Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا پیدا کردہ لٹریچر زبردست جامعیت کا حامل ہے اور ہر دور کے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے اس میں سامان موجود ہیں نیز بے شمار علوم اور مضامین بطور بیج آپ کی تحریرات میں موجود ہیں۔ آپ کےاس غیر معمولی لٹریچر کی عظمت اور رفعت کا ایک ثبوت وہ خوشہ چینی بھی ہے جو آپ کے مخالفت میں کھڑے ہونے والے علماء نظم و نثر میں آپ کے کلام سے کرتے رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق درج ذیل عناوین اور مضامین ہیں جن میں مسلم علماء آپ سے خوشہ چینی کرچکے ہیں۔ حمد باری تعالیٰ۔ عظمت قرآن مجید۔ شان مصطفیٰﷺ۔ تصوف۔ اخلاقیات۔ فلسفہ احکام شریعت۔ علم الارواح۔ علم مکاشفہ۔ زیر نظر کتاب میں پیش کی گئی یہ تحقیق مولانا موصوف کی کثرت مطالعہ اور عرق ریزی پر دال ہے۔
کا اسلام عقل کی نظر میں کہا کہ بی ایل پر کار کے سامنے ہل نہیں سکتی اس کا گوشت کے مالی کے ہارنے کی سمت مستقل رہتا ہے نام و نامیشد تکرار است کا ماتم مقام انسالی رہا کے تقاضے ی کوئی کالی متحدہ کا بہادر تو ہے Pars ا ا ا ا ا ا ا ار ای ای ای در ایران و کانادا Be حضرت موالید اسید در این ما داری بیت برای جلوی دور میں کوئی امی کو دور کرے بی عربی بول مالا احکام اسلام عقل کی نظر میں یک ٹرک الٹ پیش ہو گا کھانا کھانا لینا استی کے سامنے کے جھوٹے مالا ما ریاست کی صورکے مکان کا ہے کورنی شاید خدا بر اور تیرے یر الوجات ک دا کوردان پیش ہوگا وقت کے سامنے محمد عبد الحمید صدیقی يوان الشيعي الوحيد ظله العقيلاتها التقليد احکام اسلام عقل کی نظر میں م الامت مولانا اشرت کی نی نوا کہ ان میں میں ہوتا تو میت کے با اتار سکتی کی کی گرفت کے تانے کیوانی یہاں کے سیانے فانی کا سابی ستقل رہتا ہے اہم اسے پیش کر تباہ استھا مربی است ایلی بھوت کا مال ہے امتی کے سامنے کی جھوٹے اعتماد متقا میں کوئی کھیلوں سے عمر میں ان کے مانے میں مشق دینا ہے امام اور ہمیشہ ایک کمک ها کہ وہا کے کل ملے چانتے نیست با کیا ہے اور نیکی سے پریاد یک ڈاکو اپنا پیٹیشن ہو گا کونہ کے کیا ہوا راستی کے سامنے کی جھوٹ معنا قدا خرید معرفت جزایر دوست ملی طورے سال کی ہے حضرت مولانا سید نا یاتی حصار قا دری بود مانداری داری اور او را با تمام بالای این و خط ان کتابت و غرب صور بنت ا سلامان بی ترین عقلی اعلی تسلیم ڈاکٹر اقلیم ما سال اول پیشین بی اور انت اول سوال اب ملایر زیارت ہی سال نمی دم بحالت بیداری محمد عبت الحمد صديقي ناشر - مرحب پہلی بیشتر بر عربی بول ماری ہوں لة العمليات التقلية احکام اسلام عقل کی نظر میں چاہئے کہت ہولی ہے اور نیکی سے پہنا یک راکت والا پیشین بر کا گوندا کے ما بیا اتی کے ساتھے کہ جھوٹ اعلا خدا منی دوست کی باری تعالی کی ہے رکی کے سامنے کب حکومت کی مقدا میں اس کی لو استمال کی ہے کہ ایک دن میں بر کانو تعینا د اکرام اقلام وار ساقی کونی و بر این شیر گوشت مالی نوان بیدا راید سمانی این مار رہا ہے چھوڑتی ہوتی ہے اس نے کال ایک سان مستقل رہتا ہے کالام کو یہ باور کیا کر کے کیا سے سوال کیا ہے کر ان کی کیا انسان این است یا نمایی ایرانی در این کار کار صورت اولین سینه رانی ده ست با دخانی ان عربی بولن مان رو گرامر اینڈ ٹرانسلیشن و خد و کتابت و غربی معماری بات مین کا اگر این ای در اسلام حضرت مولین اسید برای ما استقاد می اید مانداری است مار مار کرار است ای والای ایران من عربی بول جان و گریمر اینڈ ٹرانسلیشن 5 خان کتابت و غزلي عاروريت یا میں ان کی ان کا اسی مناسب و کار مان لیا ہے حضرت مابین اسید نداریق ها را برای اینده ین مکان های ما اگر این میان و کار امریکا السلام کی سی زمین علی انکل سیانید لوان الرحمن الشعر زیارت نبی الله بحالت بیداری محمد عبث المجيد صدر لیتی نا نشر مرتب پبلی کیشنز ر حوالی تلوار میں کوئی کمیاب تصویر طو ر کی ہے المحلة العملية التقليه احکام اسلام عقل کی نظر میں ڈاکٹریم معلم پر ما برای اولین تیم را داشت این سان می دانید جھوٹے اللہ مستقل رہنا ہے کہ ادارے کی ہر جگہ سے دا
بیسویں صدی گاه طی شمام کنار مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت Publisher M.M.Tahir & Azhar Choudhry 1470 - Lloor Ste 507, Mississauga ONT LUX Ir6, CANADA
3 آغاز سخن بیسویں صدی کا علمی شاہکار" چمنستان علم و ادب کی سب بہاریں ، رونقیں اور بزم آرائیاں افادہ اور استفاده کے فطری اصولوں کی بدولت قائم ہیں اور ہر علمی تخلیق اور ادبی شہ پارہ ، تہذیب و تمدن کے عروج وارتقاء کی محض بنیادی اینٹ ہی نہیں، نشان منزل بھی ہے اور چراغ راہ بھی.ایک صاحب طرز ادیب، قادر الکلام انشاء پرداز عالی پایہ شاعر اور بالغ نظر مفکر و متکلم کی عظیم شخصیت اپنی دقت نظر جامعیت ہمہ گیری اور نکتہ آفرینی کے اعتبار سے جس شان کی حامل ہوتی ہے اسی شان کے ساتھ اس کے قلم کی تاثیرات آفاق کی وسعتوں میں پھیلتی چلی جاتی ہیں.عوام و خواص میں اس کے نظریات کی پذیرائی ہوتی ہے.بے شمار دماغوں پر اسی کی حکمرانی ہوتی ہے اور اس کے محاوروں اصطلاحوں اور صنائع بدائع کو قبول عام کی سند حاصل ہوتی ہے.اور اس کا فکری اور علمی ورثہ متاخرین کے لئے سرمایہ حیات بن جاتا ہے اور اس کا شمار انسانیت کے عظیم محسنوں میں، ہوتا ہے اور یوں ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں.علم و عرفان بحرنا پیدا کنار ہے اور انسانی ذہن اور دماغ افکار و خیالات کی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے.استاذ ازل نے ترقی کے زینے سبھی کے لئے کھلے رکھے ہیں.اس لئے بعض اوقات تاجداران سخن کے کلام میں توارد ہو جاتا ہے جس کی بہت سی دلچسپ مثالیں تاریخ ادب میں ملتی ہیں.مثلاً علامہ شبلی نعمانی، میرانیس اور مرزا دبیر کے متحد المضمون مرثیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرضیہ میں میرانیس نے فخر کے ساتھ زمانہ کی ناقدری کی شکایت کی تھی.اس کا ایک بیت یہ ہے.
4 عالم ہے مکدر کوئی دل صاف نہیں ہے اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے اسی بحر میں مرزا دبیر فرماتے ہیں.دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے ذیل کے دونوں مصرعے بھی بالکل ہم مضمون ہیں.لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.انیں.ناقہ یہ بھی کوئی نہ برابر سے گذر جائے د بیر:.ناقہ پہ بیٹھ کر نہ ادھر کوئی آنے پائے (موازنہ انیس و دبیر صفحه ۲۸۹٬۲۸۶) جناب میر کا ایک شعر ہے.بہار آئی، گل پھول سر جوڑے نکلے رہیں باغ میں کاش اس رنگ ہم تو ای رنگ کا ایک شعر نشی امیر مینائی کے قلم سے ملاحظہ ہو.فصل گل آئی ہے یوں ہم تم ملیں اے گلیدن جیسے کلیاں نکلی ہیں شاخوں سے سر جوڑے ہوئے شعر الهند حصہ اول صفحه ۳۰۴) میر کہتے ہیں.دلخراشی و جگر چاکی و خون افشانی ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت ای مضمون کو امیر نے یوں باندھا ہے.رات دن رونا تڑپنا تلملانا پیٹنا ہیں تو ہم ناکام پر رہتا ہے کاموں کا ہجوم
5 ولانا سید امجد علی صاحب اشہری کا بیان ہے.ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں حیدر آباد میں جناب مولوی سید علی حسن خان صاحب سابق ناظم بند و بست ممالک محروسه سرکار نظام خانا روینو ممبر کو نسل ریاست اندور کے بنگلہ پر شریک جلسہ تھا.اس نی خدا نشے ملا محمد عبد القیوم صاحب مرحوم تعلقہ دار اول کے بھائی مولوی محمد عبد الحی صاحب مددگار بند و بست تشریف لائے اور شعر و سخن کا ذکر کلا.سب صاحب متوجہ ہو بیٹھے.جب اپنی اپنی باری ہو چکی تو دوسرے اساتذہ کا نمبر آیا.میں نے میرا نیس کا یہ مطلع پڑھا.خود نوید زندگی لائی قضا میرے لئے شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لئے کی یا لاثانی مطلع ہے.مولانا عبد الحی صاحب نے یہ مطلع سن کر اسی مضمون کا ایک فارسی شعر پڑھا اور آخر کو خود فرمایا کہ یہ میر صاحب کو توارد ہوا ہے یا جان بوجھ کر اسی مضمون کو اپنی زبان میں ادا کر دیا ہے اور دکھایا ہے کہ جو مضمون فارسی میں بے ساختگی سے ادا نہ ہو ، اس کو اردو میں یوں ادا کرتے ہیں." ( حیات انیس صفحہ ۲۶۱ مطبوعہ مطبع آگرہ اخبار " آگرہ") مشاہیر سخن کے کلام میں توارد ان کی بدیہہ گوئی ، برجستگی ، فصاحت و بلاغت اور قادر الکلامی کا پتہ دیتی ہے.اسی لئے اہل زبان خاص اہتمام سے اس کا تذکرہ کرتے آ رہے ہیں اور دور قدیم و جدید کے مشہور یکتائے فن کی نگارشات کا باہم موازنہ و مقابلہ ادب کا گل سرسید تسلیم کیا گیا ہے.اس میدان میں علمی جو ہر دکھلانے والوں کا نام محسنین ادب کی حیثیت سے نہایت درجہ اعزاز و اکرام کا مستحق ہے اور آنے والی نسلیں ان پر ہمیشہ فخر کریں گی.اس کے برعکس اصناف سخن کی ایک انوکھی اور عجیب و غریب نوع بالخصوص
6 موجودہ زمانہ کی اختراع ہے، جس کا منظر عام پر لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل قلم حضرات بانی سلسلہ احمدیہ کے کلام منظوم اور کلام منشور سے استفادہ کرتے ہیں اور اسے لفظاً لفظا یا معمولی تغیر کے ساتھ اپنی طرف یا کسی اور شخصیت کی طرف منسوب کر کے پھیلا رہے ہیں.یہ رجحان روز بروز جس کثرت سے بڑھ رہا ہے.صفحہ ہستی پر اس کی کوئی مثال اس سے قبل نہیں ملتی.اس نوع جدید کے موجدوں اور خوشہ چینوں میں شعرائے عظام ، مفتیان کرام مقتدر صحافی پیران طریقت، نامور مناظر اور منبر و محراب کے مسند نشین، شعلہ نواخطیب، نامور ماہرین تعلیم اور شہرت یافتہ قانون دان اور وکلاء غرض کہ ہر مکتب خیال سے تعلق اور شغف رکھنے والی چالیس معزز اور محترم شخصیات شامل ہیں.یہ دلچسپ سلسلہ بر صغیر سے نکل کر بعض بیرونی ممالک تک جا پہنچا ہے اور پر لطف بات یہ ہے کہ بانی احمدیت کی تصانیف پر تنقید اور ان کی ضبطی کے مطالبات بھی مدتوں سے برابر جاری ہیں.اشاعت علم و ادب کے اسی انداز فکر کو ہم نے بیسویں صدی کے علمی شاہکار سے موسوم کیا ہے اور آئندہ اوراق میں اس کی حیرت انگیز تفصیلات اور جزئیات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا بلند پایہ لٹریچر اردو، عربی اور فارسی کی اٹھاسی (۸۸) تالیفات پر مشتمل ہے.نیز آپ کے اشتہارات مکتوبات اور ملفوظات کا بیش بہا ذخیرہ اس کے علاوہ ہے.جن اکابر ملت نے آپ کی گراں مایہ کتب کو خراج تحسین ادا کیا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.امام الہند مولانا ابوالکلام صاحب آزاد مرزا حیرت دہلوی صاحب ، مولانا محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار ، پروفیسر سید عبد القادر صاحب مورخ اسلام مصور فطرت خواجہ حسن نظامی صاحب مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی مدیر صدق ، مولانا نیاز فتح پوری، مولانا شجاع الله خان مدیر ملت مولانا سید حبیب صاحب مدیر سیاست.
7 ماه دسمبر ۱۹۱۳ء میں آل انڈیا محمڈن اینگلو اور ینٹیل ایجو کیشنل کانفرنس کا ستائیسواں اجلاس اگرہ میں منعقد ہوا.خواجہ غلام الثقلین نے اپنے خطبہ صدارت میں خاص طور پر ان مشاہیر کا ذکر کیا جنہوں نے اردو کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا.اس ضمن میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو ان مایہ ناز ہستیوں کی صف میں شمار کیا جن کو آج اردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتا ہے.مثلاً پروفیسر آزاد مولانا حالی، سرسید احمد خاں داغ امیر جلال لکھنوی.، ، (دیکھئے رپورٹ اجلاس مذکور صفحہ ۷۶) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا پیدا کردہ لٹریچر زیر دست جامعیت کا حامل ہے اور ہر دور کے پیش آمدہ مسائل میں اس سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے اور بے شمار مضامین علوم بیج کے طور پر اس میں موجود ہیں.موجودہ تحقیق کے مطابق آپ کے لٹریچر سے جن مضامین کی خوشہ چینی کی گئی ہے وہ اصولی اعتبار سے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت آتے ہیں.حمد باری تعالٰی عظمت قرآن مجید شان مصطفى الالم تصوف اخلاقیات فلسفه احکام شریعت علم الارواح علم مکاشفه اظهار خیال کے دو طریق ہیں.تحریر اور تقریر.تحریر شعر و سخن اور نثر نگاری دونوں سے عبارت ہے اور دونوں کو ہی بے حوالہ زیب قرطاس کیا گیا ہے.
00 8 باب اول کلام منظوم سے اکتساب فیض حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہمعصر ممتاز شعراء میں سے بعض کے نام یہ ہیں:.حجم الدولہ اسد اللہ خان غالب، مومن خان مومن میر ببر علی انیس، مرزا سلامت علی دبیر منشی امیر احمد امیر مینائی ، فصیح الملک نواب مرزا خاں داغ ، خواجہ الطاف حسین حالی، سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی ، ریاض احمد ریاض ، سید علی نقی صفی لکھنوی اور فصاحت جنگ جلیل حسن جلیل.آپ کے مریدوں میں منشی امیر مینائی کے تلمیذ خاص حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب ، مختار شاہجہانپوری، فردوسی ہند علامہ حکیم مولانا حضرت عبید اللہ صاحب بسمل مولف "ارج المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب" حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی ( نبیرہ حضرت خواجہ میر درد) علی برادران کے برادر اکبر حضرت خان ذو الفقار علی خان گوہر کہ حضرت منشی قاسم علی خان صاحب رامپوری، حضرت محمد نواب خان ثاقب مالیر کوٹلوی اور ابوالبرکات حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی جیسے شیوا بیان نغزگو اور مایہ ناز شعراء بھی شامل تھے.که مولانا حسرت موہانی نے اردوئے معلی کانپور (ماہ جولائی اگست ۱۹۲۷ء) کے صفحہ ۲۰ پر آپ کا نام نامی امیر مینائی کے خصوصی شاگردان میں لکھا ہے.پاکستان کے مایہ ناز ادیب اور مفکر جناب عاشق حسین بٹالوی کا بیان ہے." مولانا ذو الفقار علی گوھر شاعری میں داغ کے شاگرد تھے اور ہمیشہ اپنے استاد کا ذکر بڑی محبت اور عزت سے کرتے تھے.داغ کم و بیش چو ہیں سال رام پور میں رہے.گوھر کا وطن بھی رام پور تھا اس لئے انہیں داغ کی بے شمار باتیں یاد تھیں" چند یادیں چند تاثرات صفحه ۱۲۹) مورخ پاکستان مولانا سید رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب "دید و شنید " صفحہ ۴۶۲- ۴۶۵ میں حضرت گوھر کی بلند پایہ شخصیت کا خاص احترام سے تذکرہ کیا ہے اور ان کی شاعرانہ عظمتوں کو خراج تحسین ادا کیا
9 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو مشق سخن کے آغاز ہی سے تلمذ کسی سے نہ تھا.دعوئی سے قبل آپ کا تخلص فرخ تھا جسے آپ نے بعد کو ترک کر دیا.آپ نے اصطلاحی معنوں میں کبھی اپنے تئیں شاعر کہلانا گوارا نہیں کیا اور نہ شعر گوئی کو بطور فن اختیار فرمایا.چنانچہ فرماتے ہیں:.کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے نیز لکھتے ہیں:.کوئی شاعری دکھلا نا منظور نہیں اور نہ میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں.........اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے.شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے.؟ {{ آپ کا روح پرور شعری کلام اردو، فارسی اور عربی زبان میں ہے.آپ نے شعر و سخن کی بنیاد خالص دینی و روحانی اقدار پر رکھی جس نے دنیا بھر کے لاکھوں اذہان و قلوب کو متاثر کیا.برصغیر پاک و ہند کے مشہور دانشور خواجه عبدالرشید " تذکره شعرائے پنجاب میں رقمطراز ہیں کہ: میرزاغلام احمد قادیانی او در دهی که باسم قادیان معروف و در شهر معروف گورداسپور واقع است بدنیا آمدند سال تولد وی ۱۸۳۵ است - از زمان کودکی نسبت به دین مبین اسلام علاقمند بود و مطالعات عمیقی را در پیرامون این مذهب آغاز نمود - در آن زمان هندوها و مسیحی ها و نصرانیها بر علیه السلام تبلیغ نموده مردم را از جاده حق منحرف می گردانیدند میرزا مذکور در جواب تبلغات ضد اسلامی قیام نموده و باد
10 لایلی بسیار محکم و قاطع دشمنان اسلام را شکست داد تعداد تصنیفات وی در حدود هشتاد جلد است - ذوق شعری هم داشت و کتابی با سم در ثمین بزبان فارسی چاپ کرد در زیر انتخابی از آن کتاب داده شده است: بر آن سرم که سرو جان فدای تو بلنم که جان بیار سپردن حقیقت یاری است بیچ آ گی نبود زعشق و وفا مرا خود ریختی متاع محبت بدامنم فصل بهار و موسم گل نایدم بکار کاندر خیال روئی تو هردم بگلشنم در کوئی تو اگر سر عشاق را زنند اول کسی که لاف تعشق زند منم ذره را تو بیک جلوه کنی چون خورشید ای با خاک کہ چوں مہ تاباں کر دی هوشمنداں جہاں را تو کنی دیوانه ای با خانه فطنت کہ تو ویراں کر دی تانه دیوانه شدم هوش نیامد بسرم ای جنوں گرد تو گردم که چه احساں کر دی نعت در دلم جوشد شائی سروری آنکه ور آنکه در خوبی ندارد همسری و سخا ابر بهار آنکه در فیض و عطا یک خاوری بر لبش جاری زحکمت چشمه در چور دلش پر از معارف کوثری نور او رخشید بر هر کشوری وشنی از وی بهر قومی رسید منکه از حسنش همی دارم خبر جان فشانم گرد ہر دل دیگری یاد آن صورت مرا از خود برد هر زمان مستم کند از ساغری ختم شد بر نفس پاکش هر کمال لاجرم شد ختم هر پیغمبری " تذکرہ شعرائے پنجاب " صفحہ ۲۶۱٬۲۶۰ - ناشر اقبال اکادمی کراچی نمبر ۲۹ مطبوعه ۱۹۶۷ء) لے سہو کتابت سے یہاں متاع کی بجائے مقام لکھا گیا ہے.
.11 (کتاب میں درج ذیل شعرائے احمدیت کا بھی تذکرہ ہے اور ان کے فارسی کلام کے عمدہ نمونے بھی دئے گئے ہیں:.حضرت علامہ عبید اللہ صاحب بسمل (صفحہ ۷۸) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی قدسی (صفحہ ۲۸۹) حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپور تھلوی امیر جماعت احمدیہ ضلع فیصل آباد.صفحہ ۳۳۷) ترجمہ:- میرزاغلام احمد قادیانی آپ ایک گاؤں میں جو قادیان کے نام سے مشہور ہے اور ضلع گورداسپور میں واقع ہے پیدا ہوئے.آپ کا سنہ ولادت ۱۸۳۵ء ہے.بچپن کے زمانہ سے ہی آپ دین مبین سے گہری وابستگی رکھتے تھے اور اپنے عمیق مطالعہ کا آغاز اس مذہب کے بارہ میں کر چکے تھے.ان دنوں ہندو مسیحی اور نصرانی تبلیغ کر کے لوگوں کو راہ حق سے منحرف کر رہے تھے.میرزا صاحب موصوف ان خلاف اسلام پروپیگنڈوں کے جواب کے لئے کمربستہ ہو گئے اور آپ نے بہت سے محکم اور قاطع دلائل سے دشمنان اسلام کو شکست دی.آپ کی تصانیف کی تعداد ۸۰ کے لگ بھگ ہے.آپ شعر گوئی کا ملکہ بھی رکھتے تھے.آپ نے ایک کتاب " در نشین " کے نام سے فارسی زبان میں چھپوائی.ذیل میں اس کتاب میں سے چند منتخب اشعار دئے جاتے ہیں:.در مشین" (اردو فارسی، عربی) آپ کی کتاب نہیں بلکہ آپ کے منظوم کلام کا مجموعہ ہے جو آپ کے مخلصین نے آپ کی کتب سے مرتب کیا اور تین الگ الگ جلدوں میں شائع ہوا.علاوہ ازیں آپ کے پر معارف فارسی منظوم کلام کا ایک اور مجموعہ در مکنون کے نام سے شائع شدہ ہے جو آپ نے دعوی سے قبل زیب رقم فرمایا تھا.).
12 (ترجمه اشعار) میں تیار ہوں کہ جان و دل تجھ پر قربان کردوں کیونکہ جان کو محبوب کے سپرد کر دینا ہی اصل دوستی ہے.مجھے عشق و وفا کی کچھ بھی خبر نہ تھی.تو نے ہی خود محبت کی یہ دولت میرے دامن میں ڈال دی.فصل بہار اور پھولوں کا موسم میرے لئے بیکار ہیں کیونکہ میں تو ہر وقت تیرے چہرے کے خیال کی وجہ سے ایک چمن میں ہوں.اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سرا تارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعوی کرے گا وہ میں ہوں گا.(اے محبت!) ایک تجلی سے تو ذرہ کو سورج بنا دیتی ہے اور بہت دفعہ ہماری طرح کی خاک کو تو نے چمکتا ہوا چاند بنا دیا.دنیا کے عظمندوں کو تو دیوانہ بنا دیتی ہے اور بہت سے عظمندی کے گھروں کو تو نے ویران کر دیا.میں بھی جب تک دیوانہ نہ ہو گیا میرے ہوش ٹھکانے نہ ہوئے.اے جنون عشق ! میں تجھ پر قربان.تو نے کتنا احسان کیا.نعت میرے دل میں اس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا.وہ جو بخشش اور سخاوت میں ابر بہار ہے اور فیض و عطا میں ایک سورج ہے.اس کے منہ سے حکمت کا چشمہ اور اس کے دل میں معارف سے پر ایک کو ثر ہے.اس سے ہر قوم کو روشنی پہنچی.اس کا نور ہر ملک پر چمکا.
13 میں جو اس کے حسن سے باخبر ہوں اس پر اپنی جان قربان کرتا ہوں جبکہ دوسرا صرف دل دیتا ہے.ہے.اس کی یاد مجھے بے خود بنا دیتی ہے.وہ ہر وقت مجھے ایک ساغر سے مست رکھتا اس کے پاک نفس پر ہر کمال ختم ہو گیا اس لئے اس پر پیغمبروں کا خاتمہ ہو گیا.ان تمہیدی کلمات کے بعد ان شخصیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جنہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کے کلام منظوم سے استفادہ فرمایا ہے:.ا.” مولانا حافظ عطاء اللہ صاحب بریلوی خادم قرآن تعلیم یافته دارالعلوم دیوبند و سهارنپور مولانا حافظ عطاء اللہ صاحب نے اعجاز قرآن" کے نام سے ایک مبسوط رسالہ رقم فرمایا جو ۱۹۳۷ء میں ہندوستانی کتب خانہ اردو بازار جامع مسجد دہلی نے شائع کیا.رسالہ کے سرورق پر نہایت جلی قلم سے یہ سے یہ الفاظ درج ہیں." اس رسالہ میں بحمدہ تعالٰی دہریت ، آریت ، عیسائیت ، بہائیت اور قادیانیت کے خیالی قلعوں کو اعجاز قرآن کی تین اقسام سے بم باری کر کے بکلی مسمار کر دیا گیا ہے" مولانا نے قادیانیت کے خیالی قلعے " پر بم باری کے لئے یہ دلچسپ طریق اختیار کیا کہ رسالہ کے صفحہ ۱۰۴ پر در مدح "قرآن" کے زیر عنوان حسب ذیل نظم شائع فرمائی ہے جو ۱۸۸۲ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہی کے قلم مبارک سے نکلی اور براہین احمدیہ حصہ سوم کے صفحہ ۱۸۲ پر شائع ہو چکی تھی.عدس در مدح قرآن کریم (مواد موسم 1 160 کو انام - جمال و حسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
14 ۲.نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھالا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے.بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چین میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے ۴ کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہر گز اگر لو لوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے ۵.خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں در ماندگی فرق نمایاں ہے.ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی سخن میں اس کے بتائی کہاں مقدور انساں ہے بنا سکتا نہیں ہرگز بشراک پاؤں کیڑے کا تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اس پہ آسماں ہے.ارے لوگو! کرو کچھ پاس شان کبریائی کا زبان کو تھام لو اب بھی.اگر کچھ ہوئے ایماں ہے.خدا کے غیر کو ہمسر بنانا سخت کفران ہے خدا سے کچھ ڈرو یا روا یہ کیسا کذب و بہتاں ہے ۱.اگر اقرار ہے تم کو خدا کی ذات واحد کا تو پھر کیوں اس قدر دل میں تمہارے شرک پنہاں ہے 11.یہ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جہل کے پر دے -2 خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوف یزداں ہے ( " اعجاز قرآن » صفحه ۱۰۴) جناب مولانا صاحب نے قارئین پر اپنی جودت طبع کا سکہ جمانے کے لئے کمال ہوشیاری کے ساتھ حضور کی نظم کے ترتیب وار گیارہ اشعار نقل کئے ہیں جن میں سے شعر نمبر ۹۴۲‘ کے ابتدائی مصرعوں میں مندرجہ ذیل تصرفات سے کام لیا ہے:.تصرف شده مصرعه اصل مصرعه شعر ۲.نظر اس کی نہیں ملتی بہت کچھ غور کر دیکھا نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا شعر ۴.کلام پاک یزداں کا نہیں ثانی کوئی ہرگز کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز شعر ۷.بنا سکتا نہیں ہرگز بشراک پاؤں کپڑے کا بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز شعر ۹.خدا کا غیر کو ہمسر بنانا سخت کفراں ہے خدا سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفراں ہے فاضل مولف نے اس پر معارف نظم کے آخری اور بارھویں شعر کے نقل کرنے سے گریز کیا ہے.شاید ان کی طبع نازک پر گراں ہو.وہ شعر یہ ہے:.
15 ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہو وے دل و جاں اس پہ قرباں ہے ۲.ابو الوفا ” مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر اہل حدیث امرتسر ولادت جون ۶۱۸۶۸ وفات ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء) آپ متحدہ ہندوستان میں اہلحدیث کے ممتاز عالم ، مصنف اور مناظر تھے.آپ کے غالی عقید تمندوں نے آپ کو " فاتح اسلام" کا لقب آپ کی زندگی میں دیا (اہل حدیث ۱۱.اگست ۱۹۴۴ء صفحہ (۵) اور بعد از وفات " آپ حجتہ الاسلام " اور "مسیحا" قرار دئے گئے.(سیرت ثنائی صفحه ۴۱۴ از "مولانا" عبد المجید خادم سوہدروی) "مولانا" شاء الله صاحب نے ۴ جنوری ۱۹۲۴ء کو لاہور کے ایک جلسہ میں (10 164, 1812 تقریر کرتے ہوئے آخر میں فرایا.نور واحد بوش 1 10، 16 اور سیاسی (کسر چونکہ میں قرآن مجید کو اپنا بلکہ جملہ انسانوں کا کامل ہدایت نامہ جانتا ہوں اس لئے اپنا اعتقاد دو شعروں میں ظاہر کر کے بعد سلام رخصت ہو تا ہوں.جمال و حسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیوں کر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول صفحہ ۸۶ - ناشر ادارہ ترجمان السنہ ۷.ایک روڈ لاہور ) در جی بالا اشعار حضرت باقی مسلسل احمدیہ کے علم سے اس براین من به تصد و نود پر چھپے چکے
16 - قاری محمد یونس صاحب رحیمی صد را اتحاد القراء فیصل آباد قاری محمد عابد صاحب جنرل سیکرٹری اتحاد القراء فیصل آباد مئی ۱۹۸۱ ء کو مرکزی جامع مسجد جناح کالونی فیصل آباد میں بعد نماز عشاء دوسری محفل قرات منعقد ہوئی.اس ضمن میں مندرجہ بالا علماء کرام نے ایک قد آدم پوسٹر کیا جس کی پیشانی پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ عارفانہ شعر کمال شان دلربائی کے ساتھ چمک دمک رہا تھا.جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے اس اشتہار کے مطابق محفل قرات کی صدارت "مولانا" تاج محمود صاحب ایڈیٹر "لولاک" نے کی.مہمان خصوصی "مولانا" اظهار احمد صاحب تھانوی (ریڈیو پاکستان لاہو ر ) تھے.محفل میں شامل ۴۱ قراء حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں:.ا.اسوۃ القراء الشيخ محمود عبد اللہ المصری جامعہ اشرفیہ لاہور -۲ استاذ القراء قاری محمد عمر صاحب شیخ التجوید مدرسه عربیہ دار القراء ماڈل ٹاؤن لاہور ۲.-۳ شمس القراء قاری محمد صدیق صاحب مدرسه دارالعلوم فیصل آباد.اسوة القراء قاری عطاء الرحمان صاحب اشرف المدارس فیصل آباد ۵- زینت القراء قاری محمد اشرف صاحب ناظم نشرو اشاعت اتحاد القراء -۶- زینت القراء قاری عبد الرحمان صاحب اسلامیہ کالج فیصل آباد ۷.قاری شاہد الحق صاحب عرف گل خان) ناظم آباد فیصل آباد - فخر القراء قاری احمد میاں صاحب تھانوی جنرل سیکرٹری اتحاد القراء و زینت القراء قاری عبد المالک صاحب دار العلوم الاسلامیہ لاہور.احسن القراء قاری محمد الیاس صاحب اشرف المدارس فیصل آباد
17.خادم القراء قاری محمد یونس صاحب رحیمی صدر اتحاد القراء فیصل آباد ۱۲.شمس القراء جناب قاری محمد ابراہیم صاحب شورکوٹ - فخر القراء قاری عبدالرحمن صاحب غلام محمد آباد ۱۴.جناب قاری محبوب عالم صاحب دار العلوم فیصل آباد ۱۵.استاذ القراء قاری الرحمن صاحب ڈیروی شیخ التجوید مدرسہ جامعہ مدینہ لاہور عمدة القراء قاری ادریس صاحب جامعہ مدینہ لاہور ۱۷.استاذ الحفاظ القراء محمد حسن صاحب مرکزی جامع جناح کالونی ۱۸.اشرف المدارس قاری رمضان صاحب نائب صدر اتحاد القراء ١٩ - عمدة القراء قاری محمد یوسف صاحب پھیکی ۲۰ - عمدة القراء قاری صولت نواز صاحب فیصل آباد ۲۱.صاحبزادہ جناب قاری محمد اشرف صاحب لاہور ۲۲.قاری عبدالحکیم اشاعت العلوم فیصل آباد ۲۳.قاری محمد ارشد کاٹن ملز فیصل آباد ۲۴.قاری نور محمد ڈی ٹائپ کالونی فیصل آباد ۲۵.قاری شہاب الدین جناح کالونی فیصل آباد ۲۶.قاری عبدالرحیم ایوب ریسرچ فیصل آباد ۲۷.قاری عبد الرحمان ماڈل ٹاؤن فیصل آباد ۲۸.قاری عبدالقیوم اشرف آباد فیصل آباد ۲۹.قاری محمد سلیمان جناح کالونی ۳۰.قاری غلام مصطفیٰ دار العلوم فیصل آباد ۳۱.قاری عبدالرشید دار العلوم فیصل آباد ۳۲.قاری محمد سلیم فیض محمدی فیصل آباد ۳۳.قاری عبدالرحیم دارالعلوم فیصل آباد
18 ۳۴.قاری عبد الجبار گلبرگ فیصل آباد ۳۵.قاری محمد شفیق جناح کالونی فیصل آباد ۳۶.قاری علی محمد گورنمنٹ کالج فیصل آباد ۳۷.قاری محمد نصر اللہ جناح کالونی فیصل آباد ۳۸.قاری نثار احمد ڈی ٹائپ کالونی فیصل آباد ۳۹.قاری رحمتہ اللہ دار العلوم فیصل آباد ۴۰.قاری محمد نواز دار العلوم فیصل آباد ۴۱.قاری عبدالرشید دار العلوم فیصل آباد ۴.جناب گنڈ و زین العابدین صاحب ساکن و ا بمباڑی علاقہ مدارس عرصہ ہوا " تعلیم ترجمہ القرآن" کے نام سے آپ کی طرف سے ایک مفید رسالہ چھپا.جس کے صفحہ ۱۲.۱۳ میں حسب ذیل نظم شائع ہوئی.( عکس کیلئے کہ ان کے صور 16% و صف قرآن مجید دیکھو شب قدر میں قرآن چمکتا نکلا کیا ہی اسلام کا خورشید دل آرا نکلا حق کے اس نور کا کوئی بھی ہمتا نکلا نور فرقاں ہے جو سب نو رویا سے پاک وہ جس سے انوار کا دریا نکلا اجلی نکلا شرک اور کفر کی ظلمت سے تھا اند ہیر مچا ظلم و عصیاں و خباثت میں پھنسی تھی دنیا بحرو بر بگڑے تھے اور ساری زمیں تھی مردہ حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے چشمه اصفا نکلا دین و دنیا میں مطلوب بنی آدم ہے سارے اسرار و دقائق کا یہ بس خاتم ہے معرفت اور حقائق کا یم اعظم ہے یا الہی تیرا قرآن ہے کہ ایک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
19 طبیبیوں سے ملے سب سے دوائیں پوچھیں ایسا عرفان کا نسخہ نہ ملا اور کہیں س پر لئے امریکہ و افریقہ تا چیں سب جهان چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں ے عرفاں کا بس ایک ہی شیشہ نکلا نہیں قرآن کی اس کون و مکاں میں تشبیہ نظم فطرت وہ اعجازی نشان میں تشبیہ ہے نہیں اس کی کسی عظمت و شاں میں تشبیہ کس سے اس نور کی ممکن ہے جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا اس کے ہر نکتہ میں نور الہی کا ظہور اس کے انوار سے مومن کا ہے سینہ معمور اس کے جلوہ سے ہیں تاریکیاں ساری کافور ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ صد نیر بیضا نکلا ایسے خورشید پر انوار سے جو دور رہیں وہ تو اندھوں سے بھی بدتر ہیں جو بے نور رہیں روح مردہ ہوئی ان کی تو یہ ہم صاف کہیں زندگی ایسوں کی بس خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعمی نکلا جس کو اللہ کا ملنا ہو جہاں میں مطلوب وہی قرآن کو رکھتا ہے ہمیشہ محبوب سب غذاؤں سے یہی دل کی غذا ہے مرغوب اللہ اللہ ہے یہ عرفاں کا نسخہ کیا خوب آج تک ایسا نہ شافی کوئی نسخہ نکلا کون کہتا ہے کہ قرآن ہے مجمل صامت اس کا ہر قول مفصل ہے وہ تبیاں نکلا اور کہتے ہیں کہ قرآن کی سمجھ ہے مشکل اس کا ہر لفظ مفسر ہے وہ آسان نکلا پاک وہ جس سے سے یہ انوار کا دریا نکلا ر ساله تعلیم ترجمه القرآن ص ۱۲ - ۱۳ مطبوعہ مطبع کریمی تلمکھڑی مدراس) قارئین حضرات کو یہ معلوم کر کے حیرانی ہوگی کہ اس نظم کے بیشتر مصرعے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی معرکہ آراء کتاب براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۷۴ (مطبوعہ ۱۸۸۲ء) سے اخذ کئے گئے ہیں.پوری نظم درج ذیل کی جاتی ہے تایہ اندازہ لگایا جاسکے کہ آپ کے قلم سے نکلا ہوا کلام کس شان کا حامل ہے.
20 20 نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ صد نیر بیضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جس کا نور کے ہوتے بھی دل اعملی نکلا جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا ۵- "مولانا" صالح محمد صاحب حنفی " خطبات الحنفیہ " پنجاب کے حنفی عالم مولانا صالح محمد صاحب مرحوم کی مشہور تالیف ہے جو شیخ سراجدین اینڈ سنز لاہور کے زیر اہتمام شائع ہو چکی ہے.کتاب کے صفحہ ۲۲۱ پر ".تیسواں وعظ فضائل ماہ رمضان" کے زیر عنوان پر حسب ذیل ۱۲ اشعار درج ہیں جن میں سے شعر نمبر ۶.۷ اور ۹.۱۰ کے سوا کتاب براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۶۸ (مطبوعہ ۱۸۸۲ء) سے کچھ تصرف کے ساتھ مستعار لئے گئے ہیں:.ا.اے عزیزو سنو کہ بے قرآن حق کو پاتا نہیں کبھی انساں نیکی کا کچھ اثر ہی نہیں ۲.جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں ان ۳.ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر اس سے ہے خالق اکبر ۴.کوئے حق میں یہ کھینچ لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشاں دکھاتا ہے - دل میں ہر وقت ور بھرتا ہے سینے کو خوب صاف کرتا ہے کجروی راہ نیکی کی یہ دکھاتا ہے ہیں بچاتا ہے
21 ے.شرک کو دل سے دور کرتا ہے کبر و نخوت کو چور کرتا ہے سینے میں نقش حق جماتا ہے دل سے غیر خدا اٹھاتا عشق حق کا پلاتا ہے یہ جام.بحر حکمت سے ۱.کلام تمام ہے ہیں دل کے اندھوں کی ہے دوا یہ ہی سرمہ ہے بس خدا نما یہ ہی.اس کے منکر جو بات کہتے ہیں سر بسر واہیات کہتے ۱۲.دل سے حق کو بھلا دیا ہیہات دل کو پتھر بنا لیا بیمات مولانا صاحب نے اصل اشعار میں جہاں جہاں ترمیم کی ہے.کوثر و تسنیم میں دھلے ہوئے کلام کا حسن غارت ہو گیا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پوری نظم میں عیسائیوں سے خطاب ہے اور اس کے آخری چار شعر یہ ہیں:.اس کے منکر جو بات کہتے ہیں ہی اک واہیات کہتے ہیں یوں بات جو ہو که میرے میرے مشهد 85 پر مجھے بات اس دلستاں کا حال سنیں بنادیں مجھ سے وہ صورت جمال سنیں خیر کان یوں ہی امتحان سی آنکھ پھوٹی تو نه سی 2 ۶..شاعر اہلحدیث مولانا ندیم کو موی.گوشہ ادب ٹوبہ ٹیک سنگھ..اخبار "تنظیم اہلحدیث " لاہور مورخہ ۳۰ جون ۱۹۶۱ء کے صفحہ اول پر جلی اور نمایاں حروف سے مولانا ندیم صاحب کی یہ نظم اشاعت پذیر ہوئی:.ز عکر سب نے ملاحة ہوں دستی 170 كتاب هذا )
22 کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے ایک نہ اک دن پیش ہو گا تو قضا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ فنا کے سامنے چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن ار کوئی مجبور ہے خدا کے سامنے وو مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج و غم غم سوز فکر وبلا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی سرجھکا لے مالک ارض و سما کے سامنے چاہئیے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار اک نہ اک دن پیش ہو گا تو خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے ندیم قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے " اخبار ” تنظیم اہلحدیث" کے نگران ان دنوں حضرت العلام" حافظ محمد عبد اللہ رو پڑی تھے اور مدیر حافظ عبدالرحمن امرتسری.مولانا ندیم کی یہ نظم تمام حلقوں میں پسند کی گئی اور اسے گہری دلچسپی سے پڑھا گیا.اسی اثناء میں رسالہ "الفرقان" جولائی ۱۹۶۱ء نے یہ انکشاف کر کے ادبی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ یہ پوری نظم معمولی تغیر کے ساتھ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے پر معارف کلام سے لی گئی ہے اور مقطع میں بھلا کی بجائے ندیم کا لفظ بطور تخلص شامل کر دیا گیا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اصل نظم ملاحظہ کیجئے اور شاعر اہلحدیث" مولانا ندیم صاحب کے اس علمی و ادبی
23 "کار نامہ " کی داد دیجئے اور سر دھنتے.اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج و غم پاس والم فکر و بلا کے سامنے بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر حاجتیں حاجت روا کے سامنے کر بیاں سب چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی سرجھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے چاہیے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھے کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھالا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۸ء صفحه (۱) ۷ حافظ محمد اکبر رسول آبادی فاضل علوم شرقیہ ایم.اے علوم عر بیه و معارف اسلامیه جناب حافظ محمد اکبر صاحب نے ”دعا اور دل کی مراد" کے عنوان سے ایک رسالہ تصنیف کیا.یہ ” نادر و نایاب تحفہ اکبر اینڈ سنز کراچی نمبر ۲ کی کوشش سے زیور
24 طبع سے آراستہ ہوا.رسالہ کے صفحہ ۲۳ پر اجابت دعاء کے زیر عنوان یہ شعر درج ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مذکورہ نظم میں موجود ہے.بارگاه ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے جناب حافظ صاحب نے اسی رسالہ کے صفحہ ۴۷ پر حضرت بانی سلسلہ کے لخت جگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا یہ شعر بھی سپرد قرطاس کیا ہے:.غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے " اے میرے فلسفیوا زور دعا دیکھو تو.جناب سید نذر عباس ، سید صابر حسین سید سجاد حسین سید امتیاز حسین جاروب کش امام بارگاه ریاض الملت گوٹھ لعل و موضع ساہلاں بہاولپور ۶۵ جولائی ۱۹۸۸ء کو سرکار حضرت قائم آل محمد علیہ السلام کی زیر سرپرستی بہاول پور کے نواح میں ایک مجلس عزا برپا ہوئی.مجلس عزا کے لئے جو پوسٹر شائع کیا گیا اس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ شعر بھی زیب رقم تھا:.ہیں:.بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا (چیز) ہیں مشکل کشا کے سامنے اس مجلس سے جن علمائے کرام و ذاکرین عظام نے خطاب کیا ان کے نام یہ مورخ آل محمد مولانا سید نجم الحسن صاحب.عمدہ ذاکرین جناب عاشق حسین صاحب بی اے.ذاکر آل محمد غلام عباس شاہ صاحب گرویزی.ذاکر آل محمد " جناب غلام شبیر صاحب بخاری.ذاکر آل محمد جناب عطا حسین صاحب مہاجر -
25 ۹ - مخدوم حکیم محمد اعظم ملتانی شاہی حکیم والی ریاست لسبیلہ بلوچستان 19 جولائی ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ مخدوم محمد اعظم صاحب نے دلی کے "مجلہ طیبہ کے ایڈیٹر کے نام حسب ذیل مکتوب مع اشعار کے ارسال کیا.اپنے احباب و دیگر معزز ناظرین کی اشتیاق و تحریص پیدا کرانے اور طب و حکمت کی اشاعت کی طرف توجہ دلانے کے واسطہ یہ چند اشعار تیار کرائے گئے ہیں.امید ہے کہ آپ ان کو بھی درج رسالہ فرما دیں گے اور میرے رفیق ان اشعار کو عزت کی نگاہ سے ملاحظہ فرماویں گے اور ان کو پرانی جنتری کی طرح بیکار نہیں تصور فرمائیں گے." ا.بکوشید اے جوانان تا به طب قوت شود پیدا اشعار << اندر روضه حکمت شود پیدا ۲- اگر یاران کنون بر غربت این علم رحم آرید کمال اتفاقی و خلت و الفت شود ۳.بجنبید از پئے کوشش که از درگاه ربانی ز بهر ناصران طب زحق نصرت شود پیدا.اگر امروز فکر عزت طب در شمار جوشد شمار والا رتبت و عزت شود پیدا ۵- اگر دست عطا در نصرت این علم بکشاید هم از بهر شما ناگه ید قدرت شود پیدا زبذل مال در حکمت کے مفلس نے گردد خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا ے.دو روزه عمر خودور کار طب کو شہداے یاراں زصد نومیدی ویاس والم رحمت شود پیدا - امید طب روا گردان امید تو روا گردد زصد تمیدی دیاس والم رحمت شود پیدا باخوان طبابت ہیں کہ چون شد کار تا دانی که از تائید طب صد چشمه دولت شود پیدا ۱۰ بجو از جان و دل تاخد متی از دست تو آید بقائے جاوداں یابی گراین شربت شود پیدا 11.مفت این اجر نصرت راد ہندت اے ائی ورنہ قضائے آسمان ست این بهر حالت شود پیدا
26 ١٣ ee ۱۲ کریما صد گرم کن بر کسی کو نا صر طب بست بلائے ادیگر و ان گر گئی آفت شود پیدا چنان خوش دار او را اے خدائے قادر مطلق کہ در ہر کاروبار حال او فرحت شود پیدا ۱۴- می بینم کو درد ار قدیم و پاک میخواهد که باز آن قوت اس علم و آن شوکت شور پیدا " مجله طیبہ کے سر پرست حکیم محمد واصل خان صاحب سیکرٹری مدرسہ طیبہ دہلی تھے اور نگران اعلیٰ مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب رئیس دہلی.رسالہ کے ایڈیٹر نے شاہی حکیم مخدوم محمد اعظم صاحب کا مراسلہ مع طبی اشعار کے یکم اگست ۱۹۰۳ء کے شمارے میں صفحہ ۳۴٬۳۳ پر شائع کر دیا.حقیقت یہ ہے کہ مخدوم محمد اعظم صاحب نے یہ نظم دس سال قبل چھپنے والی کتاب " آئینہ کمالات اسلام" (مولفہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ) کی ایک نظم کو بے دردی کے ساتھ مسخ کر کے تیار کی تھی اور اپنے ہمعصر اطباء سے خراج تحسین وصول کرنے کے لئے نہایت بے ادبی کے ساتھ "اسلام" اور "دین" کے الفاظ کو ” طب" وغیرہ الفاظ میں بدل ڈالا تھا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نظم جو کتاب کے سرورق کے صفحہ ۲ پر طبع ہوئی ۲۱ مشتمل ہے جن میں سے چودہ ۱۴ متعلقہ اشعار معہ ترجمہ ہدیہ قارئین کئے جاتے اشعار پر ہیں:.بکوشید اے جواناں تابدین قوت شود پیدا بہارو رونق اندر روضه ملت شود پیدا اے جوانو! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہو.اور ملت اسلام کے باغ میں بہار اور رونق آئے.اگر یاراں کنوں پر غربت اسلام رحم آرید.با صحاب نبی نزد خدا نسبت شود پیدا اے دوستو! اگر اب تم اسلام کی غربت پر رحم کرو تو خدا کے ہاں تمہیں آنحضرت م کے صحابہ سے مناسبت پیدا ہو جائے.
27 بجنبید از پئے کوشش که از در گاه ربانی زبهر ناصران دین حق نصرت شود پیدا کوشش کے لئے حرکت میں آؤ کہ خدا کی درگاہ سے مدد گار ان اسلام کے لئے ضرور نصرت ظاہر ہوگی.اگر امروز فکر عزت دیں در شمار جو شد شما را نیز والله رتبت و عزت شود پیدا اگر آج دین کی عزت کا خیال تمہارے دل میں جوش مارے تو خدا کی قسم خود تمہارے لئے بھی عزت و مرتبت پیدا ہو جائے اگر دست عطا عطا در نصرت اسلام بکشاید هم از بهر شما ناگه ید قدرت شود پیدا اگر اسلام کی تائید میں تم اپنا سخاوت کا ہاتھ کھول دو تو فورا تمہارے اپنے لئے بھی خدائی قدرت کا ہاتھ نمودار ہو جائے.زبذل مال در راہش کسے مفلس نے گردو خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کوئی مفلس نہیں ہو جایا کر تا اگر ہمت پیدا ہو جائے تو خدا خود ہی مددگار بن جاتا ہے.دو روز عمر خود در کار دیں کو شیداے یاراں کہ آخر ساعت رحلت بصد حسرت شود پیدا اے دوستو! اپنی عمر کے دو دن دین کے کام میں گزار دو کہ آخر مرنے کی گھڑی سینکڑوں حسرتیں لے کر آجائے گی.امید دیں روا گرداں امید تو رو اگر دو زصد نو میدی ویاس والم رحمت شود پیدا تو دیں کی امید پوری کر تاکہ تیری امیدیں پوری ہوں سینکڑوں نا امیدیوں یاس
28 اور غم کے بعد رحمت پیدا ہو جائے گی.در انصار نبی بنگر که چون شد کار تا دانی که از تائید دیں سرچشمه دولت شود پیدا آنحضرت میں لی لی لی ایم کے انصار کی طرف دیکھ کر کس طرح انہوں نے کام کیا تاکہ تجھے پتہ لگے کہ دین کی مدد کرنے سے دولت کا منبع پیدا ہو جاتا ہے.بجواز جان و دل تا خدمت از دست تو آید بقائے جادواں یابی گرامیں شربت شود پیدا دل و جان سے کوشش کر تاکہ تیرے ہاتھوں سے کوئی خدمت اسلام ہو جائے اگر یہ شربت پیدا ہو جائے تو تو بقائے دوام حاصل کرلے گا.به مفت این اجر نصرت را د ہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمانست این بهر حالت شود پیدا اے بھائی مفت میں تجھے نصرت کا یہ بدل دے رہے ہیں ورنہ یہ تو آسمانی فیصلہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا.ہے بینم کہ دادار قدیر و پاک مے خواہد که باز آں قوت اسلام و آن شوکت شود پیدا میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ قادر و قدوس خدا کا منشا یہ ہے کہ اسلام کی وہ قوت اور وہ شوکت پھر پیدا ہو جائے.كريما صد كرم کن بر کسے کو ناصر دین است بلائے اوبگر داں گر گئے آفت شود پیدا اے خداوند کریم سینکڑوں مہربانیاں اس شخص پر کر جو دین کا مددگار ہے اگر کبھی آفت آئے تو اس کی مصیبت کو ٹال دے.چنان خوش دار او را اے خدائے قادر مطلق که در هر کاروبار و حال او جنت شود پیدا
29 اے خداوند قادر مطلق اسے ایسا خوش رکھ کہ اس کی حالت اور سب کاروبار میں ایک جنت پیدا ہو جائے.اہل قلم و دانش حضرات دونوں نظموں کا موازنہ کر کے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شاہی حکیم نے کس طرح ایک نہایت روح پرور کلام میں تصرف کر کے اسے معجون مرکب اور ملغوبہ بنا ڈالا ہے.۱۰.جناب ”مولانا صوفی سید عبد الرحمن خان حنفی مالیر کوٹلہ ریاست مالیر کوٹلہ کے اس حنفی بزرگ نے تنبیہ المسلمین المعروف غیرت اسلام کا رسالہ حمایت اسلام پریس لاہور سے شائع کیا.رسالہ کے سرورق پر آپ نے فرزندان توحید اور شبان اسلام میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ کا حسب ذیل شعر درج کیا:.کو شبہ اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بیمار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا ا.خطیب پاکستان " علامہ " محمد شفیع اوکاڑوی (ولادت ۱۹۲۹ ء وفات اپریل ۱۹۸۴ء) آپ سلسلہ نقشبندیہ کے ممتاز عالم دین اور سیاسی راہنما تھے.پہلے جامع مسجد ساہی وال میں پھر مرکزی میمن مسجد کراچی میں فرائض خطابت بجا لاتے رہے.مرکزی جماعت اہلسنت اور زار العلوم حنفیہ غوثیہ کے بانی تھے اور متعدد کتابوں کے مصنف بھی.آپ کی مشہور کتاب " الذکر الجمیل" کی نسبت ماہنامہ " ترجمان اہل سنت" (مئی جون ۱۹۷۴ء) کے آخری صفحہ پر لکھا ہے کہ یہ کتاب خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں واعظوں اور عاشقان رسول اکر م م ل ل ل لا ل ای میل کے لئے سرمایہ اور سکون قلب ہے.اس کتاب کا ہر مسلمان کے پاس ہونا ضروری ہے.
