑا انعام ان کو خدا تعالیٰ کی طرف ملا.“ مشکل الفاظ کے معانی: ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 416،417 مطبوعہ ربوہ) استقلال صبر سے ، مستقل مزاجی سے صادق راستباز، سچا رسل رسول کی جمع
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 20 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.176 ”انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں.بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے ، اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں.ایک ترک شر دوسرا افاضہ خیر.ترک شر سے انسان کامل نہیں بن سکتا.جب تک اس کے ساتھ افاضہ خیر نہ ہو.یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان ہو اور اُن کا علم ہو.جب تک یہ بات نہ ہو انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا.دوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے.بادشاہوں کے رُعب اور تعزیرات ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں آحكَمُ الْحَاكِمِین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے.کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے بجز اس کے کہ اُس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے.الغرض بدیوں سے بچنے کا مرحلہ تب طے ہوتا ہے.جب خدا پر ایمان ہو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ اُن راہوں کی تلاش کرے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے اختیار کیں.وہ ایک ہی راہ ہے جس پر جس قدر راستباز اور برگزیدہ انسان دنیا میں چل کر خدا تعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہوئے.اس راہ کا پتہ یوں لگتا ہے کہ انسان معلوم کرے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ پہلا مرحلہ بدیوں سے بچنے کا تو خداتعالی کی جلالی صفات کی تجلی سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ بدکاروں کا دشمن ہے اور دوسرا مرتبہ خدا تعالیٰ کی جمالی تجلی سے ملتا ہے اور آخر یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوت اور طاقت نہ ملے جس کو اسلامی اصطلاح کے موافق روح القدس کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوتا.یہ ایک قوت ہوتی ہے، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.اس کے نزول کے ساتھ ہی دل میں ایک سکینت آتی ہے اور طبیعت میں نیکی کے ساتھ ایک محبت اور
درس روحانی خزائن 177 پیار پیدا ہو جاتا ہے.جس نیکی کو دوسرے لوگ بڑی مشقت اور بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں.یہ ایک لذت اور سرور کے ساتھ اس کو کرنے کی طرف دوڑتا ہے.جیسے لذیذ چیز بچہ بھی شوق سے کھالیتا ہے.اسی طرح جب خدا تعالیٰ سے تعلق ہو جاتا ہے اور اس کی پاک رُوح اس پر اترتی ہے.پھر نیکیاں ایک لذیذ اور خوشبو دار شربت کی طرح ہوتی ہیں.وہ خوبصورتی جو نیکیوں کے اندر موجود ہے اس کو نظر آنے لگتی ہے اور بے اختیار ہو ہو کر ان کی طرف دوڑتا ہے.بدی کے تصور سے بھی اُس کی رُوح کانپ جاتی ہے.66 ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 466 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ کے معانی: ترک شہر برائی کو چھوڑنا تعزیرات ہند ہندوستان کے فوجداری قوانین افاضہ خیر بھلائی کو بڑھانا احْكُمُ الْحَاكِمِينَ حاکموں سے زیادہ مضبوط ، حاکم اعلیٰ مدارج درجے
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 21 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.178 اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہو گا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا.پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا.دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھادر پیش ہے.بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوب حقیقی اور محسن حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے.خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہو جاؤ.وہ بڑی مراد ہے.اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو.عزیزو!! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو.موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے.ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو.نماز پڑھو نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو.اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو.تب ان دونوں وضوؤں کے ے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا ساتھ تم پر رحم کیا جائے.سچائی اختیار کرو سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے.کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں.نہایت بد بخت آدمی اپنے فاسقانہ افعال اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں.تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.66 (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 548،549)
179 درس روحانی خزائن مشکل الفاظ کے معانی: دین العجائز (1) محبت اور عقیدت کے رنگ میں بغیر کسی جرح اور تنقید کے بات مانتے ہوئے سر تسلیم جوا خم کرنا (2) بغیر سوچے سمجھے اندھی تقلید کرنا.وہ لکڑی جو ہل چلانے والے بیلوں کی گردن پر رکھی جاتی ہے
