Language: UR
جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ طویل ہے۔ زیر نظر کتاب ایک ایسے شخص کی مرتب کردہ ہے جو ان مخالفت کی آندھیوں میں عینی شاہد ہے۔ احمدیت کی تبلیغ اور پھر اٹھنے والی مخالفت کا تجزیہ ایک خاصے کا دلچسپ مطالعہ ہے۔ احمدیت پر ہونے والے اعتراضات کی تاریخ کا جائزہ پیش کرکے مصنف نے بتایا ہے کہ کس طرح یہ دشمن مولوی حالات اور وقت کے مطابق اپنے انداز، طریق اور مخالفت کی آگ کو مزید بھڑکانے کے لئے پینترے بدلتے آئے ہیں۔ یوں یہ ختم نبوت کے مقدس نام کو استعمال کرکے جماعت احمدیہ کی مخالفت کا گہرا علمی اور تاریخی جائزہ ہے۔ اور ختم نبوت کا نام استعمال کرنے اور اپنی ساری توجہ اورقوت اس طرف منتقل کرنے کے رجحان کا تاریخی اور مدلل جائزہ پیش کیا ہے۔ یکصد صفحات کی اس کتاب میں اپنے موقف کے حق میں پیش کئے گئے دلائل کو نظر اندازکرنا مشکل ہے۔
1 انا حاتم البين لا يمَن بَعْدِي ی آواز ناموس مصطفی مانی کے لئے ہے قادیانیت زهر قاتل تمام مسلمان بھا کیے؟ دیوبندی علماء سے آپ کو کرتے کہ ایسے لوگوں کو بھرے بودے بازار میں کو ای مار نا جہاد جہان کو ماری ہی رہی ہے.گرام کے املی کام کی امامت آپ کو ان العلم ہونے کا کا م کر انا نے کا ان امرا اور اس کا مال کر نے کے قابل میں ان سکے.ید سے تیار کر کا میں مور تم ہونے کے نہ رہا ہے ہو کر ان کو مل کر کے جہاد سے کار اور حاصل کر میں في نشر و اشاعت: مالی مجلس خواستم پیوست اما مست گری می آل پاکستان مشوانی ام بوت نیز رسانی احمدی نیچے کے تین سوال اصغر علی بھٹی
2 دیوبندی علماء سے ایک احمدی بچے کے تین سوال مصنف چوہدری اصغر علی بھٹی سابق امیر جماعت احمد یہ بین ٹوگو، نائیجر ، ساوتھ ہومے و پرنسپ ، گابوں اور سینٹرل افریقہ
3 انتساب ایبٹ آباد کے اس معصوم بچے نبیل لغمانی کے نام جس کو1974 میں ایک ہمسائے عالم دین نے صرف اس وجہ سے دھوکه سین تھوتھا کھلادیا کہ وہ ایک احمدی کابچہ ہے.وہ موت سے توبچ گیا مگر سال با سال زندگی کےلئے لڑتا رہا
4 پیش لفظ یہ ایک صاحب تجربہ کی تحریر ہے.اور عملی زندگی کی تصویر بھی.اس کو دعوت الی اللہ کے میدان کارزار میں حریف کا سامنا اور مقابلہ کرنا پڑا اور جس قسم کے اعتراضات احمدیت پر ہوتے ہیں اور علماء جوانداز اور طریق مخالفت کی آگ پر تیل ڈالنے اور ہوا دینے کے لئے اختیار کرتے ہیں.ان سارے امور کو سامنے رکھتے ہوئے مصنف نے ختم نبوت کے مقدس نام پر جماعت احمدیہ کی مخالفت کا گہرا تاریخی اور علمی جائزہ ” دیوبندی علماء سے ایک احمدی بچے کے تین سوال میں پیش کیا ہے.
50 عرض حال وادی ہزارہ کے نام کے ساتھ ہی ذہن کی سکرین پر کاغان کی برفیلی پیالہ نما جھیل سیف الملوک ، ناران کی آبشاریں ، شنکیاری کے چائے کے باغات ، لالہ زار کے ریشمی سبزہ زار ڈاڈر کے جھرنے ، اور جنگل منگل کے گھنے لہلہاتے جنگلات گدگدانے لگتے ہیں لیکن دسمبر 1992 کی ایک شام بالاکوٹ سے واپسی پر میں اسی جنگل سے گزرتے ہوئے کتنا اداس تھا.بادلوں سے ڈھکے سرسبز چیڑھ کے جنگلات میں گاڑی ایک موڑ سے دوسرے میں داخل ہو رہی تھی مگر میرے کان میں ابھی تک وہی صدائیں گونج رہی تھیں.ہاں اُس بوڑھی والدہ کی سکیوں کی آواز میں جس کے 10 سالہ بیمار بچے کو اس کے خاوند کے ساتھ ہی کلہاڑیوں کے وار سے ذبح کر کے جشن منانے اور فٹ بال کھیلنے کی مکروہ اور گھناؤنی رسم کا آغاز کیا گیا تھا.وہ بوڑھی والدہ دونوں قبروں کے سرہانے کھڑی کہانی سنا رہی تھی.1974 کے حالات ، جلوس، گھیراؤ ، نعرے ، گالیاں چینیں ، سسکیاں، آگ کے شعلے ، خون کی ہولی اور پھر نعرے اور مبارک بادیں.وہ سناتی رہی.اور پھر کسی وقت میری بوجھل پلکوں سے اُس بوڑھی والدہ کا سرا پا دھندلا سا نظر آنا شروع ہو گیا.شائد میں بھی رو رہا تھا.یہ بیٹا محمد زماں خان شہید صدر جماعت احمدیہ آف بالا کوٹ کا بچہ مبارک احمد تھا اور باپ بیٹے کی یہ دونوں قبریں بالاکوٹ کے داخلی دروازے پر دریائے کنہار کے کنارے آج بھی آباد ہیں.بالا کوٹ سے لوٹا تو ایبٹ آبا دا چھڑیاں گندے نالے کے پاس سے گزرا جس میں محمد احمد بھٹی صاحب شہید کا جسدِ خاکی نظر آیا.جن کو ڈنڈوں اور پتھروں سے مار مار کر شہید کر دیا گیا تھا اور پھر سارا دن گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے رہے شام کو تھک گئے تو اس گندے نالے میں پھینک کر چلے گئے.میں نے دیکھا ، شہید کی عظمت کو سلام کیا اور آگے گزر گیا کیونکہ آج مجھے ایک اور ماں سے ملنا
6 تھا.کا کول گاؤں سے دائیں جانب کیہال کا یہ محلہ جس میں ایک دکھیاری والدہ اپنے بچے کو mash کر کے کھانا کھلا رہی ہے.چند سال قبل اس بچے کو گلی میں کھیلتے ہوئے پکڑ کر دھو کہ سے نیلہ تھو تھا کھلا دیا گیا.ڈاکٹروں نے 10 گھنٹے کے لمبے اپریشن کے بعد اس کے معدے کو wash کر دیا مگر زہر کی وجہ سے کھانے کی نالی damage ہو چکی تھی اس لئے نالی کو کاٹ کر چھوٹا کر کے معدے کو تھوڑا اوپر کر کے لگانا پڑا تھا.اس سے زندگی تو بچ گئی مگر بچے کے لئے ناریل کھانا کھانا ناممکن ہو گیا.اس لئے اس کی والدہ بیگم نذیر لغمانی صاحبہ سال ہا سال سے اسے چیزیں پیس پیس کر تھوڑا تھورا کر کے وقتاً فوقتاً کھلاتی رہتی ہیں.یہ تمام معصومین اور بہت سارے شہداء کے یتیم بچے آنکھوں میں سوال لئے بیٹھے ہیں ان علمائے دین سے جو دین کا بہت سارا علم رکھتے ہیں.جو دین کا بہت سا نام جیتے ہیں.ان معصوم چہروں پر ایک ہی سوال ہے.بہت سادہ ، بہت معصوم مگر ابدی صداقتوں کا حامل کہ اسلام تو دوسروں کے لئے جان دینے کا نام ہے پھر معصوموں کی جان لینے کی رسم کہاں سے آگئی؟ اسلام تو چرند پرند تک کے لئے رحمت تھا پھر یہ زحمت کا پرچار کیوں شروع کر دیا گیا؟ وادی ہزارہ میں 10 سال خاکسار کو مربی سلسلہ کی حیثیت سے خدمت دین کی توفیق ملی.ان دس سالوں میں کبھی شہداء کے وارثین کو دلاسہ دیا تو بھی اسیران راہ مولا کوتسلی.اور جب تھک گیا تو آرام کرنے خود بھی کبھی کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا لیٹا.ان 10 سالوں میں سینکڑوں بچوں نے سینکڑوں ہی سوال کئے.میں نے ان سب کا خلاصہ قلم کی زبان میں محفوظ کر دیا ہے کہ کبھی تو زمانہ تعصب کی عینک اتار کر منافقت کی اس دھند کے پار دیکھنے کی کوشش کرے گا.زیر نظر تحریر میں جماعت احمدیہ کا ختم نبوت کے بارے مؤقف بیان نہیں کیا گیا بلکہ علمائے دہر کے اُن دہرے معیاروں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے جسے وقت کی مصلحت
7 کے باعث اپنا لیا گیا ہے.اُن ابدی صداقتوں کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنہیں اندھی دشمنی کی کالی چادر تلے چھپانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اب وہ عین دو پہر کے اجالے میں کافی حد تک سب کے سامنے آگئی ہیں.اور آرہی ہیں.زیر نظر مضمون میں ان بچوں کا ایک سوال اُن بریلوی علماء سے بھی ہے جو آج دیوبندی حضرات کو اُن دوہرے معیار کا حامل کہہ کر طعنے دے رہے ہیں کل (1984,1974,1953 میں کیوں خاموش بیٹھے تھے ؟؟ اگر کل خاموش تھے تو آج کیوں والسلام اصغر علی بھٹی احتجاج کر رہے ہیں؟؟ 18/03/2016 مبلغ سلسله مارادی نائیجر (مغربی افریقہ)
شمار 1 8 فہرست عنوان باب نمبر 1 لاہور کا ایک مذہبی دنگل بے چاری عقل کی بے عقلی اور اہل اللہ کی مخالفت بے چاری عقل کی بے عقلی اور دیو بندی حضرات کی احمدی مخالفت باب نمبر 2 احمدی بچے کے تین سوال ہم مشرکین مکہ کے پیروکار ہیں غازیان اسلام“ کا نعشوں سے مومنانہ سلوک 1946 کی خدمات 1915 کی خدمات 1918 کی خدمات 1928 کی خدمات 1936 کی خدمات نعشوں کی بے حرمتی جیسا کام بھی قبول جھوٹ ، پھکڑ بازی، اشتعال انگیزی کا استعمال اور سنجیدگی کو طلاق صفى نمبر 13 14 16 16 17 17 17 17 19 19 20 20 21 22
24 24 25 25 29 30 31 235 9 ہاں ہم پھکڑ بازبھی ہیں اور لوگوں کے جذبات سے بھی کھیلتے ہیں اگر ہم پھکڑ باز ہیں تو کیا ہوا ؟؟ جو قابو نہ آئے اُس پر احمدی یا احمدی نواز کا الزام لگا دو تبلیغ کا مطلب گالیاں سوال نمبر 2 سوال نمبر 3 باب نمبر 3 1901 کاوه سربسته راز بریلوی دیوبندی جھگڑا بریلوی تعارف دیوبندی نظر سے دیو بندی تعارف بریلوی نظر سے ناپاک کہتے مولوی احمد رضا کو ارض حجاز میں سزا دلوانے کا پروگرام مولوی احمد رضا خان حجاز کی جیل میں مولوی احمد رضا خان کا جوابی حملہ مولوی احمد رضا خان کا تیر ٹھیک نشانے پر خاتم النبین کی تشریح میں جماعت احمد یہ بانی دیو بند کے مسلک پر ہے.....مولانا ارشد القادری 32 32 33 33 34 35 چه که چه چه که چه 36 37 37 دیو بندیوں کو احمدیت کی دشمنی میں نمبر 1 ہونے کا خیال کیوں آیا؟؟...38 دیو بند کو حرمین کے علماء کے مزید 26 سولوں کا سامنا دیوبندی تاریخ کا TURNING POINT 39 39
42 42 44 44 46 48 49 49 50 10 باب نمبر4 ایک گائے دوچور؟ یا قاتلین الله ؟ تحذیرالناس کے دفاع کے تعاقب میں نبوت بخش یا نبوت تراش مولوی اشرف علی تھانوی ضمیمہ ختم نبوت برقع پوش کتا ہیں اور دیو بندی ختم نبوت جاہلوں کی نشانی ایک گائے دو چور مشہور غیر مقلد مولوی ڈاکٹر طالب الرحمن صاحب کا فتویٰ دیو بندی اجرائے نبوت میں مرزا صاحب کے ہم نوا ہیں چور کی داڑھی میں تنکا یا کچھ اور معاملہ 엉엉 50 دیو بندی مجلس تحفظ ختم نبوت کیوں بنا کر بیٹھے ہیں ؟؟...مولانا عطاء اللہ ڈیروی 51 مجلس تحفظ ختم نبوت والے برادران یوسف بلکہ قاتلین حسین کی طرح ہیں...مولانا عطاء اللہ ڈیروی 52 مجلس تحفظ ختم نبوت دراصل اپنے سیاہ ماضی اور کفر کو چھپانے کا حفظ ما تقدم 52 ہے...مولانا عطاء اللہ ڈیروی ختم نبوت کی تفسیر میں دیو بند اور قادیان کا مؤقف یکساں ہے مولوی حسین احمد ٹانڈوی اور ختم نبوت خاتم مرتبی کی وجہ سے ہر زمانے کا ہر مرتبہ آپ سی یہ ہم کا مطیع ہو گا خاتم کا مضاف الیہ وصف نبوت ہے نہ کہ زمانہ نبوت 53 55 56 66 56
11 میری تفسیر کی رو سے آپ مالی یا پی ایم کے زمانے میں بھی کوئی نبی ہو تو بھی ختم 57 نبوت میں کوئی حرج نہیں.......مولانا قاسم نانوتوی میری تفسیر کی رو سے آپ سلیمی ایام کے بعد میں بھی کوئی نبی ہو تو بھی ختم 57 نبوت میں کوئی حرج نہیں....مولا نا قاسم نانوتوی میری تفسیر کی رو سے آپ سالی یا یہ ہم کے بعد میں آنے والے نہ صرف انبیاء 58 بلکہ خاتم النبین بھی آپ صلی نیستم کامل ہو نگے....مولا نا قاسم نانوتوی 59 میری تفسیر کی رو سے کسی اور دنیا میں بھی اگر خاتم النبیین ہوں تو بھی آپ سال شما پیام کی خاتمیت میں کوئی حرج نہیں.....مولا نا قاسم نانوتوی میری تفسیر کی روسے آپ مالی نیا نیلم کے ماتحت انبیاء آپ سال شمالی یم کال 60 ہونگے.جس سے ختم نبوت میں کوئی حرج نہیں...مولونا قاسم نانوتوی ختم نبوت پر صرف احمدیوں کا قصور کیا ہے؟....مولا نا عبدالحکیم اختر 61 62 مرزا صاحب بھی نانوتوی کی طرح فنافی الرسول کو ظلی نبی مانتے ہیں اگر نانوتوی صاحب درست ہیں تو کسی دیو بندی کو کسی قادیانی کو کافر کہنے کا 62 کوئی حق نہیں......شیخ القرآن ان دیو بندیوں نے ہی مرز اصاحب کے لئے میدان صاف کیا.....65 اگر ختم نبوت کی ایک تفسیر پر بانی جماعت احمدیہ کا فر تو اسی تفسیر پر بانی دیو بند حجۃ الاسلام کیسے؟..مولانا اوکاڑوی 65 دیوبندی احمدیوں کے مخالف کیوں؟.......مولانا اوکاڑوی 66 باب نمبر5 تحذير الناس کی الاسٹک 67
12 بریلوی طنز پر دیوبندی علماء کا اپنے بانی سے انحراف بلکہ طعن مقدمہ بہاولپور اور دیو بندی پارسل مولا نا قاسم دوبارہ مسلمان کیوں ہوئے؟ باب نمبر6 آبسته بولوکہیں احمدی سن نه لیں اخفائے حق کی نادر الوقوع جسارت اخفائے حق کی جوابی نادر الوقوع جسارت تحذیرالناس سے حسام الحرمین تک 69 70 ه له الله الله 72 73 73 74 75 تحذیرالناس کا تعارف..بزبان دیو بندی عالم دین مولوی الیاس گھمن 75 بھائی آہستہ بولو کہیں احمدی سن نہ لیں بریلوی بھائیو مان لو تحذیر الناس سچی ہے یا پھر ہم سب کا فر ہیں اعتراض نمبر 6 آپ کا عقیدہ احمدیوں کے لئے مفید ہے الله له له له له له له 76 76 76 اعتراض نمبر 8 یہ کہنا کہ آپ صلی ا یہ ستم جناب آدم سے بھی پہلے خاتم الانبیاء 79 تھے یہ عقیدہ قادیانیہ دیوبندیہ کا مؤید ہے آئین کا ارٹیکل 6 بریلوی بھائیو ختم نبوت کے بعد ایک نبی نہیں ہوسکتا تو کیا چار نبی ہو سکتے ہیں حرم کا 26 واں سوال اور ٹرین سفر کی دلچسپ کہانی اے احمدی بچے تیرے سوالوں کے جواب حاضر ہیں اختنام 83 600 000 86 97 101
13 باب نمبر 1 لاہور کا ایک مذہبی دنگل یہ اوائل 1930ء کی بات ہے.لاہور کی سرزمین پر بریلویوں اور دیوبندیوں کا ایک یادگار مناظرہ ہونا طے پایا.جس کے لئے حکم کے طور پر علامہ ڈاکٹر اقبال، پروفیسر اصغرعلی روحی اور شیخ صادق حسن امرتسری بیرسٹرایٹ لاء جیسی قد آور شخصیات کے نام تجویز ہوئے جسے انہوں نے قبول کر لیا.دیو بندیوں کی طرف سے مولوی محمد منظور نعمانی اور بریلویوں کی طرف سے مولوی حامد رضا خاں ( خلف اکبر مولوی احمد رضا خان) مناظر مقرر ہوئے.پورے لاہور میں زور و شور سے اس مناظرے کے لئے تیاریاں جاری تھیں.ارد گرد کے دیہاتوں سے بھی علماء شہر میں پہنچ چکے تھے.ہر مسجد میں مولوی حضرات اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے خون کو خوب گرما رہے تھے اور پیش وقت فتح کی نویدیں سنا رہے تھے.کتابوں کے چھکڑوں کے چھکڑے جمع ہورہے تھے.گویا کہ ایک دنگل تھا جس کی تیاری پوری حرارت کے ساتھ جاری تھی کہ اچانک بریلویوں کی طرف سے بلوے کے خطرے کو بنیاد بنا کر معذرت کا اعلان کر دیا گیا.تصویر کا رخ بدل گیا.دیوبندی حضرات اسے فتح مبین کے نام سے معنون کر کے فتح کے ڈھونگرے برسانے شروع ہو گئے.تو بریلوی حضرات اسے گستاخانِ رسول کی حکومت سے ملی بھگت اور فسادی ہونے کی نوید سنانے لگ گئے.اس تمام ہنگامے میں مولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی نے اپنا وہ بیان جو انہوں نے اس مناظرے میں پڑھنا تھا تحریری شکل میں فیصلہ کن مناظرہ کے نام سے شائع کر دیا.اور آغاز کے طور پر عقل اور عقل نہی کے حوالے سے ایک دلچسپ تجزیہ پیش کیا.
14 بے چاری عقل کی بے عقلی اور اہل اللہ کی مخالفت مولوی منظور نعمانی صاحب فرماتے ہیں: اس دنیا میں بعض واقعات اس قدر عجیب و غریب اور بعید از قیاس ہوتے ہیں کہ عقل ہزار سر مارے مگر ان کی کوئی معقول توجیہہ کرنے سے عاجز ہی رہتی ہے.حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کی دینی دعوت کے ساتھ اُن کی قوموں نے عام طور پر جو سلوک کیا وہ بھی دنیا کے ایسے ہی عجیب و غریب اور بعید از قیاس واقعات میں سے ہے.خود اس دنیا کے پیدا کرنے والے اور چلانے والے خالق و پروردگار نے کتنے عجیب انداز میں اس پر حسرت کا اظہار کیا ہے.یا حسرة على العباد ما ياتيهم من رسول الاكانوبه يستهزئون - (يس : 2) مثال کے طور پر صرف خاتم النبین سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی یا پیام ہی کی سرگزشت کو اس نظر سے حدیث وسیر کی کتابوں میں دیکھ لیا جائے.آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے.بچپن ہی سے صورت میں دلکشی و محبوبیت اور عادات میں معصومیت تھی اس لئے ہر ایک محبت و احترام کرتا تھا گویا آپ پوری قوم کو پیارے اور اُس کی آنکھ کے تارے تھے.پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنی قوم کو تو حید اور اسلام کی دعوت دے.عقل کا فیصلہ اور قیاس کا تقاضا یہی تھا کہ پوری قوم جو پہلے سے آپ کی گرویدہ تھی اور آپ کو صادق و امین سمجھتی اور کہتی تھی وہ آپ کی اس دینی دعوت پر یک زبان ہو کر لبیک کہتی اور پروانہ وار آپ پر ٹوٹ پڑتی اور کم از کم مکہ میں تو ایک بھی مکذب اور مخالف نہ ہوتا لیکن ہوا یہ کہ گنتی کے چند سعادتمندوں کے سوا ساری قوم آپ کی تکذیب اور مخالفت پر متفق ہوگئی جو ہمیشہ سے صادق و امین کہتے رہے تھے وہی شاعر اور مجنون اور ساحر و کذاب کہنے لگ گئے.اور آپ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑ کا نا اُن کا محبوب مشغلہ بن گیا.بے چاری عقل حیران ہے ایسا کیوں ہوا؟ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان دنوں مکہ میں دماغوں کو خراب کر کے آدمیوں کو پاگل بنا دینے والی کوئی خاص ہوا چلی تھی جس کے اثر سے ساری قوم کی قوم پاگل ہوگئی تھی اور آپ کے ساتھ یہ جو کچھ اس نے کیا وہ پاگل پن کی وجہ سے کیا.
15 اس کی دوسری مثال اُمت میں لیجئے حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم.یہ چاروں بزرگ رسول اللہ صلی شما ایلم کے جلیل القدر صحابی ہیں اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی تاریخ سے کچھ بھی واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ ورسول کے ساتھ اُن کی وفاداری، ان کا اخلاص ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہے.لیکن غور کیجئے اس اُمت کی تاریخ کا یہ کیسا عجیب وغریب اور نا قابل فہم واقعہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور ہی میں خود مسلمانوں میں ایسے مستقل فرقے پیدا ہوئے جن کی خصوصیت اور جن کا امتیاز صرف یہی ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی علیم کے ان جلیل القدر صحابہ کے ایمان ہی سے انکار تھا اور وہ معاذ اللہ ان کو کافر و منافق اور گردن زدنی کہنے پر مقر تھے.اور اب تک بھی یہ فرقے دنیا میں موجود ہیں.کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کا قدیم ترین فرقہ شیعہ کی خصوصیت اور اُس کا امتیاز ہی یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان ، کی عداوت و بدگوئی.....اور ان پاک ہستیوں پر تبر بازی ان کا محبوب مشغلہ اور ان کے نزدیک کار ثواب ہے.خلاف عقل مجادلا نہ کج بحثیوں کو تو چھوڑ دیجئے اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ کیا کسی کی عقل بھی ان لوگوں کے اس طرز عمل کی کوئی معقول تو جیہ کر سکتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس فرقے والے سب پاگل اور عقل عام سے محروم ہیں واقعہ یہ ہے کہ ان میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ بڑے بڑے دانشور اور ایک سے ایک ذہین وفطین ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں.یہی حال ان کے اصل حریف اور مد مقابل فرقہ یعنی خوارج و نواصب کا ہے ان بدبختوں کے نزدیک سیدنا علی ایسے بددین، اس درجہ کے دشمن اسلام اور ایسے مجرم اور گردن زدنی تھے کہ ان کو ختم کر دینا نہ صرف کار ثواب بلکہ ان کے قاتل کے جنت میں پہنچنے کا یقینی ذریعہ تھا.شقی ابن مالنجم سیدنا حضرت علی پر قاتلانہ حملہ کر کے گرفتار ہونے کے باوجود نعرے لگا تا تھا فزت و رب الکعبہ.
16 بتلائیے کہ عقل بیچاری اس گمراہی اور عقل باختگی کی کیا توجیہہ کر یہ فرقہ خوارج بھی پاگلوں اور ان پڑھ جاہلوں کا فرقہ نہ تھا بلکہ ان میں بہت سے اچھے خاصے علم و فہم والے بھی تھے.“ فیصلہ کن مناظرہ، ص 9 تا 14، زیر عنوان بریلی کا تکفیر فتنہ ماضی اور حال، ناشر دار الا نفاس کریم پارک 3 راوی روڈ لاہور ) بے چاری عقل اور دیوبندی احمدی مخالفت دیوبندی مولوی منظور احمد نعمانی صاحب تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں اور بار بار حیران ہو کر سوال کرتے ہیں کہ بعض اوقات مخالفین نفرت میں کس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ ایک سادہ سی بات بھی ان بڑے بڑے عقلمندوں کے دماغ میں داخل نہیں ہو پاتی.چنانچہ آپ کے نزدیک جو سلوک مشرکین مکہ نے آپ صلی یا یہ تم سے کیا.کیا وہ لوگ پاگل ہو گئے تھے؟ جواب تھا نہیں.جو سلوک شیعہ خلفاء ثلاثہ رضوان اللہ علیہم سے کر رہے ہیں کیا اس فرقہ کے سب لوگ پاگل اور عقل عام سے محروم ہیں جواب تھا نہیں اور جو خوارج اور ناصبی سید نا حضرت علی سے کر رہے ہیں کیا وہ بھی پاگل پن کی وجہ سے ہے جواب تھا نہیں.ان میں بھی بڑے بڑے عاقل ذہین و فطین موجود تھے اور ہیں اسی لئے آخر پر آپ بے چار گی سے فرماتے ہیں.عقل بے چاری اس گمراہی اور عقل باختگی کی کیا تو جیہ کرے؟؟ یقینا یہی وہ سوال ہے جو آج بے چاری عقل پریشان ہو ہو کر ہر مولوی صاحب سے کر رہی ہے کہ احمدی مخالفت کے ضمن میں وہ آخر کیا مجبوریاں ہیں جو احراری دیوبندی علماء حضرات کو ہر اخلاقی و مذہبی حدود تجاوز کر جانے پر مجبور ولا چار کر رہی ہیں؟
17 باب نمبر 2 احمدی بچوں کے تین سوال آخر وہ کون سی نادیدہ مجبوری ہے اور سر بستہ راز ہے جس کے افشاں ہونے کے خوف سے ایک دیو بندی عالم دین جو کلمہ گو بھی ہے قرآن اور سول کی محبت کا دعویدار بھی ہے مگر احمدی دشمنی اور عداوت میں اس قدر اُکھڑ جاتا ہے کہ اپنے آپ کو فخر یہ مشرکین مکہ کا پیروکار بتا نا شروع کر دیتا ہے.بم مشركين مکہ کے پیروکارہیں جی ہاں ختم نبوت کو ئٹہ کے ناظم اعلیٰ جناب مولوی تاج محمد بھٹی صاحب نے 2 احمدیوں کو کلمہ طیبہ کے بیج لگانے پر تو ہین اسلام کا مقدمہ درج کروا کے جیل بھجوا دیا.بعد میں جب مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو یہ مولا نا عدالت کے روبرو بڑے فخریہ انداز میں گویا ہوئے.یه درست ہے کہ حضور کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا.آذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں.ان للہ وانا الیہ راجعون ( مصدقہ نقل بیان صفحه گواه 5 استغاثہ نمبر 2 تاج محمد ولد فیروز الدین مجریہ 23 دسمبر 1985ء) غازیان اسلام“ کا نعشوں سے مومنانہ سلوک“ دفن شده احمدی نعش باہر پھینک کر کفن اتار دیا.دوسرے دن دفن، پھر اکھیٹر پھینکا.آخر دریا کے کنارے ریت میں دفن جہاں گیدڑوں نے نکال کر آدھا حصہ جسم کا کھالیا، سارے شہر کا بھر پور نظارہ قادیانی کا عبرتناک انجام اور ہماری ” شاندار خدمت اسلام...غازیان اسلام کی خدمت پر مبنی رپورٹ.1946 کی خدمات 1946ء میں جماعت احمدیہ کے ایک فرد مکرم قاسم علی خاں اپنے وطن رام پور میں وفات پاگئے.