30 80 علامہ اوکاڑوی نے اسی کتاب کے صفحہ ۱۰۴ پر عشق رسول میں ڈوبے ہوئے ایک شعر کو جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۲۸ میں شائع شدہ ہے.ڈاکٹر سر محمد اقبال کی طرف منسوب کر کے نقل کر دیا ہے حالانکہ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ۳ ذی قعده ۱۲۹۴ ہجری مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے اور براہین احمدیہ حصہ چہارم ۱۸۸۴ء میں منظر عام پر آئی.بہر حال اصل شعر یہ ہے.مصطفی آئینہ روئے خداست منعکس دروے ہمہ خوئے خداست ۱۲ - " علامہ " پیر محمد کرم شاہ صاحب ایم اے آنرز (الازہر) سجادہ نشین بھیرہ ولادت ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۳۶ھ مطابق یکم جولائی ۱۹۱۸ ء وفات کے اپریل ۱۹۹۸ء) رو آپ پیر طریقت " اور "رہبر شریعت " کہلاتے تھے.ملتان کے شہرہ آفاق صوفی حضرت بہاء الحق والدین ابو محمد ذکریا سہروردی کی نسل میں سے تھے.آپ کی تصانیف میں سے تفسیر ضیاء القرآن سنی حلقوں میں بہت مقبول ہے.1921ء میں آپ نے لاہور سے ماہنامہ ”ضیائے حرم " جاری کیا.۱۹۸۰ء سے آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج کے عہدہ پر فائز ہوئے.بعد ازاں سپریم کورٹ اپیلنٹ شریعت بینچ کے جج بنے اور مارچ ۱۹۹۸ء میں سبکدوش ہوئے.آپ کچھ عرصہ جمیعہ العلمائے پاکستان کے سینئر نائب صدر رہے.انہیں حکومت مصر نے اپنے قومی اعزاز "نواط الامتیاز“ اور ”حکومت پاکستان نے ”ستارہ امتیاز سے نوازا.آپ کے رسم چہلم پر ”مولانا طاہر القادری صاحب نے کہا:.پیر محمد کرم شاہ عصر حاضر کے مجد داور مجہند تھے." "
31 " اخبار آزاد لا ہو ر ۱۹ مئی ۱۹۹۸ ء.نوائے وقت ۱۸ مئی ۱۹۹۸ء) علامہ نے رسالہ ضیائے حرم (اپریل ۱۹۷۲ء) کے صفحہ ۲۷ پر ہدیہ نعت " کے زیر عنوان درج ذیل فارسی نظم سپر د اشاعت فرمائی.( 7271 برای خرید جان ودلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جمال محمد است این چشمہ رواں کہ مخلق خدا دهم یک قطره زبحر کمال محمد است این آتشم ز آتش مهر محمدی ست ویں آب من ز آب زلال محمد است (ترجمہ) میری جان اور دل محمد کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا ہر جگہ محمد کے جمال کا شہرہ ہے.معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.یہ میری آگ عشق محمد کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا یہ پانی محمد کے مصفا پانی میں سے لیا گیا ہے.یہ موجب مسرت ہے کہ رسالہ ”ضیائے حرم" نے یہ نعتیہ کلام نہایت جلی اور نفیس قلم سے شائع کیا مگر یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی کہ بارگاہ نبوی میں عقیدت کا یہ حسین و جمیل گلدستہ پیش کرنے کی سعادت کیسے نصیب ہوئی ہے؟ راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق یہ نظم پہلی بار ایک سو تیرہ ۱۱۳ برس پیشتر ضمیمہ اخبار "ریاض ہند امر تسر مورخہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء کے صفحہ ۱۴۵ میں چھپی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے قلم مبارک سے نکلی."ریاض ہند" کے اس یادگار پرچہ کی نقل مطابق اصل آپ کی تالیف "آئینہ کمالات اسلام" (مطبوعہ ۱۸۹۳ء) میں بھی شائع شدہ ہے.علاوہ ازیں " تاریخ احمدیت جلد نہم صفحه ۴۸۰ پر اس کا فوٹو بھی چھپ چکا ہے.جو صاحب چاہیں ملاحظہ فرما سکتے ہیں.
32 ۱۳.نواب میر عثمان علی صاحب نظام حیدر آباد دکن ( ولادت ۱۸۸۴ء.وفات ۱۹۶۷ء) حیدر آباد دکن کے آصفیہ خاندان کے آخری تاجدار !! جو ۲۸ اگست ۱۹۱۱ء کو مند آرائے سلطنت ہوئے.ان کے عہد میں ریاست نے زبردست ترقی کی.۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء کو بھارت نے حملہ کر کے یہ سلطنت ختم کر دی.آپ فارسی اور اردو کے شاعر تھے.نظامی ٹرسٹ حیدر آباد نے ان کا دیوان شائع کیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا اشعار بھی شامل ہیں جنہیں نواب صاحب مرحوم نے اپنی طرف منسوب کر لیا ہے.(اخبار بدر قادیان ۲۷ مئی ۱۹۸۲ء صفحہ ۱۳.تحریر مولوی حمید الدین صاحب شمس مرحوم مبلغ انچارج حیدر آباد دکن) ۱۴."مولانا سید محمود احمد صاحب رضوی ولادت ۱۹۲۴ ء.وفات ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء) اسلامی انسائیکلو پیڈیا اردو کے مدیر سید قاسم محمود نے لکھا ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تک پہنچتا ہے مرکزی دار العلوم حزب الاحناف کے منتظم اور ماہنامہ رضوان کے ایڈیٹر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں.آپ کا شمار جمعیت علماء پاکستان (نیازی) کے چوٹی کے رہنماؤں میں ہوتا ہے.جمیعہ کے بعض رہنماؤں نے آپ کی وفات پر بیان دیا کہ " آپ تحریک ختم نبوت کے عظیم مجاہد تھے." اخبار ” دن " لاہور یکم نومبر ۱۹۹۹ء صفحہ ۶) آپ نے حضرات خلفاء راشدین کے فضائل و مناقب اور دینی و ملی خدمات پر شان صحابہ" کے نام سے ایک پر از معلومات کتاب تصنیف کی جو "مکتبہ رضوان" گنج بخش روڈ لاہور) کے زیر اہتمام شائع ہوئی.اس کتاب کے آخری سرورق پر بھی رسالہ
33 "ضیائے حرم" کا مطبوعہ بری نعت پوری شان اور آب و تاب مشيات 173 174 کذاب کے ساتھ موجود ہے.عصر کیلئے ملاخی ۱۵.جناب شاہد و قار صاحب ایڈیٹر قائد.اسلام آباد آپ نے رسالہ قائد (فلسطین نمبر) کے صفحہ اول پر حضرت بانی سلسلہ.کا درج ذیل مشہور شعر آپ کا نام دیئے بغیر حوالہ قرطاس کیا ہے.بعد از خدا بعشق محمد مخمر م گر کفر این بود بخدا سخت کافرم یہ شعر آپ کی کتاب ازالہ اوہام " حصہ اول صفحہ ۱۷۶ مطبوعہ ۱۸۹۱ء میں موجود ہے اور اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ خدا کے بعد میں محمد علی ایم کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں.(فارة ۱۶.مولانا پیر عبد القیوم صاحب نقشبندی مجددی لهو گردی زاہد آبادی آپ پیر غوث محمد ابن شاہ ولی اللہ نقشبندی کے خلیفہ مجاز تھے اور عالم رباز" اور "عارف یزدانی" کے القاب سے یاد کئے جاتے تھے.کتاب "السیف الصارم" اری آپ کی یاد گار ہے.یہ کتاب محرم الحرام ۱۳۴۹ ھ مطابق مئی جون ۱۹۳۰ ء میں امرتسر کے نذیر پر نٹنگ پریس" میں طبع ہوئی.آپ کے مرشد پیر غوث محمد مجددی کا اجازت نامہ بھی اس کے سرورق کی زینت ہے.اخوان را در برانکو ملانی بیمار ایم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے فارسی کلام کو کتنی بے پناہ قبولیت حاصل ہوئی.یہ رسالہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ اس میں نہایت کثرت سے آپ کے فارسی اشعار نقل کئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ کئی صفحات پر محیط ہے.ذیل میں اس اجمال کی تفصیل عرض کی جاتی ہے.اصل کتاب میں اشعار کا ترجمہ موجود نہیں اس کا اضافہ قارئین کی
34 سہولت کے لئے کیا گیا ہے نیز ان کے ماخذ کی بھی نشاندہی کی گئی ہے.صفحه ۳۵ ہے.ہے.عجب نوریست ور جان محمد عجب لعلیست ور کان محمد محمد کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمد کی کان میں ایک عجیب و غریب لو ز ظلمت بادلے آنگه شود صاف که گردو از محبان محمد اس وقت ظلمتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد کے دوستوں میں داخل ہو جاتا عجب دارم دل آن ناکسان را که رو تابند از خوان محمد میں ان نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد" کے دستر خوان سے منہ پھیرتے ہیں.ندانم بیچ نفسے ور دو عالم که وارد شوکت شان محمد و دونوں جہان میں میں کسی شخص کو نہیں جانتا جو محمد کی شان و شوکت رکھتا ہو.خدا زاں سینہ بیزار ست صدبار که هست از کینه داران محمد خدا اس شخص سے سخت بیزار ہے جو محمد سے کینہ رکھتا ہو..خدا خود سوزد آن کرم دنی را کہ باشد از عدوان محمد
35 بن جا.خدا خود اس ذلیل کیڑے کو جلا دیتا ہے جو محمد " کے دشمنوں میں سے ہو.اگر خواہی نجات از مستی نفس بیا ور ذیل مستان محمد اگر تو نفس کی بدمستیوں سے نجات چاہتا ہے تو محمد " کے مستانوں میں سے ہو جا.اگر خواهی که حق گوید ثایت بشواز دل شنا خوان محمد اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو یہ دل سے محمد علیم کا مدح خواں اگر خوای دلیلی عاشقش باش بست برہان محمد اگر تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تو اس کا عاشق بن جا کیونکہ محمد مالی ہیں خود محمد کی دلیل ہے.میرے دارم ندائے خاک احمد ہر وقت قربان محمد دلم پر میرا سراحمد میل کی خاک پاک پر نثار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر قربان رہتا ہے.بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم ثار روے تابان محمد رسول اللہ کی زلفوں کی قسم کہ میں محمد صلی اللہ کے نورانی چہرے پر فدا ہوں.دریں رہ گر کشندم ور بسوزند تایم روز ایوان محمد اس راہ میں اگر مجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے ' پھر بھی میں محمد کی بارگاہ سے منہ نہیں پھیروں گا.
36 بکار دیں نترسم از جہانے که دارم رنگ ایمان محمد دین کے معاملہ میں سارے جہان سے بھی نہیں ڈرتا کہ مجھ میں محمد مال کے ایمان کا رنگ ہے.بے سہاست از دنیا بریدن بیاد حسن و محمد احسان دنیا سے قطع تعلق کرنا نہایت آسان ہے محمد علی کے حسن و احسان کو یاد کر کے.فداشد ور ر هش ار ذره من لیا ہے.ہوں.ہوں.که دیدم حسن پنہاں محمد اس کی راہ میں میرا ہر ذرہ قربان ہے کیونکہ میں نے محمد لال لال کا مخفی حسن دیکھ دگر استاد را نامے ندانم که خواندم در دبستان محمد میں اور کسی استاد کا نام نہیں جانتا میں تو صرف محمد مال کے مدرسے کا پڑھا ہوا بدیگر دلبری کاری ندارم کہ ہستم کشته آن محمد اور کسی محبوب سے مجھے واسطہ نہیں کہ میں تو محمد صلی اللہ کے ناز و ادا کا مقتول مرا آن گوشه چشم بیاید نخو اہم جز گلستان محمد مجھے تو اسی آنکھ کا نظر مہر در کار ہے میں محمد ایلیا کے باغ کے سوا اور کچھ نہیں
چاہتا.37 دل زارم به پهلویم مجوسید که ستیمش بدامان محمد میرے زخمی دل کو میرے پہلو میں تلاش نہ کرو کہ اسے تو ہم نے محمد علی کے دامن سے باندھ دیا ہے.ہے.من آں خوش مرغ از مرغان قدسم که دارد جا بستان محمد طائران قدس میں سے وہ اعلیٰ پرندہ ہوں جو محمد ملی امی کے باغ میں بسیرا رکھتا تو جان مامنور کر دی از عشق فدایت جانم اے جان محمد تو نے عشق کی وجہ سے ہماری جان کو روشن کر دیا اے محمد علی تجھ پر میری جان فدا ہو.دریغا گر دہم صد جان دریں راہ نباشد نیز شایان محمد اگر اس راہ میں سو جان سے قربان ہو جاؤں تو بھی افسوس رہے گا کہ یہ محمد ی کی شان کے شایان نہیں.چه بیست با بداوند این جوان را که ناید کس به میدان محمد اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد علیم کے میدان میں کوئی بھی (مقابلہ) پر نہیں آتا.الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از شیخ بران محمد
ڈر.38 اے نادان اور گمراہ دشمن تیار ہو جا اور محمد میل کی کاٹنے والی تلوار سے ره مولی که گم کردند مردم بجو در آل اعوان محمد و خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد مال کے آل اور انصار میں ڈھونڈھ.الا اے مشکر از شان محمد ہم از نور نمایان محمد خبردار ہو جا اے وہ شخص جو محمد یلی لا علم کی شان نیز محمد علی کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.ہے.کرامت گرچه بے نام و نشان است بنگر بیا علمان محمد اگر چہ کرامت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمد ملی ایل کے غلاموں میں دیکھے آئینہ کمالات اسلام آخری صفحات مطبوعه ۱۸۹۳ء) صفحہ ۱۱۶.عنوان ” فریا داہل اسلام" دردا که حسن صورت فرقاں عیاں نماند آں خود عیاں مگر اثر عارفاں نماند افسوس قرآن کے چہرہ کی خوبصورتی ظاہر نہ رہی مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ خود تو ظاہر ہے لیکن اس کے قدر شناس نہ رہے.مردم طلب کنند که اعجاز آن کجاست صد درد و صد دریغ که اعجاز دان نماند
39 لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا اعجاز کہاں گیا ( اعجاز تو ہے) لیکن سخت رنج اس کا ہے کہ کوئی اعجاز واں نہیں رہا.بینم کہ ہر یکے بہ غم نفس مبتلاست کس را غم اشاعت فرقاں بجاں نماند میں دیکھتا ہوں کہ ہر شخص اپنے ذاتی تفکرات میں مبتلا ہے.کسی کو بھی قرآن کی اشاعت کا فکر نہیں.جانم کباب شد زغم ایس کتاب پاک چنداں بسوختم که خود امید جاں نماند اس کتاب کے غم میں میری جان کباب ہو گئی اور میں اس قدر جل گیا ہوں کہ بچنے کی کوئی امید نہیں.صير بار رقص با کنم از خرمی اگر بینم که حسن دلکش فرقاں نہاں نماند میں خوشی کے مارے سینکڑوں دفعہ رقص کروں.اگر یہ دیکھ لوں کہ قرآن کا دل کش جمال پوشیدہ نہیں رہا.یا رب چه بهر من غم فرقان مقد راست یا خود دریں زمانہ کے رازاں نماند اے رب کیا میری تقدیر میں فرمان کے لئے غم کھانا لکھا ہے یا اس زمانے میں میرے سوا اور کوئی واقف حقیقت ہی نہیں.دیدم که زاہداں فرقان گذاشتند ناچار در دلم اثر مهرشان نماند میں نے دیکھا کہ زاہدوں نے قرآن کا راستہ چھوڑ دیا ہے اس لئے میرے دل میں بھی ان کی محبت کا نشان باقی رہا.
40 امروز گردل از پے قرآن نسوزدت عذرے دگر ترا بجناب یگاں نماند اگر آج کے دن تیرا دل قرآن کے لئے نہیں جلتا تو پھر خدا کی درگار میں تیرا کوئی عذر باقی نہیں رہا.بگذار درد مثنوی و شغل غزل و شعر ای خود چه چیز هست اگر قدر آن نماند مثنوی کے درد اور شعر و غزل کے مشغلہ کو چھوڑ یہ چیزیں کیا حقیقت رکھتی ہیں اگر قرآن ہی کی قدر نہ رہی.در خادماں نشینی و صد نازی کنی آن را که سید است کس از خادمان نماند تو نوکروں میں بیٹھ کر سینکڑوں ناز نخرے کرتا ہے مگر جو اصل سردار ہے اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں.خلق از برائے شوکت دنیا چها کنند دردا که مهر کعبہ چو مہر بتاں نماند لوگ دنیا کی شان و شوکت کے لئے کیا کیا کرتے ہیں مگر افسوس کہ کعبہ کی محبت بتوں کی محبت کے برابر بھی نہیں رہی.اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر به بند زاں پیشتر که بانگ بر آید فلاں نماند" اے بے خبر فرقاں کی خدمت کے لئے کمر باندھ لے اس سے پہلے کہ یہ آواز آئے کہ فلاں شخص مر گیا.له سعدی کا مصرعہ (مولف) اے خواجہ پنج روز بود لطف زندگی کس از پئے مدام دریں خاکداں نماند
41 اے خواجہ ! زندگی کا لطف چند دن کیلئے ہے کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہا.(اشتہار اہل اسلام کی فریاد) صفحہ ۱۷ از نور پاک قرآن صبح صفا و میده بر غنچہ ہائے دلها باد صبا وزیده چلنے لگی.قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہو گئی اور دلوں کے غنچوں پر باد صبا این روشنی ولمعاں شمس الضحیٰ ندارد ویں دلبری و خوبی کس ور قمر ندیده ایسی روشنی اور چمک تو دو پہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں.از مشرق معانی صد با دقائق آورد قد بلال نازک زاں ناز کی خمیده منبع حقائق سے یہ سینکڑوں حقائق اپنے ہمراہ لایا ہے.ہلال نازک کی کمر ان حقائق سے جھک گئی ہے.کیفیت علو مش دانی چه شان دارد شهدیست آسمانی از وحی حق چکیده تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے ؟ وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے.روئے یقیں نہ بند ہر گو کے بدنیا الا کے کہ باشد با رویش آر میده
42 دنیا میں کسی کو یقین کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو تا.مگر اسی شخص کو جو اس کے منہ سے محبت رکھتا ہے.آنکس که عالمش شد شد مخزن معارف واں بے خبر ز عالم کیں عالمی ندیده جو اس کا عالم ہو گیا وہ خود معرفت کا خزانہ بن گیا اور جس نے اس عالم کو نہیں دیکھا اسے دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں.ید باران فضل رحمان آمد مقدم اوا قسمت آنکه ازدے سوئے دگر دویده رحمان کے فضل کے بارش ایسے شخص کی پیشوائی کو آتی ہے بد قسمت وہ ہے جو اسے چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا.اے کان دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی میں خلق آفریده اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے.تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی.میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا که زان فغاں رس نورت بما رسیده مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریاد رس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے.(براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیہ صفحہ ۲۷۴..مطبوعہ ۶۱۸۸۲)
43 عنوان در مدح رسول اکرم محمد مصطفی خاتم النبین من الليل - در دلم جو شد ثنائے سرورے آنکه رو خوبی ندارد ہمرے میرے دل میں اس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا.آنکه جانش عاشق یار ازل آنکه روحش واصل آن دلبرے وہ جس کی جان خدائے ازلی کی عاشق ہے.وہ جس کی روح اس دلبر میں واصل ہے.بری آنکہ مجذوب عنایات حق است پیچو طفله پرور دیده ور وہ جو خدا کی مہربانیوں سے اس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے.آنکه در برد کرم بحر عظیم آنکه در لطف اتم یکتا درے وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے.فیض و عطا یک خاورے آنکه ور جود ور و سخا ابر بہار آنکہ ره بخشش اور سخاوت میں ابر بہار ہے اور فیض و عطا میں ایک سورج ہے.آں رحیم و رحم حق را آیتے آن کریم و جود حق را مظهرے وہ رحیم ہے اور رحمت حق کا نشان ہے.وہ کریم ہے اور بخشش خداوندی کا مظہر ہے.آن رخ فرخ که یک دیدار او زشت رو را می کند خوش منظرے اس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اس کا ایک ہی جلوہ بدصورت کو حسین بنا دیتا ہے.آن دل روشن که روشن کرده است صد درون تیره را چون اخترے وہ ایسا روشن ضمیر ہے جس نے روشن کر دیا سینکڑوں سیاہ دلوں کو ستاروں کی طرح.اں مبارک ہے کہ آمد ذات او رحمتے زاں ذات عالم پرورے وہ ایسا مبارک قدم ہے کہ اس کی ذات خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہے.از بنی آدم فزوں تر در جمال وز اولی پاک تر در گوھرے
44 وہ تمام بنی آدم سے بڑھ کر صاحب جمال ہے اور آب و تاب میں موتیوں سے بھی زیادہ روشن ہے.برلیش جاری ز حکمت چشمه در دلش پر از معارف کوثرے اس کے منہ سے حکمت کا چشمہ جاری ہے اور اس کے دل میں معارف سے پر ایک کوثر ہے.بهر حق دامان زغیرش بر فشاند ثانی او نیست در بحرو برے خدا کے لئے اس نے ہر وجود سے اپنا دامن جھاڑ دیا.بحروبر میں اس کا کوئی ثانی نہیں.آل چراغش دار حق کش تا ابد نے خطر نے غم زیاد مر مرے حق نے اس کو ایسا چراغ دیا ہے کہ تا ابد ا سے ہوائے تند سے کوئی خوف و خطر نہیں.رب جلیل برمیاں بسته ز شوکت خنجرے پهلوان حضرت وہ خدائے جلیل کی درگاہ کا پہلوان ہے اور اس نے بڑی شان سے کمر میں خنجر باندھ رکھا ہے.تیر او تیزی بهر میدان نمود شیخ او ہر جا نمودہ جو ہرے اس کے تیر نے ہر میدان میں تیزی دکھائی ہے اور اس کی تلوار نے ہر جگہ اپنا جو ہر ظاہر کیا ہے.کرد ثابت بر جہاں عجزتاں وانمودہ زور آن یک قادری اس نے دنیا پر بتوں کا عجز ثابت کر دیا اور خدائے واحد کی طاقت کھول کر دکھادی.بت ستا وبت وبت گرے تا نماند بے خبر از زور حق تا خدائی طاقت سے بے خبر نہ رہیں ، بت ستا بت پرست اور بت گر.عاشق صدق و سداد دراستی دشمن کذب و فساد و ہر شرے وہ صدق نچائی اور راستی کا عاشق ہے مگر کذب فساد اور شرکا دشمن ہے.خواجہ دم را بنده بادشاه و بیکساں را چاکرے عاجزاں وہ اگر چہ آتا ہے مگر کمزوروں کا غلام ہے.وہ بادشاہ ہے مگر بیکسوں کا چاکر ہے.(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ اول صفحه ۸ تا ۱۶ مطبوعه ۶۱۸۸۰)
45 صفحه ۱۲۵ چوں زمن آید ثنائے سرور عالی تیار عاجز از مدحش زمین و آسمان دهر دو دار مجھ سے اس عالی قدر سردار کی تعریف کس طرح ہو سکے جس کی مدح سے زمین و آسمان اور دونوں جہاں عاجز ہیں.اں مقام قرب کو دارد بدلدار قدیم کس نداند شان آن از واصلان کرد گار قرب کا وہ مقام جو وہ محبوب ازلی کے ساتھ رکھتا ہے اس کی شان کو واصلان بارگاہ الہی میں سے بھی کوئی نہیں جانتا.آن عنا تها کہ محبوب ازل دارد بدو کسی بخوابے ہم ندیده مثل آن اندر دیار مہربانیاں جو محبوب ازلی اس پر فرماتا رہتا ہے وہ کسی نے دنیا میں خواب میں بھی نہیں دیکھیں.سردر خاصان حق شاہ گروه عاشقاں آنکه روحش کرد طے ہر منزل وصل نگار خاصان حق کا کردار اور عاشقان الہی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی روح نے محبوب کے وصل کے ہر د جہ و طے کر لیا ہے.آنکه دارد قرب ناس اندر جناب پاک حق آنکه شان او نه فهمد کس زخاصان و کبار وہ جو کہ جناب الہی میں خاص قرب رکھتا ہے وہ جس کی شان خواص اور بزرگ بھی نہیں سمجھتے.احمد آخر زماں کو اولیس را جائے فخر آخرین را مقتدا و ملجا و کهف و حصار احمد آخر الزمان جو پہلوں کے لئے فخر کی جگہ ہے اور پچھلوں کے لئے پیشوا.مقام پناہ.جائے حفاظت اور قلعہ ہے.است درگاه بزرگش کشتی عالم پناہ کس نگر دو روز محشر جز پناهش رستگار اس کی عالی بارگاہ سارے جہاں کو پناہ دینے والی کشتی ہے.حشر کے دن کوئی اس کی پناہ میں آنے کے بغیر نجات نہیں پائے گا.
46 از همه چیزے فزوں تر در همه نوع کمال آسمانها پیش اوج ہمت او ذره وار وہ ہر قسم کے کمالات میں ہر ایک سے بڑھ کر ہے اس کی بلندی ہمت کے آگے آسمان بھی ایک ذرہ کی طرح ہیں.صدر بزم آسمان و حجتہ اللہ بر زمین ذات خالق را نشانے بس بزرگ و استوار وہ آسمانی مجلس کا میر مجلس اور زمین پر اللہ کی حجت ہے نیز ذات باری کا عظیم الشان مضبوط نشان ہے.ہر رگ و تار و جودش خانه یار ازل هر دم و هر ذره اش پر از جمال دوستدار اس کے وجود کا ہر رگ و ریشہ خدا وند ازلی کا گھر ہے.اس کا ہر سانس اور ہر ذرہ دوست کے جمال سے منور ہے.حسن روئے او به از صد آفتاب و ماہتاب خاک کوئے او به از صد نافہ مشک بار اس کے چہرہ کا حسن سینکڑوں چاند اور سورج سے بہتر ہے.اس کے کوچہ کی خاک تا تاری مشک کے سینکڑوں نافوں سے زیادہ خوشبودار ہے.هست او از عقل و فکر و ہم مردم دور تر کے مجال تا آن بحر ناپیدا کنار وہ لوگوں کی عقل و سمجھ سے بالا تر ہے.فکر کی کیا مجال کہ اس نا پیدا کنار سمندر کی حد تک پہنچ سکے.روح او در گفتن قول بلی اول کسے آدم توحید و پیش از آدمش پیوند یار قول بلی کہنے میں اس کی روح سب سے اول ہے.وہ توحید کا آدم ہے اور آدم سے بھی پہلے یار سے اس کا تعلق تھا.جان خود را دن ہے خلق خدا در فطرتش جاں نثار خستہ جاناں بیدلان را غم گسار مخلوق الہی کے لئے جان دینا اس کی فطرت میں ہے.وہ شکستہ دلوں کا جان نثار اور بیکسوں کا ہمدرد ہے.اندراں و قتیکہ دنیا پر زشکر و کفر بود هیچ کس راخوں نہ شد دل جز دل آن شهریار ایسے وقت میں جب کہ دنیا کفرو شکر سے بھر گئی تھی سوائے اس بادشاہ کے اور کسی کا دل
47 اس کے لئے غمگین نہ ہوا.خوشتر از دوران عشق تو نباشد بیچ دور خوبتر از وصف و مدح تو نباشد هیچ کار اے عشق کے زمانہ سے اور کوئی زمانہ زیادہ اچھا نہیں اور کوئی کام تیری مدح و ثنا سے زیادہ بہتر نہیں.تکیه بر اعمال خود بے عشق رویت ابلی است غافل از رویت نه بیند روئے نیکی زین ہار تیرے عشق کے سوا صرف اپنے اعمال پر بھروسہ کرنا بے وقوفی ہے.جو تجھ سے غافل ہے وہ ہرگز نیکی کا منہ نہ دیکھے گا.یا نبی اللہ توئی خورشید رہ ہائے ہائی بے تو نارد رو برا ہے عارف پرہیز گار اے نبی اللہ ! تو ہی ہدایت کے راستوں کا سورج ہے.تیرے بغیر کوئی عارف پر ہیز گار ہدایت نہیں پا سکتا.یا نبی اللہ لب تو چشمہ جاں پرور است یا نبی اللہ توئی در راه حق آموزگار اے نبی اللہ تیرے ہونٹ زندگی بخش چشمہ ہیں.اے نبی اللہ تو ہی خدا کے راستہ کا رہنما ہے.یا نبی اللہ فدائے ہر سر موئے تو ام وقف راه تو کنم گر جاں دہندم صد ہزار اے نبی اللہ میں تیرے بال بال پر فدا ہوں.اگر مجھے ایک لاکھ جانیں بھی ملیں تو تیری راہ میں سب کو قربان کر دوں.آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۳ تا ۲۹ مطبوعه ۱۸۹۳ء) صفحه آخری ست عیش دنیائے دوں دے چند ست آخرش کار با خداوند اس ذلیل دنیا کا عیش چند روزہ ہے بالاخر خدا تعالی سے ہی کام پڑتا ہے.این سرائے زوال و موت و فناست ہر کو بشت اندرین برخاست.یہ دنیا زوال موت اور فنا کی سرائے ہے جو بھی یہاں رہا ہو آخر رخصت ہوا.
48 یکدے روبسوئے گورستان و از خموشان آن به پرس نشاں تھوڑی دیر کے لئے قبرستان میں جا اور وہاں کے مردوں سے حال پوچھ.که مال حیات دنیا چیست ہر کہ پیدا شدست تا کے زیست کہ دنیاوی زندگی کا انجام کیا ہے اور جو پیدا ہوا وہ کب تک جیا ہے.ترک کن کین و کبر و ناز و دلال تا نه کارت کشد بسوئے ضلال کینہ ، تکبر، فخر اور ناز چھوڑ دے تاکہ تیرا خاتمہ گمراہی پر نہ ہو.چوں ازین کار گہ به بندی بار باز نائی دریس بلاد بلاد و جب تو اس دنیا سے اپنا سامان باندھ لے گا تو پھر ان شہروں اور ملکوں میں واپس نہیں آئے گا.و دیار اے ز دیں بے خبر بخور غم دیں کہ نجاتت معلق ست بدیں اے دین سے بے خبر دین کا غم کھا.کیونکہ تیری نجات دین سے ہی وابستہ ہے.ہاں تغافل مکن ازین غم خویش که ترا کار مشکل است به پیش خبردار اپنے اس غم سے غفلت نہ کیجیو کیونکہ تجھے مشکل کام در پیش ہے.ا دل ازین درد و غم نگار بکن دل چه جاں نیز ہم ثار بکن اپنے دل کو اس درد و غم سے زخمی کر.دل کیا بلکہ جان بھی قربان کر دے.ہست کارت ہمہ ہاں یک ذات چون صبوری کنی از و بیهات تیرا واسطہ تو اسی ایک ذات سے ہے افسوس ہے کہ پھر اس کے بغیر کیونکر تجھے صبر آتا ہے.مثل مردارے چوں سگے ہر طرف طلبگارے این جهان است یہ دنیا تو مردار کی طرح ہے اور اس کے طلبگار کتوں کی طرح اسے چمٹے ہوئے ہیں.خنک آں مرد کو ازیں مردار روئے آرد ہوئے آں داوار شخص خوش قسمت ہے جو اس مردار سے بیچ کر اپنا منہ خدا کی طرف پھیرتا ہے.اے رسن ہائے از کرده دراز میں ہوس با چرا نیائی باز وہ.
49 اے وہ کہ جس نے لالچ کی رسیاں لمبی کر رکھی ہیں کیوں تو ان ہوش پرستیوں سے باز نہیں آتا.دولت عمر دم بدم بزوال تو پریشاں مفکر دولت و مال عمر کی دولت ہر گھڑی گھاٹے میں ہے لیکن تو مال و دولت کی فکر میں پریشاں ہے.خویش و قوم و قبیلہ پر زدنا تو بریده برائے شاں زخدا رشته دار قوم اور کنبہ سب دھوکے باز ہیں لیکن تو نے ان کی خاطر خدا سے تعلق توڑ رکھا ہے.اے خنک دیده کہ گریانش اے ہمایوں دے کہ بریانش ٹھنڈی رہے وہ آنکھ جو اس کے لئے روتی ہے مبارک ہے وہ دل جو اس کے لئے جاتا ہے.اے مبارک کے کہ طالب اوست فارغ از عمر و زید بارخ دوست بابرکت ہے وہ جو اس کا طالب ہے اور عمرو زید کے خیال سے الگ ہو کر اس کے حضور میں رہتا ہے.هر که گیرد ره خدائے یگاں آں خدائیش بس ست در دو جهان جو بھی خدائے واحد کا راستہ اختیار کرے گا اس کے لئے خدا تعالی دونوں جہانوں میں کافی ہے.(براہین احمدیہ حصہ دوم صفحه ۱۳۰ تا ۱۳۵ مطبوعه ۱۸۸۰ء) ۱۷.جناب تاج دین صاحب انصاری مدیر ترجمان احرار اسلام "آزاد" لاہور (ضورات 121 122 اکتا جتنے) ولادت ۱۸۹۱ء.وفات (۱۹۵۵ء) جناب انصاری صاحب نے جلسہ میلاد النبی کے تعلق میں اپنے اخبار "آزاد" (۲۹ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۲) میں حضور سرور کونین رحمتہ للعالمین کی تشریف آوری" کے
50 : نهایت درجه جلی عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس کے راقم ایک صاحب نورالدین آف ایبٹ آباد تھے.اس مضمون کی تمہید میں مقالہ نگار نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا نام لئے بغیر آپ کا ایک فارسی شعر نقل کیا اور تسلیم کیا کہ اگر چہ مرسلین ، اولیائے کرام، صوفیائے عظام اور علمائے کرام نے بھی آنحضور ملی وی کی تعریف کی ہے مگر اصل تعریف اسی شعر میں بیان ہوئی ہے.چنانچہ انہوں نے لکھا:." آج میلاد النبی کا دن ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ظہور آج کے دن ہوا.آج حضور علیہ الصلوۃ و السلام پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف تو انسان کی طاقت سے باہر ہے.حضرت آدم سے لے کر قیام قیامت تک کسی نبی کسی مرسل اور کسی بشر کی طاقت نہیں کہ آپ کی تعریف کا حق ادا کر سکے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اکثر انبیاء پیش گوئی کرتے آئے.انہوں نے بھی صرف اسی جملہ پر اکتفاء کیا کہ ہمارے بعد ایک نبی آخر الزمان آنے والا ہے.چنانچہ حضرت عیسی کی یہ پیش گوئی انجیل میں واضح ہے کہ میرے بعد ایک نبی آنے والا ہے.جن کا نام محمد ہو گا.میں ان کے جوتے کے تسمے کھولنے کے بھی لائق نہیں.مرسلین کے بعد حضور علیہ السلام کے اصحاب و تابعین کا شمار ہوتا ہے.تو ان کا بھی یہی حال رہا کہ حضور علیہ السلام کو اسی قدر پہچان سکے کہ اپنے مال و جان اور اولاد سب کچھ آپ پر قربان کر دیا.یہ بھی پہچاننے کی ایک ادنیٰ مثال ہے.باقی امت تو کسی شمار ہی میں نہیں ! بہر حال اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کو راہ عرفان میں جو کچھ مشاہدات پیش آتے ہیں وہ حضور کے نور مقدس سے ہی تو سل رکھتے ہیں.علاوہ ازیں علمائے کرام نے حضور کی جو تعریف کی ہے وہ آپ کے اسوہ حسنہ اور علم الحدیث سے ماخوذ ہے.ورنہ حضور علیہ السلام کی 1.=
51 تعریف یہی ہے کہ اگر خوای دلیلی عاشقش باش محمد بست برہان محمد " جیسا کہ معزز قارئین گذشتہ صفحات میں مطالعہ فرما چکے ہیں یہ پر معارف شعر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ہے اور آپ کی کتاب "آئینہ کمالات اسلام" میں مرقوم ہے.-۱۸ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے مرکزی رہنما تاریخ پاکستان کا یہ ایک کھلا ورق ہے کہ دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخاب میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے اور مغربی پاکستان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور صدر پاکستان محمد یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو کامیابی کا پیغام دیتے ہوئے انہیں پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم قرار دیا اور انہیں حکومت بنانے کی دعوت دے دی.فروری 1921 ء میں اسمبلی کے اجلاس ڈھاکہ کی تیاری زور شور سے شروع تھیں کہ "مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان" کے مرکزی رہنماؤں نے انگریزی زبان میں ایک رسالہ ارکان اسمبلی میں تقسیم کے لئے شائع کیا جس کا نام تھا.AN APPEAL TO THE MEMBERS OF NATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN رسالہ کے دیباچہ میں عوامی لیگ کے بانی مسٹر سید حسین شہید سہروردی کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا گیا کہ وہ پاکستان کے عظیم رہنماؤں میں پہلے سیاست دان تھے جنہوں نے ”قادیانی مسئلہ " بروقت بھانپ لیا.ازاں بعد احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا.اس ضمن میں قرآن کریم اور احادیث نبوی کے بعض اقتباسات
"Iqbal: 52 درج کرنے کے بعد لکھا.Finality of prophethood has fascinatingly been brought out in the following verses." هست اوخير الرسل خیر الانام ھر نبوت را بر وشد اختتام He is the Best of Prophets and Best of human beings.Every Prophethood came to an end in his holy person.ختم شد بر نفس پاکش ہر کمال لا جرم شد ختم ختم ھر ھر پیغمبری All ecxellences came to an end in his pious person; Undoubtedly Prophethood came to an end." ) صفحات 183 184 کتاب ہذا پر عکس ملاحظہ ہونا) (رساله مذکوره صفحه (۱۰) بُرا قارئین کے لئے یہ انکشاف یقیناً حد درجہ حیرت کا موجب ہو گا کہ فارسی کے یہ دونوں اشعار جنہیں ڈاکٹر سر محمد اقبال کی طرف منسوب کیا گیا، دراصل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہیں.پہلا شعر آپ کی کتاب "سراج منیر" (مطبوعہ مئی ۱۸۹۷ء) کے صفحہ "ز" میں شائع شدہ ہے اور دوسرا براہین احمدیہ حصہ اول (مطبوعہ ۱۸۸۰ء) کے صفحہ ۱۰ پر لکھا ہے.اس انگریزی رسالہ کا اردو ترجمہ بھی فروری ۱۹۷۱ء میں طبع کرایا گیا جس کا نام " قادیانی مذہب و سیاست.مسئلہ ختم نبوت کے متعلق اراکین مجلس دستور ساز اسمبلی پاکستان کی خدمت میں ایک نمروری عرضداشت" مجلس کے مرکزی لیڈروں نے انگریزی رسالہ چونکہ بالخصوص مشرقی پاکستان کے ممبروں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لئے شائع کیا تھا (جن کے ممبروں کی بھاری اکثریت کامیاب ہوئی تھی) اس لئے انہوں نے اردو ترجمہ سے علامہ سراقبال سے متعلق پورا
53 پیرا گراف ہی حذف کر دیا مگر بعد ازاں جب سقوط ڈھاکہ کا المیہ پیش آیا اور پاکستان دولخت ہو گیا تو مرکزی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے یہی انگریزی رسالہ دوبارہ Qadianism" کے نام سے چھپوا لیا اور اس میں بھی متعلقہ نوٹ مع اشعار کے برقرار رکھا لیکن اس کے دوسرے ایڈیشن میں اشعار تو ربڑ کی مہر سے محو کر دئے گئے البتہ ان کا انگریزی ترجمہ اور عنوان بدستور برقرار رکھا گیا.خامه انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہتے -۱۹ مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی (ولادت ۱۹۳۱ء) (غالب) سند یافتہ دار العلوم اسلامیہ ٹنڈوالہ یار (۱۹۵۰ء) پر نسپل جامعہ عربیہ چنیوٹ.ناظم اعلیٰ ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد صدر مجاہدین احرار پاکستان.سابق رکن صوبائی اسمبلی پنجاب.القاب سفیر ختم نبوت.فاتح ربوہ وغیرہ.بقول "مولانا" سید ابو الاعلی صاحب مودودی " پیشہ ور مناظرین نے آج کل مباہلے کو کشتی کے داؤں میں باضابطہ طور پر شامل کر لیا ہے " ( ترجمان القرآن اگست ۱۹۵۶ء.رسائل و مسائل حصہ چہارم صفحه (۲۲) اسی "داؤ کی ایک کڑی جناب چنیوٹی صاحب کا ایک آٹھ ورقہ پمفلٹ دعوت مباہلہ کا آخری چیلنج " بھی ہے جو انہوں نے حضرت امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے لکھا اور ۱۹۶۲ء میں ثنائی پریس سرگودھا سے طبع کرایا.اس پمفلٹ کے آخر میں یہ شعر تھا." , كان نصيحة لله فرضی فقد بلغت فرضی بالوداد یعنی میرا فرض اللہ کے لئے نصیحت کرنا تھا سو میں نے اپنا فرض محبت سے ادا کر دیا E
• ہے.سسس 54 " بلا شبہ یہ محبت بھرا شعر آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے.مگر یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے قلم سے نکلا ہے اور تحفہ بغداد" (مطبوعہ محرم ۱۳۱۱ھ جولائی ۱۸۹۳ء) صفحہ میں ہے اور آپ کی عربی نظم کا مقطع ہے.11 ۲۰ ” مولانا جان محمد صاحب ایم اے ایم اوایل ، منشی فاضل و مولوی فاضل.سابق عربی و فارسی نیچر گو ر نمنٹ ہائی سکول فیروزپور " آپ کی مشہور تالیف اصلی عربی بول چال مکمل کلاں" ہے جو مدت ہوئی کشمیری بازار لاہور کے کتب خان منشی عزیز الدین پبلشرز و تاجران کتب نے شائع کی تھی اور جو کتابی سائز کے ۳۰۴ صفحات پر مشتمل تھی.کتاب کے آخر میں آنحضرت م کی شان اقدس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا وہ شہرہ آفاق عربی قصیده مع اردو ترجمہ درج تھا جو آپ کی کتاب "آئینہ کمالات اسلام" (مطبوعه ۱۸۹۳ء صفحہ ۵۹۰ تا ۵۹۴ میں چھپا اور جسے سپرد قلم کرنے کے بعد آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا " یہ قصیدہ جناب الہی میں قبول ہو گیا اور خدا نے مجھ سے فرمایا جو اس قصیدہ کو حفظ کرے گا اور - الله ہمیشہ پڑھے گا، میں اس کے دل میں اپنی اور آنحضرت میر کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا اور اپنا قرب عطا کروں گا".ذیل میں زیر نظر کتاب کے صفحات ۲۹۷ تا ۳۰۴ سے قصیدہ کے ۵۸ مطبوعہ اشعار نقل کئے جاتے ہیں اصل قصیدہ ۷۰ اشعار پر مشتمل ہے) عکس کتاب خدا کے صفحات 185 تا 193 پر لاخطر ہوں قصيدة في مدح النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم يا عين فيض الله والعرفان يسعى الیک الخلق كالظمان اے خدا کے فیض اور عرفان کے چٹے لوگ تیری طرف پیاسے کی طرح دوڑے آتے
ہیں.55 يا بحر فضل المنعم المنان تهوی الیک الزمر بالكيزان اے منعم ومنان کے فضل کے سمند ر لوگ کو زے لئے تیری طرف آ رہے ہیں.يا شمس ملك الحسن والاحسان نورت وجه البر والعمران اے حسن و احسان کے ملک کے آفتاب تو نے ویرانوں اور آبادیوں کا چہرہ روشن کر دیا.قوم راوک وامة قد اخبرت من ذلك البدر الذي اصباني ایک قوم نے تجھے آنکھ سے دیکھا اور ایک قوم نے اس بدر کی خبریں سنیں جس نے مجھے اپنا دیوانہ بنایا ہے.يبكون من ذكر الجمال صبابة وتالما من لوعة الهجران اور آپ کے جمال کو یاد کر کے اشتیاق سے روتے ہیں اور جدائی کی جلن سے دکھ اٹھا کر (چلاتے ہیں) وارى القلوب لدى الحناجر كربة وارى الغروب تسيلها العينان میں دلوں کو (غم سے) گلوں تک آپہنچے ہوئے اور آنسوؤں کے نالے بنے ہوئے دیکھتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.يا من غدا في نورة وضيائه كالنيرين و نور الملوان
56 اے وہ جو اپنے نور اور روشنی میں آفتاب و مہتاب کی مانند ہے جس رات اور دن روشن ہو گئے.یا بدرنا يا اية الرحمن اهدى الهداة واشجع الشجعان اے ہمارے بدراے رحمان کے نشان سب ہادیوں سے بڑھ کر ہادی اور سب بہادروں سے بڑھ کر بہادر.اني ارى في وجهك المتهلل شانا يفوق شمائل الانسان میں تیرے درخشاں چہرے میں ایک ایسی شان دیکھتا ہوں جو انسانی صفات سے بڑھ کر ہے.وقد اقتفاک اولو النهى وبصدقهم ودعوا تذكر معهد الاوطان دانشمندوں نے تیری پیروی کی اور اپنے صدق کی وجہ سے مالوف وطنوں کی یاد ترکر دی.قد اثروک وفارقوا احبابهم وتباعدوا من حلقة الاخوان انہوں نے تجھے مقدم کر لیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ دیا اور اپنے بھائیوں کے حلقہ سے دور ہو گئے.قد ودعوا اهواء هم ونفوسهم و تبرء وا من كل نشب فان انہوں نے اپنی خواہشوں اور نفسوں کو چھوڑ دیا اور سب طرح کے فانی مالوں سے بیزار ہو گئے.
57 ظهرت فتمزق عليهم بينات رسولهم الاهواء كالا وثان رسول کریم کی کھلی کھلی دلیلیں ان پر ظاہر ہوئیں اس لئے ان کی نفسانی خواہشیں بھی ان کے بتوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں.في وقت ترويق الليالي نوروا والله نجاهم من الطوفان وہ راتوں کی تاریکی کے وقت منور کئے گئے اور خدا نے ان کو طوفان سے بچالیا.قد هاضهم ظلم الاناس وضيمهم فتثبتوا بعناية المنان لوگوں کے ظلم و ستم نے ان کو چور چور کر دیا.مگر وہ خدائے منان کی مہربانی سے ثابت قدم رہے.: نهب اللثام نشو بهم وعقارهم فتهللوا بجواهر الفرقان اوباشوں نے ان کے مال جائداد میں لوٹ لیں اور اس کے عوض فرقان کے موتی پاکر ان کے چہرے چمک اٹھے.كسحوا بيوت نفوسهم وتبادروا لتمتع الايقان والايمان انہوں نے اپنے نفسوں کے گھروں کو خوب صاف کیا اور یقین اور ایمان کی دولت لینے کو آگے بڑھے.قاموا باقدام الرسول بغزوهم كالعاشق المشغوف في الميدان رسول کریم کی حملہ آوری کے ساتھ میدان میں لڑائی پر یوں ڈٹ گئے جیسے کوئی عاشق
58 ہوتا ہے.جاء وک منهو بين كالعريان فستر تهم بملا حف الايمان وہ تیرے حضور لوٹے ہوئے اور ننگے آئے جس پر تو نے ایمان کی چادریں ان کو پہنائیں.صادفتهم قوما كروث ذلة فجعلتهم كسبيكة العقيان تو نے گوبر کی طرح ان کو ایک ذلیل قوم پایا اور سونے کی ڈلی کی طرح بنا دیا.حتى انثنى بر كمثل حديقة عذب الموارد مثمر الاغصان یہاں تک کہ (عرب کا) جنگل باغ کی مانند ہو گیا جس کے چشمے شیریں اور درختوں کی شاخیں پھلدار ہیں.عادت بلاد العرب نحو نضارة بعد الوجى والمحل والخسران عرب کی زمین ویرانی اور خشکی اور تباہی کے بعد سر سبز ہو گئی.كان الحجاز مغازل الغزلان فجعلتهم فانين فى الرحمان ملک حجاز زنان آہو چشم کے عشقیہ مذاکروں کی جولانگاہ بنا ہوا تھا مگر تو نے ان کو رحمن میں فانی بنا دیا.شيئان كان القوم عميا فيهما حسو العقار وكثرة النسوان دو باتیں تھیں جن میں وہ اندھے ہو رہے تھے شراب کا پینا اور عورتوں کی کثرت
59 اما النساء فحرمت انكاحها زوجا له التحريم في القرآن عورتوں کی نسبت تو یوں فیصلہ ہوا کہ ان کے خاوندوں سے ان کا نکاح حرام کر دیا گیا جس کی حرمت قرآن میں آگئی.وجعلت دسكرة المدام مخربا وازلت حانتها من البلدان اور شراب خانوں کو تو نے ویران کر دیا اور شراب کی دکانیں اٹھوا دیں.كم شارب بالرشف دنا طافحا فجعلته في الدين كالنشوان بہتیرے تھے جو غم کے خم پی جاتے تھے جنہیں تو نے دین کے متوالے کر دیا.كم محدث مسطنطق العيدان قد صار منک محدث الرحمن بہتیرے بد کردار تھے سارنگیوں سے باتیں کرنے والے جو تیری طفیل رحمان کے ہم کلام ہو گئے.كم مستهام للرشوف تعشقا فجذ بتهم جذبا الى الى الفرقان بہتیرے تھے جو خوشبو دہن عورتوں کے عشق میں سرگرداں تھے تو انہیں فرقان کی طرف کھینچ لایا.ا حييت اموات القرون بجلوة ماذا یما تلک بهذا الشان تو نے صدیوں کے مردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا.کون ہے جو اس شان میں تیرے جیسا ہے.
60 تركوا الغبوق وبدلوا من ذوقه ذوق الدعاء بليلة الاحزان انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کی لذت کی بجائے راتوں میں دعا کی ازت اختیار کی.كانوا برنات المثاني قبلها قد احصروا في شحها كالعاني اس سے پہلے وہ دو تاروں کی سروں کی محبت میں قیدوں کی طرح گرفتار تھے.قد كان مرتعهم اغاني دائما طورا بغيد تارة بدنان ہمیشہ ان کی فرحت خوشی کا میدان راگ رنگ تھا کبھی نازک اندام عورتوں کے اسیر اور کبھی شراب کے گرفتار.ما كان فكر غير فكر غوانی او شرب راح او خیال جفان حسینہ عورتوں سے دل بستگی کے سوا اور کچھ فکر ہی نہ تھی.یا شراب نوشی یا سامان خور و نوش کا تصور تھا.كانوا كمشغوف الفساد بجهلهم راضين بالاوساخ والادران بے وقوفی سے فساد کے شیفتہ تھے.میل کچیل اور ناپاکی پر خوش تھے.عيبان كان شعارهم من جهلهم حمق الحمار و وثبة السرحان جہالت سے دو عیب تو ان کے شامل حال تھے.آڑ گدھے کی سی اور حملہ بھیڑیے کا.
61 فطلعت يا شمس الهدى نصحالهم لتضيئهم من وجهک النورانی اتنے میں اے آفتاب ہدایت تو ان کی خیر خواہی کے لئے طلوع کیا تا اپنے نورانی چہرہ سے انہیں منور کرے.ارسلت من رب كريم محسن فى الفتنة الصماء والطغيان تو خوفناک فتنے اور طغیان کے وقت خداوند کریم کی طرف سے بھیجا گیا.يا للفتى ما حسنه وجماله رياه يصبى القلب كالريحان واہ کیا ہی خوش شکل اور خوبصورت جوان ہے جس کی خوشبو دل کو ریحان کی طرح شیفتہ کر لیتی ہے.وج المهيمن المهيمن ظاهر في وجها و شئونه لمعن بهذا الشان اس کے چہرے سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے اور اس کی شان سے خدا کی شان نمایاں ہو گئی ہے.فلذا يحب و يستحق شغفا جماله به من زمرة الاخدان اسی لئے وہ محبوب ہے اور اس کا جمال اس لائق ہے کہ تمام دوستوں کو چھوڑ کر اسی کی جمال سے دل بستگی پیدا کی جائے.سجح كريم باذل خل التقى خرق وفاق طوائف الفتيان خوش خلق، کریم، سخی، عاشق تقوی ، کریم الطبع اور تمام ٹھیوں سے بڑھ کر سخی.
62 فاق الورى بكماله وجماله و جلا له و جنانه الريان اپنے کمال اور جمال اور جلال اور تازگی دل کے سبب سے تمام مخلوق سے بڑھا ہوا ہے.لا شک ان محمدا خير الورى ريق الكرام ونخبة الاعيان بے شک محمد مالی خیر الوریٰ ، برگزیدہ کرام اور چیدہ اعیان ہیں.تمت عليه صفات كل مزته ختمت به نعماء کل زمان ہر قسم کی فضیلت کی صفتیں آپ کے وجود میں کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ہر زمانہ کی نعمتیں آپ کی ذات پر ختم ہیں.والله ان کردا كر دافة وبه الوصول بسدة السلطان اللہ کی قسم آنحضرت شاہی دربار کے سب سے اعلیٰ افسر کی طرح ہیں اور آپ ہی کے ذریعہ سے دربار سلطانی میں رسائی ہو سکتی ہے.هو فخر کل مطهر و مقدس و به يباهي العسكر الروحاني آپ ہر مطہر اور مقدس کا فخر ہیں اور روحانی لشکر کو آپ ہی کے وجود پر ناز ہے.هو غير كل مقرب متقدم والفضل بالخيرات لا بزمان آپ کے ہر آگے بڑھنے والے مقرب سے افضل ہیں اور فضیلت کا مدار خوبیوں پر ہوتا ہے نہ کہ زمانہ پر.
63 والطل قد يبدو امام الوابل فالطل طل ليس كالتهتان اور ہلکا مینہ موسلادھار بارش سے پہلے آتا ہے لیکن ہلکے مینہ اور جھڑی میں بڑا فرق ہے.بطل وحيد لا تطيش سهامه ذ و مصميات موبق الشيطان آپ یگانہ پہلوان ہیں.آپ کے تیر کبھی خطا نہیں جاتے.آپ نشانہ کی رو سے تیروں کے مالک ہیں اور شیطان کے ہلاک کنندہ.هو جنة انى اری اثماره و قطوفه قد ذللت لجناني آپ ایک باغ ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے پھل اور خوشے میرے دل کے قریب کئے گئے.الفيته بحر الحقائق والهدى و رايئته کالدر في اللمعان میں نے آپ کو حقائق اور ہدایت کا سمندر پایا ہے اور چمک دمک میں موٹے موتیوں کی طرح پایا ہے.والله انى قد رايت جماله بعيون قاعدا جسمی بمكاني قسم بخدا میں نے آپ کا جمال دیدہ سر سے اپنے مکان میں بیٹھے دیکھا ہے.و رايت في ريعان عمری وجهه ثم النبي بيقظتى لا قانى میں نے آغاز جوانی میں آپ کا چہرہ دیکھا پھر آنحضرت بیداری میں بھی مجھ سے ملے.:
64 یا رب صل علی نبیک علی نبیک دائما فى هذه الدنيا ثان و بعث اے میرے رب اپنے اس نبی پر ہمیشہ درود بھیج اس دنیا میں بھی اور دوسرے بعثت میں بھی.يفری سهامک قلب كل محارب ويشج عزمک هامة الثعبان تیرے تیر ہر جنگ جو کے دل کو چھیدتے ہیں.اور تیرا عزم اثر دہاؤں کے سر کو کچلتہ ہے.لله درک یا امام العالم انت السبوق وسید الشجعان آفرین تجھے اے امام جہان ! تو سب سے بڑھا ہوا اور شجاعوں کا سردار ہے.-۲۱ سرکار صد را محققین " المتكلمين رحمة الاسلام والمسلمین حضرت علامہ محمد حسین صاحب" ۲۹۶ بی سٹیلائٹ ٹاؤن سرگودھا آپ کے قلم سے فرقہ امامیہ کے "رئیس الفقهاء المحد ثین" شیخ ابو جعفر محمد بن علی بابویہ القمی کی شرح القصائد کی روشنی میں "احسن الفوائد " کے نام سے ایک مبسوط کتاب اردو میں چھپ چکی ہے جسے العزیز پر نٹنگ پریس بلاک نمبرے سرگودھا نے شائع کیا ہے.”حضرت علامہ صاحب نے کتاب کے صفحہ ۴۶۹ میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے درج ذیل دو شعر کچھ تصرف کے ساتھ زیب قرطاس کئے ہیں:.کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہر گز اگر لولوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے
65 خدا کے قول سے قول بشر کیونکہ برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۱۸۲ مطبوعہ ۱۸۸۲ء) -۲۲ جناب مولوی محمد مسلم صاحب سابق امام جامع مسجد ائل پور (فیصل آباد) قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل سیاح کے قلم سے اخبار الفضل قادیان مورخہ ۱۴ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۳ میں حسب ذیل واقعہ سپر د اشاعت ہوا:." پچھلے دنوں مجھے ضلع لائل پور میں تبلیغی دورہ کرتے ہوئے مولوی محمد مسلم صاحب دیو بندی امام جامعہ مسجد لائل پور کا علم ہوا.انہوں نے ایک کتاب پیر کامل شائع کر کے لوگوں کو تحریک کی ہے کہ پیر کامل کی تلاش کر کے بیعت کرنی چاہئے ورنہ خدا کی شناخت حاصل نہیں ہو سکتی اور انسان کامل کی شناخت کے معیار جو بیان کئے ہیں ان میں بیشتر اور نمایاں حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس فارسی نظم کا ہے جو کہ حضور نے اپنی کتاب " تریاق القلوب" (صفحہ ۱ تا ۸ مطبوعہ ۱۹۰۲ء) میں تحریر فرمائی ہے اور در کمین فارسی میں بھی موجود ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے:.ہماں زنوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما باشد ترجمہ: انسانوں میں وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے.اس نظم کے تیرہ اشعار لکھ کر مولوی صاحب نے یہ استدلال کیا ہے کہ پیر کامل میں یہ یہ صفات ہونی ضروری ہیں.مگر اس نظم کے متعلق مولوی صاحب نے اس کتاب "
66 کے صفحہ گیارہ پر یہ لکھ کر کہ یہ نظم غوث محمد گوالیاری نے جواہر خمسہ 1ء میں تحریر فرمائی کذب بیانی کے ذریعہ حق کو چھپا کر پبلک کو مغالطہ میں ڈالا ہے.زبانی گفتگو کرنے پر مولوی صاحب نے کہا یہ نظم مرزا صاحب کی نہیں بلکہ جواھر خمسہ کی ہے.گو ہم نے جواہر خمسہ بھی مہیا کر کے مولوی صاحب کے ہاتھ میں دی کہ اس سے حوالہ مذکور نکال کر دکھائیں.مگر مولوی صاحب وہ نظم نکال نہ سکے لیکن باوجود اس کے انہوں نے اپنی خیانت کا اعتراف نہ کیا.اب میں بذریعہ اخبار ان سے مطالبہ کرتا ہوں که یا تو جواهر خمسہ سے یہ نظم دکھائیں یا اقرار کریں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم اپنی کتاب میں درج کی ہے." جناب مولوی محمد مسلم صاحب نے اس مطالبہ کے جواب میں ہمیشہ کے لئے چپ سادھ لی.-۲۳ " مولانا عبد الرؤف رحمانی صاحب ناظم اعلیٰ جامعہ سراج العلوم السلفیہ.جھنڈے نگر.نیپال آپ اپنی سوانح پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:.جس سال میں....آٹھویں جماعت پڑھ کر فارغ ہو رہا تھا تو ختم نبوت کے فلسفہ پر سالانہ انجمن کے موقعہ پر ہم کو اور ہمارے کچھ رفقاء کو خطاب کرنے کے لئے کہا گیا.صدر انجمن مولانا محمد جونا گڑھی مرحوم کے حکم کے مطابق مجھے صرف پانچ منٹ ہی کا موقع ملا.دار الحدیث رحمانیہ کا ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا.جب میں نے تقریر کرنا شروع کیا تو پانچ منٹ کی تقریر میں تین مرتبہ لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور تقریر کے خاتمہ پر میں له تألیف گیارھویں صدی ہجری.اصل کتاب فارسی میں ہے جس کا اردو ترجمہ مرزا محمد بیگ نقشبندی دہلوی نے کیا ہے اور دارالاشاعت کراچی نمبرا کے زیر اہتمام مولوی محمد رضی عثمانی نے ۱۸ جنوری ۱۹۷۶ء کو شائع کر دیا ہے.