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 22 180 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اشتہار تکمیل تبلیغ میں جو یکم دسمبر 1888ء کو شائع فرمایا.اس مضمون میں آپ شرائط بیعت بیان فرماتے ہیں:.اول بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرلے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے.دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر یک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدائے تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو ہر روزہ اپنا ورد بنائے گا.چهارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.یہ کہ ہر حال رنج وراحت اور فسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا.اور ہر یک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں طیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وار رہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.“ مشکل الفاظ کے معانی: (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563،564) مداومت مسلسل کرتے چلے جانا فسر اور ٹیسر تنگی اور آسائش
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 23 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.وو 181 ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آئے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرلے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.هشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.“ مشکل الفاظ کے معانی: اتباع پیروی اطاعت، پیچھے چلنا (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) قال الرسول رسول کا فرمان، احادیث غرور، گھمنڈ نخوت فروتنی عاجزی، انکساری متابعت قال الله اللہ کا فرمان، قرآن تا وقت مرگ وفات تک عقد اخوت بھائی چارے کا عہد
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 24 ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.182 خوب یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے اگر ایک حصہ شیطان کا ہے اور ایک اللہ کا تو اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا.یہ سلسلہ اس کا اسی لیے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے.اگر چہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے.جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر پھینک دیتا ہے وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے.لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو.بیعت کچھ چیز نہیں ہے جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہو گا.اسی طرح خدا کا معاملہ ہے وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے کیا ہو سکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو اس کا نام تو نفاق ہے.انسان کو چاہیے کہ اس مرحلہ میں زید و بکر کی پروا نہ کرے مرتے دم تک اس پر قائم ر بدی کی دو قسمیں ہیں.ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا.اس کی عظمت کو نہ جاننا.اُس کی عبادت اور اطاعت میں کسل کرنا.دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا.اُن کے حقوق ادانہ کرنے.اب چاہئیے کہ دونوں قسم کی خرابی نہ کرو.خدا کی اطاعت پر قائم رہو.جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم کے بندوں کو تکلیف نہ دو.قرآن کو بہت غور سے پڑھو.اس پر عمل کرو.ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو.پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو.غرضکہ کوئی ایسا حکم الہی نہ ہو جسے تم ٹال دو.بدن کو بھی صاف رکھو اور دل رہو.رہو خدا
درس روحانی خزائن کو ہر ایک قسم کے بیجا کینے ، بغض ، و حسد سے 183 سے پاک کرو.یہ باتیں ہیں جو خد اتم سے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 68 مطبوعہ ربوہ) 66 چاہتا ہے.مشکل الفاظ کے معانی: نفاق منافقت کسل سستی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 25 184 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلیا نام کی ابتدائی عمر کی مجاہدانہ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:.”ہمارے سید و مولی مئی ایم نے ایک بڑا حصہ عمر کا جو چالیس برس ہے بیکسی اور پریشانی اور یتیمی میں بسر کیا تھا کسی خویش یا قریب نے اس زمانہ تنہائی میں کوئی حق خویشی اور قرابت کا ادا نہیں کیا تھا یہاں تک کہ وہ روحانی بادشاہ اپنی صغر سنی کی حالت میں لاوارث بچوں کی طرح بعض بیابان نشین اور خانہ بدوش عورتوں کے حوالہ کیا گیا اور اُسی بے کسی اور غریبی کی حالت میں اس سید الانام نے شیر خوارگی کے دن پورے کئے اور جب کچھ سن تمیز پہنچا تو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں کوئی بھی نہیں ہوتا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اُس مخدوم العالمین کے سپرد کی اور اُس تنگی کے دنوں میں بجز ادنیٰ قسم کے اناجوں یا بکریوں کے دودھ کے اور کوئی غذا نہ تھی جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت صلی الم کی شادی کے لئے کسی چچا وغیرہ نے باوجود آنحضرت کے اول درجہ کے حسن وجمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طور پر محض خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک مکہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ ملک کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی ال نیم کے حقیقی چچا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابوطالب رئیس مکہ اور اپنی قوم سردار بھی تھے اور دنیوی جاہ و حشمت و دولت و مقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی علیم کے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس دردناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی للی کم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کے