18 ان کی نعش سے شاندار مومنانہ سلوک پر جو حلفیہ رپورٹ روزنامہ زمیندار میں شائع ہوئی پیش ہے.محمد مظہر علی خاں صاحب رامپوری اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”میرے مکان کے پیچھے جو شاہ آباد گیٹ میں واقع ہے محلہ کا قبرستان تھا.صبح مجھ کو اطلاع ملی که قبرستان میں لا تعداد مخلوق جمع ہے اور قاسم علی کی لاش جو اس کے اعزاء رات کے وقت چپکے سے مسلمانوں کے اس قبرستان میں دفن کر گئے تھے لوگوں نے نکال باہر پھینکی ہے.میں فوراً اس ہجوم میں جا داخل ہوا اور بخدا جو کچھ میں نے دیکھا وہ نا قابل بیان ہے.لاش اوندھی پڑھی تھی منہ کعبہ سے پھر کر مشرق کی طرف ہو گیا تھا.کفن استار پھینکنے کے باعث متوفی کے جسم کا ہر عضوعریاں تھا اور لوگ شور مچار ہے تھے کہ اس نجس لاش کو ہمارے قبرستان سے باہر پھینک دو.جائے وقوعہ پر مرحوم کے پسماندگان میں سے کوئی بھی پرسان حال نہیں تھا.لیفٹیننٹ کرنل محمد ضمیر کی خوشامدانہ التجا پر نواب صاحب نے فوج اور پولیس کو صورت حال پر قابو پانے کے لئے موقع پر بھیجا.کوتوال شہر خان عبدالرحمن اور سپر نٹنڈنٹ پولیس خان بہاد را کرام حسین نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لاش دوبارہ دفن کرانے پر مجبور کیا.لیکن اس جابرانہ حکم کی خبر شہر کے ہر کونہ میں بجلی کی طرح پہنچ گئی.اور غازیان اسلام مسلح ہو کر مذہب ودین کی حفاظت کے لئے جائے وقوعہ پر آگئے.حکومت چونکہ ایک مقتدر آدمی کی ذاتی عزت کی حفاظت کے لئے عوام کا قتل و غارت گوارا نہیں کر سکتی تھی اس لئے پولیس نے لاش کو کفن میں لپیٹ کر خفیہ طور پر شہر سے باہر بھنگیوں کے قبرستان میں دفنا دیا.چونکہ مسلمان بہت مشتعل اور مضطرب تھے اس لئے انہوں نے بھنگیوں کو اس بات کی اطلاع کر دی.اور بھنگیوں نے اس متعفن لاش کا وہی حشر کیا جو پہلے (مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں ) ہو چکا تھا.پولیس نے یہاں بھی دست درازی کرنی چاہی لیکن بھنگیوں نے شہر بھر میں ہڑتال کر دینے کی دھمکی دی بالآخر سپر نٹنڈنٹ پولیس اور کوتوال شہر کی بروقت مداخلت سے لاش کو دریائے کوسی کے ویران میدان میں دفن کرنے کی ہدایات کی گئیں.
19 سپاہی جو لاش کے تعفن اور بوجھ سے پریشان ہو چکے تھے.کچھ دور تک لاش کو اٹھا کر لے جاسکے اور شام ہو جانے کے باعث دریائے کو سی کے کنارے صرف ریت کے نیچے چھپا کر واپس آگئے.دوسرے روز صبح کو شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ قاسم علی کی لاش گیدڑوں نے باہر نکال کر گوشت کھالیا.اور ڈھانچہ باہر پڑا ہوا ہے.یہ سن کر شہر کے ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق جمع ہو گئے میں بھی موقعہ پر جا پہنچا.لیکن میری آنکھیں اس آخری منظر کی تاب نہ لاسکیں اور میں ایک پھریری لیکر ایک شخص کی آڑ میں ہو گیا قاسم علی کی لاش کھلے میدان میں ریت پر پڑی تھی اسے گیدڑوں نے باہر نکال لیا تھا اور وہ جسم کا گوشت مکمل طور پر نہیں کھا سکتے تھے منہ اور گھٹنوں پر گوشت ہنوز موجود تھا.باقی جسم سفید ہڈیوں کا ڈھانچا تھا آنکھوں کی بجائے دھنسے ہوئے غار اور منہ پر داڑھی کے اکثر بال ایک دردناک منظر پیش کر رہے تھے آخر کار پولیس نے لاش مزدوروں سے اٹھوا کر دریائے کوسی کے سپر دکر دی اور اس طرح ایک امیر جماعت مرزائیہ کا انجام ہوا.“ ( روزنامہ زمیندار 21 جنوری 1951ء) 1915ء کی خدمات 20 اگست 1915 ء کو کنا نورا ( مالا بار) کے ایک احمدی کے.ایس.احسن کا ایک چھوٹا بچہ فوت ہو گیا ریاست کے راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ چونکہ قاضی نے احمدیوں کے متعلق کفر کا فتویٰ دے دیا ہے اس لئے اس کی نعش مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہوسکتی.چنانچہ وہ بچہ اس دن دفن نہ ہوسکا دوسرے دن بھی شام کے قریب مسلمانوں کے قبرستان سے 2 میل دور اس نعش کو دفن کیا گیا.“ الفضل 19 اکتوبر 1915 صفحہ 6) 1918ء کی خدمات احمدی عورت کی مدفون نعش اکھیڑ کر اس کے شوہر کے دروازے پر لا کر پھینک دی.“ اہل حدیث 6 دسمبر 1918ء)
20 دسمبر 1918ء میں کٹک (صوبہ بہار کے ایک احمدی دوست کی اہلیہ فوت ہو گئیں.انہوں نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا.جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ایک احمدی خاتون کی لاش ان کے قبرستان میں دفن کی گئی ہے تو انہوں نے قبر اکھیڑ کر اس لاش کو نکالا اور اس احمدی کے دروازے پر جا کر پھینک دیا.مرزائیوں کی میت کی ہم خوب مٹی پلید کرتے ہیں.اہل حدیث نے زیر عنوان ” کٹک میں قادیانیوں کی خاطر درج ذیل فخریہ رپورٹ آف خدمت اسلام پیش کی.وہ جو کہاوت ہے کہ موئے پر سوڈڑے سو وہ بھی یہاں واجب التعمیل ہو رہی ہے مرزائیوں کی میت کا مت پوچھئے.شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو عام قبرستانوں میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے، کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے میت کی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ کھوجتے تابوت نہیں ملتی.بیل داروں کی طلب ہوتی تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں.بانس اور لکڑی غائب ہو جاتی ہے.دفن کے واسطے جگہ تلاش کرتے کرتے پھول کا زمانہ بھی گزر جاتا ہے.ہر صورت سے ناامید ہو کر جب یہ ٹھان لیتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھود کر گاڑ دیں تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں اور وہ غڑپ سے آموجود ہو کر خرمن امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں.“ (اہل حدیث کی تکم فروری 1918 ء کی فخر یہ رپورٹ ) 1928ء کی خدمات 16 / مارچ 1928ء کو بھدرک ( اڑیسہ) میں ایک احمدی شیخ شیر محمد کی بیٹی فوت ہو گئیں دفن کے وقت غیر احمدی بھاری جتھہ لیکر پہنچ گئے اور مارنے پیٹنے لگے آخر والدین لاش گھر لے آئے اور صحن میں دفن کی.(الفضل 27 / مارچ1928ء) 1936 ء کی خدمات قادیانی بچے کی لاش قبرستان میں دفن کرنے سے رکوا دینے پر خوشی کی لہر اسلام زندہ باد کے نعرے......(روز نامہ الہلال کی رپورٹ )
21 12 مارچ 1936ء کو بمبئی کے ایک احمدی دوست کا خوردسال بچہ فوت ہو گیا جب اُسے دفن کرنے کے لئے قبرستان لے گئے تو مخالفین نے جھگڑا شروع کر دیا کہ قبرستان سنی مسلمانوں کا ہے.قادیانیوں کا نہیں کوئی قادیانی یہاں دفن نہیں ہو سکتا.کیونکہ قادیانی کا فر ہیں پولیس کے ذمہ دار حکام نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو انہوں نے بمبئی میونسپلٹی کے توسط سے ایک الگ قطعہ زمین میں اُسے دفن کرا دیا.مگرمیت کے دفن کرنے کے لئے جو جگہ دی گئی وہ شہر سے بہت دور اور اچھوت کا مرگھٹ ہے.روز نامہ الہلال بمبئی اس واقعہ کا ذکر تے ہوئے لکھتا ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ خبر سنی کہ احمدی میت اس قبرستان میں دفن نہیں کی جائے گی تو اس اطلاع کے ملتے ہی مسلمانوں نے اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے.ہر شخص مسرت سے شاداں نظر آتا تھا.وغیرہ وغیرہ الہلال بمبئی 14 / مارچ 1936ء) یہ تو وہ چند خدمات کے مظاہرے ہیں جو انگریزی سرکار جیسی عدل پرور حکومت کے دور میں بجا لائے گئے.پاکستان بننے کے بعد ان میں کتنی ترقی کی گئی اس کا نظارہ کرنے کے لئے دیکھئے " تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ“ نعشوں کی بے حرمتی جیسا مکر وہ کام بھی قبول ہے آخر وہ کون سی سفاک مجبوری ہے جس کے خونی پنجوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک دیو بندی عالم دین جو قرآن و رسول کی تعلیمات کا فدائی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.انسانیت کی تمام قدر میں بھول کر اس قدر بے حس بن جاتا ہے کہ نعشوں کی بے حرمتی اور ان کو قبروں سے باہر اکھیڑ پھینکنے کو فتح اسلام قرار دینے لگ جاتا ہے اور اس پر شاداں ہوتا اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگانے لگ جاتا ہے آخر وہ مجبوری ہے کیا؟ ” جب مسلمانوں نے یہ خبر سنی کہ احمدی میت اس قبرستان میں دفن نہیں کی جائے گی تو اس اطلاع
22 کے ملتے ہی مسلمانوں نے اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے ہر شخص مسرت و شاداں نظر آتا تھا.متوفی کے جسم کا ہر عضوعریاں تھا.لاش قبر سے نکال کر باہر پھینک دی احمدی بچے کی نعش دودن والدین لئے پھرتے رہے ہم نے دفن نہیں ہونے دیا ہم نے احمدی مدفون عورت کی نعش کو اکھیٹر اس کے گھر والوں کے دروازے پر لا کر پھینک دیا ہم مرزائیوں کی میت کی خوب مٹی پلید کرتے ہیں احمدی جنازے والوں کو ہم نے خوب پیٹا اور واپس جا کر گھر کے صحن میں اپنی بیٹی کی نعش کو دفن کیا احمدی نعش قبرستان میں دفن نہیں ہونے دی.اسلام زندہ باد اور ہر شخص مسرت سے شاداں“ بے چاری عقل پھر وہی سوال دہراتی ہے کہ آخر وہ کون سی ناہنجار مجبوری ہے جس کے سائے نے ان علماء کو انسان تو انسان ، لاشوں کا تقدس بھی بھلوادیا ہے؟ جھوٹ، پھکڑ بازی، اشتعال انگیزی کا استعمال اور اخلاق و سنجیدگی کو طلاق اسلام تو سلامتی اور امن کا مذہب ہے، اخلاق، حیاء ایمان اور دوسروں کے لئے قربان ہو جانے کا نام ہے پھر وہ کونسی منحوس مجبوری ہے جس نے دیوبندی علماء کے لئے یہ تمام دروازے بند کر کے اپنے آپ کو پھکڑ باز اشتعال انگیز سفیبہ و جاہل جیسی مردو حرکتوں کا فخریہ ڈنڈھورا پیٹنے والا بنادیا ؟ آخر وہ مجبوری کیا ہے؟ مشہور دیو بندی عالم دین مولوی محمد الیاس صاحب بانی تبلیغی جماعت کے سالے جناب مولوی محمد احتشام الحسن کاندھلوی صاحب اپنی جماعت اور اس کے بھٹکے ہوئے راستے پر غور کرنے کے بعد انتہائی دکھ سے فرماتے ہیں.جو کام اہل علم کا ہے وہ ایسے لوگ انجام دینا چاہتے ہیں جو نہ صرف دین سے نا آشنا ہیں بلکه سفاہت و جہالت اور اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے معاشرے میں بھی کسی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے.‘ (اصول دعوت وتبلیغ صفحہ 4 بحوالہ دیو بند سے بریلی مصنفہ کوکب نورانی اوکاڑوی ،صفحہ 4 ضیاء القرآن پبلی کیشنز ) بلہ مشہور دیوبندی مولوی اللہ یار خان جو ایک بڑے دیوبندی دھڑے کے سر براہ ہیں وہ باقی سارے دیو بندیوں کو سمیت بنوری ٹاؤن، اکوڑہ خٹک، حضوری باغ ملتان اس نظر سے دیکھتے ہیں.
23 23 عوام بھی بے چارے مجبور ہیں.کچھ لوگ دنیاوی مفاد کی خاطر اپنے آپ کو دیو بندی کہتے ہیں مگر علمائے دیوبند کے اجماعی عقائد کے منکر ہیں.صالحیہ کرامیہ اور خارجیوں کے عقائد جمع کر کے اس ملغوبے کا نام تو حید رکھ لیا ہے اور اس تکلیفی توحید کے پر چار کے لئے دیوبندیت کا اصیح استعمال کیا.سننے والے سمجھیں دیو بندیت یہی ہے.انہیں کون بتائے کہ یہ بہروپئے تو حنفیت سے بھی کوئی واسطہ نہیں رکھتے بلکہ وہ تو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعۃ بھی ثابت نہیں کر سکتے.“ ( عقائد و کمالات علمائے دیوبند مصنفہ مولوی اللہ یار خاں ، صفحہ 72-73 ناشر اداره نقشبندیہ اویسیہ دارالعرفان مناره ضلع چکوال) مولوی اللہ یار خاں اپنے ہی دیوبندی علماء بھائیوں کو بہروپئے ، صالحہ کرامیہ اور خارجیوں کا خوشہ چین بتاتے ہیں تو ان میں سے ایک مشہور اور روح رواں مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اپنے آپ کو خنزیر اللہ فرماتے ہیں (بخاری کی باتیں صفحہ 172) بلکہ ایک دوسری جگہ پر اپنے آپ کو فخریہ دجال بتا تے ہیں چنانچہ شاہ صاحب نے 15 مئی 1935 ء کو لاہور میں ایک جلسہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی دل آزار تقریر کی اور اس میں جماعت کا تمسخر اڑاتے اڑاتے اپنے متعلق فرمایا جس کا ایک فقرہ اخبار احسان میں یہ شائع ہوا کہ خدا نے بخاری کو مرزائیوں کے اوپر دجال بنا کر بٹھا دیا ہے“ ( بحوالہ الفضل 23 رمئی 1935ء، صفحہ 7 کالم 4) حال ہی میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کے پلیٹ فارم سے مولوی محمد طاہر رزاق صاحب کی ایک کتاب ختم نبوت کے محافظ شائع کی گئی ہے جس میں دیو بندی حضرات کے نمایاں کارناموں کو جمع کیا گیا ہے.اس کتاب کے صفحہ 70 پر قاضی مولوی احسان احمد شجاع آبادی کی زندگی کا نچوڑ جسے تحقیقاتی عدالت پنجاب ہائی کورٹ منیر انکوائری رپورٹ میں جج صاحبان نے بطور فیصلہ درج کیا تھا، فخریہ انداز میں اپنے کارناموں میں جگہ دے کر یوں لکھا گیا.قادیانیت کی مخالفت اس شخص کی زندگی کا واحد مقصد معلوم ہوتا ہے...زیادہ اہم
24 واقعات کا ذکر تو در کنار پاکستان یا کسی شخص کوکوئی آفت پیش آ جائے کوئی افسوس ناک واقعہ رونما ہو جائے ، قائد ملت قتل کر دیئے جائیں یا ہوائی جہاز گر پڑے قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے نزدیک وہ ہمیشہ احمدیوں کی سازش کا نتیجہ ہوتا ہے.“(ختم نبوت کے محافظ، صفحہ 70 مصنفہ محمد طاہر رزاق ناشر تحفظ ختم نبوت ملتان ) ایسے ہی ایک اور دیو بندی عالم دین مولوی منظور احمد چنیوٹی جن کو وکیل ختم نبوت اور کئی بار سفیر ختم نبوت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے.وہ اس سے بھی آگے قدم بڑھاتے ہوئے اعلان فرماتے ہیں کہ اگر سمندر کی تہہ میں بھی 2 مچھلیاں آپس میں لڑتی ہیں تو اس کے پیچھے بھی قادیانیوں کا ہاتھ ہوتا ہے.66 ہاں ہم پھکڑ باز بھی ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے بھی ہیں بات یہیں نہیں رکتی بلکہ جھوٹ کو منوانے کے لئے تمسخر اور پھکڑ بازی کا سہارا لیتے ہیں اور اسے فخریہ بیان کرتے ہیں مگر آخر کیوں؟ آغا شورش کا شمیری صاحب جیسا دیو بندی جناب عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی زندگی کا نمایاں وصف ہی پھکڑ بازی بتاتے ہیں.ان کے ہاں طنز بھی ہے سخت قسم کا طنز لیکن سب وشتم نہیں جن چیزوں سے نفور ہوں ان سے تمسخر بھی روار کھتے ہیں.ان کے ہاں اس تمسخر یا پھکڑ کی زدسب سے زیادہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی ذریات پر پڑتی ہے.( سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ 194 از شورش ) اگر ہم پھکڑ بازہیں تو کیا ہوا؟؟ اس تمسخر یا پھکڑ بازی پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ فخر یہ اعلان فرماتے ہیں.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطیبوں میں جذباتیت پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عصر غالب ہوتا ہے.یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے.آپ ذرا حقیقت پسند، سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو
25 25 جائیں اور کوئی تعمیری و اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ...اسی طرح اشتعال انگیزی بھی ہماری تحریکوں ، جماعتوں اور قائدوں کی جان ہے.آپ بڑے بڑے دیندار با اخلاق اور سنجیده و متین پہاڑوں کو کھو دیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا.الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ.ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اس لئے رشک وحسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں.“ ( آزاد احرار نمبر مورخہ 27 /ستمبر 1958ء صفحه 17-18 ) جوقابونہ آئے اُس پراحمدی ہونے کا الزام لگادو عام دنیا میں جھوٹ بولنے کے بھی کئی طریقے رائج ہیں.پھکڑ بازی، تمسخر، ہنسانے کے لئے رکیک جملے ، اور پھر بازاری زبان.مگر دیو بندی دنیا میں یہ سب بھی کافی نہیں اس لئے وہ ان لوازمات کے ساتھ ساتھ ہر اس بندے کو جو نظریاتی طور پر اختلاف رکھتا ہو اس پر احمدی یا احمدی نواز ہونے کا الزام لگانا بھی مقصد حیات بنالیتے ہیں.ہندوستان کے مشہور عالم جناب غلام احمد پرویز صاحب بھی ایسے ہی حملے سے مضروب ہوئے تو آپ نے اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا.آپ فرماتے ہیں.ان (دیوبندی) احراری حضرات کی یہ بھی تکنیک ہوا کرتی تھی کہ جو نہی کسی نے ان کی مخالفت کی انہوں نے شور مچا دیا کہ یہ میرزائی ہے اور جب وہ بیچارہ چیخا چلایا کہ مجھے میرزائیت سے کوئی واسطہ نہیں تو کہہ دیا کہ یہ میرزائی نہیں تو میرزائی نواز ضرور ہے.“ ( مزاج شناس رسول ، صفحہ 444 شائع کردہ ادارہ طلوع اسلام کراچی ) "تبلیغ کا مطلب گالیاں“ دیو بندی حضرات نے 21 راکتو بر تا 23 اکتوبر 1934 ء نے قادیان میں تبلیغ کانفرنس منعقد کی.اس کا نفرنس کا حال مشہور اخبار سیاست میں تبلیغی کا نفرنس“ کے عنوان سے یوں شائع ہوا.د تبلیغ کے معنی آج تک تو یہ سمجھے جاتے تھے کہ محبت اور آشتی سے دلائل پیش کر کے کسی کو اپنا ہم خیال بنایا جائے لیکن تبلیغ کے یہ معنی کہ کسی گروہ کو گالیاں دے کر مشتعل کیا جائے.