67 نے جب یہ دو شعر پڑھے.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے تو پورا مجمع مسحور ہو گیا اور مولانا احمد اللہ صاحب بھی بہت متاثر ہوئے اور رو پڑے.جب میں سٹیج سے نیچے آیا تو مولانا نے مجھ سے فرمایا بیٹے تم نے ہم کو رلا دیا.میری تقریروں کو سن کر حضرت الاستاذ علامہ عبید اللہ صاحب رحمانی مبارکپوری شیخ الحدیث مد ظلہ العالی نے مجھے خطیب الہند اور خطیب الاسلام کے لقب سے نوازا." (ہفت روزہ " الاعتصام " لاہور ۸ جولائی ۱۹۹۴ء صفحہ ۱۷-۱۸) "مولانا" صاحب نے فلسفہ ختم نبوت کو واضح کرنے کیلئے جو دو اشعار پڑھے اور پورے مجمع بلکہ اپنے قابل احترام اساتذہ سے داد پائی وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عشق خاتم الانبیاء میں ڈوبی ہوئی ایک مشہور عالم نظم سے ماخوذ تھے جو آپ کی بے مثال تصنیف "آئینہ کمالات اسلام" کے صفحہ ۲۲۴ میں موجود ہے اور ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی." -۲۴.میرحسان الحیدری سهروردی مدیر اعلیٰ رساله آستانه ذکریا ملتان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے "آئینہ کمالات اسلام" کے آخر میں اپنے فارسی منظوم کلام میں دنیا بھر کے دشمنان اسلام کو نشان نمائی کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا :.بیا بنگر زغلمان محمد کرامت گرچه بی نام و نشان است یعنی اگر چه کرامت اب مفقود ہے مگر تو آ اور اسے محمد ملا کے غلاموں میں دیکھ
68 لا یہ پر شوکت شعر جناب میرحسان الحیدری سهروردی مدیر اعلیٰ "آستانہ زکریا" نے رسالہ کی جنوری فروری ۱۹۶۱ء کی اشاعت کے صفحہ ۵۴ پر شائع کیا.مگر یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی کہ یہ کسی عاشق رسول عربی کے رشحات قلم کا فیضان ہے.-۲۵ محمد اقبال جاوید صاحب چیف ایڈیٹر ”ڈیلی کامرس فیصل آباد - حضرت بانی احمدیت بے مثال عاشق قرآن تھے.آپ کے فرزند موعود سیدنا محمود نے ۲۷ جون ۱۸۹۷ء کو قرآن مجید ختم کیا تو آپ نے ایک خاص تقریب کا اہتمام فرمایا اور منظوم آمین کہی جو بہت سی پر معارف دعاؤں سے لبریز اور آپ کے قلبی جذبات کی آئینہ دار ہے.پوری نظم معرفت الہی کے پر کیف جذب اور ذوق و شوق کا ایک مثالی اور نادر نمونہ ہے اور "محمود کی آمین" ہی کے نام سے شائع شدہ ہے اور ہر ایک سالک کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے.درج ذیل چند اشعار جو جناب محمد اقبال جاوید نے اپنے رسالہ ”ڈیلی کامرس " (مئی ۱۹۷۶ء صفحہ ۴) میں ایک صاحب طارق پرویز چوہدری کی شادی کے موقع پر شائع کئے ، اسی آمین سے منتخب کئے گئے ہیں:.کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت روز کر مبارک سبحان من برانی شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو جاں ان پر پر زنور رکھیو دل پر سرور رکھیو میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو روز کر مبارک سبحان من برانی
69 -۲۶ ریٹائر ڈ کیپٹن محمد بخش صاحب حنفی جالندهری سابق یکرٹری ڈسٹرکٹ آرٹڈ سروسز بورڈ فیصل آباد مقیم کینیڈا جنوری ۱۹۸۲ء میں آپ کینیڈا کے شہر ونڈسر (صوبہ اونٹاریو) میں مقیم تھے.انہوں دنوں آپ نے ایک کتابچہ اسلام اور ایمان پر مختصر گفتگو کے زیر عنوان لکھا " جسے صوفی برکت علی صاحب دارالاحسان فیصل آباد نے نثار آرٹ پریس سے چھپوایا اور مولوی محمد شوق صاحب خطیب جامع مسجد نور پارک عبداللہ پورہ فیصل آباد نے اس سلسلہ میں ان کی خاص مدد کی.یہ کتاب نہ صرف پاکستان بلکہ غیر از جماعت مسلمانوں کی طرف سے کینیڈا میں بھی وسیع پیمانہ پر تقسیم کی گئی.موصوف نے ابتدائیہ " میں لکھا کہ :- " یہ کتابچہ میں نے کئی اسلامی کتب پڑھنے کے بعد مرتب کیا ہے." (صفحہ ۲) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل اشعار جو اس کتابچہ کے صفحہ ۸۸ پر معمولی تصرف سے شائع کئے گئے اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آپ نے اس کی تیاری میں جن اسلامی کتب کا مطالعہ کیا ان میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر بھی یقیناً شامل تھا.اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فتا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے ہر
70 ۲۷.ابوالکلیم "مولانا" ولی الدین فاضل " مبلغ ختم نبوت" حیدر آباد دکن بھارت ہفت روزہ "ختم نبوت" کراچی (مورخه ۲۵ تا ۳۱ مارچ ۱۹۸۸ء) کے صفحہ ۱۶ تا ۱۸ و ۳۰ میں حیدر آباد دکن کے " مبلغ ختم نبوت" ولی الدین فاضل صاحب کی ایک تحریر ختم نبوت اور قادیانی وسوسے " کے زیر عنوان شامل اشاعت ہوئی ساری تحریر "رد قادیانیت" میں تھی مگر اس کا اختتام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے درج ذیل شعر پر ہوا.بر نفس پاکش ہر کمال ختم شد لا جرم شد ختم پیغمبرے ہر (صفحه ۳۰ کالم نمبر ۳) یعنی آنحضرت میں کے پاک نفس پر ہر کمال ختم ہو گیا اسی طرح حضور پر پیغمبروں کا بھی خاتمہ ہو گیا.اور یہی خاتمیت محمدی کی عارفانہ تفسیر ہے جیسا کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی ارشاد فرماتے ہیں:.بهر این خاتم شد ست او که بجود مثل او نے بود و نے خواهند بود نکہ 1 صنعت برد استاد نے تو گوئی ختم صنعت دست تو است پر مثنوی کے مشہور فاضل مترجم جناب قاضی سجاد حسین صاحب دہلوی کے الفاظ میں ان اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ :.اسی لئے وہ خاتم بنے کیونکہ سخاوت میں ان جیسا نہ تھا اور نہ ہوں گے.جب کوئی استاد کاریگری میں بازی لے جاتا ہے کیا تو نہیں کہتا کہ کاریگری اس پر ختم ہے." ( مثنوی مولوی معنوی دفتر ششم صفحه ۳۰ نا شر الفیصل ناشران و تاجران کتب
71 اردو بازار لاہور.جنوری ۱۹۷۸ء) -۲۸ ملک غلام مصطفی ظهیر صاحب جامعہ علوم اثر یہ جہلم پاکستانی ماہنامہ "حرمین" مسلک اھلحدیث کا علمبردار اور جامعہ علوم اثریہ جہلم کا ترجمان ہے جس کے مدیر جناب اکرام اللہ ساجد گیلانی ہیں اور اس کی مجلس ادارت میں "مولانا" محمد شمشاد سلفی "مولانا" محمد حیات اور حافظ احمد حقیقی جسے اھلحدیث علماء شامل ہیں.ماہنامہ کے شمارہ اکتوبر ۱۹۹۶ء (صفحہ ۳۱ تا ۳۶) میں ایک مضمون ملک غلام مصطفیٰ ظہیر صاحب کے قلم سے سپرد اشاعت ہوا ہے.جس کا آخری صفحہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حسب ذیل حقیقت افروز شعر سے مزین ہے:.صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار براہین احمدیہ جلد پنجم صفحه ۹۹ طبع اول تالیف ۱۹۰۵ء)
72 باب دوم کلام منشور سے اکتساب فیض اس باب میں ان اہل قلم بزرگوں اور مقتدر ہستیوں کا تذکرہ مقصود ہے.جنہوں نے اپنی نگارشات میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تصنیفات یا ملفوظات کے بعض چیدہ چیدہ حصوں کو لفظاً لفظاً سپرد قلم فرمایا ہے مگر آپ کا ذکر تک نہیں کیا اور یوں اس چشمہ عرفان سے غیر شعوری طور پر ایک عالم کو سرسبزو شاداب کرنے کا موقع فراہم کر دیا.(ا) "مولانا" منشی رحیم بخش صاحب ایڈیٹر رسالہ انوار الاسلام" سیالکوٹ ۱۸۹۸ء میں مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دینے کے لئے سیالکوٹ سے منشی کریم بخش صاحب نے ایک پندرہ روزہ مذہبی رسالہ انوار الاسلام" کے نام سے جاری کیا.شمالی ہندوستان میں یہ رسالہ برسوں تک اسلام اور مسلمانان ہند کی گرانقدر و دینی خدمات بجا لاتا رہا.جناب سید غلام عباس صاحب جیلانی قادری، حنفی سجادہ نشین مکڈ ضلع اٹک نے بیان دیا کہ "رسالہ انوار الاسلام" شہر سیالکوٹ موجودہ مسلمانان پنجاب کو روحانی ہر طرح سے امداد بامداد اللہ پوری مدد دے رہا تبلیغی ہے".(رساله مذکوره جلد ۱۰ نمبر (۳) اس طرح ٤٠٠٠ احمد حسین صاحب ریاست راجپوتانہ) نے اس رسالہ کی i-
73 نسبت اس رائے کا اظہار فرمایا کہ اس صدی میں رسالہ انوار الاسلام ایک مجدد کا کام دے رہا ہے بلکہ جس کام کے واسطے انبیاء علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے ، اس کی انجام دی میں سرگرم عمل ہے." انوار الاسلام ۱۵ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه (۳۱) منشی کریم بخش صاحب کے بعد مولانا منشی رحیم بخش صاحب نے رسالہ کی ادارت سنبھالی.آپ نے رسالہ کی جلدے نمبر کے صفحات اا سے ۱۶ میں ایک ناصح کے چند کلمات" کے عنوان سے درج ذیل مضمون سپرد اشاعت فرمایا.یہ مضمون حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک تقریر کی ہو بہو نقل ہے جو آپ نے ۹ اگست ۱۹۰۵ء کو ارشاد فرمائی اور ہفت روزہ الحکم قادیان مورخہ ۷ اگست ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی.ایک ناصح کے چند کلمات ”سب سے بڑی بات تو دین ہے جس کو حاصل کر کے انسان حقیقی اور روحانی راحت کو حاصل کرتا ہے.دنیا کی زندگی تو بہر حال گذر جاتی ہے.شب تنور گذشت و شب سمور گذشت یعنی راحت اور رنج دونوں گزر جاتے ہیں.لیکن دین ایک ایسی چیز ہے کہ اس پر چل کر انسان خدا کو راضی کر لیتا ہے.یقیناً جانو کہ اللہ تعالٰی اس وقت تک راضی نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص اس تک پہنچ سکتا ہے جب تک صراط مستقیم پر نہ چلے.وہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالی کی ذات صفات کو شناخت کرے اور ان راہوں اور ہدایتوں پر عمل در آمد کرے جو اس کی مرضی اور منشاء کے مواقع ہیں.جب یہ ضروری بات ہے تو انسان کو چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرے اور یہ کچھ مشکل امر نہیں.دیکھو انسان پانچ سات روپیہ کی خاطر جو دنیا کی ادنیٰ ترین خواہش ہے.اپنا سر کٹا لیتا ہے پھر جب اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا خیال ہو اور اسے راضی کرنا چاہئے تو کیا مشکل ہے.
74 انسان حقیقی دین سے کیوں محروم رہ جاتا ہے.اس کا بڑا باعث ہے خویش و اقارب دوستوں اور قوم کے تعلقات کو ایسا مضبوط کر لیتا ہے کہ وہ ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا تو ایسی صورت میں ناممکن ہے کہ یہ نجات کا دروازہ اس پر کھل سکے.ایک قسم کی نامردی اور کمزوری ہے.لیکن یہ شہیدوں اور مردوں کا کام ہے کہ ان تعلقات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرے اور خدا تعالی کی طرف قدم اوٹھائے.بعض کمزور فطرت لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ خدا تعالی کی عبادت ہی کرنی ہے خواہ کسی مذہب میں ہوں.مگر وہ نہیں جانتے کہ آج جس قدر مذاہب موجود ہیں ان میں کوئی بھی مذہب بجز اسلام کے ایسا نہیں جو اعتقادی اور عملی غلطیوں سے مبرا ہو.وہ سچا اور زندہ خدا جس کی طرف رجوع کر کے انسان کو حقیقی راحت اور آرام ملتا ہے.جس کے ساتھ تعلق پیدا کر کے انسان اپنی گناہ آلودہ زندگی سے نجات پاتا ہے.وہ اسلام کے سوامل نہیں سکتا.یہی پہلا زینہ ہر قسم کی روحانی ترقیوں کا ہے.اگر اس کی توفیق مجاوے تو پھر خدا و سکا اور وہ خدا کا ہو جاتا ہے.یہ سچ ہے کہ جب ایک شخص محض اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے کسی قسم کے نفسانی اغراض کے بغیر ایک قوم سے قطع تعلق کرتا ہے اور خدا ہی کو راضی کرنے کے لئے قوم میں داخل ہوتا ہے.تو ان تعلقات قومی کے توڑنے میں سخت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے.مگر یہ بات خدا تعالی کے نزدیک بڑی قابل قدر ہے اور یہ ایک شہادت ہے.جس کا بہت بڑا اجر اللہ تعالیٰ کے حضور ملتا ہے.کیونکہ اللہ تعالی تو فرماتا ہے.من يعمل مثقال ذره خیرایره یعنی جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرتا ہے اور خدا کی رضا کے لئے ایک موت اپنے لئے روا رکھتا ہے.اسے اجر کیوں نہ ملے ؟ جو شخص خدا تعالی کے لئے اپنے تعلقات کو توڑتا ہے وہ فی الحقیقت ایک موت اختیار کرتا ہے.کیونکہ اصل موت بھی ایک قسم کا قطع تعلق ہی ہے.یعنی روح کا جسم سے قطع تعلق ہوتا ہے خدا تعالی کے لئے ان تعلقات کو توڑنا جو اپنی قوم اور خویش و اقارب سے ہوتے ہیں خدا کے نزدیک بہت بڑی بات ہے.بسا اوقات یہ روک بڑی زبر دست روک انسان کی طرف آنے کے لئے ہو جاتی ہے.وہ دیکھتا ہے کہ دوستوں کا +
75 ایک گروہ ہے.ماں، باپ، بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار ہیں ان کی محبت اور تعلقات نے اس کے رگ و ریشہ میں ایسی سرایت کی ہوئی ہے کہ وہ اسلام کی صداقت اور سچائی کو تسلیم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بجز اس کے نجات نہیں.لیکن ان تعلقات کی بنا پر اقرار کرتا ہے کہ یہ راہ جس میں میں چلتا ہوں ، خطرناک اور گندی راہ ہے.مگر کیا کریں جہنم میں پڑنا منظور ان تعلقات قومی کو کیونکر چھوڑ دیں.ایسے لوگ نہیں جانتے کہ یہ صرف زبان سے کہنا تو آسان ہے کہ جہنم میں پڑنا منظور.اگر انہیں اس دکھ درد کی کیفیت معلوم ہو تو پتہ لگے.ایک آنکھ میں ذرا درد ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس قدر تکلیف ہے پھر جنم تو وہ جہنم ہے جس کی بابت قرآن شریف میں آیا ہے.لا يموت فيها و لا یحی ایسے لوگ سخت غلطی پر ہیں.اس کا تو فیصلہ آسان ہے دنیا میں دیکھ لے کہ کیا وہ دنیا کی بلاؤں پر صبر کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں تو پھر یہ کیونکر سمجھ لیا کہ عذاب جہنم کو برداشت کر لیں گے.بعض لوگ تو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر وہ لوگ تو اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ جہنم کا عذاب بہت ہی خطرناک ہے اور یہی یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی نے صاف طور پر فرما دیا ہے.ومن يبتغ غير الاسلام دینا الا یہ.یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواستگار ہو وہ آخر کار ٹوٹے میں رہے گا.سالة رداء جس طرح پر انسان کا ایک حلیہ ہوتا ہے اور وہ اسی سے شناخت کیا جاتا ہے اسی طرح پر اللہ تعالی کی ذات اور اس کے صفات بھی ایک طرح پر واقعہ ہوئے ہیں.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ مختلف مذاہب والے خدا تعالیٰ کی جو شکل اور صفات پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب درست ہوں.عیسائی ، ہندو ، چینی ہر ایک جدا جد ا صفات پیش کرتا ہے.پھر کون عقل مند یہ مان لے گا کہ ہر ایک اپنے اپنے بیان میں سچا ہے.ماسوائے اس کے سچائی کے خود انوار اور برکات ہوتے ہیں.یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ وہ نشانات اور انوار و برکات کس خدا کو مان کر ملتے ہیں اور کس دین میں وہ پائے جاتے ہیں.ایک شخص ایک نسخہ کو استعمال کرتا ہے.اگر اس نسخہ میں کوئی خوبی
76 اور اثر ہے تو صاف ظاہر ہے کہ چند روز کے استعمال کے بعد ہی اس کی مفید تاثیریں معلوم ہونے لگیں گی لیکن اگر اس میں کوئی خوبی اور تاثیر نہیں ہے تو خواہ ساری عمر اسے استعمال کرتے جاؤ کچھ فائدہ نہیں ہو گا.اس معیار پر اسلام اور دوسرے مذاہب کی سچائی اور حقیقت کا بہت جلد پتہ لگ جاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی تاثیر اور انوار و برکات کے لئے کسی گذشتہ قصہ کا حوالہ نہیں دیتا اور نہ صرف آئندہ کے وعدوں ہی پر رکھتا ہے.بلکہ اس کے پھل اور آثار ہر وقت اور ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں اور اس دنیا میں ایک سچا مسلمان ان ثمرات کو کھا لیتا ہے.بتلاؤ ایسے مذہب انسان کو کیا امید دلا سکتے ہیں جن میں تو بہ تک منظور نہیں.ایک گناہ کر کے جب تک کروڑوں جو نیں نصیب نہ ہو لیں خدا سے صلح نہیں ہو سکتی.وہاں انسان کیا پائے گا.اس کی روح کو راحت اور تسلی کیونکر مل سکے گی.مذہب کی سچائی کی بڑی علامت یہ ہے کہ اس راہ سے دور افتادہ خدا کے نزدیک آجاتا ہے.جیسے جیسے وہ نیک عمل کرتا جائے اسی قدر تاریکی دور ہو کر معرفت اور روشنی آتی جاوے اور انسان خود محسوس کرے کہ وہ نجات کی ایک یقینی راہ پر جا رہا ہے.اس کی ہدایتیں ایسی صاف اور واضح ہوں کہ انسان ان کے ماننے اور اس پر عمل کرنے میں پورے طور پر تیار ہوں.بھلا یہ بھی کوئی تعلیم اور اصول ہے کہ ذرہ ذرہ کو خدا قرار دے دیا جاوے.خدا ازلی ابدی ہے اسی طرح پر ذات عالم اور ارواح کو ازلی ابدی تسلیم کیا جاوے.اگر ایسا کوئی خدا ہے کہ جس نے ایک ذرہ بھی کسی قسم کا پیدا نہیں کیا تو اس پر بھروسہ کیسا.اس کا ہم پر حق کیا ہے جو عبادت کریں.کیونکر عبادت کے لئے حق ہی تو ہونا چاہئے.جب کوئی حق ہی نہ ہو تو ایک ذرہ ذرہ اسے کہہ سکتا ہے.کہ تیرا ہم پر کیا حق ہے؟ اس عقیدہ کو رکھ کر انسان کس طرح پر خدا پرست ہو سکتا ہے.بلکہ میرے نزدیک خدا کی ہستی پر دلیل ہی قائم نہیں ہو سکتی.اگر آریوں سے کوئی دہریہ یہ پوچھے کہ پر میٹر کی
77 اور پر ہستی کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب وہ کیا دے سکتے ہیں؟ کیونکہ صانع کو مصنوعات سے شناخت کرتے ہیں جب کہ مصنوعات ہی کا وجود نہیں تو صانع کا وجود کہاں سے آیا.جیو کرتی کو جو خود بخود تسلیم کرتے ہیں.تو پھر ان کے جوڑنے جاڑنے کے لئے کیا حاجت ہو سکتی ہے.اس طرح پر کوئی دلیل اللہ تعالی کی ہستی پر ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور جب تک اس کی ہستی پر کوئی دلیل نہیں کس طرح کوئی مان لے کہ وہ ہے ماسوائے اس کے ان لوگوں کا یہ بھی اصول نہیں کہ خدا رحم کرنے والا ہے.ہر شخص کی اس ہستی پر توجہ ہوتی ہے.جسے رحیم کریم اور فیاض تسلیم کرے لیکن انہوں نے یہ مانا ہے کہ بغیر کرموں کے پھل کے اور کچھ عطا ہی نہیں کر سکتا.اگر کرموں پر ہی سارا مدار ہے تو اس خدا پر کیا بھروسہ اور کیا امید جس کا ذرہ بھر احسان نہیں ہے.یہ تمام امور ہیں.جب انسان ان کو بنظر غور دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ سوائے اسلام کے دوسروں سے بچی ہدایتیں نہیں ملتی ہیں، ماسوائے اس کے ایک اور بڑی بات قابل غور ہے کہ اسلام میں بہت بڑی بھاری خاصیت یہ ہے کہ انسان جس مطلب کے لئے بنایا گیا ہے وہ اسلام کے سوا حاصل نہیں ہو سکتا وہ کیا ہے ؟ یہ کہ خدا کی محبت بڑھے اور اس نا رفت ترقی کرے.جس سے وہ ایک کامل شوق و ذوق کے ساتھ اس کی عبادت کرے لیکن یہ مطلب کبھی پورا نہیں ہو سکتا جب تک تعلیم اور ہدایت کامل نہ ہو اور پھر اس تعلیم اور ہدایت پر عمل کرنے کے جو نتائج اور ثمرات ہیں ان کا نمونہ موجود نہ ہو جس کو دیکھ کر معلوم ہو کہ خدا قادر خدا ہے.یہ ساری باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب انسان ان کا پر غور مطالعہ کرتا ہے.عظمند اور سعید کے دل میں تو اللہ تعالی خود ہی ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے اور وہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں اسی طرح امتیاز کر لیتا ہے.جس طرح پر تاریکی اور نور میں ہے.لیکن بعض شخص ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل پر ایک مہر ہوتی ہے.وہ حقیقت تک پہنچنے کی سعی نہیں کرتے بلکہ بیہودہ اعتراض کرتے ہیں.سعادت خدا تعالٰی کی عطا اور بخشش ہے.کوئی شخص جب تک روح حق اور راستی سے مناسبت نہیں رکھتا '
78 اس طرف آ نہیں سکتا اور یہ خدا کے فضل پر موقوف ہے.اگر کوئی کہے کہ اعمال سے شناخت ہو سکتا ہے کہ کونسا مذ ہب سچا ہے تو وہ لوگ جو راہزنی اور قزاقی کرتے ہیں ان سے پوچھا جاوے تو وہ اسے مکروہ خیال نہیں کرتے بلکہ ایک شکار سمجھتے ہیں.اسی طرح اور لوگ جو فسق و فجور میں مبتلا ہیں وہ برا نہیں سمجھتے.یہ کوئی بات نہیں ہے.اصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض کے برکات اور انوار ساتھ ہوں.غرض اول یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالٰی کے متعلق غور کرے اور سمجھے.سب سے اول اسی کا فرض ہے اور یہ سمجھ ملنا اس کے فضل پر موقوف ہے.پھر دعا کرے اور نیک صحبت میں رہے اور یہ بھی خیال کرے کہ عمر کا کوئی اعتبار نہیں.بعض لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ فلاں وقت اس نیکی کو کرلیں گے مگر وہ اس انتظار ہی میں رہتے ہیں اور موت آجاتی ہے.اس لئے نیکی کے اختیار کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے." (انوار الاسلام جلد نمبر ا ا صفحہ ۱۱.۱۲) -۲- مولانا عبد الحمید خاں ایڈیٹر رسالہ ”مولوی " دہلی "مولانا" عبد الحمید خال مدیر صفر ۱۳۶۵ (مطابق جنوری (۱۹۴۶ء میں شان مصطفی میں یا پر ایک پر معارف مضمون شائع کیا جو براہین احمدیہ جلد ۴ صفحہ ۱۷۷.۱۸۰ سے معمولی تصرف کے ساتھ لفظاً لفظاً نقل ہوا تھا.رسالہ ” مولوی" میں شائع شدہ مضمون درج ذیل کیا جاتا ہے.عکس کتاب کے صفحات R60194 ملاحظہ کریں مسئول رسالہ ”مولوی" نے اس رسالہ کے شمارہ بین فیضان محمدی کی مثال اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اس کے نور کی مثال مانند طاق کے ہے کہ اس میں چراغ ہو اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو.قندیل ایسی ہو کہ گویا ایک تارا چمکتا ہے.روشن کیا جاتا ہے وہ چراغ درخت مبارک زیتون سے.وہ نہ مشرق کی طرف ہے اور ،
79 مغرب کی طرف نزدیک ہے.اس کا تیل روشن ہو جائے اگر چہ اس کو آگ نہ لگے.روشنی کے اوپر روشنی.اللہ تعالٰی اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے." خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی ارواح و اجسام اور ظاہر و باطن میں نظر آتا ہے خواہ وہ ذاتی ہو یا عرضی اور خواہ ذہنی ہو یا خارجی خالق ارض و سماوی کا عطیہ ہے اور اسی کا فیضان ہے یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت رب العالمین کا فیضان ہر چیز پر محیط ہے کوئی جگہ اور کوئی وجود اس کے فیض سے خالی اور محروم نہیں.وہ تمام فیوض کا مبداء اور تمام انوار کی علت ہے.تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.تمام برکات کا مخزن ہے.اللہ ہی ہے جس نے ہر چیز کو ظلمت عدم سے نکال کر وجود کی روشنی عطا کی.کائنات ارض و سماوی میں کوئی وجود ایسا نہیں جو ذات باری تعالٰی سے مستفیض نہ ہو.یمی فیضان عام ہے جس کو اللہ نور السموات والارض سے تعبیر کیا گیا ہے.اس فیض عام کو بیان فرمانے کے بعد بغرض اظہار کیفیت فیضان خاص، نور حضرت خاص حضرت خاتم الانبیا ملی و دیوی کی مثال کو بیان فرمایا.نور محمدی کو مثال میں اس لئے بیان فرمایا کہ اس دقیقہ نازک کو سمجھنے میں کوئی ابہام اور دقت باقی نہ رہے.علم و بیان و معانی کا اصول ہے کہ معانی معقولہ کو صور محسوسہ میں بیان کرنے سے ہر ایک نجی بھی دقیق امر کو بخوبی سمجھ جاتا ہے.فرمایا کہ نبوت محمدی پر ایمان لانے والو! اگر نور محمدی یعنی فیضان محمدی کے شرف و کمال کو سمجھنا ہے تو اس مثال سے سمجھو تاکہ تم اپنی زندگیوں اور عقائد و اعمال کی تاریکیوں کو دور کر کے اپنے آپ کو نور ایمان سے منور کر سکو."
80 ایک طاق میں چراغ طلاق سے مراد رسول اکرم علی و و و و ویلی کا سینہ مبارک اور چراغ سے مراد وحی الہی ہے.پھر فرمایا کہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں ہے جو نہایت مصفی ہے یعنی نہایت پاک و مقدس دل اپنی اصل فطرت میں صاف و شفاف شیشہ کی طرح ہر قسم کی کدورتوں سے اور ہر نوع کی کثافتوں سے منزہ و مطہر ہے.مطلب یہ کہ آپ کا سینہ صافی تعلقات ماسوی بکلی پاک ہے اس میں غیر اللہ کی محبت خوف و عظمت و جلال کا مطلق گذر نہیں.یہی وہ سینہ ہے جس سے دنیا میں علوم و سعادت کے چشمے پھوٹیں گے اور فکری و عملی گمراہیوں کے خس و خاشاک کو بہالے جائیں گے.ذہنی اور دلی امراض کا آپ قلع قمع کریں گے اور انسانوں کے دلوں کو صاف کر کے ان میں الا اللہ کے نقوش ثبت کر اللہ سے دیں گے.شیشہ کی صفائی یا سینہ محمدی کی آب و تاب کو فرمایا کہ گویا آسمانی ہدایت کا ایک روشن ستارہ ہے یعنی آپ کا دل ایسا منور اور درخشندہ ہے کہ اس کی اندرونی درخشندگی بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے.چراغ زیتون کے روغن سے روشن کیا گیا ہے ا فرمایا.وہ چراغ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے.شجرہ مبارکہ سے مراد وجود محمدی ہے جو تناسب اعضاء جامعیت و کمال اور انواع و اقسام کی برکتوں اور دل کشیوں کا مجموعہ ہے.جس کا فیض کسی سمت کسی زبان اور کسی کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام انسانوں ، تمام ملکوں اور تمام زمانوں کے لئے عام اور جاری ہے جو قیامت تک کبھی منقطع نہ ہو گا.آپ پر ایمان لانے والے اپنی بے بصیرتی ، کور ذوقی، بد قسمتی اور محرومی سے پست و ذلیل ہو جائیں تو ہو جائیں مگر آپ کا اسوہ حسنہ بدستور افق عالم پر ضیا ریز رہے گا اور مسلمانوں کو ترقی و کامیابی اور فلاح و نجات کی طرف بلاتا رہے گا.
81 آپ نے اپنی علم و عقل کی تابناکی سے امت کو وہ شریعت غراء دی ہے جس کے تمام شریعتیں ماند پڑ گئیں.آپ ہی کی شریعت کاملہ ہے جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کر دیا اور اپنوں بیگانوں کے سامنے روحانی و مادی ترقی کے سب اصول و قوانین رکھ دیئے.آپ کی شریعت کی بنیاد نیکی اور عدل پر ہے.آپ کی بعثت سے تمام روئے زمین کے لئے عام خیر و برکت کا دروازہ کھل گیا اور تورات کی پیش گوئی پوری ہوئی.اور یہ وہ برکت ہے جو موسی مرد خدا نے اپنے مرنے سے پہلے اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک ނ آتشی شریعت ان کے لئے تھی.(استثناء باب (۳۳) صلی شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی یعنی محمد رسول اللہ ا ل ا ل ل ل وی کی لائی ہوئی تعلیم میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط.پہلی تعلیمات اور شریعتوں سے اہم سابقہ افراط و تفریط ہی کی وجہ سے محروم ہو ئیں اور میدان ضلالت میں جا نکلیں.نیز اس سے یہ بھی مراد ہے کہ طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط بلکہ بدرجہ کمال اعتدال و توسط پر ہے.یہ جو فرمایا کہ اس شجر کے روغن سے چراغ وحی روشن کیا گیا ہے، سو اس میں روغن سے مراد عقل لطیف ہے یعنی آنحضرت مال کے جمیع اخلاق فاضلہ اور کمالات صوری و معنوی آپ کی عقل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں.اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضان وحی لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضور صلعم سے پہلے جتنے بھی نبی ہوئے ان پر ان کی فطرت کے مطابق وحی کا نزول ہوتا رہا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال و غضب تھا اس لئے آپ پر شریعت بھی جلالی ہی نازل ہوئی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں حلم و بردباری کا مادہ زیادہ تھا اس لئے آپ کی شریعت کا مرکزی نقطہ بھی حلم و نرمی قرار پایا.اس کے مقابلہ میں ہمارے نبی میل کے مزاج میں تمام
82 اوصاف و اخلاق کمال اعتدال و توازن کے ساتھ پائے جاتے تھے.آپ کا مزاج بدرجہ غائت وضع استقامت پر تھا.نرمی کی جگہ نرمی سختی کی جگہ سختی ، عفو کی جگہ عفو ، انتقام کی جگہ انتقام ، رحمت کی جگہ رحمت اور غضب کی جگہ غضب.غرض یہ کہ حکیمانہ طور پر آپ کی طبیعت موزوں و معتدل تھی اس لئے ارشاد فرمایا کہ چراغ وحی فرقان کو اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے.یعنی قرآن طبیعت متعدلہ محمدیہ کے موافق نازل ہوا ہے جس میں نہ مزاج موسوی کی طرح سختی ہے اور نہ درشتی ہے اور نہ مزاج عیسوی کی مانند نرمی بلکہ یہ نبی رحمت وہیت و غضب اور لطف و قہر کا جامع ہے.مظہر کمال اعتدال ہے اور جلال و جمال کا منبع ہے.اللہ تعالٰی نے دوسرے مقام پر اسی اخلاق معتدلہ فاضلہ اور جمعیت عقل و وحی کو یوں بیان فرمایا.انک لعلی خلق عظیم.اے نبی ! تو ایک خلق عظیم پر مخلوق ہے یعنی تو مکارم اخلاق کا متمم و مکمل نمونہ ہے کہ اس پر زیادت متصور ہی نہیں.آپ کو پورا پورا نوعی کمال حاصل ہو گیا.ایسا تیل جو بے آگ روشن ہو فرمایا اور تیل ایسا صاف اور لطیف کہ بے آگ دکھائے ہی روشن ہونے کی خاصیت رکھتا ہو.آپ کی فکری و عملی اور ظاہری و باطنی قومی صلاحیتیں اور اخلاق فاضلہ بغیر وحی خود بخود ہی روشن ہونے اور عالم کو بقعہ طور بنا دینے پر آمادہ تھے.آپ کی عقل اور جذبات و احساسات نبوت ملنے سے پہلے ہی کمال موزونیت لطافت اور نورانیت رکھتے تھے.یہاں ضروری اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور میلیا کی نبوت سے پہلی زندگی کے متعلق تبر کا کچھ واقعات و اخلاق ہدیہ ناظرین کر دیئے جائیں.رسول الله ل ل ا ل لیلی کے اخلاق و عادات لڑکپن ہی سے ایسے اعلیٰ اور بے نظیر تھے جو آپ کو دیکھتا گرویدہ ہو جاتا.آپ تمام مکہ میں ممتاز و نمایاں تھے.آپ قریش میں الامین مشہور تھے.قریش کی محفلوں میں زیادہ تر لہو و لعب اور فسق و فجور ہوتا تھا مگر
83 آپ کبھی کسی ایسی لغو محفل میں شریک نہیں ہوئے.قریش میں بڑے بڑے صاحب تجربہ کار اور صاحب دانش و منیش لوگ موجود تھے مگر بڑے بڑے سردار اہم واقعات میں آپ سے مشورہ لیتے تھے اور اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم بناتے تھے.آپ جو ا حکم اور مشورہ دیتے بسر و چشم اس پر عمل کرتے تھے.جس سے آپ کی دانش مندی کا کمال ظاہر ہوتا ہے.بت پرستی سے آپ کو طبعا نفرت تھی.آپ گھنٹوں اپنی قوم کی جہالت و حماقت اور گمراہی پر غور کرتے.افسوس کرتے.کبھی پہاڑوں میں جا کر مظاہر قدرت پر غور کرتے.توحید و بت پرستی کے مسئلہ میں غرق رہتے.جب تھک جاتے تو گھر آکر سو جاتے.حضرت زید بن حارثہ فرماتے ہیں کہ ایک روز بعثت سے قبل میں رسول کریم ملا لیا اور امی کے ہمراہ حوالی مکہ میں گیا وہاں آپ کی زید بن عمر بن نفیل سے ملاقات ہوئی.آپ ان سے بڑے اخلاق سے ملے.رسول اللہ صلی علی مولوی نے فرمایا.اے زید ! آپ کی قوم جس ضلالت و خباثت میں مبتلا ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں آپ اس کا کچھ علاج نہیں سوچتے؟ زید نے کہا میں پہلے ہی اپنی قوم کی بت پرستی سے بیزار ہوں.دین حق کی تلاش میں شام اور عراق وغیرہ کا سفر کر چکا ہوں.وہاں مجھے ایک متدین مسیحی عالم نے کہا کہ دین کا سب سے بڑا علمبردار عنقریب مکہ سے ظاہر ہو گا.اس کے ظہور کا ستارہ طلوع ہو چکا ہے.میں اسی شوق و انتظار میں لوٹ آیا ہوں مگر یہاں حالات میں کوئی تغیر و انقلاب نہیں دیکھتا.حیران ہوں کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی.اس کے بعد گفتگو ختم ہو گئی.اس سے ناظرین بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ صاف و شفاف تیل بے آگ روشن ہونے کے لئے کس طرح آمادہ تھا.نور فائض ہوا نور پر رسول اللہ کی مبارک زندگی میں نبوت ملنے سے پہلے ہی بہت سے نور جمع تھے.
84 نور عقل نور بصیرت اور نور اخلاق تمام انوار لمعانیاں دکھا رہے تھے.اب نور علی نور ، کا منظر دنیا کے سامنے آتا ہے.زمینی نور آسمانی نور سے مل کر آفتاب ہدایت بنتا ہے.عقل و بصیرت کی رہنمائی و دست گیری کے لئے آسمانی نور نمودار ہو جاتا ہے.یعنی آپ منصب نبوت پر فائز ہوئے.وحی الہی کا نزول شروع ہو گیا.گمراہیاں اور ظلمتیں دور ہونے لگیں.آسمانی نور نے زمینی تاریکیوں کو ڈھونڈ کر نکالنے پر کمر باندھی اور وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا." در ساله مولوی ماه صفر ۱۳۵۶ھ / جنوری ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۵-۱۶) " " ۳.عالم لدنی ، واقف حقیقت ماہر طریقت مولانا صوفی محمد ابراہیم صاحب قصوری نقشبندی مرید خاص میاں شیر محمد صاحب نقشبندی مجددی شرقپوری) مولانا صاحب ایک مایہ ناز سوانح نگار تھے.آپ کی قیمتی تألیف "خزینہ معرفت" جو میاں شیر محمد صاحب شرقپوری کی سوانح اور ملفوظات پر مشتمل ہے.مذہبی حلقوں میں بہت مشہور اور مقبول ہے اور تصوف کا گہرا رنگ لئے ہوئے ہے.یہ کتاب پہلی بار متحدہ ہندوستان میں ربیع الاول ۱۳۵۰ھ مطابق جولائی ۱۹۳۱ء میں جناب مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد رانجھے خاں قصور نے شائع کرائی تھی.اس کتاب کے اب تک متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں.مولانا صاحب نے اس کتاب میں آنحضرت مالی ایم کی اعلیٰ و ارفع شان تحریر فرماتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے بھر پور استفادہ آپ کا ذکر کئے بغیر کیا اور مندرجہ ذیل تین تصانیف کے کئی صفحات (چند تصرفات کے ساتھ) لفظاً لفظاً شامل کتاب فرمائے ہیں.(۱) سرمه چشم آریہ تالیف ۱۸۸ء (۲) آئینہ کمالات اسلام ا یف ۱۸۹۳ء
85 (۳) براہین احمدیہ حصہ پنجم تالیف ۱۹۰۵ء "سرمه چشم آریہ " کی عبارت خزینه معرفت" کا حسب ذیل اقتباس کتاب سرمہ چشم آریہ کے حاشیہ صفحہ ۱۸۸ تا ۲۰۴ سے معمولی کمی بیش کے ساتھ لفظاً لفظا اخذ کیا گیا ہے.عادت اللہ.یا تم یونہی سمجھ لو کہ اس قانون قدرت جو اس کی صفت و حدت کے مناسب حال ہے.یہی ہے کہ وہ بوجہ واحد ہونے کے اپنے افعال خالقیت میں رعائت وحدت کو دوست رکھتا ہے.جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے.اگر اس سب کی طرف نظر غور سے دیکھیں تو اس ساری مخلوقات کو جو اس دست قدرت سے صادر ہوئی ہے.ایک ایسا سلسلہ وحدانی اور باترتیب رشتہ میں مسلک پائیں گے کہ گویا وہ ایک خط ممتد حدود ہے.جس کے دونوں طرفوں میں سے ایک طرف ارتفاع و بلندی اور دوسری طرف انخفاض یعنی (پستی) اس طرح پر ہے انخفاض ارتفاع اس قدر بیان میں تو ایک موٹی سمجھ کا آدمی بھی اس کے ساتھ اتفاق رائے کر سکتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور دائرہ انسانیت میں بہت سے متفاوت اور کم و بیش استعدادیں پائی جاتی ہیں کہ اگر کمی بیشی کے لحاظ سے ان کو ایک با ترتیب سلسلہ میں مرتب کریں تو بلاشبہ اس سے اسی خط مستقیم ممتد محدود کی صورت نکل آئے گی.جو اوپر ثبت کیا گیا ہے.طرف ارتفاع کے اخیر کے نقطے پر استعداد کا انسان ہو گا.جو اپنی استعداد انسانی میں نوع انسان سے بڑھ کر ہے اور طرف انخافض میں ناقص الاستعداد روح ہو گی جو اپنے غائت درجہ کے نقصان کی وجہ سے حیوانات لا عقل کے قریب قریب ہے اور اگر سلسلہ جمادی کی طرف نظر ڈال کر دیکھیں تو اس قاعدہ کو اور بھی تائید پہنچی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے چھوٹے سے چھوٹے جسم سے لے کر جو ایک ذرہ ہے.ایک بڑے سے بڑے جسم تک جو آفتاب ہے.اپنی صفت خالقیت کو تمام کیا ہے اور بلاشبہ خدا تعالی نے اس جمادی سلسلہ میں آفتاب کو ایک عظیم الشان اور نافع اور ذی برکت وجود پیدا کیا ہے کہ طرف
86 ارتفاع میں اس کے برابر کوئی ایسا وجود نہیں ہے.سوا اس سلسلہ کے ارتفاع اور انخفاض پر نظر ڈال کر جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.روحانی سلسلہ ہے جو اسی کے ہاتھ سے نکلا ہے اور اسی عادت اللہ پر ظہور پذیر ہوا ہے.خود بلا تامل سمجھ میں آتا ہے کہ وہ بھی بلا تفاوت اسی طرح واقعہ ہے اور یہی ارتفاع اور انخفاض اس میں بھی موجود ہے.کیونکہ خدا تعالی کے کام یکرنگ اور یکساں ہیں.اس لئے کہ واحد ہے اور اپنے اصدار و افعال میں وحدت کو دوست رکھتا ہے.پریشانی اور اختلاف اس کے کاموں میں راہ نہیں پا سکتا اور خود یہ کیا ہی پیارا اور موزون طریق معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کام باقاعدہ اور ایک ترتیب سے مرتب اور ایک سلک میں منسلک ہوں.اب جب کہ ہم نے ہر طرح سے ثبوت پا کر بلکہ بالبداہت دیکھ کر خدا تعالٰی کے اس پاکر قانون قدرت کو مان لیا کہ اس کے تمام کام کیا روحانی اور کیا جسمانی پریشان اور مختلف طور پر نہیں ہیں.جن میں یونہی گڑ بڑ پڑا ہوا ہو.بلکہ ایک حکیمانہ ترتیب سے مرتب اور ایک ایسے با قاعدہ سلسلہ میں بند ہے.جو ایک ادنیٰ درجہ سے شروع ہو کر انتہائی درجہ تک پہنچتا ہے اور یہی طریق وحدت اسے محبوب بھی ہے.تو اس قانون قدرت کے ماننے سے ہمیں یہ بھی ماننا پڑا کہ جیسے خدا تعالیٰ نے جمادی سلسلہ میں ایک ذرہ سے لے کر اس وجود اعظم تک یعنی آفتاب تک نوبت پہنچائی ہے.جو ظاہری کمالات کا جامع ہے.جس سے بڑھ کر اور کوئی جسم جمادی نہیں.ایسا ہی روحانی آفتاب بھی کوئی ضرور ہو گا.جس کا وجود خط مستقیم مثالی میں ارتفاع کے اخیر نقطہ پر واقعہ ہو.اب تفتیش اس بات کی ہے کہ وہ کامل انسان جس کو روحانی آفتاب سے تعبیر کیا گیا ہے.وہ کون ہے اور اس کا کیا نام ہے؟ جس کا تصفیہ مجرد عقل سے ہو سکے.کیونکہ بجز خدا تعالیٰ کے یہ امتیاز کس کو حاصل ہے اور کون مجرد عقل سے ایسا کام کر سکتا ہے.کہ خدا تعالیٰ کے کروڑہا اور بے شمار بندوں کو نظر کے سامنے رکھ کر اور ان کی روحانی طاقتوں اور قدرتوں کا موازنہ کر کے سب سے بڑے کو الگ کر کے دکھلا دے.بلاشبہ عقلی طور پر کسی کو اس جگہ دم مارنے کی گنجائش نہیں ہے.ہاں ایسی بلند و عمیق دریافت کے لئے کتب الهامی
87 بعيض ذریعہ ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے پیش از ظهور ہزار ہا سال اس انسان کامل کا پتہ نشان بیان کر دیا ہے.پس جس شخص کے دل کو خدا تعالیٰ اپنی توفیق خاص سے اس طرف ہدائت دے گا کہ وہ الہام اور وحی پر ایمان لاوے اور ان پیشگوئیوں پر غور کرے جو بائبل میں درج ہیں.وہ تو ضرور اسے ماننا پڑے گا کہ وہ انسان کامل جو آفتاب روحانی ہے جس سے نقطہ ارتفاع کا پورا ہوا ہے اور جو دیوار نبوت کی آخری اینٹ ہے.وہ حضرت محمد مصطفی ملالا لالا مولوی کی ذات پاک ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں.اب بھی مکرر ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کامل بلا تشبیہ خدا تعالیٰ کی ذات کا نمونہ ہے.خدا تعالیٰ دوسرا خدا ہرگز پیدا نہیں کرتا.یہ بات اس کی صفت احدیت کے مخالف ہے.ہاں اپنی صفات کمالیہ کا نمونہ پیدا کرتا ہے اور جس طرح ایک مصفی اور وسیع شیشہ میں صاحب روئت کی تمام و کمال شکل منعکس ہو جاتی ہے.ایسا ہی انسان کامل کے نمونہ میں الہی صفات عکسی طور پر آجاتے ہیں.ہم بیان کر چکے ہیں کہ صاحب انتہائی کمال کا جس کا وجود سلسلہ خط خالقیت میں انتہائی نقطه ارتفاع پر واقعہ ہے.حضرت محمد مصطفی میل میں ہیں اور ان کے مقابل پر وہ خسیس وجود انتہائی جو نقطہ انخفاض پر واقعہ ہے.اسی کو ہم لوگ شیطان سے تعبیر کرتے ہیں.اگر چہ بظاہر شیطان کا وجود مشہور و محسوس نہیں.لیکن اس سلسلہ حد خالقیت پر نظر ڈال کر اس قدر تو عقلی طور پر ضرور ماننا پڑتا ہے.کہ جیسے سلسلہ ارتفاع کے انتہائی نقطہ میں ایک وجود غیر مجسم ہے.جو دنیا میں خیر کی طرف ہادی ہو کر آیا.اسی طرح اس کے مقابل پر ذو العقول میں انتہائی انخفاض میں ایک وجود شرر انگیز بھی جو شرر کی طرف جاذب ہو ضروری چاہئے.اسی وجہ سے ہر ایک انسان کے دل میں باطنی طور پر دونوں وجودوں کا اثر عام طور پر پایا جاتا ہے.پاک وجود جو روح الحق اور نور بھی کہلاتا ہے.یعنی حضرت محمد مصطفی ملی لا لال لال ہے اس کا پاک اثر بخدمات قدسی و توجهات باطنی ہر ایک دل کو خیر اور نیکی کی طرف بلاتا ہے.جس قدر کوئی اس سے محبت اور مناسبت پیدا کرتا ہے..ای قدر وه ایمانی قوت پاتا ہے اور نورانیت اس کے دل میں پھیلتی ہے.یہاں تک کہ
88 وہ اس کے رنگ میں آجاتا ہے اور ظلی طور پر ان سب کمالات کو پالیتا ہے جو اس کو حاصل ہیں اور جو وجود شرانگیز ہے یعنی وجود شیطان جس کا مقام ذو العقول کے قسم میں انتہائی نقطہ انخفاض میں واقعہ ہے.اس کا اثر ہر ایک دل کو جو اس سے کچھ نسبت رکھتا ہے.شرک کی طرف کھینچتا ہے.جس قدر کوئی اس سے منا سبقت پیدا کرتا ہے.اسی قدر بے ایمانی اور خباثت کے خیال اس کو سوجھتے ہیں.یہاں تک کہ جس کو مناسبت نام ہو جاتی ہے.وہ اس کے رنگ اور روپ میں آکر پورا پورا شیطان ہو جاتا ہے اور علی طور ان سب کمالات خباثت کو حاصل کر لیتا ہے.جو اصلی شیطان کو اصل ہیں.اسی طرح اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان اپنی اپنی مناسبت کی وجہ سے الگ الگ طرف کھینچے جاتے ہیں.اور وجود خیر مجسم جس کا نفسی نقطہ انتہائی درجہ کمال ارتفاع پر واقعہ ہے.یعنی حضرت محمد مصطفی ملی لی لی لی ہے اس کا مقام معراج خارجی جو منتہائے مقام عروج (یعنی عرش رب العالمین ہے) بتلایا گیا ہے.یہ در حقیت اس انتہائی درجہ کمال کا ارتفاع کی طرف اشارہ (ہے) جو اس وجود باجود کو حاصل ہے.گویا جو کچھ اس وجود خیر مجسم کو عالم قضاء و قدر میں حاصل تھا.وہ عالم مثال میں مشہود و محسوس طور پر دکھایا گیا جیسا کہ اللہ تعالی اس نبی کریم کی شان رفیع کے بارہ میں فرماتا ہے.و رفع بعضهم درجات پس اس رفع درجات سے وہی انتہائی درجہ کا ارتفاع مراد ہے جو) ظاہری اور باطنی طور پر آنحضرت میلی لیم کو حاصل ہے اور یہ وجود باجود جو خیر مجسم ہے، مقربین کی سب قسموں سے اعلیٰ و کمال ہے." (خزینه معرفت صفحه ۲۶۴-۲۶۷) آئینہ کمالات اسلام" کی عبارت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے "آئینہ کمالات اسلام“ کے صفحہ ۵۷ سے ۷۳ تک اسلام کی لغوی اور اصطلاحی معنوں پر نہایت وجد آفریں انداز میں روشنی ڈالی ہے.خزینہ معرفت " کا درج ذیل اقتباس اس کے ابتدائی حصے سے نقل کیا گیا ہے.