درس روحانی خزائن 185 کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اور اُن کے دوسرے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں.سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سید و مولی صلی للی ام کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں.نادار ہے جس کے ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا ڈالنا ہے سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کنجیاں دی جائیں گی.“ مشکل الفاظ کے معانی: خویش یا قریب عزیز، رشته دار (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 112 تا 114 حاشیہ) صغر سنی کم عمری حق خویشی رشتہ داروں کے حقوق سید الانام مخلوقات کے سردار جس کی خدمت کی جائے سرد مہری بے مروتی، بے رحمی مخدوم
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 26 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.186 ”اسلام کی بابت جب عیسائی لوگ کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو اسلامی جنگوں پر کلام کرنے لگتے ہیں حالانکہ خود انکے گھر میں یشوع اور موسی کے جنگوں کی نظیریں موجود ہیں.اور جب وہ اسلامی جنگوں سے کہیں بڑھ کر مورد اعتراض ٹھہر جاتے ہیں، کیونکہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی جنگ تھے.اور ان میں وہ شدت اور سخت گیری ہر گز نہ تھی، جو موسیٰ اور یسوع کے جنگوں میں پائی جاتی ہے.اگر وہ یہ کہیں کے موسیٰ اور یسوع کی لڑائیاں عذاب الہی کے رنگ میں تھیں.تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوں عذاب الہی کی صورت میں تسلیم نہیں کرتے.موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے.بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلے میں تو بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں اصل بات تو یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوامیس الہیہ سے ناواقف تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کے مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرمایا، کیونکہ وہ بڑا غفور رحیم ہے.پھر اسلامی جنگوں میں موسوی جنگوں کے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیت ہے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خادموں کو مکہ والوں نے برابر تیرہ سال تک خطر ناک ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دکھ اُن ظالموں نے دیئے.چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور بعض بڑے بڑے عذابوں سے مارے گئے چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ بیچاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذاؤں کے ساتھ مار دیا.یہاں تک کے ایک عورت کو دو اونٹوں سے باندھ دیا اور پھر ان کو مختلف جہات میں دوڑا دیا اور اس بیچاری عورت کو چیر ڈالا اس قسم کی ایذارسانیوں اور تکلیفوں کو برابر تیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کہ ساتھ برداشت کیا.اس پر بھی انہوں نے اپنے ظلم کو نہ روکا اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ نیلم کے قتل کا منصوبہ کیا گیا.اور جب آپ نے خدا تعالیٰ سے اُن کی شرارت کی اطلاع پاکر مکہ سے مدینہ کو ، ہجرت کی.پھر بھی انہوں نے تعاقب کیا اور آخر جب یہ لوگ
187 درس روحانی خزائن پھر مدینہ پر چڑھائی کر کے گئے ، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا، کیونکہ اب وہ وقت آگیا تھا کہ اہل مکہ اپنی شرارتوں اور شوخیوں کی پاداش میں عذاب الہی کا مزہ چکھیں ، چنانچہ خدا تعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیا تھا، کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں گئے ، تو عذاب الہی سے ہلاک کئے جائیں گئے ، وہ پورا ہوا.خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی گئی أَذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٌّ ( الحج : 40،41) یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی.جن کے قتل کے لیے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لیے اجازت دی گئی) کے پر ظلم ہوا ہے.اور خدا تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ مظلوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے.ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا کہ اُنہوں نے کہا کہ ہمارارت اللہ ہے یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے.“ اُن پر ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 70،71 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ کے معانی: نظیریں مثالیں جہات اطراف مورد اعتراض اعتراض کی جگہ ، نشانہ نوامیس الہیہ اللہ تعالیٰ کے احکامات، قوانین الہی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 27 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.188 " پہلا مقصد آنحضرت صلی اللہ ﷺ کا عرب کی اصلاح تھی اور عرب کا ملک اُس زمانہ میں ایسی حالت میں تھا کہ بمشکل کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان تھے.