26 اب احرار کی مہربانی سے واضح ہوئے ہیں.چونکہ ہم قادیان میں احرار کی تبلیغ کا نفرنس کے انعقاد کو مفادملت کے خلاف سمجھتے تھے اور اس کو انتخاب اسمبلی کا پروپیگینڈہ جانتے تھے لہذا اس کے اعلان میں ہم نے کوئی حصہ نہیں لیا.“ جھوٹ ہمسخر ، طنز ، پھکڑ بازی، بازاری حملے، رکیک زبان، جھوٹے الزامات اور تبلیغ کا مطلب گالیاں عقل بے چاری حیران و پریشان کھڑی ہے اور کبھی مولوی منظور احمد نعمانی صاحب کی طرف اور کبھی ان کے دوسرے پیٹی بند بھائیوں کی طرف دیکھتی ہے اور پھر ملتجیانہ انداز میں ہولے ہولے لب ہلاتے ہوئے منمناتی ہے کہ آخر وہ کونسی اندھی ، گونگی اور بہری مجبوری ہے.جس نے حیاء ، تہذیب شرافت، تقومی ، عدل و انصاف، ایمان حتی کہ عقل کو بھی دیوبندی مولوی صاحب کے گھر سے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہے؟ آخر وہ کیا ہے؟ مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری جن کی ہذیانی تقاریر نے 1953ء کے سال کو خونی سال بنا دیا.سینکڑوں احمدیوں کے خون ناحق ہے.ہزاروں مکان لوٹ لئے گئے.احراری علماء کی تقاریر اور تحریک نے کیا گل کھلائے حکومت پاکستان کی تحقیقاتی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسے اس طرح درج فرمایا.” اس دن کے واقعات کو دیکھ کر سینٹ بارتھولومیوڈئے‘ یاد آتا تھا ( آگے قتل و غارت لوٹ مار کی لمبی تفصیل درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں ) جو عام حالات میں قانون وانتظام کے قیام کے ذمہ دار ہوتے ہیں کا ملاً بے بس ہو چکے تھے اور ان میں 6 مارچ کو پیدا ہونے والی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی کوئی گنجائش اور اہلیت باقی نہیں رہی تھی.انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے جو معمولی حالات میں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر مشتمل تھے ایسے سرکش اور جنون زدہ ہجوموں کی شکل اختیار کر لی تھی جن کا واحد جذ بہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کر دیں اس کے ساتھ یہ معاشرے کے ادنی اور ذلیل عناصر موجودہ بدنظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں (احمد یوں ) کو قتل کر رہے تھے ان کے املاک لوٹ رہے تھے اور قیمتی جائیداد کو نذیر آتش کر رہے تھے محض اس لئے کہ یہ ایک دلچسپ تماشا تھا یا کسی خیالی دشمن سے بدلہ لیا جارہا
27 تھا.( بحوالہ مذہب کا سرطان،صفحہ 142-143) یہ مجنون اور سرکش ہجوم کیسے بنا؟ اور جنگل کے درندوں کی طرح قتل پر آمادہ اس لئے ہوئے کہ دیو بندی مولوی سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اس خیالی دشمن کے بارے میں خیالی رپورٹنگ یوں فرما رہے تھے.میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ربوہ کی خود مختار ریاست پر چھاپہ مارئیے 80,000 ہزارا یکڑ رقبے کے ایک ایک مربع فٹ میں ہزاروں فتنے مدفون ہیں.ہزاروں سازشیں ہیں.خطر ناک منصوبے ہیں ملت اسلامیہ کی تخریب کے سامان ہیں...حکومت اب بھی راتوں رات چھاپے مارے تو اسے بہت کچھ مل سکتا ہے.( تقریر مئی 1950ء لاہور ، خطبات امیر شریعت ،صفحہ 52 مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جانباز ناشر مکتبہ تبصرہ بیرون دہلی گیٹ لا ہور طبع اول) پھر فرماتے ہیں: قادیانی نبی کے امتیوں نے ربوہ میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور ان کے اس نظام کے ماتحت ربوہ میں اسلحہ تیار ہورہا ہے زمین دوز قلع تعمیر ہورہے ہیں.دریائے چناب کے کنارے ربوہ کو ایک قلعہ بند شہر بنایا جار ہا ہے.پاکستان کی اس آزاد حکومت میں اس متوازی حکومت کا قیام ناقابل برداشت ہے.“ ( تقریر لاہور اگست 1952ء ، خطبات امیر شریعت، صفحہ 109.مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جانباز ناشر مکتبہ تبصره بیرون دہلی گیٹ لاہور طبع اول) یہ تو والد صاحب تھے اور ان کے صاحبزادے جناب سید ابوذر بخاری تو یقینا والد سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے.آپ کی ادارت میں اردو اخبار مزدور ملتان سے شائع ہوتا تھا.عدالت عالیہ نے اپنے ایک فیصلہ میں والد صاحب کے بعد اس ہونہار فرزندار جمند کی بلند اخلاقی کا ذکر یوں کیا.ا یک اردو اخبار مزدور ملتان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹر سید ابوذر بخاری ہے جو مشہور احراری لیڈرسید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے.اس اخبار کی غالب توجہ صرف احمدیوں کے
28 خلاف تحریک پر مرتکز رہی ہے.اس نے اپنی اشاعت مورخہ 13 جون 1952ء میں ایک مضمون شائع کیا.جس میں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط میں ایک ایسی پست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی.اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کے کسی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کسی کی کھوپڑی توڑ دی جاتی تو ہمیں اس پر ذرہ بھی تعجب نہ ہوتا.جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ پرلے درجے کے مکروہ اور متبذل شوق کا ثبوت ہیں اور ان میں اس مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریم مال کی ستم کی زبان ہے.“ (تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ، صفحہ 159 ) 1953ء میں احمدیوں کے خلاف جن دنوں جھوٹ قتل و غارت اور لوٹ مار اسلام کے نام پر جاری تھی تو اس وقت کے معروف اخبار میں جناب نصر اللہ خاں صاحب عزیز مدیر تسنیم، جناب ممتاز احمد خاں صاحب مدیر آفاق، جناب خلیل احمد صاحب مدیر مغربی پاکستان جناب محمد حبیب اللہ صاحب اوج مدیر احسان، جناب محمد علی صاحب شمسی مدیر سفینہ نے متفقہ طور پر بیان دیتے ہوئے احراری دیو بندی مولویوں کو خوف خدا یاد دلایا.متفقہ بیان تھا: تحفظ ختم نبوت کے مقصد سے ہر مسلمان کو ہمدردی ہے.ختم نبوت مسلمان کے ایمان کا جز ہے لیکن اس مقدس مقصد کے نام پر بھنگڑے سوانگ رچانا مغلظ گالیاں نکالنا اور اخلاق سوز حرکتیں کرنا مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے.“ (روز نامہ آفاق 4 مارچ 1953ء ، صفحہ 6) راولپنڈی کے مشہور اخبار تعمیر اپنے اداریے میں اس دیو بندی خدمت اسلام کو یوں دیکھتا وو مقدس علم کے پیچش اور بازاری گالیاں ن کر رحمتہ للعالمین کے نام پرلوٹ مار توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کی وارداتیں اور ساری دنیا کے لئے امن وسلامتی کا پیغام لانے والے کے پرستار ہونے کے دعویداروں کی جانب سے تشد داور بدامنی دیکھ کر کس مسلمان کا
29 سر ندامت سے نہیں جھک جائے گا.(روز نامه تمیر 11 مارچ 1953ء، صفحہ 3) اخبار مغربی پاکستان لاہور 6 مارچ 1953ء کے دن دیو بندی خدمات کو ان نظروں سے دیکھتے ہوئے رقم طراز تھا.خدا اور محمد کے نام کے ساتھ انتہائی غلیظ اور قابل نفرت گالیاں دی جاتی ہیں تشدد کے مظاہرے کئے جاتے ہیں...کیا یہ سچے مسلمان کے اعمال ہو سکتے ہیں؟ پھر مذہب کے نام پر یہ ہڑبونگ کیوں مچائی جارہی ہے.ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ احراریوں کی ہٹر بونگ، اس راست اقدام اس ختم نبوت کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں.“ (روز نامہ مغربی پاکستان لاہور 6 / مارچ 1953ء) جھوٹ ، پست اور بازاری زبان، پرلے درجے کی مکروہ گستاخانہ تضحیک بھنگڑے سوانگ ، مغلظ گالیاں، اخلاق سوز حرکتیں بخش بازاری گالیاں ، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کی وارداتیں کرتے اور کرواتے ہوئے یہ عالم دین کس اسلام کو پیش کر رہے ہیں؟ احمدیت کی دشمنی میں اتنا مکروہ اخلاقی دیوالیہ کیوں ؟ عقل بے چاری مولوی منظور احمد نعمانی کی زبان میں حیران ہو ہو کر پھر سوال کرتی ہے کہ آخر وہ کون سی مگر وہ مجبوری ہے جس کے سامنے دیوبندی علماء نے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں ہر اخلاقی و مذہبی حدود و قیود کو پھلانگنا قبول کر لیا ہے اور ہر ایمانی قدر سے طلاق لینا پسند کر لی.آخر کیوں؟ اور آخر کس لئے ؟ یہی بات ایک احمدی بچے کا پہلا سوال ہے سوال نمبر 2 دوسری بات جو احمدی بچے ان دیوبندی حضرات سے پوچھتے ہیں کہ بانی جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے 1880ء میں تائید اسلام میں اپنی پہلی کتاب تصنیف فرمائی جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی بہت سی بشارات والہامات کا تذکرہ فرمایا اور یہ تحریر و دعاوی کا سلسلہ آپ کی حیات برکات کے اخیر تک یعنی 1908 ء تک جاری رہا.- اس عرصہ میں دیو بند کے 5 ابتدائی بزرگان حیات تھے.1.دیوبند کے موسس اعلیٰ : مولوی محمد قاسم نانوتوی
30 50 2.دیوبند کے قطب عالم : مولوی رشید احمد لنلو ہی 3.دیوبند کے شیخ الحدیث : مولوی خلیل احمد سہارنپوری 4.دیو بند کے حکیم الامت : مولوی اشرف علی تھانوی 5.دیوبند کے امام الہند : مولانا ابوالکلام آزاد ان میں سے موخر الذکر مولانا ابوالکلام آزاد تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ کے ساتھ لاہور سے قادیان تک گئے اور واپسی پر اپنی اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زبر دست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فتح نصیب جرنیل اور اسلام کا عظیم مدافع قرار دیا.پھر 1908ء کے بعد یہ کیا ماجرا ہو گیا کہ بعد میں آنے والے قدرے کم درجہ کے علماء دیوبند نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے لئے سخت زبان استعمال کرنا بنالیا.یہ U-turn کیوں آیا اور کیسے آیا؟ اور آخر کس مجبوری نے اہالیانِ دیو بند کا قبلہ وکعبہ بدل کر رکھ دیا؟ سوال نمبر 3 تیسرا سوال جو احمدی بیچے ان دیوبندی حضرات سے مزید حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اول المخالفین کی صف میں زیادہ بڑی تعداد میں غیر مقلدین کا گروہ نظر آتا ہے جن میں مولوی ثناء اللہ امرتسری ، مولوی نذیر حسن دہلوی ، مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی بشیر حسین بھوپالوی، اور غزنوی خاندان کے افراد و غیرہ ہیں جن سے حضور علیہ السلام کے تحریری بھی اور زبانی بھی مباحث و مذاکرے ہوئے مگر پھر اچانک سین پلٹتا ہے اور دیوبندی حضرات کبھی احرار کی شکل میں اور کبھی محافظین ختم نبوت کے نام سے جماعت احمدیہ پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور پھر مخالفت بلکہ اندھی مخالفت کی پہلی صف کو سنبھال لیتے ہیں.اچانک مخالفین احمدیت کی صفوں میں تبدیلی اور دیو بندی حضرات کا صف اول میں آنا.یہ حادثہ اسلام اور ختم نبوت سے محبت تھی یاکسی سیاسی مجبوری کا شاخسانہ؟ احمدی بچے کے یہ سوال اور ان جیسے دیگر سینکڑوں سوال تقاضا کرتے ہیں کہ دیکھا جائے کہ آخر وہ کیا مجبوری ہے جس نے دیوبندی حضرات کا Motto ہی جماعت احمدیہ کی اندھی مخالفت بنادیا؟
31 باب نمبر 3 1905 کاوه سربسته راز ย احمدی بچوں کے ظاہر اسادہ سے نظر آنے والے سوال اپنے دامن میں بہت سی آفاقی سچائیاں سمیٹے ہوئے ہیں.بہت سی تلخ سچائیاں اور بہت سے تلخ حقائق.وہ دل کیسا ہوگا ؟...وہ آنکھ کیسی ہوگی ؟...وہ زبان کیسی ہوگی ؟...وہ ہاتھ کیسے ہونگے ؟ جنہوں نے فاطمتہ الزہرا کی گود میں کھیلنے والے...علی المرتضیٰ کے بازووں میں چہکنے والے....سرکار دو عالم صلی ما ای ایم کے کندھوں پر بیٹھ کر کلکاریاں مارنے والے سردار بہشت کو بھوکا پیاسا رکھ کر تڑپا تڑپا کر شہید کیا اور پھر نماز ادا کی.وہ مفتی صاحب کیسے ہونگے ؟...اور اُن کا قلم کیسا ہوگا ؟ جنہوں نے خانوادہ رسول صلی یا ایلیم کے علی اصغر جیسے معصوم کم سن بچے پر پانی بند کیا اور پھر پانی مانگنے پر اس کے حلق پر تیر مار کرا سے دکھوں سے آزاد کیا وہ جرنیل کیسے ہونگے ؟...اور اُن کے سپاہی کیسے ہونگے ؟ جو خاندان نبوت کی پاک دامن تتلیوں جیسی شہزادیوں کو بھوکے پیاسے ، ننگے سر اور ننگے پاوں اسیر کر کے پیدل چلاتے ہوئے بڑے فخر سے حاکم وقت کے دربار میں لے کر حاضر ہوئے.تاریخ ان تمام سوالوں کو جواب دیتی ہے.ایک ایک ظلم کے پیچھے چھپے حقائق کو بے نقاب کرتی ہے اور چیخ چیخ کر یہ اعلان کرتی ہے کہ جب مذہب کے نام پر سیاست شروع ہو جائے تو آنکھوں پر اقتدار کے حصول کی پٹیاں بند جاتی ہیں ایسے میں ضرور کر بلا کے سانحہ ہوتے ہیں.کاتب وقت آج بھی تاریخ لکھ رہا ہے.اس لئے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لئے ضروری ہے کہ تاریخ کے جھروکوں میں جانکھا جائے.
32 آیئے آج ہم آپ کو سناتے ہیں 1905ء کے اُس سیاسی و مذہبی کھیل کی کہانی جس نے دیو بندی علماء کی راتوں کی نیند حرام کر دی.یعنی مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا علمائے دیو بند پر وہ جوابی حملہ جسے تاریخ اب حسام الحرمین کے نام سے یاد کرتی ہے...یعنی بریلوی اور دیو بندی فرقاتی لڑائی کا وہ منظر نامہ جس میں دیوبندی اور بریلوی امت کے علماء ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کھیل میں احمدیت کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں.مگر یہ گھسیٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی.آیئے مذہبی دنیائے تاریخ کی ایک اور سیاسی مجبوری دیکھتے ہیں.بریلوی دیوبندی جھگڑا گزشتہ صدی کے ہندوستان میں بریلوی دیوبندی جنگ اپنے عروج پر تھی.دیوبندی حضرات بریلویوں کو مشرک، کافر، تو ہم پرست، پیر پرست، میلاد، عرس، قوالی، فاتحہ، نذر، نیاز ، دسواں ، بیسواں، چالیسواں وغیرہ کرنے والے بدعتی ، قبوری کے نام سے یاد کرتے اور انہیں قرآن وحدیث کے ذریعہ توحید کی طرف بلاتے بلکہ ان کو تجدید اسلام کی دعوت دیتے اور انہیں مکہ کے مشرکوں سے بدتر ہونے کا اعلان کرتے.بلکہ مشہور دیو بندی مولوی عامر عثمانی تو بریلویوں کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے نظر آتے تھے.بريلوى تعارف دیوبندی نظر سے ”بریلویوں سے کچھ بعید نہیں کیونکہ ان کے علم وفکر اور اخلاقی حالت کا جو اندازہ ان کی بے شمار تحریروں سے ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ جہالت وسفاہت کی کوئی قسم ایسی نہیں جن کا صدور ان سے ممکن نہ ہو.رکیک الکلام ، آوارہ زبان ، گھٹیا پیام ، قرآن وحدیث سے جاہل، منطق و علم کلام و ادب سے نا آشنا، اللہ کی بجائے مردوں اور پیروں فقیروں سے مرادیں مانگنے والے دوسروں کی تحریریں مسح کرنے والے، افتراء پردازی و ہرزہ سرائی میں طاق و ماہر.اپنے سوا ہر شے ہر شخص کو دوزخ میں دھکا دینے کا رسیا یہی خرافت، فتنہ پروری، ابوالفضولی کفر سازی ، ہرزہ سرائی ان کا دین و مذہب.“
33 (ماہنامہ تجلی دیو بندی یوپی ، بحوالہ دیو بندی کتاب اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے کارنامے صفحہ : 34) کچھ عرصہ تک تو دیو بندیوں کا پلہ بھاری رہا.مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد صورت حال بدل گئی.بریلوی فرقہ کو مولوی احمد رضا خان کی شکل میں ایک تیز زبان لیڈر میسر آ گیا اور پھر جو انہوں نے جوابی مسند سنبھالی تو الامان والحفیظ.وہ وہ الفاظ اور فتاویٰ سامنے آئے کہ دیو بندی اپنے تمام تر شیوخ الحدیث اور اقطاب عالم سمیت حیران و پشیمان نظر آنے لگے.دیوبندی تعارف بریلوی نظر سـ مولوی عامر عثمانی کی طرح سرخیل بریلویت جناب احمد رضا خان صاحب بریلوی نے بنفس نفیس دیو بندیوں اور وہابیوں کی تصویر جو اپنے فرقے کے لوگوں کو دکھائی وہ یوں تھی فرقہ وہابیہ، شیطانیہ، ابلیس لعین کے پیرو، بے دین، مکار ، سرکش، کافر، بد بخت، دین کے دشمن ، خدا کے مشہور کافر معاند، مفسد گروہ شیطان، زیاں کار مردود، کمینے ،کچی والے مشرک ، ظالم ، ہٹ دھرم کا فر، دوزخ کے کتے ، فاجر کافر، دین سے خارج ، کافروں کے منادی، جاہلوں کو دھوکہ دینے والے کافروں کے راز دار ، کافران گمراہ گر ، سخت جھوٹے ، مفتری، ظالم، ان کی کہاوت کتے کی طرح کجر و مضل ، ملحد ، ان کا کافر ہونا پہروں دن آفتاب سا روشن، یہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، انہیں بہرہ کر دیا.ان کی آنکھیں اندھی کر دیں.وہ دین سے نکل گئے.خدا کی قسم وہ کافر ہو گئے.وہابی ، فاجر، متمرد، ان پر کفر کا حکم ہے.دہرئیے.100 کافروں سے بدتر ، قیامت تک ان پر و بال گھناؤنی گندگیوں میں لتھڑے ہوئے ، کفری نجاستوں میں بھرے ہوئے.ہر کبیرہ سے بدتر کبیرہ ہر ذلیل سے زیادہ ذلیل.ان کا ٹھکانہ جہنم.“ ( حسام الحرمین.74،73، 75، 79 بحوالہ اعلیٰ حضرت، حیات اور کارنامے،صفحہ 31) ناپاک کتے مزید بعض دیوبندی حضرات کا نام لے کر فرماتے ہیں.ابوالکلام آزاد، حسین احمد مدنی، مفتی کفائت اللہ دہلوی، خان عبدالغفار خاں سرحدی
34 گاندھی ،عبدالشکور لکھنوی ، احمد سعید شبیر احمد عثمانی ، عطاء اللہ شاہ بخاری، فرقہ احرار اشرار بھی فرقہ نیچریت کی ایک شاخ ہے اس نا پاک فرقے کے یہ بڑے بڑے مکلمبین (کتے ) یہ ہیں.“ ( تجانب اہل السنۃ ، صفحہ 160 بحوالہ اعلیٰ حضرت ، حیات اور کارنامے صفحہ 27) مولوی احمد رضا خان كوارض حجاز میں سزا دلوانے کا پروگرام برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں بریلوی اور دیوبندیوں کی کفر و اسلام کی یہ جنگ بڑی مستقل مزاجی اور گرم جوشی جاری تھی کہ اسی دوران 1905ء کے حج کا موسم آن پہنچا.مولوی احمد رضا خاں صاحب نے حج کے لئے حجاز عازم سفر ہونے کا پروگرام بنایا تو دیو بندیوں نے اُن کے پیچھے پیچھے مولوی خلیل احمد سہارن پوری کو بھجوانے کا پروگرام تیار کر لیا.اور اس دوران ایک طویل محضر نامہ تیار کر کے بہت سے لوگوں کے دستخط بھی لے لئے جس میں درج تھا کہ فلاں بن فلاں شہر کا رہنے والا ہے جو آج کل حجاز میں ہے.یہ شخص اعلیٰ درجے کا خواہش نفسانی اور بدعات میں مبتلا ہے.تمام مسلمانوں ،خصوصاً علمائے کرام اور بزرگان دین کو فاسق اور گمراہ کہتا پھر رہا ہے اور لوگوں میں ان حضرات کے بارے میں نفرت پھیلاتا رہتا ہے اب تک اس نے سینکڑوں علمائے کرام کی تکفیر اور سب و شتم میں رسالے لکھ ڈالے ہیں.غلط عقائد لوگوں میں پھیلاتا رہتا ہے ہر گھر میں اس کی وجہ سے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں.عقائد علمائے دیوبند اور حسام الحرمین مصنفین مولوی خلیل احمد ، مولوی حسین احمد مدنی ، مولوی منظور احمد نعمانی ،مولوی تقی عثمانی صفحہ 25، دارالاشاعت اردو بازار کراچی نمبر 1) مشہور دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی پہلے ہی سے حجاز میں مستقل سکونت رکھتے تھے جبکہ شیخ محمد معصوم صاحب نقشبندی رامپوری اور مولوی منور علی صاحب دیو بندی شریف مکہ کے مشیروں میں شامل تھے.شیخ محمد معصوم صاحب نے اس محضر نامے کو آفندی عبدالقادر شیبی کنجی بردار خانہ کعبہ کے ذریعہ شریف مکہ تک پہنچوا دیا.شریف مکہ نے اس محضر نامے کو پڑھتے ہی مولوی احمد رضا خاں صاحب کی گرفتاری کے احکامات صادر فرما دیئے اور یوں مولوی صاحب کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا.
35 مولوی احمد رضا خان کو حجاز میں سزا دلوائی جائے دیوبندی مولوی حسین احمد نجیب اس محضر نامے کی ضرورت کے متعلق فرماتے ہیں.اس محضر نامے کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں چونکہ انگریزی حکومت اس شخص کی پشت پناہی کر رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے خلاف عدالت میں کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکتی.لیکن خطہ عرب میں چونکہ مسلمانوں کی حکومت ہے اور وہ مسلمانوں اور علمائے اسلام کے ایسے بدخواہ کو قرار واقعی سزا دے سکتی ہے.( عقائد علمائے دیو بند اور حسام الحرمین ، صفحہ 25-26) مولوی احمد رضاخان حجاز کی جیل میں مولوی احمد رضا خان صاحب کو فوری طور پر جیل میں ڈال دیا گیا.بعد ازاں آپ کو شریف مکہ کے سامنے پیش کیا گیا.چونکہ خاں صاحب کے عقائد و نظریات کے بارے میں کوئی ایسی کتاب مکہ مکرمہ دستیاب نہ تھی جس سے ان کے عقائد معلوم ہو سکتے.البتہ مولوی عبدالسمیع را مپوری کی کتاب انوار الساطعہ پر ان کی ایک تقریظ موجود تھی اُسی تقریظ کو بنیاد بنا کر مندرجہ ذیل تین سوالات مرتب کر کے خاں صاحب کو دیئے گئے کہ آپ نے یہ لکھا ہے کہ 1 - رسول اللہ صلی یہ تم کو ازل سے ابد تک کی جملہ چیز میں معلوم ہیں.2.آپ سے کائنات کی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہ تھی.3.آپ نے تقریظ کے آخر پر لکھا ہے وصلى الله على من هو الاول والاخر والظاهر والباطن اور حکم دیا گیا کہ ان تینوں سوالوں کے جواب فوری لکھو اور اپنا عقیدہ بیان کرو جب تک ان سوالوں کا جواب نہ دے دو گے تمہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں.احمدرضاخان صاحب کا اپنابیان مولوی احمد رضا خان نے اپنے سفر مدینہ کا مکمل حال کتابی شکل میں شائع فرما یا ہوا ہے.آپ اس واقعہ کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ
36 ان میں سے بعض جواب میرے دیکھنے میں آئے جن میں فرمایا ہے کہ یہ خبیث کذابوں کا کذب خبیث ہے اس کو تو مکہ معظمہ میں وہ اعزاز ملا جو کسی کو نصیب نہیں ہوتا.وہا بیہ کی تو کیا شکایت کہ وہ اعداء ہیں.ان کے افتراؤں نے بعض جاہل کچے سنیوں کو بھی میرے مخالف کر دیا تھا.یہ بہتان لگا کر کہ یہ معاذ اللہ حضرت شیخ مجد دکو کافر کہتا ہے اور جب مکہ معظمہ میں علم غیب کا مسئلہ بفضلہ تعالیٰ باحسن وجوہ روشن ہو گیا تو اب یہ جوڑی کہ عیاذ باللہ یہ قدرت نبوی کو قدرت الہی کے برابر کہتا ہے کچھ نا سمجھ لوگ آیت کریمہ یا بھا الذین امنوا ان جاء کم فاسق بنبائي فتبینوا.پر عمل نہ کرنے والے ان کے داؤں میں یعنی فریبوں میں آگئے.مدینہ طیبہ میں ایک ہندی صاحب شیخ الحرم عثمان پاشا کے یہاں کچھ دخیل تھے.یہ بھی ان کذابوں کی باتوں سے متاثر ہوئے.(اعلیٰ حضرت کا سفر مدینہ مصنفہ مولوی احمد رضا خان ،صفحہ 46 ناشر مکتبہ اعلیٰ حضرت مزنگ لاہور ) مولوی احمد رضا خان صاحب کا جوابی حمله مولوی احمد رضا خان صاحب نے جیسے تیسے ان تینوں سوالوں کے جواب دے دیئے جس پر مسئلہ رفع دفع ہو گیا اور آپ کو سفر کرنے کی اجازت مل گئی.مگر خاں صاحب کو ان دیوبندی حضرات پر بہت غصہ تھا جن کی وجہ سے ان کو حجاز میں جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی.اس لئے انہوں نے فوری واپسی کرنے کی بجائے حساب برابر کرنے کا پروگرام بنایا اور اپنے وکیل مفوض شیخ صالح کمال کے ذریعہ شریف مکہ کے پاس پیغام بھجوایا کہ افسوس مجھ پر تو اس طرح لے دے ہو رہی ہے حالانکہ میں خواص اہل سنت سے ہوں مگر ایک شخص ( مولوی خلیل احمد سہارن پوری جو یہ محضر نامہ لے کر گئے تھے ) یہاں ایسا موجود ہے جو خدا کو جھوٹا اور شیطان کو رسول اللہ صلی اینم کہتا ہے اس پر کسی قسم کا مواخذہ نہیں کیا جاتا.“ مزید یہ کہ i.انہوں نے مولانامحمد قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس میں سے ختم نبوت کی تفسیر والے حوالے.ii.مولوی رشید احمد گنگوہی کی کتاب سے کہ اگر کوئی اللہ کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ
37 اللہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کو کا فرمت خیال کرو.iii.مولوی خلیل احمد کی کتاب براہین قاطعہ سے کہ شیطان کے علم کو جناب رسول اللہ صلی لا الہ سلیم سے زائد سمجھتے ہیں.۱۷ مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب حفظ الایمان سے کہ جناب رسول اللہ صلی ا یہ تم کا علم زید وعمر بلکہ چوپایوں کے برابر ہے.اسی طرح لکھا کہ ان دیوبندی حضرات کے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے ساتھ محبت کے تعلقا نہیں اور آگے آپ علیہ السلام کے متعلق تفصیل درج کی کہ آپ دعوی مہدویت و مسیحیت کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کی وہی تفسیر فرماتے ہیں جو مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس میں درج کی ہے.یوں ان تمام حوالوں کو لیکر ان کا عربی ترجمہ کر کے علمائے حرمین کے سامنے فتویٰ کفر کے لئے پیش کردیا اور اپنی اس تحریر کو المعتمد المستند“ کے نام سے معنون کر دیا.احمدرضاخانصاحبکاتیرٹھیک نشانےپر علمائے حرمین کی ایک بڑے تعداد نے دیو بندیوں کو کا فرقرار دیتے ہوئے ان پر کفر کا فتویٰ صادر فرما کر مہریں لگا دیں.یوں مولوی احمد رضا خان صاحب خوشی خوشی واپس ہندوستان لوٹ آئے اور ان تمام فتاوی اور اپنی تصنیف ”المعتمد المستند“ کو اکٹھا کر کے حسام الحرمین کے نام سے شائع کر دیا.بلکہ بقول دیو بندی مولوی عبد الرحمن احمد رضا خان بریلوی نے حرمین شریفین کا وہ متبرک فتوی ہندوستان لا کر اتنی کثرت سے شائع کیا کہ مشرق و مغرب تہہ و بالا ہو گئے.“ (اعلی حضرت کے علمی کارنامے صفحہ 16 مصنفہ مولوی عبد الرحمن مطاہری ربانی بک ڈپوکٹر شیخ چاندلال نوں دہلی نمبر ) یوں دیو بندیوں کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے حرم میں اُن کو قید کروانے کے جواب میں مولوی صاحب نے ان کے کفر کا فتویٰ حاصل کر لیا چنانچہ بریلوی مولوی ارشد القادری ایڈیٹر جام نور اسی حسام الحرمین کے فتویٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں خاتم النبیین کی تشریح میں جماعت احمدیه بانی دیوبند کے مسلک پرہے ” جماعت احمد یہ خاتم النبیین کے مضمون کی تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے
38 سطور بالا میں جناب مولوی محمد قاسم نانوتوی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے.‘( زیرو زبر صفحہ 123 ، مصنفہ ارشد القادری شائع کردہ رومی پبلی کیشنز 38 اردو بازار لاہور ) اسی طرح ارشد القادری صاحب مزید احمدی اور دیو بندی نقطہ نظر کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قادیانیوں کا یہ دعویٰ اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ وہ حضور اکرم صلی اینم کے خاتم النبین ہونے کا انکار نہیں کرتے بلکہ خاتم النبیین کے اس معنی کا انکار کرتے ہیں جو عام مسلمانوں میں رائج ہے.اسی بناء پر مولوی محمد قاسم نانوتوی نے بھی عوام کے معنوں کو نادرست قرار دیا آپ تحریر فرماتے ہیں عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اینم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.“ پھر اس پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ا.لفظ خاتم النبیین کے معنی کی تشریح کے سلسلہ میں جماعت احمد یہ نانوتوی کے مسلک پر ہے.ii.مرزا غلام احمد قادیانی اور مولانا نوتوی دونوں کے انداز فکر اور طریقہ استدلال میں پوری پوری یکسانیت ہے.iii.اتنی عظیم مطابقتوں کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلہ میں دونوں کا نقطہ نظر الگ الگ ہے.بلکہ آخر پر اپنا تجزیاتی فیصلہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ اگر قادیانی جماعت کو منکر ختم نبوت کہنا امر واقعہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس انکار کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کو بھی منکر ختم نبوت نہ قرار دیا جائے.(زیروز بر مصنفه ارشد القادری ایڈیٹر جام نور، صفحہ 122 تا 124 ، روحی پبلی کیشنز 38 اردو بازار لاہور ) دیوبندیوں کو احمدیت کی دشمنی میں نمبر 1 ہونے کا خیال کیوں آیا؟ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی.مولوی احمد رضا خان صاحب نے حرم سے نکلنے سے پہلے
39 پہلے 3 باتیں حرمین کے علماء کو رٹا دیں.اول : دیوبندی منکر ختم نبوت ہیں.دوئم : ان کے بانی جماعت احمدیہ سے محبت و اخوت کے تعلقات ہیں اور دونوں کا ختم نبوت پر یکساں موقف ہے.سوئم : یہ کہ یہ فرقہ گستاخ رسول ہے.دیوبند کو حرم کے علماء کے مزید 26 سوالوں کا سامنا دیوبندی حضرات نے دوبارہ اپنی طاقت اکٹھی کی اور حرم کے ایک ایک مفتی کے پاس حاضر ہوئے اور بتایا کہ یہ آپ سے ظلم ہو گیا ہے.ہم ایسے نہیں ہیں.مولوی احمد رضا خان صاحب نے حوالے تروڑ مروڑ کر پیش کئے ہیں.اس پر حرم کے علماء نے 26 سوالوں پر مشتمل ایک سوالنامہ تیار کر کے دیوبندیوں کے علماء کے لئے ہندوستان روانہ کر دیا جس میں سوال نمبر 10 تھا کہ کیا آپ حضرات حضور اکرم صلی ایام کے بعد کسی نبی ورسول کو جائز سمجھتے ہیں؟ اسی طرح سوال نمبر 26 کہ آپ حضرات قادیانی ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام) کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ جس نے مسیح و نبی ہونے کا دعوی کیا ہے.یہ سوال اس لئے کیا جارہا ہے.کہ یہ بریلوی لوگ آپ حضرات کی جانب یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ آپ حضرات اس سے محبت رکھتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں.( اعلیٰ حضرت حیات اور کارنامے، صفحہ 92-93) دیوبندی تاریخ کاوه TURNING POINT دیو بندی تاریخ کا یہی وہ turning point ہے یہاں وہ مولوی احمد رضا خان بریلوی کی حسام الحرمین سے زچ ہو جاتے ہیں اور یہاں سے پھر وہ ایک طرف ید ختم نبوت کی تفسیر میں احمدی دیو بندی یکساں موقف رکھنے“ M یا احمدیت سے محبت رکھنے“
40 یا احمدیت کی تعریف کرنے کے الزام کو دھونے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو دوسری طرف مولانا قاسم نانوتوی کی تحذیر الناس پر غلاف چڑھانے بلکہ طعن کرنے بلکہ ان کے موقف سے مکمل انحراف میں مصروف ہو جاتے ہیں.اور یہیں سے ظلم کی اس اندھی رات کا آغاز ہوتا ہے جس میں احمدی نعشوں کو قبروں سے اکھاڑ باہر پھینکنا، بچوں بوڑھوں نوجوانوں حتی کہ عورتوں پر ظلم کرنا، گھر بار کو لوٹ لینا، بیوت الذکر سے کلمہ طیبہ کو گندگی مل کر مٹا دینا، معصوم نمازیوں کو بموں سے اڑا دینا، کلمہ طیبہ سینے پر لگانے والوں کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں جھونک دینا ، جہاد بن جاتا ہے اور یہ ہے وہ خفیہ راز اور خفیہ مجبوری جس میں دیوبندی علماء تمسخر اڑاتے ، قبریں اکھیڑتے ، بیوت الذکر گراتے قرآن جلاتے اور یہ نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں کہ ہاں ”ہم احمدیوں سے وہیں سلوک کر رہے ہیں جو مکہ میں مشرکین مکہ معصوم مسلمانوں سے کیا کرتے تھے“.مجھے اقتدار ملے تومیں سب احمدیوں کوذبح کردوں گا مشہور دیو بندی مصنف طاہر عبدالرزاق نے ختم نبوت کے محافظ کے نام سے مختلف علماء کے بیانات شائع کئے ہیں جس میں مولوی تاج محمود فیصل آبادی صدر تحفظ ختم نبوت مغربی پاکستان بڑی مسرت اور بڑے فخر سے اعلان کرتے نظر آتے ہیں.خون کی ندیاں بہا دوں گا.اور سب احمدیوں کو ذبح کر دوں گا.“ اگر مجھے اقتدار ملے اور میں پاکستان کا سربراہ بنوں تو میرا فیصلہ...مولانا نے اپنا ہاتھ کھول کر بازو پھیلایا اور اسے تلوار کی طرح لہراتے ہوئے فرمایا کہ میں تو ان سب کا صفایا کر دوں گا یعنی خون کی ندیاں بہادوں گا.بچوں بوڑھوں عورتوں سب کو ذبح اور املاک کو آگ لگادوں گا.(اناللہ وانا الیہ راجعون ) ہفت روزہ لولاک فیصل آباد از پروفیسر محمد طاہر بحوالہ ختم نبوت کے محافظ از طاہر عبدالرزاق صفحہ 37) وہ جو کہتے ہیں کہ خود بدلتے نہیں اور قرآن بدل دیتے ہیں والی بات عملی طور پر نظر آنے لگے جاتی ہے.1905ء کے بعد کے دیوبندی حضرات نے تحذیر الناس سے کیا انحراف کیا تمام اسلامی اقدار سے بھی کنارہ کش ہو گئے اور پھر صرف اور صرف ایک ہی اصول طے پا گیا کہ ہم نے دنیا کو دکھانا
41 ہے کہ ہماری ختم نبوت کی تفسیر احمدیوں سے بالکل نہیں ملتی ، بلکہ ہمارا احمدیوں سے کوئی ہمدردی کا رشتہ نہیں ، بلکہ ہم تو احمدیوں کے اول المخالفین ہیں، بلکہ ہم تو ان کے ازلی دشمن ہیں، بلکہ ہم کوموقعہ ملے تو ہم ان کو ذبح کر دیں اور زندہ رہنے کا بھی حق چھین لیں، بلکہ ہم تو ان کو بموں سے اڑا دیں، ان کی مساجد کو ”مرز واڑے کا نام دے دیں اور ان کے گھروں پر سے کلمہ طیبہ کو کھرچ ڈالیں ، ان کو شعائر اسلام یہاں تک کہ السلام علیکم کہنے اور آذان دینے سے بھی روک دیں اور ان تمام نیک کاموں کا سہرا ہمارے سر پر ہو اور کاش ان تمام نیک کاموں سے ہمارے ماتھے پر لگا " تحذیر الناس“ کا داغ دھل جائے اور کاش دنیا ہمیں یہ طعنہ کبھی نہ دے کہ ہمارے بانی مولانا قاسم نانوتوی نے ختم نبوت کی وہی تفسیر کی تھی جو آج احمدی کر رہے ہیں اس الزام کو دھونے کے لئے ہم سب کاموں کے لئے تیار ہیں خواہ وہ اسلامی اخلاق سے انحراف ہو یا ہمارے اسلاف کی تحریرات سے.ہم سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں.