89 ” واضح ہو کہ اسلام عربی لفظ ہے.جس کے معنی ہماری اردو زبان میں بطور پیشگی ایک چیز کا مول دینا اور کسی کو اپنا کام سونپنا اور طالب صلح ہونا اور کسی امریا خصومت کو چھوڑ دینا اور اصطلاحی معنی وہ ہیں جن کا قرآن کریم کی اس آیت ذیل میں اشارہ ہے.بلی من اسلم وجهه لله و هو محسن فله اجره عند ربه و لا خوف عليهم ولا هم يحزنون - یعنی مسلمان وہ ہے.جو خدا تعالی کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دے.یعنی اپنے تمام وجود کو اللہ تعالٰی کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالٰی کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالی کا ہو جائے.اعتقادی طور پر اس طرح کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے.جو خدا تعالٰی کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح کہ خالصا حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت کے متعلق اور ہر ایک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے.مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.پھر بقیہ ترجمہ آیت مذکورہ بالا کا یہ ہے کہ جس کی اعتقادی و عملی صفائی ایسی محبت ذاتی پر مبنی ہو.اور ایسے طبعی جوش سے اعمال حسنہ اس سے صادر ہوں.وہ وہی ہے جو عند اللہ مستحق اجر ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم رکھتے ہیں.یعنی ایسے لوگوں کے لئے نجات نقد موجود ہے.کیونکہ جب انسان
90 کو اللہ کی ذات و صفات پر ایمان لا کر اس سے موافقت تامہ ہو گئی اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ہمرنگ ہو گیا اور تمام لذت اس کی تابع فرمان الہی میں ٹھہر گئی اور جمیع اعمال صالح نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تاذ ذ اور احتفاظ کی کشش سے صادر ہونے لگیں.تو یہی وہ کیفیت ہے جس کی فلاح اور رستگاری سے موسوم کرنا چاہئے اور عالم آخرت میں جو کچھ نجات کے متعلق مشہور و محسوس ہو گا.وہ در حقیقت اسی کیفیت راسخہ کے اظلال و آثار ہیں جو اس جہان میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے.مطلب یہ ہے کہ بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہو جاتی ہے اور جہنمی عذاب کی جڑھ بھی اسی جہان کی کورانہ زیست اور ناپاک زندگی ہے.اب آیت ممدوحہ بالا پر ایک غائت نظر ڈالنے سے ہز ایک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی شخص میں مستحق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجو د معہ اپنی تمام باطنی و ظاہری قومی کے محض خدا تعالٰی کے لئے اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالی کی طرف سے ملی ہیں پھر اس معطی حقیقی کو واپس دی جاویں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے.یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ پاؤں ، دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور رحم اور اس کا علم و حلم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور جو کچھ اس کے سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے.یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل کے خطرات اور ان کے نفس کے جذبات سے خدا تعالٰی کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جس طرح ایک شخص کے اعضاء اس کے :
91 تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ قدم صدق اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالٰی کا ہو گیا اور تمام اعضاء اور قومی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں گویا وہ جوارح الحق ہیں." خزینه معرفت صفحه ۳۱۱.۳۱۳) ۳۱۳۳۱۱) براہین احمدیہ حصہ پنجم کی عبارت ee کتاب کے درج ذیل اقتباس کے دو شعر ” براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۸ سے اور اس کی نثر ضمیمہ صفحہ ۵۷ سے اخذ کئے گئے ہیں.وہ اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات اس مرتبہ پر خدا تعالٰی اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں، مومن کے دل پر نازل کرتا ہے اور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کر دیتا ہے اور اس کی روح کے پھونکنے کے ساتھ ہی حسن جو ادنی مرتبہ پر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے اور ایک روحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے اور کثیف زندگی کی کبودگی بکلی دور ہو جاتی ہے اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی روح اس کے اندر داخل ہو گئی ہے.جو پہلے نہیں تھی.اس روح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مومن کو حاصل ہو جاتا ہے اور محبت ذاتیہ الہیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے.اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی.اس درجہ تک وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے.اور انسانی وجود کے تمام خس و خاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے.تب اس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ
92.میں تپایا جائے یہاں تک کہ سرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے.اس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں.جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے.مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے.بلکہ محبت اسیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو ظاہر وجود کو اپنے رنگ میں لے آتی ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے." (خزینه معرفت صفحه ۳۱۲-۳۱۳) یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اگر چہ "خزینہ معرفت" کے بعض نسخوں میں قطع و برید ہو چکی ہے مگر متذکرۃ الصدر تینوں اقتباسات جو تصوف کی روح رواں اور کتاب کی جان ہیں اب تک من و عن موجود ہیں.اور کتاب کی جان میں ہے " سید المتکلمین جناب ابوالبیان مولانا " ظهور الحسن شاہ صاحب بریلوی.بھوانہ ضلع جھنگ آپ کا رسالہ "حقیقت حدیث قرطاس" مدت سے فارورڈ بلاک اثنا عشریہ ہیڈ آفس سیالکوٹ سے شائع شدہ ہے.یہ کتاب ”پاکستان صادقیہ مشن " کی اکیسویں پیشکش لمتكل نسخه 205 تا 206 2086205 کا اعزاز رکھتی ہے.اس رسالہ کے ابتدائی دو صفحات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں.کتاب ھیرا جناب سید ا متضمین و ابوالبیان صاحب کے یہ صفحات بانی سلسلہ احمدیہ کی انہی کتابوں کے اقتباسات کا لطیف امتزاج ہیں جو مولف "خزینہ معرفت " نے انتخاب کر کے مجلس تصوف کی رونق دوبالا کرنے کے لئے منتخب کی ہیں.چنانچہ شروع میں "آئینہ کمالات اسلام" صفحہ ۵۹-۶۰ کی عبارتیں ہیں.دونوں شعر " براہین احمدیہ حصہ پنجم" صفحہ ۱۸ سے ماخوذ ہیں اور اس کے بعد پوری عبارت ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ ۵۷ سے مستعار لی گئی ہے جو یہ ہے:." سارے انبیاء علیهم السلام فنافی اللہ ہوتے ہیں.ان کے تمام حرکات و سکنات خدا تعالی کی رضامندی کا آئینہ اور حقیقت اسلام کا 3 I
93 نمونہ ہوتے ہیں.اور وہ اسی لئے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں کہ ان کی تعلیم سے حقیقت اسلام دنیا پر اس طرح واضح ہو جائے کہ جس سے ہر شخص اس کا مستحق ہو جائے تاکہ جس سے اس کا وجو د و معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے ہی وقف ہو جائے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالی کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی معلی حقیقی کو واپس کر دی جاویں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے.یعنی مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ پاؤں دل و دماغ اس کی عقل اس کا فہم، اس کا غضب ، اس کا رحم ، اس کا حلم ، اس کا علم ، اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں ، اس کی عزت اس کا مال اس کا آرام اس کا سر اور جو کچھ اس کے سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے.یہاں تک کہ اس کے نیات اس کے دل کے خطرات اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالی کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جاوے کہ قدم صدق اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے.وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالی کا ہو گیا ہے کہ تمام اعضاء قوی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں.گویا وہ جوارح الحق ہیں." ( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۹ - ۶۰) اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فتا ترک رضائے خویش ہے مرضی خدا جو مر گئے انہیں کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه (۸) •
94 "اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہے اور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کر دیتا ہے اور اس روح کے پھونکنے کے ساتھ ہی وہ حسن جو ادنی مرتبہ پر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے.اور ایک روحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے اور گندی زندگی بالکل دور ہو جاتی ہے اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی روح اس کے اندر داخل ہو گئی ہے.جو پہلے نہیں تھی.اس روح کے ملنے سے مومن کو ایک عجیب سکینت اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے اور محبت ذاتیہ الہیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پورا کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی.اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے.اور انسانی وجود کے تمام خس و خاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کرا دیتی ہے اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے.تب اس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں تپایا جائے یہاں تک کہ سرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے.اس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے.مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خد ا ہو گیا ہے.بلکہ محبت البیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجو د کو لے آتی ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے." (ضمیمه بر امین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۱۵ ۲۱۶) براہین کتاب "خزینہ معرفت " اور رسالہ "حقیقت حدیث قرطاس" کے قابل احترام اور معزز مولفین نے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں مذکورہ اقتباس کے بعد کے وہ فقرات جن سے نفس مضمون نقطہ معراج تک پہنچ جاتا ہے اور روح وجد کر اٹھتی ہے، عمد ا ترک کر دیئے ہیں.لہذا ان کو حوالہ قرطاس کیا جاتا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ را
95 تحریر فرماتے ہیں:.اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہو تا ہے.جس کے ہوتا پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہے.جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے اور مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ وریشہ میں سرایت کرتا اور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنالیتا ہے.تب وہ اپنے روح سے نہیں بلکہ خدا کی روح سے دیکھتا اور خدا کی روح سے سنتا اور خدا کی روح سے بولتا اور خدا کی روح سے چلتا اور خدا کی روح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے.کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استهلاک کے مقام میں ہوتا ہے اور خدا کی روح اس پر اپنی محبت ذاتیہ کے ساتھ تجلی فرما کر حیات ثانی اس کو بخشتی ہے.پس اس وقت روحانی طور پر اس پر یہ آیت صادق آتی ہے.ثم انشاناه خلقا اخر فتبارک الله احسن الخالقین - " -۵ جناب مولانا بدرالدین صاحب بد ر جالندهری سابق عربی ٹیچر کنٹونمنٹ ہائی سکول جالندھر مولانا صاحب جالندھر کے مشہور و معروف ماہر تعلیم تھے.آپ کا یہ کارنامہ ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ آپ نے تقسیم ملک سے قبل مسلمان بچوں اور نوجوانوں کی اخلاقی و مذہبی تعلیم کے لئے سات کتابوں پر مشتمل ایک نہایت عمدہ ، دلنشین اور اثر انگیز نصاب مرتب فرمایا جیسے اسی دور میں مشہور عالم ادارہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور نے بهترین کتابت و طباعت کے ساتھ شائع کیا.اس نصاب سے ہزاروں مسلمان نونہالوں نے فائدہ اٹھایا ہے.
96.نفسیاتی اعتبار سے عقائد اور اخلاقی اصولوں کو اسباق کی شکل میں پیش کرنے کا طریق مسلمہ طور پر بہت موثر و مفید ثابت ہوا ہے.فاضل مولف نے یہی جدید تکنیک اختیار کی ہے اور اس میں آپ کو خاصی کامیابی ہوئی ہے.نصاب کی تیاری میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے موعود فرزند حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی کتابوں سے خوب استفادہ کیا ہے اور ان کتابوں کے مندرجات کی روشنی میں جملہ اسباق کے ڈھالنے میں جس غیر معمولی محنت و کاوش اور عرقریزی سے کام لیا ہے اس کا تصور کر کے حیرت آتی ہے اور دل باغ باغ ہو جاتا ہے.خصوصاً نصاب کے ساتویں حصہ "الانسان" میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ ، فقرے بندشیں اور محاورات کا استعمال عجب بہار دکھلا رہا ہے.جس کی تفصیل ملک کے ایک دانشور اور ادیب جناب نذیر احمد صاحب خادم کے قلم سے ہدیہ قارئین کی جاتی ہے:." تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور و کراچی کی شائع کردہ کتاب "الانسان" مولفہ ”جناب مولوی بدرالدین صاحب بدر جالندھری اس وقت راقم الحروف کے سامنے ہے.یہ کتاب " مسلمان بچوں کی مذہبی تعلیم کے سلسلہ اخلاق اسلام کا ساتواں حصہ " ہے.صفحه ۳ پر " عرض مولف کے زیر عنوان لکھی ہوئی عبارت کا پہلا ہی فقرہ ملاحظہ ہو." تمام دینی علوم میں علم اخلاق بھی ایک ضروری علم ہے جو بے تمیز و حشیوں کو انسان انسانوں کو با اخلاق انسان اور با اخلاق انسانوں کو باخدا انسان بنا دیتا ہے." پھر صفحہ ۲ پر دیباچہ جو ”چوہدری عمرالدین بی.اے بی ٹی جالندھری" کے قلم سے مرقوم ہے اس میں وہ فرماتے ہیں."فاضل مولف نے انسانی اخلاق اور روحانیت کے مختلف پہلوؤں پر جس محققانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے وہ خاص انہی کا حصہ ہے جس کے پڑھنے سے انسان کی طبعی ، اخلاقی اور روحانی حالتوں کی
97 اصلاح ہو کر اس کی ایجاد کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکتا ہے." ان دونوں عبارتوں اور خصوصاً دیباچہ کی محولہ بالا سطور میں ”انسان کی طبعی، اخلاقی اور روحانی حالتوں" کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس معرکہ آرا تاریخی مضمون کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں جو آج سے اے سال پہلے مورخہ ۲۶ ۲۷ ۲۸ اور ۲۹.دسمبر ۱۸۹۶ء کو بمقام لاہور منعقدہ جلسہ مذہب عالم میں پڑھا گیا ۲۷-۲ - اور جلسہ میں پڑھے جانے والے دوسرے تمام مضامین پر غالب آکر اسلام کی صداقت و حقانیت اور نمایاں فتح کا ایک روشن نشان بنا.حضور کا یہ مضمون سب سے پہلے جلسہ اعظم مذہب لاہور کی رپورٹ میں اسی وقت من وعن شائع ہوا اور پھر جماعت احمدیہ کی طرف سے اسے اسلامی اصول کی فلاسفی" کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا.اب تک اس تاریخی کتاب کے کئی ایڈیشن اردو انگریزی اور دنیا کی متعدد اہم زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر اکناف عالم میں شہرت پاچکے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں اور ملکی و غیر ملکی اخبارات سے شان دار الفاظ میں خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں.مولف "الانسان" نے یوں تو حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دوسری کتب سے بھی عبارتیں نقل کی ہیں لیکن سب سے زیادہ عبارتیں اسلامی اصول کی فلاسفی" سے بغیر حوالہ کے لی گئی ہیں اور انہیں اپنی مشتمل طرف منسوب کیا گیا ہے.کتاب الانسان " سبق نمبرا تا ۳۰ کل ۱۷۶ صفحات پر ہیں.اس کے کل ۱۳۰ اسباق میں سے نو اسباق (یعنی.سبق نمبر ۵-۱۱-۱۴ تا ۱۹ اور سبق نمبر ۳۰ تو تقریباً پورے کے پورے اسلامی اصول کی فلاسفی" کی عبارات پر مشتمل ہیں.یہ عبارتیں جو ذرا سی تبدیلی اور الفاظ کے ادنیٰ سے ہیر پھیر کے ساتھ اصل کتاب کے مختلف مقامات سے نقل کر کے یکجا کی گئی ہیں مذکورہ سبقوں میں کہیں تو مسلسل چلتی ہیں اور کہیں ایک آدھ فقرہ درمیان میں حضرت اقدس کی کسی اور کتاب سے نقل کر دیا گیا ہے اور کہیں حضور کی عبارات کا خلاصہ اپنے الفاظ میں دے دیا گیا ہے.اختصار کے
98.پیش نظر را قم ان تصرف شدہ عبارات میں سے بطور نمونہ صرف دس عبارتیں پیش خدمت کرتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی سے اصل اقتباسات بھی درج کئے جاتے ہیں.نوٹ:.(اسلامی اصول کی فلاسفی" کے اصل اقتباسات کے آخر میں صفحات کے جو نمبر دئے گئے ہیں وہ خاکسار نے اس کے فروری ۱۹۶۲ء کے ایڈیشن کے مطابق دئے ہیں جو الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ نے شائع کیا ہے.خادم) تصرف شده عبارت: (1) اسی طرح روح کا اثر بھی جسم پر ہوتا ہے.جس شخص کے دل کو کوئی رنج پہنچے وہ چشم پر آب ہو جاتا ہے جس کو کوئی خوشی ہو وہ خواہ مخواہ تبسم کرنے لگ جاتا ہے." (ص ۲۸) و"اسلامی اصول کی فلاسفی " (1) "ایسا ہی کبھی روح کا اثر بھی جسم پر جا پڑتا ہے.جس شخص کو کوئی غم پہنچے آخر وہ چشم پر آب ہو جاتا ہے اور جس کو خوشی ہو آخر وه تجسم کرتا ہے." (ص ۲۶) تصرف شده عبارت: (۲) و طبعی حالتیں جب تک اخلاقی رنگ میں نہ آئیں اس وقت تک انسان قابل تعریف نہیں ہو سکتا کیونکہ طبعی حالتیں حیوانات بلکہ جمادات میں بھی پائی جاتی ہیں." (ص ۸۳) " " اسلامی اصول کی فلاسفی " (۲) طبعی حالتیں جب تک اخلاقی رنگ میں نہ آئیں کسی طرح انسان کو قابل تعریف نہیں بنائیں کیونکہ وہ دوسرے حیوانات بلکہ جمادات میں بھی پائی جاتی ہیں." (ص ۳۴) تصرف شده عبارت: (۳) اسلام کیا ہے.اسلام وہ جلتی ہوئی آگ ہے جو ہماری سفلی زندگی کو بھسم کر کے اور ہمارے باطل مبعدوں کو جلا کر اور بچے اور پاک معبود کے آگے ہماری جان ہمارا مال اور ہماری آبرو کی قربانی پیش کرتی ہے." (ص ۱۰۳) "اسلامی اصول کی فلاسفی " (۳) اسلام کیا چیز ہے وہی جلتی ہوئی
99 آگ جو ہماری سفلی زندگی کو بھسم کر کے اور ہمارے باطل معبودوں کو جلا کر بچے اور پاک معبود کے آگے ہماری جان اور ہمار ا مال اور ہماری آبرو کی قربانی پیش کرتی ہے." ( ص ۱۲۹) تصرف شده عبارت : (۴) " ہم اندھے ہیں جب تک غیر کے دیکھنے سے اندھے نہ ہو جائیں.ہم مردہ ہیں جب تک خدا کے ہاتھ میں مردہ کی طرح نہ ہو جائیں." (ص) وو اسلامی اصول کی فلاسفی " (۴) " ہم اندھے ہیں جب تک غیر کے دیکھنے سے اندھے نہ ہو جائیں.ہم مردہ ہیں جب تک خدا کے ہاتھ میں مردہ کی طرح نہ ہو جائیں." (ص ۱۱۴) تصرف شده عبارت: (۵) " تمام قرآن کا مقصد دراصل یہی اصلاحات ثلاثہ ہیں اور اس کی تمام تعلیم کا لب لباب دراصل یہی تین اصلاحیں ہیں اور باقی تمام احکام ان اصلاحوں کے لئے بطور وسائل ہیں." " " (ص ۸۷) اسلامی اصول کی فلاسفی" (۵) " تمام قرآن کا مقصد صرف اصلاحات ثلاثہ ہیں اور اس کی تمام تعلیموں کا لب لباب یہی تین اصلاحیں ہیں اور باقی تمام احکام ان اصلاحوں کے لئے بطور وسائل کے ہیں." (ص) (۳۹٬۳۸) تصرف شده عبارت: (۶) روحانیت ہر ایک خلق کو موقع اور محل پر استعمال کرنے کے بعد اور پھر خدا کی راہوں میں وفاداری کے ساتھ قدم مارنے سے اور اسی کا ہو جانے سے ملتی ہے.جو اس کا ہو جاتا ہے اس کی یہی نشانی ہے کہ وہ اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا.عارف ایک مچھلی ہے جس کا پانی خدا کی محبت ہے." ( ص ۱۳۸۲) "اسلامی اصول کی فلاسفی " (1) " روحانیت ہر ایک خلق کو محل اور
100 موقع پر استعمال کرنے کے بعد اور پھر خدا کی راہوں میں وفاداری کے ساتھ قدم مارنے اور اسی کا ہو جانے سے ملتی ہے.جو اس کا ہو جاتا ہے اس کی یہی نشانی ہے کہ وہ اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا.عارف ایک مچھلی ہے جو خدا کے ہاتھ سے ذبح کی گئی اور اس کا پانی خدا کی محبت ہے." ( ص ۳۵) تصرف شدہ عبارت : (۷) اخلاق کے شعبوں میں سے وہ شعبہ ہے جو ادب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی وہ ادب جس کی پابندی وحشیوں کو ان کی طبعی حالتوں کھانے پینے اور شادی وغیرہ تمدنی امور میں مرکز اعتدال پر لاتی ہے اور اس زندگی سے نجات بخشتی ہے جو وحشیوں، چوپاؤں یا درندوں کی طرح ہو.“ ( ص ۹۰۸۹) " اسلامی اصول کی فلاسفی " (1) " یہ اصلاح اخلاق کے شعبوں میں سے وہ شعبہ ہے جو ادب کے نام سے موسوم ہے یعنی طبیعی حالتوں کھانے پینے اور شادی کرنے وغیرہ تمدنی امور میں مرکز اعتدال پر لاتی ہے اور اس زندگی سے نجات بخشتی ہے جو وحشیانہ اور چوپایوں یا درندوں کی طرح ہو." (ص ۴۵۴۴۴ تصرف شده عبارت : (۸) " دوسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جب کوئی انسانیت کے ظاہری آداب سیکھ لے تو اسے انسانیت کے بڑے بڑے اخلاق سکھائے جائیں اور انسانی قوئی میں جو کچھ بھرا پڑا ہے ان کو موقع و محل کے مطابق استعمال کرنے کی تعلیم دی جائے." " اسلامی اصول کی فلاسفی " (۸) ” دوسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جب کوئی ظاہری آداب انسانیت کے حاصل کر لیوے تو اس کو بڑے بڑے اخلاق انسانیت کے سکھائے جائیں اور انسانی قوی میں جو کچھ بھرا پڑا ہے ان سب کا کل اور موقع پر استعمال کرنے کی تعلیم دی جائے." حل
(ص) ۳۶) 101 تصرف شده عبارت: (۹) " تیسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جو لوگ اخلاق فاضلہ سے متصف ہو گئے ہوں انہیں شربت وصل کا مزا چکھایا جائے." "اسلامی اصول کی فلاسفی " (1) " تیسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جو لوگ اخلاق فاضلہ سے متصف ہو گئے ہیں ، ایسے خشک زاہدوں کو شربت محبت اور وصل کا مزا چکھایا جائے." ( ص ۳۶) تصرف شده عبارت : (۱۰) ' دماغ کو ایک مقام پر چوٹ لگنے سے سارا حافظہ بگڑ جاتا ہے.دوسرے مقام پر چوٹ لگنے سے ہوش و حواس رخصت ہو جاتے ہیں.وہا کی ایک زہریلی ہوا آنا فاناً میں جسم پر اثر کر ا کے روح کو بھی متاثر کر دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ روحانی سلسلہ جس سے اخلاق کا نظام وابستہ ہے درہم برہم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ انسان دیوانہ سا ہو کر چند منٹ میں گزر جاتا ہے." (ص) ۲۸) "اسلامی اصول کی فلاسفی " (۱۰) ” دماغ کے ایک مقام پر چوٹ لگنے سے یک لخت حافظہ جاتا رہتا ہے اور دوسرے مقام پر چوٹ لگنے سے ہوش و حواس رخصت ہوتے ہیں.وبا کی ایک زہریلی ہوا کس قدر جلدی سے جسم میں اثر کر کے پھر دل میں اثر کرتی ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ اندرونی سلسلہ جس کے ساتھ تمام نظام اخلاق کا ہے درہم برہم ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ انسان دیوانہ سا ہو کر چند منٹ میں گزر جاتا ہے." (ص) ۲۷) مذکورہ بالا دس عبارتیں جو کافی طویل ہیں اور جن کا صرف کچھ ابتدائی حصہ یہاں پیش کیا گیا ہے.ایسی ہی تصرف شدہ بہت سی عبارتیں اور بھی کتاب مذکور میں مولف
102 نے درج کی ہیں.( منقول اخبار الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۳.(۴) دوا مولانا سید نذیر الحق صاحب قادری مولانا کی منعیم اور مشہور کتاب "کتاب الاسلام" کا آج تک بر صغیر ہند و پاک میں بہت چرچا ہے.مفتی مولانا انتظام اللہ شہابی نے اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے.اسلامی تعلیم کے ہر پہلو کو مختصر طور پر وضاحت کے ساتھ نمایاں کیا ہے.عقائد اخلاق اور اعمال کی کوئی اہم بات ترک نہیں ہوئی".( قاموس الکتب اردو جلد اول صفحه ۳۲۴ ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی.مطبوعہ جون ۱۹۶۱ء) مولانا عبد الرحیم صاحب ناظم مکتبہ علوم مشرقیه دار العلوم اسلامیہ پشاور لباب المعارف العلمية " جلد دوم صفحه ۷۴ (مطبوعہ فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور جنوری ۱۹۳۹ء میں اس کتاب کو عہد حاضر کی جامع اور جلیل القدر تصنیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں.مولف فہرست ہذا اپنے مبلغ علم کے مطابق بوثوق یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام کے موضوع پر اردو زبان میں ایسی جامع کتاب نہیں لکھی گئی.اسلامی تعلیم کے ہر ایک پہلو کو مختصر طور پر وضاحت کے ساتھ نمایاں کیا ہے اور بہیئت مجموعی مستند باتیں لکھی ہیں.عقائد اخلاق اور اعمال کی کوئی اہم باب غالباً ان سے متروک نہیں ہوئی.....مسلمان طلبا اس کو ضرور پڑھیں.جلیل القدر تصنیف ہے" "کتاب الاسلام" جیسی مبسوط اور جلیل القدر کتاب میں جس کثرت کے ساتھ صوات 2009 تا 215 پر کسی علافظی کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بے مثال لٹریچر سے استفادہ کیا گیا ہے اس کی حیران کن تفصیلات ملک کے فاضل و محقق جناب محمد شفیع خان صاحب نجیب آبادی مرحوم کے قلم سے ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں.فرماتے ہیں.تعارف آج کل ایک کتاب جس کا نام "کتاب الاسلام" ہے.میرے زیر مطالعہ ہے.جس کو مولانا سید نذیر الحق صاحب قادری نے تالیف فرمایا ہے.اس کی ضخامت
103 ۱۷۶ صفحات ہے.سرورق پر تحریر ہے کہ ”مذہبی تعلیم کا وہ نادر الوجود ذخیرہ جس کی نظیر آج تک کسی زبان میں موجود نہیں." چونکہ میرے پاس اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو ماہ جولائی ۱۹۳۳ء عبد الحمید خان کے حمید یہ پریس دہلی میں چھپوا کر شائع کیا گیا ہے.اس لئے پہلی مرتبہ کا سن طبع معلوم نہیں ہو سکا.لیکن کتاب کے اندر مولف موصوف نے ۲۵ء کا حوالہ کتاب مذکور کے صفحہ ۱۰۷ پر نقل فرمایا ہے.جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۲۵ء یا اس کے بعد طبع ہوئی "اخبار نور قادیان " کے اگر ہے.کتاب کے مولف محترم جماعت احمدیہ کے مخالف معلوم ہوتے ہیں.مثلاً اس کتاب میں آپ تحریر فرماتے ہیں....پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کا عقیدہ سرا سر باطل اور گمراہی ہے.خدا مسلمانوں کو اس عقیدہ کے اثر سے محفوظ رکھے." "کتاب الاسلام " ص (۵۰۴) اظهار حقیقت:.لیکن باوجود جماعت احمدیہ کی مخالفت کے مولف محترم کی نظر انتخاب اپنی کتاب کو نادر الوجود اور بینظیر بنانے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس معرکہ آلاراء تصنیف پر پڑی.جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے مضمون پڑھے جانے سے پہلے حضور کو اطلاع دی تھی کہ " یہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا." یعنی اسلامی اصول کی فلاسفی.یہ تصنیف مولف محترم نے اپنی کتاب میں قریب قریب سب ہی نقل فرما دی.اس کے علاوہ آئینہ کمالات اسلام، چشمہ معرفت کشتی نوح سے بھی جا بجا مولف نے مضامین لئے ہیں.جہاں تک حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تصنیفات سے افادہ کرنے کا تعلق ہے ہمیں نہ صرف اس پر کوئی اعتراض نہیں.بلکہ خوشی ہے کیونکہ اس سے حضور کے علم کلام کی فضلیت ثابت ہوتی ہے.اور یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ حضور نے اللہ تعالی کی مدد اور تائید سے قرآن مجید اور اسلام کے جن علوم کا انکشاف فرمایا.وہ ہر لحاظ سے بے
104 نظیر ہیں.مگر یہ امر اس کتاب میں ہمیں بار بار کھٹکتا ہے جو مولف محترم نے حضور علیہ السلام کی کتب کا حوالہ کسی جگہ بھی دینا مناسب نہیں سمجھا.حالانکہ اس کتاب میں دوسری کتابوں سے بھی متولف محترم نے امداد لی ہے.مگر ہر جگہ مصنف اور کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے.مثلاً حضرت امام غزالی کی کتب کا اور دیگر بزرگان دین کی کتب کے حوالے دیئے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کہیں حوالہ نہیں دیا.تا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بندش الفاظ خیالات کی بلند پروازی، معرفت حقیقی کی تڑپ خود بخود منہ سے بول اٹھتی ہے کہ یہ مضمون سوائے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی دوسرے کے قلم سے نکل ہی نہیں سکتا.مولف محترم نے جہاں جہاں فلسفه اسلام بیان کیا ہے.سب مضمون حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے لیا ہے.اب میں اس کتاب سے چند حوالے پیش کرتا ہوں.جن کو مصنف مذکور نے ا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خزانہ سے لے کر پیش کیا ہے.کتاب الاسلام کے صفحہ ۴۹۴ پر تحریر فرماتے ہیں:.” ان تمام دلائل مذکورہ بالا سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی اصول کی رو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے.گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے.مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزا چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے.وہ جسم اس جسم کی قسم سے نہیں ہو تا.بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو ، جسم تیار ہوتا ہے.گویا اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں.ایسا ہی خدا تعالی کے کلام میں بار بار آیا ہے.اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلماتی قرار دئے ہیں.جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے تیار ہوتے ہیں.اگر چہ راز ایک دقیق راز ہے.مگر غیر معقول نہیں ہے.انسان کامل اپنی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کثیف جسم کے علاوہ پاسکتا ہے اور عالم
105 مکاشفات میں اس کی بہت مثالیں ہیں.جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے.وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے تیار ہوتا ہے.تعجب اور استبعاد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے بنتا ہے.یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزا کا موجب ہو جاتا ہے." اصحاب مکاشفہ کو عین بیداری میں مردوں سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے.بہر حال مرنے کے بعد ہر ایک کو جسم ملتا ہے خواہ نورانی ہو یا ظلماتی." یه مضمون اسلامی اصول کی فلاسفی" کے صفحہ نمبر ۸۲ پر تیسری سطر سے شروع ہو کر اکیسویں سطر تک لفظ بلفظ ہے.کہیں کہیں مولف مذکور نے ایک آدھ لفظ بدل دیا ہے.یا کم کر دیا ہے اور حسب ذیل فقرات میں تو عجیب انداز سے تصرف کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ." میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بار ہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا دھوئیں سے بنایا گیا ہے.غرض میں اس کو چہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے.خواہ نورانی خواہ ظلماتی." اب دوسرا نمونہ ملاحظہ ہو.یہ جواہرات "چشمہ معرفت" کے خزانہ سے حاصل کئے گئے ہیں.ان ربكم الله الذي خلق السموات والارض في سته ايام ثم استوى على العرش.تمہارا پروردگار وہ خدا ہے.جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا -
106 غرض آیت مذکورہ میں استوی علی العرش کا لفظ بطور کنایہ استعمال کیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین و آسمان پیدا کر کے اور اپنی تشبیہی صفات کا ظہور فرما کر تنزیہی صفات اختیار کرنے کے لئے مقام بلند اختیار کر لیا.یعنی تنزیہی صفات بھی ثابت کر دیں.جو وراء الوراء مقام اور مخلوق کے قرب و جوار سے دور تر اور بلند مقام ہے.اسی کو عرش کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.جس کی واضح تر تشریح یہ ہے.کہ جب تمام مخلوق پر دہ عدم میں مستور تھی اور سوائے خدا کے کچھ نہ تھا.تو خدا تعالی دارء الوراء مقام میں جس کا نام اصطلاح قرآنی میں ”عرش“ ہے.اپنی تجلیات ظاہر کر رہا تھا.پھر اس نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے.پیدا کیا تو پھر اس نے اپنے تئیں مخفی کر لیا اور یہ چاہا کہ وہ ان مصنوعات کے ذریعہ پہچانا جائے." (کتاب الاسلام » صفحه ۴۲۱٬۴۲۰) یہ مضمون چشمہ معرفت صفحہ ۲۶۲ سے لیا گیا ہے اور پورا مضمون صفحہ ۲۶۲ لغایت ص ۲۶۶ کا خلاصہ کر کے مولف محترم نے اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے.جس میں عرش کو چار اور آٹھ فرشتوں کے اٹھانے کی تشریح فرمائی ہے." اب تیسرا نمونہ پیش کیا جاتا ہے.جو آئینہ کمالات اسلام سے لیا گیا ہے.اور دو روحانی داعی مقرر کئے ہیں.ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شر جس کا نام ابلیس یا شیطان ہے.یہ دونوں نیکی اور بدی کی طرف بلاتے ہیں.مگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے اور یہ دونوں انسان میں بطور ابتلاء کے رکھے گئے ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل ہے.اور یہ دونوں داعی خدا تعالی کی تخلیق سے ہیں اور یہ سب انتظام اسی کی طرف سے ہے.اسی لئے اس کو خالق خیر و شر کہا جاتا ہے.ورنہ شیطان کی کیا حقیقت ہے کہ وہ کسی کے دل میں برا وسوسہ ڈالے اور اس کو گمراہ کرے اور روح القدس کیا چیز ہے.جو کسی کو تقویٰ کی راہوں کی طرف ہدایت کرے." (کتاب الاسلام صفحہ ۷ ۴۸)
107 " مضمون ” آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۸۱٬۸۰ کے حاشیہ سے لیا گیا ہے اور ویسے " تو مولف محترم نے بہ عنوان اللہ تعالٰی خالق خیر بھی ہے اور خالق شر بھی." صفحہ ۴۸۶ سے ص ۴۸۹ تک تمام کا تمام آئینہ کمالات اسلام" سے لیا ہے.کہیں حاشیہ اور اصل کتاب کا مفہوم ملا کر کچھ لفظوں کے ردو بدل سے کام لیا ہے.اور اس کتاب کے معارف سے اپنی کتاب کو مزین بنایا ہے.اب چوتھا نمونہ ملاحظہ ہو.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مایہ ناز تصنیف "کشتی نوح" سے نقل کیا گیا ہے."الغرض پنج گانہ نمازیں کیا ہیں.انسان کے مختلف حالات کا فوٹو ہیں.یعنی انسان کے حالات میں پانچ تغیر رونما ہوتے ہیں اور فطرت انسانی کے لئے ان کا واقعہ ہونا ضرو ر ہے....وجہ تعین نماز ظہر.تم کو جس وقت اطلاع ملتی ہے کہ تم پر کوئی مصیبت یا بلا آنے والی ہے.مثلاً عدالت سے وارنٹ جاری ہونے والا.....انسان کی یہ مصیبت کی حالت زوال کے مشابہ ہے.کیونکہ اس سے خوشی کے زوال پر استدلال کیا جاتا ہے....اس لئے اس وقت ظہر کی نماز مقرر کی گئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے." (کتاب الاسلام " صفحه ۶۸۶) وجہ تعین نماز عصر :.دوسرا تغیر تمہاری حالت میں اس وقت ہوتا ہے.جب مصیبت قریب الوقوع ہوتی ہے اور تم بذریعہ گرفتاری وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش کر دیئے جاتے ہو.اس وقت خوف کی وجہ سے تمہارا خون خشک اور تسلی اطمینان کا نور تمہاری سے رخصت ہونے لگتا ہے.اس حالت کو اس وقت سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے جب کہ آفتاب کا نور کم ہوتا ہے.اس پر نظر جم سکتی ہے اور آفتاب نظر آنے لگتا ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ آفتاب اب قریب غروب
108 ہے......اس روحانی اضطراب کے مقابل نماز عصر مقرر ہوئی ہے" "کتاب الاسلام" " صفحه ۶۸۷ YALO وجہ تعین نماز مغرب :.تیرا تغیر تمہاری حالت میں اس وقت ہو تا ہے جب مصیبت سے رہائی پانے کی امید بالکل منقطع ہو جاتی ہے.فرد قرار داد جرم تمہارے نام لگ جاتی.ثبوت کے گواہ تمہاری سزا کے لئے سنا دیئے جاتے اور جرم ثابت ہو جاتا ہے.اس وقت تمہاری حالت بہت بے قراری کی ہوتی ہے.اوسان خطا ہو جاتے ہیں.تم اپنے آپ کو قیدی سمجھنے لگتے ہو.یہ حالت ہو جاتی ہے.دن کی روشنی کی تمام ہوسناک امیدیں ختم ہو جاتی ہیں....اسی روحانی حالت کے مقابل نماز مغرب مقرر ہوئی....وجہ لعین نماز عشاء چو تھا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جب کہ مصیبت تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے.اور بلا کی تاریکی تم پر احاطہ کر ہی لیتی ہے.فرد قرار داد جرم اور ثبوتی شہادتوں کے بعد سزا کا حکم تم کو سنا دیا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولیس مین کے تم حوالے کر دیئے جاتے ہو.....یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے.جب کہ رات کی تاریکی آ جاتی ہے.ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے......اس روحانی حالت کے مقابلہ پر نماز عشاء مقرر ہوتی ہے.رجہ تعین نماز فجر پانچواں تغیر تم پر اس وقت آتا ہے.جب تم ایک مدت کی قید کے بعد نیک چلنی کی رہائی حاصل کر کے جیل سے خلاص ہوتے ہو اور پھر اطمینان کے ساتھ خوشی اور مسرت سے ہمکنار ہوتے ہو.اس حالت کو اس وقت سے مشابہ کہا جاتا ہے.کہ مدت تک ہے.انسان مصیبت کی تاریکی میں بسر کر کے رات گزارتا ہے اور بالا خر خدا تعالی کو اس پر رحم آ جاتا ہے.تاریکی سے نجات ملتی ہے اور صبح نکل
109 آتی ہے اور پھر روشنی اپنی اصلی چمک کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.اس روحانی حالت کے مقابل فجر کی نماز مقرر ہوئی.خدا تعالٰی نے انسان کی فطری تغیرات کو ملحوظ رکھ کر پانچ نمازیں مقرر کی ہیں." (کتاب الاسلام صفحه ۶۸۸) یہ مضمون «کشتی نوح» صفحه ۶۳ و صفحه ۶۴ پر تحریر ہے.بعض جگہ مولف محترم نے کوئی کوئی لفظ کم و بیش کر دیا ہے.جس سے مضمون کی روانی اور زور کچھ کم ہو گیا ہے.اور کہیں مفہوم خبط ہو گیا ہے.حسب ذیل مضامین اس کے علاوہ ایسے ہیں.جو مولف مذکور نے کتب ہائے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے نقل کئے ہیں:.نام عنوان صفحه کتاب الاسلام نام کتاب حضرت مسیح موعود نمبر صفحه اسلام کے اصطلاحی معنی ۳۲ آئینہ کمالات اسلام ص ۵۸ آئینہ کمالات اسلام ص ۸۸ سچا مسلمان کون ہے ٣٣ وحی کی ضرورت و حکمت ۲۶۹٬۲۶۸ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۱۰۸ علم کے اقسام عالم برزخ کی حقیقت عذاب قبر کا نمونه ۴۹۳ پانچواں باب.اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۱۱۰.۴۹۳٬۴۹۱ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۸۶ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۸۸ اسلامی اخلاق و آداب ص ۱۰۵۴ تا ۱۰۵۶ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۱۵۴۵ حقیقت اخلاق ص ۱۰۵۶٬۱۰۵۴ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۱۶ تا ۲۰ ایصال خیر ص ۱۰۶۶ تا ۱۰۶۷ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۲۶ تا ۴۹ اخلاق کے دو قسم ترک شر.اس دنیا میں اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت ص۱۰۶) فیوض ربانی کے حصول کا طریق اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۶۵۶۴٬۶۳
110 استقامت ، ترک دنیا ص ۱۱۰۸٬۱۱۰۷ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۶۷۶۶۴۶۵ قرآنی مفہوم ص ۱۰۹ الغایت ۱۱۱۲ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۹۸٬۶۸۶۷ اسلامی اصول کی فلاسفی ص ۹۹ تا ۱۰۲ پہلا وسیلہ لغایت ساتواں وسیلہ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کی گو مولف محترم نے سیدنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا حوالہ دینا کسی جگہ بھی مناسب نہیں خیال فرمایا.تاہم مولف مذکور نے حضور علیہ السلام کے پیش فرمودہ علوم کو اپنی کتاب میں جگہ دے کر ان کی اشاعت میں حصہ لیا ہے.اس لحاظ سے ہم ان کے ممنون ہیں.حضور کے پیش کرده فرموده علوم ہی در حقیقت موجودہ زمانہ میں اسلام اور قرآن پاک کی حقیقی فضیلت ثابت کر سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے فضل سے مقبول ہو رہے ہیں.یہ الگ بات ہے کہ ابھی اس کا اعتراف کرنے سے گریز کیا جاتا ہے" (روزنامه المصلح کراچی ۲۳ فروری ۱۹۵۴ء صفحه ۳) ۷ مجد والملت، حکیم الامت جامع المجددین "مولانا" اشرف علی صاحب تھانوی ولادت ۱۲ ربیع الاول ۱۲۸۰ھ مطابق ۱۹ مارچ ۱۸۶۳ ء وفات ۱۶ رجب ۱۳۶۲ھ بمطابق ۱۹ جولائی ۱۹۴۳ء) ممتاز عالم دین، صوفی اور متکلم و مفسر مولانا کو حکیم الامت مجدد الملت، جامع المجددین اور علوم ظاہری و باطنی کا ماہر وغیرہ القاب سے یاد کیا جاتا ہے.شاہکار انسائیکلو پیڈیا کے مدیر شہیر جناب سید قاسم محمود رقمطراز ہیں.مولانا کی تصانیف کی تعداد آٹھ سو کے قریب ہے.تصانیف کی تعداد کے لحاظ سے وہ امام ابن جریر طبری امام فخر الدین رازی حافظ ابن جوزی اور حافظ جلال الدین ، *
111 سیوطی کے زمرے میں شامل کئے جاسکتے ہیں." (انسائیکلو پیڈیا جلد صفحہ ۱۷۱) مولانا مرنجان مرنج طبیعت کے حامل بزرگ تھے.آپ کا شمار برصغیر کے ان مشاہیر علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے تحریک پاکستان کے دوران سنہری خدمات انجام دیں.آپ نزاعی مباحث اور اختلافی مسائل کو متانت تحمل اور کھلے دل سے غور و فکر کے خوگر تھے اور اپنے عقائد میں متشدد ہونے کے باوجود اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے تھے.(الا ماشاء اللہ) ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۵۰ھ (۲۹) جنوری ۱۹۳۲ء) کا ذکر ہے کہ آپ کی مجلس " میں ایک صاحب نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی نبوت کا ذکر کیا " فرمایا آپ تو نبوت کے دعوی پر اس قدر تعجب کر رہے ہیں لوگوں نے خدائی کے دعوے کئے ہیں." الافاضات الیومیہ حصہ اول صفحه ۲۶۶ مطبوعه اداره تألیفات اشرفیہ، جامعہ اشرفیه فیروز پور روڈ لاہور) علامہ عبد الماجد دریا بادی فرماتے ہیں:." غالبا ۱۹۳۰ء تھا.حکیم الامت تھانوی کی محفل خصوصی میں نماز چاشت کے وقت حاضری کی سعادت حاصل تھی.ذکر مرزائے قادیانی اور ان کی جماعت کا تھا اور ظاہر ہے ذکر " ذکر خیر" نہ تھا.حاضرین میں سے ایک صاحب بڑے جوش سے بولے.حضرت ان لوگوں کا دین بھی کوئی دین ہے نہ خدا کو مانیں نہ رسول کو.حضرت نے معالجہ بدل کر ارشاد فرمایا کہ " یہ زیادتی ہے توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں.اختلاف رسالت میں ہے اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں.بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہئے.جو شخص ایک جرم کا مجرم ہے یہ تو ضرور نہیں کہ دوسرے جرائم کا بھی." ارشاد نے آنکھیں کھول دیں اور صاف نظر آنے لگا.يايها الذين امنوا لا يجرمنکم شنان قوم علی ان
112 لا تعدلوا اعدلوا هو اقرب للتقوى اے مسلمانو کسی گروہ کی مخالفت تم کو اس بات پر نہ آمادہ کر دے کہ تم بے انصافی پر اتر آؤ.انصاف پر قائم رہو کہ یہی قرین تقوی ہے.کے حکم پر عمل کے کیا معنی ہیں.یہ موضوع اس ایک بار نہیں بار بار مختلف صحبتوں میں چھڑا.مولانا نے جب جب تنقید فرمائی.علمی اور : بلند ہی رنگ میں فرمائی....ذاتی طنز و تشنیع کے فقرے ایک بار کے بھی یاد نہیں پڑتے." سچی باتیں" صفحہ ۲۱۳ از علامه عبد الماجد دریا بادی مرحوم.ناشر.نفیس اکیڈمی اسٹریچن روڈ کراچی نمبرا طبع دوم اگست ۱۹۸۲ء) مولانا تھانوی کے اسی مسلک کے پیش نظر علامہ دریا آبادی نے ایک سنی المشرب عالم دین کا فاضلانہ مقالہ شائع کیا جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ عقیدہ ختم رسالت میں ہمارا احمدیوں سے اختلاف صرف شخصیت میں ہے.” دونوں ہی مسیح موعود کی نبوت کے قائل ہیں.دونوں ہی کا عقیدہ ہے کہ خاتم المرسلین " کے بعد مسیح موعود نبی ہو کر آئیں گے.اب یا تو دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں یا دونوں ہی اس الزام سے بری ہیں.مرکزی نقطہ مسیح موعود کی نبوت ہے اور اس پر دونوں ہی کا اتفاق ہے." صدق جدید لکھنو ۵ نومبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۷ ) ان چند تعارفی الفاظ کے بعد ہم بتاتے ہیں کہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی ایک مشہور کتاب ہے احکام اسلام.عقل کی نظر میں.عکس صفحات 26 تا 220 کتاب خدا پرا " یہ کتاب پہلی بار تقسیم ہند سے قبل دار الاشاعت دیوبند (یوپی) کے ذیلی ادارہ اشرف العلوم نے شائع کی تھی اور بہت مقبول ہوئی.پاکستان میں اس کی اشاعت مئی ۱۹۷۸ء میں ہوئی.جناب مولانا محمد عثمانی صاحب نے جن کے زیر اہتمام پاکستانی ایڈیشن زیور طبع سے آراستہ ہوا، ناشر کی حیثیت سے اس کے صفحہ ۴ پر حسب ذیل نوٹ لکھا.
113 " حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کو اللہ تعالٰی نے حقیقت میں امت کا نبض شناس اور ان کی اصلاح و علاج کے لئے حکیم بنایا تھا.آپ حقیقت میں خیلی وقت اور اس دور کے غزالی اور رازی تھے.گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ میں آپ کی مفید و مقبول تصانیف سے ملت اسلامیہ کو جو فوائد حاصل ہوئے وہ ہر دیندار مسلمان پر اظہر من الشمس ہیں....تصانیف کی طویل فہرست میں ایک بہت اہم اور مفید تصنیف المصالح العقلیہ لاحکام العقلیہ ہے.جس میں تمام شرعی احکام کی عقلی حکمتیں و مصلحتیں اور احکام الیہ کے اسرار و رموز اور فلاسفی ظاہر کی گئی ہے اور عام فہم انداز میں ثابت کیا ہے کہ تمام احکام شریعت عین عقل کے مطابق ہیں.کتاب کے تینوں حصوں کی ترتیب فقہی ابواب پر رکھی گئی ہے.یہ کتاب تقسیم ہند سے قبل ۱۳۶۸ھ میں ادارہ اشرف العلوم (جو دار الاشاعت دیوبند یو پی انڈیا کا ذیلی ادارہ تھا) سے شائع ہو کر قبولیت عام حاصل کر چکی ہے.لیکن افسوس کہ پاکستان میں اس کی طباعت کا موقع نہ مل سکا.اب خدا کا شکر ہے کہ یہ کتاب احکام اسلام عقل کی نظر میں" کے عام فہم نام کے ساتھ دار الاشاعت کراچی نمبر سے پھر شائع کی جارہی ہے." اس مقبول عام " تصنیف کے اہم ماخذ میں سرفہرست بانی سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر ہے جس کے بکثرت فقرے ہی نہیں صفحوں کے صفح خفیف سے تصرف کے ساتھ لفظاً لفظاً زینت کتاب ہوئے ہیں اور اپنی قوت و شوکت کے انوار کی بدولت ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں.جیسا کہ ہ تفصیل سے عیاں ہو گا.پنجوقتہ نمازوں کا فلسفہ (۱) حضرت اقدس نے کشتی نوح (ص ۶۵۶۳) میں پنجوقتہ نمازوں کا حسب ذیل 1
114 " الفاظ میں نہایت لطیف فلسفہ بیان فرمایا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں:.پنج گانہ نمازیں کیا چیز ہیں.وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں.جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے ان کا وارد ہونا ضروری ہے.(۱) پہلے جب کہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا.یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوش حالی میں خلل ڈالا.سو یہ حالات زوال کے وقت سے مشابہ ہے.کیونکہ اس سے تمہاری خوش ہے.اپر حالی میں زوال آنا شروع ہوا.اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے عمل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو.مثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقصود ہوئی.(۳) تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی کلی امید منقطع ہو جاتی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے آپ کو ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو
115 جاتی ہیں.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب بلا تم پر وارد ہو ہی جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے.مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنا دیا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولیس مین کے تم حوالے کئے جاتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطری تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو پنج گانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور تغیرات کا ظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاء و قدر تمہارے لئے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے موٹی کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے." (کشتی نوح ص ۶۳ - ۶۵ طبع اول ۱۹۰۲ء) یہ سارا اقتباس کتاب احکام اسلام" صفحہ ۴۹ سے ۵۱ یک درج ہے.
116 اسلام کا فلسفہ اخلاق حضرت اقدس اپنی مشہور کتاب «نسیم دعوت میں اسلام کے فلسفہ اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: "انسان کی فطرت پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مختلف قوئی اس غرض سے دیئے گئے ہیں کہ تاوہ مختلف وقتوں میں حسب تقاضا محل اور موقعہ کے ان قویٰ کو استعمال کرے.مثلاً انسان منجملہ اور خلقوں کے ایک خلق بکری کی فطرت سے مشابہ ہے اور دوسرا خلق شیر کی صفت سے مشابہت رکھتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انسان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بکری بننے کے محل میں بکری بن جائے اور شیر بننے کے محل میں شیر ہی بن جائے اور جیسا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہر وقت انسان سوتا ہی رہے یا ہر وقت جاگتا ہی رہے یا ہر دم کھاتا ہی رہے یا ہمیشہ کھانے سے منہ بند رکھے.اسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی اندرونی قوتوں سے صرف ایک قوت پر زور ڈال دے اور دوسری قوتیں جو خدا کی طرف سے اس کو ملی ہیں ان کو لغو سمجھے.اگر انسان میں خدا نے ایک قوت حلم اور نرمی اور درگزر اور صبر کی رکھی ہے تو اسی خدا نے اس میں ایک قوت غضب اور خواہش انتقام کی بھی رکھی ہے.پس کیا مناسب ہے کہ ایک خدا داد قوت کو تو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے اور دوسری قوت کو اپنی فطرت میں سے بکلی کاٹ کر پھینک دیا جائے.اس سے خدا پر اعتراض آتا ہے کہ گویا اس نے بعض قوتیں انسان کو ایسی دی ہیں جو استعمال کے لائق نہیں.کیونکہ یہ مختلف قوتیں اسی نے تو انسان میں پیدا کی ہیں.پس یاد رہے کہ انسان میں کوئی بھی قوت بری نہیں ہے بلکہ ان کی بد استعمال بری ہے.سوانجیل کی تعلیم نہایت ناقص ہے جس میں ایک
117 1 ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے.علاوہ اس کے دعوئی تو ایسی تعلیم کا ہے کہ ایک طرف طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیں مگر اس دعوی کے موافق عمل نہیں ہے.مثلاً ایک پادری صاحب کو کوئی طمانچہ مار کر دیکھے کہ پھر عدالت کے ذریعہ سے وہ کیا کارروائی کراتے ہیں.پس یہ تعلیم کس کام کی ہے جس پر نہ عدالتیں چل سکتی ہیں.نہ پادری چل سکتے ہیں.اصل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو حکمت اور موقعہ شناسی پر مبنی ہے.مثلاً انجیل نے تو یہ کہا کہ ہر وقت تم لوگوں کے طمانچے کھاؤ اور کسی حالت میں شر کا مقابلہ نہ کرو مگر قرآن شریف اس کے مقابل پر یہ کہتا ہے.جزاء سینه سینه مثلها فمن عفا واصلح فاجره على الله - یعنی اگر کوئی تمہیں دکھ پہنچا دے.مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کر دو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیدا ہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے.یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آ جائے تو اس صورت میں معاف کرنا بھی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا ا خدا سے اجر ملے گا.اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو او ر انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا.سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے.رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقع گرم اور سرد غذا ئیں بدلتے رہتے اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں.ነ
118 سيس پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے وہاں نرمی اور در گزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے.غرض ہر ایک وقت اور ہر مقام ایک بات کو چاہتا ہے.پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا.وہ حیوان ہے نہ انسان اور وہ وحشی ہے نہ مہذب - ce (نسیم دعوت صفحہ ۷۱ - ۷۲ طبع اول ۱۹۰۳ء) یہ روح پرور مضمون مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی کتاب " احکام اسلام.عقل کی نظر میں" کے صفحہ ۲۲۳ اور ۲۲۴ میں اول سے آخر تک بعینہ نقل شدہ موجود ہے.حرمت خنزیر کا فلسفہ - کتاب احکام اسلام " (صفحہ ۲۰۴) میں ” وجوہ حرمت خنزیر" کے زیر عنوان حسب ذیل عبارت مندرج ہے جو حضرت اقدس کی معرکہ آراء کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی" کے صفحہ ۲۴ ( طبع اول) سے مستعار لی گئی ہے:..اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے عزت اور دیوث ہے.اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہوتا ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا.جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت
! 119 بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوٹی کا بڑھاتا ہے." " اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه ۲۴ طبع اول ۱۸۹۷ء) " عفت کے اسلامی خلق کا فلسفہ - اسلامی اصول کے فلاسفی میں حضرت اقدس نے عفت کے اسلامی خلق اور اسلامی پردہ کی حقیقت و حکمت بھی نہایت وضاحت سے بیان فرمائی ہے.جو مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے حضور کا حوالہ دیئے بغیر حضور ہی کے الفاظ میں شامل کتاب فرمائی ہے جو یہ ہے:.”قل للمومنين يغضوا من أبصارهم و يحفظوا فروجهم ذالک ازكى لهم وقل للمومنت يغضضن من ابصارهن و يحفظن فروجهن ولا يبدين زينتهن الا ماظهر منها وليضربن نخمرهن على جيوبهن.....و لا يضربن با رجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن وتوبوالى الله جميعا ايها المومنون لعلكم تفلحون - ولا تقربوا الزنى انه كان فاحشه وساء سبيلا وليستعفف الذين لا يجدون نكاحا ورهبانیه ن ابتدعوها ما كتبنا عليهم الا ابتغاء رضوان الله فمارعوها حق رعايتها یعنی ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھ کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور پر نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بے گانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے.ان کے حسن کے قصے نہ سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں
120 سے بچائیں.یعنی ان کی پر شہوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے.یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے.اور دوسرا طریق بچنے کے لئے یہ ہے کہ خدائے تعالی کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعا کریں تا ٹھوکر سے بچاوے اور لغزشوں سے نجات دے.زنا کے قریب مت جاؤ.یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو.جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.زنا کی راہ بہت بری ہے.یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطرناک ہے اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے.مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے اور لوگوں نے یہ بھی طریق نکالے ہیں کہ وہ ہمیشہ عملاً نکاح سے دست بردار ہیں یا خوجے نہیں اور کسی طریق سے رہبانیت اختیار کریں مگر ہم نے انسان پر یہ حکم فرض نہیں کئے اس لئے وہ ان بدعتوں کو پورے طور پر نبھا نہ سکے.خدا کا یہ فرمانا کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خوبے بنیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر خدا کا حکم ہوتا تو سب لوگ اس حکم پر عمل کرنے کا مجاز بنتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کر کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو جاتا اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنی ہو کہ عضو مردمی کاٹ دیں تو یہ در پردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے یہ عضو بنایا اور نیز جب کہ ثواب کا تمام مدار اس بات میں ہے کہ ایک قوت موجود ہو اور پھر انسان خدائے تعالی کا خوف کر کے اس قوت کے خراب جذبات کا مقابلہ کرتا رہے اور اس کے منافع سے فائدہ اٹھا کر دو طور کا ثواب حاصل کرے.پس ظاہر ہے کہ ایسے عضو کو ضائع کر دینے میں دونوں ثوابوں سے محروم رہا.ثواب تو جذ بہ مخالفانہ کے وجود اور...