کو نسی بدی تھی جو ان میں نہ تھی.اور کو نسا شرک تھا جو ان میں رائج نہ تھا چوری کر ناڈا کہ مارنا ان کا کام تھا اور ناحق کا خون کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا معمولی کام تھا جیسا کہ ایک چیونٹی کو پیروں کے نیچے کچل دیا جائے.یتیم بچوں کو قتل کر کے اُن کا مال کھا لیتے تھے.لڑکیوں کو زندہ بگور کرتے تھے.زناکاری کے ساتھ فخر کرتے اور علانیہ اپنے قصیدوں میں اُن گندی باتوں کا ذکر کرتے تھے.شراب خواری اُس قوم میں اس کثرت سے تھی کہ کوئی گھر بھی شراب سے خالی نہ تھا اور قمار بازی میں سب ملکوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے.حیوانوں کی عار تھی اور سانپوں اور بھیڑیوں کی ننگ.پھر جب ہمارے نبی صلی علی یکم ان کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے اور اپنی باطنی توجہ سے ان کے دلوں کو صاف کرنا چاہا تو اُن میں تھوڑے ہی دنوں میں ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی کہ وہ وحشیانہ حالت سے انسان بنے اور پھر انسان سے مہذب انسان.اور مہذب انسان سے باخدا انسان.“ مشکل الفاظ کے معانی: پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 463،464) زنده بگور زندہ دفن کرنا، زندہ قبر میں ڈال عار شرم، عیب دینا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 28 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.189 میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہر گز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجو د اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میر ابھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چاہیئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میر ابھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے اگر میر ابھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہو جائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے.“ مشکل الفاظ کے معانی: (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395،396) حیف افسوس مشیختیں شوخیاں، گھمنڈ، غرور
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 29 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.190 ” میں نے سنا ہے کہ بعض تم سے حدیث کو بکلی نہیں مانتے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سخت غلطی کرتے ہیں میں نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ایسا کرو بلکہ میر امذ ہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں سب سے اول قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاری میں تھے.جیسا کہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسی بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا اسی طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے کہ بجز خدا کے تم کسی چیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی.سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے بر خلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھو لیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلَّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26،27) مشکل الفاظ کے معانی: ظل سایه 66 مصدق تصدیق کرنے والا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 30 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.191 ”اے امیر و اور بادشاہو! اور دولتمند و !! آپ لوگوں میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو خد ا سے ڈرتے اور اس کی تمام راہوں میں راستباز ہیں.اکثر ایسے ہیں کہ دنیا کے ملک اور دنیا کے املاک سے دل لگاتے ہیں اور پھر اسی میں عمر بسر کر لیتے ہیں اور موت کو یاد نہیں رکھتے.ہر ایک امیر جو نماز نہیں پڑھتا اور خدا سے لا پروا ہے اُس کے تمام نوکروں چاکروں کا گناہ اس کی گردن پر ہے.ہر ایک امیر جو شراب پیتا ہے اُس کی گردن پر ان لوگوں کا بھی گناہ ہے جو اس کے ماتحت ہو کر شراب میں شریک ہیں.اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ.تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو.ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کر و انسان کو تباہ کرنے والی صرف ، شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہنر ارہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے.پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ.حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ بد خلق اور بے مہر ہو نا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ خدا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہو نا لعنتی زندگی ہے.ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ.پس کیا بد قسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے حرام کو ایسی بیا کی سے استعمال کرتا ہے کہ گویاوہ حرام اس کے لئے حلال ہے غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا.اے عزیز و تم تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزر چکی سو.