42 باب نمبر 4 ایک گائے دوچور؟ یا برادران یوسف يا قاتلين حسين ؟ تحذیرالناس کے دفاع کے تعاقب میں“ بریلویوں کی مشہور ویب سائٹ www.Islamimehfil.com زیر عنوان تحذیرالناس کے دفاع کا تعاقب میں بریلوی عالم دین را نا خلیل احمد صاحب دیوبندی علماء دین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ جو دیوبندی حضرات کہتے ہیں ہم نے تحذیر الناس کی مختلف عبارات کو جوڑ کر غلط مفہوم بنالیا ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ مولا نا قاسم نانوتوی نے صرف تحذیر الناس میں ہی نہیں اپنی دیگر کتب میں بھی ختم نبوت کے متعلق انہیں معنوں کو بار بارد ہرایا ہے.چنانچہ اپنی دوسری کتاب انوار النجوم ترجمہ قاسم العلوم میں ختم نبوت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.خاتم النبیین کے معنی سطحی نظر والوں کے نزدیک تو یہی ہیں کہ زمانہ نبوی صلی این گز شتہ انبیاء کے زمانے سے آخر کا ہے اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں خاتم النبیین سلام کی نہ تو تعریف ہے اور نہ ہی کوئی بڑائی.(انوار النجوم ترجمہ قاسم العلوم صفحہ 78-79) پھر دیوبندی اعتراض کہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی ختمیت زمانی کے قائل تھے اور اس کے منکر کو کا فرسمجھتے تھے کے خلاف دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں.نانوتوی صاحب کی عبارات میں یہاں تضاد پایا جاتا ہے کہ وہ خاتمیت زمانی مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی مانتے تحذیرالناس کے ابتداء ہی میں خاتمیت زمانی ماننے کی قباحتیں وہ
43 یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں نہ کہیئے اور اس مقام کو مقام مدح نہ قرارد یجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تا خرزمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارہ نہ ہوگی بلکہ قاسم نانوتوی تو خاتمیت زمانہ کو سرکار صلی یا ایلیم..کی شان کے لائق ہی نہیں سمجھتا ملاحظہ ہو تحذیر الناس،صفحہ 11 که شایان شانِ محمدی صلی تیم خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی“.اسی طرح تحذیر الناس ،صفحہ 33-34 پر خاتمیت بمعنی انصاف ذاتی بوصوف نبوت کا اپنا موقف پیش کر کے لکھتا ہے کہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلالہ اسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فر ق نہ آئے گا.“ اور پھر تحذیرالناس ،صفحہ 17 پرلکھتا ہے کہ وصف ایمانی آپ صلیم میں بالذات ہو اور مومنین میں بالغرض اگر نبی بالذات ماننے سے آپ صلی اسلام کو آخری نبی مانا لازم آتا تھا تو نانوتوی پرست ان مذکور دو عبارتوں کو سامنے رکھ کر بتلائیں کہ کیا آپ صلی بینم کو مومن بالذات ماننے سے لازم نہیں آتا کہ آپ صلی یا ہم آخری مومن ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی مومن نہیں ہے.“ " دیوبندی خیانت“ را نا خلیل احمد صاحب مزید انکشاف کرتے ہوئے اسی عنوان ” تحذیر الناس کے دفاع کے تعاقب میں زیر عنوان دیو بندی خیانت فرماتے ہیں: دیو بندہی سے مکتبہ راشد کمپنی نے تحذیر الناس شائع کی تو عبارت یوں بدل دی کہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا.اور یوں پیدا ہو کی جگہ فرض کیا جائے...لکھ کر چھپانے کی کوشش کی.
44 رانا خلیل احمد دیوبندی علماء کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں.” مناظرین دیوبندیت جتنی چالیں چلیں مگر قاسم نانوتوی کے پوتے قاری طیب صاحب پوری دلیری کے ساتھ اپنے دادا کی تعلیم کو واضح کیا ہے کہ ختم نبوت کا یہ معنی لینا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا یہ دنیا کو دھوکہ دینا ہے ختم نبوت کے معنی قطع نبوت کے نہیں بلکہ کمال نبوت اور تکمیل نبوت کے ہیں ( خطبات حکیم الاسلام ، جلد 1 صفحہ 47) نبوت بخش یا نبی تراش قاری طیب نے مزید لکھا کہ حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں بلکہ نبوت بخش بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا.آفتاب نبوت ، صفحہ 19 اس پر دیو بند ہی سے عامر عثمانی کولکھنا پڑا کہ حضرت مہتمم صاحب نے حضور کو نبوت بخش کہا تھا مرزا صاحب نبی تراش کہہ رہے ہیں حرفوں کا فرق ہے معنی کا نہیں.“ ( تجلی نقد و نظر، صفحه 78) آگے چل کر بریلوی علماء کرام متاخرین دیوبندی علماء کرام مثلاً مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کی کتب سے بھی ایسے ہی حوالہ جات ڈھونڈ نکالتے ہیں جو اُن کے خیال میں نہ صرف جماعت احمدیہ کے لئے احترام کے جذبات رکھتے تھے بلکہ ختم نبوت کی تفسیر میں بھی جماعت احمدیہ کے ہی شانہ بشانہ چل رہے تھے.چنانچہ مشہور مناظر بریلوی مولوی سید ہم حسین شاہ بخاری کا تبصرہ پیش ہے.مولوی اشرف على تهانوى ضمیمه ختم نبوت بریلوی مولوی سید تبسم حسین شاہ بخاری فرماتے ہیں.”اب قادیانیوں کو ایسے دلائل کہاں سے حاصل ہوتے ہیں کہ وہ مرزا غلام احمد کی نبت...کو سچی نبوت قرار دے سکیں اور کہ سکیں کہ نبوت کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے اس لئے ہم آپ کو پھر مؤلف جامع المجد دین“ کے پاس لئے چلتے ہیں لکھتے ہیں.
45 غرض بعثت مجددین ختم نبوت کی کتاب کا ایسا نا گزیر ضمیمہ ہے جس کے بغیر اس کتاب کا ختم سمجھنا ہی دشوار ہے اور نہ عقیدہ ختم نبوت کی اس دشواری کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے کہ جمعمولی عقائد و اعمال ہی میں اختلال نہیں بلکہ کفر و شرک تک کے دینی مفاسد ہر زمانے میں نئے نئے پیدا ہوتے رہتے ہیں تو پھر آخر نبوت کی ضرورت کیسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی.“ (جامع المجد دین ،صفحہ 119 ، 120 مولفہ عبدالباری) اسی نبوت کی ضرورت کو مرزا قادیانی نے یوں بیان کیا.”ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے.“ (حقیقۃ النبوۃ ، صفحہ 272) تھانوی صاحب کو اگر نبوت کا ضمیمہ قرار دیا گیا ہے تو ظاہر ہے ان کی کتب کو ضمیمہ آیات قرآنی ہی کہہ سکتے ہیں.ختم نبوت کی کتاب کے اس ناگزیر ضمیمے یعنی مولوی اشرف علی تھانوی کے متعلق بھی اور اس کی کتب کے متعلق بھی ایک پر جوش مستانے کی یہ تحریر دل کی آنکھوں سے پڑھ کر عبرت حاصل کیجئے." آج جو شخص بھی دین اسلام کے چہرے کو پورے جمال و کمال کے ساتھ بالکل صاف و بے غبار جامع و کامل صورت میں از سر نو جدید یافتہ اور تر و تازہ دیکھنا چاہتا ہے وہ عہد حاضر کے جامع المجد دین (تھانوی صاحب) کی کتابی آیتوں کی طرف علما و عملاً رجوع کر کے خود شاہد کرسکتا ہے.“ (جامع المجد دین ، صفحہ 75) (سپاہ دیوبند کے لئےلمحہ فکریہ از تقسیم شاہ بخاری، صفحہ 442 تا443) مولوی سید تقیسم حسین شاہ بخاری مولوی رشید احمد گنگوہی کے حوالے سے مزید فرماتے ہیں کہ کسی نے ان سے یہ سوال کیا.سوال : مرزائی کے جنازہ کی نماز جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا نبی مانتے ہیں پڑھنی چاہیئے یا نہیں.“ جواب : ایسے مرزائی قادیانی کو اکثر علماء کا فرفرماتے ہیں لہذا اس کی صلوٰۃ جنازہ نہ پڑھنی
46 چاہیئے.اب تو آنکھیں کھل گئیں کہ فتویٰ میں مرزائی قادیانی کو مطلق کا فرنہیں کہا جا رہا بلکہ چند علما ء ایسے بھی ہیں جو مرزائیوں کو کا فرنہیں کہتے.“ (سیاہ دیوبند کے لئے لحہ فکریہ صفحہ 474، از تبسم شاہ بخاری) برقع پوش کتابیں اور دیوبندی خیانت انٹرنیٹ پر بریلوی عالم دین ابوالنعمان رضا صاحب کی طرف سے اشرف علی تھانوی اور قادیانی بھائی بھائی کے زیر عنوان برقع پوش کتابیں کے نام سے مضمون موجود ہے.یہ 29 صفحات کا مضمون ایک عجیب حیرت کدہ ہے.مضمون نگار ابتداء یوں کرتا ہے " آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا کہ بھائی یہ برقعہ پوش خواتین اور برقعہ پوش مولوی تو دیکھے اور سنے ہیں لیکن یہ برقعہ پوش کتابیں؟؟ کیا آج کل کتابوں نے بھی برقعہ پہننا شروع کر دیا ہے؟؟ ان کا برقعہ کیسا ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ.سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہورہے ہونگے.جی ہاں.....ایک کتاب ہماری نظر میں جس نے کئی سالوں سے برقعہ پہن کر ایک مولوی کو معزز و مجدد وحکیم الامت بنایا ہوا ہے...جی جناب اشرف علی تھانوی کی ہی بات کر رہے ہیں اور ان کی وہ کتاب جو کئی سالوں سے برقع پہنے اب بھی دیوبندی مکاتب سے پبلش ہو رہی ہے اس کا اصل نام ہے المصالح العقلیہ للاحکام النقلیہ کراچی کے دیوبندی مکتبہ دارلاشاعت سے احکام اسلام " م عقل کی نظر میں میں اب بھی چھپ رہی ہے.اگر آپ کو سمجھ نہیں آئی تو سن لیجئے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کو حکیم الدیوبند نے اپنے نام کا برقعہ پہنا کر اضافہ کے ساتھ پبلش کر دی“ آگے انہوں نے صفحوں کے صفحے آمنے سامنے درج کر کے دکھایا ہے کہ کس طرح مولوی اشرف علی نے لفظا لفظاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے چوری کر کے اپنے نام سے شائع کر دیا اور
47 ابھی تک شائع کر رہے ہیں.مثلاً خنزیر کی حرمت کا فلسفہ اسلامی اصول کی فلاسفی ، ص 24 کو المصالح العقلیہ للاحکام النقلیہ کے ص 279 پر دیکھ سکتے ہیں.عفت اور اسلامی پردہ کا فلسفہ اسلامی اصول کی فلاسفی ص 45 تا 49 یعنی 5 صفحوں کے مضمون کو المصالح کے ص 166 تا169 حرف بحرف دیکھ سکتے ہیں پنج وقتہ نمازوں کے اوقات کی تعین کی وجہ کشتی نوح ص 63 تا 65 یعنی 3 صفحوں کے مضمون کو المصالح کے ص 73 تا 75 پر حرف بحرف دیکھ سکتے ہیں.اسلامی نکاح کا فلسفہ ” آریہ دھرم ص 32 تا 33 کو المصالح کے ص 218 تا 219 پر حرف بحرف دیکھ سکتے ہیں اسلام کا فلسفہ اخلاق کتاب «نسیم دعوت ص 71 تا 72 کو المصالح کے 303 تا 305 پر حرف بحرف دیکھ سکتے ہیں حقیقت دعا و قضا کتاب ”بركات الدعا ص 7 تا 8 اورص 11 تا 12 کو المصالح کے ص 85،84،83 پر حرف بحرف دیکھ سکتے ہیں.قبور سے تعلق ارواح الحکم جلد 3 ص 302 پرچہ 23 جنوری 1899 وملفوظات جلد اول ص189 تا191 کو المصالح کے ص262 تا265 پر دیکھ سکتے ہیں.ص 27 پر ابوالنعمان صاحب زیر عنوان ”فیصلہ آپ کریں فرماتے ہیں یہ کوئی الزام نہیں ہر شخص چشم عبرت سے ان حوالہ جات کو ملاحظہ کر سکتا ہے.مرزا قادیانی کی کتاب برکات الدعا 1892 میں آریہ دھرم 1895 میں اسلامی اصول کی فلاسفی 1896 میں الحکم 1899 میں کشتی نوح 1902 میں نیم دعوت 1905 میں شائع ہو چکیں تھیں.اس کے برعکس مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب المصالح ان کی اپنی تحریر
48 کے مطابق یکم رجب بروز جمعرات 1344ھ کو ختم ہوئی جو 1916 بنتا ہے.آگے ص 28 پر زیر عنوان اصحاب مکاشفہ میں فرماتے ہیں ” مرازا قادیانی نے اپنا ذاتی تجربہ لکھ کر اپنے آپ کو اہل کشف ثابت کیا تو دوسری طرف مولوی اشرف علی تھانوی نے مرزا کو اصحاب مکاشفہ“ میں شامل کر کے ان تمام دعووں کے سچ ہونے کا اعلان کر دیا.دیوبندیوں کے...نا مناسب الفاظ.مولوی قاسم نانوتوی نے ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے تحذیر الناس لکھ ماری جس کا فائدہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اٹھایا تو مربی دیو بند مولوی رشید گنگوہی نے مرزا غلام احمد کو مرد صالح ہونے کا فتویٰ دیا.اور لدھیانہ کے بازاروں میں اس کا اعلان مولوی شاہ دین اور مولوی عبد القادر نے روبرو مریدان منشی احمد جان و متبعان قادیانی کے کیا.تو دوسری طرف (...نا مناسب الفاظ..) اشرف علی تھانوی نے مرزا غلام احمد قادیانی کو اصحاب مکاشفہ میں شمار کر کے رہی سہی کسر پوری کر دی.ان ہی القابات کی بناء پر دیوبندی مکتبہ فکر ختم نبوت کے سلسلہ میں مشکوک تھا اور یہ راز داریاں اس کی بین ثبوت ہیں ( یہ مضمون مشہور ویب سائٹ scribd) پر بھی موجود ہے جاہلوں کی نشانی ہندوستان ملک پور ہاٹ متصل ولکولہ بلرام پور کٹیہار بہار میں دیوبندیوں اور بریلوی حضرات کے درمیان ایک مشہور مناظرہ ہوا جس میں دیوبندیوں کی طرف سے مولوی طاہر گیاوی اور بریلویوں کی طرف سے مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی پیش ہوئے.بریلوی مولوی صاحب نے مولا نا قاسم نانوتوی کے عقیدہ ختم نبوت پر اعتراض کرتے ہوئے یہ بیان دیا ختم نبوت سے متعلق قرآن وحدیث میں واضح اعلان کے بعد بھی نبی کی آمد کو فرض کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ مزید برآں یہ کہ خاتمیت محمدی صلی ہی تم میں کچھ فرق نہ آئے گا“ یہی تو جاہلوں کی نشانی ہے دنیا کا قاعدہ ہے کہ اگر ایک قطار میں دس افراد کھڑے ہوں تو
49 ان میں سے دسواں شخص آخری شخص کہلائے گا اور اب اس قطار میں اگر گیارھواں شخص کھڑا ہو گیا تو اب دسواں شخص آخری کہلانے کا حقدار نہیں ہوگا بلکہ گیارھویں شخص کو آخری کہا جائے گا اور یہی بات علمائے دیو بند کے حلق سے نیچے نہیں اترتی.ریاضی کا یہ قاعدہ دنیا کے کسی کونے میں صحیح ہو تو ہو لیکن علمائے دیو بند کے نزدیک شائد یہ قاعدہ غلط ہے اسی لئے وہ حضور صلی یا پیام کے بعد کسی نبی کے پیدا ہو جانے پر حضور صلی یا ایلم کو ہی آخری نبی کہنے پر مصر ہیں.( مناظرہ روداد کشیهار مرتبه شکیل احمد سبحانی ص 15 ناشر رضا اکیڈمی ممبئی 3) ایک گائے کے دوچور“ بریلویوں کے ساتھ ساتھ اہل حدیث یعنی غیر مقلدین بھی میدان میں آگئے اور انہوں نے بھی اعلان کرنا شروع کر دیا کہ جماعت احمدیہ اور بانی دیو بند ختم نبوت کی تفسیر و تشریح میں ہم مسلک و ہم مشرب ہیں.اہلحدیث غیر مقلد حضرات کے مزعومہ شیخ العرب والعجم مولوی سید بدیع الدین شاہ راشدی تحذیر الناس ص ۱۲ کی تشریح درج کر کے لکھتے ہیں " نبوت کی جگہ کو تم نے خود تو ڑا ہے اس میں تم نے خود رخنہ اندازی کی ہے.مرزائی بھی تو ایک امتی ہی کو آگے کرتے ہیں آپ نے بھی امتی کو آگے کیا ہے.نبی کے پیچھے نہ آپ ہیں نہ وہ ہیں.بات ایک ہی ہے تم ایک ہی گائے کے دو چور ہو“ براۃ اہل حدیث ص ۵۱٬۵۰ مطبوعہ الدار الراشد یه نزد جامع مسجد اہل حدیث را شدی گلی نمبر ا موسیٰ لین کراچی بحوالہ اہل سنت کی حقانیت کا ثبوت غیر مقلدین کے قلم سے مولفہ میثم عباس قادری رضوی ص۸) غيرمقلد مولوی ڈاکٹر طالب الرحمن صاحب كا فتوى ڈاکٹر صاحب اپنی مشہور کتاب دیو بندیت تاریخ وعقائد میں تحذیر الناس پر تفصیلی بحث کے بعد آخری لائن کے طور پر خلاصہ لکھتے ہیں کہ
50 ” جماعت احمد یہ خاتم النبیین کے معنوں کی تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے سطور بالا میں جناب قاسم نانوتوی کے حوالہ جات سے ذکر کیا دیوبندیت تاریخ و عقائدص 175 مطبوعہ مکتبہ بیت الاسلام الریاض 4460149 بحوالہ اہل سنت کی حقانیت کا ثبوت غیر مقلدین کے قلم سے مولفہ میثم عباس قادری رضوی ص 14) " دیوبندی اجرائے نبوت میں مرزا صاحب کے ہم نواہیں“ غیر مقلد مولوی محمود سلفی ابن مولوی اسماعیل کانگریسی نے تو ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے دیو بندیوں کو ہٹ دھرم قرار دے دیا آپ لکھتے ہیں اگر دیو بندی اپنی انا کا مسئلہ نہ بناتے اور اپنے علمی گھمنڈ کی وجہ سے تکبر نہ کرتے اور اپنے غلط موقف سے رجوع کر لیتے تو حنفی علماء دو فرقوں میں تقسیم نہ ہوتے.دیوبندیوں نے اجرائے نبوت میں مرزا صاحب کی ہم نوائی کر کے تاریخ میں اپنا نام مستقل طور پر ہٹ دھرموں میں لکھوالیا ( علمائے دیوبند کا ماضی ص 10 مطبوعہ ادارہ نشر التوحید والسنتہ لاہور ) اورص 55 پر لکھا کہ مسئلہ نبوت مرزا صاحب نے مولانا قاسم نانوتوی صاحب ہی سے سیکھا ہے ( علمائے دیوبند کا ماضی ص 55 مطبوعہ ادارہ نشر التوحید والسنتہ لاہور ) (بحوالہ اہل سنت کی حقانیت کا ثبوت غیر مقلدین کے قلم سے مولفہ میثم عباس قادری رضوی ص 14) ”چورکی داڑھی میں تنکا یا کچھ اور معامله ،، اسلام کا مقدس مذہب مکتہ المکرمہ سے شروع ہوا.مدینہ المنورہ میں آیا اور پھر بغداد ایران ، فارس، مصر، شام سے ہوتا ہوا یورپ اور چین اور دنیا کے ہر کونے تک پھیل گیا.15 صدیوں سے دنیا کی تاریکیوں کو روشن کر نیوالا دین مصطفیٰ آج دنیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بقعہ نور ہے مگر اس
51 تمام عرصے میں اور ان تمام ملکوں میں، اور اس تمام مسافت میں کہیں بھی ختم نبوت کو اتنا خطرہ پیش نہیں آیا جتنا دیو بندیوں کے دیس میں اچانک پیش آ گیا.چنانچہ جتنی انجمن تحفظ ختم نبوت جتنی کا نفر نسر تحفظ ختم نبوت جتنی تحاریک تحفظ ختم نبوت دیوبندیوں نے بر صغیر میں اٹھا ئیں اور وہ بھی 1905 یعنی حسام الحرمین کی اشاعت کے بعد نہ تو وہ بانی دیو بند کے زمانہ میں اٹھیں اور نہ ہی 15 سو سالہ پوری دنیا میں.حتی کہ آج کے سعودی عرب میں بھی یہ نادر الوقوع کارنامہ سرانجام نہیں پایا.واقف کاران حال میں سے کوئی اسے مولوی احمد رضا خان کے طعنوں کی خفت مٹانے کا حربہ کہتا ہے تو کوئی دھن دولت سمیٹنے اور سستی شہرت حاصل کرنے کا ہتھیار.کوئی اسے تحریک پاکستان اور تحریک آزادی میں کانگریس اور ہندوؤں کی گود میں بیٹھنے کے شرمناک فعل کو چھپانے اور کوئی اسے سانحہ مسجد شہید گنج میں شرمناک کردار ادا کرنے کو بھلوانے کا ہتھکنڈہ قرار دیتا ہے.جو بھی ہو سب کچھ ہے مگر محبت رسول اما الام بالکل نہیں ہے.آئیے دیکھتے ہیں اہل حدیث علماء اس دوغلی کہانی کو کس نام سے سرفراز کرتے ہیں دیوبندى مجلس تحفظ ختم نبوت کیوں بنا کر بیٹھے ہیں؟؟؟ مولانا ڈیروی معروف غیر مقلد اہل حدیث مولوی عطاء اللہ ڈیروی صاحب اپنی کتاب و تبلیغی جماعت عقائد وافکار نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں تحذیر الناس اور اس میں درج مندرجات پر تفصیلی تبصرہ کرنے کے بعد ان الفاظ میں بحث کو سمیٹتے ہیں قابل غور مقام ہے کہ بانی مدرسہ دیوبند مولانا قاسم صاحب نانوتوی کے بیان کے مطابق اگر آپ کے بعد بھی نبی آجائے تب بھی آپ خاتم الانبیاء ہوں گے.تو ایسی صورت میں مرزا غلام احمد قادیانی و دیگر جھوٹے نبیوں کے دعوائے نبوت کے خلاف سمجھنے میں آخر کیا جواز رہ جاتا ہے اور جماعت دیوبند یہ جب آپ صلی یا یتیم کے بعد ہر قسم کے نبی کے آنے کو ختم نبوت کے خلاف نہیں بجھتی تو وہ مجلس تحفظ ختم نبوت کیوں بنا کر بیٹھی ہے...اور کسی مدعی نبوت کیخلاف شور کس لئے مچاتی ہے؟ ( تبلیغی جماعت عقائد وافکار نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں ص 115 افکار مولوی عطاء اللہ ڈیروی صاحب از قلم ابو الوفا محمد طارق خان