121 پھر اس کے مقابلہ سے ملتا ہے.یعنی جس میں بچہ کی طرح وہ قوت ہی نہیں رہی.اس کا کیا ثواب ملے گا.کیا بچہ کو اپنی عفت کا ثواب مل سکتا ہے.ان آیات میں خدا تعالٰی نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دئے ہیں.یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا.کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا.نامحرموں کے قصے نہ سننا اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا.اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعوئی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے.یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں.اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے نہیں.بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے ہر گز نہ سئیں نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سنے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھو کر نہ کھاویں کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ
122 بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.اگر ہم بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر ہم امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قومی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے.اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس ـ بد خطرات جنبش کر سکیں.اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے.یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالاخر یہ بھی یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا.اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے، اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا.یہی وہ خلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں." (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۳۰٬۲۷ ( طبع اول ۱۸۹۷ء) اسلامی نکاح کا فلسفہ - حضرت اقدس کی کتاب "آریہ دھرم " کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں حضور نے متعدد مقامات پر اسلامی نکاح کی حقیقی فلاسفی پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے اسلام کے ازدواجی نظام کی برتری روز روشن کی طرح نمایاں ہو جاتی ہے.اس سلسلہ میں آریہ دھرم کے تین اقتباسات ہدیہ قارئین کرتا ہوں.ان میں اول الذکر "
123 رو و اقتباس کتاب احکام اسلام" کے صفحہ نمبر ۱۲۶ ۱۲۷ پر اور تیسرا اقتباس صفحہ ۱۵۷ ۱۵۸ پر موجود ہے.پہلا اقتباس " قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں.نه ایک عفت اور پر ہیز گاری.دوسری حفظ صحت.تیسری اولاد اور پرہیز پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے.ولیستعفف الذين لا يجدون نكاحاحتی يغنيهم الله من فضله (الجزو نمبر ١٨ سورة النور ) یعنی جو لوگ نکاح کی طاقت رکھیں جو پر ہیز گار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو ان کو چاہئے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں.چنانچہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں آنحضرت می فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے پر ہیز گار رہنے کے لئے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ہے.یا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فانه اغض للبصر و احصن للفرج و من يستطع فعليه بالصوم فانه وجاء (صحیح مسلم و بخاری) یعنی اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے ور نہ روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے.رنہ ) آریہ دھرم صفحه ۱۹ طبع اول ۱۸۹۵ء) دوسرا اقتباس ”محصنين غير مسافحين الجزء نمبر ۵.یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو." آریہ دھرم صفحه ۱۹ طبع اول ۱۸۹۵ء) تیسرا اقتباس " مهر مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے اور تعمد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور و و
1 124 عورت کی طرف سے عفت اور پاک دامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں.ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے.جیسا کہ وہ خود بخود نکاح کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو تو ڑا سکتی ہے.جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے.لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے.سو یہ قانون فطرتی قانون سے ایسی مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اس کی عکسی تصویر ہے.کیونکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر ایک معاہدہ شرائط قرار داده کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے.جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کی زندگی بسر کرتا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو ، وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے.لہذا طلاق ایک پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بد اثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بدچلنی سے تو ڑ دے تو وہ اس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہو گیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت نہیں ہے اور نہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو اکھیڑ دیا.
125 جائے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جائے.یہ سب کارروائی قانون قدرت کے موافق ہے.عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر کا لیکن تاہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کسی ایسی آفت میں مبتلا ہو جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان بچانے کے لئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بد چلنی اور کسی مہاں پاپ سے تیرے پر و بال لائے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سٹر گیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور گھر سے باہر پھینک دے.ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے اور تجھے ہلاک کرے پھر اگر اس کائے ہوئے اور زہریلے جسم کو کوئی پرند کھالے تو تجھے اس سے کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اسی وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جب کہ تو نے اس کو کاٹ کر پھینک دیا." آریہ دھرم صفحه ۳۲ - ۳۳ طبع اول ۱۸۹۵ء) ) -۶.سرسید احمد خان بانی علی گڑھ کالج دعاؤں کی قبولیت اور قبولیت دعا کا فلسفہ تاثیر کے قائل نہیں تھے.جیسا کہ ان کی تفسیروں اور لیکچروں اور مضامین سے ماہر ہے.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ عہد حاضر کی وہ منفرد شخصیت ہیں جنہوں نے عقل و نقل اور اپنے روحانی مشاہدات کی روشنی میں " بركات الدعا" جیسی لاجواب کتاب سپرد قلم فرمائی.پوری کتاب مطالعہ کرنے کے لائق ہے بطور نمونہ اس کے دو اقتباس ملاحظہ ہوں.اول ”اگر چہ دنیا کی کوئی خیرو شر مقدر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اس کے حصول کے لئے ایسے اسباب مقرر رکھے ہیں جن کے صحیح اور بچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں مثلاً اگر چہ مقدر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا در حقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دعا یا ترک دعا.مگر کیا سید صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دعاؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا.پھر اگر سید صاحب 4
126 با وجو د ایمان بالتقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالٰی کے یکساں اور متشابہ قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟ کیا سید صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خدا تعالٰی اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سناء اور حب الملوک میں تو ایسا قوی اثر رکھ دے کہ ان کی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلا سم الفار اور بیش اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہاں سے رخصت کر دے.لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرہ بھی اثر ہوا.کیا یہ ممکن ہے کہ نظام الہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالٰی نے دعاؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا تھا وہ دعاؤں میں مرغی نہ ہو ؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں !! بلکہ خود سید صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں اور ان کی اعلیٰ تاثیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القومی دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام حکم لگا دے کہ اس میں کچھ بھی تاثیر نہیں." "بركات الدعا" صفحہ ۷ - ۸) دوم ” میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے.کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے یا ان کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی ان کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے ؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں مثلاً اگر ایک
127 بیمار کی تقدیر نیک ہو ، اسباب تقدیر علاج پورے طور پر میسر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ ہو ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے.تب دوا نشانہ کی طرح جاکر اثر کرتی ہے.یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے.یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں.جہاں ارادہ الہی اس کے قبول کرنے کا ہے." "بركات الدعا" صفحہ ۱۱.(۱۲) جناب حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے ” برکات الدعا" کے مندرجہ بالا دونوں اقتباسات اگر چه نہایت اہتمام کے ساتھ اپنی مقبول " عام کتاب کے صفحہ ۸۴-۸۵ پر "حقیقت دعاء وقضا" کے عنوان سے قلم بند فرما دئے ہیں.مگر جس جس فقرے میں سرسید کا نام تھا اس کو "کمال فطانت و ذہانت" سے دوسرے الفاظ میں بدل ڈالا ہے.و قبور سے تعلق ارواح مندرجہ بالا عنوان سے احکام اسلام" کے صفحہ ۲۶۲ سے صفحہ ۲۶۵ تک ایک نہایت لطیف مضمون بیان ہوا ہے جو اول سے آخر تک براہ راست حضرت اقدس کے ان ملفوظات سے ماخوذ ہے جو آج سے قریباً اسی سال قبل اخبار الحکم میں شائع ہوئے تھے حضور نے فرمایا :.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اللہ میل و عمل میں آیا ہے.وہ بالکل سچ اور درست ہے.ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور کنہ کیا ہے ؟ جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں.البتہ یہ ہمارا فرض ہو سکتا ہے کہ ہم یہ ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی محال عقلی لازم نہیں آتا اور اس کے لئے ہم اللہ تعالی کے قانون قدرت میں ایک نظیر پاتے ہیں.در حقیقت یہ امر اس قسم کا
128 ނ ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض امور کی سچائی اور حقیقت صرف زبان ہی معلوم ہوتی ہے اور اس کو ذرا وسیع کر کے ہم یوں کہتے ہیں کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے اللہ تعالی نے مختلف طریقے رکھے ہیں.بعض خواص آنکھ کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض صداقتوں کا پتہ صرف کان لگاتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ حس مشترک سے ان کا سراغ ملتا ہے اور کتنی ہی سچائیاں ہیں کہ وہ مرکز قومی یعنی دل سے معلوم ہوتی ہیں.غرض اللہ تعالٰی نے صداقت کے معلوم کرنے کے لئے مختلف طریق اور ذریعے رکھے ہیں.مثلاً مصری کی ایک ڈلی کو کان پر رکھیں تو وہ اس کا مزہ معلوم نہ کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ کو بتا سکیں گے.ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے تو وہ اس کے ذائقہ کے متعلق کچھ نہ کہہ سکے گی.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے مختلف قومی اور طاقتیں ہیں.اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنا ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں.یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں تو کب ممکن ہے.آج کل کے فلسفی مزاج لوگوں کو یہ بڑا دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے کسی صداقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں.روز مرہ کے کاموں میں دیکھا جاتا ہے کہ سب کام ایک شخص نہیں کرتا بلکہ جداگانہ خدمتیں مقرر ہیں.سقہ پانی پلاتا ہے.دھوبی کپڑے صاف کرتا ہے.باورچی کھانا پکا تا ہے.غرضیکہ تقسیم محنت کا سلسلہ ہم انسان کے خود ساختہ نظام میں بھی پاتے ہیں.پس اس اصل کو یا د رکھو کہ مختلف قوتوں کے مختلف کام ہیں.انسان بڑے قومی لے کر آیا ہے اور طرح طرح کی خد متیں اس کی تعمیل کے لئے ہر ایک قوت کے سپرد ہیں.نادان فلسفی ہر بات کا فیصلہ
129 اپنی عقل خام سے چاہتا ہے.حالانکہ یہ بات غلط محض ہے.تاریخی امور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے.اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربہ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا.امور قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی.اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں.انسان دھو کہ میں مبتلا ہو کر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہو جاتا ہے جب کہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف امور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے.میں اس اصول کی صداقت پر زیادہ کہنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ذرا سے فکر سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے اور روز مرہ ہم ان باتوں کی سچائی دیکھتے ہیں.پس جب روح جسم سے مفارقت کرتی ہے یا تعلق پکڑتی ہے تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہو سکتا.اگر ایسا ہو تا تو فلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے.اسی طرح قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے.یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس کی آنکھ کا کام نہیں.یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے.اگر محض عقل سے اس کا پتہ لگانا چاہو تو کوئی عقل کا پتلا اتنا ہی بتلائے کہ روح کا وجو د بھی ہے یا نہیں؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار ہا فلاسفر دہریہ مزاج موجود ہیں جو منکر ہیں.اگر نری عقل کا یہ کام تھا تو پھر اختلاف کا کیا کام ؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ زید کی آنکھ تو سفید چیز کو دیکھے اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے.میرا مطلب یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجود بھی یقینی طور پر نہیں بتلا سکتی.چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کر سکے.فلاسفر تو روخ کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور روح فی الخارج ان کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں.یہ تفاسیر روح کے وجود اور اس کے تعلق و غیرہ کی چشمہ نبوت سے ملی ہیں اور نرے عقل والے تو دعوی ہی نہیں
130 کر سکتے.اگر کہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے تو یاد رکھو کہ انہوں نے منقولی طور پر چشمہ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے.پس جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ روح کے متعلق علوم چشمہ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امر کہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس چشم سے دیکھنا چاہئے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تو دہ خاک سے روح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور السلام علیکم یا اہل القبور کہنے سے جواب ملتا ہے.پس جو آدمی ان قومی سے کام لے جن سے کشف قبور ہو سکتا ہے وہ ان تعلقات کو دیکھ سکتا ہے.ہم ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ایک نمک کی ڈلی اور ایک مصری کی ڈلی رکھی ہو.اب عقل محض ان پر کیا فتویٰ دے سکے گی.ہاں اگر ان کو چکھیں گے تو جدا گانہ مزوں سے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ نمک ہے اور وہ مصری ہے لیکن اگر حس انسان ہی نہیں تو نمکین اور شیریں کا فیصلہ کوئی کیا کرے گا؟ پس ہمارا کام صرف دلائل سے سمجھا دیتا ہے.آفتاب کے چڑھنے میں جیسے ایک اندھے کے انکار سے فرق نہیں آسکتا اور ایک مسلوب القوۃ کے طریق استدلال سے فائدہ نہ شخص اٹھانے سے ان کا ابطال نہیں ہو سکتا.اسی طرح پر اگر کوئی آنکھ نہیں رکھتا تو وہ اس تعلق ارواح کو کیونکر دیکھ سکتا ہے ؟ پس محض اس لئے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا اس کا انکار جائز نہیں ہے.ایسی باتوں کی پتہ نری عقل اور قیاس سے کچھ نہیں لگتا.اللہ تعالی نے اس لئے انسان کو مختلف قوی دئے ہیں.اگر ایک ہی سب کام دیتا تو پھر اس قدر قوی کے عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ بعض کا تعلق آنکھ سے اور بعض کا کان سے ، بعض زبان سے متعلق ہیں اور بعض ناک سے.مختلف قسم کی حسیں انسان رکھتا ہے.قبور کے ساتھ تعلق ارواح دیکھنے کے لئے کشفی
131 قوت اور جس کی ضرورت ہے.اگر کوئی کہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ غلط کہتا ہے.انبیاء علیہم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑہا اولیاء صلحاء کا سلسلہ دنیا میں گزرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بے شمار لوگ ہو گزرے ہیں اور وہ سب اس امر کی زندہ شہادت ہیں گو اس کی اصلیت اور تعلقات کی وجہ عقلی طور پر ہم معلوم کر سکیں یا نہ مگر نفس تعلق سے انکار نہیں ہو سکتا.غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کئے دیتے ہیں.کان اگر نہ دیکھ سکیں تو ان کا کیا قصور ؟ وہ اور قوت کا کام ہے.ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ روح کا تعلق قبر کے ساتھ ضرور ہوتا ہے.انسان میت سے کلام کر سکتا ہے.روح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اس کے لئے ایک مقام ملتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے.ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے.یہ مسئلہ عام طور پر مسلمہ مسئلہ ہے بجز اس فرقہ کے جو نفی بقائے روح کرتا ہے اور یہ امر کہ کسی جگہ تعلق ہے کشفی قوت خود ہی بتلا دے گی.جیالوجسٹ (عالم علم طبقات الارض) بتلا دیتے ہیں کہ یہاں فلاں دھات ہے اور وہاں فلاں کان ہے......پس یہ بات ایک سچی بات ہے کہ ارواح کا تعلق قبور سے ضرور ہوتا ہے." ا حکم " جلد نمبر ۳ صفحه ۲ - ۳ پرچه ۲۳ جنوری ۱۸۹۹ء) یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ حضرت اقدس کو چونکہ جناب الہی نے آنحضرت میم کی متابعت کی برکت سے کشفی آنکھیں بخشیں اور آسمانی نور سے بہرہ مند فرمایا تھا.اس لئے آپ نے ارواح کے تعلق قبور کا ذکر کرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ ”ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں مگر کتاب احکام اسلام کے مصنف کو " ایسا کوئی دعوئی نہیں تھا نہ ہو سکتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی کتاب میں حضرت اقدس کے ملفوظات کا طویل اقتباس نقل کرتے ہوئے اس سے متعار الفاظ بالکل قلم زن فرما :
132 دیئے.تجلی اعلیٰ کا دن کتاب کے صفحہ ۲۶۱ پر مولانا صاحب تحریر فرماتے ہیں.ایک اور تجلی اعلیٰ کا دن ہے کہ خدا تعالی کی بڑی حکمت نے اس دن کے ظاہر کرنے کا تقاضا کیا ہے کیونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ اپنی خالقیت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر وہ سب کو ہلاک کرے گا تاکہ وہ اپنی قہاریت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر ایک دن سب کو کامل زندگی بخش کر ایک میدان میں جمع کرے گا تا کہ وہ اپنی قادریت کے ساتھ پہچانا جائے." یہ لطیف عبارت بجنسه حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی معرکہ آرا تألیف اسلامی اصول کی فلاسفی" کے صفحہ ۹۴ پر موجود ہے.مندرجہ بالا تفصیلات منظر عام پر لانے کے بعد ہم آخر میں جناب مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے ملفوظات میں سے ایک نہایت دلچسپ اور پر لطف واقعہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں.لکھا ہے.ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان قادیانیوں کی کوئی کتاب وغیرہ چرالے جائز ہے یا نہیں اس لئے کہ مرتد ہیں.جواب میں فرمایا کہ مسئلہ تو کتاب میں دیکھا جائے مجھ کو اس وقت یاد نہیں.ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسی چوری کرنے کی میری تو نیت نہیں." " الافاضات الیومیہ " حصہ اول صفحه (۱۳) اس حیرت انگیز انکشاف کارد عمل یوں تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے نکلا ہوا پورا لٹریچر ہی شهنشاه نبوت می کی ابدی تاثیرات کا آئینہ دار ہے مگر حضور کا لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی" تو فیضان نبوی کا زندہ اور تابندہ اعجازی نشان بھی ہے جس کی سطر سطر پر حضور
133 نے دعا کی اور جس کے لفظ لفظ سے علم و معرفت کے سمندر موجیں مار رہے ہیں.یہی وہ پر معارف کتاب ہے جس کے انوار و برکات کی چمکار کو دیکھ کر مخالفین احمدیت کی نگاہیں بھی حیرت زدہ ہو گئی ہیں اور جناب مولانا اشرف علی صاحب تھانوی جیسے دیو بندی عالم اور نام نہاد "مجلس تحفظ ختم نبوت" کے حکیم الامت" اور "مجدد ملت" نے تو اس سے بھر پور استفادہ کر کے اس کے اقتباسات اپنے نام پر شائع فرمائے ہیں.جیسا کہ گذشتہ سطور کی تفصیلات سے پوری طرح عیاں ہے.یہ حیرت انگیز انکشاف را قم الحروف نے آج سے تیرہ سال قبل اخبار "الفضل " ربوہ مورخہ ۷۵ مئی ۱۹۸۳ء کے ذریعہ کیا جس پر پاکستان کے ایک نامور اور صاحب طرز ادیب جناب جمیل احمد عدیل نے اپنے مراسلہ ۲۳ جولائی ۱۹۸۳ء میں اس رائے کا اظہار کیا کہ :- " ce ۵ اور ے مئی ۱۹۸۳ء کے "الفضل " میں آپ کی تحقیق بے نظیر دیکھنے کا موقع ملا جو یقیناً چونکا دینے والی بات تھی اور ایک بہت فاضل آدمی کی علمیت کا پول کھولنے کے لئے کافی تھی......آپ کی اس مایہ ناز تحریر سے......دیوبندی مکتبہ فکر میں زلزلہ آ گیا ہے.ازاں بعد پاکستان کے ایک ممتاز بریلوی عالم دین جناب محمد افضل شاہد صاحب نے ایک تنقیدی مقالہ " تھانوی قادیانی کی دہلیز پر " کے زیر عنوان سپرد قلم کیا جو ماہنامہ "القول السدید " لاہور کی متعدد اقساط میں شائع ہوا.فاضل مقالہ نگار نے حضرت مسیح موعود کی عبارات اور تھانوی صاحب کی تحریرات کا نہایت شرح و بسط سے تقابلی جائزہ لیا.ذیل میں بطور نمونہ اس کا صرف وہ حصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے جس کا تعلق لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی" کے ساتھ ہے.جناب محمد افضل شاہد صاحب رقمطراز ہیں :.اسلام میں تو مجددا سے کہا جاتا ہے جو تجدید احیائے دین کا کام کرے اور دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک وہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے.چونکہ امام
: 134 اہل سنت میں یہ شرائط بطریق احسن موجود ہیں اس لئے مجددمان لئے گئے.لیکن شاید گستاخان رسول کے نزدیک مجدد اس کو کہتے ہوں جو اہانت رسول کی چلائی جانے والی تحریک کی تجدید کرے اور چوری جیسے بدترین فعل میں مہارت رکھتا ہو.تو یہ کام تو تھانوی صاحب نے "حفظ الایمان" لکھ کر اور قادیانی کی کتب سے صفحے کے صفحے نقل کر کے انتہائی خوبی سے سرانجام دیا ہے.اس لئے ان کا دعوئی بجا ہے.باقی رہا ھزار سے زیادہ تصانیف والا مسئلہ تو جھوٹ ان کو گھٹی میں پڑا ہے اور یہ لوگ اس مقولے پر سختی سے کاربند ہیں کہ ”جھوٹ اتنی کثرت سے بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے." اول تو یہ متضاد دعوے کر رہے ہیں.ابتداء تو ہزار کتب کا دعوی تھا اور اب اکابر علمائے دیو بند " میں ڈیڑھ ہزار سے زائد کا دعوی کیا گیا ہے.یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ چند دوست ہر روز اکٹھے بیٹھ کر زبانی زبانی حلوہ پکاتے.کوئی کہتا پاؤ پاؤ جنس ہو کوئی کہتا آدھا آدھا کلو.آخر ایک خاموش دوست نے ایک دن تنگ آکر کہا نہیں من من جنس ہونی چاہئے.جب زبانی زبانی ہی پکانا ہے تو تھوڑا کیوں پکاتے ہو.تھانوی کے چیلوں نے بھی سوچا کہ جب زبانی کلامی ہی دعویٰ کرنا ہے تو بلند و بانگ دعوئی کیوں نہ کیا جائے.بہر حال اگر چہ تھانویت اور نجدیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر یہاں صرف تھانوی صاحب کی ان عبارتوں کو سامنے لانا مقصود ہے جو انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب سے چوری کر کے اپنی کتاب میں نقل کیا.۱۸۹۶ء میں ایک ہندو سوامی شوگنا چندر نے "جلسه اعظم مذاہب" کے نام سے لاہور ٹاؤن ہال میں کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں تمام مذاہب کے رہنماؤں کو دعوت دی گئی.ہر ایک کو پانچ پانچ سوالات
135 جن کا جواب انہیں اپنے مذاہب کی تعلیمات کی روشنی میں دینے کو کہا گیا.مرزا غلام احمد قادیانی نے ان سوالات کے جواب پر مشتمل ایک مضمون لکھا جس کو مرزا صاحب کے ایک معتقد مولوی عبد الکریم نے جلسہ میں پڑھ کر سنایا.جس کو بعد میں اسلامی اصول کی فلاسفی " کے نام سے کتابی شکل میں ربوہ سے جو کہ اس وقت میرے سامنے ہے اس کے شروع میں " سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشی" کے عنوان سے جو دعوے کئے گئے مرزا صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں." یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے......جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالی کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے......مجھے خدائے علیم نے الہام نے مطلع فرمایا ہے کہ یہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی.....خدا تعالٰی نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس کے چھونے سے اس محل میں ایک نور ساطع نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا الله اکبر
136.خربت خیبر اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں......سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے.پھر اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا ان الله معك ان الله يقوم اينما قمت.یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.ا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قادیانی کو اس مضمون پر کہ قدر فخر اور اعتماد ہے یقیناً قادیانی امت کے بھی یہی تاثرات ہوں گے.اس مضمون کے تقریباً ۲۰ سال بعد ۱۳۳۵ھ میں تھانوی صاحب نے "المصالح للاحکام النقلیہ" کے نام سے ایک کتاب لکھی.....اس کتاب کو پہلی بار ۱۳۶۸ھ میں ادارہ اشرف العلوم دیو بند نے شائع کیا گیا بعد میں اس کو احکام اسلام عقل کی نظر میں " کے نام سے محمد رضی عثمانی نے اپنے دیباچہ کے ساتھ دار الاشاعت کراچی سے ۱۹۷۷ء میں شائع کیا.میرے پیش نظر اس وقت یہی ایڈیشن ہے.تھانوی صاحب نے قادیانی کی مذکورہ بالا کتاب سے پیراگراف اور صفحے در صفحے اپنی کتاب میں نقل کر ڈالے لیکن کتاب و مصنف کا حوالہ تک نہ دیا.شاید تھانوی صاحب کو یہ خطرہ تھا کہ اگر حوالہ دیا تو کہیں پیرو کار اور مرید نہ بھاگ جائیں.حالانکہ پیرو کار لکیر کے فقیر ہیں جنہوں نے حضور نبی اکرم علی کی شان له مجموعه اشتہارات حضرت مسیح موعود" جلد سوم صفحه ۲۹۳ - ۲۲۴ تا شر الشرکت اسلامیہ لمیٹیڈ ربوہ -
137 اقدس میں تھانوی کی عبارتیں نہ صرف قبول کر لیں بلکہ ان کا پوری قوت سے دفاع کرنے کی کوشش ناکام کی اور کر رہے ہیں.اس واردات میں بھی تھانوی صاحب کا پورا پورا ساتھ دیتے.اگر تھانوی صاحب کے اس طرز عمل پر غور کیا جائے تو تھانوی صاحب قادیانی کے مذکورہ بالا دعوؤں کے کہ یہ الہامی مضمون ہے اور سب پر غالب آئے گا وغیرہ کی اپنے عمل سے تصدیق کرتے ہوئے نظر ! آتے ہیں.یہ بات قابل غور ہے کہ تھانوی صاحب کا اصل مقصد قادیانی کی تعبیر و تشریح کو چوری کرنا تھا.الفاظ کی چوری تو اس لئے کی گئی ہے کہ ان سے بہتر الفاظ کا انتخاب ممکن نہ تھا.ee اس تمہید کے بعد انہوں نے " ترجمہ و تفسیر کی چوری" کے زیر عنوان متعدد واضح مثالیں دینے کے بعد تحریر فرمایا.مذکورہ بالا تھانوی اور قادیانی کی ساری عبارتوں کا بار بار تقابلی مطالعہ کیجئے اور تھانوی صاحب کو داد دیجئے.تھانوی صاحب کے اس کارنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکابر علمائے دیو بند " کے مئولف حافظ محمد اکبر شاہ بخاری کے یہ الفاظ پڑھیئے کہ."بلاشبہ آپ حکیم الامت اور مجدد ملت تھے اور پورے عالم اسلام کے عظیم مذہبی و روحانی پیشوا تھے." (اکابر علمائے دیو بند صفحہ ۴۵) اندھے کو اندھیرے میں بڑے دور کی سوجھی اگر غیر مسلموں کو بقول محمد اکبر شاہ صاحب یہ بتایا جائے کہ چودھویں صدی میں مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی و روحانی پیشوا
138 مولوی اشرف علی تھانوی صاحب تھے اور وہ تھانوی صاحب کی اس بد دیانتی سے واقف ہوں تو ان کے ذہن میں اسلام کا کیا نقشہ آئے گا؟ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا.....عبارتوں کی چوری میں ملوث فن کار کو مسند مجددیت پر بٹھانا ایسے ہی ہے جیسے بلی کو دودھ کی رکھوالی کے لئے بٹھا دیا جائے.جس طرح بلی سے دودھ محفوظ نہیں رہ سکتا اسی طرح ایسے مجدد سے ایمان کو بچانا بھی مشکل ہے.مجھے دیوبندی مکتب کی فکر کی تنظیم ”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت" کے طرز عمل پر بھی حیرت ہے کہ ایک طرف تو وہ قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور " قادیانیوں کا ایک ہی علاج الجهاد الجہاد" کے اسکر چھاپ کر جگہ جگہ چسپاں کر رہے ہیں جس سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن دوسری طرف تھانوی صاحب کی کتاب احکام اسلام عقل کی نظر میں " دیو بندی ہی شائع کر کے عوام تک پہنچا رہے ہیں جس میں مرزا غلام احمد کی کتاب سے عبارتیں چوری کر کے نقل کی گئی ہیں.دیو بندی تنظیم خاموش ہے.کہیں "چور مچائے شور " رو " والا معاملہ تو نہیں ہے.بظاہر الہاد اور اندر سے اتحاد اتحاد" تو نہیں ہے.بصورت دیگر تھانوی کی کتاب سے قادیانی کی عبارتوں کو کیوں نہیں نکالتے یا اس کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے.اس وقت میرے نگاہوں کے سامنے بار بار ” عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت " کا وہ اسکر بھی آ رہا ہے جو جگہ جگہ چسپاں کیا گیا ہے.اس پر یہ الفاظ درج ہیں.
139 "اے مسلمان جب تو کسی مرزائی سے ملتا ہے تو گنبد خضرا میں دل مصطفی میں رکھتا ہے." میں یہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ جب تمہارا حکیم و مجدد تھانوی قادیانی کی کتاب کے صفحے در صفحے چوری کر رہا ہو گا تو اس وقت پیارے مصطفی میں ایک ایک وکیل کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی.کیا وہ خوش ہو رہے ہوں گے.اگر نہیں تو اس پر تمہاری زبانیں کیوں گنگ ہیں؟ لیکن یہ توقع دیوبندی مکتب فکر سے کرنا بہر حال فضول ہے اس لئے کہ یہ لوگ اسلام کو شخصیات کے پیمانے کے ساتھ ماپتے ہیں.جو بات اس پیمانہ پر پوری اترے اس کو حق جانتے ہیں اور جو بات اس پیمانے سے ہٹ کر ہو اس کو مسترد کر دیتے ہیں وہ بات چاہے کتنے ہی دلائل و براہین سے کیوں نہ ہو.پھر اپنے نام نہاد اکابرین کو ناپنے کے لئے ان کے پیمانے بہت بڑے ہیں اور حضور نبی اکرم میلی لی اور آپ کے غلاموں کی عظمت کو ناپنے کے لئے چھوٹے پیمانے استعمال کرتے ہیں.خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد رکھ دیا جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے! اگر تھانوی صاحب کے عقیدت مندوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر بنظر انصاف اس تحریر کا مطالعہ کیا تو وہ بے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ.ع جنين زہیر جنہیں سمجھتے تھے رهزن نکلے لیکن انہوں نے تو بہر حال ہٹ دھرمی سے کام لینا ہے اور یقیناً باطل تاویلات کے بل بوتے پر قسم قسم کی بولیاں بولیں گے کیونکہ ان کا وطیرہ یہ ہے کہ.
140 خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں چونکہ میں ان کے اس طرز عمل سے بخوبی آگاہ ہوں اس لئے میں نے اتمام حجت کے لئے علمائے دیوبند سے فتویٰ حاصل کئے ہیں تاکہ تھانوی صاحب کے حواریوں کے لئے فرار ہونے کے لئے تمام راستے مسدود ہو جائیں.میں نے سوال یہ کیا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا مضمون اپنے نام سے شائع کرا دے یا کسی دوسرے شخص کے مضمون سے جملے اور پیرا گراف اپنے مضمون میں بلا حوالہ نقل کرے تو شرعی لحاظ سے یہ عمل کیا ہے اور ایسے شخص کو کیا سزا دی جا سکتی ہے.دار العلوم تعلیم القرآن راولپنڈی کے مفتی قاضی حبیب الرحمن لکھتے ہیں." جھوٹ کئی قسم کا ہوتا ہے.یہ بھی جھوٹ ہے کہ مضمون کسی کا ہو اور اپنے نام سے شائع کرے.اس کے لئے یہ سزا ہی کافی ہے کہ لعنت الله علی الکذبین باقی ایک جملے یا پیراگراف کا لے لینا اس زمرے میں نہیں آتا.مضامین میں عموماً ایسا ہوتا ہی رہتا ہے." جامعہ اشرفیہ لاہور کے مفتی صاحب لکھتے ہیں.”دھوکہ دہی کا گناہ ہو گا اور سزا دینا تو حکومت کا کام ہے نہ کہ عوام کا." (ماہنامہ " القول السدید " لاہور مئی ۱۹۹۳ء صفحہ ۸۸ تا ۱۰۸)
141 - جناب جی ایم مفتی صاحب مدیر ہفت روزہ قائد مظفر آباد (آزاد کشمیر) جناب جی ایم مفتی صاحب مدیر قائد" نے "عذاب الہی" کے زیر عنوان ۲۳ اگست ۱۹۷۳ء کو ایک اداریہ سپرد قلم فرمایا.(عکس ملاحظہ ہو سوات 221 تا 222 کرنا قیام یہ ادارتی نوٹ دراصل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مشہور و معروف تصنیف کشتی نوح (مطبوعہ (۱۹۰۲ء) کی بعض پر شوکت عبارتوں کا مرقع تھا جسے نہایت عمدگی اور نفاست کے ساتھ ایک حسین گلدستہ کی صورت دے دی گئی.اس حقیقت کے ثبوت کے لئے ہم ذیل میں اصل کتاب کے متعلقہ اقتباسات ہدیہ قارئین کرتے ہیں.پہلا اقتباس ” دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں.بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو " بان ، نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی..تم یا کاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے.کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا نے، اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو ؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ.اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر یا ریا ہے.یا خود پسندی ہے.یا کسل ہے.تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھو کا دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے.اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں گا.زندہ کرے گا.(صفحہ ۱۱ (۱۲)
142 "کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا دوسرا اقتباس ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوش خبری کو دلوں میں بٹھا دوں؟ کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تالوگ سن لیں؟ اور کسی دوا سے میں علاج کروں تانے کے لئے لوگوں کے کان تیسرا اقتباس کھلیں ؟" (صفحہ ۱۹ - ۲۰) کھلیں؟" "اے نادانو ! وہ جو خود اندھا ہے وہ تمہیں کیا راہ دکھائے گا؟ بلکہ سچا فلسفہ روح القدس سے حاصل ہوتا ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.تم روح کے وسیلہ سے ان پاک علوم تک پہنچائے جاؤ گے جن تک غیروں کی رسائی نہیں.اگر صدق سے مانگو تو آخر تم اسے پاؤ گے.تب سمجھو گے کہ یہی علم ہے جو دل کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے اور یقین کے مینار تک پہنچا دیتا ہے.وہ جو خود مردار خور ہے وہ کہاں سے تمہارے لئے پاک خدا لائے گا؟ وہ جو خود اندھا ہے وہ کیونکر تمہیں راہ دکھلاوے گا؟ ہر ایک پاک حکمت آسمان سے آتی ہے.پس تم زمینی لوگوں سے کیا ڈھونڈتے ہو ؟ جن کی روحیں آسمان کی طرف جاتی ہیں وہی حکمت کے وارث ہیں جن کو خود تسلی نہیں وہ کیونکر تمہیں تسلی دے سکتے ہیں ؟ مگر پہلے دلی پاکیزگی ضروری ہے پہلے صدق و صفا ضروری ہے.بعد اس کے یہ سب کچھ تمہیں ملے گا.(صفحه ۲۲) "کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت چوتھا اقتباس زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو ؟ کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو
143 جس جگہ کسی کوہ آتش فشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے.یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے ؟ یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک ملک طاعون نسل انسان کو معدوم کر رہی ہے ؟ پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے.جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اس سے تعلق توڑ سکو.“ (صفحه (۶۱) پانچواں اقتباس "اے عزیز و ا تم تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزر چکے.سو اپنے مولا کو ناراض مت کرو.ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبر دست ہو.اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے.پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بچ سکتے ہو ؟ اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا اور جو دشمن تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابو نہیں پائے گا.ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اور تم دشمن سے ڈر کریا اور آفات میں مبتلا ہو کر بے قراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم و غصہ کے ساتھ گزریں گے.خدا ان لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں.سو خدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو اور اس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے." اخبار "انصاف" کا تبصرہ (صفحه (۶۶) بزرگ کشمیری صحافی جناب میر عبدالعزیز صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ انصاف (راولپنڈی) نے (جنہوں نے مارچ ۱۹۷۶ء میں یہ اہم انکشاف کیا کہ " قائد کے اداریہ میں کشتی نوح" کے الفاظ نقل کے گئے ہیں) "انصاف" مورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۷۶ء میں
144 اداریہ اور کشتی نوح کا عکس شائع کرتے ہوئے لکھا." حوالہ دے کر مرزا صاحب کی عبارت نقل کرنا نہ جرم ہے اور نہ گناہ لیکن جرم یہ ہے کہ مفتی نے اسے اپنا اداریہ قرار دیا.ایک تو ادبی سرقہ کیا دوسرے احمدیت کی تبلیغ کا وہ نرالا طریقہ ایجاد کیا جو کسی احمدی نے بھی آج تک اختیار نہ کیا.اس کو چار سو ہیں یا IMPERSONATION بھی کہا جاتا ہے.اسی قسم کے جرم کا مرتکب ہونے کے باوجود مفتی دو سروں کو منافق اور قادیانی قرار دے رہا ہے.5 خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے " (صفحہ ۶ کالم ۲) " مولانا محمد رحمت اللہ صاحب ناظم عمومی جامعه محمدی شریف ضلع جھنگ.صدر " موتمر عالم اسلامی " جھنگ و سرپرست و نگران ایڈیٹرماہنامہ ”الجامعہ " جھنگ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی شہرہ آفاق کتاب براہین احمدیہ " کو انیسویں صدی ” عیسوی کے علماء نے اسلام کے دفاع کا شاہکار قرار دیا ہے.اس کتاب میں جس کے چار حصے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک کے عرصہ میں منظر عام پر آئے حضرت اقدس نے متعدد الہامات شائع فرمائے.مثلاً: " کل بركه من محمد صلی الله علیه وسلم فتبارک من علم و تعلم (براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ ۲۳۹ طبع اول مطبوعه سفیر هند پریس امرتسر ۱۹۸۸۰ء) یعنی ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ
145 وسلم کی طرف سے ہے پس بڑا مبارک ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی." جناب مولوی محمد رحمت اللہ صاحب کے زیر نگرانی رسالہ ”الجامعه " جنوری فروری ۱۹۹۰ ء کے شمارہ میں فیضان ختم نبوت سے متعلق ایک نہایت عمدہ اور حقیقت افروز شائع ہوا جس میں حضرت اقدس کا ذکر کئے بغیر آپ کا مذکورہ بالا الهام خاص اہتمام سے مع ترجمہ درج کیا گیا (ملاحظہ ہو صفحہ ۴۶) علاوہ ازیں مقام خاتمیت محمدیہ کی وضاحت کے لئے حضور کی متعدد پر معارف کتب سے خوشہ چینی کی گئی.یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسی کتاب ” براہین احمدیہ " میں آپ نے ۱۸۸۳ء کا یہ الہام بھی درج فرمایا ہے جو جماعت احمدیہ کے دین و عقیدہ کا جزو اعظم اور اس کے علم کلام کی بنیاد ہے.صل علی محمد و آل محمد سید ولد آدم و خاتم النبيين (جلد چهارم صفحه (۵۰۲) (ترجمہ) اور درود بھیج محمد " اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹے کا اور خاتم الانبیاء ہے.صلی اللہ علیہ وسلم ۱۰.جناب اسرار الرحمن صاحب بخاری " پاکستان کے معروف اہل قلم جن کی معنیم تالیف "اسلام اور مذاہب عالم " جس میں مذاہب عالم کا نہایت خوبی سے تقابل و موازنہ کیا گیا ہے پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے طلبہ میں دلچپسی سے مطالعہ کی جاتی ہے.یہ کتاب نیو بک پیلس اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے مولف کتاب صفحہ ۳۳۳ پر تحریر فرماتے ہیں:.”رسول اکرم ا تم الوہیت ہیں.ان کا کلام خدا کا کلام ان کا اتم ظہور خدا کا ظہور ہے." یہ پر معرفت فقرہ جس میں شان مصطفی میں ریلی کا ایک جامع اور وجد آفریں
146 تخیل پیش کیا گیا ہے دراصل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی معرکہ آلاراء کتاب "سرمہ چشم آریہ صفحہ ۲۲۹.۲۳۳ کے حاشیہ سے ماخوذ ہے.حضرت اقدس کے اصل الفاظ یہ ہیں.کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت (صلعم) مظہر ا تم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آتا ہے." ال "مولانا" محمد مکی صاحب (جنوبی افریقہ) رسالہ ”دنی مسلم ڈائجسٹ (The Muslim Digest) ڈربن جنوبی افریقہ کے سنی مسلمانوں کا مشہور انگریزی رسالہ ہے جسے مولانا شاہ احمد نورانی صدر جمعیت علمائے پاکستان کے والد ماجد جناب مولانا شاہ عبد العلیم صاحب صدیقی میرٹھی نے جاری کیا تھا.مولانا محمد مکی صاحب عرصہ سے اس کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں.مولانا صاحب نے جولائی اگست ۱۹۸۰ء کے شمارہ میں حسب ذیل خصوصی اداریہ زیب قرطاس کیا.(ملاحظہ ہو عکس، صفحہ 224 اور 225 کتاب هذا) Who is not a Muslim According to Quran? By the Editor of the Muslim Digest, Durban, South Africa.An OUTWARD ACT is nothing if unattended with a transformation of the heart.Almighty God sees one's heart and shall deal with him according to his state.Sin is a poison and therefore a Muslim should shun it.Disobedience to God is an abominable death and a Muslim should eschew it.He who when he prays is faint-hearted and does not consider God powerful over everything, except where He Himself has promised to the contrary, is not a true Muslim.
147 He Who forsakes not lying and deceit is not a true Muslim.He who is involved in the greedy love of this world and does not even raise his eye to look to the next is not a true Muslim.He who does not in practice give a preference to matters of religion over his worldly affairs is not a true Muslim.He who does not repent of every evil and wickedness, such as drinking wine, gambling, looking with lust, dishonesty, bribery and every other iniquity, is not a true Muslim.He who is not regular about his five daily prayers, is not a true Muslim.He who is not constantly supplicating before God and praying to Him with humbleness of heart is not a true Muslim.He who forsake not the compang of the wicked who cast their evil influence over him, is not a true Muslim.HE WHO DOES NOT revere his parents.or does not obey them in the at which is fair and not against the Holy Qur'an or does not care to serve them towards to his utmost, is not a true Muslim.He who is not kind and gentle his wife and her relatives is not a true Muslim.He who refuses his neighbour the least Good in his power is not a true muslim.He who forgive not the trespasses of others and harbours revenge is not a true Muslim.The husband who is false to his wife and the wife who is false to her husband are not Muslims.Every fornicator, transgressor, drunkard, are not Muslims.worng-doer, lair, forger, every dishonest person, elery one given to murderer, thie, gambler, usurper, bribery, Every
148 accuser of his brother or sister is not a true Muslim.Every one who does not repent of his wicked deeds, and hates not the congregation of evil doers, is not a true Muslim.(THE MUSLIM DIGEST July 1980, page 10) "مولانا" مکی صاحب کے اس خصوصی اداریہ کا اصل سرچشمہ اور ماخذ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب کشتی نوح کا انگریزی ترجمہ " Our Teaching" ہے.جو ستمبر ۱۹۵۸ء سے وکالت تبشیر ربوہ کی طرف سے شائع شدہ ہے اور دنیا بھر کے تمام احمدی مشنوں میں دستیاب ہے.OurTeaching- کا متعلقہ اقتباس ملاحظہ ہو.Who belongs to my community and who does not: Having Explained all these things, I repeat once more that you must not rest satisfied merely because in outward form you have taken baiat at my hand.The outward form means nothing: God sees what lies inside your hearts, and He would deal with you on the basis of what he sees there, Lo and behold! I herein discharge my duty unto you, by making it plain that sin is a poison.Which you should avoid Tuern to prayer' that.Do not take it Disobedience to God is a dirty death which you should avoid.Turn to prayer that you should get the strength.At time of prayer, if a man does not firmly believe that Allah has power over everything, except what may be contained in a previous promise, such a one is not of my community.He who is caught in a tangle of worldly greed, and never even raises his eyes to things which pertain to the next 1.fe, is not of my community.Whosoever does not Wholly and completely
149 keep away from every sin and every evil action, like wine, gambling, gambling, looking justfully at women, dishonesty, bribes, and from every kind of illegal gratification, he is not of my community.Whosoever is not constantly turning to prayer, and does not remembers Him in absolute humility of spirit, he is not of my community.+ Whosoever does not give up association with a bad companion, who excereises an unhealthy influence over him, he is not of my community.Whosoever does not render obedience to them in things which do not run counter to the Holy Quran and whosoever is neglectful in rendering to them the service to which they are undoubtedly entitled, he is not of my community.Whosoever does not live with his wife and her relations whith gentleness, goodness, and magnanimity, he is not of my community.Whosoever deprives his neighbour of the very least good in his power, he is not of my community.Whosoever has no wish to forgive the faults of those who may have transgressed against him and desires to nurse malice, he is not of my community.Every man or woman who is dishonest towards his or her spouse is not of my community.Every adulterer, debauch, drunkard, murderer, theif, gambler, dishonest person, bribe taker, usurper, oppressor, tyrant, liar, forger, and the associate of these; and whosoever brings false accusations and scandal against his brothers an sisters, he is not of my community, unless he fully repent misdeeds and totally break away from bad
150 associates, turning a new leaf.(page 12-14) ۱۲.جناب محمد عبد المجید صاحب صدیقی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور صلی جناب صدیقی صاحب سیرت النبی اله الا اللہ کے ایک خاص اور ایمان افروز پہلو کے ریسرچ سکالر ہیں.آپ کی پہلی مایہ ناز اور محققانہ تصنیف ”سیرت النبی بعد از وصال النبی" ہے جس سے ملک بھر میں آپ کی دھوم مچ گئی اور پاکستان کے پریس نے اس پر شاندار تبصرے لکھے.یہ کتاب جون ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی.چار سال بعد اگست ۱۹۸۳ء میں اسی سلسلہ کی دوسری اہم کتاب " زیارت نبی مل بحالت بیداری" آپ کے قلم سے منظر عام پر آئی لیکس ملاحظہ ہو صفحات (226 227 کتاب خدا فلام اس کتاب میں آپ نے بیداری میں زیارت رسول عربی میا علیم کا شرف حاصل کرنے والے خوش نصیبوں کے ۱۱۴ واقعات بیان کئے ہیں.اس تعلق میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ." ۹۵" خاتم الاولیا شیخ الکل محی الدین ابن عربی ۱۷ رمضان المبارک ۵۶۰ ھ بروز پیراندلس (اسپین) کے مشہور شہر " مرسیہ " میں پیدا ہوئے.آپ حاتم طائی کی نسل سے ہیں جو عرب ہی میں نہیں پوری دنیا میں اپنی سخاوت کے لئے مشہور ہے.۵۹۸ ھ م ۱۲۰۳ء میں اندلس سے ترک وطن کیا.شب جمعہ عمر ۷۸ سال ربیع الاخر ۷۳۸ھ م ۱۲۴۰ء کو دمشق میں وصال فرمایا.اپنی مشہور تصنیف "فتوحات یکیہ " میں لکھتے ہیں کہ ایک بار ایام جوانی میں ایسا اتفاق ہوا کہ ایک معمر بزرگ فرشتہ صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیئے اور یہ بات کر کے کہ کتنے روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا میں اس سنت اہل بیت کو بجا لاؤں.میں نے اس ہدایت کے مطابق چھ ماہ تک برابر مخفی طور پر ce
151 روزوں کا اہتمام کیا.اس اثناء میں عجیب عجیب مکاشفات مجھ پر کھلے.بعض گذشتہ نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں.ایک مرتبہ عالم بیداری میں حضرت بانی اسلام علیہ الوف الصلوۃ والسلام کو مع حضرت علی و حضرت حسین و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دیکھا.غرض بزرگوں سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے.".(کتاب " زیارت نبی ملی ام بحالت بیداری" صفحه ۱۲۷ ناشر مرحبا پیلی کیشنز امرت دھارا بلڈنگ لاہور) صلی و ایک محقق و فاضل کی روح یقیناً یہ تصور کر کے تڑپ اٹھے گی کہ زیارت نبی کا یہ روح پرور واقعہ جو خاتم الاولیاء حضرت ابن عربی " کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ دراصل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ہے.چنانچہ آپ اپنی لاجواب تصنیف "کتاب البریہ" کے حاشیہ صفحہ ۱۹۷.۱۹۸ میں لکھتے ہیں.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے......اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیا اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ مالی علیه السلام کو معمہ حسنین و علی و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی..
152 غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے" مغالطہ انگیزی کی حد یہ ہے کہ اس عبارت کا ماخذ حضرت ابن عربی کی کتاب فتوحات مکیہ بتلایا گیا ہے.حالانکہ حضرت ابن عربی کی کسی کتاب میں اس واقعہ کا کوئی نام و نشان تک نہیں مل سکتا.کیا یہ بیسویں صدی کا عبرتناک المیہ نہیں کہ کچھ تصرف کے ساتھ ) الفاظ تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نقل کئے جاتے ہیں مگر انہیں نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ شیخ الاکبر حضرت ابن عربی کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.اس انداز تحقیق" کی ہمیں فاضل مولف سے ہرگز توقع نہ تھی کیونکہ وہ سیرت النبی عمل کے نہایت مبارک اور مقدس علمی جہاد میں مصروف عمل تھے اور انہیں اور ذاتی طور پر یہ تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا کہ اہل قلم کی تحقیقی کاوشیں جب دوسروں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتی ہیں تو ان پر کیا قیامت گزرتی اور کیا حشر برپا ہوتا ہے؟ چنانچہ فاضل مولف اپنی اسی کتاب کے آخر میں ادبی سرقہ (PLAGIRISM) کے خلاف زبر دست احتجاج کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:."اندھیر" صدر پاکستان نے سیرت النبی کے کتابی مقابلہ میں گجراتی زبانی کی ایک کتاب "حیات النبی" کے مولف کو جنوبی ۱۹۸۲ء میں نقد انعام اور ایوارڈ دیا ہے.حالانکہ اس کے مولف ادبی سرقہ کے مرتکب ہوئے ہیں.انہوں نے کتاب "حیات النبی" کے لئے تمام مواد اور دلائل میری کتاب ”سیرت النبی بعد از وصال سے حاصل کئے ہیں.ستم بالائے ستم یہ کہ ان کو ٹی وی کے ذریعے شہرت دے کر قومی ہیرو بنانے کی بھی کوشش کی گئی ہے.et + گذشته ۲۳ برس سے میں سیرت النبی کے اس خاص پہلو پر تحقیقی کام کر رہا ہوں.۲ نومبر ۱۹۷۶ء کو میں نے سیرت النبی کے عالمی مقابلے کے لئے اپنی مذکورہ بالا
153 کتاب کا مسودہ سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلام ، ۲ مکرمہ کو روانہ کیا تھا.میں نے حکومت کو متعدد خطوط لکھنے تاکہ اس اند میر" کی تحقیق کرائی جائے مگر کچھ نہ ہوا.اس آزاد اسلامی مملکت میں نہ معلوم کب تک یوں انصاف کا خون ہوتا رہے گا.قوم کب تک بندربانٹ کا شکار رہے گی.کب تک حامد کی ٹوپی محمود کے سر کی زینت بنائی جاتی رہے گی اور کب تک اندھا اپنوں کو ریوڑیاں بانٹتا رہے گا؟" I, نضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے علم کلام کی برتری کا پر اسرار طریق پر اعتراف حضرت بابا فرید الدین گنج شکر (وفات ۵۶۲۴) صاحب کرامات بزرگ تھے.آپ کا مزار پاکپتن شریف میں ہے.جہاں ہر سال ۵ محرم کو بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے آپ کا عرس منایا جاتا ہے.جولائی ۱۹۸۷ء میں پاکپتن شریف کے مشہور فریدی کتب خانہ نے حضرت گنج شکر کی ایک سوانح عمری "مقام فرید " شائع کی جو " قلم حقیقت رقم صاحبزادہ حضرت علامہ محمد اقبال صدیقی کھرل " کا نتیجہ ہے.کتاب کا آغاز انتساب سے کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:." انتساب میں کچھ کمی سی لگتی ہے جو بھی ذہن میں آتے ہیں القاب پیر طریقت رہبر شریعت شهباز طریقت امیر شریعت ، تاجدار تصوف، تاج الاولیاء، شهنشاه ولایت، جگر گوشه محدث اعظم پاکستان حضور خواجہ خاجگان حضرت صاحبزادہ غازی فضل احمد رضا صدر جامعہ رضویہ فیصل آباد جن کی نظر کرم نے خاک کو ثریا بنا دیا.خاکپائے اولیاء اقبال صدیقی." (عکس ملاحظہ ہوں کتاب خدا کے صفحات 228 تا 232 پر ) پر) 3
154 11 کتاب کے عالی مقام مصنف نے مقدمہ کتاب میں یہ دعوئی فرمایا ہے کہ جہاں بابا جی کی سوانح پر شائع شدہ دیگر کتابوں میں ضعیف روایات پر مبنی غیر ثقہ باتیں " شامل کر دی گئی ہیں وہاں ان کی تالیف مضطرب دعاؤں کے " پر مشقت مراقبہ " کے بعد حضرت باباجی کی زیارت اور رہنمائی میں لکھی ہے.چنانچہ ارشاد ہوتا ہے." مزار پر حاضری کے ساتھ ہی مضطرب دعاؤں اور التجاؤں کا سلسلہ شروع ہوا.ایک انتہائی پر مشقت مراقبہ کے دوران خود حضرت بابا جی نے شفقت فرمائی اور جلوہ افروز ہو کر میرے نہاں خانہ ، قلب و روح کے ہر ذرہ کو منور و روشن کر دیا جس کے ساتھ ہی مجھے مخاطب کر کے فرمایا:.تمہیں میرے ذکر پر مشتمل کتابوں کی غلط باتیں دیکھ کر جو دکھ ہوتا ہے تم خود کچی باتیں جمع کر کے میری سیرت کیوں نہیں لکھتے.جاؤ میری سیرت پر کتاب لکھو.عالم لاہوت کے شہباز کی یہ خواہش میری کاوشوں کا نقطہ آغاز بن گئی.بعد میں کئی دفعہ کی زیارت ، مسلسل راہنمائی نے مقام فرید کی ترتیب میرے لئے آسان کر دی اور یہ فقیر حق فرید یا فرید کے نعرے الاپتا ہوا اس مشن کی تکمیل میں لگ گیا.خدا شاہد ہے کہ میں جو بات بھی لکھتا ساتھ کبھی ایسا معلوم ہو تاکہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے کٹا ہوا ہوں اور قدم قدم پر یہی لگتا کہ کوئی طاقت اپنے تصرف میں لے کر مجھ سے ہر بات لکھوا رہی ہے.میری اس کیفیت کو سالکان طریقت ہی جان سکتے ہیں " (صفحہ ۱۳۱۲) سوانح حیات کا خاتمہ حضرت بابا جی کے اظہار خوشنودی کی بشارت کے انکشاف پر ہوتا ہے.چنانچہ مولف محترم تحریر فرماتے ہیں:.