درس روحانی خزائن اپنے مولیٰ کو ناراض مت کرو.“ مشکل الفاظ کے معانی: املاک سامان گانجا بھنگ کا پودا 192 کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 70،71) بے مہر بے رحم، سنگدل تاڑی شراب کی ایک قسم
193 درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 31 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.دو طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہو گا.ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصہ ملے گا.اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑ ا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدتل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہو گا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں اُن لوگوں میں پھیلیں گی.اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے.در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدائے تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 376،377)
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 32 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.194 ”اے وے لو گو جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو تم یقینا سمجھو کہ خدا کی کشش اُس وقت تم میں پیدا ہو گی اور اُسی وقت تم گناہ کے مکر وہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے سو یا د رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے یقین تمہیں ہر گز حاصل نہیں کیونکہ اُس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اُٹھاتے جو اُٹھانا چاہئے تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اُس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بن کی طرف اُٹھ سکتا ہے.سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر گناہ پر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے گناہ یقین پر غالب نہیں ہو سکتا اور جب کہ تم ایک بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیواریں آسمان تک ہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا ہر ایک جو پاک ہو اوہ یقین سے پاک ہوا.یقین دکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے.یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے ہر ایک کفارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے.اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 67) مشکل الفاظ کے معانی: بھسم جلا کر خاک کرنے والی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 33 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.مقر آن مجید کے بطور نمونہ چند احکام 195 فرماتا ہے کہ تم صرف خدا کی بندگی کرو اور صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد چاہو اور پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور کسی قسم کا فساد مت کرو.اور تم زکوۃ اور نماز کو قائم کرو اور مقام ابراہیم سے جائے نماز ٹھہراؤ اور خیرات میں ایک دوسرے سے سبقت کرو اور مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا.اور میرا شکر کرو.اور مجھ سے دعا مانگو اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید ہوں ان کو مردے مت کہو اور جو تم کو سلام علیکم کرے اس کا نام کافر اور بے ایمان نہ رکھو.پاک چیزیں زمین کی پیداوار میں سے کھاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو.تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں مگر جو تم میں سے بیمار یاسفر پر ہو وہ اتنے روزے پھر رکھے.تم ایک دوسرے کے مال کو ناحق کے طور پر مت کھاؤ اور تم تقویٰ اختیار کرو تا فلاح پاؤ اور تم خدا کی راہ میں ان سے جو تم سے لڑیں لڑو لیکن حد سے مت بڑھاؤ اور کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور تم خدا کی راہ میں خرچ کرو اور دانستہ اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو.اور لوگوں سے احسان کرو کہ خدا محسنین کو دوست رکھتا ہے اور حج اور عمرہ کو اللہ کے واسطے پورا کرو اور اپنے پاس تو شہ رکھو کہ توشہ میں یہ فائدہ ہے کہ تم کسی دوسرے سے سوال نہیں کرو گے یعنی سوال ایک ذلت ہے اس سے بچنے کے لئے تدبیر کرنی چاہئے اور تم صلح اور اسلام میں داخل ہو.اور مشرکات سے نکاح مت کرو جب تک ایمان نہ لاویں اور مشرکین سے اے عور تو تم نکاح مت کرو جب تک ایمان نہ لاویں اور اپنے نفسوں کے لئے کچھ آگے بھیجو اور خدا تعالیٰ کو اپنی قسموں کا عرضہ مت بناؤ اور عورتوں کو دکھ دینے کی غرض سے بند مت رکھو اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور جو روئیں رہ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن نکاح کرنے سے رکی رہیں.اگر تم طلاق دو تو عورتوں کو احسان کے ساتھ رخصت کرو.اگر تمہیں خوف ہو تو نماز پیروں سے چلتے چلتے یا سوار ہونے کی حالت میں پڑھ لو.اگر اپنے صدقات لوگوں کو دکھلا کے دو تو یہ
درس روحانی خزائن 196 عموماً اچھی بات ہے کہ تالوگ تمہارے نیک کاموں کی پیروی کریں اور اگر چھپا کر محتاجوں کو دو تو یہ تمہارے نفسوں کے لئے بہتر ہے جب تم کسی کو قرضہ دو تو ایک نوشت لکھالو اور قرض ادا کرنے میں خدا سے ڈرو اور کچھ باقی مت رکھو اور جب تم کوئی خرید و فروخت کرو تو اس پر گواہ رکھ لو.اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کاتب نہ ملے تو کوئی جائیداد قبضہ میں کر لو.تم سب مل کر خدا کی رسی سے پنجہ مارو اور باہم پھوٹ مت ڈالو.تم میں سے ایسے بھی ہونے چاہئیں کہ جو امر معروف اور نہی منکر کریں.تم خدا کی مغفرت کی طرف دوڑو.مشکل الفاظ کے معانی: فلاح کامیابی نوشت لکھنا، تحریر 66 شہادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 335،336) توشه زادراه عرضه نشانه