52 62 مطبوعہ دارالکتب العلميه ) تحفظ ختم نبوت والے برادران یوسف بلكه قاتلين حسين کی طرح ہیں....مولانا عطاء اللہ ڈیروی مولوی عطاء اللہ ڈیروی صاحب مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کی منافقت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کیا اس جماعت کی مثال یوسف علیہ السلام کے بھائیوں سے دینا غلط ہوگا جو عمداً یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال کر شام کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے کہ یوسف کو بھیٹر یے نے کھا لیا ہے.اس جماعت کی مثال اس قوم کی ہے جس نے حسین بن علی رضی اللہ کو شہید کیا اور اپنے اس جرم کو چھپانے کے لئے آج تک ماتم بر پاکئے ہوئے ہیں تبلیغی جماعت عقائد وافکار نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں ص 116 افکار مولوی عطاء اللہ ڈیروی صاحب از قلم ابوالوفا محمد طارق خان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ) مجلس تحفظ ختم نبوت دراصل اپنے سیاہ ماضی اور کفرکو چھپانے کا حفظ ماتقدم ہے.....مولاناعطاء اللہ ڈیروی مولوی عطاء اللہ ڈیروی صاحب مجلس تحفظ ختم نبوت کے قیام کی ضرورت پر تبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ اس تمام قصہ کو معلوم کر لینے کے بعد اب دیوبندی علماء کی جانب سے مجلس تحفظ ختم نبوت کے قیام کا سبب کھل کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور وہ سبب ہے خوف ! یعنی قادیانیوں کو کافر قرار دیئے جانے کے بعد ختم نبوت کے مسئلہ میں اپنے سیاہ ماضی کو دیکھتے ہوئے دیوبند کے علماء کو یہ خوف لاحق ہوا کہ بریلوی حضرات ان کے خلاف بھی کہیں کا فرقرار دیئے جانے کی مہم نہ شروع کر دیں...چنانچہ حفظ ما تقدم کے طور پر دیوبندیہ نے مجلس تحفظ ختم نبوت
53 وو قائم کی...مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے دعوئی کے اصل ذمہ دار یہ دیو بندی علماء ہی ہیں کیونکہ قادیانی مذہبی اعتبار سے حنفی دیوبندی ہیں اور ختم نبوت کے ضمن میں ان کی اس لغزش کا سبب دیو بندی علماء کی کتابیں ہیں“ تبلیغی جماعت عقائد وافکار نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں ص 142,143 مطبوعہ دارالکتب العلميه ) ” ختم نبوت کی تفسیر میں دیوبند اورقادیان کا مؤقف یکساں ہے“ بریلوی دنیا کے شیخ القرآن مولوی غلام علی قادری اشرفی اوکاڑوی صاحب کا ایک مقالہ بعنوان التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئلہ تکفیر “ اشرف الرسائل میں 1996 میں شائع ہو جسے بعد میں جمیعت اشاعت اهل سنت پاکستان نے ایک الگ سے کتابی شکل میں شائع کر دیا.زیر نظر کتابچہ جو کہ 64 صفحات پر مشتمل ہے مولانا نے ثابت کرنے کے کوشش کی ہے کہ اکابرین دیو بند اور جماعت احمدیہ کا ختم نبوت کی تفسیر کے بارے میں سو فیصد یکساں مؤقف ہے.چنانچہ اوکاڑوی صاحب نے کتاب کے شروع کے 18 صفحات پر اصاغرین دیو بند کی تفاسیر اور بیانات کو درج کرنے بعد اس موضوع کو اٹھایا ہے کہ دیو بندیوں کا موجودہ مؤقف وہ نہیں ہے جوان کے اکابرین کا تھا.اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ یا تو اپنے اکابرین کے مؤقف کو غلط مان کر اس سے برأت کا اظہار کریں یا اپنے موجودہ مؤقف سے انکار کریں اور احمدیوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور اُن کو گالی دینا چھوڑ دیں.چنانچہ خاکسار ان کا ایک طویل اقتباس جو تقریباً 10 صفحات کا ہے پورا درج کرتا ہے مولوی غلام علی صاحب نے تحذیر الناس ص ۳ کا مکمل حوالہ درج کر کے اپنے الفاظ میں درج ذیل نتیجہ نکالتے ہیں اس عبارت مذکورہ کو بغور پڑھئے اور دیکھئے کہ اس میں کتنے کفریات ہیں..خاتم النبیین کے معنی سب سے آخری نبی کو عوام اور جاہلوں کا خیال بتانا
54 ہے ۲..تمام امت کو عوام اور نافہم ٹھہرانا.۳..بلکہ رسول اللہ سلیم کو معاذاللہ عوام نا فہم کہنا کیونکہ خاتم النبین کا معنی لا نبی بعدی حضور صل للہ السلام نے خود بیان فرمایا ہے.۴.معنی تفسیر وحدیث اور اجماع کے مخالفین کو اہل فہم بتانا.معنی متواترہ قطعی میں کچھ فضیلت نہ ماننا.۶..اس معنی متواترہ و مقام مدح میں ذکر کرنے کے قابل نہ جاننا.ے..یہ کہنا کہ اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے...اگر حضور سلائی تم کو آخری نبی مانا جائے اور اس وصف کو مقام مدح قرار دیا جائے تو معاذ اللہ خدا کی طرف زیادہ گوئی کا وہم ہونا ( زیادہ گوئی بے ہودہ بکواس کو کہتے ہیں) ہو..اور حضور کی جانب نقصان قدر اور کم رتبہ ہونے کا احتمال پیدا کرنا ہے.۱۰..یہ کہنا کہ تآخر زمانی قدوقامت و شکل ورنگ وغیرہ ان اوصاف سے ہے جن کو نبوت اور فضائل میں دخل نہیں 11.ختم زمانی کو کمالات سے شمار نہ کرنا اور یہ کہنا کہ اہل کمال کے کمالات ذکر کیا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کے اس (آخری نبی ہونا) کے احوال بیان کیا کرتے ہیں ۱۲..یہ کہنا کہ اگر حضور سلیم کو خاتم النبیین بمعنی آخری نبی مانا جائے تو کلام اللہ میں بے ربطی اور بے ارتباطی لازم آتی ہے.اور جملہ { ما کان محمد ابا احد من رجالکم اور جملہ { ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین } میں کوئی تناسب نہیں رہتا ۱۳..یہ کہنا کہ خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء پر حضور سی پیہم کی خاتمیت کی بناء نہیں صلی ہے بلکہ بناء خاتمیت اور بات پر ہے......
55 ۱۵..حضور علیہ السلام کے سوا تمام انبیاء کی نبوت کو عرضی کہنا چنانچہ موصوف بالذات اور موصوف بالعرض کا مفہوم بیان کرتے ہوئے نانوتوی صاحب ص ۴ پر لکھا ہے الغرض یہ بات بد یہی ہے کہ موصوف بالذات سے آگے سلسلہ ختم ہو جاتا ہے.چنانچہ خدا کے لئے کسی اور خدا کے نہ ہونے کی وجہ اگر ہے تو یہی ہے یعنی ممکنات کا وجود اور کمالات وجود سب عرضی بمعنی بالعرض ہیں.انتہی بلفظہ اور عرضی کا معنی خود یہ بیان کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کبھی موجود کبھی معدوم کبھی صاحب کمال اور کبھی بے کمال رہتے ہیں.سو اس طرح رسول اللہ صلی ل کی ہیلی کی خاتمیت کو تصور فرمائیے یعنی آپ موصوفی بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض.اوروں کی نبوت آپ کا فیض.پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.آپ پر سلسلہ نبوت (بائیں معنی) مختم ہوجا تا ہے.وصف کا معنی صفت ، نبوت کا پیغمبری ، خاتمیت کا خاتم ہونا، موصوف بالذات وہ ہستی ہے جس کو کوئی صفت اپنی ذات سے بغیر کسی واسطے کے حاصل ہوئی ہو اور موصوف بالعرض وہ ہستی ہے جس کو کوئی صفت اپنی ذات سے نہیں بلکہ کسی دوسرے کے واسطے سے حاصل ہوئی ہو مختم ہو جاتا ہے.“ التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئلہ تکفیر 18 تا 21) مولوی حسین احمد ٹانڈوی اورختم نبوت مولوی غلام علی صاحب اوکاڑوی نے آگے چل کر ایک اور دیوبندی مولوی حسین احمد ٹانڈوی کو درج کرتے ہیں ثابت کرتے ہیں کہ ان کی تفسیر ختم نبوت بھی آج کے دیو بندیوں سے مختلف اور تحذیرالناس کی ترجمان تھی د حسین احمد ٹانڈوی نے بھی نانوتوی کی اس تحقیق جدید سے مستفید ہوکر یہی کچھ لکھا ہے کہ مثلاً ختم نبوت کے دو معنی ہیں اول ختم زمانی کہ جس کا مطلب ہے کہ خاتم کا زمانہ سب نبیوں کے آخیر میں ہو......وہ اپنے پہلے والوں سے افضل ہو یا سب سے کم
56 درجہ کا ہو یا بعض سے اعلیٰ اور بعض سے اسفل ہو.دوم..ختم رتبی اور ذاتی اس سے عبارت ہے کہ مراتب نبوت کا اس پر خاتمہ ہوتا ہو.اس سلسلہ میں کوئی اس سے بڑھ کر نہ ہو.جتنے مرتبے اس سلسلے کے ہوں سب اس کے نیچے اور محکوم ہوں “ ( الشہاب الثاقب ص 83) خاتم مرتبی کی وجہ سے ہرزمانےکاہرمرتبہ آپ کا مطیع ہوگا......بانی دیوبند بریلوی مولوی غلام علی اوکاڑوی صاحب مولوی حسین احمد مدنی دیوبندی کے اس قول پر تتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں " ٹانڈوی کی اس ترجمانی کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر خاتم النبین سے ختم زمانی مراد لی جائے تو اس سے حضور علیہ السلام کا سب نبیوں سے افضل ہو نا لازم نہیں آتا.کیونکہ آخر الزماں چاہے پہلے والوں سے افضل ہو یا سب سے کم درجہ کا یا بعض سے اعلیٰ اور بعض سے اسفل ہو.اور خاتم ذاتی کا معنی چونکہ سب کا سردار اور رئیس اعظم ہے.اگلے پچھلے اور اس کے زمانے والے سب اس کے خوشہ چین ہوں گے وہ ان میں سے کسی کا محتاج نہیں ہوگا.لہذا بنظر اس کے علو مرتبہ اور اس کی ذات والا صفات کے نہ زمانہ اول ضروری ہے نہ اوسط نہ آخر.بالفرض اس کے زمانے میں کوئی نبی پیدا ہو جائے یا اس کے بعد.اس زمین یا کسی اور زمین میں تجویز کر لیا جائے تو اس کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا.کیونکہ اس کے زمانہ میں یا اس کے بعد جو نبی پیدا ہو گا وہ اس خاتم ذاتی کاظل ہوگا.عکس ہوگا.اس کی نبوت بالعرض ہوگی.اس نے نبوت کا استفادہ اس خاتم ذاتی سے کیا ہوگا“ التنوير لدفع ظلام التخذير یعنی مسئلہ تکفیرس 21,22) خاتم کا مضاف الیہ وصف نبوت ہے نہ کہ زمانہ نبوت.بانی دیوبند بریلوی مولوی غلام علی اوکاڑوی صاحب مولا نا قاسم نانوتوی کومزید حوالہ پیش کرتے ہوئے
57 دیو بندی موجودہ روش تفسیر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں اسی بناء پر نانوتوی صاحب نے ص ۸ پر لکھا ہے چنانچہ اضافت الی النبیین بائیں اعتبار که نبوت منجملہ اقسام مراتب ہے.یہی ہے کہ اس مفہوم کا مضاف الیہ وصف نبوت ہے زمانہ نبوت نہیں....پھر اسی کوص ۸ پر یوں بیان کرتے ہیں ” شایان شان محمدی خاتمیت مرتبی ہے نہ کہ زمانی.اس مضمون کو آگے یوں صراحتاً بیان کیا ہے میری تفسیر کی روسے آپ ﷺ کے زمانے میں بھی کوئی نبی ہوتو بھی ختم نبوت میں کوئی حرج نہیں..بانی دیوبند غرض اختتام بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے.( تحذیر الناس ص ۱۴) 66 اس عبارت کا صریح مطلب یہ ہوا کہ..خاتم زمانی )..بقول نانوتوی صاحب اس میں یہ خرابی ہے کہ حضور اس صورت میں صرف انہیں انبیاء علیہم السلام کے خاتم ہونگے جو حضور سے پہلے تشریف لا چکے ہیں لیکن اگر خاتم کا وہ معنی تجویز کیا جائے جو نانوتوی صاحب نے بیان کئے ہیں...تو اس میں یہ خوبی اور کمال ہے کہ اگر حضور کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو تو پھر بھی حضور صلی یا کسی تو ویسے ہی خاتم النبین رہیں گے کیونکہ حضور کے زمانے میں جو اور نبی ہوں گے وہ بالذات نہیں بالعرض نبی ہو گے.یعنی اپنی ذات سے نہیں بلکہ حضور سے ہی فیض حاصل کر کے نبی بنیں گے اس طرح خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا.“ التنوير لدفع ظلام التحذير یعنی مسئلہ تکفیر ص 23 میری تفسیر کی روسے آپ ﷺ کے بعد میں بھی کوئی نبی ہوتو بھی ختم نبوت میں کوئی حرج نہیں..بانی دیوبند
58 آگے چل کر بریلوی مولوی غلام علی اوکاڑوی صاحب مولانا قاسم نانوتوی صاحب کے حوالے سے ختم نبوت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں ” پھر یہی نانوتوی صاحب تحذیر الناس میں لکھتے ہیں ”ہاں اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا اس پیچ مدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوائے رسول اللہ صلی لا یتیم اور کسی کو افراد مقصود با خلق میں سے مماثل نبوی صلی ا یتیم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی ( جو انبیاء دنیا میں تشریف لاچکے ہیں ناقل ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی افراد مقدرہ ( وہ نبی جو ابھی دنیا میں پیدا تو نہیں ہوئے لیکن ان کا حضور صلی سیا سیم کے بعد پیدا ہونا مقدر ہے حاشیہ ) پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو جائے گی.بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی سل پیام بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اسی زمین کوئی اور نبی تجویز کیا جائے“ تحذیر الناس طبع اول ص ۲۸ طبع ثانی ص ۲۵) اب اس عبارت...کا صاف صریح مطلب یہی ہوا کہ...جو نبی پیدا نہیں ہوئے اور حضور کے بعد ان کا پیدا ہونا مقدر ہے ان سے حضور کا افضل ہونا ثابت ہو جائے گا اور خاتمیت محمدی میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا.کیونکہ حضور صلیم کے زمانے کے بعد جو نبی پیدا ہونگے وہ سب کے سب اپنی ذات سے نہیں بلکہ حضور کے واسطے اور حضور ہی کے فیض سے نبی ہونگے“ بعد (التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص 23,24) میری تفسیر کی رو سے آپ اس کو میں آنے والے نه صرف انبياء بلكه خاتم النبيين بھی آپ ظل ہونگے.بانی دیوبند
59 59 پھر اسی مفہوم کو تحذیر الناس میں آگے یوں بیان کیا ہے ”اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل محمدی اور عکس محمدی ہے کوئی کمال ذاتی نہیں “ (ص ۲۹) آگے لکھا ہے " اس صورت میں اگر اصل وظل میں تساوی بھی ہو تو بھی کچھ حرج نہیں کیونکہ افضلیت بوجہ اصلیت بھی ادھر رہے گی“ (تحذیرالناس ص۳۰) ان دونوں عبارتوں کا صریح مطلب بھی یہی ہے کہ اگر حضور صلی لا نیلم کے زمانے میں یا حضور کے بعد نبی پیدا ہوں تو حضور کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا کیونکہ وہ نبی حضور ہی کا ظل اور عکس ہوں گے.بلکہ اگر اصل اور ظل میں تساوی بھی ہو یعنی حضور سی یا یہ بھی خاتم النبیین اور وہ بھی خاتم النبین ہوں تو بھی کچھ حرج نہیں کیونکہ بوجہ اصلی اور ذاتی نبی ہونے کے افضلیت پھر حضور علیہ السلام کے لئے ہی ہوگی (التنویر لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص 24,25) میری تفسیر کی روسے کسی اور دنیا میں خاتم یین بھی ہوں تو بھی آپ ﷺ کی خاتمیت میں کوئی حرج نہیں.بانی دیوبند بریلوی مولوی غلام علی اوکاڑوی صاحب مولا نا قاسم نانوتوی صاحب کے حوالے سے مزید انکشاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں آگے اور صاف لکھ دیا ”اب خلاصہ دلائل بھی سنیئے کہ در باره وصف نبوت فقط اس زمین کے انبیاء علیہم السلام ہمارے خاتم النبیین سلیم سے اسی طرح مستفید و مستفیض نہیں جیسے آفتاب سے قمر کواکب بلکہ اور زمینوں کے خاتم النبین بھی آپ سے اسی طرح مستفید و مستفیض ہیں یعنی ساتوں زمینوں میں سات خاتم النبیین ہیں مگر چونکہ باقی زمینوں کے خاتم ہمارے حضور علیہ السلام سے ہی فیض حاصل کرتے ہیں جیسے چاند اور ستارے سورج سے اس لئے حضور صلی الہ وسلم کی خاتمیت میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ (تحذیر الناس ص ۳۲)
60 60 (التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئلہ تکفیر ص25) سیری تفسیر کی روسے آپﷺ کے ماتحت انبیاء آپ کا ظل ہونگے جس سے ختم نبوت میں کوئی حرج نہیں...بانی دیوبند مزید لکھا ہے کہ جیسے نور قمر نور آفتاب سے مستفید ہے ایسے ہی بعد لحاظ مضامین مسطورہ فرق مراتب انبیاء کو دیکھ کر یہ سمجھیں کہ کمالات انبیاء سابق اور انبیاء ما تحت کمالات محمدی سے مستفاد ہیں (تحذیر الناس ص 35) ناظرین کرام ! ذرا اس پر غور فرمائیے کہ انبیاء سابق تو وہ ہوئے جو حضور سے پہلے گزر چکے یہ انبیاء ماتحت کون سے ہوئے ؟؟ وہی جن کا آنا حضور علیہ السلام کے زمانے میں اور حضور کے بعد پیدا ہونا جائز مانا ہوا ہے.“ (التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص25) ؟؟؟ ختم نبوت پر صرف احمدیوں کا قصور کیا مولوی عبدالحكيم اختر مولوی غلام علی اوکاڑوی صاحب نے دیو بندی سرخیل مولا نا قاسم نانوتوی پر طنز کیا کہ انہوں نے ختم نبوت کے ایسے معنی گھڑے ہیں جن سے قیامت تک ہزاروں لاکھوں جدید نبیوں کے لئے بروزی، عرضی ظلی ہکسی کی آڑ میں نبوت کا دروازہ کھول دیا‘( التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص 26) اس پر ایک اور بریلوی عالم دین جناب مولوی عبدالحکیم اختر شاہجہاں پوری صاحب نے درج ذیل حاشیہ چڑھا دیا نتيجة مندرجہ ذیل نکات مرزا صاحب کی شکل میں ظاہر ہوئے جو بالترتیب درج کئے جاتے ہیں م نانوتوی صاحب نے انبیاء کے افراد مقدرہ بتائے تو مرزا صاحب نے انبیاء کے افراد مقدرہ میں سے خود کو گنوا دیا.