155 " الحمد للہ تذکار فریدیہ کے سلسلہ میں کچھ کہنے اور لکھنے کی سعادت ملی.دراصل یہ سب کچھ کسی انسان کے ارادہ سے ممکن نہیں.نہ ہی میرے لئے اس کا کوئی امکان تھا.یہ فقط نظر فرید ہے جس کی شفقت نے زبان و قلم کو برکت دی اور حکم باطن سے ارشاد فرمایا جس کی تعمیل میں آغاز کر دیا اور آج یہ تذکار جمیل جاری ہے کہ حضرت باباجی نے اپنے حضور طلب فرما کر اظہار خوشنودی کے ساتھ ساتھ فی الحال مزید لکھنے اور بیان کرنے سے روک دیا کہ جتنا کام کیا ہے اسے محرم الحرام تک شائع کر دو.ارشاد باطن کی تعمیل میں چند الفاظ کا گلدستہ قدر دان احباب فرید کی خدمت میں پیش ہے." (صفحہ ۱۷۲)." " اس روحانی پس منظر میں جب مقام فرید " کا سرسری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ راز کھلتا ہے کہ کتاب کے اکثر مباحث و واقعات گزشتہ مصنفین کے افکار و تذکار کا اعادہ یا خلاصہ ہیں اور حضرت باباجی کی سیرت کی وہ "سچی باتیں " جو اس ولی کامل کے فیض زیارت، رہنمائی اور پر اسرار غیبی طاقت کی بدولت پاکپتن شریف کے ارباب طریقت کے سامنے پہلی بار آئی ہیں وہ صرف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے پر معارف اشعار اور روحانیت اور تصوف سے لبریز تحریرات ہیں جو عرصہ سے شائع شدہ ہیں.الہذا یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اس تالیف کا یہی قیمتی سرمایہ ہے جسے حضرت باباجی کی خوشنودی کا شرف حاصل ہے.اپنی کتاب میں فاضل مئولف نے "کشف قبور" کے نتیجہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل اشعار درج کئے ہیں.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے چهره (صفحه (۸۷).:
156 جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار (صفحه ۹۶) قرآن مجید کی منقبت میں بانی سلسلہ احمدیہ کا مشہور شعر ہے:.قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے (براہین احمدیہ حصہ پنجم طبع اول تصنیف ۱۹۰۵ء) حضرت علامہ اقبال صدیقی صاحب نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے فرمودات میں اس شعر کا مصرعہ ثانی اس شان سے پیوست کیا ہے کہ راہ طریقت کے ہر سالک کی روح وجد میں آجاتی ہے چنانچہ فرماتے ہیں.حضرت بابا جی کے فرمودات فضائل تلاوت کے سلسلہ میں بے شمار ہیں جن کا حاصل یہی ہے کہ اصل زندگی سارے حواس اور ساری توجہ اور ساری توانائیاں قرآن کریم کی طرف مبذول کرنے میں مضمر ہے اس کے بغیر کسی طرح کی کامرانی فلاح یا قرب الہی کا تصور موہوم محض ہے.بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے." (صفحه ۱۵۲۱۵۱) اس کتاب کی روح رواں یا نقطہ عروج "فضائل ادعیہ " کا نہایت اہم مضمون جو ۱۵۹ تا ۱۶۲ صفحات کی زینت ہے اور جس میں دعا کی کیفیت و قبولیت پر تبصیرت افروز رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے.قبولیت دعا کا چلتا پھرتا نشان بارگاہ الہی کے مقبول اور عارف بندے ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ انہی کو رب العرش سے ذاتی تعلق ہوتا ہے.وہی اپنے رب سے ہمکلام ہوتے ہیں اور انہی کو دعاؤں کی حیرت انگیز تاثیرات پر زندہ ایمان و عرفان حاصل ہوتا ہے.عہد حاضر میں اس تجربہ و مشاہدہ کی منادی جس قوت اور شوکت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی کتابوں اور ملفوظات میں کی ہے اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی.یہی وجہ ہے کہ
157 et کتاب " مقام فرید کے بریلوی مسلک کے مولف حضرت علامہ محمد اقبال صدیقی " کے قلم پر حضرت باباجی کی روح مقدس" یا اپنے پیرو مرشد حضرت صاحبزادہ غازی فضل احمد رضا" کی " نظر کرم" سے دعا کی نسبت جو کچھ جاری ہوا وہ اکثر و بیشتر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہی کے مبارک الفاظ میں تھا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:."حضرت باباجی پوری معرفت کے ساتھ جانتے تھے کہ دعا کیا ہے ، دعا زندہ اور قادر مطلق خدا کے ساتھ سچے عاشق و سالک کا زندہ تعلق و رابطہ ہے.دعا ہی کے ذریعہ سالک کو مقام محبوبی ملتا ہے اور ایسی شان مظہریت کہ جس میں پوری صفات الہیہ کا ظہور ہونے لگتا ہے، عاشق کے لب ہلتے ہیں تو کائنات میں تغیرات ہونے لگتے ہیں." دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب کے درمیان تعلق مجاز بہ ہے یعنی پہلے خدا تعالی کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کے کششوں سے خدا تعالی اس کے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر نواس طبعیہ پیدا کرتا ہے، سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا رائی کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہو افتا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے ، پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، تب اس کی روح اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے.وہ خدا تعالی کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے، تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اثرات پر ڈالتا ہے جس سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور قحط کے لئے بدعا ہے تو قادر مطلق -
158.مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی لئے یہ بات ارباب کشف و کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی بازنہ تعالٰی وہ دعا عالم سفلی اور عالم علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مئوید مطلوب ہے.خدا تعالی کی پاک کتابوں میں اس کی نظریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دار صل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے یا جو کہ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے ان کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشہ دکھلا رہے ہیں." (صفحه ۱۶۱۱۶۰) مندرجہ بالا حوالہ میں جو عبارت "دعا کی ماہیت" سے شروع ہو کر " تماشا دکھلا رہے ہیں" کے الفاظ تک جا پہنچی ہے لفظاً لفظاً حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی شہرہ آفاق تصنیف ” برکات الدعا" کے صفحہ ۰۹ا سے ماخوذ ہے.یہ کتاب حضور انور نے مولف کتاب کے مراقبہ" سے ۹۴ سال قبل شائع فرمائی تھی اس کے طبع اول کے سرورق پر تاریخ طباعت رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ لکھی ہے جو سمسی کیلنڈر کی رو سے مارچ اپریل ۱۸۹۳ء بنتی ہے." آگے لکھا ہے کہ :.حضرت بابا جی نے جس انداز میں لمبی لمبی عبادات کے ساتھ دعائیں کی ہیں اس سے روشنی ملتی ہے کہ محض رسمی طور پر دعا کر لیتا کوئی چیز نہیں جب تک قلب و روح پگھل کر دعا کو ایک خاص چمک نہ دے رہے ہوں.اس لئے یہ مت خیال کرو کہ ہم ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعاہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور افضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ ایک
159 تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر اس سے آخر تریاق ہو جاتا ہے.(صفحه ۱۶۲۱۶۱) معزز قارئین ! مذکورہ عبارت میں جلی الفاظ بھی بجنسہ حضرت بانی سلسلہ احمد علیہ السلام کے لیکچر سیالکوٹ (۱۹۰۴ء) کے صفحہ ۲۶ سے نقل ہوئے ہیں.آخر میں مولف کتاب اپنے " پر مشقت مراقبہ" کے نتیجہ میں ایک داعی حق اور روحانی رہبر کا روپ دھار لیتے ہیں اور مسند ارشاد پر رونق افروز ہو کر ناصحانہ شان میں رقم فرماتے ہیں:."حضرت بابا جی رحمتہ اللہ علیہ نے جو عملی زندگی دنیا میں اپنائی اور جس کا مخلوق خدا سے تعارف کروایا اس کی رحمتوں اور برکتوں کا کوئی انتہاء نہیں.آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو خوب بتایا اور سمجھایا کہ خدا تعالی بڑا کریم ہے ، اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا.اس لئے چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو کیونکہ دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عین مطابق ہے مثلاً عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب بچہ رو تاد ھوتا ہے ، اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے.الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا شخص سمجھ نہیں سکتا.جب تعلق ہے جس کو ہر انسان اللہ تعالی کے دروازے پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے ، اللہ تعالی کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گر یہ چاہتا ہے اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی.
160 چاہئے.یہی کیفیت و حالت ہے جب قلب و روح پر پوری طرح حاوی اور متولی ہو جائے تب ایک عاشق و مالک حضرت بابا جی کے تبرکات فریدیہ دربارہ دعا اور اس کی تاثیرات کا عرفان حاصل کر سکتا ہے.(صفحه ۱۶۲) آستانه فریدیہ کے وابستگان یہ معلوم کر کے یقینا ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ ان چند فقرات کے سوا جن میں براہ راست حضرت بابا جی کے روحانی کمالات کا تذکرہ کیا گیا ہے باقی پوری عبارت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی ایک معرکہ آراء تقریر کی حرف بحرف نقل ہے.یہ تقریر پہلی بار اخبار الحکم ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ء کے صفحہ ۵ پر شائع ہوئی تھی اور ادارۃ المصنفین ربوہ نے اس کا یہ قیمتی اقتباس دسمبر ۱۹۷۰ء میں " تفسیر صغیر " کے صفحہ ۴۸٬۴۷ پر بھی ریکارڈ کر دیا ہے اور آسمان روحانیت پر چاند ستاروں کی طرح جگمگا رہا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ گرانقدر تالیف یقیناً کمال درجہ محنت و کاوش سے مرتب ہوئی ہے جس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے شاندار علم کلام کی برتری اور عظمت کا اسرار طریق پر اعتراف کیا گیا ہے.علاوہ ازیں اس کے مطالعہ سے یہ معرفت بھی ملتی ہے کہ دور حاضر میں طریق محمدی کا خضر کون ہے ؟ کون عالم لاہوت ناسوت اور جبروت کی رفعتوں میں محو پرواز ہے اور کس ، کے زندگی بخش کلمات، ارباب طریقت و حقیقت کے لئے حقیقی طور مرکز انوار ہیں؟ آؤ لو گو کہ میں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تلی کا بتایا ہم نے
161 علمی شاہکار کی چند دستاویزی شہادتیں متعلقہ لڑ پچر کے عکس کی صورت میں) 00 اعماروشه آن اس رسالہ میں محمدہ تعالیٰ دہریت - آریت، عین اسمیت بهائیت اور قادیانیت کے خیالی قلعوں کو اعجاز قرآن کی تین اقسام سے بم باری کرکے بھی مسمارکردیاگیا ہے مصنفہ مولوی حافظ عطاء اللہ بریلوی خادم قرآن متعلم دارالعلوم دیوبند و سهارنپور ملتے كايته ہندوستانی کتب خانه اردو بازار با مسح مسجد دیلی ١٩٣٧ء :
" 162 ۱۰۴۰ در مدح قرآن کریم جمال دین قرآن نور جان پر سلمان ہے تم سے جانداروں کا ہارا ان قرآن ہے نظر اسکی نہں ملتی بہت کچھ غور کردیکھا پھل کیونکر ہو کیا کام پاک رحمان ہے بہار جاوداں پیدا ہو اسکی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چین میں ہر نہ اس سا کوئی بستانی کلام پاک یزداں کا نہیں ثانی کوئی ہرگز اگر لو لوئے عمان سے گر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برا بر ہو وہاں قدرت یہاں ماندگی فرق نمایاں ہے بلانکی نیکی حضر میں کریں اقرار لا علمی : سخن میں اسکے ہمائی کہاں مقدور انسان کے بناسکتا ہیں ہرگز ہر اک پاؤں کپڑے کا تو پیر کو کرنانا نوری کا آسیہ اساں ہے لیون حق کا ارے لوگو کرو کہہ پاس شان کی رائی کا زبان کو تھام لواب بھی اگر کچن ہوئے ایام سے خدا کا غیر کو مہربانا سخت گراں ہے فالسے کچھ ڈر وا روا یہ کیا کذب رہتا ہے اگر قرار می نگو خدا کی ذات واحد کا تو غیر کیوں استعد دو میں تمہارے تک پنہاں ہے کی یہ کیسے پڑگئے اور یہاں جہال کے پرے رقمه رویارو! خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچی خوف یزداں ہے "
163 فاوی شنا: جس میں، 63,20 شیخ الاسلام حضرت مولانا ابوالو شاء اللہ امرتسری کے ۲۴ سالہ فتاوی کو فقہی ترتیبکے ساتھ اس طرح مرتب کے دیا گیا ہے کہ عبادات و معاملات کا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا.سهم منشی جوانی شیخ الحدیث حضرت مولانا ابوسعید شرف الدین الوی جلداول حضرت مولانا محمد داؤد صاحب را از ناشر اکارہ ترجمان السنة ، ایک روڈ ، لاہور :
فادی ثنائیہ جلد اول 164 کادر الله حرارت قُنَا هَذَا مِنْ فَضْلِكَ : چونکہ میں قرآن مجید کو اپنا بلکہ جملہ انسانوں کا کامل هدایت نامہ جانتا ہوں.اس لیے اپنا اعتقاد او شعروں میں ظاہر کر کے بعد سلام رخصت ہو تا ہوں ہے جمال حسن قرآن نور جان ہر شامال ہے ترے چاند اور دوں کا ہمارا چاند قال ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیوں کر نہ ہو سکتا کلام پاک رحماں ہے f ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ بسته خادم اسلام محمدان ابو الوفاء ثناء الله ادير المحد يشاء متر عفاته دمكرة د جو کچھ ہمارے عقائد ہیں ہم انہیں علی الاعلان بیان کرتے ہیں والله على ما تقول وكيل جب تک انسان پورا كلمه لا اله إلا اللهُ مُحَمَّد رَسُولُ اللهِ نہ کہے وہ مسلمان نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بے نظیر ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.وہی سب کا خالق و مالک اور روزباں پہنچانے والا ہے وہ ساتوں آسمانوں کے اور ساری عظیم کے جو جو صفات اللہ تعالیٰ کی قرآن شریف اور صحیح حدیثوں میں وارد ہوئی ہیں ہمارا ان سب پر بغیر انکار اور تاویل باطل اور تعریف اور بغیر دریافت کیفیت ایمان ہے عبادتوں کے قابل صرف اُسی کی ذات ہے.عبارت مالی ہو یا بدنی یا زبانی سب اُسی وحدہ لاشریک لہ کی ذات کے لئے ہونی چاہئے جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرے.یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں خدا تعالیٰ کی کوئی صنفت مانے گیا گراہ اور مشرک ہے.مشرک ہمیشہ جہنم میں : رہے گا.قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.جسے اُس نے جبرئیل امین علیہ السلام کی معرفت اپنے بی آخر الزمان محمدرسول الله صل الله علیه اسم پرنازل فر را با حصر محمد من له الا الله علیه و ماله فربا تعالیٰ کے بندے اور اس کے بچے رسول ہیں.آپ کل انس و جن کی طرف پیغمبر بن کر آئے ہیں.لبوة حضرت آدیر سے شیرہ نا ہوئی اور آپ کی ذات والا صفات پر ختم ہوئی.آپؐ کے بعد قیامت یں کوئی اور نبی نہ ہوگا وہ شخص آپ کے بعد کسی کو نبی مانے اور آپ کو خاتم النبیین نہ جانے وہ کافر ہے آپ تمام نبیوں سے افضل اور کل اولاد آدیم کے سردار ہیں آپ کی شفاعت حق ہے.قیامت کے میدان میں سب سے پہلے اور سب سے بڑی
165 انہ کا اسٹاپ روانہ کرنے پر رسالہ ہذا سخت ارسال خدمت ہوگا؟ مولفه خاک ارگنڈو زین العابدین ساکن انباری علاقة من ارس J "
166 بات کا بھی اہتمام رکھیں کہ جو کچہ حرف شناس ہوکر اردو زبان پڑھنے سمجنے لگے اسکو اول ترجمہ قرآن کا ہی دیں تا کہ وہ قرآن شریف کے لفظی معنے سمجہ ہے.تاکہ : ان علماء کے تمام اقوال سے یہ بات صاف ظاہر ہے انکا مقصود سب عوام سلمانوں کو ترجمہ قرآن مجید مدرسوں میں پڑنا نا صاف لفظوں میں واضح ہے، محتاج بیان نہیں.یہ گر تجربہ ہواہے کہ تاجروں کے لڑکے عربی علوم حاصل کرنے کے لئے صرف و نحو شروع کرتے ہیں اسکے قوانین یاد کرنے کی شکلات سے گہرا کر نعیم کو چوڑا کر ملی مقصد سے دور ہو جاتے ہیں لہذا ہم چاہتے ہیں کہ بغیرصرف ونح کے ترج کے ساتھ قرآن مجید کی علم دینی ضروری ہے.کیونکہ اردو ترجمہ خواں کے لئے صرف ونحو کی مطلق ضرورت نہیں ہے البتہ صرف ونحو و غیره علوی الہ کی شرط اون طلباء کے لئے مخصوص ہے جو ابی علوم سے فارغ ہو کر زمرہ ملا ہی شامل ہونا چا ہیں تعلیم قرآن مجید اردو ترجمہ خواں کے لئے صرف و نحو کے خیال کو ضرور دل سے الگ کر دینا چاہے کیونکہ اس خیال نے سلانوں کو عظیم قرآن سے محروم کر رکہا ہے.فقط و السلام مع الاکرام وصف قرآن مجید کیا ہی اسلام کا خورشید دل آراز یکا دیکھو شب قدر میں قرآن چمکتا نکلا، کیا ہی اسلا حق کے اس نور کا کوئی بھی نہ پہنتا بجا نور فرقاں ہے سب نوروں کا جلا بنگلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا شرک اور کفر کی ظلمت سے تھا نہ میری یا ظلم و عصیاں و خباثت میں پھنسی تھی وہ اند بحر و بر پگڑے تھے اور ساری زمیں تھی مردم حق کی توحید کا مرحبا ہی چلا تھا پود ہے ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفا نکلا، دین دونیا میں و مطلوب بنی آدم سے سارے اسرار و دقائق کا یہ بیں خاتم ہے معرفت اور حقائق کا یم اعظم ہے یا اپنی تیرا قرآن ہے کہ ایک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اسیں مہیا نکلا طبیبوں سے ملے سے دور میں پوچھیں ایسا عرفان کا نسخہ نہ ملا او ی پر لئے امریکہ و افریقہ تا چین سب جہان جہان کے ہے پرند
167 جسے عرفاں کا بس ایک ہی شیشہ نکلا نہیں قرآن کی اس کون و مکان میں شبیر نظر فطرت وہ اعجازی نشان میں تشبیہ ہے نہیں اسکی کی عظمت و شان میں تشبیر کس سے اس نور کی تمکن ہے جہاں جو باشید وہ تو ہر بات میں ہر و صف میں بیکت نکلا اسکے ہر نکند میں ہے نورانی کا ظہور اسکے انوار سے مومن کا ہے سینہ معمور اسکے جلوہ سے ہیں تاریکیاں سائز کا فور ہے تصور اپنا ہی اند مون کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ مدنیہ بیضا نکلا ایسے خورشید پر انوار سے جو دور رہیں وہ تو اندھوں سے بھی بدتر ہیں جو بے نور ہیں روح مردہ ہوی انکی تو یہ ہم صاف کہیں زندگی ایسوں کی میں خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعملی بیکلا جس کو اللہ کا ملنا ہو جہاں میں مطلوب وہی قرآن کو یہ کہتا ہے ہمیشہ محبوب سب غذاوں سے ہی دل کی غذا ہی مرغوب الله الله ہے یہ عرفان کا نسخہ کیا خوب اجنک ایسا نہ شانی کوئی نسخہ نکلا کون کہتا ہے کہ قرآن ہے محمل صامت اس کا ہر قول معضل ہے وہ تبیاں نکلا اور کہتے ہیں کہ قرآن کی سمجہ ہے مشکل اس کا ہر لفظ مضر ہے وہ آسان نکلا.پاک وہ جس سے یہ انواز کا دریا زنگلا دیگرا قرآن ہے وہ دین کہ جس سے خدا ملے اس پر پہلے جو شخص وہ اللہ سے ملے استہ اسی سے سید نا اللہ کا ہے ہے یہ طرفتی جس سے رہ کیہ یا ہے.مثل اسکی کوئی لا سکے امکان ہی نہیں جو اتباع قرآن کے ایمان ہی نہیں قرآن ہے وہ نور کہ جس کا نہیں جو اب دنیا میں اسکی مشکل ہی کوئی نہیں کتاب حاصل تھیں اس سے قیمتیں نجی و سجی اب اعمال بہ سے ہو گئیں لیکن وہ سب خراب حسوس کس کو کہو دیا ہجات کیا کیا ایمان کی توبہ سے بہت ہی برا کیا یہ کہتا رہا تھا ہم سبکو اتفاق افسوس تم نے کر یا آپس میں ہی نفاق :
! 168 HEARTHY ولوی صابح خ سراج الدین اینڈ يطعان ارک P.
169 93 بر وهن وانتم عالمون في المسجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك بيان الله التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ.تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ بتیسوان عظ در بیان فضائل ماہ رمضان ے عزیز و سنو کہ بے قرآں حق کو پاتا نھیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی تھیں ان پہ نیکی کا کچھ اثر ہی تھ پر تھیں ہے یہ فرقان میں اک عجیب اثر اس سے ملتا ہے خالق آ کوئے حق میں یہ کھینچ لاتا دل میں وقت نور بھرتا راہ نیکی کی یہ دکھاتا.پھر تو کیا کیا نشاں دکھاتا سینے کو خوب صاف کرتا کجروی سے یہی بچاتا شرک کو دل سے دور کرتا ہے کبر و نخوت کو چور کرے کرتا سینے میں نقش حق جماتا.ہے دل سے غیر خدا اٹھاتا ہے بحر حکمت سے یہ کلام تمام عشق حق کا پلاتا ہے یہ جام دل کے اندھوں کی ہے دوا یہ ہی سرمہ ہے بس خدا نما یہ می اس کے منکر جو بات کہتے ہیں سر بسر واہیات کہتے ہیں دل سے حق کو بھلا دیا ہیہات دل کو پتھر بنا لیا ہیہات مفسریں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے رمضان میں پورا نازل ہو گیا تھا اور وہاں سے وقتا فوقتا بحسب ضرورت رسول الله صلے اللہ علیہ آلہ وسلم پر نازل ہوتا رہا غرض یہ وہ مہینہ مباک ہو کہ جس میں تمہارے مذہب کی بنیاد قائم ہوئی.کیونکہ قرآن مجید و فرقان حمید جو دین اسلام کی بنائے ہے اسی مہینے میں نازل ہوا اس سے زیادہ با عظمت زبانہ اور کون ہو گا.اس لئے تمہیں چاہئیے کہ ہر سال اس مہینے ہیں خدا کی عظیم الشان نعمت کو یاد کر کے اس کی شکر گزاری کیا کرو.اور جو طریقہ عرسبحانہ نے اپنی شکر گزاری کا بتایا ہے اس پر دل و جان سے عامل یہ ہو چنانچہ اس نے اپنی شکر گزاری کا طریقہ اس مہینے ہیں یہ قرار دیا ہے.
روبرق هفت روزه 170 ++ I ۷۳۷۹ جماعت اہل حدیث کا خصوصی ترجمان <749 ان برچه ۱۳ پیسے مکرر لاہور حافظ عبامتحان المرادی د پاکستان، مره اخرام ۱۳۸۱ شد جمعتہ المبارک ۳۰ جون ۱۹۶۱ - شماره ۴۰ الجات جود ما اک نہ اک دن پیش ہو گا تو وقت کے سامنے چل نہیں سکتی کیسی کی کچھ قت کے سامنے ر نظم بر بادی کباب چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن (احادید) کیلئے جماعت کی شرط یا کا ہو اکیلے کا جمعہ ہو جاتا ہے؟ ہر کوئی مجھے بور ہے حکیم خدا کے سامنے مستقل رہتا ہے لازم اسے بیشتر تکون دا ز الاستفتاء) رنج ونعم سور الم، فکر و بلا کے سامنے اول یا افضل ؟ حاجتیں پوری کر لیں گے کیا تری عاجز نبشه؟ خفیہ الطالبین کا مصنف کون ہے ؟ ال کر مالی اله علو م ا ا ا ا ا ا ا ا چاہیئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دُوئی.کہ بیاں سب حاجتیں حاجی کے سامنے کا سایہ تھا؟ یاد ہے.سر جگائے مالک ارض و سما کے سامنے نے جماعتی اطلاعات و اعلانات ! چاہئے نفرت ، بدی سے اور نیکی سے پیار سفر حجانہ کے حالات جمل حیات پ نه ناسازی تاریخ راک نہ اک دن پیش ہوگا تو خدا کے سامنے استی کے سامنے کب جھوٹ پھیلتا ہے تقدیر باعث سفر حجاز کے حالات تحریر نہیں فرما سکے، باللہ آئندہ اشاعت میں شائع کئے بنائیں گے قدر کیا پتھر کی لعل نے بنا کے سامنے رادار کہا
171 788888888889898588888 ماهنامه 88888888888888888884 مدیر اعلی: پیر محمد کرم شاہ ام لا اینم اے آنرز (الازہر) 38 3 1961 m HINI ، جلد ۲ اپریل ۱۹۷۶ - صفر ۱۳۹۲ شماره ۷ سجاده نشین پیره ( ضلع سرگودها) مدیر معاوت: ابوزا ہر نظامی غیر ممالک سے بذریعه هواتى ڈاك روستی سعودی عرب نھی پرچہ کا ثم اریال 1 دوبئی سعودی عرب سالانه ۱۰ ریال قیمت مغربی پاکستان....1.انگلستان هم شلنگ افلس کویت انگلستان ۲۰ شلنگ ایک دوسرا سالانہ دس روئے می پرچیہ بذرینہ دتی کی گیارہ روپئے کویت مشرقی پاکستان: ایک روپیه ۲۵ پلیسه سالانه : ۱۳ رویے خط و کتابت کا پتہ ! منیجر ماهنامه ضیائے حرم دار العلوم محمدیه باید بحیرہ ضلع سرگودھا مغربی پاکستان فون نمبر ۱۴
172 حديد أعت بان کم سے کمان کا نام نام کیوان است جَانُ فدا حجالِ میں شا بین و سند جوں ہو در شرکا قد اعمال محمد مت ' ا ان میں نام کر لو پھر کمال مات این تم های هنرمندی است ویر آب منی آس نے لال محمداست تاج الدين بن شم ما بو
0000 173 قرآن و حدیث اور فریقینی و تاریخی کتب سے حضرات خلفای راشدین کے فضال ومناقب دینی ولی اور ل و مناقب دینی ولی خدمات اور ان مخلص مومن مسلمان ہونے کا بیان کے کے لاه 0 علا تاليف ناشرکت در وان گنج بخش !
174 پیچ در درون شهری میہ و علیہ الصلوا ہی اور سلام کا ہے هد تان ما عدا حال محمد تمام نار و چه آن معدات قال فد أعمال ن دیم چین و ستندم جون و در سرتال فراجمان محمدا ای شو ا خدادم یک قطرون بر کمال محمد این تیم را پیش مهر مهدی است ویر اسب من آس نے لال مخدات جو نہ بھولا ہم خشرموں کو رضا یا داسکی اپنی عادت کیجئے ہم تمھارے ہو گے کس کے پاس جائیں صدقہ شہر اوٹوں کا رحمت کیجئے 503
$ 175 : ان في هذا البلغا لِقَومِ عيد نين بية , تصنیف لطیف عالم ربانی عارف یزدانی حضرت مولانا خلیفہ پیر عبد القیوم صافی شبندی مجدی هوگر دی اوامر شد فرود محمد الحرام ١٣٩ مطار ۹۳ در مطبع من پریرنٹنگ بر سر حال بازار موسیر طبع شد :
176 هست که در چهل سالگی که چهار دو گفته می شود که چهار دوه میل می شود نتوت از برائے آپ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم آمده انحضرت محبوب چهارده ساله است و مراد از حافظ صاحب این است که قرآن شریف که در دو سال نازل شده و بیرون الله علیه السلام که در چهل سالگی نبوت بر او آمده ہمیں ہر دو در این دنیا که صغیر است و در آخرت که کبیر است مرا بس اندیس معلوم است که در دنیا و آخرت عمل کردن به قرآن و سنت بیس است که حاجت تقلید نیست - لاخر Foo در مرح قرآن مجید ہست قرآن دررہ دیں رہنما درہمہ حاجات دیں حاجت ہوا آن گروه حق که از خودخانی اند آب نوش از چشمه فرقانی اند اگر نامدی در جہاں این کلام نماندی بدنیا ز تو حید نام هر که شد تابع کلام خندا است از انتباع حرص و ہوا از خود و نفس خود خلاص شده بهبط فیض نور خاص شده ہر کہ گیر درہ خدائے بگاں آن خدایش میں بہت دردو جہاں لا مبرم طالب رضائے خدا گلد از ہمہ برائے حندا گرد ہندت بصیرت و مردی از ہمہ خلق سوئے حق گردی ہو چه غیر خدا بخاطر تست آن بت توست اے بایاں سست پر حذر باش ازیں بنتاں نہاں دامن دل زدست نشاں ہوں مور که در راد محمد ز و قدم اخبار راث دلیل آن محترم خدا نیگه تالین در رده اوندا نیابی دانش جزیئے مصطفے از مندا باشد قه راه یافتن نے یہ مکر و حیله و تدبیر وفن :
177 محمد عربی کا بروئے ہر دوسراست کے که خاک درش نیست خاک بر سر تو بے عنایات خدا کا ریست خام بخند داند این سخن را والسلام درستان سید نا حضرت محمد سم F عجب توریست در جان محمد عجب تعلیت در کان محمد وظلمتها شود انگه ولے صاف که گردد از محتانِ محمد داز عجب دارم دل آن ناکسان را که رو تا بند از خوان محمد ندانم پیج نفسے در دو عالم که دارد شرکت و نشان محمد خدا نواں سینہ بیزار است به بار که هست از کینه داران محمد از خدا خود سوزد آن گرم دنی را که باشد از عدوان محمد اگر خواهی نجات از مستی نفس بیا در ذیل مستان محمد اگر خواهی که می گوید ثنایت بشواز دل ثنا خوان محمد اگر خواهی دلیلے عاشقش باش محمت بہت بر بان محمد سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربان محمد بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم نشار روئے تابان محمد دریس ره گرگشندم در بسوزند نابم رو ز ایوان محمد بکارہ دیں تنزیم از جهانی که دارم رنگ ایجان محمد لیه سهل است از دنیا بریدن بیاد و حسن و احسان محمد فدا شد در پیش رفته من که دیدم حس پنهان محمد دگر استاد را نامی ندانم که خوا شدم و بر و بستان محمد بہ دیگر دلبرے کا رے ندارم که هستم کشته آن محمد کارے
178 مرا اس کوشه سیستم بیا باید بجویم به گلستان محمد دیل زارم به پهلویم مجوسید که بستیمش بدامان محمد من آن خوش مرغ از مرغارن قدیم که وارد جا به بستان محمد تو جان ما منور کردی از عشق خدایت جانم اے جان محمد در بیجا گرد هم صد جان درین راه نباشد نیز شایان محمد چه میت بایدا و نداین جوان که ناید کسی میدان محمد الا ہے دشمین نادان دبی راد به ترس از تبیغ بیران محمد ره مولی که گم کردند مردم بجو در آل و اعوان محمد الا اے منکر از شان محمد هم از نور نمایان محمد کرامت گرچہ بے نام و نشان بہت بیا بنگر از غلمان محمد سلام علیه وسلم ، درشان حضرت خاتم انبین سهم جان و دلم فدائے جال محمد است حاکم نثار کو بچہ آل محمد است دیدم بعین قلب شنیدم گوش ہوتی در هر مکان ندائے جمال محمد است این چشمه روان که بخلق خدا ہم ایک قطره زجر کمال محمد است این آتشم نه آتش مهر محمدی است ویں آب من ز آب لال محمد است آن ربازان علم ظاهران علم خود نازنید از دست تو گند معنی ومفر حقیقت یاندان ر نخوردند و گزاف لاف شان رظاہر شیر است تا الان که غافل از حقیقت کے نخود اند شریعیت جمد در آخرین جو انشا کے میکنند از علم ناتمامی شان یا گم گشت است
179 نجا خوائے شان بر خاطر من نشت آرد که مومن بزدلی نبود اگر مند قیامت ارو عالمی را کور گرده این خیال سرنگوں افگنده در چاه ضلال اسے ردیں بے خبر بخور غم دیں کہ نجانت متعلق بہت بدیں بے عنایات خدا کا رست خام پخته داند این سخن را والسلام بکوشیم و انجام کار آن بود که آن خواهش و راه یزداں بود خویش و قوم و قبیلہ پُر زونا تو بریدہ برائے شاں زخدا این همه را یک نت آهنگ که مصلحت کشند و گه به جنگ ہمہ خاک به دستبند که پیوندت بگلاند زیار دل بندت است آخر به آن خدا کارت نہ تو یار کسے نہ کس بارت دین شان بر قصته ها دارد مدار گفتگو ہا بر زباں دل بے قرار عاشق زر شدند و دولت جاہ دل نهی از محبت آن شاه راه بد را نیک اندیشیدہ سے ہلاک اللہ چہ بد نمیده گزد داد فرقان خبر ہمیں حرص دنیاست جان پدر چوں بود بر تو رحمت آن پاک دیگر از لعن و طعن خلق چه باک آس نعنت خلق سهل و آسان بہت لعنت آں بہت کو زرحمان بہت رحمت حق را که عزا ولیاست بہت پنہاں زیر لعنت ہائے خلق کس به چشم یا رصد یقے نہ شد تا به چشم غیر زندیقے نہ شد لعنت آنست که از سوئے خدا اعبان لعنت بر گر آنست بکے ہر زہ نظیر لعنتی گر لعنتنے برما کند او نه بر ما خویش را رسوا کنند لعنت اہل جفا آساں بود لعنت آر باشد که از ر حمال بود جہنم
180 وملح رسول اکرم محمد مصطفے خا تم نہیں بوخت نے i در دلم خوشد ثنائے سروے آنکه در خوبی ندارد ہمسرے آنکه جانش عاشق بار ازل آنکه روحش و اصل آن دلبری آنکه مجذوب عنایات حفت بچھو طفلے پر ورید و در پرے آنکه در تیر و کرم بحر عظیم آنکه در لطف اتم کیا سے ہے آنکه در جود و سخا ابر بہار آنکه در فیض و عطایک خاو سے ہے اں رحیم و رحم حق را آیتے آن کریم وجود حق را مظہرے آن رخ فرخ که یک دیدار او زشت رو را میکند خوش منظری را آن دل روشن که روشن کرده است صد درون تیره را چون اختر اں مبارک ہے کہ آمد ذات او رحمتے زاں ذات عالم پورے از بنی آدم فزوں تر در جمال وز لالے پاک تر در گوہرے برلیش جاری ز حکمت چشمه در دلش پر از معارف کوشے وردنش برق دامان از غیرش بر فشاند تا نئے او نیست در بحر و بر اں چراغش وادی کش تا ابد نے خطر نے غم نہ باد صر صرے پہلوان حضرت رب جلیل بر میاں بستہ ز شوکت مجرے تیرا و تیزی بهر میدان نمود تیغ او ہر جا نمودہ جو ہرے کرو ثا بت پر یہاں عجز بناں وانمودہ زور آن یک قادرے ثابت نا نماند بے خبر از زور حق بہت ساوثبت پرست بن گئے عاشق صدق و مداد و راستی دشمن کذب و فساد و ہر شہری خواجہ و مرعاجزان را بنده بادشاه و یکسان را چا کرے نادم
181 ANA کینی یلیفون نمبر آزاد قیمت سہ روزہ ایڈیشن ر الله ربیع الاول اللہ نمبر ۹۷ کا استعمال عالمگیر جنگ کا پیش خمیہ ہوگا! ت کو جائز سمجھتا ہوں میں مصر کے مطالبات کے ہوائی اڈہ پر وزیر اعظم پاکستان کی تقریر و ستمبر: وزیر اعظم ڈاکٹر الیاقت علی خان مشرقی بنگال کے دس روزہ دورہ کے پہل پیچ تھے.آپ نے گورنر جزاء کے خاص ہوائی جہاز میں منی کیا.آپ کے حماه يات حسين وزير مهاجرين بھی تھے ہوائی اڈہ پر آپ کو الوداع عن عيد كود می نیروز خان فون اور مسٹر نورالا میں بھی آئے.آپ نے اخباری نمائندوں کو کے کھا -1 کی پاک ے میں امن چاہتا ہے.تو مسلہ کشمیر ہے.چاہیئے.ایک اور ہیوال کے کی کایا هند دوستان اور پاکستان ا گوجرانوالہ میں بلکہ عید الادالنبی پر لاٹھی چارج کے لئے بہ کثیر میں ادارات عوام کو مرزائی صدر حکسٹ مونیکی و جسر لاٹھیا کھانی پڑیک مجھے شماری کی جائے.لیکن اب گوجه خواله ۲۲ دسمبر بروز جمعتہ المبارک بعد از نماز جمعہ عید میلاد النبی کی تقریب عید پر ایک مل کرنے سے گریز کر رہا ہے.جلس کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ضلع کے ڈپٹی بکستر میں چین نے کرنی تھی ٹھیک تین بجے ڈپٹی کشتہ کر سکی صدارت پر بیٹھا بعد از تلاوت قرآن مجید ایک طرف دلائی گئی.شیخ کو لا کر پینک کی طرف سے پر امن میلا 787.مقدر کا نام پیش کرنا ہر گز تسلیم نہیں کرے ہو گئے.بار بار میں طالبہ کیاگیا کہ مرد اور دشمن نیم بوت کو جاری رکھتے ہوئے ڈٹے رہ ہے تیر یاوہ گھنٹہ صد کو کوستی و مدارت سے اتار ریا جاوے قرار جو ایک عوام کے لیے اس احتجاج کیا.گرم ہے جلسہ جو کہ سرائی تھا.عوام کے مطالبہ کو بری طرح ٹھکرا تا ہوا کرسی - پ سے چاہیہ تھے کہا کہ مصر کا مطار بازار ہوں اس ای میلی در ملاک قانونی قرار دیتے ہوئے صدارت پر ڈٹا ہا.اس کے بعد پولیس کی لاری میں ہیں کوہ بھی چارج کا حکم دے دیا.اور جس طرح پاریس کی حقیقت میں جلسہ گاہ میں سے صدا صدر نے کہا کہ اگر گری نے ایم بھی ہور کا عوام کے جائز مطالبہ کو ٹکر دیا گیا.گرہ کو برخاست کر کے چلا گیا چاہتے ہوئے اپنی مائی تو وہ اور الجھ جائیں گے.اور انچارہ کی تایبه شی گوجرانوان کے اپنے جس انتلاقی سے ختم نبوت کا ایک اور ثبوت دے گیا ر کی جس کو ایسا اقدام کرنا چاہئے جن سے بغیر انسٹی چارج کئے ہوئے بات کوں سے عوام جوکر منصور کی ادارات وارد اتفاق اور باران کی گواہ کو چھے مٹادیا گیا.گر عوام پرستی اپنے جان یہ خالہ سکتا.(سیکرٹری امبر ختم نبوت گو جرانوالہ) ن پاکستان کلیدی عباس پالتویی برای ترک مسلمانان میانوالی کا اہم مطالبہ گجرات میں شہری مسلم لیگ کا عطیہ گجرات و بر آن قائد اعظم کے یوم پیدائش کے سلسلہ میں شہر ی کم ایک گھرات کے زیر اہتمام ایک
182 ماء النبی کو ان سے اي تصب فلا يصاراً یر ستان کے دن میرا - آن امور مایه ان تمام بینه درود و سلام بھیجا جه ماست - علیہ السلوم السلام کی تولیت تو انسان نہ است یا موت حضرت استیک لولین رحمدل ن رحمة للعالمين ! دین (طویق عمل نه های نبی کی مرسی از یک پیشیر دوسری حدیث : - ان اكوم الاولين میں پہچانا جاؤں.تو نور محمدی پیدا کیا اور اصل اکملت لکه نہیں کہ آپ کی تقیقہ کا اور ان کے الاخرين وبيدي لراء الحمل اس نیز مقدس کے پیدا کرنے سے اسی مقصد عليكمه تفید تلیف اسلام : السلام کے متوقع اکثر ولا فخر وما من نيسا اعلیٰ اور مشل اعلیٰ کی تکمیل منظور تھی جس کی شہایت حضور علیہ الله انه یاد پیشگوئی کرتے اسنے.انہاں نے بھی مرت أدم نمن سماه الاهو خود حضور علیہ السلام نے وہی.کہ اسی بلہ پر اکتفاء کیا.کہ ہمارے بعد ایک نیا تحت اندائی افراد زیان آنے والا ہے.چنانچہ حضرت عیسی یعنی حضور محمد الرسول الله علی اله علیه وسلم الاخلاق وكمال محاسن کی نہ ہوتی تخیل میں واضح ہے کہ میرے بعد اولین : آخرین میں مکرم ہیں.اور آپ کے ہاتھ میں کی.انہی آنے والا ہے.جون کا نام محبت ہوگا.محمد کا علم ہوگا.قیامت کے دن کوئی نبی ایسا جس کا ثبوت خود حضور عا یہ اسلام نے اپنے دم معینی جیسی اولا میں ان کے جوتے کے تسمے کھونے کے بھی نہ ہوگا.جو حضور کے علم کے نیچے نہ ہو گا.یہ ذاتی کردار سے پیش کیا کہ اتی ہیں.إن الله يعني لا تم مکارم عنایات و عطیات ریسے تو قضی الاعمال زندگی کے مطالعہ.نہیں آتے.البتہ رفعت و شان دار احمد کے مالک کو عزت ان الفتكم واعليكم يا الله نے کفارہ عرب کے مرسلین کے بعد حضور علیہ السلام کے اصحاب انتہائی حد کے باعث ہوگی.علا: انہیں اللہ تعالیٰ انا کسری کی عظیم اللہ و تا دین کا شمار ہوتا ہے.تو ان کا بھی یہی حال کے وہ ایشاذات جو حضور سے نسبت رکھتے ہیں ان اور فکر باالله و الٹ کر رکھ دیا.رہا.کہ حضور علیہ السلام کو اسی قدر پہچان سکے ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالے نے اشدكم لة خشية خود حضور علیہ الص کہ اپنے مال و جمال اور اولاد سب کچھ آپ پر حضور علیہ الصلوۃ : استلام کی ذات مقدس کے حضور علیہ السلام نے اکمل ترین طریقہ پر الہ اخلاقی جیل کا منو قربان کر دیا.یہ بھی پہچاننے کی ایک ادنئے زلی ابدالی محبت کا نمونہ بنایا.چنانچہ ارشاد کی ذات کو پہچانی کہا اپنے منصب احسانی کی تکمیل مثال ہے.باقی انت تو کسی شمار ہی میں ہوتا ہے :- کی.عہداری تواریخ کے حضور قلنية الصالو نہیں بہر حال اولیا ئے کرام اور صوفیائے عمام ان الله : ملكة يصلون محمدت پیش کر آئے کی راہ عرفان میں جو کچھ مشاہدات میں آتے على المشترى يا ايها الذين امنو ہیں وہ حضور کے نور مقدس سے ہی تو سل رکھتے صلو عليه وسلمو تسليما دنیا پر جتنے پیغمبر مبعوث ہوئے سبھی نے ایک ہیا.جو زمانہ : ہیں.علاوہ ازیں علمائے کرام نے محسنوں کی جدہ اللہ تعالی بشری کردار سے منزہ ہے.تسلیم اپنی کا درس دیا.ہر نبی اپنے ماحول کے مطابق میں اہمیت تا رکھتا تریوں کی بہتے وہا آپ کے اسو ہ حسنہ از علم معبود ہے.اس کے ذمہ کوئی عبادت نہیں مگر شریعت کے ساتھ امداد اللی معجزات کی صورت قدر جہالت میں : الحدیث سے ماخوذ ہے.ورنہ حضور علیہ السلام اکمل محبت کا تقاتنا ہی ہے کہ اللہ تعالٰی : میں لے کر آیا.اور ہرنی کسی مخصوص قوم کے لئے سپاہ گری سی اس کے ملائکہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام مقرر ہوا.مگر ہمارے نجی حضرت محمد ر سال اللہ امارت میں انتہ پر : کی تعریف میں ہے کہ ہے اگر خواهی پیر عاشقش باش کہ استند و سلام بھیجنا اپنے ذمہ لیا اور تمام صلی اللہ علیہ سلم كافة للناس رحمة اور خصوصاً کہ محسود است به یان مهشید کائنات : خلقت کے لئے نہیں اعلان کر دیا کہ العلمین بن کر آئے.جو شرت کسی نبی کو حاصل عمر نمالد بن ولید ہرزی رنج آپ کی ذات مقدس پر تا قیامت نہیں اسی مشرف کی سب سے بڑی خصوصیت موجود تھیں.تعریف میں زیاب انسان ہیں.کیونکہ تمام کائنات یہ تھی کہ گزشتہ انبیاء نے معجزات سے جاہروں کو علو مرتبه حضرتة حضور علیہ الصلوۃ : اسامی کی شلی تقدس کی خلقت کے بنانے کا مقصد یہی تھا.کہ زیر کیا جیسے زائد موسی جیسے علیہم السلام نے اور اے پیر مہتمہارے لولاک لما خلقت الافلاک عجزات انہی سے فرعون - بامان - شداد نمر تم اس حدیث سے ظاہر ہے كنت بنياء كان الامام کیونکہ یہ زیادہ ازلی تھا.زائیوں کو مسلح کیا ہے کہ مرزائی انے کا ذبانی مرزا کے الہامات اری اشاعت کو خیال کریں.ایدہ اشاعت این باڑ ہی ہے.ہمیں ابتدا ہی میں یقین تھا.کہ انکے پاس نہیں ہے کوئی جواب نہیں ہے اب بھی ہمارا پانچ قارا ہے ال کره ای اندام های ایه از امین مرزا ایسے پانیوں کو مجبور کر دیا گران تمام معجز والے لوگوں میں علمی کہ مرز اغلاق أحمد قادیانی خارج از اسلام شهوت قرآن خود و نیا ہے : الهيد مرع اول الآن شتے میں ہے.دار تہ ان سے اور پھر کی طرف کہتا ہے تو اس کی متقی اور علم دینیں ہمیں پھر زندہ آئے گئے.اور دنیا میں وہ اپنی طبعی مرزا قادیانی کے لیے کہ ان میں خدا کے لئے میدت بن بجاتے ہیں.نفسیاتی طور پر غرض اللہ تعالٰی کی بات اٹھائے گئے.جبکہ مرزائی حقیقت کو |
183 QADIANISM AN ANALYTICAL VIEW CENTRAL MAJLIS-E-TAHAFFUZ-E-KHATM-E-NABAWWAT MULTAN (PAKISTAN)
184 10 the coping has been left vacant.That coping stone is my person, I am Last of the Prophets.اني انه سيكون في استنى ثلثون كذا بون - كاهم بزعم نبى و انا خاتم النبيين لا نبى بعدى جامع ترمذی جلد ۲ ص ۱۱۲ There shall be thirty impostors in my Ummat.Everyone shall claim to be a prophet, whereas I am Last of Prophets-there shall be no pro- phet after me.A ۸ - كانت بنى اسرائيل توسهم الانبياء اذا هلک نبی خلفة بنى وانه لانبی بعدی سيكون الخلفاء Iqbal Bani Isreal was reared by the prophets.When one prophet died be was followed by an other prophet.But afer me there shall be no pro- phet.But there shall be caliphs.Finality of prophethood has fascinatingly been brought out in the following verses.هست او خير الرسل خير الانام اختتام نبوت را برو شد هر He is the Best of Prophets and Best of human beings.Every Prophethood came to an end in his holy person.ختم شد بر نفس پاکش پر کمال لا شد ختم هر پیغمیری جرم All excellences came to an end in his pious person; undoubtedly Prophethood came to an end.T
185 جمله حقوق محفوظ ہیں کوئی صاحب قصد طبع نہ کرے ان عربی بول مال انسول جمع گرامر اینڈ ٹرانسلیشن خط و کتابت و عربی سے اردو لغت مُصنِّفه مولوی جان محمد ایم اے ایم او ایل نشی فاضل در پونی فاضل سابق عربی و پیشین ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول غیر زن پور F ڈاکٹر ایم.اے علیم پور نتنا الكنف بالا " -
186 ۲۹۷ والتعظيمِ وَالحَيَاء فَارَفعُهَا مَنزِلَةَ الحَيَاء لَمَّا تعظیم ہے اور حیاء ہے پس سب سے بلند تر رہتے میں جا ہے جب يقنوات الله يَرَاهُمْ عَلَى عَل حَالٍ قَالُوا سَوَاء تَعَليا كُلّ یقین کر لیا انھوں نے کہ خدا وند تعالی انہیں دیکھتا ہے ہرحال یں تو کیا کہتا ہے رانياة اورانا وَكَانَ الحَاجِرُ لَهُمْ عَنْ مَعَاصِية الحيا ہم کہ ترا ہم اسے دیکھیں یادہ نہیں دیکھے اور حامل اور مانتے ہے انہیں اور مِنْهُ وَيُقَالُ القَنَاعَةُ وَلِيلُ الأَمَانَة والامَانَةُ حق تعالی کی نافرمانوں کی نافرمانیوں میں خط سے شرمانا اور کہتے ہیں کہ ماعت بی امت کی دليل الشكر والشكر و ليل الزيادة والزيادة وليك اور امانت ودلیل تشکر گزاری کی اور شکر گذاری علامت زیا دہ ہوتی کی ہے اور یاد ہونا بقاء النّعْمَةِ وَالحَيَاء دَلِيلُ الخَيْرِ كُله نشانی بتائے نعمت کی ہے اور انسانی تمام خوبیوں کی ہے.جیا قصيد في ملح التي صل الله يا عين فيض الله والعرفان يسعى اليك الخلق كا نظمان لے خدا کے فیض اللہ شرفان کے جیتے لوگ تیری طرف پیا سینے کی طرح منہ سے آتے ہیں
187 يا بحر فشل المنعِيمِ المَنَانِ تَهْوى اليك المربا الكيران اسے سنتم ومنان کے فضل کے سمندر لوگ کوزے لئے تیری طرف آرہے ہیں ما شمس ملك الحسن والان نورت وجد البرو العمران تَوَرَتَ وَجه تا , او اسے حسن و احسان کے ملک کے آفتاب تو نے دیوانوں کو آباد کارواش کردیا بال قومراوكَ توم را وَكَ وَامَّةٌ قَد لُخبَر مِنْ ذالك البدر الذى اسبانى قیم نے ولو یہاں ایک قوم نے تھے آنکھ سے دیکھا اور ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اپنا دیوانہ بنایات يتكون من ذكر الجمال لصبابة وتا لما مِن توعَة الهجران کے مال کو یاد کرکے تین سے ملے ہیں اور جدائی کی جان سے کچھ اٹھ کر چلاتے ہیں وارى القلوب لدى الجنادرية قلدى الغور تنلها العنان قَارَى العَيْنَانِ اورا نے ناموسی یں دلوں کو غم سے لاکھوں تک پہنچے ہے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اور کیا ہوا میں انوار ہیں ہوا الــ يا من عد إ فى نورة وقاية كانتيرن ونور الملوان اسے وہ جو اپنے نور اور روشنی میں افتاب جہان کی ماند ہے جس رات امین کو اناوی يَا بَددُنَا يَا آيَةَ الرَّحمن اهد المَدَاةَ فَاسْحَعَ الشجعان اے ہمارے بدرا سے رحمان کے نشان P سے ! إلى أرى في وجهكَ الحَمَلَلِ شَانَا يفوق شمائل الانساني میں تیرے درخشاں تیرے میں ایک ایسی دی کیوں جو انسانی صفات سے بڑھ کر ہے حو وقد اقتضاكَ أولو النعى والعلم وَرَتَوا تَذَكر معهد الأوطان دانشمندوں نے تیری بیٹری کی اور اپنے صاف کی یہ گالف وطنوں کی یا دین ترک کردی.