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 34 197 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.یا د رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہر گز نہیں نکل سکتیں.وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقا بل کے سامنے جلد طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے.جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دیئے جاتے.غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے تمہارا غضب ایسا نہ ہو کہ بارود کی طرح جب آگ لگے تو ختم ہونے میں ہی نہیں آتی.بعض لوگ تو غصہ سے سودائی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی سر میں پتھر مار لیتے ہیں.“ کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے.جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان، دل سے اپنے بھائی کے خلاف نا پاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے.اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 104 مطبوعہ ربوہ) ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 214 مطبوعہ ربوہ) ” مرد کو چاہیے کہ اپنے قویٰ کو بر محل اور حلال موقع پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت عضی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی مخالفت ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے.66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 157 مطبوعہ ربوہ) مشکل الفاظ کے معانی: گندہ دہن بد زبان بر محل با موقع
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 35 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.198 اپنی جماعت کے لئے اطلاع : یاد رہے کہ یہ اشتہار محض اس غرض سے ال شائع کیا جاتا ہے کہ تا میری جماعت خدا کے آسمانی نشانوں کو دیکھ کر ایمان اور نیک عملوں میں ترقی کرے اور ان کو معلوم ہو کہ وہ ایک صادق کا دامن پکڑ رہے ہیں نہ کاذب کا.اور تاوہ راستبازی کے تمام کاموں میں آگے بڑھیں اور اُن کا پاک نمونہ دنیا میں چمکے.ان دنوں میں وہ چاروں طرف سے سن رہے ہیں کہ ہر ایک طرف سے مجھ پر حملے ہوتے ہیں اور نہایت اصرار سے مجھ کو کافر اور دجال اور کذاب کہا جاتا ہے اور قتل کرنے کے لئے فتوے لکھے جاتے ہیں.پس ان کو چاہیے کہ صبر کریں اور گالیوں کا گالیوں کے ساتھ ہر گز جواب نہ دیں اور اپنا نمونہ اچھا دکھاویں.کیونکہ اگر وہ بھی ایسی ہی درندگی ظاہر کریں جیسا کہ اُن کے مقابل پر کی جاتی ہے تو پھر اُن میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے.اس لئے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ ہر گز اپنا اجر پا نہیں سکتے جب تک صبر اور تقویٰ اور عفو اور در گذر کی خصلت سب سے زیادہ اُن میں نہ پائی جائے.اگر مجھے گالیاں دی جاتی ہیں تو کیا یہ نئی بات ہے ؟ کیا اس سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کو ایسا ہی نہیں کہا گیا؟ اگر مجھ پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کیا اس سے پہلے خدا کے رسولوں اور راستبازوں پر الزام نہیں لگائے گئے ؟ کیا حضرت موسیٰ پر یہ اعتراض نہیں ہوئے کہ اُس نے دھوکہ دے کر نا حق مصریوں کا مال کھایا اور جھوٹ بولا کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں اور جلد واپس آئیں گے اور عہد توڑا اور کئی شیر خوار بچوں کو قتل کیا؟ اور کیا حضرت داؤد کی نسبت نہیں کہا گیا کہ اُس نے ایک بیگانہ کی عورت سے بدکاری کی اور فریب سے اور یا نام ایک سپہ سالار کو قتل کر دیا اور بیت المال میں ناجائز دست اندازی کی؟ اور کیا ہارون کی نسبت یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ اُس نے گوسالہ پرستی کرائی ؟ اور کیا یہودی اب تک نہیں کہتے کہ یسوع مسیح نے دعویٰ کیا تھا کہ میں داؤد کا تخت قائم کرنے آیا ہوں اور یسوع کے اس لفظ سے بجز اس کے کیا مراد تھی کہ اُس نے اپنے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی
درس روحانی خزائن 199 کی تھی جو پوری نہ ہوئی؟ اور کیونکر ممکن ہے کہ صادق کی پیشگوئی جھوٹی نکلے؟ یہودی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسیح نے کہا تھا کہ ابھی بعض لوگ زندہ موجود ہوں گے کہ میں واپس آؤں گا.مگر یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اب تک واپس نہیں آیا.ایسا ہی ہمارے نبی صلی این یکم کے بعض اُمور پر جاہلوں کے اعتراض ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے واقعہ پر بعض نادان مرتد ہو گئے تھے.اور کیا اب تک پادریوں اور آریوں کی قلموں سے وہ تمام جھوٹے الزام ہمارے سید و مولی صلی ال نیم کی نسبت شایع نہیں ہوتے جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں؟“ مشکل الفاظ کے معانی: بهتان الزام گوساله پرستی بچھڑے کی پرستش کرنا تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 513،514) دست اندازی مداخلت کرنا، ہاتھ ڈالنا