61 نانوتوی صاحب نے دیگر انبیاء کی نبوت کو بالعرض کہا تو مرزائے قادیان بھی اپنی نبوت کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فیض ، خود کو حضور کاظلی اور بروزی نبوت کا حامل لکھتا رہا.نانوتوی صاحب نے خاتمیت زمانی کو غیر اہل فہم کا خیال ٹھہرایا تو مرزا صاحب نے تصدیق کردی نانوتوی صاحب نے لکھا کہ خاتمیت زمانی کو کمالات نبوت میں کوئی دخل نہیں تو مرزا جی نے تصدیق کردی.نانوتوی صاحب نے کہا کہ زیر بحث آیت خاتم النبین میں جدید مدعیان نبوت کے سد باب کا کوئی موقع محل نہیں تو مرزا جی نے پھڑک کر کہا چشم ما روشن دل ما شاد.نانوتوی صاحب نے خدا اور رسول کی بتائی خاتمیت زمانی کوٹھکرا کر خاتمیت مرتبی تراشی تو مرزا صاحب نے اسے بسر و چشم کہہ کر قبول کیا.نانوتوی صاحب نے جس طرح مصرعہ کہا کہ حضور کے بعد ہزاروں نبی آسکتے ہیں تو مرزا صاحب نے پیوند لگا دیا کہ میں بھی ان ہزاروں میں سے ایک ہوں.نانوتوی صاحب نے حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے بعد انبیاء کا آنا تجویز کیا تو مرزا جی نے ان کی تجویز کو عملی جامہ پہنا دیا.نانوتوی صاحب لکھا کہ حضور کے زمانہ میں کوئی نبی ہو یا بالفرض بعد زمانہ نبوی تجویز کیا جائے تو اس سے خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا.مرزا صاحب پکارے کہ بعد زمانہ نبوی اور نبی آنے سے خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا تو لیجئے ہم خود ہی آگئے.نانوتوی صاحب نے کہا کہ خاتمیت کا مطلب سمجھنے میں بڑوں سے غلطی ہو گئے اس لئے خاتمیت زمانی کی رٹ لگاتے رہے دراصل انہوں نے بے التفاتی برتی اصل مفہوم تک ان کا ذہن نہیں پہنچ سکا اور میرے جیسے کو دک نادان نے غور و فکر کر کے اصل مفہوم بتا یا اور ٹھکانے کی بات کہی ہے تو مرزا صاحب خوشی سے اچھل کر
62 بولے آپ کا فرمان ہمارا دین ہو گیا“ التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص 26,27 ”مرزا صاحب بھی نانوتوی کی طرح فنافی الرسول کو ظلی نبی مانتے ہیں“ مولوی غلام علی اوکاڑوی صاحب دیو بندی سرخیل مولانا قاسم نانوتوی پر مزیدطنز کرتے ہوئے بانی جماعت احمد یہ اور بانی دیوبند کی تفسیر ختم نبوت کا موازنہ ص 27 پر یوں پیش کرتے ہیں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی نانوتوی صاحب کی طرح حضور کو سید الکل اور افضل الانبیاء ماننے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنے آپ کو لی اور عکسی نبی ظاہر کرتا ہے“ آگے ص 30 پر مزید فرماتے ہیں یعنی نبوت کی یہ تقسیم کہ...حضور کی نبوت اصلی ہے اور باقی انبیاء کی کسی اور ظلی.یہ خالص مرزائی نظریہ کی تائید ہے...قادیانیوں اور ان کے ہم نواؤں کا یہ استدلال سراسر باطل ہے کہ جو شخص فنافی الرسول ہو اور حضور کی کمال اطاعت واتباع سے اس کو یہ مقام حاصل ہو اس کو نبی کہہ سکتے ہیں اور اس سے حضور کی ختم نبوت میں کچھ فرق نہیں آتا.کیونکہ تمام کمالات کا اصل حضور ہی ہیں اور فنافی الرسول کے کمالات ظلی اور عکسی طور پر ہیں.اگر اس استدلال کی رو سے فنافی الرسول کو نبی اور رسول کہا جا سکتا ہے تو کیا جس شخص کو فنافی اللہ کا مقام حاصل ہو، اسے اللہ کہا جائے گا“ (التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئلہ تکفیر ص27 اور 30) اگر نانوتوی صاحب درست ہیں تو دیوبندیوںکوکسی قادیانی کو کافر کہنے کا کوئی حق نہیں..مولوی غلام علی قادری اوکاڑوی بریلوی امت کے شیخ القرآن ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے دیوبندی مولوی منظور احمد سنبھلی کو کرتے ہوئے فرماتے ہیں اگر بقول سنبھلی صاحب نانوتوی صاحب کی ص 3 کی عبارت..ص ۱۴
63 اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی اور کوئی نبی ہو تو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور رہتا ہے ، ص ۲۸ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اسلم بھی کوئی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ گرق نہ آئے گا اگر ان صریح کفریات کا قائل اپنے کفر سے توبہ نہ کرے ہزار ہایہ اعلان بھی کرتار ہے کہ جو شخص نبی کریم ملایم و خاتم النبیین اور آخرالانبیاء نہ مانے کو وہ کافر اور ملحد ہے تو کیا اس سخن سازی سے اس کا وہ کفر مٹ جائے گا ؟؟ اس صورت میں تو آپ کسی قادیانی کو بھی کافر نہیں کہ سکیں گے.لیجئے میں آپ کے سامنے قادیانیوں کی عبارات پیش کرتا ہوں ا...امکان نبوت بعد از خاتم النبین سالا ایلیم کو ثابت کرتے ہوئے قادیانی صاحب لکھتے ہیں مولوی قاسم نانوتوی صاحب تحذیر الناس ص ۲۱ پر فرماتے ہیں بلکہ بالفرض بعد زمانہ نبوی..پھر نتیجہ نکالتے ہیں پس آنحضرت صلی علیم کا خاتم النبین ہونا اور آپ کی شریعت کا کامل ہونا کسی طرح سے بھی ظلی نبوت کے دروازوں کو بند نہیں کرتا.بلکہ اس کے برعکس پورے طور اُ رکھول دیتا ہے.( تبلیغی ٹریکٹ ختم نبوت مطبوعہ قادیان ص ۱۵) ۲......اگر یہی معنی جو ہم نے بیان کئے ہیں نہیں اور خاتم النبیین کا معنی نبیوں کو ختم کرنے والا ہے تو یہ نہ کوئی فضیلت کی بات ہے اور نہ کوئی کسی قسم کی خصوصیت حضرت سرور کائنات کی ثابت ہوتی ہے.کیونکہ آخری نبی ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں.برخلاف اس کے جو معنی ہم نے پیش کئے ہیں ان سے آنحضرت مصلای ایام کی فضیلت تمام نبیوں پر ثابت ہے.( بحث خاتم النبيين ص ۹) خدارا ضد اور تعصب کو چھوڑ کر دیانت اور انصاف سے غور فرمایا جائے کہ قادیانی صاحب کی ان عبارات اور نانوتوی صاحب کی عبارتوں میں کیا فرق ہے...جماعت احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت سرور کائنات فخر دو عالم احمد مجتبی سالا ایلیم خاتم النبیین ہیں اور قرآن مجید آخری اور کامل شریعت ہے.اور اب کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا
64 جو آنحضرت صلیہ السلام کا تابع نہ ہو ( نبوت کی حقیقت احمد یہ کتب خانہ قادیان ص ۳).....اہل فہم پر روشن ہے کہ قادیانی اور دیو بندی تحریر میں کوئی فرق نہیں.قادیانی یہ کہتے ہیں کہ ہمارے مخالف مولوی جو معنی خاتم النبیین یعنی آخری نبی زمانا کرتے ہیں وہ آنجناب کے شایان شان نہیں اور یہی بانی دیو بند نے کہا کہ خاتمیت زمانی نبی کریم صلی آی سیم کے شایان شان نہیں....خاتم النبیین کے معنی ختم کمالات.ہاں اگر ختم کمالات لیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ اکمل اور اتم طور پر نبوت کی انتہا نعمت آپ پر ختم ہے تو ہم کہیں گے کہ بے شک اس معنی سے نبوت آپ پر ختم ہے.( خاتم النبین کتب خانہ احمد یہ قادیان ص ۷۲).......خاتم النبیین اور آخر الانبیاء کے معانی اگر اس آخری کے یہ معانی ہیں کہ اس کے بعد کوئی نہیں تو صرف تاخر زمانی میں کوئی خوبی نہیں اور نہ آنحضرت صلی پیہم کے شایان شان ہے.آنحضرت سی سی اینم آخری نبی اس معنی سے ہیں کہ اب تمام انعامات جس میں نبوت بھی داخل ہے حاصل کرنے کا آخری ذریعہ آنجناب صالی اسلم کی ذات بابرکات ہے ملخصاً ( خاتم النبیین کتب خانہ احمد یہ قادیان ص ۸) قادیانی کی یہ تقریر بالکل تحذیر الناس کی ص ۳ کی عبارت کا پرچہ ہے.۹...میں ایمان لاتا ہوں اس پر کہ ہمارے نبی محمد صلی یہ تم خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب قرآن کریم ہدایت کا وسیلہ ہے اور میں ایمان لاتا ہوں اس بات پر کہ ہمارے رسول آدم کے فرزندوں کے سردار اور رسولوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ( ترجمه آئینہ کمالات اسلام) ا...میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ سنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب کو مانتا ہوں جو قرآن وحدیث کی رو سے مسلمہ الثبوت ہیں اور سیدنا ومولانا محمد ملا لیا ہی نہ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کا ذب اور کافر جانتا ہوں میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور
65 جناب رسول اللہ محد مصطفی سالی یا ایم پرختم ہوگئی.( تبلیغ رسالت جلد ۲ ص ۲) یہ عبارات..قادیانی مذہب سے منقول ہیں.قادیانی مرزا اور اس کے اذناب کی اس قسم کی عبارات بیبیوں پیش کی جاسکتی ہیں...مگر اس کے باوجود خاتم النبیین کے معنی میں تحریف کرتے ہیں اور محمد قاسم نانوتوی کی طرح ختم ذاتی ختم مراتب، اور افضل الانبیاء وغیر ہم کے خود ساختہ معنی کرتے ہیں.“ ( التنویر لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص 37 تا 40) ان دیوبندیوں نےہی مرزا صاحب کےلئے میدان صاف کیا“ مولوی غلام علی قادری اوکاڑوی صاحب دیوبندی حضرات کے خلاف فرد جرم لگاتے ہوئے گویا ہوتے ہیں مسلمانوا حقیقت یہ ہے کہ ان دیو بندیوں ہی نے مرزا قادیانی کے لئے میدان صاف کیا تھا.انہوں نے اپنی تمام تر قوت نانوتوی صاحب میں صرف کر دی اور صریح الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آتا....دیوبندی منصفو ! یہی کچھ مرزا اور اس کے متبعین کہہ رہے ہیں“ (التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئلہ تکفیر ص 40,41) ”اگر ختم نبوت کی ایک تفسیر پربانی جماعت احمدیه کافر توبانی دیوبنداسی تفسیر پرحجة الاسلام کیسے؟“..مولوى عبد الحكيم اختر شاہجہاں پوری ممتاز بریلوی مولوی عبدالحکیم اختر شاہجہاں پوری اس ساری کہانی کو...دیو نبدی گورکھ دھندا“ لکھتے ہوئے درج ذیل تبصرہ فرماتے ہیں وود.....جب دیو بندی حضرات مرزاجی کی عقیدہ ختم نبوت پر تکفیر کرتے ہیں تو
66 نانوتوی صاحب کی بھی تکفیر کیوں نہیں کرتے جب کہ عقیدہ مشترک ہے...اگر نانوتوی صاحب نے کفر نہیں کیا تو مرزا صاحب کو دیوبندی حضرات کا فر کیوں کہتے ہیں؟؟ چونکہ ختم نبوت کے نانوتوی صاحب اور مرزا صاحب ایک جیسے مخالف ہیں اس لئے علمائے اہل سنت دونوں کی تکفیر کرتے ہیں لیکن دیوبندی حضرات مرزا صاحب کی تکفیر کے بارے میں اتفاق کرتے ہیں اور نانوتوی کی تکفیر پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں.یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ قادیان کا رہنے والا ختم نبوت کا انکار کرے تو دیوبندی حضرات بھی اس کی تکفیر پر متفق لیکن نانو تہ کا باشندہ عقیدہ ختم نبوت کا انکار کرے تو دیو بندی حضرات کے نزدیک وہ کافر ہونے کی بجائے حجتہ الاسلام قرار پاتا ہے یہ کیا دھرم ہے؟ التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئله تکفیر ص (41) دیوبندی احمدیوں کے مخالف کیوں؟..مولانا اوکاڑوی ص 41 پر مولوی غلام علی صاحب نے دیوبندیوں کی ختم نبوت کے نام پر بہت سی تحاریک کا بھی زیر عنوان..دیو بندی مرزائیوں کے کیوں مخالف ہیں؟..جائزہ لیا ہے اب دیوبندی مرزائیوں کے اس لئے مخالف ہیں کہ اجرائے نبوت کے لئے میدان تو انہوں نے صاف کیا تھا اور دعویٰ قادیانی نے کر لیا.چنانچہ قادیانی بھی اپنی کتب و رسائل میں دیو بندیوں کو ان عبارات سے خاموش کرا دیتے ہیں کہ جب نانوتوی صاحب کے نزدیک جس کو تم پیش خویش بہت کچھ مانتے ہو اس کے نزدیک حضور علیہ السلام کے بعد نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آتا تو مرزا صاحب نے کیا قصور کیا ہے.ہاں تم نے حضور کے بعس نبی کا پیدا ہونا ممکن کہا اور مرزا صاحب نے بالفعل نبوت کا دعوی کر دیا.مگر مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو مستقل بالذات اور حقیقی نبی نہیں مانتے بلکہ مجازی، عرضی ، بروزی ظلی نبی ہونے کے دعویدار ہیں.“ (التنوير لدفع ظلام التحذیر یعنی مسئلہ تکفیر ص (41)
90 67 باب نمبر 5 تحذير الناس کی الاسٹک جیسے آجکل کی متداول Wrestling میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک پہلوان کسی عضو سے زخمی ہو جائے تو پھر مد مقابل پہلوان اپنی ساری کوشش اسی پر لگا دیتا ہے کہ وہ ہر ضرب اسی زخمی حصے پر لگائے تا کہ پہلوان کو جلد سے جلد چت کر سکے.یہی حال ہمیں بریلوی اور دیوبندی فرقہ جاتی لڑائی میں اس مرحلے پر نظر آتا ہے.مولوی احمد رضا خان صاحب نے حرم میں دیو بندی حلقہ کے جس حصے پر ضرب لگائی تھی آنے والے دنوں میں محققین بریلویت نے اسی پر مشق ستم جاری رکھی اور یوں تحذیر الناس کی الا سٹک کا ایک سرا کھینچ کر انگریز انٹیلی جنس اور ڈپٹی کمشنر بٹالہ سے باندھ دیا تو دوسرا بانی جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے.چنانچہ مشہور بریلوی عالم دین صاحبزادہ محمد شوکت علی چشتی نظامی ایم.اے بانی مرکزی جماعت غریب نواز پاکستان نے جامعہ مسجد تو کلیہ فیصل آباد سے تحذیر الناس کے پس منظر کو اس طرح سے بیان فرمایا." (1869 میں انگریزوں نے ایک کمیشن لندن سے ہندوستان بھیجا تا کہ وہ انگریز کے متعلق مسلمانوں کا مزاج معلوم کرے اور آئندہ کے لئے مسلمانوں کو رام کرنے کے لئے تجاویز مرتب کرے) اس ( کمیشن کی ) رپورٹ کے مطابق انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ جب تک کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز نہیں کرادیا جاتا ہم اپنے پروگرام میں کلی طور پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.لہذا کسی شخص کو نبوت
68 کے مقام پر فائز کرنے سے قبل راستہ ہموار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس خدمت کو دارالعلوم دیو بند انڈیا کے بانی مولوی محمد قاسم نانوتوی نے جمیع مسلمانوں کے عقائد و نظریات کے خلاف خوب نبھایا اور اپنی تحریر سے نئی نبوت کی داغ بیل یوں ڈال دی، غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا.بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو جب آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہے گا تحذیر الناس بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.( تحذیر الناس ،صفحہ 26) بعد حمد وصلوٰة کے قبل عرض یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنا چاہیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی یہ اہم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب سے آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.“ ( تحذیر الناس ، صفحہ 3) مذکورہ عبارت ثابت کر رہی ہے.اہل فہم وہی لوگ ہیں جو خاتم النبیین کے معنی آخری نبی نہیں مانتے ان میں صرف قاسم نانوتوی....ہیں فرنگی حکومت نے خود ساختہ نبوت کا راستہ ہموار کرلیا.“ مدلل تقریر مولفہ الحاج میاں محمد شوکت علی چشتی نظامی ، صفحہ 56-57 ناشر شعبہ نشر و اشاعت مرکزی جماعت رضائے غریب نواز فیصل آباد ) افتخار قادریت» «شمع بزم رضویت عندلیب بوستان مصطفی جیسے عظیم خطابات کے حامل بریلوی عالم دین جناب ضیاء اللہ صاحب اس الاسٹک کے سرے کو تھوڑا سا اور پیچھے کھینچتے ہوئے 1830ء سے بھی آگے نکل گئے چنانچہ آپ کی تحقیق کے مطابق دیوبندیوں نے اس گھناؤنے کام کے لئے انگریزوں سے ملکر بہت لمبی چوڑی پلاننگ کی.چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں.
69 سرولیم ہنٹر کی رپورٹ اور تجویز اور پادری صاحبان کی تجویز کو ذہن نشین رکھ کر اور بعد ازاں سید احمد بریلوی اور مولوی اسمعیل دہلوی نے نام نہاد جو تحریک چلائی اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انگریزوں نے سب سے پہلے ان دو حضرات کو اپنے مشن میں کامیابی کے لئے چنا.دہلی کی جامع مسجد میں سکھوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے اسمعیل دہلوی تھے.پادریوں کی پیری مریدی کے سلسلہ والی تجویز اسی اسمعیل دہلوی نے سرانجام دینے کا بیڑہ اٹھایا.کیونکہ اسمعیل دہلوی نے اپنے آپ کو سید احمد کامرید ظاہر کرنا شروع کر دیا اور پیری کا چکر چلایا.اس سلسلہ میں ایک کتاب صراط مستقیم کے نام سے لکھ دی تا کہ انگریز کو پورا پورا یقین ہو جائے.(مسجد سے قادیان براستہ دیوبند ، صفحہ 62 ، ناشر قادری کتب خانہ سیالکوٹ از ضیاء اللہ قادری ) بریلوی طنزپردیوبندی علماء کا اپنےبانی سے انحراف بلکه طعن را نا خلیل احمد بریلوی مشہور بریلوی ویب سائٹ www.Islamimehfil.com میں زیر رانا عنوان ” تحذیرالناس کے دفاع کے تعاقب میں انکشاف کرتے ہیں.قاسم نانوتوی نے حضور صلی ا یتیم کے لئے نبوت بالذات اور باقی انبیاء کے لئے بالعرض نبوت کا قول کیا.یعنی باقی انبیاء کے لئے ظلی نبوت کا قول کیا.وہ لکھتا ہے کہ ”غرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے کوئی کمال ذاتی نہیں“ تحذیر الناس ،صفحہ 38 اس پر مولوی محمد انور شاہ کشمیری دیو بند نے اپنے بانی پر قرآن میں زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اور طعن کرتے ہوئے لکھا کہ نبوت بالذات اور بالعرض کی تقسیم قرآن پر زیادتی اور محض اتباع ہوا ہے ( یعنی خواہش نفسانی کی پیروی ) ( خاتم النبین صفحہ 38) اور آپ نے عقیدۃ الاسلام صفحہ 206 پر اس تقسیم کو نا جائز قرار دیا ہے.“ فیض الباری جلد 3، صفحہ 333 پر انہوں نے نانوتوی کی تشریح اثر ابن عباس کو خلاف قرآن ظاہر کیا ہے اور نانوتوی پر مالیس لک بہ علم جس چیز کا تجھے علم نہیں میں دخل دینے
کا طعن کیا ہے.“ 70 70 دیو بندی مناظر محمد امین صفدر اوکاڑوی بھی مولانا قاسم اور قاری طیب نانوتوی کے ختم نبوت کے معنی نبوت بخش پر طعن کرتے ہوئے لکھتے ہیں.اگر کوئی کہے کہ میں آپ کو خاتم النبیین تو مانتا ہوں مگر خاتم النبیین کا معنی نبی گر ہے یعنی آپ صلالہ اسلام مہریں لگا لگا کر بنی بنا یا کرتے تھے تو یہ بھی کفر ہے" (تحریرزنگاران خلیل احمد بریلوی مشہور بریلوی ویب سائٹ www.Islamimehfil.com میں زیر عنوان تحذیرالناس کے دفاع کے تعاقب میں ) مقدمه بهاولپوراوردیوبندی پارسل مشہور تاریخی مقدمہ بہاول پور میں عدالت کے حکم پر دیوبندی علماء کا ایک وفد د یو بند سے بلوایا گیا.کیوں بلوایا گیا ؟ اس کا پس منظر بریلوی اور دیو بندی اپنے اپنے انداز سے پیش کرتے ہیں دونوں پیش ہیں دیوبندی نقطه نظر پروفیسر خالدمحمود مانچسٹر وی نے کئی جلدوں پر مبنی ایک ضخیم کتاب مطالعہ بریلویت“ کے نام سے لکھی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جب بہاول پور میں ایک احمدی خاوند اور غیر احمدی بیوی کے درمیان طلاق کا مسئلہ پیش تھا تو بریلوی مولوی غلام محمد گھوٹوی کی عدالت سے فرمائش پر کہ ختم نبوت کی تشریح کے لئے دیو بند سے وفد بلایا جائے.جو نہ صرف دیوبندیت کی فتح تھی بلکہ مولوی احمد رضا خان کے دیو بندیوں کے خلاف فتاویٰ تکفیر کی دھجیاں بکھیر نے والی بات بھی تھی.مولوی خالد صاحب کے الفاظ بہاول پور کے مشہور مقدمہ مرزائیت محدث العصر حضرت مولو نا انور شاہ صاحب اور مناظر اسلام مولانامحمد شفیع کو عدالت میں شہادت دینے کے لئے آپ نے ہی دیو بند سے
71 بلوایا تھا.حضرت مولانا گھوٹوی نے ان اکابرین دیوبند کا جس حسن عقیدت سے استقبال کیا اس نے مولانا احمد رضا خان کے فتاویٰ تکفیر کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں“ (مطالعہ بریلویت ص 166 بحوالہ محاسبہ دیوبندیت ص 448) بریلوی عالم دین جناب محمد حسن رضوی صاحب اس حوالے کو درج کر کے بتاتے ہیں کہ کیوں آخران دیو بندیوں کو ہی ختم نبوت کی تشریح کے لئے بلوایا گیا اب سنئے اصل واقعہ کہ کیوں ان دیوبندی مولویوں کو دیو بند سے بہاولپور بلوایا گیا.واقعہ یہ ہے کہ سابق ریاست بہاولپور میں ایک مسلمان عورت کا کا وند مرزائی ہو گیا تھا.اس پر عورت نے عدالت میں شوہر کے ارتداد کی وجہ سے فسخ نکاح کی درخوست دے دی.مقدمہ عدالت میں دائر ہوا اس واقعہ پر قادیانیوں نے بانی مدرسہ دیو بند مولوی قاسم نانوتوی کی تحذیر الناس.امداد الفتاویٰ اور تذکرۃ الرشید وغیرہ کتب کا سہارا لے کر....خود کو مسلمان ثابت کرنے لگے اور کہا گیا کہ خاتم النبیین کا جو معنی مفہوم مولا نا قاسم نانوتوی کہتے ہیں وہی مرزا غلام احمد قادیانی کہتے ہیں تو ہم کا فرومرتد کیوں؟؟ ہمیں تھانوی صاحب اور گنگوہی صاحب نے اپنی کتابوں کے پہلے ایڈیشنوں میں مسلمان مانا ہے صرف فسق کا فتویٰ دیا ہے اس لئے عورت کا نکاح کیوں فسق کیا جائے؟ اس لئے مولا نا گھوٹوی صاحب نے نہیں بلکہ عورت کے وارثوں نے مولوی انورشاہ کشمیری دیو بندی وغیرہ کو بلوا کر مجبوراً اُن سے کہلوایا کہ ہم بھی ختم نبوت کو مانتے ہیں اور منکر ختم نبوت مرتد ہے اور مرتد سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے ویسے بھی مولوی انورشاہ کشمیری نے فیض الباری میں جلد 3 ص 333 ، 334 پر تحذیرالناس کے پیش کردہ جدید معنوں پر شدید تنقید کی ہے اور جس کو یہ مفتی اعظم محمد شفیع کہتے ہیں اس نے بھی ہدیۃ المہدین ص 21
72 اور ص 35 پر تحذیرالناس کے برعکس معنی کئے ہیں...ان حالات میں ورثاء نے مرزائیوں کے اثر کو زائل کرنے کے لئے دیو بند کے اُن مولویوں کا پارسل منگوایا تھا (جو بانی دیو بند کی ختم نبوت کی تفسیر سے متفق نہ تھے ) ( محاسبه دیو بندیت ص 450 مصنفہ مولوی محمد حسن علی رضوی ناشر اداره غوثیہ رضویہ کرم پارک مصری شاہ لاہور ) مولانا قاسم نانوتوی دوبارهہکیوںمسلمان ہوئے مشہور بریلوی مناظر مولوی محمد حسن قادری رضوی نے ایک ضخیم کتاب بعنوان ” کا بر دیو بند اپنے آئینہ میں...دیو بندی شاطر اپنے منہ کافر لکھی ہے اور اس میں ایک حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ تحذیر الناس کے کفر سے مولانا نانوتوی کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان ہو گئے تھے تھانوی صاحب کی زبانی سنئے لکھتے ہیں تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا ( نانوتوی ) پر فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ الافاضات الیومیہ جلد ۴ ص ۲۹۴ زیر ملفوظ نمبر ۸۶۷)......ا کا بر دیو بندا اپنے آئینہ میں دیو بندی شاطر اپنے منہ کا فر مصنفہ مولوی محمد حسن قادری رضوی ص ۸۶۷)
73 باب نمبر6 آبسته بولو کہیں احمدی سن نه لیں مولوی احمد رضا خاں صاحب نے حسام الحرمین شائع کی تو جواب میں دیو بندیوں کی طرف.کئی کتب لکھی گئیں.i_ المہند علی المفند i_ الشہاب الثاقب على المسترق الكاذب iii_حسام الحرمین اور عقائد علمائے دیو بند iv.فیصلہ کن مناظرہ انکشاف حق پھر جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوا اور بریلویوں نے بھی بیسیوں اشتہار اور کتب سے اس منافرتی خزانے میں اضافہ کیا اور یوں یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ایک صدی سے جاری وساری ہے.ابھی حال ہی میں دیو بندیوں کے ایک مشہور مولوی محمد الیاس گھمن صاحب نے حسام الحرمین اور اس کی تائید میں لکھی جانے والی تقریباً تمام کتب کا مشتر کہ جواب ” حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ کے نام سے لکھ کر اس ذخیرے میں مزید حصہ ڈالا ہے اور یوں ختم نبوت تفسیر ختم نبوت، انکار ختم نبوت اور عرفان ختم نبوت پر دیوبندیوں اور بریلویوں کی اس خفیہ لڑائی کو کوزے میں بند کر دیا ہے.اخفائے حق کی نادرالوقوع جسارت وہ جیسے ایک شاعر کہتا ہے ہمیں بھی تھی اس عہد کے انجام دلچپسی کیونکہ اس نے میرا بھی ادھار دینا تھا سو میں نے بھی اس کتاب کا مطالعہ کیا اور ختم نبوت پر ان دونوں فرقوں کی گھر یلولڑائی کا مشاہد کرنے کی کوشش کی.