188 قد الروك وفارقو العالمُ فَقَاعَدُوا مِن حلقة الاخوان احباب ہوں نے تجھے قدم کیا اور اپنے دوست کی بیوی اور اپنے بھائیوں کے حلقہ سے معد ہوگئے اہوا کیا قد وتعوا أهوائهم والموسهم وتبر وا مِن كُلِّ نَسب فان نہوںنے اپنی خواہشوں اور نفسوں کو چھوڑ دیا اور سب طرح کے فانی بالوں سے بیزار ہو گئے ظهَرَتْ عليهم بينات رسو الم فَفَرَّقَ الأهواء كالأوثان رويه ی ایک کی کال کی ایمان ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر ہے ہیں مانی في وقت ترويق الليالي توروا والله نَجَاهُمْ مِنَ الطوفات دو راتوں کی تاریکی کے وقت تصور کئے گئے اندر خدا نے ان کو طوفان سے بچا لیا قدهَا فَهُمْ ظُلم الأناس مهم فَتَتَبو العناية المَنانِ 61 لوگوں کے ظلم دست نے ان کو پور پر کر دیا گردہ خدائے منان کی مہربانی سے ثابت قدم رہے اللام و معارهُمْ فَتَهللوا بجواهر الفرقاء شود اوباشوں نے ان کے مال اور جا نا دیں یا میں اور اس کے عوض ان کے اولیا اور ان کے پیر کی ہے سحوا بيوت نفوسهم مبادروا يتمتع الإيقان والإيمان انہوں نے اپنے نفسوں کے گھر یک کشور بیان کیا کہ یقین اور ایمان کی دولت لینے کو آگے بڑھے اپنے نوں قاموا با قد امر الرسول غزوهم كالعاشق الشعوب في الميدان رسول کریم کی حمد وری کے ساتھ میدان میں لڑائی پولیو ڈٹ گئے جسے کوئی عاشق ہوا ہے السيوف أريق كالقُربان قَدَمَ التَمَالِ لِصِيغتم فى حيمِ سوان پہلوانوں کا خون محبت کی راہ میں ثابت قدمی کی وجہ سے قربانیوں کی طرح تلواروں کے نیچے بیا -
+ 189 جاءول منهو ينن کا سربانِ مُسَتَرَتَهُم بِمَلَاحِفِ الأَيْمَانِ.کہ تیرے اور لوٹے ہو ئے اور تنکے آئے میں پریو نے ایان کی چار یک اگر بنائیں صادفتهم فَوَ ما كُووت ذِلَّةٌ فجعلتهم كسيلة العضيان لے گی ہی کی طرح ان کو ان میں عام پایا اور سونے کی ڈلی کی طرح بنا دیا حتى انتى بر مثل حديقة عَذَبَ المَوَارِدُ مُمَّر الأغصان اسبيير الأَعْصَانِ او روز تو پھلدار می عادَتْ بلاد العرب محو نفاق بعد الوسى والمحل الخسران حب کی تدین ایرانی اور خشکی اور تیاری کے بعد سرسبز موگئی عرب لأن التجارة أول الغزلان لجعلتهم فانين فى الرحمن اَزَلَ المَوْلاً من خواهان ایر که یه دا کاری میں انکار ہوا ہو ا اتار کرکے ان کو تین میں خالی ماریا نوز نيسان كان اللوم عمنا فيها حنو العقار وكثرة النسوان دو باتیں تھیں جو میں اندھے ہو رہے تھے شراب کا پیار اور عورتوں کی کثرت أما النساء محرمتُ إِنكَاحُهَا زَوْجَاله التحريم فى القرآن عورتوں کی نسبت تو یوں فیصلہ تھا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا حرام کا ایک ایک حرمت را می کنی وَجَعَلْتَ وَسَكَرَة المهام محوباً قَارَيْتَ حَاءَهَا مِنَ البَلَدَانِ انگر شراب خانوں کو تو نے ویران کر دیا اور شراب کی دکانیں شروں سے انٹاری
190 كَم شارب بالرشف دنا لا يا مُجَعَلَهُ فِي اللهِ النشوان بہتر ہے غم سے تھے تھے جو نجم کے غم سے بھی جاے تھے جنہیں تونے دین کے متوالے کردیا كَمْ ت مستنطق! قَدْ صَارَ مكَ مُحدّث الرَّحمة بہتر سے ہو کر مارت بد کردار ہے ساز میں پانی کرنیوالے ہو تیری طفیل ایمان کے ہم کلام ہوں بھی گئے ك مستهام للرسون انشقا من تهديد با إلى الفرقان میرے تھے جو نو بودن ورات کی پیر شدن اتو انہیں فرمان کی طرف کھینچ لا وا لایا مَاذَا يُمَا تلك بهذ السان اَخَيْتَ اَموات المـ القُرُونِ تو نے صدیوں مردوں کو ایک ہی جلوہ سے دو کیری کہانی ہے جو اس سان میں تیرے جیسا ہے تركوا العبوق وبد لو مِن دَقِ ذَوقَ الدُّعاء بليلة الاخوان ثوا انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اسکی لذات کی بجائے باتوںمیں دو کی لوقت بتانے کی كانوا برنات المثاني قَبْلَها قَدْ أحمر و في شحها لا تعاني نیکها اس سے پہلے وہ دو تا رنگی مرد کی محبت میں قیدیوں کی طرح گرفتار تھے.قد كان مرتعهد آنان دائما طورًا بعيد تارَةُ بِدِنَانِ یشه ای رخت خوشی کا میدان دار کیا تھا کبھی ان کی تمام عورتوں کے مار دیکھنے کے گرتا ما كان ذِكْر غَيْرُ نَك ثَوَانٍ اَوَشُرب راج اَو خَيَالِ جَفَانِ پیشگی مین تھا ران ناشی یا سامان خورد و نوش کافه
1 191 كانوا لمَسغُوتِ الفَسَادِت جهايم راضين بالأوساخ والادران بے وقوفی سے مار کے یہ تھے میل کچیل اور ناپاکی پر خوش تھے عبان كان شعارهم من خيالهم حُمْقُ الحمار و وثبة السرحان جہالت سے دو عیب توں کے شامل حال تھے آڑ گدھے کی سی اور حملہ بھیڑنے کا وا فَطَلَعَتَ يـ يتُفيتُهم مَنْ وَجَكَ النوراني اتنے ہدایت ان میں سے کتاب را تا کی میری پہلے نے طلوع کیا.یا اپنے نورانی پر سے انہیں منور کرنے احساب أرسلت من رب كريم تعين في الفتنةِ السَّمَاءِ وَالطغيان لوفناک جتنے اور ادیان کے وقت خداوند کریم کی طرف سے بھیجا گیا.يا للفتى ماحنة ويَمَالُهُ رَيَّاهُ يُفي القلب الريان راہ کیا ہی خوش شکل اور خوبصورت جوان ہے جیکی خوشیو ول کو ایمان کی طرف شیفتہ کرلی ہے وجدُ المهيمن ظاهر فى وجهه وَشَدُّونَهُ لَمَعَتْ بهذا السنان اس کے چہرہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے اور اسکی شان سے خدا کی شان نمایاں ہوگئی ہے فلذا يجب وسحق جَمَالُهُ شَفَا بِهِ مِن زُمْرَةِ الأَخَوَانِ يُحَبُّ شَغَفَابِ کے تمام دوستوں کو چھوڑ کر اس کے مال سے ہمیشگی کیا ہے اسی لئے وہ محبوب ہے اور اسکا جمال اسلایق ہے و، س و) "" بارك خل التقى حزق وفاق طوائف الفتيانِ بورش به کریم سخی عاشق تقومی کریمی الی الک تمام اعتبار سے بڑ کر کسی اور
192 فاق الورى بكَما لِه وَجَمَالِهِ وَجَلَالِهِ وَجَانِهِ الرَّيَّانِ و درو اپنے کمال اور حال اور حلال اور تازگی دل کے سبب سے تمام مخلوق سے بڑھا ہوا ہے لا شَكَ اَنْ مُحَمد خَيْرُ الْوَرى رَقُ الكِرامِ ونخبة الأحيان بے شک محمد صلی اللہ وسلم خیر الوری برگزیده کرام را در چیده اعیان میں تمت عَلَيهِ صِفَاتُ كُلِّ مَرْتَةِ خَتَمَتُ بِهِ نَعْمَارُ كُلِّ زَمَانِ واف والله ان محمَّد كَرَدانَةٍ وَبِهِ الوَسُولُ بِسَدَّةِ السَّلْطَانِ للہ کی قسم ناہی دربار آپ سے ہار سلطانی میں کی ہوتے ވހ ހ كل مطهر و مُقَدَّسِ وَبِدِينَا هِى العسكر الروحانى ہر مظہر اور تقدس کا فخر ہیں.اور روحانی لشکر کو آپ پی کے دور پار ہے وكل مقرب متقدم وَالفَضْلُ بالخَيْرَاتِ لإِيزَمَانِ مَعِدِهِ هو خير کالا شخو به آپ میرا گے بڑھنے والے مور سے افعال میں اور اقلیت کا اور وہیں پر ہوتا ہے اک زمانے کا وَالطَّلَ قَديدٌ وأَمَامِ الوَابِلِ فَالهَل كُل ليسَ كَالتَهْتَانِ ی یک مینی موسلا دھار بارش سے پہلے آتا ہے.لیکن ہلکے پیدا کر بھڑی میں بڑا فرق ہے وی وسلادھار بطل وحيدٌ لا يَطِشُ سَحَامَهُ ذُو فَعِيَاتٍ تُوبِقُ الشَّيْطَانِ d کے اور پیدا کیا ان کا یا ان کا کتنه
J- 193 موجة إلي أرى أَثْمَارُهُ وَتَلُونَهُ قَد دلت الحناني باد آپ ایک ہیں ہوں کہ آپک اپ ایک بار میںمیں رکھتا ہوا کہ آے کہیں اور تو نے میرے دل کے قریب کئے گئے تو نے العيشة عبر الحقائق والهدى ورانية لا الله في اللمعان بَحْرَ میں نے آپ کو حقانی اور با ت کا ا ر ہا ہے اور کیک کیک میں موٹے موتیوں کی طرح پایا ہے والله إني قد رايت جَالَهُ بِدُونِ حَنِى قَاعِدَ المكانى قدرات قسم بخدا میں نے آپ کا جمال ، سریے اپنے مکان ہیں میں بیٹھے دیکھا ہے ورانت في ريعات ترى وحيد التي سقطتى الاقالى میں نے آفغانی چھاتی میں آپ کا ہر دیکھا پھر آنحضرت بیداری میں بھی مجھ سے ملے يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِكَ دائماً فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ لَعَثِ ثانِي بھی اے میرے رب اپنے اس بنا پر پیشہ درود داری اس دنیا میں بھی احمد و مرنے بحث میں بھی و يَفْرِعُ سِهَا مُكَ قَلبَ وَالْخَازِي وَنَشَحَ عَوْمَكَ هَا مَذَا تَنْبَانِ ہے تیر ہر جنگجو کے دل کو چھید تے ہیں اور تر لروم الٹر ٹاؤوں کے سرکو کچلتا ہے لِلهِ دَركَ يَا إِمَامُ العَالَم آفرین تجھے اسے امام جب ان انت السبوق وسيد الشجعان تو سب سے بڑھا ہوا اور شجاعتوں کا سردار ہے ن خانه نشی عزیزالدین بیشتر و اجرا کنیب لاہورستاز کشمیری
mana 0000 2 194 لام و امان الات دينا او اختلانا خالد 2 ONE RUPEE INDIA 1916 بری تاریخ اسلام اور اور سب سے بڑی قصص الانبار دو حصوں میں پہلے میں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی تک اصحاب هفت واحد و دولت ترین ذوالقـ ۵۳۰ صفات حصہ دوم میں سیدنا حضور رسول کریم کی بڑی مفصل سوانح حیات م صفحات اور خلافت را شیاده حضرت امام حسین اور خلفائے بنی امیہ حالات کلیم صفحات مولوی سے دوگنی تقطیع کے ۳۰ صفات کی مجاہد کتاب اور قیمت اس مانہ میں ہی صرف کا نخان کے داموں پانچ روپے مسمول اک ہم کل سوا سنجر رساله مولوی عبد الحمید خان کو چہ چیلان علی A
195 دینا | 10 مغرب مفرد از دما سمعت الله اقسور بحریات یعنی الہ تعالے نے آپ کے سوا اوپر اور نیتی اورح واجسا اور ظاہر باطن میں نظر آتا ہے خواہ وہ ذات پر اعرنی ا کسی کی حیات کی قسم نہیں کہائی خواه خیلی بر یا خارجی خالق ارض و سماہی کیا مشیہ ہے اور اسی کا فیضان ہے.پانداز احل غيرة به سیاست هایی به شرف : کرامت بھی صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے اس بات کی طرف کو حضرت رب العالمین کا فیضان ہر چیز پر محیط ہے کوئی ہے اوراس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اور پاک کے نزدیک نام انیا سے زیادہ جگہ اور کوئی جو اس کے نین سے خالی در محروم نہیں وہ تمام خون کا مبدا ہر و فیوض - مجوب دیگرم اور اشرف و معزز ہیں.اور اور تمام افراد کی عدت ہے تمام دوستوں کی مر یہ ہے نام پر بات کا فون ہے ۱ حضرت این است الساری بہت جس نے ہر چیز کو کالاست عدم سے نکال کہ وجود کی روشنی عطا کی کائنات (۵) آپ اپنے اصحا ت کے لئے امان میں فی است ا ا روایت ارضی و سیادت کرتی : جو ایسا نہیں برنامت باری تعالے سے اسے غیض نہ ہو یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریا کہ مجھ سے پہلے جتنے نبی ہوئے ان کی مسلمان نام ہے جن کو اللہ نور السمیات و یا رمیض سے تعبیر کیا گیا ہے.بہ منائیں ان کے جواری اور اصحاب ہوتے تھے جو ان انبیاء سے طریقہ ارسام اس نے نیس نام کو بیان فرمانے کے بعد بغرض الخمار کی بیتا فیضان خاص - نور حضرت کی ہر نگاہ انتہا کرتے تھے پہر ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے تھے کہ لوگوں خاص نہ حضرت خاتم الانبی اصل اور عالی سال کا شنا کو بیان فرمایا، نوین ے ایسی باتیں جن پہ خودعمل نہکرتے اور ایسے کام کرتے جن کا ان کو حکم دیا کہ مثال ہی اسے بیان برای ما این ادا کر نے میں کوئی الہام اور ت کو سمجھنے گیا تھا انج رات کیا اس کو مسلمہ نے.اقی نہ رہے.علیہ بیان و معافی کا اصول ہے کہ معافی مقولہ کو مے محسوس در بیان مطلب یہ ہے کہ حضور سے پہلے بلے بنی ہوئے ان کی لاتی ہوئی شریعتیں کرنے سے پر ایک اتنی ہی اس امر کو بھونی ہو جاتا ہے فرمایا کہ نبوت محمدی باران اور تعلیمات ان کے زبانوں اور ان کے اصحاب کے زمانوں اب تو محفوظ رہیں ان لا نے الیا اگر یہ محمدی یعنی فیضان محمدی کے شرف و کماں کو بیچنا ہے تو اسی) ان اوران ہیں باید بدانا نا و تحریفات سے دو شہر میں گم پاسخ ہو جاتی ہیں لیکن اس بات میں مثال سے ہے.تاکہ تم اپنی زندگیوں اور عقائدہ اعمال کی تاریکیوں کو دور کر کے شا و یا بارے میں سمجھ آپ کو تمام انبیا پر جو شرف وصل ہے ان منانے لھا اس علم کا خون ارشاد ہے اپنے آپ کو نور ایسان سے منور کر سکیں.اطا طالبات مراد رسول اکرم صلی الله سب صلی اث سلمہ کا سینہ مبارک اور چراغ ہے کثافتوں شیشه إذا امان اصحابي ا میں اپنے اصحاب کے لیڈران بون اس کی شرح بیش اعلی از باد نوت بغض اختلاف اور بعض نعتوں سے کرتے ہیں دت عنی و من غیر باعت و اختلاف او رشتوں سے مامون رہنے کا سبب ہیں.آپ کی مرا انہی آتی ہے پھر فرانا کہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں ہے جو نہایت مفی است آپ کی شریعت کا الہ کی حقیقت نہ ہو سکے گی جوڑے گی مگر ہر اک سے ہر ہے یعنی نیابت پاک و مقدس دل اپنی اصل نظرت میں مہمات و شفاف می شه انگی اور نبیوں کی امین ہوتے ہیں اور اسی تیب دیں کہ بھر بھر نہ کہیں کہ آپ کی طرح ہرقسم کی کہ بورتوں سے اور ہر نوع کی نشانیوں سے سنز، و مظہر ہے طالب استیں تجر سکیس کو یہ شرف حاصل ہے کہ است نجوا کہ باہر جائیگی اور نہ کر ابھرے گی ، مینوں کیہ کرآپ کا سایت صرافی تعلقات اسدی اسد سے بجلی پاک ہے اس میں غیر ان کا کا بازار ارم ہوگا اختلافات کا مونان اٹھے گا انہ نون کا سیلاب آئیگا مگر محبت اذان با نظمت و جلال کا مطالق کندر نہیں ہیں.پسینہ ہے جس سے دنیا نام احسانات اور نام با چنین نام اختار ناشتہ اور تمام شتے اپنی موت آپ مر جائیں گے اور تعلیمات میں علوم و معارف کے چشمے پھوٹیں گے اور شماری پھیل گمراہیوں کے حسن خان کو ان بھارت خوانی ات ہے کہ تو رافق عالم پیر فراگستر رہے گا اور اسی شریعت پر دنیا کی خانہ بہ کو دیا جا ئیں گے مینی اور این امراض کا آپ تجمع قمع کریں گے اور انسانوں کے فیضان شہری کی مثال العنود السموات والارض بالوں کو صاف کر کے ان میں انا للہ کے نقوش ثبت کر دیں گے.مثل :ورلا كمشكوة فيها شیشہ کی صفائی یا سینہ فتنوں کی آب وتاب که فرمایا کہ گو یا آسمانی درد است تو مين الصبا من زجاجه السر نور ہے آسمانوں اور زمین کا اس کا ایک روان ستارہ ہے یعنی آپ کا دل انا منور اور درخشندہ ہے کہ اس والزجاجة کیا تھا کہ کہ بہادری کے نور کی مثال من طاق کے ہے کہ کی اندرون بخشندگی بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر یہ قدامت شجر کا مار کر دین اس میں چراغ ہو اور چراغ شیشے کی تبدیلی آتی ہے.لاشرفية ولا سبيد تا د میں ہو، تبدیل ایسی ہو کہ گویا ایک تا را نهایین و لولده تمسسه نار پکتا ہے.روشن کیا جاتا ہے وہ چراغ دوران ہوا فریایا.وہ نور علی نوسن چھلی الله لنوره درخت مبارک نرمتون سے دو مشورت زیتون کے شجرہ مبارکہ سے ایشن کیا گیا ہے.شجرۂ مبارکہ سے مراد وجود من یشاء ويضرب الامثال کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف زیادی محمدی ہے جو تناسب اعضاء جامع بیت و کالا اور الواع و اقسام کی برکتوں لاناس و الله بکل شی علیم ہے اس کا تیل روشن ہو جائے اگر چہ ا رد کشیوں کا مجموعہ ہے نہں کا نتیش کسی ہمت کسی زبان اور کسی کے لئے اس کو آگ لگے روشنی کے اوپر دوستی ال تعالے نے نور سے پیر کو چاہتا ہے مخصوص نہیں بلکہ ان انسانوں تمام ملکوں اور تمام زمانوں کے نئے نام اور نام رکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اسہ ہر چیز جاری ہے جو نیام تا آنک کی منقطع نہ ہو گا آپ پر ایمان لانے والے اپنی بے قد مرت کور ذوقی با نسمتی اور عربی سے است و ذلیل ہو جائیں تو ہو جائیں نہ کا جانے والا ہے.اللہ خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے میں بریک فورد بلندی گرا کا است با تو رات عام پر نیا ری رہے گا اورسلمانوں کو آپ که - -- --
196 مولوی ولی صفر ترقی و کامیابی اور فلاح و نجات کی طرف بالا تا ر ہے گا لطیفہ کہ ہے آگ کھانے ہی روشن ہونے کی خاصیت یہ کہتا ہو.میں نے آپ تا آپ نے اپنی امت کو دو شریعت غرادی ہے جن کے علمی حمل کی نا نا کی سی کی فکری باعمل اور ظاہری و باطنی توئی صلاحیتی اور اخلات ناضای نیروی خود قومی فاصله نام شریعتیں ماند پڑ گئیں آپ ہما کی شریعت کا ملہ ہے جس نے زندگی کے تمام پہلو بخوبی روشن ہو نے اور عالم کہ انبہ طور بنا دینے پر آمادہ تھے آپ کی عقل اور کو اجاگر کر دیا اور انہوں بیگانوں کے سامنے روحانی زمادی ترقی کے رائول جذبات، احساسات نبوت ملنے سے پہلے ہی کمال موز و نیت لطافت اور نور است و قوانین رکہ ہے.آپ کی شریعت کی بنیائیکی اور عدل پر ہے آپ کی بعثت سے رہتے تھے یہاں ضرور ی اور متناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی الہ علیہ وسلم اور تمام روئے زمین کے لئے عام خیرو برکت کا دروازہ کھل گیا اند تورات کی پیشگوئی کی نیت سے پہلی زندگی کے صنعان تبر کا کچھہ واقعات و اخلاق در یہ ناظر میں کرائے پوری ہوئی جائیں.نت اور یہوم برکت ہے جو مویشی مرد خدا نے اپنے مرنے یہ پہلے بنی اسرائیل کو بخشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات لڑاکین ہی سے ایسے اعلیٰ اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شیر سے ان پر طاوع ہوا خاران ہی کے پہاڑ اور بے نظیر تھے جوآپ کو دیکھتاگر روی نا ہو جاتا آ تمام مکہ میں منار نمایاں تھے عدہ جادہ گر ہوا.دس ہزارند دسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آپ قریش میں الامین شہر تھے قریش کی محفلوں میں زبان تو ہو.ادب اور فقر تر لہو اور ایک انشی شریعیت ان کے لئے نہیں، راستشنا با ہ ہیں ؟ فجور ہو تا تا بگہ آپ کی کسی ایسی مغومحفل میں شریک نہیں ہوئے.قریش میں بڑے نجره مبارکه نه شرقی 5 اور رسولی بینی صدرسول اسلام بڑے صاحب بچہ بہ کار ان صاحب باش و پیش برگ موجود تے گر بڑے بڑے تجربه کاراند علی و کم کی لائی ہوئی سردار اہم واقعات میں آپ سے مشورہ لیتے تھے اند اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم : تعلیم میں نہ ازرا ہے اورنہ تفریط پہلی سیارات اور شریعتوں سے اسم سابقہ افراط بناتے تھے آپ جو مکہ اور مشورہ دیتے اسر چشم اس پر عمل کرتے تھے جس نے آپ تفریطہ بنا کی جسے محروم ہوئیں اور یہ ان ضلالت میں جا نکلیں.نیز اس سے یہی کی دانشمندی کیا کہ ان کا ہر ہوتا ہے.مراد ہے کہ طبیعت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریعا بلکہ درجہ کمال اعتدال و بت پرستی سے آپ کوا یا نفرت تھی آپ گھنٹوں اپنی قوم کی جہالت و حماقت توسط پر ہے یہ جو فرمایا کہ اس سنجر کے رومن سے چراغ جی راکش کیا گیا ہے ہو اور گراہی پر غور کرتے.افسوس کرتے کبھی پہاڑوں میں جا کر مظا ہر قدرت پر غور جاکر اس میں روغن سے مراد عقل نظیف ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جی اعلان کرتے تو حید ذات پرستی کے منہ میں فرق رہتے جب تھک جاتے تو چھرا ک ہو جاتے و اطاله اند که الات صوری و معنوی آپ کی عقلی کے ہمشہ صافی سے پر زردہ میں اس زید بن حارثہ فرماتے ہیں کہ ایک روز بعثت سے قبل میں رسول اللہ صلی امر میں یہی اشارہ ہے کہ فیضان بھی اطائف محمدیہ کے مطابق ہوں تفصیل اس جہاں صلی الہ علیہ وسلم کے ہمراہ والی سہ میں گیا وہاں آپ کی زمین تمرین نفیل سے ملاقات کی یہ ہے کہ حضور صلعم سے پہلے جتنے بہی نہیں ہو کے ان پر ان کی فطرت کے مطابق ہوئی آپ ان سے بڑے اخلاق سے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جی کا نزول ہوتار ہا جیسا کہ حضرت مریلی علیہ السلام کے مزاج میں جلال : زید ! آپ کی قوم میں ضلالت و نہائت میں مبتلا ہے وہ آپ جانتے ہی ہمیں آپ غضب تھا اس لئے آپ پر شریعت ہیں حلال ہی نازل ہوئی حضرت علی علیہ اس کا کچہ علاج نہیں یہ ہے با زید نے کہا میں پہلے ہی اپنی قوم کی بت پرستی سے السلام کے مزاج میں فلم پر زیاری کو مادہ زیادہ تھا تو اہلے آپ کی شریعت بیزار ہوں.دین ہی کی تلاش میں شام اور عراق وغیرہ کا مفرد کا حال وہاں کر کا مرکزی نقطہ بھی سلم ونر می تکرار پایا.اس کے مقابلہ میں ہمارے نبی صلی ایشر تہہ سے ایک منت بین این عالم نےکہا کہ میں ان کا بڑا علمبر دار نقترب مکہ سے ہو گا علیہ وسلم کے مزاج میں تمام اوصاف و اخلاقی کمال اعتدال و توازن کے ساتھ ظاہر ہو گا ان کے قدور کا بارہ طلوا یا ہو کہتا ہے میں اس شوق و انتظار میں پائے جاتے تھے آپ کا مزاج یا روجہ غائت و ضبع استقامت پر تھا.نرمی کی جنگ لوٹ آیا ہوں اگر پیارے حالات میں کوئی تغیر و انقلاب نہیں دیکھتا.حیران ہوئی نئی و عنہ ری مفتی کی جگہ منی عید کی جا غنیہ انعام کی جگہ انتقام رحمت کی جا رحمت اور بات مجھ میں نہیں آتی اس کے بعد گفت گفتم پر گنی غضب کی جگہ غصہ یہ غرض یہ کہ حکیمانہ طور پر آپ کی طبیعت سوزدان معتدل اس سے ناظرین بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ صاف و شفاف نہیں ہے آگ روشن نہیں اس لئے ارشاد فرمایا کہ چراغ و حی برقا ان کو اس شجرہ مبارکہ سے روشن ہونے کے لئے کس طرح آمادہ تھا.کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے نہ خوبی ہے یعنی قرآن طبیعت معتدل لہ محمدیہ کے مولان نازل ہوا ہے جنہیں نہ مزاج موسیدی کی طرح سختی ہے اور نہ بہشتی ہے اور نہ مزاج اللہ این رسول اللہ کی مبارک زندگی میں ثبوت ملنے سے پہلے ہی انور کے بہت سے اور جمع تھے.نور عقل اور بصیرت اور عیسوی کی ماند زنی بلکہ یہ نبی رحمت و مصیبت و غضب اور اسلاف نہر کا جامہ ہے نور اخلاقی تمام اور ایمانیاں دکھا رہے تھے اب نور علی نور کا منظر دنیا کے سامنے آتا ہے از مبنی بر آسمانی نور سے مرا گر آنتاب بار است بنتا ہے عقل و منظور کمال اعتدال ہے اور جلال و جمال کا منبع ہے ، که اشر تعالے نے دوسرے مقام پر اسی انا ما معتد بہ خانہ نہ اور جمعیت بصیرت کی نہ تھائی دردست گیری کے لئے آسمانی نور نمودار ہو جاتا ہے یعنی آپ رہنمائی ! قتل وہی کو یوں بیان فرمایا ہے ایک لعلی خلق عظیم کہے گا تو ایک فلوم منتسب بیت پر یا تر جوئے دن انہی کا نزول شروینا ہو گیا گرا جہاں اور ظلمتین نہ ہونے لگیں آسانی نورست زمینی تاریکیوان کو مینڈھ کر نکالنے : ت ار پر کمر بانہ ہیں اور جود باجود خاتم الا بہار کا مجمع الانوار بن گیا.عظیم پر مخلوق ہے یعنی تو مکارم اخلاق کا ستم مکمل نمونہ ہے کہ اس پر زیاد مقصد ہی نہیں آپ کو پورا پو را نو کی کال چال ہو گیا.ایسا میں چونے آگ روشن ہو (4) اور تیل ایسا صاف کو اور وحی کے نزول کا فلسفہ ہیں ہے کہ وہ نور پر ہی والد ہوتا ہے تارکی
197 به بن العم الحمة الاانَ أَوْلِيَاء الله الهم خرید معرفت المسلمة ذکره عاشق بانی شیروانی ہر زبر دست اسکی سطور کے مقابل زنیرہ ہے کوئی شاید محمد کا بہادر شیر ہے سوانح حیات پاکیزه حالات قدوة الاصلي شمس العاشقين عارف الكمل عالم باعمل و مجسمه ہدائت چشمه ولائت غوث ربانی جنید زمانی شیر یزدانی تھی الملک الدین حضرت مولینا سوی قبلہ وکعبہ میاں شیر محمد صاحب نقشبندی محسب تردی شر قوری اعلی اللہ مقامہ قدس سره العزيز مؤلفة علم لدنی واقعی حقیت ماہر رات ما یار غار حضرت مولینا و مرشد نا قبله میانه المعروف حضرت مولینا صوفی محمد بر ایم صاحب تصوری نقشبندی مدظله العالی الا انه تعالی ی اللہ 6 ملنے کا اپنا اااااااااااااااااا و ربیع الاول اشاعت نو انجمن ارشاد المسلمين بی - شاداب کالو ، حمید نظامی روڈ ، لاهور."
198 ینی دے محمدؐ میں اور تو اور تیرے سوا جو کچھ ہے.سب تیرے لئے پیدا کیا پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اللہ تو ہے اور میں نہیں، اور میں تیرے سوا سب کچھ یرے لئے ترک کر دیا ، شاید ایسی خو کی طرف اشارہ ہے.شرح فتوحات مکی جلد اول صفحہ ۶۲- حضرت شیخ کبر محی الدین بن عربی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ پہلا کلمہ ، ہے جو اس عالی مرتب قلم نے لکہا.اور اس وقت دوسر کوئی کام نہیں لکھا تھا یہ تھا، اپنے محمد یقینا میرا ارادہ یہ ہے کہ تمہاری خاطر عالم کو پیدا کروں جو تمہاری ملکیت ہوگا.سوال حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام کا افضل المخاوقات ہونے کی وجہ.شرح - حضرت شیخ اکبر حمتہ اللہ علیہ نے اپنے مکاشفہ قلبیہ کو بیان فرماتے ہوئے حضرت محمد صلی الله و سلم کو تمام مخلوقات کا سردار ظاہر فرمایا ہے ممکن ہے ان نازک نکات عرفانی سے جو لوگ بیگا نہ اور نا اشنا محض نہیں.وہ تعجب کریں کہ کیونر کروڑہا اور بشمار مخلوقات میں سے صرف ایک ہی شخص اولین و آخرین کا روا اور فاضل المخلوقات ہو سکتا ہے.جواب.عادت اللہ یا تم یونہی سمجھ لو کہ اس کا قانون قدرت جو اس کی صفت وحدت کے مناب حال ہے یہی ہے.کہ وہ بوجہ واحد ہونے کے اپنے افعال خالقیت میں رعائت وحدت کو دوست رکہتا ہے.جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے.اگر اس سب کی طرف نظر غور سے دیکھیں تو اس ساری مخلوقات کو جو اس دست قدرت سے صادر ہوئی ہے.ایک ایسا سلسلہ وصافی اور با ترتیب رشتہ میں منسلک پائیں گے کہ گویا وہ ایک خط محمد صدور ہے جس کے دو نو طرفوں میں سے ایک طرف ارتفاع المبندی، اور دوسری مرت انفاس مینی دیتی ، اس طرح پر ہے انتقاق..ترتفاع اس قدر بیان میں تو ایک موٹی سمجھ کا آدمی بھی ساتھ اتفاق رائے کر سکتا ہے.کہ انسان اشرف المخلوقات ہے.اور دائرہ انسانیت میں بہت سے متفاوت اور کم و بیش استعداد میں پائی جاتی ہیں.کہ اگر کی بیٹی کے لحاظ ان کو ایک با ترتیب سلسلہ میں مرتب کریں.تو بلاشبہ اس سے اسی خط مستقیم محمد محدود کی صورت نکل آئے گی جو اوپر ثبت کیا گیا ہے.ظرف ارتفاع کے اخیر کے نقطے پر استعداد کا انسان ہوگا.جو اپنی استعداد انسانی میں نوع انسان سے بڑھ کر ہے.اور طرف انخفاض میں وہ ناقص الاستعداد روح ہو گی.جو اپنے نمائت درجہ کے نقصان کی وجہ سے حیوانات لایعقل کے قریب قریب ہے.اور اگر سلسلہ جاری کیطرف نظر ڈال کر دیکہیں تو اس قاعدہ کو اور بھی تائید پہنچی ہے.کیو نکہ خدا تعالیٰ نے چھوٹے سے چھوٹے جسم سے لیکر جو ایک ذرہ ہے.ایک بڑے سے بڑے جسم تک جو افتاب ہے.اپنی صفت خالقیت کو نام کیا ہے.اور بلاشبہ خدا تعالیٰ نے اس جہادی سلسلہ.
پاپ 199 240.ارشادات میں آفتاب کو ایک عظیم الشان اور نافع اور ڈی برکت وجود پیدا کیا ہے.کیطرف ارتفاع میں اس کے برابر کوئی ایسا وجود نہیں ہے بسوا اس سلسلہ کے ارتفاع اور انخفاض پر نظر ڈال کر و ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.روحانی سلسلہ ہے جو اُسی کے ہاتھ سے نکلا ہے.اور اُسی عادت اللہ ظہور پذیر ہوا ہے.خود بلا تامل مجھ میں آتا ہے کہ وہ بھی بلا تفاوت اسی طرح واقعہ ہے.اور یہی ارتفاع اور انخفاض اس میں بھی موجود ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے کام یکرنگ اور یکساں ہیں.اس لئے کہ واحد ہے.اور اپنے اصدار وافعال میں توحید کو دوست رکہتا ہے.پریشانی اور اختلاف اس کے کاموں میں راہ نہیں پاسکتا.اور خود یہ کیاہی پیارا، اور موزون طریق معلوم ہوتا ہے.کہ خدا تعالیٰ کے کام باقاعدہ اور ایک ترتیب سے مرتب اور ایک سیلک میں منسلک ہوں.اب جبکہ ہم نے ہر طرح سے ثبوت پا کر بلکہ بالبداہت دیکہ کر خدا تعالے کے اس قانون قدرت کو مان لیا.کہ اس کے تمام کام کیا روحانی اور کیا جسمانی پریشان اور مختلف طور پر نہیں ہیں جن میں یونہی گڑبڑا پڑا ہوا ہو.بلکہ ایک حکیمانہ ترتیب سے مرتب اور ایک ایسے باقاعدہ سلسلہ میں بند ہے.جو ایک ادنیٰ درجہ سے شروع ہو کر انتہائی درجہ تک پہنچتا ہے.اور یہی طریق وحدت اُسے محبوب بھی ہے.تو اس قانون قدرت کے ماننے سے ہمیں یہ بھی مانا پڑا کہ جیسے خدا تعالیٰ نے جہادی سلسلہ میں ایک ذرہ سے لیکر اس وجود اعظم تک مینی آفتاب تک نوبت پہنچائی ہے.جوظاہری کمالات کا جامعہ ہے جس سے بڑیکر اور کوئی حیم جاری نہیں.ایسا ہی روحانی آفتاب بھی کوئی ضرور ہو گا جس کا وجود خود تقسیم مثالی میں ارتفاع کے اخیر نقطہ پر واقعہ ہو ا تفتیش اس بات کی کہ وہ کامل انسان جس کو روحانی آفتاب سے تعبیر کیا گیا ہے.وہ کون ہے اور اس کا کیا نام ہے ؟ جن کا تصفیہ مجرد عقل سے ہوسکے کیونکہ بجز خدا تعالیٰ کے یہ امتیاز کس کو حاصل ہو اور کون موتوں سے ایسا کام کر سکتا ہے.کہ خداتعالے کے کاور ہا اور بے شمار بندوں کو نظر کے سامنے رکھ کر اور ان کی روحانی طاقتوں اور قدرتوں کا موازنہ کر کے سب سے بڑے کو الگ کر کے دکھلا دے بلاشہ معیقلی طور پ کسی کو اس جگہ دم مارنے کی گنجائش نہیں ہے.ہاں ایسی بلند اور عمیق دریافت کے لئے کتاب الہامی ذریعہ ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے پیش از ظہور ہزار ہا سال اس انسان کامل کا پتہ نشان بیان کر دیا ہے پس جس شخص کے دل کو خدا تعالیٰ اپنی توفیق خاص سے اس طرف ہدائت دیگا.کہ وہ الہام اور وحی پرایمان لاوے.اور ان پیش گوئیوں پر غور کرے.جو بائبل میں درج ہیں.توضرور اُسے ماننا پڑیگا.کہ وہ انسان کامل جو افتاب روحانی ہے جس سے نقطہ ارتفاع کا پورا ہوا ہے.اور جو دیوار نبوت کی آخری انیٹ ہے وہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں.اب بھی بکر رظاہر کرتے ہیں.کہ انسان کامل بلا تشبیہ خدا تعالیٰ کی ذات کا نمونہ ہے.خدا تعالیٰ دوسرا خدا ہرگز پیدا نہیں کرتا
اب 200 خط یہ بات اس کی صفت احدیت کے مخالف ہے.ہاں اپنی صفات کمالیہ کا نمونہ پیدا کرتا ہے اور میں طرح ایک صفی اور وسیع شیشہ میں صاحب روئت کی تمام و کمال شکل منعکس ہو جاتی ہے.ایسا ہی انسان کامل کے نمونہ میں الہی صفات عکسی طور پر آجاتے ہیں.ہم بیان کر چکے ہیں کہ صاحب انتہائی کمال کا جس کا وجود سلسلہ فقط خالقیت میں انتہائی نقطہارتفاع پر واقعہ ہے.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور ان کے مقابل پر خون میں وجود جو انتہائی نقطہ انخفاض پر واقعہ ہے.اسی کو ہم لوگ شیطان سے تعبیر کرتے ہیں.اگرچہ بظاہر شیطان کا وجود مشہور ومحسوس نہیں.لیکن اس سلسلہ صد خالقیت پر نظر ڈال کر اس قدر تو عقلی طور پر ضرور مانا پڑتا ہے.کہ جیسے سلسلہ ارتفاع کے انتہائی فقط یں ایک وجود غیرمجسم ہے.جو دنیامیں خیر کی طرف ہادی ہو کر آیا.اسی طرح اس کے مقالب پر ذو العقول میں انتہائی انخفاض میں ایک وجود شر انگیر بھی جوشر کی طرف جاذب ہو ضروری چاہیئے ایسی جہ سے ہر ایک انسان کے دل میں بالٹی طور پر دونو وجودوں کا ار عام طور پر پایا جاتا ہے.پاک وجود جو روح التی اور نور بھی کہلاتا ہے.یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کا پاک اثر بخدمات قدسی و توجهات باطنی پر ایک دل کو خیر اور نیکی کی طرف بلاتا ہے.جس قدر کوئی اس سے محبت اور مناسبت پیدا کرتا ہے.اسی قدر وہ ایمانی قوت پاتا ہے.اور نورانیت اس کے دل میں پھیلتی ہے.یہاں تک کہ وہ اُمن کے رنگ میں آجاتا ہے.اور فلی طور پر اُن سب کمالات کو پالیتا ہے.جو اس کو حاصل ہیں اور جو جو دختر انگیز ہے بینی وجو د شیطان میں کا مقام ذو العقول کے قسم میں انتہائی نقطہ انخفاض میں واقعہ ہے.اس کا اثر ہر ایک دل کو جو اس سے کچھ نسبت رکہتا ہے.شرک کیطرف کھینچتا ہے جس قدر کوئی اس سے مناسبت پیدا کرتا ہے.اسی قدر بے ایمانی اور خباثت کے خیال اس کو سو مجھتے ہیں.یہاں تک جس کو مناسبت نام ہو جاتی ہے.وہ اس کے رنگ اور روپ میں آکر پورا پورا شیطان ہو جاتا ہے.اور عملی طور ان سب کمالات خباثت کو حاصل کر لیتا ہے.جو اصلی شیطان کو حاصل ہیں.اسی طرح اولیای ارت اور اولیا شیطان اپنی اپنی مناسبت کی وجہ سے الگ الگ طرف کھینچے جاتے ہیں.اور وجو د خیر حجیم میں کا نفسی نقطہ انتہائی درجہ کمال ارتفاع پر واقعہ ہے.یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مقام معراج خارجی جو منتہائے مقام عروج دینی عرش رب العالمین ہے، بلایا گیا ہے.یہ درحقیقت اس انتہائی درجہ کمال کا ارتفاع کیطرف اشارہ جو اس وجو د باجود کو حاصل ہے.گویا جو کچھ اس وجود دختر جسم کو عالم قضا و قدر میں حاصل تھا.وہ عام شان یں مشہور محسوس طور پر کھایا گیا جیسا کہ اللہ تعالی نبی کریم کی کی شان رفیع کے بارہ میں فرماتا ہے
+ ارشادات 201 ۲۶۷ پاب مد و رفع بعضهم در بیت پر اس رفع درجات سے وہی انتہائی درجہ کا ارتفاع مراد جوظاہری اور باطنی طور انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.ار یہ وجود با خود جو ہر کسیم ہے.مقربین کی سب قسموں سے اعلیٰ و کمال ہے.نیزه حقیقت کمال اقر محمدیه بر حضرت شیخ اکبر رحمتہ اللہ نے آیت، تم مَّا أَدْنَا فَتَدَ لَى مُكَانَ قَابَ قَوْسَيْنَ أَوْ أَدْ میں حقیقت کمالات قرب محمدیہ کا اشارہ فرمایا ہے.لہذا پہلے ہم اس آیت شریف کا ترجمہ کرتے ہیں.اور پھر اس کی تشریح ہوگی.ترجمہ " پھر نزدیک یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پھر نیچے کی طرف اترا یعنی مخلوق کی طرف تبلیغ احکام کے لئے نزول کیا.پس اس بہت سے کہ وہ اوپر کیطرف صعود کر کے انتہائی درجہ قرب تام کو پہنچا.اند اس میں اور حق میں کوئی حجاب نہ رہا ہے اگر زیادہ دیکھنا ہو تو شرح فتوحات لکیر میں دیکھو.بسم الله الرحمن الرحیم وہ پیشین گوئیاں ازرو سے پاکبل یہ ہیں جن کی طرف حضرت شیخ اکبر رضہ نے اشارہ کیا ہے پیشگوئی ۱- با کمیل کتاب استثنا باس ۳ آئت ۱-۲.اور یہ وہ برکت جو سونٹے مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی (۲) اور اس نے کہا.کہ خدا وند سینا سے آیا.اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا.قارئین کی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا.اور اس کے داہنے ہاتھ مں ایک آتشی شرعیت ان کے لئے تھی" (مولف، اس کی تشریح ، سینا سے آنے سے مراد موسیٰ علیہ السلام اور شعیر سے خداوند کے آنے سے مصطفے راد حرت جیسے علیہ اسلام ہیں باقی تمام پیش گوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگا کے بارے میں ہے.جو دس ہزار صحابہ کے پہاڑ سے فاران والوں پر حلوہ م رضی اللہ عنہا کے ساتھ فاراد کر ہوئے.آتشی شریعت سے مراد نورانی اور آسمانی شریعت ہے.کیونکہ سو سے علیہ السلام نے آگ میں سے خدا :
باب ۹ 202 WIL حقیقت اسلام بنتا ، اب بندہ کچھ اس کی تشریح درج کرتا ہے.ار اس تشریح سے مراد یہ ہے کہ ناظرین کو معلوم ہو کہ آپ کا یہ فرمانا کہ دین ہی سعی کرو اور اسلام کی حقیقت کو سمجھو.اس کی تشریح ذیل میں درج کی جاتی ہے.حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز اس آئت ذیل کی شرح یوں فرماتے ہیں یا اها KANGAN انو الصواب اللہ و رسول ہے دینی اسے ایمان والو ایمان لاؤ اللہ پر اور رسول اُس کے پر، آپ فرماتے ہیں ایمان یہ تانی سے مراد یہ ہے کہ مجازی ایمان سے گذر کرحقیقی ایمان حاصل کرو.حضرت شیخ اکبرمحی الدین بن عربی رحمہ اللہ علیہ فتوحات مکیہ میں جو حقیقت اسلام تحریر فرماتے ہیں.درج کی جاتی ہے.آپ کہتے ہیں.کہ جب انسان مجالت سلوک الی اللہ ایسے مقام میں پہنچ جاتا ہے کہ وہ جنات رضی اورخواہشات دینیہ سے پاک اور منزہ ہو جاتا ہے.اور اس پر ایک قسم کی محوریت اور بودگی طاری ہو جاتی ہے.اور ہر چیزمیں اس کو نور الہی کا تجلی نظر آتا ہے ہے بزیر پردہ ہر ذرہ پنہاں جمال جاں فزا ئے روئے جاناں سالک اس مقام میں عالم وما فیہا اوراپنی تمام حرکات و سکنات بلکہ اپنے وجود کے ہر ذرہ کو اس نور میں گم دیکھتا ہے اور حقیقت اسلام کا چہرہ دکھائی دینے لگتا ہے جس کی تفصیل حوالہ قرآن کریم ہم سواری اور آئندہ رموز کے سمجھنے کے لئے ذیل میں لکھ دیتے ہیں.تاکہ فتوحات مکیہ میں جہاں جہاں حقیقت اسلام کور موزمیں بیان کیا گیا ہے.ناظرین ان کو سہولیت سمجھ سکیں.واضح ہو.کہ اسلام عربی لفظ ہے جس کے معنی ہماری اردو زبان میں بطور پیشگی ایک چیز کا مول دنیا اور کس کو اپنا کام سونپنا اور طالب صلح ہونا اور کی امر یا خصومت کو چھوڑ دیا.اور اصطلاحی معنی وہ ہیں جن کا قرآن کریم کی اس آیت ذیل میں اشارہ ہے..آیت.عَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنَ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَتِهِ وَلَا خَونَ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی مسلمان وہ ہے جو خداتعالی کی راہ میں ان تمام وجود کو سونپ دے یعنی اپنے تمام وجود کو اللہ تعالے کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کرتی ہے.اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالی کے لئے قائم ہو جائے.اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا ہے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر حض خدا تعالی کا ہو جائے.اعتقادی طور پر اس طرح کہ اپنے قام وجود کو دو حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ ہے.جوخدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اور عملی طور پراس طرح کہ خالصاً للہ
203 باب و حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت کے متعلق اور ہر ایک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں.بجا لادے.مگر ایسے ذوق شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئین میں اپنے مو قیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.پھر بقیہ ترجمہ آیت مذکورہ بالا کا یہ ہے کہ جس کی اعتقادی و علی صفائی اپنی محبت ذاتی پینی ہو.اور ایسے طبعی جوش سے اعمال حسنہ اس سے تصادر ہوں.وہ وہی ہے جو عند اللہ سحق اجر ہے.اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خون ہے.اور نہ وہ کچھ غم رہتے ہیں یعنی ایسے لوگوں کے لئے نجات نقد موجود ہے.کیونکہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمان لا کر اس سے موافقت نامہ ہوگئی اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ہمرنگ ہو گیا.اور تمام لذت اس کی تابع فرمان الہی میں ٹھہر گئی.اور جمیع اعمال مصالح نہ شفقت کی راہ سے بلکہ بلڈ اور اقتطاف کی ف شش سے صادر ہونے لگیں.تو یہی وہ کیفیت ہے جس کو فلاح اور سنگاری سے موسوم کرنا چاہیئے اور عالم آخرت میں جو کچھ نجات کے متعلق مشہور ومحسوس ہوگا.وہ درحقیقت اسی کیفیت راسخہ کے اطلال و آثار ہیں.جو اس جہان میں جسمانی طور پر ظاہر سو جائیں گے مطلب یہ ہے کہ بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہو جاتی ہے.او مینی عذاب کی وجہ بھی اسی جہان کی کورانہ زیست اور ناپاک زندگی ہے.اب آیت ممدوحہ بالا پر ایک نائت نظر ڈالنے سے ہر ایک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی شخص میں سحق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنی تمام باطنی و ظاہری قوئی کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اس کی راہ میں وقف ہو جاؤ نے اور جوامانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اس معلی حقیقی کو واپس دی جائیں.اور نہ صرحت اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کا ملہ کی ساری شکل دکھلائی جا د سے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیو ہے.کہ اس کے ہاتھ پاؤں.دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور رحم اور اس کا علم و علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اسکا رام اور شور جوکچھ اس کے سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخنوں تک باعتبار ظا ہر و باطن کے ہے.یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے ت شب خدا تعالی کے ایسے تابع ہو گئے ہیں.کہ جیس طرح ایک شخص کے اعضا ر اس کے بن تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جا ئے.کہ قدم صدق اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے.وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہوگیا.اور تمام اعضاء اور قوی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں.گویا وہ جواراج الحق میں اسے اسلام چیز کیا ہے.خدا کے لئے نیا ترک رضائے خویش پے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہو یا اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز مات 4
باب و 204 اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ میں کو دوسرے لفظوں میں شروح کہتے ہیں.مومن کے دل پر نازل کرتا ہے.ار اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کر دیتا ہے ہاؤ اس کی روح کے پھونکنے کے ساتھ ہی وہ حسن جواد نی مرتبہ پرتھا.کمال کو پہنچ جاتا ہے.اور ایک روحانی آب وتاب پیدا ہو جاتی ہے.اور کثیف زندگی کی کبودی علی دور ہو جاتی ہے اورمومن اپنے اندر سوس کر لیا ہی کہ ایک نئی روح اس کے اندر داخل ہوگئی ہے.جو پہلے نہیں تھی.اس روح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمیناں مومن کو حاصل ہو جاتا ہے.اور محبت ذاتیہ الہیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی اور معبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے.اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی.اس درجہ تک وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے.اور انسانی وجود کے تمام خس و خاشاک کو بلا کر الوہیت کا قبضہ اُس پر کر دیتی ہے.اور وہ آگ تمام اعضا را احاطہ کر لیتی ہے.تب اس لوہے کی مانند جو نہائت درجہ آگ میں تپایا جائے.یہاں تک کہ سُرخ ہو جائے.اور آگ کے رنگ پر ہو جائے.اُس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں.جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے.بلکہ محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے.جوظاہر وجود کو اپنے رنگ میں سے آتی ہے.اور باطن میں عبورت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق حدیث قدسی میں استعارہ کے رنگ میں آیا ہے.کہ پی يسمع و بی بصر وبی نمیشی و بی مبطنش الخمر مینی وہ اپنے روح سے نہیں بلکہ خدا کے روج سے دیکھتا ہے.اور خدا کی روح سے سنتا اور خدا کی روح سے بولنا اور خدا کی روح سے چلتا.اور خدا کی روح سے دشمنوں پرحملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پرفیتی اور استملاک کے مقام میں ہوتا ہے ہے ــه اور بي اسمع وبي يبصر بي يبطنس و بی یمشی سریت ہے ناممن قدر یہ ولا تفشی وبي يمشى يه ہی وہ مقام ہے جن کے متعلق خداتعالی نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے ما رميت إِذْ رَمَيْتَ ولكن الله رفی - مینی تو نے نہیں چلایا.بلکہ خدا نے چلایا.جبکہ تو نے چلایا ہے مات اذ رميت احمد است دیدن او دیدن خالق شده است ایہی وہ مقام ہے جس کے متعلق حضرت شیخ اکبر رحمہ اللہ علیہ نےاستعارہ کہا ہے کہ گویا خدا خود عاند و خود شہور ہے.ہی وہ مقام ہے جس کے تعلق وہ کہتے ہیں سے لرَّبُّ ا LONGAL حَقٌّ وَالْعَبْدُ حَقٌّ يَا لَيْتَ شَعْرِي مِنَ المُكلف ان قلتَ عَبْد من ال قلتَ رَبُّ فَالى يكلف
205 نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خنده زدن پاکستان صدقتی مشن کی اکیسوں میشکن جھونکوں سے یہ چراتے کچھا انہیں کرے گا یہ قیقت حدیث قرطاس امینی انبیا کے تمام حرکات وسکنات رضائے الہی کا آئین اور قیقات استسلام کا نمونہ ہوئے ہیں تي التلين جناب الوالدان مولانانه ظهور المن است یمویی حال سجوانہ ضلع جھنگ نده دار ورد ایمینگا میڈ پر بال کاٹا ہے ہدیہ دو آئے !