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 36 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.200 ” خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی علیم کے سوانح کو دو حصوں پر منقسم کر دیا.ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتحیابی کا.تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے.سو ایسا ہی آنحضرت صلی علیم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہو گئے.چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی للی کم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا.اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی یم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اپنے کام میں سست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا.اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ ، تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی لی نام کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا.دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا.ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پا کر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا.چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور حقیقتار استباز نہ ہو یہ اخلاق ہر گز دکھلا نہیں سکتا.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 447) مشکل الفاظ کے معانی: سوانح حالات زندگی خُلق خوش مزاجی ، عادت وارد ہونا پیش آنا جزع فزع رونا دھونا ثروت مال
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 37 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.201 ” جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شر“ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بد بختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھو کے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے بر خلاف ہے.کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تا ہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے کیا یہی دینداری ہے ؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجالانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں.سبحان اللہ ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اِس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت.بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے.مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے.اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پاکر بندوق کا فیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں.انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں.کیا
درس روحانی خزائن 202 خدا نے میں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پا کر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے.“ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 11) مشکل الفاظ کے معانی: شامت اعمال گناہوں کی سزا صریح کھلا، سامنے نظر آنے والا عوام کالانعام عام لوگ جو مثل چارپایوں کے ہیں، فیر یعنی بالکل ساده فائر، Fire
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 38 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں:.203 میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہو تا ہے.انسان کی ہمدردی میر افرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اُس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس نص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے ؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا.اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا پس اس قدر دولت پاکر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھو کے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہو گا میرا دل ان کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جو اہر ان کو اتنے ملیں کہ اُن کے دامن استعداد پر ہو جائیں.“ اربعین نمبر 1 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344،345) مشکل الفاظ کے معانی: معدن کان، دفینه ، خزانه تنگ گذرانی غربت، تنگدستی بے بہا بیش قیمت کباب ہونا رنج ، دکھ اٹھانا فقر و فاقہ غربت اور تنگی جواہر جوہر کی جمع، قیمتی پتھر ، موتی
درس روحانی خزائن درس روحانی خزائن نمبر 39 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:.204 یاد رہے کہ کفر اور ایمان کا فیصلہ تو مرنے کے بعد ہو گا اس کے لئے دنیا میں کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا اور جو پہلی امتیں ہلاک کی گئیں وہ کفر کے لئے نہیں بلکہ اپنی شوخیوں اور شرارتوں اور ظلموں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں.فرعون بھی اپنے کفر کے باعث سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ اپنے ظلم اور زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوا.محض کفر کے سبب سے اس دنیا میں کسی پر عذاب نازل نہیں ہو تا.اگر کوئی کافر ہو مگر غریب مزاج اور آہستہ رو ہو اور ظالم نہ ہو تو اس کے کفر کا حساب قیامت کے دن ہو گا.اس دنیا میں ہر ایک عذاب ظلم اور بدکاری اور شوخیوں اور شرارتوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہو گا.اگر خدا تعالیٰ کی نظر میں لوگ شوخ طبع اور متکبر اور ظالم اور بے خوف اور مردم آزار ہوں گے خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ ہند و خواہ عیسائی عذاب سے بچ نہیں سکیں گے.کاش لوگ اس بات کو سمجھیں اور غریب مزاج اور بے شر انسان بن جائیں.خدا تعالیٰ کسی کو عذاب دے کر کیا کرے گا اگر وہ اُس سے ڈرتے رہیں.خدا تعالیٰ کے تمام نبی رحمت کے لئے آئے اور جس نے رحمت کو قبول نہ کیا اُس نے عذاب مانگا.ہر پاک نبی جو دنیا میں آیا وہ رحمت کا پیغام لے کر آیا اور عذاب خدا سے نہیں بلکہ لوگوں نے اپنی کرتوتوں سے آپ پیدا کیا.“ مشکل الفاظ کے معانی: آہستہ رو سست رفتار مردم آزار آدمیوں کو ستانے والا ، ظالم ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 346،347) کرتوتوں برا کام، ناشائستہ حرکت