74 یوں تو جماعت احمدیہ کی دشمنی میں یہ دونوں گروپ یک زبان ہیں 1953ء کے فسادات ہوں یا 1974 ء کی قتل و غارت.سوشل بائیکاٹ کا ظالمانہ طریق ہو یا اسمبلی کی طاقت کے زور پر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا فیصلہ یہ دونوں گروپ شانہ بشانہ جماعت احمدیہ کے خلاف زہر اگلتے نظر آتے ہیں بلکہ ایک دوسری کی ماتحتی میں کام کرتے نظر آتے ہیں.یعنی مذہبی دنیا کا یہ عجیب حیرت انگیز واقعہ ہے کہ حسام الحرمین لکھتے ہیں اور دیو بندیوں کو منکر ختم نبوت سمجھتے ہیں 1953ء کی تحفظ ختم نبوت تحریک میں دیوبندیوں کی نیابت میں بریلوی مولوی تحریک چلاتے ہیں اور ملکر ملک میں احمدیت کے خلاف طوفان اٹھا دیتے ہیں اور ہر قصبہ ہر گاؤں میں احمدیوں کو منکر ختم نبوت قرار دیتے ہوئے عظیم فسادات کروا کر ملک کو پہلے مارشل لاء میں جھونک دیتے ہیں ان فسادات کے دوران نعرہ لگاتے ہیں کہ ملک میں صرف ایک ہی منکرین ختم نبوت ہیں اور وہ ہیں احمدی جب وہ فسادات گزر جاتے ہیں تو پھر چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ اگر قادیانی جماعت کو منکر ختم نبوت کہنا امر واقعہ ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس انکار کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کو بھی منکر ختم نبوت نہ قرار دیا جائے.“ ”اسلامی دنیا کا جو الزام قادیانی جماعت پر ہے وہی الزام دیو بندی جماعت پر بھی عائد کیا جائے.“ ( زبروز بر ، مولانا ارشد القادری صفحه 126) اخفائے حق کی جوابی نادر الوقوع جسارت بریلوی حضرات کے بعد جب دیو بندیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ بھی ایسی ہی نادر الوقوع حرکات میں مصروف نظر آتے ہیں چنانچہ مندرجہ بالا کتاب حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ اس کی روشن مثال ہے.مولوی الیاس گھمن صاحب نے پوری ایک صدی کے بریلوی مولویوں کے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اور اپنے خیال میں دیوبندیوں پر لگے.ختم نبوت کے انکار کے الزام کا کافی و شافی جواب دے دیا ہے یعنی وہ فرماتے ہیں کہ بریلوی حسام الحرمین میں ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ تحذیر الناس کے ختم نبوت والے معنی تو احمدیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور یوں دیو بندیوں اور احمد یوں کے ختم نبوت کی تفسیر یکساں ہے.اور پھر اس کا جواب وہ یہ نہیں دیتے کہ دیو بندی اور احمدی موقف و
75 ترجمہ یکساں نہیں ہے بلکہ وہ پوری صدی کے بریلوی مولویوں کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ تمہارے اکابرین کا موقف کون سا جدا ہے ان کا بھی تو یہی موقف ہے اور اگر ہمارے اکابرین احمدیت کے مؤید ہیں تو پھر تمہاری اکابرین بھی مؤید ہیں اور یوں وہ 1974ء کو قومی اسمبلی کے فیصلے کے پس منظر کے برعکس نہ صرف خودا پنی منافقت سے پردہ اُٹھاتے بلکہ بریلوی حضرات کی منافقت کو بھی طشت از بام کر دیتے ہیں ہوتے ہیں بلکہ بریلویوں کو بھی...کر دیتے ہیں.اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس روشن کڑی دو پہر میں دونوں ایک دوسرے کو....بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ آہستہ بولو.آہستہ بولو کہیں احمدی سن نہ لیں.تحذيرالناس سےحسام الحرمین تک اورفیضان ختم نبوت پر جماعت احمدیه کی عارفانه تفسیر تحذیر الناس حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی تحریر ہے جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی مہدویت و مسیحیت سے قبل تحریر فرمائی.( مولانا نانوتوی 1822 تا1880 )اس میں کیا لکھا ہے اور کیوں لکھا ہے وہ اسی دیو بندی مولوی صاحب کی زبانی سنتے ہیں.تحذيرالناس کاتعارف مولوی الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں کہ ”ہوا یہ کہ ہندوستان میں بعض حضرات کی طرف سے حدیث ابن عباس کی تردید اور انکار ہونے لگا اور وہ حدیث واثر یہ ہے کہ زمینیں سات ہیں اور ہر زمین میں تمہارے نبی کی طرح نبی تمہارے آدم کی طرح آدم اور تمہارے نوح کی طرح نوح اور ابراہیم تمہارے ابراہیم کی طرح.اور عیسی تمہارے عیسی کی طرح موجود ہیں.اس اثر و حدیث کو چونکہ علماء امت نے صحیح قرار دیا ہے اس لئے حضرت حجتہ الاسلام نے لوگوں کو اس حدیث کے انکار سے بچانے کے لئے ایک کتاب لکھی جس کا نام ” تحذیر الناس من انکار اثر ابن عباس“ رکھا.“ ( حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ ، صفحہ 114-115)
76 بھائی آبسته بولو کہیں احمدی سن نه لیں تحریر کے اس حصے میں بریلوی مولویوں کے اعتراضات اور دیو بندی صاحب کے جواب اور اسی تناظر میں جماعت احمدیہ کا موقف پیش کر کے اُس جارحانہ تنگی منافقت کی نشاندہی کرنا چاہوں گا جو آج ان دونوں گروپوں کا طرہ امتیاز بنی ہوئی ہے.دونوں کس دیدہ دلیری سے مشترکہ پریس کانفرنسز کرتے ہیں اور پیٹ بھر کر جماعت احمدیہ کو گالیاں دیتے ہیں.اور فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ آج 72 فرقوں نے مشترکہ طور پر جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے اور جب اس سارے سیاسی دنگل یا سیاسی Show کو ختم کر کے اپنے محلے کی اور اپنے مسلک کی مسجد میں واپس جاتے ہیں تو سب سے پہلا نعرہ ہی یہ لگاتے ہیں.دیوبندی وہابی منکرین ختم نبوت اور گستاخان رسول ہیں“ بريلوى بهائيومان لوتحذير الناس سچی ہے یا پھرہم سب کافرہیں مولوی الیاس گھمن صاحب نے صفحہ 129 پر اعتراض نمبر 6 کے تحت جو بریلوی اعتراضات اور اپنے جوابات داخل کئے وہ کمل طور پر درج کئے دیتا ہوں.اعتراض نمبر 6 آپ کا عقیدہ احمدیوں کے لئے مفید ہے حجتہ الاسلام پر اعتراض کرتے ہوئے سید قسم شاہ بخاری صاحب لکھتے ہیں : قرآن حکیم نے جب خاتم النبیین فرما دیا تو آیت آپ کے آخری نبی ہونے میں نص قطعی ہو گئی.آخری نبی کا معنی خود حضور صلی شما پیہم نے بتایا صحابہ کرام تابعین اور تمام امت محمدیہ علی صاحبها الصلوة والسلام کا عقیدہ ایمان اسی پر رہا اور اسی پر رہے گا.جملہ ائمہ کرام مفسرین و محدثین نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی بتایا کہ خاتم بمعنی آخری نبی ہے اسی پر اجماع ہے.اور اس پر تواتر ثابت ہے.اس معنی میں نہ کوئی تاویل مانی جائے گی نہ کوئی تخصیص بلکہ تاویل و تخصیص کرنے والا بھی خارج از اسلام ہوگا اور سمجھ بوجھ کر بھی ایسے کافر کے کفر میں شک کرنے والا اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا.(ختم نبوت اور تحذیر الناس ،صفحہ 23)
77 دوسری جگہ لکھتے ہیں : انقطاع نبوت کا انکار اور تکمیل نبوت کا اقرار یہ عقیدہ قادیانیت کے لئے بہت مفید ہے.(ختم نبوت اور تحذیر الناس ، صفحہ 112) اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں.ا.اس لفظ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کے علاوہ کوئی اور لینا کفر ہے.ii.ایسے کفر کو جو کفر نہ کہے وہ بھی کافر.iii.اس کا معنی تکمیل نبوت کرنا ، انقطاع کا نہ کرنا قادیانیت کو مفید ہے.اور اس معنی میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ہو سکتی.پھرتووالداحمد رضا خان صاحب بھی مؤید قادیان تھے القصہ دیکھیے : بانی بریلوی فاضل بریلوی نے اپنے والد کی کتاب الکلام الا وضح کی تعریف و توصیف کی اور اسے علوم کثیرہ پر مشتمل کہا ہے.(دیکھیے الکلام الا وضح صفحہ ز) اسی میں لکھا ہے: جو اس لفظ کو بموجب قرآت عاصم رحمۃ اللہ علیہ کے خاتم النبیین بفتح تا پڑھیں تو ایک اور خاصہ آپ کا ثابت ہوتا ہے.کہ سوا آپ کے یہ لقب بھی کسی کو حاصل نہ ہوا.مہر سے اعتبار بڑھتا ہے.اور آپ کے سبب سے پیغمبروں کا اعتبار زیادہ ہوا اور مہر سے زینت ہوتی ہے اور آپ انبیاء کی زینت ہیں.(الکلام الا وضح، صفحہ 202) اس لفظ کا معنی صرف آخری نبی نقی علی خان بھی نہیں مانتا.بلکہ اس کا معنی انبیاء کی نبوت پر مہر لگانے والا کیا ہے.تو یہ بھی نص قطعی کا منکر، اجماع امت کا منکر ، اس معنی میں تاویل کرنے والا ہے.لہذا کا فر ہوا اور پیچھے گزر چکا کہ جوکسی کفر کی تحسین کرے وہ بھی کا فر ہے.لہذا فاضل بریلوی بھی گیا.اس لئے تقسیم صاحب ذرا قدم پھونک پھونک کر رکھیے.آگے ”پھر توپیر جماعت علی شاہ کے بیٹے، مولوی صادق
78 قصوری پیر کرم علی شاه صاحب یه سب بزرگان بهی مؤید قادیان ہیں“ پیر جماعت علی شاہ کے بیٹے سید محمد حسین شاہ جماعتی لکھتے ہیں : جن اوصاف حمیده، اخلاق جمیله شمائل ،حسنه، فضائل برگزیدہ مکارم اخلاق سے انبیاء کرام خالی تھے.وہ سب کے سب حضور ملی تھی کہ تم میں پائے جاتے ہیں اور آپ ہر طرح سے کامل ومکمل ہے.ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ نبوت آپ کے ذریعے سے تکمیل کو پہنچ گئی.(افضل الرسل ملانا اسلم صفحہ 130) اس کو مدون کیا ہے آپ کے جید عالم مولوی صادق قصوری نے اس پر مقدمہ پیر کرم شاہ صاحب نے لکھا ہے تو یہ سب قادیانیوں کی تائید کرنے والے اور ختم نبوت کے اجماعی معنی اور قطعی معنی سے ہٹ کر معنی کرنے والے ہیں.یہ بھی بقول آپ کے سب کا فر.اگر کوئی بریلوی اب ان کی تعریف و تحسین کرے گا وہ بھی آپ کے بقول کا فرجا ٹھہرا.آگے آئیے : پھر تو مولانا محمد ذاكر صاحب خليفه مجاز خواجه ضياء الدين سیالوی بھی مؤید قادیان ہیں“ مولانا محمد ذاکر صاحب خلیفہ مجاز خواجہ ضیاء الدین سیالوی کی ادارت میں چھپنے والے رسالے میں ہے.ختم نبوت سے مراد قطع نبوت یا انقطاع رسالت نہیں بلکہ تکمیل نبوت و ابدیت رسالت ہے.یعنی نبوت اس کا رگہ حیات میں اپنے تمام ارتقائی منازل طے کر کے جس نقطہ عروج پر پہنچی اس کا نام جناب محمد رسول اللہ صلی للہ الیتیم ہے.( الجامعه نومبر دسمبر 1961 ی ، جلد نمبر 13، شمارہ نمبر 4، صفحہ 10) کیا مولانا ذاکر صاحب جو خواجہ قمر الدین سیالوی کے اخص الخواص لوگوں سے تھے.وہ بھی قادیانی نواز ہیں کیا انہیں آپ کا فر کہیں گے.اگر نہ کہیں پھر بھی جاتے ہیں اور اگر کہیں تو پھر بھی.سوچ لیں.مشورہ کر کے جواب دیں آپ کو قیامت تک کی مہلت ہے جو الزمات جناب
79 آپ مولا نا نانوتوی پر لگارہے تھے وہ سب کے سب آپ کے گھر میں ملتے ہیں.پہلے اپنے گھر کی فکر کیجئے.پھر باہر.( حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ، صفحہ 129 تا صفحہ 132) 66 جماعت احمدیه كى فيضان ختم نبوت پر عارفانه تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ختم نبوت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ جل شانہ نے آنحضرت سلیم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 1) تمام رسالتیں اور نبوتیں اپنے آخری نقطہ پر آ کر جو ہمارے سید و مولی سا ایسیم کا وجود تھا کمال کو پہنچ گئیں.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 80-81) بلا شبہ ہمارے نبی صلی اتم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدمی وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے.اور چونکہ آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی.“ لیکچر سیالکوٹ ،صفحہ 7-4 طبع اول).مولوی الیاس صاحب ، صفحہ 132 پر اعتراض نمبر 8 کے تحت درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اعتراض نمبر 8: یه كمنا که آپ جناب آدم السلام عَلَيْه خاتم الانبیاء تهے یه قادیانیه، دیوبندیه کاموئدبے
80 غلام نصیر الدین سیالوی لکھتا ہے : بعض حضرات یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا: انی عند الله لمكتوب خاتمه النبيين و آدم لمنجدل فی طینته.اس کے بارے میں گزارش ہے کہ اس حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ اگر سرکار علیہ السلام کو سب سے پہلے نبوت ملی ہے تو آپ خاتم الانبیاء کیونکر ہو سکتے ہیں اگر سب سے پہلے سرکار علیہ السلام ختم نبوت سے متصف تھے.تو پھر بعد میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کیسے مبعوث ہوئے.اس طرح تو پھر نانوتوی کا کلام ٹھیک ہو جائے گا کہ اگر بعد زمانہ نبوی کوئی اور نبی آجائے گا تو ختم نبوت میں کچھ فرق نہ آئے گا.نیز دیگر انبیا علیہم السلام صرف علم الہی میں نبی تھے بالفعل نہیں ہے.تو پھر سرکار علیہ السلام ان سے آخری کیسے ہو گئے.آخری نبی ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء علیہم السلام کے بعد نبوت کا عطا ہوا اور اس ہستی کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا.( تحقیقات ،صفحہ 394،393) اس سے چند باتیں ثابت ہوئیں.1.اگر نبوت آپ کو سب سے پہلے ملنا مانی جائے تو آپ خاتم النبین نہیں ہو سکتے.2.اگر آپ کو شروع سے ہی یعنی تخلیق آدم سے پہلے ہی سے ختم المرسلین مانا جائے تو پھر مولانا نانوتوی کا کلام درست ہو جائے گا.بالفاظ دیگر اس کا اور مولانا نانوتوی کا نظریہ ایک جیسا ہوگا.3.آخری نبی کا مطلب یہ ہے آپ کو نبوت سب کے بعد ملے.4 - مفتی عبد المجید خان سعید نے غلام نصیر الدین سیالوی کے متعلق لکھا ہے کہ بیٹا اور اس کے توسط سے مولنا نا درست اور موید عقیدہ کفریہ نانو تو یہ بتا رہا ہے.(مسئلہ نبوت، صفحہ 30) یعنی یہ کہنا کہ اپ جناب آدم سے پہلے ہی خاتم الانبیاء تھے یہ غلام نصیر الدین سیالوی کے نزد یک عقیدہ کفریہ ( قادیانیہ، دیوبندیہ ) کا موید ہے تو پھر اگلے آنے والے سب علماء بھی کفر کے موید ہونے کی وجہ سے کافر ہوئے.
81 پہلی اور تیسری بات تقریباً ایک ہی طرح ہے.ہم اس پر کلام کر کے آگے چلتے ہیں.پهرتويه درجن بهر بریلوی سرتاج علماء بھی مؤيد قادیان ہیں......دیوبندی جواب جو نبوت آپ کو شروع ہی سے ملنا مانے وہ خاتم الانبیاء نہیں مان سکتا یا اس صورت میں آپ خاتم الانبیاء نہیں بن سکتے.تو وہ آدمی آپ کے فتوے سے ختم نبوت کا منکر ہوا تو پھر لیجئے: ان کتابوں کے مصنفین اور مویدین اور مصدقین جو تقریباً نصف صد سے زائد بریلوی اکابر علماء ہیں وہ سب ختم نبوت کے منکر ٹھہرے.1- خلاصة الكلا مولوی عطا محمد نقشبندی 2.نبوت مصطفی ہر آن ہر لحظہ پروفیسر عرفان قادری 3.نبوت مصطفی اور عقیدہ اکابر علماء امت مفتی نذیر احمد سیالوی 4 - تنبيهات مولوی عبدالمجید خان سعیدی 5.اہم شرعی فیصلہ پیر محمد چشتی 6 تجلیات علمی فی رد نظریات سلوی مفتی محمود حسین شائق 7 توضیحات قاضی محمد عظیم نقشبندی 8.نبی الانبياء والمرسلين سید ذاکر حسین شاہ سیالوی یہ سب کے سب اس پر مصر ہیں کہ آپ علیہ السلام کو نبوت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ملی.تو کیا یہ سب منکرین ختم نبوت ہیں؟ اگر ہیں تو بتا ئیں ورنہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے لعنت کا طوق آپ پر ہے.دوسری بات یہ تھی کہ آپ علیہ السلام کو شروع ہی سے خاتم الانبیاء مان لینا مولا نا نانوتوی کے کلام سے متفق ہونا ہے.اب دیکھیے کیا ہوتا ہے : آپ کے شارح بخاری مولوی محمود رضوی لکھتے ہیں : حضور نے فرمایا! خاتم الانبیاء اس وقت سے ہوں جب کہ آدم آب وگل میں تھے.(مسند احمد، ج 4، صفحہ 127 ، دین مصطفی صلا لا ا سلام ، صفحہ 85)
82 بریلوی حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں کہ احمد اور بہیقی اور حاکم نے صحیح اسناد سے حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت کیا کہ حضور اکرم صلی ا ہم نے ارشاد فرمایا.میں رب تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہو چکا تھا حالانکہ ابھی آدم علیہ السلام اپنے ضمیر میں جلوہ گر تھے.“ (مشکوۃ) (رسائل نعیمیہ، صفحہ 64) مولوی عبدالاحد قادری لکھتے ہیں کہ : حضرت عرباض بن ساریہ سلمی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ یہ تم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النبیین تھا جب ابھی حضرت آدم علیہ السلام مٹی ہی تھے.“ ( رسائل میلاد مصطفی صفحہ 258) مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں : آنحضرت سال پیام حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز تھے.“ (ملخصاً نور الابصار، صفحہ 22-23 ، بحوالہ سندیلوی کا چیلنج منظور ہے ) کاظمی صاحب لکھتے ہیں حدیث کا مطلب یہی ہے کہ میں فی الواقع خاتم النبیین ہو چکا تھا نہ یہ کہ میرا خاتم النبیین ہو نا علم الہی میں مقدر تھا.(مسئلہ نبوت عند الشیخین ،صفحہ 21) سیالوی صاحب! آپ کا کیا پروگرام ہے.یہ مولانا نانوتوی کے موافق تمہارے بزرگ ہوئے یا نہ اب ان کے کفر و ایمان کا مسئلہ نہ رہا.بلکہ تمہارے ایمان کا مسئلہ بن گیا اب بھی ان کو بزرگ مانتے ہو تو تم بھی گئے اور اگر ان کو بھی کا فرما نو و یہ تم سے ہو نہ سکے گا کہ باپ کو بھی کافر کہو.“ ( حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ، صفحہ 132 تا136 ) خاتم کا لفظ لغوی اعتبار سے زبان عرب میں جن حقیقی یا مجازی معنوں کے لئے استعمال
83 ہوتا ہے جماعت احمدیہ ان سب کی رو سے آنحضرت صلی نمی بینم کو خاتم النبیین یقین کرتی ہے چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ اسی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت محمد رسول اللہ صلی یا ایلیم اپنے مقام محمدیت میں منفرد ہیں آپ کے سوا کسی شخص کو یہ مقام حاصل نہیں ہے آپ خاتم النبیین ہیں اور روحانی رفعتوں کے لحاظ سے آپ آخری نبی ہیں.آپ اُس وقت سے آخری نبی ہیں جس وقت ابھی آدم کو نبوت تو کیا انہیں یہ مادی وجود بھی عطاء نہ ہوا تھا.غرض سب نبوتیں نبوت محمدیہ کے تحت حاصل کی گئی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی نبوت کی خاطر اور اسی مقام محمدیت کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا تھا.اس لیئے جس طرح حضرت ابراہیم کی روحانی رفعت ساتویں آسمان تک پہنچنے کے باوجود ختم نبوت کے منافی نہیں ہے.حضرت رسول اکرم صلی ا یہ تم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ میرے روحانی فرزند یعنی علمائے باطن جو مجھ سے قرآنی علوم حاصل کر کے قرآن کریم کی شریعت کو زندہ اور تابندہ رکھیں گے اور ہر صدی میں آتے رہیں گے وہ بھی انہی انبیاء کی طرح ہیں جن میں سے کوئی پہلے آسمان تک پہنچا کوئی دوسرے پر کوئی تیسرے پر کوئی چوتھے ہر کوئی پانچویں پر کوئی چھٹے پر اور ایک ایسا بھی پیدا ہو گا جو انتہائی عاجزی اور عشق کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد اور محبت کی انتہائی رفعتوں کو پالینے کی وجہ سے ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم کے پہلو میں جا پہنچے گا اور سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی یا اسلم کے قدموں میں جگہ پائے گا.“ آئین کا آرٹیکل نمبر 260 جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے زمانے میں قانون میں ترمیم کر کے ہر مسلمان کہلوانے والے کے لئے ہر جگہ ہر ایک حلفیہ عبارت پر دستخط کرنا ضروری قرار دے دیا گیا.چنانچہ بچوں کے سکول کا داخلہ فارم ہو یا شناختی کارڈو پاسپورٹ کی دستاویز یہ تحریر آپ کو ضرور نظر آئے گی اور اس کے آخر پر حلفیہ اقرار کے ساتھ دستخط ضروری ہیں.میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں کرتی ہوں کہ خاتم النبین حضرت محمد صلا سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ کہ میں کسی ایسے شخص کا پیروکار نہیں جو حضرت محمد مصلای سی پی ایم کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو اور نہ ہی دعویدار کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہوں.خلاصہ یہ کہ آنحضور مالی تم کلی آخری نبی ہیں اور یہ سلسلہ آپ کی وفات
84 کے ساتھ مکمل ختم ہو گیا اب دنیا میں کبھی نہ کسی کو ہی کہلوانے کا حق ہے اور نہ ماننے کا “ اب جب حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے صفحہ 14 تحذیر الناس میں لکھا کہ 'بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے.“ تو بریلوی حضرات فرماتے ہیں کہ چونکہ اب آپ کی وفات کے بعد ناممکنات میں سے ہے کہ دنیا میں کہیں نبی کا وجود ہو اس لئے ایسا فرض کرنا بھی فقرہ کفریہ ہے.مولانہ الیاس گھمن صاحب نے اس اعتراض کو نمبر 11 میں صفحہ 139 پر جگہ دی ہے مگر وہ اس اعتراض کا جواب دیتے دیتے صاف بتا گئے ہیں کہ اگر منافقت کی معراج دیکھنا ہو تو ہمارے اس عقیدے میں موجود ہے کہ کہاں انی عند اللہ مکتوب خاتم النبيين و آدم لمنجدل فی طینه جیسی حدیث پر بھی جرح کی جاری ہی ہے اور کہاں چار چارا انبیاء کو آپ کی وفات کے بعد زندہ بقید حیات مانا جا رہا ہے.بريلوى بهائیو! زمین پرختم نبوت کےبعدایک بھی نبی نہیں ہوسکتاتوکیاچارہوسکتے ہیں؟.دیوبندی جواب“ مولانہ الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں اعتراض نمبر 11 : جب اہل السنتہ دیو بند کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے تینوں عبارتوں کو آگے پیچھے کیوں کیا؟ تو بریلوی علامہ قسم شاہ بخاری کود کر میدان میں آٹپکے اور کہنے لگے وہ تین عبارات علیحدہ علیحدہ بھی مستقل طور پر کفر یہ ہیں.( حاشیہ جسٹس کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ، صفحہ 135) ابو کلیم محمد صدیق خانی بھی چلایا کہ تحذیر الناس کی تینوں عبارتیں اپنی اپنی جگہ پر مستقل کفریہ عبارتیں ہیں.( افتخار اہلسنت ،صفحہ 25) الجواب بعون الملک الوھاب پہلی عبارت تحذیر الناس کی جو اعلیٰ حضرت نے پہلے لکھی
85 ہے.ویسے تو وہ ص 14 کی ہے بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے.( تمہید ایمان مع حسام الحرمین ،صفحہ 70) اگر یہ کفر ہے تو دیکھیے بڑے بڑے بریلوی کفر کی دلدل میں پھنس جائیں گے.1.شاہ نقی علی خان صاحب لکھتے ہیں: ”چار پیغمبر یعنی حضرت ادریں اور حضرت عیسی اور حضرت خضر" اور حضرت الیاس کہ بعد آپ کی بعثت کے زندہ رہے.( سرور القلوب صفحه 225) مولوی احمد رضا خان فرماتے ہیں: چار انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام وہ ہیں جن پر ابھی ایک آن کے لئے بھی موت طاری نہیں ہوئی دو آسمان پر سیدنا اور میں “ اور سیدنا عیسی “ اور دو زمین پر سیدنا الیاس اور سید نا حضرت خضر “.(صفحه 437 ، ملفوظات مشتاق بک کارنر لاہور ) مولوی محمد اشرف سیالوی بریلوی لکھتا ہے: حضرت عیسی “ حضرت اور میں “ حضرت خضر“ حضرت الیاس علیہم السلام ظاہری حیات کے ساتھ زندہ موجود ہیں.(کوثر الخیرات صفحہ 70) یہ سب بریلوی کہہ رہے ہیں کہ اب بھی یہ چار بنی موجود ہیں دوز مین پر اور دو آسمان پر تو یہ کہہ کر یہ سب کافر ہوئے یا نہیں؟ اور آپ پڑھ چکے ہیں جو احمد رضا کا ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر ہے تو پھر دنیا جہان کے بریلوی بشمول فانی صاحب اور تبسم صاحب کا فر ٹھہرے کیونکہ یا تو وہ اس عقیدے کو مانتے ہیں یا منکر ہیں.اگر مانتے ہیں تو پھر بھی ان دوفتوؤں کی وجہ سے کافر.نہیں مانتے تو احمد رضا کے ہم عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے کافر ہیں.66 ( حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 139-140)
86 حرم کا 26 واں سوال اور ایک ٹرین سفر کی دلچسپ کبانی بقول دیوبندی علماء حرم کے مفتیان کرام نے دیو بندی منت سماجت پر کہ مولوی احمد رضا خان نے ہمارے متعلق تمام حوالہ جات تروڑ مروڑ کر پیش کئے ہیں 26 سوالات پر مبنی ایک سوالنامہ تیار کر کے برصغیر بھجوا دیا کہ اگر ایسا ہے تو آپ پہلی فرصت میں اپنا موقف ان سولات کی روشنی میں تحریراً بھیج دیں دیو بندی علماء کی طرف سے ان سوالات کا جواب ”المہند “ نامی کتاب کی شکل میں دیا گیا.بریلوی حضرات کہاں چپ بیٹھنے والے تھے.ممتاز بریلوی عالم دین مولوی حشمت علی صاحب نے اس المہند کا جواب رد المہند کے نام سے شائع کر دیا.جس میں آپ نے نہ صرف سوال نمبر 26 کے جواب پر تبصرہ فرمایا بلکہ اپنا ایک آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا مناظرہ کا حال بھی درج فرمایا جو کہ اُن کے بقول ایک ٹرین کے دو مسافروں کے درمیان ہورہا تھا اور یہ موصوف مولانا پاس بیٹھے سن رہے تھے اور آخر کار اس مذاکرے میں شامل ہو گئے.یہ کمل حوالہ جو کہ کتاب کے ص 104 تا 113 یعنی 9 صفحات پر مبنی ہے پیش کرتا ہوں کیا کہتے ہو قادیانی کے بارے میں جو مسیح و نبی ہونے کا مدعی ہے.کیونکہ تمہاری طرف لوگ نسبت کرتے ہیں کہ اُس سے محبت رکھتے ہو اور اُس کی تعریف کرتے ہو“ پھر اس کے جواب میں لکھا جب اُس نے نبوت و مسیحیت کا دعوی کیا اور عیسی کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا منکر ہوا..نامناسب الفاظ..) ہمارے حضرت مولا رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ تو طبع ہوکر شائع بھی ہو چکا.بکثرت لوگوں کے پاس موجود ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں میں کہتا ہوں یہ سب ٹھیک ہے.بے شک دیو بندیوں نے مرزا قادیانی پر کفر کے فتوے دیئے اور وہ چھپ کر شائع بھی ہو گئے مگر اس سے دیوبندیوں کا کفر کس طرح اُٹھ گیا جیسے...نا مناسب الفاظ....) قادیانی نے (...نامناسب الفاظ...اُن سے زیادہ ناپاک کفریات خود
87 دیو بندیوں نے بکے.پھر دیو بند یہ کس منہ سے قادیانیوں کو کافر کہہ سکتے ہیں.اور جس دلیل سے قادیانیوں کا کافر اور مرتد ہونا ثابت کریں اسی دلیل سے دیو بندیوں کا کافر مرتد ہونا ثابت ہو جائے گا.میں ایک بار بریلی شریف سے گجرات کو براستہ اجمیر شریف آ رہا تھا.باندی کوئی کے اسٹیشن پر ایک قادیانی اور ایک دیو بندی بھی ریل میں سوار ہوئے.ان دونوں میں جو گفتگو ہوئی دلچسپی سے خالی نہیں تھی اس لئے اپنی یاد کے موافق سے یہاں نقل کر رہا ہوں دیو بندی : ( قادیانی سے ) کیوں جناب آپ کہاں جائیں گے؟ قادیانی: جناب میں بھروچ کے ضلعے میں کوئلے اور چونے وغیرہ کی تجارت کے لئے جایا کرتا ہوں.وہیں جا رہا ہوں.احمد آباد کچھ کام تھا اس لئے ادھر سے چلا آیا اور آپ کہاں تشریف لے جائیں گے؟ دیو بندی : جی میں راند پر ضلع سوت جا رہا تھا.تھانہ بھون حاضر ہوا تھا حضرت حکیم الامہ مولانا اشرف علی صاحب سے مرید ہو کر آرہا ہوں اور آپ کس کے مرید ہیں؟ قادیانی: جناب میں حضرت اقدس مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید ہوں دیوبندی: استغفر الله ولا حولولا قوۃ الا باللہ ! معاذ اللہ قادیانی : کیوں جناب آپ کو اس قدر غصہ کیوں آ گیا ؟ خیر تو ہے؟ دیو بندی: آپ اُسی مرزا قادیانی کے مرید ہیں جو کافر ومرتد تھا.پھر غصہ ہونے کی وجہ پوچھتے ہو؟ قادیانی : جناب غصہ کی کوئی بات نہیں اگر کوئی کفر مرزا صاحب کا معلوم ہو تو بتا
88 دیوبندی: آپ کے مرزا کا کوئی ایک کفر ہے.جی اُس نے تو سینکڑوں(...نا مناسب الفاظ ہیں...) قادیانی : پھر میں کہتا ہوں آپ غصہ کیوں فرماتے ہیں مرزا صاحب کا کوئی ایک کفر بتائیے؟ دیو بندی : اب یہی دیکھئے کہ مرزا قادیانی نے اپنے رسالہ دافع البلاء ص 15 پر لکھا ہے خدا ایسے شخص ( یعنی عیسی ) کو کس طرح دوبارہ دنیا میں لا سکتا ہے جس کے پہلے ہی فتنے نے دنیا کو تباہ و برباد کر دیا.دیکھئے اس عبارت میں مرزا نے اللہ تعالیٰ کو عیسی کے دوبارہ دنیا میں لانے سے عاجز بتایا.قادیانی : اگر خدا کو عاجز بتانا کفر ہے آپ کے مولوی رشید احمد گنگوہی نے خدا کو جھوٹا لکھا ہے اگر مرزا صاحب کا فر ہیں تو آپ کے گنگوہی جی بھی کافر ہیں اور گنگوہی مسلمان ہیں تو مرزا صاحب بھی مسلمان ہیں.دیو بندی : ( جواب سے عاجز آکر ) اب یہی دیکھئے کہ مرزا قادیانی نے حضرت عیسی کی سخت تو بینیں کی ہیں قادیانی: اگر مرزا صاحب نے عیسی کی تو ہینیں کی ہیں تو دیو بندیوں نے تو محمد رسول اللہ صلی شما ایلم کی سخت گستاخیاں کی ہیں آپ کے گنگوہی جی نے براہین قاطعہ ص 55 دارالاشاعت کراچی پر حضور کے علم کو شیطان کے علم سے کم لکھا ہے.آپ کے پیر تھانوی جی نے تو حفظ الایمان ص 13 قدیمی کتب خانہ کراچی پر حضور کے علم کو بچوں پاگلوں جانوروں اور چار پائیوں کے مثل لکھا ہے اور اس کے سوا بھی بہت عبارتیں ہیں اگر عیسی کی تو ہین کفر ہے تو محمد رسول اللہ صلی لا یت کی تو ہین بھی کفر ہے.