206 بنی فرما کہتا ہے کہ غلطیاں بھی بہادر ہوتی ہے.اور تم شیعوں کا عقیدہ اب عصمت انبیاء کیسے برقرار رہا اور اگرنی کا قلم دوات مانگنا حکم خدا اور حرکت الیہ تھا.تو اس کو پوراکیوں نہ کیا جواب ۵۸ حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت صحابیہ کا بلا شبہ یہ اعتقاد تھا.کہ آنجناب کا کوئی فعل اور کوئی قول وحی الہی کی آمیزش سے خالی ہیں.گردہ وحی مجمل ہو یا مفصل شخصی ہو یا جلی بہین ہو یا مشتبہ.یہاں تک کہ جو کچھ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص معاملات و مکالمات حکومت وستر میں ہیولیوں سے تھے یا جس قدر کی اور کی رب اور لباس کے متعلق اور معاشہ کی ضروریات میں روزمرہ کے نقائگی اور تھے.سب اس خیال سے احادیث میں داخل رکئے گئے ہیں کہ وہ تمام کام اور کام نر م القدس کی روشنی سے ہیں چنانچہ ابوداؤد میں یہ حدیشیا موجود ہے.عن عبد الله بن عمر قال كنت اكتب كل شي اسمر من رسول اللہ صلی الله عليه وسلم اريد حفظه فنهى فرش و قالوا انكتب كل شي تسمعه درسول الله بشر تيكلم في الغضب والرضا نا سكتت عن الكتاب فذكرت ذالك الى رسول الله قال فادها با صبحد الى نيه فقال اكتب نوالي عانف بيدى لا تخرج عند الأحق.ابوداؤد جلد دوم منها ترجمہ عبید الدین عمر سنائیت کرتے ہیں کہ میں جو کچھ آنحضرت سے سنتا تھا لکھ لینا تھا.تا کہ میں اس کو حفظ کر لوں.پر بعض نے مجھ کو منع کیا.کہ ایس یا مت کرو کیونکہ رسول اللہ بشر ہیں کبھی منصب سے کبھی کلام کرتے ہیں.تو میں یہ بات سن کر لکھنے سے دستکش ہو گیا.اللہ اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ذکر کیا.تو آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم میسن کے قبضہ میں محمد کی جان ہے.کہ جو کچھ میرے منہ سے صادر ہوتا ہے جواہ وہ قول ہو یا ہاتھوں سے فعل ہو وہ سب خدا کی طرف سے ہے.اور حق ہے.اس حدیث سے مریم ہو گیا.دین مکمل کرنا خدا کا کام تھا.اورنبی کریم کا کاغذ قلم ودات مانگنا شرکت الہیہ اور حکم خدا تھا.حضرت.ہے بیمار ہو یا شک رستہ عید اللہ کا عقیدہ تھا کہ نبی پر حال میں خوب اور بنی کریم کی طرف ندیان کی نسبت کرنے والا بھی میرے خیال میں جانتا ہو گا.کہ بنی ہرحال حق کہتا ہے.پردہ کوئی اور ہی چیز کھتی جو فلم دنات پیغمبر کو حد دینے دیتی تھی جن کی حمایت
: 207 زه انبیاء کے تمام حرکات وسکنات رضائے الہی کا آئینہ اور حقیقت اسلام کا نمونہ ہوتے ہیں سارے انبیاء علیهم السلام فنا فی اللہ ہوتے ہیں.ان کے تمام حرکات وسکنات خدا تعالے کی رضا مندی کیا آئینہ اور حقیقت اسلام کا نمونہ ہوتے ہیں.اور وہ اسی لئے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں کہ ان کی تعلیم سے حقیقت اسلام دنیا پر اس طرح واضح ہو جائے کہ جس سے ہر شخص اس کا متقی ہو جائے تاکہ جس سے اس کا وجود مور اپنے تمام باطنی ظاہری انوئی کے محض خدا تعالے کے لئے ہی تف ہو جائے.اور جو امانتیں اس کو خدا تعالے کی طرف سے علی ہیں پھر کسی معطلی حقیقی کو واپس کر دی جا دیں.اور نہ صرف اعتقادی نور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کا ملہ کی ساری شکل دکھلائی جائے.یعنی ملت کی اسلام یہ بات ثابت کم دیوے گی اس کے ہاتھ پاؤں مال و دماغ اس کی عقل اس کا تم اس کا نصب اس کا رحم اس کام اس کا علم اس کی تمام ہو جاتی اور سہیمائی تو میں اس کی عزت اس کا مال اس کا آرام اس کا سرور جو کچھ اس کے سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے خنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے.یہاں تک کہ اس کے بیات اس کے دل کے خطرات اس کے نفس کے جذبات سب خد اتعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں.کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں بعض یہ ثابت ہو جائے کہ نقدم صدق اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے.وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالے کا ہو گیا ہے کہ تمام اعتقاد اندی اپنی خدمت میں اپنے لگ گئے ہیں.گویا وہ جوار " الحق نہیں ہے ا می نام چیز کیا ہے.خدا کے لئے مفت : تک دھنائے خوایش پیے مرضی خدا جو مر گئے اپنی کے نفیسوں میں ہے حیات ہے اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بر مانتا.اس مرفیہ پر خدا نہ لے اپنی ذاتی محبت کا ایک اور رشتہ شکار جی کو نہ سر سے لفظوں میں روم کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہے.اور اس سے تمام نام کیوں اور ان پیشوں اور
208 ۴ کمزوریوں کو دور کر دیا ہے.اور اس روح کے کچھ سکنے کے ساتھ ہیں وہ کس میدادنی مرتبہ ہر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے.اور ایک روحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے.اور گندی زندگی بالکل دور ہو جاتی ہے.اور مومن اپنے اندر محمدیس کر لیتا ہے.کہ ایک نور روح اس کے اندر داخل ہو گئی ہے جو پہلے نہیں لکھتی.اس روح کے ملنے سے مومن کو ایک عجیب سکنیت اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے.اور محبت ذاتیہ الہیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی ہے.اور عبودیت کے پودا کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی.اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے.کہ انسانی وجود کے تمام خر و خاشاک کو جلا کہ الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے.اوردہ آگ تمام اعضاء پیمہ احاطہ کر لیتی ہے.تب اس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں تپایا جائے یہاں تک کہ سرخ ہو جائے اور ساگ کے رنگ پر ہو جائے.اس طرح مومن سے الوہیت کے آثار اور ا نعال ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور انچال ظاہر کر تا ہے.مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے.بلکہ محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے.ا در باطن میں معبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں رسول کریم نے حدیث قدس میں فرمایا مجھے بخارة و منصب امانت مصنفہ محمد سمعیل دیلوی اہل حدیث منح لا يزال يتقرب عبدي بالنواقل حتى أحبية فاذا أدبية لكنت سمعه الذى ليسمح به وبصره الذي يبصر به : يده التي يبطش بھانا جلد التي يشى بها ولات ساكني لاعطينه ولئن استعاذ ني لاعيد تند.ترجمہ میرا بنارہ تو ائل کے ذریعہ قرب حاصل کرنے میں کی.نہیں کرتا.یہاں تک کہ میں اسے درست بنا لیتا ہوں.جب وہ میرا دوست بن جاتا ہے.تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں.جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوتی.جن سے وہ دیکھتا ہے.اور اس کے پاتے بن جاتا ہوں جن سے وہ چھوتا ہے.اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.اور جب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے.میں پورا کرتا ہوں.اور جب وہ مجھ سے پناہ
209 مل الشقير الدين جملہ حقوق محفوظ چلو سلام يقون د يُقيمونَ الصَّلوةَ وَ میں اسلام کی صحیح ترین عقل و نقلی تقسیم لف یعنے 3 کا وہ نادر الوجود ذخی و مین کی نظیر آجنگ کسی زبان میں موجود نہیں ہے اور سکوت دلالان را می بینی اور کثیر مطالعہ کے تھے المبي ابن غوث الاعظم حضرت مولینا سید نذیرالحق صاحبقا در می خفیه نے تالیف فرمایا بعد اخذ حقوق اشاعت دائمی علماء کرام سید صاحب مو شدن خالد بن المسیان ۱۹۳۳ دوسری بار بماہ جولائی ۳۳ ۹اء الرد على مين هواك شائع كيا
" 210 إن ربكم الله الذي خَلَقَ السَّمواتِ تمہارا پر در دگار وہ خدا ہے جس نے زمین وَالاَرضِ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُم و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اس نے استَوى عَلَى الْعَرْشِ عرش پر قرار پکڑا.اس کی تفسیریں حضرت امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں.ان نقطع بكونه تعالى متعاليا عن یہ تو قطعی طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ مکان اور المكان والجهة ولا نخوض في جہت تعالی ہے مگریم آیت کی تفصیل و تاویل تاويل الاية على التفصيل بل نہیں کرتے بلکہ اس کا علم اور حقیقت خدا نفوض علمها الا الله امام رازی کا یہی مذہب ہے اور آپ نے اسی پر اعتماد کیا ہے لیکن چونکہ اس مسئلہ میں سوائے تاویل کے چارہ نہں اور یہ مرجائزہے کہ عوام اس کی تمیم کےلئے کوئی عام ہم تاویل کی جائے اس سب سے اس آیت کی تفسیریں دو مذہب میں ایک تو وہی جواد پر مذکور ہوا اور دوسرا پر چھوڑتے ہیں.مذہب امام صاحب نے یہ بتلایا ہے.قول ثانی اس میں یہ ہے کہ آیت کی تفصیل میں غور وخوض کرنا چاہئے اس میں بھی دو قول ہیں ایک ہیں کہ عرش عربی زبان میں بادشاہی اور ملک تو وہ جو نقال علیہ الرحمہ کا قول ہے.آپ فر و کہتے ہیں.مثلا کہتے ہیں یہ اس وقت کہتے ہیں کہ جب اس کی بادشاہ له بادشاه کاملک فلل پذیر مولر میں خلل آجائے اور کبھی عرش سے مراد اس کا امر بادشاہی اور حکم ہوتا ہے اور بھی تخت نشینی.(تفسیر کبیر ج ۲ صفحه ۳۳۴) " لفظ "عرش کی استعمال کی مختلف صورتیں بلا کر امام صاحب لکھتے ہیں.انما المراد منها تعريف المقصو ان الفاظ سے مراد کنایہ کے پیرایہ یں قصور على سبيل الكتابة فكذا ههنا کی تعریف ہے اسی طرح یہاں استوی علی العرش کو ذکر کیا گیا ہے جس مراد نفاذ يذكر الاستواء على العرش والمراد نفاذ القدرة وجريان المشية قدرت اور ارادہ کا جاری ہوتا ہے.غرض آیت مذکورہ میں استوی علی العرش کا لفظ بطور کنایہ کے استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین و آسمان پیداکرکے اوراپنی نشیبی صفات کا اور فرماکر تنزیہی صفا اختیار کرنے کے لئے مقام بلند اختیار کرلیا یعنی تنزیہی صفات بھی ثابت کر دیں اس میں جو دراء اور مقام
211 ۴۲۱ كتاب الاسلام اور مخلوق کے قرب و جوار سے دور تر اور بلند تر مقام ہے اسی کو عرش کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جس کی واضع تر تشریح ہے کہ جب تمام خلوق پردہ عدم میں تو تھی اور سول خداکے کچھ نہ تھا وداعا درار الورا مقام ہیں جس کا نام اصطلاح قرآنی میں عرش ہے اپنی تجلیات ظاہر کر رہا تھا پھر اس نے تو زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے پیدا کیا تو پھر اس نے اپنے تئیں مخفی کر لیا اور یہ چاہا کہ وہ ان مصنوعات کے ذریعہ پہچانا جائے مختصر یہ کہ عرش کوئی مخلوق چیز نہیں صرف تنزہ و تجرد کے رار الورا مرتبہ کا نام ہے.نیز قرآن شریف میں جہاں جہاں لفظ عرش استعمال ہوا ہے اس مراد خدا کی عظمت جبروت تنزیہ و تقدیس اور بلندی و برتری ہے اس بنا پر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جب خدا تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کردیا اور اس کی تمام صفات ظہور میں آگئیں توگو یا اللہ تعالیٰ اپنے تخت ربوبیت پر پوری شان کیا تھ جلوہ گر ہو گیا.یعنی کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت ایسی نہ رہی جس کا نظور ہو چکا ہو پس گویا خدا تعالیٰ کا تخت پر بٹھنا صفات خالقیت ربوبیت رحمانیت اور رحمیت کو دنیا پر نافذ کرنا اور ظہور میں لانا ہے.اسی کا نام عرش ہے.اب ہی یہ بات کہ اس کے تخت کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت میں آٹھا ئیں گے اسکا جواب یہ ہے کہ فرشتوں سے مرد خدا کی چار صفتیں ربوبیت زمانیت رحیمیت اور مالک یوم الجبرا ہوتاہے سو یہ چاروں صفات استعار کے رنگ میں چار فرشتے قرار دئے گئے ہیں یا یہ کہ ان چار صفتوں پر چار فرشتے موکل برنج دنیا پران صفا کو ظاہر کرتےہیں اور قیام کے روز چونکہ بے پردہ ہوں لہذا ان کو آٹھ سے تبرکیا گیا.سوال.جب خدا تعالے کی صفات ازلی وایدی ہیں تو کیا زمین و آسمان کی پیدایش سے پہلے سکی صفات کا ظور نہ تھا اگر تھاتو پھر ثم استوی علی العرش کے کوئی معنے نہیں رہتے اور اگر نہ تھا تو اس کی صفات ازلی و ابدی نہیں رہتی لہذا حقیقت حال بتلائیے.جواب.جب دنیا وغیرہ نہ تھی تب بھی عرش تھا تجلی اول کی نسبت قرآن میں ہے کان عرشه على الماء یعنی اس کا عرش پانی پر تھا.مگر یہ ایک محلول الکتہ حقیقت ہے کہ پانی سے کیا مراد ہے بجلی دو گم کے تعلق ثم استوی علی العرش کے الفاظ ہیں مطلب یہ کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پہلے وہ تخلیق عالم پر قادر تا اگر بالفعل موجد اور سکون نہ تھا.اگرچہ اس کی صفات از لی میں مگر جب مخلوق ہو تو خالق کو بچانے اور محتاج ہو تو رازق کو شناخت کرے جب اللہ تعالیٰ نے دنیا پیدا کر دی اور اس کی صفات کا ظہور ہو گیا توگو یاوہ تخت ربوبیت پر مٹھ گیا ا ر لوازم الوہیت پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو گئے پس تم استوی علی العرش سے اس تجلی کی طرف اشارہ کیا ہے جو زمین وآسمان کی
کتاب الاسلام 212 ۴۹۴ روح امی تعلیم کے آثار اس کے بدن پر ظاہر ہوں گے اور ایک کی روح کو دکھ ہوتا ہے اور جب جاگتا ہے تو دکھ کا اثر اس کے بدن پر ہوتا ہے اور ایک کو دوسرے کے حال سے اطلاع نہیں ہوتی.اس پر عالم برزخ کے وزاری و ثواب کا استند لال کر داد.این تمام دلائل مذکورہ بالا سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی اصول کی، دست قسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے تو موت کے بعد یہ خالی جسم سے الگ جاتا ہے.اگر عالم ہوش میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزا چکھنے کے لئے قسیم ملتا ہے.وہ تہجہ اس مہم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریخی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو ہم تیار ہوتا ہے گو یا اس عالم میں انسان کی عملی دالتیں جسم کا کام دیتی يا میں.ایسا ہی نرا تعالے کے کلام میں بار بار آیا ہے.اور بعض سیم نورانی اور بعض ظلماتی قرار دے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے تیار ہوتے ہیں.اگرچہ یہ راز ایک دقیق راز ہے کا غیر تو نہیں ہے.انسان کامل اس کی زندگی میں ایک نورانی دیبود اس کثیف جسم کے علاوہ اسکتاہے اور عالم مکاشفات میںاس کی بہت شاہیں ہیں جن کو عالم مکاشفات مں سے کچھ حصہ لا ہے.وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے تیار ہوتا ہے تعجب اور استعاد کی نگہ سے نہیں دیکھتے.نون یہ یہ جو انسان کی کیفیت سے بنتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزا کا موجب ہو جاتا ہے.صحاب مکاشفہ کو عین بیداری میں مردوں سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ فاسقوں اور گرای اختیار کرنے والوں کا نسیم ایسا سیاہ دیکھتے ہیں کہ گویادہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے.بہر حال مرنے کے بعد ہر ایک کو سیم پاتا ہے خواہ نورانی ہو خواہ ظلماتی خدا تعالے نے امور آخرت کو مکلفوں کے دریافت کرتے اور پانے یہ پردہ اور پوشیدہ رکھتا ہے اور یہ بات خدا تعالے کی کمال حکمت پر دال ہے تاکہ رمین ایران با غیب کے ساتھ منکرین سے ستمیز ہو جائیں (مراۃ العقائق) واب کھائی..قبر کا عذاب و ثواب یا اگ دسبزی نہ دُنیا کی آگ کی قسم سے ہوتی ہے اور دنیا کی کھیتی بند کی ماند ہے جو کچھ کر معلوم ہو سکے.آگ کو یچے والا دنیا کی آگ یا سبزی کو دیکھ سکے.وہ تو آخرت کی آگ اور آخرت کی سبزی کی قسم ت ہوتی ہے وہ آگ نیا کی آگ سے بہت تیز اور سخت ہے اور اس کو اہل دنیا معلوم نہیں کر سکتے ہونا اللہ تعالے ہاں قبر یہ ہی مٹی اور پتھر تو اس کے اوپر اور بچے ہوتے ہیں گرم کر دیتا ہے یہاں تک کہ دنیا کی حرارت سے وہ حرارت بہت سخت ہوتی ہے اور اگر اہل دنیا اس آگ کو چھوٹین
• T 213 YAY کتاب الاسلام ایک لطیف اشارہ ہے کہ انسان کو کسی ضروری کام میں تاخیر کرنی چاہیئے اور ایک نت کا کام دوسرے وقت پر نہ اٹھا رکھنا چاہیے.لا تؤخر عمر البو ملغد آج کا کام کل پر نہ چھوڑو.پنجگانہ اوقات ترتعیین کی وجہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے پنجگانہ اوقات کی خصوصیت کی فلاسفی اورحقیقت سمجھانے کے لیے اوقات خمسہ کے اوصاف موثر کی طرف توجہ دلاتی ہے ارشاد ہوتا ہی نسحانَ اللهِ حِيْنَ بُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ، وَلَهُ الحمد في السموات و الأَرْضِ وَعَشِيَّا وَحِينَ تُظهِرُونَ دینے شام صحیح، پچھلے وقت اور دوپہر کو خدا کی یاد کا وقت ہے اور زمین و آسمان میں اسوقت ندا کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ان اوقات میں آسمان وزمین کے اندر تغیرات عطیہ واقع ہوتے میں جنکی وجہ سے خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کا موقعہ آتا ہے اور ان تغیرات کا اثر انسان کے جسم بروح دونوں پر واقع ہوتا ہے الغرض بچگانہ نمازیں کیا ہیں.انسان کے مختلف حالات کا فوٹو میں یعنی انسان کے حالات میں پانچ غیر رونا ہوتے ہیں اور فطرت انسانی کے لیے ان کا واقع ہونا ضرور ہے تفصیل ذیل میں درج ہے: وجہ تعیین نماز نہ مرتا ہے :- تم کو جسوقت اطلاع ملتی ہے کہ تیر کوئی مصیبت یا بالا آنے والی ہے مشک عدالت سے وارنٹ جاری ہونے والا ہے کوئی الی خسارہ یا جانی فوراً نقصان ہو نیوالا ہے تو تم پریشان حال ہو کر چاہتے ہو کہ کسی نہ کسی طرح یہ بلا سر سے لمجائے تو اچھا ہے.انسان کی یہ مصیبت کی حالت زوال کے مشابہ ہے کیونکہ اس سے خوشی کے زوال پر استدلال کیا جاتا ہے.آفتاب انتہار ترقی پہ پہنچ کر آہستہ آہستہ انحطاط کی طرف مائل ہونے لگتا ہے.دن کی ترقی ختم ہوکر کر رہی شروع ہو جاتی ہے اس لیئے اسوقت ظہر کی نماز مقرر کی گئی جس کا وقت زوال آفتار ہے شروع ہوتا ہے تاکہ جس کے قبضہ میں وہ زوال ہے اُس کی قدرت کو یاد کر کے اسی کی طرف توجہ کیا ہے.آنحضرت نے زوال کی ساعت کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ اسمیں آسمان کے دروازے کھلتے ہیں، اسلئے میں پسند کرتا ہوں } +.
" 214 ۶۸۷ کتاب الاسلام کہ اس وقت میرا عمل آسمان کی طرف صعود کرے.اس کے علاوہ اسوقت کے تغیر کا یہی مقتضا ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے چنانچہ اس تغیر کے آثار جو اس وقت جسم انسانی پر ظاہر ہوتے ہیں طبیبوں نے اپنی کتابوں بیان کئے ہیں مفرح القلوب شرح قانونچہ میں لکھا ہے کہ نوم بعد زوال که مسمی است قیلوله لكونه حاملا بین النهم الصلوة محدثه نسیان است یعنی دوپہر کے بعد سونا جبکہ تیل یہ کہتے ہیں نسیان کا مرض پیدا کرتا ہے اور اس خیار کو جیلولہ اس لیے کہتے ہیں کہ سونے والے اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے.لہذا اس تغیر سے بچنے کے لیے بھی بجائے سونے کے طاعت الہی میں مشغول رہنا مصلحت سے خالی نہیں ہے.وجہ تعیین نماز عصر • تمہاری حالت میں ایک اضطرابی تغیر کو اسوقت ہوتا ہے جب وارنٹ جاری ہونیکی تمکو اطلاع ملتی ہو وہ توگی بازوال آفتایکا وقت ہے.دوسرا تغیر تمہاری حالت میں اُسوقت ہوتا ہے جب مصیبت قریب الوقوع ہوتی ہے اور تم بذریعہ وارنٹ گرفتیا یہ ہو کر حاکم کے سامنے پیش کر دیئے جاتے ہیں اسوقت خوف کی وجہ سے تمہارا خون خشک اور نسلی اطمینان کا ہو نور تمہاری صورت سے رخصت ہونے لگتا ہے اس حالت کو اُسوقت تشبیہ دی جا سکتی ہے جبلہ آفتاب کا نور کم ہوتا ہے، اس پر نظر ہم سکتی ہے اور آفتاب نظر آنے لگتا ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ آفتاب اب قریب غروب ہے.اس سے انسان کو اپنے کمالات کے زوال قریب پر استدلال کرنا چاہئیے.اس روحانی منطر اب کے مقابل نماز عصر مقررہوئی ہے تاکہ اس زوال کے مالک کی طرف دل سے توجہ کیا ہے اور رحمت خداوندی کی طلب صادق ہو سکے.اس کے علاوہ اس وقت کی غفلت کا کوئی تدارک نہیں.اس وقت کی غفلت جسمانیت پر بہت ہی بڑا اثر ڈالتی ہے حکیم محمد رزانی لکھتے ہیں کہ نوم آخر روز کہ مسمی است به فیلوله باعث آفات کثیره است به ہلاکت میں گناہ یعنی عصر کے وقت کی نیند جسکو عربی میں قیلولہ کہتے ہیں بہت بیماریاں پیدا کرتی ہے اور اکثر اس وقت کی نیند سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے.لہندا اس کا یہی مقتضا ہے کہ بجائے خواب غفلت کے انسان عبادت الہی میں اس وقت مشغول ہو.
کتاب الاسلام 215 ۹۸۸ وجہ تعیین نماز مغرب تیسرا تغیر تمہاری حالت میں اس وقت ہوتا ہے جب مصیبت سے رہائی پانے کی اسید بالکل منقطع ہو جاتی ہے.فرد قرار داو جرم تمہارے نام لگ جاتی ثبوت سے گورا تمھاری سزا کے لیے شنا دیئے جاتے اور جرم ثابت ہو جاتا ہے اُس وقت تمہاری حالت بہت بیزاری کی ہوتی ہے ، اوسان خطا ہو جاتے ہیں، تم اپنے کو قیدی سمجھنے لگتے ہو یہ حالت اُسوقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے، دن کی روشنی کی تمام ہوستاک اُمیدیں ختم ہو جاتی اور سزا کی تاریکی چھا بہانے کا یقین ہو جاتا ہے.اس روحانی عمالت کے مقابل نماز مغرب مقرر ہوئی ہے، تاکہ اس طول امل کا معالجہ ہو اور رہائی کی کوئی سبیل ممکن ہو سکے وجد لعین نماز عشا چوتھا غیر تیر اسوقت آتا ہے جبکہ مصیبت تیر دار رہی ہو جاتی ہے اور بلا کی تاریکی تی احاطہ کر ہی لیتی ہے فرد قرار دارد او جرم اور بشوئی شہادتوں کے سزا کا حکم تم کو سنا دیا جاتا ہے اور قید کے لیے ایک پولیس مین کے تم حوالے کر دیئے جاتے ہو ا جیل بھیجے کے لیے تم روانہ کردیئے جاتے ہو.بہرحالت اس وقت سے مشابہ ہو جبکہ رات کی تاریخی یہ آجاتی ہے، ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے، انسان چاروں طرف سے مصیبت میں گھر جاتا ہے، اس روحانی حالت کے مقابلہ پہ ناز عشا مقرر ہوئی ہے تاک ساعت وعبادت کی برکت سے ان بلیات و مصائب سے رہانی ملنے کی اُمید میہ سکے ، رات اور تاریکیوں کو مصائبکے ساتھ اور دن اور روشنیوں کو آرام پنجات کیتا ایک قدرتی مناسبت ہو وجه تعیین نمازا مجبر ان تغیر تغیر اس وقت آتا ہے جب تم ایک مدت کی قید کے بعد نیک چلنی کی رہائی مجرا کرکے قبیل سے خلاص ہوتے ہو اور پھر اطمینان کے ساتھ خوشی و مسرت سے ہمکنار ہوتے ہو اس حالت کو اسوقت سے مشابہ کہا جا سکتا ہے کہ مدت تک انسان مصیبت کی تاریکی میں بسر کر کے رات گزارتا ہے اور بالآخر خدا تعالی کو آسپر رحم آجاتا ہے تاریخی ہو نجات ملتی ہے اور صبح نکل آتی ہے اور پھر وہی روشنی اپنی صلی چیک کی یا ظاہر ہوتی ہے اس حالت روحانی کے مقابل فجر کی نماز مقررہ ولی ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کے
216 قال الله تعالی مَا يُرِيدُ اللهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مَنْ كَرَجَ وَلكن يُرِيدُ اليَطق مركوة الأمية لصلح العقلية حية النقليه يعنى احکام اسلام عقل کی نظر میں کامل تین حصے جس میں تمام شرعی احکام کی عقلی حکمتیں اور مصلحتیں احکام الہیہ کے اسرار و فلاسفی ظاہر کی گئی ہے اور ثابت کیا ہے کہ تمام احکام شریعت میں عقل کے مطابق ہیں.کتاب کی ترتیب فقہی ابواب پر رکھی گئی ہے از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ناشر دار الاشاعت مقابل مولوی مسافرخانه کراچی
احکام اسلام عقل کی نظر میں 217 ۴۸ مقاول (۴) نماز کے لئے وقت کا مقدر کرناضروری ہے کیونکہ وقت کے تعین سے انسانوں کے دیوں کو اس کی طرف توجہ رہتی ہے اور ان کو جمعیت رہتی ہے اور یہ جھگڑا نہیں رہتا کہ شخص اپنی رائے پر پہلے کیونکہ جس امر کی تعین نہ ہو اس میں ہر شخص اپنی رائے کا دخل دینا چاہتا ہے خواہ اس میں اس کا نقصان ہی کیوں نہ ہو.(۵) اگر عبادات کے لئے اوقات معین نہ ہوتے تو کر لوگ تھوڑی سی نماز روزہ کو زیاد خیال کرتے جو بالکل رائیگاں اور غیر مقید ہوتا.تین اوقات میں یہ بھی ایجا ہے کہ اگر کوئی شخص ان اوقات کی پابندی سے آزاد رہنا چاہیے، اور ان کے ترک کرنے کے خیلے حوالے (4) يا کرے تو اس کی گوشمالی ممکن ہو سکے.حکمت الہی کا اقتضا ہوا کہ انسان کوزمانہ کے ہر ایک محمد د عصر کے بعد نمازکی پابندی کا اور اسکے تعین قت کا نام دیا جائے تاکہ نمازسے قبل اس کا انتظار کرنا اوراس کے لئے تیار رہنا اور نماز کے بعد اس کے نور کا اثر اور اس کے رنگ کا باقی رہنا بمنزلہ نماز ہی کے ہو جائے اور غفلت کے اوقات میں خدا تعالیٰ کا ذکر مد نظر رہا کرے اور اس کے اطاعت میں دل متعلق رہے اس میں سلمان کا حال اس گھوڑے کی طرح رہتا ہے جس کی اگاڑی پچھاڑی بندھی ہوتی ہے اور ایک دو دفعہ گرودتا ہے اور پھر بے بس ہو کر رہ جاتا ہے اور نماز کی پابندی سے غفلت اور گناہوں کی سیاہی بھی دلوں کے اندر نہیں بیٹھتی.(۷) تقر ر اوقات خمسه مین پابندی اوقات کی طرف اور امور مہتر میں تاثیر نہ کرنے کی طرف اینا ہے لا تو خر عمان اليوم لغد یعنی آج کا کام کل پر نہ چھوڑو.وجہ تین اوقات خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے پنج گانہ اوقات کی خصوصیت کی فلاسفی پنجگانہ نماز اور حقیقت سمجھنے کے لئے اوقات مسہ کے اوصاف مؤثرہ کی طرف توقیہ ولائی ہے.چنانچہ وہ فرماتے ہیں:.فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون وليه الحمداني السموت الارض وعشيار حسین تظهرون - ترجمہ : خدا تعالیٰ کی یاد کا امت ہے جب تم شام کرے اور جب صبح کرے اور اس کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں آسمانوں میں اور زمین میں اور پچھلے وقت اور دوپہر ہیں.
218 احکام اسلام عقل کی نظر میں ۴۹ حصہ اول عبارت قرآنی سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان اوقات میں زمین اور آسمان کے اندر تغیرات عظیمہ واقع ہوتے ہیں جن میں ما تعالی کے جدید تسبیح وتحمید کا موقع آتا ہے اوران تغیرات کا اثر انسان روح اور ہم دونوں پرواقع ہوتا ہے الغرض پنج گانہ نمازیں کیا ہیں وہ تہائے مختلف حالات کا فوٹو ہیں میں تمہاری زندگی کے لازم حال پا نچ تغیر میں جوتم پروارد ہوتے ہیں اور تمہاری حضرات کیلئے ان کا وارد ہونا ضرو ر ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے.وجہ تین (1) پہلے جب کرتم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بال آنے والی ہے.مثلا جیسے نماز ظہر تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہو یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہارے تسلی اور خوش حالی میں نکل ڈالا.سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے پنی خوش حالی کے زوال کے مقدور ہونے پر استدلال کیا جاسکتا ہے.اس کے مقابل پر ناظر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے کرتا کہ جس کے قبضہ میں وہ زوالی ہے اُس کی قدرت کو یاد کر کے اس کی طرف تو جبر کی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوال کی ساعت کی نسبت فرمایا ہے کہ اس میں آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اس لئے میں پسند کرتا ہوں کہ اس وقت میرا کوئی عمل آسمان کی طرف مصعود کرے.نیز اس وقت کے تغیر کا بھی یہی مقتضا ہے کہ حق تعالی کی طرف توجہ کی جائے چنانچہ اس تغیر کے آثار جو جسم انسان پر ظاہر ہوتے ہیں طبیبوں نے اپنی طبی کتابوں میں بیان فرمائے ہیں.چنانچہ مفرح القلوب شرح قانونچہ میں لکھا ہے کہ نوم بعد زوال کہ مسمی است جلیلی كون حائلا بين النائم والعمالة حدثت نسیان است - ترجمہ : یعنی دو پیر کے بعد نیند میں کو حیلولر کہتے ہیں نسیان کا مرض پیدا کرتی ہے اور حلولہ اس کو اس لئے کہتے ہیں کہ سونے والے اور نماز کے درمیان حائل ہو جاتی ہے سو اس تغیر سے بچنے کے لئے بھی بجائے نوم کے اشتغال بالطاعة مصلحت ہے.ظہر کو ٹھنڈا کر کے آنحضرت صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم فراتے ہیں اذا اشتد الحر فابردو! پڑھنے کی حکمت بالظهر فان شدة الحرمن فلم جهنم - ترجمہ: یعنی جب گرمی کی شد موت ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کا جوش ہے.اس سے مطلب کا
219 او کام اسلام عقل کی نظریں 144 صدوم و تویہ ہے کہ جیسے ازدواج وتز دن میں صریح مبارکباد قبول کرتے ہیں اس طرح اپنا تاب عورتوں کے متعہ کے متعلق اس مبارکباد کو برداشت نہ کر سکیں یہ تو عقلی دلیل تھی اور نقلی اوپر بیان ہو چکیں اور اور بھی لکھی جاتی ہیں.عن علی بن ابی طالب ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن متعة النساء ترجمہ یعنی علی مرتضی سے روایت ہے کہ نبی اکرم اللہ علیہ وسلم نے منع فرما با عورتوں سے متعہ کرنا ترندی وغیرہ نے اس حدیث کی تصیح کی اور حرمت متعہ پر صحابہ کرام کا اتفاق تھا.البتہ حضرت ابن عباس قدیم ملکی روایات اور عادت کے باعث ہند روز مجوز رہے مگر جب ان کو شرعی حکم کی اطلاع پہنچی تو تجویز معہ سے رجوع کیا اورمتعہ کی حرمت تمام نیاورانی اور مالکیہ اور حنابلہ اور اہمیت اور صوفیہ کرام میں متفق علیہ ہے.مستورات اور مردوں کے پردہ کے متعلق اسلام نے مرد عورت کیلئے ایسے ایسے لئے اسلامی پردہ کے وجوہ اصول بتائے ہیں.جن کی پابندی سے ان کی عفت و عات پر حرف نہ آئے اور وہ بدی کے ارتکاب سے محفوظ اور معنون یہ ہیں.چنانچہ اللہتعالی فرماتا ہے.قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم ويحفظوا فروجهم ذلك ان كى لهم ان الله خبير بما يصنعون وقل للمؤمنات يغضضن من الصار من ويحفظن فروجهن ولا يبدين زينتهن الاما ظهر منها وليعنى بن بخمرهن على جيوبهن إلى قوله تعالى ولا يفر بن بارجلهن ليعلم ما نحيفين من زينتهن وتويو إلى الله جميعا ايه المؤمنون لعلكم تفلحون.ولا تقر بوالزنا انه كان ناحشة وساء سبيلاء وليستعفف الذين لا میں دن نکا خا - در مبانيه ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلى قوله تعالى قمار عربها يجد حقى خاية ی اینها از جم یعنی ایماندار مردوں کو کہدے کہ آنکھوں کو نا محرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں لینی ایسی عورتوں کو کھلے طور نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقع پر نگاہ کو پست رکھیں اور اپنی ستر کی جگہ کو جس طرح مکن تو بچا دیں را لیا ہی کانوں کو نا محرموں سے بچاویں لینی بیگانے کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آواز میں نہ سنیں انکے حسن کے قصے نہ سنین علیا دوسری نصوں میں ہے ، یہ طریق يعني
احکام اسلام عقل کی نظر میں 220 146 حصہ دارم مرووم نظر اور دل کے پاک رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہاہے کہ دہ بھی اپنی انکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں انیران کی پر شہوات آدا زمیں نہ نہیں عبیا دوسری نصوص میں ہے ، اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنے پینے کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کولی اور اپنی اور معنی کو اسطرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے لینی گھریاں ار دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں نہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر درنا پچنے والیوں کی طرح نہ ماریں دیہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے، اور دوسرا طریق بچنے کے لئے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر دو اور اس سے دعا کر دو تا کہ ٹھوکر سے بچاو سے اور لغزشوں سے نجات دے ازنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور ہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہے اوران راہوں کو اختیار نہ کر جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ جوزہ نا کہ نا نہایت درجہ کی بے حیائی ہے زنا کی راہ بہت بری ہے لینی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری اخروی منزل کیلئے سخت خطرناک ہے اور جس کو نکاح میسر نہ آدے چا ہیے کہ وہ اپنے میں دوسرے طریقوں سے بچارے مثلاً روزہ رکھے یا کم کھائے یا اپنی طاقتوں سے تن آزاد کام سے اور ان لوگوں نے یہ طریق بھی نکالے تھے کہ وہ ہمیشہ عمدہ نکاح وغیرہ سے دست بردار رہے یا خو ہے (محنت بن گئے یا اور کسی طریق سے انہوں نے رہبانیت اختیار کی مگر ہم نے ان پر یہ حکم فرض نہیں کیا اور پھروہ ان بدعتوں کو بھی پورے طور پر تباہ نہ سکے خدا تعالٰی کے قول کے عموم میں یہ مضمون کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خو ہے نہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اگر خدا کا حکم اور سب لوگ اس پر عمل کرتے ہوتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کہ کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو چکتا اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنا ہو کہ عضو مردمی کو کاٹ دیا ہارے یہ در پردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے وہ عضو بنا یا اور نیز ثواب کا تمام دار تو اس بات پرت کہ قوت موجود ہو اور پھر انسان خدا تعالی کا خوف کر کے ممانعت کی جگہ اس قوت کے جذبات کا مقابلہ کر کے اور اجازت کی جگہ اس کے منافع سے :
ایڈیٹو جی امیر مفتی ہفت روزه 221 قائد منظفر آباد آزاد کشمیر ٣٣ شماره ۳۳ جمعرات ۲۲ اگست ہونا که * 3 + عذاب اہلی یہ سیلاب کیا ہے ؟ عذاب اپنی سبب اس کا ترکی کی آپ اپنی پھوٹی اور فتح و انجماد سے بات نہیں ہوتے اور ظالم اور جابر حکرانوں کے خانہ جہان نہیں کر تے جارہے لئے طبقات نوح مقلد ہے.فعالی جرم خدا کی لعنت سے محدود ہو تم میں سے نازل ہوتی ہے اور جیسی پر پڑتی ہے اسکی بعد لوں جہانوں میں بھلے کتر کر جاتی ہے.تم ریا کار کا کے ساتھ اپنے میں بچا نہیں سکتے.کیوں کہ وہ اعمال کہ ہوں تو پھر لا محالہ خدا ہو تمہارا خدا ہے ان کی انسان کے پاتال ہے تضل اپنی : عتاب اپنی ایک تار ہے.کیا تم اس کو دھو کر دے سکتے ہیں.یس کر سیدھے ہار جاده الازمات بھی لیا ہے.الرجاء آزاد کشمیر کے متبار قانون جان بنا ندارید کا معاملہ ہو یا سرکاری نور ہونے سے رقوم میں کرتے.اس مالک ہو جانا رکھ رہے ہے مارد اگر تمہار ہے بنانی ہو یا مرنے سے فلام منگون شده ایڈور کوٹ کے ان اشعار نے کا مسئلہ ہو ٹلی سپیدروں جنگلات کے ٹھیکیداروں کسی پہلو میں جنسی یا دریا ہے یا خود پسندی ہے ٹرانسپوٹروں باری ته ای یاست فریده چندان کردی که نام بند نکته را نه در شوت کا معاظ ہوں ہم نے ہر محال باسل نہ ہے.تو تم پلیس چیز نہیں ہیں کہ جو صول کے کو بتا کر نے واہ کیا خود ہم سے اندیہ مرد کو رہا کرتی اور جو کہ کو شمار زندگی بنایا ہم نے لائی ہو تم چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھر کہ کانی مجاہدوں کو یہ کہہ کر روٹ دلوائے تو بقول دو کہ تھی کہ ہم نے کرنا تھا کے یا ہے گرند او بیندا کو توجه سے ار اینڈو سے جین که خلفه آیا است شاها به سبب قام کیا جائے.رمیوں کو دہندہ کا تشہیر کے بعد اس کاک سلام صلی اللہ کے فرمان کو داڑھی کے حمد ھو کہ نہیں دے سکتے ہو.کیا دبخت او انسان سال پاکستہ ان میں یا طرح میلیان ، آیا اس سے نشان کو ووٹ دو ہے جو کھا ی ایک ہے پتہ نہیں کہ اس کا ایک جدا طوقان نوع کے زمانے کی یاد تازہ ہوتی ہے.اور اور پھر بعضی لوگوں نے روٹ حاصل کی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے.اسے فورد مواس کا قصہ کوئی تعجیب با اگر ہم نے تو یہ نہ کی نبوت خدا کے ڈا کے بارے ظلم و تشدد کیا دانشور میں" کی طرف دور ڈرو کہ وہ تمہیں میر اپ کو یکا یا نان کی سے نہیں ڈرے اپنے دلوں کو نہ ٹولہ اور گمراہی کے ایک طبقے نے اپنے ذاتی اور نفسانی اغراض کا چشمہ ہے جو بچائے گا.میں کسی دن سے کے راستے پر ہی چلتے رہے تو طوریان فوج کا نظارہ کے پیش نظر ان لٹیروں کی وکالت کو اپنا پیشہ بنایا منادی کروں کہ وہ خدا حمہ تمہارے دلوں کے پوری صفائی کے ساتھ ظاہر ہو جائے، آنا نکشید اور عام طبقہ ان کے بعد رنگ روپ دیکھ کر اور تاریک گوشوں پر نظر رکھتا ہے تم سے مجھے کی کو تو اور سلامتی کا دار و مدار ہی پاکستان کیا سمجھ کر خاموش رہا.یہ سمجھا کہ ۱۹۷۲ء میں بھی نفسانی تبدیل کا خواہاں ہے تم جا کی جارہ سستی ہوتی اور استحکام پر ہے.پاکستان کی مشال آزاد بارے عوام میں قومی اور سیاسی شعور نہیں ہے.یہ نیاری لیڈروں کی پیروی مت کہ واجہ ابن کو کشمیر کے لئے ایک ماں کی ہے پید اگر خدا نخی است غلط ہے.البتہ ظلم نستی و جو براور ریا کاری کے عزت کی نگاہ سے مت دیکھو یہ سید نادانیاں ماں کی چھاتیوں رات وہ رو شک ہو جائے یا کسی خلاف متحد ہو کہ زبان نہ کھونا بھی الگتا ہے بنایا.ہلاک ہو گئے وہ لوگ جو اس دنیا دی سے وہ مصیبت میں بتایا ہو، تو یہ بچہ بچہ ایک ایک جس کی مرتکب ساری قوم ہے.کیا لال کپور فلسفہ کے عاشق ہیں اور کامیابیہ ہیں وہ کہ تباہ ہو جائے گا.ہم نے نیاور اصول کے نام نے ایک افسانہ کے رنگ میں گاندھی کی ایک سے آئی جنہوں نے صراط مستقیم کو خدا کی کتاب پر ایک شمالی اسلامی ریاست بنانے کا سلام کیا سوال کیا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ آزادی کے بعد میں ڈھونڈا ہر کردار اور پریا کاری مادر تھا.لیکن ہمارے کارکنوں لیڈروں، پیڈیروں سکھ اور ترقی کا دور دورہ ہو گا.مگر ظلم اور بچا ہے بننے کے بغیر جہاد کے تنا کھانے والے صحافیوں ، تاہوں، ٹھیکیداروں انگریزوں اور انا اس کی گھٹائیں ٹک کو گھیرنے ہوئے ہیں اندھے ہیں.کیا تم اندھوں کے پیچھے دوڑاتے ہو قوم ہر ام کے ہر طبقے نے جس طرح اس عزم کو کھو کھلنے یہ گمان ماضی کی آتا نے جواب دیا کہ وہ اب اس نے نادانو دہ جو خود اندھا ہے نہیں کیا براہ اور بے بنیاد نعروں کے ہر دکر دیا، اس پر آنا کچھ دنیا میں نہیں، مگر ایک بات وضاحت سے کہہ دکھائی گا ؟ وہ جو خود مردار کھا رہے ہیں وہ لکھا جا چکا ہے کہ مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت.دی کہ اخلاقی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ تمہارے لئے کہاں سے پاک نہ الائیں گے.ہر نہیں رہی.اسلام کے نام پر دھونس و ماندلیوں.اب خدا بھی اس قوم کو بچا نہیں سکے نے ایک پاک حکمت آسمان سے آتی ہے اور اس بر عن نیوں اور یہ ہے انصافیوں کو جنم دیا گیا اٹھا ہے اب بھی وقت ہے کہ ہم اس بات کا بھی حکمت کے وارث وہ ہی ہیں جن کے دل بھی کہ اچھی زرس جو یا اوقات کا کنٹرول ، سیرت کا میلہ طرح کجھ لیں زپاکستان اور آزاد کشیدہ کے اوپر پاکیزہ ہیں جن میں صدق وصفا ہے کیا تم ہے.ر یا تبلیغ کا کارنامہ مزدور کی خدمت ہو یا مصائب اور آفات عناب انہی کی شکل میں نادل ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو میں میں تعلیم می ترقی مختلف بنکوں میں سے کار کا ر قا م ر کھنے سپرد ، جلسہ ---
+ 222 بقیه ، عذاب التي تمہیں شیطان شیر کر تاریخ میں ہمیں ہمیشہ پتھر ماریں گی.چند صحافیوں کو شہید کے اپنی تعریف میں.مرضی ہے لکھے اور نگہ مورخ حقائق سے پردہ اٹھا کر تمہاری صحیح تصویر پیش کر دیں گے ہم عوام کی دولت کو لوٹ کو حاتم طاقی نہیں کہلا گئے، تم محاذ فروخت کر سکے اور آدھے راستے سے بھاگ کر اول حجامہ نہیں کہلا تو گے تم سیلیڈ کپڑے پر بال سیاہی کے داغ لگا کہ شہید کے خون کے قطروں سے خون آلود پرچم ہو.؟ کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جیں ہاتھ میں لئے نائج نہیں کہلاؤ گے.تم زیاد توں جگہ کوه آتش نشان سے پھر راستے ہیں.کی دولت کو لوٹ کے اور اپنے دوستوں میں تقسیم یا بھی ہوتی ہے.یا ایک ایسی جگہ ہے جہالے کر کے مردوالے کا گوشت کھا کہ اوقاف کے محافظ کو ک مہلک طاعون قبل انسان کو اسلام کے نہیں بنو گے، کیونکہ اوقاف کا مطلب وقت ہے کر رہی ہے پھرا کے نہیں خدا پر ایسا سکا یقین اور وقت کا یہ حال ہے کیوں اور پیروں کے لئے ہے.تم تو مذاب الہی کو دیکھ رہے ہو ہے جیسا کہ سانپ یا بجلی یا طاعون ہو تو مکن نہیں کہ تم ایسے حاکموں یا لیڈروں کی تیرا م نے دیا نگاری اور ظلم و تشاد و کی سرحدوں کو تابع داری کرد.جن کے کردار کی وجہ سے جبور کر لیا ہے.آپ بھی اقتدایت سے درس شیرزاد وہ ان حقانیت کے مالک میں تم ان کے مقابل ہو جاؤ اور بارگاہ اپنی میں گڑ گڑا کر معافی پاداش پنیا کے باند مفید استفالی مدیریت ہارے جور و جوان بلاوں کو تمہارے مقابلے کرے.اے میری قوم کے عزیز ہم خطائے یست و نابود کر دے اے عزیز و کم آستانے پر گیا.ابجد فتق دیکھو اور ظلم و تشد ڑے دونوں کے لئے دنیا میں آنے مواد کے ان بتوں کو پاش پاش کرنے کے لئے وہ بھی بہت کچھ گزر چکے.ایک انسان کو کیتی.وایا ہے اور زبان سے اقرار کرو کہ لا الہلہ جو تم سے زبر دست ہو.اگر تم سے نابر خوا ہو الا الله محمد رسول اللہ یہی پیغام تھا جو تو نہیں تباہ کر سکتی ہے.پس تم سریع لو خدا کے رسول نے رہا اور میں کو تم بھول گئے.اہ فا تعالی کی نام انگلی سے کیونکہ بچے سکتے ہو.اور اس پیغام کو پھولنے کی سزا خود توان پاکسے گر تم خدا کی آنکھوں کے آگے تھی ٹھہر جاؤ تو نے بتادی ہے کہ ما كنا بعد چنین بیتے بعث میں کوئی بھی تنہا نہیں کر سکتا اور وہ خود رسولا.تمہاری حفاظت کرے گا، ورنہ تمہاری جاری کا کوئی حافظ نہیں.اور تم دشمنوں سے ڈر کوزہ ہم میں کیسی رسول مبعوث ہوئے کہ جس نے لا الہ کا پیغام دیا.ہم نے اس کو اور آفات میں مبتلا ہو کر بے قراری سے نا اور پھر ان تمہارے کو کیا اور انکو مخاف اپنی ؟ خطاب جائے کسی کو اول تھا ہر کسی کو مجاہے.زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری وبن پڑے غم و غصہ کے ساتھ گزریں گے نہیں ا نظم کسی کو فخر قوم بنا کر ان کے کیسے ہو گئے ہوش میں آؤ اور کتاب اپنی کے تانے اس لئے خدا نے میں مہلت دی اور انب ہوئے اصولوں کی مخالفت چھوڑ دو.اس ا کا عذاب نازل ہونا شروع ہوا.کیل ہیں اس کے بندوں پر زبان یا ہاتھ سے ظلم مت کرو.کے یہ ستی نیست ونابود ہو جائے ، النا اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو.کہ توں کو پاش پاش کر کے خدا کے پیغام یه ای نجات کی راہ ہے.دنیا میں کتنے بادشاہ مل کرو.آئے کتنے ہو نیل آئے.ایک رہتے تک دیا ہے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں تہراہی سے سے حکومت کرتے رہے.اگر بالا اور اپنے ظالم و میانہ ذکر زیادہ زید ایک ایسے وعظ جے کے حال میں پھنس کر تباہ ہو گئے اپنی یار دیا ہے جو نہ صرف قوم کے لئے ہے بلکہ زندگی میں بندوں سے سجدے بھی کرائے مگر ہارے اپنے لئے بھی ہے مگر یہ خوف ہم ہے تاریخ اور آنے والی نسلوں نے ان پر لعنت کرتا ان کے بافت زوجہ علاقے کے صافت کی اور جس طرح جمع کے موقعہ پر ایک جگہ سب فالنخور جائزہ لینے کے بعد حاوی ہوا.ہم لوگ پتھر مارتے ہیں کہ اس جگہ شیطان نے اپنے آپ کو بھیجا گناہ گار والے کی فہرست میں گمراہ کرنے کی سب یا سوئی تھی.اسی طرح نامل سمجھتے ہیں لیکن خود اپنے اور اپنی قوم نے ظالم اور ریا کار جا کہ آنے والی میں اپنی مولی کا منظر نا میں ہو کہ ہم نے یہ اداریہ کار کار نما ساختگی
223 OR هماری میم مقدس بانی سلسلہ الحین کی تعلیم کا خاصہ خود آپ کے اپنے الفاظ میں ماخوذ از کتاب پشتی نوح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی پانی که با ساله اخیریت پر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرد.کیونکہ وہ ایک ہے.چاہئے کہ ہر ایک منبع کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.سورہ بھی خوش حالی کو نہیں پائے گا.ادے کہ تم نے تقوی سے رات بسر کی.اور ہر ایک شام یہاں تک کہ مرے گا.اسے عزیز و اتم تھوڑے دنوں کے لئے دُنیا میں تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے ان پر کیا.دنیا کی لعنتوں سے با درو دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ڈرو سے ڈرو جو آسمان آئے ہو.اور وہ بھی بہت کچھ گنے چلے.سو اپنے مولا کو ناراض مت کرو انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو.اگر تم سے ناراض ہو تو وہ ہیں تم ہو ہے.میں تم سوچ سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی نارمشکل سے کونکہ تم بھی سکتے ہو نہیں کرتا کی آنکھوں کے آگے ستم کے آگے متقی ٹھر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ.اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں ر تمہاری حفاظت کرے گا اور جو دشمن تمہاری جان کے درپے ہے ر میں پڑتی ہے ہے اُس کی دونوں میں بیچے کتنی کر جاتی پر قابو نہیں پائے گا.ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظہ نہیں، اور تم دوستو ری کے ساتھ اپنے تن بچا نہیں سکتے.کیونکہ وہ : سکتے کیونکہ وُہ خُدا ہو تمہارا خُدا سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہو کر بیقراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری ہے اُسے انسان کے پاتال تک نظر ہے.کیا تم اس کو دھوکا دے عمر کے آخری دن بڑے غم و غصہ کے ساتھ گذریں گے.خدا اُن لوگوں کی ہیں تم سے ہے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ.اگر بے پناہ ہو جا تا ہے.جو اُس کے ساتھ ہو جاتے ہیں.سو خُدا کی طرف آجاؤ او تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی گی.اور ہر ایک مخالفت اُس کی چھوڑ دو.اور اُس کے فرائض میں مستی نہ سے کسی سیٹو میں تکبر یا یا ہے.یا خود پسندی ہے رہی ہے.پاکسل ہے.تو تم اُس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو اور آسمانی ہے کہ جو قبول کے لائی ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو اسے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے.نہیں دھوکا دو کہ ہو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خُدا چاہتا ہے کہ تم پورا پورا انقلاب آئے.اور وہ تم سے ایک موت بانگتا ہے جس کے بعد ہ تمہیں زندہ کرے گا.سو تم آپس میں جلد مسلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ میں اور اسے علمائے اسلام: نو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ ہو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں.وہ اسے کمائے اسلام ! میری تکذیب میں جلدی مت کرو کہ بہت اسرار انا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک ہیلو.وب - ریدہ سے یسے ہوتے ہیں کہ انسان جلدی سے سمجھ نہیں سکتا.بابت کوئن کہ اُسی وقت ضرت نے مر را به احف کی عادت خدا کہ اتنا ادار کہ مورخہ صوم شریح شدہ کتاب ہماری آمادہ کے تین صفحوں کا عکس ان من صفحوں اور وہ میرے تے به کو خورا کر له ۱ تصورات
224 Founded by: His Eminence Moulana Shah Muhammad Abdul Aleem Siddiqui Editor: MOHAMMED MAKKI Associate Editor: ADAM Y.KOLIA July/August, 1980 Vol.30 No.12 & Vol.31 No.1 Registered at the GPO, as a Newspaper
225 WHO IS NOT A MUSLIM ACCORDING TO THE HOLY QUR'AN? By THE EDITOR of The Muslim Digest, Durban, South Africa AN OUTWARD ACT is nothing if unattended with a transformation of the heart.Almighty God sees one's heart and shall deal with him according to his state.Sin is a poison and therefore a Muslim should shun it.Disobedience to God is an abominable death and a Muslim should eschew it.He who when he prays is faint-hearted and does not consider God powerful over everything, except where He Himself has promised to the con- trary, is not a true Muslim.He who forsakes not lying and deceit is not a true Muslim.He who is involved in the greedy love of this world and does not even raise his eye to look to the next is not a true Muslim.He who does not in prac- tice give a preference to matters of religion over his worldly affairs is not a true Muslim.He who does not repent of every evil and wickedness.such as drinking wine, gambling.looking with lust.dishonesty.bribery and every other iniquity, is not a true Muslim.He who is not regular about his five daily prayers, is not a true Muslim.He who is not constantly supplicating before God and pray- July/Aug..1980 " ing to Him, with humbleness of heart is not a true Muslim.He who forsakes not the company of the wicked who cast their evil.influence over him, is not a true Muslim.*** HE WHO DOES NOT revere his parents, or does not obey them in that which is fair and not against the Holy Qur'an or does not care to serve them to his utmost, is not a true Muslim.He who is not kind and gentle towards his wife and her relatives is not a true Muslim.He who refuses his neighbour the least good in his power is not a true Muslim.He who forgives not the trespasses of others and harbours revenge is not a true Muslim.-- The husband who is false to his wife and the wife who is false to her husband are not Muslims.Every fornicator, transgressor, drunkard, murderer.thief, gambler.usurper, wrong-doer, Jair, forger, every dis- honest person.everyone given to bribery, every accuser of his brother or sister is not a true Muslim.Every one who does not repent of his wicked deeds, and hates not the congregation of evil- doers, is not a true Muslim.THE MUST IM DIGEST 11 +
226 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ زیارت میں اسلامی سیم بحالت بیداری مصنف تف محمد عبث المجيد صديقى ایڈوکیٹ ھائی کورٹ لاہور ناشر..مرتب پبلی کیشنز امرت دھا را بلڈنگ - لاهود
227 ۱۲۷ الحمل میں درجہ سامانوں نے ان کی مشرکانہ رسومات کو اپنا لیا ہے حالانکہ یہ اس ترکی فروعات کی قطعا کوئی گنجائش نہیں.مولانا عبید اللہ وسلم تھے.والد کا نام کوئی کمل تھا.وطن پایل نز د درمیانہ (مشرقی پنجاب بھارت، منتها مستنده میں دسال فرمایا.اس کتاب کے مطالعے سے بے شمار ہندو اور سکھر مسلمان ".ہوئے.جن میں مشہور لیڈر مولانا عبیداللہ سندھی دیو بندگی بھی شامل ہیں.(۹۵) خاتم الاولیا شیخ الکل محی الدین ابن عربی ۱۷ رمضان المبارک منتشهدهد بروز پیراندلس (اسپین) کے مشہور شہر مرسیہ میں پیدا ہوتے.آپ حاتم طاقی کی نسل سے ہیں جو عرب ہی میں نہیں پوری دنیا میں اپنی سخاوت کے لئے مشہور ہے.دمہ میں اندلس سے ترک وطن کیا.شب جمعہ 97 بعمره ، سال ۲۸ ربیع الاخر رم ۱۳۳ ء کو دمشق میں وصال فرمایا.اپنی مشہور تصنیف فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار ایام جوانی میں الیسا اتفاق ہوا کہ ایک معمر بزرگ فرشته صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیتے اور یہ بات کر کے کہ کتنے روز سے انوار سمادی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت کو بجالاؤں.میں نے اس ہدایت کے مطابق چھ ماہ تک برابر مخفی طور پر روزوں کا اہتمام کیا.اس اثنا میں عجیب عجیب مکاشفات مجھ پر کھلے.بعض گزشتہ نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں.ایک مرتبہ عالم بیداری میں حضرت بانی اسلام علیہ الوف الصلوة والسلام کو مع حضرت علی دحضرت حسین و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دیکھا.غرض بزرگوں سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے.1 "
.228 يا الله جل جلاله جملہ حقوق بحق دلف محفوظ ہیں بسم الله الرحمن الرحيم سول الله صلى الله علی قوام الا ان اولیاء الله لا خوف عليهم الاهم يحزنون حق فريد يا فريد اللہ محمد چار یار) حاجی خواجہ قطب فرید از قلم حقیقت الرقم صاحبزاہ حضرت علامہ محمد اقبالك صديقي كهرك : الناشران صابری صوفی فخرالدین صاحب فریادی ، فلک شیر صاحب
229 ۱۵۹ الله لكُلّ شَى أَقَدَراً اس وظیفہ کی برکت سے علاوہ کشائش مال کے درازی عمرا در نیک قیمتی و اقبال مندی حاصل ہو نیز جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا.به دس اوراد و وظائف راحت القلوب کی روایات سے ماخوذ ہیں جو نمونہ از تبرکات خرید یہ ہیں ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ حضرت بابا جی نے اس میدان میں بہت کم را ہنمائی فرمائی ہے.جا ہرگز نہیں بلکہ آپ نے انسانی زندگی کے ہر موڑا اور سہرا ہم کام میں سہولت و کامیابی کیئے دو دو وظیفہ کی تعلیم دی اور خوبی یہ ہے کہ زیادہ قرآن کریم میں ہی اپنے تیں محدود کھانا دنیا کو معلوم ہو کہ انسانوں کی کوئی ایسی ضرورت نہیں جو قرآن سے پوری نہ ہوتی ہو.آپ نے عملا بتایا اور سمجھایا کہ قرآن انسانوں کو دلیوں کی طرح کر دیتا ہے اگر کوئی صوری یا معنوی اعراض نها در در حقیقت حضرت باباجی کی تمام تر عزت وحیات عزت و عظمت قرآن ہی کا صلہ ہے لاریب آسمان پر دہی لوگ عزت پائیں گے جو قرآن کو عزت دینے کیونکہ ہر ای خیرو خوبی اور حسن و بھلائی کی کبھی قرآن کیم نے عطا کی ہے، حضرت باباجی کی زندگی اسی لازوال حقیقت کو آشکار کرنے کا دوسرا نام ہے.فضائل ادعیه و حضرت باباجی رحمہ اللہ ہی ان کی تمام منزلیں طے کرنے والے کامران عشاق الہی میں نمایاں حیثیت کے مالک ہیں، آپ سے پڑھ کر دعا کے فضائل اسکی پھدی ماہیت و گہرائی کے ساتھ کون جانے اور بیان کرے گا حضرت بابا جی ایک حد یہ ہے نبودی بیان.1
i 230 197 فرمایا کرتے کہ ليس شي اكبر عبد الله من الدعاء کہ خدا کے حضور دعا سے بڑی مِنَ کوئی چیز نہیں اسی طرح ان الله يُحب المسلمين في الله عام که خداوند تعالی مسلمانوں کو دعا کرنے کے وقت محبوب رکھتا ہے، اسی طرح حضرت باباجی پوری معرفت کے ساتھ جانتے تھے کہ دعا کیا ہے، دعا زندہ اور قادر مطلق خدا کے ساتھ سچے عاشق و سالک کا زندہ تعلق درابطہ ہے، دعا ہی کے ذریعہ سالک کو مقام محبوبی ملتا ہے اور ایسی شان مظہر نیت کہ جس میں پوری صفات الہیہ کا ظہور ہونے لگتا ہے ، عاشق کے لب ہلتے ہیں تو کائنات میں تغیرات ہونے لگتے ہیں.دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب کے درمیان تعلق مجاذبہ ہے یعنی پہلے خدا تعالے کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدقی کے کششوں سے خدا تعالیٰ اس کے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص طبعیہ پیدا کرتا ہے، سوجس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالی کی طرف کامل یقین اور کامل امید در کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پر دور کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے ، پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، تب اسکی روح اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے ، وہ خدا تعالے کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے، تب اللہ جل شانہ ، اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اثرات پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل کرنے کیلئے ضروری ہیں مثلا اگر بارش کیلئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کیلئے مزدوری ہوتے ہیں، اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور قحط کے لئے بد دعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ
231 ۱۶۱ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے اسی لئے یہ بات ارباب کشف و کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی باذنه تعالی دو دعا عالم سفلی اور علم علوی ہیں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام نلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف موید مطالب ہے ، خدا تعالے کی پاک کتابوں میں اس کی نظریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی در اصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے یا جو کہ اولیا.ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے ان کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشہ دکھلا رہے ہیں" عا حضرت بابا جی رحمتہ اللہ نے قبولیت دعا کی شرائط بھی تفصیل سے گنوائی ہیں، راحت القلوب کے مطابق پہلی شرط تو یہ ہے کہ ہر ا دادن جل جلالہ ہم نوالہ کے نام پاک سے شروع کی جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وکم فرماتے ہیں.أسر ذى باللَمْتُ وفيه فهو ابتر کہ جو ہم کام اللہ کے نام کے ساتھ شروع نہیں کیاگیا وہ بے برکت ہے یعنی بخرد خوبی انجام نہیں پاتا " حضرت بابا جی نے جس انداز میں بی بی عبادات کے ساتھ دعائیں کی ہیں اس سے روشنی ملتی ہے کہ محض رسمی طو پر دعاکر لیتا کو ئی چیز نہیں جب تک قلب و روح پگھل کہ دعا کو ایک خاص چک نہ دے رہے ہوں اس لئے یہ مت خیال کر کہ ہم روز دعا اس کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں کیونکہ دو دعا جو معرفت کے بعد اور افضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے وہ فنا کرنے والی چیز ہے ، وہ گداز کرنے والی آگ ہے، وہ رحمت کو کھینے والا اک نام کش کشدید
232 وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے وہ ایک تندرسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے، ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر اس سے آخر تر بان ہو جاتا ہے، ذرا غور تو کریں حضرت بابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے مشقت آمیز لیے سفروں اور طویل عبادتوں کا، ناز معکوس کی مورت شدید ترین تکالیف اٹھا کر یا ایک موت جو خود یه دارد کر کے حضرت بابا جی دعائیں کرتے پھر کیونکہ آپ کی دعائیں کرامتوں اور خوارق کے رنگ میں ظاہر نہ ہو تیں.حضرت بابا جی رحمتہ اللہ علیہ نے جو عملی زندگی دنیا میں اپنائی اور جس خدا کا مخلوق یہ خدا سے تعارف کرایا اسکی رحمتوں اور برکتوں کا کوئی انتہاء نہیں آپ نے اپنے عقیدتمندوں کو خوب بتایا اور سمجھایا کہ خداتعالی بڑا کریم ہے، اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا اسلئے چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو کیونکہ دعا مانگنا اللہ تعالی کی قدرت کے عین مطابق ہے مثلاً عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے ، اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہوکر اس کو دودھ دیتی ہے الد بنیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا ، جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے، تو الوہیت کا گرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتاہے، اللہ تعالی کے فضل کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے اسلئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے یہی کہ میمنت وحالت ہے حبیب قلب در درج پر پوری طرح حادی اور متولی ہو جائے.تب ایک عاشق و سالک حضرت بابا جی کے تبرکات فرید یہ دربارہ دعا اور اس کی تاثیرات کا عرفان حاصل کر سکتا ہے.