89 اگر مرزا صاحب کا فر ہیں تو گنگوہی انبیٹھی ، تھانوی صاحبان بھی ضرور کا فر ہیں.اور اگر یہ نہیں تو وہ بھی نہیں.دیو بندی : آپ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں.کیا مرزا نے حضور صلی سیستم کے خاتم النبین ہونے سے انکار نہیں کیا.کیا ایسا شخص کا فرنہیں؟ قادیانی : جی جناب مرزا صاحب نے خاتم النبین ہونے سے انکار نہیں کیا بلکہ اس کے عجیب معنی بتائے ہیں وہ فرماتے ہیں خاتم النبیین کے معنی لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے پچھلے نبی.یہی معنی لینا صحیح نہیں بلکہ خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں کی مہر.مہر کی وجہ سے فرمان شاہی کا اعتبار ہوتا ہے اور جس فرمان شاہی پر مہر نہ ہو اُس کا اعتبار نہیں کیا جاتا.تو خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ حضور علیہ الصلواۃ علیہ السلام بالذات نبی ہیں یعنی حضور کو خود اللہ نے بغیر کسی واسطہ اور وسیلہ کے نبوت عطا فرمائی اور حضور کے سوا اور جتنے بھی نبی ہونگے سب کو حضور کے طفیل سے نبوت ملے گی.تو اور سب نبی بالعرض ہونگے.تو اب جو شخص یہ دعوی کرے کہ مجھ کو بغیر حضور کے واسطہ کے نبوت ملی وہ جھوٹا ہے اور جو شخص یہ دعوی کرے کہ میں حضور کا غلام ہوں مجھ کو حضور کے طفیل سے نبوت ملی ہے تو وہ سچا ہے.خاتم النبین کے اگر یہ معنی لئے جائیں جو مرزا صاحب نے بیان فرمائے ہیں تو حضور کا خاتم النبیین صرف انبیائے سابقین کے اعتبار سے خاص نہیں ہوگا بلکہ اگر حضور کے زمانہ میں بھی بلکہ اگر حضور کے بعد بھی ایک نہیں لاکھوں نبی پیدا ہوں تو پھر بھی حضور کا خاتم النبیین ہونا ویسا ہی باقی رہتا ہے اور حضور اگلے پچھلے تمام نبیوں کے خاتم یعنی مہر ہونگے.یہ وہی مضمون ہے جو دیو بندی گروہ کے نانوتوی جی نے اپنی تحذیرالناس
90 کے ص 65 وص 85 ادارہ العزیز گوجرانوالہ پر بیان کیا ہے اگر اس وجہ سے مرزا صاحب کا فر ہیں تو آپ کے نانوتوی صاحب بھی کافر ہیں اور اگر یہ مسلمان ہیں تو وہ بھی مسلمان ہیں دیو بندی: آپ فضول اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں بھلا بتائیے کیا مرزا قادیانی اپنی بیوی کو ام المومنین نہیں لکھتا.کیا یہ کفر نہیں ہے؟ قادیانی: جناب مرزا صاحب نے تو اپنی زوجہ کو ام المومنین لکھا مگر آپ کے پیر تھانوی نے تو معاذ اللہ ام المومنین سے اپنی بیوی کی تعبیر کی چنانچہ الا مداد صفر 1325ھ میں ہے ایک ذاکر صالح کو مکشوف ہوا کہ احقر ( یعنی اشرف علی تھانوی ) کے گھر حضرت عائشہ آنے والی ہیں.اُنہوں نے مجھ سے کہا.میرا ذہن فوراً اس طرف منتقل ہوا کہ کم سن عورت ملے گی.دیکھئے حضرت ام المومنین کے آنے کا خواب گڑھا اور کم سن عورت ملنا اس کی تعبیر بتا دی.اگر اس وجہ سے مرزا صاحب کافر ہیں تو آپ کے پیر تھانوی صاحب بھی کافر ہیں اور اگر یہ مسلمان ہیں تو وہ بھی مسلمان ہیں دیو بندی : آپ فضول ضد کئے جاتے ہیں بھلا بتلائیے کیا مرزا قادیانی نے عیسی کے معجزات کو اپنی کتاب ازالہ اوہام ص 151 تا 163 تک مسمریزم اور لہو لعب وغیرہ نہیں بتایا.کیا ایسا کہنے والا بھی کا فرنہیں ہوگا ؟ آپ اسے کا فرنہ کہیں مگر میں تو اُسے دس بار کا فر کہوں گا.قادیانی یہ تو آپ کو اختیار ہے آپ جسے چاہیں سو مرتبہ کا فرکہیں مگر مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ آپ کے دیو بندی گروہ کے امام مولوی اسمعیل دہلوی نے اپنے رسالہ منصب امامت ص 31، 32 پر لکھا (فارسی جس کا ترجمہ یہ ہے ) یعی
91 بہت سی چیزیں جن کا اللہ کے مقبولوں سے ظاہر ہونا معجزہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ویسے یا اُن سے زیادہ قومی ان سے بڑھ کر کامل باتیں تو جادوگر اور طلسمات والے دکھا سکتے ہیں.خرق عادت میں معجزہ اور کرامات دونوں داخل ہیں مگر کرامت کو تو آپ لوگ کیا مانیں گے اس لئے میں نے معجزہ پر بحث کی ہے.اب فرمائیے اگر مرزا صاحب عیسی کے معجزات کو مسمریزم کہہ کر کا فر ہو گئے تو آپ کے امام مولوی اسمعیل دہلوی جادو اور شعبدہ بازی کو معجزہ سے زیادہ قوی اور کامل بتا کر کافر ہو گئے.اگر یہ کا فرنہیں تو وہ کس طرح کا فر ہو گئے؟ دیو بندی : آپ خوامخواہ ضد پال رہے ہیں.کیا مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا ؟ کیا حضور صالی ا ستم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا کا فرنہیں؟ قادیانی: (مسکرا کر) دیکھیئے آپ ہر بات سے گریز فرمارہے ہیں مگر میں برابر آپ کے پیچھے لگا ہوا ہوں اور میں آپ کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا.اچھا سنئے الا مدادصفر 1339ھ میں ایک شخص کا خواب چھپا کہ وہ خواب میں لا الہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ پڑھتا ہے اور جب جاگتا ہے تو اللهم صلى على سيدنا ونبيينا ومولانا اشرف علی پڑھتا ہے دن بھر اُسے یہی خیال رہتا ہے اور جھوٹا بہانہ کرتا ہے کہ میری زبان میرے اختیار میں نہ تھی.وہ اپنایہ واقعہ آپ کے پیر تھانوی صاحب کو لکھتا ہے.تھانوی صاحب اسے جواب دیتے ہیں کہ اس واقعہ میں تسلی تھی جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے.اگر تھانوی صاحب حضور صلی ای ایم کے بعد دعوی نبوت کو کفر جانتے تو صاف صاف جواب دیتے کہ تو کافر ہو گیا تو نے دن بھر مجھے نبی جپا.تو اسلام سے نکل گیا ہے.تو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو.اگر بیوی رکھتا ہے تو وہ تیرے نکاح سے نکل گئی اُس سے
92 دوبارہ نکاح کر ورنہ (....آگے گندے الفاظ ہیں...) اور زبان کی بے اختیاری کا بہانہ جھوٹا ہے.دن بھر جاگتے میں ہوش کے ساتھ مجھے نبی کہتا رہا اور پھر کہتا ہے کہ میری زبان میرے اختیار میں نہیں تھی....مگر آپ کے پیر نے یہ کچھ نہیں کہا بلکہ اُسے تسلی دی کہ اس طرح پیر کے متبع سنت ہونے کی تسلی ہوتی ہے اور پھر اُسے اس رسالہ میں چھاپا گیا جس کا مقصود امت محمدیہ کے عقائد اخلاق و معاشرت کی اصلاح بتایا گیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تھانوی صاحب ہرگز دعویٰ نبوت کو کفر نہیں جانتے ہیں بلکہ چھاپ کر شائع کرنے سے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مریدوں کو دعوت دی گئی ہے کہ پیر کے متبع سنت ہونے کی تسلی اس طرح ہوتی ہے کہ اُسے نبی اور رسول کہا جائے.ہمارے مرزا صاحب خود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حضور سالی یا اسلام کی سنت کی اتباع کرنے کے صدقے میں نبوت عطا فرمائی گئی بلکہ کامل اتباع سنت تو یہی ہے کہ جس طرح حضور سی ای ایام نے نبی رسول ہو کر اُمت کو ہدائیت فرمائی اسی طرح حضور صلی شما یہ تم کا غلام بھی حضور کے طفیل سے نبوت پاکر مخلوق کو ہدائیت کرے.تو تھانوی صاحب نے جو اپنے آپ کو متبع سنت کہا اس کا مطلب یہی ہوا کہ مجھ کو حضور کی غلامی اور حضور کی سنت کے کامل اتباع کے صدقہ نبوت ملی ہے.اگر مرزا صاحب اس وجہ سے کافر ہیں تو آپ کے پیر تھانوی صاحب بھی اس وجہ سے کافر ہو گئے.اگر ان کو آپ مسلمان مانتے ہیں تو انہیں بھی مسلمان ماننا پڑے گا.دیو بندی : جناب میں کس قدر تھوڑا بولتا ہوں اور آپ فضول باتوں میں وقت
93 گزار دیتے ہیں سنئے جناب ! تمام علمائے دیو بند نے مرزا صاحب پر کافر و مرتد ہونے کا فتویٰ دیا ہے پھر ہم مرزا کو کیوں کر کافر نہ کہیں؟ قادیانی : جناب غور فرمائیے.یہ میری بات کا جواب نہیں ہوا.میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ علمائے بریلی نے علمائے دیوبند پر کافر و مرتد ہونے کا فتویٰ دیا ہے.دیو بندی : اجی حضرت! آپ میرا مطلب نہیں سمجھے.مطلب یہ کہ مرزا کے کافر و مرتد ہونے پر علمائے بریلی و علمائے دیو بند سب نے کفر کا فتویٰ دیا ہے اور مرزا کو دونوں گروہ کا فر و مرتد جانتے ہیں کہئیے اب تو آپ کی سمجھ میں آیا ؟ قادیانی میں اب بھی آپ کا مطلب سمجھنے سے عاجز ہوں سنئے علمائے دیو بند کو تمام قادیانی اور تمام علمائے بریلی سب کافر کہتے ہیں.قادیانی صاحبان دیو بندیوں کو اس لئے کا فر کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے اور علمائے بریلی دیو بندیوں کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ اُکے نزدیک دیو بندی صاحبان اللہ اور رسول کی تو ہینیں اور گستاخیاں کرتے ہیں.تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ جس فریق کے کا فر و مرتد ہونے پر دو گروہ متفق ہوں وہ ضرور کافر ہے تو آپ اپنا اور دیوبندی صاحبوں کا کا فرمرتد ہونا تسلیم کیجیئے.دیو بندی : آپ کسی طرح مانتے ہی نہیں.سنئیے مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے تمام علمائے کرام نے بھی مرزا اور اس کے ماننے والوں پر کافر ومرتد ہونے کا فتویٰ دیا ہے.قادیانی: مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے جن علماء نے ہم پر کفر کا فتویٰ دیا ہے انہی علماء نے آپ کے تمام دیوبندی صاحبوں پر اور آپ کے پیشواوں رشید گنگوہی اور قاسم نانوتوی ،خلیل انبیٹھوی، اشرف علی تھانوی صاحبان پر کافر و مرتد ہونے
94 == کا فتویٰ دیا ہے.اگر آپ اسے صحیح مانتے ہیں تو اسے بھی صحیح مانے.اور اگر یہ فتویٰ آپ کے نزدیک غلط ہے تو اس فتوے کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے.یہاں تک گفتگو پہنچی تھی دیوبندی صاحب بالکل عاجز ہو چکے تھے.قادیانی صاحب نے جو معلوم ہوتا ہے پہلے خود دیوبندی ہونگے کیونکہ وہ دیو بندی عقائد سے پوری طرح واقف تھے الزامی جوابوں سے دیو بندی کو بالکل مبہوت کر دیا تھا اب دیوبندی صاحب مجبوراً سخت کلامی دشنام بازی پر آمادہ ہو گئے اور قریب تھا کہ چلتی ٹرین میں فساد ہو جائے یہ حالت دیکھ کر فقیر سے نہ رہا گیا اور فقیر نے یہ کہہ کر دونوں کو آپس میں لڑنے سے باز رکھا فقیر آپ دونوں صاحبان کیوں لڑتے ہیں میرے نزدیک پ دونوں صاحبان اس بات میں سچے ہیں دیوبندی ( غصہ میں آ کر ) میں تو ضرور سچا ہوں مگر آپ نے اس....گالی....کوکس طرح سچا کہہ دیا آپ بھی قادیانی معلوم ہوتے ہیں.قادیانی: آپ اس کی بات پر توجہ نہ دیں آپ اپنا فیصلہ ارشاد فرمائیں فقیر : ( دیو بندی سے مخاطب ہوکر ) الحمد للہ نہ میں قادیانی ہوں نہ دیو بندی.الحمد للہ میں سنی حنفی ہوں.آپ دونوں صاحبان بحث کر رہے تھے میں سن رہا تھا.آپ نے کہا قادیانی کافر ہیں.میں کہتا ہوں اس بات میں بے شک آپ سچے ہیں ضرور قادیانی کافر ہیں ان صاحب نے فرمایا کہ دیو بندی کا فر ہیں میں کہتا ہوں کہ اس بات میں یہ بھی سچے ہیں ضرور دیو بندی کا فر ہیں
95 مرزا قادیانی کے جو کفریات آپ نے بتائے ہیں وہ یقیناً سب کفر ہیں مگر آپ کے عاجز ہونے کا سبب یہ ہے کہ آپ اُن کفریات کے سبب مرزا صاحب کو تو کافر کہتے ہیں اور ویسے ہی بلکہ اُن سے بڑھ کر جب آپ کو اپنے پیشواوں کے کفر دکھائے جاتے ہیں تو آپ اُنہیں کافر نہیں کہتے.اسی وجہ سے آپ کو قادیانی صاحب نے دبالیا اور آپ جواب نہیں دے سکے.مگر میرے نزدیک تو دونوں کا فر ہیں اور جس دلیل سے مرزا قادیانی کا کافر ہونا ثابت ہوتا ہے اُسی دلیل سے دیو بندیوں کا کا فرومرتد ہونا بھی ثابت ہوتا ہے.فقیر کی اس تقریر کوسن کر دونوں خاموش مست خواب خرگوش ہو گئے.اور پھر سارا سفر ان دونوں صاحبان نے کوئی مذہبی بحث نہیں چھیڑی اور راستہ بخیر و خوبی ختم ہو گیا.واللہ الحمد یہاں پر اس تقریر کے نقل کرنے سے صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ دیو بندی لوگ جو قادیانیوں کا کافر کہتے ہیں یہ محض اُن کا تقیہ اور فریب ہے.ورنہ مرزا کے کفریات سے بڑھ کر گندے کفریات خود دیو بندی دھرم میں داخل ہیں اگر اسلام کی ہمدردی سے مرزا پر کفر کا فتویٰ دیا ہوتا تو مرزا پر ایک بار کفر کا فتویٰ دیا تھا تو دیوبندی دھرم اور اُن کے پیشواوں پر 10 دس بار کفر کا فتویٰ دیتے مگر وہاں تو مقصود محض مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور نئے نئے حلقہ تزویر بنا کران سے مسلمانوں کی مسلمانی اور بھولے سنیوں کی سنت کو پھانسنا ہے.اس واقعہ سے ناظرین کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ انبیٹھوی جی نے المہند کے 26 ویں سوال کے جواب میں عیاری مکاری سے کام لیا.مرزا قادیانی کو تو کافر کہہ دیا مگر خود دیو بندی گروہ کے کفریات جو کسی بھی طرح مرزا کے کفریات سے کم نہیں انہیں علمائے حرمین شریفین کے سامنے پیش نہیں کیا.
96 مسلمانو! اگر تم سے کبھی یوں پوچھ لے کوئی کہاں دجال ہے اور اُس کے کام کیسے ہوتے ہیں دکھا کر المھند اور انبیٹھی کو یوں کہہ دو دو اسے کہتے ہیں دجالی اور دجال ایسے ہوتے ہیں (ردالمهند مصنف حشمت علی تخریج محمد امجد علی عطاری ناشر میلا د پبلی کیشنز دا تا در بار مارکیٹ گنج بخش روڈ لاہورص 104 تا 113 )
97 10 ائے احمدی بچے تیرے سوالوں کے جواب حاضر ہیں دیوبندی مولوی صاحب کی اپنی زبان میں دیوبند کی موجوده روش مولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی فرماتے ہیں " جب کوئی شخص حب مال یا محب جاہ یا ایسے ہی کسی اور غلط جذ بہ کے تحت کسی معاملہ میں اللہ کی ہدایت کی بجائے اپنے نفس کی خواہشات اور اپنے ذاتی جذبات و خیالات کی پیروی کا فیصلہ کر لیتا ہے تو کم از کم اس خاص معاملہ میں خدا ترسی حق بینی کی صلاحیت اور فہم سلیم کی دولت اُس سے چھین لی جاتی ہے اور پھر بظاہر عقل و ہوش رکھنے کے باوجود اس سے ایسی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ عقل سلیم ان کی کوئی توجیہہ بھی نہیں کر سکتی ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کا بیان ہے لهم قلوب لا يفقهون بها ولهم اعين لا يبصرون بها ولهم اذان لا يسمعون بها اوليك كالانغم بل هم اضل اوليك هم الغفلون.(فیصلہ کن مناظرہ ،صفحہ 14-15 ) جی ہاں مولوی صاحب کی بات سو فیصد سچ ہے واقعی دیوبندی حضرات نے اپنے اوپر
98 وو سے منکر ختم نبوت“ ہونے اور ”جماعت احمدیہ اور بانی جماعت احمدیہ سے محبت“ کے الزام کو دھونے میں اللہ کی ہدایت کی بجائے اپنے نفس کی خواہشات اور اپنے ذاتی جذبات و خیالات کی ا پیروی کا فیصلہ کیا اور اس میں وہ اس حد تک آگے نکل گئے کہ اپنے ہی بانی پر طعن اور اسے ہواو حرص کا پیرو اور جس چیز کا تجھے علم نہیں اس میں دخل دینے والا “ اور ”قرآن میں زیادتی کرنے والا ماننے لگ گئے.اور جی ہاں مولوی صاحب آپ کی یہ دوسری بات بھی سو فیصد درست ہے کہ دیوبندی مولوی کی مجبوری حب جاہ بھی ہے اور محب مال بھی ہے وہ غلط جذبات اور خواہشات بھی ہیں جن کے پیچھے چل کر وہ اللہ کی ہدایت سے دور نکل گئے ہیں.جی ہاں مولوی صاحب یہ امام وقت کا انکار ہی ہے جس نے ان سے خدا ترسی "حق بینی کی صلاحیت اور فہم سلیم کی دولت چھین لی ہے.جی مولوی صاحب آپ کا تجزیہ اس حد تک بالکل درست ہے کہ امام آخر الزماں مہدی دوراں اور مسیح الزماں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی اندھی مخالفت کا ہی شاخسانہ ہے کہ بظاہر عقل و ہوش کے باوجود اس سے اس معاملہ میں ایسی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ عقل سلیم ان کی کوئی توجہ نہیں کر سکتی (فیصلہ کن مناظرہ ، صفحہ 14) وہ عبادالرحمن يمشون علی الارض ھونا کی بجائے اپنے آپ کو پھکڑ باز مسخرے، دروغ گو خنزیر اللہ ، دجال ، لوگوں کی جانوں مالوں سے کھلواڑ کرنے والے نعشوں کو اکھیڑ پھینکنے والے، مال و املاک کو لوٹنے اور انسانوں کو ذبح کر دینے کے احکام دینے والے ثابت کرتے ہیں.مولوی منظور احمد نعمانی صاحب یہ سب کچھ دیکھ کر ہی فرماتے ہیں عقل و خرد کی گمراہی کی ایسی مثالیں اسلامی تاریخ کے بعد کے دوروں میں بھی بکثرت ملتی ہے جنہوں نے اپنے زمانے کے اچھے سے اچھے نہایت نیک سیرت بندوں کی عداوت و دشمنی و بدگوئی وایذاء 66 رسانی کو اپنا خاص مشغلہ بنایا وہ فخریہ اعلان کرتے ہیں.احمدی بچے کی نعش دودن والدین لئے پھرتے رہے ہم نے دفن نہیں ہونے دی.“ ہم مرزائیوں کی میت کی خوب مٹی پلید کرتے ہیں.“ حمد احمدی جنازے والوں کو ہم نے خوب پیٹا اور واپس جا کر گھر کے صحن میں اپنی
99 بیٹی کی نعش کو دفن کیا.“ وو وو ہمارے تبلیغی دیوبندی علماء سفیبہ اور جاہل ہیں.“ حمد یہ موجودہ دیوبندی صالحیہ کرامیہ اور خارجیوں کا ملغوبہ ہیں.“ میں خنزیر اللہ ہوں.“ کوئی واقع پیش آجائے جہاز گر جائے کوئی بند قتل ہو جائے یہ عالم فورا الزام احمدیوں پر لگا دیتے ہیں.“ ح ہم پھکڑ باز بھی ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے بھی ہیں.“ صرف ہم پھکڑہ باز نہیں ہماری قوم سننا ہی بھکڑ بازوں کو چاہتی ہے.“ ”جو بھی قابو نہ آئے اُس پر احمدی یا احمدی نواز ہونے کا جھوٹا الزام لگا دیتے ہیں.وو 66 ہماری تبلیغ کا مطلب جھوٹ تمسخر، طنز ، پھکڑ بازی، بازاری جملے، رکیک زبان جھوٹے الزامات.“ تحفظ ختم نبوت والوں کی تقریر سن کر معاشرے کے ادنی اور ذلیل عناصر بد نظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح احمدی لوگوں کو قتل کر رہے 66 تھے.تحفظ ختم نبوت کے مقصد سے ہر مسلمان کو ہمدردی ہے.لیکن اس مقصد کے نام پر بھنگڑے، سوانگ رچانا، مغلظ گالیاں بکنا اور اخلاق سوز حرکتیں کرنا مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے.“ خدا اور محمد کے نام کے ساتھ انتہائی غلیظ اور قابل نفرت گالیاں.“ مذہب اور ختم نبوت کے نام پر ہر بونگ، ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ 66 احراریوں کی ہر بونگ کو اُس ختم نبوت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں.“ احراری دیو بندیوں کے نزدیک اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے
100 داؤں پر لگانا چاہتے ہیں.“ ہلیہ ” مقدس علم کے نیچے بخش اور بازاری گالیاں.اور رحمۃ للعالمین کے نام پرلوٹ مار 66 مولوی منظور احمد نعمانی صاحب اپنے علماء کی ایسی حرکتوں پر افسردہ ہو کر شیخ تاج سبکی کے الفاظ کو درج فرماتے ہوئے لکھتے ہیں.دو شیخ تاج سبکی نے طبقات الشافعیہ الکبری میں رنج اور غصہ کے ساتھ لکھا ہے کہ مامن امام الا وقد طعن فيه طاعون و هلك فيه هالكون یعنی امت کا کوئی امام ایسا نہیں ہے جس کو حملہ کرنے والوں نے اپنے حملوں کا نشانہ نہ بنایا ہو اور جس کی شان میں گستاخیاں کر کے ہلاک ہونے والے ہلاک نہ ہوئے ہوں.“ فیصلہ کن مناظرہ ،صفحہ 14-15) اور آخر پر مولوی منظور احمد صاحب اپنا فیصلہ سناتے ہوئے قبریں اکھیڑتے ہوئے مولویوں اور انسانوں کے ذبح کرنے کے احکام دیتے ہوئے علماء کو تصور میں لا کر فرماتے ہیں.اس خاص معاملہ میں خدا ترسی، حق بینی کی صلاحیت اور فہم سلیم کی دولت چھین لی گئی ہے.“ اور وہ بظاہر عقل و ہوش رکھنے کے باوجود ان سے ایسی ایسی حرکتیں سرزد ہو رہی ہیں که عقل سلیم اُن کو کوئی توجیہہ بھی نہیں کر سکتی اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کا بیان ب لهم قلوب لا يفقهون بها ولهم اعين لا يبصرون بها ولهم ء اذان لا يسمعون بها اوليك كالا نغم بل هم اضل اوليك هم الغفلون (سورہ اعراف (179) (فیصلہ کن مناظرہ ، صفحہ 14-15) انا لله وانا اليه راجعون.بچو ا نہیں ہے آپ کے سوالوں کو جواب.اگر آج جماعت پر ظلم ہورہا ہے اور اگر مخالفین احمدیت ظلم میں خدا ترسی، فہم سلیم اور عقل و ہوش کھو بیٹھے ہیں اور خدا ترسی سے دور جا پڑے ہیں تو یہی آپ کی سچائی کی دلیل اور ان سے ایسی ہی حرکات سرزد ہونا چاہئے کیونکہ
101 بقول دیوبندی مولوی منظور احمد صاحب ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کا بیان ہے لھم قلوب لا يفقهون بها ولهم اعين لا يبصرون بها ولهم ء اذان لا يسمعون بها اوليك كالا نعم بل هم اصل اوليك هم الغفلون علامہ اقبال کے ایک شعر پر ختم کرتا ہوں ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ دین حق پہچان کر میں ہوا مسلم تو وہ مسلم کافر ہو گیا فاعتبرویا اولی الابصار